خوشگوار زندگی کے مفید وسائل (⮫)


 خوشگوار زندگی کے مفید وسائل

 مقدمہ

تمام تعریفات صرف اللہ کے لیے ہیں، اور درود وسلام ہواس نبی پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، نیز ان کی آل واولاد اور ان کے اصحاب پر، حمد وصلاۃ کے بعد::

یہ مبارک کتابچہ جس کا نام: (خوش گوار زندگی کے مفید وسائل) ہے، اس حقیقی سعادت وخوش بختی سے پردہ اٹھاتا ہے جو ہر انسان کی زندگی کا بلند ترین مقصد ہوتی ہے۔ سعادت وخوش بختی کے مفہوم اور اسے بروئے عمل لانے کے طریقے کے بیان میں مختلف آراء واقوال پائے جاتے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مال ودولت جمع کرنے اور انہیں پروان چڑھانے سے خوش بختی حاصل ہوتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں کی رائے میں جسمانی صحت، امن وامان اور ملک وطن کی بدولت سعادت ملتی ہے، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ رزقِ حلال اور علم نافع کے حصول سے خوش بختی حاصل ہوتی ہے، اور بعض دیگر افراد کا خیال ہے کہ سچے دل سے ایمان لانے، نیک عمل کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے سے خوش بختی نصیب ہوتی ہے، اگر سعادت وخوش بختی شرعی اصول اور ضابطے سے ہم آہنگ ہو تو مذکورہ تمام اسباب ووسائل خوش بختی کے مفہوم میں شامل ہوسکتے ہیں، البتہ سعادت وخوش بختی کی دو قسمیں ہیں:

۱- دنیا کی وقتی خوش بختی جو تغیر پژیر مختصر عمر میں محصور ہوتی ہے۔

۲- آخرت کی ہمیشہ رہنے والی خوش بختی جو نہ کبھی ختم ہوگی اور نہ اس کی کوئی انتہا ہوگی۔

یہ دونوں خوش بختیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اور باہم مربوط ہیں، چنانچہ دنیا کی خوش بختی آخرت کی خوش بختی سے مربوط ہے، اور دنیا وآخرت کی ایسی خوش گوار زندگی جو ہر طرح سے کامل اور عمدہ ہو وہ صرف ان پر ہیزگار مومنوں کو نصیب ہوتی ہے جن سے اللہ راضی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 

"جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور بالضرور دیں گے"۔ [سورۃ النحل، آیت: 97]۔ 

اے برادر مبارک!  آپ کی رائے میں کامل خوش بختی کسے کہتے ہیں؟ اسے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مکمل بد بختی کیا چیز ہے؟ اور اس سے بچنے کے کیا طریقے ہیں؟!!!

بے شک سعادت وخوش بختی اللہ پاک وبرتر اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں پنہاں ہے۔

اور ساری کی ساری بد بختی اللہ ورسول کی معصیت میں محصور ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  "جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی"۔ [سورۃ الأحزاب، آیت: 71]۔  نیز فرمان باری تعالی ہے:  "جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا"۔ [سورۃ الأحزاب، آیت: 36

یہ کتاب جو آپ کے سامنے ہے وہ فضیلۃ الشیخ علامہ عبد الرحمن بن ناصر بن عبد اللہ السعدی رحمہ اللہ کی کتاب: (خوش گوار زندگی کے مفید وسائل)ہے جو آٹھ فصلوں پر مشتمل ہے، ان فصلوں کے اندر مؤلف نے حقیقی خوش بختی تک پہنچانے والے اسباب اور اسے حاصل کرنے کے اسباب ووسائل کو کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے، تاکہ اس خوش گوار زندگی، جس کی تمنا ہر مسلمان کرتا ہے، کا صحیح راستہ واضح ہو جائے، اور تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی زندگی کو نور وبصیرت کے ساتھ منظم کرنے کے لئے اس راستہ پر چلے۔

وزارت برائے اسلامی امور، اوقاف اور دعوت وارشاد کی جانب سے صحیح بیداری کو عام کرنے اور ان اسباب ووسائل کے تئیں لوگوں کا شعور جگانے کے لئے اس کتاب کا انتخاب عمل میں آیا تاکہ یہ وزارت کی مفید منشورات میں شامل ہو اور کدورتوں سے بھری اس زندگی میں راہبر وراہنما کا کام کرے۔

اللہ بلند وبرتر اور قادر مطلق سے ہم دعا کرتے ہیں کہ اس کے مؤلف کو، اس کی طباعت، نشر واشاعت اور اس راہ میں کسی بھی طرح کی مدد کرنے والوں کو بڑے اجر وثواب سے نوازے، اللہ ہی توفیق اور راہ حق کی ہدایت دینے والا ہے، وہ ہمارے لئے کافی اور ہمارا بہترین کارساز ہے، درود وسلام اور برکتیں نازل ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل واولاد اور تمام صحابہ کرام پر۔

 ڈاکٹر عبداللہ بن احمد الزید

معاون وکیل وزارت برائے امور طباعت واشاعت


 طباعتِ اولی کا مقدمہ

زیر نظر کتابچہ حقیقی سعادت ونیک بختی کی وضاحت کے لئے نمایاں خاکہ پیش کرتا ہے جس کی ہر انسان کو فکر رہتی ہے اور ہر شخص جس کو حاصل کرنے کی تگ ودو کرتا رہتا ہے، یہ خاکہ انسانی میلان ورجحان سے دور رہ کر محض کتاب وسنت کی پرزور دلیلوں کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے، یہی وہ سعادت ہے جسے حاصل کرنے کی ایک مرد مومن تمنا رکھتا ہے اور ایک مسلم معاشرہ جس کے ساتھ پروان چڑھتا ہے، لہذا یہی وہ واحد راستہ ہے جو زندگی کے سفر کو تقوی اور خوشنودی کے ڈگر پر قائم رکھ سکتا ہے۔

اس کتابچہ کے مولف فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالرحمن بن ناصر آل سعدی رحمہ اللہ ہیں، آپ مملکت سعودی عرب کی سرزمین نجد میں واقع علاقہ قصیم کے شہر "عنیزہ"  میں پیدا ہوئے تھے، یوں تو آپکے والدین بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود آپ بڑے ذہین وفطین اور طلب علم پر بڑے حریص تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے بہت ہی کم عمر میں حفظ قرآن کی ابتدا کردی تھی اورمحض آٹھ سال کی عمر میں اس کو مکمل اور پختہ یاد کرلیا،اس کے بعد آپ طلب علم کی جانب متوجہ ہوئے اور ملک وبیرون ملک کے علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور اس راہ میں لگے رہے یہاں تک کہ علوم ومعارف کا ایک بڑا ذخیرہ آپ کے پاس جمع ہوگیا۔

پھر جب آپ نے عمر کے تئیسویں سال میں قدم رکھا تو طلب علم کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات اور علم کی نشر واشاعت بھی شروع کردی اور اپنا پورا وقت، بلکہ اپنی پوری زندگی اسی میں صرف کردی اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے علم سے استفادہ کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، مولف رحمہ اللہ کے بعض اساتذہ حسب ذیل ہیں: 

1- شیخ ابراہیم بن حمد بن جاسر رحمہ اللہ،سب سے پہلےمولف رحمہ اللہ نے انہی سے علم حاصل کیا تھا۔

2- شیخ صالح بن عثمان رحمہ اللہ، یہ شہر عنیزہ کے قاضی تھے،مولف رحمہ اللہ نے ان سے فقہ، اصول فقہ، توحید،تفسیر اورعربی زبان کی تعلیم حاصل کی اور شیخ کی وفات تک آپ نے ان کى صحبت کو لازم پکڑے رکھا،چنانچہ مولف رحمہ اللہ توحید اورفقہ واصول کے بڑے جانکار تھے کیونکہ آپ شریعت کی معتبر ترین کتابوں سے وابستہ رہتے تھے بالخصوص شیخ الاسلام ابن تیمیہ وابن القیم رحمھما اللہ کی تصانیف سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، اسی طرح آپ تفسیر اور فن تفسیر میں بھی بڑے ماہر تھے کیوں کہ آپ کو اس فن میں گہرا درک حاصل تھا،اس فن میں شیخ کی بعض تصنیفات حسب ذیل ہیں:

1-   تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان (آٹھ جلدوں میں۔

2-   تیسیر اللطیف المنان فی خلاصۃ القرآن۔

3-   القواعد الحسان لتفسیر القرآن۔

اسکے علاوہ شیخ کی دیگر تالیفات جنہیں حاصل کرنے اور جن سےاستفادہ کا مشورہ دیا جاتا ہے، حسب ذیل ہیں:

4-   الارشاد الی معرفۃ الاحکام۔

5-   الریاض الناضرۃ۔

6-   بھجۃ قلوب الابرار۔

7-   منھج السالکین وتوضیح الفقہ فی الدین۔

8-   حکم شرب الدخان وبیعہ وشرائہ۔

9-   الفتاوی السعدیہ۔

10-         خطبات جمعہ کے تین مفید مجموعے۔

11-        الحق الواضح المبین بشرح توحید الانبیاء والمرسلین۔

12-        توضیح الکافیۃ الشافیۃ (نونیۃ ابن القیم)

اس کے علاوہ بھی شیخ رحمہ اللہ کی بہت سی تالیفات فقہ،توحید،حدیث،اصول،اور سماجی موضوعات میں اور مختلف فتاووں کی شکل میں موجود ہیں۔

مولف رحمہ اللہ کی وفات: مولف رحمہ اللہ کو اچانک ایک سخت بیماری لگی جس سےآپ کى موت کے قریب ہونے کا ڈر لا حق ہو گیا اور آپ جمعرات کی شب ،۲۳ جمادی الثانی سنہ 1376ھ کو شہر عنیزہ میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور ہر اس شخص کو شدید رنج والم میں مبتلا چھوڑ گئے جو آپ کو جانتا تھا، یا جس نے آپ کے بارے میں سنا تھا یا آپ کی کتابوں سے استفادہ کیاتھا۔ اللہ تعالی آپ پر اپنی بے پناہ رحمتیں نازل کرے اور ہمیں آپ کے علم اور آپ کی کتابوں سےخوب خوب فائدہ پہنچائے،آمین۔

ریاض، ۱۱ رمضان ۱۳۷۸ھ؁

مؤسسۃ النور للطباعۃ والتجلید


 مؤلف کا مقدمہ

ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام تر تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمداس کے بندے اور رسول ہیں،اللہ تعالی آپ پر ،آپ کے اہل و عیال پر اور آپ کے صحابہ پر درود وسلام نازل کرے۔

حمد وصلاۃ کے بعد: یقینا ہر شخص دلوں کا چین وقرار اور رنج والم سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے کیوں کہ اسی سے زندگی فرحت بخش ،شادمان اور پُر مسرت ہوسکتی ہے،چنانچہ ان مسرتوں کے حصول کے بعض دینی،طبعی اور عملی اسباب و وسائل ہیں جنہیں بیک وقت صرف ایمان والے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔اور جہاں تک دوسرے لوگوں کی بات ہے تو گرچہ وہ لوگ اپنے دانشمندوں کی کوششوں کی بدولت بعض اسباب کو اختیار کرلیں ،لیکن زیادہ نفع بخش ،دائمی اور نتیجے کے اعتبار سے عمدہ ترین اسباب ان سے فوت ہوجائیں گے۔

میں اپنے اس کتابچہ میں بعض اُن اسباب ووسائل کو بیان کروں گا جواس عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں جن کو ہر کوئی حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں اکثر اسبا ب ووسائل مہیا ہوجاتے ہیں،چنانچہ ان کی زندگی بہترین اور خوشگوار ہوتی ہے۔اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوپاتا،چنانچہ یہ لوگ انتہائی رنجیدہ اور خستہ حال زندگی گزارتے ہیں،اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو توفیق الہی کے بقدر ان دونوں قسم کے لوگوں کے درمیان میں ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی ہی ہر قسم کی خیر وبھلائی کی توفیق دینے والا ہے اور وہی ہے جو ہر خیر کے حصول میں اور ہر برائى کو دفع کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔


 پہلی فصل:

۱- سعادت مند زندگی کے حصول کا سب سے عظیم ،بنیادی اور اصلی سبب ایمان اور عمل صالح ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:  "جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے، اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے"۔ [سورہ النحل، آیت: 97]

چنانچہ اللہ تعالی نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کی انجام دہی کرنے والے کے لئے اس دنیا میں پاکیزہ زندگی اور دنیا و آخرت دونوں میں بہترین بدلہ کا وعدہ کیا ہے۔

اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔اور وہ یہ کہ حقیقی معنی میں اللہ پر ایمان رکھنے والے وہ لوگ جن کا ایمان انہیں اعمال صالحہ کی انجام دہی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ نیز ان کے دلوں،ان کے اخلاق وعادات اور ان کی دنیا وآخرت سنوار دیتا ہے،انہیں ایسے بنیادی اصول وضوابط مہیا ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ پیش آمدہ مسرت و شادمانی اور رنج والم کے تمام اسباب کااچھی طرح سامنا کرنا جان جاتے ہیں۔

لہذا وہ پُر مسرت و خوش آئند چیزوں کو بحسن و خوبی قبول کرکے اس پر شکر بجا لاتے ہیں اور انہیں نفع بخش طریقے سے استعمال کرتے ہیں، اور جب وہ ان چیزوں کو اس طرح استعمال میں لاتے ہیں تو انہیں فرحت وسرور حاصل ہوتی ہے اوران چیزوں کے دوام اور برکت کے وہ شدید خواہش مند ہوتے ہیں۔ نیز اس پر وہ اللہ کی جانب سے شکر بجا لانے والوں کے اجر وثواب کی بھی امید رکھتے ہیں۔نتیجے کے طور پر انہیں ایسی عظیم بھلائیاں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں جو ان خوشیوں سے بھی اعلی و برتر ہوتی ہیں۔

اسی طرح وہ لوگ تکلیف، مشقت اور غم والم کے حالات میں بالکل ڈتے رہتے ہیں اور حتی الامکان ان سے مزاحمت کرتے ہیں اور انہیں کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں ان مشقتوں اور پریشانیوں کی بدولت مصیبتوں پر ڈتے رہنے اور ان کا سامنا کرنے کی ہمت ،کارآمد تجربات اور (اندرونی) قوت حاصل ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ صبر و استقامت اور اجرو ثواب کی امید جیسے اتنے بڑے بڑے انعامات ملتے ہیں جن کے سامنے یہ تمام مشقتیں پھیکی پڑ جاتی ہیں اور ان کی جگہ فرحت و مسرت اور نیک امیدیں لے لیتی ہیں۔ نیز اللہ کے فضل و احسان اور اس کی جانب سے اجر و ثواب حاصل کرنے کا شوق بھی ان کے اندر بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم نے اس صورت حال کو ایک صحیح حدیث میں بیان کیا ہے،فرمایا: ’’مومن کا سارا معاملہ عجیب وغریب طور پر خیر ہی خیر ہے، اگر اسے خوش کن بات پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے باعث خیر ہے، اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے جو اس کے لیے باعث خیر ہے اور ایسا صرف مومن کے لئے ہے‘‘۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں نبی اکرم نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ آسانی وپریشانی اور خوشی وغم، ہر دو حالت میں ایک مومن کی خیر و بھلائی اور اس کے نیک اعمال کے اجر و ثواب میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے جب ایک ہی قسم کی خیر و بھلائی یا شر ونقصان دو الگ الگ لوگوں کو پہنچتى ہے تو ان کا سامنا کرنے میں دونوں اپنے اپنے ایمان اور عمل صالح کے تفاوت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف و متفاوت ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایمان و عمل صالح کو انجام دینے والا شخص خیر اور شر کا سامنا درج بالا شکر اورصبر اور اِن جیسی دیگر چیزوں کے ساتھ کرتا ہے۔لہذا اسے فرحت وسرور حاصل ہوتی ہے اور رنج و الم، دل کی تنگی اور زندگی کی بدبختی سے چھٹکارا ملتا ہے۔نیز اس دنیا میں اس کی زندگی خوش گوار اور پاکیزہ ہوجاتی ہے۔ جبکہ دوسرا شخص خیر وبھلائی کا سامنا شیخی،تکبر وغرور اور سرکشی ونافرمانی کے ساتھ کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں، بلکہ وہ ان بھلائیوں کا سامنا جانوروں کی مانند حواس باختہ ہوکر طمع ولالچ کے ساتھ کرتا ہے، لیکن ان سب کے باوجود اسے سکون قلب میسر نہیں ہوتا،بلکہ کئی اعتبار سےوہ بہت بے چین رہتا ہے،وہ اس خوف سے بے چین رہتا ہے کہ کہیں یہ پسندیدہ چیزیں ختم نہ ہوجائیں، اور ان چیزوں کو اپنے پاس برقرار رکھنے کے لئے جو کڑی محنت لگتی ہے اس سےبھی وہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتا ہے،اسی طرح وہ اس وجہ سے بھی بے چین رہتا ہےکہ انسانی نفس کو ہمیشہ مزید سے مزید تر کی چاہت رہتی ہے اور وہ کبھی کسی چیز پر قانع نہیں رہتا، لہذا کبھی تو اسے مزید بھلائیاں مل جاتی ہیں اور کبھی نہیں ملتیں، اور بالفرض اگر مل جائیں تب بھی ایسا شخص مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد پر بے چین وپریشان ہی رہتا ہے،اسی طرح جب اس شخص کو مصائب و پریشانیاں درپیش ہوتی ہیں تو وہ ان کا سامنا خوف وہراس ،گبراہٹ اور بے صبری و بے چینی کے ساتھ کرتا ہے، پھر اسے جو بدبختی اورذہنی وعصبی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ان کے متعلق تو مت ہی پوچھئے، نیز اسے ایسا ڈر وخوف لاحق ہوجاتا ہے جس سے اس کی زندگی بد سے بدتر اور نہایت پریشان کن ہو جاتی ہے کیونکہ نہ وہ اس پیش آمدہ مصیبت پر اللہ سے اجر و ثواب کی امید ہی رکھتا ہے اور نہ صبر ہی کرتا ہے کہ اسے تسلی رہے اوراس کی تکلیف کچھ ہلکی ہوسکے۔

یہ تمام باتیں تجربات سے معلوم ہوئی ہیں۔چنانچہ اگر ان مثالوں میں سے کسی ایک مثال پر بھی آپ غور کریں گے اور لوگوں کو اس کی روشنی میں پرکھیں گے تو ایمانی تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے والے اور جو ایسے نہیں ہیں،ان دونوں کے درمیان آپ کو بہت فرق نظر آئے گا۔،کیونکہ دین اسلام انسان کو اللہ کی عطا کردہ روزی اور اس کے بیش بہا فضل وکرم پر قناعت اختیار کرنے پر ابھارتا ہے۔

لہذا جب کوئی مرد مومن بیمار پڑتا ہےیا تنگ دست ہوجاتا ہے یا دوسرے لوگوں کی طرح اس جیسی دوسری پریشانی اسے لاحق ہوتی ہے تو اس کی ایمانی قوت، قناعت اور اللہ کی تقدیر پر رضامندی کی وجہ سے آپ اسے بالکل مطمئن اور پُرسکون پاتے ہیں، اور جو چیز اللہ نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھی ہے ،اس کا دل اس کی خواہش نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ مومن خودسے برتر کے بجائے خود سے کمتر لوگوں کی جانب دیکھتا ہے،بلکہ بسا اوقات یہ اُن لوگوں سے بھی زیادہ خوش وخرم اور پُر سکون زندگی جی رہا ہوتا ہےجنہیں دنیا کی تمام تر آسائشیں میسر ہیں لیکن انہیں ان پر قناعت کی توفیق نہیں ملی۔

دوسری جانب وہ شخص جو ایمانی تقاضوں کے مطابق زندگی نہیں گزارتا،اسے جب کوئی محتاجی لاحق ہوتی ہے یا کچھ دنیاوی نقصان پہنچتاہے تو آپ اسے انتہا درجے کی بدحالی وبدبختی کا شکار پاتے ہیں۔

ایک دوسری مثال لیتے ہیں: جب خوف وہراس لاحق ہوتا ہے یامختلف پریشانیاں آتی ہیں تو سچے ایمان والے کو آ پ ثابت قدم اور مطمئن پاتے ہیں، وہ اپنے فکر ، اورقول و عمل کے ذریعہ اس مصیبت سے بآسانی نمٹ لیتا ہے، گویا وہ پہلے سے ہی اس مصیبت کے لئے بالکل تیار بیٹھا تھا، ان حالات میں (اس طرح کا رد عمل)   انسان کو چین و سکون اور دل جمعی عطا کرتا ہے۔

جبکہ دوسری جانب ایمان سے محروم لوگوں کی حالت بالکل اس کے برعکس ہوتی ہے،جب انہیں کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ حد درجہ پریشان اور حواس باختہ ہوجاتے ہیں، وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور اندر سے بہت ڈر سہم جاتے ہیں،نیز ظاہری و باطنی ہر دو اعتبار سے وہ اس طرح خوف و بے چینی کے شکار بن کر رہ جاتے ہیں جس کی کیفیت بیان سے باہر ہے، ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اگر انہیں بعض ایسے قدرتی وسائل میسر نہ ہوں جن کے حصول کے لئے بڑی تگ ودو کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کی تمام تر قوت جواب دے جائے اور یہ ذہنی ہیجان کے شکار ہوجائیں۔،ایسا اس ایمان کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے جو انسان کو صبر وتحمل پر آمادہ کرتا ہے،اور ایسا خاص طور پر انتہائی نازک اور المناک حالات میں ہوتا ہے۔

لہذا نیک و بد اور مومن وکافر، دونوں  (پیش آمدہ مصائب پر) ہمت و شجاعت سے کام لینے اور فطرتًا ان کا سامنا کرنے کی صفت میں مشترک ہوتے ہیں جو خطرات کو ہلکا کردیتے ہیں، لیکن ایک مرد مومن اپنی قوت ایمانی، صبر و استقلال،اللہ پر توکل و اعتماد اور اُس سے اجر وثواب کی امید رکھنے کی بنیاد پر ایک الگ ہی شان رکھتا ہے جس سے اس کی ہمت وشجاعت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ، اس کاخوف وڈر جاتا رہتا ہے اور صعوبتیں بھی قدرے آسان ہوجاتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  "اگر تمہں، بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے اور تم اللہ تعالیٰ سے وه امیدیں رکھتے ہو جو امیدیں انہیں نہیں ہیں"۔ سورۃ النساء: 104۔ نیز انہیں اللہ کی خاص مدد ونصرت اور تائيد حاصل ہوتی ہے جو خطروں کو ختم کردیتی ہے،فرمان باری تعالی ہے:  "اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔ (الانفال: 46

۲- رنج والم کو ختم کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب اللہ کی مخلوقات کے ساتھ اپنے قول وفعل اور خیر و بھلائی کے ہر طریقے سے حسن سلوک کرناہے۔ یہ سب خیر وبھلائی کے کام ہیں، اور اللہ تبارک وتعالی نیک وبد، دونوں قسم کے لوگوں کے رنج وغم کو ، اللہ کی مخلوقات کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے اعتبار سے ،دور کرتا ہے۔البتہ ایک مومن کو یہ چیزیں اور بھی کامل طریقے سے ملتی ہیں اور اس کے حسن سلوک میں اخلاص اور اللہ سے اجر وثواب کی امید بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس معاملے میں دوسرے لوگوں سے بالکل جدا ہوتا ہے۔

نتیجتاً االلہ اس کے لئے نیکی کے راستے ہموار کردیتا ہے کیوں کہ وہ اللہ سے خیر کی امید رکھتا ہے، نیز اس کے اخلاص اور ثواب کی امید کی وجہ سے اللہ اُس سے تکلیف دہ چیزوں کو دور کردیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  "ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں، ہاں! بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا واب دیں گے"۔ ]سورۃ النساء: 114

اللہ تعالی نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ یہ تمام چیزیں ان کو انجام دینے والے کے لئے خیر کے اعمال ہیں،اور خیر کے اعمال اپنے ساتھ خیر و بھلائی لاتے ہیں اور شر ونقصان کو دور کرتے ہیں، نیز جو مومن اللہ سے اجر وثواب کی امید رکھتاہے،اللہ رب العزت اسے بہت عظیم اجر سے نوازتا ہے۔ اورانسان کے رنج وغم اور مصائب و مشکلات کا ختم ہوجانا اس اجر عظیم کا حصہ ہے۔


 دوسری فصل:

3- ذہنی تناؤ سے پیدا ہونے والی بے قراری اور دل کو بعض مصیبتوں کی اسیری وگرفتاری سے نجات دلانے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے :عمل صالح کی انجام دہی یا علم نافع کے حصول میں لگے رہنا۔ایسا کرنا دل کو بے چینی پیدا کرنے والے امور سے دور رکھتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے وہ رنج و الم کے اسباب ہی بھول جاتا ہے اور وہ فرحت وشادمانی سے معمور ہو جاتا ہے نیز اس کے اندر حرکت وچستى مزید آجاتی ہے، یہ سبب بھی مومن اور غیر مومن ،دنوں میں مشترک ہے۔ لیکن مومن اپنے ایمان،اپنے اخلاص ،علم کو سیکھنے یا سکھانے پر اللہ سے ثواب کی امید رکھنے اور اپنے علم کے مطابق خیر وبھلائی کے کام انجام دینے کی وجہ سے، دوسروں سے جدا وممتاز رہتا ہے، اگر وہ عبادت میں مشغول رہا تو عبادت ہے (کہ اس پر اجر وثواب حاصل ہوتا ہی ہے) اور اگر دنیاوی کام و کاج میں بھی مشغول رہا تو (تقرب الی اللہ اور) اس سے اطاعت الہی پر مدد کی نیت اس کام کو کار ثواب بنا دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رنج وغم وغیرہ کو دور کرنے میں اِن چیزوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ ذہنی وعصبی پریشانی اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مختلف اقسام کی بیماریوں کے شکار ہوگئے تو ان کے لئے سب سے بہترین دوا ،رنج وغم اور پریشانی کی وجہ کو بھول جانا اور زندگی کے اہم ترین امور میں مشغول ہوجانا ہی قرار پایا۔

لہذا انسان کو ایسے امور میں مشغول ہونا چاہئے جن کا وہ ذوق و شوق رکھتا ہو کیوں کہ یہ اس مفید مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے مناسب اور پُر اثر سبب ہے۔واللہ اعلم۔

۳- جو چیزیں غم اور بے قراری کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اُن میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اپنےآج میں تن ومن سے مصروف رہے ،آئندہ کل کے پیچھے پڑنے سے بچے اور ماضی پر افسُردہ نہ ہو ،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم نے فکر وغم سے پناہ طلب کی ہے ۔غم گزرے ہوئے ایسے امور پر ہوتا ہے جن کو نہ دہرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں درست کیا جاسکتا ہے،اور فکرمستقبل کے خوف سے لاحق ہوتی ہے، لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ آج کا آدمی بن کر رہے اور اپنے آج اور اپنے موجودہ وقت کو درست کرنے کی تگ ودو کرے کیوں کہ  آج کی اصلاح میں دل جمعی سے کام لینے سے ہی چیزیں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہیں اور انسان کوفکر وغم سے نجات ملتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی چیز کی دعا کرتے یا اپنی امت کو دعا کرنے کی رہنمائی کرتے تو اللہ سے مدد طلب کرنے اور اس کے فضل واحسان کی چاہت رکھنے کے ساتھ ہی وہ جس چیز کی دعا کرے اسے حاصل کرنے کے لئے تگ ودو کرنے پر آمادہ کرتے، اور جس چیز کو دور کرنے کی دعا کرے اس سے باز رہنے کی رغبت دلاتے، کیوں کہ  دعا عمل سے جڑی ہوئی ہے، اس لئے بندہ کو چاہئے کہ ایسے کام میں تگ ودو کرے جو اسے دنیا وآخرت میں فائدہ پہنچائے، اور اپنے رب سے مقصد میں کامیابی کی دعا کرے اور اس پر اللہ کی مدد طلب کرے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (جو چیز تمہیں نفع پہنچانے والی ہو اس کی حرص رکھو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور عاجز نہ بنو، اگر تمہیں کوئی مصیبت آن پہنچے تو یوں نہ کہوکہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا، تو ایسا اور ایسا ہوجاتا، بلکہ یوں کہو: (قَدَّرَ اللهُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ) کہ اللہ نے مقدر کیا اور جو چاہا کیا، کیوں کہ لفظ ’’اگر‘‘شیطان کی در اندازی کا دروازہ کھولتا ہے)۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے امور کی حرص رکھنے کا حکم دیا جو ہر حال میں (بندہ کے لئے)نفع بخش ہوں، اللہ سے مدد مانگنے کا حکم دیا اور اس عاجزی کے سامنے ڈھیر ہونے سے منع فرمایا جو نقصاندہ سستی وکاہلی کی شکل میں انسان کو لاحق ہوجایا کرتی ہے، ساتھ ہی آپ نے یہ بھی حکم دیا کہ ماضی میں واقع ہونے والے امور پر واویلا نہ کیا جائے اور قضا وقدر کو تسلیم کر لیا جائے۔

آپ نے امورِ زیست کی دو قسمیں بتائی:  ایک قسم وہ ہے جسے حاصل کرنے یا اس کے ممکنہ حصہ کو حاصل کرنے کے لئے، یا اسے دور کرنے یا اس کی مضرت کو کم کرنے کے لئے بندہ کوشش کرسکتا ہے تو ایسے امور میں بندہ کو اپنی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے پروردگار سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ اور دوسری قسم وہ ہے: جس میں بندہ کو یہ اختیار نہیں ہوتا، بندہ کو چاہئے کہ ایسے امور پر مطمئن رہے، خوش ہو اور انہیں تسلیم کرے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قاعدہ کی رعایت کرنے سے فرحت ومسرت حاصل ہوتی اور حزن وملال سے نجات ملتی ہے۔


 فصل:

5- شرح صدر اور دل کے اطمینان کا ایک عظیم ترین سبب یہ ہے کہ: (کثرت سے اللہ کو یاد کیا جائے)، کیوں کہ شرح صدر اور اطمینان قلب کو حاصل کرنے اور حزن وملال کو دور کرنے میں اس کا عجیب وغریب اثر ہوتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: " یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے"۔[سورة الرعد، آیت: 28 ]۔ ذکر الہی کے اندر چونکہ اپنی خاصیت ہوتی ہےاور بندہ اللہ کے اجر وثواب کی امید رکھتا ہے اس لئے مذکورہ بالا مقصد کے حصول میں اس کا بڑا اثر ہوتا ہے۔

6- اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ظاہری اور پوشیدہ نعمتوں کا استحضار اور زبان سے ان کا تذکرہ کرنے سے بھی بندہ کو روحانی خوشی اور دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے،بندہ جب اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو پہچاننے لگتا ہے اور ان کا تذکرہ اپنی زبان پر لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے غموں اور تفکرات کو دور کر دیتا ہے، اس کی وجہ سے بندہ کے اندر رب تعالیٰ کے لئے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ میں بندگی کا بلند ترین مقام و مرتبہ ہے، بندہ چاہے محتاجی کی حالت میں ہو یا حالت مرض میں ہو یا ان کے علاوہ کسی اور آزمائش سے دوچار ہو، جب وہ اللہ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا موازنہ اپنی موجودہ پریشانی و آزمائش سے کرتا ہے تو اسے موجودہ مصیبت اور اللہ کی عطا کردہ بے حد و حساب نعمتوں کے درمیان کوئی نسبت و مطابقت ہی نظر نہیں آتی۔

بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر جب اللہ تعالیٰ بندہ کو مصائب اور نا پسندیدہ صورتحال کے ذریعہ آزماتا ہے اور اس پر بندہ صبر و برداشت اور تسلیم و رضا کا پیکر بن جاتا ہے تو اس کی وجہ سے مصائب کی سختی کو برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے اور آزمائشوں کا بوجھ اسے ہلکا محسوس ہونے لگتا ہے، جب بندہ آزمائش پر رب تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید باندھ لیتا ہے اور صبر و رضا کے عمل کو اللہ کی عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے تو اس کی وجہ سے زندگی کی تلخ و کڑوی صورت حال بھی بھلی اور شیریں محسوس ہونے لگتی ہے، پھر وہ اجر و ثواب پانے کی لذت میں صبر و برداشت کی کڑواہٹ کو بھول جاتا ہے۔

۷- آزمائش اور پریشانی کی صورت حال میں سب سے زیادہ مفید نسخہ وہ ہے جس کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں رہنمائی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو ، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس سے بہت امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے)۔  امام بخاری نے اسے روایت کیا ہے۔ جب بندہ اس عظیم الشان انداز فکر کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا ہے تو وہ عافیت اور اس سے متعلق معاملات اور رزق اور اس سے متعلق معاملات میں خود کو اللہ کے بہت سے بندوں سے برتر پاتا ہے، چاہے اس کی موجودہ حالت جیسی بھی ہو، اس کی وجہ سے اس کی پریشانی و بے چینی اور غم و تفکرات دور ہو جاتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کی وجہ سے اس کی خوشی و مسرت دو بالا ہو جاتی ہے جو اس سے نیچے کے لوگوں کو حاصل ہی نہیں ہیں۔

بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ظاہری وباطنی اور دینی و دنیاوی نعمتوں پر غور و فکر کرتا ہے تو اسے صاف طور پر نظر آتا ہے کہ اس کے رب نے اسے خیر کثیر سے نوازا ہے اور بے شمار شرور وفتن سے اس کی حفاظت کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پہلو سے غور و فکر کرنے سے بھی غموں اور پریشانیوں کا ازالہ ہوتا ہے اور دل کے اندر خوشی و مسرت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔


 فصل:

8- خوشی و مسرت کے حصول اور غم و تفکرات کے ازالہ کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ غم و تفکرات کو دعوت دینے والے اسباب کے ازالہ اور خوشی و مسرت سے ہمکنار کرنے والے اسباب کے حصول کے لئے کوشش کی جائے، بایں طور کہ ماضی میں جو نا پسندیدہ اور برے حالات قدرتی طور پر پیش آئے جنہیں دور کرنا ممکن نہیں تھا، انہیں انسان بھول جائے اور اپنے دل و دماغ سے انہیں نکال پھینکے اور یہ جان لے کہ ماضی کی کلفتوں میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا ایک کار عبث ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اسے یہ جان لینا چاہئے کہ اس طرح کا منفی رویہ حماقت اور پاگل پن کے قبیل سے ہے، جب انسان کو ان باتوں کی سمجھ آ جاتی ہے تو وہ اپنے دل کو ایسے منفی تفکرات سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور مستقبل میں امکانی طور پر پیش آنے والی فقر و فاقہ اور خوف و ہراس کی نا پسندیدہ صورتحال کے بارے میں سوچ کر بے چین رہنے سے بچتا ہے۔ پھر وہ زندگی کی اس حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے کہ مستقبل میں جو بھی خیر و شر، امیدیں و آرزوئیں اور تکالیف و پریشانیاں پیش آنے والی ہیں وہ نا معلوم ہیں اور وہ ایک ایسی ذات کے اختیار میں ہے جو عزیز و حکیم ہے، بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ اپنے لئے خیر و بھلائی کو حاصل کرنے اور نقصان و خسارے سے بچنے کے لئے کوشاں رہیں، اسی کے ساتھ بندہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ مستقبل کے معاملات کو لے کر جب وہ اضطراب و بے چینی سے دور رہے گا اور اصلاح احوال کے لئے اپنے رب پر بھروسہ کرے گا اور اس (مثبت فکر) میں اطمینان و سکون محسوس کرے گا تو اس سے اس کا دل بھی مطمئن رہے گا، اس کے احوال اور معاملات بھی درست ہوں گے اور اس کے غم و تفکرات بھی ختم ہو جائیں گے۔

9- مستقبل میں پیش آنے والے امور و معاملات کے تئیں مثبت رویہ اختیار کرنے کے تعلق سے سب سے زیادہ فائدہ اس دعا کا استعمال ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے: (اے اللہ تو میرے دین کو سنوار دے جو میری زندگی کی پونجی ہے، تو میری دنیا کو درست کر دے جس میں میرا ذریعۂ معاش ہے، تو میری آخرت کو درست کر دے جہاں مجھے لوٹ کے جانا ہے، تو میری زندگی کو میرے لئے ہر خیر و بھلائی میں اضافہ کا ذریعہ بنا دے اور موت کو ہر برائی سے راحت کا سبب بنا دے)۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی قبیل کی ایک دعائے نبوی یہ ہے: (اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، تو ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے میرے نفس کے حوالہ نہ کر، میرے سارے احوال کو درست کر دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے)۔ اسے ابوداود نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔

جب بندہ دل کی توجہ اور سچی نیت کے ساتھ اس دعا کو جس میں اس کی دینی و دنیاوی زندگی کی درستگی کا سامان ہے، اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اور اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے اپنی کوشش بھی جاری رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبولیت عطا کرتا ہے، اس کی امید کو پوری کر دیتا ہے اور اس کی کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اسے غم و تفکرات سے نجات مل جاتی ہے اور اس کا غم، خوشی ومسرت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔


 فصل:

10- جب بندہ کو مصائب کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں اس کی ذہنی الجھن اور تفکرات کو دور کرنے کا سب سے زیادہ تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ وہ اپنی مصیبت کے احساس کو ہلکا کرنے کی بایں طور کوشش کرے کہ وہ اس بدترین امکانی صورت حال کا اندازہ لگائے جہاں تک اس پر نازل ہونے والی مصیبت کا یہ معاملہ پہنچ سکتا تھا اور اپنے نفس کو اس مصیبت کا سامنا کرنے کا عادی بنائے، پھر اس کے ساتھ ہى اپنی مصیبت کے احساس کو امکانی حد تک کم کرنے کی کوشش کرے، اس طرح مصیبت کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنے اور اس کے ازالہ کے لئے بہتر طریقہ سے کوشش کرنے کی وجہ سے اس کے غم و تفکرات دور ہو جائیں گے، اور لا ریب بندہ فوائد کے حصول اور مضرت و نقصان سے بچنے کی تگ و دو کو سہل ومیسور پائے گا۔

جب کسی بندہ کو خوف، بیماری، فقر و محتاجی اور مختلف قسم کی پسندیدہ چیزوں سے محرومی کا سامنا ہو تو اسے اس ناموافق صورت حال کا اطمینان اور بشاشت کے ساتھ سامنا کرنا چاہئے، اپنے نفس کو ان آزمائشوں کے برداشت کرنے کا خوگر بنانا چاہئے اور اس معاملہ میں آخری حد تک صبر و برداشت کے دامن کو تھامے رہنا چاہئے، اس لئے کہ جب انسان کا نفس آزمائش کی سختی کو برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر وہ آزمائش اس کے لئے آسان اور قابل برداشت ہو جاتی ہے اور اسے اس کی سختی کا احساس نہیں ہوتا ہے، خاص طور پر جب بندہ اس آزمائش سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی قدرت و صلاحیت کے بقدر ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے اور اس جد و جہد میں خود کو مصروف رکھتا ہے تو اس کے حق میں دو چیزیں جمع ہو جاتی ہیں:  ایک آزمائش کا سامنا کرنے کی عادت ڈال لینا دوسری صحیح سمت میں اس کے لئے کوشش کرنا، اس کی وجہ سے مصائب کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی طاقت و قوت کے حصول کی خاطر اپنے نفس کو تیار کرتا ہے، علاوہ ازیں اس مصیبت و آزمائش سے گزرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا اعتماد و بھروسہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب کی ذات سے خیر کی امید بھی رکھتا ہے، اس میں شک نہیں کہ خوشی و مسرت اور دلی اطمینان و سکون حاصل کرنے کے لئے اوپر بیان کیا گیا نسخہ نہایت کارآمد اور مفید ہے، اس کے علاوہ بندہ آزمائش پر اپنے رب سے اجر و ثواب کی امید بھی رکھتا ہے جو اسے یا تو فوری طور پر حاصل ہو جاتا ہے یا اسے آخرت میں ملنے کی امید ہوتی ہے، یہ ایک آزمودہ بات ہے اور اس تجربہ سے گزرنے والوں کی تعداد بڑی ہے۔


 فصل:

11- قلبی امراض جو دل کو کمزور کرتے ہیں اور اس کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں، نیز جسمانی امراض کا سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو کمزور نہ ہونے دے بلکہ اس کی فطری طاقت کو بحال رکھنے پر توجہ دے نیز برے اور منفی افکار و خیالات کی وجہ سے جو اوہام، ذہنی تشویش، انفعالی کیفیت اور چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے اس سے بچے۔ اس لئے کہ انسان جب منفی خیالات کے سامنے کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کا دل خوف، امراض، غصہ اور ذہنی الجھن کے منفی اثرات سے متاثر ہونے لگتا ہے اور جو اپنے ذہن و دماغ پر اس فکر و خیال کو حاوی ہونے دیتا ہے کہ اسے عنقریب برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اسے جو نعمتیں حاصل ہیں ان سے اسے محروم ہونا پڑ سکتا ہے تو یہ منفی سوچ اسے غم و تفکرات اور جسمانی و قلبی امراض میں مبتلا کر دیتی ہے، اس کی وجہ سے اس کے قوی کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس کی جسمانی صحت تیزی کے ساتھ گرنے لگتی ہے، انسان کی زندگی پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں، لوگوں نے اس کے نقصانات کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔

12-  اور جب انسان دل سے اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ کرتا ہے، اوہام اور پراگندہ خیالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ہے، اپنے اوپر برے خیالات کو حاوی نہیں ہونے دیتا ہے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے فضل و مہربانی کی امید رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے غموں اور تفکرات کے بادل چھٹ جاتے ہیں، اس کی بہت سی جسمانی و قلبی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں اور دل کو ایسی طاقت، اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، کتنے ایسے شفا خانے اور اسپتال ہیں جو اوہام اور ذہنی الجھن اور برے خیالات سے متاثر مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، کتنے ایسے طاقتور ہیں جن کے دل اس طرح کے منفی خیالات سے متاثر ہو کر کمزور ہو چکے ہیں اور جسمانی طور پر کمزور لوگوں کے دل تو اور جلدی اس سے متاثر ہوتے ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان اوہام اور منفی خیالات کی زد میں آنے کے بعد حماقت اور جنون میں مبتلا ہو چکے ہیں، ان جسمانی اور قلبی امراض سے محفوظ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عافیت بخشی ہے اور نفس کے سامنے مغلوب نہ ہونے کی توفیق و ہمت عطا کی ہے تاکہ دل کو مضبوطی و قوت دینے والے مفید اسباب اسے حاصل ہوں جو اس کی ذہنی الجھن و پریشانی کا خاتمہ کر دے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ سورہ الطلاق، آیت: 3 یعنی اس کے دینی و دنیاوی تفکرات کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہو جاتی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرنے والا طاقتور دل کا مالک ہوتا ہے، اوہام اور منفی خیالات اس پر اثرانداز نہیں ہوتے ہیں، پیش آنے والے حادثات اسے بےچین و پریشان نہیں کرتے ہیں، کیوں کہ  اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذہنی الجھن و پریشانی سے نفس کی کمزوری، گراوٹ اور وہ خوف جنم لیتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مکمل طور پر کافی ہو جانے کی ضمانت دی ہے، پھر وہ بندہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے، اس کے وعدہ پر مطمئن رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پریشانی و بےچینی دور ہو جاتی ہے، اس کی تنگی آسانی میں، غم خوشی میں اور خوف امن و سلامتی میں بدل جاتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طالب ہیں۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی ذات پر مکمل توکل و بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرما جس کے لئے تونے ہر خیر کی ضمانت دی ہے اور جس سے ہر برائی و نقصان کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اس کے ذریعہ ہمارے دل کو قوت و ثبات عطا فرما۔


 فصل:

13- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: (کوئی مومن کسی مومنہ سے بغض نہ رکہے، اگر اسے اس کی کوئی عادت و اخلاق ناپسند ہو تو اس کی کسی دوسری عادت و اخلاق سے وہ راضی و خوش بھى ہوگا)۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دو عظیم الشان فائدے :

پہلا فائدہ: یہ ہے کہ بیوی، رشتہ دار، ساتھی، ملازم اور ہر وہ شخص جس کا آپ سے کوئی رشتہ و تعلق ہے، سب کے ساتھ آپ کا سلوک و برتاؤ اچھا ہونا چاہئے، آپ کو اس بات کی عادت ڈال لینی چاہئے کہ ان تمام اہل تعلق میں کوئی عیب، کمی یا ناپسندیدہ خصلت یقینی طور پر ہوگی۔ آپ اس کمی اور عیب کا موازنہ اس کی ان خوبیوں سے کیجئے جن کی وجہ سے آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے ساتھ اپنا مضبوط رشتہ باقی رکھیں اور اپنی محبت و الفت کو کم نہ ہونے دیں، کیوں کہ  ان تمام اہل تعلق کے ساتھ جو رشتہ وجود میں آتا ہے وہ عمومی و خصوصی دونوں طرح کے مقاصد پر مبنی ہوتا ہے، اسی طرح عیوب اور کمیوں سے چشم پوشی کرنے اور محاسن و خوبیوں پر نظر رکھنے سے تعلق و صحبت کو دوام حاصل ہوتا ہے اور آپ ذہنی و فکری طور پر راحت و سکون محسوس کرتے ہیں۔

دوسرا فائدہ: یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث نبوی پر عمل کرنے سے فکر اور الجھن و بےچینی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، طرفین کے درمیان بے لوث محبت باقی رہتی ہے، دونوں طرف سے مستحب اور واجب حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس طرح طرفین کو راحت و سکون میسر آتا ہے، جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے جو حدیث میں بیان کیا گیا ہے،وہ صرف عیوب اور کمیوں پر نظر رکھتا ہے اور اچھائیوں و خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو وہ یقینی طور پر ذہنی اضطراب و بے چینی کا شکار ہوتا ہے، اس کے اور اہل تعلق کے درمیان محبت کا رشتہ یقینی طور پر مکدر ہو جاتا ہے اور جن باہمی حقوق کی حفاظت طرفین کے لئے ضروری تھی ان میں سے بیشتر حقوق پامال ہو کر رہ جاتے ہیں۔

بہت سے بلند ہمت افراد بڑے سانحے اور مصائب کے وقت صبر و اطمینان کا مظاہرہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن معمولی اور ہلکی پھلکی تکلیف پہنچنے پر بےچین ہو جاتے ہیں اور ان کی آپسی محبت و خلوص میں تلخی و کڑواہٹ آ جاتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بڑے حادثات کے وقت تو صبر و برداشت کی عادت ڈال رکھی ہے، لیکن چھوٹے معاملات کا دانشمندی اور خوش اسلوبی سے سامنا کرنے کے لئے اپنی تربیت نہیں کی ہے، چنانچہ یہ چھوٹے معاملات ان کے لئے نقصان و مضرت کا باعث بنتے ہیں اور ان کا چین و سکون چھین لیتے ہیں۔ عقلمند انسان وہی ہے جو بڑے اور چھوٹے ہر طرح کے معاملات کا سامنا کرنے کے لئے اپنی تربیت کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتا ہے کہ الہی مدد اس کے شامل حال رہے اور اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لئے بھی اسے اس کے نفس کے حوالہ نہ کرے، تب اس کے لئے بڑے معاملات کی طرح چھوٹے معاملات سے نمٹنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ ہر حال میں دلی اطمینان و سکون اور آرام و راحت کے ساتھ جیتا ہے۔


 فصل:

14-  عقلمند انسان یہ جانتا ہے کہ اس کی اصل زندگی اطمینان اور بےفکری کی زندگی ہے اور یہ زندگی بہت مختصر ہوتی ہے، لہذا بلا وجہ کے تفکرات اور زندگی کے چین و سکون کو غارت کرنے والے عوامل کو ڈھیل دے کر زندگی کے خوشگوار لمحات کو مزید مختصر کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ اطمینان و سکون اس زندگی کے برخلاف ہے جس کا انسان متلاشی ہوتا ہے، کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ تفکرات اور بدمزگی کی نذر ہو جائے۔ اس معاملہ میں نیک اور بد انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لیکن مومن کو اس طرح کے تفکرات سے پاک زندگی گزارنے کے معاملہ میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اسے دیر یا سویر اس طرح کی مطمئن زندگی کا زیادہ نفع بخش حصہ ہاتھ لگتا ہے۔

15- جب کسی کو کوئی مصیبت یا ناپسندیدہ صورت حال کا سامنا ہو یا اسے کسی طرح کا خوف لاحق ہو تو اسے حاصل شدہ دینی و دنیاوی نعمتوں اور درپیش ناموافق صورت حال کے درمیان موازنہ کرنا چاہئے، اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اسے جو نعمتیں حاصل ہیں وہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے مقابلہ میں درپیش مصیبتیں اور آزمائشیں بہت معمولی ہیں۔

اسی طرح ایک عقلمند انسان ممکنہ طور پر لاحق ہونے والے نقصانات کے خوف و اندیشہ کا موازنہ ان بہت سارے امکانی نقصانات سے کرتا ہے جن سے محفوظ رہنے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں تو وہ موہوم اور کمزور امکان و احتمال کو مضبوط اور کثیر امکانات پر غالب آنے کا موقع نہیں دیتا ہے، اس سے اس کے تفکرات اور خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے، وہ اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ وہ بڑے بڑے امکانی نقصانات کیا ہیں جو اسے پہنچ سکتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی نقصان سامنے آ جاتا ہے تو اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے، ان امکانی نقصانات میں سے جو ابھی لاحق نہیں ہوئے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو نقصان لاحق ہو چکا ہے اس سے چھٹکارا پانے یا اس کی شدت کو کم کرنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔

16- نفع بخش باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ اگر لوگ بری باتوں کے ذریعہ آپ کو اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا نقصان آپ کو نہیں بلکہ خود انہیں پہنچے گا، آپ کو اس کا نقصان اس صورت میں پہنچے گا جب آپ لوگوں کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور انہیں اپنے حواس و جذبات پر حاوی ہونے کا موقع فراہم کریں گے تب لوگوں کی وہ بری باتیں آپ کے لئے بھی نقصاندہ ہوں گی جیسا کہ خود ان کے لئے نقصاندہ ثابت ہوئیں۔ اگر آپ لوگوں کی لایعنی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیں گے تو آپ کو اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

17- آپ یہ بات جان لیں کہ آپ کی زندگی آپ کی سوچ و فکر کے تابع ہے، اگر آپ کی فکر دینی و دنیاوی اعتبار سے آپ کے لئے فائدہ مند ہوگی تو آپ کی زندگی بھی عمدہ اور خوش بختی کا نمونہ ہوگی، ورنہ اس کے برعکس ہوگی۔

18- غم و فکر کو دور رکھنے کا سب سے نفع بخش طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے اچھے عمل کا بدلہ و اجر پانے کی امید رکھیں اور وہ عمل اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے اور اس کی بارگاہ میں قبول ہو جائے بس اس کی فکر کریں،جس کا آپ پر حق ہے یا جس کا آپ پر کوئی حق نہیں ہے، ان میں سے جس کے ساتھ بھی آپ کوئی بھلائی کریں تو اس کے تعلق سے یہ واضح رہے کہ یہ آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے، لہذا آپ نے جس کے ساتھ احسان کیا ہے اس کے شکرگزار ہونے کی پرواہ نہ کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کے تعلق سے ارشاد فرمایا ہے: "ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری"۔ [سورۃ الانسان، آیت:۹]۔

یہ پہلو اس وقت نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے جب انسان اپنے اہل و عیال اور بہت سے قریبی تعلق والوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، جب آپ اپنے ان قریبی تعلق والوں اور گھر کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور شر کو ان سے دور کرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں تو آپ ان رشتہ داروں کو بھی آرام پہنچاتے ہیں اور خود بھی آرام و راحت محسوس کرتے ہیں، حصول راحت کے اسباب میں سے یہ ہے کہ فضائل اور اچھے کاموں کو منتخب کرکے ان پر عمل کیا جائے، اس کے لئے اندرونی جذبہ کافی ہے، اس میں تکلف کا کوئی کام نہیں ہے کیونکہ اس سے پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ آپ فضائل سے ناامید ہو کر زندگی کے راستہ پر چلنے کا خود کو عادی بنائیں کیونکہ زندگی کی راہ پیچیدہ ہے جس پر آپ کو چلنا ہے، یہی حکمت پر مبنی روش ہے، آپ زندگی کی نامناسب و ناموافق چیزوں کو موافق اور لذت آفریں بنانے کی کوشش کریں، اس سے زندگی کی لذت میں اضافہ ہوگا اور بدمزگی دور ہوگی۔

19- آپ نفع بخش چیزوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں اور انہیں حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں، آپ نقصاندہ چیزوں کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھیں تاکہ غم وتفکرات کو دعوت دینے والے اسباب وعوامل سے آپ کو سابقہ نہ پڑے، اس معاملہ میں ذہنی راحت وآرام کا احساس اور بڑے کاموں کو انجام دینے کے لئے دلچسپی و دلجمعی کی کیفیت آپ کے لئے ممد و معاون ہوگی۔

20- زندگی میں فائدہ پہنچانے والی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دن کے کاموں کو نمٹاتے رہیں تاکہ اگلے دن کے کاموں کو انجام دینے کے لئے آپ فارغ رہیں، اس لئے کہ جب ہر دن کے کاموں کو نمٹایا نہیں جائے گا تو پچھلے دنوں کے باقی کام اور آنے والے دنوں کے کام سب جمع ہوتے چلے جائیں گے جس کی وجہ سے ان کاموں کا بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا، جب آپ ہر کام کو اس کے وقت پر انجام دیں گے تو مستقبل کے کاموں کو انجام دینے کے لئے آپ کے پاس نئی قوت فکر اور کام کرنے کا نیا جوش و جذبہ موجود رہے گا۔

21- یہ بھی ضروری ہے کہ آپ مفید کاموں کی ایک ترتیب بنائیں، ان میں جو سب سے زیادہ اہم ہو اس کو پہلے انجام دیں، پھر اس کے بعد جو اہم ہو اس کو انجام دیں، کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو کرنے کی طرف آپ کا دل مائل ہوتا ہے اور کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں انجام دینے کی آپ کے اندر شدید چاہت و رغبت ہوتی ہے، ان دونوں طرح کے کاموں کے درمیان آپ فرق کریں اور سب سے پہلے ان کاموں کو انجام دیں جن کو کرنے کی شدید چاہت آپ کے اندر موجود ہو، اس لئے کہ اگر آپ اس کے برخلاف کریں گے تو اس کی وجہ سے اکتاہٹ و بیزاری پیدا ہوگی، اس کے لئے آپ صحیح فکر اور باہم صلاح و مشورہ سے مدد حاصل کریں۔ جو شخص اپنے خیر خواہوں سے مشورہ لیتا رہتا ہے اسے کبھی ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے، آپ جس کام کو انجام دینا چاہتے ہیں اس کا باریکی سے مطالعہ کریں، جب اس کا فائدہ مند ہونا ثابت ہو جائے اور آپ اسے انجام دینے کا عزم کر لیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کریں، اللہ تعالیٰ اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔

نیز درود وسلام نازل ہو ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کی آل اور آپ کے تمام اصحاب پر۔