دینِ اسلام آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں (⮫)


 دینِ اسلام آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

 مقدمہ

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں اپنے  نفوس اور برے اعمال کے شر سے اسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے، وہی ہدیات یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی ہمنوا اور رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں،اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ڈھیروں درود وسلامتی نازل فرمائے۔

حمد وصلاۃ کے بعد:

آج ایک ایسی مختصر اور واضح کتاب کی سخت ضرورت ہے جو دینِ اسلام  (کے تمام گوشوں)  کو کامل طریقے سے پیش کرے،  خواہ عقیدے سے متعلق ہو،   یا عبادات ومعالات سے،   یا آداب وغیرہ سے،  جس کے پڑھنے والے کے ذہن میں دینِ اسلام کے تعلق سے ایک واضح اور جامع وکامل تصور پیدا ہوسکے،  اور دینِ اسلام میں داخل ہونے والے (نو مسلم)کے لئے یہ کتاب اولین مرجع کی حیثیت رکھتی ہو جس سے وہ دین کے احکام وآداب اور اوامر ونواہی سیکھ سکے،  نیز یہ کتاب اللہ کی طرف بلانے والے داعیوں کی دسترس میں ہو،  وہ (دنیا کی) تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ کریں،  دینِ اسلام کے تعلق سے سوال کرنے والے اور حلقئہ اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص کی خدمت میں اسے پیش کریں،  پس اس کے ذریعہ اللہ تعالی جسے ہدایت سے سرفراز کرنا چاہے وہ ہدایت پاسکے،  اور منحرف وگمراہ لوگوں پر حجت قائم ہوسکے۔

اس کتاب کی تالیف شروع کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اصول وضوابط وضع کئے جائیں جن کی پاسداری کرتے ہوئے یہ کتاب تالیف کی جائے،  تاکہ ان کی روشنی میں اس کتاب کا مقصدِ اساسی شرمندہ تعبیر ہو سکے،  ہم ذیل میں ایسے ہی کچھ اصول وضوابط ذکر کر رہے ہیں: 

اس دین کا تعارف قرآن کریم کے نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک احادیث کی روشنی میں پیش کیا جائے،  نہ کہ انسانوں (کے وضع کردہ)  اسالیب اور متکلمین کے طریقوں کی روشنی میں جن کے ذریعہ بات چیت کرکے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جاتی ہے،  اس کی مختلف وجوہات ہیں:

ا- اللہ تعالی کا کلام سننے اور اس کے مقصد ومراد کو سمجھنے کے بعد اللہ تعالی جسے ہدایت دینا چاہتا ہے وہ ہدایت پا لیتا ہے اور سرکشی کرنے والے گمراہ شخص پر حجت قائم ہوجاتی ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: ترجمہ: اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناه طلب کرے تو اسے پناه دے دو یہاں تک کہ وه اللہ کا کلام سن لے، پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دو۔ (التوبۃ: 6)  ، بسا اوقات انسانوں (کے وضع کردہ)  اسالیب اور متکلمین کے طریقوں سے حجت قائم نہیں ہوتی،   کیوں کہ  ان میں نقص اور کمی پائی جاتی ہے۔

ب- اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسی طرح اس کا دین اور اس کی وحی (لوگوں تک) پہنچائیں جس طرح وہ نازل ہوئی،  اللہ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے ہم اپنی طرف سے ایسے کلامی طریقے ایجاد کریں جن کے ذریعہ ہم ان کے دل تک پہنچنے کا گمان رکھیں،  تو بھلا ہم کیوں اپنے آپ کو ایسے کام میں مصروف رکھیں جس کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا اور اس کام سے اعراض برتیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے؟

ج- دعوت کے دوسرے طریقے،  جیسے تفصیل کے ساتھ فریق مخالف کی گمراہیوں کو واضح کرنا اور ان پر رد کرنا،  خواہ عقیدے کے میدان میں ہو،  یا عبادت کے معاملہ میں،  یا اخلاق وآداب سے متعلق ہو یا اقتصاد ومعاش سے متعلق- یا فکری وعقلی بحث ومباحثہ کا طریقہ اختیار کرنا،  جیسے وجود باری تعالی کو ثابت کرنا -اللہ تعالی ظالموں کے قول سے بہت بلند وبرتر ہے-،  یا انجیل وتورات اور دوسری مذہبی کتابوں میں موجود تحریف پر بات کرنا اور ان کے باہمی ٹکڑاؤ،  آپسی تضاد اور ان کے بطلان کو بیان کرنا،  یہ سب فریقِ مخالف کے اصول ومبادی اور عقائد میں موجود بگاڑ کو واضح کرنے کا طریقہ ہوسکتا ہے،  اسی طرح یہ مسلمان کے لئے ثقافتی توشہ بھی ہوسکتا ہے،  -جبکہ اس سے نا واقفیت اسے نقصان بھی نہیں پہنچا سکتی- لیکن یہ مطلق طور پر ایسی بنیاد اور ایسا اصول نہیں ہوسکتا جس پر دعوت الی اللہ کی عمارت کھڑی ہوسکے۔

د- جو لوگ مذکورہ بالا راستوں سے اسلام میں داخل ہوتے ہیں،  ضروری نہیں کہ وہ حقیقی مسلمان ہوں،   کیوں کہ  بعض دفعہ ان میں سے کوئی شخص کسی خاص مسئلہ سے متاثر ہوکر اس دین کو قبول کر لیتا ہے جس کی بابت اس کے سامنے تفصیلی بات رکھی جاتی ہے،  جب کہ وہ دین کے دیگر اہم اور بنیادی مسائل کے عقیدہ سے عاری ہوتا ہے،  مثال کے طور پر وہ شخص جو اسلامی نظامِ اقتصاد سے متاثر ہو،  لیکن وہ آخرت کے دن پر ایمان نہ لائے،  یا جنوں اور شیاطین وغیرہ کے وجود پر ایمان نہ لائے۔

اس قسم کے لوگوں سے اسلام کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔

ھ- انسان کے نفوس اور دلوں پر قرآن کو غلبہ حاصل ہے،  چنانچہ جب قرآن اور انسانی نفوس کے درمیان سے (تمام رکاوٹیں دور کر دی جاتی ہیں تو)  پاکیزہ نفوس اس کی دعوت پر لبیک کہتے اور ایمان وتقوی کے بنلد وبالا منازل پر فائز ہو جاتے ہیں،  پس قرآن اور ان نفوس کے درمیان کیوں کر رکاوٹ کھڑی کی جائے؟!

اس دین کا تعارف پیش کرتے ہوئے سابقہ پس منظر،  حالات کے دباؤ اور رد عمل کی دخل اندازی قبول نہ کی جائے،  بلکہ اسی طرح یہ دین پیش کیا جائے جس طرح نازل ہوا،  اور اس کے لئے دین ہی کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو اس نے لوگوں کو خطاب کرنے اور استقامت وثابت قدمی کے منازل تک انہیں مرحلہ وار پہنچانے کے لئے پیش کیا ہے۔

تحریر وتالیف میں جہاں تک ممکن ہو آسان اسلوب اوراختصار کو محلوظ خاطر رکھا جائے،  تاکہ کتاب کی نشر واشاعت کرنا اور لوگوں کے درمیان اسے رواج دینا آسان ہو۔

مان لیجئے کہ ہم نے یہ مرحلہ طے کرلیا،  ہم نے کتاب کا ترجمہ بھی کرلیا،  اس کے دسیوں ملین نسخے طبع بھی کرائے،  دس ملین لوگوں کے ہاتھ میں کتاب پہنچ بھی گئی اور اس میں جو آیتیں اور احادیث آئی ہیں،  ان پر ہر سو میں سے صرف ایک آدمی ایمان لایا،  اور ننانوے فیصد لوگوں نے اس سے اعراض برتا،  ہماری دعوت صرف ایک نے قبول کی جو (دین کی خاطر) تگ ودو کرتا اور اللہ سے خوف کھاتا ہے،  وہ ایمان اور تقوی سے اپنے دامنِ مراد کو بھرنا چاہتا ہے،  تو کیا آپ جانتے ہیں میرے محترم بھائی! کہ صرف ایک فیصد کا مطلب ہے ایک لاکھ انسان کا حلقہ بگوشِ اسلام ہونا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا،  اگر اللہ تعالی آپ کے ذریعہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت عطا کرے تو یہ آپ کے لئے سرخ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔

بلکہ اگر ایسا بھی ہوکہ ان تمام لوگوں میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لائے،  سب کے سب دین سے اعراض کریں،  تب بھی ہم اپنی امانت ادا کرچکے ہوں گے اور اللہ نے ہمارے کندھوں پر تبلیغِ رسالت کی جو ذمہ داری ڈالی ہے،  اس سے عہدہ برآ ہوچکے ہوں گے۔

یقین جانیں کہ اللہ کی طرف بلانے والے (داعیوں) کی ذمہ داری یہ نہیں کہ لوگوں کو اس دین کا قائل کریں،  یا -کتابِ عزیز کی تعبیر میں- ان کی ہدایت کے حد سے زیادہ حریص رہیں:  ترجمہ: گو آپ ان کی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراه کر دے۔النحل:37))،   بلکہ ان کی بنیادی ذمہ داری وہی ہے جو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی،  جن سے ان کے عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا:  ترجمہ: اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا۔ (المائدۃ: ۶۷)۔

اللہ پاک وبرتر سے دعا ہے کہ دین الہی کو تمام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کا معاون بنادے،  ہمیں خیر وبھلائی کے دروازے کھولنے والا اور اس کی طرف بلانے والا بنائے،  شرور وفتن کے دروازے بند کرنے والا اور ان کے سامنے سینہ سپر رہنے والا بنائے۔

  واللہ اعلم وصلى اللہ على نبینا محمد۔


 میرے عزیز قاری!

یہ کتاب جو آپ کے سامنے ہے،  وہ آپ کو ایسی واضح شکل میں دین اسلام سے روشناس کرائے گی جو دین کے تمام گوشوں(عقائد-آداب-احکام-اور دیگر ساری تعلیمات) کو شامل ہے۔

میں نے اس میں مختلف بنیادی باتوں کی رعایت کی ہے:

پہلى بات: دین کی ان بنیادوں پر زور دیا ہے جن پر اس کی عمارت کھڑی ہے۔

دوسرى بات: حتى الامکان اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

تیسرى بات: اسلام کا تعارف اس کے اصلی مصادر ومآخذ (قرآن کریم اور احادیث رسول) کی روشنی میں پیش کیا ہے تاکہ قاری اسلام کے بنیادی سرچشموں سے روشناس ہو اور بلا واسطہ ان سرچشموں سے ہدایت اور تعلیمات کا جام نوش کرے۔

میرے عزیز قاری! جب آپ کتاب کے اخیر تک پہنچیں گے تو پائیں گے کہ آپ کے ذہن میں دینِ اسلام کے تعلق سے ایک واضح تصور پیدا ہوچکا ہے،  پھر اس کے بعد آپ اس دین سے متعلق اپنی معلومات میں مرحلہ وار طریقے سے مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔

یہ کتاب جو آپ کے سامنے ہے وہ بہت سے لوگوں کے لئے اہم ہے،  سب سے زیادہ ان لوگوں کے لئے اہمیت کی حامل ہے جو دینِ اسلام کو گلے لگانا اور اس کے عقائد وآداب اور احکام کو سیکھنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح یہ ان لوگوں کے لئے بھی اہم ہے جو مختلف ادیان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں بطور خاص ان ادیان کے بارے میں جن کو کرڑوں انسان قبول کر رہے ہیں،  اسی طرح یہ اسلام سے دوستى کا تعلق رکھنے والوں کے لئے بھی اہم ہے جو اس کے تئیں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس کی بعض خصلتوں سے متاثر بھی ہیں،  نیز اسلام کے ان دشمنوں کے لئے بھی یہ کتاب اہم ہے جو اس کی مخالفت کے درپے رہتے ہیں،  جن کی جہالت وناآشنائی اس دشمنی اور نفرت کا ایک بنیادی سبب ہوسکتی ہے۔

جن لوگوں کے لئے یہ کتاب بہت زیادہ اہم ہے،  ان میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جو لوگوں کے سامنے دینِ اسلام کی تشریح پیش کرنا چاہتے ہیں،  یہ کتاب ان کی محنت ومشقت کو کم کرتی اور ان کا مشن آسان بنا دیتی ہے۔

اے ذہین وزیرک قاری! اگر آپ کے پاس دینِ اسلام کے تعلق سے کوئی سابقہ تصور نہیں ہے،   تو آپ کو محسوس ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے مشتملات کو سمجھنے کے لئے آپ کی شدید توجہ اور سنجیدہ مطالعہ کی ضرورت درکار ہے،  اس سے آپ پریشان نہ ہوں،  بہت سے ایسے اسلامی ویب سائٹ موجود ہیں جہاں آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل سکتے ہیں۔


 1- کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ)

دینِ اسلام کا بنیادی اصول کلمہ توحید  (لا الہ الا اللہ)ہے،  اس پختہ بنیاد کے بغیر اسلام کی بلند وبالا عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی،  یہ وہ اولین کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کرنا،  اس پر ایمان لانا اور اس کے تمام معانی ومفاہیم کا عقیدہ رکھنا اسلام میں داخل ہونے والے شخص پر واجب ہے،  تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا معنی ومطلب کیاہے؟

لا الہ الا اللہ کا مطب ہے:

- کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔

- اللہ کے سوا اس کائنات کا نہ کوئی مالک ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس میں تصرف کرنے والا ہے۔

- اللہ کے سوا کوئی بھی معبود عبادت وبندگی کا مستحق نہیں ہے۔

اللہ وہ ہے جس نے اس وسیع وعریض،  خوبصورت اور بے مثال کائنات کو پیدا کیا،  اس آسمان کو اس کے بڑے بڑے ستاروں اور متحرک سیاروں سمیت پیدا کیا جو ایک محکم نظام اور انوکھی حرکت کے ساتھ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کر رہے ہیں،  جنہیں اللہ کے سوا کوئی اور تھامے ہوئے نہیں ہے،  یہ زمین اپنے پہاڑوں،  وادیوں،  ٹیلوں،  نہروں،  درختوں،  کھیتوں،  ہوا وپانی،  خشکی وتری،  رات ودن،  اس میں رہنے سہنے اور اس پر چلنے پھرنے والوں سمیت،  ان سب کو اللہ نے ہی عدم سے وجود بخشا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:  ترجمہ: اور سورج کے لئے جو مقرره راه ہے وه اسی پر چلتا رہتا ہے۔ یہ اندازہ ہے مقرر کرده غالب، باعلم اللہ تعالیٰ کا۔ اور چاند کی ہم نے منزلیں مقررکر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وه لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔  (يس: 38-40)۔

ترجمہ: اور زمین کو ہم نے بچھا دیا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں۔ تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔ اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے۔ اور کھجوروں کے بلند وبادرخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔ (ق:7-10

یہ اللہ عزیز وبرتر کی تخلیق ہے،  اس نے زمین کو جائے قرار بنایا،  اس کے اندر قوتِ کشش پیدا کردی اتنی مناسب مقدار میں جتنی اس پر زندگی گزارنے کے لئے ضروری تھی،  چنانچہ اس کی کشش اتنی نہیں بڑھتی کہ اس پر حرکت کرنا دشوار ہوجائے اور نہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اس پر جینے والی مخلوقات (فضا میں) اڑنے لگیں،  ہر چیز اللہ کے پاس اندازے سے ہے۔

اس نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا جس کے بغیر زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ ترجمہ: ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ (الأنبياء:30)،   چنانچہ اس پانی کے ذریعہ پودے اور پھل اگاتا ہے،  اس سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرتا ہے،  زمین کو اس کی حفاظت کے لئے ہموار کرتا چنانچہ اس پانی کو زمین کے اندر سوتوں اور نہروں کى شکل میں پھیلا دیتا ہے۔

اس سے درختوں،  پھولوں اور پرکشش حسن وجمال سے آراستہ ہرے بھرے با رونق باغات اگاتا ہے،  اللہ ہی ہے جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی۔

سب سے پہلا انسان جسے اللہ نے پیدا کیا وہ ابو البشر آدم علیہ السلام ہیں،  اللہ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا،  پھر ٹھیک ٹھاک کرکے ان میں روح پھونکی،  پھر ان (کی پسلی)سے ان کی بیوی کو پیدا کیا،  پھر ان کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی۔

اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے: ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واہے۔ (المؤمنون:12-14

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ترجمہ: اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔ کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟ ہم ہی نے تم میں موت کو متعین کر دیا ہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں۔ کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو۔ (الواقعة:58-61

آپ غور کریں کہ اللہ نے آپ کو کیسے پیدا کیا،  آپ (اپنے اندر) عجیب وغریب طریقے کے دقیق وباریک آلات اور محکم وپختہ نظام پائیں گے جن کی کار وائیوں کے بارے میں آپ بہت ہی کم ہی جانتے ہیں،  چہ جائیکہ آپ ان پر اپںا کنٹرول اور زور چلا سکیں،  چنانچہ نظام ہاضمہ (کو ہی دیکھ لیں)،   یہ کھانا ہضم کرنے کا ایک مکمل نظام ہے،  جس کا آغاز منھ سے ہوتا ہے،  جو کھانے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے تاکہ اس کو ہضم کرنا آسان ہوسکے،  پھر لعاب (اپنا کام کرتا ہے)،   پھر لقمہ کو حلق کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے،  اس کے بعد منھ کا کوّا غذائی نلی کا دروازہ کھولتا ہے،  اور ہوائی نلی کا دروازہ بند کردیتا ہے،  پھر وہ لقمہ حرکت پزیر غذائی نلی کے واسطے سے معدہ میں اتر جاتا ہے،  معدہ کے اندر بھی ہضم کا عمل جاری رہتا ہے،  یہاں تک کہ وہ کھانا سیال مادہ میں تبدیل ہوجاتا ہے،  اس کے لئے معدہ کا مرکزی دروازہ کھول دیا جاتا ہے،  جہاں وہ باره آنتوں (Duodenum) میں منتقل ہوجاتا ہے،  جن کے اندر ہضم کا عمل جاری رہتا ہے اور کھانے کے خام مادہ کو ایسے مناسب مادہ میں تبدیل کیا جاتا ہے جو جسم کے خلیوں کو غذا پہنچانے کے قابل ہو۔ پھر وہاں سے باریک ودقیق آنتوں میں منتقل ہوجاتا ہے جہاں ہضم کرنے کی آخری کارروائیاں مکمل ہوتی ہیں اور اس طرح وہ کھانا اس لائق بنتا ہے کہ آنتوں میں موجود نالیوں (Intestine villi) کے ذریعہ جذب کیا جا سکے تاکہ وہ خون کی لہر کے ساتھ رواں دواں ہوسکے۔ اسی طرح دروانِ خون کے اس کامل نظام کو بھی دیکھ لیجئے جو پرپیچ شریانوں میں اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اگر آپ انہیں الگ الگ کریں تو ان کی لمبائی ہزاروں کیلو میٹر سے بھی زائد ہوگی،  یہ شریانیں ایک ایسے سنٹرل پمپنگ اسٹیشن سے جڑی ہوئی ہیں جسے دل کہا جاتا ہے،  وہ ان شریانوں کے ذریعہ خون کو (پورے جسم میں) منتقل کرنے سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے۔

اس کے علاوہ سانس لینے کا بھی ایک نظام ہے،  چوتھا نظام اعصاب کا ہے،  پانچواں نظام فضلات کو باہر نکالنے کا ہے،  چھٹا،  ساتواں اور دسواں نظام بھى ہے،  اتنے سارے نظام ہیں جن کے بارے میں ہر دن ہماری معلومات بڑھ رہی ہیں،  اور اپنے اندر مخفی نظام ہائے قدرت کے بار ے میں ہماری جہالت ونا آشنائی،  ہماری معرفت وآگہی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کون ہے جس نے انسان کو اس پختگی اور مہارت کے ساتھ پیدا کیا؟!

یہی وجہ ہے کہ کائنات میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے لئے شریک وساجھی ثابت کریں جبکہ اسی نے آپ کو پیدا کیا۔

آپ کھلے دل اور صاف وشفاف روح کے ساتھ آگے بڑھئے اور اللہ تعالی کی انوکھی اور بے مثال کاریگری پر غور وفکر کیجئے! یہ ہوا جس میں آپ ہر جگہ سانس لے رہے ہیں اور وہ آپ کے اندر داخل ہو رہی ہے جس میں کوئی ایسا رنگ نہیں جو نگاہوں کو مکدر کرے،  اگر وہ چند منٹوں کے لئے رک جائے تو زندگی ختم ہوجائے گی،  یہ پانی جو آپ نوش کرتے ہیں،  وہ کھانا جو آپ تناول کرتے ہیں،  یہ انسان جس سے آپ محبت کرتے ہیں،  یہ زمین جس پر آپ چلتے پھرتے ہیں،  وہ آسمان جس کی طرف آپ نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں،  ہر وہ مخلوق جسے آپ کی آنکھ دیکھتی ہے یا وہ آپ کی نظر سے اوجھل ہے،  خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی،  وہ سب اللہ کی تخلیق کردہ ہیں،  جو (ہر چیز کو) پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے۔

اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کرنے سے ہمیں اللہ کی عظمت وقدرت کا پتہ چلتا ہے،  یقیناً وہ ایک نہایت بے وقوف،  جاہل اور گمراہ شخص ہے جو اس عظیم اور انوکھی مخلوق کو دیکھے جو ہم آہنگ اور کامل ہے،  جو (خالق کی) حیرت انگیز حکمت اور بے پناہ قدرت پر دلالت کرتی ہے،  پھر بھی وہ اس خالق پر ایمان نہ لائے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں")۔ (الطور:35-36

یقینا فطرت سلیمہ اللہ پاک وبرتر سے آشنا ہوتی ہے،  اسے سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی،   کیوں کہ  اللہ نے اس کی خلقت میں اپنی طرف متوجہ ہونے اور رب تعالی سے التجا کرنے کی خو ودیعت کر رکھی ہے،  لیکن وہ (خارجی عناصر کے زیر اثر) گمراہی اور اللہ پاک سے دوری کا شکار ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب اسے ناگہانی آفت یا مصیبت،  یاسخت پریشانی لاحق ہوتی ہے اور خشکی یا تری میں (کہیں بھی) اسے اپنی نگاہوں کے سامنے خطرات نظر آنےلگتے ہیں تو وہ فورا اللہ سے لو لگاتا ہے،  اسی سے مدد طلب کرتا اور مصیبت سے نجات کی دعا کرتا ہے،  اور اللہ پاک بے بس ولاچار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی پریشانی دور فرماتا ہے۔

یہ عظیم خالق ہر ایک چیز سے بڑا ہے،  بلکہ اس کی کسی بھی مخلوق کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا،   کیوں کہ  وہ اتنا عظیم ہے کہ اس کی عظمت کی کوئی حد نہیں اور نہ کسی مخلوق کا علم اس کا احاطہ کرسکتا ہے،  اس کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر بلند وبرتر ،  اپنے آسمانوں کے اوپر ہے۔اس کے جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا،  دیکھنے والا ہے"۔ (الشوریٰ:11)۔ اس کی کوئی مخلوق اس کی ہم مثل نہیں،  آپ کے ذہن میں جو بھی تصور آئے (تو آپ سمجھ لیجئے کہ) اللہ اس جیسا نہیں ہے۔

وہ پاک پروردگار ہمیں آسمانوں کے اوپر سے دیکھ رہا ہے اور ہم اسے نہیں دیکھ رہے ہیں:  "اس کو تو کسی کی نگاه محیط نہیں ہوسکتی اور وه سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے"۔ (الأنعام:103)،   بلکہ (سچائی یہ ہے کہ)  ہماری حس اور ہماری قوتیں اس دنیا میں اللہ پاک کو دیکھنے کی متحمل بھی نہیں۔

اللہ نے اپنے ایک نبی موسی علیہ السلام سے جبل طور کے پاس جب کلام کیا تو انہوں نے اللہ سے دیدار کا مطالبہ کرتے ہوئے عرض کیا: اے میرے پروردگار! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں،  تو اللہ تعالی نے ان سے ارشاد فرمایا: "تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وه اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے، پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ   (علیہ السلام) بے ہوش ہوکر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا بےشک آپ کی ذات منزه ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان نے واہوں"۔ (الاعراف: 143)،  معلوم ہوا کہ اللہ کی تجلی سے یہ عظیم اور بنلد وبالا پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوکر منہدم ہوگیا تو بھلا انسان اپنی ان کمزور وناتواں قوتوں سے کس طرح اس کا دیدار کر سکتا ہے۔

اللہ پاک وبرتر کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے:  "اللہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کو ہرادے نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں"۔ (فاطر:44

اسی کے ہاتھ میں زندگی وموت (کا اختیار)ہے،  ہر مخلوق اس کی محتاج ہے،  اور وہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے،  فرمان باری تعالی ہے: "اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز خوبیوں واہے"۔ (فاطر:15

اللہ پاک کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے: "اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے( ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں"۔ الأنعام: 59))،  وہ ہماری زبانوں کی بات چیت اور ہمارے اعضاء وجوارح کے اعمال سے باخبر ہے،  بلکہ ہمارے دلوں میں چھپے پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے: "وه آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیده باتوں کو (خوب) جانتا ہے"۔ (غافر:19

اللہ پاک ہم کو دیکھ رہا ہے،  وہ ہمارے احوال سے واقف ہے،  زمین وآسمان کی کوئی بھی چیز اس سے مخفی نہیں،  نہ وہ غافل ہوتا ہے،  نہ بھولتا ہے،  اور نہ اسے نیند آتی ہے،  اللہ تعالی فرماتا ہے: "اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زنده اور سب کا تھامنے واہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وه جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وه اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وه چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفات سے نہ تھکتا اور نہ اکتاتا ہے، وه تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے"۔  (الْبَقَرَہ: 255

اس کی صفات مطلق طور پر کامل ہیں،  ان میں نہ کوئی نقص ہے اور نہ کوئی عیب۔

اس کے اچھے اچھے نام اور بنلد وبالا صفات ہیں،  اللہ تعالی فرماتا ہے: "اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی"۔ (الأعراف: 180

اللہ پاک کی بادشاہت میں نہ کوئی شریک ہے،  نہ کوئی ہمسر اور نہ کوئی معاون ومددگار۔

وہ پاک پروردگار بیوی اور اولاد سے منزہ ہے،  بلکہ وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے،  فرمان باری تعالی ہے: "آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ ایک (ہی)ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے"۔  (الإخلاص: 1، 4)۔  اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اود اختیار کی ہے. یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز ئے ہو. قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں. کہ وه رحمان کی اود ابت کرنے بیٹھے. شان رحمٰن کے ئق نہیں کہ وه اود رکھے. آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں"۔ (مريم: 88- -93

وہ پاک پروردگار جلال وجمال،  قوت وعظمت،  بڑائی وکبریائی،  بادشاہی وسلطانی اور غلبہ وقہاری سے متصف ہے۔

وہ جود وسخا، عفو ودرگزر، رحمت ورافت اورفضل واحسان سے بھی متصف ہے، چنانچہ وہ رحمن ہے جس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔

وہ رحیم ہے جس کی رحمت ومہربانی اس کے غیظ وغضب پر سبقت کرچکی ہے۔

وہ کریم ہے جس کی نہ سخاوت کی کوئی حد ہے اور نہ اس کے خزانے ختم ہوتے ہیں۔

اس کے تمام نام خوبصورت ہیں جو اس کی نہایت کامل صفات پر دلالت کرتے ہیں،  اتنی کامل کہ جو اللہ کے سوا کسی اور کے لئے زیبا نہیں۔

اللہ پاک کی صفات سے واقفیت دل میں اللہ کی محبت وعظمت،  خوف وخشیت اور خشوع وخضوع کو بڑھاتی ہے۔

اور لا الہ الا اللہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ عبودیت وبندگی کا ادنی ترین حصہ بھی اللہ کے سوا (کسی اور کے لئے) انجام نہ دیا جائے،  کیوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،  بلکہ اللہ ہی الوہیت اور کمال کی صفات سے متصف ہے،  وہی پیدا کرنے والا،  رزق دینے والا،  احسان وانعام کرنے والا،  زندگی وموت دینے والا اور مخلوق پر فضل وکرم کرنے والا ہے،  اور وہی تن تنہا تمام تر عبادتوں کا مستحق ہے،  اس کا کوئی شریک نہیں۔

جو شخص اللہ کی عبادت سے انکار کرے،  یا غیر اللہ کی عبادت کرے،  تو اس نے شرک اور کفر کیا۔

کیوں کہ سجدہ ورکوع،  خشوع وخضوع اور نماز کی ادائیگی صرف اللہ کے لئے کی جاسکتی ہے۔

صرف اللہ سے ہی مدد مانگی جاسکتی ہے،  دعا بھی صرف اللہ سے ہی کی جاسکتی ہے،  ہر طرح کی حاجت وضرورت بھی اللہ سے ہی طلب کی جاسکتی ہے،  اور کسی بھی قسم کی قربت،  اطاعت اور عبادت کے ذریعہ صرف اللہ کا ہی تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ "آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں"۔ (الانعام: 162،163

 ب- اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟

اس عظیم سوال کا جواب دینا نہایت اہم ہے،  لیکن ضروری ہے کہ یہ جواب وحی الہی سے اخذ کیا جائے،   کیوں کہ  اللہ نے ہی ہمیں پیدا ہے اور وہی ہمیں ہماری تخلیق کے اصل مقصد کی خبر دیتا ہے،  اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: "میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں"۔ (سورۂ الذاریات: 56) عبودیت وبندگی ایسی صفت ہے جو اللہ کی تمام مخلوقات میں پائی جاتی ہے،  جن کی تعداد بے شمار ہے،  اشرف المخلوقات (فرشتوں)سے لے کر اللہ کی دیگر عجیب وغریب مخلوقات تک تمام امتوں کی فطرت اور سرشت میں اللہ رب العالمین کی پاکی بیان کرنا اور بندگی بجا لانا داخل ہے۔ ، ، ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تعریف اور پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی (تسبیح) سمجھتے نہیں ہو، ، ۔ (الاسراء: 44) فرشتوں کو اسی طرح تسبیح کا الہام کیا جاتا ہے جس طرح بنی نوع آدم کو سانس لینے کا الہام کیا جاتا ہے۔

لیکن انسان کا اپنے خالق کی بندگی بجا لانا اختیاری ہے اجباری نہیں (یہ اختیار اسے بطور آزمائش دیا گیا ہے) "اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے"۔ التغابن: 2)

"کیا تو نہیں دیکھ رہا ہے کہ اللہ کے سامنے سجده میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی، ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ابت ہو چکا ہے، جسے رب ذلیل کردے اسے کوئی عزت دینے وانہیں"۔ (سورہ الحج: 18

اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا،  تاکہ اس عبادت کو بروئے عمل لانے کے سلسلے میں ہماری کامیابی (اور ناکامی) کو آزما سکے،  چنانچہ جو شخص اللہ کی عبادت کرے،  اس سے محبت رکھے،  اس کے سامنے خشوع وخضوع اختیار کرے،  اس کے احکام واوامر کو بجا لائے اور اس کے نواہی سے باز رہے،  تو وہ اللہ کی رضا،  اس کی رحمت اور محبت سے سرفراز ہوتا ہے اور اللہ تعالی اسے اچھے اجر وثواب سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس اللہ کی عبادت سے انکار کرتا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور رزق عطا کیا،  وہ(عبادت سے روگردانی کرتے ہوئے) تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے،  اللہ کے اوامر کی بجاآوری اور اس کے نواہی سے دوری اختیار کرنے سے انکار کرتا ہے،  تو وہ اللہ کا غضب،  اس کی ناراضگی اور دردناک عذاب لے کر لوٹتا ہے،  کیوں کہ اللہ نے ہمیں یوں ہی بے کار نہیں پیدا کیا اور ہمیں بے مقصد نہیں چھوڑ دیا،  یقینا وہ ایک بڑا جاہل اور احمق ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں آیا،  اسے کان،  آنکھ اور عقل دی گئی،  پھر وہ ایک مدت تک زندہ رہا،  اس کے بعد اسے موت آگئی،  اوراس بات سے بے خبر رہتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا اور اس کے بعد وہ کہاں جانے والا ہے،  جب کہ اللہ عزیز وبرتر فرماتا ہے: "کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے"۔ (المؤمنون:115

وہ شخص جو اللہ پر ایمان لائے،  اس پر بھروسہ رکھے،  اسی کو اپنا حاکم اور فیصل مانے،  اس سے محبت رکھے،  اس کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرے،  عبادتوں کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرے اور ہر جگہ اسی کی رضا وخوشنودی کا جویا ہو،  یہ شخص اور وہ شخص اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے جو اللہ کے ساتھ کفر کرے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی شکل وصورت بنائی،  جو اس کی آیتوں کا اور اس کے دین کا انکار کرے،  اور اس کے حکم کی تابعداری سے انکار کرے۔

پہلا شخص عزت وتکریم،  جزا وثواب اور محبت وخوشنودی سے سرفراز ہوگا اور دوسرے شخص کو ناراضگی،  غیظ وغضب اور سزا وعقاب ملے گا۔

اس وقت جب اللہ تعالی لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا،  ان میں سے جو نیکو کار ہوں گے انہیں نعمتوں والی جنتوں میں انعام واکرام سے نوازے گا،  اور جو شخص بدکار،  متکبر اور اللہ کی عبادت سے روگردانی کرنے والا ہوگا اسے جہنم کی سزا سے دوچار کرے گا۔

آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب نیکو کار کو اس اللہ کی طرف سے جزا وثواب اور انعام واکرام سے نوازا جائے گا جو غنی اور سخی ہے،  جس کی سخاوت اور رحمت کی کوئی انتہا نہیں اور جس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے،  یقیناً یہ ثواب انتہائی درجہ کی نعمت کی شکل میں ملے گا،  جو نہ کبھی ختم ہوگی اور نہ اسے زوال آئے گا  (اس کے بارے میں مزید گفتگو اس کتاب میں ہم کہیں اور کریں گے)۔

اسی طرح آپ کافر کو ملنے والے دردناک عذاب اور سخت قسم کی سزا کا بھی تصور کرسکتے ہیں کہ (وہ کتنی ہولناک ہوگی) جب وہ اس اللہ کی جانب سے صادر ہوگی جو عظیم وبرتر ،  قاہر وزور آور اور بڑائی وکبریائی والا ہے،  اس کے غلبہ وقہاری اور بڑائی وکبریائی کی کوئی حد نہیں ہے۔


 2- محمد اللہ کے رسول ہیں:

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی رکن کا دوسرا حصہ اور ایسا بنیادی اصول ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔

انسان اسی وقت مسلمان ہوتا ہے جب وہ ان دونوں (شہادتین( کی گواہی دے،  چنانچہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔

 أ- رسول کے معنی کیا ہیں؟ اور محمد کون ہیں؟ اور کیا ان کے علاوہ اور بھی رسول ہیں؟

کچھ صفحات میں انہی سوالوں کے جواب دینے کی ہم کوشش کریں گے۔

رسول وہ مرد ہوتا ہے جو صدق گوئی اور حسن اخلاق کے بلند وبالا چوٹی پر فائز ہوتا ہے،  اللہ تعالی لوگوں میں سے اس کو منتخب کرتا ہے،  پھر اپنی مشیئت سے ان کی طرف دینی احکام یا غیبی امور کی وحی نازل کرتا اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیتا ہے،  معلوم ہوا کہ رسول بھی دیگر انسانوں کی طرح انسان ہوتے ہیں،  وہ بھی کھاتے پیتے ہیں جیسے لوگ کھاتے پیتے ہیں،  انہیں بھی وہ تمام ضروریات درپیش ہوتی ہیں جو لوگوں کو ہوا کرتی ہیں،  لیکن وہ ان سے اس معنی میں ممتاز اور نمایاں ہوتے ہیں کہ ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے،  اور اللہ تعالی جن غیبی امور اور دینی احکام سے چاہتا ہے،  انہیں باخبر کرتا ہے،  اور ان احکام کو لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیتا ہے،  لوگوں کے درمیان ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے اور کسی بھی ایسے معاملہ میں واقع ہونے سے اللہ ان کو محفوظ رکھتا ہے جو پیغام الہی کو لوگوں تک پہنچانے میں حائل اور مانع ہو۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہونے والے رسولوں کے چند واقعات ہم آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں،  تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ تمام رسولوں کا پیغام ایک تھا،  اور وہ ہے صرف ایک اللہ کی طرف بلانا،  اس کی شروعات ہم آغازِ انسانیت کے قصہ اور ابو البشر آدم اور ان کی نسل سے شیطان کی دشمنی سے کرتے ہیں:

 ب- سب سے پہلے رسول ہمارے بابا آدم علیہ السلام ہیں:

اللہ تعالی نے ہمارے بابا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا،  پھر ان میں روح پھونک دی،  اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: "اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا تو جو سجده نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے، جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے خاک سے پیدا کیا ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں ره کر تکبر کرے سو نکل بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ اس نے کہا کہ مجھ کو مہلت دے قیامت کے دن تک۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی"۔ الأعراف 10-15)

چنانچہ ابلیس نے اللہ سے درخواست کی کہ اسے مہلت دے اور فورا سزا میں مبتلا نہ کرے،  اسے آدم اور اس کی نسل کو گمراہ کرنے کی اجازت دے،  محض اس بنا پر کہ وہ ان سے بغض وحسد رکھتا تھا،  چنانچہ اللہ نے کسی حکمت کے تحت شیطان کو یہ اجازت دی کہ آدم اور ان کی اولاد پر غالب ہو کر انہیں گمراہ کردے،  سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے،  ساتھ ہی آدم اور ان کی اولاد کو بھی یہ حکم دیا کہ شیطان کی پرستش نہ کریں،  اس کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں،  شیطان نے سب سے پہلے آدم اور ان کی بیوی حواء (جن کو اللہ نے ان کی پسلی سے پیدا کیا) کو گمراہ کرنے کی شروعات کی،  اس قصہ کو اللہ پاک نے یوں ذکر فرمایا ہے: "اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو،پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں  ظالموں  میں سے ہوجاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا  تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں۔ سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔ فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے۔ اے آدم  (علیہ السلام) کی اود ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔ اے اودِ آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو، ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں تے"۔الأعراف 19-27)

جب آدم علیہ  السلام زمین پر اترےاور انہیں آل واولاد ہوئیں، (تو اس کے بعد)آپ علیہ السلام وفات پاگئے، پھر نسل در نسل ان کی اولاد بڑھتی رہی، وہ شیطان کی گمراہیوں کے شکار ہوگئے، ان کے اندر بے راہ روی اور اپنے نیک وصالح بزرگوں کی قبروں کی پرستش راہ پاتی گئی اور وہ ایمان سے توحید کی طرف منتقل ہوگئے، اس کے بعد اللہ نے ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا اور وہ تھے (نوح علیہ السلام)۔

 ج- نوح علیہ السلام:

ان کے اور آدم کے درمیان دس صدیوں کا فاصلہ تھا،  جب ان کی قوم گمراہ ہوگئی اور اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرنے لگی تو اللہ نے ان کو اپنی قوم میں رسول بنا کر بھیجا ،  ان کی قوم بتوں،  پتھروں اور قبروں کی پرستش کرتی تھی،  ان کے مشہور ترین "معبودوں" میں چند نام یہ ہیں:   ود،  سواع،  یغوث،  یعوق اور نسر،  اللہ نے آپ کو ان کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ آپ انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف واپس لائیں،  جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ہمیں اس کی خبر دی ہے: "ہم نے نوح  (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے"۔ (الأعراف:59)۔  وہ لمبے عرصے تک اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے،  لیکن بہت کم لوگوں ان پر ایمان لائے،  چنانچہ انہوں نے اپنے رب کو یہ کہتے ہوئے پکارا: " اے میرے پرورگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے۔ مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیاده بھاگنے لگے۔ میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لیے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے انہیں بآواز بلند بلایا۔ اور بے شک میں نےان سے علانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی۔ اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناه بخشواؤ (اور معافی مانگو) وه یقیناً بڑا بخشنے واہے۔ وه تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔ اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اود میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری وعظمت کا عقیده نہیں رکھتے. حانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے"۔ (نوح:5-14)۔ اس قدر پیہم کوششوں اور اپنی قوم کی ہدایت کی بے انتہا حرص وچاہت کے باوجود آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلا دیا،  آپ کا مذاق اڑایا اور آپ پر پاگل اور دیوانہ ہونے کی تہمت لگائی۔

(آخر کار)اللہ نے آپ کو وحی کے ذریعہ یہ خبر دی کہ: "تیری قوم میں سے جو ایمان چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان ئے گا ہی نہیں، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو"۔ هود:36)  نیز آپ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا جس پر آپ اپنے ساتھ ایمان لانے والوں کو سوار کریں: "وہ (نوح) کشتی بنانے لگے ان کی قوم کے جو سردار ان کے پاس سے گزرتے وه ان کا مذاق اڑاتے، وه کہتے اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے تم ہم پر ہنستے ہو۔ تمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اتر آئے۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے )یعنی دو) جانور، ایک نر اور ایک ماده سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان نے والے بہت ہی کم تھے۔ نوح  (علیہ السلام) نے کہا، اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم واہے۔ وه کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی اور نوح  (علیہ السلام) نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا، پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں شامل نہ ره۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناه میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح  (علیہ السلام) نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے واکوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا،اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وه ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا۔ فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم  لوگوں پر لعنت نازل ہو۔ نوح  (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعده بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وه تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وه چیز نہ مانگنی چاہئے جس کا تجھے مطلقاً علم نہ ہو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے۔ نوح نے کہا میرے پالنہار! میں تیری ہی پناه چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وه مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہو اگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا، تو میں خساره پانے والوں میں ہو جاؤں گا۔ فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وه امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائده تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔ (هود:38-48

 د الله كے رسول ہود علیہ السلام :

پھر ایک عرصے کے بعد جب قوم عاد جو احقاف نامی علاقہ میں سکونت پذیر تھی،  وہ گمراہی کا شکار ہوگئی اور غیر اللہ کی پرستش کرنے لگی تو اللہ نے انہی میں سے ان کی طرف ایک رسول مبعوث فرمایا جوکہ (ہود) علیہ السلام ہیں۔

اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں اس کی خبر دی ہے: "اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود  (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، سو کیا تم نہیں ڈرتے؟ ان کی قوم میں جو بڑے لوگ کافر تھے انہوں نے کہا ہم تم کو کم عقلی میں دیکھتے ہیں، اور ہم بے شک تم کو جھوٹے لوگوں میں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم! مجھ میں ذرا بھی کم عقلی نہیں لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواه ہوں۔ اور کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت، جو تمہاری ہی جنس کاہے،  کوئی نصیحت کی بات آگئی تاکہ وه شخص تم کو ڈرائے اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ نے تم کو قوم نوح کے بعد جانشین بنایا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیاده دیا، سو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کو فلاح ہو۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ان کو چھوڑ دیں، پس ہم کو جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو اس کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے۔ کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرالیا ہے؟ ان کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی، سو تم منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ غرض ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وه ایمان نے والے نہ تھے"۔ (الأعراف:65-72

آخر اللہ نے ان پر آٹھ دنوں تک تیز وتند آندھی بھیجی جس نے اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کردیا،  اور اللہ نے ہود اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات بخشی۔

 ھ - الله كے رسول صالح علیہ السلام :

پھر ایک عرصہ گزر گیا اور جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ میں قوم ثمود کی نشو ونما ہوئی،  وہ بھی اپنے سے پہلی قوم کی طرح ہدایت سے گمراہ ہوگئی،  تو اللہ نے ان کی طرف انہی میں سے ایک رسول معبوث فرمایا جو کہ )صالح) علیہ السلام ہیں،  ان کی تائید کے لئے ان کو ایک نشانی عطا کی جو ان کی صدق گوئی کی دلیل تھی،  وہ نشانی ایک بڑی اونٹنی کی شکل میں تھی جس کی کوئی نظیر تمام مخلوقات میں نہیں ملتی،  اللہ تعالی نے اس نبی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اور ہم نے مود کی طرف ان کے بھائی صالح  (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے، یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آپکڑے۔ اور تم یہ حالت یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو عاد کے بعد جانشین بنایا اور تم کو زمین پر رہنے کا ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں گھر بناتے ہو، سو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ۔ ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا، کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ صالح  (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بےشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے۔ وه متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین ئے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکر ہیں۔ پس انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈااور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے کہ اے صالح! جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اس کو منگوائیے اگر آپ پیغمبر ہیں۔ پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا اور وه اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے ره گئے۔ اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے"۔ (الأعراف:73-79

اس کے بعد اللہ تعالی نے روئے زمین پر بسنے والی مختلف قوموں کی طرف بہت سے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو۔ لیکن اللہ تعالی نے ہمیں چند رسولوں کی ہی خبردی ہے اور بہت سے رسولوں کی خبر نہیں دی،  وہ تمام رسول ایک ہی رسالت وپیغام کے ساتھ مبعوث ہوئے اور وہ ہے: لوگوں کو یہ حکم دینا کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں،  اور اللہ کے سوا تمام (معبودوں) کی عبادت کو ترک کر دیا جائے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ابت ہوگئی، پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟"۔ (النحل: 36

 و- الله كے رسول ابراہیم علیہ السلام:

اس کے بعد اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جب کہ وہ گمراہ ہوگئی اور ستاروں اور بتوں کی پرستش کرنے لگی،  اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "یقیناً ہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی سمجھ بوجھ بخشی تھی اور ہم اس کے احوال سے بخوبی واقف تھے. جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو،  کیا ہیں؟ سب نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی کی عبادت کرتے ہوئے پایا. آپ نے فرمایا: پھر تو تم اور تمہارے باپ دادا سبھی یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ کہنے لگے کیا آپ ہمارے پاس سچ مچ حق ئے ہیں یا یوں ہی مذاق کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں درحقیقت تم سب کا پروردگار تو وه ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے، میں تو اسی بات کا گواه اور قائل ہوں. اور اللہ کی قسم! میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحده پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا۔ پس اس نے ان سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہاں صرف بڑے بت کو چھوڑ دیا یہ بھی اس لئے کہ وه سب اس کی طرف ہی لوٹیں۔ کہنے لگے کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کس نے کیا؟ ایسا شخص تو یقیناً ظالموں میں سے ہے۔ بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکره کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم  (علیہ السلام) کہا جاتا ہے۔ سب نے کہا اچھا اسے مجمع میں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ؤ تاکہ سب دیکھیں۔ کہنے لگے:اے ابراہیم !کیا تو نے ہی ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ آپ نے جواب دیا: بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے معبودوں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقعی ظالم  تو تم ہی ہو۔ پھر اپنے سروں کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے والے نہیں. ابراہیم  (علیہ السلام) نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوه ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان. تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟ کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔ ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا! گو انہوں نے ابراہیم  (علیہ السلام) کا برا چاہا، لیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا۔ (الأنبياء:50-70

اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل علیہ السلام فلسطین سے مکہ کی طرف ہجرت کر گئے،  اللہ نے ابراہیم اور ان کے فرزند اسماعیل کو حکم دیا کہ کعبہ مشرفہ کی تعمیر کریں،  لوگوں کو وہاں جاکر حج کرنے اور اللہ کی عبادت بجا لانے کی دعوت دیں۔ "اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو گے"۔ (البقرة:125

 د- الله كے رسول لوط علیہ السلام:

اس کے بعد اللہ نے لوط علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا،  وہ بدکار قوم تھی،  غیر اللہ کی عبادت کرتی اور اپنے درمیان فحاشی وبدکاری کا ارتکاب کرتی تھی،  اللہ تعالی نے فرمایا: "اور ہم نے لوط  (علیہ السلام) کو بھیجا جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔ تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر، بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو۔ اور ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا، بجز اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں"۔ (الأعراف:80-82) اللہ نے لوط علیہ السلام کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا،  سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ کافروں میں سے تھی،  اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ رات کے وقت اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی سے نکل پڑیں،  پھر جب اللہ کا حکم آپہنچا تو اللہ نے اس بستی کو زیر وزبر کردیا اوپر کا حصہ نیچکے کردیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بتہ تھے۔

 ح- الله كے رسول شعیب علیہ السلام:

پھر اس کے بعد اللہ نے قومِ مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو مبعوث فرمایا جب کہ وہ راہ حق سے گمراہ ہوگئی،  ان کے اندر بد اخلاقیاں رائج ہوگئیں،  لوگوں پر ظلم وستم اور ناپ تول میں کمی عام ہوگئی،  اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں اس قوم کی خبردی ہے: "اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب  (علیہ السلام) کو بھیجا، انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے۔ پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو اور روئے زمین میں، اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی، فساد مت پھیلاؤ، یہ تمہارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو۔ اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان نے والے کو دھمکیاں دو اور اللہ کی راه سے روکو اور اس میں کجی کی تلاش میں لگے رہو۔ اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم کم تھے پھر اللہ نے تم کو زیاده کردیا اور دیکھو کہ کیسا انجام ہوا فساد کرنے والوں کا۔ اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا، ایمان لے آئے ہیں اور کچھ ایمان نہیں ئے ہیں تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کئے دیتا ہے اور وه سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب! ہم آپ کو اور جو آپ کے ہمراه ایمان والے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے الّا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجاؤ۔ شعیب  (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ کیا ہم تمہارے مذہب میں آجائیں گو ہم اس کو مکروه ہی سمجھتے ہوں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہو جائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو، ہمارے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے، ہم اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے واہے۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا کہ اگر تم شعیب  (علیہ السلام) کی راه پر چلو گے تو بےشک بڑا نقصان اٹھاؤ گے۔ پس ان کو زلزلہ نے آپکڑا اور وه اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے ره گئے۔ جنہوں نے شعیب  (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ان کی یہ حالت ہوگئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے،جنہوں نے شعیب  (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی وہی خسارے میں پڑ گئے۔ اس وقت شعیب  (علیہ السلام) ان سے منھ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی،پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں"۔ (الأعراف:85-93

 ط- الله كے رسول موسی علیہ السلام:

پھر مصر میں ایک سرکش اور متکبر بادشاہ کا ظہور ہوا جسے فرعون کہا جاتا ہے،  وہ الوہیت کا دعوی کرتا اور لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیتا تھا،  جس کو چاہتا ذبح کردیتا اور جس پر چاہتا ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاتا،  اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ہمیں اس کی خبر دی ہے: "یقیناً فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروه گروه بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زنده چھوڑ دیتا تھا، بے شک وشبہ وه تھا ہی مفسدوں میں سے. پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بےحد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں۔ اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وه دکھائیں جس سے وه ڈر رہے ہیں۔ ہم نے موسیٰ  (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج وغم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں([1])۔ آخر فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ آخرکار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا، کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطاکار۔ اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائده پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں اور یہ لوگ شعور ہی نہ رکھتے تھے۔ موسیٰ  (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہے۔ موسیٰ  (علیہ السلام) کی والده نے اس کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وه اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعونیوں کو اس کا علم بھی نہ ہوا۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ  (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا، یہ کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لیے پرورش کرے اور ہوں بھی وه اس بچے کے خیر خواه۔ پس ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف واپس پہنچایا، تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزرده خاطر نہ ہو اور جان لے کہ اللہ تعالی کا وعده سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور جب موسیٰ  (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا، نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اور موسیٰ  (علیہ السلام) ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے، یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا، یہ ایک تو اس کے رفیقوں میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے، اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی، جس پر موسیٰ  (علیہ السلام) نے اس کو مکا مارا جس سے وه مر گیا،موسیٰ  (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے، یقیناً شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے واہے۔ پھر دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر لم کیا، تو مجھے معاف فرما دے، اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا، وه بخشش اور بہت مہربانی کرنے واہے۔ کہنے لگے اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا۔ صبح ہی صبح ڈرتے اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے کو شہر میں گئے، کہ اچانک وہی شخص جس نے کل ان سے مدد طلب کی تھی ان سے فریاد کر رہا ہے، موسیٰ  (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تو صریح بے راه ہے۔ پھر جب اپنے اور اس کے دشمن کو پکڑنا چاہا تو وه فریادی کہنے لگا کہ موسیٰ! (علیہ السلام)  کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا ہے مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے، تو تو ملک میں ظالم  وسرکش ہونا ہی چاہتا ہے اور تیرا یہ اراده ہی نہیں کہ ملاپ کرنے والوں میں سے ہو۔ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: اے موسیٰ! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشوره کر رہے ہیں، پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواه مان۔ پس موسیٰ  (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے ظالم وں کے گروه سے بچا لے۔ اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راه لے چلے گا۔ مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وه بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔ پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی کہ میرے باپ آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں، جب حضرت موسیٰ  (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وه کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم  قوم سے نجات پائی۔ ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وه ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ اس بزرگ نے کہا میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں اس  (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں، ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہے،  میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں، اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے۔ موسیٰ  (علیہ السلام) نے کہا، خیر تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہوگئی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو، ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ (گواه اور) کارساز ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوهِ طور کی طرف آگ دیکھی، اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر ؤں یا آگ کا کوئی انگاره ؤں تاکہ تم سینک لو. پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت میں سے آواز دیے گئے کہ اے موسیٰ! یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار۔ اور یہ (بھی آواز آئی) کہ اپنی   لاٹھی  ڈال دے، پھر جب اسے دیکھا کہ وه سانپ کی طرح پھن پھنا رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر واپس ہوگئے اور مڑ کر رخ بھی نہ کیا، ہم نے کہا اے موسیٰ! آگے آ ڈر مت، یقیناً تو ہر طرح امن واہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وه بغیر کسی قسم کے روگ کے چمکتا ہوا نکلے گا بالکل سفید اور خوف سے (بچنے کے لیے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے، پس یہ دونوں معجزے تیرے لیے تیرے رب کی طرف سے ہیں فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، یقیناً وه سب کے سب بےحکم اور نافرمان لوگ ہیں۔ موسیٰ  (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا، اب مجھے اندیشہ ہے کہ وه مجھے بھی قتل کر ڈالیں۔ اور میرا بھائی ہارون  (علیہ السلام) مجھ سے بہت زیاده فصیح زبان والا  ہے تو اسے بھی میرا مددگار بنا کر میرے ساتھ بھیج کہ وه مجھے سچا مانے، مجھے تو خوف ہے کہ وه سب مجھے جھٹلا دیں گے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے، بسبب ہماری نشانیوں کے، تم دونوں اور تمہاری تابعداری کرنے والے ہی غالب رہیں گے"۔القصص:4-35)

موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون،  فرعون -جوکہ متکبر بادشاہ تھا- کی طرف نکل پڑے تاکہ اسے اللہ کی عبادت کی دعوت دیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے: "فرعون نے کہا رب العالمین کیا  (چیز) ہے؟  (حضرت)  موسیٰ  (علیہ السلام) نے فرمایا وه آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔ فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے؟  (حضرت)  موسیٰ  (علیہ السلام) نے فرمایا وه تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے۔ فرعون نے کہا (لوگو!)  تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا! وہی مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔ فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا۔ موسیٰ  (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟ فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر۔ پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک ادھا بن گیا۔ اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا۔ فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے۔ یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سر زمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو۔ ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے۔ جو آپ کے پاس ذی علم جادو گروں کو لے آئیں۔ پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کیے گئے. اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہوجاؤ گے؟ تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں۔ جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟ فرعون نے کہا ہاں(بڑی خوشی سے)  بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے۔  (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام)نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور  لاٹھیاں  ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے۔ اب   (حضرت) موسیٰ  (علیہ السلام) نے بھی اپنی ٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا۔ یہ دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے۔ کہنے لگے کہ ہم ایمان ئے رب العالمین پر۔ جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے۔ فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وه بڑا  (سردار) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے، سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا، قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔ انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی۔ اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلےایمان والے بنے ہیں ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا۔ اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے۔ فرعون نے شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیا۔ کہ یقیناً یہ گروه بہت ہی کم تعداد میں ہے۔ اور اس پر یہ ہمیں سخت غضب ناک کر رہے ہیں۔ اور یقیناً ہم بڑی جماعت ہیں ان سے چوکنا رہنے والے۔ بالآخر ہم نےانہیں باغات سے اور چشموں سے،  اور خزانوں سے اور اچھے اچھے مقامات سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح ہوا اور ہم نےان (تمام)  چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا۔ پس فرعونی سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکلے۔ پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے۔ موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا۔ ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ٹھی مار، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔ اور ہم نے اسی جگہ دوسروں کو نزدیک کھڑا کر دیا. اور موسیٰ  (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی۔ پھر اور سب دوسروں کو ڈبو دیا۔ یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کے اکثر لوگ ایمان والے نہیں۔ اور بے شک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے وا۔ الشعراء:23-67)

جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،  اس کے سوا کوئی معبود نہیں،  اللہ تعالی نے جواب دیا:  "اب ایمان تا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم صرف تیری ش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں"۔ [یونس:   ۹۱-۹۲]۔

اللہ تعالی نے (موسی علیہ السلام کی قوم) کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے،  اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا،  جس میں اللہ نے برکت رکھی ہے،  اور اللہ نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے،  سب کو درہم برہم کردیا۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے موسی پر تورات نازل فرمائی،  جس میں لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے جو انہیں اللہ کے محبوب اور پسندیدہ کاموں کی رہنمائی کرتا ہے،  اور اس میں حلال وحرام کی وضاحت بھی ہے جس کی اتباع کرنا (موسی علیہ السلام کی قوم) بنی اسرائیل پر واجب قرار دیا گیا۔

پھر موسی علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور ان کے بعد اللہ نے ان کی قوم -بنی اسرائیل- کی طرف بہت سے نبیوں کو معبوث فرمایا جو انہیں سیدھے راستے کی رہنمائی کرتے تھے،  جب بھی کوئی نبی وفات پاتا تو ان کے بعد کوئی دوسرا نبی مبعوث ہوتا۔

ان میں سے بعض نبیوں کے قصے اللہ نے بیان کیا ہے جیسے داود،  سلیمان،  ایوب اور زکریا (علیہم السلام)،   جب کہ ان میں سے بہت سارے نبیوں کے بارے میں ہمیں تفصیل نہیں بتائی،  پھر (بنی اسرائیل کے) ان نبیوں کا سلسلہ عیسی بن مریم علیہ السلام پر ختم کیا جن کی زندگی نشانیوں سے بھری ہوئی تھی،  ان کی ولادت سے لے کر آسمان کی طرف ان کے اٹھائے جانے تک۔

وہ تورات جسے اللہ نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا،  نسل در نسل وہ ان یہودیوں کے ہاتھوں تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوتی چلی گئی،  جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ موسی علیہ السلام کے پیروکار ہیں،  جب کہ موسی علیہ السلام ان سے بری ہیں،  وہ تورات جو (ابھی) ان کے ہاتھوں میں ہے،  وہ اب اس شکل میں نہیں رہی جس شکل میں اللہ نے اسے نازل کیا تھا،  کیوں کہ اس میں ایسے امور داخل کردئے گئے جن کا اللہ سے صادر ہونا لائق وزیبا نہیں،  موجودہ تورات میں ان یہودیوں نے اللہ تعالی کو نقص وعیب،  جہالت اور کمزوری جیسی صفات سے متصف کیا ہے -اللہ تعالی ان کی باتوں سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- اللہ تعالی ان کے بارے میں فرماتا ہے: "ان لوگوں کے لئے ’’ویل‘‘ ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل (ہلاکت) اور افسوس ہے"۔ (البقرة:79

 ی- الله كے رسول عیسی علیہ السلام:

مريم بنت عمران ایک پاک دامن،  با عفت اور عبادت گزار خاتون تھیں،  وہ موسی علیہ السلام کے بعد آنے والے نبیوں پر اللہ کے جو احکام نازل ہوئے،  ان کی پیروکار تھیں،  وہ اس خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں جسے اللہ نے دنیاوالوں میں سے منتخب فرمایا تھا،  اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم  (علیہ السلام) کو اور نوح  (علیہ السلام) کو، ابراہیم  (علیہ السلام) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا"۔ (آل عمران:33)۔  فرشتوں نے ان کو یہ خوش خبری دی کہ اللہ نے ان کو چن لیا ہے: "اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیده کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔ اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجده کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر"۔ (آل عمران:42 ،43

پھر اللہ تعالی نے یہ خبر دی کہ کس طرح بغیر باپ کے عیسی علیہ السلام کو اللہ نے مریم کے رحم میں پیدا فرمایا،  جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں آیا ہے: "اس کتاب میں مریم کا بھی واقعہ بیان کر جب کہ وه اپنے گھر کے لوگوں سے علیحده ہو کر مشرقی جانب آئیں۔ اور ان لوگوں کی طرف سے پرده کر لیا، پھر ہم نے اس کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا پس وه اس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا۔ یہ کہنے لگیں میں تجھ سے رحمٰن کی پناه مانگتی ہوں اگر تو کچھ بھی اللہ سے ڈرنے واہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تجھے ایک پاکیزه لڑکا دینے آیا ہوں۔ کہنے لگیں بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان کا ہاتھ تک نہیں لگا اور نہ میں بدکار ہوں۔ اس نے کہا بات تو یہی ہے،لیکن تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ وه مجھ پر بہت ہی آسان ہے ہم تو اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت، یہ تو ایک طے شده بات ہے. پس وه حمل سے ہو گئیں اوراسی وجہ سے وه یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں۔ پھر درِد زه انہیں ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔ اتنے میں اسے نیچے سے ہی آواز دی کہ آزرده خاطر نہ ہو، تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔ اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تروتازه پکی کھجوریں گرا دے گا۔ اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ، اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا کہ میں نے اللہ رحمنٰ کے نام کا روزه مان رکھا ہے، میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی۔ اب حضرت عیسیٰ  (علیہ السلام) کو لئے ہوئے وه اپنی قوم کے پاس آئیں، سب کہنے لگے مریم تو نے بڑی بری حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ مریم نے اپنے بچے کی طرف اشاره کیا، سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بنده ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔ اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں، اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زنده رہوں۔ اور اس نے مجھے اپنی والده کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں کیا۔ اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوباره زنده کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔ یہ ہے صحیح واقعہ عیسیٰ بن مریم  (علیہ السلام) کا، یہی ہے وه حق بات جس میں لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اود کا ہونا ئق نہیں، وه تو بالکل پاک ذات ہے، وه تو جب کسی کام کے سر انجام دینے کا اراده کرتا ہے تو اسے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتا ہے۔ میرا اور تم سب کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راه ہے"۔ (مريم:16-36

جب عیسی علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کی عبادت کی دعوت تو کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور بہت سے لوگوں نے ٹھکرا دیا،  پھر بھی آپ دعوتی کاز پر ڈٹے رہے اور لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے،  لیکن بہت سے لوگوں نے آپ کا انکار کیا اور آپ سے دشمنی کرنے لگے،  بلکہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو جان سے مار ڈالنے کی کوشش کی! تب اللہ نے آپ سے فرمایا: "اے عیسی! میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں"۔ (آل عمران:55)۔  جو لوگ عیسی علیہ السلام کا پیچھا کر رہے تھے ان میں سے ایک شخص کو اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام جیسی (شکل وصورت) دے دی،  چنانچہ پیچھا کرنے والوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور اس گمان میں رہے کہ وہی عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں،  چنانچہ اسے قتل کرکے سولی پر چڑھا دیا،  جبکہ اللہ کے رسول عیسی بن مریم علیہ السلام کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا،  اور دنیا کو چھوڑنے سے قبل انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ بشارت دی کہ اللہ تعالی ایک دوسرے رسول کو مبعوث فرمائے گا جس کا نام احمد ہوگا اور اس کے ذریعہ اللہ تعالی دین کو پھیلائے گا،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے (میری قوم)   بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے واہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے واہوں جن کا نام احمد ہے"۔ (الصف:6

پھر ایک عرصہ گزرنے کے بعد عیسی علیہ السلام کے پیروکار مختلف گروہوں میں بٹ گئے،  ان میں سے ایک گروہ ایسا نکلا جس نے عیسی علیہ السلام کے سلسلے میں غلو سے کام لیا اور آپ کو اللہ کا بیٹا گرداننے لگا -اللہ تعالی ان کی باتوں سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- اس دعوی کو اس چیز نے ان کے لئے مزید خوبصورت بنادیا کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا ہوتے ہوئے دیکھا،  چنانچہ اللہ تعالی اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ  (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم  (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وه ہو گیا!"۔ (آل عمران:59)۔  معلوم ہوا کہ بغیر باپ کے عیسی علیہ السلام کی تخلیق اس سے زیادہ تعجب خیز نہیں ہے کہ آدم کی تخلیق باپ اور ماں دونوں کے بغیر ہوئی۔

اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن میں یہ کہتے ہوئے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا تاکہ وہ کفر سے باز آجائیں: " اے  اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم  (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شده) ہیں، جسے مریم (علیہا السلام)کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ عبادت کے ئق تو صرف ایک ہی ہے اور وه اس سے پاک ہے کہ اس کی اود ہو، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے،اور اللہ کافی ہے کام بنانے وا۔ مسیح  (علیہ السلام) کو اللہ کا بنده ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر وانکار ہرگز ہو ہی نہیں سکتا اور نہ مقرب فرشتوں کو، اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے، اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔ پس جو لوگ ایمان ئے ہیں اور شائستہ اعمال کئے ہیں ان کو ان کا پورا پورا واب عنایت فرمائے گا اور اپنے فضل سے انہیں اور زیاده دے گا اور جن لوگوں نے ننگ و عار اور سرکشی اور انکار کیا، انہیں المناک عذاب دے گا اور وه اپنے لئے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی، اور امداد کرنے وانہ پائیں گے"۔ (النساء:171-173

اللہ تعالی قیامت کے دن عیسی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمائے گا: "اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوه اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا، تمام غیبوں کا جاننے واتو ہی ہے۔ میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، میں ان پر گواه رہا جب تک ان میں رہا۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست حکمت واہے۔ اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وه دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وه ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی (بھاری) کامیابی ہے"۔ (المائدۃ: ۱۱۶ – ۱۱۹)۔

یہی وجہ ہے کہ مسیح عیسی بن مریم -علیہ السلام- ان کروڑوں لوگوں سے بری ہیں جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عیسی مسیح کے پیروکار ہیں۔


 ۳- محمد اللہ کے رسول (اور تمام نبیوں اور رسولوں کے -سلسلہ کو- ختم کرنے والے ہیں)

عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد تقریبا چھ صدیوں کا لمبہ عرصہ گزر گیا، (اس مدت میں) لوگ ہدایت کے راستے سے منحرف ہوگئے اور ان کے درمیان کفر،  گمراہی اور غیر اللہ کی عبادت عام ہوگی،  چنانچہ اللہ تعالی نے حجاز کی سرزمین پر مکہ مکرمہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،  تاکہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں،  اللہ نے آپ کی نبوت ورسالت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیوں اور معجزات سے آپ کو سرفراز فرمایا اور آپ کے ذریعہ رسولوں کا سلسلہ ختم کیا،  آپ کے لائے ہوئے دین کو تمام ادیان کو ختم کرنے والا قرار دیا اور اسے رہتی دینا اور قیامت قائم ہونے تک کے لئے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ فرمایا،  تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد کون ہیں؟ آپ کی قوم کون ہے؟ اللہ نے کس طرح آپ کو رسول بنایا؟ آپ کی نبوت کے کیا دلائل وبراہین ہیں؟ اور آپ کی سیرت کی تفصیلات کیا ہیں؟ چند صفحات میں ہم انہی سوالوں کا مختصر جواب دینے کی کوشش کریں گے،  ان شاء اللہ۔

 ا- آپ کا حسب ونسب اور مقام ومرتبہ:

آپ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ہیں،  آپ کا نسب اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام تک پہنچتا ہے،  آپ قبیلہ قریش کے چشم وچراغ تھے،  اور قریش عرب کا ایک قبیلہ تھا،  آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں سنہ ۵۷۱ عیسوی کو ہوئی۔ آپ ابھی رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا،  چنانچہ آپ نے اپنے دادا کی کفالت وسرپرستی میں یتیمى کى حالت میں نشو ونما پائی،  پھر جب آپ کے دادا فوت ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔

 ب- آپ کے اوصاف:

ہم نے ذکر کیا کہ اللہ کی جانب سے منتخب کردہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ بلند نفسى،  صدق گوئی اور حسن اخلاق کے اعلى مقام پر فائز ہو،  اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح تھے،  چنانچہ آپ نے اس حال میں نشو ونما پائی کہ آپ صدق گو،  امانت دار،  خوش اخلاق،  خوش گفتار،  فصیح اللسان،  قریب ودور ہر ایک کے محبوب وعزیز،  اور اپنی قوم میں عظمت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے،  وہ آپ کو امین کے لقب سے ہی پکارتے،  اور جب سفر پر جاتے تو اپنی امانتیں آپ کے پاس ہی رکھ کر جاتے۔

حسن اخلاق سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہترین وخوبصورت ساخت کے تھے،  آپ کے دیدار سے نگاہ ملول نہیں ہوتی تھی،  سفید چہرہ،  کشادہ آنکھیں،  لمبی پلکیں،  کالے بال،  چوڑے کندھے،  نہ زیادہ لمبے نہ ناٹے درمیانہ قد،  اور لمبائی سے قریب تر تھے،  آپ کے ایک صحابی آپ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمنی جوڑے میں ملبوس دیکھا،  پھر کبھی (کسی کو) آپ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا"۔ آپ امی تھے،  پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے،  آپ کی قوم بھی امی اور ناخواندہ تھی،  ان میں بہت کم لوگ ہی اچھی طرح پڑھنا لکھنا جانتے تھے،  لیکن وہ ذہین،  حافظہ کے مضبوط اور حاضر جواب تھے۔

 ج- قریش اور عرب:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اور آپ کا خاندان مکہ مکرمہ میں بیتِ حرام اور اس کعبہ مشرفہ کے پڑوس میں سکونت پزیر تھا جس کی تعمیر کا حکم اللہ نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسماعیل کو دیا تھا۔

لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ وہ دینِ ابراہیمی (یعنی اللہ کی خالص عبادت) سے منحرف ہوگئے،  وہ اور ان کے آس پڑوس کے قبیلوں نے کعبہ کے ارد گرد پتھر،  درخت اور سونے کے بہت سے بت نصب کر دئے،  وہ ان بتوں کا تقدس واحترام کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے کہ ان کے ہاتھ میں نفع ونقصان کی ملکیت ہے! نیز ان بتوں کی پرستش کے لئے انہوں نے بہت سے میلے اور عیدیں ایجاد کر لیں،  ان میں ایک مشہور ترین بت ھُبل تھا،  جو کہ سب سے بڑا بت تھا۔ ان کے علاوہ مکہ سے باہر اور بھی بہت سے بت اور درخت تھے جن کی پرستش کی جاتی اور حد درجہ تقدس واحترام کیا جاتا تھا،  جیسے لات وعزی اور منات۔ ان عربوں کی زندگی اپنے ارد گرد کے ماحول سمیت کبر وغرو،  فخر ومباہات،  گھمنڈی وخود پسندی،  دوسروں پر ظلم وستم اور گھمسان کی جنگوں سے بھری پڑی تھی،  یہ اور بات ہے کہ ان کے اندر کچھ اچھے اخلاق بھی پائے جاتے تھے،  جیسے شجاعت وبہادری،  مہمان نوازی اور صدق گوئی وغیرہ۔

 د- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت:

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوگئے اور آپ مکہ سے باہر غار حراء میں گوشہ نشیں تھے تو آپ پر اللہ کی جانب سے سب سے پہلی وحی نازل ہوئی،  چنانچہ آپ کے پاس جبریل فرشتہ تشریف لائے اور آپ کو پکڑ کر بھینچا اور کہا: پڑھئے،  آپ نے عرض کیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں،  پھر دوسری مرتبہ انہوں نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ (اس کا دباؤ) آپ کی برداشت کی حد کو پہنچ گیا اور کہا: پڑھئے،  آپ نے عرض کیا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں،  پھر تیسری مرتبہ انہوں نے آپ کو بھینچا یہاں تک کہ آپ کی برداشت کی آخری حد آگئی اور کہا:  پڑھئے،  آپ نے عرض کیا: میں کیا پڑھوں،  جبرئیل نے کہا: "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا"۔ (العلق:1-5

اس کے بعد فرشتہ آپ کو چھوڑ کر رخصت ہوگیا،  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لوٹ گئے اور خوف وہراس کے عالم میں گھبرائے ہوئے بیوی کے پاس پہنچے اور خدیجہ سے عرض کیا: مجھے چادر اوڑھا دو،  مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے،  خدیجہ نے اپنے شوہر (کو تسلی دلاتے ہوئے) کہا:  اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا،  اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیوں کہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں،  ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔

پھر حضرت جبرئیل آپ کے پاس اپنی اصلی شکل میں آئے جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا،  بایں طور کہ) )  افق کو پورے طور پر گھیر لیا اور کہا: اے محمد! میں جبرئیل ہوں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔

پھر آسمان سے پے درپے وحی نازل ہوتی رہی،  (جس میں) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں اور انہیں شرک وکفر سے منع کریں،  چنانچہ آپ نے اپنی قوم کو انفرادی طور پر دعوت دینا شروع کر دیا،  جو سب سے زیادہ قریبی تھے پہلے ان کو دعوت دی،  تاکہ وہ دینِ اسلام میں داخل ہوں،  چنانچہ سب سے پہلے آپ کی بیوی خدیجہ بنت خویلد،  آپ کے دوست ابو بکر صدیق اور آپ کے چچا زاد علی بن ابی طالب آپ پر ایمان لائے۔

جب آپ کی قوم کو آپ کی دعوت کی خبر ملی تو وہ آپ کے خلاف مکر وسازش کے جال بننے لگے اور آپ سے دشمنی شروع کردی،  آپ ایک دن صبح کے وقت اپنی قوم کے پاس نکلے اور انہیں بلند آوز سے پکارتے ہوئے کہا: یا صباحاہ! لوگوں کو جمع کرنے کے لئے یہ کلمہ بولا جاتا ہے،  چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی قوم کے لوگ آپ کی بات سننے کے لئے جمع ہوگئے،  جب وہ سب اکھٹے ہوگئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کروگے؟ انہوں نے کہا: ہم نے آپ کو کبھی جھوٹا نہیں پایا،  آپ نے فرمایا: تو میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہا ہے،اتنا سننا تھا کہ ابولہب - جو آپ کا چچا تھا،  وہ اور اس کی بیوی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیاد دشمنی رکھتے تھے- بول پڑا: تم تباہ ہوجاؤ۔ کیا تم نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : "ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وه (خود)  ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وه عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔ اور اس کی بیوی بھی (جائے گی)  جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔ اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی"۔ (المسد:1-5

اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے اور انہیں کہتے رہے: تم سب لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤگے،  (لیکن انہوں نے جواب میں) کہا: کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بدلے صرف ایک ہی معبود قرار دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

اللہ کی جانب سے آیتیں بھی نازل ہوتی رہیں جو انہیں ہدایت وراستی کی دعوت دیتی اور وہ جس گمراہی میں غرق تھے،  اس سے انہیں ڈراتی تھیں،  ان آیتوں میں اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی تھا: "آپ کہہ دیجئے! کہ کیا تم اس  (اللہ) کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردیا اور کیا تم اس کا شریک مقرر کرتے ہو ، وہ اللہ سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اوراس میں برکت رکھ دی اوراس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔ پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی، یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے۔ اب بھی یہ روگرداں ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذابِ آسمانی) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں  کی کڑک ہوگی"۔ (فصلت:9-13

لیکن ان آیتوں اور اس دعوت سے ان کی سرکشی مزید بڑھ گئی اور حق کوقبول کرنے سے وہ اور تکبر کرنے لگے،  بلکہ دینِ اسلام میں داخل ہونے والے ہر شخص کو سخت عذاب سے دوچار کرنے لگے،  بطور خاص ان کمزور ونادار لوگوں کو جن کی حمایت کرنے والا کوئی نہ تھا،  چنانچہ وہ ان میں سے کسی کے سینے پر بڑا پتھر رکھ دیتے اور سخت چلچلاتی دھوپ میں اسے بازاروں میں گھسیٹتے اور کہتے : دینِ محمد کا انکار کرو یا خوشی خوشی یہ سزا جھیلتے رہو،  یہاں تک کہ بہت سے لوگ سخت سزا کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگئے۔

جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے تو آپ کو اپنے چچا ابو طالب کی نصرت وحمایت حاصل تھی جو آپ سے محبت کرتے اور آپ پر مشفق ومہربان تھے، اور وہ قبیلہ قریش کے ایک رعب دار اور پرہیبت سردار تھے،  البتہ انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا۔

قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دعوت پر سودے بازی کرنے کی کوشش کی،  چنانچہ آپ کے سامنے مال ودولت،  بادشاہت اور پرکشش چیزوں کی پیش کش کی،  بشرطیکہ آپ اس نئے دین کی طرف دعوت دینا چھوڑ دیں جس سے ان کے معبودوں کی توہین ہوتی تھی جنہیں وہ مقدس سمجھر اس کا احترام کرتے اور اللہ کے بجائے ان کی عبادت کرتے تھے،  لیکن رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف میں سخت اور اٹل تھے،   کیوں کہ  یہ ایسا حکم تھا جسے اللہ نے لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا،  اگر آپ اس حکم سے دستبردار ہو جاتے تو اللہ تعالی آپ کو عذاب میں مبتلا کردیتا۔ آپ نے انہیں جواب دیا کہ میں تمہارا خیر اندیش ہوں اور تم میری قوم اور خاندان کے لوگ ہو۔ "اللہ کے قسم! اگر میں تمام لوگوں کو جھٹلا بھی دوں تو تمہیں نہیں جھٹلا سکتا اور اگر سارے لوگوں کے ساتھ فریب بھی کروں تو تمہارے ساتھ نہیں کرسکتا"۔

جب دعوتی مشن پر روک لگانے کے لئے سودے بازیاں کچھ کام نہ آئیں،  تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے تئیں قریش کی دشمنی فزوں تر ہوگئی،  قریش نے ابو طالب سے مطالبہ کیا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد کردیں تاکہ وہ آپ کو قتل کر ڈالیں،  اور اس کے بدلے قریش ابو طالب کو من چاہی چیز سے نوازیں گے،  (اگر یہ پیش کش قبول نہ ہو تو) وہ ان کے درمیان آپ کے دین کی کھلے عام نصرت وحمایت کرنے سے باز آجائیں،  چنانچہ آپ کے چچا نے آپ سے یہ گزارش کی کہ آپ اس دین کی طرف دعوت دینے سے باز آجائیں۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور آپ نے فرمایا : "چچا جان! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں اور مجھ سے اس دین کو ترک کرنے کا مطالبہ کریں تو میں اسے ترک نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اللہ اسے غلبہ عطا کردے یا میں اس کی راہ میں جاں بحق ہوجاؤں"۔

یہ سن کر آپ کے چچا نے عرض کیا:  آپ اپنے مشن پر قائم رہیں،  اللہ کی قسم! وہ آپ کو ذرا بھی زک نہیں پہنچا سکتے،  تا آنکہ میں آپ کا دفاع کرتے ہوئے قتل کردیا جاؤں،  جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا اور ان کے پاس قریش کے بعض سردار موجود تھے،  تو ان کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اسلام قبول کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے: اے میرے چچا! آپ صرف ایک کلمہ کا اقرار کر لیجئے اس کی وجہ سے اللہ کے نزدیک میں آپ کے لئے حجت (اور سفارش) کروں گا،  آپ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیجئے،  اس پر سرداروں نے ابوطالب سے کہا: کیا آپ عبد المطلب کے دین سے پھر جائیں گے )آپ اپنے باپ داداؤں کے دین سے پھر جائیں گے) توابو طالب نے اپنے پرکھوں کے دین کوترک کرکے دین اسلام میں داخل ہونے کو گراں سمجھا اور شرک کی حالت میں فوت ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے سخت حزن وملال ہوا کہ آپ کے چچا کی وفات شرک کی حالت میں ہوئی،  چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ آپ کو یہ خبر دی کہ : "آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے،اور ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے"۔ (الْقَصَص: 56

آپ کے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (طرح طرح کی( اذیتیں پہنچنے لگیں،  چنانچہ جب آپ کعبہ کے پاس محو عبادت ہوتے تو وہ )جانوروں کی( گندگیاں لے کر آپ کی پشت پر رکھ دیتے تھے۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم شہر طائف کی طرف نکلے تاکہ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں، (  (یہ شہر مکہ سے ۷۰ کیلو میٹر کی دوری پر ہے،   طائف والوں نے مکہ والوں سے زیادہ سختی کے ساتھ آپ کی دعوت کا انکار کیا،  اپنے اوباشوں کو بھڑکایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنگ باری کریں اور آپ کو طائف سے نکال باہر کریں،  چنانچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور آپ پر پتھر برساتے رہے یہاں تک کہ آپ کی مبارک پنڈلیاں خون آلود ہوگئیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے،  ہاتھ اٹھایا اور مدد کی فریاد کی،  چنانچہ اللہ نے آپ کے پاس فرشتہ کو بھیجا،  فرشتہ نے آپ سے کہا: اگر آپ چاہیں تو اَخشبین -یعنی دو بڑے پہاڑوں- کو ان پر رکھ دوں،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،  بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف لوٹ گئے اور آپ پر ایمان لانے والے تمام صحابہ کرام کے تئیں آپ کی قوم کی دشمنی اور تصادم جاری رہا،  پھر شہرِ یثرب -جو بعد میں مدینہ کے نام سے موسوم ہوا- سے ایک وفد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،  آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی،  چنانچہ آپ نے ان کے ساتھ اپنے ایک صحابی کو بھیجا جن کا نام مصعب بن عمیر ہے،  تاکہ وہ انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دیں،  ان کے ہاتھ پر مدینہ کے بہت سے باشندوں نے اسلام قبول کیا۔

(اسلام قبول کرنے والے مدینہ کے یہ باشندے) اگلے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ (آپ کے ہاتھ پر) اسلام کی بیعت لیں،  پھر آپ نے اپنے مظلوم صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا،  چنانچہ انہوں نے جوق در جوق اور انفرادی طور پر ہجرت کی -انہیں مہاجرین کے لقب سے نوازا گیا- مدینہ کے باشندوں نے پرتپاک انداز میں ان کا استقبال کیا،  اپنے گھروں میں انہیں مہمان بنایا،  اپنے مال ودولت اور اپنے گھروں کو ان کے درمیان برابر تقسیم کردیا -بعد میں یہ حضرات انصار کے نام سے موسوم ہوئے۔

پھر جب قریش کو اس ہجرت کی خبر ملی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے کا فیصلہ لیا،  انہوں نے طے کیا کہ آپ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیں جس میں آپ سو رہے تھے اور جب آپ نکلیں تو یکبارگی تلوار سے آپ کا سر قلم کردیں،  اللہ نے ان مشرکوں (کی سازش) سے آپ کو بچا لیا،  آپ ان کے درمیان سے نکل گئے اور انہیں احساس بھی نہ ہوا،  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تاکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو امانیتں ودیعت تھیں،  انہیں ان کے مالکوں کو لوٹا دیں۔

آپ ہجرت کے راستے میں ہی تھے کہ قریش نے (آپ کی تلاش کے لئے اپنے ہرکارے بھیج دئے اور) آپ کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے والے کے لئے قیمتی انعام مقرر کیا،  لیکن اللہ تعالی نے آپ کو ان سے بچا  لیا اور آپ اپنے رفیق سفر کے ساتھ صحیح سالم مدینہ پہنچ گئے۔

مدینہ والوں نے خوشی خوشی،  گرم جوشی اور فرحت وشادمانی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا،  وہ سب کے سب رسول اللہ کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے باہر آگئے اور کہنے لگے: رسول اللہ آگئے،  رسول اللہ آگئے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو جائے قرار بنایا،  آپ نے مدینہ میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا تاکہ نمازیں قائم کی جاسکیں،  آپ لوگوں کو اسلامی احکام سکھانے لگے،  انہیں قرآن پڑھاتے اور حسن اخلاق کی تربیت کرتے،  آپ کے صحابہ آپ سے رشد وہدیات سیکھنے کے لئے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے،  جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہوتا،  ان کے اخلاق بلند ہوتے،  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت مزید گہری ہوتی،  وہ آپ کی بلند وبالا صفات سے متاثر ہوتے اور ان کے درمیان ایمانی اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگیا۔ مدینہ حقیقت میں مثالی شہر بن گیا جہاں سعادت وخوش بختی اور اخوت وہمدردی کی فضا قائم تھی،  وہاں کے باشندوں کے درمیان مالدار وفقیر،  گورے اور کالے،  عربی اور عجمی کی کوئی تفریق نہ تھی،  ان میں سے بعض کو بعض پر ایمان اور تقوی کے علاوہ کسی اور وجہ سے فضیلت وبرتری حاصل نہ تھی،  ان چنیدہ صحابہ کرام سے تاریخ کی سب سے افضل ترین نسل رونما ہوئی۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے قریش اور اس کے اسلام دشمن ہمنواؤں کی جھڑپیں اور لڑائیاں شروع ہوئیں۔

چنانچہ ان کے درمیان پہلی جنگ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی میں ہوئی،  اس جنگ کا نام غزوہ بدر کبرى ہے،  اللہ تعالی نے (اس غزوہ میں) مسلمانوں کی نصرت وتائید کی،  قریش کے مقابلے میں مسلم مجاہدوں کی تعداد313 تھی،  جبکہ قریشی جنگجو 1000کی تعداد میں تھے،  اس جنگ میں مسلمانوں کو کھلی نصرت وفتح ملی،  اس میں قریش کے ستر جنگجو قتل ہوئے،  جن میں سے اکثر ان کے سربرآوردہ اور سردار لوگ تھے،  اور (ان کے) ستر لوگ قیدی بنا لئے گئے اور باقیوں نے راہ فرار اختیار کی۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان مختلف جنگیں ہوئیں،  جس کے آخری سلسلہ کے طور پر (مکہ سے نکلنے کے آٹھ سال بعد) رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قابل ہوگئے کہ آپ مکہ مکرمہ کی طرف ایک لشکر لےکر روانہ ہوں جس میں دس ہزار (۱۰۰۰۰)  مسلم فوجی شامل تھے،  اس لشکر کشی کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی فوج قریش سے ان کے گھر کے اندر جاکر مقابلہ کر،  آپ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئے،  بڑی فتح ونصرت حاصل کی اور اس قبیلہ کو شکست دیا جس نے آپ کے قتل کی سازش کی،  آپ کے صحابہ کو سزا دیا اور اس دین سے (لوگوں کو) روکا جسے آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے تھے۔

اس مشہور فتح کے بعد آپ نے انہیں جمع کیا اور ان سے کہا:  "اے قریش کے لوگو! تمہارا کیا گمان ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا: آپ شریف ومعزز بھائی ہیں اور شریف ومعزز بھائی کے بیٹے ہیں،  آپ نے فرمایا: جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو،  آپ نے ان سے درگزر کردیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی آزادی دی"۔

اس رد عمل سے متاثر ہوکر جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے،  چنانچہ پورا جزیرہ عرب حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔

اس کے کچھ ہی عرصہ بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور آپ کے ساتھ حلقہ اسلام میں داخل ہونے والے 114,000مسلمانوں نے حج کیا۔

آپ ان کے درمیان حج اکبر (عرفہ)  کے دن کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا،  جس میں آپ نے دین کے احکام اور اسلام کے شرائع کو بیان کیا،  پھر ان سے کہا: شاید میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل پاؤں،  اس لئے چاہئے کہ حاضر شخص یہ تعلیمات غیر موجود کو پہنچا دے، پھر آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: کیا میں نے (اللہ کا دین تم تک) پہنچا دیا؟ تو لوگوں نے کہا: ہاں،  آپ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ،  (پھر فرمایا::) کیا میں نے پہنچا دیا؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں،  آپ نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہ۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کے بعد مدینہ لوٹ آئے اور ایک دن لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو وہ دنیا میں ہمیشگی کی زندگی گزارے یا اللہ کے پاس (جو نعمتیں ہیں) انہیں ترجیح دے،  تو اس نے اللہ کے پاس جو (نعمتیں ہیں) انہیں ترجیح دی،  یہ سنتے ہی صحابہ کرام رو پڑے،  وہ سمجھ گئے کہ آپ اپنے ہی تعلق سے گفتگو کر رہے ہیں اور اس دنیا سے آپ کی رحلت کا وقت قریب آگیا ہے،  سن گیارہ ہجری کے تیسرے مہینہ کی بارہویں تاریخ کو سوموار کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدید ہوگئی اور نزع کی کیفیات شروع ہوگئیں،  چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ کی طرف الوداعی نظر سے دیکھا اور انہیں نماز کی پابندی کرنے کی وصیت فرمائی،  اس کے بعد آپ کی مبارک روح پرواز کر گئی اور آپ رفیق اعلی سے جا ملے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صحابہ کرام کو شدید صدمہ اور انتہائی حزن وملال لاحق ہوا،  یہ حادثہ ان پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ اس ناگہانی واقعہ سے مبہوت ہوکر ان میں سے ایک شخص جوکہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں،  اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: آج میں نے جس کو یہ کہتے سن لیا کہ رسول اللہ وفات پاگئے،  اس کی گردن تن سے جدا کردوں گا۔

یہ سن کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو اللہ تعالی کے اس فرمان کی یاد دہانی کرائی : "(حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا۔ (آل عمران:144)۔  جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔

یہ ہیں اللہ کے رسول اور تمام نبیوں اور رسولوں کے ختم کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم،  اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف (جنت کی) خوش خبری سنانے اور (جہنم سے) ڈرانے والا بناکر بھیجا تھا،  چنانچہ آپ نے پیغام پہنچا دیا،  امانت ادا کردی اور امت کے ساتھ نصح وخیرخواہی کی۔

اللہ نے قرآن کریم کے ذریعہ آپ کی تائید کی جو آسمان سے نازل کردہ اللہ کا کلام ہے،  جس کے پاس "باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کرده حکمتوں والے خوبیوں والے(اللہ) کی طرف سے"۔ (فصلت:42)،   جس کی نظیر پیش کرنے کے لئے دنیا کی ابتدا سے لے کر انتہا تک کے سارے لوگ بھی اگر جمع ہوجائیں تو اس کی نظیر نہیں پیش کرسکتے،  گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : "اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔ ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔ پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل ئے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیئے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں"۔ (البقرة:21-25

یہ قرآن ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل ہے،  ان سورتوں میں چھ ہزار سے زائد آیتیں ہیں،  اللہ کا یہ چیلنج ہر زمانے کے انسانوں کے لئے ہے کہ وہ قرآن کی سورتوں جیسی کوئی ایک سورت ہی پیش کردیں،(معلوم رہے کہ) قرآن کی سب سے چھوٹی سورت صرف تین آیتوں پر مشتمل ہے۔

اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نہیں ہے،  یہ اللہ کا ایک عظیم ترین معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے رسول کی تائید کی،  نیز دیگر خوارق عادت معجزات کے ذریعہ بھی اللہ نے آپ کی تائید فرمائی،  ان میں سے چند معجزات یہ ہیں:

 ھ- معجزات کے ذریعہ نبی کی تائید:

1- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے،  اپنا ہاتھ برتن میں رکھتے اور آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا چشمہ جاری ہوجاتا،  اس پانی سے پورا لشکر سیراب ہوتا جبکہ ان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوتی۔

2- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے اور کھانے میں اپنا ہاتھ رکھ دیتے،  چنانچہ کھانے میں اتنی برکت ہوجاتی کہ ۱۵۰۰ صحابہ کرام اس کھانے سے شکم سیر ہوجاتے۔

3- آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر اللہ سے بارش کی دعا کرتے اور آپ اپنی جگہ سے ہٹتے بھی نہیں کہ بارش کی وجہ سے آپ کے رخ مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک کر زمین پر گرنے لگتے،  اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے معجزات ہیں۔

اللہ نے اپنی حفاظت وحمایت کے ذریعہ بھی کی آپ کی تائید فرمائی،  چنانچہ آپ کے قتل کا اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے نور کو بجھانے کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص بھی آپ کے قریب نہ جا پاتا تھا، جیسا کہ ارشاد الہی ہے: "اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا"۔ (المائدۃ: 67

رسول صلی اللہ علیہ وسلم -تائید الہی کے ساتھ ساتھ- اپنے تمام تر اقوال واعمال میں ایک عمدہ نمونہ بھی تھے،  آپ پر اللہ کی جانب سے جو احکام واوامر نازل ہوتے،  سب سے پہلے آپ خود انہیں بروئے عمل لاتے،  آپ اطاعتوں اور عبادتوں کی بجاآوری کے سب سے زیادہ حریص تھے،  آپ لوگوں میں سب سے بڑے سخی وفیاض تھے،  (جود وسخا کا عالم یہ تھا کہ ) آپ کے ہاتھ میں کوئی بھی مال ہوتا تو آپ اسے اللہ کی راہ میں مسکینوں،  فقیروں اور حاجت مندوں پر خرچ کردیتے،  یہاں تک کہ آپ نے اپنے ترکہ کے تعلق سے بھی اپنے صحابہ سے عرض کیا : "ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے،  ہم جو کچھ بھی چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے"۔([2])

جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بات ہے تو کوئی شخص آپ کےاخلاق (کی بلندی تک) نہیں پہنچ سکتا،  جس نے بھی آپ کی صحبت اختیار کی اس نے آپ کو دل وجان سے چاہا،  اس کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی اولاد،  ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو جاتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں  نے رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم وگداز اور خوشبودار چیز نہیں چھوا،  کبھی مجھ سے کسی چیز کے متعلق جو میں نے کردیا ہو،  آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو،  آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں نہیں کیا"۔([3])

یہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کا تذکرہ ہے) جن کو اللہ نے اتنا اعلی وبالا مقام ومرتبہ عطا کیا اور تمام جہان والوں میں آپ کا ذکر اس قدر بلند کردیا کہ کائنات میں آج آپ کی طرح کسی اور کا ذکر نہیں ہوتا، چنانچہ چودہ سو سال سے لاکھوں مؤذن روئے زمین کے مختلف گوشوں میں ہر دن پانچ دفعہ یہ آواز بلند کرتے ہیں : "أشہد أن محمدا رسول اللہ" ( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)،   کروڑوں نمازی روزانہ اپنی نمازوں میں دسیوں بار یہ کلمہ دہراتے ہیں: "أشہد أن محمدا رسول اللہ" (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)۔

 و- صحابہ کرام:

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے اسلامی دعوت کی ذمہ داری اٹھائی اور اس مشن کو لے کر زمین کے مشرق ومغرب میں پھیل گئے،  وہ حقیقی معنوں میں اس دین کے بہترین داعی تھے،  وہ زبان وگفتار میں سب سے سچے،  عدل وانصاف میں سب سے بڑے،  سب سے زیادہ امانت دار،  لوگوں کی ہدایت کے سب سے بڑھ کر حریص اور ان کے درمیان خیر وبھلائی کی نشر واشاعت کے سب سے بڑے خواہاں تھے۔

وہ انبیاء کے اخلاق سے آراستہ ہوئے اور ان کے اوصاف وکردار کو اپنا رہبر وقائد بنایا،  چنانچہ ان اخلاق کا یہ ظاہری اثر تھا کہ روئے زمین کی مختلف قومیں اس دین کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئیں،  چنانچہ مغربی افریقہ سے لے کر مشرقی ایشیا اور وسطِ یورپ تک بغیر کسی زور زبردستی کے جوق در جوق لوگ اس دین میں داخل ہوئے۔

یقیناً انبیاء کے بعد رسول اللہ کے صحابہ تمام لوگوں سے افضل ہیں،  ان میں سب سے مشہور چار خلفائے راشدین ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی،  وہ خلفاء یہ ہیں:

۱- ابو بکر صدیق۔

۲- عمر بن الخطاب۔

۳- عثمان بن عفان۔

۴- علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہم)۔

ان کے تعلق سے تمام مسلمان (اپنے دلوں میں) اعترافِ (خدمت(اور جذبہ تشکر محسوس کرتے ہیں،  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت،  سے محبت کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتے ہیں،  ان کی تعظیم وتکریم کرتے اور انہیں ان کے شایانِ شان مقام ومرتبہ دیتے ہیں۔

(کوئی مسلمان) نہ ان سے بعض ونفرت رکھتا ہے اور نہ ان کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی گوارہ کرتا ہے،  الا یہ کہ وہ دینِ اسلام کا منکر ہو،  خواہ زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی ہی کیوں نہ کرتا ہو،  اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ ان (صحابہ)کی تعریف کی ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو"۔ (آل عمران: 110

اور جب صحابہ کرام نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو اللہ نے ان کے لئے اپنی رضا وخوشنودی ثابت کردی،  اللہ پاک کا فرمان ہے: "یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی"۔ (الفتح: 18


 ۴- اسلام کے ارکان

اسلام کے پانچ بنیادی اور ظاہری ارکان ہیں،  مسلمان بندہ پر واجب ہے کہ ان ارکان کو لازم پکڑے تاکہ مسلمان ہونے کی صفت اس پر سچ ثابت ہو:

 أ- پہلا رکن: کلمہ شہادتلا الٰہ الا اللہ،  محمد رسول اللہکا اقرار واعتراف ہے۔

یہی وہ پہلا کلمہ ہے جس کا اقرار کرنا اسلام قبول کرنے والے پر واجب ہے،  چنانچہ اقرار کرے کہ: (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں)،   ساتھ ہی اس کلمہ کے تمام معانی ومفاہیم کا عقیدہ بھی رکھے ،  جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔

چنانچہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ ہی تن تنہا معبود حقیقی ہے،  جس سے نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا،  اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے،  نیز یہ کہ وہی خالق ہے اور اس کے سوا سب مخلوق ہیں،  اور وہی معبود حقیقی ہے جو تمام تر عبادتوں کا تنہا مستحق ہے،  پس اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی پالنہار،  ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھے کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں،  جن پر آسمان سے وحی نازل ہوئی،  آپ اللہ کی طرف سے اس کے حکم اور نہی کو (دنیا والوں تک) پہنچانے والے پیغامبر تھے،  آپ نے جن چیزوں کی خبر دی ان کی تصدیق کرنا،  آپ نے جس چیز کا حکم دیا اسے بجا لانا اور جس چیز سے روکا اس سے باز رہنا واجب ہے۔

 ب- دوسرا رکن: نماز قائم کرنا ہے۔

نماز کے اندر عبودیت وبندگی اور اللہ تعالی کے سامنے عاجزی وانکساری کے اثرات ومظاہر نمایاں ہوتے ہیں،  اس لئے کہ بندہ خشوع وخضوع کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے،  قرآنی آیات کی تلاوت کرتا ہے،  مختلف قسم کی دعاؤں اور حمد وثنا کے ذریعہ اللہ کی تعظیم بجا لاتا ہے،  اس کے سامنے رکوع کرتا اور سجدہ ریز ہوتا ہے،  اس سے سرگوشی کرتا،  اسے پکارتا اور اس سے اس کے بڑے فضل واحسان کا سوال کرتا ہے،  معلوم ہوا کہ نماز بندہ اور اس کے اس پالنہار کے درمیان ایک رشتہ ہے جس نے اسے پیدا کیا،  جو اس کے راز ونیاز اور ظاہر (وباہِر) سے بھی واقف اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ اس کے سجدہ کرنے سے آشنا ہے،  نماز بندہ سے اللہ کی محبت،  قربت اور رضا مندی کا سبب ہے،  جو شخص اللہ کی بندگی سے تکبر کرتے ہوئے اعراض کرتا ہے،  اللہ اس پر غصہ ہوتا اور اپنی لعنت بھیجتا ہے اور وہ دینِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے:

دن اوررات میں پانچ وقت کی نمازیں واجب ہیں،  جو (اِن امور) پر مشتمل ہوتی ہیں:  قیام کرنا اور سورہ فاتحہ پڑھنا: "شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واہے۔ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا۔ ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا،  ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔ (الفاتحة:1-7)۔  اس کے بعد قرآن کی جو آیتیں میسر ہوں ان کی تلاوت کرنا،  رکوع وسجدہ کرنا،  اللہ سے دعا کرنا،  (اللہ اکبر( کہتے ہوئے، اس کی بڑائی بیان کرنا،  رکوع میں (سبحان ربي العظيم)  اور سجدہ میں(سبحان ربي الأعلى) کہتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرنا۔

نماز ادا کرنے سے پہلے نمازی کے جسم،  کپڑے اور نماز کی جگہ کا ہر قسم کی نجاست (پیشاب اور پاخانے) سے پاک وصاف ہونا اور نمازی کا پانی سے وضو کرنا ضروری ہے،  بایں طور کہ اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھ کو دھوئے،  سر کا مسح کرے پھردونوں پاؤں کو دھوئے۔

اور اگر وہ(بیوی سے مباشرت کرنے کی وجہ سے) جنبی (ناپاک)  ہو تو پورے جسم کا غسل کرنا اس پر واجب ہے۔

 ج- تیسرا رکن: زکاۃ ہے۔

وہ اصل پونجى کا ایک متعین حصہ (فیصد)  ہے جسے اللہ نے مالداروں پر فرض قرار دیا ہے،  جسے معاشرہ کے فقراء ومساکین یعنى اس کے مستحقین کو کو دیا جاتا ہے تاکہ ان کی فقیری ومحتاجی دور کی جاسکے،  نقد مال میں اس کی مقدار کل سرمایہ کا اڑھائی فیصد ہے،  اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

یہ رکن ایک ایسا سبب ہے جس سے معاشرہ کے افراد کے درمیان سماجی ہم آہنگی رائج ہوتی ہے،  ان کے درمیان محبت والفت پروان چڑھتی اور آپسی تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے،  نیز مالدار اور خوشحال طبقہ کے تئیں غریب ونادار طبقہ کے دل سے حقد وحسد اور بغض وجلن کا جذبہ ختم ہوتا ہے،  زکاۃ،  معاش واقتصاد کو پروان چڑھانے،  اس میں اٹھان پیدا کرنے،  درست طریقہ سے مال کی گردش جاری رکھنے اور معاشرہ کے تمام طبقات تک اس کے پہنچنے کا ایک بنیادی سبب ہے۔ یہ زکاۃ ہر قسم کے مال میں واجب ہے،  جیسے نقد مال،  چوپائے،  پھل،  دانے اور سامان تجارت وغیرہ،  البتہ اس کى نسبت سرمایہ مال کے اعتبار سے مختلف ہوتى ہے۔

 د- چوتھا رکن: رمضان کا روزہ ہے۔

روزہ کا مطلب ہے: طلوعِ فجر سے لے کر غروب آفتاب تک عبادتِ الہی کی نیت سے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ ہمبستری سے باز رہنا۔

ماہِ رمضان جس کا روزہ فرض قرار دیا گیا ہے،  وہ قمری سال کا نواں مہینہ ہے،  یہی وہ مہینہ ہے جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول شروع ہوا۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں،  تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے"۔ (البقرة:185

روزہ کے بیش بہا فوائد ہیں،  ان میں یہ بھی ہے کہ اس سے صبر کی عادت ہوتی ہے اور دل میں ایمان اور تقوی کا ملکہ مضبوط ہوتا ہے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ بندہ اور اللہ کے درمیان ایک راز ہے،  کیوں کہ انسان یہ استطاعت رکھتا ہے کہ خلوت وتنہائی میں کھائے پیئے اور کسی کو خبر بھی نہ لگے،  لیکن چونکہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور اس کے احکام واوامر کی اطاعت کی خاطر اس سے باز رہتا ہے ،  جب کہ وہ جان رہا ہوتا ہے کہ اس کی اس عبادت کو صرف اللہ ہی جان رہا ہے،  اس لئے یہ روزہ ایمان اور تقوی میں اضافہ کا سبب ثابت ہوتا ہے،  اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نزدیک روزہ داروں کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے،  بلکہ جنت میں ان کے لئے ایک خاص دروازہ ہے جس کا نام باب الریان ہے۔ ماہ رمضان کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں نفلی روزے رکھنا بھی مسلمان کے لئے مستحب ہے،  سوائے عید الفطر اور عید الاضحی کے۔

 ھ- پانچواں رکن: بیتِ حرام کا حج ہے۔

زندگی میں ایک مرتبہ مسلمان پر حج ادا کرنا فرض ہے،  اگر ایک سے زائد مرتبہ حج کرے تو یہ نفلی ہوگا،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے"۔ (آل عمران:97)۔  حج کے مہینہ میں، جوکہ ہجری اور قمری سال کا آخری مہنیہ ہے،  مسلمان (عازمِ حج) مکہ مکرمہ کے اندر شعائر کے مقامات پر جاکر (عبادت کرتا) ہے،  اور مکہ میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان (عازمِ حج) اپنے تمام لباس کو تن سے اتار کر احرام کا لباس زیب تن کرتا ہے جوکہ دو سفید چادروں سے عبارت ہوتا ہے۔

اس کے بعد حج کے مختلف اعمال (ارکان وواجبات) ادا کرتا ہے،  جیسے کعبہ مشرفہ کا طواف،  صفا ومروہ کے درمیان سعی،  عرفہ کے میدان میں وقوف اور مزدلفہ میں شب گزاری وغیرہ۔

روئے زمین پر ہونے والے (تمام اجتماعات میں) حج مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہے،  جس کے ذریعہ ان کے درمیان اخوت وہمدردی،  رحمت ورافت اور نصح وخیر خواہی کا جذبہ غالب رہتا ہے،  ان کا لباس ایک ہوتا ہے،  عبادتیں ایک ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں ہوتی،  سوائے تقوی کی بنیاد پر،  اور حج کا اجر وثواب بہت بڑا ہے،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:  (جو شخص حج کرے،  پھر کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو،  نہ فحش کام کرے اور نہ ہی فسق وفجور میں مبتلا ہو تو وہ ایسے گناہوں سے پاک واپس ہوگا جیسے اسے آج ہی اس کی ماں نے جنم دیا ہو)۔ ([4])

 ۵- ایمان کے ارکان

جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام کے ارکان سے مراد اس کے وہ ظاہری شعائر ہیں جنہیں مسلمان بجا لاتا ہے،  اور ان کی ادائیگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ دین اسلام کا متبع اور پیروکار ہے،  البتہ کچھ ارکان ایسے بھی ہیں (جن کا تعلق) دل کے اندرون سے ہے،  مسلمان پر واجب ہے کہ ان ارکان پر ایمان لائے تاکہ اس کا اسلام درست ہو سکے،  یہ (ارکان) ایمان کے ارکان سے موسوم ہوتے ہیں،  یہ ایمان اس کے دل میں جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر اس کی ایمانی درجات بھی بلند ہوں گے اور وہ اللہ کے مومن بندوں کی فہرست میں داخل ہونے کا مستحق ہوگا،  یہ رتبہ مسلمانوں کے عام رتبہ سے زیادہ بلند وبالا ہے،  چنانچہ ہر مومن مسلمان ہے،  لیکن ہر مسلمان مومنوں کے درجہ تک نہیں پہنچتا۔

اس لئے کہ یہ تو طے ہے کہ اس کے اندر ایمان کی اصلیت موجود ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ کمال ایمان سے بھی آراستہ ہو۔

ایمان کے چھ ارکان ہیں:

اور وہ یہ ہیں:  اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی و بُری تقدیر پر ایمان لانا۔

پہلا رکن:  یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں،  اس کے نتیجے میں دل اللہ کی محبت،  اس کی عظمت،  اس کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرنے اور اس وحدہ لا شریک لہ کے احکام واوامر کو بجا لانے(کے جذبات) سے معمور ہوتا ہے،  اسی طرح دل اللہ کے خوف اور اس کی نعمتوں کی امید سے بھی لبریز ہوتا ہے،  چنانچہ ایسا بندہ اللہ کے متقی اور راہِ مستقیم پر چلنے والے بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔

دوسرا رکن:  فرشتوں پر ایمان لانا اور یہ ایمان رکھنا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں جنہیں اللہ نے نور سے پیدا کیا،  آسمان وزمین میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا،  ان کی فطرت میں عبادت،  ذکر اور تسبیح بیان کرنے کی خُو پیدا کی گئی ہے،  چنانچہ وہ دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔ "جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں"۔ (التحريم: 6)۔  ان میں سے ہر ایک فرشتہ کے لئے متعین عمل ہے جس پر اللہ نے اسے مقرر کیا ہے،  چنانچہ ان میں سے کچھ حاملینِ عرش ہیں،  کوئی روح قبض کرنے پر مامور ہے،  کوئی آسمان سے وحی اتارنے پر مکلف ہے اور وہ جبرئیل علیہ السلام ہیں،  وہ تمام فرشتوں میں سب سے افضل ہیں،  کچھ فرشتے جنت اور جہنم کی نگرانی پر مامور ہیں،  ان کے علاوہ بھی بہت سے برگزیدہ فرشتے ہیں جو مومن انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لئے کثرت سے استغفار اور دعا کرتے ہیں۔

تیسرا رکن:  اللہ کی جانب سے نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا:

مسلمان اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ اللہ نے اپنے جن رسولوں پر چاہا اپنی کتابیں نازل فرمائی جو اللہ پاک کی سچی خبر اور منصفانہ حکم پر مشتمل تھیں،  اللہ نے موسی پر تورات،  عیسی پر انجیل،  داود پر زبور اور ابرہیم پر صحیفے نازل فرمائے،  یہ کتابیں آج اس شکل میں موجود نہیں ہیں جس شکل میں اللہ نے انہیں نازل فرمایا،  اسی طرح مومن اس بات پر بھی ایمان لاتا ہے کہ اللہ نے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا،  اس کی آیتیں پے در پے تیئیس سال کی (طویل) مدت میں نازل ہوئیں،  اور اللہ نے اسے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رکھا: ، ، ہم نے ہی ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔ (الحجر:9

چوتھا رکن: رسولوں پر ایمان لانا:

(رسولوں کے تعلق سے تفصیلی بات گزر چکی ہے) اور یہ (بھی گزر چکا ہے کہ) تاریخ کے ہر دور میں تمام قوموں کی طرف اللہ نے نبیوں کو معبوث فرمایا،  ان سب کا دین ایک تھا،  انہوں نے انسانوں کو اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی دعوت دی اور انہیں کفر وشرک اور نافرمانی سے منع کیا: "کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو"۔ (فاطر 24)۔  وہ انبیائے کرام بھی دیگر انسانوں کی طرح انسان ہی تھے،  لیکن اللہ نے انہیں اپنے دین اور پیغام کی تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا: "یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح  (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اود پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد  (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔ اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے اور موسیٰ  (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔ اللہ تعالی بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے"۔ (النساء 163-165)۔  مسلمان ان تمام رسولوں پر ایمان لاتا ہے،  ان سب سے محبت رکھتا اور ان سب کی حمایت کرتا ہے اور ان میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتا،  بلکہ جو شخص ان میں سے کسی ایک رسول کا بھی انکار کرے،  یا انہیں گالی دے،  یا سب وشتم کرے اور اذیت پہنچائے تو وہ تمام رسولوں کا منکر قررا پائے گا۔

ان میں سب سے بہتر،  سب سے افضل اور اللہ کے نزدیک سب سے عظیم مقام ومرتبہ کے حامل تمام خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

پانچواں رکن:  یومِ آخرت پر ایمان:

(اس بات پر ایمان لانا کہ) اللہ تعالی قیامت کے دن تمام بندوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا اور میدان محشر میں جمع کرے گا،  تاکہ دنیاوی زندگی میں انہوں نے جو اعمال کئے ان کا حساب وکتاب لے :  "جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے"۔ (إبراهيم: 48

"جب آسمان پھٹ جائے گا۔ اور جب ستارے جھڑ جائیں گے۔ اور جب سمندر بہہ نکلیں گے۔ اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی۔ (اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کر لے گا"۔ (الإنفطار 1-5

"کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔ اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟ آپ جواب دیجئے! کہ انہیں وه زنده کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واہے۔ وہی جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی جس سے تم یکایک آگ سلگاتے ہو۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ،کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پرقادر نہیں، بے شک قادر ہے۔ اور وہی تو پیدا کرنے واہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے۔ پس پاک ہے وه اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے"۔ (يس: ٧٧-٨٣)۔

"قيامت کے دن ہم درمیان میں  لا  رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو، پھر کسی پر کچھ بھی لم نہ کیا جائے گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم اسے حاضر کریں گے، اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے"۔ (الأنبياء: 47

" سو جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جس کسی نے ذرہ بھر بھی بدی کی ہوگی اسے بھی دیکھ لے گا"۔ (الزلزلہ: 7، 8)۔  جس پر اللہ کا غضب،  غصہ اور سخت عذاب ثابت ہوچکا ہوگا اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دئے جائیں گے اور نیکیاں کرنے والے مومنوں کے لئے جنت کے دروازے وا کردئے جائیں گے۔ "فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے،  کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے رہے"۔ (الأنبياء 103)۔  "کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وه اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جائیں گے، اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ابت ہو گیا۔ کہا جائے گا کہ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ جہاں ہمیشہ رہیں گے،  پس سرکشوں کا ٹھکانا بہت ہی برا ہے۔ اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروه کے گروه جنت کی طرف روانہ کیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آ جائیں گے اور دروازے کھول دیے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو،  تم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔ یہ کہیں گے کہ اللہ کاشکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعده پورا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں پس عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے"۔ (الزمر 71-75

اس جنت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ جنہیں نہ کسی کی آنکھ نے دیکھا،  نہ کانوں نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا :  "کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔ کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے۔ لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو"۔ (السجدة 17-20

"اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعده کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے وانہیں، اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزه نہیں بداور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لئے بڑی لذت ہے اور نہریں ہیں شہد کی جو بہت صاف ہیں اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے، کیا یہ مثل اس کے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہنے واہے؟ اور جنہیں گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا"۔ (محمد 15)۔"  یقیناً پرہیزگار لوگ جنتوں میں اور نعمتوں میں ہیں۔ جو انہیں ان کے رب نے دے رکھی ہیں اس پر خوش خوش ہیں، اوران کے پروردگار نے انہیں جہنم کے عذاب سے بھی بچا لیا ہے۔ تم مزے سے کھاتے پیتے رہو ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔ برابر بچھے ہوئے شاندار تختے پر تکیے لگائے ہوئے۔ اور ہم نے ان کا نکاح بڑی بڑی آنکھوں والی (حوروں) سے کر دیئے ہیں"۔ (الطور 17-20

اللہ تعالی ہم سب کو جنتیوں میں شامل فرمائے۔

چھٹا رکن : بھلی اور بُری تقدیر پر ایمان لانا:

"اس  کائنات کی ہر ایک حرکت اللہ جل شانہ کی تحریر کردہ تقدیر (میں شامل)ہے،   نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے"۔ (الحديد: 22

"بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ)  اندازے پر پیدا کیا ہے"۔ (القمر: 49)۔  "کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان وزمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے، یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے"۔ (الحج:۷۰)۔

ان چھ ارکان کو جو شخص مکمل کرلے اور ان پر کما حقہ ایمان لائے تو وہ اللہ کے مومن بندوں میں شمار ہوگا،  عام مخلوق کے ایمانی درجات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں،  ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت وبرتری حاصل ہوتی ہے،  ایمان کا سب سے بلند درجہ احسان کا رتبہ ہے،  اور وہ اس مقام تک پہنچنے کا نام ہے کہ : "آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں گویا آپ اسے دیکھ رہے ہوں،  اگر آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہے"۔([5]) یہ مخلوق میں سے چنیدہ لوگ ہیں جو جنت میں فردوسِ بریں کے بلند ترین درجات سے سرفراز ہوں گے۔


 ۶- اسلام کی تعلیمات اور اس کے اخلاق

 أ- مامورات  (وہ امور جن کا حکم دیا گیا ہے)۔

اب ہم چند ایسے اسلامی اخلاق وآداب ذکر کرنے جا رہے ہیں جن کے تعلق سے اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلم معاشرہ ان سے آراستہ وپیراستہ ہو،  ہم مختصر انداز میں انہیں ذکر کر رہے ہیں،  ہم نے اس بات کا مکمل اہتمام کیا ہے کہ یہ اخلاق اور آداب اسلام کے بنیادی مصادر یعنی کتاب الہی (قرآن کریم) اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کئے جائیں۔

 پہلا: سچ بولنا:

اسلام اپنی طرف نسبت رکھنے والے پیروکاروں پر سچ بولنا لازم ٹھہراتا ہے،  صدق گوئی کو ان کی ایسی صفت اور پہچان قرار دیتا ہے کہ کسی بھی حال میں اس سے دستبردار ہونا ان کے لئے جائز نہیں،  نیز انہیں دروغ گوئی سے نہایت سختی کے ساتھ منع کرتا اور بلیغ ترین عبارت اور واضح ترین بیان کے ذریعہ کذب بیانی سے انہیں روکتا ہے،  فرمان باری تعالی ہے: "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو"۔ (التوبہ: 119)۔  اور رسول اللہ نے فرمایا: (تم سچ بولنے کو لازم پکڑو، بلاشبہ سچ نیکو کاری کا راستہ بتلاتا ہے اور نیکو کاری یقینًا جنت میں پہنچا دیتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں صدیق (بہت سچا) لکھ دیا جاتا ہے،اور جھوٹ سے پرپیز کرو،  کیوں کہ  جھوٹ گناہ کا راستہ بتلاتا ہے اور بے شک گناہ جہنم میں پہنچا دیتا ہے، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں کذاب (نہایت جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے ([6]

دروغ گوئی مومنوں کی صفت نہیں،  بلکہ یہ منافقوں کی صفت ہے([7]) ،  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (منافق کی تین نشانیاں ہیں:  جب بات کہے تو جھوٹ بولے،  جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے)۔  ([8])

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام صدق گوئی کی صفت سے اس قدر لیس ہوئے کہ ان میں سے ایک شخص کا بیان ہے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دروغ گوئی (نام کی کوئی چیز )جانتے بھی نہیں تھے۔ یعنی ہمارے درمیان اس کا وجود نہ تھا)

  دوسرا: امانت ادا کرنا،  عہد وپیمان پورا کرنا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا:

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: " اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ كرو!" ۔ النساء: 58)  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "اور وعدے پورا کرو کیوں کہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔ اور جب ناپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے توکرو، یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے"۔ (الإسراء: 34،35

اللہ تعالی نے مومنوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا: "جو اللہ کے عہد (وپیمان) کو پورا کرتے ہیں اور قول وقرار کو توڑتے نہیں"۔ (الرعد:20

 تیسرا: تواضع وانکساری (کی پاسداری) اور کبر وغرور سے دوری:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع اور منکسر المزاج تھے،  اپنے صحابہ کے درمیان اسی طرح بیٹھتے جس طرح کوئی عام صحابی بیٹھتا،  آپ یہ نا پسند کرتے کہ آپ کی آمد پر لوگ (استقبال کے لئے) اٹھ کھڑے ہوں،  ضرورت مند انسان آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو لے جاتا اور جب تک آپ اس کی ضرورت پوری نہ کردیتے تب تک آپ کو نہیں چھوڑتا،  نیز آپ نے مسلمانوں کو بھی تواضع کا حکم دیا،  چنانچہ فرمایا: "اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو حتی کہ کوئی شخص دوسرے شخص پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے"۔([9])

 چوتھا: سخاوت وفیاضی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنا:

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "تم جو بھلی چیز اللہ کی راه میں دو گے اس کا فائده خود پاؤ گے، تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہئے،  تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا، اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا"۔ (البقرة:272)۔  اللہ تعالی نے مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: "وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو"۔ (الإنسان:8)۔  جود وسخا،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پیروی کرنے والے مومنوں کی صفت ہے،  آپ کے پاس جتنا بھی مال ہوتا،  آپ اسے خیر کے کاموں میں خرچ کردیتے،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: (ايسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ سے کسی چيز کا سوال کيا گيا ہو اور آپ نے جواب ميں ،نہيں،   فرمايا ہو)۔  آپ نے مہمان کی عزت وتکریم کی رغبت دلائی،  چنانچہ فرمایا: (جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے،  جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے،  اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے)۔ ([10])

 پانچواں: صبر وتحمل سے کام لینا اور اذیت کو برداشت کرنا:

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "جو مصیبت تم پر آجائے اس پر صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے"۔ (لقمان:17)۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے"۔ (البقرة:153)۔  ایک جگہ اور اللہ فرماتا ہے: "اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے"۔ (النحل:96)۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ اذیت کو برداشت کرنے والے تھے،  آپ بد سلوکی کا بدلہ بد سلوکی سے نہیں دیتے تھے،  آپ کی قوم نے آپ کو اذیت دی جبکہ آپ انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے،  انہوں نے آپ کو مارا پیٹا یہاں تک کہ خون آلود کردیا،  آپ اپنے چہرہ سے خون پوچھتے اور کہتے جاتے: (اے اللہ ! تو میری قوم کو معاف کردے کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے)۔ ([11])

 چھٹا: حیا وشرمندگی:

مسلمان پاکدامن اور باحیا ہوتا ہے،  حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے،  یہ حیا مسلمان کو عمدہ اخلاق اختیار کرنے پر آمادہ کرتی اور قول وعمل میں فحاشی اور بے حیائی سے روکتی ہے،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (حیا تو خیر ہی لاتی ہے)۔ ([12])

 ساتواں: والدین کی فرماں برداری:

والدین کی فرماں برداری کرنا،  ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور عمدہ رویہ روا رکھنا اور ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا دینِ اسلام کے بنیادی واجبات میں سے ہیں،  جوں جوں والدین بڑھاپے کو پہنچتے ہیں اور اولاد کے تئیں ان کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے،  توں توں یہ ذمہ داری مزید مؤکد ہوتی جاتی ہے،  اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں والدین کی فرماں برداری کا حکم دیا ہے اور ان کے عظیم حقوق پر زور ڈالا ہے،  چنانچہ اللہ تعالى فرماتا ہے: "اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"۔ (الاسراء: 23-24

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے"۔ (لقمان: ۱۴)۔

ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: (میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا : (تیری ماں،  اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں،  اس نے تیسری بار عرض کیا: پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں،  اس نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر تمہارا باپ ہے)۔ ([13])

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے مسلمان پر ماں باپ کے سارے حکم کی تابعداری کرنا واجب ٹھہرایا ہے،  الا یہ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں،  تو ایسی صورت میں مخلوق کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی نافرمانی نہیں کی جائے گی،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اگر وہ دونوں تچھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا،  ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچہی طرح بسر کرنا"۔ (لقمان:15)۔  نیز اسلام نے مسلمان پر یہ بھی واجب قرار دیا ہے کہ وہ والدین کی عزت وتکریم کرے،  ان کے لئے تواضع کے بازو پست رکھے،  کردار وگفتار سے ان کی عزت افزائی کرے اور ہر ممکن طریقے سے ان کی فرمانبرداری کرے مثلا ان کے خورد ونوش،  لباس وپوشاک اور علاج ومعالجہ کا انتظام کرے،  ان کی اذیت وتکلیف دور کرے،  ان کے لئے دعا واستغفار کرے،  ان کا وعدہ پورا کرے اور ان کے دوستوں کی عزت وتکریم کرے۔

 آٹھواں: دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا:

نبی کا ارشادِ گرامی ہے : (مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو)۔ ([14])

اور نبی کا ارشادِ گرامی ہے: (میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں)۔ ([15])

اور اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اور بے شک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے"۔ (القلم:4)۔  اور نبی کا ارشادِ گرامی ہے: (حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے ہی مجھے مبعوث کیا گیا ہے)۔ ([16]) اس لئے مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کی فرماں برداری کرے،  اسی طرح اپنی اولاد کے ساتھ بھی حسن سلوک کرے بایں طور کہ ان کی اچھی تربیت کرے،  انہیں دینی تعلیمات سے روشناس کرے،  انہیں دنیا وآخرت کی ہر نقصان دہ چیز سے دور رکھے،  ان پر اپنال مال خرچ کرے یہاں تک کہ وہ خود کفیل ہوجائیں اور کمانے پر قادر ہوجائیں،  اسی طرح مسلمان اپنی بیوی،  اپنے بھائیوں،  بہنوں،  رشتہ داروں،  پڑوسیوں اور تمام لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے،  اپنے بھائیوں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے،  رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے،  اپنے بڑوں کا احترام کرے،  چھوٹوں پر شفقت ومہربانی کرے،  اور پریشان حال کی باز پرس اور داد رسی کرے،  (اپنے ان اعمال کے ذریعہ) اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل پیرا ہو: "اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے، یتیموں سے، مسکینوں سے،  قرابت دار ہمسایہ سے،  اور بغل کے ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے"۔ (النساء: 36)۔  اور نبی کا ارشاد گرامی ہے: (جس کا اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے)۔ ([17])

 نواں: مظلوم کی مدد کرنے،  حق کو ثابت کرنے اور عدل وانصاف کو رواج دینے کی خاطر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا:

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "لڑو اللہ کی راه میں ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"۔ (البقرة:190)۔ایک اور جگہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: "بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا"۔ (النساء:75

اسلامی جہاد کا مقصد ہے حق کو ثابت کرنا،  لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کو عام کرنا،  ان لوگوں سے قتال کرنا جو بندوں پر ظلم کرتے،  ان کے حقوق سلب کرتے اور انہیں اللہ کی عبادت کرنے اور دین اسلام کو گلے لگانے سے روکتے ہیں،  ساتھ ہی اسلام اس فکر کی تردید بھی کرتا ہے کہ لوگوں کو طاقت کے زور پر اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے ،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں"۔ (البقرۃ: 256

اور جنگ کے دوران مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ عورت،  چھوٹے بچے اور عمر دراز بوڑھے کو قتل کرے بلکہ ظلم پرور جنگجوؤں سے ہی قتال کرے۔

جو شخص اللہ تعالی کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے اور اللہ کے پاس اس کے لئے بلند مقام اور بیش بہا اجر وثواب ہے،  اللہ تعالی فرماتا ہے: "جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مرده نہ سمجھیں، بلکہ وه زنده ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے"۔ (آل عمران:169،170

 دسواں:  دعا ومناجات،  ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن:

مومن کا ایمان جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر اللہ تعالی سے اس کا رشتہ بھی استوار ہوگا،  وہ (کثرت سے) اللہ کو پکارے گا اور اس کے سامنے گریہ وزاری کرے گا کہ اس کی دنیاوی ضروریات پوری کردے اور آخرت میں اس کے گناہ معاف فرمائے اور بلند درجات پر فائز کرے،  اللہ سخی وفیاض ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس سے مانگیں اور سوال کریں،  اللہ پاک فرماتا ہے: "جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں،  ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،  قبول کرتا ہوں"۔ (البقرة: 186)۔  چنانچہ اللہ تعالی دعا قبول کرتا ہے بشرطیکہ وہ دعا بندہ کی خیر وبھلائی پر مشتمل ہو،  اور ساتھ ہی اس دعا پر بندہ کو اجر وثواب سے بھی نوازتا ہے۔

مومن کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ شب وروز،  علانیہ طور پر اور پوشیدہ انداز میں بکثرت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے،  چنانچہ مختلف طریقے سے اللہ تعالی کی تعظیم کرتا اور اس کے ذکر واذکار میں منہمک رہتا ہے،  مثال کے طور پر یہ کلمات اور ان جیسے دیگر کلمات کا ورد کرتا رہتا ہے: سبحان اللہ،  الحمد للہ،  لا الہ الا اللہ،  اللہ اکبر،  اس ذکر پر اللہ کے بڑے اجر وثواب اور بیش بہا انعامات مرتب ہوتے ہیں،  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:    (مفرِّدون بازی لے گئے،  لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! مفردون سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والے (مرد)اور اللہ کو یاد کرنے والی عورتیں )([18])۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیاده کرو۔ اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو"۔ (الأحزاب:41 ،42   مزید اللہ پاک نے فرمایا: "اس لئے تم میرا ذکر کرو،  میں بھی تمہیں یاد کروں گا،  میری شکر گزاری کرو اور نا شکری سے بچو"۔ (البقرة:152)۔  ذکر الہی میں اللہ کی کتاب -قرآن مجید- کی تلاوت بھی شامل ہے،  چنانچہ بندہ جتنی کثرت سے قرآن کی تلاوت اور اس پر غور وفکر کرے گا،  اسی قدر اللہ کے یہاں اس کا مقام ومرتبہ بھی بلند ہوگا۔

قرآن پڑھنے والے سے قیامت کے دن کہا جائے گا: (پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور اسی طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے کہ دنیا میں پڑھا کرتا تھا،  جہاں آخری آیت ختم کرے گا وہیں تیرا مقام ہوگا)۔ ([19])

 گیارہواں: شرعی علم سیکھنا،  لوگوں کو سکھانا اور اس کی دعوت دینا:

آپ نے فرمایا: ( جو شخص کسی راستے میں حصول علم کی خاطر چلا ہو،  تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی کوئی راہ آسان کردے گا،  اور بلا شبہ فرشتے طالب علم کے کام سے رضا مندی کے اظہار کے طور پر اس کے لئے اپنا پر بچھادیتے ہیں)۔ ([20])

نبی مزید ارشاد فرماتے ہیں:  (تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے)۔ ([21]) ایک اور حدیث میں نبی ارشاد فرماتے ہیں:  (یقینا فرشتے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتا ہے،  خیر وبرکت کی دعائیں کرتے ہیں)۔ ([22]) نبی کا ارشاد گرامی ہے: (جس نے کسی ہدایت (خیر کے کام) کی رہنمائی کی،  اسے ان لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے،  ان (بعد والوں)کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی)۔ ([23])

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: "اور اس سے زیاده اچھی بات واکون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں"۔ (فصلت:33

 بارہواں: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ سے راضی ہونا:

اللہ کے مشروع کردہ کسی حکم پر اعتراض نہ کرنا،  کیوں کہ اللہ پاک تمام حاکموں سے بہتر حاکم اور تمام مہربانوں سے بڑا مہربان ہے،  زمین وآسمان کی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں،  اس کا فیصلہ بندوں کی خواہشات اور ستم پروروں کی آرزؤں سے متاثر نہیں ہوتا،  اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے ایسے (احکام) مشروع کئے جو ان کی دنیا وآخرت کے لئے مفید ہیں،  نیز اس سلسلے میں وہ بندوں کو ان کی طاقت سے بڑھ کر مکلف بھی نہیں کرتا،  اس کی بندگی کا تقاضہ ہے کہ ہر معاملہ میں اللہ کے مشروع کردہ (قوانین واحکام کو ہی) فیصل بنایا جائے اور اس فیصلہ پر مکمل دِلی اطمینان وخوشی کا مظاہرہ کیا جائے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں"۔ [النساء: ۶۵]۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے واکون ہوسکتا ہے؟"۔ [المائدۃ: ۵۰]۔

 ب۔ محرمات اور ممنوعات

 پہلا: شرک  (اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے کسی بھی قسم کی بندگی بجا لانا)۔

مثلا وہ شخص جو غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرتا،  یا غیر اللہ کو پکارتا،  اس سے حاجت روائی کی فریاد کرتا،  یا غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرتا،  یا کسی بھی قسم کی دیگر عبادت غیر اللہ کے لئے انجام دیتا ہے،  خواہ وہ پکارا جانے والا (معبود) زندہ ہو یا مردہ،  قبر ہو یا بت،  پتھر ہو یا درخت،  فرشتہ ہو یا نبی یا ولی یا کوئی حیوان یا اس کے لئے علاوہ کچھ اور،  یہ سب کا سب شرک ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں کرتا،  الا یہ کہ بندہ توبہ کرکے نئے سرے سے اسلام میں داخل ہو۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا"۔ (النساء:  48)۔  اسی لئے مسلمان اللہ عزوجل کے سوا نہ کسی کی عبادت کرتا ہے ،  نہ کسی کو پکارتا ہے،  اور نہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکتا ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں"۔ (الأنعام:162-163

یہ بھی شرک ہے کہ اللہ کے لئے بیوی یا بیٹے کا عقیدہ رکھا جائے -اللہ تعالی اس سے بہت زیادہ بلند وبرتر ہے- یا یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں جو اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں۔ "اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں")۔ الأنبیاء: ۲۲)۔

 دوسرا: جادو،  کہانت اور علمِ غیب کا دعوی کرنا:

جادو اور کہانت (اٹکل سے مستقبل کی خبر دینا) کفر ہے،  جادوگر اس وقت تک جادوگر نہیں بن سکتا جب تک کہ شیطانوں سے اس کا ربط ضبط نہ ہوجائے اور وہ غیر اللہ کی عبادت میں ملوث نہ ہوجائے،  یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے لئے جادوگروں کے پاس جانا جائز نہیں اور نہ ان کی تصدیق کرنا جائز ہے ان باتوں میں جن کا تعلق علم غیب کے دعوی سے اور ان واقعات وحوادث سے ہو جن کے بارے میں وہ دعوی کرتے ہیں کہ مستقبل میں وہ رونما ہونے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا"۔ (النمل: 65)۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "وه غیب کا جاننے واہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے"۔ (الجن: 26 - 27

 تیسرا: ظلم وستم:

ظلم ایک بہت کشادہ دروازہ ہے جس میں بہت سے برے اعمال اور بری صفات داخل ہیں جو فرد کو متاثر کرتی ہیں،  اس میں انسان کا اپنی ذات پر ظلم کرنا،  اپنے ارد گرد کے لوگوں پر ظلم کرنا،  اپنے معاشرہ پر ظلم کرنا بلکہ اپنے دشمنوں پر ظلم کرنا بھی داخل ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کردے،  عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے"۔ (المائدۃ: 8)۔  اللہ تعالی نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا،  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو)۔ ([24]) اور نبی کا ارشادِ گرامی ہے: (اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو گا، تب تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو گا، تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا: تم اسے ظلم کرنے سے روکو گے -یا فرمایا کہ تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے-، یہی اس کی مدد کرنا ہے)۔ ([25])

 چوتھا: اللہ کی حرام کردہ جان کو قتل کرنا،  الا یہ کہ حق کے ساتھ ہو:

دین اسلام میں قتل ایک بڑا سنگین جرم ہے جس پر اللہ نے دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور اس پر دنیا میں بھی سخت ترین سزا مرتب فرمائی ہے،  وہ یہ کہ قاتل کو قتل کرنے (کا حکم دیا)،   الا یہ کہ مقتول کے اولیا اسے معاف کردیں،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا"۔ (المائدۃ: ۳۲)۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے"۔ (النساء:93

 پانچواں: لوگوں کے مال ودولت پر حملہ کرنا:

خواہ چوری کے ذریعہ ہو یا ڈاکہ زنی کے ذریعہ،  رشوت کے ذریعہ ہو یا حیلہ اور فریب کے ذریعہ یا کسی اور طریقہ سے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا،عذاب ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت وحکمت واہے"۔ (المائدۃ:38)۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: " اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ"۔ (البقرة:188)۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: "جو لوگ ناحق لم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے"۔ (النساء:10

معلوم ہوا کہ دوسروں کے مال پر حملہ کرنے (والوں سے) اسلام پوری طاقت کے ساتھ نمٹتا ہے اور اس معاملہ میں سخت رویہ اختیار کرتا ہے،  حملہ کرنے والے پر ایسی بھاری بھرکم سزائیں مرتب کرتا ہے جو اس کے لئے اور اس جیسے ان تمام مجرموں کے لئے عبرت ہیں جو معاشرہ کے امن وسکون اور نظم وضبط کو بگاڑتے ہیں۔

 چھٹا: دھوکہ وفریب، اور خیانت:

خرید وفروخت،  عہد وپیمان اور دیگر تمام معاملات میں دھوکہ وفریب،  اور خیانت قابل مذمت صفات ہیں جن سے اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں۔ اس عظیم دن کے لئے۔ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے"۔ (المطففين:1-5)۔  اور نبی کا ارشادِ گرامی ہے: (جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں) ([26])۔ ایک جگہ اور اللہ فرماتا ہے : "یقینا دغا باز گنہگار اللہ کو اچھا نہیں لگتا"۔ (النساء:107

 ساتواں: لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنا:

سب وشتم،  غیبت وچغلخوری،  بغض وحسد،  بد گمانی،  جاسوسی اور مذاق واستہزا وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کی عزت وناموس )پر حملہ کرنا)، اسلام ایک صاف ستھرا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے،  جس میں محبت واخوت،  باہمی یکجہتی اور آپسی تعاون کی فضا قائم ہو،  اسی وجہ سے ایسی تمام سماجی بیماریوں کا وہ سختی سے مقابلہ کرتا ہے جو معاشرہ میں اختلاف پیدا کرنے اور اس کے افراد کے درمیان بغض وحسد اور کبر ونخوت کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم  لوگ ہیں۔ اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا  کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا  مہربان ہے"۔ (الحجرات:11، 12

اسی طرح اسلام،  معاشرہ کے افراد کے درمیان نسلی اور طبقاتی امتیاز کا بھی سختی سے مقابلہ کرتا ہے ،  کیوں کہ سب اس کی نظر میں برابر ہیں،  کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں سوائے اس دین وتقوی کی بنیاد پر جو ان میں سے کسی کے دل میں ہو،  وہ سب کے سب یکساں طور پر نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں،  اللہ تعالی فرماتا ہے: "اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے"۔ (الحجرات: 13

 آٹھواں: جوا بازی،  شراب نوشی اور منشیات کا استعمال:

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر، یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔ شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ"۔ (المائدۃ:90، 91

 نواں: مردار کا گوشت، (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت کھانا:

وہ تمام گندی چیزیں جو انسان کے لئے نقصاندہ ہیں،  اسی طرح وہ سارے جانور جنہیں غیر اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے (وہ حرام ہیں)،   اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔ تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو،  حرام ہے۔ پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے وااور زیادتی کرنے وانہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے وامہربان ہے"۔ (البقرة:172، 173

 دسواں: زنا اور قوم لوط کے گناہ کا ارتکاب کرنا:

زنا ایک شنیع اور مذموم عمل ہے جس سے اخلاق اور سماج میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،  نسب خلط ملط کا شکار ہوجاتا ہے،  خاندان برباد ہوجاتے ہیں اور صحیح تربیت مفقود ہوجاتی ہے،  زنا سے پیدا ہونے والے بچے جرم کی تلخی اور معاشرہ کی ناپسندیدگی کے احساس تلے دبے ہوتے ہیں،  اللہ تعالی کا فرمان ہے:"اور زنا کے پاس بهی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے" ۔ (الإسراء:32

زنا کی وجہ سے ایسی جنسی بیماریاں پھیلتی ہیں جو معاشرہ کے ڈھانچہ کو منہدم کردیتی ہیں،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب بھی کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ) علانیہ ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے بزرگوں میں نہیں تھیں)([27]

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زناکاری تک پہنچانے والے تمام راستوں پر قدغن لگانے کا حکم دیا ہے،  چنانچہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں،  کیوں کہ حرام نگاہ زنا کی طرف لے جانے والے راستے کا پہلا چھور ہے،  اسی طرح عورتوں کو بھی ستر پوشی،  حجاب اور پاکدامنی کا حکم دیا ہے،  تاکہ معاشرہ کو بدکاریوں کی خرابی سے محفوظ رکھا جا سکے،  اس کے بالمقابل شادی کا حکم دیا،  اس پر ابھارا اور اس کی رغبت دلائی اور اس پر اجر وثواب کا وعدہ فرمایا،  بلکہ میاں بیوی کے درمیان جو جنسی لطف اندوزی ہوتی ہے،  اس پر بھی اجر وثواب کا وعدہ فرمایا،  تاکہ ایسے قابل احترام اور پاک دامن خانوادے وجود پزیر ہوں جو آج کے شیر خوار اور کل کے مردِ آہن کے لئے کامیاب تربیتی آماجگاہ بننے کے لائق ہوں۔

 گیارہواں: سود خوری:

سود معاش واقتصاد کی تباہی کا پیش خیمہ اور مال کے ضرورت مند کی ضروت کا استحصال ہے،  خواہ یہ ضرورت مند تاجر ہو یا حاجت مند فقیر،  سود کا مطلب ہے ایک متعینہ مدت تک کے لئے اس شرط پر مال قرض دینا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت متعین اضافی مال اسے ادا کرنا ہوگا،  اس طرح سود دینے والا مال کے ضرورت مند فقیر ومحتاج کی حاجت کا استحصال کرتا اور اس کے کندھوں پر پے درپے قرضوں کا بوجھ ڈال دیتا ہے جو اصل سرمایہ سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

سود دینے والا،  تاجر،  یا صنعت کار،  یا کسان یا ان جیسے تمام طبقات کا استحصال کرتا ہے جو معاش واقتصاد کی رفتار جاری رکھتے ہیں۔

انہیں نقد مال کی سخت ضرورت ہوتی ہے جس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ انہیں جو قرض دیتا ہے،  اس کے منافع سے زائد رقم ان پر تھوپ دیتا ہے،  لیکن کساد بازاری اور نقصان کے پیش آمدہ خطرات میں وہ ان کا شریک نہیں ہوتا۔

جب اس تاجر کو (تجارت میں) نقصان ہوتا ہے تو اس پر قرضوں کا بوجھ اور قرض دینے والے کے سود کا بوجھ جمع ہوجاتے ہیں،  جبکہ اگر وہ دونوں نفع ونقصان ہر دو صورت میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے،  ایک محنت کرتا اور دوسرا اپنا مال لگاتا،  جیسا کہ اسلام نے حکم دیا ہے،  تو معاش کی گاڑی مسلسل چلتی رہتی اور سب کو فائدہ پہنچتا رہتا۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم میں علم ہو"۔ (البقرة:278، 279، 280

 بارہواں: بخیلی اور کنجوسی:

یہ انانیت اور خود پسندی کی دلیل ہے،  چنانچہ یہ بخیل اپنا مال ذخیرہ کرتا،  فقیروں اور مسکینوں کو زکاۃ دینے سے انکار کرتا،  معاشرہ سے کٹ کر رہتا اور آپسی تعاون اور باہمی اخوت وہمدردی کے اس اصول کا انکار کرتا ہے جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ آگاه ہے"۔ (آل عمران:180

 تیرہواں:  دروغ گوئی اور جھوٹی گواہی:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث گزر چکی ہے: (جھوٹ فجور کے راستے پر چلاتا ہے اور فجور آگ کی طرف لے جاتا ہے،  انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے)۔

جھوٹ کی نہایت نا پسندیدہ قسموں میں جھوٹی گواہی بھی ہے،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بہت زیادہ متنفر کیا اور اس کے برے انجام سے متنبہ فرمایا،  آپ نے بلند آواز سے اس کی وضاحت فرمائی اور اپنے صحابہ سے کہا: (کیا میں تمہیں بہت بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے،  پھر آپ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات،  آگاہ رہو! جھوٹی گواہی)۔ ([28]) آپ مسلسل اسے دہراتے رہے مقصد امت کو اس میں واقع ہونے سے ڈرانا تھا۔

 چودہواں:  کبر وغرور،  خود پسندی اور فخر وتکبر:

کبر وغرور اور فخر وتکبر دینِ اسلام میں نہایت مذموم،  حقیر اور ناپسند صفات ہیں،  اللہ تعالی نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،  اور ان کے اخروی انجام کے تعلق سے فرمایا: "کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھانہ جہنم میں نہیں؟"۔ (الزمر:60)۔  معلوم ہوا کہ متکبر اور خود پسند شخص اللہ کی نظر میں مبغوض اور مخلوق کی نظر میں بھی قابلِ نفرت اور نا پسند ہوتا ہے۔

 ج- محرمات سے توبہ کرنا

یہ تمام کبائر اور محرمات جن کا میں نے ذکر کیا،  تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان میں وقوع پژیر ہونے سے انتہائی متنبہ رہیں،  کیوں کہ ہر وہ عمل جسے انسان انجام دیتا ہے قیامت کے دن اسے اس کا بدلہ ملنے والا ہے،  اگر عمل اچھا ہوا تو بدلہ بھی اچھا ملے گا اور عمل برا ہوا تو بدلہ بھی برا ملے گا۔

اگر مسلمان ان میں سے کسی حرام کام کا ارتکاب کر بیٹھے تو اسے چاہئے کہ فورا اس سے توبہ کرے،  اللہ سے لو لگائے اور اس سے مغفرت کی دعا کرے،  اگر اس کی توبہ سچی ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس گناہ سے باز آجائے جس کا ارتکاب کیا تھا،  نیز اس کے ارتکاب پر ندامت وشرمندگی کا اظہار کرے اور یہ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ اس کا ارتکاب نہیں کرے گا،  اور اگر کسی کے حق میں اس سے ظلم سرزد ہوگیا ہو تو اس کا حق اسے واپس کردے،  یا اس سے معافی تلافی کرالے،  تب جاکر اس کی توبہ سچی مانی جائے گی،  اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا اور اس گناہ پر اسے سزا نہیں دے گا،  گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہوجاتا ہے جس نے گناہ کیا ہی نہیں۔

اسے چاہئے کہ کثرت سے استغفار کرے،  بلکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان سے جو چھوٹی بڑی غلطیاں سرزد ہوجایا کرتی ہیں ان سے بکثرت استغفار کیا کریں،  اللہ تعالی فرماتا ہے: "اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناه بخشواؤ (اور معافی مانگو) وه یقیناً بڑا بخشنے واہے"۔ (نوح:10)۔  کثرت سے استغفار کرنا اور اللہ کى طرف رجوع وانابت کرنا،  (رب کے سامنے) عاجزی کرنے والے مومنوں کی صفت ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "(میری جانب سے)کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واہے۔ تم (سب)اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے"۔ (الزمر:53، 54

 د- اس دین کے صحیح نقل کے تئیں مسلمانوں کی توجہ اور ان کا اہتمام

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور آپ کی تقریرات سے اللہ تعالی کے کلام کی توضیح اور دینِ اسلام کے اوامر ونواہی کی تشریح ہوتی ہے،  اس لئے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کے صحیح نقل پر بڑی توجہ دی اور اِن منقول (مرویات)کو ان اضافوں سے پاک کرنے کے لئے انتہائی جد وجہد کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں ہیں،  نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹے اقوال کو طشت ازبام کرنے کے لئے جان توڑ محنت کی،  اس کے لئے نہایت دقیق قواعد اور ایسے اصول وضع کئے کہ ان احادیث کو نسل در نسل نقل کرتے ہوئے ان کی رعایت وپاسداری کرنا لازم ہے۔

ہم حد درجہ اختصار کے ساتھ اس علم (علمِ حدیث)کے تعلق سے بات کرنے جا رہے ہیں تاکہ قاری کے سامنے وہ امتیازی خصوصیت عیاں ہوسکے جو امت مسلمہ کو دیگر تمام اقوام وملل سے ممتاز کرتی ہے،  بایں طور کہ اللہ نے امت مسلمہ کے لئے اپنے دین کی صاف وشفاف شکل کو محفوظ رکھا،  صدیوں گزرنے کے بعد بھی جھوٹی اور منگھڑت روایات اور بے بنیاد خرافات اس دین میں خلط ملط نہ ہو سکیں۔

اللہ تعالی کے کلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے نقل کی عمارت دو بنیادی اصولوں پر کھڑی ہے:

سینوں میں محفوظ کرنا اور کتابوں میں تحریر کرنا،  پہلے کے مسلمانوں کو تمام قوموں سے زیادہ پختہ حفظ اور وسیع فہم کی قوت حاصل تھی،  اس کی وجہ یہ تھی ان کا ذہن صاف اور حافظہ مضبوط تھا،  یہ بات ہر اس شخص کے لئے معلوم اور واضح ہے جو ان کی سیرت وتاریخ سے باخبر ہے،  چنانچہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حدیث سنتے ہی اسے اچھی طرح یاد کرلیتے،  پھر اسے تابعی تک پہنچاتے جو اسے یاد رکھتے،  پھر وہ اپنے بعد والے تک پہنچاتے،  اس طرح حدیث کو سند کے ساتھ نقل کرنے کا عمل جاری رہتا یہاں تک کہ کسی محدث تک وہ حدیث پہنچتی جو احادیث لکھتے،  انہیں زبانی یاد کرتے،  انہیں کسی کتاب میں جمع کرتے اور اس کتاب کو اپنے شاگردوں کے پاس پڑھـتے،  چنانچہ وہ شاگرد بھی ان احادیث کو یاد کرتے اور لکھتے،  پھر وہ اپنے شاگردوں کے پاس ان احادیث کو پڑھتے،  اسی طرح یہ سلسلہ پیہم اور مسلسل جاری وساری رہتا،  یہاں تک کہ یہ کتابیں اسی طریقہ اور اسی انداز سے آنے والی تمام نسلوں تک پہنچ جاتیں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کوئی بھی ایسی حدیث مطلق طور پر قابل قبول نہیں جس کی سند کے وہ رواۃ معلوم نہ ہوں جنہوں نے یہ حدیث ہم تک نقل کی ہو۔

اس سے ایک اور علم وجود میں آیا جو امت مسلمہ کو دیگر تمام امتوں سے ممتاز کرتا ہے،  وہ ہے علم الرجال یا علم الجرح والتعدیل۔

یہ وہ علم ہے جو ان راویوں کی حالات سے بحث کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نقل کرتے ہیں،  چنانچہ یہ علم ان رواۃ کی شخصی زندگی،  ان کی تاریخ ولادت ووفات،  ان کے اساتذہ اور شاگرد،  ان کے ہم عصر علماء کا انہیں ثقہ اور قابل اعتماد قرار دینے،  ان کے حفظ واتقان کے معیار کا پتہ لگانے،  ان کی امانت داری اور صدق گوئی جیسے ان تمام امور کا اہتمام کرتا ہے جن کا تعلق علم حدیث سے ہے،  تاکہ رواۃ کے اس سلسلہ اسناد سے جو حدیث مروی ہو،  اس کی صحت (وضعف) کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔

یقینا وہ ایک ایسا علم ہے جس میں یہ امت منفرد ہے،  اس کی وجہ اس امت کا یہ اہتمام ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہی بات منسوب کی جائے جس (کا انتساب)آپ کی طرف صحیح ہو،  ابتدائے تاریخ سے آج تک کسی انسان کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کے اہتمام میں اتنی بے پناہ اور بے انتہا جد وجہد نہیں کی گئی جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تعلق سے کی گئی۔

یہ ایک وسیع وعریض علم ہے جو ایسی کتابوں میں مدون ہے جن کتابوں نے روایتِ حدیث کا مکمل اہتمام کیا اور ہزاروں راویوں کی شخصی زندگی پر تفصیلی روشنی ڈالی،  صرف اس لئے کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث منتقل کرنے والے واسطے تھے،  اس علم میں کسی شخص کی رعایت نہیں کی گئی،  بلکہ اس علم نے دقیق نقد وتبصرہ میں ترازو کی طرح منصفانہ کردار ادا کیا،  کذاب (جھوٹے) کو جھوٹا کہا گیا،  صادق (سچے) کو سچا کہا گیا،  جس کا حافظہ کمزور تھا اور جس کا مضبوط تھا،  ان کی یہ صفات بھی صراحت کے ساتھ بیان کی گئیں،  اس کے لئے محدثین نے نہایت دقیق قواعد وضع کئے جن سے اہل فن واقف ہیں۔

حدیث اس وقت تک صحیح نہیں مانی جاتی جب تک کہ راویوں کا سلسلہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا نہ ہو،  اور ان راویوں میں عدالت (دینداری)،   صدق گوئی اور ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ نہ پایا جاتا ہو۔

 علمِ حدیث سے متعلق دوسرا نکتہ یہ ہے کہ

ایک ہی حدیث کے مختلف سلسلہ اسانید (طرق)بھی ہوتے ہیں،  بایں معنی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کئی سلسلہ اسانید (طرق)سے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک) پہنچتی ہے،  چنانچہ ایک حدیث کی دو یا تین یا چار اور بعض دفعہ دس یا اس سے بھی زائد سندیں ہوتی ہیں۔

سلسلہ اسانید جس قدر زیادہ ہوں اسی قدر وہ حدیث (صحت کے اعتبار سے) مضبوط ہوتی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت اسی قدر معتمد ہوتی ہے،  چنانچہ وہ حدیث جس کے (سلسلہ اسناد)کے ہر طبقہ میں دس سے زائد ثقہ راوی ہوں،  اس حدیث کو متواتر سے موسوم کیا جاتا ہے جو کہ مسلمانوں کے نزدیک نقل وروایت کی سب سے بلند اور (مستند ترین) قسم ہے،  جو مسئلہ دینِ اسلام میں زیادہ اہم ہوتا ہے جیسے اسلام کے ارکان،  تو اس مسئلہ کى متواتر روایات بھی بہت زیادہ ہوتى ہیں اور اس مسئلہ کى روایت کى سندیں بھی متعدد ہوتی ہیں،  اور جس مسئلہ کا تعلق فروع اور مستحبات سے ہے تو اس مسئلہ کى روایت کى سندیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا اہتمام بھی کم درجے کا ہوتا ہے۔

مسلمانوں نے جس علم کی روایت میں نقل کے دقیق اصولوں کا سب سے زیادہ اہتمام کیا وہ قرآن کریم ہے،  قرآن کے نقل وروایت میں بڑی توجہ اور انتہائی اہتمام سے کام لیا گیا، چنانچہ کتابوں میں اسے تحریر کیا گیا،  سینوں میں محفوظ کیا گیا،  اس کے الفاظ وحروف کی ادائیگی اور تلاوت کے اسلوب میں مہارت پیدا کی گئی،  اسے ہزاروں راویوں نے نسل در نسل سند کے ساتھ ہزراوں لوگوں تک نقل کیا،  یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس میں تحریف وتبدیلی کو راہ نہ مل سکی،  چنانچہ جو قرآن مغرب میں پڑھا جاتا ہے،  ہو بہو وہی قرآن مشرق میں بھی پڑھا جاتا ہے اور وہی قرآن روئے زمین کے تمام گوشوں میں پڑھا جاتا ہے،  جوکہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی مصداق ہے: "ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔ (الحجر:9

 ھ- مذکورہ تفصیلات کے بعد

آپ جان لیں کہ یہی وہ دین اسلام ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالی الوہیت میں یکتا ومنفرد ہے،  اس کا شعار اور پہچان (لا الہ الا اللہ) ہے،  یہی وہ اسلام ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے بطور دین کے پسند فرمایا۔

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام بطور دین پسند کر لیا"۔(المائدۃ: ۳)۔

اور یہی وہ دین اسلام ہے جس کے سوا اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی دین ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ "اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو تلاش کرے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ شخص آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا"۔ (آل عمران: ۸۵)۔

یہی وہ دینِ اسلام ہے جس پر ایمان لانے والا اور عمل صالح کرنے والا کامیابی سے ہمکنار ہو کر نعمتوں والی جنتوں میں داخل ہوگا۔ "جو لوگ ایمان ئے اور انہوں نے کام بھی اچھے کیے یقیناً ان کے لئے الفردوس کے باغات کی مہمانی ہے۔ جہاں وه ہمیشہ رہا کریں گے جس جگہ کو بدلنے کا کبھی بھی ان کا اراده ہی نہ ہوگا"۔ (107، 108)۔

یہ وہ دین اسلام ہے جو انسانوں کے کسی خاص طبقہ میں محصور یا متعین صنف کے لئے مخصوص نہیں ہے،  بلکہ ہر وہ شخص جو اس پر ایمان لائے اور اس کی طرف دعوت دے وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اور وہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور محترم ہے: ، ، بے شک تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص اللہ کے نزدیک سب سے معزز ہے"۔ (الحجرات: ۱۳)۔

ہم یہ لازم سمجھتے ہیں کہ محترم قاری کی توجہ ایسے اہم امور کی طرف مبذول کرائیں جو لوگوں اور اس دین کے درمیان حائل ہوجایا کرتے ہیں اور انہیں دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں:

پہلا:  دین اسلام کے عقیدہ،  اس کی شریعت واحکام اور آداب سے ناواقفیت -لوگ جس سے ناواقف ہوتے ہیں،  اس کے دشمن ہوتے ہیں- اسی لئے جو شخص دین اسلام کی معرفت حاصل کرنے کا جویا ہو اسے چاہئے کہ وہ پڑھے،  خوب پڑھے اور بار بار پڑھے یہاں تک کہ اس دین کو اس کے اصلی مصادر ومآخذ کی روشنی میں جان لے،  اسے چاہئے کہ ہر طرح کے تعصب سے کنارہ کش ہو کر حق کی تلاش کی خاطر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ روح کے ساتھ مطالعہ کرے۔

دوسرا:  دین،  رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کے تئیں وہ تعصب جس کے ساتھ انسان نشو ونما پاتا ہے،  اور باریکی اور سنجیدگی کے ساتھ اس دین کى صحت کے بارے میں نہیں سوچتا جس کا عقیدہ رکھتے ہوئے وہ نشو و نما پاتا ہے،  اس کے اندر قومی عصبیت اپنا کام کرتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے باپ داداؤں کے دین کے سوا سارے دین کا انکار کرتا جاتا ہے،  کیوں کہ عصبیت ہے ہی ایسی چیز جو نگاہوں پر پردہ ڈال دیتی،  کانوں پر بند لگا دیتی اور عقلوں کو ناکارہ بنادیتی ہے،  چنانچہ انسان آزادی اور غیر جانبداری کے ساتھ نہیں سوچ پاتا اور تاریکی اور روشنی میں تمیز کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

تیسرا:  نفس کی خواہشات،  اس کی چاہتیں اور شہوتیں،  (یہ خواہشات انسان کی) سوچ وفکر اور اس کے ارادے کا رخ اپنی چاہت سے طے کرتی ہیں،  اسے اس طرح بربادی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں کہ اسے محسوس بھی نہیں ہو پاتا اور حق قبول کرنے اور اس کے سامنے سپر ڈالنے سے پوری قوت کے ساتھ اسے روکتی ہیں۔

چوتھا:  بعض مسلمانوں کے اندر کچھ ایسی غلطیاں اور گمراہیاں پائی جاتی ہیں جنہیں جھوٹ اور بہتان کے طور پر اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،  جبکہ اسلام ان ساری غلطیوں سے بری ہے،  تمام لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کا دین انسانوں کی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔

حق اور ہدایت سے واقفیت حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو،  اس سے لو لگائے،  اس کے سامنے عاجزی اختیار کرے،  ذلت وانکساری کے ساتھ اس سے یہ دعا کرے کہ اللہ اسے اس راہ مستقیم اور سیدھے دین کی رہنمائی کرے جو اللہ کو محبوب اور پسند ہے،  اور جس (کے ذریعہ) بندہ کو خوشگوار زندگی اور ہمیشگی کی ایسی سعادت نصیب ہوتی ہے جس کے بعد کبھی شقاوت وبد بختی اسے چھو کر بھی نہ جائے،  نیز یہ بھی یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے جب بھی وہ پکارے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: "جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے"۔ (البقرة: 186

الحمد للہ کتاب اپنے اختتام کو پہنچی۔


([1]) ان کی ماں نے ان کو تابوت میں رکھ کر سمندر میں ڈال دیا۔

([2]) اس حدیث کو امام احمد (2/463) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے جیسا کہ احمد شاکر نے المسند (۱۹/۹۲) کی تحقیق میں ذکر کیا ہے،  [اس میں یہ الفاظ آئے ہیں]: (میرے وارثین کو (وراثت میں) ایک دینار بھی نہیں ملے گا،  میں جو کچھ بھی چھوڑ جاؤں،  ان میں سے میری بیویوں اور میرے خلیفہ کا خرچ نکالنے کے بعد جو کچھ بچے وہ صدقہ ہوگا)۔

([3]) اسے بخاری (4/230) نے روایت کیا ہے۔

([4]) اس حدیث کو بخاری (2/164) نے کتاب الحج،  باب فضل الحج المبرور میں روایت کیا ہے۔

([5]) اس حدیث کو بخاری (4777) نے روایت کیا ہے۔

([6]) اسے بخاری (6094) اور مسلم (2607) نے روایت کیا ہے۔

([7]) منافق وہ ہے جو ظاہر تو یہ کرے کہ وہ مسلمان ہے،  لیکن اس کی حقیقی صورت حال اور دِلی عقیدہ دینِ اسلام پر ایمان لانے والے کے برعکس ہوتا ہے۔

([8]) اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الإیمان،  باب علامۃ المنافق میں روایت کیا ہے (۱/۱۵)

([9]) اس حدیث کو امام مسلم (۱۷/۲۰۰) نے کتاب الجنۃ،  باب الصفات التی یعرف بھا أھل الجنۃ میں روایت کیا ہے۔

([10]) اس حدیث کو امام بخاری (6138) اور مسلم (47) نے روایت کیا ہے۔

([11]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب المرتدین باب (۵) (۹/۲۰) میں روایت کیا ہے۔

([12]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب باب الحیاء (۸/۳۵) میں روایت کیا ہے۔

([13]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ (۸/۲) میں روایت کیا ہے۔

([14]) اس حدیث کو ابو داود نے کتاب السنۃ باب الدلیل على زیادۃ ونقصانہ (5/6) میں اور ترمذی نے کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ وزوجھا (3/457) میں روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے،  اور البانی کا حکم دیکھنے کے لئے ملاحظہ کریں: صحیح ابی داود (3/886).

([15]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب المناقب،  باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (4/230) میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: (بلا شبہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو تم میں سب سے اچھے اخلاق کے ہوں)۔

([16]) اس حدیث کو امام احمد نے المسند (۱۷/۸۰) میں روایت کیا ہے اور احمد شاکر نے کہا: اس کی سند صحیح ہے،  نیز اسے بخاری نے کتاب الأدب میں،  بیہقی نے شعب الإیمان میں اور حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔

([17]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب الأدب،  باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ (۸/۱۳) میں روایت کیا ہے۔

([18]) اس حدیث کو مسلم نے کتاب الذکر والدعاء - باب الحث على الذکر (17/4) میں روایت کیا ہے۔

([19]) اس حدیث کو ابوداود (1464) نے روایت کیا اور مذکورہ الفاظ ابوداود کے روایت کردہ ہیں،  نیز اسے ترمذی (1464) نے،  نسائی نے (السنن الکبرى) (8056) میں اور احمد (6799). نے روایت کیا ہے۔

([20]) اس حدیث کو امام ترمذی نے ابواب العلم،  باب فضل الفقہ فی العبادۃ (4/153) میں،  ابوداود نے کتاب العلم،  باب الحث على طلب العلم (4/153) میں اور ابن ماجہ نے المقدمہ (1/81) میں روایت کیا ہے اور البانی نے (صحیح الجامع) (5/302) میں اسے صحیح کہا ہے۔

([21]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب الفضائل،  باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (6/236)میں روایت کیا ہے۔

([22]) اس حدیث کو ترمذی نے کتاب العلم،  باب ما جاء فی فضل الفقہ على العبادۃ (5/50) میں اس سے زیادہ طویل سیاق کے ساتھ روایت کیا ہے۔

([23]) اس حدیث کو مسلم نے کتاب العلم ،  باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ (16/ 227) میں روایت کیا ہے۔

([24]) اس حدیث کو مسلم نے کتاب البر والصلۃ والآداب،  باب تحریم الظلم (16/132) میں روایت کیا ہے۔

([25]) اسے بخاری نے کتاب المظالم والغصب،  باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما (3/168) میں روایت کیا ہے۔

([26]) اس حدیث کو امام مسلم نے کتاب الإیمان،  باب قول النبی (من غشنا فلیس منا) (۲/۱۰۹) میں روایت کیا ہے۔

([27]) اس حدیث کو ابن ماجہ نے کتاب الفتن،  باب العقوبات (۲/۱۳۳۳) میں روایت کیا ہے اور البانی نےاس حدیث کو حسن کہا ہے (صحیح ابن ماجۃ) (۲/۳۷۰)۔

([28]) اس حدیث کو بخاری نے کتاب الشہادات،  باب ما قیل فی شہادۃ الزور (۳/۲۲۵) میں روایت کیا ہے۔