صحیح عقیدہ، اس کی مخالف چیزیں اور نواقض اسلام
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے
مقدمہ
ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو اکیلا ہے اور درود وسلام ہو اس ذات پر جس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہيں اور آپ کے آل واصحاب پر بھی درود وسلام ہو۔
اما بعد! چونکہ صحیح عقیدہ ہی مذہب اسلام کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اسے ہی محاضرے کا موضوع بنایا جائے۔ کتاب و سنت سے ماخوذ شرعی دلائل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انسان کے اعمال و اقوال اسی وقت قبول ہوتے ہیں جب ان کی بنیاد صحیح عقیدے پر رکھی گئی ہو۔ عقیدہ اگر باطل ہو تو اس سے نکلنے والے اعمال و اقوال بھی باطل ٹھہرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’کل پاکیزه چیزیں آج تمھارے لیے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو۔ منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں‘‘۔ [سورہ المائدہ: 5] ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے )کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا‘‘۔[سورہالزمر : 65] اس معنی کی بہت سی آیتیں موجود ہیں، اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صحیح عقیدے کا خلاصہ ہے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھنا۔ یہی چھ باتیں صحیح عقیدے کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں اور انہی چھ باتوں کے ساتھ اللہ کی کتاب اتری ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ان چھ بنیادی باتوں سے ہی وہ سارے غیبی امور اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بتائی ہوئی ساری باتیں نکلتی ہیں جن پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ ان چھ بنیادی باتوں کے دلائل اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں،ان میں سے ایک دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: ’’ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو‘‘۔ [سورہ بقرہ: 177] ایک اور جگہ اس کا فرمان ہے: ’’رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے‘‘۔ [سوره بقره: 285] اسی طرح اللہ کا فرمان ہے: ’’ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، ایمان لاؤ! جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وه تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ [سورہ النساء: 136] اسی طرح اس کا فرمان ہے: ’’کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے،یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے‘‘۔ [سورہ الحج : 70] رہی بات ان چھ بنیادی باتوں پر دلالت کرنے والی صحیح حدیثوں کی، تو ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ اس زمرے میں وہ مشہور صحیح حدیث بھی داخل ہے جسے امام مسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ جبریل عليه السلام نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے جواب دیا: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لائے‘‘([1])۔ اسے بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ ان چھ اصولوں سے اللہ تعالی اور آخرت وغیرہ سے متعلق وہ سارے غیبی امور نکلتے ہیں، جن کا عقیدہ رکھنا ایک مسلمان پر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان
اس بات پر ایمان کہ صرف اللہ ہی برحق معبود اور عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
اللہ پر ایمان کے اندر اس بات پر ایمان داخل ہے کہ اللہ ہی بر حق معبود اور عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے،کیوں کہ وہی بندوں کا خالق، ان پر احسان کرنے والا، انھیں روزی دینے والا، ان کے ظاہر و باطن سے واقف، اطاعت گزاروں کو ثواب اور نافرمانوں کو عذاب دینے کی قدرت رکھنے والا ہے، اس نے اپنی اسی عبادت کے لیے جن و انس کو پیدا کیا ہے، او رانہیں اس کا حکم بہى دیا ہے, اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں‘‘۔[سورہ الذاریات، آیت : 56]۔’’نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں‘‘۔ [سورہ الذاریات: 57] ’’اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے‘‘۔ [سوره الذاريات: 58] اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا ہے: ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا۔ یہی تمھارا بچاؤ ہے‘‘۔ [سورہ البقرۃ: ۲۱]۔ ’’جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمھیں روزی دی۔ خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو‘‘۔ [سورہ البقرۃ: ۲۲]اللہ نے اسی حق کو بیان کرنے، اس کی جانب لوگوں کو بلانے اور اس کی مخالف چیزوں سے آگاہ کرنے کے لیے رسولوں کو بھیجا ہے اور کتابیں اتاری ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو‘‘۔ [سورہ النحل: 36]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم سب میری ہی عبادت کرو‘‘۔ [سورہالانبياء: 25]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں‘‘۔ [سورہ ہود: ۱-۲]اس عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ دعا، خوف، امید، نماز، روزہ، ذبح اور نذر وغیرہ جن کاموں کو عبادت کے طور پر کرتا ہے، انھیں صرف اللہ کے لیے,،خضوع وفروتنی کى حالت میں، اس کی رضا کی چاہت رکھتے ہوئے، اس کے غضب سے ڈرتے ہوئے، ساتھ ہی اس سے کمال درجے کی محبت رکھتے ہوئے اور اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوکر انجام دے۔ قرآن کا بیش تر حصہ اسی اہم ترین اصل پر مشتمل ہے۔ مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے۔ خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے‘‘۔ [سورہ الزمر: ۲-۳]۔ ایک اور مقام پر اس کا فرمان ہے: ’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا‘‘۔ [سورہ الاسراء: ۲۳] اسی طرح اس کا فرمان ہے: ’’تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لیے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں‘‘۔ [سورہ غافر: ۱۴]۔ جب کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں‘‘۔([2])
اللہ کے فرض کردہ اسلام کے پانچ ظاہری ارکان پر ایمان رکھنا۔
اللہ پر ایمان کے اندر اللہ کے فرض کردہ اسلام کے سبھی پانچ ظاہری ارکان پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔ یہ پانچ ارکان ہیں: اس بات کى گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہيں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور قدرت ہونے پر اللہ کے مقدس گھر کعبہ کا حج کرنا۔ ان کے علاوہ وہ سارے دوسرے فرائض بھی اس میں داخل ہیں، جو شریعت مطہرہ میں بیان ہوئے ہیں۔
پھر ان ارکان میں بھی سب سے اہم رکن اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہيں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ "لا الہ الا اللہ" کی گواہی کا تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کی جائے۔ یہی "لا الہ الا اللہ" کے معنی ہیں۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ: اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں ہے۔ لہذا اس کے سوا جن انسانوں، فرشتوں یا جنوں وغیرہ کی پوجا کی جاتی ہے، سب باطل معبود ہیں۔ برحق معبود صرف اللہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں‘‘۔ [سورہ الحج: ۶۲]۔ پیچھے اس بات کا ذکر آ چکا ہے کہ اللہ نے اسی اصل اصیل کے لیے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا ہے، انھیں اسی کا حکم دیا ہے، اسی پیغام کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا ہے اور اسی کو بیان کرنے کے لیے اپنی کتابیں اتاری ہیں۔ اس لیے اس پر بہترین انداز میں غور و فکر کرنی چاہیے اور اسے اچھے سے سمجھ لینا چاہیے، تاکہ وہ بھیانک جہالت واضح ہو سکے جو اس اصل عظیم کے تعلق سے اکثر مسلمانوں کے یہاں پائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں انھوں نے اللہ کے ساتھ غیراللہ کی بھی عبادت شروع کر دی ہے اور اس کے خالص حق کو دوسروں پر صرف کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہيں، ہمیں اللہ اس سے بچائے!
اس بات پر ایمان کہ اللہ ہی دنیا کا خالق، اس کے سارے امور کی تدبیر کرنے والا اور اپنے علم و قدرت کے مطابق اس کے بارے میں سارے فیصلے لینے اور انھیں نافذ کرنے والا ہے۔
اللہ پر ایمان کے اندر یہ بات داخل ہے کہ اللہ ہی دنیا کا خالق، اس کے سارے امور کی تدبیر کرنے والا اور اپنے علم و قدرت کے مطابق ان کے بارے میں جس طرح کا چاہے تصرف کرنے والا ہے۔ وہی دینا و آخرت کا مالک اور ساری کائنات کا رب ہے، اس کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ اس نے بندوں کی اصلاح اور انھیں دنیا و آخرت میں ان کی فلاح و صلاح کی جانب بلانے کے لیے رسولوں کو بھیجا ہے اور کتابیں اتاری ہیں۔ پھر یہ کہ ان تمام امور میں اللہ تعالی کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے‘‘۔سورہ الزمر: 62]] ایک اور جگہ اس کا فرمان ہے: ’’بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے‘‘۔ [سورہ الاَعراف: ۵۴]۔
اللہ کے اسمائے حسنی اور بلند اوصاف پر ایمان رکھنا، تحریف وتعطیل اور تکییف وتمثیل سے دور رہتے ہوئے۔
ایمان باللہ کے اندر یہ بات بھی داخل ہے کہ اس کی کتاب عزیز میں وارد اور اُس کے رسولِ امین سے ثابت اس کے اسمائے حسنیٰ اور بلند صفات پر ایمان رکھا جائے۔ اس معاملے میں نہ کسی تحریف سے کام لیا جائے، نہ تعطیل سے، نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے اور نہ ان کی مثال دی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ انھیں اسی طرح گزار دیا جائے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے عظیم معانی پر بھی ایمان رکھا جائے۔ اللہ کو ان اسما و صفات سے اس کے شایان شان انداز میں متصف کرنا ہوگا اور اس معاملے میں اسے اس کی کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہيں مانا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا، ہے۔ [سورہ الشوری: ۱۱]ایک دوسری جگہ اس کا فرمان ہے: ’’پس اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں مت بناؤ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ [سورہ النحل: 74] یہ اہل سنت والجماعت، جو اصحابِ رسول اور اچھے ڈھنگ سے اُن کى پیروى کرنے والے ہیں، کا عقیدہ, جسے امام ابوالحسن أشعری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’المقالات‘‘ میں محدثین اور اہلِ سنت سے نقل کیا ہے اور جسے دیگر اہلِ علم وایمان نے بھى نقل کیا ہے۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’زہری اور مکحول سے صفاتِ باری تعالیٰ سے متعلق آیتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ان کو ایسے ہی مانا جائے جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں‘‘۔ ولید بن مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام مالک، اوزاعی، لیث بن سعد اور سفیان ثوری رحمہم اللہ سے صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں وارد احادیث و روایات کے بارے میں پوچھا گیا تو اُن سب نے کہا: اُن کو ویسے ہی تسلیم کرو جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں اور ان کی کیفیت مت بیان کرو‘‘۔ اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم اس وقت کہا کرتے تھے، جب تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے: اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے عرش پر ہے۔ نیز ہم حدیث میں وارد صفات پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ جب امام مالک کے استاذ ربیعہ بن ابو عبدالرحمن رحمہما اللہ سے استواء (علی العرش) کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’’استواء تو مجہول نہیں ہے، لیکن اس کی کیفیت انسانی عقل و دانش سے باہر کی بات ہے۔ اللہ نے پیغام دیا، رسول کا کام اس کی ترسیل اور ہمارا کام اُس کی تصدیق ہے‘‘۔ جب امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’’استواء معلوم ہے، اُس کی کیفیت مجہول ہے، اُس پر ایمان لانا واجب اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے‘‘۔ پھر انہوں نے پوچھنے والے سے کہا: ’’تم بُرے آدمی لگ رہے ہو‘‘ ! پھر ان کے حکم سے اسے مجلس سے نکال دیا گیا۔
اسی معنی کا ایک قول ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ امام ابو عبدالرحمن بن مبارک کہتے ہیں: ’’ہم اپنے پاک پروردگار کے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ وہ اپنے آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے‘‘۔ اس باب میں ائمہ کے بے شمار اقوال موجود ہیں۔ اس جگہ سب کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی اس طرح کے مزید اقوال جاننے کا خواہش مند ہو، تو اُسے ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جنہیں علمائے سنت نے اس باب میں لکھا ہے۔ جیسے عبداللہ بن امام احمد کی کتاب ’السُنّہ‘، جلیل القدر امام محمد بن خزیمہ کی کتاب ’السُنّہ‘، ابوالقاسم اللالکائی طبری کی کتاب ’السُنّہ‘، ابوبکر بن ابوعاصم کی کتاب ’السُنّہ‘ نیز شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کے وہ جوابات، جو انہوں اہل حماۃ کے لئے لکھے ہیں۔ یہ بڑے عظیم اور مفید جوابات ہیں۔ ان کے اندر علامہ رحمہ اللہ نے اہلِ سنت کا عقیدہ بیان کیا ہے اور اُن کے بے شمار اقوال اور شرعی و عقلی دلائل بھی ذکر کیے ہیں، جو اہل سنت کے عقائد کی صحت اور ان کے مخالفین کی باتوں کے رد پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس سلسلے میں اُن کا وہ رسالہ بھی کافی اہم ہے، جو ’’التدمریہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور جس میں اس مسئلے کا شرح و بسط کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں اہل سنت کے عقیدے کو عقلی اور منطقی دلائل سے بیان کرنے کے ساتھ مخالفین کے موقف کا دنداں شکن جواب بھی دیا گیا ہے، جس سے حق واضح اور باطل کا پردہ فاش ہوجاتا ہے، ہر اُس اہلِ علم کے لیے جو نیک نیتی اور رغبت کے ساتھ حق کی معرفت کا جویا ہو۔ نیز یہ بھى واضح ہو جاتا ہے کہ اسما و صفات کے باب میں اہلِ سنت کے عقیدے کا جو بھی مخالف ہے وہ لازمی طور پر نقلی اور منطقی دلائل کی مخالفت کا شکار ہے، ساتھ ہی وہ جس مسئلہ کا بھی اثبات اور نفی کرتا ہے اس میں واضح طور پر تناقض کا شکار ہو جاتا ہے۔
جب کہ اس کے برخلاف اہل سنت والجماعت نے اللہ تعالی کے لیے ان امور کو ثابت کیا ہے، جنھیں خود اللہ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی صحیح سنت میں ثابت کیا ہے۔ لیکن اس اثبات میں تمثیل کا شائبہ تک نہیں ہے۔ انھوں نے اللہ کو اس طرح پاک قرار دیا ہے کہ اس میں اسے صفات سے عاری قرار دینے جیسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ اس طرح وہ تناقض سے محفوظ رہے اور انھوں نے سارے دلائل پر عمل بھی کر لیا۔ ہوتا بھی یہی ہے کہ جو رسولوں کے لائے ہوئے حق کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے اور اپنی طلب میں مخلص ہوتا ہے، اسے اللہ حق پر کاربند رہنے کی توفیق دیتا ہے اور اس کے سامنے اس کے دلائل روشن کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں۔ پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے‘‘۔ [سورہ الانبیاء: 18]ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال ﻻئیں گے، ہم اس کا سچا جواب اور عمده توجیہ آپ کو بتادیں گے‘‘۔ [سورہ الفرقان: 33] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر میں اللہ تعالی کے فرمان : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾ [الاعراف: : 54] کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس سلسلے بڑی اچھی بات کہی ہے، جس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسے یہاں نقل کر دینا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اس مقام پر لوگوں نے بہت ساری باتیں کہی ہیں، جنھیں بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس مقام پر سلف صالح؛ مالک، اوزاعی، ثوری، لیث بن سعد، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ جیسے قدیم و جدید ائمہ کے طریقے پر چلیں گے، جن کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کی آیتوں کو ہو بہو اسی طرح مان لیا جائے جس طرح یہ آئی ہوئی ہيں۔ ان کے اندر بیان کیے گئے صفات کی نہ کیفیت بیان کی جائے، نہ تشبیہ دی جائے اور نہ اللہ کو ان سے عاری مانا جائے۔ جب کہ ان آیتوں کا جو ظاہری مفہوم تشبیہ دینے والوں کے ذہن و دماغ میں فوری طور پر آتا ہے، اسے اللہ تعالی کے لیے ثابت نہیں مانا جا سکتا۔ کیوں کہ اللہ اپنی کسی مخلوق کے مشابہ نہیں ہے اور دنیا کی کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے۔ لیکن وہ سننے والا اور دیکھنے والا بھی ہے۔ اصل بات وہی ہے، جو متعدد ائمہ، جن میں امام بخاری کے شیخ نعیم بن حماد بھی شامل ہیں، نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: جس نے اللہ کو اس کی مخلوق کے مشابہ کہا، وہ کافر ہے اور جس نے کسی ایسی بات کا انکار کیا جس سے اللہ نے خود کو متصف کیا ہے، وہ بھی کافر ہے۔ جب کہ جن چیزوں سے اللہ نے خود کو یا اس کے رسول نے اسے متصف کیا ہے، ان کے اندر تشبیہ جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ لہذا جس نے اللہ کے لیے ان باتوں کو اس کے شایان شان انداز میں ثابت کیا جنھیں اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے یا جنھیں اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اسے نقائص سے پاک کہاتواس نے ہدایت کے راستے پر چل کر دکھایا‘‘۔
فرشتوں پر ایمان
فرشتوں پر ایمان کے اندر ان پر اجمالی اور تفصیلی دونوں ایمان شامل ہيں۔ ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنی اطاعت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور ان کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ باعزت بندے ہیں، کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے، بلکہ اس کے فرمان پر کاربند رہتے ہیں۔ (اس کا ارشاد ہے:) ’’ وه ان کے آگے پیچھے تمام امور سے واقف ہے۔ وه کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو وه تو خود ہیبت الٰہی سے لرزاں وترساں ہیں‘‘۔ [الأنبياء: : 28] فرشتوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ کچھ لوگ عرش کو اٹھائے رکھنے پر مامور ہيں۔ کچھ لوگ جنت و جہنم کے داروغہ ہیں۔ جب کہ کچھ فرشتوں کے ذمے لوگوں کے اعمال لکھنے کا کام ہے۔ جن فرشتوں کا نام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لیا ہے، جیسے جبریل، میکائیل، جہنم کے داروغہ خازن اور صور پھونکنے کے کام پر مامور فرشتہ اسرافیل، جس کا ذکر صحیح حدیثوں میں موجود ہے، وغیرہ ہم ان پر تفصیلی طور پر ایمان رکھتے ہيں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت (اللہ تعالیٰ نے) تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)‘‘۔([3]) اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
آسمانی کتابوں پر ایمان
کتابوں پر ایمان کا بھی یہی حال ہے۔ سب سے پہلے اس بات پر اجمالی ایمان رکھنا ضروری ہے کہ اللہ نے حق کو بیان کرنے اور اس کی جانب لوگوں کو بلانے کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں پر کچھ کتابیں اتاری ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’یقینًا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا، تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ [سوره الحديد: 25]ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’دراصل لوگ ایک ہی گروه تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو خوش خبریاں دینے اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے‘‘۔ [ سورہ البقرہ: 213 ]]۔
جب کہ اللہ نے جن کتابوں کی نشان دہی ان کے نام کے ساتھ کی ہے، جیسے تورات، انجیل، زبور اور قرآن، ہم ان پر تفصیلی طور پر ایمان رکھتے ہيں۔ قرآن سب سے افضل اور سب سے آخری آسمانی کتاب ہے، جو پچھلی کتابوں کی نگراں اور ان کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے۔ اس کی اتباع کرنا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیثوں کے ساتھ اسے فیصل ماننا پوری امت پر فرض ہے۔ کیوں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سارے جنوں اور انسانوں کی جانب رسول بناکر بھیجا ہے اور آپ پر اس قرآن کو اتارا ہے، تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کریں۔ اللہ نے اسے دلوں کے لیے شفا، ہر چیز کا واضح حل اور ہدایت و رحمت بھی بنایا ہے۔ اس کا فرمان ہے: ’’اور یہ ایک کتاب ہے، جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر و برکت والی۔ سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو‘‘۔ [سورہ الانعام: : 155]۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا ہے: ’’اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے ہربات کو کھول دینے والی، اور مسلموں کے حق میں ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے‘‘۔[سورہ النحل: ۸۹]۔ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک اور بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی (ان پڑھ) پر ایمان لاؤ جو اللہ اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں اور اس (نبی) کی اتباع کرو، تاکہ تم ہدایت پا سکو‘‘۔ [الاعراف: ۱۵۸]۔ اس معنی و مفہوم کی آیتیں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
رسولوں پر ایمان
اسی طرح رسولوں پر بھی اجمالی و تفصیلی ایمان رکھنا ضروری ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی جانب انہی میں سے کچھ لوگوں کو رسول بناکر خوش خبری دینے، ڈرانے والے اور حق کی دعوت دینے والے بناکر بھیجا ہے۔ لہذا جس نے ان کی دعوت قبول کر لی وہ سعادت سے ہم کنار ہوا اور جس نے ان کو ٹھکرا دیا، وہ ناکام و نامراد ہوا۔ اس سلسلے کی آخری کڑی اور سب سے افضل نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہيں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ [سوره النحل: 36]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’ہم نے انھیں رسول بنایا ہے، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے؛ تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے‘‘۔ [سورہ النساء: ۱۶۵]۔ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’ (لوگو!) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں، لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں‘‘۔ [سورہ الاَحزاب؛۴۰]۔ جن نبیوں کا نام اللہ نے لیا ہے یا جن کا نام اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں، ہم ان پر تفصیل و تعیین کے ساتھ ایمان رکھیں گے۔ جیسے نوح، ہود، صالح اور ابراہیم علیھم السلام جیسے نبی۔
آخرت کے دن پر ایمان
جہاں تک آخرت کے دن پر ایمان کی بات ہے، تو اس کے اندر موت کے بعد واقع ہونے والی تمام باتوں پر ایمان شامل ہے۔ جیسے قبر کا فتنہ، اس کا عذاب اور اس کی نعمت، قیامت کے دن رونما ہونے والے بھیانک اور مشکل حالات، صراط، میزان، حساب، جزا، لوگوں کو ان کے صحیفے دیے جانا اور دائیں یا بائیں ہاتھ یا پھر پیٹھ کے پیچھے سے صحیفوں کو حاصل کرنا وغیرہ۔ اس کے اندر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دئے جانے والے حوض پر ایمان اور جنت و جہنم اور ایمان والوں کو حاصل ہونے والے اپنے رب کے دیدار اور اس سے بات کرنے کی سعادت وغیرہ، جن کا قرآن پاک اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح سنت میں ہے، پر ایمان بھی شامل ہے۔ ان تمام باتوں پر ایمان رکھنا اور انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان کے مطابق ماننا ضروری ہے۔
تقدیر پر ایمان
جہاں تک تقدیر پر ایمان لانے کی بات ہے تو یہ چار باتوں پر ایمان کو مشتمل ہے:
پہلی بات: جو کچھ ہوچکا تھا یا ہونے والا ہے سب کچھ اللہ کے علم میں ہے نیز اسے بندوں سے متعلق دیگر امور جیسے بندوں کے احوال، ان کی عبادت، ان کی روزی روٹی، موت و زیست اور کارگزاریاں وغیرہ خوب معلوم ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مخفی نہیں ہے۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے‘‘۔ [سوره البقره: 231]۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے‘‘۔ [سورہ الطلاق: ۱۲]۔
دوسری بات: قضا وقدر کی ساری باتیں اللہ نے سبحانہ وتعالیٰ نے لکھ رکھی ہیں۔ جیساکہ اس کا فرمان ہے: ’’زمین جو کچھ ان سے گھٹاتی ہے وه ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے۔ [سورہ ق: ۴]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے‘‘۔[سورہ یٰسن: ۱۲]۔ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے‘‘۔ [سورہ الحج: ۷۰]۔
تیسری بات: اللہ کی مشیئتِ نافذہ پر ایمان؛ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔ جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ [سورہ الحج: : 18]۔ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا۔ وه اسی وقت ہو جاتی ہے‘‘۔ [سورہ یسن: 82]اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ علم واﻻ باحکمت ہے‘‘۔ [سورہ الانسان: ۳۰]۔
چوتھی بات: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ساری موجودات کو پیدا کیا ہے، اس کے سوا کوئی خالق ہے نہ ہی کوئی اور رب۔ جیساکہ اُس کا فرمان ہے: ’’اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ [سورہ الزمر: 62]۔ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’لوگو! تم پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے کیے ہیں انھیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمھیں آسمان وزمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟‘‘۔ [سورہ فاطر: ۳]۔ اس طرح اہلِ سنت وجماعت کے یہاں ایمان بالقدر(تقدیر پر ایمان) انھیں چار باتوں پر مشتمل ہے، اُن اہلِ بدعت کے برخلاف جنھوں نے ان میں سے بعض کا انکار کیا ہے۔
ایمان قول و عمل پر مشتمل ہے، جو اطاعت سے بڑھتا اور نافرمانی سے گھٹتا ہے۔
اللہ پر ایمان کے اندر اس بات پر ایمان بھی داخل ہے کہ ایمان قول و عمل پر مشتمل ہے، جو اطاعت سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے گھٹتا ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ کسی مسلمان کو شرک اور کفر سے کم تر کسی کبیرہ گناہ، جیسے زنا، چوری، سودخوری، نشہ آور اشیا کا استعمال، والدین کی نافرمانی وغیرہ کی بنیاد پر، جب تک ان کو حلال نہ سمجھے، کافر کہنا جائز نہيں ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے‘‘۔ [النساء: ۴۸]۔ ساتھ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی متواتر حدیثوں سے ثابت ہے کہ اللہ جہنم سے ہر اس شخص کو نکال باہر کرے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔
اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے نفرت کرنا، اللہ کے لیے دوستی کرنا اور اللہ کے لیے دشمنی کرنا۔
اللہ پر ایمان کے اندر اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے نفرت کرنا، اللہ کے لیے دوستی رکھنا اور اللہ کے لیے دشمنی رکھنا بھی شامل ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمانوں سے محبت اور دوستی رکھے گا اور کافروں سے نفرت اور دشمنی۔ یاد رہے کہ اس امت کے مسلمانوں کی فہرست میں سب سے اوپر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ان سے محبت اور دوستی رکھتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ نبیوں کے بعد سب سے اچھے لوگ ہيں۔ کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: ’’سب سے اچھے لوگ میرے زمانے کے لوگ ہيں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے‘‘۔([4]) اس کے صحیح ہونے پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ سب سے افضل صحابی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ، پھر عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اور پھر علی مرتضی رضی اللہ عنہ، پھر باقی عشرہ مبشرہ اور ان کے بعد باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔ اہل سنت والجماعت صحابہ کے بیچ رونما ہونے والے اختلافات کے پیچھے نہيں پڑتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس معاملے میں انھوں نے اجتہاد سے کام لیا تھا،لہذا جس کا اجتہاد صحیح تھا اسے دو اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد غلط تھا اسے ایک اجر ملے گا۔ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان رکھنے والے آپ کے اہل بیت سے محبت اور دوستی رکھتے ہيں اور آپ کی ازواج مطہرات سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان سبھی کے لیے اللہ کی رضامندی کی دعا کرتے ہيں، ساتھ ہی روافض کے طریقے سے بیزاری کا اظہار کرتے ہيں، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کو برا کہتے ہیں، اہل بیت کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور انھیں اللہ کے دیے ہوئے مقام و مرتبے سے اونچا دکھانے کی کوشش کرتے ہيں۔ اسی طرح ناصبیوں کے طریقے سے بھی بیزاری کا اظہار کرتے ہيں، جو اپنے قول و عمل سے اہل بیت کو اذیت دیتے ہيں۔
اب تک اختصار کے ساتھ ہم نے جو باتیں بیان کی ہیں، سب اس صحیح عقیدے کے اندر داخل ہیں، جن کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا تھا۔ یہی فرقہ ناجیہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، جس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اسے اللہ کی مدد حاصل ہوتی رہے گی۔ اسے اس کا ساتھ چھوڑنے والے نقصان نہیں پہنچا سکيں گے، یہاں تک کے قیامت آ جائے گی‘‘۔([5]) اسی طرح اللہ کے نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’یہودی اکہتر([6]) فرقوں میں اور نصاری فرقوں میں بٹ گئے تھےاورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور سوائے ایک فرقے کے سارے فرقے جہنم میں ہوں گے! صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی روش اور طریقے پر قائم رہے گا‘‘۔ یہی وہ عقیدہ ہے، جسے مضبوطی سے تھامے رہنا، اس پر قائم رہنا اور اس کی مخالفت سے بچنا ضروری ہے۔
اس عقیدے سے انحراف کرنے والوں اور اس کی مخالف راہ پر چلنے والوں کا ذکر۔
ان کی قسمیں:
جہاں تک اس راہ سے انحراف کرنے والوں اور اس کی مخالف راہوں پر چلنے والے لوگوں کی بات ہے، تو ان کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ بتوں، تھانوں، فرشتوں، اولیا، جنوں، درختوں اور پتھروں وغیرہ کی عبادت کرتے ہيں۔ ان لوگوں نے رسولوں کی دعوت کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کی اور اس سے معاندانہ رویہ اپنایا۔ یہی وہ طرز عمل ہے جو قریش اور دیگر عرب قبیلوں نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ روا رکھا تھا۔ وہ اپنے باطل معبودوں سے ضرورتوں کی تکمیل، بیمار لوگوں کو شفا دینے اور دشمنوں پر فتح یابی کی فریاد کرتے، ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور نذر و نیاز کرتے تھے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی ان باتوں کا رد کیا اور انھیں صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا، تو انھوں نے اسے ایک عجیب چیز سمجھا اور کہا: ’’کیا اس نےاتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا؟ واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے‘‘۔ [ص: ۵]۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم لگاتار انھیں اللہ کی جانب بلاتے رہے، شرک سے خوف دلاتے رہے اور ان کے سامنے اپنی دعوت کی حقیقت واضح کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے کچھ لوگو ں کو ہدایت دی۔ اس کے بعد لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے گئے۔ یہاں تک کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، صحابۂ کرام اور اخلاص کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں کی مسلسل دعوت اور طویل جہاد کے بعد اللہ کا دین تمام ادیان پر غالب آ گیا۔ لیکن پھر حالات بدل گئے اور اکثر لوگوں پر جہالت غالب آ گئی، یہاں تک کہ زیادہ تر لوگ انبیا و اولیا کے بارے میں غلو اور ان سے دعا و فریاد جیسے طرح طرح کے شرک میں مبتلا ہوکر جاہلیت کے دین کی جانب لوٹ گئے۔ انھوں نے "لا الہ الا اللہ" کا وہ معنی بھی نہیں سمجھا جو عرب کے کافروں نے سمجھا تھا۔ فاللہ المستعان!۔
جہالت کے غلبے اور نبوی دور سے دوری کی وجہ سے یہ شرک لوگوں کے اندر ہمارے اس دور تک پھیلتا ہی چلا گیا۔
بعد کے بت پرستوں کا شبہ -اور یہ وہی شبہ ہے جو پہلے کے بت پرستوں کا تھا- اور بعض کفریہ عقائد کا ذكر:
بعد کے بت پرست بھی اسی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، جس میں پہلے کے بت پرست پڑے ہوئے تھے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہيں اور ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہيں کہ یہ لوگ ہمیں اللہ کی قربت دلا دیں۔ اللہ نے ان کے اس شبہ کا رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کی، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اور کفر کیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں، جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں‘‘۔ [سورہ یونس: ۱۸]۔چنانچہ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو، جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وه پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے‘‘۔ [سورہ یونس: ۱۸]۔ اللہ پاک نے اس آیت میں بتایا کہ جس نے اس کے علاوہ نبیوں اور ولیوں یا کسی اور کی عبادت کی، اس نے شرک اکبر کیا، اگرچہ اس میں ملوث لوگ اسے کوئی اور نام دیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو دوست بنایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کو بس اسی لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں‘‘۔ [سورہ الزمر:۳ ]۔ چنانچہ اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ لوگ جس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا‘‘۔ [سورہ الزمر: 3]۔ سو اللہ نے واضح کر دیا کہ ان کا دعا، خوف اور امید وغیرہ کے ذریعے کسی اور کی عبادت کرنا اللہ کے ساتھ کفر ہے۔ ساتھ ان کے اس دعوے کو جھٹلا دیا کہ ان کے معبود انھیں اللہ کی قربت دلائیں گے۔
صحیح عقیدہ اور رسولوں کی تعلیمات کے مخالف اور کفریہ عقائد میں اس دور کے ملحدین کے عقائد بھی شامل ہیں، جو مارکس اور لینن جیسے الحاد و کفر کے داعیوں کی پیروی کرتے ہيں۔ چاہے وہ اپنے افکار و نظریات کو اشتراکیت کا نام دیں یا شیوعیت کا یا بعثیت کا یا کچھ اور۔ ان تمام ملحدین کے یہاں بنیادی بات یہی ہے کہ کسی معبود کا کوئی وجود نہيں ہے اور زندگی مادہ ہے۔ آخرت، جنت و جہنم اور تمام ادیان کا انکار بھی ان کے یہاں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا اور ان کے افکار و نظریات کو پڑھنے والا ان کے ان عقائد سے بخوبی واقف ہے۔ جب کہ اس بات میں کہیں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس طرح کے عقائد تمام آسمانی مذاہب کے مخالف ہیں اور اپنے ماننے والوں کو دنیا اور آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار کرنے والے ہیں۔
حق مخالف عقائد میں کچھ باطنیوں اور کچھ صوفیوں کا یہ عقیدہ بھی شامل ہے کہ ان کے کچھ نام نہاد اولیا، جنھیں وہ قطب، وتد اور غوث جیسے من گھڑنت ناموں سے پکارتے ہیں، کائنات کی تدبیر میں اللہ کے شریک ہیں اور اس میں تصرف بھی کرتے ہيں۔ یہ ربوبیت میں شرک کی بدترین مثال اور جاہلیت کے دور کے شرک سے بھی بھیانک شرک ہے۔ کیوں کہ عرب کے کافر ربوبیت میں شرک نہیں کرتے تھے۔ وہ صرف عبادت میں شرک کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کا شرک صرف خوش حالی کے وقت تک محدود تھا۔ وہ جیسے ہی کسی مشکل میں پڑتے خالص اللہ کو پکارنے لگتے تھے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے۔ پھر جب وه انھیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں‘‘۔ [سورہ العنكبوت ۶۵]۔ رہی بات ربوبیت کی، تو عرب کے لوگوں کو اس بات کا اعتراف تھا کہ رب صرف اور صرف اللہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے‘‘۔ [الزخرف: ۸۷]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’پوچھو تو سہی، تم کو آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے اور کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور مردے سے زندہ اور زندے سے مردہ کون نکالتا ہے، اور دنیا کے کاموں کو کون چلاتا ہے؟ تو اس کے جواب میں یہ مشرک ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ پھر تم پوچھو کہ پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے‘‘۔ [سورہ يونس: 31]۔ اس معنی و مفہوم کی آیتیں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
وہ باتیں جو پہلے کے مشرکوں کے یہاں نہیں تھیں، لیکن بعد کے مشرکوں کے یہاں پائی جاتی ہیں۔
بعد کے مشرک پہلے کے مشرکوں کے مقابلے میں دو باتوں میں آگے بڑھ چکے ہیں:
پہلی بات: ان میں سے کچھ لوگ ربوبیت میں بھی شرک کرتے ہيں۔
دوسری بات : یہ لوگ خوش حالی کے ساتھ ساتھ پریشانی کے وقت بھی شرک کرتے ہیں۔ ان سے میل جول رکھنے والے، ان کے احوال پر نظر رکھنے والےں نیز مصر میں حسین اور بدوی کی قبر کے پاس، عدن میں عیدروس کی قبر کے پاس، یمن میں ہادی اور شام میں ابن عربی کی قبر کے پاس، عراق میں عبدالقادر جیلانی کی قبر اور اس طرح کی دوسری مشہور قبروں کے پاس یہ جو کچھ کر رہے ہيں، اس کا مشاہدہ کرنے والے ان باتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ان قبروں کے بارے میں عام لوگ غلو کے شکار ہيں اور انھیں اللہ کے بہت سارے حقوق دے رہے ہيں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے ایسے لوگ بھی خال خال ہی نظر آ رہے ہیں جو ان کا رد کریں اور عوام کے سامنے اس توحید کی حقیقت بیان کریں، جس کے ساتھ اللہ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا تھا اور آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو بھیجا تھا۔ ان حالات میں ہم انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھ سکتے ہيں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت کی راہ پر دوبارہ واپس لائے، ان کے درمیان بڑی تعداد میں حق کے داعی پیدا فرمائے اور مسلم حکمرانوں و علما کو اس شرک سے لڑنے، اس کا اور اس کے وسائل کا خاتمہ کرنے کی توفیق دے۔ یقینا اللہ سننے والا اور قریب ہے۔
اسما و صفات کے باب میں صحیح عقیدے کے مخالف عقائد میں جہمیہ، معتزلہ اور ان کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کے صفات کی نفی کرنے والے، اسے کمال پر مبنی صفات سے عاری قرار دینے والے اور معدوم و محال اشیا اور جمادات کے وصف سے موصوف کرنے والے اہل بدعت کے عقائد بھی شامل ہیں،جب کہ اللہ تعالی ان کے قول سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے۔ ساتھ ہی اس میں اشاعرہ جیسے لوگوں کا عقیدہ بھی شامل ہے، جو بعض صفات کی نفی کرتے ہیں اور بعض کو ثابت مانتے ہيں۔ کیوں کہ انھوں نے جن صفات کو ثابت مانا، انھیں اسی طرح ان صفات کو بھی ماننا چاہیے، جن کی نفی کی ہے اور ان کے دلائل کی تاویل کر ڈالی ہے۔ نتیجے کے طور پر انھوں اپنے اس رویے کے ذریعے سمعی و عقلی دلائل کی مخالفت کی ہے اور واضح تناقض کے شکار ہوئے ہيں۔ اس کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت نے اللہ کے ان اسما و صفات کو ثابت مانا ہے، جنھیں خود اللہ نے اپنے لیے یا اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لیے ثابت کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اللہ کو مخلوق کی مشابہت سے اس طرح پاک قرار دیا ہے کہ اس میں اسے اسما و صفات سے عاری قرار دینے کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ اس طرح انھوں نے تمام دلیلوں پر عمل کیا، تحریف و تعطیل کے شکار نہيں ہوئے اور تناقض سے بھی محفوظ رہے، جس کے دوسرے لوگ شکار ہو چکے ہیں۔ یہی نجات کا راستہ ہے،اور دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ ہے۔ یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس پر اس امت کے سلف اور ائمہ چل کر گئے ہیں، پھر سچی بات یہ ہے کہ اس امت کے بعد کے لوگوں کی اصلاح اسی چیز کے ذریعے ممکن ہے، جس کے ذریعے اس کے ابتدائی دور کے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے،اور وہ چیز ہے کتاب و سنت کی اتباع اور ان کی مخالف چیزوں سے کنارہ کشی۔
صرف ایک اللہ کی عبادت کا وجوب اور اللہ کے دشمنوں پر فتح یابی کے اسباب کا بیان:
ایک مکلف پر واجب ہونے والی سب سے اہم چیز اور سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے اس پاک پروردگار کی عبادت کرے، جو آسمانوں اور زمین کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے اور جس نے اپنی مقدس کتاب میں کہا ہے: ’’بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا، وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے‘‘۔ [سورہ الأعراف: ۵۴]۔ اللہ پاک نے اپنی کتاب کے دوسرے مقام میں فرمایا ہے کہ اس نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اللہ عز و جل کا فرمان ہے: ’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں‘‘۔ [سورہ الذاریات، آیت: ۵۶]۔ یہ عبادت جس کے لیے اللہ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا ہے، اس سے مراد ہے ہر طرح کی عبادتوں، جیسے نماز، روزہ، زکاۃ، حج، رکوع، سجدہ، طواف، ذبح، نذر، خوف، امید، فریاد، مدد مانگنا، پناہ مانگنا اوردعا کی تمام اقسام کو صرف اللہ کے لیے انجام دینا۔ اس میں اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے قرآن مجید اور سنت صحیحہ سے ماخوذ اس کے تمام اوامر کی بجا آوری اور اس کے تمام نواہی سے اجتناب بھی شامل ہے۔ اللہ نے تمام جنوں اور انسانوں کو اسی عبادت کا حکم دیا ہے اور اسی عبادت کو بیان کرنے، اس کی تشریح کرنے، اس کی جانب بلانے اور اسے خالص اللہ کے لیے کرنے کا حکم دینے کے لیے رسولوں کو بھیجا اور کتابیں اتاری ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا۔ یہی تمھارا بچاؤ ہے‘‘۔ [سورہ البقرۃ: ۲۱]۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور تمھارے رب نے فیصلہ فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو‘‘۔ [سورہ الاسراء: 23]۔ اس آیت میں آئے ہوئے لفظ "قضی" کے معنی حکم دیا اور وصیت کی، ہے۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’اور انھیں یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ تعالی کی عبادت کریں دین کو اسی کے لیے خالص کر کے یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں اور یہی درست دین ہے‘‘۔ [سورہ البینۃ: ۵] اللہ کی کتاب میں اس معنی کی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔ اللہ عز و جل نے فرمایا ہے: ’’اور جو کچھ رسول تمھیں دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس سے وہ تمھیں روک دیں اس سے رک جایا کرو‘‘۔ [سورہ الحشر: ۷]۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’اے ایمان والو! فرماں برداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرماں برداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف۔ اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘۔ [سورہ النساء: 59]۔ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی‘‘۔سورہ النساء: 80 ]]۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو‘‘۔ [سورہ النحل: ۳۶]۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم سب میری ہی عبادت کرو‘‘۔ [سورہ الأنبياء: : 25]۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’الرٰ، یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے۔ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے واﻻ اور بشارت دینے واﻻ ہوں‘‘۔ [ہود: ۱-۲]۔
یہ محکم آیتیں اور کتاب اللہ میں موجود اس معنی کی دیگر ساری آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عبادتیں خالص طور پر اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ بات دین کی اصل بنیاد اور ملت کی اساس ہے۔ ساتھ ہی ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہی راز ہے جنوں اور انسانوں کی پیدائش، رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے اتارے جانے کا۔ لہذا تمام مکلف بندوں کو چاہیے کہ اس بات پر خصوصی توجہ دیں، اسے اچھی طرح سمجھیں اور انبیا و صالحین کے بارے میں غلو، ان کی قبروں پر عمارت بنانے، ان کو مسجد بنانے، ان کے اوپر گنبد تعمیر کرنے، ان سے مرادیں مانگنے، فریاد کرنے، ان کی پناہ لینے، ان سے ضرورت پوری کرنے کا سوال کرنے، مصیبتوں سے چھٹکارا مانگنے اور دشمنوں پر فتح یابی طلب کرنے جیسے الگ الگ قسم کے شرک سے، جس میں بہت سے اسلام سے نسبت رکھنے والے لوگ پڑے ہوئے ہیں، خود کو بچائے رکھیں۔ اللہ کی کتاب کے مدلول پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کے کیا حق ہیں اور اللہ پر بندوں کے کیا حق ہیں؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہيں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ جب کہ اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو عذاب نہ دے جو کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو‘‘۔([7]) صحیح بخاری میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں مرا کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراکر اسے پکارتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہوگا‘‘۔([8]) جب کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہوگا‘‘۔([9]) کتب حدیث میں اس معنی و مفہوم کی بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔ یہ ایک اہم ترین اور عظیم ترین مسئلہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو توحید کی جانب بلائیں اور شرک کی دنیا سے نکال باہر لائیں۔ چنانچہ آپ نے اپنا کام بخوبی انجام دیا اور اس راہ میں بڑی اذیتوں کا سامنا کیا، لیکن خود بھی صبر سے کام لیا اور آپ کے ساتھیوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ نتیجتا اللہ نے جزیرۂ عرب سے بتوں کا صفایا کر دیا اور لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو گئے۔ کعبہ کے ارد گرد اور اس کے اندر رکھے گئے بتوں کو توڑ دیا گیا، لات، عزی اور منات کو ڈھا دیا گیا، عرب کے مختلف قبیلوں میں موجود الگ الگ بتوں کو بھی توڑ دیا گیا اور اس طرح اللہ کا کلمہ اونچا ہو گیا اور جزیرۂ عرب میں اسلام کا بول بالا قائم ہو گیا۔ پھر مسلمانوں نے جزیرۂ عرب کے باہر دعوت و جہاد کا کام شروع کیا اور اللہ نے ان بندوں کو راہ راست دکھایا، جن کی قسمت میں سعادت لکھ دی گئی تھی۔ اللہ نے ان خوش قسمت بندوں کے ذریعے آباد جہان کے بیشتر حصوں میں حق و انصاف کی دعوت کو پھیلایا۔ اس طرح وہ ہدایت کے علم بردار، حق کے قائد اور عدل و اصلاح کے داعی بن گئے۔ پھر ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تابعین اور تبع تابعین نے بھی اللہ کے دین کی نشر و اشاعت کی، توحید کی دعوت دی اور اپنے جان و مال کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کی۔ چنانچہ اللہ نے بھی اس کی تائید و مدد کی، دشمنوں پر فتح و نصرت عطا کی اور اپنے اس قول میں کیے گئے وعدے کو پورا کیا: ’’ اےایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابتقدم رکھے گا‘‘۔ [سورہ محمد: 7]دوسری جگہ فرمایا: ’’جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں واﻻ بڑے غلبے واﻻ ہے۔ یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے‘‘ [الحج: ۴۱- ۴۱] لیکن پھر لوگ بدل گئے، الگ الگ راہوں میں چل پڑے، جہاد کے بارے میں سہولت پسندی سے کام لیا، راحت اور خواہشات کی پیروی کو ترجیح دی اور ان کے درمیان شریعت مخالف چیزوں کا چلن عام ہو گیا۔ نتیجتا ان کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں اللہ نے ان کے حالات بھی بدل دیے اور ان پر دشمن کو مسلط کر دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی‘‘۔ [سورہ الانفال: 53]۔ تمام مسلمانوں پر واجب ہےخواہ وہ حکومتیں ہوں یا عوام کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، خالص اسی کی عبادت کریں، اس کے سامنے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں سے توبہ کریں، اللہ کے واجب کردہ فرائض کو ادا کرنے، اس کی حرام کردہ چیزوں سے دور رہنے، آپس میں ایک دوسرے کو اس کا حکم دینے اور اس معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے میں چاق چوبند رہيں۔
ایک اہم ترین کام یہ ہے کہ شرعی حدود کو قائم کیا جائے، انسانی زندگی سے جڑے ہوئے ہر مسئلے میں شریعت کو فیصلہ کن درجہ دیا جائے، ہر مسئلے میں فیصلہ کے لئے اسى کى طرف رجوع کیا جائے ، شریعت مخالف وضعی قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے, ساتھ ہی اس کى طرف فیصلے کے لئے بالکل رجوع نہ کیا جائے اور تمام لوگوں کو شریعت کو ماننے کا پابند بنایا جائے۔ اسی طرح علما کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کے اندر دینی سمجھ کو فروغ دیں، اسلامی بیداری کو عام کریں، ایک دوسرے کو حق پر عمل کرنے، اس پر قائم رہنے، بھلائی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور اس کام میں حکام کی ہمت افزائی کرنے کا حکم دیں۔ اس کے ساتھ ہی تباہ کن افکار و نظریات جیسے اشتراکیت، بعثیت قومی تعصب وغیرہ جیسے شریعت مخالف افکار کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلمانوں کے حالات بہتر ہو سکتے ہيں، ان کا کھویا ہوا وقار واپس آ سکتا ہے، انھیں دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے اور دوبارہ روئے زمین پر ان کا تسلط قائم ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی‘‘۔ [سورہ الروم: ۴۷] ایک اور جگہ فرماتا ہے: ’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں، اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لیے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن و امان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں‘‘۔ [سورہ النور: ۵۵]۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مزید فرمایا: ’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ [غافر: 51]۔ ’’جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لیے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لیے برا گھر ہو گا‘‘۔ [غافر: ۵۲]۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلم قائدین و عوام کی اصلاح فرمائے، انھیں دین کی سمجھ عطا کرے، ان کے اندر تقوی کی بنیاد پر اتحاد پیدا فرمائے، انھیں سیدھے راستے پر چلائے، ان کے ذریعے حق کی مدد اور باطل کی سرکوبی کرے، انھیں بھلائی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کو حق کا حکم دینے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے۔ درحقیقت وہی اس کی طاقت رکھتا ہے۔ درود و سلام ہو اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی مخلوق میں سب سے بہتر شخص، ہمارے نبی، امام اور سردار محمد بن عبداللہ، ان کی آل، اصحاب اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
([1]) صحیح مسلم الإيمان (8)، سنن ترمذي الإيمان (2610)، سنن نسائي الإيمان وشرائعه (4990)، سنن أبی داود السنة (4695)، سنن ابن ماجه مقدمة (63)، مسند احمد (1/27)۔
([2]) صحیح بخاری الجھاد والسیر (2701)، صحیح مسلم الایمان (30)، سنن ترمذی الایمان (2643)، سنن ابن ماجہ الزھد (4296) اور احمد (5/238)۔
([3]) مسلم، کتاب الزهد والرقائق (2996)، احمد (6/153).
([4]) صحیح بخاری الشھادات (2509)، صحیح مسلم فضائل الصحابۃ (2533)، سنن ترمذی المناقب (3859)، سنن ابن ماجہ الاحکام (2362) اور مسند احمد (1/434)۔
([5]) مسلم، کتاب الإمارة (1920) ،ترمذی کتاب الفتن(2229) ابوداود کتاب لفتن والملاحم (4252) ،ابن ماجه، کتاب الفتن (3952) ،أحمد (5/279۔
([6]) ابن ماجہ الفتن (3992)۔
([7]) صحیح بخاری الاستئذان (5912)، صحیح مسلم الایمان (30)، سنن ترمذی الایمان (2643)، سنن ابن ماجہ الزھد (4296) اور احمد (5/238)۔
([8]) صحیح بخاری تفسیر القرآن (4227)، صحیح مسلم الایمان (92) اور مسند احمد (1/374)۔
([9]) صحیح بخاری العلم (129)، صحیح مسلم الایمان (32) اور مسند احمد (3/157)۔