اصولِ ایمان
محقق کا مقدمہ
سب تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے اور درود و سلام ہو نہایت برگزیدہ رسول محمد ﷺ، آپ کے آل اور آپ کے تمام صحابہ پر۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
’اصولِ ایمان‘ مجددِ اسلام امام محمد بن عبدالوہاب کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اپنی اس تصنیف میں اہل سنت وجماعت کے عقیدے کے مطابق اصولِ ایمان کے بارے میں وارد رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ کو ذکر کیا ہے۔
یہ اہلِ سنت وجماعت کے منہج کے مطابق اُس شرک سے خبردار کرنے کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جس میں نہایت افسوس کہ امتِ اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ مبتلا ہے۔ اس میں کئی مباحث ہیں، جن میں اس عظیم منہج کو بیان کیا گیا ہے، جس سے بہت سارے لوگ یہاں تک کہ داعیان بھی غافل بلکہ بے خبر ہیں، جنہیں نیتا گیری، سبّ وشتم اور بہتان تراشی کے علاوہ اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے خود کو ایک اہم ترین کام یعنی اللہ اور اس کی توحید کی معرفت سے دور کر رکھا ہے، جس کی طرف دعوت دینے میں رسول گرامی ﷺ نے مکہ کے اندر تیرہ سال لگا دیے۔ اس پوری مدت میں آپ نے توحید کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف دعوت نہیں دی۔ حالت یہ تھی کہ اس راہ میں آپ کے صحابہ قتل کیے گئے اور ان کو مارا پیٹا گیا، لیکن آپ کے پاس انہیں صبر دلانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ ﷺ ان سے کہتے: }آل یاسر! صبر کرو، تمہاری جگہ جنت ہے{۔([1]) آپ ﷺ نے انہیں نہ بدلہ لینے کا حکم دیا، نہ جنگ و جدال کا۔
اس لیے موجودہ دور کے داعیان پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو توحیدِ باری تعالیٰ، اللہ کی ربوبیت، الوہیت اور توحیدِ اسما وصفات کی تعلیم دیں، جس پر سلف صالحین کاربند تھے۔ کیوں کہ اس امت کے بعد کے لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ممکن ہے، جن کے ذریعہ شروع کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔
میں نے اس کتاب کی تحقیق میں درج ذیل کام کیے ہیں:
۱- میں نے تحقیق میں شیخ اسماعیل انصاری اور شیخ عبداللہ بن عبداللطیف آل الشیخ کے اس مطبوعہ نسخے پر اعتماد کیا ہے، جس کا انہوں نے اس کے مخطوطہ نسخوں سے مقابلہ کیا ہے۔ اُن دونوں شیوخ نے تین مخطوطہ نسخوں پر اعتماد کیا ہے۔ اللہ تعالی دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۲- میں نے کتاب میں وارد جملہ روایات کی مکمل تخریج کی ہے۔ پھر امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی روایت کردہ احادیث کو صرف ان دونوں کے ذکر پر ہی اکتفا کیا ہے، جب کہ صحیحین کے علاوہ دیگر مرویات کی تخریج میں توسع پسندی سے کام لیا ہے۔
۳- اگر کوئی حدیث صحیحین کے علاوہ کسی دوسری کتاب کی ہے، تو صحت، ضعف اور حسن کے اعتبار سے اس کا درجہ بھی بتایا ہے۔ البتہ جو حدیث صحیحین یا اُن میں سے کسی ایک کتاب میں ہے، اس کا حکم بیان نہیں کیا ہے۔ اس لیے کہ کسی حدیث کا ان میں سے کسی ایک یا دونوں کتابوں میں ہونا بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صحیح ہے۔
۴- مصنف رحمہ اللہ نے جو حدیثیں ذکر کی ہیں، میں نے اُن کی سُرخی(عنوان( لگادی ہے، کیونکہ انہوں نے سب کا عنوان نہیں دیا تھا، بلکہ محض چند ابواب قائم کیے تھے۔ البتہ میں نے جو سُرخی لگائی ہے اُسے قوسین میں رکھا ہے۔
۵- ائمہ سابقین اور مشاہیر علما کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے بقدرِ ضرورت احادیث کی مختصر تشریح بھی کردی ہے۔
۶- میں نے احادیث کے سامنے مسلسل نمبر بھی دے دیے ہیں۔
۷- آیتوں کے ساتھ سورتوں کے نام اور آیت نمبر بھی لکھ دیے ہیں۔
۸- امام محمد بن عبدالوہاب کے مختصر حالات، ان کی اصلاحی دعوت کا تعارف نیز اس دعوت کے خلاف عوام میں گمراہ کُن پروپیگنڈہ کے اسباب کا بھی مختصر ذکر پیش کیا ہے۔
اور آخر میں عرض ہے کہ:
یہ میری ادنیٰ سی کاوش ہے۔ بلند وقادر اللہ سے امید ہے کہ اُسے اپنی رضامندی کا خالص ذریعہ بنائے۔
ساتھ ہی اس کتاب کو پڑھنے والے اپنے پیارے بھائیوں سے امید کرتا ہوں کہ اس کی طباعت، تحقیق اور اسے اس دیدہ زیب شکل میں زیورِ طبع سے آراستہ کرکے منظرِ عام پر لانے والوں کے حق میں دعا کریں گے۔
ہماری آخری بات یہ ہے کہ ساری تعریف اللہ کی ہے، جو سارے عالم کا رب ہے۔
درود وسلام نازل ہو ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کی آل اور آپ کے تمام اصحاب پر۔
تحریر کردہ:
ڈاکٹر باسم بن فیصل جوابرہ
عمان ۔ عین الباشا
اردن
مؤلف کا مختصر تعارف
نام ونسب، جائے پیدائش، نشو ونما اور حصول علم
آپ کا نام محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد تمیمی ہے۔
1115 ہجری مطابق 1703 عیسوی کو، ریاض )سعودی عرب( کے شمال میں واقع قصبہ عیَینہ میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں اپنے والد کے زیر سایہ نشو ونما کے مراحل طے کیے۔
کم سنی ہی سے آپ پر شرافت نفس اور ذہانت کے آثار نمایاں تھے۔ دس برس کے ہونے سے پہلے ہی قرآن کریم حفظ کرلیا اور بارہ سال سے پہلے ہی بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ ان کے والد ماجد کہتے ہیں کہ میں نے اُسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا اہل دیکھا اور اُسی سال اُس کی شادی کردی۔
حصولِ علم
اپنے والد ماجد سے فقہ حنبلی، تفسیر اور حدیث کا درس لیا۔ بچپن ہی سے تفسیر، حدیث اور عقیدے کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگردِ رشید علامہ ابن قیِّم کی کتابوں سے بہت دلچسپی تھی اور ان کا خوب مطالعہ کرتے تھے۔
حصولِ علم کے لیے اسفار
حج بیت اللہ کے ارادے سے مکہ کا رُخ کیا۔ پھر مسجدِ رسولﷺ کی زیارت کی۔ وہاں مدینہ کے بڑے علما سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور ان سے کسبِ فیض بھی کیا۔ پھر وہاں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک مدت تک وہاں قیام رہا۔ علما کی ایک جماعت سے علم حاصل کیا۔ پھر وہاں سے احساء کے راستے نجد پہنچے۔ اس پورے طویل سفر میں شیخ نے اپنی عقابی نگاہوں سے دیکھا کہ نجد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے گمراہ کُن عقائد اور فاسد عادات کے گڑھ بن چکے ہیں۔ اس لیے توحید کی طرف دعوت دینے اور خرافات وشرکیات کی بیخ کنی کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا۔ چنانچہ جب دوران سفر مدینہ پہنچے، تو سُنا کہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے شرکیہ استغاثہ کرتے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر آپ ﷺ کو پُکارتے ہیں۔
ان دنوں نجد ایسے خرافات اور فاسد عقائد کا اڈّہ بنا ہوا تھا، جو دین کی صحیح بُنیادوں کے بالکل برخلاف تھے۔ وہاں کچھ قبریں تھیں، جو بعض صحابہ کی طرف منسوب تھیں؛ لوگ ان قبروں کا حج کرتے، ان سے مُرادیں طلب کرتے اور اپنی مشکلات دور کرنے کے لیے اُن سے مدد طلب کرتے تھے۔
اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ لوگ منفوحہ قصبے میں واقع کھجور کے ایک نر درخت سے توسل کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو غیر شادی شدہ لڑکی وہاں پہنچے گی، اُس کی شادی ہوجائے گی۔ چنانچہ جو لڑکی وہاں جاتی، وہ اُس کے سامنے کھڑے ہوکر کہتی: ”یَا فَحْلَ الْفَحُوْلِ اُرِیْدُ زَوْجاً قَبْلَ الْحُلُوْلِ“ )اے سب نروں سے بہتر و برتر نر! مجھے سال تمام ہونے سے پہلے شوہر چاہیے!!)۔
انہوں نے ارضِ حجاز میں صحابۂ کرام اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین کی قبروں کے ساتھ ساتھ خود رسول اکرم ﷺ کی قبر کی ایسی تقدیس دیکھی، جو اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور کے شایانِ شان نہیں ہے۔
اسی طرح بصرہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور عراق، شام، مصر اور یمن کے بارے میں لوگوں سے سُنا کہ وہاں زمانۂ جاہلیت والی ایسی بُت پرستی عام ہے، جسے عقلِ سلیم قبول کرتی ہے نہ شریعت اُس کی اجازت دیتی ہے۔ جب انہوں نے ان نامعقول افکار کو کتاب اللہ، سنت رسول، آپ ﷺ کے نیکوکار صحابہ کی سیرت کے میزان پر پرکھا، تو انھیں دینی طور طریقے اور اُس کی روح سے بعید تر پایا۔ شیخ نے محسوس کیا کہ ایسا کرنے والے یہ بھی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیا ورسولوں کو کیوں مبعوث فرمایا تھا؟ وہ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ اللہ نے محمد ﷺ کو ساری انسانیت کے لیے رسول بناکر کیوں کر بھیجا؟ آپ نے محسوس کیا کہ لوگ زمانۂ جاہلیت کے احوال اور اُس وقت کی بُت پرستی کی حقیقت سے نابلد ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ انہوں نے تقریبًا دین کی بنیادوں اور فروعات کو بدل ڈالا ہے۔
شیخ کی اصلاحی دعوت کا آغاز
جب اُن کے نزدیک ثابت ہوگیا کہ لوگ دین ودنیا دونوں میں بودے ہوچکے ہیں اور اُنہیں یقینِ کامل ہوگیا کہ اُن لوگوں نے اعلیٰ اسلامی اصولوں میں ایسی چیزیں داخل کردی ہیں، جن کی کتاب وسنت میں کوئی گنجائش نہیں، تو اُن کا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ لوگ غلط راہ پر چل پڑے ہیں اور بدعت کے شکار ہو چکے ہیں، جس کا ذکر صحیح حدیث میں آیا ہے کہ لوگ بدل جائیں گے اور پیش رو امتوں کے طریقوں کو اپنا لیں گے([2])۔ حدیث کے الفاظ ہیں: }تم یقیناً اپنے سے پہلے کے لوگوں(یہود ونصاری)کی ہو بہ ہو پیروی کروگے۔ یہاں تک کہ اگر اُن میں سے کوئی گوہ کے بل میں گھسا ہو گا، تو تم بھی ضرور گھسو گے{۔([3])
جب کہ ایک اور حدیث میں ہے: }اسلام کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور ایک بار پھر اسلام اُسی اجنبیت کی حالت میں چلا جائے گا{۔([4])([5])
اُس وقت شیخ نے عزمِ مصمّم کر لیا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے اعلان کریں گے کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں اور درست طریقے ومنہج سے برگشتہ ہوچکے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کا آغاز اس اعلان کے ساتھ کیا کہ صرف اللہ کو پُکارا جائے اور اسی کے لیے ذبیحہ و نذر نیاز پیش کیا جائے۔
قبروں، پتھروں اور درختوں سے متعلق لوگوں کے عقائد اور اُن سے فریاد طلب کرنے، اُن کے نام چڑھاوے چڑھانے اور اُن سے نفع ونقصان کا عقیدہ وابستہ رکھنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ سب گمراہی اور ڈھکوسلا ہے۔ لوگ ایسی حالت میں پہنچ چکے ہیں، جو اللہ کو قطعی پسند نہیں، لہذا ان سارے عقائد کو ترک کرنے اور ان سے تائب ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنی گفتگو کو کتاب اللہ کی آیتوں اور رسول ﷺ کے اقوال وافعال اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت سے مدلل اور مضبوط کیا۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا عقیدہ اور ان کے مکتوبات کے کچھ اقتباسات
شیخ کا عقیدہ وہی ہے، جو سلف صالحین کا عقیدہ تھا۔ جس پر اللہ کے رسول ﷺ، آپ کے صحابہ، تابعین اور ائمۂ ہُدیٰ جیسے امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، امام بخاری، امام مسلم، ابوداؤد اور مؤلفین ’’سنن‘‘ نیز دیگر اہلِ فقہ واثر مثلًا امام اشعری، ابن خزیمہ، تقی الدین بن تیمیہ، ابن القیم اور امام ذہبی رحمہم اللہ کاربند اور عمل پیرا تھے۔
یہاں ہم اُن کے مکتوبات کے کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں:
آپ قصیم والوں کے نام تحریر کردہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
بسم اللہ کے بعد شیخ رقم طراز ہیں:
’’میں اللہ تعالی، اپنے پاس حاضر فرشتوں اور آپ سب کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اللہ، اس کے فرشتوں، اُس کی نازل کردہ کتابوں، اس کے رسولوں، بعث بعد الممات اور بھلی بری تقدیر پر ایمان کے حوالے سے میرا عقیدہ وہی ہے، جو عام اہل سنت وجماعت کا ہے۔
ایمان باللہ میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف پر، جن سے اُس نے اپنے آپ کو اپنی کتاب میں یا اپنے رسول ﷺ کی زبانی حدیث میں متصف کیا ہے، بغیر کسی تحریف وتعطیل کے ایمان رکھا جائے، بلکہ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ {کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے}۔([6])
چنانچہ جن اوصاف سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے، اُن میں سے کسی کا بھی میں انکار نہیں کرتا۔ میں نہ کلام الہی میں ہیر پھیر کرتا ہوں، نہ اللہ کے اسما و آیات میں الحاد کرتا ہوں۔ نہ اس کی صفات کی کیفیت بیان کرتا ہوں، نہ انہیں مخلوقات کی صفات کے مشابہ قرار دیتا ہوں؛ اس لیے کہ نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام ہے نہ اُس کی کوئی کیفیت، نہ اس کا کوئی ہمسر و شریک ہے اور نہ ہی مخلوق سے اس کا موازنہ ہوسکتا ہے؛ وہ پاک ذات والا، اپنے اور دوسروں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا، سب سے سچی اور اچھی باتوں والا ہے۔ وہ ان تمام اوصاف سے منزہ ومبرّا ہے، جن سے اہل تکییف وتمثیل نے اُس کو متصف کیا ہے یا اہلِ تحریف وتعطیل نے جن کی نفی کی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: }پاک ہے آپ کا رب، جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اُس چیز سے )جو مشرک( بیان کرتے ہیں۔ اور پیغمبروں پر سلامتی ہو۔ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سارے جہانوں کا رب ہے{۔([7])
چنانچہ فرقۂ ناجیہ نے افعالِ باری تعالی کے بارے میں قدریہ اور جبریہ کے بیچ کا معتدل راستہ اپنایا ہے۔ اسی طرح اللہ کی وعید کے بارے میں مرجئہ اور وعیدیہ کے بیچ کی درمیانی راہ اختیار کی ہے۔
وہ ایمان ودین کے بارے میں بھی حروریہ و معتزلہ نیز مرجئہ وجہمیہ جیسے فرقوں کے برخلاف وسطیت کے قائل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے بارے میں بھی اُن کا موقف روافض اور خوارج کے بالمقابل اعتدال پر مبنی ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی کا نازل کردہ کلام ہے، مخلوق نہیں۔ اُسی سے شروع ہوا ہے اور اُسی کی طرف لوٹ جائے گا۔ اسے اللہ تعالی نے حقیقت میں بولا ہے اور اپنے بندے، رسول، وحی کے امین، اپنے اور اپنے بندوں کے مابین رابطہ کار، ہمارے نبی، محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ اللہ تعالی جو چاہے اُسے کر گزرنے والا ہے، ہر چیز اس کے ارادے سے ہوتی ہے، اس کی مشیئت سے پرے کچھ نہیں، دنیا میں کوئی چیز اس کے فیصلے سے باہر نہیں، ساری چیزیں اس کی تدبیر سے ہی صادر ہوتی ہیں، اس کے فیصلوں سے کسی کو مفر نہیں اور نہ کوئی لوحِ مسطور میں لکھے نوشتے سے تجاوز کرسکتا ہے۔
نبی ﷺ نے مرنے کے بعد وقوع پذیر ہونے والی جتنی چیزوں کی خبر دی ہے، میرا اُن پر بھی یقین ہے۔
میں قبر کی آزمائش اور اس کی نعمتوں نیز روحوں کے جسموں میں لوٹائے جانے کا بھی قائل ہوں، جس کے بعد لوگ دونوں جہان کے رب کے سامنے خالی پیر، مادر زاد ننگے، بے ختنہ کھڑے ہوں گے، سورج اُن سے قریب ہوگا، میزان قائم کیے جائیں گے اور ان کے ذریعہ بندوں کے اعمال تولے جائیں گے: }جن کے ترازو کا پلہ بھاری ہوگیا وه تو نجات والے ہوگئے اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا، یہ ہیں وه جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا، جو ہمیشہ کے لیے جہنم واصل ہوئے{۔([8])
اس دن رجسٹر کھولے اور نامۂ اعمال تقسیم کیے جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو ان کے نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں اور کچھ لوگوں کو بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔
میدانِ محشر میں اپنے نبی محمد ﷺ کو عطا ہونے والے حوض کا بھی مَیں قائل ہوں، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا۔ وہاں آسمان کے ستاروں کے برابر برتن رکھے ہوں گے۔ ایک بار جو اس کا پانی پی لے گا، اُسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
میں جہنم کے اوپر نصب کیے جانے والے پُل صراط پر بھی ایمان رکھتا ہوں، جس پر سے لوگ اپنے اعمال کے حساب سے گزریں گے۔
میں نبی ﷺ کی شفاعت کا بھی قائل ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ آپ پہلے شخص ہوں گے، جو شفاعت کریں گے اور سب سے پہلے آپ کی شفاعت بارگاہِ الہی میں قبول کی جائے گی۔
آپ ﷺ کی شفاعت کا انکار صرف بدعتی اور گمراہ لوگ ہی کر سکتے ہیں، تاہم یہ شفاعت اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: }وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے، بجز اُس کے، جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو}۔([9])
اس کا مزید ارشاد ہے: }کون ہے، جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے{؟([10])
ایک اور جگہ وہ فرماتا ہے: }آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، اُن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی، جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اُس کی اجازت نہ دے، جس کے لیے وہ کوئی عرض داشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے}۔([11])
جب کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ صرف توحید سے راضی ہوگا اور توحید پر قائم رہنے والوں ہی کے لیے شفاعت کی اجازت مرحمت فرمائےگا۔
جہاں تک مشرکین کی بات ہے، تو انہیں شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: }اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی{۔([12])
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ جنت اور جہنم دونوں مخلوق ہیں۔ وہ آج بھی موجود ہیں اور کبھی فنا نہیں ہوں گے۔
میرا ایمان ہے کہ مؤمن اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے اُسی طرح دیکھ سکیں گے، جس طرح چاندنی رات میں بغیر کسی دقّت کے چاند کا نظارہ کرتے ہیں۔
میرا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ہمارے نبی محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔ کسی بھی بندے کا ایمان اُس وقت تک درست نہیں ہوسکتا، جب تک وہ آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لاتا اور آپ کی نبوت کی گواہی نہیں دیتا۔
میرا عقیدہ ہے کہ امت کی برگزیدہ ترین ہستیوں میں بالترتیب ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالنورَین اور علی مرتضیٰ شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے بعد عشرۂ مبشرہ، پھر اہلِ بدر، پھر درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ اور اُن کے بعد سارے صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔
میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے دوستی کا قائل ہوں۔ اُن کی خوبیوں کا ذکرِ جمیل کرتا اور اُن کے لیے بخشش کی دعائیں کرتا ہوں۔ اُن کی لغزشوں کو زبان پر نہیں لاتا۔ ان کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں زبان نہیں کھولتا۔ میں ان کی فضیلت کا معتقد ہوں۔ یہ سب اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہوں: {اور )ان کے لیے( جو ان کے بعد آئیں، جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی، جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں۔ اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں (کینہ اور دشمنی) نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! بےشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے{۔([13])
میں جملہ بُرائیوں سے پاک امہاتُ المؤمنین کے لیے اللہ تعالی کی خوشنودی کا طلب گار ہوں۔
میں اولیا کی کرامات کا قائل ہوں، تاہم وہ اللہ تعالی کے کسی حق کے مستحق نہیں۔ جیسے فریاد طلبی، نذر ونیاز، مدد، استعانت اور ذبح وغیرہ۔ میں کسی بھی مسلمان کے جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی نہیں دیتا۔ سوائے اُن ہستیوں کے، جن کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے گواہی دی ہے۔ البتہ میں نیکو کاروں کے بارے میں اچھی اُمید رکھتا ہوں اور بُرے لوگوں کے بارے میں خائف رہتا ہوں۔
میں کسی گناہ کی وجہ سے کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کرتا اور نہ ہی اُسے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیتا ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ نیک اور فاجر ہر امام کی اقتدا میں جہاد جاری رہے گا، نیز ان کے پیچھے باجماعت نماز ادا کی جائے گی۔
میرا عقیدہ ہے کہ جہاد محمد ﷺ کی بعثت سے جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہے گا، جب اِس امت کا آخری فرد دجّال سے جنگ کرے گا۔ اس کو کسی ظالم کا ظلم روک سکتا ہے، نہ کسی عادل کا انصاف!
میں مسلم حکمرانوں کی اطاعت کے واجب ہونے کا بھی قائل ہوں، خواہ وہ نیک ہوں یا گناہ گار، جب تک کہ وہ اللہ کی معصیت کا حکم نہ دیں!
جو شخص مسندِ خلافت پر متمکن ہوجائے، اُس کی خلافت پر لوگ متفق ہو جائیں اور اس سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیں یا اسی طرح جو شخص بزورِ شمشیر مسلمانوں پر حاوی ہوکر ان کا خلیفہ بن بیٹھے، دونوں کی اطاعت ضروری ہے اور اُس کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔
میرا ماننا ہے کہ بدعت کرنے والوں سے قطع تعلق کرلینا چاہیے، جب تک کہ وہ توبہ نہیں کرلیتے۔ میں اُن پر ظاہر کے اعتبار سے حکم لگانے کا قائل ہوں اور اُن کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
میرا عقیدہ ہے کہ دین میں ایجاد کی جانے والی ہر نئی چیز بدعت ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ ایمان زبان سے اقرار، اعضا وجوارح سے عمل اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے۔ طاعت گزاری سے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور معصیت ونافرمانی سے اس میں کمی آجاتی ہے۔ اس کی ستّر سے زائد شاخیں ہیں، اُن میں بلند تر شاخ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کی گواہی ہے اور سب سے چھوٹی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ شریعت محمدیہ مطہرہ کی تعلیمات کے مطابق امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا واجب ہے۔
یہ مختصر عقیدہ ہے، جسے میں نے انتہائی مصروفیت کے عالَم میں لکھا ہے، تاکہ آپ، جو کچھ میرے پاس ہے، اس سے آگاہ ہوسکیں۔
جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، اللہ اس پر نگہبان ہے"۔
میں )محقق( کہتا ہوں: یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے، جو اس مکتوب میں موجود ہے۔ میں نے یہاں مکمل طور اسے ذکر کردیا ہے۔ کیوں کہ یہی کسی کم وکاشت کے اہلِ سنت وجماعت کا عقیدہ ہے اور اس میں فائدے کی بڑی چیزیں ہیں۔
ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اس عقیدے کو لازم پکڑے۔ جو شخص اس عقیدے کا پابند نہیں، وہ اہل سنت وجماعت میں سے نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں وہ ضلالت و گمراہی کا شکار نہ ہو گیا ہو۔
امام محمد بن عبدالوہاب کی سلفی اصلاحی دعوت سے دشمنی اور اس کی مخالفت کے اسباب
۱- شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سلفی دعوت کے (تصنیف و تالیف اور عملی اعتبار سے( ظہور کے وقت، ان کو جن مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کی سب سے اہم وجہ شاید اُس وقت اُن کے نام نہاد مسلم مخالفین کی گمراہی، بے راہ روی اور صراطِ مستقیم سے دوری تھی۔
اس لیے کہ شیخ کی دعوت کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے زیادہ تر مسلمانوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، وہ گمراہی اور عقیدے کی خرابی کے قعرِ عمیق میں جاپہنچے تھے؛ جہالت عام اور اپنے شباب پر تھی، مسلمانوں کی اکثریت اپنے رب کی عبات بغیر کسی علم، ہدایت اور روشن کتاب کے کرتی تھی، ان میں مختلف طرح کی بدعات اور شرکیات رواج پا چکی تھیں، یہ شرکیہ امور اور نئی نئی بدعتیں زندگی کے معمول میں شامل ہوچکی تھیں، بڑے بوڑھے اور بچے جوان سبھی ان کے رسیا بن چکے تھے، خیر وشر کے پیمانے اُلٹ چکے تھے، معیارِ حقائق بدل گئے تھے، حق باطل اور باطل حق بن چکا تھا۔
۲- اس سلفی دعوت کے خلاف چیرہ دستی اور دشمنی کی ایک دوسری وجہ وہ باطل پروپیگنڈے، بہتان تراشیاں اور جھوٹے الزامات بھی تھے، جو اس دعوت کے علم بردار اور اس کے حامیوں پر لگائے اور باندھے گئے تھے۔ چنانچہ اس دعوت کے معرضِ وجود میں آتے ہی اِسے سخت قسم کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وسیع پیمانے پر مختلف شہروں اور عوام میں پروپیگنڈے کیے گئے۔ بعض اہلِ علم نے بھی اس سلفی دعوت پر ایسے الزامات لگائے، جن سے اس کا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھرم پھیلایا کہ یہ (مسالکِ اربعہ کے علاوہ( پانچواں نیا فرقہ ہے! انہوں نے اسے خوارج کہا، جو مسلمانوں کا خون بہانا اور ان کے مال کو ہڑپنا جائز سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ )معاذَ اللہ( اس دعوت کا علم بردار مدعیٔ نبوت ہے اوررسول گرامی ﷺ پر توہین کرتا ہے!!!
اس طرح کی اور بھی کئی تہمتیں لگائی گئیں۔
قابلِ افسوس بات یہ تھی کہ بہت سے عام لوگ بھی، ان افترا پردازوں اور جھوٹ گھڑنے والوں کی ان بہتان تراشیوں کو، بنا کسی تحقیق اور چھان بین کے، محض اندھی تقلید کی بنیاد پر لے اڑے تھے!
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس دعوت سے وابستہ مٹھی بھر جذباتی اعراب کے ذریعے ایک محدود وقت تک کے لیے تشدد اور جفا کا راستہ اختیار کیا گیا تھا، جس کا مخالفین نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے محض دشمنی اور دل آزاری کے طور پر اس دعوت کے جملہ وابستگان پر ظالم وجائر ہونے کا الزام لگادیا اور انہیں تشدد وجفاکاری سے متہم کر دیا۔
۳- اس سلفی دعوت سے دشمنی کی تیسری وجہ وہ سیاسی کشمکش اور جنگیں بھی رہیں، جو ایک طرف اس دعوت کے حاملین اور تُرکوں کے مابین جاری رہیں اور دوسری طرف اس دعوت کے متبعین اور اشراف(!) کے درمیان وقوع پذیر ہوئیں۔
شیخ رشید رضا مصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’وہابیت کو بدعت و کفر سے متہم کرنے کی وجہ صرف اور صرف سیاسی تھی۔ چوں کہ یہ حجاز پر قابض ہو چکے تھے اور ترکوں کو ڈر تھا کہ کہیں یہ کوئی مستقل عرب ریاست نہ قائم کر لیں، اس لیے وہ مسلمانوں کو ان سے متنفر کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیاسی پارہ چڑھا ہوتا، تو لوگ اِن کے خلاف طیش میں آ جاتے اور جب سیاسی طوفان تھم جاتا، تو وہ بھی خاموش ہو جاتے‘‘۔
شیخ محمد رشید رضا نے مکہ کے کچھ بارسوخ لوگوں و سیاست دانوں اور اس دعوت کے حامیان کے مابین سیاسی دشمنی کے آثار و نتائج کا تجزیہ کیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے جن باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان لوگوں نے روزنامہ ’القبلہ‘ کے ۱۳۳۶ اور ۱۳۳۷ ہجری کے شماروں میں کئی ایسی تحریریں شائع کیں، جن میں وہابیوں کو کفر اور اہل سنت کی تکفیر نیز رسول پاک ﷺ کی توہین جیسے افتراءات اور جھوٹے الزامات سے متہم کیا گیا تھا۔
دمشق اور بیروت کے کچھ لوگ بھی ان مذہب بیزار اور قوم پرست بارسوخ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان داعیانِ حق کی تکفیر اور ان کے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی رسائل چھاپنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیماری مصر تک پہنچ گئی۔ چنانچہ وہاں کے کچھ اخبارات میں بھی اس کے اثرات نظر آنے لگے۔
۴- سلفی دعوت کے خلاف کثیر تعداد میں لٹریچر فراہم ہونے کی ایک وجہ مخالفین بالخصوص صوفیا اور روافض کا اپنے فاسد عقائد اور باطل خیالات کا دفاع بھی ہے؛ اس لیے کہ جب زیادہ تر مسلمانوں میں شرکیات اور بدعات رواج پانے لگیں، خرافات نے اپنی جگہ بنالی، مُردوں کے بارے میں غلو کیا جانے لگا، اُن سے فریاد طلب کی جانے لگی، قبروں پر مشاہد ومزارات بننے لگے، لوگ انہیں سجانے اور سنوارنے میں بے شمار دولت خرچ کرنے لگے، تو ان ساری باتوں کے خلاف شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت پوری طاقت سے کھڑی ہو گئ۔
اس ہنگامہ آرائی کے عالَم میں صوفیا اور روافض کو اپنے زہریلے عقائد کو رواج دینے کا زریں موقع ہاتھ لگ گیا۔ چنانچہ جب اس دعوت کی روشنی نمودار ہوئی اور تاریکیاں چھٹنے لگیں، شرک کی نجاست اور گندگی صاف ہونے لگی اور لوگوں کو خالص توحید اور ستھرے عقائد کی طرف بُلایا جانے لگا، تو مخالفین نے محسوس کیا یہ سلفی دعوت ان کے باطل عقائد کے خاتمے کی تمہید ہے۔ اس لیے باطل پرستوں نے اپنی طاقتیں یک جا کیں اور پھر اس دعوت اور اس کے انصار وحامیوں کے خلاف دشنام طرازی پر اتر آئے۔ ساتھ ہی اس طعن و تشنیع بیچ وہ اپنے صوفیانہ اور رافضی کا ذکر کرتے رہے اور اُن پر ملمع سازی کرکے انہیں لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے رہے!
چنانچہ ہم ان صوفیوں کو دیکھتے ہیں کہ سلفی دعوت کی تردید کے دوران اپنی صوفیت پر ناز کرتے ہیں، صوفی طریقت کی طرف نسبت کو سرمایۂ افتخار کہتے ہیں اور تصوف اور اس کے حاملین کا دفاع بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح روافضیوں کو دیکھتے ہیں کہ سلفی دعوت کی مخالفت کے دوران، اپنے عقیدے کے دفاع کے لیے، دروغ گوئی اور قلب حقائق جیسے وہ سارے ہتھکنڈے اپناتے ہیں، جو ان کا شیوہ رہے ہیں۔
یہاں ہم وضاحت کرتے چلیں کہ 1344ہجری میں جب مدینۃ النبی کے علما نے قبروں پر عمارتیں تیار کرنے اور انہیں مسجد بنانے کی حرمت کے بارے میں فتوی تحریر کیا اور دلائل کی روشنی میں اپنی بات رکھی، پھر اس پر عمل کرتے ہوئے قبروں پر بنے ہوئے گنبدوں اور عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا، تو رافضی علما بِلبِلا اُٹھے۔ انہوں نے اس فتویٰ کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہوئے اخبارات کے صفحات کے صفحات سیاہ کردیے اور ان قبوں اور مزارات کے خاتمہ پر ماتم کرنے لگے۔
یہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے دور میں سلفی دعوت کے مخالفین کی شدید دشمنی اور اس سچی اور حق پرست دعوت کے خلاف لٹریچر کی بہتات کے کچھ ظاہری اسباب ہیں۔
اس دعوت کو ’وہابیت‘ سے موسوم کرنا
جہاں تک لفظ ’وہابیت‘ کا تعلق ہے، تو بیش تر مخالفین نے اس سلفی دعوت کو اسی نام سے موسوم کیاہے۔ دراصل اس کے ذریعے وہ عام لوگوں کو اس وہم میں ڈالنا چاہتے تھے کہ وہابیت دیگر اسلامی مسالک سے الگ ایک نیا فرقہ ہے۔ اس لیے اصلا اس لقب کے استعمال سے بچنا چاہیے۔
لیکن اللہ کا معاملہ مخالفینِ دعوت کی منشا کے برعکس رہا۔ وہ چاہتے تو تھے لفظِ وہابیت کے ذریعہ ان داعیانِ حق کی مذمت کرنا، انہیں بدعتی باور کرانا اور یہ وہم پیدا کرنا کہ وہ رسول ﷺ سے محبت نہیں کرتے، لیکن اب یہ لقب الحمد للہ کتاب و سنت کی طرف بلانے والوں، دلیل کا اتباع کرنے والوں، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والوں، بدعات وخرافات سے بر سر پیکار رہنے والوں اور سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے منہج کو سینے سے لگائے رہنے والوں کو نشان بن چکا ہے۔
شیخ کی دعوت پر لگائے گئے الزامات اور اُن کی تردید
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے گئے اور بہت سے لوگوں نے ان کی تصدیق بھی کردی، جس سے اس مبارک دعوت کی شبیہ کو نقصان پہنچا اور حقیقت حال سے ناواقف لوگوں کے نزدیک ’وہابی‘ کا مطلب ایسا شخص ہو گیا، جو اللہ کے رسول ﷺ سے نفرت کرتا ہو، کراماتِ اولیا کو نہ مانتا ہو، مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہو اور ان کا خون بہانا جائز سمجھتا ہو۔ وہابیت کو پانچواں مذہب سمجھا جانے لگا۔ یہ اور اس طرح کی دیگر کئي جھوٹے الزامات وہابیت پر چسپاں کر دیے گئے۔
یہاں ہم اُن میں سے کچھ جھوٹے الزامات اور ان کی تردید پیش کر رہے ہیں۔
پہلا الزام:
یہ الزام کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ رسول ﷺ کی توہین کرتے ہیں، آپ سے نفرت کرتے ہیں یا آپ پر درود بھیجنا پسند نہیں کرتے!!
میں کہتا ہوں: اس جلیل القدر عالم کی جو کتابیں ہمارے سامنے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے یہ شیخ پر سراسر بہتان اور جھوٹا الزام ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ اپنے دور میں اللہ کے رسول ﷺ کی سب سے زیادہ تعظیم کرنے والے، آپ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے اور آپ کی سب سے زیادہ تکریم کرنے والے انسان تھے۔
شیخ رحمہ اللہ ایک عراقی عالمِ دین عبدالرحمن السویدی کے نام اپنے ایک مکتوب میں ان افترا پردازیوں کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کیسی عجیب بات ہے! کیا یہ کسی عقل مند شخص کے عقل میں آنے والی بات ہے؟ کیا ایسا کوئی مسلم، کافر، حق شناس یا مجنوں کہے گا؟‘‘۔
اسی طرح شیخ کے فرزند عبد اللہ نے بھی ان افترا پردازیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جو ہماری حالت دیکھے گا، ہماری مجلسوں میں شریک ہوگا اور ہمارے ساتھ رہ کر اصلیت کا پتہ لگائے گا، وہ قطعی طور پر جان لے گا کہ یہ سب دشمنانِ دین اور شیاطین کے بھائیوں نے، لوگوں کو خالص اللہ کی عبادت میں انہماک اور شرک کے جملہ انواع سے دامن چھڑانے کی مہم سے متنفر کرنے کی غرض سے، ہمارے خلاف گھڑا ہے اور ہم پر افترا پردازی کی ہے‘‘۔
اس کے بعد کہتے ہیں: ’’بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی محمد ﷺ کا مرتبہ مطلق طور سے ساری مخلوقات سے بلند تر ہے، آپ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور قرآن پاک میں جن شہیدوں کی زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اُن کی زندگی سے بہتر برزخی زندگی جی رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ بلاشبہ اُن سے افضل ہیں۔ نیز یہ کہ جب مسلمان آپ ﷺ پر سلام بھیجتے ہیں، تو آپ ﷺ کو ان کا سلام سُنایا جاتا ہے۔
آپ ﷺ کی قبر کی زیارت مسنون ہے۔ تاہم وہاں کا سفر صرف آپ کی مسجد کی زیارت اور اس میں نماز ادا کرنے کی نیت سے کیا جاسکتا ہے۔ ہاں، اس میں آپ ﷺ کی زیارت کو بھی شامل کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو شخص آپ ﷺ پر درود وسلام بھیجنے میں وقت لگاتا ہے، وہ سعادتِ دارَین سے سرفراز ہوتا ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں: یہ شیخ محمد بن عبدالوہاب اور اُن کے پیروکاروں کا ہمارے آقا اور بنی آدم کے سردار محمد ﷺ کے بارے میں واضح عقیدہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کچھ اور کہتا ہے تو وہ مفتری وکذاب ہے۔
دوسرا الزام:
کراماتِ اولیا کے انکار کا الزام!
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں ایک دوسری افترا پردازی یہ کی گئی کہ وہ اولیا کی کرامات کے مُنکر ہیں۔
میں کہتا ہوں: ان لوگوں کا یہ دعوی کہ شیخ رحمہ اللہ اولیا کی کرامات کے منکر ہیں، صحیح نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ اولیا کی کرامات کو کچھ شرطوں کے ساتھ صحیح مانتے ہیں؛ پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی حقیقی معنوں میں ولی ہو۔ دراصل ولی وہ ہے، جو کتاب وسنت کا متبع ہو اور بدعات وخرافات سے دور رہتا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اولیا کی کرامات کا وقوع اس وقت ہوا ہو، جب وہ باحیات ہوں۔ مرنے کے بعد انسان سے کرامت کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ مُردہ شخص مرنے کے بعد بذاتِ خود زندہ لوگوں کی دعاؤں کا محتاج ہوتا ہے اور وہ کسی کی حاجت روائی نہیں کرتا۔
اولیا کے بارے میں یہی عام اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اس میں اُن کی قطعًا مخالفت نہیں کی۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنی ایک کتاب میں کراماتِ اولیا کا اثبات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں اولیا کی کرامات اور مکاشفات کا قائل ہوں۔ تاہم وہ کسی ایسی چیز کے قطعی مستحق نہیں، جو خاص اللہ کا حق ہے۔ نیز اُن سے ایسی چیزیں بھی نہیں مانگی جاسکتیں، جو صرف اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہوں‘‘۔
وہ مزید فرماتے ہیں: ’’ہم پر ضروری ہے کہ ہم اولیا اور اُن کے پیروکاروں سے محبت کریں اور اُن کی کرامات کا اعتراف کریں۔ کراماتِ اولیا کا انکار صرف بدعتی اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ کا دین دونوں کے بیچ میانہ روی پر مبنی ہے۔ ہدایت اور حق، افراط وتفریط کی شکل میں موجود دو گمراہیوں اور باطل اشیا کے بیچ میں ہے‘‘۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد اس دعوت کے پیروکار بھی اس عقیدے پر زور دیتے اور اس کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ شیخ رحمہ اللہ کے ایک پیروکار کہتے ہیں: ’’اسی طرح اُس کے اولیا کا حق ہے کہ اُن سے محبت کی جائے، ان کے لیے اللہ سے خوشنودی طلب کی جائے اور ان کی کرامات پر ایمان لایا جائے، مگر اُن سے کوئی ایسی بھلائی طلب نہیں کی جاسکتی، جسے عطا کرنے پر صرف اللہ تعالی قادر ہو۔ اسی طرح ان سے کسی ایسی بلا کو ٹالنے کی دعا نہیں کی جاسکتی، جسے ٹالنے پر صرف اللہ عز وجلّ ہی قادر ہو؛ اس لیے کہ یہ عبادت ہے، جو اللہ جلّ جلالہ کے ساتھ خاص ہے۔ پھر، کسی کو ولی بھی اُسی وقت مانا جائے گا، جب اُس کے اندر ولایت کی حقیقی شرطیں پائی جائیں یا اس سے اس کی امید باندھی جائے؛ مثلًا وہ اپنے جملہ احوال میں سنت کی اتباع کرے اور تقویٰ وپرہیزگاری کا کام کرے! مگر آج کل تو ولی ایسے لوگ بن بیٹھے ہیں، جو لمبا کرتا پہنتے ہیں، چوڑی آستین رکھتے ہیں، تہبند لٹکائے پھرتے ہیں، بوسہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیتے ہیں، مخصوص قسم کا لباس زیب تن کر لیتے ہیں، ڈھولک اور جھنڈے جمع کرتے ہیں، اللہ کے بندوں کا ناحق مال کھاتے ہیں اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ و شرعی احکام سے روگردانی کرتے ہیں‘‘!!!
شیخ محمد رحمہ اللہ کے فرزند عبداللہ کہتے ہیں: ’’ہم کراماتِ اولیا کے مُنکر نہیں، بلکہ اُن کے بارے میں حق کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ وہ جب تک شریعت پر کاربند رہیں، اپنے رب کی ہدایت پر ہوتے ہیں۔ تاہم وہ کسی بھی حال میں کسی بھی عبادت کے مستحق نہیں؛ نہ تو اپنی زندگی میں، نہ مرنے کے بعد۔ البتہ اُن میں سے کسی سے بھی اُس کی زندگی میں دعا کی درخواست کی جاسکتی ہے، بلکہ ہر مسلم سے دعا کی درخواست کی جا سکتی ہے‘‘۔
یہ اقتباسات جو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور ان کے پیروکاروں کی کتابوں سے لیے گئے ہیں، ثابت کرتے ہیں کہ شیخ کراماتِ اولیا کے قائل ہیں، اِن کے مُنکر نہیں۔ البتہ آپ رحمہ اللہ اُن سے فریاد کرنے، اُن سے حاجتیں طلب کرنے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بجائے اُن کی عبادت کرنے کے مُنکر ضرور ہیں۔
یہ بھی عام اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے اور اِس میں شیخ نے اُن کی قطعا مخالفت نہیں کی ہے۔
تیسرا الزام:
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت کے حوالے سے جو سب سے خطرناک غلط فہمی پھیلائی گئی، وہ مسلمانوں کی تکفیر، ان کا خون بہانے کو جائز قرار دینے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کو جائز ٹھہرانے سے متعلق ہے!
اس الزام اور افترا پردازی کے بارے میں جب شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو خبر ہوئی، تو آپ نے اس کے مختلف جوابات اور ردود لکھے؛ اس لیے کہ مسلمانوں کی تکفیر اور ان کا خون بہانے کو جائز قرار دینے کی بات عام مسلم ممالک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی، اس لیے شیخ نے بطورِ خاص ان کی تردید کرنے میں دلچسپی دکھائی اور اس قسم کے الزامات سے خود کو بَری ثابت کرنے کا اعلان کیا اور یہ جوابات مختلف شہروں اور ملکوں میں بھیجے۔
چنانچہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’جہاں تک دشمنوں کا یہ کہنا ہے کہ میں ظن و گمان کی بنیاد پر تکفیر کرتا ہوں یا اس لا علم شخص کی تکفیر کرتا ہوں جس پر اتمامِ حجت نہ ہوا ہو، تو یہ سراسر بہتان ہے۔ ایسا کرکے یہ لوگ دراصل عوام کو اللہ اور اس کے رسول کے دین سے متنفر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
اسی طرح وہ اپنے ایک دوسرے مکتوب میں بعض افترا پردازوں کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسی طرح عام لوگوں کو یہ کہہ کر حق سے پردے میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ابن عبدالوہاب کہتا ہے: جو شخص میری اطاعت نہ کرے وہ کافر ہے۔
ہم کہتے ہیں: یہ تو بہت بڑا بہتان ہے! ہم اللہ کو اس بات پر گواہ بنا کر کہتے ہیں، جو ہمارے دلوں میں ہے اور جسے وہ جانتا ہے، کہ جو توحید پر عمل کرے، شرک اور اہلِ شرک سے کنارہ کشی اختیار کرے، وہ کسی بھی زمان ومکان میں ہو، مسلم ہے۔ ہم محض اس شخص کی تکفیر کرتے ہیں، جو شرک کے بطلان پر اتمامِ حجت ہونے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شرک کرتا ہے‘‘۔
شیخ رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کا کہنا ہے: ’’شیخ محمد رحمہ اللہ کسی کو کافر قرار دینے کے معاملے میں بے حد محتاط تھے۔ حد یہ ہے کہ انھوں نے اُس لا علم انسان کی بھی تکفیر نہیں کی، جو غیراللہ جیسے اہل قبور وغیرہ کو پکارتا ہو اور اسے کوئی سمجھانے والا یا ایسی دلیل بتانے والا نہ ملا ہو، جو اس طرح کے کاموں کا ارتکاب کرنے والے کی تکفیر پر دلالت کرتی ہو‘‘۔
وہ ایک دوسری جگہ مسئلۂ تکفیر کے بارے میں شیخ کے عقیدے سے متعلق کہتے ہیں:
’’آپ صرف اسی انسان کو کافر کہتے تھے، جس کے کافر ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو۔ جیسے شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والا، اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والا، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ان چیزوں کے کفریہ اشیا ہونے کی دلیل اس کے پاس معتبر طریقے سے پہنچی ہو اور اس پر حجت قائم ہو چکی ہو۔ مثال کے طور پر صالحین کی عبادت کرنے والوں، اللہ کے ساتھ اُن کو پکارنے والوں اور عبادت و الوہیت کے حوالے سے مخلوق کے جن امور کا حق دار صرف اللہ تعالی ہے، ان میں دوسروں کو شریک وساجھی بنانے والے شخص کی تکفیر‘‘۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’’ہر عاقل شخص جو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی سیرت سے واقف ہے، جانتا ہے کہ آپ علم اور علما کے بڑے قدردان تھے۔ اُن کی تکفیر وتنقیص اور ان کی ایذارسانی سے لوگوں کو سب سے زیادہ روکنے والے شخص تھے۔ بلکہ وہ اُن لوگوں میں سے تھے، جو علما کی توقیر، ان کی عزت، اُن کا دفاع کرنے اور اُن کے راستے پر چلنے کی بات کرتے تھے۔
شیخ رحمہ اللہ صرف اُسی شخص کی تکفیر کرتے تھے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر بتایا ہو اور جس کے کافر ہونے پر امت کا اجماع ہو۔ جیسے کوئی شخص کسی کو اللہ رب العالمین کا شریک و ساجھی اور اسے چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لے‘‘۔
یہ مسلمانوں کی تکفیر سے متعلق شیخ اور ان کے پیروکاروں سے منقول چند باتیں ہیں۔
ان واضح اقتباسات سے مسئلۂ تکفیر میں مخالفین کے الزامات اور افترا پردازیوں سے شیخ، اُن کے پیروکاروں اور معاونین کی مکمل براءت ظاہر ہوتی ہے۔
جو شخص ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتا اور اُن کے رسائل پڑھتا ہے، اس کے سامنے مسئلۂ تکفیر کے باب میں ان کے عقیدے کی صحت اور ان کی سمجھ کی سلامتی واضح ہوجاتی ہے۔ نیز پتہ چل جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اُن کا عقیدہ سلف صالحین کے عقیدے کے عین مطابق ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کی وفات:
علم و جہاد اور دعوت الی اللہ سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد شیخ رحمہ اللہ قصبہ درعیہ میں 1206 ہجری میں وفات پا گئے۔
ہم آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت وخوشنودی کے طلب گار ہیں اور دعا گو ہیں کہ پروردگار ہمیں اور ان کو اپنی عظیم رحمت سے جنت کے بالا خانوں میں یکجا کرے([14])۔
باب: اللہ عزّ وجلّ کی معرفت اور اُس پر ایمان
شرک کی تردید
۱- ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }اللہ تعالی کا ارشاد ہے: میں تمام شریکوں سے بڑھ کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو کوئی ایسا عمل کرے، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے، میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں{۔([15])
۱- اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب الزهد (4/2289) (حدیث نمبر: 2985)۔
شرک باللہ کی دو قسمیں ہیں:
شرکِ اکبر: یہ سب سے بڑا گناہ ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ اس گناہ کو بغیر توبہ کے معاف نہیں کرتا؛ اس شرک کے مظاہر میں غیرُ اللہ کو پکارنا، اُن سے فریاد طلب کرنا، غیر اللہ کے لیے ذبیحہ پیش کرنا اور اُن کے لیے نذر ونیاز کرنا وغیرہ شامل ہے۔
شرکِ اصغر: یہ شرک کی دوسری قسم ہے۔ اس میں ریا ونمود، غیراللہ کی قسم اور انسان کی اس طرح کی باتیں بھی شامل ہیں کہ ’’جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں‘‘، ’’میرا اللہ کے سوا اور آپ کے سوا ہے ہی کون؟‘‘ اور ’’میں اللہ پر اور آپ پر بھروسہ کرتا ہوں‘‘۔
مصنف علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’القواعد الأربعہ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’یہ بات جان لو! اللہ آپ کى اپنی اطاعت وفرماں برداری کی طرف رہنمائی فرمائے، ابراہیم علیہ السلام کى ملت حنیفیت یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کے لیے بندگی کو خالص کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت کریں۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: }اور میں نے جن و انس کو صرف اِسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں{۔([16])[سوره الذاريات، آيت: 56]۔
جب آپ نے جان لیا کہ اللہ نے آپ کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ ’عبادت‘ توحید ہی کے ساتھ عبادت کہلائے گی۔ بالکل ویسے ہی، جیسے نماز وضو کے ساتھ ہی نماز کہلاتی ہے۔ چنانچہ اگر عبادت میں شرک داخل ہوجائے تو یہ اُسے اُسی طرح بے کار بنا دیتا ہے، جس طرح حدث طہارت کو! جب آپ نے یہ جان لیا کہ شرک عبادت میں شامل ہوجائے تو اُسے بے کار بنا دیتا ہے نیز عمل کو ضائع کردیتا ہے اور اس کا مرتکب ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوجاتا ہے، تو آپ نے یہ بھی جان لیا ہوگا کہ شرک کی جان کاری حاصل کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو شرک باللہ کے جال سے بچائے لے، جس کے بارے میں اس کا فرمان ہے: }یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے، بخش دیتاہے{۔([17]) [سورہ النساء، آیت: 116]۔
اور ایسا ان چار قواعد کو جاننے سے ہو سکتا ہے، جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن پاک میں ذکر فرمایا ہے:
پہلا قاعدہ:
یہ جان لیں کہ جن کفار و مشرکین سے اللہ کے رسول ﷺ نے جنگ کی تھی، وہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور مدبر ہے۔ اس کے باوجود بھی اس چیز نے انہیں اسلام میں داخل نہیں کیا۔
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: }آپ کہیے کہ وه کون ہے، جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے، جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے، جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے، جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ! تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے{؟([18])[ سورہ يونس: 31] ۔
دوسرا قاعدہ:
مشرکینِ عرب کہتے تھے کہ ہمارا غیر اللہ کو پکارنے اور ان کی طرف متوجہ ہونے کا مقصد صرف شفاعت اور تقربِ الٰہی حاصل کرنا ہے۔
تقربِ الہی حاصل کرنے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں( کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ )بزرگ( اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، اس کا )سچا( فیصلہ اللہ )خود( کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے )لوگوں( کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا{۔([19]) [سورہ الزمر : 3]۔
اور حصولِ شفاعت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: }اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں، جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں{۔([20]) سورہ يونس: 18] ]۔
ویسے، شفاعت کی دو قسمیں ہیں: (اول:) منفی شفاعت اور (دوم:) مثبت شفاعت
پہلی قسم ۔ منفی شفاعت: وہ شفاعت، جو غیر اللہ سے ایسی چیز کے بارے میں طلب کی جائے، جس پر اللہ کے علاوہ کوئی بھی قادر نہیں۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: }اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے، اس میں سے خرچ کرتے رہو، اس سے پہلے کہ وه دن آئے، جس میں نہ تجارت ہے، نہ دوستی اور شفاعت۔ اور کافر ہی ظالمہیں{۔([21]) [ سورہ البقرة: 254] ۔
دوسری قسم ۔ مثبت شفاعت: یہ ایسی شفاعت ہے، جو اللہ سے طلب کی جاتی ہے۔ اس میں شفاعت کرنے والے کو شفاعت کا حق اللہ کی جانب سے اعزاز کے طور پر حاصل ہوتا ہے اور شفاعت بھی اسی کی ہوتی ہے، جس کے قول و عمل سے اللہ راضی ہو اور جس کی شفاعت کی اجازت دی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: }کون ہے، جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے{؟([22]) سورہ بقرہ: 255]]۔
تیسرا قاعدہ:
نبی ﷺ کا ظہور اُس وقت ہوا، جب لوگ الگ الگ چیزوں کی عبادت کرتے تھے؛ ان میں کچھ فرشتوں کی پوجا کرتے تھے، کچھ انبیا اور بزرگوں کی عبادت کرتے تھے، کچھ درختوں اور پتھروں کو پوجتے تھے تو کچھ سورج اور چاند کو، مگر اللہ کے رسول ﷺ نے ان سب سے بغیر کسی تفریق کے جنگ کی۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: }اور تم اُن سے اس حد تک لڑو کہ اُن میں شرک کا فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے{۔([23]) [سورہ الأنفال: 39]۔
سورج اور چاند کی پرستش کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {اور دن رات اور سورج چاند بھی )اسی کی( نشانیوں میں سے ہیں۔ تم سورج کو سجده نہ کرو، نہ چاند کو، بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو، جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے{۔([24]) [سوره فصلت: 37]۔
فرشتوں کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: }اور یہ نہیں )ہو سکتا( کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کا حکم کرے{۔ ([25]) [سورہ آل عمران: 80] ۔
انبیائے کرام کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوه اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں۔ مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا، جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے، اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے{۔([26]) [سورہ المائدة: 116]۔
نیک اور صالح لوگوں کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں، خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے، وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں{۔ ([27]) [سورہ الإسراء: 57] ۔
درختوں اور پتھروں کی پوجا کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا اور منات تیسرے پچھلے کو؟}۔([28]) [سورہ النجم: ۱۹، ۲۰]۔
اور ابو واقد اللیثی -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: {ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین کے لیے نکلے۔ کفر کے زمانے سے نکلے ہمیں زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ )راستے میں( مشرکین کا ایک بیری کا درخت تھا، جہاں وہ جا کر رکتے تھے اور اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے۔ اسے ’’ذات انواط“ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ راستے میں ہم لوگ ایک بیری کے درخت سے گزرے، تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیں، جیسا کہ مشرکوں کا ایک ذات انواط ہے{۔ ([29]) الحدیث ([30])
چوتھا قاعدہ:
ہمارے زمانے کے مشرک، شرک کے معاملے میں پہلے زمانے کے مشرکوں سے زیادہ سخت ہیں۔ اس لیے کہ اُس وقت کے مشرک خوش حالی کے وقت شرک کرتے اور مصیبت کے وقت خالص اللہ کو پکارنے لگتے تھے۔ جب کہ ہمارے زمانے کے مشرکین خوش حالی اور مصیبت دونوں حالتوں میں شرک میں پڑے رہتے ہیں۔
اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: }پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے۔ پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے، تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں{۔([31]) [سورہ العنكبوت : 65]۔
اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے
۲- ابوموسیٰ -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے درمیان پانچ باتیں کہنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نہیں سوتا اور اس کے شایان شان بھی نہیں ہے کہ وہ سوئے۔ وہ ترازو کو پست اور بلند کرتا ہے۔ اس کی جانب، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔ اس کا پردہ نور ہے۔ اگر وہ اس پردے کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کے انوار ان تمام مخلوقات کو جلا دیں، جن تک اس کی نگاہ پہنچے‘‘۔([32])
۲- اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب الایمان (۱۶۱/ ۱) (حدیث نمبر: 179)۔
امام بغوی فرماتے ہیں:
’’آپ ﷺ کے الفاظ {يخفض القسط ويرفعه{ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے آپ ﷺ نے میزان مراد لیا ہے، جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: }قیامت کے دن ہم درمیان میں ﻻ رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو}‘‘۔([33]) [سورہ الأنبياء: 47]۔
"قسط" یعنی "ذوات القسط" )انصاف والا(۔ میزان (ترازو) کو "قسط" )انصاف( اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ اس سے عادلانہ تقسیم ہوتی ہے۔ میزان کو پست کرنے اور اسے بلند کرنے سے آپﷺ کی مراد اللہ کی طرف پہنچائے گئے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جانا اور اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی بندوں کی روزیوں کا وزن کیا جانا ہے۔([34])
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے 'قسط' سے رزق مراد لیا ہے، جو کہ ہر مخلوق کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی اُسے پست کرکے بندے کو محتاج بنادیتا ہے، تو کبھی اُسے بلند کرکے بندے کو فراخی عطا کرتا ہے۔ آپ کے کہنے کی منشا یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی روزی دینے اور اُسے بانٹنے والا ہے۔ جیساکہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: }اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے{۔([35]) [سورہ الرعد: 26]۔
آپ ﷺ کے الفاظ ’سُبحات وجھہ‘ سے مراد اللہ کے چہرے کا نور ہے۔
امام خطابی کہتے ہیں: ’’آپ کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جلالِ عظمت سے اپنی مخلوقات کو صرف اُسی قدر مطلع فرمایا ہے، جسے ان کے دل برداشت کر سکیں اور ان کے اعضا وجوارح اس کا بوجھ اُٹھا سکیں۔ اگر پوری طرح ان کو مطلع کردے، تو اُن کے دل پھٹ جائیں اور ان کی روح نکل جائے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی اپنا نور زمین اور پہاڑوں پر ڈال دے، تو وہ جل اور پگھل جائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں فرمایا ہے: }پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی، تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیے اور موسیٰ )علیہ السلام( بےہوش ہوکر گر پڑے{۔([36]) [الاعراف : 143]۔
اللہ کے ہاتھ کا اثبات
۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے: {اللہ کا دایاں ہاتھ([37]) بھرا ہوا ہے۔ خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی([38])۔ اس کا فیض صبح و شام جاری ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے لے کر اب تک کتنا کچھ خرچ کیا؟ اس کے باوجود اس کے داہنے ہاتھ میں جو کچھ ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے۔ وہ اسے اٹھاتا اور جھکاتا ہے{۔
اسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔
۳- اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب التفسير (۳۵۲/ ۸) (حدیث نمبر: ۴۶۸۴)۔
اس میں کچھ اضافہ ہے۔ نیز دیکھیں: كتاب التوحيد (۱۳/ ۳۹۳) (حدیث نمبر: ۷۴۱۱)، صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ (۲/ ۶۹۰) (حدیث نمبر: ۹۹۳)۔
اس حدیث کو روایت کرنے والے تمام محدثین نے اسے ’یغیضھا‘ یاء کے ساتھ روایت کیا ہے۔ تاہم صحیح بخاری، کتاب التفسیر میں تاء کے ساتھ آیا ہے۔ مگر شرح میں یاء کے ساتھ درج ہے۔ جب کہ کتاب التوحید میں دونوں جگہوں پر یاء کے ساتھ ہی مذکور ہے۔
’لا یغیضھا‘ کے معنی ہیں: خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں ہوتی۔ یہ غاضَ الماءُ سے ہے، جو اُس وقت بولا جاتا ہے جب پانی ختم ہوجائے اور زمین کے اندر چلا جائے۔
’سحاء‘: السح یعنی لگاتار انڈیلنا۔ یہاں مراد دائمی عطا اور ہمیشہ جاری رہنے والی بخشش ہے۔
یہ حدیث، اللہ کے لیے دائیں ہاتھ کی صفت کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کی بے نیازی، انتہا درجے کے جود وسخا، کامل کشادگی اور وسیع نوازش وبخشش پر بھی دلالت کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا علم
۴- ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: {رسول اللہ ﷺ نے دو بکریوں کو ایک دوسرے کو سینگ مارتے ہوئے دیکھ کر فرمایا: ابوذر کیا تمہیں معلوم ہے کہ کیوں یہ ایک دوسرے کو سینگ مار رہی ہیں؟ میں نے کہا: نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور عنقریب ہی ان کے مابین فیصلہ فرما دے گا{۔([39]) اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
۴- احمد (۱۶۲/ ۵) نے اسے روایت کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے حدیث کی، وہ سلیمان سے روایت کرتے ہیں، وہ منذر ثوری سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے کچھ شیوخ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
امام احمد نے اسے ابن معاویہ سے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے اعمش نے حدیث بیان کی، وہ منذر بن یعلی سے روایت کرتے ہیں، جو اپنے کچھ شیوخ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
امام احمد )5/173) اور بزار نے، جیساکہ ’کشف الأستار‘ (۱۶۲/ ۴) (حدیث نمبر: ۳۴۵۰، ۳۴۵۱) میں ہے، حماد بن سلمہ کے طریق سے بھی اسے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو خبر دی لیث بن ابی سلیم نے، جو عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں، وہ ثروان سے روایت کرتے ہیں، وہ ہزیل بن شرحبیل سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے۔ وہ بیان فرماتے ہیں: {اللہ کے رسول ﷺ تشریف فرما تھے اور دو بکریاں لڑ رہی تھیں۔ ایک نے دوسری کو سینگ مارا اور اسے مغلوب کر دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے۔ آپ سے کہا گیا کہ آپ کو کس بات پر ہنسی آ رہی ہے؟ تو جواب دیا: مجھے اس بکری پر تعجب ہوا۔ اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قیامت کے دن اس بکری کو بھی بدلہ لینے کا موقع دیا جائے گا{۔([40])
اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ایک ضعیف راوی ہے۔
اس کے شواہد بھی ہیں۔ دیکھیے: ’مجمع الزوائد‘ (۳52/ 10) ان میں سے ایک شاہد وہ ہے، جسے امام احمد (۲۳۵/ ۲) نے ابن ابی عدی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو شعبہ سے، وہ العلاء سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح امام احمد (۲۳۵/ ۲) نے اسے محمد بن جعفر کے طریق سے بھی روایت کیا ہے، جو شعبہ سے، وہ العلاء سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہیں روزِ قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے، حتی کہ {بغیرسینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا }۔([41])
ہیثمی (۳۵۲/ ۱۰) کہتے ہیں: اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
اللہ کی سماعت وبصارت کا اثبات
۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: }اللہ کے رسول ﷺ نے یہ آیت }إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا}([42])سے لے کر }إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا}([43]) تک پڑھی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: (اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو، تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے، جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے(۔ اُس وقت آپ ﷺ نے اپنے دو انگوٹھوں کو اپنے دونوں کانوں اور اس کے بعد والی انگلیوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا ہوا تھا )تاکہ سماعت وبصارت کی طرف اشارہ کر سکیں({۔
امام ابوداؤد، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے اسے روایت کیا ہے۔
۵- اسے ابو داؤد نے كتاب ’السنَّہ ‘ (۲۳۳/ ۴) (حدیث نمبر: ۴۷۲۸) میں اور ابن خزيمة نے’التوحيد ‘(۹۷/ ۱) (حدیث نمبر: ۴۶) میں، ابن حبان (۴۹۸/ ۱) (حدیث نمبر: ۲۶۵)، بیہقی نے ’الاسماء والصفات‘ (صفحہ: ۱۷۹) میں اور حاکم (۲۴/ ۱) نے روایت کیا ہے۔ ان تمام حضرات نے اسے عبداللہ بن یزید المقری کے واسطے سے روایت کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ ہم سے حرملہ بن عمران نے حدیث بیان کی، وہ ابوہریرہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس -جن کا نام سلیم بن جبیر ہے- سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے اور ذہبی نے اُن کی موافقت کی ہے۔
نبی ﷺ کا ’سمیعًا بصیرًا‘ )اللہ سننے اور دیکھنے والا( پڑھتے وقت اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں اور آنکھوں پر رکھنے کا مقصد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفت سماعت اور بصارت کو اُس کی جلالتِ شان کے مطابق ثابت کرنا ہے۔ اللہ کی سماعت و بصارت ہے، لیکن وہ ہماری سماعت و بصارت کی طرح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہی ہر بات کو سننے والا اور دیکھنے والا ہے{۔ ([44]) [سورہ الشوریٰ: 11] ۔
ابن ابی العز ’شرح العقیدۃ الطحاویۃ‘ (۵۷/ ۱) میں رقم طراز ہیں: ’’اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ اُس کی ذات وصفات میں، نہ افعال میں۔ لیکن لفظ تشبیہ لوگوں کے کلام میں ایک مجمل لفظ بن چکا ہے، جس کے صحیح معنیٰ مراد لیے جائیں گے۔ یعنی ایسی تشبیہ جس کی قرآن نے نفی کی ہے اور انسانی عقل بھی جس کی دلیل فراہم کرتی ہے کہ اللہ کی کسی خصوصیت سے کسی مخلوق کو متصف نہیں کیا جائے گا اور اللہ کی کسی صفت میں اس کی کسی مخلوق کو اس کی مانند و مماثل نہیں مانا جائے گا۔
’لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ‘([45]) یعنی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں، سے تشبیہ وتمثیل دینے والوں کی تردید ہوتی ہے۔ ’وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‘([46])۔الشورى: 11] ] (یعنی وہی ہر بات کو سننے والا اور دیکھنے والا ہے(، سے باری تعالی کی صفات کی نفی وانکار کرنے والوں کی تردید ہوتی ہے۔ چنانچہ جو خالق کی صفات مخلوق کی صفات کے مثل سمجھے، وہ مذموم اور باطل طور پر تشبیہ دینے والا اور جو مخلوق کی صفات کو خالق کے مثل قرار دے، وہ نصاریٰ کی طرح کفر کرنے والا ہے‘‘۔ (شارح کی بات ختم ہوئی!)
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ایمان باللہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کی کتاب عزیز میں وارد اور اُس کے رسولِ امین سے ثابت اللہ کے اسمائے حسنیٰ و بلند صفات پر، ان کے معنی و مفہوم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اللہ کو ان سے عاری مانے اور ان کی کیفیت بیان کیے اور مثال دیے بنا، ایمان رکھا جائے۔ اللہ کے اسما و صفات کو ہو بہو ویسے ہی تسلیم کر لینا چاہیے، جیسے یہ وارد ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ان الفاظ کے اندر جو معانی پنہاں ہیں، انھیں اللہ عز و جل کی شان کے مطابق، اس کی کسی مخلوق سے تشبیہ دیے بغیر تسلیم کر لینا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {اس کے جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے} ([47]) ۔ اس کا مزید ارشاد ہے: }پس اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں مت بناؤ، اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے{۔([48])
یہی اصحابِ رسول اور اُن کے پیروکار اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے، جسے امام ابوالحسن أشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المقالات‘ میں اصحاب الحدیث اور اہلِ سنت سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے دوسرے اہلِ علم وایمان سے نقل کیا ہے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’زہری اور مکحول سے صفاتِ باری تعالیٰ سے متعلق آیتوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ان کو ہو بہو اسی طرح تسلیم کر لو، جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں‘‘۔
ولید بن مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام مالک، اوزاعی، لیث بن سعد اور سفیان ثوری رحمہم اللہ سے صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں وارد احادیث وروایات کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُن سب نے کہا: اُن کو ایسے ہی تسلیم کرو، جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں اور ان کی کیفیت مت بیان کرو‘‘۔
اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم، جب کہ تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے، کہتے تھے: اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے عرش پر ہے۔ نیز ہم حدیث میں وارد صفات پر ایمان رکھتے تھے‘‘۔
جب امام مالک کے استاذ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن رحمہما اللہ سے استواء (علی العرش) کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو انہوں نے کہا: ’’استواء مجہول نہیں ہے، البتہ اس کی کیفیت سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ بات اللہ کی جانب سے بتائی ہوئی ہے۔ رسول کا کام اسے واضح انداز میں پہنچا دینا تھا اور ہمارا کام اُس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے‘‘۔
اور جب امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ’’استواء معلوم ہے، اُس کی کیفیت مجہول ہے، اُس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے‘‘۔ پھر انہوں نے پوچھنے والے سے کہا: ’’تم مجھے بُرے آدمی لگ رہے ہو‘‘! پھر آپ کے حکم سے اسے مجلس سے نکال دیا گیا۔
اسی معنی کی ایک روایت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک مروی ہے۔
امام ابو عبد الرحمن عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم اپنے رب پاک کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ اپنے آسمانوں کے اوپر، اپنی مخلوق سے الگ تھلگ، اپنے عرش پر مستوی ہے‘‘۔
اس باب میں ائمہ کے بے شمار اقوال موجود ہیں۔ اس جگہ سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اس طرح کے مزید اقوال جاننے کا خواہش مند ہو، تو اُسے ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جنہیں علمائے سنت نے اس باب میں لکھا ہے۔ جیسے عبداللہ بن امام احمد کی کتاب ’السُنّہ‘، جلیل القدر امام محمد بن خزیمہ کی کتاب ’السُنہ‘، ابوالقاسم اللالکائی طبری کی کتاب ’السُنّہ‘، ابوبکر بن ابوعاصم کی کتاب ’السُنّہ‘ نیز شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کے وہ جوابات، جو انہوں اہل حماۃ کے رد میں لکھے ہیں۔ یہ بڑے عظیم اور مفید جواب ہیں۔ ان کے اندر علامہ رحمہ اللہ نے اہلِ سنت کا عقیدہ بیان کیا ہے اور اُن کے بے شمار اقوال اور شرعی و عقلی دلائل بھی ذکر کیے ہیں، جو اہل سنت کے عقائد کی صحت اور ان کے مخالفین کی باتوں کے رد پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سلسلے میں اُن کا ’التدمرية‘ نامی رسالہ بھی کافی اہم ہے، جس میں اس مسئلے کا شرح و بسط کے ساتھ تذکرہ ہے۔ اس میں اہل سنت کے عقیدے کو نقلی اور عقلی دلائل سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین کے موقف کا دندان شکن جواب بھی دیا گیا ہے، جس سے ہر اس صاحب علم کے لیے حق واضح اور باطل کا پردہ فاش ہوجاتا ہے، جو نیک نیتی اور رغبت کے ساتھ حق کی معرفت کا جویا ہو۔ در اصل اسماء وصفات کے باب میں جس نے بھی اہلِ سنت کے عقیدے کی مخالفت کی، وہ لازمی طور پر نقلی و عقلی دلائل کی مخالفت کا شکار ہوا اور نفی و اثبات دونوں معاملوں میں واضح تناقض کے بھنور میں پھنس گیا۔
جہاں تک اہلِ سنت و جماعت کی بات ہے، تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے انہیں صفات کا اثبات کیا ہے، جن کا اثبات اُس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب قرآن کریم میں یا اس کے رسول محمد ﷺ نے اپنی سنتِ صحیحہ میں کیا ہے۔ لیکن اس اثبات میں تمثیل کی بو باس تک نہیں ہے۔ انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو مخلوق کی مشابہت سے پاک بھی قرار دیا ہے اور اسے کو صفات سے عاری قرار دینے سے بھی مجتنب رہے۔ چنانچہ وہ تناقض سے محفوظ بھی رہے اور ساری دلیلوں پر عمل پیرا بھی ہو گئے۔
یہی اللہ سبحانہ وتعالی کا طریقۂ کار رہا ہے کہ جو لوگ اُس کے رسولوں کے لائے ہوئے حق کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں، اس راہ میں محنت کرتے ہیں اور خلوصِ نیت سے اسے طلب کرتے ہیں، اللہ انھیں حق پر چلنے کی توفیق دیتا ہے اور ان کے سامنے حق کے دلائل کو آشکارا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: }بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں، پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے۔ تم جو باتیں بناتے ہو، وه تمہارے لئے باعث خرابی ہیں{۔ ([49]) اس کا مزید ارشاد ہے: }یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے، ہم اس کا سچا جواب اور عمده توجیہ آپ کو بتادیں گے{۔ ([50])
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر میں فرمانِ باری تعالیٰ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ([51])الخ} (بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے۔ پھر عرش پر قائم ہوا(۔ کی تفسیر میں اس سلسلے میں بڑی اچھی بات لکھی ہے۔ چوں کہ ان کی بات بڑی مفید ہے، اس لیے اسے یہاں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میں لوگوں کی بہت سی رائیں پائی جاتی ہیں۔ تفصیل کے ساتھ ان کو ذکر کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں ہم سلف صالحین؛ مالک، اوزاعی، ثوری، لیث بن سعد، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ قدیم و جدید ائمہ کے مسلک کو اختیار کریں گے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ان صفات کو، ان کی کیفیت بیان کیے بغیر، تشبیہ دیے بنا اور اللہ کو ان سے عاری مانے بغیر، ہو بہو اسی طرح تسلیم کر لیا جائے، جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں۔ صفات کی تشبیہ دینے والوں نے اس باب میں جو کچھ سمجھا ہے، وہ اللہ کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ کی کوئی مخلوق اس کے مشابہ نہیں ہے۔ خود اس کا فرمان ہے: { اس کے جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے{۔ بلکہ درست بات وہی ہے، جو امام بخاری کے استاد نعیم بن حماد الخزاعی وغیرہ جیسے ائمہ نے کہی ہے کہ جس نے اللہ کو مخلوق کے مشابہ کہا، اُس نے کفر کیا، جس نے ایسی کسی صفت کا انکار کیا، جس سے اللہ نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے، اُس نے بھی کفر کیا۔ دراصل اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اوصاف میں کہیں تشبیہ کی بو باس تک نہیں ہے۔ اس لیے، جس نے اللہ کو قرآن کی صریح آیتوں اور صحیح حدیثوں سے ثابت صفات سے، اللہ تعالی کی عظمت و جلال کے مطابق، متصف مانا اور اسے عیوب و نقائص سے پاک جانا، وہ ہدایت کے راستے پر گامزن ہے‘‘۔
غیب کی کُنجیاں پانچ ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا
۶- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: {غیب کی کنجیاں پانچ ہیں، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ رحم مادر میں کیا پل رہا ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون جگہ میں مرے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی{؟ ([52])
اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
۶- اسے بخاری نے كتاب الاستسقاء )2/524) (حدیث نمبر: 039)، کتاب التفسیر )8/375) (حدیث نمبر: 4697)، کتابُ التوحید (361/ 13) (حدیث نمبر: ۷۳۷۹) میں روایت کیا ہے۔ مجھے یہ حدیث ابن عمر سے مروی حدیث کے طور پر صحیح مسلم میں نہیں ملی، بلکہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس مفہوم کی ایک حدیث روایت کی ہے۔ دیکھیے: صحیح مسلم 1/39) ) حدیث نمبر: 9))۔
حدیث کی شرح:
یہ حدیث ان کاہنوں اور جادوگروں کی تردید کرتی ہے، جو غیب کی بات جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۵۱۴/ ۸) میں لکھتے ہیں کہ شیخ ابومحمد بن ابی جَمرَہ کہتے ہیں:
’’یہاں کُنجی سے تعبیر کرنے کا مقصد سننے والے کے لیے مسئلے کو سہل الفہم بنانا ہے۔ کیوں کہ ہر وہ چیز جس کے اور آپ کے بیچ میں پردہ حائل کر دیا گیا ہو، اسے آپ سے غائب کر دیا گیا ہے۔ ایسی چیز کو جاننے کے لیے عام طور پر دروازے سے جانا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر دروازہ بند ہو تو کنجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگر یہی پتہ نہ ہو کہ کنجی کہاں ہے، تو بھلا غائب چیز تک رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘۔ (باتختم ہوئی، قدرے تلخیص کے ساتھ!)۔
ابن کثیر رحمہ اللہ سورہ لقمان کی تفسیر (۴۵۵/ 3) میں لکھتے ہیں:
’’قتادہ کہتے ہیں: کچھ باتیں ایسی ہیں، جن کی جانکاری اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھی ہے اور ان کی اطلاع نہ کسی مقرب فرشتے کو دی ہے اور نہ اپنے بھیجے ہوئے نبی کو۔
لہذا کسی شخص کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ قیامت کب، کس سال، کس مہینے، کس رات یا کس دن واقع ہوگی؟ اسی طرح کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی؟ رات میں یا دن میں؟ کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ رحمِ مادر میں کیا ہے؟ لڑکا ہے یا لڑکی؟ سرخ ہے یا کالا اور وہ کیا ہے؟ پھر، اے ابنِ آدم! تجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تم کو موت کب آئے گی؟ ہوسکتا ہے کل ہی تمہارا جنازہ اُٹھ جائے۔ کل ہی تم موت کی چپیٹ میں آ جاؤ! ‘‘ (بات ختم ہوئی)۔
میں کہتا ہوں: جہاں تک اُن لوگوں کا دعویٰ ہے جو کہتے ہیں کہ کچھ مشینیں ایسی ہیں، جو ماں کے پیٹ میں پل رہے جنین کے بارے میں پہلے ہی بتا دیتی ہیں کہ وہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ تو اس کے بارے میں میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جانکاری فراہم کرنا علمِ غیب میں داخل نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ جانکاری ایک آلے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی کہے کہ مجھے پتہ ہے کہ رحمِ مادر میں کیا ہے۔ پھر وہ ماں کا پیٹ چیر کر )آپریشن کرکے( جانکاری حاصل کر لے اور اس کے بعد بتا دے، تو کیا اسے ہم علمِ غیب کہیں گے؟! ظاہر سی بات ہے کہ ہرگز نہیں! پھر یہ مشینیں ہمیشہ صحیح بھی نہیں بتاتیں، بلکہ ایسا بہت ہوتا ہے کہ کئی حاملہ عورتوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیٹ میں بچہ ہے جب کہ بچی کی ولادت ہوتی ہے!!
اللہ کے لیے صفتِ فرح )خوشی( کا اثبات
۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے، تو اس کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے، جتنی خوشی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے، جب وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر سوار ہوکر سفر کر رہا ہو اور سواری گم ہو جائے، اُس کے کھانے اور پینے کا سامان بھی اسی پر ہو، پھر وہ سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آئے اور اس کے سایہ میں لیٹ جائے کہ اب سواری نہیں ملے گی، وہ ابھی اپنی اسی حالت میں ہو کہ اچانک اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی پائے، تو اس کی نکیل پکڑ لے اور شدتِ مسرت میں بے ساختہ کہہ اٹھے: اے میرے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں! یعنی بے پایاں خوشی کی بنا پر الفاظ غلط بول جائے{۔ ([53])
اسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔
۷- اسے امام بخاری نے كتاب الدعوات (۱۱/ ۱۰۲) (حدیث نمبر: ۶۳۰۹) میں اور امام مسلم (۴/ ۲۱۰۵) (حدیث نمبر: ۲۷۴۷) میں روایت کیا ہے۔
یہ حدیث اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے خوشی کی صفت کو ثابت کرتی ہے۔ مگر یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کی صفات سے پاک ہے۔
شریعت میں توبہ، کسی گناہ کو اس کی قباحت )بُرائی( کی وجہ سے چھوڑنے، اس پر نادم و شرمندہ ہونے، دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کرنے اور کسی بندے کا کچھ حق ہے، تو اسے لوٹانے، یا متعلقہ شخص سے براءت طلب کرنے کا نام ہے اور یہ معذرت کی اعلی ترین مثال ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۰۸/ ۱۱) میں لکھتے ہیں:
’’اس سلسلے میں قاضی عیاض فرماتے ہیں:
انسان اس طرح کی حیرانی و حواس باختگی کے عالم میں جو کچھ کہتا ہے، اُس پر اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہاں اس آدمی کی یہ بات علمی طریقے سے اور شرعی فائدے کے طور پر نقل کی ہے۔ یہاں نقل کرنے کا مقصد ہنسی مذاق، نقل اتارنا یا فضول گوئی نہیں ہے‘‘۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ ید )ہاتھ( کا اثبات
۸- ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: {الله تعالی رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے۔ )یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا( جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو{۔ ([54])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
8- اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب التوبہ (4/2113) (حدیث نمبر: 2759)۔
یہ حدیث اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ ید کو ثابت کرتی ہے، تاہم اللہ کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے نہیں، بلکہ اُس کے ہاتھ اس کی جلالتِ شان کے مطابق ہیں۔ اس معاملے میں ہم نہ تو تشبیہ دیں گے، نہ مثال بیان کریں گے اور نہ اللہ کو صفات سے عاری کہیں گے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ توبہ کی قبولیت کا کوئی معین وقت نہیں ہے، سوائے اس کے جس کی رسول ﷺ نے تحدید کی ہے کہ توبہ انسان کے حالتِ نزع میں پہنچنے اور سورج کے پچھم سے نکلنے سے پہلے تک قبولیت سے ہم کنار ہوگی۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ رحمت کا اثبات
۹- صحیحین میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: {رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوازن قبیلے کے کچھ قیدی لائے گئے۔ دیکھا گیا کہ قیدیوں میں ایک عورت دوڑ رہی تھی کہ اتنے میں قیدیوں کے بیچ اسے ایک بچہ ملا، تو اسے اٹھا کر اپنے پیٹ سے لگا لیا اور دودھ پلانے لگی۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں سے پوچھا : کیا تم کو ممکن لگتا ہے کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے{۔ ([55])
۹- اسے امام بخاری نے كتاب الأدب(۴۲۶/ ۱۰) (حدیث نمبر: ۵۹۹۹) اور امام مسلم نے كتاب التوبہ )4/2109) (حدیث نمبر: 2754) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۴۳۰/ ۱۱) میں لکھتے ہیں:
’’سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ اُس عورت نے اپنا ایک دودھ پیتا بچہ کھو دیا تھا اور اس کی چھاتی میں دودھ جمع تھا، جو اُسے نقصان پہنچا رہا تھا۔ لہذا، جب کسی بچے کو پاتی، تو اپنی تکلیف کم کرنے کے لیے اُسے دودھ پلانے لگتی۔ چنانچہ جب اُسے اس کا بچہ مل گیا، تو اسے گلے سے چمٹا لیا اور دودھ پلانے لگی...‘‘۔
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام امور میں صرف اللہ سے اپنا تعلق استوار رکھے۔ چوں کہ دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر بھی رحم کا جذبہ پائے جانے کا گمان ہو، انسان اس کے پاس پہنچ جاتا ہے، اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے اور ہر عقل مند انسان کو اسی بے پایاں رحمت والے کے درپہ حاجت برآری کے لیے حاضر ہونا چاہیے۔
اللہ عزّ وجلّ کی رحمت کی کشادگی
۱۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: {جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا، تو ایک کتاب میں، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے، لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے{۔ ([56])
۱۰- اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
اسے امام بخاری نے كتاب بدء الخلق (287/ 6) (حدیث نمبر: ۳۱۹۴)، كتاب التوحيد )13/404) (حدیث نمبر: 7422) ، (۴۴۰/ ۱۳) (حدیث نمبر: ۷۴۵۳) اور امام مسلم نے كتاب التوبہ (۲۱۰۷/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۷۵۱) میں روایت کیا ہے۔
ابوسلیمان خطابی کہتے ہیں:
’’یہاں کتاب سے مراد دو چیزوں میں سے کوئی ایک ہے: یا تو اس سے مراد وہ فیصلہ ہے، جو اللہ نے صادر فرمایا اور اُسے ضروری قرار دیا، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: }اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بے شک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے{۔ ([57])۔]سورہ المجادلة: 21] یعنی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اس طرح آپ ﷺ کے فرمان ’’اپنے یہاں عرش پر موجود ایک کتاب‘‘ کے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اس کا علم اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے، جسے نہ وہ بھولتا ہے، نہ منسوخ کرتا ہے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی وترمیم کرتا ہے۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: {جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کے ہاں کتاب میں موجود ہے۔ نہ تو میرا رب غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے{۔ ([58]) [سورہ طہ: ۵۲]۔ یا اُس کتاب سے مراد وہ ’لوحِ محفوظ‘ ہے، جس میں ساری مخلوق کی تفصیلات اور ان سے متعلقہ امور، ان کی موت، روزی روٹی، ان پر نافذ ہونے والے فیصلے اور ان کے لکھے ہوئے ہیں۔
میں کہتا ہوں:
یہ حدیث عرشِ الہی کے اثبات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آسمان میں عرش پر مستوی ہے۔ اس سے اللہ کی صفتِ رحمت اور غضب کا بھی اثبات ہوتا ہے۔
اللہ نے رحمت کے سو حصے کیے ہیں
۱۱- صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے۔ ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور ایک حصہ زمین میں اتارا۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے تمام مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک جانور بھی اپنا کھر اپنے بچے سے اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ پہنچے{۔ ([59])
۱۱- اسے مام بخاری نے كتاب الأدب (۴۳۴۱/ ۱۰) (حدیث نمبر: ۶۰۰۰) اور امام مسلم نے کتاب التوبہ (۲۱۰۸/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۷۵۴) میں روایت کای ہے۔
حافظ ابن حجر فتح الباری (۴۳۱/ ۱۰) میں کہتے ہیں:
’’قرطبی فرماتے ہیں: اس حدیث کا مقتضا یہ ہے کہ اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ اپنے بندوں کو جو نعمتیں عطا کرے گا، وہ سو قسم کی ہیں۔ چنانچہ دنیا کے اندر اُن میں سے صرف ایک نعمت سے انہیں نوازا، جس سے اُن کی ساری ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور ساری سہولیات دستیاب ہوجاتی ہیں۔ جب کہ قیامت کے دن اپنے مؤمن بندوں پر باقی ماندہ ننّانوے نعمتوں کی بارش کرے گا، جس سے سو نعمتیں پوری ہو جائیں گی۔ یاد رہے کہ ان ساری نعمتوں سے صرف مؤمنوں کو نوازا جائے گا۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے: }اور اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر بہت ہی مہربان ہے{۔ ([60])[سورہ الاحزاب: 43] لفظ ’رحیم‘ مبالغہ کا صیغہ ہے، جس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جب اللہ کے علم کے مطابق رحمتوں کا جو خزانہ ہے، وہ مؤمنوں کے حصے میں آ گیا، تو کافروں کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ نہ دنیوں رحمت کے قبیل سے، نہ اخروی رحمت کے قبیل سے۔ اسی کی طرف اللہ تعالی کے اس قول میں اشارہ ہے: }تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا، جو اللہ سے ڈرتے ہیں{۔ ([61]) [سورہ الأعراف: 156]۔
۱۲- اسی معنی کی ایک حدیث صحیح مسلم میں سلمان کی روایت سے روایت سے موجود ہے، جس میں ہے:
{ہر رحمت زمین وآسمان کے درمیان واقع خلا جتنی عظیم ہے{۔ ([62]) اُس حدیث میں یہ بھی ہے: }جب قیامت کا دن آئے گا، تو اللہ اسے اس رحمت کے ذریعے مکمل فرمادے گا{۔ ([63])
۱۲- اسے امام مسلم (۲۱۰۹/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۷۵۳) نے روایت کیا ہے۔
کافر کی نیکیوں کا دنیا ہی میں بدلہ دے دینا
۱۳- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{کافر جب کوئی نیک عمل کرتا ہے، تو اس کے بدلے میں دنیا ہی میں اسے رزق دے دیا جاتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالی مؤمن کی نیکیوں کو آخرت کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں اور اس کی نیکی پر اسے دنیا میں بھی رزق دیتے ہیں{۔ ([64])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اسے امام مسلم نے سلیمان التیمی کے طریق سے قتادہ سے روایت کیا ہے، جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ دیکھیے کتاب صفات المنافقین (۲۱۶۲/ ۴) ( حدیث نمبر: ۲۸۰۸)۔
امام نووی ’شرح صحیح مسلم‘ (۱۷۱۵۰) میں کہتے ہیں:
علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو کافر کفر کی حالت میں مرجائے، اسے آخرت میں کچھ نیکی نہیں ملے گی اور نہ تقرب الی اللہ کی خاطر اُس نے دنیا میں جو کام کیے ہوں گے، اسے اُن کا بدلہ دیا جائے گا۔
اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ کافر نے دنیا میں جو اچھے اعمال تقرب الی اللہ کی خاطر کیے ہوں گے، جن میں صحتِ نیت کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے صلہ رحمی، سچائی، غلام آزاد کرنا، مہمان نوازی اور رفاہِ عامہ کے کام وغیرہ، تو ان کی وجہ سے اُسے دنیا ہی میں کھلا پلا دیا جائے گا۔ جہاں تک مؤمن کی بات ہے، تو اُس کی نیکیوں کو آخرت کے لیے اکٹھا رکھا جائے گا اور دنیا میں بھی اسے ان کا بدلہ دیا جائے گا۔ ویسے، دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں بدلہ دینے سے کوئی مانع بھی نہیں ہے۔ چوں کہ شریعت میں ایسا کہا گیا ہے، اس لیے اس کا یقین رکھنا ضروری ہے۔
لیکن اگر کافر اس طرح کی نیکیاں کرے اور اس کے بعد وہ مسلمان ہو جائے، تو صحیح قول کے مطابق اُسے آخرت میں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ رضا کا اثبات
۱۴- صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ ہی سے مرفوعًا روایت ہے:
{اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے راضی ہوتا ہے کہ وہ لقمہ کھائے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے اور پانی کا گھونٹ پیے اور اس پر اللہ کی حمد و ثنا کرے}۔ ([65])
۱۴- اسے اماممسلم نے كتاب الذكر والدعاء )4/2095 ) (حدیث نمبر: ۲۷۳۴) میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں رسول ﷺ اپنے رب کی صفتِ رضا ثابت کر رہے ہیں۔ اہلِ سنت وجماعت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے بغیر کسی تکییف وتمثیل کے اُس کے اس فرمان کے مطابق اس صفت کا اثبات کر تے ہیں: }کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہی ہربات کو سننے والا اور دیکھنے والا ہے{۔ ([66])سورہ الشوریٰ: 11]] لہذا ہم اللہ عزّ وجلّ کے چہرے کے جلال اور اُس کی عظیم سلطنت کے شایانِ شان اس کے لیے خوشی کی صفت ثابت کرتے ہیں۔
دیکھیں: ’مجموع الفتاوی‘ امام ابن تیمیہ (۲۶/ ۵) ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظمت
۱۵- ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{آسمان چرچرا اٹھا اور اس کا چرچرانا بجا بھی ہے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں، جہاں کوئی فرشتہ اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کیے ہوئے نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم اس چیز کو جان لو، جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنسو کم اور رؤو زیادہ اور تم بستروں پر اپنی عورتوں سے لذت حاصل کرنا چھوڑ دو اور اللہ سے نالہ و فریاد کرتے ہوئے راستوں میں نکل پڑو}۔ ([67])
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: }اگر تم اس چیز کو جان لو، جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنسو کم اور رؤو زیادہ{۔ ([68]) صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ([69])
۱۵- اسے امام ترمذي نے كتاب الزهد (۴۸۱/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۳۱۲)، امام ابن ماجہ نے کتاب الزھد (۱۴۰۲/ ۲) (حدیث نمبر: ۴۱۹۰)، امام احمد (۱۷۳/ ۵)، امام طحاوی نے ’’مشکل الآثار‘‘ (۴۴/۲)، ابو الشیخ اصبہانی نے کتاب ’’العظمۃ‘‘ (۹۸۲/ ۴) (حدیث نمبر: ۵۰۷)، امام احمد )5/173)، امام طحاوي نے "مشكل الآثار" (2/44) ، ابو الشيخ أصبهاني نے كتاب "العظمة" )4/982) (حدیث نمبر: 507)،، حاکم نے ’’المستدرک‘‘ (۵۱۰/ ۲)، ابو نعیم نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ (صفحہ: ۳۷۹) اور امام بیہقی نے ’’شعب الایمان‘‘ (۴۸۴/ ۱) (حدیث نمبر: ۷۸۳، ۷۸۴) میں روایت کیا ہے۔ ان سارے محدثین نے اسے 'إسرائيل عن إبراهيم بن مهاجر عن مجاهد عن مورق عن أبي ذر به' کے طریق سے روایت کیا ہے۔
اور ان میں سے بعض لوگوں کے یہاں کچھ اضافہ بھی ملتا ہے۔
امام ترمذی نے اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔
اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
جب کہ بوصیری کہتے ہیں: میں کہتا ہوں: اس کی سند میں ابراہیم بن مہاجر نامی راوی صدوق ہے، جس کی یاد داشت کمزور ہے۔
لیکن اس کی متابعت بھی ہوئی ہے۔ ابونعیم نے ’الحلیۃ‘ (۲۶۹/ ۶) میں ’زائدة بن أبي الرقاد ثنا زياد النميري عن أنس به‘کے طریق سے اسے اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے۔
لیکن اس کی سند میں موجود راوی زائدہ منکر الحدیث اور زیاد النمیری ضعیف ہیں۔
’’ اطَّتِ السماءُ‘‘ : (آسمان چرچرا اٹھا( میں مستعمل لفظ ’أطيط‘ کجاوے کی آواز کو کہتے ہیں، جو سواری کے اس پر بیٹھتے وقت نکلتی ہے۔ ’أطيط الإبل‘ اونٹ کے بلبلانے کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے، اس میں موجود فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے، جن سے وہ بوجھل ہے، چرچرانے کی آواز نکلی۔
’’لخرجتم‘‘:یعنی اپنے گھروں سے نکل پڑو۔
’’صعدات‘‘: یعنی راستے۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے معنی ہیں، گھر کا آنگن اور اس کے سامنے کی گزرگاہ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد خشکی اور صحرا کے راستے ہیں۔
’’تجأرون الى الله‘‘: یعنی اللہ سے گڑگڑا کر اس بلا کو ٹالنے کی فریاد کرتے ہوئے۔
’’لو تعلمون ما أعلم‘‘: یعنی اگر تم نافرمانوں کو ملنے والی اللہ کی سزا اور قیامت کے دن حساب وکتاب کی سختی کو جان لیتے۔
’’لبكيتم كثيرا‘‘: یعنی خوف کا پہلو امید پر بھاری ہو جاتا اور برے خاتمے کے ڈر سے تم روتے چلے جاتے۔
اللہ پر قسم کھانے کی حُرمت
۱۶- صحیح مسلم میں جندب رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{ایک شخص بولا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا۔ تو اللہ عزّ وجلّ نے فرمایا کہ وہ کون ہے، جو قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں کو نہیں بخشوں گا؟ میں نے اس کو بخش دیا اور )جس نے قسم کھائی تھی( اس کے سارے اعمال ضائع کر دیے}۔ ([70])
۱۶- اسے امام مسلم نے كتاب البر والصلة (۲۰۲۳/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۶۲۱) میں روایت کیا ہے۔
’’یتألی‘‘: قسم کھانے کے معنی میں ہے اور ’اَلْیَہ‘ قسم کو کہا جاتا ہے۔
امام نووی ’شرح مسلم‘ (۱۷۴/ ۱۶) میں رقم طراز ہیں:
’’اس حدیث میں اہل سنت کے اس موقف کی دلیل ہے کہ اگر اللہ بغیر توبہ کے کسی بندے کے گناہ بخشنا چاہے، تو انہیں بخش سکتا ہے۔ اس حدیث سے معتزلہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ کبیرہ گناہوں کی وجہ سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ انسان کے اعمال صرف کفر کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں۔ یہاں عمل کے اکارت ہونے کی تاویل یہ کی گئی ہے کہ اس کے گناہوں کے مقابلے میں اس کی نیکیاں ساقط کر دی گئیں اور 'احباط' )ضائع کرنے( کا لفظ مجازا استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے کوئی دوسرا گناہ بھی سرزد ہوا ہو، جو کفر کو واجب کرتا ہو۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ کسی ماقبل شریعت کا واقعہ ہو اور یہ حکم انھیں سے متعلق ہو‘‘۔
مؤمن امید اور خوف کے بیچ میں ہوتا ہے
۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{اگر مؤمن یہ جان لے کہ اللہ کے یہاں کس قدر عذاب ہے، تو کوئی اس کی جنت کی امید نہ رکھے اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر وسیع ہے، تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو}۔ ([71])
۱۷- اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب التوبہ (4/ 2109) (حدیث نمبر: ۲۷۵۵)۔
جب کہ امام بخاری نے اسے کتاب الرقائق (۱۱/ ۳۰۱) (حدیث نمبر: ۶۴۶۹) میں سعید بن ابی سعید المقبری کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی معنی میں روایت کرتے ہیں اور اس میں کچھ اضافہ بھی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۳۰۳/ ۱۱) میں لکھتے ہیں:
’’کچھ لوگوں کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کافر اللہ کی رحمت کی وُسعت کے بارے میں جان لے، تو اس کی یہ جانکاری اللہ کے عذاب کی خطرناکی کے جانکاری پر حاوی ہو جائے گی، جس سے اُس کے اندر امید کی کرن پیدا ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کی بے پایاں رحمت کے علم سے بندے کا جڑاؤ اور اس کی سزا سے بے توجہی بندے کو اللہ کی رحمت کا حریص بنا دے۔ چنانچہ جب انسان کو اس بات کا علم ہو جائے کہ اللہ جس پر رحم کرنا چاہے اُس پر رحم کر سکتا ہے اور جس سے انتقام لینا چاہے اُس سے انتقام لے سکتا ہے، تو اس کی رحمت کا امیدوار اُس کے انتقام سے خود کو مامون نہ سمجھے اور اس کے انتقام سے خائف اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اور یہ انسان کو گناہوں سے بچانے کا باعث ہوگا، خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز طاعت گزاری کو لازم پکڑنے کا سبب بنے گا، خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوسرے جملے میں ایک طرح کا اشکال ہے، کیوں کہ جنت کسی کافر کے لیے بنائی نہیں گئی ہے اور وہ اس کا لالچ بھی نہیں رکھتا۔ ایسے میں یہ بعید نہیں ہے کہ وہ انسان جنت کا لالچ نہ کرے، جو اپنے کافر ہونے کا یقین نہ رکھتا ہے۔ ایسے میں ماقبل پر جواب کا مرتب ہونا مشکل لگتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ لفظ مؤمنوں کو اللہ کی کشادگیٔ رحمت کی طرف راغب کرنے کے لیے مستعمل ہوا ہے، جو اس قدر وسیع ہے کہ اگر کافر بھی اس کی وسعت سے واقف ہو جائے، جس کے بارے میں لکھ دیا گیا ہے کہ اُس کا خاتمہ اس حال میں ہونا ہے کہ اسے ذرہ برابر بھی رحمت نہیں ملنے والی، تو وہ بھی، یا تو مشروط ایمان کے ساتھ یا پھر اس شرط سے قطع نظر اپنے باطل پر قائم ہونے کے یقین اور اس پر بطور عناد عمل درآمد جاری رکھنے بے باوجود، اس کی امید کرنے لگے۔ پھر جب کافر کا یہ حال ہے، تو بھلا مؤمن اس کا لالچ کیوں نہ کرے، جسے اللہ نے ایمان کی دولت عطا کی ہے!؟‘‘ )شارح کی بات ختم ہوئی(۔
جنت اور جہنم کا انسان سے نزدیک ہونا
۱۸- صحیح بخاری میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی{۔ ([72])
۱۸- اسے امام بخاری نے كتاب الرقاق(۳۲۱/ ۱۱) (حدیث نمبر: ۶۴۸۸) میں روایت کیا ہے:
’’شِراک‘‘: اس سے مراد وہ تسمہ ہے، جس میں انسان کی انگلی داخل ہوتی ہے۔ اس کا اطلاق ہر اُس تسمہ پر ہوتا ہے، جس سے قدم کا بچاؤ ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۳۲۱/ ۱۱) میں لکھتے ہیں:
ابن بطال کہتے ہیں: ’’اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ طاعت گزاری جنت تک لے جاتی اور معصیت جہنم سے قریب کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ اطاعت گزاری اور معصیت کبھی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے: }بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی کوئی بات کرتا ہے اور اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے۔ اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر دیتا ہے اور اس پر توجہ بھی نہیں دیتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے‘‘}۔ ([73]) ([74])
نیز فرمایا:
اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ بھلائی کے معمولی کام کرنے سے بھی گریز نہ کرے اور اسی طرح معمولی بُرائی سے بچنے میں بھی دریغ نہ کرے؛ اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ کس نیکی کی وجہ سے اللہ تعالی اُس پر مہربان ہوجائے اور کس گناہ کی وجہ سے اُس سے ناراض ہوجائے۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں:
’’حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جنت خلوصِ نیت اور طاعت گزاری کے ذریعہ بہ آسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح جہنم بھی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی اور معصیت کے کام سے آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے‘‘۔
جس کے دل میں رحم ہو، اس کے لیے اللہ کی رحمت
۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{ایک فاحشہ عورت نے گرمی کے دنوں میں ایک کتے کو ایک کنویں کے گرد چکر لگاتے دیکھا، جس نے پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکال رکھی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنے موزے میں پانی لے کر اسے پانی پلایا، تو اس کی بخشش کردی گئی{۔ ([75])
۱۹- اسے امام بخاری نے كتاب أحاديث الأَنبياء(۵۱۱/ ۶) (حدیث نمبر: ۳۴۶۷) اور امام مسلم نے کتاب السلام (۱۷۶۱/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۲۴۵) میں روایت کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں۔
’’المواق‘‘: یعنی چمڑے کا موزہ۔
اس حدیث میں لوگوں کے ساتھ حُسنِ سلوک پر ابھارا گیا ہے۔ اس لیے کہ اگر پیاسے کتے کو پانی پلانے سے مغفرت ہوسکتی ہے، تو مسلمان کو پانی پلانا اس سے کہیں زیادہ اجر کا باعث ہوگا۔
اس حدیث سے مشرک کو نفلی صدقہ دینے کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ تاہم ایسا اُس وقت کیا جانا چاہیے، جب کوئی مسلم دستیاب نہ ہو۔ اس لیے کہ مسلمان صدقہ کا زیادہ مستحق ہے۔ اسی طرح اگر جانور اور آدمی کے مابین ترجیح کا معاملہ ہو اور دونوں یکساں طور پر ضرورت مند ہوں، تو آدمی زیادہ حق دار ہوگا۔ واللہ أعلم۔
بِلّی کو قتل کرنے کی حُرمت
۲۰- آپ ﷺ نے مزید فرمایا: {ایک عورت صرف اس لیے جہنم چلی گئی کہ اس نے ایک بلی کو قید کر رکھا تھا۔ اس نے نہ تو اسے کھانے کو کچھ دیا اور نہ چھوڑا کہ زمین کے چھوٹے موٹے جانوروں سے پیٹ بھر لیتی{۔ ([76])۔
زہری کہتے ہیں: تاکہ کوئی بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائے اور کوئی مایوس نہ ہو۔ ([77])
اسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔
۲۰- اسے امام بخاری نے كتاب الخلق (۳۵۶/ ۶) (حدیث نمبر: ۳۳۱۸) اور امام مسلم نے کتاب السلام (۱۷۶۰/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۲۴۲) میں روایت کیا ہے۔
’’خَشاش الأرض‘‘: خاء کے زبر کے ساتھ۔ ضمہ او کسرہ کے ساتھ بھی پڑھنا جائز ہے۔ اس سے مراد زمین کے کیڑے مکوڑے اور جانور ہیں، جیسے چوہے وغیرہ۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ (۳۵۷/ ۶) میں کہتے ہیں: حدیث کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ اُس عورت کو بلی کو قید میں رکھ کر مارنے کی وجہ سے عذاب دیا گیا تھا۔
قاضی عیاض کہتے ہیں: ممکن ہے کہ وہ عورت کافرہ رہی ہو اور اسی لیے اُسے سچ مچ آگ کا عذاب دیا گیا ہو یا پھر اس سے اتنی سختی سے حساب و کتاب لیا گیا ہو کہ عذاب کی شکار ہو گئی ہو۔ کیوں کہ جس سے سختی سے حساب لیا جائے گا، وہ عذاب کا شکار ہو جائے گا([78])۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ وہ عورت کافرہ رہی ہو اور اُسے اس کے کفر کی وجہ سے عذاب دیا گیا ہو اور بلی پر ظلم کی وجہ سے اس کے عذاب میں مزید اضافہ ہو گیا ہو۔
امام زہری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے پہلی حدیث ذکر کی، تو یہ ڈر پیدا ہو گيا کہ کہیں سننے والا اُس میں مذکور اللہ کی بے پایاں رحمت پر تکیہ نہ کرلے، اس لیے انہوں نے بلّی والی حدیث بھی بیان کر دی، جس میں اس کے برخلاف خوف پیدا کیا گیا ہے، تاکہ خوف اور امید کا امتزاج پیدا ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ تعجب کا اثبات
۲۱- اور انہیں سے مرفوعًا روایت ہے:
{میرے رب کو ایسے لوگوں پر تعجب ہوا، جو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے([79]) جنت کی طرف لے جائے جاتے ہیں{۔ ([80]) اسے احمد اور بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۱- اسے امام بخاری نے كتاب الجهاد )6/ 145) (حدیث نمبر: 3010 ) میں اور امام احمد (۴۵۷/ ۲) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۶/ ۱۴۵) میں لکھتے ہیں:
ابن الجوزی کہتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ قید کر کے لائے گئے۔ پھر جب انہیں اسلام کی سچائی کا علم ہوا، تو رضاکارانہ طور پر مسلمان ہو گئے اور اس طرح جنت میں داخل ہو گئے۔ چنانچہ بزور طاقت گرفتار کرنا اور قید وبند میں رکھنا پہلی وجہ ہے۔ اس لیے یہاں مجبور کرنے کو بیڑی میں جکڑنے کا نام دے دیا گیا ہے اور چوں کہ وہی اُن کے دخولِ جنت کا سبب تھا، اس لیے مسبب کو سبب کے مقام پر رکھ دیا کيا۔
ان لوگوں کے تئیں اللہ کا صبر و تحمل جو اس کے اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں
۲۲- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }تکلیف دہ باتوں کو سُن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ اس کے بیٹا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس کے باوجود ان کو عافیت کے ساتھ رکھتا اور ان کو رزق دیتا ہے{۔ ([81]) .
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
اسے امام بخاری نے كتاب الأدب(۵۱۱/ ۱۰) (حدیث نمبر: ۶۰۹۹)، کتاب التوحید (۱۳/ ۳۶۰) (حدیث نمبر: ۷۳۷۸) میں اور مسلم نے کتاب التوبہ (۲۱۶۰/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۸۰۴) میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ صبر کا اثبات ہے۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ ( ۳۶۱/ ۱۳) میں لکھتے ہیں:
لفظ "اَصْبَر" صبر سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے لفظ "صبور" بھی ہے۔ جس کے معنی ہیں: وہ ذات جو نافرمانوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہیں کرتی۔
اس حدیث میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اللہ بندوں کی بدسلوکی کے باوجود ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی قدرت رکھتا ہے۔ جب کہ یہ انسان کی فطرت کے برخلاف ہے۔ اس لیے کہ وہ بدسلوکی کرنے والے کے ساتھ حُسنِ سلوک کی قدرت اُسی وقت رکھتا ہے، جب اُسے شرعی طور پر مکلف کیا گیا ہو۔ اس کے برخلاف اللہ سبحانہ وتعالیٰ حال ومآل دونوں اعتبار سے اس پر قادر ہے۔ نہ کوئی چیز اس کے بس سے باہر ہے، نہ اس کے دائرۂ کار سے الگ‘‘۔ (شارح کی بات ختم ہوئی، قدرے اختصار کے ساتھ)۔
اللہ کے لیے صفتِ محبت کا اثبات
۲۳- صحیح بخاری ہی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{بے شک اللہ تبارک تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل علیہ السلام کو پکار کر فرماتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، پس تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر جبریل آسمان میں پکار کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے، پس تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد زمین والوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت ڈال دی جاتی ہے{۔ ([82])
۲۳- اسے امام بخاری نے كتاب التوحید ( ۱۳/ ۴۶۱) (حدیثنمبر: ۷۴۵۸) میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے صفتِ محبت کے ساتھ ساتھ صفتِ کلام (گفتگو( کا بھی اثبات ہے۔ حدیث میں ’قبول‘ سے مراد ’’اس کی محبت کی وجہ سے دلوں میں اس کی مقبولیت، اس کی جانب میلان اور اس سے رضامندی ہے‘‘۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کسی کی محبت، محبتِ الہی کی علامت ہے۔ اس مفہوم کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے: {تم روئے زمین پر اللہ کے گواہ ہو{۔ ([83])
قیامت کے دن مؤمنوں کے اللہ کی رؤیت کا اثبات
۲۴- جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے چودھویں کی رات میں چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا:
{تم عن قریب ہی اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے، جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں اسے دیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر تمہارے مقدور میں مقدور میں ہو کہ طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب کے بعد کی نمازوں پر کسی چیز کو حاوی نہ ہونے دو، تو ایسا ضرور کرو{۔ ([84]) اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ پڑھی: }وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا} ([85]) (اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا ره، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے(۔[سورہ طه: 130]۔
اس حدیث کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
۲۴- اسے امام بخاری نے كتاب مواقيت الصلاة(۳۳/ ۲) (حدیث نمبر: ۵۵۴)، کتاب التفسیر (۵۹۷/ ۸) (حدیث نمبر: ۴۸۵۱) نیز کتاب التوحید (۴۱۹/ ۱۳) (حدیث نمبر: ۷۴۳۴-۷۴۳۵) میں اور امام مسلم نے کتاب المساجد (۴۳۹/ ۱) (حدیث نمبر: ۶۳۲) میں روایت کیا ہے۔
یہ حدیث قیامت کے دن مؤمنوں کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رؤیت کا اثبات کرتی ہے، جو جنتیوں کو دی جانے والی عظیم ترین نعمت ہے۔ چنانچہ امام مسلم (۱۶۳/ ۱) (حدیث نمبر: ۱۸۱) وغیرہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: {جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: تمہیں کوئی چیز چاہیے، جو تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ جواب دیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چنانچہ اللہ تعالیٰ پردہ اٹھا دے گا اور انہیں ایسا محسوسو ہوگا کہ ان کو کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہوئی ہے، جو ان کے نزدیک اپنے رب کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو{۔ ([86])
اولیاء اللہ سے دشمنی کرنے والے سے اللہ کا انتقام
۲۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے، ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں، جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، تو پھر مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔ کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا، جتنا تردد مؤمن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے، جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہوتا ہے۔ لیکن اسے اس مرحلے سے گزرنا ہی ہوتا ہے{۔ ([87])
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۵- اسے امام بخاری نے كتاب الرقاق(۳۴۰/ ۱۱) (حدیث نمبر: ۶۵۰۲) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری ‘ (۳۴۲/ ۱۱) میں لکھتے ہیں:
’’ولیُ اللہ سے مراد اللہ کو جاننے والا، اس کی اطاعت گزاری کا پابند اور اخلاص کے ساتھ اُس کی عبادت کرنے والا ہے‘‘۔
’’آذَنتُہ‘‘: "یعنی میں اسے باخبر کر دیتا ہوں"۔ "ایذان" کے معنی باخبر کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں۔
فاکہانی کہتے ہیں: ’’اس میں سخت دھمکی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جس سے جنگ کرتا ہے، اُسے ہلاک کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس حدیث میں جہاں ایک طرف دشمنی کا ثبوت ملتا ہے، تو دوسری طرف دوستی کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ جو اولیاء اللہ سے دوستی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرمائے گا‘‘۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے۔ طوفی کہتے ہیں: فرائض کا حکم لازمی ہے اور انھيں چھوڑنے پر سزا ہوگی۔ جب کہ نفل کا معاملہ دونوں باتوں میں اس سے الگ ہے۔ اگرچہ نوافل کے اہتمام سے بھی فرائض کی طرح ثواب ہے، لیکن چوں کہ فرائض زیادہ کامل ہیں، اس لیے وہ اللہ کو زیادہ محبوب اور اللہ سے زیادہ قریب کرنے والے ہیں۔ نیز فرائض اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ نفل فرع اور شاخ کی۔ شرعی طور پر فرائض کی ادائیگی سے، شارع کے حکم کی بجا آوری، اس کے احترام کا اظہار نیز اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے واسطے سے اس کی اور اس کی ربوبیت کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے اور بندے کی خاکساری کا پتہ چلتا ہے۔ اس طرح فرائض کی ادائیگی تقرب الہی کا عظیم ترین عمل ہے۔ لیکن فرائض کی ادائیگی کا محرک بسا اوقات سزا کا خوف بھی ہوتا ہے، جب کہ نفل ادا کرنے والا صرف ایثارِ خدمت کے طور پر ایسا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے بدلے میں محبت سے نوازا جائے گا، جو خدمت کے ذریعہ تقرب حاصل کرنے کا اصل مقصد ہے۔‘‘ )اُن کی بات ختم ہوئی)۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ابن ھبیرہ فرماتے ہیں: ارشادِ رسول ﷺ: ’’میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے الخ‘‘ سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفل کو فرض پر کبھی فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ ’نفل‘ (زائد( کا نام اسی لیے نفل پڑا، کیوں کہ وہ فرض کے علاوہ ایک اضافی عمل ہے۔ چنانچہ جب تک فرض کی ادائیگی نہ کی جائے، نفل سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جس نے فرض ادا کی، پھر نفل کا اہتمام کیا اور اس پر مداومت برتی، اُس نے گویا اللہ کی قربت کے حصول کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کو کوشش کی۔
اللہ سبحانہ و تعالی کا نزول
۲۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
{ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات، جب کہ رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جا تا ہے، آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں؟ کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟} ([88])۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم۔
۲۶- اسے امام بخاری نے كتابالتہجد (۲۹/ ۳) (حدیث نمبر: ۱۱۴۵)، کتاب الدعوات (۱۲۸/ ۱۱) (حدیث نمبر: ۶۳۲۱)، کتاب التوحید (۴۶۴/ ۱۳) حدیث نمبر: ۷۴۹۴) میں اور امام مسلم نے كتاب صلاة المسافرين (۵۲۱/ ۱) (حدیث نمبر: ۷۵۸) میں روایت کیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نزول ثابت ہے، جو اس کی جلالت اور بادشاہت کے شایانِ شان ہوگا۔ یہاں نہ لفظ نزول کے ساتھ معنوی چھیڑ چھاڑ کی جائے گی، نہ اللہ کو اس صفت سے عاری قرار دیا جائے گا، نہ اس کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ اس کی مثال دی جائے گی۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایک ضخیم کتاب ہے، جس میں شرعی دلائل وبراہین کی روشنی میں صفتِ نزول کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
جنت کا بیان اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دیکھنے کا ذکر
۲۷- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں۔ جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر حائل ہو گی، جو دیدار سے مانع ہو گی{۔ ([89]) .
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
۲۷- اسے امام بخاری نے كتاب التفسير (۶۲۳/ ۸) (حدیث نمبر: ۴۸۸۸، ۴۸۸۰) اورکتاب التوحید (۴۲۳/ ۱۳) (حدیث نمبر: ۷۴۴۴) میں روایت کیا ہے۔
امام مسلم نے بھی اسے كتاب الایمان (۱۶۳/ ۱) (حدیث نمبر: ۱۸۰) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۴۳۲/ ۱۳) میں لکھتے ہیں:
آپ ﷺ کے فرمان ’’دو جنتیں‘‘ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ} ([90]) (اُن کے علاوہ دو اور جنتیں ہیں( کی طرف اشارہ ہے اور یہ اُسی کی تفسیر ہے۔ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے۔ یعنی: وہ دو جنتیں ہیں۔’’ آنيتهما‘‘ مبتدا ہے اور ’’من فضة‘‘ اس کی خبر ہے۔ حدیث کے پہلے ٹکڑے سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنتیں سونے کی ہیں اور اُن میں چاندی نہیں ہے، جب کہ دوسرے ٹکڑے سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنتیں چاندی کی ہیں، جن میں سونا نہیں ہے۔ لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے کچھ اور ہی معلوم ہوتا ہے، جس میں ہے کہ ہم نے کہا: ہمیں جنت کے بارے میں بتائیں کہ اس کی تعمیر کیسے ہوگی؟ تو آپ نے جواب دیا: ایک اینٹ سونے کی ہوگی اور ایک اینٹ چاندی کی۔ یہ لمبی حدیث ہے، جسے امام احمد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ ([91])
دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ پہلی روایت میں جنت کے برتنوں کی صفت بیان کی گئی ہے اور دوسری روایت میں جنت کی دیواروں کی۔ اس کی تائید بیہقی کی اُس روایت سے بھی ہوتی ہے، جسے انہوں نے کتاب ’’البعث‘‘ میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: }أن اللَّه أحاط حائط الجَنَّة لبنة من ذهب ولبنة من فضة }([92]) (یعنی اللہ تعالیٰ نے جنت کی دیوار اس طرح تیار کی ہے کہ اُس کی ایک اینٹ سونے کی ہے اور دوسری چاندی کی(۔ ([93]) ۔
حافظ ابن حجر علما کے اقوال ذکر کرنے کے بعد رداء کبریا کے بارے میں کہتے ہیں:
ان سب کا نچوڑ یہ ہے کہ رداء کبریا رؤیتِ الہی کی راہ میں حائل ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس جملے میں کچھ مخدوف ہے؛ دراصل رداء کبریا سے پہلے ’’الا‘‘ چھپا ہوا ہے اور تقدیری عبارت ہے: ’’مگر رداء کبریا کے‘‘۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر احسان کرے گا اور اپنے چہرے سے کبریائی کی چادر ہٹا دے گا، جس سے اُن کو دیدارِ الہی نصیب ہو جائےگا۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مؤمن جنت میں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ جائیں گے، تو اگر اللہ اور ان کے مابین اُس ذو الجلال کی ہیبت حائل نہ رہی ہوگی، تو رؤیتِ الہی سے انہیں کوئی چیز نہیں روکتی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان پر اکرام وانعام کرنا چاہے گا، تو اُن کو اپنی رحمت ومہربانی سے ڈھانپ لے گا اور انہیں اپنے دیدار کی قوت بخش دے گا۔
باب: فرمانِ باری تعالیٰ }حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ{۔ )یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے، تو پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا اور وه بلند وباﻻ اور بہت بڑا ہے(۔[سورہ سبأ: 23]۔
کاہنوں کا جھوٹ اور فریب
۲۸- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اصحابِ رسول ﷺ میں سے ایک انصاری آدمی نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ وہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارا ٹوٹا اور بڑی چمک پیدا ہوگئی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جب اس طرح تارے ٹوٹتے تھے، تو اس کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟‘‘
انہوں نے کہا: ہم کہتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا کوئی بڑا آدمی فوت ہوا ہے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ستارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے پر نہیں ٹوٹتا۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ ہمارا رب عزّ وجلّ جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے، تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح پڑھتے لگتے ہیں۔ پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح بیان کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ تسبیح کا سلسلہ آسمانِ دنیا والوں تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہوتے ہیں، وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟ تو وہ ان کو اللہ کی کہی ہوئی بات سے باخبر کرتے ہیں۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے دریافت کرتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ خبر آسمانِ دنیا والوں تک آتی ہے، تو جن ان سے چوری چھپے سن لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سنا دیتے ہیں۔ اب یہ لوگ جتنا ہو بہو بتاتے ہیں، وہ صحیح ہوتا ہے، لیکن یہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں‘‘۔ ([94]) ([95]) ۔
اسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
۲۸- اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: كتاب السلام (1750/4) (حدیث نمبر: 2229)۔
یہ حدیث اہلِ جاہلیت کے اس عقیدے کو باطل قرار دیتی ہے کہ ستارے کسی بڑے شخص کی ولادت یا اس کے فوت ہونے پر ٹوٹتے ہیں۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات فرشتوں کی باتوں کو اُچک لیتے ہیں اور اُسے سننے کے بعد اپنے کاہن دوستوں کو بتا دیتے ہیں، جو اس میں سو جھوٹ ملا دیتے ہیں۔ اسی لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں ہے، جسے امام مسلم نے (۱۵۷۰/ ۱) (حدیث نمبر: ۲۲۲۸) میں روایت کیا ہے: {عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ کاہن لوگ ہمیں کوئی بات ایسی بتاتے تھے، جو سچ ہوجایا کرتی تھی! تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہی بات ہے، جسے جن اُچک لیتا ہے اور اپنے کاہن دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے اور اس میں سو جھوٹ ملاتا ہے{۔ ([96])
۲۹- نوّاس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{جب اللہ تعالی کسی کام کے سلسلے میں وحی کا ارادہ فرماتا ہے، تو وحی کے الفاظ بولتا ہے۔ اس پر اللہ کے خوف کی وجہ سے آسمانوں پر شدید لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ یا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جب آسمان والے اس وحی کو سنتے ہیں، تو ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ پھر سب سے پہلے جبریل علیہ السلام اپنا سر اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالی اپنی وحی پر مشتمل جو کلام چاہتا ہے، ان سے فرماتا ہے۔ پھر جبریل کا گزر فرشتوں کے پاس سے ہوتا ہے۔ وہ جب بھی کسی آسمان پر سے گزرتے ہیں، تو اس آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: اے جبریل! ہمارے رب نے کیا فرمایا؟ جبریل علیہ السلام جواب دیتے ہیں: اللہ نے حق ہی فرمایا اور وہ بلند و برتر ہے۔ پھر سارے فرشتے جبریل کی بات کو دوہرانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ جبریل علیہ السلام وحی لے کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں تک کا حکم اللہ عزّ وجلّ نے انھیں دیا ہوتا ہے{۔ ([97])
اسے ابن جریر، ابن خزیمہ، طبرانی اور ابن حاتم نے روایت کیا ہے اور الفاظ ابن ابو حاتم کے ہیں۔
۲۹- اسے ابن خزيمة نے ’التوحید‘ (۳۴۸/ ۱) (حدیث نمبر: ۲۰۶) میں، آجری نے الشریعۃ (صفحہ: ۲۹۴) میں، ابن ابی عاصم نے ’’السنۃ‘‘ (۲۲۶/ ۱) (حدیث نمبر: ۵۱۵) میں، ابن الاَعرابی نے ’’المعجم‘‘ (۸۸۳) میں، ابو نعیم نے ’’الحلیۃ‘‘ (۱۵۲/ ۵) میں، بیہقی نے ’’الاسماء والصفات‘‘ (صفحہ: ۲۰۲، ۲۰۳) میں، ابن جریر نے ’’التفسیر‘‘ (۶۳/ ۲) میں اور بغوی نے ’’معالم التنزیل‘‘ (۲۹۰، ۲۹۱/ ۵) میں روایت کیا ہے۔
ان سارے حضرات نے اسے نعیم بن حماد خزاعی سے روایت کیا ہے، جو ولید بن مسلم سے روایت کرتے ہیں، وہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن ابو زکریا سے روایت کرتے ہیں، وہ رجاء بن حیوہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نوّاس سے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں (جیساکہ تفسیر ابن کثیر (537/ 3) میں ہے:) میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سُنا ہے:
یہ پوری حدیث ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے مروی نہیں ہے۔
علامہ ناصرالدین البانی ’السنّہ‘ پر اپنی تعلیق میں کہتے ہیں: ’’اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی نعیم بن حماد سیئی الحفظ ہے اور دوسرا راوی ولید بن مسلم ثقہ ہے، تاہم وہ تدلیس تسویہ کرتا تھا‘‘۔
میں کہتا ہوں: اس معنی کی ایک صحیح حدیث موجود ہے، جو اوپر گزر چکی ہے اور وہ اس کی شاہد ہے۔
باب: فرمان باری تعالیٰ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ{۔ (اوران لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی، نہیں کی۔ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وه پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے، جسے لوگ اس کا شریک بنائیں(۔ ]سورہ الزمر: 67]۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا زمین کو اپنی مُٹھی میں پکڑنا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹنا
۳۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے:
(اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مُٹھی میں کر لے گا، آسمان کو داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں؛ زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟) ([98]) اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
۳۰- اسے امامبخاری نے كتاب التوحيد(۳۶۷/ ۱۳) (حدیث نمبر: ۷۳۸۲) میں روایت کیا ہے۔
اور امام مسلم نے كتاب صفۃ الجنۃ والنار (۲۱۴۸/ ۴) (حدیث نمبر: ۲۷۸۷) میں روایت کای ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ زمین کو اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی میں پکڑ لے گا اور آسمان کو دوسرے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ یاد رہے کہ ہمارے رب سبحانہ وتعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں اور اس کا کوئی ہاتھ بایاں نہیں ہے۔ ہمارا رب تعالیٰ مخلوقات کی صفتوں سے بلند و بالا ہے۔
۳۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مُٹھی میں پکڑ لے گا اور آسمان اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔ پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں}۔ ([99])
۳۱- امام بخارینے اسے كتاب التوحيد (۳۹۳/ ۱۳) (حدیث نمبر: ۷۴۱۲) میں قاسم بن يحيى کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبید اللہسے، وہ نافع سے اور وہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ امام مسلم نے اسے صفات المنافقين (2148/ 1) (حدیث نمبر: ۲۷۸۸) میں روایت کیا ہے۔
۳۲- ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کی ایک روایت میں ہے: }اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دن منبر پر یہ آیت پڑھی: }وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ}([100]) (اوران لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی، نہیں کی۔ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وه پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے، جسے لوگ اس کا شریک بنائیں(۔ یہ آیت سناتے وقت اللہ کے رسول ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے۔ اسے ہلا رہے تھے اور آگے پیچھے کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: "اللہ اپنی بزرگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے کہے گا کہ میں ہی زور آور ہوں، میں ہی بڑائی کا مالک ہوں، میں ہی طاقت ور ہو اور میں ہی شرافت و نجابت کا مالک ہوں۔" اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا منبر آپ کو لے کر ڈولنے لگا۔ یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کہ کہیں آپ ﷺ منبر سے گِر نہ پڑیں"!۔
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
۳۲- اسے امام احمد نے ’مسند‘ (۷۲/ ۲)، ابن ابی عاصم نے ’السنۃ‘ (۲۴۰/ ۱) (حدیث نمبر: ۵۴۶) اور ابن خزیمہ نے ’التوحید‘ (۱۷۹/ ۱) (حدیث نمبر: ۹۵، ۹۶) میں حماد بن سلمہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو کہتے ہیں ہم کو خبر دی اسحاق بن عبداللہ نے، وہ روایت کرتے ہیں عبیداللہ بن مقسم سے اور وہ ابن عمر سے۔ علامہ البانی کہتے ہیں: یہ روایت امام مسلم کی شرط پر ہے۔
۳۳- جب کہ امام مسلم نے اسے عبیداللہ بن مقسم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھا کہ وہ کس طرح اللہ کے رسول ﷺ سے کس طرح حدیث نقل کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہی بادشاہ ہوں! آپ ﷺ یہ کہتے ہوئے اپنی انگلیاں کھول اور بند کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’میں ہی بادشاہ ہوں‘‘۔ یہاں تک کہ میں نے منبر کی طرف دیکھا، جو نیچے سے ہِل رہا تھا۔ یہاں تک کہ میں کہنے لگا کہ منبر رسول اللہ ﷺ کو لے کر گِر جائے گا کیا!{؟([101])۔
۳۳- اسے امام مسلم نے كتاب صفات المنافقين )4/ 2148) میں اور ابن ماجہ نے )1/ 71) (حدیث نمبر: 198) ابو حازم عن عبیداللہ بن مقسم کے طریق روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر کس طرح بیان کر رہے ہیں، الخ۔
کائنات میں سب سے پہلے کس چیز کی تخلیق عمل میں آئی؟
۳۴- صحیحین میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اے بنو تمیم! بشارت قبول کرلو۔ انھوں نے جواب دیا کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے۔ کچھ مال بھی دیجئے!
آپ نے فرمایا: اے یمن والو! )بنو تمیم کے لوگوں نے تو خوش خبری قبول نہیں کی، لہذا( تم بشارت قبول کر لو۔
انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔ آپ ہمیں بتائیں کہ سب سے پہلے کس چیز کی تخلیق عمل میں آئی؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ہر چیز سے پہلے موجود تھا۔ اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا۔ اُس نے لوحِ محفوظ میں ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ہے۔
اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عمران! تمہاری اونٹنی رسی توڑ کر بھاگ گئی ہے۔
(عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں( چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ میرے جانے کے بعد کیا بات ہوئی{؟ ([102])۔
۳۴- امام بخاری نے اسے بدء الخلق(۶/ ۲۸۶) (حدیث نمبر: ۳۱۹۰، ۳۱۹۱) اور کتاب التوحید (۱۳/ ۴۰۳) (حدیث نمبر: ۷۴۱۸) میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر (۲/ ۴۳۷) میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیحین میں کئی مقامات پر مختلف لفظوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔
میں کہتا ہوں: مجھے یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں ملی۔
’’اقبلوا البشرى‘‘ : یعنی: میری وہ باتیں قبول کرو، جن پر عمل کرنے کے نتیجے میں تمہیں جنت کی بشارت ملنے والی ہے، جیسے دین کی سمجھ اور اس پر عمل آوری وغیرہ۔ دیکھیں: فتح الباری )6/ 288)۔
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے پہلے کسی چیز کا وجود نہ تھا۔ نہ پانی کا، نہ عرش کا اور نہ ان دونوں کے علاوہ کسی اور چیز کا؛ اس لیے کہ یہ سب اللہ کے ماسوا ہیں۔
آپ ﷺ کے فرمان: "وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ "([103]) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے پانی کو پہلے ہی پیدا فرما دیا تھا، پھر اُس پانی پر اپنا عرش بنایا تھا۔ امام مسلم نے عبداللہ بن عمرو سے مرفوعًا روایت کیا ہے: }اللہ نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوق کی تقدیر متعین کر دی تھی۔ اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا{۔ ([104]) ([105])۔ آپ ﷺ کے فرمان: "وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ"([106]) کے اندر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پانی اور عرش سے اس کائنات کا آغاز ہوا ہے، اس لیے کہ ان دونوں کی تخلیق آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے ہوئی تھی اور اُس وقت عرش کے نیچے صرف پانی تھا۔
احمد اور ترمذی نے ابو رزین العقیلی سے مرفوعًا روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح کہا ہے کہ: }پانی کی تخلیق عرش سے پہلے کی گئی ہے{۔ ([107]) ([108]) جہاں تک اُس روایت کا تعلق ہے، جسے احمد اور ترمذی نے عبادہ بن صامت سے مرفوعًا رویت کیا ہے اور ترمذی نے اس کی تصحیح کی ہے کہ: }اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ پھر اُس سے کہا: لکھ! چنانچہ وہ چل پڑا اور تا قیامت رونما ہونے والی ساری چیزوں کو لکھ ڈالا{۔ ([109]) ([110]) تو اس کے اور اس سے پہلے والی حدیث کے مابین تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ قلم کی تخلیق کی اولیت پانی اور عرش کے علاوہ دیگر چیزوں کی نسبت سے کہی گئی ہے۔ تطبیق کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعہ لکھی جانے والی چیزوں کی اولیت کی بات کہی گئی ہے۔ یعنی اُس سے کہا گیا لکھ اُس چیز کو جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا کیا ہے۔ دیکھیں: فتح الباری (6/ 289)۔
اللہ تعالی کو کسی مخلوق کے سامنے سفارشی کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا
۳۵- جبیر بن محمد بن جبیر بن مطعم سے مروی ہے، وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے یعنی جبیر کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: {ایک دیہاتی نے نبی ﷺ کے پاس آ کر کہا کہ یا رسول اللہ! جانیں مشکل میں پڑگئیں، بال بچے بھوک سے پریشان ہوگئے، اموال گھٹ گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب سے بارش کی دعا فرمائیں۔ ہم آپ کو اللہ کے حضور سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اللہ کو آپ کے حضور سفارشی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
تجھ پر افسوس ہے! کیا تجھے پتہ بھی ہے کہ کیا کہہ رہے ہو؟ پھر آپ سبحان اللہ پڑھنے لگے اور اتنی دیر تک اسے دوہراتے رہے کہ اس کا اثر صحابہ کرام کے چہروں پر ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا: ’’تجھ پر افسوس! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کیا ہے؟ )یعنی اس کا کیا مقام اور کیا شان ہے؟( اس کا عرش اس کے آسمانوں کے اوپر اس طرح ہے۔" پھر آپ ﷺ نے اپنے اوپر اپنی انگلیوں سے گنبد کی شکل بناکر دکھایا۔"آسمان عرش کے وزن سے چرچراتا ہے، جیسے کجاوہ سوار کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے"{۔
اسے امام احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔
۳۵- اسے ابو داود(۴۷۲۶)، ابن خزیمہ نے ’التوحید‘ (صفحہ: ۶۹)، آجری نے ’الشریعۃ‘ (۲۹۳) اور ابن ابی عاصم نے ’السنۃ‘ (۵۸۵) میں ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس میں ابن اسحاق نامی راوی کا عنعنہ ہے، جو کہ ایک مدلس راوی ہے )اور مدلس راوی کی عنعنہ والی روایت ضعیف ہوتی ہے(۔
تنبیہ: مجھے یہ حدیث مسند احمد میں نہیں ملی۔
ابن آدم کی تکذیب پر اللہ تعالیٰ کا صبر
۳۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ عزّ وجلّ نے فرمایا: ”ابن آدم نے مجھے جھٹلایا، حالاں کہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی، حالاں کہ اسے اس کا حق نہیں تھا۔ جہاں تک اس کا مجھے جھٹلانے کی بات ہے، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ مجھے پہلی بار پیدا کرنے کی طرح دوبارہ ہرگز پیدا نہیں کرے گا۔ حالاں کہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ جہاں تک اس کا مجھے گالی دینے کی بات ہے، تو وہ اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے۔ حالاں کہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں۔ نہ میری اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ ہی کوئی میرے برابر ہے{۔ ([111])
۳۶- اسے امام بخاری نے كتاب التفسير(۸/ ۷۳۹) (حدیث نمبر: ۴۹۷۴) میں روایت کیا ہے۔
’’الصمد‘‘: (بے نیاز) اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ جس سے مراد وہ سردار ہے، جس پر ساری سرداریاں ختم ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’الصمد‘ ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ذات کو کہتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ صمد اُسے کہتے ہیں، جس کا پیٹ نہ ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صمد وہ ذات ہے، جس کی طرف ضرورت کے وقت لوگ قصد کرتے ہیں۔ دیکھیں: ’النہایہ‘ )3/ 52)۔
امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: ’’عرب اپنے اشراف کو صمد کہتے ہیں‘‘۔
۳۷- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے:
{جہاں تک اُس کے مجھے گالی دینے کی بات ہے، تو اس سے مراد اس کا یہ کہنا ہے کہ میری اولاد ہے۔ جب کہ میری ذات اس بات سے پاک ہے کہ میں کسی کو بیوی یا اولاد بناؤں{۔ ([112]) ۔
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
۳۷- امام بخاری نے اسے کتاب التفسير (۸/ ۱۶۸) (حدیث نمبر: ۴۴۸۲) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی ابوالیمان نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو خبر دی شعیب نے، جو عبداللہ بن ابی حسین سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے نافع بن جبیر نے حدیث بیان کی، جو روایت کرتے ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ ‘ (۸/ ۱۶۸) میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے اولاد بنانے کو گالی سے تعبیر کیا ہے، اس لیے کہ اس میں اُس کی تنقیص پائی جاتی ہے۔ کیوں کہ اولاد کے لیے ماں کا ہونا ضروری ہے، جو اس کے حمل کا بوجھ اٹھائے پھر اُس کو جنم دے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پہلے اُس کی شادی ہو اور شادی کرنے والے کے اندر اس کی خواہش ہونی ضروری ہے، جب کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان ساری باتوں سے منزّہ و پاک ہے۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ (۸/ ۷۴۰) میں کہتے ہیں:
چوں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قدیم ہی سے واجب الوجود اور ساری چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے سے موجود ہے اور ہر پیدا ہونے والی چیز نئی ہوتی ہے، اس لیے اس کے والد ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح چوں کہ اس کی پیدا کردہ کوئی مخلوق اس کے مشابہ نہیں ہے اور اس کی ہم نشینی کے لائق بھی نہیں ہے کہ اسی کی جنس سے اس کی بیوی ہو اور بچے دے، اس لیے اس کے بچے ہونے کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: }أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ{۔ ([113]) (اللہ تعالیٰ کے اوﻻد کہاں ہوسکتی ہے، حاﻻں کہ اس کے کوئی بیوی تو ہے نہیں؟)۔
زمانے کو بُرا بھلا کہنے کی حُرمت
۳۸- صحیحین ہی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے۔ حالاں کہ میں ہی زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں سارے معاملے ہیں۔ رات اور دن کو پلٹنے کا کام میں ہی کرتا ہوں{۔([114])۔
۳۸- اسے امام بخاری نے کتاب التفسير(۸/ ۵۷۴) (حدیث نمبر: ۴۸۲۶)نیز کتاب التوحید (۱۳/ ۴۶۴) (۷۴۹۱) اور امام مسلم نے کتاب الادب (۴/ ۱۷۶۲) (حدیث نمبر: ۲۲۴۶) میں روایت کیا ہے۔
’’میں ہی زمانہ ہوں‘‘ کے معنی بتاتے ہوئے ’فتح الباری‘ (۸/ ۵۷۵) میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
’’امام خطابی فرماتے ہیں: یعنی میں ہی زمانے کا خالق و مالک اور اُن امور کا تدبیر کار ہوں، جن کی نسبت لوگ زمانے کی طرف کرتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی اس بنا پر زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے کہ وہی ان امور کو انجام دیتا ہے، تو اس کی گالی اس کے رب کی طرف لوٹتی ہے، جو اس کا خالق وفاعل ہے‘‘۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم (۳/ ۱۵) میں کہتے ہیں: عرب موت، بڑھاپے، مال کی بربادی یا اس طرح کے دیگر حوادث اور مصائب کے رونما ہونے کی وجہ سے زمانے کو بُرا بھلا کہتے تھے۔ وہ کہتے: ’ہائے زمانے کی بربادی وغیرہ‘۔ گویا حدیث کا مطلب ہوا کہ تم مصائب نازل کرنے والے کو بُرا بھلا مت کہو، اس لیے کہ اگر تم مصائب نازل کرنے والے کو بُرا بھلا کہوگے، تو یہ گالی اللہ تعالیٰ کو لگے گی۔ کیوں کہ وہی مصیبتیں نازل کرنے والا ہے۔ رہی بات دہر (زمانے( کی، تو اس کا کوئی رول نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی دیگر بہت ساری مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے۔
چنانچہ ’’اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے‘‘۔ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ ہی مصائب وحوادث کا فاعل اور کائنات کی تخلیق کرنے والا ہے۔ واللہ اعلم۔
باب: تقدیر پر ایمان
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: }البتہ بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے، وه سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے{۔ ([115]) [سورہ الأنبياء: 101] ۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }اور اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کیے ہوئے ہیں{۔ ([116]) [ سورہ احزاب: 38]۔
مزید ارشاد ہے: }حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے{۔ ([117]) [سورہ الصافات: 96]۔
مزید فرمانِ باری تعالیٰ ہے: }بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے{۔ ([118]) [سورہ قمر: 49]۔
مخلوق کی تقدیر کب لکھی گئی؟
۳۹- صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
{اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوق کی تقدیر لکھ دی تھی۔ آپ فرماتے ہيں کہاُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا{۔([119])
۳۹- اسے امام مسلم نے كتاب القدر (۴/ ۲۰۴۴) (حدیث نمبر: ۲۶۵۳) میں ابن وھب کے طریق سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: مجھ کو ابو ہانی خولانی نے خبر ید، وہ روایت کرتے ہيں ابو عبد الرحمن حبلی سے اور وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
’قدر‘ بغیر نقطہ والی دال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۱/ ۴۷۷) میں لکھتے ہیں: ’’کرمانی کہتے ہیں کہ’قدر‘ سے مراد اللہ کا حکم ہے۔ جب کہ علما کہتے ہیں کہ ’قضاء‘ ازل کے کلی و اجمالی حکم کو اور ’قدر‘ اس حکم کی جزئیات وتفصیلات کو کہتے ہیں۔
ابوالمظفر سمعانی کہتے ہیں: ’’اس سلسلے کی تمام جان کاریاں کتاب وسنت پر موقوف ہیں۔ یہاں قیاس آرائی اور عقلی گھوڑے دوڑانے کی گنجائش نہیں۔ جو لوگ اسے توقیفی طور پر سمجھنے سے احتراز کرتے ہیں، وہ حیرت کے سمندر میں ٹامک ٹوئیاں مارتے اور بھٹکتے رہتے ہیں، انہیں آنکھوں کی شفا ملتی ہے نہ دلوں کا سکون؛ اس لیے کہ تقدیر اللہ تعالیٰ کے اسرارِ سربستہ میں سے ایک سر ہے۔ علیم وخبیر اللہ نے اس کا علم اپنے پاس رکھا ہے اور ایک خاص حکمت کے تحت اسے مخلوقات کی رسائی سے باہر رکھا ہے۔ نہ کسی بھیجے ہوئے نبی کو اس سے واقفیت عطا کی ہے نہ کسی مقرب فرشتے کو‘‘۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ طبرانی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث حسن سند سے مرفوعًا روایت کی ہے: }جب تقدیر کا ذکر ہو، تو سکوت اختیار کرو{۔ ([120])
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’جہاں تک تقدیر پر ایمان لانے کی بات ہے، تو یہ چار باتوں پر مشتمل ہے:
پہلی بات: اللہ تعالی، جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب جانتا ہے۔ نیز اسے بندوں سے متعلق دیگر امور جیسے بندوں کے احوال، ان کی روزی، موت و زیست اور اعمال ساری باتیں معلوم ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مخفی نہیں ہے۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: }بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے{۔ ([121]) اللہ عزّ وجلّ کا مزید ارشاد ہے: }تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے{۔ ([122])
دوسری بات: قضا وقدر کی ساری باتیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے لکھ رکھی ہیں۔ جیساکہ اس کا فرمان ہے: }زمین جو کچھ ان سے گھٹاتی ہے وه ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے{۔ ([123]) اس کا مزید فرمان ہے: }اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے{۔ ([124]) وہ ایک اور جگہ کہتا ہے: }کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے{۔ ([125])
تیسری بات: اللہ کی مشیئتِ نافذہ پر ایمان یعنی وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا، نہیں ہوتا۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: }اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے{۔ ([126]) اللہ عزّ وجلّ کا مزید ارشاد ہے: }وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے، اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے( کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے{۔ ([127]) وہ ایک اور جگہ فرماتا ہے: }اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے، کچھ نہیں چاه سکتے{۔([128])
چوتھی بات: اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی نے ساری موجودات کو پیدا کیا ہے، اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے، نہ کوئی اور رب۔ جیساکہ اُس کا فرمان ہے: {اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے{۔ ([129]) اس کا مزید ارشاد ہے: }لوگو! تم پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے کیے ہیں، انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے، جو تمہیں آسمان وزمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟ }([130])
اس طرح اہلِ سنت وجماعت کے یہاں ایمان بالقدر )تقدیر پر ایمان( انہی چار باتوں پر مشتمل ہے، بعض اہلِ بدعت کے برخلاف، جنہوں نے ان باتوں کا انکار کیا ہے!۔‘‘ )شیخ کی بات ختم ہوئی)۔
عمل کی ضرورت اور تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھنے سے ممانعت
۴۰- علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{"تم میں سے کوئی ایسا نہیں، جس کاجہنم کا ٹھکانا اور جنت کا ٹھکانا لکھ نہ دیا گیا ہو"۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم اپنے نوشتۂ تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟! آپ ﷺ نے فرمایا:
’’عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کو اسی کی توفیق دی جاتی ہے، جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ جو نیک بختوں میں سے ہوتا ہے، اسے نیک بختوں والے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور جو بدنصیبوں میں سے ہوتا ہے، اسے بدنصیبوں والے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے‘‘۔ پھر آپ ﷺ نے ان آیات کی تلاوت کی: }چنانچہ وہ، جس نے دیا، تقویٰ کی راہ اختیار کی اور اچھی راہ کی تصدیق کی، تو ہم اس کے لیے جلد آسانی کا سامان کریں گے{۔ ([131]) [سورہ اللیل: ۵-۷]۔صحیح بخاری و مسلم۔
۴۰- اسے امامبخاری نے كتاب الجنائز(۳/ ۲۲۵) (حدیث نمبر: ۱۳۶۲) نیز کتاب التفسیر (۸/ ۷۰۹) (۴۹۴۸، ۴۹۴۹) اور امام مسلم نے کتاب القدر (۴/ ۲۰۳۹) (حدیث نمبر: ۲۶۴۷) میں روایت کیا ہے۔
امام بغوی (۱/ ۱۳۳)نے لکھا ہے کہ امام خطابی کہتے ہیں: ’’صحابہ کا یہ کہنا: کیوں نہ ہم اپنے نوشتۂ تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟!{ ان کی طرف سے عبادت کے عمل دخل کو ختم کرنے کا مطالبہ تھا۔ اسے اس طور سے سمجھا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا سب کچھ لکھے ہونے کی اطلاع دینا، ایک طرح سے ان کے بارے میں اللہ کے غیبی علم کی اطلاع دینا تھا، جو لوگوں کے خلاف جا رہا تھا۔ لہذا انھوں نے سوچا کہ اسے عمل سے کنارہ کشی کی دلیل بنا لیا جائے۔ ایسے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں بتایا کہ یہاں دو باتوں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، جن میں سے کوئی ایک بات دوسری بات کے اثر کو زائل نہیں کرتی۔ پہلی بات مخفی ہے، یعنی اللہ کا حکم جو جنت یا جہنم میں جانے کا اصل سبب ہے۔ جب کہ دوسری بات ظاہری ہے، یعنی بندے کی بندگی، جو لازمی طور پر ایک بندگی کی نشانی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ نشانی دراصل خیالی ہے اور حقیقی علم کا فائدہ نہیں دیتی۔ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اس لیے کیا گیا اور انھیں عبادت کا حکم اس لیے دیا گیا، تاکہ ان کی نگاہوں سے اوجھل سبب کی وجہ سے ان کا خوف بھی قائم رہے اور انھیں دکھنے والے ظاہری سبب کی بنا پر ان کی مید بھی نہ ٹوٹنے پائے۔ اس طرح، خوف و رجا، دونوں کو عبادت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، تاکہ ایمان کا وصف مکمل ہو سکے۔ پھر یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہر آدمی کے لیے اسی راستے پر چلنا آسان کر دیا گیا ہے، جس کے لیے اسے پیدا کیا گيا ہے اور دنیا میں انسان کا عمل آخرت میں اس کے انجام کی دلیل ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت کی: }جس نے دیا )اللہ کی راه میں( اور ڈرا )اپنے رب سے( اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے{۔ ([132]) {لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی۔۔۔ }([133])۔ ]سورہ الليل: 5-8] یہ امور ظاہری حکم سے متعلق ہیں۔ ان کے پیچھے ان کے بارے میں اللہ عزّ وجلّ کا علم ہے، جو حکیم و خبیر ہے۔ اس سے اس کے کسی کام کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا، لیکن بندوں سے ان کے کاموں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ان دونوں امور کی مثال یہ ہے کہ اللہ نے روزی تقسیم کرنے کے باوجود کسبِ معاش کا حکم دیا اور زندگی کی مدت متعین کرنے کے باوجود علاج کا حکم دیا ہے۔ آپ ان دونوں میں غیب کو علتِ موجبہ اور ظاہر کو سبب مخیل پائیں گے۔ جب کہ عوام وخواص سب کا ماننا ہے کہ دونوں جگہوں میں باطن کی وجہ سے ظاہر کو نہیں چھوڑا جائے گا۔
آدم علیہ السلام کی پشت میں اللہ کا ہم سے عہد و قرار لینا
۴۱- مسلم بن یسار جہنی سے مروی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا گیا: }اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا{۔ ([134]) [سوره الأعراف: 172] تو عمر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو، جب آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو فرماتے ہوئے سنا ہے:
{اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر اُن کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور اس سے ان کی کچھ اولاد کو نکال کر فرمایا: ’’میںنے انھیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنتیوں والے کام کریں گے‘‘۔ پھر ان کی پُشت پر ہاتھ پھیرا اور اس سے کچھ اولاد کو نکال کر فرمایا: ’’میں نے انھیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جہنمیوں والے کام کریں گے‘‘۔ اس پر ایک آدمی نے پوچھا: یارسول اللہ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ جب کسی آدمی کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے، تو اسے جنتیوں والے کام پر لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے اعمال کرتے ہوئے مرتا ہے اور ان اعمال کے نتیجے میں جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اس کے برخلاف جب کسی آدمی کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے، تو اسے جہنمیوں کے کام پر لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال کرتے ہوئے مرتا ہے اور اس کے نتیجے میں جہنم میں داخل ہو جائے گا‘‘}۔
اسے مالک اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر بتایا ہے۔
ابوداؤد نے اسے ایک دوسرے طریق سے مسلم بن یسار سے روایت کیا ہے، جو نعیم بن ربیعہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ عمر رضی اللہ عنہ سے۔
۴۱- اسے امام مالک نے ’موطا‘ کتاب القدر (۲/ ۸۹۸-۸۹۹) میں روایت کیا ہے اور امام مالک ہی کے طریق سے ابو داؤد نے کتاب السنۃ (۴/ ۲۲۶) (حدیث نمبر: ۴۷۰۳)،امام ترمذی نے کتاب التفسیر (۵/ ۲۴۸) (حدیث نمبر: ۳۰۷۶)، امام نسائی نے ’السنن الکبری‘ (۶/ ۲۴۷) (حدیث نمبر: ۱۱۱۹۰) اور آجری نے ’الشریعۃ‘ (صفحہ: ۱۷۰) میں، ساتھ ہی ابن حبان
'موطا'، كتاب القدر )2/ 898-899) میں روایت کیا ہے اور مالک ہی کے طریق سے ابوداؤد نے كتاب السنّة )4/ 226) (حدیث نمبر: 4703)، امام ترمذي نے کتاب التفسير (5/ 248) (حدیث نمبر: 3075)، امام نسائي نے 'السنن الكبری' (6/ 247) (حدیث نمبر: 11190) اور آجري نے 'الشريعة' (صفحہ 170) ) میں،
ساتھ ہی ابن حبان (حدیث نمبر: ۶۱۶۶) نے، بیہقی نے ’الاسماء والصفات‘ (صفحہ: ۳۲۵) میں، امام بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱/ ۱۳۸) (حدیث نمبر: ۷۷) اور امام حاکم نے ’المستدرک‘ (۱/ ۲۷) میں روایت کیا ہے، جو زید بن ابی انیسہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید سے روایت کرتے ہیں اور وہ مسلم سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ’’یہ روایت حسن ہے۔ مسلم بن یسار کی عمر سے سماعت ثابت نہیں ہے۔ جب کہ بعض لوگوں نے مسلم بن یسار اور عمر کے مابین ایک مجہول راوی کا اضافہ کیا ہے‘‘۔
جب کہ حاکم کہتے ہیں کہ یہ روایت امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حالاں کہ ذہبی کہتے ہیں: اس میں ارسال پایا جاتا ہے۔
اور حاکم (2/ 324، ۳۲۵) نےمسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
اور حاکم (۲/ ۵۴۴) مزید کہتے ہیں: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
اسے ابوداؤد نے 'کتاب السُنّہ' )4/ 226) (حدیث نمبر: 4704 ) میں عمر بن جعثم کے طریق سے روایت کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی زید بن ابی انیسہ نے، جو عبدالحمید بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں، وہ مسلم بن یسار سے روایت کرتے ہیں اور وہ نعیم بن ربیعہ سے روایت کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا... ۔ مالک کی حدیث زیادہ مکمل ہے اور نعیم مجہول راوی ہے۔
منذری کہتے ہیں: لیکن اس حدیث کا معنی نبی ﷺ سے، بہت سی معتبر سندوں سے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے، جن کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا۔ ان سبھی حدیثوں میں ہے کہ آپ سے مذکورہ آیت میں مذکور آدم کی اولاد کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالنے کے بارے میں پوچھا گیا۔
’’وإِذ أخذ‘‘ :یعنی جب نکالا۔
’’ثم مسح ظهره‘‘: یعنی آدم کی پُشت پر ہاتھ پھیرا۔
’’ففيم العمل؟‘‘: یعنی اے اللہ کے رسول! جب آپ ہی
کے بقول سب کچھ پہلے سے متعین ہے، تو عمل کا فائدہ کہاں ہوگا یا عمل کا تعلق کس چیز سے ہے یا ہمیں عمل کا حکم کیوں دیا گیا ہے!؟
’’استعمله بعمل أهل الجَنَّة‘‘ یعنی اُسے جنت کی جانب لے جانے والا عمل کرنے والا بناتا ہے اور اسی کی توفیق دیتا ہے۔
۴۲- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہم سے بقیہ بن ولید نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو خبر دی زبیدی محمد بن ولید نے، جو روایت کرتے ہیں راشد بن سعد سے، وہ روایت کرتے ہیں عبدالرحمن بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے والد سے اور وہ ہشام بن حکیم بن حزام سے کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اعمال شروع ہوتے ہیں یا ان کا فیصلہ پہلے ہی سے کیا ہوا ہوتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے جب اولادِ آدم کو اُن کی پُشت سے نکالا، تو انہیں خود اُن کے اوپر گواہ بنایا۔ پھر انہیں اپنی ہتھیلیوں پر پھیلایا اور کہا: یہ لوگ جنت کے لیے ہیں اور یہ لوگ جہنم کے لیے؛ چنانچہ اہلِ جنت کو جنت والوں کے عمل کی توفیق دی جاتی ہے اور اہلِ جہنم کو جہنم والوں کے عمل کی توفیق کی دی جاتی ہے‘‘}۔
۴۲- یہ حدیث صحيح ہے۔
اسے بخاری نے ’تاریخ کبیر‘ (۸/ ۱۹۱-۱۹۲) میں روایت کیا ہے۔
ماں کے پیٹ میں انسان کے عمل، عمر، روزی اور بدبختی یا نیک بختی کا لکھاجانا
۴۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے اللہ کے رسول ﷺ نے، جو سچے بھی ہیں اور جن کی سچائی کی گواہی بھی دی گئی ہے، فرمایا:
{تم میں سے ہر ایک کے مادۂ تخلیق کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی شكل میں جمع كيا جاتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ اس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتوں کے ساتھ بھیجتا ہے، جو اس کے عمل، عمر، روزی اور نیک بخت یا بدبخت ہونے کی بات لکھتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، تو اس پر نوشتهٔ تقدیر غالب آجاتا ہے اور وہ جہنم والوں کا عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر جنت میں داخل ہو جاتا ہے}۔ ([135])
صحیح بخاری و صحیح مسلم۔
۴۳- اسے امام بخاری نے كتاب بدء الخلق(۶/ ۳۰۳) (حدیث نمبر: ۳۲۰۸)، کتاب الانبیاء (۶/ ۳۶۳) (حدیث نمبر: ۳۳۳۲)، کتاب القدر (۱۱/ ۴۷) (حدیث نمبر: ۶۵۹۴)، کتاب التوحید (۱۳/ ۴۴۰) (حدیث نمبر: ۷۴۵۴) میں اور امام امام مسلم نے کتاب القدر (۴/ ۲۰۳۶) (حدیث نمبر: ۲۶۴۳) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۱/ ۴۷۹) میں لکھتے ہیں:
’نطفہ‘ سے مراد منی ہے۔ جب کہ اس کے اصل معنی صاف شفاف قلیل پانی کے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب مرد کی منی عورت کی منی سے ہمبستری کے وقت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جنین کی تخلیق کرنا چاہتا ہے، تو اس کے اسباب مہیا فرما دیتا ہے۔
ابن اثیر ’النہایہ‘ میں لکھتے ہیں: یہاں جمع ہونے سے مراد نُطفے کا رحمِ مادر میں جمع ہونا لیا جا سکتا ہے۔ یعنی نُطفہ چالیس دنوں تک رحم مادر میں جمع رہتا ہے اور اس بیچ اس کی تخمیر عمل میں آتی ہے، تاکہ صورت گری ممکن ہو سکے، جس کے بعد تخلیق کا مرحلہ آتا ہے۔
’’ثم يكون علقة‘‘:یہاں ’یکون‘ بمعنی ’یصیر‘ ہے۔ مطلب نُطفہ اس صفت کے ساتھ چالیس دن رہتا ہے، پھر اُس کے بعد والی صفت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
’’علقہ‘‘: جما ہوا خون۔ اسے یہ نام اُس میں موجود رُطوبت اور اُس کی سابقہ حالت سے تعلق کی بنا پر دیا گیا ہے۔
’’مضغہ‘‘: گوشت کا ٹکڑا۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ وہ چباکر کھانے کے برابر ہوتا ہے۔
رزق لکھنے سے مراد اس کی فراخی یا تنگی مقرر کرنا اور یہ متعین کرنا ہے کہ وہ حلال طریقے سے آئے گی یا حرام طریقے سے۔ عمر لکھنے سے مراد یہ لکھنا ہے کہ وہ لمبی ہوگی یا مختصر اور عمل لکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نیک ہوگا یا بد۔
’’شقي أم سعيد‘‘: یعنی فرشتہ دونوں الفاظ میں سے ایک لکھ دیتا ہے۔ مثلًا وہ لکھ دیتا ہے کہ اس جنین کی عمر اتنی ہوگی، اسے روزی اتنی ملے گی، وہ ایسا ایسا عمل کرے گا اور اپنے خاتمہ کے اعتبار سے وہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت، جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
اس حدیث میں قناعت پر ابھارا گیا ہے اور لالچ پر سخت متنبہ کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب روزی پہلے سے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، تو اس کی طلب میں بہت زیادہ سر مارنا بے سود ہے۔ رہی بات روزی کمانے کی، تو اسے اس لیے مشروع کیا گيا ہے، کیوں کہ وہ دنیا کے ان اسباب میں سے ہے، جن کا استعمال اللہ کی حکمت کے عین مطابق ہے۔
اس حدیث کے اندر اس بات کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ اعمال ہی جنت یا جہنم میں جانے کا سبب ہیں۔ تاہم اس حدیث کا اُس حدیث سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ }لن يدخل أحدكم الجَنَّة بعمله}([136]) ([137]) (تم میں سے کوئی محض اپنے اعمال کی بنا پر ہرگز جنت میں نہیں جا سکتا(۔ اس لیے کہ اگر اللہ کی رحمت بندے کے شاملِ حال نہ ہو، تو اُسے کبھی جنت نصیب نہیں ہوگی۔ انسان کا عمل، چاہے وہ جتنا بڑا ہو، اکیلے جنت میں داخلے کا موجب نہیں بن سکتا اور اسی طرح وہ جنت کا عوض بھی نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ اگر وہ اللہ چاہت کے عین مطابق بھی انجام پا جائیں، تب بھی اللہ کی نعمت کے برابر نہیں ہو سکتا، بلکہ سچائی یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی کا عمل اللہ کی ایک نعمت کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں اللہ کی ساری نعمتیں شکر کی محتاج رہ جائیں گی اور بندہ ان کے شکر کا حق کبھی ادا نہیں کر سکتا۔ اب اگر اللہ ایسی صورت میں بندے کو عذاب دیتا ہے، تو عذاب دینے میں وہ قطعا ظالم نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر اس صورت میں بندے پر رحم کرتا ہے، تو اُس کی یہ مہربانی اس بندے کے عمل سے کہیں بہتر ہوگی۔ اس حدیث میں اس بات کا اشارہ بھی موجود ہے کہ جس کے بارے میں نوشتۂ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہو کہ وہ بدبخت ہے، وہ دنیا میں اپنے حال سے قطعا آگاہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جس کے بارے میں لکھ دیا گیا ہو کہ وہ نیک بخت ہے، وہ بھی اپنے حال سے واقف نہیں ہوتا۔ لیکن بسا اوقات ظن غالب ثابت کرنے والی علامتوں کے ذریعے کسی کی نیک بختی کا اندازہ ہو جاتا ہے اور لوگوں کی زبان پر جاری ذکر خیر سے بھی اس اندازے کو قوت ملتی ہے۔
اس حدیث میں بُرے خاتمہ سے اللہ کی پناہ مانگنے پر ابھارا گیا ہے۔
رحمِ مادر میں نُطفہ ٹھہرنے کے بعد اس کے پاس فرشتے کا آنا
۴۴- حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جسے وہ نبی ﷺ تک پہنچاتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
{رحمِ مادر میں جب نطفہ چالیس یا پینتالیس دن کا ہوجاتا ہے، تو فرشتہ اُس نطفے کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: اے رب! یہ بد بخت ہے یا نیک بخت؟ چنانچہ جیسا حکم ملتا ہے، دونوں فرشتے اسے لکھ دیتے ہیں۔ پھر وہ فرشتہ کہتا ہے: اے میرے رب! یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ پھر جو حکم ملتا ہے، اسے دونوں فرشتے لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح اس کا عمل، اس کا اثر، اس کی عمر اور اس کی روزی سب لکھ دی جاتی ہے۔ پھر صحیفے لپیٹ دیے جاتے ہیں اور ان کے اندر نہ اضافہ کیا جاتا ہے اور کمی کی جاتی ہے{۔ ([138])۔
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۴۴- اسے امام مسلم نے كتاب القدر )4/2037) (حدیث: 2644 ) میں روایت کیا ہے۔مسلم (۴/ ۲۰۳۸) نے عکرمہ بن خالد اور کلثوم کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابوالطفیل سے اور وہ حذیفہ سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۱/ ۴۸۲) میں لکھتے ہیں:
’’يدخل الملك‘‘: یہاں 'الملك' میں 'الف لام' عہد کے لیے ہے اور اس سے مراد عہد مخصوص ہے۔ دراصل اس سے مراد وہ فرشتے ہیں، جو جنین پر مامور ہوتے ہیں، جیساکہ حذیفہ بن اسید کی روایت میں ہے کہ ’’ایک فرشتہ جنین پر مامور کردیا جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے اس میں جانے والے لوگ پیدا کر دیے، جب کہ وہ لوگ اپنے آبا کی پُشت میں تھے اور جہنم کے لیے اس میں جانے والے لوگ پیدا کردیے، جب کہ وہ اپنے آبا کی پُشت میں تھے۔
۴۵- صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ کو ایک انصاری بچے کے جنازے میں بُلایا گیا، تو میں نے کہا کہ مبارک ہو! یہ تو جنت کے گوریوں میں سے ایک گوریّہ ہے۔ نہ کوئی بُرا کام کیا، نہ اُس کی عمر کو پہنچا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:
{اے عائشہ! کیا اس کے علاوہ نہیں ہو سکتا! اللہ نے جنت کے لیے اس میں جانے والے لوگ پیدا کر رکھے ہیں۔ انھیں جنت کے لیے اس وقت پیدا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے آبا کی پُشت میں تھے۔ اسی طرح جہنم کے لیے اس میں جانے والے لوگ پیدا کر رکھے ہیں۔ انھیں جہنم کے لیے اس وقت پیدا کیا گيا تھا، جب وہ اپنے آبا کی پُشت میں تھے{۔ ([139])
اسے مام مسلم نے كتاب القدر )4/2050) (حدیث نمبر: 2662 ) میں روایت کیا ہے۔
نووی ’شرح مسلم‘ (۱۶/ ۲۰۷) میں لکھتے ہیں:
قابلِ ذکر مسلم علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے جو بچے (بچپن میں) انتقال کرجاتے ہیں، وہ جنتی ہیں؛ اس لیے کہ وہ شرعی طور پر مکلف )پابندِ احکام وقوانین( نہیں ہوتے۔ جب کہ بعض غیر معتد بہ لوگوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث کی بنا پر توقف اختیار کیا ہے۔
جب کہ علما نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ شاید آپ ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بغیر کسی قطعی دلیل کے حتمی رائے قائم کرنے میں جلد بازی دکھانے سے منع کیا تھا۔ جیسا کہ جب سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ آپ اسے عطا کریں، کیوں کہ میں اسے مؤمن سمجھتا ہوں، تو آپ ﷺ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ’’بلکہ مسلم کہو‘‘۔ ([140])
جب کہ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بات اُس وقت کہی ہو، جب آپ کو معلوم نہ رہا ہو کہ مسلمانوں کے فوت شدہ بچے جنت میں جائیں گے۔ لیکن جب آپ کو اس بات کا علم ہوگیا، تو اپنے اس فرمان میں اس کی اثبات کردی: }جس مسلمان کے تین نابالغ بچے وفات پاجائیں، اسے اللہ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا{۔ ([141]) ([142]) اس معنی کی اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں موجود ہیں۔ واللہ اعلم۔
جہاں تک مشرکین کے بچوں کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں تین اقوال ہیں: زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آبا واجداد کے حکم میں ہوں گے اور جہنم میں جائیں گے۔ جب کہ ایک جماعت نے توقف اختیار کیا ہے اور تیسرا گروہ، جو سب سے صحیح رائے رکھتا ہے، اُن محققین علما کا ہے، جن کا موقف ہے کہ وہ جنتی ہوں گے۔ یہ حضرات اس سلسلے میں مختلف دلائل سے استدلال کرتے ہیں، جن میں ابراہیم علیہ السلام کی یہ حدیث بھی شامل ہے: {نبی ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا اور ان کے چاروں طرف لوگوں کے بچوں کو دیکھا۔ جب آپ نے یہ واقعہ سنایا، تو کسی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! اور مشرکوں کے بچے؟ تو جواب دیا کہ مشرکوں کے بچے بھی{۔ اسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں روایت کیا ہے۔
ہر چیز تقدیر کے مطابق ہوتی ہے
۴۶- اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }ہر چیز تقدیر کے مطابق ہوتی ہے، یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی!}([143])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۴۶- اسے امام مالک نے ’موطا‘ کتاب القدر (۲/ ۸۹۹) میں روایت کیا ہے۔ انہیں کے طریق سے امام مسلم نے کتاب القدر(۴/ ۲۰۴۵) (حدیث نمبر: ۲۶۵۵) اور امام بخاری نے ’خلق افعال العباد‘ (۲۵) میں بھی روایت کیا ہے۔
"العجز": سکت نہ ہونے کو کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واجب کام کو چھوڑنے اور ٹال مٹول کرنے نیز مقررہ وقت پر اُسے انجام نہ دینے کو کہتے ہیں۔ یہاں اطاعت وفرماں برداری کے کام سے عاجزی کا معنی مراد لینے کا بھی احتمال ہے۔
"الكيس": یہ عجز کی ضد ہے۔ نشاط، پھرتی اور امور میں مہارت کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عاجز و لاچار کے مقدر میں لاچاری وعاجزی اور نشیط وپھرتیلے کے مقدر میں چستی و پھُرتی اور دانائی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے قول: }تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا} (اس میں )ہر کام کے سر انجام دینے کو( اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبریل) اترتے ہیں(۔ [147] کا مفہوم
۴۷- قتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمانِ باری تعالیٰ: }تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ{ )اس )میں )ہر کام کے سر انجام دینے کو( اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبریل) اترتے ہیں) ([144]) [القدر: 4] کے بارے میں مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ’’اُس رات ایک سال سے دوسرے سال کے بیچ ہونے والے امور کے فیصلے ہوتے ہیں‘‘۔
اسے عبد الرزاق اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔
اسی مفہوم کی روایتیں ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن، ابو عبد الرحمن السلمی، سعید بن جبیر اور مقاتل سے بھی مروی ہیں۔
۴۷- اسے عبدالرزاق نے اپنی تفسیر (3/ 386) میں اور ابن جریر (۱۵/ ۲۶۰) نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: الدر المنثور (۸/ ۵۶۸- ۵۶۹)۔
لوحِ محفوظ ایک بڑے سفید موتی سے بنی ہے
۴۸- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو ایک بڑے سفید موتی سے بنایا ہے۔ اس کی دونوں دفتیاں سُرخ یاقوت کی ہیں، اُس کا قلم نور ہے، اس کی کتابت نور ہے اور اس کا پھیلاؤ آسمان و زمین کی مسافت کے برابر ہے۔ ایک دن میں اللہ تعالیٰ اس پر تین سو ساٹھ بار نظر ڈالتا ہے؛ ہر بار کسی کی تخلیق کرتا ہے، کسی کو زندگی بخشتا ہے، کسی کو مارتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے، کسی کو ذلت سے دوچار کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں اس کا یہ فرمان ہے: }ہر روز وه ایک شان میں ہے{۔ ([145]) [سورہ الرحمن: 29] ۔
اسے عبدالرزاق، ابن منذر، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ ان احادیث اور اس معنی میں وارد دیگر روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ([146]) :
’’یہ یومیہ تخمینہ ہے، اس سے پہلے سالانہ تخمینہ ہوتا ہے، اُس سے پہلے جسم میں روح ڈالتے وقت پوری زندگی سے متعلق باتیں لکھی جاتی ہیں، اس سے پہلے جب آدمی گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا ہے، اس وقت پوری زندگی کے بارے میں فیصلے ہوتے ہیں، اس سے پہلے انسان کے وجود سے پہلے اور آسمانوں و زمین کی تخلیق کے بعد ایک بار فیصلے لیے جا چکے ہيں اور اسے پہلے بھی ایک بار آسمانوں اور زمیں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے سارے باتیں طے کی جا چکی ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ تخمینہ اور فیصلہ کرنے کے ان مراحل میں سے ہر مرحلہ، اس سے پہلے مرحلے کی تفصیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان ساری باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کا علم کس قدر کامل ہے اور وہ کس قدر قدرت و حکمت کا مالک ہے‘‘۔
وہ آگے کہتے ہیں:
’’لہذا یہ ساری حدیثیں اور اسی طرح اس مفہوم کی دیگر روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ پہلے سے طے شدہ تقدیر انسان کو عمل سے قطعًا نہیں روکتی اور نہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اس پر بھروسہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائے، بلکہ اس کے برعکس وہ کد و کاوش کی تعلیم دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بعض صحابہ نے تقدیر کے بارے میں یہ باتیں سنیں، تو بولے: میں پہلے آج کے مقابلے میں زیادہ کد و کاوش نہیں کرتا تھا۔
اسی طرح ابوعثمان نہدی نے سلمان سے کہا: میں اس سے، جو پہلے لکھا جا چکا ہے، اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوش ہوں، جو اب ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ جب معاملہ ایسا ہے کہ اللہ نے پہلے سے سب کچھ لکھ رکھا ہے اور میرے لیے اس کے راستے پر چلنا آسان کر دیا ہے، تو مجھے ان اسباب کی بہ نسبت جو بعد میں ظاہر ہو رہے ہیں، اللہ کے لکھے فیصلے پر زیادہ خوشی ہے۔
۴۸- اسے عبد الرزاق، ابن المنذر، حاكم اور طبرانی (۱۲/ ۷۲) (حدیث نمبر: ۱۲۵۱۱) نے زیاد بن عبداللہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو روایت کرتے ہیں لیث سے، وہ عبدالملک بن سعید بن جبیر سے، وہ اپنے والد سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت کرتے ہیں۔
ہیثمی (۳/ ۲۲۱) کہتے ہیں: اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہیں، جو ثقہ ہیں، لیکن مدلس بھی ہیں۔ البتہ اس کے بقیہ رجال ثقہ ہیں۔
تقدیر پر ایمان ایمان کا مزہ پیدا کرتا ہے
۴۹- ولید بن عبادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: }میں اپنے والد کے پاس گیا۔ وہ بیمار تھے اور مجھے اُن کی موت کا خدشہ تھا۔ لہذا میں نے اُن سے کہا: ابّاجان! مجھے کچھ وصیت کریں اور میرے لیے کچھ کوشش کریں۔ انہوں نے کہا: تم لوگ مجھے بٹھا دو۔ جب لوگوں نے ان کو بٹھا دیا، تو انہوں نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! تم اس وقت تک ایمان کا مزہ چکھ نہیں سکتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی حقیقی معرفت حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اچھی بری تقدیر پر ایمان نہ رکھو! میں نے کہا: ابّا جان! ذرا بتائیں، میں کیسے جانوں کہ بھلی بری تقدیر کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جان لو کہ جو مصیبت تم سے خطا کر گئی، تم اُس سے ہرگز دوچار ہونے والے نہیں تھے، اور جس میں تم مبتلا ہوگئے، تم اُس سے قطعی بچنے والے نہیں تھے۔ اے میرے پیارے بیٹے! میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے سب پہلے جس چیز کی تخلیق فرمائی، وہ قلم ہے۔ پھر اُس سے کہا کہ لکھ۔ چنانچہ وہ اُسی وقت رواں ہوگیا اور قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے، سب کچھ لکھ ڈالا۔‘‘ اے میرے بیٹے! اگر تم اس عقیدے پر نہ رہے اور اسی حالت میں مر گئے، تو جہنم میں جاؤ گے‘‘}۔([147])
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
۴۹- یہروایت صحیح ہے۔ اسے امام احمد نے ’’مسند‘‘ (۵/ ۳۱۷) میں اور ابن ابی عاصم نے ’’السنۃ‘‘ (۱/ ۴۸) ( حدیث نمبر: ۱۰۳) میں ابن لہیعہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو روایت کرتے ہیں یزید بن ابی حبیب سے، وہ ولید بن عبادہ سے، وہ اپنے باپ سے اختصار کے ساتھ۔ جب کہ ابن ابی عاصم (۱/ ۵۱) (حدیث نمبر: ۱۱۱) نے اس کے ابتدائی حصہ کو سلیمان بن حبیب محاربی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ولید بن عبادہ سے اور وہ اپنے والد سے اسے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ امام ترمذی نے اسے کتاب القدر (۴/ ۳۹۸) (حدیث نمبر: ۲۱۵۵) میں یحییٰ بن موسیٰ کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابوداؤد طیالسی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالواحد بن سلیم نے حدیث بیان کی، جو روایت کرتے ہیں عطا سے اور وہ ولید سے روایت کرتے ہیں۔ اس میں ایک قصے کا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح امام ترمذی نے ’کتاب التفسیر‘ (۵/ ۳۹۴) (حدیث نمبر: ۳۳۱۹) میں اور ابن ابی عاصم (۱/ ۴۹) (حدیث نمبر: ۱۰۵) نے ابوداؤد طیالسی کے طریق سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی عبدالواحد بن سلیم نے، جو روایت کرتے ہیں عطا بن ابی رباح سے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی ولید نے، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت مختصر ہے اور ترمذی نے اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام ابوداؤد نے ’کتاب السنۃ‘ (۵/ ۳۱۷) میں ابراہیم بن ابی عبلہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابو حفصہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبادہ نے اپنے بیٹے سے کہا...۔
ساتھ ہی ابن ابی عاصم (۱/ ۴۸) (حدیث نمبر: ۱۰۴) نے اسے عبداللہ بن السائب کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عطا سے اور وہ ولید سے روایت کرتے ہیں۔
مزید بر آں امام احمد (5/ 317) اور ابن ابی عاصم (۱/ ۵۰) (حدیث نمبر: ۱۰۷) نے اسے معاویہ بن صالح کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ہے ایوب ابوزید حمصی نے، جو عبادہ بن ولید بن عبادہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ آجری (۱۷۸) نے اسے زہری کے طریق سے روایت کیا ہے، جو محمد بن عبادہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کے کئی شواہد بھی موجود ہیں، جو عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ دیکھیں: ابن ابی عاصم کی ’’کتاب السنۃ‘‘ (۱/ ۴۹-۵۱)۔
علاج کرانے اور وسائل اختیار کرنے کا حکم
۵۰- ابو خزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، جو کہتے ہیں: {میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ جو ہم جھاڑ پھونک کراتے ہیں، دوا پانی کرتے ہیں اور بیماری سے بچاؤ کے دیگر طریقے اپناتے ہيں، تو کیا یہ اللہ کے کسی فیصلے کو ٹال سکتے ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا: یہ سب کچھ تقدیر الہٰی کا حصہ ہیں{۔ ([148])
اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔
۵۰- یہ حدیث صحیح ہے اسے امام احمد (3/ 421)، امام ترمذی نے کتاب الطب (۴/ ۳۴۹) (حدیث نمبر: ۲۰۶۵) اور کتاب القدر (۴/ ۳۹۵) (حدیث نمبر: ۲۱۴۸) اور امام ابن ماجہ نے کتاب الطب (۲/ ۱۱۳۷) (حدیث نمبر: ۳۴۳۷) میں سفیان بن عیینہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو زہری سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابو خزامہ سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ امام احمد (۳/ ۴۲۱) نے اسے محمد بن ولید زبیدی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو زہری سے روایت کرتے ہیں۔
نیز امام احمد )3/421) نے عمرو کے طریق سے بھی اسے روایت کیا ہے، جو ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
مسند احمد، ترمذی کی ایک روایت اور ابن ماجہ میں ہے: ابن ابو خزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔
کمزور مؤمن کی بہ نسبت طاقتور مؤمن بہتر اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے
۵۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{طاقتور مؤمن، کمزور مؤمن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پیارا ہے۔ تاہم خیر تو دونوں ہی میں ہے۔ جو چیز تمہارے لیے فائدے مند ہو، اس کی حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور ہرگز عاجز نہ بنو۔ دیکھو، اگر تم پر کوئی مصیبت آ جائے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا، تو ایسا ہو جاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ کیوںکہ لفظ 'اگر' شیطان کے عمل دخل کا راستہ کھولتا ہے{۔ ([149])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۵۱- اسے امام مسلم نے كتاب القدر (4/ 2052) (حدیث نمبر: ۲۶۶۴) میں روایت کیا ہے۔
باب: فرشتوں کا ذکر اور ان پر ایمان
اللہ تعالی کا فرمان ہے: }ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں؛ بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے، جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو{۔ ([150])الآية۔ [سوره بقرہ: ۱۷۷]۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے، ان کے پاس فرشتے )یہ کہتے ہوئے( آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو، )بلکہ( اس جنت کی بشارت سن لو، جس کا تم وعده دیے گئے ہو{۔ ([151]) [سورہ فصّلت: 30]
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }مسیح )علیہ السلام( اور مقرب فرشتوں کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا{۔ ([152]) [سورہ النساء: 172]
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }آسمانوں اور زمین میں جو ہے، اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں، وه اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے{۔ ([153]) [ سورہ الأنبیاء: 19، 20]
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }دو دو، تین تین، چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے واﻻ ہے{۔ الآیۃ([154]) [سورہ فاطر: 1]۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے )فرشتے( اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں}۔الآیۃ ([155]) [سورہ المؤمن: ۷]
فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں
۵۲- عائشہ رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: {فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت )اللہ تعالیٰ نے( تم سے بیان فرمائی ہے )یعنی خاک سے({۔([156])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۵۲- اسے امام مسلم نے كتاب الزهد (4/ 2294) (حدیث نمبر: ۲۹۹۶) میں روایت کیا ہے۔
’’جانّ‘‘: جنات
’’مارج‘‘: ایسا شعلہ جس کے ساتھ آگ کا کالاپن ملا ہوا ہو۔
علامہ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’فرشتوں پر ایمان لانا ان پر اجمالی اور تفصیلی دونوں طرح ایمان لانے کو شامل ہے؛ چنانچہ مؤمن بندے کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنی اطاعت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور ان کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ باعزت بندے ہیں، کسی معاملے اللہ سے آگے بڑھ کر نہیں بولتے، بلکہ اس کے فرمان پر کاربند رہتے ہیں۔
فرشتے کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ فرشتے ایسے ہیں جن کے ذمہ عرشِ الہی اٹھائے رکھنے کا کام ہے، کچھ جنت اور جہنم کے داروغہ ہیں اور کچھ بندوں کے اعمال کی حفاظت پر مامور ہیں۔
تفصیلی طور ہم ایمان رکھتے ہیں ان فرشتوں پر، جن کے نام اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں بتائے ہیں؛ جن میں جبریل، میکائیل، جہنم کے داروغہ مالک اور اسرافیل، جو صور میں پھونک مارنے پر مامور ہیں، وغیرہ شامل ہیں۔
بیتِ معمور میں روزانہ ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں
۵۳- {معراج سے متعلق بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ آپ ﷺ کو بیتِ معمور لے جایا گیا، جو ساتویں اور بقول بعض چھٹے آسمان پر ہے۔ اس کو وہاں وہی حیثیت حاصل ہے جو روئے زمین پر کعبہ کو۔ وہ کعبۃ اللہ سے سیدھے اوپر کی جانب واقع ہے۔ اس کا آسمان میں وہی احترام ہے، جو زمین میں کعبہ کا ہے۔ اس میں روزانہ ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر اُن کی باری دوبارہ قیامت تک نہیں آتی}۔ ([157])
۵۳- اسے امام بخاری نے كتاب بدء الخلق(۶/ ۳۰۲) (حدیث نمبر: ۳۲۰۷) اور امام مسلم نے کتاب الایمان (۱/ ۱۴۹) (حدیث نمبر: ۱۶۴) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح امام مسلم (۱/ ۱۴۵) (حیث نمبر: ۲۵۹) نے اسے ثابت البنانی کے طریق سے بھی روایت کیا ہے، جو انس رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
۵۴- عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }آسمان میں قدم رکھنے کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں کوئی فرشتہ سجدہ یا قیام کی حالت میں نہ ہو([158])۔ اسی کی طرف اشارہ فرشتوں کے اس قول میں ہے: {ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں{۔ ([159])۔ [سورہ الصافات: 165، 166]
اسے محمد بن نصر، ابن ابی حاتم، ابن جریر اور ابوالشیخ نے روایت کیا ہے۔
۵۴- یہ روایت صحیح ہے، اسے محمد بن نصر المروزي نے ’کتاب الصلاۃ‘ (۱/ ۲۶۰)، ابن جریر طبری نے ’التفسیر‘ (۱۱/ ۲۳، ۱۱۲) اور ابو الشیخ نے ’العظمۃ‘ (۳/ ۹۸۴) (حدیث نمبر: ۵۰۸) میں روایت کیا ہے۔ ان تمام حضرات نے فضل بن خالد ابومعاذ نحوی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبید بن سلمان سے روایت کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے ضحاک رحمہ اللہ سے اللہ تعالی کے اس قول کے بارے میں سنا: }اور ہم صفیں باندھنے والے ہیں اور ہم اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں{۔ ([160]) وہ کہتے ہیں: مسروق بن اجدع عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ... الحدیث
اس کی سند میں فضل بن خالد نام کا ایک راوی ہے، جسے ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔ لیکن اس کے کئی شواہد ہیں، جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اور جو حدیث نمبر (۱۵) کے تحت گزر چکے ہیں۔
دیکھیں: ابو الشیخ کی کتاب ’العظمۃ‘ (۳/ ۹۸۲- ۹۸۶)، مروزی کی کتاب ’الصلاۃ‘ اور علامہ البانی کی کتاب ’السلسۃ الصحیحۃ‘ (حدیث نمبر: ۱۰۵۹) ۔
۵۵- طبرانی نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: {ساتوں آسمانوں میں، قدم رکھنے کے برابر، بالشت بھر، بلکہ ہتھیلی جتنی بھی جگہ نہیں ہے، جہاں کوئی فرشتہ قیام کی حالت میں، کوئی فرشتہ سجدے کی حالت میں یا کوئی فرشتہ رکوع کی حالت میں موجود نہ ہو۔ اس کے باوجود جب قیامت کا دن آئے گا، تو سب لوگ کہیں گے: اے اللہ! تو پاک ہے، ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہیے تھی، وہ ہم سے ادا ہو نہ سکی۔ البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا{۔
۵۵- اسے طبراني نے ’الکبیر‘ (۲/ ۲۰۰) (حدیث نمبر: ۱۷۵۱) میں عروہ بن مروان اور مروزی نے ’تعظیم قدر الصلاۃ‘ (۱/ ۲۶۷) میں زکریا بن عدی کے طریق سے روایت کیا ہے اور یہ دونوں عبیداللہ بن عمرو بن عبدالکریم بن مالک سے روایت کرتے ہیں، جو عطا بن ابی رباح سے اور وہ جابر سے روایت کرتے ہیں۔ امام ہیثمی ’مجمع الزوائد‘ (۱/ ۵۲) میں کہتے ہیں: اس کی سند میں عروہ بن مروان ہے۔
میں کہتا ہوں: لیکن مروزی کے یہاں زکریا بن عدی نے اس کی متابعت کی ہے۔
اور سابقہ حدیث وغیرہ اس کی شاہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔
عرش الٰہی کو اُٹھانے والے فرشتوں کی صفت
۵۶- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کو اٹھائے رکھنے والے اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں۔ اس کے کان کی لو سے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت کا ہے{۔ ([161])
اسے ابو داؤد نے، بيهقي نے 'الأسماءِ والصِّفاتِ' میں اور ضیاء نے 'المختارة' میں روایت کیا ہے۔
جلیل القدر فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جبریل علیہ السلام ہیں، جن کی امانت، حُسنِ اخلاق اور قوت کی تعریف اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: }اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے، جو زور آور ہے۔ پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا{۔ ([162]) [سورہ النجم آیت: 5، 6]۔
ان کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے قوم لوط کی بستیوں کو، جن کی تعداد سات تھی، ان کے چار لاکھ باشندوں، چوپایوں، جانوروں، کھیت کھلیانوں اور محلوں سمیت اپنے ایک بازو پر اٹھا کر اس طرح آسمان کے برابر اونچائی تک پہنچا دیا کہ فرشتوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بانگ دینے کی آواز سنی اور پھر انھیں پلٹ کر تل پٹ کر دیا۔
دراصل یہ ان کے بڑی طاقت والے فرشتہ ہونے کی ایک مثال ہے۔
’’ذو مِرّۃِ‘‘: یعنی اچھی ساخت، چمک دمک اور طاقت و قوت کا مالک۔
یہ معنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بتایا ہوا ہے۔
جب کہ دوسروں لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ذو مرۃ‘ کے معنی قوت والے کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اُن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: }یقیناً یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے، جو قوت واﻻ ہے، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ والا ہے، جس کی (آسمانوں میں( اطاعت کی جاتی ہے۔ پھر وہ امین ہے۔ ([163]) سورہ التكوير: 19 - 21]] یعنی ان کے پاس زبردست طاقت وقوت ہے اور وہ عرش والے کے نزدیک بڑے مقام اور مرتبے کے حامل ہیں۔
{مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ} ([164]) یعنی مقرب فرشتوں کے بیچ ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ بڑے امانت دار بھی ہیں۔ اسی لیے وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے بیچ سفارت کا کام کرتے ہیں۔
۵۶- یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ابو داود نے اسے ’کتاب السنۃ‘ (۴/ ۳۳۲) (حدیث نمبر: ۴۷۲۷) میں اور امام بيهقي نے ’الاسماء والصفات‘ (۸۴۶) میں ابراہیم بن طہمان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو موسیٰ بن عقبہ سے اور وہ محمد بن منکدر سے اور وہ جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ ابو نعیم ۳/ ۱۵۸) نے اسے جابر اور ابن عباس وغیرہ سے روایت کیا ہے، جس میں کچھ اضافہ بھی ہے۔
ابونعیم کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی عبداللہ بن خالد مکی بن عبدان نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی سعید بن محمد نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی جعفر بن عمر نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی محمد بن عجلان نے، جو روایت کرتے ہیں محمد سے اور وہ روایت کرتے ہیں جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے۔
اس حدیث کا ایک شاہد انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے طبراني نے الاوسط (۲/ ۴۲۵) میں روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے ’الفتح‘ (۸/ ۶۶۵) میں صحیح کہا ہے۔
دیکھیں: ’السلسلۃ الصحیحۃ‘ (حدیث نمبر: ۱۵۰، ۱۵۱)۔
جبریل علیہ السلام کے پَر
۵۷- جبریل علیہ السلام اللہ کے رسول ﷺ کے پاس مختلف شکلوں میں تشریف لاتے تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں ان کی اصلی شکل میں بھی دو بار دیکھا ہے۔ ان کے چھ سو پَر ہیں۔
اسے امام بخاری نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
۵۷- اسے امام بخاری نے’بدء الخلق‘ (۶/ ۳۱۳) (حدیث نمبر: ۳۳۳۲) اور ’کتاب التفسیر‘ (۸/ ۶۱۰) (حدیث نمبر: ۴۸۵۶، ۴۸۵۷) میں اور امام مسلم نے ’کتاب الایمان‘ (۱/ ۱۵۸) (حدیث نمبر: ۱۷۴) میں روایت کیا ہے۔
۵۸- امام احمد نے عبداللہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: {رسول اللہ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے اور ان میں سے ہر ایک پر نے افق کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اُن کے پَروں سے اتنے الگ الگ رنگ، موتی اور یاقوت جھَڑ رہے تھے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے{۔ ([165])
اس کی سند قوی ہے۔
۵۸- یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے امام احمد نے مسند (۱/ ۳۹۵) میں حجاج کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی شریک نے، جو عاصم سے روایت کرتے ہیں، وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
نیز اسے ابوالشیخ نے ’العظمۃ‘ (۳/ ۹۷۸) (حدیث نمبر: ۵۰۲) میں آدم کے طریق سے روایت کیا ہے، جو شریک سے روایت کرتے ہیں۔
امام احمد نے ’مسند‘ (۱/ ۴۰۷) میں اسے حسین کے طریق سے بھی روایت کیا ہے، جو عاصم سے اور وہ ابو وائل سے روایت کرتے ہیں۔
ساتھ ہی اسے امام احمد(۱/ ۴۱۲، ۴۶۰)، ابو الشیخ (۳/ ۹۷۷) (حدیث نمبر: ۵۰۱) اور ابو یعلی (۸/ ۴۰۹) (حدیث نمبر: ۴۹۹۳) (۹/ ۲۴۳) (حدیث نمبر: ۵۳۶۰) نے حماد بن سلمہ کے طریق سے بھی روایت کیا ہے، جو عاصم سے، وہ زِر سے اور وہ عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کے بہت سے دیگر طُرق بھی ہیں، جنہیں ابن کثیر نے ’البدایۃ والنہایۃ‘ میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سندیں جید اور قوی ہیں اور انھیں صرف احمد نے روایت کیے ہیں۔
جبریل علیہ السلام کے کپڑوں کا وصف
۵۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ایک سبز جوڑے میں ملبوس دیکھا۔ انہوں نے آسمان وزمین کے مابین کی فضا کو بھر رکھا تھا۔ ([166])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۵۹- اسے امام ترمذي نے كتاب التفسير (5/ 369) (حدیث نمبر: ۳۲۸۳)، امام احمد نے ’مسند‘ (۱/ ۳۹۴، ۴۱۸)، ابو یعلی نے اپنی ’مسند‘ (۸/ ۴۳۴) (حدیث نمبر: ۵۰۱۸) اور بیہقی نے ’دلائل النبوۃ‘ (۲/ ۳۶۷ ) میں اسرائیل کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابو اسحاق سے، وہ عبدالرحمن بن یزید سے اور وہ عبداللہ سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔
جب کہ اسے طیالسی (۴۳) (حدیث نمبر: ۳۲۳) نے قیس کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں۔
مجھے یہ حدیث صحیح مسلم میں نہ مل سکی۔ امام سیوطی ’الدر المنثور‘ (۶/ ۱۲۳) میں کہتے ہیں: فریابی، عبد بن حمید، ترمذی جنھوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے، ابن جریر، ابن المنذر، طبرانی، ابوالشیخ، حاکم جو اسے صحیح بھی کہتے ہیں، ابن مردویہ، ابونعیم اور بیہقی نے ’دلائل النبوۃ‘ میں فرمانِ باری تعالیٰ: }مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ}([167]) کے مفہوم کے سلسلے میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جو کہتے ہیں: }اللہ کے رسول ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا۔ وہ سبز رنگ کا باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے تھے اور انہوں نے آسمان وزمین کے بیچ کے خلا کو بھر رکھا تھا{۔ ([168])
۶۰- عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{میں نے جبریل کو اُترتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے زمین و آسمان کے بیچ کے خلا کو بھر رکھا تھا۔ انھوں نے ریشمی لباس زیب تن کر رکھا تھا، جس میں موتی اور یاقوت لگے ہوئے تھے{۔ ([169]) .
اسے ابوالشیخ نے روایت کیا ہے۔
۶۰- مجھے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ابو الشیخ کی کتاب ’العظمۃ‘ میں نہ مل سکی۔ اس کتاب (3/ 972) (حدیث نمبر: ۴۹۵) میں مجھے جو روایت ملی، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: }میں نے جبریل علیہ السلام کو آسمان سے اُترتے ہوئے دیکھا، ان کے بھاری بھرکم جسم نے آسمان وزمین کے بیچ کے خلا کو بھر رکھا تھا{۔ ([170])
اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ مصنف رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم بیان کیا ہو۔
در اصل اسے ان الفاظ کے ساتھ امام مسلم (1/ 158) نے روایت کیا ہے۔
۶۱- ابن جریر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جبریل کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں، میکائیل کے معنی اللہ کے چھوٹے بندے کے ہیں اور ہر وہ نام جس میں لفظ ’ایل‘ ہو، تو اس کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں۔
۶۱- اسے طبری (۱۶۲۰) نے روایت کیا ہے۔
۶۲- طبری ہی میں اسی جیسی ایک روایت علی بن حسین سے مروی ہے اور اُس میں یہ اضافہ ہے: ’اسرافیل‘ رحمن کے بندے کے معنی میں ہے۔
۶۲- اسے طبری (۱۶۲۵، ۱۶۵۵) نے روایت کیا ہے۔
جبریل علیہ السلام افضل ترین فرشتہ ہیں
۶۳- طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: {کیا میں تمہیں افضل ترین فرشتے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ جبریل ہیں{۔
۶۳- اسےطبرانی نے ’الکبیر‘ (۱۱/ ۶۰) (حدیث نمبر: ۱۱۳۶۱) میں اس طرح روایت کیا ہے: ہم سے حدیث بیان کی ابراہیم بن نائلہ اصبہانی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی شیبان بن فرّوخ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی نافع ابو ہرمُز نے، وہ عطا بن ابی رباح سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }کیا میں تمہیں سب سے افضل فرشتے کے بارے میں نہ بتاؤں؟! وہ جبریل علیہ السلام ہیں۔ جب کہ افضل ترین نبی آدم اور افضل ترین عورت مریم بنت عمران ہیں{۔
ہیثمی ’مجمع الزوائد‘ (۸/۱۹۸) میں کہتے ہیں: اس میں نافع بن ہرمز نامی روای متروک ہے۔
وہ ایک اور جگہ (۳/ ۱۴۰) کہتے ہیں: وہ ضعیف راوی ہے۔
انہوں نے یہی بات ایک اور مقام (۲/ ۱۶۵) پر کہی ہے۔
فرشتوں کا جہنم سے خوف
۶۴- {ابوعمران الجونی سے مروی ہے کہ اُن کو خبر پہنچی کہ جبریل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس روتے ہوئے آئے، تو رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا:
آپ کیوں رو رہے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: کیوں نہ رؤوں! اللہ کی قسم! جب سے اللہ نے جہنم پیدا کی ہے، میری آنکھ اس ڈر سے خشک نہیں ہوئی کہ میں کوئی نافرمانی کا کام کربیٹھوں اور وہ مجھے جہنم میں ڈال دے{۔
اسے امام احمد نے 'الزھد' میں روایت کیا ہے۔
۶۴- اس حدیث کو "الزهد" کی طرف علامہ سیوطی نے ’’الدر المنثور‘‘ ( ۱/ ۹۳) میں منسوب کیا ہے، تاہم اس کے مطبوع نسخہ میں مجھے یہ حدیث نہ مل سکی۔
ابوعمران الجونی کا نام عبدالملک بن حبیب ہے۔ وہ ایک ثقہ تابعی ہیں۔ اس طرح یہ حدیث مرسل قرار پاتی ہے۔
فرشتے اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں اُترتے
۶۵- صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل سے فرمایا:
’’آپ ہمارے پاس جتنا آتے ہیں، کیا اس سے زیادہ نہیں آ سکتے؟‘‘([171]) اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی: }وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا ([172]) الآیۃ{ )یعنی ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے۔ ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں(۔[سورہ مريم: 64]
جلیل القدر فرشتوں میں سے ایک میکائیل علیہ السلام بھی ہیں، جن کے ذمہ بارش برسانے اور پودے اُگانے کے کام ہیں۔
۶۵- اسے بخاری نے کتاب بدء الخلق(۶/ ۳۰۵) (حدیث نمبر: ۲۲۱۸)، کتاب التفسیر (۸/ ۴۲۸) (حدیث نمبر: ۴۷۳۱) اور کتاب التوحید (۱۳/ ۴۴۰) (حدیث نمبر: ۷۴۵۵) میں روایت کیا ہے۔
۶۶- امام احمد نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل سے پوچھا:
{آخر بات کیا ہے کہ میں نے میکائیل علیہ السلام کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا؟ انہوں نے جواب دیا: جب سے جہنم کو پیدا کیا گیا ہے، اس وقت سے میکائیل کبھی نہیں ہنسے{۔ ([173])
جلیل القدر فرشتوں میں سے ایک اسرافیل علیہ السلام بھی ہیں۔ وہ حاملینِ عرش میں سے ہیں اور وہی صور میں پھونک ماریں گے۔
۶۶- اسے امام احمد (۳/ ۲۲۴) نے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن عیاش نے حدیث بیان کی، وہ عمارہ بن غزیہ انصاری سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے جبیر بن عبید مولی بن المعلی کو کہتے ہوئے سُنا کہ میں نے ثابت البنانی سے سُنا ہے، جو انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں۔
اسے آجری نے بھی اپنی کتاب (صفحہ: ۳۹۵) میں اسی سند سے روایت کیا ہے۔
ہیثمی ’مجمع الزوائد‘ (۱/ ۳۸۵) میں کہتے ہيں: احمد نے اسے اسماعیل بن عیاش سے روایت کیا ہے اور انھوں نے مدینے والوں سے روایت کیا ہے۔ حدیث ضعیف ہے، تاہم اس کے بقیہ رواۃ ثقہ ہیں۔
صور پھونکنے والے فرشتہ کا پھونک مارنے کے لیے صور میں منہ لگائے ہوئے ہونا
۶۷- ترمذی نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور اسی طرح حاکم نے بھی ان سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
{میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں، جب کہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کو منہ سے لگا رکھا ہے، اس کی پیشانی جھکی ہوئی ہے اور ہمہ تن گوش منتظر ہے کہ کب اسے حکم دیا جائے اور وہ صور پھونک دے؟
صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسے میں ہم کیا کریں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: کہو ’’حسبنا اللَّه ونِعم الوكيل، على اللَّهِ توكلنا‘‘ )ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ ہم اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں)} ۔ ([174])
۶۷- اسے علامہ ابن مبارک نے ’الزھد‘ (۵۵۷) (حدیث نمبر: ۱۵۹۷) میں اور انہی کے طریق سے امام ترمذي نے كتاب صفۃ القیامۃ (۴/۵۳۶) (حدیث نمبر: ۲۴۳۱) میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح امام احمد (۴/ ۳۷۴)نے خالد بن طہمان کے طریق سے روایت کی ہے، جو عطیہ سے اور وہ ابوسعید سے روایت کرتے ہیں۔
ساتھ ہی حميدی (۲/ ۳۳۳) (حدیث نمبر: ۷۵۴)، احمد (۳/ ۷) اور ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘ (۷/ ۳۱۲) میں سفیان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو مطرف سے اور وہ عطیہ سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح حاکم (۴/ ۵۵۹) نے اسے مطرف عن عطیہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔
نیز ابو الشيخ نے ’العظمۃ‘ (۳/ ۸۵۴) (حدیث نمبر: ۳۹۷) میں عمار الدہنی سے روایت کیا ہے، جو عطیہ سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ ابو نعيم (۲/ ۱۰۵) نے سفیان ثوری کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عمرو بن امیہ سے اور وہ عطیہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند میں عطیہ العوفی نامی ایک ضعیف راوی ہے۔
لیکن ابو صالح نے اس کی متابعت کی ہے۔
اسے ابو يعلى (2/ 339) (حدیث نمبر: ۱۰۸۴) اور ابن حبان ( ۳/ ۱۰۵) (حدیث نمبر: ۸۲۳) نے جریر کے طریق سے روایت کیا ہے، جو الأعصر سے، وہ ابوصالح سے اور وہ ابوسعید سے روایت کرتے ہیں۔
نیز ابو الشيخ نے 'العظمة' )3/851)) (حدیث نمبر: ۳۹۶) میں اور حاكم )4/559) نے اعمش کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابوصالح سے اور وہ ابوسعید سے روایت کرتے ہیں۔
اسرافیل علیہ السلام کی صفت، جو حاملینِ عرش میں سے ہیں
۶۸- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{حاملینِ عرش میں سے ایک فرشتہ ہے۔ جسے اسرافیل کہا جاتا ہے، جس کے کندھے پر عرشِ الہی کا ایک کونہ ہے۔ اس کے دونوں قدم نچلی ساتویں زمین میں پہنچے ہوئے ہیں اور اس کا سر سب سے اوپر والے ساتویں آسمان سے نکلا ہوا ہے}۔اسے ابو الشیخ نے اور ابونعیم نے ’الحِلية‘ میں روایت کیا ہے۔
۶۸- اسے ابو الشيخ (2/ 697) (حدیث نمبر: ۲۸۸) (۳/ ۹۴۹) (حدیث نمبر: ۴۷۷) اور ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘ ( ۶/ ۶۵) میں محمد بن مصفی کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی یحییٰ بن سعید نے، جو اسماعیل بن عیاش سے، وہ احوص بن حکیم سے، وہ شہر بن حوشب سے اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند میں یحییٰ بن سعید العطار نامی راوی ضعیف ہے اور احوص بن حکیم نامی راوی بھی ضعیف الحفظ ہے۔
۶۹- ابوالشیخ نے اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: اللہ کی کوئی مخلوق اسرافیل علیہ السلام سے زیادہ خوب صورت آواز والی نہیں ہے۔ جب وہ تسبیح پڑھتے ہیں، تو ساتوں آسمان والوں کی نمازیں اور تسبیحیں رک جاتی ہیں۔
بزرگ فرشتوں میں سے ایک ملک الموت علیہ السلام بھی ہیں۔
ان کا نام صراحت کے ساتھ نہ تو قرآن میں آیا ہے، نہ صحیح حدیثوں میں۔ البتہ بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل آیا ہے ([175]) ۔ واللہ اعلم۔ یہ حافظ ابن کثیر کا قول ہے۔ وہ آگے کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جو ذمے داریاں دی ہیں، ان کے اعتبار سے اُن کی کئی قسمیں ہیں:
کچھ فرشتے عرش الٰہی کو اُٹھائے ہوئے ہیں۔
کچھ کرّوبیاں ہیں ([176])۔ یہ وہ فرشتے ہیں، جو عرشِ الہی کے اردگرد ہیں۔ یہ حاملین عرش کے ساتھ اونچے درجے کے فرشتے ہیں، جو مقرب فرشتے کہلاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {مسیح )علیہ السلام( اور مقرب فرشتوں کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار ہرگز نہیں ہو سکتا}۔ ([177]) [سورہ النساء: 172]
کچھ فرشتے ساتوں آسمانوں میں رہ کر انھیں رات دن اور صبح وشام اللہ کی عبادت سے آباد رکھتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے}۔ ([178]) [سورہ الأنبياء: 20]
کچھ فرشتے باری باری بیت المعمور جاتے ہیں۔
میں کہتا ہوں: بظاہر یہی لگتا ہے کہ بیت المعمور میں یکے بعد دیگرے داخل ہونے والے فرشتے وہی ہیں، جو آسمانوں میں رہتے ہیں۔
کچھ فرشتے جنت میں مامور ہیں، جن کے ذمہ اہل جنت کے لیے نعمتوں کی تیاری اور ضیافت کا کام ہے؛ جس میں کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، زیورات، گھر وغیرہ جیسی چیزیں، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے، کا انتظام شامل ہے۔ اسی طرح کچھ فرشتے ایسے ہیں، جن کے ذمہ جہنم کی دیکھ بھال کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔ جہنم پر مامور ان فرشتوں کو زبانیہ کہا گيا ہے۔ ان کی اگلی صف میں انیس فرشتے شامل ہیں۔ جہنم کے داروغہ کا نام مالک ہے اور انھیں کا نام جہنم کی دربانی میں سب سے اوپر ہے۔ یہی وہ فرشتے ہیں، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: )اور )تمام( جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وه کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کردے{۔ ([179]) [سورہ المؤمنون: 49]
ایک اور جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: }اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے، وه کہے گا کہ تمہیں تو )ہمیشہ( رہنا ہے{۔ ([180])سورہ الزخرف: 77]] مزید ارشاد ہے: }جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے، اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جائے، اسے بجا ﻻتے ہیں{۔ ([181])سورہ التحريم: 6]] مزید ارشاد ہے: }اور اس میں انیس )فرشتے مقرر( ہیں۔ ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں{۔ ([182]) یہاں سے اس فرمانِ باری تعالی تک: }تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا{۔ ([183]) [سورہ المدثر: 30، 31]
کچھ فرشتے ایسے ہیں، جو بنی آدم کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: }اس کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں{۔ ([184]) [سورہ الرعد: 11]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: }کچھ فرشتے ایسے ہیں، جو انسان کی اس کے آگے اور پیچھے سے حفاظت کرتے ہیں، مگر جب اللہ کا حکم آجاتا ہے، تو اسے اکیلا چھوڑ جاتے ہیں{۔ ([185])
مجاہد کہتے ہیں: ہر بندے پر ایک فرشتہ مامور ہے، جو اُس کے سوتے جاگتے، جن و انس اور شیاطین سے اُس کی حفاظت کرتا ہے۔ ان میں سے جو بھی چیز اس کے قریب آتی ہے، اُس کہتا ہے: چل دور ہٹ! ہاں، اگر کوئی چیز اللہ کی اجازت سے آتی ہے، تو وہ پہنچ جاتی ہے۔
کچھ فرشتے بندوں کے اعمال کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: }جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں، ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے، )انسان( منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا، مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے{۔ ([186])سورہ ق: 17 ، 18] ] وہ مزید فرماتا ہے: {یقیناً تم پر نگہبان، عزت والے، لکھنے والے مقرر ہیں۔ جوکچھ تم کرتے ہو، وه جانتے ہیں{۔ ([187]) [الانفطار: 10-12]
۶۹- اسے ابو الشيخ نے ’العظمۃ‘ (۳/ ۸۵۶) (حدیث نمبر: ۴۰۰) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی محمد بن اسحاق بن ولید نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی سلمہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے رواد بن الجراح سے حدیث سُنی اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: پھر پوری روایت ذکر کی۔
لیکن اس کی سند میں رواد بن الجراح نامی ایک راوی ہے، جو آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہونے کی وجہ سے متروک ہے۔
فرشتوں سے حیا کرنا اور عریاں ہونے سے ممانعت
۷۰- بزار نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{اللہ تمھیں عریاں ہونے سے منع کرتا ہے۔ لہذا تم اللہ کے اُن فرشتوں سے حیا کرو، جو تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے ہیں، جو صرف تین حالات میں تم سے الگ ہوتے ہیں۔ یعنی قضائے حاجت کے وقت، ہمبستری کے وقت اور غسل کے وقت۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی کھلے میدان میں غسل کرے، تو اپنے کپڑے، دیوار کی اوٹ یا کسی اور چیز سے پردہ کر لے}۔
حافظ ابن کثیر کہتے ہیں: ان کی عزت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اُن سے حیا کی جائے اور وہ چوں کہ اعمال لکھتے ہیں، اس لیے ان سے برے اعمال نہ لکھوائے جائیں۔ کیوں کہ اللہ نے انھیں خلقت اور اخلاق دونوں اعتبار سے بزرگ اور باعزت بنایا ہے۔
پھر آگے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا مفہوم ہے: اُن کی عزت و شرافت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا، تصویر، جنبی آدمی یا مورتی ہو۔ اسی طرح ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتے، جن کے ساتھ کتا یا گھنٹی ہو۔
۷۰- اسے بزار نے اپنی مسند میں، جیساکہ ’کشف الاستار‘ کتاب الطہارۃ (۱/ ۱۶۰) (حدیث نمبر: ۳۱۷) میں ہے، حفص بن سلیمان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو علقمہ بن مرثد سے، وہ مجاہد سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
بزار کہتے ہیں: ہمیں نہیں معلوم کہ یہ حدیث ابن عباس سے اس کے علاوہ کسی اور طریق سے مروی ہے۔ جب کہ حفص لیّنُ الحدیث یعنی حدیث نقل کرنے کے معاملے میں کمزور راوی ہے۔
ہیثمی (۱/ ۲۶۸) کہتے ہیں: ’’اسے بزار نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے علاوہ کسی اور طریق سے مروی نہیں ہے۔ جب کہ جعفر بن سلیمان لیّن یعنی کمزور ہے۔
لیکن میں )ہیثمی( کہتا ہوں: جعفر بن سلیمان صحیح کے رجال میں سے ہے۔ یہی حال اس کے باقی رجال کا بھی ہے۔ واللہ أعلم‘‘۔
میں کہتا ہوں: اس کی سند میں، جعفر نہیں بلکہ حفص یعنی حفص بن سلیمان الاسدی ابو عمر البزاز ہے۔ یہ حفص بن ابوداؤد القارئ ہیں، جو عاصم کے ساتھی ہیں۔ شاید ہیثمی سے انھیں پہچاننے میں غلطی ہوئی ہے۔
حفص کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: قراءت میں مسند امامت پر متمکن ہونے کے باوجود متروک الحدیث ہیں۔
تاہم اس حدیث کا ایک شاہد یعلی بن امیہ سے مرفوعا موجود ہے، جس کے الفاظ ہیں: }اللہ عزّ وجلّ حیا والا اور پردہ کرنے والا ہے۔ وہ شرم وحیا اور پردہ کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ لہذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو اسے پردہ کرلینا چاہیے۔ آپ ﷺ نے یہ بات ایک ایسے شخص سے کہی، جو اکیلا ننگا نہارہا تھا{۔ ([188]) اسے ابو داود (۴/ ۳۹) (حدیث نمبر: ۴۰۱۲) نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح بہز بن حکیم کی روایت بھی اس کی شاہد ہے، جسے انھوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے اور وہ اُن کے دادا سے مرفوعا روایت کرتے ہیں۔ اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: }اللہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے{۔ ([189]) اسے ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
امام نووی (4/ 32) کہتے ہیں: خلوت میں بقدرِ ضرورت قابلِ ستر اعضا کو کھولنا جائز ہے۔ جیسے غسل، پیشاب پاخانہ اور بیوی سے ہم بستری وغیرہ کے وقت۔ ان سب حالتوں میں خلوت کی صورت میں جسم کے قابلِ ستر حصوں کو کھولنا جائز ہے۔ لیکن جہاں تک لوگوں کی موجودگی میں ان کے کھولنے کا تعلق ہے، تو یہ قطعی طور پر حرام ہے۔ علما کہتے ہیں: غسل وغیرہ کے وقت خلوت میں بھی کمر وغیرہ نہ کھولنا افضل ہے، تاہم غسل وغیرہ کے وقت بقدر ضرورت کھولنا جائز ہے اور ضرورت سے زیادہ کھولنا صحیح ترین قول کے مطابق حرام ہے۔
ہمارے پاس فرشتوں کا شب و روز باری باری آنا جانا
۷۱- مالک، بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{تمھارے پاس رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے جاتے رہتے ہیں، جو فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب تمھارے ساتھ رات گزارنے والے فرشتے اللہ کے حضور پہنچتے ہیں، تو ان سے سوال کرتا ہے، حالاں کہ وہ ان سے کہیں زیادہ واقف ہے، تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم نے ان کو چھوڑا، تو نماز ادا کررہے تھے اورجب ہم ان کے پاس پہنچے، تب بھی نماز پڑھ رہے تھے}۔([190])
۷۱- اسے امام مالک نے ’الموطا‘ کتاب قصر الصلاۃ فی السفر‘ (۱/ ۱۷۰) میں روایت کیا ہے اور ان ہی کے طریق سے امام بخاری نے كتاب مواقيت الصلاة ( ۲/ ۳۳) (حدیث نمبر: ۵۵۵) ، کتاب التوحید (۱۳/ ۴۱۵) (حدیث نمبر: ۷۴۲۹) (۱۳/ ۴۶۱) (حدیث نمبر: ۷۴۶۸) میں اور امام مسلم نے كتاب المساجد (1/ 439) (حدیث نمبر: ۶۳۲) ، نیز امام بخاری نے کتاب بدء الخلق (۶/ ۳۰۶) (حدیث نمبر: ۳۲۲۳) اور مسلم ( ۱/ ۴۲۹) (حدیث نمبر: ۶۳۲) نیز امام احمد ( ۲/۲/ ۳۱) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر 'فتح الباری' میں کہتے ہیں:
’’یتعاقبون فیکم‘‘: یعنی تم نمازیوں یا پھر عام مؤمنوں کے پاس باری باری آتے جاتے رہتے ہیں۔
’’ملائكة‘‘: (فرشتے) ایک قول کے مطابق ان سے مراد اعمال کی حفاظت پر مامور فرشتے ہیں۔ تاہم میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ ان سے الگ دوسرے فرشتے ہیں۔ اس کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ کہیں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ حفاظت پر مامور فرشتے بندوں سے کبھی جُدا بھی ہوتے ہیں یا اس کے لیے رات میں الگ فرشتے مامور ہیں اور دن میں الگ۔ مزید برآں اگر یہ حفاظت پر مامور فرشتے ہی ہوتے، تو اُن سے صرف چھوڑ کر جانے کی حالت کے بارے میں نہ پوچھا جاتا، جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے: }تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے{؟ ([191])
عیاض کہتے ہیں: ان دونوں نمازوں میں فرشتوں کے یک جا ہونے کی حکمت کی بات کی جائے، تو دراصل یہ بندوں پر اللہ کا لطف و کرم اور ان کی عزت افزائی کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنے فرشتوں کو بندوں کی بندگی کے وقت یک جا کرتا ہے، تاکہ ان کی گواہی بندوں کے حق میں بہترین گواہی ثابت ہو۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز اعلیٰ ترین عبادت ہے۔ اس لیے کہ اسی کے بارے میں سوال وجواب ہوا ہے۔ نیز اس میں اِن دونوں نمازوں کی اہمیت وعظمت کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں نمازوں میں دونوں طرح کے فرشتے جمع ہوجاتے ہیں، جب کہ بقیہ نمازوں میں صرف ایک طرح کے فرشتے ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس حدیث میں ان دونوں اوقات کی فضیلت کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے فرشتے ہم سے محبت کرتے ہیں، تاکہ ہم اُن سے محبت کریں اور اس کے ذریعہ اللہ کا تقرّب حاصل کریں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے اپنے فرشتوں کے سے کلام کرنے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
۷۲- ایک روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم چاہو، تو یہ آیتِ کریمہ پڑھ سکتے ہو: }اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے{۔ ([192])سورہ الإسراء: 78]]۔
۷۲- اسے امام بخاری نے كتاب التفسير(8/ 399) (حدیث نمبر: ۴۷۱۷) میں عبدالرزاق کے طریق سے روایت کیا ہے، جو معمر سے، وہ زہری سے، وہ ابوسلمہ اور ابن المسیب سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ امام مسلم نے اسے كتاب المساجد (۱/ ۴۵۰) (حدیث نمبر: ۶۴۹) میں عبدالاعلیٰ سے روایت کیا ہے، جو معمر سے، وہ زہری سے، وہ سعید بن المسیب سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ دونوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ میں روایت کیا ہے: }باجماعت نماز آدمی کی تنہا نماز سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ مزید فرمایا: رات اور دن دونوں کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: }اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی۔ یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے{۔ ([193]) یہ امام مسلم کے الفاظ ہیں۔
فرشتوں کا علم کی مجلسوں کو گھیر لینا
۷۳- احمد اور مسلم نے یہ حدیث روایت کی ہے:
{جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت اور اسے پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتے ہيں، ان پر سکینت اترتی ہے، ان کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے، ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے پاس رہنے والوں یعنی فرشتوں میں کرتا ہے اور جس کا عمل اسے پیچھے کردے، اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جا سکتا}۔ ([194])
۷۳- اسے امام مسلم نے كتاب الذكر والدعاء (4/ 2074) (حدیث نمبر: ۲۶۹۹) میں روایت کیا ہے۔
’’يتدارسونه‘‘: اس کے اندر قرآن سے متعلق ساری باتیں، جیسے اسے سیکھنا، سکھانا اور قرآنی علوم و تفسیر کے بارے میں بحث و مذاکرہ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
’’نزلت عليهم السكينة‘‘: یعنی اطمینان، وقار، ثابت قدمی اور صفائے قلب وغیرہ قلب کو سکون پہنچانے والی ساری چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
’’غشيتهم الرحمة‘‘: یعنی ان کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔
’’حفتهم الملائكة‘‘: یعنی انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں۔
’’من بطأ به عمله‘‘: جس کا برا عمل اور کار خیر میں کوتاہ دستی اسے پیچھے کر دے، آخرت میں اس کی خاندانی شرافت اور آبا و اجداد کی برتری نہ اسے کوئی فائدہ پہنچائے گی اور نہ جنت میں داخلہ دلا سکے گی۔ وہاں تو عمل کرنے والا، خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عملی میدان میں کوتاہی برتنے والے سے، چاہے وہ شریف خاندان سے تعلق رکھنے والا اور قریشی ہی کیوں نہ ہو، مقدم رکھا جائے گا۔
فرشتے طالبِ علم کے لیے اپنے پَر بچھاتے ہیں
۷۴- مسند اور سنن کی حدیث ہے:
{فرشتے طالبِ علم کی جستجوئے علم سے خوش ہوکر، اس کے لیے، اپنے پر بچھاتے ہیں}۔([195])
خلاصۂ کلام ایں کہ فرشتوں کے ذکر پر مبنی حدیثیں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
۷۴- یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے احمد نے ’مسند‘ (4/ 239) (حدیث نمبر: ۲۴۰، ۲۴۱)، ترمذی نے کتاب الدعوات (۵/ ۵۱۹) (حدیث نمبر: ۳۵۳۵، ۳۵۳۶)، نسائی نے کتاب الطہارۃ (۱/ ۱۰۵) (حدیث نمبر: ۱۵۸) ، اور عبد الرزاق نے ’المصنف‘ (۱/ ۲۰۴) (حدیث نمبر: ۷۹۳، ۷۹۵) میں، نیز ابن خزیمہ (۱/ ۹۷) (حدیث نمبر: ۱۹۳)، دارمی (۱/ ۸۵) (حدیث نمبر: ۳۶۳) اور ابن حبان (۱/ ۲۸۵) (حدیث نمبر: ۸۵) نے اور اس کے علاوہ طبرانی نے ’الکبیر‘ (۸/ ۶۶) (حدیث نمبر: ۷۳۵۲، ۷۳۷۳، ۷۳۸۲، ۷۳۸۸) میںعاصم ابن ابی النجود کے طریق سے روایت کیا ہے، جو زرّ بن حبیش سے روایت کرتے ہیں اور وہ صفوان بن عسّال سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ...الحدیث
اسے حاکم (1/ 200) نے عبدالوہاب بن بخت سے روایت کیا ہے، جنھوں نے زِرّ بن حبیش سے روایت کیا ہے اور انہوں نے صفوان سے روایت کیا ہے۔
جب کہ طبرانی (8/ 63) (حدیث نمبر: ۷۳۴۷) نے اسے منهال بن عمرو کے طریق سے روایت کیا ہے، جو زِرّ بن عبد اللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں اور وہ صفوان سے روایت کرتے ہیں۔
کتاب اللہ کی وصیت
اللہ تعالی کا فرمان ہے: }تم لوگ اس کا اتباع کرو، جو تمہارے رب کی طرف سے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو۔ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو{۔ ([196]) [سورہ الأعراف: 3]
کتابُ اللہ اور سنتِ رسول ﷺ کو مضبوطی سے پکڑنے کا وجوب
۷۵- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خطبہ دیا اور حمد وثنا کے بعد فرمایا:
’’امّا بعد؛ خبردار! لوگو سنو! میں ایک انسان ہی ہوں۔ قریب ہے کہ میرے رب کا فرستادہ )ملک الموت( میرے پاس آئے اور میں اُس کے بلاوے پر چلا جاؤں۔ تاہم میں تمھارے بیچ دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں؛ اُن میں پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت و روشنی ہے۔ لہذا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو‘‘۔ چنانچہ آپ نے اللہ کی کتاب کو لازم پکڑنے پر ابھارا اور اس کی ترغیب دی اور اس کے بعد فرمایا: ’’اور میرے اہلِ بیت!‘‘ دوسرے لفظوں میں ہے: ’’اللہ کی کتاب، وہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے؛ جو اس کا اتباع کرے گا، وہ ہدایت پر ہوگا اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہی پر ہوگا‘‘۔ ([197])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۷۵- اسے امام مسلم نے کتاب فضائل الصحابة (۴/ ۱۸۷۳) (حدیث نمبر: ۲۴۰۸) میں روایت کیا ہے۔
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کو چھوڑنا گمراہی ہے
۷۶- مسلم ہی میں جابر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے: }اللہ کے رسول ﷺ نے یومِ عرفہ کے خطبہ میں فرمایا: ’’میں نے تمہارے پاس ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو گے، تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے؛ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ تم سے (روزِ قیامت( میرے بارے میں پوچھا جائے گا، تو تم کیا کہو گے‘‘؟ صحابہ نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغامِ الہی کو پہنچادیا، اپنی ذمہ داری ادا کردی اور پوری خیر خواہی کی۔ آپ ﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھا کر اور اس سے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’اے اللہ! تو گواہ رہ‘‘۔آپ ﷺ نے یہ بات تین بار دہرائی{۔ ([198])
۷۶- اسے امام مسلم نے کتاب الحج )2/886) (حدیث نمبر: 1218 ) میں روایت کیا ہے۔
جس نے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا چھوڑ دیا، اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا
۷۷- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں: }میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
"سن لو! عن قریب ایک بہت بڑافتنہ رونما ہو گا"
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہو گا؟
آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’اللہ کی کتاب! اس میں پچھلی امتوں کی خبر ہے، آنے والے حوادث کی اطلاع ہے، تمھارے درمیان ہونے والے اختلافات کا فیصلہ ہے۔ وہ فیصلہ کن کتاب ہے، یاوہ گوئی نہیں۔ جو تکبر کی وجہ سے اسے چھوڑے گا، اسے اللہ ہلاک کر دے گا اور جو اس کے سوا کسی اور چیز سے ہدایت طلب کرے گا، اسے اللہ گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، حکمت سے لبریز ذکر ہے اور سیدھا راستہ ہے۔ وہ ایسی شے ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خواہشاتِ نفس گمراہ نہیں کر سکتیں، زبانیں اس میں التباس کی شکار نہیں ہو سکتیں، علما اس سے سیر نہیں ہو سکتے، تکرار سے اس میں بوسیدگی نہیں آتی اور اس کے عجائب ختم نہیں ہوتے۔ وہی وہ کتاب ہے، جسے سننے کے بعد جنوں کو کہنے پر مجبور ہونا پڑا: {ہم نے ایک بہت خوب صورت قرآن سنا ہے، جو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے}۔([199]) [سورہ الجن: 1، 2 ] جس نے قرآن کی بنیاد پر بات کی اُس نے سچ کہا، جس نے قرآن پر عمل کیا وہ اجر کا مستحق بنا، جس نے قرآن کی بنیاد پر فیصلہ دیا اس نے عدل کیا اور جس نے قرآن کی طرف بلایا اُسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دی گئی{۔
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور ’غریب‘ کہا ہے۔
۷۷- اسے امام ترمذی نے فضائل القرآن (۵/ ۱۵۸) (حدیث نمبر: ۲۹۵۶) میں اور دارمی (۲/ ۳۱۲) (حدیث نمبر: ۳۳۳۴) نے حسین بن علی الجعفی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو حمزہ الزیات سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوالمختار الطائی سے، وہ حارث اعور کے بھتیجے سے، وہ حارث الاعور سے اور وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں اور اس کی سند مجہول ہے۔ اس کے راوی حارث کے بارے پر کلام ہے۔ میں کہتا ہوں: اس میں حارث کا بھتیجا ایک مجہول راوی ہے اور خود حارث بھی ضعیف راوی ہے۔
۷۸- ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال کیا ہے وہ حلال ہے، جسے حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے اُس میں عفو و در گزر ہے۔ لہذا تم اللہ کے عفو و در گزر کو قبول کرو۔ کیوں کہ ایسا نہیں ہے کہ اللہ کچھ بھول جائے ‘‘ ! اُس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: {تیرا پروردگار بھولنے واﻻ نہیں ہے{۔ ([200]) [سورہ مريم: 64]
اسے بزّار، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
۷۸- اسے بزّار نے، جیساکہ ’کشف الاستار‘ (میں ہے) کتاب العلم (۱/ ۷۸) (حدیث نمبر: ۱۲۳) اور کتاب التفسیر (۳/ ۵۸) (حدیث نمبر: ۲۲۳۱) میں روایت کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابراہیم بن عبداللہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی سلیمان بن عبدالرحمن دمشقی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی اسماعیل بن عیاش نے، جو روایت کرتے ہیں عاصم بن رجا بن حیوہ سے، وہ اپنے والد سے اور وہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ....
بزار نے کہتے ہیں: اس کی سند صالح ہے۔
ہیثمی (1/ 171) کہتے ہیں: اسے بزار نے اور طبرانی نے ’الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند حسن درجہ کی ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
میں کہتا ہوں: اس کی سند میں سلیمان صدوق راوی ہے، جو غلطیاں کرتا ہے، جب کہ عاصم صدوق ہے اور وہم کا شکار ہوجاتا ہے۔
سیدھا راستہ اسلام ہے
۷۹- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ اس کے دونوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ دونوں دیواروں میں جابجا کھلے ہوئے دروازے ہیں، جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اے لوگو! راستے پر سیدھے چلتے رہو اور اس سے نہ ہٹو۔ جب کہ ایک پکارنے والا اس کے اوپر سے پکار رہا ہے۔ جب جب کوئی بندہ ان دروازوں میں سے کسی کا پردہ اٹھانا چاہتا ہے، تو وہ پکار کر کہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ پردہ اٹھاؤ گے تو اس کے اندر چلے جاؤ گے}۔([201])
پھر آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ سیدھے راستے سے مراد اسلام ہے، کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں، لٹکے ہوئے پردے اللہ کی حدود ہیں، راستے کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے، راستے کے اوپر سے پکار نے والا اللہ کا وہ واعظ ہے، جو ہر بندۂ مؤمن کے دل میں موجود ہے۔
اسے رزین نے روایت کیا ہے۔ احمد اور ترمذی نے بھی نواس بن سمعان سے اس سے ملتی جلتی حدیث روایت کی ہے۔
۷۹- اسے رزين نے روایت کیا ہے، جیساکہ ’مشکاۃ المصابیح‘ (۱/ ۶۷) (حدیث نمبر: ۱۹۱) میں ہے۔
اسے امام ترمذی نے كتاب الأمثال (۵/ ۱۳۳) (حدیث نمبر: ۲۸۵۹) اور نسائی نے ’الکبری‘ کتاب التفسیر (۶/ ۳۶۱) (حدیث نمبر: ۱۱۲۳۳) میں بقیہ بن ولید کے طریق سے روایت کیا ہے، جو بحیر بن سعد سے روایت کرتے ہیں، وہ خالد بن معدان سے، وہ جبیر بن نفیر سے اور وہ نواس سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ امام احمد نے اسے ’المسند‘ (۴/ ۱۸۲) میں، آجری نے ’الشریعۃ‘ (صفحہ: ۱۱) میں اور حاکم (۱/ ۷۳) نے لیث بن سعد کے طریق سے روایت کیا ہے۔ وہ معاویہ بن ابی صالح سے روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن جبیر نے ان سے حدیث بیان کی، جو اپنے باپ سے اور وہ نواس سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور میں اس کے اندر کوئی علت نہیں جانتا۔ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
قرآن کی متشابہ آیتوں کی پیچھے پڑنے والوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید
۸۰- عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وه کہتی ہیں:
’’اللہ کے رسول ﷺ نے قرآنِ کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: {وہی اللہ تعالیٰ ہے، جس نے تجھ پر کتاب اتاری، جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں، جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں{۔ ([202]) آپ ﷺ نے یہ آیت اِس فرمانِ باری تعالیٰ تک پڑھی: اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں}۔ ([203]) [سورہ آل عمران: 7]
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پس جب تم اُن لوگوں کو دیکھو، جو قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں، تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن کا نام اللہ نے ’فاحذروھم‘ کے ضمن میں لیا ہے‘‘۔
صحیح بخاری و مسلم۔
۸۰- اسے بخاری نے كتاب التفسير(۸/ ۲۰۹) (حدیث نمبر: ۴۵۴۷) میں اور مسلم نے کتاب العلم (۴/ ۲۰۵۳) میں روایت کیا ہے۔
مؤلف اسے حدیث نمبر (۱۰۷) کے تحت دوبارہ لائیں گے۔ وہاں اس کی تعلیق دیکھ لیں۔
شیطانی راستوں پر چلنے سے انتباہ
۸۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: {اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لیے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی اور اس کے بعد فرمایا: ’’ یہ اللہ کا راستہ ہے‘‘۔ پھر اس کے دائیں اور بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا: ’’یہ الگ لگ راستے ہیں۔ اِن میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے، جو اس کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ پھر یہ آیتِ کریمہ پڑھی: }اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے، جو مستقیم ہے۔ سو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو{۔([204]) [سورہ انعام: 153]
اسے امام احمد، دارمی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
۸۱- اسے احمد (1/ 435) اور دارمی (۱/ ۶۰) (حدیث نمبر: ۲۰۸) نے ، نسائی نے ’الکبری‘ کتاب التفسیر (۶/ ۳۴۳) ( حدیث نمبر: ۱۱۱۴۷) میں، طیالسی (۳۳) ( حدیث نمبر: ۲۴۴) اور ابن حبان ((۱/ ۱۸۱) (حدیث نمبر: ۶، ۷) میں، آجری نے ’الشریعۃ‘ ( صفحہ: ۱۰) میں اور حاکم ( ۲/ ۳۱۸) نے حماد بن زید کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عاصم بن ابی النجود سے، وہ وائل سے اور وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
اسے امام نسائی (۶/ ۳۴۳) (حدیث نمبر: ۱۱۱۷۵) نے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے فضل بن العباس بن ابراہیم نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم سے احمد بن یونس نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہيں کہ ہم سے ابوبکر نے حدیث بیان کی، جو روایت کرتے ہیں عاصم سے اور وہ روایت کرتے ہیں زر بن عبداللہ بن مسعود سے۔
رسول ﷺ کے علاوہ دوسروں کسی اور کے اتباع کی ممانعت
۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: }نبی ﷺ کے کچھ صحابہ توریت کی کچھ باتیں لکھ لیا کرتے تھے۔ لوگوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’سب سے بڑے احمق اور گمراہ ترین لوگ وہ ہیں، جو اپنے نبی کی لائی ہوئی باتوں سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے نبی میں دل چسپی دکھائیں اور اپنی امت کو چھوڑ کر دوسری امت سے رشتہ گانٹھیں‘‘۔ پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: }کیا انہیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرما دی، جو ان پر پڑھی جا رہی ہے؟ اس میں رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں{۔ ([205]) [سورہ العنكبوت: 51]
اسے اسماعیلی نے اپنے معجم اور ابن مردوَیہ نے روایت کیا ہے۔
۸۲- اسے اسماعیلی نے اپنے معجم )3/772) (حدیث نمبر: 384 ) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی داؤد بن رشید نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی فِہر بن زیاد رقی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابراہیم بن یزید نے، جو عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں، وہ یحییٰ بن جعد سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
مجھے فہر کے حالات نہ مل سکے۔
جب کہ ’’الدرر المنثور‘‘ میں اسے ابن مردویہ اور دیلمی کی مسند الفردوس کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
۸۳- عبد اللَّه بن ثابت بن حارث انصاري رضي الله عنه سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: }عمر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک کتاب لے کر حاضر ہوئے، جس میں توریت کی کچھ باتیں لکھی ہوئی تھیں اور عرض کیا کہ مجھے یہ کتاب ایک اہلِ کتاب سے حاصل ہوئی ہے اور اسے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ دیکھ کر اللہ کے رسول ﷺ کا چہرہ اتنا زیادہ بدل گیا کہ اُس طرح آپ ﷺ کا چہرہ بدلتے ہوئے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس پر عبداللہ بن حارث نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تم رسول اللہ ﷺ کا چہرہ نہیں دیکھ رہے ہو؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ کو رب ماننے پر، اسلام کو دین تسلیم کرنے پر اور محمد ﷺ کو نبی ماننے پر راضی و خوش ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور فرمایا: ’’اگر موسیٰ (علیہ السلام( اتر آئیں، پھر تم ان کی پیروی کرنے لگو اور مجھے چھوڑ دو، تو تب بھی گمراہ قرار پاؤ گے۔ نبیوں میں سے میں تمہارے حصہ میں آیا ہوں اور اُمّتو ں میں سے تم میرے حِصّہ میں آئے ہو‘‘}۔
اسے عبدالرزاق، ابن سعد اور حاکم نے ’الکنی‘ میں روایت کیا ہے۔
۸۳- اسے عبد الرزاق نے 'المصنف' )6/113) (حدیث نمبر: 10164 ) میں روایت کیا ہے اور انہی کے طریق سے احمد نے اپنی ’مسند‘(3/470) (4/265) میں سفیان ثوری کے واسطے سے روایت کیا ہے، جو جابر سے روایت کرتے ہیں، وہ شعبی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن ثابت سے روایت کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر ’الاصابۃ‘ (۴/ ۳۰) میں لکھتے ہیں: امام بخاری کہتے ہیں: اس کی ) یعنی جابر کی(حدیث صحیح نہیں ہوتی۔
ہیثمی ’مجمع الزوائد‘ (۱/ ۱۷۳) میں رقم طراز ہیں: اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ مگر اس میں جابر جعفی ہے، جو ایک ضعیف راوی ہے۔
میں کہتا ہوں: اس حدیث کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں، جو اسے تقویت پہنچاتے اور صحیح ثابت قرار دیتے ہیں۔ دیکھیں: علامہ البانی کی کتاب ’ارواء الغلیل‘ (۱۵۸۹)۔
باب: نبی ﷺ کے حقوق
اللہ تعالی کا فرمان ہے: }اے ایمان والو! اللہ کی فرماں برداری کرو اور رسول کی فرماں برداری کرو اور جو تم میں اختیار والے (حکام) ہیں، ان کی بھی فرماں برداری کرو{۔ الآية ([206]) [سورہ النساء: 59 ] مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رسول ﷺ کی پیروی کرو؛ تاکہ تم پر رحم کیا جائے{۔ ([207])۔[سورہ النور: 56] ایک اور مقام پر اشاد ہے: {تمہیں جو کچھ رسول دیں، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ{۔الآیۃ ([208]) [سورہ الحشر: 7]
اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لانے والے سے جنگ کا وجوب
۸۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: }مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مجھ پر اور میری لائی ہوئی باتوں پر ایمان لائیں۔ جب وہ یہ کرلیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کرلیں گے، سوائے ان کے حق کے اور ان کا حساب اللہ عز و جل پر ہوگا{۔ ([209])۔
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۸۴- اسے امام مسلم نے كتاب الإيمان (1/ 52) حدیث نمبر: ۲۱) میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی طرق سے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: حاشیہ صحیح ابن حبان: (۱/ ۳۹۹) (۱/ ۴۵۲)۔
شیخ محمد محمد ابو شہبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
صحابۂ کرام نے سنت کی ساری باتوں کو قرآن کی طرف لوٹانے کا حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے اخذ کیا تھا: }اور جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دیں، لے لو{۔ ([210])
امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: ’’اللہ کی لعنت ہو گودنے والیوں، گدوانے والیوں، بال اُکھیڑوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں پر، جو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں‘‘۔ یہ سن کر ام یعقوب نے کہا: یہ سب کیا ہے؟ اس پر عبداللہ بن مسعود نے کہا: میں بھلا ایسے لوگوں پر کیوں نہ لعنت کروں، جن پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت کی ہے اور جن پر لعنت کا ذکر اللہ کی کتاب میں ہے۔ اُس خاتون نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے بھی دو دفتیوں کے بیچ موجود قرآن کو پڑھا ہے، لیکن ہم نے اس میں ایسی کوئی چیز نہیں پائی! اس پر ابن مسعود نے کہا: اگر تم نے اسے سچ مچ پڑھا ہوتا تو ضرور پاتیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: }اور تمہیں جو کچھ رسول دیں، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ{۔ ([211]) ([212])۔
یہ آیت ان تمام اسلامی تعلیمات کے لیے اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، جن کا ذکر حدیث پاک میں ہے اور قرآن میں نہیں ہے۔ اسی منہج اور واضح راستے پر وہ تمام ائمہ کاربند رہے، جو صحابہ کرام کے بعد آئے۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر لوگوں کو حدیث کا درس دے رہے تھے۔ اسی دوران فرمایا: تم جس چیز کے بارے میں بھی مجھ سے سوال کروگے میں اس کا جواب اللہ کی کتاب سے دوں گا۔ اس پر ایک شخص نے پوچھا: اُس شخص کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، جو حالت احرام میں کسی بھِڑ کو مار دے؟ آپ نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اُس شخص نے کہا: مجھے بتائیں کہ کتاب اللہ میں اس کا ذکر کہاں ہے؟ تب آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت سنائی: }وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا}([213]) (تمہیں جو کچھ رسول دیں، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ(۔ پھر سند کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول پیش کیا کہ آدمی احرام کی حالت میں بھڑ کو مار سکتا ہے۔ ([214])
ایمان کی چاشنی کہاں ملے گی؟
۸۵- بخاری اور مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس بندے کے اندر پائی گئیں، وہ ان کی وجہ سے ایمان کی چاشنی محسوس کرے گا۔ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک ساری دنیا سے بڑھ کر محبوب ہوں، وہ جس آدمی سے محبت کرے صرف اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرے اور اسے دوبارہ کفر میں لوٹ جانا، جب کہ اللہ نے اسے اس سے نکال لیا ہے، اسی طرح ناپسند ہو جس طرح اسے آگ میں ڈالا جانا نا پسند ہے‘‘۔([215])
۸۵- اسے امام بخاری نے كتاب الإيمان (۱/ ۷۲) (حدیث نمبر: ۲۱) اور کتاب الادب (۱۰/ ۴۶۳) (حدیث نمبر: ۶۰۴۱) میں اور امام مسلم نے کتاب الایمان (۱/ ۶۶) (حدیث نمبر: ۴۳) میں روایت کیا ہے۔ ساتھ ہی امام بخاری نے کتاب الایمان (۱/ ۶۰) (حدیث نمبر: ۱۶) اور کتاب الاِکراہ (۱۲/ ۳۱۵) (حدیث نمبر: ۶۹۴۱) اور امام مسلم نے (۱/ ۶۶) میں روایت کیا ہے۔
۸۶- صحیحین ہی میں انس رضی اللہ عنہ ہی سے مرفوعًا روایت ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ ([216])
۸۶- اسے امام بخاری نے کتاب الایمان (ا/ ۵۸) (حدیث نمبر: ۱۵) میں روایت کیا ہے۔
نیز امام مسلم نے كتاب الإيمان (۱/ ۶۷) (حدیث نمبر: ۴۴) اور نسائی نے كتاب الإيمان (۸/ ۴۸۸) (حدیث نمبر: ۵۰۲۸) میں روایت کیا ہے۔
اُس شخص کی تردید جو حدیث کو چھوڑ کر قرآن کو کافی سمجھتا ہو
۸۷- مقدام بن معدی کرب کِندی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{عن قریب ایسازمانہ آنے والا ہےکہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو گا۔ اُسے میری کوئی حدیث سنائی جائے گی، تو کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ عزوجل کی کتاب ہے۔ ہمیں اس میں جو چیز حلال ملے گی، اسے حلال مانیں گے اور جو چیز اس میں ملے گی، اسے حرام قرار جانیں گے!! سُن لو! جو کچھ اللہ کے رسول ﷺ نے حرام فرمایا ہے، وہ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حرام کیا ہوا}۔ ([217])
اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
۸۷- یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ اسے مام ترمذی نے كتاب العلم (۵/ ۳۷) (حدیث نمبر: ۲۶۶۴) اور ابن ماجہ نے کتاب المقدمۃ (۱/ ۶) (حدیث نمبر: ۱۲) میں، ساتھ ہی احمد (۴/ ۱۳۲) ، دارمی (۱/ ۱۱۷) (حدیث نمبر: ۵۹۲)، طبرانی (۲۰۲۷۴) (حدیث نمبر: ۶۴۹)، بیہقی (۷/ ۷۶) اور حاکم (۱/ ۱۰۹) (۹/ ۳۳۱) نے معاویہ بن صالح کے طریق سے روایت کیا ہے، جو حسن بن جابر لخمی سے روایت کرتے ہیں اور وہ مقدام سے روایت کرتے ہیں۔
یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
جب کہ ابو داؤد نے كتاب السنۃ (۴/ ۲۰۰) (حدیث نمبر: ۴۶۰۴) میں اور احمد (۴/ ۱۳۱)، طبرانی (۲۰۲۸۳) (حدیث نمبر: ۶۷۰) اور بیہقی نے ’دلائل النبوۃ‘ (۶/ ۵۴۹) میں اسے حریز بن عثمان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابن ابو عوف سے اور وہ مقدام سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح ابن حبان (۱/ ۱۸۹) (حدیث نمبر: ۱۲) (طبرانی (۲۰۲۸۳) (حدیث نمبر: ۶۶۹) اور بیہقی (۹/ ۳۳۲) نے اسے مروان بن رؤبہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابن ابو عوف سے اور وہ مقدام سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں، جن میں سے ایک ابو رافع کی روایت ہے اور جو اس طرح مروی ہے:
اسے ابو داؤد (حدیث نمبر: ۴۶۰۵)، ترمذی (حدیث نمبر: ۲۶۶۳)، ابن ماجہ (حدیث نمبر: ۱۳)، حمیدی (۵۵۱) اور ابن حبان (۱/ ۱۹۰) (حدیث نمبر: ۱۳) نے روایت کیا ہے۔
امام خطابی فرماتے ہیں:
آپ ﷺ کے فرمان: }مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز دی گئی ہے{۔ میں دو باتوں کا احتمال ہے:
پہلا احتمال: جس طرح اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ کو غیر متلو وحی باطن سے اسی طرح نوازا گیا ہے، جس طرح وحی ظاہر متلو سے۔
دوسرا احتمال: جس طرح آپ ﷺ کو قرآن کی شکل میں وحی متلو دی گئی ہے، اسی طرح اس کی تفسیر سے بھی نوازا گیا ہے۔ یعنی آپ ﷺ کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ آپ کتاب اللہ کی کسی خاص حکم کو عام کریں، عام کو خاص کریں، اضافی معلومات فراہم کریں اور تشریح و تفسیر کریں۔ یاد رہے کہ آپ کی یہ ساری باتیں اسی طرح واجب العمل اور لازم القبول ہوں گی، جیسے وحی متلو ظاہری یعنی قرآن کی تعلیمات۔
آپ ﷺ کے فرمان: }قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا}، کے اندر ان باتوں کی مخالفت سے آگاہ کیا گیا ہے، جن کی تعلیم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اور جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ یہی وہ کام ہے، جس کا ارتکاب خوارج اور روافض نے کیا۔ انہوں نے صرف ظاہرِ قرآن کو اپنایا اور احادیث کو، جو دراصل قرآن کی تفسیر و توضیح کا کام کرتی ہیں، پسِ پشت ڈال دیا۔ نتیجتا بھٹک گئے اور گمراہ ہو گئے۔
آپ ﷺ کے فرمان: }تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہوگا}([218]) میں اس بات کا اشارہ ہے کہ منکرین حدیث خوش حال وکھاتے پیتے لوگ ہوں گے، جو اپنے گھروں سے چپکے رہیں گے اور علم کو اس کے اصل سرچشموں سے حاصل نہیں کریں گے۔
یہ حدیث نبی ﷺ کے ایک معجزے پر دلالت کرتی ہے۔
شیخ محمد محمد ابوشہبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہ حدیث اللہ کے نبی ﷺ کے ایک معجزہ پر دلالت کرتی ہے۔ اس پیشین گوئی کے مطابق زمانہ قدیم و جدید میں اس طرح کی کئی جماعتیں نمودار ہوئیں، جنہوں نے اس ناپاک فکر کی طرف دعوت دی، جو احادیث کو چھوڑ کر صرف قرآن پر اکتفا کرنے سے عبارت ہے۔ اس دعوت کے حاملین کا مقصد نصف دین کو منہدم کرنا ہے، یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ پورے دین کو ڈھا دینا ہے! اس لیے کہ اگر احادیث اور سنن کو نظر انداز کردیا جائے، تو امت کے لیے قرآن فہمی مشکل ہو جائے گی اور لوگ اس کے مدلولات سے نا آشنا ہوجائیں گے اور جب احادیث پس پشت ڈال دی جائیں گی اور قرآن کا فہم دشوار ہوجائے گا، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کا کیا حشر ہونے والا ہے‘‘!۔
باب: نبی ﷺ کا سنت کو لازم پکڑنے کی ترغیب دینا اور بدعت، اختلاف و انتشار سے خبردار کرنا
اللہ تعالی کا فرمان ہے: }یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں عمده نمونہ )موجود( ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے{۔ ([219]) [سوره الأحزاب: 21] مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروه گروه بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے{۔ ([220]) [سورہ الأنعام: 159]
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے: }اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے، جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح )علیہ السلام( کو حکم دیا تھا اور جو )بذریعہ وحی( ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام( کو دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا{۔ ([221]) [سورہ الشورىٰ: 13]
رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کی سنت کی پابندی اور بدعت سے بچنے کی وصیت
۸۸- عِرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:
{رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمیں ایک موثر نصیحت فرمائی، جس سے لوگوں کی آنکھیں بہہ پڑیں اور دل لرز گئے۔ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ نصیحت، رخصت ہونے والے کی نصیحت جان پڑتی ہے۔ ایسے میں آپ ہمیں کس چیز کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو! کیونکہ تم میں سے جو زندہ رہے گا، وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ اس لیے تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمے رہنا اور اسے اپنے کچلی کے دانتوں سے پکڑے رہنا۔ اور خبردار! تم )دین کے نام پر ایجاد کردہ( نت نئی چیزوں سے بچنا۔ کیونکہ )دین کے نام پر وجود میں آنے والی( ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے{۔ ([222])۔
اسے ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح کہا ہے۔
انہیں کی ایک دوسری روایت میں ہے:
{میں نے تمہیں روشن شاہراہِ (ہدایت( پر چھوڑا ہے، جس کی رات بھی اس کے دن کے مانند اجالی ہے۔ میرے بعد اس سے صرف وہی شخص برگشتہ ہوگا، جس کے مقدر میں ہلاکت لکھ دی گئی ہو اور میرے بعد جو زندہ رہے گا، وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا }....([223]) اس کے بعد اس معنی کی دیگر روایتیں پیش کیں۔
۸۸- یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ابو داؤد نے كتاب السنۃ (۴/ ۲۰۰) (حدیث نمبر: ۴۶۰۷)، احمد نے ’مسند‘ (۴/ ۱۲۶-۱۲۷)، آجری نے ’الشریعۃ‘ (صفحہ: ۴۶) اور ابن ابو عاصم نے ’کتاب السنۃ‘ (۱/ ۱۹) (حدیث نمبر: ۳۲) میں باختصار اور ساتھ ہی ابن حبان (۱/ ۱۷۸) (حدیث نمبر: ۵) نے ولید بن مسلم کے طریق سے روایت کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ثور بن یزید نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی خالد بن معدان نے اور وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی عبدالرحمن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر نے، جو عرباض سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ ترمذی نے كتاب العلم (۵/ ۴۴) (حدیث نمبر: ۲۶۷۶)، ابن ماجہ نے المقدمۃ (۱/۱ ۷) (حدیث نمبر: ۴۴) ، طحاوی نے ’المشکل‘ (۲/ ۶۹) اور آجری نے ’الشریعۃ‘ (صفحہ: ۴۷) میں، نیز دارمی (۱/ ۴۳) (حدیث نمبر: ۹۶)، ابن ابو عاصم (۱/ ۲۹) (حدیث نمبر: ۵۴) نے اور حاکم نے مستدرک (۱/ ۱۰۹) میں ثور بن ولید کے طریق سے روایت کیا ہے اور ان حضرات نے حجر بن حجر کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حاکم بھی کہتے ہيں کہ یہ روایت صحیح ہے اور ذہبی نے اُن کی موافقت کی ہے۔
اسے ترمذی (۵/ ۴۳) (حدیث نمبر: ۷۶۷۶) اور ابن ابو عاصم (۱/ ۱۷) (حدیث نمبر: ۲۷) نے باختصار اور بیہقی (۶/ ۵۴۱) نے بقیہ ولید کے طریق سے روایت کیا ہے، جو بحِیر بن سعد سے، وہ خالد بن معدان سے اور وہ عبدالرحمن بن عمرو بن عِرباض سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ ابن ماجہ (۱/ ۱۵) (حدیث نمبر: ۴۲) اور ابن ابو عاصم (۱/ ۱۷) (حدیث نمبر: ۲۶) نے ولید بن مسلم کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبداللہ بن علاء سے روایت کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث کی یحییٰ بن ابو المطاع نے اور انہوں نے روایت کی ہے عرباض سے۔
ساتھ ہی ابن ابو عاصم (1/ 18) (حدیث نمبر: ۲۸، ۲۹) نے اسے مہاجر بن حبیب کے طریق سے بھی روایت کیا ہے، جو عرباض سے باختصار روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے حدیث نمبر (30) کے ضمن میں اسے یحییٰ بن جابر کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبدالرحمن بن عمرو بن عرباض سے باختصار روایت کرتے ہیں۔
آپ ﷺ کے فرمان: }اسے اپنے کچلی کے دانتوں سے پکڑے رہنا{۔ کے معنی ہیں، تم سنت پر بھر پور انداز میں عمل کرنا، اس کی پابندی کران اور اس سے اسی طرح رغبت و حرص دکھانا، جیسے آدمی کسی چیز کے چھوٹ جانے کے ڈر سے اسے دانتوں سے پکڑے رہتا ہے۔
’’النواجذ‘‘:کچلی کے دانت۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد داڑھ کے دانت ہیں۔
جہاں تک دوسری روایت کا تعلق ہے، تو اس کی سند یہ ہے:
یہ حدیث صحیح ہے۔ اسے ابن ماجہ نے المقدمہ (۱/ ۱۶) (حدیث نمبر: ۴۳) میں، آجری نے ’الشریعہ‘ (صفحہ: ۴۷) اور ابن ابو عاصم نے ’السنۃ‘ (۱/ ۲۶) (حدیث نمبر: ۴۸) میں معاویہ بن صالح کے طریق سے روایت کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ ضمرہ بن حبیب نے اُن سے حدیث بیان کی اور اُن سے عبدالرحمن بن عمرو نے بیان کیا کہ انہوں عرباض سے سنا۔
جب کہ ابن ابو عاصم (نمبر: ۴۹)نے اسے خالد بن معدان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو جبیر بن نفیر سے اور وہ عرباض سے روایت کرتے ہیں۔
’’البیضاء‘‘: اس سے مراد ملت اور ایسی روشن دلیل ہے، جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ اس لیے اس میں شبہ پیدا کرنا دراصل اس سے شبہ کا ازالہ کرنا ہے اور اسی بات کی طرف اشارہ یہ کہتے ہوئے کیا گیا ہے کہاس کی رات اس کے دن کی مانند ہے۔
سب سے بہتر طریقہ نبی ﷺ کا طریقہ ہے
۸۹- صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{امّابعد؛ سب سے اچھی بات کتاب اللہ ہے، سب سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے، بدترین امور (دین کے نام پر ایجاد کردہ( نت نئی چیزیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے{۔ ([224])
۸۹- اسے امام مسلم نے كتاب الجمعہ )1/592) (حدیث نمبر: 867 ) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ (۱۳/ ۲۵۳) میں لکھتے ہیں:
’’المحدثات‘‘: محدثۃ کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں، جو دین کے نام پر ایجاد کرلی جائیں اور ان کی کوئی شرعی بنیاد نہ ہو۔ عُرف میں اسے ’بدعت‘ کہا جاتا ہے۔ مگر وہ کام جس کا کوئی شرعی آدھار موجود ہو، بدعت نہیں ہوسکتا۔ شریعت کی اصطلاح میں بدعت مذموم ہے، برخلاف لغوی بدعت کے؛ اس لیے لغوی اعتبار سے ہر وہ نو ایجاد کردہ کام بدعت ہے، جس کی کوئی سابقہ مثال نہ ملے، چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔ یہی بات "المحدثة" کے ساتھ ساتھ "الأمر المحدث" اصطلاح پر بھی صادق آتی ہے، جس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں آیا ہے: }جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی، جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ ناقابلِ قبول ہے{۔ ([225]) ([226])
امام شافعی کہتے ہیں: بدعت کی دو قسمیں ہیں: محمود اور مذموم۔ جو بدعت سنت کی موافق ہو، وہ محمود ہے اور جو بدعت سنت کی مخالف ہو، وہ مذموم ہے۔ ([227])۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم ابھی دین فطرت پر ہو۔ لیکن عنقریب ہی تم نئی نئی چیزیں ایجاد کر لوگے اور تمہارے لیے نئی نئی چیزیں ایجاد کی جائیں گی؛ پس جب تم )دین کے نام پر( کوئی نئی چیز دیکھو، تو تم پہلے طریقے کو مضبوطی سے تھام لینا۔
رسول ﷺ کی نافرمانی جہنم میں جانے کا سبب ہے
۹۰- صحیح بخاری ہی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:{’’میری امت کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے، سوائے ان کے جو منع کر دیں گے‘‘۔
کہا گیا: بھلا کون منع کرے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اسی نے منع کیا‘‘}۔([228])۔
۹۰- اسے امام بخاری نے كتاب الاعتصام (۱۳/ ۲۴۹) (حدیث نمبر: ۷۲۸۰) میں روایت کیا ہے۔
’’أبی‘‘: یعنی باز رہا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۳/ ۲۵۴) میں لکھتے ہیں:
عموم کا ظاہر مستمر ہے، کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی جنت میں جانے سے منع نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ نے کہا: ’’بھلا کون منع کرے گا‘‘؟ تو آپ ﷺ نے وضاحت فرما دی کہ ان کی جانب جنت میں جانے سے منع کرنے کی نسبت مجازی ہے اور اس سے مراد ہے آپ ﷺ کی سنت کے اتباع سے باز رہنا اور آپ کی نافرمانی کرنا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک صحیح حدیث میں ہے:{جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت كى}۔ ([229]) ([230]) یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے: }جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی{۔ ([231]) اس کا مطلب یہ ہے کہ چوں کہ میں اسی چیز کا حکم دیتا ہوں، جس کا حکم اللہ نے دیا ہو، اس لیے جس نے میرے حکم کی تعمیل کی، اس نے مجھے حکم دینے کا حکم دینے والے کے حکم کی تعمیل کی۔ اس حدیث کا ایک معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چوں کہ اللہ نے میری اطاعت کا حکم دیا ہے، اس لیے جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی، جس میں میری اطاعت کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہی بات معصیت کے بارے میں بھی کہی جائے گی۔
جس نے رسول ﷺ کی سنت سے بے رغبتی کی، وہ آپ کا نہیں
۹۱- صحیحین ہی میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: {تین لوگ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس نبی کریم ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھنے آئے۔ جب انہیں نبی کریم ﷺ کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا، تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم ﷺ سے کیا مقابلہ! آپ کے تو سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں! چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: جہاں تک میری بات ہے تو میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: "کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! میں تمھارے اندر اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا اور اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ لہذا جس نے میرے طریقے سے بے رخی برتی، وہ مجھ میں سے نہیں ہے{۔ ([232])۔
۹۱- اسے امام بخاری نے كتاب النكاح (۹/ ۱۰۴) (حدیث نمبر: ۵۰۶۳) میں اور امام مسلم نے کتاب النکاح (۲/ ۱۰۲۰) (حدیث نمبر: ۱۴۰۱) میں روایت کیا ہے۔
’’الرهط‘‘: اس کا اطلاق تین سے دس افراد پر ہوتا ہے۔
آپ ﷺ کا فرمان: }میں تمھارے اندر اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہوں{۔ ([233])
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۹/ ۱۰۵) میں لکھتے ہیں:
’’اس میں ان تیں حضرات کے اس نظریے کی تردید ہے کہ مغفور شخصیت کو زیادہ عبادت کی ضرورت نہیں ہوتی! جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے انہیں بتا دیا کہ گرچہ آپ عبادت میں جان نہیں کھپاتے، لیکن اس کے باوجود ان لوگوں سے کہیں زیادہ اللہ کا خوف رکھتے ہیں، جو عبادت میں غلو کی حد تک محو رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ سخت گیری دکھانے والوں کے بارے میں ڈر رہتا ہے کہ کہیں اکتاکر عبادت چھوڑ نہ دیں اور اعتدال پسندوں کے بارے میں اس طرح کا ڈر نہيں رہتا۔ جب کہ سب سے بہتر عمل وہ ہے، جس پر انسان مداومت برتے‘‘۔
ارشاد نبوی: }من رغب عن سنتي فليس مني{: یہاں سنت سے مراد طریقہ ہے، وہ سنت نہیں جو فرض کے مقابلے میں مستعمل ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے سے بے رخی کا مطلب یہ ہے کہ جس نے آپ کے طریقے کو چھوڑ کر کسی اور کے طریقے کو اپنایا، وہ آپ کا نہیں ہے۔ یہاں آپ ﷺ کا اشارہ طریقۂ رہبانیت کی طرف تھا، کیوں کہ اسی طریقے کے ماننے والوں نے عبادت میں انتہا پسندی کو راہ دی تھی، جس کا ذکر خود اللہ تعالی نے کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا ہے کہ انھوں نے جس چیز کو اپنے اوپر لازم کیا تھا، اسے نبھایا بھی نہیں۔
جب کہ نبی ﷺ کا طریقہ ہی آسانی پر مبنی صحیح طریقہ ہے۔ آپ ﷺ روزہ ناغہ کرتے تھے، تاکہ مزید روزے کی طاقت حاصل کر سکیں، سوتے تھے تاکہ تہجد کی قوت حاصل کر سکیں اور شادی بھی کرتے تھے تاکہ شہوت کو توڑا جا سکے، نفس کو پاک بازی عطا کر سکیں اور نسل انسانی بڑھا سکیں۔
ارشاد نبوی: "وہ مجھ میں سے نہیں ہے": اگر طریقۂ نبوی سے بے رغبتی تاویل کی شکل میں ہو تو ایسا شخص معذور تصور کیا جائے گا اور اس صورت میں ’’فلیس مِنّی‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ میرے طریقے پر نہیں ہے، تاہم اس کی بنیاد پر اُسے ملت سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا۔ لیکن اگر ایسا اعراض و ہٹ دھرمی کی بنا پر ہو اور وہ اپنے عمل بہتر ہونے کے عقیدے کا سبب بنے، تو اس وقت ’’ہم میں سے نہیں‘‘ کے معنی ہوں گے: وہ ہماری ملت پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسا اعتقاد رکھنا ایک طرح کا کفر ہے۔
غرباء کے حق میں رسول ﷺ کی دعا
۹۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{اسلام کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور ایک بار پھر، ابتدائی دنوں کی طرح، اسلام اُسی اجنبیت کی حالت میں چلاجائے گا۔ سو مبارک باد ہے غرباء یعنی اجنبیوں کے لیے}۔
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اسے امام مسلم نے کتاب الایمان )1/130) (حدیث نمبر: 145) میں روایت کیا ہے۔
’’طوبیٰ‘‘: فُعلیٰ کے وزن پر ہے اور طیب سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی کے سلسلے میں علما کے درمیان اختلاف ہے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس کے معنیٰ فرحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے ہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں: کیا ہی اچھا ہے جو کچھ اُن کے لیے ہے۔
امام نووی کہتے ہیں: قاضی عیاض نے کہا ہے: ’’حدیث کے ظاہر سے عموم کا پتہ چلتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اسلام یکے دکے اور تھوڑے موڑے لوگوں کے درمیان ظاہر ہوا۔ اُس کے بعد پھیلتا گیا اور اس کا غلبہ و تسلط قائم ہو گيا۔ پھر مرورِ ایام کے ساتھ اس میں کمزوری آتی جائے گی اور اس پر عمل کرنے والوں کی تعداد گھٹتی چلی جائے گی، یہاں تک کہ وہ یکے دکے اور تھوڑے موڑے لوگوں کے بیچ ہی باقی رہ جائے گا، جیسا کہ شروع دور میں معاملہ تھا‘‘۔
مؤمن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی خواہشات رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہوجائیں
۹۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{تم میں س کوئی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں}۔
اسے امام بغوی نے ’شرح السُنّہ‘ میں روایت کیا ہے اور نووی نے صحیح کہا ہے۔
اسے امام بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱/ ۲۱۲) (حدیث نمبر: ۱۰۴)، ابن ابی عاصم نے ’السنۃ‘ (۱۵) اور خطیب نے تاریخ بغداد (۴/ ۳۶۹) میں ہشام بن حسان کے طریق سے روایت کیا ہے، جو روایت کرتے ہیں محمد بن سیرین سے، وہ روایت کرتے ہیں عطیہ بن اوس سے اور وہ روایت کرتے ہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے۔
خطيب تبريزى ’مشکاۃ المصابیح‘ (۱/ ۵۹) میں لکھتے ہیں: امام نووی نے اپنی کتاب ’اربعین‘ میں کہا ہے: یہ روایت صحیح ہے، اسے کتاب ’الحجہ‘ میں بسندِ صحیح روایت کیا گيا ہے۔
جب کہ امام ابن رجب حنبلی نے اسے ’جامع العلوم والحِکم‘ (۲/ ۳۹۳) میں مختلف علل کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے۔
جہنم سے نجات پانے والے فرقے کی صفت
۹۴- اور ان سے ہی مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: { ’’ میری امت پر ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا، جیسا بنی اسرائیل پر آیا تھا۔ بالکل ویسے، جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُن میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ علانیہ طور پر زنا کیا ہوگا، تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا، جو ایسا (گھناؤنا( کام کرے گا۔ بنو اسرائیل بہتّر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت کے لوگ تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائیں گے۔ اُن میں سب کے سب جہنمی ہوں گے، سوائے ایک فرقے کے‘‘۔
صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سا فرقہ ہوگا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس راستے کی پیروی کی، جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں‘‘}۔ ([234])۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۹۴- اسے ترمذی نے کتاب الایمان (۵/ ۲۶) (حدیث نمبر: ۲۶۴۱)، آجری نے ’الشریعۃ‘ (صفحہ: ۱۵- ۱۶)، مروزی نے ’السنۃ‘ (۱۸) اور لالکائی نے ’شرح اصول اعتقا اہل السنۃ والجماعۃ‘ (۱/ ۹۹) (حدیث نمبر: ۱۴۵- ۱۴۶) میں عبدالرحمن بن زیاد افریقی کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبداللہ بن یزید سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند میں عبدالرحمن افریقی نامی ایک راوی ہے، جو ضعیف ہے۔
اس حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں۔ دیکھیں: برادرم سلیم الہلالی کی کتاب ’’درء الارتیاب عن حديث ما أنا عليه والأصحاب‘‘۔
مناوی فيض القدير (5/347) میں کہتے ہیں:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امت کے مختلف فرقوں میں بٹ جانے کی بات محمد مصطفیٰ ﷺ سے مشہور ہے اور اسے راویوں کے ایک گروہ نے صحابہ کے ایک گروہ سے نقل کیا ہے۔
طیبی کہتے ہیں: ’’ملت اصل میں اس طریقۂ کار کو کہتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ وہ جوارِ الہی تک رسائی حاصل کرسکیں۔ اس طرح، ملت کا اطلاق جملہ شرائع پر ہوتا ہے، جزئیات پر نہیں۔ لیکن بعد میں اس کا دائرہ وسیع ہوگیا اور اس کا اطلاق باطل ادیان وملل پر بھی ہونے لگا۔ چنانچہ کہا گیا کہ ’’الکفرُ کُلّہ ملّۃ واحدۃ‘‘ یعنی سارا کفر ایک ہی ملت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر فرقہ دوسرے فرقے سے الگ مذہب رکھتا ہے، اس لیے ان کے طریقے کو مجازی طور پر ملت کہا گيا‘‘۔
’’سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے‘‘: یعنی ایسے بُرے کام کریں گے، جن کی وجہ سے انہیں جہنم رسید کیا جائے گا۔
’’سوائے ایک ملت کے‘‘: یعنی سوائے ایک ملت کے لوگوں کے۔
’’جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں‘‘:([235]) یعنی جن سچے عقائد اور سیدھے راستے پر میں ہوں۔ چنانچہ نجات یافتہ وہ ہے، جو اُن کی ہدایت کو مضبوطی سے تھام لے، ان کے نقش قدم پر چلے اور اصول وفروع میں ان کی حالاتِ زندگی کو اپنا اسوہ ونمونہ بنائے۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’آپ ﷺ نے اپنی امت کے تہتّر ([236]) فرقوں میں بٹ جانے کی خبر دی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ وہی فرقے ہیں، جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: }وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا{ )تم نے بھی اسی طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی(۔ پھر یہ اختلاف جس کے بارے میں یہاں خبر دی گئی ہے یا تو صرف دین سے متعلق ہوگا، یا دین اور دنیا دونوں سے متعلق ہوگا، یا صرف دنیا سے متعلق ہوگا‘‘۔ علامہ کی بات ختم ہوئی۔
گمراہی کی دعوت دینے کا گناہ
۹۵- صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{جس نے ہدایت کی دعوت دی، اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی{۔ ([237])۔
۹۵- اسے امام مسلم نے كتاب العلم (۴/ ۲۰۶۰) (حدیث نمبر: ۲۶۷۴) میں روایت کیا ہے۔
جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی، اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا۔
۹۶- صحیح مسلم ہی میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: {ایک شخص نبی اللہ ﷺ کے پاس آیا اور بولا: میرے پاس سواری نہیں رہی، لہذا میرے لیے سواری کا انتظام کر دیجیے۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس سواری نہیں ہے‘‘۔ اس پر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اِسے ایسے شخص کے پاس بھیج سکتا ہوں، جو اسے سواری دے سکتا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے بھلائی کا راستہ دکھایا، اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتا ہے‘‘}۔ ([238])
۹۶- اسے مسلم نے كتابالاِمارۃ (۳/ ۱۵۰۶) (حدیث نمبر: ۱۸۹۳) میں روایت کیا ہے۔
جب کہ بخاری نے اسے ’الادب المفرد‘ (۲۴۲) میں اور طیالسی (۸۵) (حدیث نمبر: ۶۱۱) میں روایت کیا ہے۔
’’إنه أبدع بي‘‘: یعنی میرا سفر رک گیا ہے، کیوں کہ میری سواری تھک گئی ہے یا میرا جانور ہلاک ہو گیا ہے۔
محمد مصطفیٰ ﷺ کی کسی سنت کا احیا کرنے والے کا اجر
۹۷- عمرو بن عوف -رضي الله عنہ ۔ سے مرفوعًا روایت ہے: {جس نے میری کسی سنت کو زندہ کیا، جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا تھا، اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بعد میں اس سنت پر عمل کرنے والے لوگوں کو ملے گا۔ لیکن اس سے ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اسی طرح جس نے کوئی بدعت جاری کی، جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہ ہو، اسے اس پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی}۔ ([239])۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے۔ اسی طرح ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے اور الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔
۹۷- اسے ترمذی نے کتاب العلم(۵/ ۴۴) (حدیث نمبر: ۲۶۷۷) اور ابن ماجہ نے المقدمۃ (۱/ ۷۶) (حدیث نمبر: ۲۶۷۷) میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کی سند سے روایت کیا ہے، جو اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
میں کہتا ہوں: اس میں کثیر بن عبداللہ انتہائی ضعیف راوی ہے۔
فتنوں کے اسباب
۹۸- عبد اللہ بن مسعود -رضی الله عنه- سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
{اس وقت تمھارا کیا حال ہوگا، جب تمھارے بیچ فتنہ ایسے عام ہو جائے گا کہ چھوٹے اسی میں پروان چڑھیں گے، بڑے اسی میں ادھیڑ ہوں گے اور اسی کو سنت بناکر لوگ اس پر عمل پیرا ہو جائیں گے۔ جب اس میں سے کسی چیز کو بدلا جائے گا، تو لوگ کہیں کے کہ ایک سنت چھوڑ دی گئی۔ کسی نے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن! یہ فتنہ کب رونما ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا : جب تمھارے اندر پڑھنے والے زیادہ اور سمجھنے والے کم ہوجائیں گے، مال ودولت کی کثرت ہوجائے گی اور امانت دار کم ہو جائیں گے، آخرت کے عمل سے دنیا طلبی کی جانے لگے گی اور دین کی بجائے دیگر مقاصد کے پیش نظر تفقہ حاصل کیا جانے لگے گا}۔ ([240])
اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
۹۸- اسے دارمی نے المقدمۃ (۱/ ۵۸) (حدیث نمبر: ۱۹۱) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو خبر دی ابو یعلیٰ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی اعمش نے، جو شعبہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ شقیق سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ نے کہا۔
دارمی نے اسے المقدمۃ (۱/ ۵۸) (حدیث نمبر: ۱۹۲) میں ایک اور طریق سے روایت کیا ہے، جو کچھ اس طرح ہے: ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن عون نے، جو خالد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ یزید بن ابی زیاد سے روایت کرتے ہیں، وہ ابراہیم سے روایت کرتے ہیں، وہ علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح بیہقی نے ’’المدخل‘‘ )1/64) میں بھی اسے روایت کیا ہے۔
اسلام کو منہدم کون کرتا ہے؟
۹۹- زیاد بن حدیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز اسلام کو منہدم کردیتی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: اسے عالِم کی لغزش، منافق کا قرآن کے ذریعہ مباحثہ اور گمراہ کن حاکموں کی حکومت منہدم کرتی ہے۔ ([241])
اسے بھی دارمی نے روایت کیا ہے۔
۹۹- اسے دارمی نے المقدمۃ (۱/ ۶۳) (حدیث نمبر: ۲۲۰) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ہم کو خبر دی محمد بن عیینہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی علی )ابن مسہر( نے، جو ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں، وہ شعبی سے روایت کرتے ہیں اور وہ زیاد بن حدیر سے روایت کرتے ہیں۔
سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اقتدا کا وجوب
۱۰۰- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: }ہر وہ عبادت، جسے محمد ﷺ کے صحابہ نے نہ کیا ہو، تم اسے نہ کرنا، کیوں کہ پہلے دور کے لوگوں نے بعد والوں کے لیے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ اس لیے اے علما کی جماعت! تم اللہ سے ڈرو اور اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر چلو{۔
اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۰۰- اسے امام بخاری نے کتاب الاعتصام بالكتاب والسنۃ (۱۳/ ۲۵۰) (حدیث نمبر: ۷۲۸۲) میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: اے قرآن و حدیث پڑھنے والو! تم سیدھے راستے پر چلتے رہو۔ کیوں کہ تم اور لوگوں کے مقابلے میں کافی آگے بڑھ چکے ہو۔ اب اگر تم دائیں بائیں کا راستہ لوگے، تو تم بڑی دور کی گمراہی میں جا گروگے۔
۱۰۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو، وہ گزرے ہوئے لوگوں کا طریقہ اختیار کرے؛ کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنےکا اندیشہ ہے۔ جب کہ وہ لوگ محمد ﷺ کے صحابہ تھے۔ اس امت میں سب سے افضل، نیک ترین دل والے، گہرے علم کے مالک اور بے تکلف لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا تھا۔ لہٰذا ان کافضل پہچانو، ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اخلاق اور سیرت کو اپناؤ۔ کیونکہ وہ لوگ سیدھے راستے پر گامزن تھے۔
اسے رزین نے روایت کیا ہے۔
۱۰۱- اسے رزين نے روایت کیا ہے، جیساکہ ’مشکاۃ المصابیح‘ (۱/ ۶۷) (حدیث نمبر: ۱۹۳) میں ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی اس حدیث پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: یہ روایت منقطع ہے۔ ابن عبد البر نے اسے ’جامع بیان العلم وفضلہ‘ (۲/ ۹۷) میں قتادہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔
قرآن کے بارے میں بے سود بحث کرنے کی حُرمت
۱۰۲- عمرو بن شعيب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: }نبیﷺ نے کچھ لوگوں کو قرآن کے بارے میں جھگڑتے ہوئے سُنا، تو فرمایا: ’’تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک کردی گئیں۔ انہوں نے اللہ کی کتاب کی بعض آیتوں کو بعض پر دے مارا۔ جب کہ اللہ کی کتاب اس طرح نازل کی گئی ہے کہ اس کی بعض آیتیں بعض آیتوں کی تصدیق کرتی ہیں۔ اس لیے تم کچھ آیتوں کے ذریعہ کچھ آیتوں کو مت جھٹلاؤ۔ جس کے بارے میں علم ہو، اس کے متعلق باتیں کرو اور جس کے بارے میں علم نہ ہو، اسے اُس کے جاننے والوں کے سپرد کردو‘‘}۔ ([242])۔
اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
۱۰۲- یہ حدیث حسن ہے۔ اسے امام احمد (2/ 185)نے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی عبدالرزاق نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی معمر نے، جو روایت کرتے ہیں زہری سے اور وہ روایت کرتے ہیں عمرو سے۔ الفاظ احمد کے ہیں۔
اسے ابن ماجہ نے المقدمۃ (۱/ ۳۳) (حدیث نمبر: ۸۵) میں داؤد بن ابی ہند کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عمرو بن شعیب سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت اسی معنی کی ہے۔
باب: طلب علم پر ابھارنے اور اس کی کیفیت کا بیان
تقلید کی حُرمت
۱۰۳- اس باب سے متعلق ایک حدیث فتنۂ قبر کے حوالے سے صحیحین میں موجود ہے: }نعمت میں رہنے والا شخص کہے گا: وہ ہمارے پاس واضح دلائل اور ہدایت کے ساتھ آئے، تو ہم ان پر ایمان لے آئے، ان کی بات مان گئے اور ان کی پیروی کرنے لگے۔ جب کہ عذاب میں گرفتار شخص کہے گا: میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا، تو میں نے بھی کہہ دیا{۔ ([243])
۱۰۳- اسے امام بخاری نے كتاب العلم (۱/ ۱۸۲) (حدیث نمبر: ۸۶) اور کتاب الوضوء (۱/ ۲۸۸) (حدیث نمبر: ۱۸۴) کے ساتھ ساتھ بہت سی جگہوں میں اور امام مسلم نے کتاب الکسوف (۲/ ۶۲۴) (حدیث نمبر: ۹۰۵) میں ہشام بن عروہ کی سند سے روایت کیا ہے، جو فاطمہ بنت منذر سے روایت کرتے ہیں اور وہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں۔
امام بغوی رحمہ اللہ (۱/ ۲۸۹) کہتے ہیں:
شرعی علوم کی دو قسمیں ہیں: اصول کا علم اور فروع کا علم۔ اصول کے علم سے مراد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا، اس کی وحدانیت کو جاننا، اس کی صفات کا علم حاصل کرنا اور رسولوں کی تصدیق کرنا ہے۔ چنانچہ ہر مکلف شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ علوم شرعیہ کی اس قسم کو جانے۔ اس قسم کے علم کے دلائل اس قدر روشن ہوتے ہیں کہ اس میں کسی ہیر پھیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: }سو )اے نبی!) آپ جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود )برحق( نہیں{۔ ([244])سورہ محمد: 19] ] اس کا مزید فرمان ہے: }عن قریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی، یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے{۔ ([245]) [سورہ فصلت: 53]
جہاں تک فروعی علم کا تعلق ہے، تو اس سے مراد علمِ فقہ اور احکامِ دین کی معرفت ہے۔ پھر فروعی علم کی بھی دو قسمیں ہیں: فرضِ عین اور فرضِ کفایہ۔ جہاں تک فرضِ عین کی بات ہے تو اس کی مثال، طہارت، نماز اور روزے وغیرہ کا علم ہے۔ ہر مکلف شخص پر ان امور کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں: }علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے{۔ اسی طرح ہر وہ عبادت، جو کسی شخص پر واجب ہے، اس کی جانکاری حاصل کرنا اس شخص کے لیے ضروری ہے۔ جیسے اگر آدمی کے پاس مال ہے، تو اس پر زکوۃ کا علم حاصل کرنا ضروری ہے اور اگر کسی پر حج فرض ہے، تو اس پر اس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
جہاں تک فرضِ کفایہ کی بات ہے، تو اس سے مراد اتنا علم حاصل کرنا ہے کہ انسان رتبۂ اجتہاد کو پہنچ جائے اور فتویٰ دینے کا اہل ہو جائے۔ اگر پورے شہر میں ایک بھی آدمی اتنا علم حاصل نہ کرے، تو سب لوگ گنہ گار ہوں گے۔ لیکن اگر ایک یا چند لوگ بھی اس لائق ہو جائیں، تو دوسرے لوگوں کا فرض ادا ہو جائے گا اور باقی لوگوں کو درپیش مسائل میں ان کی پیروی کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کر لو{۔ ([246]) [سورہ النحل: 43]
عوام پر علما کی فضیلت
۱۰۴- صحیحین ہی میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
{جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے{۔ ([247])۔
۱۰۴- اسے امام بخاری نے كتاب العلم (۱/ ۱۶۴) (حدیث نمبر: ۷۱) ، کتاب فرض الخمس (۶/ ۲۱۷) (حدیث نمبر: ۳۱۱۶) اور کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ (۱۳/ ۲۶۳) (حدیث نمبر: ۷۳۱۲) میں اور امام مسلم نے کتاب الزکاۃ (۲/ ۷۱۹) (حدیث نمبر: ۱۰۳۷) میں روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱/ ۱۶۴) میں لکھتے ہیں:
اس حدیث کے اندر اس شخص کے لیے خیر و بھلائی کا اثبات کیا گیا ہے، جو اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کی سمجھ صرف کسب و محنت سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے اللہ کی توفیق بھی ضروری ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس طرح کے باتوفیق لوگ قیامت تک ہمیشہ موجود رہیں گے۔ امام بخاری نے پر وثوق انداز میں کہا ہے کہ اس سے مراد آثار کا علم رکھنے والے لوگ ہیں۔
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: اگر یہ اہلِ حدیث نہیں، تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہو سکتے ہیں!
اور قاضی عیاض کہتے ہیں: امام احمد نے اس سے مراد اہلِ سنت اور ان لوگوں کو لیا ہے جو مذہب اہلِ حدیث کا عقیدہ رکھتے ہيں۔
امام نووی فرماتے ہیں: اس بات کا امکان ہے کہ اس طائفہ سے مراد مجاہدین، فقہا، محدثین، زاہدین اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے جیسے طرح طرح کے بھلائی کے کاموں میں لگے ہوئے وہ سارے لوگ مراد ہوں، جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا کسی ایک جگہ پر جمع ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وہ مختلف جگہوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ’’حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس نے دین میں تفقہ حاصل نہیں کیا، یعنی دین کے بنیادی اصول و قواعد اور ان سے متعلق فروعات کا علم حاصل نہیں کیا، وہ خیر و بھلائی سے محروم رہے گا۔ اس لیے کہ جس نے اپنے رب کے حکم کو نہیں جانا وہ نہ فقیہ ہوسکتا ہے، نہ فقہ کا متلاشی۔ اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ اس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کیا گيا ہے۔ اس حدیث کے اندر واضح انداز میں دیگر لوگوں پر علما کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح دیگر علوم کے مقابلے میں تفقہ فی الدین کی فضیلت بھی اجاگر کی گئی ہے‘‘۔
۱۰۵- صحیحین میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے، اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے، جو زمین پر خوب برسی۔ چنانچہ زمین کا کچھ حصہ زرخیز تھا، سو اس نے پانی کو جذب کر لیا اور گھاس اور ہریالیاں اگائیں۔ جب کہ اس کا کچھ حصہ سخت تھا، جس نے پانی کو روک لیا اور اللہ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ چنانچہ لوگوں نے وہاں کا پانی خود پیا، اپنے جانوروں کو پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا۔ اس کے مقابلے میں زمین کے ایک ایسے حصے پر بھی بارش ہوئی، جو چٹیل میدانوں کی حیثیت رکھتا ہے، جو نہ پانی روکتا ہے اور نہ گھاس اگاتا ہے۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کرے اور اس کو وہ چیز نفع دے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں کہ وہ اسے سیکھے اور سکھائے اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اس پر توجہ نہیں دی اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا}۔ ([248])
۱۰۵- امام بخاری نے كتاب العلم (۱/ ۱۷۵) (حدیث نمبر: ۷۹) اور مسلم نے کتاب الفضائل (۴/ ۱۷۸۷) (حدیث نمبر: ۲۲۸۲) میں روایت کیا ہے۔
بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’فکانتْ منھا ثغبة‘‘: اس میں ثغبہ دامنِ کوہ اور چٹانوں کے بیچ واقع پانی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ثغبان آتی ہے۔
’’کانتْ منھا أجادب‘‘: ’اجادب‘ سخت زمین کو کہتے ہیں، جو پانی کو روک لیتی ہے اور جذب ہونے نہیں دیتی۔ اصمعی کہتے ہیں: اجادب یعنی سخت زمین، جس پر سبزہ نہیں اُگتا۔ چنانچہ یہ پیڑ پودوں سے خالی صاف جگہ ہوتی ہے۔
یہاں نبی ﷺ نے عالِم کی مثال بارش سے دی ہے اور علم کے ساتھ تعلق کے معاملے میں لوگوں کے دلوں کو، بارش کا پانی قبول کرنے کے معاملے میں، زمین کی مانند قرار دیا ہے۔ چنانچہ علم اور حدیث کے حامل اور اس میں تفقہ حاصل کرنے والے کو زرخیز زمین کے مشابہ قرار دیا ہے، جو بارش کے بعد ہریالی کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے، جب کہ علم کو یاد رکھنے والے اور تفقہ حاصل نہ کرنے والے کو سخت زمین کی مانند قرار دیا ہے، جو گرچہ ہریالی نہيں اگاتی، لیکن پانی جمع رکھتی ہے، جس سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ان لوگوں کو، جو نہ علم یاد کرتے ہیں اور تفقہ حاصل کرتے ہیں، زمین کے ان ٹیلوں کے مشابہ قرار دیا ہے، جو نہ گھاس اگاتے ہیں اور نہ پانی جمع رکھتے ہیں اور اس طرح دیکھا جائے تو وہ اپنے اندر کوئی خیر نہیں رکھتے۔
نووی (۱۵/ ۴۷-۴۸) کہتے ہیں:
جہاں تک اس حدیث کے معانی و مقصود کا تعلق ہے، تو اس میں دراصل نبی ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی تین قسمیں ہیں اور اسی طرح لوگوں کی بھی تین قسمیں ہیں:
زمین کی پہلی قسم: ایسی زمین جو پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ پہلے وہ بے جان سی ہوتی ہے اور بارش کے بعد اس میں جان سی پڑ جاتی ہے۔ وہاں سبزے اُگ آتے ہیں، جس سے انسان، چوپائے اور کھیت سب مستفید ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، انسانوں کی پہلی قسم میں وہ لوگ آتے ہیں، جن کو علم اور ہدایت پہنچتی ہے، تو اسے محفوظ کرلیتے ہیں۔ نتیجے میں ان کے دل زندگی سے معمور ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔ اس طرح، وہ خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
زمین کی دوسری قسم: ایسی زمین، جو خود تو بارش سے فائدہ نہیں اٹھاتی، دوسروں کے لیے پانی جمع کرلیتی ہے، جس سے انسان اور چوپائے سب مستفید ہوتے ہیں۔ ایسے ہی انسانوں کی دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے، جن کے پاس یاد کرنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے، لیکن نصوص سے احکام و مسائل اخذ کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی خوب دل لگا کر طاعت و عمل میں لگے رہنے کا جذبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح وہ علم کو یاد کر لیتے ہیں اور علم کے پیاسے اور محتاج تک اسے پہنچانے کا واسطہ بنتے ہیں، جو اس سے خود نفع اٹھانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے اہل ہوتے ہیں۔
زمین کی تیسری قسم: وہ شور زمین ہے، جو نہ پانی جذب کرکے سبزہ اگاتی ہے اور نہ اسے جمع رکھتی ہے کہ دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ اسی طرح تیسری قسم کے انسان وہ ہیں، جن کے پاس نہ یاد رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، نہ مسائل اخذ کرنے کا ملکہ۔ جب وہ علم کی باتیں سنتے ہیں، تو اُن سے نہ خود مستفید ہوتے ہیں، نہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اُنہیں یاد رکھتے ہیں۔
۱۰۶- صحیحین ہی میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے:
{جب تم اُن لوگوں کو دیکھو، جو قرآن کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں، تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن کا نام اللہ نے {فاحذروھم} (اُن سے بچو( کے ضمن میں لیا ہے}۔ ([249])
۱۰۶- اس کی تخریج (۷۹) نمبر حاشیے میں گزر چکی ہے۔
(فائدہ): امام ابوجعفر طحاوی ’مشکل الآثار‘ ‘ (۳/ ۲۱۰)میں اس حدیث کو روایت کرنے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمان: {وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا} ([250]) یعنی )اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں(۔ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’قرآن کی متشابہ آیتوں کے حوالے سے اہلِ علم کا یہی وطیرہ ہے رہا ہے کہ وہ انہیں ان کے جاننے والے یعنی اللہ عزّ وجلّ کی طرف لوٹاتے ہیں۔ پھر وہ قرآن کی محکم آیات کے ذریعے، جو ام الکتاب کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر انہیں اس میں کامیابی مل جاتی ہے، تو ان پر محکم آیات کی طرح عمل کرتے ہیں۔ لیکن اگر علمی کم مائیگی کی وجہ سے کامیابی نہیں مل پاتی، تو وہ بس ان پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں وہ ظن و تخمین سے کام نہیں لیتے، جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر معاملات میں بھی حرام قرار دیا ہے اور جب ظن و تخمین کا استعمال دیگر معاملات میں بھی حرام ہے، تو قرآنی آیات کی تاویل وتفسیر کے معاملے میں تو بدرجۂ اَولیٰ حرام ہوگا‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کے حواری وہ ہیں، جو آپ کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں۔
۱۰۷- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: }مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کی امت کے اندر ان کے کچھ حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جو وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ کام تھے جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا، وہ مؤمن ہے، جو ان سے دل سے جہاد کرے گا، وہ مؤمن ہے اور جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مؤمن ہے، اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں{۔ ([251])
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
۱۰۷- اسے امام مسلم نے كتاب الايمان )1/69) (حدیث نمبر: 50 ) میں روایت کیا ہے۔
نووی کہتے ہیں (۲۸/ ۲):
’’جہاں تک اس حدیث میں مذکور حواریوں کی بات ہے، تو اُن کے بارے میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ ازہری کہتے ہیں کہ ان سے مراد انبیا کے مخلص دوست، سچے ساتھی اور ایسے سچے ہم دم و ہم راز ہیں، جو ہر عیب سے پاک ہوں۔۔
’’يهتدون بهديه‘‘: یعنی آپ کے طریقۂ کار پر کاربند رہتے تھے اور آپ کے دکھائے ہوئے نشان راہ کے مطابق زندگی کا سفر طے کرتے تھے۔
رسول ﷺ کے علاوہ کسی اور کی اقتدا کرنے کی حُرمت، خواہ وہ کوئی نبی ہی کیوں نہ ہو!
۱۰۸- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم یہود سے کچھ ایسی باتیں سنتے ہیں، جو ہمیں بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ تو کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم ان میں سے کچھ باتوں کو لکھ لیا کریں؟! آپ ﷺ نے جواب دیا:
{کیا تم بھی یہود و نصاریٰ کی طرح تحیر کے شکار ہوکر مشکل میں پڑنا چاہتے ہو! میں تو تمہارے پاس اجلا اور صاف ستھرا دین لایا ہوں اور اگر آج موسیٰ بھی زندہ ہوتے، تو ان کے پاس بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا}۔ ([252])۔
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
۱۰۸- اسے امام احمد (3/ 387) اور بزار جیسا کہ ’کشف الاستار‘ (۱/ ۷۸) (حدیث نمبر: ۱۲۴) میں ہے، ہشیم کے طریق سے اس طرح روایت کیا ہے: وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی مجالد نے، جو عامر شعبی سے روایت کرتے ہیں اور وہ جابر سے روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ ... الحدیث
اس کی سند میں مجالد نامی راوی ہے، جو ضعیف ہے۔ تاہم اس کی متابعت بھی ہو گئی ہے:
کیوں کہ بزّار نے اسے،’کشف الاستار‘ (۱/ ۷۸) (حدیث نمبر: ۱۲۴) میں ہے، حماد بن زید کے طریق سے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی خالد نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی عامر نے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی جابر نے۔
۱۰۹- ابو ثعلبہ خشنی-رضی الله عنه- سے مرفوعًا روایت ہے:
{اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض کی ہیں انھیں ضائع نہ کرو، کچھ حدیں مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو، کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کا ارتکاب کر کے ان کی حرمت پامال نہ کرو اور کچھ چیزوں سے، تم پر شفقت کی بنا پر، نسیان کے شکار ہوئے بنا، خاموشی اختیار کی ہے۔ چنانچہ ان کے متعلق بحث و کرید نہ کرو}۔
یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ اسے دار قطنی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
۱۰۹- اسے دار قطنی نے کتاب الرضاع(۴/ ۱۸۳) (حدیث نمبر: ۴۲) میں اسحاق الاَزرق اور حاکم نے کتاب الاطعمۃ (۴/ ۱۱۵) نیز بیہقی نے کتاب الضحایا میں علی بن مسہر کے طریق سے روایت کیا ہے، یہ دونوں داؤد بن ابو ہند سے روایت کرتے ہیں، وہ مکحول سے روایت کرتے ہيں اور وہ ابوثعلبہ خشنی سے مرفوعًا روایت کرتے ہیں۔ تاہم اس کی سند منقطع ہے، اس لیے کہ مکحول کی ملاقات ابوثعلبہ سے ثابت نہیں ہے۔
یہ حدیث موقوفًا مروی ہے۔
اسے بیہقی (۱۰/ ۱۲) نے حفص بن غیاش کے طریق سے روایت کیا ہے، جو داؤد بن ابو ہند سے روایت کرتے ہیں، وہ مکحول سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوثعلبہ سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت ابوثعلبہ پر موقوف ہے۔
مِزّی ’تہذیب الکمال‘ (۳۳/ ۱۶۸) میں کہتے ہیں: اس نے ان سے سنا نہیں ہے۔
اس حدیث کا، اس کے معنی و مفہوم پر دلالت کرنے والا ایک شاہد بھی ہے، جو ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور جسے ’کشف الاستار‘ (۳/ ۸۵) (حدیث نمبر: ۲۲۳۱) کے بزّار نے اور حاکم (۲/ ۳۷۵) و بیہقی (۱۰/۱۲) نے روایت کیا ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
بزار کہتے ہیں: اس کی سند صالح ہے۔
ہیثمی (۷/ ۵۵) کہتے ہیں: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
اختلاف وانتشار کی حُرمت
۱۱۰- صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{میں تمہیں جس چیز سے روکوں اس سے رک جاؤ اور جس چیز کا حکم دوں اسے اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو بکثرت سوال اور اپنے انبیا سے اختلاف نے ہلاک کردیا}۔ ([253])
۱۱۰- اسے امام بخاری نے كتاب الاعتصام (13/ 251) (حدیث نمبر: ۷۲۸۸) اور مسلم نے کتاب الفضائل (۴/ ۱۸۳۱) (حدیث نمبر: ۱۳۳۷) میں روایت کیا ہے۔ مسلم نے اسے اور دو جگہوں میں بھی روایت کیا ہے۔ دیکھیں: (۴/ ۱۸۳۰) اور (۴/ ۱۸۳۱)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (۱۳/ ۲۶۰) میں لکھتے ہیں:
یہاں آپ کی مراد کسی غیر پیش آمدہ مسئلے کے بارے میں سوال کرنے سے بچنا ہے کہ کہیں اُس کے وجوب کا حکم نازل نہ ہوجائے یا کہیں اُس کی حرمت نازل نہ کردی جائے۔ اسی طرح اس میں کثرتِ سوال سے اجتناب بھی شامل ہے کہ کہیں شریعت کی طرف سے کوئی ایسا جواب نہ آجائے جو گراں بار ہونے کی وجہ سے عدم ادائیگی کا سبب بن جائے اور اس طرح شریعت کی مخالفت لازم آ جائے۔ اسی طرح زیادہ کھود کرید سے بھی منع کیا گیا ہے، کیوں کہ اس کے نتیجے میں کبھی کبھی وہی ہوتا ہے، جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا کہ جب انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، تو کوئی بھی گائے ذبح کرکے حکم کی تعمیل کرنے کی بجائے بے جا کھود کرید کر کے اپنے اوپر مشقت لادتے چلے گئے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: محقق بات یہ ہے کہ کسی بھی ممنوع چیز سے بچنے کا حکم اپنے عموم پر باقی رہے گا، جب تک کوئی معارض سامنے نہ آئے، جو اس ممنوع چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہو۔ جیسےکہ کسی مجبور انسان کے لیے مردار کھانے کا خاص حکم۔
’’میں تمہیں جس چیز کا حکم دوں، اسے جہاں تک ہو سکے، بجا لاؤ ‘‘۔
نووی کہتے ہیں: یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جامع ترین باتوں میں سے ایک اور اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس میں بہت سے احکام داخل ہیں۔ مثلا اگر کوئی شخص نماز کے کسی رکن یا شرط کو انجام دینے سے عاجز ہو، تو جن اعمال کو ادا کر سکتا ہو، انھیں ادا کرے گا۔ یہی حال وضو اور ستر عورت کا ہے۔ اس طرح کے اور بھی مسائل ہیں، جن کا ذکر طوالت کا سبب بنے گا۔
جب کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ کہتے ہیں: جو شخص کچھ کاموں کو کرنے سے عاجز ہو، اس سے وہ کام ساقط نہیں ہوں گے، جن کی وہ طاقت رکھتا ہو۔ فقہا نے اسے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ آسان مشکل کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ مثلا انسان نماز کے جن ارکان کو ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو، وہ ان ارکان کی وجہ سے ساقط نہیں ہوں گے، جن کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔
حافظ ابن حجر’فتح الباری‘ (۲۶۳) میں کہتے ہیں: تم سے پہلے کے لوگ زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
بغوی ’شرح السنّہ‘ میں کہتے ہیں:
سوال کرنے کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت میں دینی معاملوں سے متعلق وہ سوالات آتے ہیں، جو ضرورت کی بنیاد پر سیکھنے کے مقصد سے کیے جائیں۔ اس طرح کے سوال جائز ہی نہیں، بلکہ ان کا حکم موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ} ([254])الآية۔ (اگر تم نہیں جانتے، تو جاننے والوں سے پوچھ لو ...)۔ صحابۂ کرام کا مالِ غنیمت اور کلالہ وغیرہ کے بارے میں پوچھنا اسی نوعیت کے سوالات ہیں۔ دوسری صورت میں وہ سوالات آتے ہیں، جو کسی کو تلبیس کا شکار بنانے اور بال کی کھال نکالنے کے لیے کیے جائیں۔ اس حدیث میں اسی طرح کے سوال مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔
ابن العربی کہتے ہیں: ’’عہدِ نبوی میں اس طرح کے سوال کی ممانعت کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ کہیں کوئی ایسا حکم نہ نازل کردیا جائے، جس پر عمل کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہو۔ لیکن جہاں تک بعد کے زمانوں کی بات ہے تو اب یہ خدشہ نہیں رہا۔ تاہم غیر پیش آمدہ مسائل کے بارے میں باتیں کرنے کے سلسلے میں سلف سے ناپسندیدگی وکراہیت کی بہت سی باتیں نقل کی گئی ہیں‘‘۔
اہلِ حدیثوں کے حق میں رسول ﷺ کی دعا
۱۱۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے، جس نے میری کوئی بات سنی، پھر اسے یاد اور محفوظ رکھا اور دوسروں تک پہنچا دیا۔ کیوں کہ بہت سے فقہ کے حاملین غیر فقیہ ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ فقہ کو ایسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں، جو ان سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔ تین چیزیں ہیں کہ ان کے بارے میں کسی مسلمان کا دل راہ راست سے بھٹکتا نہیں ہے: اللہ کے لیے اخلاص عمل، مسلمانوں کے تئیں خیر خواہی اور ان کی جماعت کو لازم پکڑنا۔ کیونکہ ان کی دعا انہیں ان کے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہوتی ہے}۔ ([255])
اسے شافعی، بیہقی نے ’المدخل‘ میں، احمد، ابن ماجہ اور دارمی نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
۱۱۱- یہ حدیث صحيح ہے۔ اسے شافعی نے اپنی مسند (1514) اور ترمذی نے کتاب العلم (۵/ ۳۴) (حدیث نمبر: ۲۶۵۸) میں، حمیدی (۱/۴۷) (حدیث نمبر: ۸۸)، بیہقی نے ’الدلائل(۱/ ۲۳) میں اور بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱/۲۳۶) (حدیث نمبر: ۱۱۲) میں عبدالملک بن عمیر کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح ترمذی (حدیث نمبر: ۲۶۵۷)، ابن ماجہ (۱/ ۸۵) (حدیث نمبر: ۲۳۲)، (احمد (۱/ ۴۳۷)، ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘ (۷/ ۳۳۱) میں، ابن حبان نے اپنی صحیح (۱/ ۲۶۸) (حدیث نمبر: ۶۶) میں اور بیہقی نے ’الدلائل‘ (۶/ ۵۴۰) سماک کے طریق سے روایت کیا ہے، جو عبدالرحمن بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت مختص ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جب کہ ابونعیم نے اسے ’اَخبار اصبہان‘ (۲/ ۹۰) میں مرّہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
۱۱۲- اسے احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
۱۱۲- یہ حدیث صحيح ہے۔ اسے ابو داؤد نے كتاب العلم (۴/ ۳۲۲) (حدیث نمبر: ۳۶۶۰)، ترمذی نے کتاب العلم (۵/۳۳) (حدیث نمبر: ۲۶۵۶)، دارمی (۱/ ۶۵) (حدیث نمبر: ۲۳۵)، ابن ابو عاصم نے ’السنۃ‘ (۱/ ۴۵) (حدیث نمبر: ۹۴) اور طحاوی نے ’مشکل الآثار‘ (۲/ ۲۳۲) میں، طبرانی (۱/ ۵/ ۵۸) (حدیث نمبر: ۴۸۹۰) اور ابن حبان (۱/ ۲۷۰) (حدیث نمبر: ۶۷)، (۲/۴۵۴) (حدیث نمبر: ۶۸۰) نے شعبہ سے روایت کیا ہے، جو عمرو بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں، وہ عبدالرحمن بن ابان سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ابوداؤد، ترمذی اور طحاوی کے الفاظ اختصار پر مبنی ہیں۔
جب کہ ابن ماجہ(۱/۸۴) (حدیث نمبر: ۲۳۰) اور طبرانی نے (۵/ ۱۷۱) (حدیث نمبر: ۲۹۲۴) نے اسے یحییٰ بن عباد سے روایت کیا ہے، جو اپنے والد سے اور وہ زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں۔
طبرانی کے الفاظ مختصر ہیں۔
ساتھ ہی طبرانی (۵/ ۱۷۲) (حدیث نمبر: ۴۹۲۵)نے محمد بن وہب سے روایت کیا ہے، جو اپنے والد سے اور وہ زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں۔ ترمذی فرماتے ہیں: زید کی حدیث حسن ہے۔
بغوی (1/ 236) کہتے ہیں: ابو سلیمان کہتے ہیں:
ارشاد نبوی: }نضر اللَّه امرأ{ )اللہ ایسے شخص کو تروتازہ رکھے)([256]) : یہ آپ کی جانب سے حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے شاداب و آباد رہنے کی دعا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد چہرے کی خوب صورتی نہیں، بلکہ جاہ ومنصب کی خوب صورتی اور لوگوں کے نزدیک مقام و مرتبہ ہے۔ اس حدیث کا مطلب ہے : فقہ کا حامل شخص کبھی کبھی فقیہ تو ہوتا ہے، تاہم دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ فقیہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ آپ کی بات کو یاد رکھتا ہے اور ایسے آدمی تک پہنچا دیتا ہے، جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے اور وہ اس سے ایسے مسائل مستنبط کرتا ہے، جو پہلے شخص کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو ایسے شخص تک پہنچا دیتا ہے جو آگے چل کر اُس سے بھی بڑا فقیہ بن جاتا ہے۔
ارشاد نبوی: }لا يغل عليهن}([257]) میں ’یغل‘ ، ’یاء‘ کے فتحہ (زبر) اور غین کے کسرہ (زیر( کے ساتھ ’غِل‘ سے ماخوذ ہے، جو کینہ و کپٹ کے معنی میں ہے۔ آپ ﷺ کہنا چاہتے ہیں کہ مؤمن کے اندر کینہ داخل نہیں ہوتا، جو اسے حق سے برگشتہ کر دے۔ جب کہ اسے ’یاء‘ کے پیش کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ ’الأغلال‘ سے ماخوذ ہوگا، جو خیانت کے معنی میں ہے۔
علم تین ہیں اور باقی سب زائد چیزیں ہیں
۱۱۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{علم تین ہیں: غیر منسوخ آیت کا علم، عملی تسلسل کی حامل سنت کا علم اور انصاف پر مبنی میراث کا علم۔ ان کے علاوہ باقی علوم زائد علوم کی حیثیت رکھتے ہیں}۔ ([258])
اسے دارمی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۱۳- اسے ابو داؤد نے كتاب الفرائض (3/ 119) (حدیث نمبر: ۲۸۸۵) میں، ابن ماجہ (۱/ ۲۱) (حدیث نمبر: ۵۴)، دار قطنی نے کتاب الفرائض (۴/ ۶۷) میں، حاکم (۱/ ۳۳۲) اور بیہقی (۶/ ۲۰۸) نے روایت کیا ہے۔
اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی نامی راوی ہے، جو ضعیف ہے۔
’’العلم ثلاثة‘‘: یعنی اصل دینی علوم اور شرعی مسائل تین ہیں اور ان کے سوا باقی علوم زائد علوم کے زمرے میں آتے ہیں، جن کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
’’آية محكمة‘‘: یعنی وہ آیتیں، جو منسوخ نہ ہوں۔
’’سنة قائمة‘‘: یعنی ایسی سنت، جس پر تسلسل کے ساتھ عمل جاری رہے۔
’’فريضة عادلة‘‘: یعنی میراث کا علم۔ آپ کی مراد تقسیم میں اس طرح انصاف کو ملحوظ رکھنا ہے کہ سارے حصے داروں کو کتاب و سنت کے مطابق ہی حصے دیے جائیں۔ میراث کو فریضہ اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ اس کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔
مجھے یہ حدیث سنن دارمی میں نہ مل سکی۔
قرآن کریم کے بارے میں رائے زنی کی حُرمت
۱۱۴- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
{جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے}۔ ([259])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اسے ترمذی نے كتاب التفسير (۵/ ۱۸۳) (حدیث نمبر: ۹۵۰) نسائی نے ’الکبری فضائل القرآن‘ (۵/ ۳۱) (حدیث نمبر: ۸۰۸۵) اور بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱/ ۲۵۸) (حدیث نمبر: ۱۱۸، ۱۱۹) میں سفیان سے روایت کیا ہے، جو عبدالأعلیٰ بن عامر سے روایت کرتے ہیں، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جب کہ بغوی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
۱۱۵- ایک اور روایت میں ہے:
{جس نے بغیر علم کے قرآن کی تفسیر کی، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے}۔ ([260])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۱۱۵- اسے ترمذی (۵/ ۱۸۳) (حدیث نمبر: ۲۹۵۰)، نسائی نے ’الکبری‘ (۵/ ۱۸۳) (حدیث نمبر: ۸۰۸۴) میں، احمد (۱/ ۲۳۳)، طبرانی (۵/ ۳۰) (حدیث نمبر: ۱۲۳۹۲) اور بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱۲/ ۳۵) (حدیث نمبر: ۱۱۷) میں عبدالأعلیٰ بن عامر سے روایت کیا ہے، جو سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی اور بغوی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
میں کہتا ہوں: ان دونوں سندوں میں عبدالأعلیٰ بن عامر نامی راوی ہے، جو ضعیف ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح بعض اہلِ علم صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ انھوں نے بغیر علم کے قرآن کی تفسیر کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔
بغیر علم کے فتویٰ دینے کی ممانعت
۱۱۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا، اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا اور جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا، جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ بھلائی اس میں مضمر نہیں ہے، اس نے اس کے ساتھ خیانت کی}۔ ([261])
اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۱۶- یہ حدیث حسن ہے۔ اسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ (۱۰۱) (حدیث نمبر: ۲۵۹) میں روایت کیا ہے۔
۱۱۷- معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: }نبی ﷺ نے دشوار اور مشکل مسائل میں پڑنے سے منع فرمایا ہے{۔
اس حدیث کو بھی ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۱۷- اسے ابو داؤد نے كتاب العلم (3/ 321) (حدیث نمبر: 3656) اور احمد نے اپنی ’مسند‘ (۵/ ۴۳۵) میں عیسیٰ بن یونس سے روایت کیا ہے، جو اوزاعی سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن سعد سے روایت کرتے ہیں، وہ صناجی سے روایت کرتے ہیں اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
جب کہ احمد (۵/ ۴۳۵) نے اسے روح سے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے اوزاعی بن عبداللہ بن سعد نے حدیث بیان کی، وہ صناجی سے روایت کرتے ہیں اور وہ اصحابِ رسول میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن سعد ایک مجہول راوی ہے اور اہلِ شام نے اسے ضعیف کہا ہے۔
دیکھیں:"تمام المنة " صفحہ: 45))۔
اوزاعی کہتے ہیں: ’اغلوطات‘ دشوار اور مشکل مسائل کو کہتے ہیں۔
طلبِ علم جنت کا راستہ ہے
۱۱۸- قیس بن کثیر کہتے ہیں: میں ابودرداء کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور بولا: اے ابو درداء! میں آپ کے پاس مدینہ سے ایک حدیث سننے آیا ہوں، جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ میں کسی اور ضرورت کے تحت نہیں آیا ہوں۔ ابو درداء نے کہا: تو سنو! میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے:
{جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چل پڑے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ بے شک فرشتے طالب علم کے عمل سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ یقینًا عالم کے لیے آسمانوں و زمین کی ساری مخلوقات اور پانی کے اندر کی مچھلیاں مغفرت طلب کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کی رات کو چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔ بے شک علما، انبیا کے وارث ہیں اور انبیا کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ اس لیے جس نے علم حاصل کر لیا، اس نے نبوی میراث کا بھر پور حصہ حاصل کر لیا}۔([262])۔
اسے احمد، دارمی، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
۱۱۸- یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ابو داؤد نے كتاب العلم (3/ 317) (حدیث نمبر: ۲۶۴۱)، ابن ماجہ ’المقدمۃ‘ (۱/ ۸۱) (حدیث نمبر: ۲۲۳)، احمد نے اپنی ’مسند‘ (۵/ ۱۹۶)، دارمی نے سنن (۱/ ۸۳) (حدیث نمبر:۳۴۹)، طحاوی نے ’مشکل الآثار‘ (۱/ ۴۲۹) ، بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱/ ۲۷۵) (حدیث نمبر: ۱۲۹) میں اور ابن حبان (۱/ ۲۸۹) (حدیث نمبر: ۸۸)نے عاصم بن رجاء بن حیوہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے داؤد بن جمیل نے حدیث بیان کی، جو کثیر بن قیس سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند میں داؤد بن جمیل نامی ایک ضعیف راوی موجود ہے۔
اسے ترمذی نے كتاب العلم (۵/ ۴۷) (حدیث نمبر: ۲۶۸۲) میں اور احمد نے ’مسند‘ (۵/ ۱۹۶) محمد بن یزید الواسطی سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی عاصم بن رجاء نے، جو قیس بن کثیر سے روایت کرتے ہیں۔ یعنی انہوں نے داؤد بن جمیل کو ساقط کردیا ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔
جب کہ ابو داؤد نے اسے سنن )3/318) (حدیث نمبر: 2642 ) میں محمد بن وزیر دمشقی سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ولید بن مسلم نے۔ وہ کہتے ہیں: میں شبیب بن شیبہ سے ملا، تو انھوں نے مجھ سے حدیث بیان کی عثمان بن ابو سودہ سے روایت کرتے ہوئے، جو ابو درداء سے رویت کرتے ہیں۔ یہ حدیث اسی معنی کی ہے۔
میں کہتا ہوں: شبیب مجہول راوی ہے۔
بغوی کہتے ہیں)1/277):
ارشاد نبوی: }إن الملائكة لتضع أجنحتها }([263]) (فرشتے ان کے لیے اپنے پَر بچھاتے ہیں): بعض لوگوں کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ فرشتے طالب علم کے علم کے احترام میں تواضع کا اظہار کرتے ہیں۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: {اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا}۔ ([264])سورہ الإسراء: 24]] اس کا مزید ارشاد ہے: {اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان ﻻنے واﻻ ہو کر تیری تابع داری کرے{۔([265]) [سوره الشعراء: 215] یعنی ان کے ساتھ فروتنی کا معاملہ کر۔
جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق پر رکھنے سے مراد اڑنا بند کرکے ذکر کے لیے رک جانا ہے۔
ارشاد نبوی: }إن العالم ليستغفر له من في السماوات ومن في الأرض}([266]) (عالِم کے لیے آسمانوں اور زمین میں رہنے والی ساری مخلوقات بخشش طلب کرتی ہیں(۔ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مچھلیوں وغیرہ جیسے جانوروں کے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ وہ علما کے لیے بخشش طلب کرتے رہیں، کیوں کہ یہی علما لوگوں کے سامنے حلال وحرام کے احکام بیان کرتے ہیں۔
عبادت پر علم کی فضیلت کا راز یہ ہے کہ علم کا فائدہ ساری مخلوق کو پہنچتا ہے، اس سے دین کا احیا ہوتا ہے اور نبوت کی صدا عام ہوتی ہے۔
ارشاد نبوی: }من أخذه أخذ بحظ وافر{ )جس نے یہ علم حاصل کر لیا، اس نے پورا پورا حصہ لے لیا(: یعنی اس نے میراثِ نبوت کا بہت بڑا حصہ حاصل کر لیا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رات میں کچھ دیر علم کا مطالعہ ومذاکرہ پوری رات عبادت کے لیے جاگنے سے بہتر ہے۔
قتادہ کہتے ہیں: علم کا ایک باب اس مقصد سے یاد کرنا کہ اس سے انسان اپنی اور دیگر لوگوں کی اصلاح کام کرے گا، سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔
ابن وہب کہتے ہیں: میں امام مالک کے پاس کچھ پوچھنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں جانے کے لیے اپنی کتابیں سمیٹ رہا ہوں۔ سو امام مالک نے پوچھا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: نماز کے لیے جلدی پہنچنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: اگر تمہاری نیت درست ہے، تو یہ کام، جس میں تم مصروف ہو، اُس سے کچھ کم نہیں ہے، جس کے لیے جانا چاہتے ہو۔ انھوں نے یہی یا اس سے ملتی جُلتی بات کہی۔
امام شافعی فرماتے ہیں: ’’علم حاصل کرنا نفل نماز سے بہتر ہے‘‘۔ شرح السنہ کا اقتباس، جو اختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے، ختم ہوا۔
حکمت مؤمن کی گمشدہ چیز ہے
۱۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{حکمت کی بات مؤمن کی گمشدہ چیز ہے۔ جہاں بھی اسے پائے، وہ اسے لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے}۔ ([267])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور غریب کہا ہے۔ ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
۱۱۹- اسے ترمذی نے كتاب العلم ۵/ ۴۹) (حدیث نمبر: ۲۶۸۷) اور ابن ماجہ نے ’الزھد‘ (۲/ ۱۳۹۵) (حدیث نمبر:۴۱۶۹)میں عبداللہ بن نمیر سے روایت کی ہے، جو ابراہیم بن فضل سے، وہ سعید مقبری سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔ ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے کے معاملے میں حفظ کے اعتبار سے ضعیف مانے جاتے ہیں ۔
فقیہ کون ہے؟
۱۲۰- علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: {حقیقی فقیہ وہ ہے، جو نہ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرے، نہ انہیں اللہ کی فرمانی کی چھوٹ دے، نہ اللہ کے عذاب سے مامون بنائے، نہ قرآن کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی طرف مائل ہو۔ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں، جو علم پر مبنی نہ ہو، نہ ایسے علم میں کوئی بھلائی ہے، جس میں سمجھ داری نہ ہو اور نہ ایسی پڑھائی میں کوئی بھلائی ہے، جس میں تدبّر نہ ہو}۔ ([268])
۱۲۰- اسے دارمی نے ’المقدمۃ‘(۱/ ۷۶) (حدیث نمبر: ۳۰۴) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی حسن بن عرفہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی اسماعیل بن ابراہیم نے، جو لیث سے اور وہ یحییٰ بن عباد سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ...
۱۲۱- حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: {جسے اس حال میں موت آئے کہ وہ اسلام کے احیا کے لیے علم حاصل کر رہا ہو، جنت میں اُس کے اور نبیوں کے بیچ صرف ایک درجے کا فرق ہوگا}۔([269])
دونوں حدیثوں کو دارمی نے روایت کیا ہے۔
۱۲۱- اسے دارمی نے روایت کیا ہے )1/84) (حدیث نمبر: 360) وہ کہتے ہیں: ہم کو خبر دی بشر بن ثابت بزار نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی نصر بن قاسم نے، جو روایت کرتے ہیں محمد بن اسماعیل سے، وہ عمرو بن کثیر سے اور وہ حسن سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند ضعیف ہے اور یہ مرسل ہے۔
نصر بن قاسم مجہول ہے اور عمرو بن کثیر کا ترجمہ مجھے مل نہ سکا۔
طبرانی نے اسے ’الأوسط‘ کے اندر، ایک اور طریق سے، اسی معنی میں، مرفوعا نقل کیا ہے، جیسا کہ ’مجمع الزوائد‘ (۱/ ۱۲۳) میں ہے۔ ہیثمی کہتے ہیں: اس میں محمد بن جعد نامی ایک راوی متروک ہے۔
میں کہتا ہوں: اس میں عباس بن بکار نامی راوی بھی ہے، جو کذّاب ہے۔
باب : علم کا اٹھا لیا جانا
۱۲۲- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: {ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں۔ پھر فرمایا: ”ایسا وقت آ گیا ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا‘‘}۔([270])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۱۲۲- یہ روایت صحيح ہے۔ اسے ترمذی نے كتاب العلم (۵/ ۳۱) (حدیث نمبر: ۲۶۵۳) میں اور حاکم نے ’’العلم (۱/ ۹۹) میں عبداللہ سے روایت کیا ہے، جو صالح سے، وہ عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر سے، وہ اپنے والد جبیر بن نفیر سے اور وہ ابو درداء سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی نے اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔
جب کہ حاکم کہتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔
البتہ اس کا ایک شاہد بھی ہے، جو عوف بن مالک سے مروی ہے:
اسے نسائی نے ’الکبری‘ (۳/ ۴۵۶) (حدیث نمبر: ۵۹۰۹) اور حاکم نے ’المستدرک‘ (۱/ ۹۹) میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح ابن لبید انصاری کی حدیث بھی، جو ابھی آ رہی ہے، اس کی شاہد ہے۔
قرآن پڑھنا اور اس پر عمل نہ کرنا ایک قابل فہمائش عمل
۱۲۳- زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: }نبی اکرم ﷺ نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا: ”یہ اس وقت ہو گا، جب علم اٹھ جائے گا“۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں، پھر ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھائيں گے اور یہ سلسلہ قیامت جاری رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’زیاد! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینے کے سب سے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا! کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ بھی توریت اور انجیل پڑھتے ہیں، لیکن ان دونوں کتابوں کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے!{؟ ([271])
اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
۱۲۳- اسے ابن ماجہ نے كتاب الفتن (۱/ ۱۳۴۴) (حدیث نمبر: ۴۰۴۸) میں اور احم (۴/ ۱۶۰، ۲۱۸) نے وکیع سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی اعمش نے، جو سالم بن ابوجعد سے اور وہ زیاد سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح احمد (4/ 219) اور حاکم (۱/ ۱۰۰) نے اسے محمد بن جعفر سے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی شعبہ نے، جو عمرو بن مرّہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے سالم سے سنا ہے، جو زیاد سے روایت کرتے ہیں۔
بوصیری ’’الزوائد‘‘ میں کہتے ہیں: اس کی سند صحیح اور اس کے رجال ثقہ ہیں، تاہم یہ منقطع روایت ہے۔
امام بخاری ’التاریخ الصغیر‘ میں کہتے ہیں: سالم بن ابو جعد کا زیاد بن لبید سے سماع ثابت نہیں ہے۔
اور ان کی اس بات کو ذہبی نے ’الکاشف‘ میں دوہرایا ہے۔
علم کے اٹھا لیے جانے سے پہلے اس کے اہتمام کی تلقین
۱۲۴- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وه کہتے ہیں: {علم کو لازم پکڑو، قبل اس کے کہ اسے اٹھا لیا جائے۔ دراصل علم کے اٹھا لیے جانے سے مراد ہے علما کا دنیا سے رخصت ہو جانا۔ تم علم کو لازم پکڑو، اس لیےکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ خود اسے کب اس کی ضرورت پڑ جائے یا کسی اور کو اس کے علم کی ضرورت پڑ جائے۔ عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤگے، جو یہ دعوی کریں گے کہ وہ اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دے رہے ہیں، مگر انہوں نے اسے پس پشت ڈال رکھا ہوگا۔ تم علم کو لازم پکڑو اور بدعت، تکلف اور بال کی کھال نکالنے سے بچو اور قدیم باتوں (جن پر امت کا کاروانِ اول گامزن تھا اور وہ کتاب وسنت ہے( کو لازم پکڑ لو}۔
دارمی نے اسے اسی جیسے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
۱۲۴- اسے دارمی نے المقدمہ (۱/ ۵۰) (حدیث نمبر: ۱۴۵)میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی سلیمان بن حرب اور ابو نعمان نے، وہ روایت کرتے ہیں حماد بن زید سے، وہ روایت کرتے ہيں ایوب سے اور وہ ابو قلابہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا۔
اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
۱۲۵- صحیحین میں ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعًا روایت ہے:
{اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں سے (یک بارگی( چھین کر ختم کردے، بلکہ علما کو وفات دے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے۔ پھر لوگ ان سے مسائل پوچھیں گے، تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ سو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے}۔ ([272])
۱۲۵- اسے بخاری نے كتاب العلم (۱/ ۱۹۴) (حدیث نمبر: ۱۰۰) اور مسلم نے کتاب العلم (۴/ ۲۰۵۸) (حدیث نمبر: ۲۶۷۳) میں روایت کیا ہے۔
نیز امام بخاری نے كتاب الاعتصام (۱۳/ ۲۸۲) (حدیث نمبر: ۷۳۵۷) میں اور مسلم نے اسے ایک اور مقام (۴/ ۲۰۵۸) میں روایت کیا ہے۔
۱۲۶- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آجائے، جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف صورت باقی رہ جائے گی۔ مسجدیں آباد تو ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُن کے علما آسمان کے نیچے ساری مخلوقات میں بدترین لوگ ہوں گے۔ انہی کے بیچ سے فتنے نکلیں گے اور انھی کے بیچ لوٹ جائیں گے}۔
اسے بیہقی نے 'شعب الایمان' میں روایت کیا ہے۔
۱۲۶- اسے بیہقی نے ’شعب الایمان‘ باب نشر العلم (۲/ ۳۱۱) (حدیث نمبر: ۱۹۰۸، ۱۹۰۹) اور ابن عدی نے ’الکامل‘ (۴/ ۱۵۴۳) میں عبداللہ بن دکین سے روایت کیا ہے، جو جعفر بن محمد سے، وہ اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے اور وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس حدیث کی سند دو علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے:
پہلی علت: عبداللہ بن دکین ضعیف راوی ہے۔
دوسری علت: علی بن حسین اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیچ میں انقطاع ہے۔
ریا و نمود اور بحث و تکرار کرنے کے لیے علم حاصل کرنے کی ممانعت
حصولِ علم میں ریا ونمود کی حُرمت
۱۲۷- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علما کے مقابلہ کرے ، کم علموں اور بے وقوفوں سے بحث کرے یا اس کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے، تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا}۔ ([273])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۱۲۷- یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ترمذی نے كتاب العلم (۵/ ۳۲) (حدیث نمبر: ۲۶۵۴) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی احمد بن مقدام عجلی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی امیہ بن خالد نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابن کعب بن مالک نے، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے اور اس کے حفظ میں کلام ہے۔
میں کہتا ہوں: اس حدیث کے چار شواہد ہیں:
پہلا: ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے ابن ماجہ نے المقدمہ (۱/ ۹۳) (حدیث نمبر: ۲۵۳) میں اور دیگر لوگوں نے روایت کیا ہے۔
دوسرا: جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے ابن ماجہ (حدیث نمبر: ۲۵۴) وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
تیسرا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے ابوداؤد (3/323) (حدیث نمبر: ۲۶۶۴) اور ابن ماجہ (حدیث نمبر: ۲۵۲) نے روایت کیا ہے۔
چوتھا: ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جسے دارمی (۱/ ۸۶) (حدیث نمبر: ۳۷۳) نے روایت کیا ہے اور جو حدیث نمبر (۱۳۱) کے تحت آئے گی۔
بے جا بحث وتکرار گمراہی کا سبب ہے
۱۲۸- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{جب کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہو جاتی ہے، تو بحث و تکرار میں پڑ جاتی ہے}۔([274]) اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: }مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ}([275]) (یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں، بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں)۔ [سورہ الزخرف: 58]
اسے احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
۱۲۸- اسے ترمذی نے كتاب التفسير (۶/ ۳۵۳) (حدیث نمبر: ۳۲۵۳) اور ابن ماجہ نے ’المقدمۃ‘ (۱/ ۱۹) (حدیث نمبر: ۴۸) میں،نیز احمد (۵/ ۲۵۲) ، طبرانی (۸/ ۳۳۳) (حدیث نمبر: ۸۰۶۷) اور حاکم (۲/ ۴۴۷) نے حجاج بن دینار سے روایت کیا ہے، جو ابو غالب سے اور وہ ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
حاکم نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اُن کی موافقت کی ہے۔
اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ آدمی
۱۲۹- عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسنديده وہ آدمی ہے، جو سخت جھگڑالو فطرت کا ہو}۔ ([276])
صحیح بخاری و صحیح مسلم۔
۱۲۹- اسے امام بخاری نے كتاب المظالم ( ۵/ ۱۰۶) (حدیث نمبر: ۲۴۵۷)، کتاب التفسیر (۸/ ۱۸۸) (حدیث نمبر: ۴۵۲۳) اور کتاب الاحکام (۱۳/ ۱۸۰) (حدیث نمبر: ۷۱۸۸) میں روایت کیا ہے۔
امام بغوی فرماتے ہیں:
’’الألدّ‘‘: شدید جھگڑالو قسم کے انسان کو کہتے ہیں۔ ’لدد‘ جدال اور جھگڑے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: 'رجل ألد' یعنی جھگڑالو آدمی، 'امرأة لداء' جھگڑالو عورت اور 'قوم لد' یعنی جھگڑالو قوم۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: }اور جھگڑالو لوگوں کو ڈرا دے{۔ ([277])سورہ مريم: 97] ] ایک اور جگہ اس کا ارشاد ہے: }بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو{۔ ([278])سورہ الزخرف: 58]] کہا جاتا ہے: ’’لددته ألده‘‘ یعنی میں نے اس سے جھگڑا کیا اور اس پر حاوی ہو گیا۔
فتح الباری (۱۳/ ۱۸۱) میں ہے: ألدّ‘ کذاب کو کہتے ہیں۔ گویا حافظ ابن حجر نے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو زیادہ بحث وتکرار کرتا ہے، وہ زیادہ جھوٹ میں پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے جھگڑالو شخص کو برا جاننے کی وجہ یہ ہے کہ کثرتِ مخاصمت انسان کی روسیاہی کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس لیے کہ اکثر جھگڑوں میں ایک فریق باطل پر ہوتا ہے۔
۱۳۰- ابو وائل سے مروی ہے، وہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: جو شخص چار وجوہات کی بنا پر علم حاصل کرتا ہے، وہ جہنم میں داخل ہوگا -یا اس طرح کا کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا-: (ا) تاکہ وہ اس کے ذریعہ علما سے فخر و مباہات کرے (۲) یا بے وقوفوں سے بحث وتکرار کرے (۳) یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے (۴) یا اس سے حکمرانوں سے کچھ بخشش حاصل کرے۔
اسے دارمی نے روایت کیا ہے۔
۱۳۰- اسے دارمی نے المقدمۃ (۱/ ۸۶) (حدیث نمبر: ۳۷۳) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم کو خبر دی ابوعبید قاسم بن سلام نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابو اسماعیل یعنی ابن ابراہیم بن سلیمان المؤدب نے، وہ عاصم الأحول سے روایت کرتے ہیں اور وہ ایسے آدمی سے روایت کرتے ہیں جو اسے ابو وائل سے ان کے سامنے بیان کرتے ہیں اور وہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے۔
حدیث نمبر (۱۲۷) کی تعلیق میں اس کے کئی شواہد گزر چکے ہیں۔
۱۳۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دین کے بارے میں بحث وتکرار کرتے ہوئے سُنا، تو اُن سے مخاطب ہو کر بولے: کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے کچھ بندوں کو محض اس کی خشیت نے خاموش کر رکھا ہے، حالاں کہ وہ نہ تو گونگے ہیں نہ بہرے۔ بلکہ وہ علما، فصحا، سلاست وروانی کے امام اور شریف لوگ ہیں؛ اللہ کے ایّام کے بارے میں جاننے والے ہیں۔ مگر جب اللہ کی عظمت کو یاد کر لیتے ہیں، تو اُن کے ہوش اُڑ جاتے ہیں، اُن کے دل سیپارہ ہوجاتے ہیں اور اُن کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ پھر جب وہ ہوش میں آتے ہیں، تو پاکیزہ اعمال کے ذریعہ اللہ کے حضور پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کوتاہ دست تصور کرتے ہیں، حالاں کہ وہ انتہائی زیرک اور ہوشیار لوگ ہیں۔ نیز اپنا شمار گمراہوں اور خطا کاروں میں کرتے ہیں، حالاں کہ وہ نہایت نیک اور گناہوں سے دور رہنے والے لوگ ہیں۔ سنو! وہ اللہ کے لیے کیے ہوئے اپنے کثیر عمل کو کثیر نہیں سمجھتے اور اس کی رضامند کے لیے کیے گئے قلیل عمل پر راضی نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اعمال کا بکھان بھی نہیں کرتے۔ جہاں بھی نظر آتے ہیں، اہتمام کرنے والے، خدشہ سے دامن گیر رہنے والے اور ڈرے سہمے رہتے ہیں۔
اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
۱۳۲- حسن بصری نے کچھ لوگوں کو بحث وتکرار کرتے ہوئے سُنا، تو ان سے فرمایا: }یہ ایسے لوگ ہیں، جو عبادت سے اُکتا گئے ہیں، بات بنانے کو آسان سمجھ بیٹھے ہیں اور پرہیزگاری میں پچھڑ گئے ہیں، اس لیے اس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں{۔
باب: مختصر گفتگو کرنے اور تکلف و غلو آمیز بات سے بچنے کا بیان
۱۳۳- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے:
{حیا اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں}۔ ([279])
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۱۳۳- یہ حدیث صحيح ہے۔ اسے ترمذی نے كتاب البر والإحسان (۴/ ۳۲۹) (حدیث نمبر: ۲۰۲۷) میں، ابن ابی شیبہ نے ’الایمان‘ (۱۱۸) میں، احمد (۵/ ۲۶۹)، حاکم (۱/ ۹) اور بیہقی نے ’شعب الایمان‘ (۶/ ۱۳۳) (حدیث نمبر: ۷۷۰۶) میں محمد بن مطرف سے روایت کیا ہے، جو حسان بن عطیہ سے اور وہ ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی نے اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔
’’العیّ‘‘: یعنی کم گوئی۔
’’البذاءۃ‘‘: یعنی فحش گوئی۔
’’البیان‘‘:یعنی ضرورت سے زیادہ بات کرنا۔
ترمذی کہتے ہیں: اُن خطیبوں کی طرح، جو تقریر کرتے وقت ایسی باتوں میں لوگوں کی بے جا تعریف کرتے ہیں اور خطابت کے جوہر دکھاتے ہیں، جو اللہ کو پسند نہیں ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ کے نزدیک ناپسندیدہ انسان کون ہے؟
۱۳۴- ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{میرے نزدیک تم میں سب سے محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے نزدیکی حاصل کرنے والے لوگ وہ ہیں، جو تمھارے اندر سب سے اچھے اخلاق والے ہیں۔ میرے نزدیک تمھارے اندر سب سے قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور رہنے والے لوگ وہ ہیں، جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے اور منہ بھر بھر کر بولنے والے ہیں}۔([280])۔
اسے بیہقی نے 'شعب الایمان' میں روایت کیا ہے۔
۱۳۴- اسے احمد(۴/ ۱۹۳، ۱۹۴)، ابن ابی شیبہ نے ’المصنف‘ (۸/ ۵۱۵) (حدیث نمبر: ۵۳۷۲) میں، ابن حبان (۲/ ۲۳۱) (حدیث نمبر: ۴۸۲)، (۱۲/ ۳۶۸) (حدیث نمبر: ۵۵۵۷)، طبرانی (۲۲۲۲۱) (حدیث نمبر: ۵۸۸)، ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘ (۳/ ۹۷) ، (۵/ ۱۸۸) میں، بیہقی نے ’شعب الایمان‘ (۴/ ۲۵۰) (حدیث نمبر: ۴۹۶۹) میں اور بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱۲/ ۳۶۶) (حدیث نمبر: ۳۳۹۵) میں داؤد بن ابو ہند سے روایت کیا ہے، جو مکحول سے اور وہ ابوثعلبہ خشنی سے روایت کرتے ہیں۔
اس کی سند منقطع ہے۔ مکحول کا ابو ثعلبہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
لیکن اس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ ایک تو اس کے بعد آنے والی حدیث، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث، جسے طبرانی نے ’الکبیر‘ (حدیث نمبر: ۱۰۴۲۳) میں روایت کیا ہے اور ابوہریرہ کی حدیث، جسے احمد نے اپنی مسند اور طبرانی نے ’الصغیر‘ (۲/ ۲۵) میں مختصرا روایت کیا ہے۔ اس لیے اِن شواہد کی بنیاد پر یہ حدیث صحیح قرار پاتی ہے۔
۱۳۵- ترمذی نے بھی اسی طرح کی حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
۱۳۵- اسے ترمذی نے كتاب البر والصلہ (4/ 3325) (حدیث نمبر: 2018) اور خطبیب بغدادی نے اپنی تاریخ (۴/ ۶۳) میں حبان بن ہلال سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی مبارک بن فضالہ نے، جو ابو عبد ربہ بن سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ محمد بن منکدر سے روایت کرتے ہیں اور وہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
بغوی ’شرح السنّہ‘ میں کہتے ہیں:
’’ثرثار‘‘: بکثرت بولنے والا۔ کہا جاتا ہے: ’عین ثرثارۃ‘ یعنی بہت زیادہ آنسو بہانے والی آنکھ۔ اس سے آپ کی مراد وہ لوگ ہیں، جو بہ تکلف بہت زیادہ بات کرتے ہیں۔
’’المتفیھق‘‘: جو منہ کھول کھول کر بہت زیادہ بات کرتا ہے۔ یہ ’فہَقَ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب بھرا ہونا ہوتا ہے۔
’’متشدقون‘‘: بغیر احتیاط اور پرہیز کے بکثرت بولنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'متشدق' اپنا جبڑا ٹیڑھا کرکے لوگوں کا مذاق اُڑانے والے کو کہتے ہیں۔
قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ایسے لوگوں کا نکلنا ہے، جو اپنی زبانوں سے کھائیں گے
136- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک ایسے لوگ ظاہر نہ ہوں، جو اپنی زبانوں سے کھائیں گے، جس طرح گائے اپنی زبان سے کھاتی ہے}۔
اسے احمد، ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
۱۳۶- اسے احمد نے اپنی مسند (۱/ ۱۸۴) میں اور انہی کی سند سے بغوی نے ’شرح السنۃ‘ (۱۲/ ۳۶۷) (حدیث نمبر: ۳۳۹۷) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی شریح بن نعمان نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی عبدالعزیز دراوردی نے، جو زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں اور وہ سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں۔
اسے بزّار نے، جیسا کہ ’کشف الاستار‘ (۲/ ۴۴۸) (حدیث نمبر: ۲۰۸۰) میں ہے، عائشہ بنت سعد سے روایت کیا ہے، جو اپنے والد سے روایت کرتی ہیں۔
نیز بزار نے اسے ایک اور مقام )2/448) (حدیث نمبر: 2081) پر ابو حیان تیمی کے طریق سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی ایک آدمی نے، جس کا نام میں بھول گیا ہوں، اُس نے عمر بن سعد سے روایت کیا ہے اور اُس نے اپنے والد سے روایت کیا ہے۔
ہیثمی ’مجمع الزوائد‘ (۸/ ۱۱۶) میں کہتے ہیں: اسے احمد اور بزّار نے مختلف سندوں سے روایت کیا ہے۔ اس میں ایک راوی ہے، جس کا نام مذکور نہیں ہے۔ اس حدیث کا سب سے عمدہ طریق وہ ہے، جسے احمد نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے اور انہوں نے سعد سے روایت کیا ہے۔
اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں، مگر زید بن اسلم کا سماع سعد سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
ساتھ ہی اسے ہمارے استاد البانی رحمہ اللہ نے ’السلسلۃ الصحیحۃ‘ (حدیث نمبر: ۴۲۰) میں ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث ان طرق کی بنیاد پر حسن یا صحیح ہے۔ )ان شاء اللہ!) اس لیے کہ اس کا ایک شاہد بھی موجود ہے، جو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ تاہم مجھے یہ حدیث سنن ابی داؤد اور سنن ترمذی میں مل نہ سکی" ۔
شاید ان کا اشارہ ذیل کی حدیث کی طرف ہو:
۱۳۷- عبداللہ بن عمرو -رضي الله عنہ ۔ سے مرفوعًا روایت ہے:
{اللہ تعالیٰ ایسے بلیغ شخص کو ناپسند کرتا ہے، جو اپنی زبان سے اسی طرح کھاتا ہو، جیسے گائے اپنی زبان سے کھاتی ہے}۔([281]) اسے ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۳۷- اسے ترمذی نے كتاب الأدب (۵/ ۱۲۹) (حدیث نمبر: ۲۸۵۳) میں، ابو داؤد نے کتاب الادب (۴/ ۳۰۱) (حدیث نمبر:۵۰۰۵) میں اور احمد (۲/ ۱۶۵، ۱۸۷) نے نافع بن عمر سے روایت کیا ہے، جو بشر بن عاصم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور اس باب میں سعد رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت موجود ہے۔
ہمارے استاذ البانی رحمہ اللہ نے بھی ’السلسلۃ الصحیحۃ‘ (حدیث نمبر: ۸۸۰) میں اسے ذکر کیا ہے۔
۱۳۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{جو شخص مختلف انداز میں بات کرنا اس لیے سیکھے، تاکہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو گرفتار کر لے، قیامت کے دن اللہ نہ اس کی نفل )عبادت( قبول کرے گا اور نہ فرض )عبادت)}۔([282]) اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
۱۳۸- اسے ابو داؤد نے كتاب الدعوات (۴/ ۳۰۲) (حدیث نمبر: ۵۰۰۶) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی ابن وہب نے، جو عبد اللہ بن المسیّب سے، وہ ضحاک بن شرحبیل سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن مسیّب نامی راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا ہے: وہ مقبول ہے ۔یعنی متابعت کے وقت، ورنہ لیّنُ الحدیث ہے۔
رسول ﷺ کی گفتگو کا طریقہ
۱۳۹- عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وه بیان کرتی ہیں: {رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے الفاظ الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا۔ وہ مزید کہتی ہیں: آپ ﷺ ہم سے اس طرح بات کرتے کہ اگر کوئی آپ کے لفظوں کو گننا چاہتا، تو گن سکتا تھا۔ وہ آگے کہتی ہیں: آپ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے}۔ ([283])
ابوداؤد نے اس کے بعض حصے کو روایت کیا ہے۔
۱۳۹- یہ حدیث تین جملوں پر مشتمل ہے:
پہلا جملہ: یعنی یہ کہ {رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے الفاظ الگ الگ ہوتے تھے ...} اسے ابوداؤد نے کتاب الأدب (4/ 261) (حدیث نمبر: 4839) میں اور احمد نے اپنی مسند (6/ 138) میں زہری سے روایت کیا ہے، جو عروہ سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں: }رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کے کلمات الگ الگ ہوتے تھے، جسے ہر سننے والا سمجھ لیتا تھا{۔ ([284])
دوسرا جملہ: اسے مسلم نے كتاب الزہد (۴/ ۲۲۹۸) (حدیث نمبر: ۲۴۹۳) میں روایت کیا ہے۔
تیسرا جملہ: اسے بخاری نے كتاب المناقب (۶/ ۵۶۷) (حدیث نمبر:۳۵۶۸) اور مسلم نے كتاب الفضائل (۴/ ۱۹۴۰) (حدیث نمبر:۲۴۹۳) میں روایت کیا ہے۔
۱۴۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
{جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو، جو دنیا کی طرف سے بے رغبت اور کم گو ہو، تو اس سے قربت اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا}۔([285])
اسے بیہقی نے ’شعب الایمان‘ (۴/ ۲۵۴) (حدیث نمبر: ۴۹۸۵) میں روایت کیا ہے۔
۱۴۰- اسے بیہقی نے ’شعب الایمان‘ (۴/ ۲۵۴) (حدیث نمبر: ۴۹۸۵) میں عثمان بن صالح سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی عبداللہ بن لہیعہ نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی دراج نے، جو عبدالرحمن بن حجیرہ سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ ایک ضعیف راوی ہے اور دراج پر بھی کلام ہے۔
اسے ابو نعيم نے ’الحلیۃ‘ (۷/ ۳۱۷) میں احمد بن حرملہ کے طریق سے روایت کیا ہے، جو اپنے دادا حرملہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابن وہب سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہيں کہ ہم سے حدیث بیان کی سفیان بن عیینہ نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی مصر کے ایک پستہ قد شخص نے جسے عمرو بن حارث کہا جاتا ہے، اس نے ابن حجیرہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔
اس کی سند میں احمد بن طاہر ہے، جو کہ ایک کذّاب راوی ہے۔
البتہ اس کا ایک شاہد ابو خلاد سے، جنہیں صحبت حاصل ہے، سے مروی ہے۔ اسے ابن ماجہ نے كتاب الزہد (۲/ ۱۳۷۳) (حدیث نمبر: ۴۱۰۱)، بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ (۹/ ۲۷، ۲۸)، ابو نعیم نے ’الحلیۃ‘ (۲۲۳۹۲) اور طبرانی نے ’الکبیر‘ (۱۰/ ۴۰۵) ( حدیث نمبر: ۹۷۵) میں روایت کیا ہے۔
لیکن اس کی سند بھی ضعیف اور منقطع ہے۔ ابو فروہ ضعیف ہے اور کسی صحابی سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔
اس کا ایک اور شاہد عبد اللہ بن جعفر سے مروی ہے، جسے ابویعلی نےاپنی مسند (۱۲/ ۱۷۵) (حدیث نمبر: ۶۸۰۳) میں روایت کیا ہے۔ لیکن اس کی سند میں عمر بن ہارون نامی راوی ہے، جو کہ متروک ہے۔
ہمارے استاد البانی رحمہ اللہ نے اسے ’السلسلۃ الضعیفۃ‘ (حدیث نمبر: ۱۹۲۳) میں ذکر کیا ہے۔
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
{کچھ باتیں جادو بھری ہوتی ہیں، کچھ علم مبنی بر جہالت ہوتے ہیں، کچھ اشعار حکمت والے ہوتے ہیں اور کچھ باتیں محتاج )بیان( ہوتی ہیں}۔ ([286])
۱۴۱- اسے ابو داؤد نے كتاب الادب )4/303) (حدیث نمبر: 5012 ) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی یحییٰ بن فارس نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی سعید بن محمد نے، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابوتمیلہ نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی ابوجعفر نحوی عبداللہ بن ثابت نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی عبداللہ بن بریدہ نے، جو اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے کرتے ہیں۔
ابوداؤد اس حدیث کے بعد کہتے ہیں: صعصعہ بن صوحان نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ نے درست فرمایا ہے۔ جہاں تک ارشاد نبوی: "کچھ باتیں جادو بھری ہوتی ہیں۔" ([287]) کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی باطل پر ہونے کے باوجود حق والے کے مقابلے میں زیادہ چرب زبان ہونے کی وجہ سے لوگوں پر جادو کر دیتا ہے اور معاملہ جیت لیتا ہے۔ جہاں تک ارشاد نبوی: "کچھ علم مبنی بر جہالت ہوتے ہیں"۔ ([288]) کا تعلق ہے، تو اس کا یہ مطلب ہے کہ بسا اوقات ایک عالم شخص بہ تکلف ایسی چیزوں کو جاننے کا اظہار کرنے لگتا ہے، جن کا علم اُسے نہیں ہوتا اور اُس کی یہ حرکت اُسے جاہل بنا دیتی ہے۔ اور جہاں تک ارشاد نبوی: "کچھ اشعار حکمت والے ہوتے ہیں"۔ ([289]) کا تعلق ہے، تو اس سے مراد نصیحت و امثال سے پُر وہ اشعار ہیں، جن سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔
اور جہاں تک ارشاد نبوی: "بعض باتیں محتاجِ بیاں ہوتی ہیں"۔ ([290]) کا تعلق ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی بات ایسے آدمی کے سامنے رکھیں، جسے اسے مطلب نہ ہو اور وہ اسے سمجھنا بھی نہ چاہے۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں عبداللہ بن ثابت ایک مجہول راوی ہے اور صخر نامی راوی مقبول ہے۔
حدیث کے پہلے جملہ کی شاہد عبداللہ بن عمرو کی وہ حدیث ہے، جسے امام بخاری نے صحیح بخاری )10/237) (حدیث نمبر: 5767 ) میں روایت کیا ہے۔
اور جہاں تک اس جملہ کا تعلق ہے: "کچھ اشعار حکمت والے ہوتے ہیں"۔([291]) تو یہ ٹکڑا صحیح ہے۔ اسے ترمذی(حدیث نمبر: ۳۷۵۶)، ابن ماجہ (حدیث نمبر:۳۷۵۶)، ابو داؤد (حدیث نمبر:۵۰۱۱) اور احمد (۱/ ۲۶۹) نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
دیکھیں: ’صحیح ابن حبان‘ (۱۳/ ۹۴) (حدیث نمبر: ۷۷۸)۔
حافظ ابن حجر ’فتح الباری‘ (۱۰/ ۲۳۷) میں کہتے ہیں:
خطابی کہتے ہیں: ’’بیان دو طرح کے ہوتے ہیں:
بیان کی پہلی قسم: جس کا مقصد اپنی بات پہنچانا ہوتا ہے، چاہے کسی بھی طرح سے ہو۔
بیان کی دوسری قسم: وہ ہے، جس میں صنعتِ کلام کا دخل ہو، بایں طور کہ وہ سامعین کو خوب بھائے اور ان کے دلوں کو موہ لے۔ جب اس طرح کا کلام اپنی نرمی اور گدازپن سے دل کو فریفتہ کر لے اور نفس کو قابو میں کر کے کسی چیز کو اس کی حقیقت سے الگ دکھائے اور دیکھنے والے کو وہ کچھ اور ہی دکھائی دینے لگے، تو اس کی تشبیہ جادو سے دی جاتی ہے۔ اس طرح کا کلام جب حق کی طرف آمادہ کرنے کا کام کرے، تو قابل تعریف ہے اور جب باطل کی طرف کھینچنے کا کام کرے، تو قابل مذمت ہے۔
خطابی کہتے ہیں: اس طرح جو بیان جادو سے مشابہ ہو، وہ مذموم ہے۔ لیکن ان کی گرفت یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ دوسری قسم کو بھی سحر کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیوں کہ سحر کا اطلاق مائل کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کو تعریف، خوب صورت انداز میں بات کرنے اور عمدہ الفاظ کے انتخاب کی ترغیب پر محمول کیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں نے کلام میں تصنع پسندی، بہ تکلف حسن لانے کی کوشش اور غیر ضروری تہہ داری لانے کی مذمت پر محمول کیا ہے۔
جہاں تک آپ ﷺ کے فرمان: }اور بعض باتیں محتاج بیاں ہوتی ہیں{ کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں ابن الاثیر ’النہایہ‘ (3/331) میں کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی بات ایسے آدمی کے سامنے رکھیں، جو اسے سننا نہ چاہے اور وہ بات اس کے کام کی بھی نہ ہو۔ کہا جاتا ہے: ’عِلت الضالة أعيل عيلا‘ یعنی میرے کھوئے ہوئے سامان کا حال یہ ہے کہ مجھے یہ نہیں پتہ کہ اسے کہاں ڈھونڈا جائے۔ اس طرح حدیث کے اس ٹکڑے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کو اپنی بات رکھنے کے لیے مناسب آدمی نہ مل سکے اور ایسے آدمی کے سامنے رکھ دے، جو اس کا خواہاں نہ ہو۔
۱۴۲- عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: }ایک دن ایک شخص کھڑے ہو کر بے تحاشہ بولے جا رہا تھا، تو اس پر عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : اگر وہ بات کرنے کے معاملے میں میانہ روی سے کام لیتا، تو اس کے لیے بہتر ہوتا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: "مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام لوں، اس لیے کہ اختصار ہی بہتر ہے{۔
دونوں حدیثوں کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
آخر میں ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے سزاوار ہیں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کی بہت زیادہ تعریف ہے۔
۱۴2- اسے ابو داؤد نے كتاب الأدب (۳۰۲/ ۴) (حدیث نمبر: ۵۰۰۸) میں روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے حدیث بیان کی سلیمان بن عبدالحمید بہرانی نے کہ انہوں نے اسماعیل بن عیاش کے اصل )نسخہ( میں پڑھا، اُن سے حدیث بیان کی ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی میرے والد نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کی ضمضم نے، جو شریح بن عبید سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی ابوظبیہ نے کہ عمرو بن العاص نے ایک دن کہا: ...الحدیث
ابو ظبیہ کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: وہ مقبول ہے۔ یعنی جب متابعت ہو جائے۔
([1]) اسے حاکم نے 'مستدرک' )3 / 388- 389) اور طبرانی نے 'الأَوسط' (3846) میں روایت کیا ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اُن کی موافقت کی ہے۔ اس کے دیگر طُرق بھی ہیں، جن کی طرف علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’فقہ السیرہ‘ کی اپنی تعلیق میں صفحہ (108) پر اشارہ کیا ہے۔
([2]) بخاری (3456) اور مسلم (2669 )نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔
([3]) بخارى ، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة )6889(، مسلم، کتابُ العلم (2669)، احمد )3/84)۔
([4]) مسلم، کتابُ الإيمان (145)، ابن ماجه، کتابُ الفتن (3986)، احمد (2/389)۔
([5]) امام مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے (145)۔
([6]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([7]) سورة الصافات آيت: 180 – 182۔
([8]) سورہ المؤمنون آيت: 102 ، 103۔
([9]) سورة الأنبياء آيت: 28۔
([10]) سورہ البقرۃ آیت: 255۔
([11]) سورہ النجم آیت: 26۔
([12]) سورہ المدثر، آیت: 48۔
([13]) سورہ الحشر، آیت: 10۔
([14]) میں نے یہ مقدمہ شیخ احمد بن حجر آل بوطامی کی کتاب ’’الشيخ محمد بن عبد الوهاب عقيدته السلفية ودعوته الإصلاحية وثناء العلماء عليه‘‘ اور شیخ عبد العزیز کی کتاب ’’دعاوى المناوئين لدعوة الشيخ محمد بن عبد الوهاب عرض ونقد‘‘ سے قدرے اختصار کے ساتھ اخذ کیا ہے۔
([15]) مسلم، کتابُ الزهد والرقائق )2985(، ابن ماجه، کتابُ الزهد )4202(، احمد )2/301(۔
([16]) سورہ الذاریات، آیت: 56۔
([17]) سورہ النساء، آيت: 116۔
([18]) سورہ یونس آیت: 31۔
([19]) سورہ الزمر، آیت: 3۔
([20]) سورہ یونس آیت: 18۔
([21]) سورہ البقرة، آیت: 254۔
([22]) سورہ البقرۃ آیت: 255۔
([23]) سورہ الانفال، آیت: 39۔
([24]) سورة فصلت، آیت: 37۔
([25]) سورہ آل عمران، آیت: 80۔
([26]) سورہ المائدة، آیت: 116۔
([27]) سورہ الإسراء، آیت: 57۔
([28]) سورہ النجم، آیت: 19 ، 20۔
([29])ترمذی: کتاب الفتن (2180)، احمد (5/218)۔
([30]) اسے ترمذی (2180)، احمد (5/218)، طيالسي(1346)، حميدی (848)، ابن عاصم (76)اور ابن حبان (1835)نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
([31]) سورہ العنكبوت، آیت: 65 ۔
([32]) مسلم: کتابُ الإيمان )179)، احمد (4/405)۔
([33]) مسلم: کتاب الإيمان)179)، احمد)4/405)۔
([34]) سورہ الأنبياء، آیت: 47۔
([35]) سورہ الرعد، آیت: 26۔
([36]) سورہ الأعراف، آیت: 143۔
([37]) یمین )دائیں ہاتھ) کا لفظ صحیح مسلم، سنن ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے، جب کہ بخاری میں مطلق ’’اللہ کا ہاتھ‘‘ آیا ہے۔
([38]) اصولِ ایمان کے اصل مخطوطے میں ’یغیضھا‘ کے بجائے ’تغیضھا‘ یعنی مؤنث کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
([39])احمد (5/162)۔
([40]) احمد (5/173)۔
([41]) مسلم : کتاب البر والصلة والآداب (2582)، ترمذی : صفة القيامة والرقائق والورع (2420)، احمد (2/235)۔
([42]) سورہ النساء، آیت: 58۔
([43]) سورۃ النساء آیت: 58۔
([44]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([45]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([46]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([47]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([48]) سورہ النحل، آیت: 74۔
([49]) سورہ الأنبياء آيت :18۔
([50]) سورہ الفرقان آیت : 33۔
([51]) سورہ الاعراف آیت: 54۔
([52]) بخارى : کتابُ التوحيد (6944)، احمد (2/52)۔
([53]) بخارى: کتاب الدعوات (5950)، مسلم: کتاب التوبة (2747)، احمد (3/213)۔
([54]) مسلم : کتابُ التوبہ (2759)، احمد (4/404)۔
([55]) بخارى : کتابُ الأدب (5653)، مسلم : کتابُ التوبہ (2754)۔
([56]) بخارى: کتاب بدء الخلق (3022)، مسلم : کتاب التوبہ (2751)، ترمذی : کتاب الدعوات (3543)، ابن ماجہ : کتاب الزهد (4295)، احمد (2/358)۔
([57]) سورہ المجادلہ، آیت: 21۔
([58]) سورہ طہ، آيت: 52۔
([59]) بخارى: کتابُ الرقاق (6104)، مسلم : کتابُ التوبہ (2752)، ترمذی : کتابُ الدعوات (3541)، ابن ماجه : کتاب الزهد (4293)، احمد (2/526) اور دارمي : کتابُ الرقاق (2785)۔
([60]) سورہ الأحزاب آیت : 43۔
([61]) سورہ الأعراف، آیت: 156۔
([62]) مسلم : کتابُ التوبہ (2753)۔
([63]) مسلم : کتابُ التوبہ (2753)۔
([64]) مسلم : کتابُ صفة القيامة والجنة والنار (2808) اور احمد (3/125)۔
([65]) مسلم : کتابُالذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2734)، ترمذی : کتابُ الأطعمة (1816) اور احمد (3/100)
([66]) سورہ الشوریٰ، آیت: 11۔
([67]) ترمذی : کتابُ الزهد (2312)، ابن ماجہ : کتاب الزهد (4190) اور احمد (5/173)۔
([68]) بخارى : کتابُ الجمعہ (997)، مسلم : کتابُ الكسوف (901)، نسائی : کتاب الكسوف (1474)، احمد (6/164) اور مالك : کتابُ النداء للصلاة (444)۔
([69]) اسے امام بخاری نے كتاب التفسير (8/280) (حدیث نمبر: 4621)، كتاب الرقاق (11/319) (حدیث نمبر: 6486)، اور امام مسلم نے کتاب الفضائل (4/1832) (حدیث نمبر: 2359) میں روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’فتح الباری‘ (11/319) میں لکھتے ہیں: ’’یہاں جاننے سے مراد ان چیزوں کی جان کاری ہے، جو اللہ کی عظمت، نافرمانوں سے اس کا انتقام لینے نیز نزع کی حالت، موت کے وقت، قبر کے اندر اور قیامت کے دن کی خوف ناکیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں زیادہ رونے اور کم ہنسنے کی مناسبت واضح ہے۔ مقصد بندوں کو ڈرانا ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: جسے یہ معلوم ہو کہ موت اس کا گھاٹ ہے، قیامت اُس کا یومِ موعود ہے اور بروز محشر اللہ کے سامنے اُس کی حاضری یقینی ہے، اس کا حق بنتا ہے کہ دنیا میں اس کا غم طویل تر ہو جائے۔ کرمانی کہتے ہیں: اس حدیث میں ہنسنے کے بالمقابل رونے اور قلت کے بالمقابل کثرت استعمال کرنے، پھر دونوں کے مابین مطابقت کے ذریعہ بدیع کی صنعت بروئے کار لائی گئی ہے‘‘۔
([70]) مسلم : کتاب البر والصلة والآداب (2621)۔
([71]) مسلم: کتابُ التوبہ (2755)، ترمذی : کتابُ الدعوات (3542) اور احمد (2/397)۔
([72]) بخارى : کتابُ الرقاق (6123) اور احمد (1/442)۔
([73]) بخارى: کتابُ الرقاق (6113)، مسلم : کتابُ الزهد والرقائق (2988)، ترمذی : کتابُ الزهد (2314)، احمد (2/334) اور مالك الجامع (1849)۔
([74]) اسے بخاری (11/308) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([75]) بخارى: کتاب أحاديث الأنبياء (3280)، مسلم : کتاب السلام (2245) اور احمد (2/510)۔
([76]) بخارى : کتاب أحاديث الأنبياء (3295)، مسلم : کتاب البر والصلة والآداب (2242) اور دارمي : کتاب الرقاق (2814)۔
([77]) زہری کے قول کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔
([78]) یہ نبی ﷺ سے بسندِ صحیح مروی ہے۔ امام بخاری (1/176) اور مسلم (2876) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسے روایت کیا ہے۔
([79]) "یقادون" (لے جائے جاتے ہیں) یہ ابوداؤد کا لفظ ہے۔ جب کہ بخاری کے یہاں ’’يدخلون الجنَّة‘‘ (وہ جنت میں داخل کیے جاتے ہيں) اور احمد کے یہاں ’’يجاء بهم‘‘ (انھیں لایا جاتا ہے) کے الفاظ ہیں۔
([80]) ابو داود : کتابُ الجهاد (2677) اور احمد (2/302)۔
([81]) بخارى : کتاب الأدب (5748)، مسلم : کتاب صفة القيامة والجنة والنار (2804) اور احمد (4/405)۔
([82]) بخارى : کتاب الأدب (5693)، مسلم : کتاب البر والصلة والآداب (2637)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3161)، احمد (2/413) اور مالك : الجامع (1778)۔
([83]) اسے بخارى (1367) اور مسلم (949) نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([84]) بخارى : کتاب مواقيت الصلاة (529)، مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاة (633)، ترمذی : کتاب صفة الجنة (2551)، ابو داود : کتابُ السنّہ (4729)، ابن ماجه : المقدمة (177) اور احمد (4/360)۔
([85]) سورہ طہ، آيت: 130۔
([86]) مسلم: کتاب الإيمان (181)، ترمذی : کتاب صفة الجنة (2552)، ابن ماجه: المقدمة (187) اور احمد (4/332)۔
([87]) بخارى : کتاب الرقاق (6137)۔
([88]) بخارى : کتاب الجمعة (1094)، مسلم : کتاب صلاة المسافرين وقصرها (758)، ترمذی : کتاب الصلاة (446)، ابو داود : کتاب الصلاة (1315)، ابن ماجه : کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها (1366)، احمد (2/419)، مالك : کتاب النداء للصلاة (496) اور دارمي : کتاب الصلاة (1479)۔
([89]) بخارى: کتاب تفسير القرآن (4598)، مسلم: کتاب الإيمان (180)، ابن ماجه: المقدمة (186)، احمد (4/416) اور دارمي : کتاب الرقاق (2822)۔
([90]) سورہ الرحمن، آیت: 62۔
([91]) احمد (2/ 304، 305 و 445)، ترمذی (2526)، ابن حبان (2387)، طيالسي (2583) اور دارمي (2/ 333) نے ضعیف سند سے اسے روایت کیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ شواہد بھی ہیں، جو اس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ دیکھیے: امام ابو نعیم اصفہانی کی کتاب "صفة الجَنَّة" (100) و (136)۔
([92]) حدیث (نمبر: 261)۔ ابو نعيم نے 'الحلية' (6/ 204 ) میں، بزار نے اپنی ’’مسند‘‘ (4/ 189)- اس کے ضمیمہ میں، ساتھ ہی 'حادي الأرواح' (صفحہ: 95) کے مطابق ابوالشیخ نے اور 'البداية والنهاية' (2/384) کے مطابق ابن أبي الدنيا نے بھی رویت کیا ہے۔ اس کی سند جید ہے۔ کیوں کہ وھیب بن خالد نے اسے جریری سے ان کے اختلاط میں مبتلا ہونے سے پہلے روایت کیا ہے۔ اس کی وضاحت 'الكواكب النيرات' (صفحہ: 174) میں موجود ہے۔
([93]) ترمذی : صفة الجنة (2525)۔
([94]) مسلم: کتاب السلام (2229)، ترمذی: کتاب تفسير القرآن (3224) اور احمد (1/218)۔
([95]) مسلم، ترمذی اور نسائی کے یہاں "یقرفون" کا لفظ ہے۔ یعنی وہ اس کے ساتھ جھوٹ مِلا دیتے ہیں۔
([96]) بخارى : کتاب الأدب (5859)، مسلم : کتاب السلام (2228) اور احمد (6/87)۔
([97]) بخارى : کتاب تفسير القرآن (4424)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3223) اور ابن ماجه : المقدمة (194)۔
([98]) بخارى: کتاب الرقاق (6154)، مسلم : کتاب صفة القيامة والجنة والنار (2787)، ابن ماجه : المقدمة (192)، احمد (2/374) اور دارمي : کتاب الرقاق (2799)۔
([99]) امام بخاری نے اسے کتاب التوحيد (6977)، امام مسلم نے کتاب صفة القيامة والجنة والنار (2787)، امام ابو داود نے کتاب السُنّہ (4732) اور امام دارمي نے کتاب الرقاق (2799) میں روایت کیا ہے۔
([100]) سورہ الزمر: 67۔
([101]) بخارى : کتاب التوحيد (6977)، مسلم : کتاب صفة القيامة والجنة والنار (2788) اور ابن ماجه : الزهد (4275)۔
([102]) بخارى : کتاب التوحيد (6982) اور احمد (4/432)۔
([103]) سورہ ھود، آیت: 7۔
([104]) مسلم : کتاب القدر (2653)، ترمذی : کتاب القدر (2156) اور احمد (2/169)۔
([105]) اسے امام مسلم (2653) نے روایت کیا ہے۔
([106]) سورہ ھود، آیت: 7۔
([107]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3109)، ابن ماجه : المقدمة (182) اور احمد (4/11)۔
([108]) اسے امام احمد (4/ 11، و 12)، امام ابن ماجہ (182) اور امام ترمذی (3109) نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ کیوں کہ اس میں وکیع بن عدس نامی راوی مجہول ہے۔
([109]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3319) اور احمد (5/317)۔
([110]) اسے امام ترمذی (2155)، (3319)، امام احمد (5/317)، طيالسي (577)، ابن ابي عاصم (107) اور آجری (صفحہ: 177) نے دو سندوں سے روایت کیا ہے، جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
([111]) بخارى: کتاب تفسير القرآن (4690)، نسائی: کتاب الجنائز (2078) اور احمد (2/351)۔
([112]) بخارى : کتاب تفسير القرآن (4212)۔
([113]) سورہ أنعام، آیت : 101۔
([114]) بخارى: کتاب تفسير القرآن (4549)، مسلم: کتاب الألفاظ من الأدب وغيرها (2246)، ابو داود: کتاب الأدب (5274)، احمد (2/238) اور مالک: الجامع (1846)۔
([115]) سورہ الأنبياء، آيت 101۔
([116]) سورہ احزاب، آیت: 38۔
([117]) سورہ الصافات، آیت: 96۔
([118]) سورہ القمر آیت: 49۔
([119]) مسلم : کتاب القدر (2653)، ترمذی : کتاب القدر (2156) اور احمد (2/169)۔
([120]) اس کی تخریج علامہ البانی رحمہ اللہ کی 'السلسلة الصحيحة' (حدیث نمبر: 34) میں کی گئی ہے۔
([121]) سورہ انفال، آیت: 75۔
([122]) سورہ طلاق، آیت: 12۔
([123]) سورہ ق آیت : 4۔
([124]) سورہ يس آیت : 12۔
([125]) سورہ الحج، آیت: 70۔
([126]) سورہ الحج، آیت: 18۔
([127]) سورہ يس، آیت: 82۔
([128]) سورہ التكوير، آیت : 29۔
([129]) سورہ الزمر، آیت: 62۔
([130]) سورہ فاطر، آیت: 3۔
([131]) سورہ الليل آيت : 5 - 7۔
([132]) سورہ الليل، آیت: 5۔
([133]) سورہ الليل، آیت: 8۔
([134]) سورہ الأعراف، آیت: 172۔
([135]) بخارى : کتاب بدء الخلق (3036)، مسلم: کتاب القدر (2643)، ترمذی: کتاب القدر (2137)، ابو داود: کتاب السُنّہ (4708)، ابن ماجہ: المقدمة (76) اور احمد (1/414)۔
([136]) بخارى: کتاب المرضى (5349)، مسلم: کتاب صفة القيامة والجنة والنار (2816)، ابن ماجہ: کتاب الزهد (4201) اور احمد (2/256)۔
([137]) اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
([138]) مسلم : کتاب القدر (2644) اور احمد (4/7)۔
([139]) مسلم: کتاب القدر (2662)، نسائی: کتاب الجنائز (1947)، ابو داؤد: کتاب السُنّہ (4713)، ابن ماجہ : المقدمہ (82) اور احمد (6/208)۔
([140]) اسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
([141]) بخاری : کتاب الجنائز (1315)، نسائی : کتاب الجنائز (1873)، ابن ماجہ : ما جاء في الجنائز (1605) اور احمد (3/152)۔
([142]) اسے امام احمد نے حسن سند سے روایت کیا ہے، جیساکہ 'صحيح الجامع' (5772) میں ہے۔
([143]) مسلم : کتاب القدر (2655)، احمد (2/110) اور مالک : الجامع (1663)۔
([144]) سورہ القدر، آیت : 4۔
([145]) سورہ الرحمن، آیت: 29۔
([146]) 'شفاء العليل' (1/61-74)۔
([147]) ترمذی : کتاب القدر (2155)۔
([148]) ترمذی : کتاب الطب (2065) اور ابن ماجہ : کتاب الطب (3437)۔
([149]) مسلم : کتاب القدر (2664)، ابن ماجہ : المقدمة (79) اور احمد (2/370)۔
([150]) سورہ البقرۃ آیت: 177۔
([151]) سورة فصلت، آیت :30۔
([152]) سورہ النساء، آیت : 172۔
([153]) سورہ الأنبياء، آیت: 19، 20۔
([154]) سورہ فاطر، آیت: 1۔
([155]) سورہ غافر آیت: 7۔
([156]) مسلم : کتاب الزهد والرقائق (2996) اور احمد (6/153)۔
([157]) نسائی : کتاب الصلاة (448) اور احمد (4/210)۔
([158]) ترمذی : کتاب الزهد (2312)، ابن ماجہ : کتاب الزهد (4190) اور احمد (5/173)۔
([159]) سورہ الصافات، آیت : 165 ، 166۔
([160]) سورہ الصافات، آیت: 165 ، 166۔
([161]) ابو داؤد : کتاب السُنّہ (4727)۔
([162]) سورہ النجم، آیت: 5 ، 6۔
([163]) سورہ التكوير، آيت : 19 - 21۔
([164]) سورہ التكوير، آیت نمبر : 21۔
([165]) بخارى: کتاب بدء الخلق (3060)، مسلم: کتابُ الإيمان (174) اور احمد (1/395)۔
([166]) مسلم : کتاب الإيمان (174)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3283) اور احمد(1/449)۔
([167]) سورہ النجم، آیت: 11۔
([168]) بخارى : کتاب بدء الخلق (3061)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3283) اور احمد (1/449)۔
([169]) احمد (6/120)۔
([170]) بخارى : کتاب بدء الخلق (3062)، مسلم : کتابُ الإيمان (177) اور ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3068)۔
([171]) بخارى : کتاب بدء الخلق (3046)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3158) اور احمد (1/357)۔
([172]) سورہ مريم، آیت : 64۔
([173]) احمد (3/224)۔
([174]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3243) اور احمد (3/7)۔
([175]) تاہم یہ صحیح نہیں ہے۔ دیکھیں: شیخ بکر ابوزید کی کتاب 'معجم المناهيِ اللفظية' (صفحہ: 238)۔
([176]) یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ دیکھیں: شیخ البانی کی کتاب 'سلسلة الأحاديث الضعيفة' (923)۔
([177]) سورہ النساء، آيت: 172۔
([178]) سورة الأنبياء آيت: 20۔
([179]) سورہ غافر آیت: 49
([180]) سورہ الزخرف، آیت : 77۔
([181]) سورہ التحريم، آیت: 6۔
([182]) سورہ المدثر، آیت: 30، 31۔
([183]) سورہ المدثر، آیت: 31۔
([184]) سورہ الرعد، آیت: 11۔
([185]) {189] دیکھیں: علامہ سیوطی کی تفسیر 'الدر المنثور' (4/613)۔
([186]) سورہ ق، آیت : 17 ، 18۔
([187]) سورہ الانفطار، آیت : 10 ، 11۔
([188]) نسائی : کتاب الغسل والتيمم (406)، ابو داود : کتاب الحمام (4012) اور احمد (4/224)۔
([189]) ترمذی : کتاب الأدب (2794)، ابو داود : کتاب الحمام (4017) اور ابن ماجہ : کتاب النكاح (1920)۔
([190]) بخاری : کتاب بدء الخلق (3051)، مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاة (632)، نسائی : کتاب الصلاة (485)، احمد (2/486) اور مالک : کتاب النداء للصلاة (413)۔
([191]) بخارى : کتاب مواقيت الصلاة (530)، مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاة (632)، نسائی : کتاب الصلاة (485)، احمد (2/396) اور مالک : کتاب النداء للصلاة (413)۔
([192]) سورہ الإسراء، آیت:78۔
([193]) سورہ الإسراء، آیت: 78۔
([194]) مسلم : کتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، ترمذی : کتاب القراءات (2945)، ابو داؤد : کتاب الصلاة (1455)، ابن ماجہ : المقدمة (225)، احمد (2/252) اور دارمي : المقدمة (344)۔
([195]) ترمذی : کتاب الدعوات (3535)، نسائی : کتاب الطهارة (158) اور احمد (4/239)۔
([196]) سورہ الأعراف، آیت : 3۔
([197]) مسلم : کتاب فضائل الصحابة (2408)، احمد (4/367) اور دارمي : کتاب فضائل القرآن (3316)۔
([198]) ابو داود : کتاب المناسك (1905)، ابن ماجہ : کتاب المناسك (3074) اور دارمي : کتاب المناسك (1850)۔
([199]) سورہ الجن، آیت: 1 ، 2۔
([200]) سورہ مريم، آیت : 64۔
([201]) ترمذی : کتاب الأمثال 2859) اور احمد (4/183)۔
([202]) سورہ آل عمران، آیت : 7۔
([203]) سورہ آل عمران، آیت:7۔
([204]) سورہ انعام، آیت : 153۔
([205]) سورہ العنكبوت، آیت : 51۔
([206]) سورہ النساء، آيت:59۔
([207]) سورۃ العنکبوت آیت: 56۔
([208]) سورہ الحشر، آیت: 7
([209]) بخاری : کتاب الإيمان (25) اور مسلم : کتاب الإيمان (22)۔
([210]) سورہ الحشر، آیت: 7۔
([211]) سورہ الحشر، آیت: 7۔
([212]) بخاری : کتاب اللباس (5595)، مسلم : کتاب اللباس والزينة (2125)، ترمذی : کتاب الأدب (2782)، نسائی : کتاب الزينة (5099)، ابو داؤد : کتاب الترجل (4169)، ابن ماجہ : کتاب النكاح (1989)، احمد (1/434) اور دارمی : کتاب الاستئذان (2647)۔
([213]) سورہ الحشر، آیت: 7۔
([214]) امام بیہقی کی 'معرفة السنن والآثار' (10755)۔
([215]) بخاری : کتاب الإيمان (16)، مسلم : کتاب الإيمان (43)، ترمذی : کتاب الإيمان (2624)، مسلم : کتاب الإيمان وشرائعه (4988)، ابن ماجہ : کتاب الفتن (4033) اور احمد (3/103)۔
([216]) بخاری : کتاب الإيمان (15)، مسلم : کتاب الإيمان (44)، نسائی : کتاب الإيمان وشرائعه (5013)، ابن ماجہ : المقدمة (67)، احمد (3/278) اور دارمی : کتاب الرقاق (2741)۔
([217]) ترمذی : کتاب العلم (2663)، ابو داود : کتاب السنة (4605) اور ابن ماجہ : المقدمة (13)۔
([218]) ترمذی : کتاب العلم (2664)، ابن ماجہ : المقدمة (12) اور دارمی : المقدمة (586)۔
([219]) سورة الأحزاب آيت : 21۔
([220]) سورہ أنعام، آیت : 159۔
([221]) سورہ الشورى، آیت: 13۔
([222]) ترمذی : کتاب العلم (2676)، ابن ماجہ : کتاب المقدمة (44)، احمد (4/126) اور دارمی : المقدمة (95)۔
([223]) ترمذی : کتاب العلم (2676)، ابو داود : کتاب السنة (4607)، ابن ماجہ : المقدمہ (44)، احمد (4/126) اور دارمی : المقدمہ (95)۔
([224]) بخاری : الاعتصام بالكتاب والسنة (6849) اور دارمی : المقدمة (207)۔
([225]) بخاری : کتاب الصلح (2550)، مسلم : کتاب الأقضية (1718)، ابوداؤد : کتاب السنة (4606)، ابن ماجه : المقدمہ(14) اور احمد (6/270)۔
([226]) اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
([227]) اس قول کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف صحیح ہونے میں شک ہے۔
([228]) بخاری : الاعتصام بالكتاب والسنة (6851)، مسلم : کتاب الإمارة (1835)، نسائی : کتاب الاستعاذة (5510)، ابن ماجہ : المقدمة (3) اور احمد (2/361)۔
([229]) بخاری : کتاب الجهاد والسير (2797)، مسلم : کتاب الإمارة (1835)، نسائی : کتاب الاستعاذة (5510)، ابن ماجہ : کتاب الجهاد (2859) اور احمد (2/387)۔
([230]) ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
([231]) سورہ النساء، آيت: 80۔
([232]) بخارى : کتاب النكاح (4776)، مسلم : النكاح (1401)، نسائی : کتاب النكاح (3217) اور احمد (3/285)۔
([233]) بخاری : کتابُ النكاح (4776)۔
([234]) ابن ماجہ : کتاب الفتن (3993) اور احمد (3/120)۔
([235]) ترمذی : کتابُ الإيمان (2641)۔
([236]) سورہ التوبۃ آیت: 69۔
([237]) مسلم : کتاب العلم (2674)، ترمذی : کتاب العلم (2674)، أبو داؤد : کتاب السنة(4609)، احمد (2/397) اور دارمی : المقدمة (513)۔
([238]) مسلم : کتاب الإمارة (1893)، ترمذی : کتاب العلم (2671)، ابوداود : کتاب الادب (5129) اور احمد (4/120)۔
([239]) ترمذی: کتاب العلم (2677) اور ابن ماجہ : المقدمہ (210)۔
([240]) دارمی : المقدمہ (185)۔
([241]) دارمی : المقدمہ (214)۔
([242]) مسلم : کتاب العلم (2666)، ابن ماجہ : المقدمہ (85) اور احمد (2/185)۔
([243]) بخاری : کتاب العلم (86)، مسلم : کتاب الكسوف (905) اور مالک : کتاب النداء للصلاة (447)۔
([244]) سورہ محمد، آیت: 19۔
([245]) سورہ فصلت، آیت: 53۔
([246]) سورہ النحل، آیت: 43۔
([247]) بخاری : کتاب العلم (71)، مسلم : کتاب الإمارة (1037)، ابن ماجہ : المقدمة (221)، احمد (4/93)، مالک : الجامع (1667) اور دارمی : المقدمة (226)۔
([248]) بخاری : کتاب العلم (79)، مسلم : کتابُ الفضائل (2282) اور احمد (4/399)۔
([249]) بخاری : کتاب تفسير القرآن (4273)، مسلم : کتاب العلم (2665)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (2994)، ابو داؤد : کتاب السُّنّہ (4598)، ابن ماجہ : المقدمة (47)، احمد (6/48) اور دارمی : المقدمة (145)۔
([250]) سورہ آل عمران، آیت: 7۔
([251]) مسلم : کتاب الايمان (50) اور احمد (1/458)۔
([252]) احمد (3/387) اور دارمی، المقدمہ 435)۔
([253]) بخاری : الاعتصام بالكتاب والسنة (6858)، مسلم : کتاب الفضائل (1337)، ترمذی : کتاب العلم (2679)، نسائی : کتاب مناسك الحج (2619)، ابن ماجہ : المقدمہ (2) اور احمد (2/258)۔
([254]) سورة النحل، آیت : 43۔
([255]) ترمذی : کتاب العلم (2658) اور ابن ماجہ : المقدمہ 2320)۔
([256]) ترمذی : کتاب العلم (2656)، ابوداؤد : کتاب العلم (3660)، ابن ماجہ : المقدمہ (230)، احمد (5/183) اور دارمی : المقدمہ (229)۔
([257]) ترمذی : کتاب العلم (2658)۔
([258]) ابو داؤد : کتاب الفرائض (2885) اور ابن ماجہ : المقدمہ (54)۔
([259]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (2951) اور احمد (1/233)۔
([260]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (2950) اور احمد (1/233)۔
([261]) ابو داؤد : کتاب العلم (3657)، ابن ماجہ : المقدمہ (53)، احمد (2/321) اور دارمی: المقدمہ (159)۔
([262]) ترمذی : کتاب العلم (2682)، ابو داؤد : کتاب العلم (3641)، ابن ماجہ : المقدمہ (223) اور احمد (5/196)۔
([263]) ترمذی : کتاب الدعوات (3535)، نسائی : کتاب الطهارة (158) اور احمد (4/239)۔
([264]) سورہ الإسراء، آیت: 24۔
([265]) سورہ الشعراء آیت : 215۔
([266]) ترمذی : العلم (2682)، ابو داؤد : کتاب العلم (3641)، ابن ماجہ : المقدمہ (223) اور احمد (5/196)۔
([267]) ترمذی : کتاب العلم (2687) اور ابن ماجہ : کتاب الزهد (4169)۔
([268]) دارمی : المقدمہ (297)۔
([269]) دارمی : المقدمة (354)۔
([270]) ترمذی : کتاب العلم (2653) اور دارمی : المقدمہ (288)۔
([271]) دارمی : المقدمہ (288)۔
([272]) بخاری : کتاب العلم (100)، مسلم : کتاب العلم (2673)، ترمذی : کتاب العلم (2652)، ابن ماجہ : المقدمہ (52)، احمد (2/162) اور دارمی : المقدمہ (239)۔
([273]) ترمذی : کتاب العلم (2654)۔
([274]) ترمذی : کتاب تفسير القرآن (3253) اور ابن ماجہ : المقدمہ (48)۔
([275]) سورہ الزخرف، آیت : 58۔
([276]) بخاری : کتاب المظالم والغصب (2325)، مسلم : کتاب العلم (2668)، ترمذی : کتاب تفسير القرآن (2976)، نسائی : کتاب آداب القضاة (5423) اور احمد (6/205)۔
([277]) سورہ مريم، آیت : 97۔
([278]) سورہ الزخرف، آیت : 58۔
([279]) ترمذی : کتاب البر والصلة (2027) اور احمد (5/269)۔
([280]) ترمذی : کتاب البر والصلة (2018)۔
([281]) ترمذی : کتاب الأدب (2853) اور ابو داؤد : کتاب الادب (5005)۔
([282]) ابو داؤد : کتاب الأدب (5006)۔
([283]) بخاری : کتاب المناقب (3375)، مسلم : کتاب الزهد والرقائق (2493)، ترمذی : کتاب المناقب (3639)، ابو داؤد : کتاب العلم (3654) اور احمد (6/157)۔
([284]) ترمذی : کتاب المناقب (3639) اور ابو داؤد : کتاب الادب (4839)۔
([285]) ابن ماجہ : کتاب الزهد (4101)۔
([286]) مسلم : کتاب الجمعہ (869)، احمد (4/263) اور دارمی : کتاب الصلاة (1556)
([287]) مسلم : کتاب الجمعہ (869)، احمد (4/263) اور دارمی : کتاب الصلاة (1556)۔
([288]) ابو داؤد : کتاب الأدب (5012)۔
([289]) ترمذی : کتاب الادب (2845) اور ابن ماجہ : کتاب الادب (3756)۔
([290]) ابو داؤد : کتاب الادب (5012)۔
([291]) ترمذی : کتاب الادب (2845) اور ابن ماجہ : کتاب الادب (3756)۔