فضائلِ صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم (⮫)


 فضائلِ صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم

فضائل الصًّحابة وأهل البيت  –رضي الله عنهم-

فرمانِ الٰہی ہے :      (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)[التوبۃ : ۱۰۰]

ترجمہ : ’’اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اولیں لوگ جو کہ         ( ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں ) دوسروں پر سبقت لے گئے ، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی ، اﷲ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اﷲ سے راضی ہوگئے ۔ اور اﷲ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے، ( اور ) یہی عظیم کامیابی ہے ۔‘‘     حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں :   (مَن كانَ مُستنًّا ؛ فليستَنَّ بمَن قَد ماتَ فإنَّ الحيَّ لا تُؤمَنُ علَيهِ الفِتنةُ، أولئِكَ أصحابُ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ، كانوا خِيَارَ الأمَّةِ،أبرَّها قلوبًا ،وأعمقَها عِلمًا، وأقلَّها تَكَلُّفًا، اختارَهُمُ اللَّهُ لِصُحبةِ نبيِّهِ، ونَقْلِ  دينِهِ، فَتَشَبَّهُوْا بِأَخْلَاقِهِمْ وَطَرَائقِهِمْ فَهُمْ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ کَانُوْا عَلَی الْهُدْی الْمُسْتَقِيْمِ) [حلية الأولياء: ۱/ ۳۰۵۔۳۰۶]                                                                                    ترجمہ :’’اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمدﷺ کی سنت پر چلے جو کہ فوت ہوچکے ہیں ، وہ امّت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔لہٰذا تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اﷲﷺکے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے۔  ‘‘        

 نبذة تعريفية عن الكتاب:

كتاب قيّم باللغة الأردية فيه بيان فضائل  ومناقب الصحابة وأهل البيت وفضائل الخلفاء الراشدين(أبي بكر وعمر وعثمان وعلي-رضي الله عنهم-) وفضائل أزواج المطهرات، وفضل فاطمة وعائشة والحسن والحسين، وفضل الأنصار، وفضل أهل بدر، وفضل أصحاب أحد، وأصحاب بيعة الرضوان،          وبيان علوّ مكانة أهل البيت لدى الصحابة، ووجود المصاهرات، والمناكحات، والصّداقة والمحبّة بينهم، كما فيه ذكر لعقيدة أهل السنة والجماعة في الصحابة وأهل البيت-رضوان الله عليهم أجمعين-، وبيان موقفهم تجاه من يسبّهم أو يبغضهم.

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

                                   تمہید

قارئین محترم !

اس مختصرسے رسالہ میں رسولِ اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعض فضائل ومناقب بیان کرنا مقصود ہے ۔ * وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کی تعریف خود اﷲ رب العزت نے اپنی سب سے مقدس کتاب قرآن مجید میں کی ہے، ان کیلئے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے اور ان سے جنات کا وعدہ کیا ہے ۔اور اسی طرح رسول اﷲﷺ نے بھی متعدد احادیث مبارکہ میں اپنے اِن ساتھیوں کی ستائش کی ہے ۔    * وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو وحیِ الٰہی کے سب سے پہلے مخاطب تھے ۔      *وہ عظیم شخصیات جنھیں اللہ رب العزت نے اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے اصحاب ہونے کے شرف سے نوازا اور انھیں آپ ﷺ کاساتھی بنایا ۔  * وہ جنہوں نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺکو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اپنے کانوں سے ان کے فرامین سنے ، پھر انھیں اچھی طرح ذہن نشین کیا اور یہ امانت لوگوں تک پہنچائی ۔     * وہ جنہوں نے رسول اﷲ ﷺ کی ایک ایک سنّت کو یاد کیا اور اسے امّت تک پہنچانے کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا۔ * وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے دینِ اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جانوں تک کو قربان کردیا اور شیوۂ فرمانبرداری کی ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک پڑھی اور سنی جاتی رہیں گی ۔      * وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کے ایمانِ صادق کو اللہ تعالی ٰنے باقی لوگوں کیلئے معیار قرار دیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے : (فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ)             ترجمہ : ’’ پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (اس لئے کہ آپ کی ) مخالفت پر تلے ہوئے ہیں  ([1])۔‘‘         * وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جن کا راستہ چھوڑنے پر اللہ تعالی ٰنے جہنم کی وعید سنائی ہے ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :     (وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا)  ترجمہ : ’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اُسے اُدھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بُری جگہ ہے([2]) ۔ ‘‘     اس آیت کریمہ میں مومنوں کے راستے سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ ہے کیونکہ نزولِ قرآن مجید کے وقت وہی مومن تھے ۔لہذا اس رسالہ میں انہی حضرات رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ہے ۔

 قرآن وحدیث میں ان کے فضائل خصوصا خلفائے راشدین اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مناقب، ان کے درمیان آپس میں محبت بھرے تعلقات اور باہمی رشتے، اہل السنۃ والجماعۃ کا ان کے متعلق عقیدہ ... یہ ہیں وہ بعض اہم عناوین جو اس رسالہ کی زینت ہیں ۔   اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان حضرات سے سچی محبت کرنے اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے روز انہی کے ساتھ ہمیں جنت میں داخل فرمائے ۔ آمین     

                                                ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد

 صحابی کی تعریف:

صحابی کسے کہتے ہیں ؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب ذکر کرنے سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ’’ صحابی ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟       حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ نے ’’ صحابی ‘‘ کی تعریف یوں کی ہے : ’’ الصحابی من لقی النبی ﷺ مؤمنا به ومات علی الإسلام ‘‘ یعنی ’’ صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا ۔‘‘   پھر اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو رسول        ا ﷲﷺ سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ کی رسالت کو مانتا تھا ،پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آگئی ، خواہ وہ زیادہ عرصے تک رسول اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا یاکچھ عرصہ کے لئے۔اور خواہ اس نے آپﷺکی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اور خواہ وہ آپﷺ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ اور خواہ اس نے رسول اﷲﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا یا بصارت نہ ہونے کے سبب وہ آپ کا دیدار نہ کرسکا ، ہر دو صورت میں وہ ’’صحابئ رسول ‘‘ شمار کیا جائے گا ۔ اور ایسا شخص ’’ صحابی ‘‘ متصور نہیں ہوگا جو آپ پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگیا ([3]) ۔‘‘     

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل قرآن مجید میں     اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کاحسین تذکرہ کرتے ہوئے ان کی خوب تعریف فرمائی ہے ۔ کچھ آیات کریمہ ملاحظہ فرمائیں :      ۱۔ فرمانِ الٰہی ہے :(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)

ترجمہ : ’’اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اولیں لوگ جو کہ         ( ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں ) دوسروں پر سبقت لے گئے ، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی ، اﷲ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اﷲ سے راضی ہوگئے ۔ اور اﷲ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے، ( اور ) یہی عظیم کامیابی ہے([4]) ۔‘‘         اس آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے : أ- مہاجرین ، جنہوں نے رب العزت کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن اور مال ومتاع کو چھوڑا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔         ب- انصارِ مدینہ ، جنہوں نے رسول اﷲﷺ اور مہاجر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نصرت ومدد کی اور ان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔   اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں ( مہاجرین وانصار ) میں سے ان حضرات کا تذکرہ فرمایا ہے جو ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں سبقت لے گئے ، یعنی سب سے پہلے ہجرت کرکے اور سب سے پہلے ایمان قبول کرکے وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے ۔   ج-وہ حضرات جنہوں نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سے پیروی کی اور ان کے نقشِ قدم پہ چلے ، ان میں متأخرین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو انہیں معیارِ حق تصور کرتے ہوئے ان کے پیروکار رہیں گے ۔     تینوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے انہیں دو خوشخبریاں سنائی ہیں ، ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا ہے ، یعنی ان کی لغزشیں معاف کردی ہیں اور ان کی نیکیوں کو شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ۔ اور دوسری یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے جنات تیار کردی ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے ۔      محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مغفرت کردی ہے اور اپنی کتاب میں ان کے لئے جنت کو واجب قرار دیا ہے، ان میں سے جو نیک تھا اس کے لئے بھی اور جو خطا کار تھا اس کے لئے بھی ، پھر انہوں نے قرآن مجید کی یہی آیت تلاوت کی اور کہا :

’’اس میں اﷲ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے رضامندی اور ان کے لئے جنت کا اعلان کیا ہے ، اور ان کے پیروکاروں کے لئے بھی یہی انعام ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان کی اخلاص ومحبت سے پیروی کریں ([5]) ۔‘‘                                      ۲۔ فرمانِ الٰہی ہے : (لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ)           ترجمہ : ’’اﷲ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی ، جنہوں نے تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا ، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا ، پھر اﷲ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ،بلا شبہ اﷲ تعالیٰ ان سب پر بہت شفیق ومہربان ہے([6])۔ ‘‘   اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہاجرین وانصار کی تعریف فرمائی ہے جنہوں نے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ پیغمبرﷺ کا ساتھ دیا ۔

 اور ’’ تنگی کے وقت ‘‘ سے مراد جنگِ تبوک ہے جس میں تنگی کا عالم یہ تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ کھانے کو کوئی چیز ملتی تھی اورنہ پینے کو پانی میسر تھا ، شدید گرمی کا موسم تھا اور سواروں کی بہ نسبت سواریاں انتہائی کم تھیں ، لیکن اس قدر تنگی کے عالم میں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر قسم کی تنگ حالی کو برداشت کیا ۔ حضرت عمرؓ سے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : ’’ہم شدید گرمی کے موسم میں نکلے ، راستے میں ہم ایک جگہ پر رُکے جہاں ہمیں شدید پیاس محسوس ہوئی ، حتیٰ کہ ہمیں ایسے لگا کہ ہماری گردنیں شدتِ پیاس کی وجہ سے منقطع ہوجائیں گی ۔ اور حالت یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا اونٹ ذبح کرتا تو اس کے گوبر کو نچوڑ لیتا اور جو پانی نکلتا اسے پی لیتا ، جب حالت اس قدر سنگین ہوگئی تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اکرمﷺ سے گذارش کی کہ اے اﷲ کے رسول ! اﷲ تعالیٰ آپ کی دُعا قبول کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے لئے دعا کیجئے ، چنانچہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابھی آپ ﷺکے ہاتھ واپس نہیں لوٹے تھے کہ ہم پر بادل چھاگئے اور بارش ہونے لگی ، چنانچہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے برتن بھر لئے ، پھر جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بارش تو محض اسی جگہ پر ہی ہوئی تھی جہاں ہم رکے ہوئے تھے ([7])۔‘‘   اور امام قتادۃرحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے پینے کے سامان کی اس قدر کمی تھی کہ کھجور کا ایک دانہ آدھا آدھا کرکے دو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں بانٹ لیتے اور شدتِ پیاس کو بجھانے کے لئے کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے ایک ہی دانے کو چوستے رہتے ۔         حضرت ابوہریرہ ؓاور حضرت ابو سعیدؓروایت کرتے ہیں کہ :       ’’ہم غزوۂ تبوک میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، اس دوران لوگ شدتِ بھوک میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے ، اے اﷲ کے رسول ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرلیں ، تو آپ نے اجازت دے دی ، لیکن حضرت عمرؓ آئے اور آپﷺ سے کہنے لگے : اے اﷲ کے رسول ! اگر یہ اپنے اونٹ ذبح کریں گے تو سواریاں کم ہوجائیں گی ، آپ انہیں حکم دیں کہ ان کے پاس کھانے کی جو بھی چیز موجود ہو وہ ایک جگہ پر اکھٹی کریں ، پھر آپ اﷲ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں ، تو آپﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے ، پھر آپ نے ایک چادر (دستر خواں ) بچھانے کا حکم دیا ، اور لوگوں کو حکم دیا کہ جس کسی کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اسے لاکر اس چادر پر رکھ دے ، چنانچہ ایک شخص آتا اور مٹھی بھر مکئی اس پر رکھ دیتا ، پھرایک اورشخص آتا اور مٹھی بھر کھجور اس پر رکھ دیتا ، پھر ایک اورشخص آتا اور وہ جَو کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس میں جمع کردیتا۔ اس طرح دستر خواں پر کھانے کاتھوڑا سا سامان جمع ہوگیا ، پھر آپﷺ نے برکت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد لوگوں سے کہا : ’’ اب تم اپنے برتنوں میں اس کھانے میں سے لے جاؤ ‘‘ چنانچہ اس فوج کے تمام افراد نے اپنے اپنے برتن خوب بھرلئے ، اور سب کے سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ، پھر رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں اﷲ کا رسول ہوں ، اور جو شخص بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ اﷲ سے ملے گا اور اسے ان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا تو اﷲ تعالیٰ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا  ([8]) ‘‘۔     جنگِ تبوک کے دوران جن سنگین حالات سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دوچار ہوئے انہیں قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر مضبوط ایمان کے حامل اور کس طرح صبر وتحمل کے پیکر تھے ، اور انہوں نے دینِ اسلام کی خاطر کیا کیا مشکلات برداشت کیں ، تبھی تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے حال پر خصوصی توجہ فرمائی، اور اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اس بات کا واضح اعلان فرمادیا کہ وہ ان سے راضی ہوگیا ہے اور یہ اس سے راضی ہوگئے ہیں ۔       ۳۔فرمانِ الٰہی ہے :  (قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّـهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ)’’آپ کہہ دیجئے ! تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں ، اور اس کے بندوں پر سلام ہے جنہیں اس نے چن لیا ([9]) ۔‘‘ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں پر سلام بھیجا ہے اور انہیں برگزیدہ قرار دیا ہے ، حضرت ابن عباس ؓکا کہنا ہے کہ ان سے مراد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکے لئے منتخب فرمایا ۔  اور امام ابن جریر الطبری کہتے ہیں :    ’’ وہ بندے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے چن لیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اﷲ نے اپنے نبی کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں آپ کا ساتھی اور وزیر بنایا ([10]) ۔ ‘‘        اور حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں : (مَن كانَ مُستنًّا ؛ فليستَنَّ بمَن قَد ماتَ فإنَّ الحيَّ لا تُؤمَنُ علَيهِ الفِتنةُ، أولئِكَ أصحابُ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ، كانوا خِيَارَ الأمَّةِ،أبرَّها قلوبًا ،وأعمقَها عِلمًا، وأقلَّها تَكَلُّفًا، اختارَهُمُ اللَّهُ لِصُحبةِ نبيِّهِ، ونَقْلِ  دينِهِ، فَتَشَبَّهُوْا بِأَخْلَاقِهِمْ وَطَرَائقِهِمْ فَهُمْ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ کَانُوْا عَلَی الْهُدْی الْمُسْتَقِيْمِ)ترجمہ :’’ اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمدﷺ کی سنت پر چلے جو کہ فوت ہوچکے ہیں ، وہ امّت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ لہٰذا تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اﷲﷺکے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے([11])۔ ‘‘           اور اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں :   ’’ اﷲ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں حضرت محمدﷺ کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لئے انہیں اپنے لئے چن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کردیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ([12]) ۔ ‘‘         ۴۔فرمان الٰہی ہے :  (مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)     ترجمہ : ’’محمد ( ﷺ ) اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں ،آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں ، اﷲ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی ان کی پیشانیوں پر عیاں ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی مثال اس کھیتی کی مانند بیان کی گئی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے سہارا دیا تو وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کررہا ، ( اﷲ نے ایسا اس لئے کیا ہے ) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑ آئے ، ان میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان سے اﷲ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ([13])۔ ‘‘      اس آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :     ۱۔ وہ کافروں پر سخت ہیں ۔        ۲۔ آپس میں رحم دل ہیں ۔   ۳۔رکوع وسجود کی حالت میں رہتے ہیں ۔        ۴۔اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں ۔    ۵۔سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے۔    ۶۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ان کے شرف وفضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتابوں میں بھی موجود تھے۔      ۷۔ ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے ، اسی طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقتور ہوگئے اور ان کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا ، جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیظ وغضب میں مبتلا ہوتے تھے ۔       مذکورہ بالا صفات کے حامل اور ایمان وعملِ صالح کے مجسم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اﷲ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔  حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں ایسے کئی آثار نقل کئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان نمازی ہو اور خصوصا تہجد پڑھنے والا ہو تو اس کی وجہ سے اس کے چہرے پر نور آجاتا ہے اور اگر اس کا باطن پاک ہوتو اﷲ تعالیٰ اس کی ظاہری حالت کو خوبصورت بنادیتا ہے جس سے وہ لوگوں میں محبوب ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد حافظ ابن کثیر ؒ کہتے ہیں : ’’ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں اور ان کے اعمال اچھے تھے ، اس لئے جو بھی انہیں دیکھتا ان کی شخصیت اور سیرت سے ضرور متأثر ہوتا۔

 اور امام مالک رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے شام کو فتح کیا تھا انہیں جب نصاریٰ دیکھتے تو ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل جاتے کہ :’’ اﷲ کی قسم ! یہ لوگ ہمارے حواریوں سے بہتر ہیں ‘‘اور وہ اپنی اس بات میں یقیناًسچے تھے کیونکہ اس امت کی عظمت تو پہلی کتابوں میں بیان کی گئی ہے ، اور اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں([14])۔ ‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں ہم نے صرف چار قرآنی آیات اور ان کی مختصر سی تفسیر بیان کی ہے ، اس کے علاوہ متعدد آیات کریمہ میں ان کے اوصاف وفضائل کا حسین تذکرہ ہے ، لیکن ہم اختصار کے پیشِ نظر آگے بڑھتے ہیں اور نبئ رحمتﷺ کی زبانی آپ کے قابلِ فخر شاگردان گرامی کا ذکرِ خیر سنتے ہیں۔     

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل احادیثِ نبویہ میں    ۱۔حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا :النجوم أمنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبتُ أتى أصحابي ما يوعدون، وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون) ترجمہ : ’’ستارے آسمان کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان بھی نہیں رہے گا جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں لہٰذا جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ وقت آ جائے گاجس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ چیز نازل ہوجائے گی جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے  ([15])۔‘‘        امام نووی رحمہ اﷲ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ: ’’جب تک ستارے باقی ہیں آسمان بھی باقی ہے ،اور جب قیامت کے دن ستارے بے نور ہوکر گرجائیں گے تو آسمان بھی پھٹ جائے گا ، اور نبی ﷺ کی بقا آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے امان تھی ، اس لئے جونہی آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں ، اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بقاء امت کے لئے امان تھی ، اس لئے جونہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس دنیا سے چل بسے تواس امت میں فتنے کھڑے ہوگئے ، بدعات ظاہر ہوگئیں اور امت انتشار کا شکار ہوگئی ([16])  ۔‘‘ ۲۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ کونسے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ تو آپﷺنے فرمایا :        (خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ)       ترجمہ :’’ میرے زمانے کے لوگ (سب سے بہتر ہیں) ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ([17])۔‘‘ ۳۔ حضرت ابو سعید الخدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ( لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِیْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بيده لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِمْ وَلاَ نَصِيفَه)     ترجمہ : ’’میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر([18])۔‘‘      اس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک صحابی نے اپنی تنگ دستی کے باوجود جو تھوڑا بہت اﷲ کی راہ میں خرچ کیا وہ اﷲ کے ہاں زیادہ پاکیزہ ہے اور زیادہ اجر وثواب کے لائق ہے بہ نسبت اس زرِ کثیر کے جو ان کے بعد آنے والے کسی شخص نے خرچ کیا ۔         ۴۔ حضرت ابوعبد الرحمن الجہنی ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دو سوار رونما ہوئے ، وہ دونوں آئے اور رسول اﷲﷺ کے قریب بیٹھ گئے ، ان میں سے ایک شخص نے بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور رسول اﷲﷺسے پوچھنے لگا کہ اے اﷲ کے رسول! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لے آیا ، آپ کی پیروی اورتصدیق کی ، اسے کیا ملے گا ؟ آپﷺنے فرمایا : ’’اس کے لئے طوبیٰ ہے ۔‘‘ (جنت میں ایک درخت کا نام ) پھر اس نے بیعت کی اور پیچھے ہٹ گیا ، اس کے بعد دوسرا شخص آگے بڑھا اور اس نے بھی بیعت کرتے ہوئے وہی سوال کیا جو پہلے شخص نے کیا تھا، تو اسے آپ ﷺنے فرمایا : ’’اس کے لئے طوبیٰ ہے، پھر اس کے لئے طوبیٰ ہے ([19])۔‘‘   صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں اور بھی بہت ساری احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں ، بلکہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے کہ :’’صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب اور ان کی تعریف میں اور اسی طرح ان کی صدی کی دوسری صدیوں پر فضیلت کے بارے میں احادیث مشہور بلکہ متواتر درجہ کی ہیں ، لہٰذا ان کی عیب گیری کرنا دراصل قرآن وسنت میں عیب جوئی کرنا ہے ([20]) ۔‘‘     یاد رہے کہ یہ وہ احادیث تھیں جو عموما تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں ہیں، اور بعض احادیث خصوصا بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی ہیں ، ان میں سے چند احادیث کا تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ

 خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے فضائل      

خلفاء راشدین :۱۔حضرت ابوبکر ؓ ۲۔حضرت عمرؓ ، ۳۔ حضرت عثمان ؓ ۴۔ حضرت علی ؓ       اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل صحابی حضرت ابوبکرؓ ہیں اور وہی خلیفۂ اول ہیں۔ اور ان کا یہ استحقاق رسول اﷲﷺ کی کئی احادیث سے مأخوذ ہے ۔   چنانچہ آپﷺنے اپنی مرض الموت کے دوران لوگوں کی امامت کے لئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی کو حکم دیا ، یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ جو شخص آپ کی حیات میں امامت کا مستحق ہے وہی آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کا سب سے پہلا حقدار ہے۔    اور صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم ؓسے روایت ہے کہ ایک عورت آپﷺکے پاس آئی تو آپﷺنے اسے دوبارہ آنے کا حکم دیا ، اس نے پوچھا : اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو ؟ آپﷺ نے فرمایا :        ( إِنْ لَّمْ تَجِدِیْنِیْ فَأْتِیْ أَبَا بَکْرٍ )         ’’اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکرؓ کے پاس آنا ([21])۔‘‘         یہ حدیث واضح نص ہے اس بات پر کہ خلافت کے سب سے پہلے حقدار حضرت ابوبکرؓ تھے ۔ اور اسی بات پر سقیفۂ بنو ساعدہ کے اجتماع میں شریک ہونے والے تمام مہاجرین وانصار نے اتفاق کیااور حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی ، جیسا کہ صحیح بخاری میں مروی ہے ([22]) ۔‘‘    اور اہل السنۃ والجماعۃ کا بالإتفاق یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ تھے ، ان کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفانؓ تھے ، اور ان کے بعد چوتھے خلیفہ حضرت علی بن ابی طالبؓ تھے ([23])  ۔    أ۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے فضائل     تمام اہل السنۃ والجماعۃ کا اتفاق ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل صحابی حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہیں، آپ کے بعض فضائل مختصراً کچھ یوں ہیں ۔        * آپ ؓ نے آزاد لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ، اور پھر اسلام کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا  ([24]) ۔   نبی کریم 1 کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ بَعَثَنِیْ إِلَیْکُمْ فَقُلْتُمْ : کَذَبْتَ ، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : صَدَقَ ، وَوَاسَانِیْ بِنَفْسِه وَمَالِه ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِکُوْ لِیْ صَاحِبِیْ ؟ )           ’’ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا تو تم نے مجھے جھٹلا دیا ، جبکہ ابو بکر ؓ نے میری تصدیق کی اور اپنے نفس اور مال کے ساتھ میری ہمدردی کی ، تو کیا تم میرے ساتھی کو میری خاطر چھوڑ سکتے ہو ؟ ([25]) ۔ ‘‘ اورحضرت ابو سعید الخدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِه وَمَالِه أَبُو بَکْرٍ ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلاً غَیْرَ رَبِّیْ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ ، وَلٰکِنْ أُخُوَّۃُ الْإِسْلاَمِ وَمَوَدَّتُهُ ، لاَ یَبْقَیَنَّ فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلاَّ سُدَّ إِلاَّ بَابُ أَبِیْ بَکْرٍ )  ’’ میرا ساتھ نبھانے اور مال خرچ کرنے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابو بکر ؓ کا ہے ، اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابو بکر ؓکو بناتا ، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور اس کی محبت ہی کافی ہے ، مسجد کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے بابِ ابو بکر کے ([26])۔‘‘  * حضرت ابو بکر ؓ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے غلاموں کو آزاد کراتے تھے۔       حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ نے وہ سات غلام آزاد کرائے جنہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی پاداش میں عذاب دیا جاتا تھا ، ان میں سے ایک حضرت بلال ؓ اور اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ ؓ ہیں ([27]) ۔  * آپ ؓ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کا دفاع کرتے رہے ([28]) ۔          * آپ ؓ ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہے حتی کہ سفر ہجرت میں بھی آپ ﷺ نے آپ ؓ ہی کو اپنا رفیقِ سفر بنایا  ([29])۔          * نبی کریم ﷺ نے آپ ؓ کو بشارت دی کہ آپ کو جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا کہ آپ جنت میں آ جائیں ([30])۔    * حضرت ابو بکر ؓ تمام اعمالِ خیر میں دوسروں سے سبقت لے جاتے تھے۔   حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کون ہے جو روزے سے ہو ؟ ‘‘ تو حضرت ابو بکر ؓنے کہا : میں روزے سے ہوں۔         پھر آپ ﷺنے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کس نے نمازہ جنازہ اور تدفینِ میت میں شرکت کی ؟ ‘‘  تو حضرت ابو بکر ؓ نے کہا : میں نے۔   پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ؟ ‘‘ تو حضرت ابو بکر ؓنے کہا : میں نے۔    پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ؟‘‘  تو حضرت ابو بکر ؓ نے کہا : میں نے۔   تو آنحضور ﷺ نے فرمایا :(مَا اجْتَمَعْنَ فِی امْرِیءٍ إلِاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ)’’یہ خصلتیں جس میں جمع ہو جائیں وہ یقیناًجنت میں داخل ہو گا ([31]) ۔‘‘       * حضرت ابو بکر ؓ نبی کریم ﷺ کو تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ محبوب تھے ۔         حضرت عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ ( أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ ؟)          ’’آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟       تو آپﷺ نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ میں نے کہا : مردوں میں ؟         تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابو بکر ؓ ہیں۔میں نے کہا : پھر کون ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : عمربن خطابؓ ہیں ([32]) ۔‘‘  

 تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر ؓ کی افضلیت کی گواہی دیتے ہیں      

حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے زمانے میں لوگوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے ، چنانچہ ہم ابو بکر ؓ کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے ، ان کے بعد عمر بن خطاب ؓ اور پھر عثمان بن عفان ؓکو افضل تصور کرتے تھے ([33])۔         حضرت علی ؓ بھی حضرت ابو بکر ؓ کو سب سے افضل سمجھتے تھے محمد بن حنفیہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ( حضرت علی ؓ ) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا : ابو بکر ؓ ہیں ۔     میں نے کہا : پھر کون ہے ؟        انھوں نے کہا : عمر بن خطاب ؓ ہیں ۔      پھر مجھے خدشہ ہوا کہ اس کے بعد کہیں وہ حضرت عثمان ؓ کا نام نہ لے لیں تو میں نے کہا : پھر آپ ہیں ؟       انھوں نے کہا : میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام شخص ہوں ([34])۔‘‘  

  ب۔حضرت عمر بن خطاب ؓ کے فضائل      

تمام اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓسب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے ، ان کے چند فضائل یہ ہیں :       * نبی کریم ﷺ حضرت عمر ؓ کے ذریعے اسلام کو غلبہ دینے کی دعا کرتے تھے ۔   حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے دعا یوں فرمائی : ( اَللّٰهُمَّ أَعِزَّ الإِْسْلاَمَ بِأَحَبِّ هَٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ) وَکَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَیْهِ عُمَرُ۔ ’’اے اللہ ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما ۔‘‘ اور آپ ﷺ کو ان دونوں میں سے حضرت عمر ؓ زیادہ محبوب تھے([35])۔   * حضرت عمر ؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمان طاقتور ہو گئے حضرت عبد اللہ ؓ کہتے ہیں : ( مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ) ’’ حضرت عمر ؓ نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہم طاقتور ہو گئے ([36])  ۔ ‘‘   وہ مزید کہتے ہیں : ’’ ہم بیت اللہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کر لیا ، چنانچہ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہم اس میں نماز پڑھنے لگے ([37]) ۔ ‘‘

* نبی کریم ﷺ نے جنت میں حضرت عمر ؓ کا محل دیکھا حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں اور ایک عورت ایک محل کے ایک کونے میں بیٹھی وضو کر رہی ہے ، میں نے پوچھا : یہ محل کس کا ہے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا : یہ عمر بن خطاب ؓ کا ہے ، تو عمرؓکی غیرت کو یاد کرکے میں وہاں سے چلا گیا ([38]) ۔ ‘‘ * حضرت عمر ؓ جو موقف اختیار کرتے اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا         حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ )             ’’بے شک اللہ تعالی ٰنے عمر ؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو رکھ دیا ہے  ([39])۔‘‘  ابن عمر ؓ مزید کہتے ہیں : ’’جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور حضرت عمر ؓ کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن مجید انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا ([40])۔‘‘  * شیطان بھی حضرت عمر ؓ سے دور بھاگتا تھا          نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :     ( یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجاًّ قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجاًّ غَیْرَ فَجِّکَ )      ’’ اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ شیطان جب آپ کو کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ بھی آپ کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلا جاتا ہے([41])  ۔‘‘                                                                          * حضرت علی ؓ بھی حضرت عمر ؓ کے مداح تھے     حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو حضرت عمر ؓکیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا ، اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :       ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کردے گا ، کیونکہ میں اکثر وبیشتر رسول اللہ ﷺ سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ’’ میں ، ابو بکر اور عمر تھے ، میں ، ابو بکر اور عمر نے یوں کیا ، میں ، ابو بکر اور عمر گئے ۔‘‘ تو اسی لئے مجھے پوری امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کردے گا ۔‘‘ ابن عباس ؓ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی ؓ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے ([42]) ۔‘‘

  ج۔حضرت عثمان بن عفان ؓ کے فضائل      

اہل السنۃ والجماعۃ بالاتفاق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓ سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ تھے ۔ آپ ؓ رسول اکرم ﷺ کے داماد تھے ، آپ ﷺ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کا نکاح ان سے کیا تھا ۔ اسی لئے آپ ؓ کو ’’ ذو النورین ‘‘ کہا جاتا تھا ، آپ کے کچھ دیگر فضائل یوں ہیں :      * حضرت عثمان ؓ کو جنت کی بشارت    حضرت ابو موسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے اس کے دروازے پر رہنے کا حکم دیا ، چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ حضرت ابو بکر ؓ تھے ۔     پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، توآپ ﷺ نے فرمایا : ’’اجازت دے دو اور اسے بھی جنت کی بشارت سنا دو ۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر ؓتھے ۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی ، توآپ ﷺ نے فرمایا : ’’اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ، اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہو گی ۔‘‘ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان ؓ تھے ([43])  ۔    * حضرت عثمان ؓ بڑے با حیا تھے حتیٰ کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔       نبی کریم ﷺ نے آپ ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :          ( أَلاَ أَسْتَحْیِیْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْیِیْ مِنْهُ الْملائكةُ )   ’’ کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ([44]) ؟‘‘        * حضرت عثمان ؓ نے ہی بئر رومہ کو خرید کر وقف کیا اور جیش العسرۃ کو تیار کیا ۔  ابو عبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سبائیوں نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو آپؓ نے ایک دن ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: میں تمھیں اللہ کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمھیں یہ معلوم نہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا : ’’ جو شخص بئر رومہ کو خریدکر (وقف کردے ) تو اس کیلئے جنت ہے۔ ‘‘ چنانچہ میں نے اسے خریدا اور وقف کردیا ؟ اور کیا تم یہ نہیں جانتے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا : ’’ جو آدمی (غزوۂ تبوک کیلئے ) جیش العسرۃ کو ( جنگی ساز وسامان اور سواری وغیرہ دے کر ) تیار کرے تو اس کیلئے جنت ہے۔ ‘‘چنانچہ میں نے فوج کو تیار کیا ؟ ابو عبد الرحمن کہتے ہیں : ان لوگوں نے کہا : ہاں واقعتا آپ نے ہی ایسا کیا تھا  ([45]) ۔

  د۔حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے فضائل      

اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سب سے افضل صحابی ہیں ، اور وہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں چوتھے خلیفہ تھے ۔ آپ ؓ نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے ، آپؓ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ آپ ؓ نبی کریم ﷺ کے داماد بھی تھے کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ ﷺآپ کی بیوی تھیں ، آپ کے کچھ فضائل یوں ہیں ۔      * حضرت علی ؓ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ان سے محبت تھی۔   حضرت سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ارشاد فرمایا تھا : ( لَأُعْطِیَنَّ هذِہِ الرَّایَةَ غَدًا رَجُلاً یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْهِ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَهُ وَیُحِبُّهُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُهُ )                ’’ کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دونگا جس کے ہاتھوں اللہ تعالی فتح نصیب کرے گا ، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں ([46]) ۔‘‘ پھر آپ ًنے اگلے دن حضرت علی ؓ کو جھنڈا سونپ دیا۔         اور حضرت علی ؓکو ہی نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا :         ( أَنْتَ مِنِّیْ وَأَنَا مِنْکَ )       ’’ تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں ([47])۔‘‘  نیز فرمایا تھا : ( مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ ، اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ )         ’’ جس کا میں دوست ہوں علی ؓ بھی اس کے دوست ہیں ، ( یعنی مجھے دوست بنانے کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت علی ؓکو بھی دوست بنایا جائے) اے اللہ ! اس شخص کو اپنا دوست بنا لے جو علی ؓکو دوست بنائے، اور اس سے دشمنی کر جو علی ؓ سے دشمنی کرے ([48]) ۔‘‘          اسی طرح آپ ﷺنے ارشاد فرمایا تھا :    ( مَنْ آذَی عَلِیًّا فَقَدْ آذَانِیْ) ’’ جس شخص نے علی ؓکو اذیت پہنچائی اس نے گویا مجھے اذیت پہنچائی ([49]) ۔‘‘         * حضرت علی ؓ کی محبت ایمان اور ان سے بغض منافقت ہے خود حضرت علی ؓروایت کرتے ہیں کہ : ’’ اس ذات کی قسم جو دانے کو پھاڑ دیتا ہے ( اور اس سے فصل وغیرہ اگاتا ہے ) اور جو انسان کو پیدا کرتا ہے ! نبئ امی ﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ صرف مومن ہی مجھ سے محبت کرے گا ، اور وہ منافق ہی ہو گا جو مجھ سے بغض رکھے گا ([50]) ۔ ‘‘                 * حضرت علی ؓ کو جنت کی بشارت      نبی کریم ﷺ نے عشرۃ مبشرۃ والی حدیث میں حضرت علی ؓ کا نام لے کر انھیں جنتی قرار دیا  ([51]) ۔          * ایک اور بشارت   حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ حراء پر تھے ، آپ کے ساتھ ابو بکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے ، یہ سب حضرات جس چٹان پر کھڑے تھے اس نے حرکت کی ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( اِهدَأْ فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیْقٌ أَوْ شَہِیْدٌ )’’ آرام سے رہو کیونکہ تم پر نبی ، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں ([52])۔‘‘ 

  فضائل اہل بیت رضی اللہ عنہم:  

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :     (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) ترجمہ : ’’ اے پیغمبر کی بیویو! تم دیگر عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو ۔ اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح جاہلیت (کے دنوں) میں عورتیں اظہارِ زینت کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ ۔اور نماز پڑھتی رہو ، زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔اے (پیغمبر کے) اہلِ بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دُور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے  ([53]) ۔‘‘ ان آیات میں ( أہل البیت ) سے مراد سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن ) ہیں کیونکہ : ۱۔آیاتِ کریمہ کا سیاق وسباق ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن ) ہی کے بارے میں ہے ، چنانچہ ( أہل البیت ) کا ذکر کرنے سے پہلے بھی بار بار ’’ اے پیغمبر کی بیویوں ‘‘ کہہ کر ان کو مخاطب کیا گیااور بعد میں بھی کتاب وحکمت کی تلاوت کا حکم انہی کو دیا گیا ہے ۔       ۲۔ ( أہل البیت ) میں ’’ بیت ‘‘ سے مراد خود نبی کریم ﷺ ہی کا گھر ہے جس میں اُس وقت سوائے آپ ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن ) کے اور کوئی ساکن نہ تھا ۔     ۳۔ جب ( أہل البیت ) ’’ گھر والے ‘‘ کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے بیوی مراد لی جاتی ہے جو گھریلو امور کو چلاتی ہے ۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل سورۃ ہود کی یہ آیات کریمہ ہیں : (وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَقَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ)          ’’ اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی ہنس پڑی تو ہم نے اُس کو اسحق کی اور اسحق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی ۔ اُس نے کہا : اے ہے میرے بچہ ہو گا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں ،یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔ انہوں نے کہا :کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہلِ بیت! تم پر اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں وہ تعریف کا سزاوار اور بزرگوار ہے  ([54]) ۔ ‘‘        ان آیات میں ( أہل البیت ) سے مراد یقینی طور پر سب سے پہلے حضرت سارہ  علیہا السلام ہیں کیونکہ ان میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے ۔   خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ احزاب کی مذکورہ آیات میں (أہل البیت) سے مراد سب سے پہلے آنحضور ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں ۔         بعض لوگ ( حدیث الکساء ) یعنی چادر والی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ ( اھل البیت ) سے مراد صرف وہی حضرات ہیں جو اس چادر میں تھے ، یعنی حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ ۔         حالانکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالی ٰ سے دعا کرکے ان حضرات کو بھی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ۔

حدیث کے الفاظ ملاحظہ کیجئے :          حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی کریمﷺنے سیاہ کڑھائی والی چادر اوڑھ رکھی تھی ، چنانچہ حضرت حسن ؓ آئے تو آپ نے انہیں اس میں داخل کر لیا ، پھر حضرت حسین ؓ آئے تو وہ بھی اس میں داخل ہو گئے ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ  آئیں تو آپ نے انھیں بھی اس میں داخل کر لیا ، پھر حضرت علی ؓ آئے تو آپ نے انھیں بھی اس کے اندر داخل کر لیا ،اس کے بعد فرمایا :(إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)

 یعنی ’’ اے اہل بیت ! اللہ تعالی ٰتم سے نا پاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے ([55]) ۔ ‘‘         اور اس سے زیادہ واضح الفاظ حدیثِ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہیں ، چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ان کے گھر میں تھے ، اسی دوران حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کچھ کھانا لیکر آپ ﷺکے پاس آئیں ، تو آپ ﷺنے فرمایا : ’’ جاؤ اپنے خاوند اور دونوں بیٹوں کو بھی لے کر آؤ ۔‘‘

 اس کے بعد حضرت علی ؓ ، حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ بھی آگئے ، چنانچہ ان سب نے اُسی کھانے میں سے کھانا شروع کردیا ، آپ ﷺ ایک چادر پر تشریف فرما تھے اور میں اُس وقت نماز پڑھ رہی تھی ، تو اللہ تعالی ٰنے یہ آیت اتاری :     (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) لہذا آپ ﷺ نے چادر کا جو حصہ بچا ہو اتھا اسے پکڑا اور ان حضرات کو ڈھانپ دیا ، پھر آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ باہر نکالا اور اسے آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے دو مرتبہ یوں دعا کی : ( اَللّٰهُمَّ هؤُلاَءِ أَهلُ بَیْتِیْ وَخَاصَّتِیْ ، فَأَذْہِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْہُمْ تَطْہِیْرًا ) ’’ اے اللہ ! یہ بھی میرے گھر والے اور میرے خاص لوگ ہیں ، لہذا ان سے بھی ناپاکی کو دور کردے اور انھیں اچھی طرح سے پاک کردے ۔‘‘     حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنا سر اسی چادر میں داخل کیا اور کہا : اللہ کے رسول ! میں بھی آپ کے ساتھ ہوں ۔ تو آپ ﷺنے فرمایا :

( إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ إِنَّکِ إِلٰی خَیْرٍ)

 ’’ آپ تو خیر کی طرف ہیں ہی ([56])۔ ‘‘  یعنی آپ تو پہلے ہی اہل بیت میں شامل ہیں ۔     اسی طرح یہ حدیث عمر بن ابی سلمہ ؓ سے بھی مروی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ( حضرت ابو سلمہ ؓسے ) بیٹے تھے اور انھیں آنحضور ﷺ کی گود میں پرورش پانے کا شرف حاصل ہوا  ([57]) ۔     نیز یہ حدیث حضرت واثلہ بن اسقع ؓ سے بھی مروی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں : (اَللّٰہُمَّ هؤُلاَءِ أَهْلُ بَیْتِیْ ، وَأَهْلُ بَیْتِیْ أَحَقُّ )           ’’ اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں اور میرے اہل بیت     (اس تکریم کے) زیادہ حقدار ہیں۔ ‘‘     

 فضائل ازواج مطہرات ( رضی اللہ عنہن )      

جب قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اہل بیت میں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں تو لیجئے ان کے وہ فضائل ملاحظہ کیجئے جو ان سب کیلئے عام ہیں :        ۱۔ نبی کریم ﷺ کی تمام بیویاں مطہرات ہیں یعنی نا پاک افعال اور نا پاک اخلاق وکردار سے مکمل طور پرپاک ہیں ۔

 اس کی دلیل سورۃ احزاب کی وہی آیات ہیں جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ۔ لہذا ازواج مطہراتؓ میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا یا ان پر طعنہ زنی کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔       ۲۔ ازواج مطہراتؓ مومنوں کی مائیں ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ٰہے :(النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ )               ترجمہ : ’’ پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور ان کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں  ([58])‘‘      اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبراعظم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو مومنوں کی مائیں قرار دیا ہے ، لہذا جو لوگ سچے ایمان والے ہیں وہ تو یقینی طور پر انہیں اپنی ماؤں کی طرح ہی سمجھتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی حقیقی ماؤں کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں اسی طرح وہ آنحضور ﷺ کی ازواج کا بھی دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں ، اور جس طرح وہ اپنی ماؤں کو برا بھلا نہیں کہتے اور اگر کوئی شخص زبان درازی کرتے ہوئے ان کی ماؤں کو برا بھلا کہے تو وہ اسے قطعا برداشت نہیں کرتے ، اسی طرح وہ نہ خود ازواج مطہراتؓ کو برا بھلا کہنا گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اور آدمی کی زبان درازی کو برداشت کرتے ہیں ۔ اور چونکہ ازواج مطہراتؓ مومنوں کی مائیں ہیں اس لئے اللہ تعالی ٰنے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ان سے نکاح کرنا حرام کردیا ہے ۔   ارشاد باری تعالی ہے :      (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّـهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمًا)             ’’اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبر الٰہی کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو ، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے  ([59]) ۔‘‘   ۳۔ ازواج مطہرات ( رضی اللہ عنہن ) کو جب یہ اختیار دیا گیا کہ آپ یا تو دنیا کی زیب وزینت کو چن لیں اور پھر آپ ﷺ تمھیں بھلے طریقے سے رخصت کردیں ، یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور آخرت کا گھر چن لیں تو ان سب نے بلا تامل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور آخرت کے گھر کو چن لیا ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب دنیا کی آسائشوں کی بجائے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کی رضا کی متمنی اور آخرت کی نعمتوں کی طلبگار تھیں ۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے : (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا)

ترجمہ : ’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت و آرائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور اچھی طرح سے رخصت کر دوں ۔ اور اگر تم اللہ اور اُس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی جنت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکارہیں اُن کیلئے اللہ نے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے ([60]) ۔ ‘‘       حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں تو آپ ﷺ نے مجھ سے ابتداء کی اور فرمایا: ’’میں تم سے ایک بات کرنے لگا ہوں ، تم اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جلد بازی نہ کرنا ۔‘‘ حالانکہ آپ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ قطعا نہ دیں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں ، تو میں نے کہا : میں والدین سے کس بات کا مشورہ کروں ؟ میں تو اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور دارِ آخرت کو ہی چاہتی ہوں ۔   پھر آپ ﷺ کی تمام بیویوں نے وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا ([61]) ۔‘‘              ۴۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات ؓ کو دو گنا اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے : (وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا)    ’’اور جو تم میں سے اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور نیک عمل کرتی رہے گی اُس کو ہم دُگنا ثواب دیں گے اور اُس کیلئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے  ([62]) ۔ ‘‘     ۴۔ ازواج مطہراتؓ عام عورتوں کی طرح نہیں ، بلکہ ان سے کہیں زیادہ بہتر اور افضل ہیں ، کیونکہ ایک تو انھیں نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر ان پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہے ۔ اور دوسرا انھیں آنحضور ﷺ کے عقد نکاح میں آنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ فرمان الٰہی ہے :     (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ)          ’’ اے پیغمبر کی بیویو ! تم دیگر عورتوں میں سے کسی عورت کی طرح نہیں ([63])  ۔‘‘        ۵۔ ازواج مطہراتؓ کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں امام الأنبیاء حضرت محمد ﷺ کی بیویاں بنایا اور آخرت میں بھی وہ سید البشر حضرت محمد ﷺ ہی کی بیویاں ہونگی اور انہی کے ساتھ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گی ۔   

  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فضائل

         حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں ، آپ ﷺ کو ان سے شدید محبت تھی اور اسی لئے آپ ﷺنے انھیں کئی بشارتیں سنائیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج آپ کے پاس بیٹھی تھیں ، ان میں سے کوئی ایک بھی      ( اپنے گھر کو ) نہیں گئی تھی کہ اسی دوران حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتے ہوئے آئیں اور ان کی چال آپ ﷺ کی چال سے بہت زیادہ ملتی جلتی تھی ، آنحضور ﷺ نے جب انھیں دیکھا تو فرمایا : ( مَرْحَبًا بِابْنَتِیْ ) ’’میری بیٹی ! خوش آمدید ‘‘ پھر انھیں اپنی دائیں ( یا بائیں ) جانب بٹھا دیا ، اس کے بعد ان سے سرگوشی کے انداز میں کوئی بات کی جس سے وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں ، چنانچہ جب آپ ﷺ نے ان کی پریشانی اور گھبراہٹ کو دیکھا تو دوبارہ سرگوشی کی جس سے وہ ہنسنے لگیں ۔ بعد ازاں جب رسول اللہ ﷺ چلے گئے تو میں نے کہا :        تمھیں رسول اللہ ﷺنے کیا کہا تھا ؟        انھوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا راز فاش کرنے والی نہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو میں نے کہا : فاطمہ ! میں تمھیں قسم دے کر کہتی ہوں کہ میرا تم پہ حق ہے ، اس لئے مجھے وہ بات ضرور بتاؤ جو تم سے رسول اللہ ﷺ نے سرگوشی کے انداز میں کی تھی ۔  تو انھوں نے کہا : ہاں اب بتا سکتی ہوں ، پہلی مرتبہ جب آپ ﷺ نے سرگوشی کی تھی تو آپ نے فرمایا تھا :   ’’ جبریل ؑ ہر سال ایک یا دو مرتبہ میرے پاس قرآن کی دہرائی کیلئے آتے تھے جبکہ اس سال دو مرتبہ آئے ہیں ، اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا اجل قریب آ چکا ہے ، لہذا تم اللہ تعالی ٰسے ڈرتی رہنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا ، کیونکہ میں تمھارے لئے سب سے اچھاآگے جانے والا ہوں ۔‘‘         یہ سن کر میں رونے لگ گئی تھی ۔       پھر جب آپ ﷺ نے میری گھبراہٹ کو دیکھا تو فرمایا :        ’’ اے فاطمہ ! کیا تمھیں یہ بات پسند نہیں کہ تم تمام مومنوں کی خواتین کی سردار ہو ۔‘‘ یا آپ نے فرمایا : ’’ تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو۔ ‘‘ یہ سن کر میں خوش ہو گئی ([64]) ۔ اور حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( نَزَلَ مَلَکٌ مِّنَ السَّمَاءِ فَاسْتَأْذَنَ اللّٰہَ أَنْ یُّسَلِّمَ عَلَیَّ، لَمْ یَنْزِلْ قَبْلَهَا، فَبَشَّرَنِیْ أَنَّ فَاطِمَة سَیِّدَةَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ) ’’ ایک فرشتہ پہلی مرتبہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے اللہ تعالی ٰسے اجازت طلب کی کہ وہ آکر مجھے سلام کہے ، چنانچہ اس نے مجھے بشارت دی کہ فاطمہ اہلِ جنت کی خواتین کی سردار     ہو نگی ([65])۔ ‘‘   اور حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی شکل وصورت ، صفات عالیہ اور آپ کے حسن اخلاق سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں ، اور ان کا انداز گفتگو بھی آپ ﷺ کے انداز گفتگو سے ملتا جلتا تھا ۔ اور وہ جب آنحضور ﷺ کے پاس آتی تھیں تو آپ ان کی طرف چل کر جاتے اور ان کا استقبال کرتے ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کا بوسہ لیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ، اسی طرح آپ ﷺ بھی جب ان کے پاس جاتے تو وہ بھی ان کی طرف چل کر جاتیں اور ان کااستقبال کرتیں ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا بوسہ لیتیں اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتیں ([66])  ۔‘‘         

  حضرت حسن ؓاور حضرت حسینؓ کے فضائل    

أ۔ نوجوانانِ جنت کے سردار        حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : (إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ , وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ )  

’’بے شک یہ فرشتہ آج رات زمین پر نازل ہوا اور اس سے پہلے یہ کبھی زمین پر نہیں آیا تھا ، اس نے اللہ تعالیٰ سے مجھ سے سلام کرنے کی اجازت طلب کی ، تو اللہ تعالیٰ نے اسے میرے لئے یہ خوشخبری دے کر بھیجا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہونگی ، اور حسن و حسین ( رضی اللہ عنہما ) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہونگے  ([67]) ۔‘‘       ۲۔ دو پیارے پیارے پھول   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیاکہ حالتِ احرام میں اگر کوئی آدمی ایک مکھی کو مار دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اہلِ عراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں حالانکہ وہ تو نواسۂ رسولﷺ کے قاتل ہیں ! اور رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا :( هُمَا رِیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا )’’یہ ( حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ) دنیا میں میرے دوپھول ہیں([68])  ۔‘‘   سنن ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے کہا : اس آدمی کو دیکھو ! یہ مچھر کے خون کے متعلق سوال کرتا ہے جبکہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے جگر گوشے کو قتل کیا ، اور میں نے رسول اللہﷺ سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا : ( إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ هُمَا رِیْحَانَتَایَ مِنَ الدُّنْیَا )   ’’بے شک حسنؓ اور حسین ؓدنیا میں میرے دوپھول ہیں ([69]) ۔‘‘ ۴۔ نبی کریم ﷺ کی ان سے شدید محبت   عطاء بن یسار ؒ کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہﷺنے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا ) یعنی ’’ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، لہذا تو بھی ان سے محبت کر ([70]) ۔‘‘         اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے ، ایک آپﷺ کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپﷺکے دوسرے کندھے پر تھے ، اور آپﷺ کبھی ان سے پیار کرتے اور کبھی ان سے ، چنانچہ ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کو ان سے محبت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :   ( مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِیْ ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِیْ)     یعنی ’’ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا ([71])۔ ‘‘ آپﷺ کو اپنے ان دونوں نواسوں سے کس قدر شدید محبت تھی اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنا خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانے کیلئے منبر سے نیچے اترتے ،انہیں اٹھاتے اور پھر منبر پر جا کر اپنا خطبہ مکمل کرتے ، جیسا کہ حضرت بریدہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے ، انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں ، اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے ، چنانچہ رسول اللہﷺ منبر سے نیچے اترے ، اپنا خطبہ روک دیا ، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا ،پھر آپﷺ انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے ، پھر فرمایا :          ’’ اللہ تعالی ٰنے سچ فرمایا ہے کہ (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ) ’’بے شک تمھارے اموال اور تمھاری اولاد آزمائش ہیں۔ ‘‘ میں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا ۔‘‘ پھر آپﷺ نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا ([72])  ۔

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص شیخین ( ابو بکر ؓ و عمرؓ ) کے درمیان تعلقات اللہ تعالی ٰنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک عمومی وصف یہ بیان کیا ہے کہ وہ (رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ ) ’’ آپس میں رحم دل ہیں ۔‘‘ اس بناء پر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں شِیر وشکر تھے ، ان کے درمیان پیار ومحبت کی فضا قائم تھی ، وہ سب ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے اور ان کے مابین برادرانہ اور دوستانہ تعلقات تھے۔  خاص طور پر اہل بیت رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات تھے ، وہ سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور باہمی حقوق کی پاسداری کرتے تھے ۔ اسی طرح شیخین ( حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ ) اور حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مابین بھی مثالی تعلقات تھے ، شیخین رضی اللہ عنہما حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے تھے ،خود بھی ان کے حقوق ادا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔ اور اسی طرح حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم بھی شیخین کے مقام ومرتبہ کو تسلیم کرتے اور ان کے حقِ خلافت کو مانتے تھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر ؓ کو پیغام بھیجا کہ نبی کریم ﷺ کے ترکہ سے ان کا جو حصہ ہے وہ انھیں دیا جائے ، اس کے علاوہ جو مال فیئ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو دیا تھا،اور مدینہ اور فَدَک میں جو صدقات کے اموال جمع تھے اور خیبر کے پانچویں حصہ سے جو کچھ باقی تھا اس سے بھی انھوں نے اپنا حصہ طلب کیا ، تو حضرت ابو بکر ؓنے کہا : رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ( لاَ نُوْرَثُ، مَا تَرَکْنَا فَہُوَ صَدَقَةٌ)’’ ہمارا کوئی وارث نہیں اور ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے۔ ‘‘     ہاں ، آل محمد ﷺ اِس اللہ کے دئیے ہوئے مال سے بس کھا سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اور میں اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کے صدقات میں کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں ، وہ جس طرح آپ ﷺ کے عہد میں تھے اسی طرح رہیں گے ، اور میں ان میں وہی کام کرونگا جو خود رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے ۔ یہ سن کر حضرت علی ؓنے خطبہ مسنونہ پڑھا اور کہا :   ’’ اے ابو بکر ! ہم آپ کی فضیلت کے معترف ہیں تاہم ہمیں رسول اللہ ﷺ کی قرابت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے کچھ حقوق ہیں۔ ‘‘      چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا :         (وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي )             ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! رسول اللہ ﷺکے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا مجھے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے زیادہ محبوب ہے  ([73]) ۔‘‘     اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابو بکر ؓ دونوں نے ایک دوسرے کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کیا ، حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت کا اعتراف کیا، اور حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اکرم ﷺ کے رشتہ داروں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی زیادہ محبوب قرار دیا اور ان کے حقِ صلہ رحمی کو اپنے رشتہ داروں کے حقِ صلہ رحمی سے زیادہ اہم قرار دیا ۔     نیز حضرت ابو بکر ؓ فرمایا کرتے تھے :         ( أُرْقُبُوْا مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فِیْ أَهلِ بَیْتِهِ )

’’حضرت محمد ﷺ کے اہل بیت کا خصوصی خیال رکھا کرو([74]) ۔‘‘                                                                       اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو حضرت ابو بکر ؓنے اپنی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کو ان کی تیمار داری کیلئے ان کے ہاں بھیجا جو ان کی وفات تک ان کے پاس رہیں ، پھر ان کی تجہیز وتکفین میں بھی شریک ہوئیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان دو گھرانوں کے درمیان گہرے تعلقات تھے ۔        اِس کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیق ؓ وفات پا گئے تو ان کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ سے حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے شادی کر لی تھی اور ان سے ان کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا ۔ یاد رہے کہ حضرت اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر ؓ سے پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی بیوی تھیں ، اور جب یہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے نکاح میں آئیں تو اُس وقت ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا محمد بن ابی بکر بھی تھا جس نے حضرت علیؓ کے ہاں حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ تربیت حاصل کی۔ اور جہاں تک حضرت عمر بن خطاب ؓ اور اہلِ بیت  رضی اللہ عنہم کے مابین تعلقات کی نوعیت کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے درمیان بھی محبت بھرے تعلقات قائم تھے اور ان میں گہرا انس وپیار پایا جاتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کیلئے خصوصی وظائف کا اجراء کیا تھا ، اور جب مملکتِ فارس فتح ہوئی اور کسریٰ کی کچھ پوتیاں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں تو حضرت عمر ؓ نے ان میں سے ایک حضرت حسین بن علی ؓکو دے دی جس سے انہوں نے شادی کر لی تھی اور اسی سے ان کے صاحبزادے علی زین العابدین ؒ پیدا ہوئے جنہیں بعض لوگوں کے ہاں چوتھے امام کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔ تو اِن لوگوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ ان کے امام کی والدہ وہ تھیں جو حضرت عمر ؓ کی طرف سے حضرت حسین ؓ کو ہبہ کی گئی تھیں۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم اور حضرت عمر ؓ کے ما بین گہرے تعلقات کے پیشِ نظر ہی حضرت علی ؓ نے اپنی لختِ جگر حضرت ام کلثوم  رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عمر بن خطاب ؓ سے کی تھی ، اور ظاہر ہے کہ بندہ اپنی بیٹی کی شادی اسی گھر میں کرتا ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص اپنی بیٹی کا نکاح اپنے مخالفوں کو نہیں دیتا ۔   اس کے علاوہ حضرت علی ؓ نے اپنی اولاد میں سے تین بچوں کے نام ابو بکر ، عمر اور عثمان رکھے ، یہ تینوں حضرت حسین ؓ کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے تھے۔     اسی طرح حضرت حسن ؓنے بھی اپنے دو بچوں کے نام ابو بکر اور عمر رکھے ، اور یہ دونوں بھی شہدائے کربلا میں شامل ہیں ۔      اسی طرح حضرت حسین ؓ نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام عمر رکھا ۔ اور ظاہر ہے کہ بندہ اپنی اولاد کے نام انہی کے ناموں پہ رکھتا ہے جن سے اس کو محبت ہوتی ہے ، اپنے دشمنوں کے ناموں پر کوئی بھی شخص اپنی اولاد کے نام نہیں رکھتا۔    اس کے علاوہ ہم محمد بن حنفیہ ؒ کا وہ واقعہ پہلے ذکر کر چکے ہیں جس میں انھوں نے اپنے والد گرامی حضرت علی ؓ سے سوال کیا تھا کہ رسول اکرم ﷺکے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ابو بکر ؓ ہیں ، انھوں نے کہا : پھر کون ہیں ؟ تو آپؓ نے جواب دیا کہ عمر ؓ ہیں ۔   اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ بھی شیخین ( ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ) کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے ۔ اور حضرت ابن عباس ؓ کی وہ روایت بھی ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد ان کیلئے دعا کر رہے تھے ، آپؓ کو ایک چارپائی پر لٹایا گیا تھا ، اچانک ایک شخص میرے پیچھے سے آیا اور میرے کندھوں پر اپنی کہنی رکھ کر کہنے لگا :        ’’اے عمر ! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے یہی امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی ملا دے گا ، کیونکہ میں اکثر وبیشتر رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا کرتا تھا کہ ’’ میں ، ابو بکر اور عمر تھے ، میں ، ابو بکر اور عمر نے یوں کیا ، میں ، ابو بکر اور عمر گئے۔ ‘‘  تو اسی لئے مجھے پوری امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کردے گا ۔‘‘ ابن عباس ؓ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی ؓ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے ([75]) ۔     ان دونوں روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت علی ؓ حضرت عمر ؓ کی فضیلت کے معترف تھے ، اور ان کے اور شیخین کے درمیان خصوصا ، اور ان کے اور تمام اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان عموما بڑے اچھے مراسم تھے اور وہ سب ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ، ان کے مابین شادیاں ہوئیں ، اہل بیت رضی اللہ عنہم نے پہلے تین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ناموں پر اپنی اولاد کے نام رکھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ انھیں اپنے سے افضل اور بہتر سمجھتے تھے ۔ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اہل بیت رضی اللہ عنہم کے حقوق ادا کرتے تھے اور ان کے مقام ومرتبہ کو تسلیم کرتے تھے۔      

  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مابین پیار ومحبت 

جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مابین تعلقات کا سوال ہے تو وہ بھی نہایت شاندار تھے اور ان کے درمیان بھی پیارومحبت پر مبنی مراسم تھے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اہل بیت کے فضائل میں متعدد احادیث روایت کی ہیں ، مثلا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت میں وہ حدیث جسے ہم ان کے فضائل کے ضمن میں ذکر کر چکے ہیں اور جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تمام ازواج مطہرات ( رضی اللہ عنہن ) کی موجودگی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کان میں سرگوشی کے انداز میں دو باتیں کیں جن کی بناء پر وہ پہلے روئیں اور بعد میں ہنس دیں ، پھر جب نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے ان دو باتوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے انھیں آگاہ کردیا ۔     اسی طرح ان کی روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شکل وصورت ، صفات عالیہ اور حسن اخلاق میں نبی کریم ﷺ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں ۔ یہ روایت بھی ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ۔  تو یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے درمیان کوئی کشیدگی نہ تھی ، بلکہ اس کے بر عکس ان میں گہری محبت تھی اور وہ ایک دوسرے کے مقام ومرتبہ کو خوب پہچانتے تھے ۔اور اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں محبت بھرے جذبات نہ ہوتے تو یقیناًوہ ان کے فضائل میں احادیث روایت نہ کرتیں۔         حیرت کی بات یہ ہے کہ حدیث الکساء ( یعنی چادر والی حدیث) جس کو بعض لوگ دلیل بناتے ہیں کہ اہل بیت صرف وہ حضرات ہیں جو آنحضور ﷺ کی چادر میں تھے ، اِس حدیث کی کئی اسانید ہیں ، سب سے صحیح سند وہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے ہے اور وہ صحیح مسلم میں موجود ہے جس کا حوالہ ہم اس رسالہ میں ذکر کر چکے ہیں ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت نہ ہو اور وہ ان کی فضیلت میں یہ حدیث روایت کریں ؟ نیز یہ بات کیسے عقل ودانش کے مطابق سمجھی جائے گی کہ چادر والی حدیث کو اپنے لئے حجت سمجھا جائے اور جس شخصیت نے اسے روایت کیا ہے اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جائے ؟       اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے سربراہ اور سرپرست اعلی ‘یعنی حضرت محمد ﷺ ‘ جنھوں نے اپنی کالی چادر کو حضرت علی ظ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے دونوں لختِ جگر حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر ڈھانپ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شدید محبت کرتے تھے، اور عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی مرض الموت میں بار بار یہ سوال کرتے تھے کہ میں کل کہاں ہو نگا ؟ یعنی آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی امید رکھتے تھے ۔ پھر جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے سینے پر سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی ،سو اہل بیت رضی اللہ عنہم کے سربراہ حضرت محمد ﷺ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت کا اظہار کریں اور آج اہل بیت رضی اللہ عنہم کے نام لیوا لوگ ان سے بغض رکھیں اور انھیں برا بھلا کہیں ! یہ یقیناًحیران کن بات ہے ، اور اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے ۔      یاد رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا امام جعفر صادق ؒ کے نانے ( محمد بن ابی بکر اور عبد الرحمن بن ابی بکر ) کی سگی بہن تھیں ، اِس اعتبار سے حضرات اہل بیت اور آل الصدیق رضی اللہ عنہم کے درمیان خونی رشتہ تھا ۔ اور امام جعفر صادق ؒ کا شمار کبار فقہائے امت میں ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے اہل علم سے استفادہ کیا مثلا امام قاسم بن محمد بن ابی بکر ؒ ، عطا ؒ اور زہری ؒ وغیرہم ۔ نیز انہوں نے عروۃ بن زبیر سے بھی علم حاصل کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد خاص تھے ۔    

 اہل بیت اور صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کے مابین رشتے

         حضرات اہل بیت اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیار و محبت پر مبنی گہرے تعلقات تھے ، اسی لئے ان کے آپس میں کئی شادیاں ہوئیں جن میں سے چند اہم شادیاں درج ذیل ہیں :         حضرت محمد ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے درمیان شادیاں :        خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے دو نبی کریم ﷺ کے سسُر تھے اور دو آپ ﷺ کے داماد تھے ۔         پہلے دو خلفاء حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن الخطاب ؓ آنحضور ﷺ کے سسُر تھے ، ان کی صاحبزادیاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن میں شامل ہو گئیں ۔ تیسر ے اور چوتھے خلفاء حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ نبی کریم ﷺ کے داماد تھے ، اول الذکر سے آنحضور ﷺ نے اپنی لخت جگر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور پھر ان کی وفات کے بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا ، اور ثانی الذکر سے آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا ۔        

 اہل بیت اور آلِ صدیق رضی اللہ عنہم کے درمیان شادیاں :

شمار

اہل بیت

آل صدیق رضی اللہ عنہم

۱

 حضرت محمد بن عبد اللہﷺ   

 حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا

۲

  امام حسن بن علی بن ابی طالبؓ   

 حفصہ بنت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا

۳

 اسحاق بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالبؓ   

 ام حکیم بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر 

۴

امام محمد الباقربن علی زین العابدین بن الحسین  

 ام فروۃ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق 

ان چاروں رشتوں کے متعلق غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ خاوند اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ہے اور بیوی آل صدیق رضی اللہ عنہم سے ہے ، یعنی ان رشتوں کیلئے پہل اہل بیت رضی اللہ عنہم نے کی کیونکہ عموما لڑکے والے ہی لڑکی والوں سے رابطہ کرتے ہیں ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آل بیت اور آل صدیق رضی اللہ عنہم کے مابین گہرے تعلقات تھے ۔ نیز ان رشتوں میں سے آخری رشتے کے متعلق ایک خاص بات یہ ہے کہ ام فروۃ بنت القاسم بن محمد بن ابی بکر سے امام محمد الباقر ؒ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جعفر تھا اور جو بعد میں علم وفضل کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے اور امام جعفر صادق کے نام سے مشہور ہوئے ۔اور اِن کی نانی کا نام ہے : اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر الصدیق ۔ اسی لئے امام جعفر صادق کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ( ولدنی أبو بکر مرتین ) یعنی ’’ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے مجھے دو مرتبہ جنم دیا ‘‘ کیونکہ ایک تو ان کی والدہ ام فروۃ حضرت ابو بکر ؓ کے پوتے کی بیٹی تھیں ، اور دوسرا اس اعتبار سے کہ ان کی نانی اسماء بنت عبد الرحمن بھی حضرت ابو بکر ؓ کی پوتی تھیں ۔  

 اہل بیت اور آل الخطاب رضی اللہ عنہم کے درمیان شادیاں :

شمار

اہل بیت

آل خطاب رضی اللہ عنہم

۱

حضرت محمد بن عبد اللہ ﷺ

حفصہ بنت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا

۲

الحسین بن علی بن علی زین العابدین بن الحسین

بنت خالد بن ابی بکر بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب

۳

الحسن ( المثنی ) بن الحسن بن علی بن ابی طالب

رملۃ بنت  سعید بن زید بن نفیل العدوی

۴

ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب

عمر بن الخطاب ؓ 

ان رشتوں کے متعلق غور فرمائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اور آل الخطاب رضی اللہ عنہم کے مابین بھی گہرے مراسم تھے ، اسی لئے اہل البیت رضی اللہ عنہم کے سربراہ اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی صاحبزادی حضرت حفصہ  رضی اللہ عنہاسے شادی کی ، یوں حضرت عمر ؓ آپ ﷺ کے سسر تھے ۔ اور آخری رشتہ اِس بات کاپتہ دے رہاہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے جس کی بناء پر آخر الذکر صحابی نے اپنی لخت جگر کو اول الذکر صحابی کے نکاح میں دے دیا ۔یوں حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ کے داماد ٹھہرے اور وہ ان کے سسر ۔یاد رہے کہ ام کلثوم حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئیں ۔

               اہل بیت اور بنی امیّہ کے درمیان شادیاں

شمار

اہل بیت رضی اللہ عنہم

بنی امیہ

۱

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا وحضرت ام کلثوم  رضی اللہ عنہا   ( رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیاں )

حضرت عثمان بن عفان ؓ(رقیہ سے ہجرت سے پہلے اور ام کلثوم سے جنگ بدر کے بعد شادی ہوئی)

۲

زینب بنت رسول اللہ ﷺ

ابو العاص بن الربیع

۳

علی بن ابی طالبؓ            

امامۃ بنت ابی العاص ( زینب بنت رسول اللہ ﷺ کی بیٹی )

۴

خدیجہ بنت علی بن ابی طالب  

عبد اللہ بن عامر بن کریز الأمویؓ

۵

رملہ بنت علی بن ابی طالب  

معاویہ بن مروان بن الحکم الأموی

۶

زینب بنت الحسن ( المثنی ) بن الحسن بن علی بن ابی طالب

 ولید بن عبد الملک بن مروان

۷

نفیسہ بنت زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب

 ولید بن عبد الملک بن مروان

۸

فاطمۃ بنت الحسین بن علی بن ابی طالب    

عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان          

 انصارِ مدینہ کے فضائل   

انصارِ مدینۂ طیبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : (وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)                  ترجمہ : ’’اور ( ان لوگوں کیلئے بھی ) جو ان ( مہاجرینِ مکہ کے آنے ) سے پہلے یہاں ( مدینہ میں ) مقیم تھے اورایمان لا چکے تھے ، وہ ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں ، اور جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے ، اور مہاجرین کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں ، اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں ([76])۔ ‘‘     اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہ رضی اللہ عنہم کی بعض صفات حمیدہ ذکر کی ہیں اور ان کے حق میں گواہی دی ہے کہ وہ مہاجرینِ مکہ کے آنے سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے ، اور ان میں جذبۂ ایثار وقربانی اس قدر پایا جاتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دلی محبت کرتے تھے ۔ اور اگر مہاجرین کو مالِ غنیمت میں سے کچھ دیا جاتا تو یہ انصاراپنے دلوں میں کوئی تنگی یا گھٹن محسوس نہیں کرتے تھے ۔ اور خواہ ان کے اپنے گھروں میں حاجت اور فاقہ کشی کی صورت ہوتی یہ اپنی ذات اور اپنی ضرورتوں پر ان کو اور ان کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے ۔        انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کے جذبۂ ایثار وقربانی کی ویسے تو کئی مثالیں موجود ہیں ، لیکن ہم یہاں صرف دو مثالیں ذکر کرتے ہیں : ۱۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اکرم ﷺکے پاس آیا ، ( ایک روایت کے مطابق یہ خود ابوہریرہ ؓ  ہی تھے ) اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں بہت بھوکا ہوں ۔ توآپ ﷺ نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں سے کچھ نہ ملا ۔   ایک روایت میں ہے کہ آنحضور ﷺ نے اپنی ایک ایک بیوی کے گھر سے پتہ کرایا تو ہر گھر سے یہی جواب ملا کہ ان کے پاس سوائے پانی کے اور کچھ نہیں ۔  پھر آپ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا : کیا کوئی ہے جو اس شخص کی مہمانی کرے ؟ اللہ تعالیٰ اس کی حالت پر رحم فرمائے ( جو اس کی مہمانی کرے) چنانچہ ایک انصاری ( حضرت ابو طلحہ ؓ ) نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں اس کی مہمانی کرونگا، پھر وہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے گئے اور اپنی بیوی ( ام سلیم رضی اللہ عنہا ) سے کہا : (أَکْرِمِیْ ضَیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ) یعنی ’’ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کا (بھیجا ہوا ) مہمان ہے ، لہذا جو چیز بھی موجود ہے اسے کھلاؤ اور اس کا اکرام کرو ۔‘‘         وہ کہنے لگی : اللہ کی قسم ! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے ۔ حضرت ابو طلحہ ؓنے کہا : اچھا یوں کرو کہ جب بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا او ر جب ہم دونوں ( میں اور مہمان ) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کر دینا ، اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے ( اور مہمان کھا لے گا ) چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا ۔    ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا چراغ کو ٹھیک کرنے کے بہانے کھڑی ہوئیں اور اسے بجھا دیا ، پھر وہ دونوں اپنے مہمان کو یہ ظاہر کررہے تھے کہ گویا وہ بھی اس کے ساتھ کھار ہے ہیں حالانکہ وہ کھا نہیں رہے تھے اور ساری رات بھوکے رہے ۔  صبح جب حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :   ( لَقَدْ عَجِبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ۔ أَوْ ضَحِکَ ۔ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنَةٍ)   ’’ فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا ۔‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ([77]) )     ۲۔ حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ ( ہجرت کر کے ) ہمارے پاس تشریف لائے تو آنحضور ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن الربیع ؓکے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو بہت مالدار تھے۔ انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے ۔ میں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے لئے اور دوسرا آپ کیلئے ۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں ، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے ، میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کر لیں ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓنے کہا : (بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْ أَهْلِکَ وَمَالِکَ) ’’ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے۔ ‘‘         حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓگھی اور پنیر کے مالک بن گئے، اور ابھی کچھ عرصہ ہی گذرا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے ۔ آپﷺنے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے ۔ تو آپﷺ نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا : ( أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ) ’’تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کرکے ہی ([78])۔‘‘           یہ دونوں واقعات انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کے جذبۂ ایثار وقربانی کی شہادت دیتے ہیں ۔         اس کے علاوہ انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں چند اور احادیث بھی ملاحظہ کر لیجئے :          حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ( لَوْ أَنَّ الْأنْصَارَ سَلَکُوْا وَادِیًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْتُ فِیْ وَادِی الْأنْصَارِ، وَ لَوْ لاَ الْهِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَءً ا مِنَ الْأنْصَارِ)

ترجمہ : ’’ اگر انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں ( اور دوسرے لوگ دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں ) تو میں بھی انصار کی وادی میں چلوں گا۔ اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک شخص ہوتا  ([79])۔‘‘   اور حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکہ کے دن جب نبی کریم ﷺنے قریش کو مال عطا کیا تو انصار کہنے لگے : اللہ کی قسم ! یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری تلواروں سے ابھی قریش کا خون بہہ رہا ہے اور ہماری غنیمتیں بھی انہی کو لوٹائی جارہی ہیں ! یہ بات نبی کریم ﷺتک پہنچی تو آپﷺ نے انہیں بلایا اور فرمایا : ’’ مجھے تمہاری طرف سے کیا بات پہنچی ہے ؟ ‘‘       حضرت انس ؓکہتے ہیں : وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے ، اس لئے انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ تک جو بات پہنچی ہے وہ واقعتا ہم نے کہی ہے ، تب نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : ( أَوَ لَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَّرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلٰی بُیُوْتِهِمْ ، وَتَرْجِعُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلى الله عليه وسلَّم إِلٰی بُیُوْتِکُمْ ؟ لَوْ سَلَکَتِ الْأنْصَارُ وَادِیًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْتُ وَادِیَ الْأنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ )                 ’’ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر لوٹیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ ﷺ کو لے کر لوٹو ! اگر انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں ( اور لوگ دوسری وادی یا گھاٹی میں چلیں ) تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی میں ہی چلوں گا ([80])۔‘‘   اور حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری عورت اپنے ایک بچے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آنحضور ﷺ نے اس سے بات چیت کی ، پھر فرمایا :         ( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه إِنَّکُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ )     ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ مجھے باقی تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو([81])۔ ‘‘

اور اسی طرح حضرت انس ؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ خندق کے دن انصار مدینہ رضی اللہ عنہم یوں کہتے تھے :          نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِهَادِ مَا حَیِیْنَا أَبَدًا

’’ ہم وہ ہیں جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کی بیعت کی ہے کہ جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے ۔‘‘        اس کے جواب میں رسول اکرم ﷺیوں ارشاد فرماتے :        اَللّٰہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَۃ   فَأَکْرِمِ الْأنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَۃ

’’ اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ، پس تو انصار اور مہاجرین کی عزت افزائی فر ما  ([82]) ۔‘‘

 اہلِ بدر کے فضائل

حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے قصہ کے آخر میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے کہا کہ اس نے اﷲکی اور اس کے رسولﷺ کی اور مومنوں کی خیانت کی ہے ، لہٰذا مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن کو اڑادوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا :      ( لَعَلَّ اللّٰہَ اطَّلَعَ عَلٰی أَهلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ) وفی روايةٍ:( فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنّةُ)                           یعنی ’’ شاید اﷲ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھا اور پھر کہا : تم جو چاہو کرتے رہو ، میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :

’’ تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ہے ([83]) ۔‘‘  

اور رفاعہ بن رافع الزرقی نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے جو اہلِ بدر میں سے تھے کہ حضرت جبریل  علیہ السلام رسول اﷲﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : اہلِ بدر کا آپ کے ہاں کیا مرتبہ ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں ، تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : اسی طرح فرشتوں میں سے بھی وہ فرشتے سب سے افضل ہیں جو بدر میں شریک ہوئے ([84])۔‘‘  

  اہلِ اُحد کے فضائل

      حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا :( لَمَّا أُصِیْبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ أَرْوَاحَهُمْ فِیْ جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْهَارَ الْجَنَّةِ ، تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِهَا ، وَتَأْوِیْ إِلٰی قَنَادِیْلَ مِنْ ذَهَبٍ مُعَلَّقَّةٍ فِیْ ظِلِّ الْعَرْشِ ، فَلَمَّا وَجَدُوْا طِیْبَ مَأْکَلِهِمْ وَمَشْرَبِهِمْ وَمَقِیْلِهِمْ قَالُوْا : مَنْ یُّبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَاءُ فِی الْجَنَّةِ نُرْزَقُ ، لئَلاَّ یَزْهَدُوْا فِی الْجِهَادِ وَلاَ یَنْکَلُوْا عِنْدَ الْحَرْبِ ؟ فَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : أَنَا أُبَلِّغُهُمْ عَنْکُمْ ، قَالَ : فَأَنْزَلَ اللّٰہُ :(وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ...)      ’’تمہارے بھائی جب اُحد میں شہید ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں بھیج دیا جو جنت کی نہروں پر جاتے اور اس کے پھل کھاتے ہیں ، پھر سائے عرش میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں کی طرف واپس آجاتے ہیں۔ پھر جب انہوں نے اپنے کھانے پینے اور اپنی نیند کی لذت محسوس کی تو کہنے لگے : ہمارے بھائیوں تک ہماری طرف سے یہ بات کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ موڑیں اور جنگ کے دوران الٹے پاؤں واپس نہ لوٹیں ؟ تو اللہ تعالی ٰنے فرمایا : میں انہیں تمھاری طرف سے یہ بات پہنچا دیتا ہوں ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی : ( ترجمہ : اور وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے انہیں آپ مردہ نہ سمجھیں ، وہ تو زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کے ہاں رزق دیا جاتا ہے .....الخ ([85]) )

              بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل     

اﷲ رب العزت نے سورۃ الفتح کی متعدد آیات میں ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح وستائش کی ہے جو حدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان میں شریک ہوئے اور رسولِ اکرم ﷺکے ہاتھ پر بیعت کی ۔ فرمانِ الٰہی ہے :     (لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗوَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)     ترجمہ : ’’یقیناًاﷲ تعالیٰ ان مومنوں سے خوش ہوگیا جو درخت تلے آپ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا ۔ اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی ، اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے ، اﷲ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے([86])۔‘‘          اس کے علاوہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں حدیبیہ کے دن فرمایا : (أَنْتُمْ خَیْرُ أَهْلِ الْأرْضِ )، وَکُنَّا أَلْفًا وَّأَرْبَعَمِأَۃٍ.           ’’ تم آج روئے زمین پر بسنے والے تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہو‘‘ اور اس دن ہم چودہ سو افراد تھے ([87]) ۔‘‘ اور حضرت ام بشررضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا :     (لاَيَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اﷲُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ الَّذِينَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا)            ’’ان درخت والوں میں سے کوئی صحابی إن شاء اﷲ جہنم میں داخل نہیں ہوگا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی ([88]) ۔ ‘‘

یاد رہے کہ اس حدیث میں ’’إن شاء اﷲ ‘‘ محض تبرک کے لئے ہے ، ورنہ یہ بات یقینی ہے کہ ان میں سے کوئی صحابی جہنم میں داخل نہیں ہوگا  ([89]) ۔                 ان احادیث کے علاوہ دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں بھی متعدد احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں جنہیں ذکر کرنے کا اب موقعہ نہیں، اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص ومحبت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ

قارئین محترم !       آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب کے متعلق قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کو ملاحظہ فرمایا، اب یہ بھی جان لیجئے کہ اس قدر عظیم فضائل ومناقب والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہونا چاہئے ۔ اور ان کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ کیاتھا ؟          ۱۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا اور ان کے لئے دعا کرنا اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا واجب، ان کے لئے دعا کرنا لازم اور ان سے بغض رکھنا حرام ہے ، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں صحبتِ رسول ﷺ سے نوازا اور انہیں نصرتِ دین کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کے لئے منتخب فرمایا ۔ سورۃ الحشر میں اﷲ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے :   (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ)   ترجمہ : ’’اور (مالِ فئے )ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو ان کے بعد آئے ، وہ ( دعا ) کرتے ہوئے کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہمیں معاف کردے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں ، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ نہ پیدا کر ، اے ہمارے رب ! یقینًا تو بڑی شفقت والا ، بے حد رحم کرنے والا ہے([90])۔‘‘  یہ آیتِ کریمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرناواجب ہے ،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد آنے والے لوگوں کو بھی مالِ فئے کا مستحق قرار دیا ہے ، لیکن اس کی ایک شرط یہ لگا دی کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ امام مالک ؒ کے نزدیک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنے والے مالِ فئے کے مستحق نہیں ٹھہرتے ([91]) ۔‘‘

اور اسی آیت کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ :

’’ لوگوں کو حکم دیا گیا تھاکہ وہ اصحابِ محمدﷺ کے لئے دعائے مغفرت کریں لیکن لوگوں نے انہیں بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ہے([92])۔ ‘‘

اور حضرت براءؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے انصار کے متعلق فرمایا :

 (لا يُحِبُّهم إلاَّ مؤمن ، ولا يبغضهم إلاَّ مُنافق ، مَن أحبهم أحبه الله ، ومن أبغضهم أبغضه الله)           ترجمہ :’’ ان سے محبت صرف مومن ہی کرسکتا ہے ، اور ان سے بغض رکھنے والامنافق ہی ہو سکتا ہے ، اورجو ان سے محبت کرے گا اﷲ اس سے محبت کرے گا ، اور جو ان سے بغض رکھے گا اﷲ اس سے بغض رکھے گا  ([93])۔‘‘                   معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ان کے بغض وعناد سے پاک رکھتے ہیں ۔        امام ابو جعفر الطحاوی رحمہ اﷲ‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :    (نُحِبُّ أصحابَ رسول اﷲ ﷺ ، ولا نفرّطُ فی حُبِّ أحد منھم ، ولا نتبرّأ من أحد منهم ، ونبغض من یبغضهم وبغیر الخیر یذکرهم ، ولا نذکرهم إلاّ بخیر ، وحبّهم دین وإیمان وإحسان، وبغضهم کفرٌ ونفاق وطغیان)           ’’ہم رسول اﷲﷺ کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے ، اور نہ ہی ان میں سے کسی صحابی سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں ۔

اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھتا ہو اور انہیں خیر کے ساتھ ذکر نہ کرتا ہو ، ہم انہیں خیر کے ساتھ ہی یاد کرتے ہیں ۔ ان کی محبت عین دین ،ایمان اور احسان ہے ، جب کہ ان سے بغض رکھنا عین کفر ،نفاق اور سرکشی ہے ([94])۔‘‘     اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں :

’’اہل السنۃ والجماعۃ کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بغض سے اور اپنی زبانوں کو ان کی عیب گیری سے محفوظ رکھتے ہیں ([95]) ۔‘‘    ۲۔اہل السنۃ والجماعۃ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہیں      ہم اس رسالہ کے آغاز میں سورۃ التوبۃ کی آیت ( وَالسَّابِقُوْنَ الْأوَّلُوْنَ...)کے حوالے سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار اور متاخرین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنی رضامندی کا اعلان اور ان کے لئے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ، لہٰذا اہلِ سنت والجماعت تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کیلئے جنت کی گواہی دیتے ہیں ۔ اور رسولِ اکرمﷺنے خاص طور پر جن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لے کر انہیں جنتی قرار دیا اہلِ سنّت والجماعت ان کے لئے بھی جنت کی گواہی دیتے ہیں ، مثال کے طور پر عشرہ مبشرہ کے متعلق رسول اکرم ﷺ کا ارشادہے :        ’’ ابوبکر ؓ جنت میں ہیں ، عمرؓ جنت میں ہیں ، عثمانؓ جنت میں ہیں ، علیؓ جنت میں ہیں ، طلحہؓ جنت میں ہیں ، زبیر ؓ جنت میں ہیں ، عبد الرحمن بن عوفؓ جنت میں ہیں ، سعد بن ابی وقاص ؓ جنت میں ہیں ، سعید بن زیدؓ جنت میں ہیں اور ابو عبیدہ الجراحؓ جنت میں ہیں  ([96])۔‘‘

اسی طرح دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لیکر آپ نے انہیں جنتی قرار دیا۔ اور چند صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لینے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جنتی نہیں ، بلکہ یہ تو دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر ان کی فضیلت کی دلیل ہے، ورنہ ہم یہ بات قرآن مجید کے حوالے سے پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اﷲ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے ۔    

 ۳۔تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں

فرمانِ الٰہی ہے :

(وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا)    ترجمہ : ’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل ( بہترین ) امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہوجائیں ([97])۔ ‘‘    ’’ أُمَّةً وَسَطًا ‘‘ کا معنی بیشتر مفسرین نے ’’ عدولا خیارا ‘‘ کیا ہے ، یعنی بہترین ، سب سے افضل ، ثقہ اور قابل اعتماد امت ([98]) ۔‘‘ اِس آیت کے سب سے پہلے مخاطب رسول اکرم ﷺ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم ہیں ، جنہیں تبلیغ دین کی ذمہ داری سونپی گئی ، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :(كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ)ترجمہ : ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ، تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ([99])۔‘‘   اور رسول اﷲﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جمِ غفیر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا :   (أَلَا لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْکُمُ الْغَائبَ )

یعنی ’’خبردار ! تم میں جو یہاں پر موجود ہے وہ غیر حاضر تک       ( اس دین کو ) پہنچائے  ([100]) ۔‘‘       ان آیاتِ کریمہ سے اور اس حدیثِ نبوی سے ثابت ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم امین ، ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں ، تبھی تو انہیں تبلیغ دین جیسا اہم فریضہ سونپا گیا ، ورنہ اگر وہ امین اور ثقہ نہ ہوتے تو انہیں یہ ذمہ داری نہ سونپی جاتی۔ اس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے(أُمَّةً وَسَطًا)کے بعد(لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ)کہا ہے ، جس کا معنی یہ ہے کہ اﷲ کے ہاں ان کی گواہی قابل قبول ہے ، اور یہ بھی ان کے عدول، ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے ، ورنہ ایسا نہ ہوتا تو ان کی گواہی بھی قابلِ قبول نہ ہوتی !!        

امام القرطبی ؒ سورۃ الفتح کی آخری آیت(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ...الخ )کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’ تمام کے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عدول ( ثقہ اور قابل اعتماد )ہیں ، اﷲکے اولیاء اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں اور انبیاء ورسل علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد اس کی مخلوق میں سب سے افضل ہیں ، یہی اہل سنت والجماعت کے ائمہ کا مذہب ہے ۔اور ایک فرقے کا کہنا ہے کہ نہیں ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی عام لوگوں کی طرح ہیں ، اس لئے ان کے ثقہ ہونے کے بارے میں بحث کرنا ضروری ہے، لیکن ان کا یہ مذہب مردود ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان سے اپنی رضامندی کا اعلان اور ان کے لئے جنت ومغفرت کا وعدہ فرمایا ہے([101])۔ ‘‘  

 ۴۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا حرام ہے

         اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور انہیں گالیاں دینا حرام ہے ۔ اور اس کی حرمت قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے ، مثلاً :         أ۔ فرمانِ الٰہی ہے :

 (وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا)         ’’جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیں ، وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں([102])۔‘‘     اس آیت میں مومنوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس امّت کے اوّلیں مومنین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے ، تو انہیں سب وشتم کے ذریعے ایذاء پہنچانا قرآن مجید کے الفاظ میں بہتان اور واضح گناہ ہے ۔          ب۔سورۃ الفتح کی آخری آیت (مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ ...الخ ) جس کا تذکرہ اس رسالہ کے شروع میں کیا گیا ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے عناد رکھنا اور ان کے بارے میں غیظ وغضب میں مبتلا ہونا کافروں کا شیوہ ہے ، اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان پاکبازہستیوں کے متعلق غیظ وغضب کا اظہار کرنا اور انہیں برا بھلا کہنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ کافروں کا عمل ہے۔      ج۔ ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں چند احادیث کا تذکرہ پہلے کرچکے ہیں ، ان میں سے ایک حدیث جسے حضرت ابوسعید الخدری ؓ نے روایت کیا ہے ، اس میں رسول اﷲﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے ، جو حرمتِ سب وشتم کی واضح دلیل ہے ۔ د۔حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :

 (مَنْ سَبَّ أَصْحَابِیْ فَعَلَيهِ لَعْنةَ اﷲِ وَالْمَلَآئکةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ) ترجمہ : ’’جس شخص نے میرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں اس پر اﷲ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ([103])۔ ‘‘  اس حدیث میں رسول اﷲﷺنے اس شخص کو ملعون قرار دیا ہے جو آپﷺ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم پر زبان درازی اور سبّ وشتم کرتا ہے، لہذا ان پر زبان درازی کرنے والوں کو اپنے متعلق خود ہی سوچ لینا چاہئے کہ ان کے بارے میں سید الرسل حضرت محمدﷺ نے کیا فیصلہ صادر فرمایا ہے !!          ھ۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ لوگ نبی کریمﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں ، حتی کہ ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کو بھی معاف نہیں کرتے ! تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا : تم اس پر تعجب کرتے ہو ؟ در اصل ان کا عمل منقطع ہوچکا ہے تو اﷲ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ ان کا اجر منقطع نہ ہو ([104])۔‘‘

ان تمام دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اپنے دلوں کو بغض اور کینہ سے پاک رکھنا اور اپنی زبانوں کو ان پر سبّ وشتم کرنے سے محفوظ رکھنا لازمی امر ہے ۔        اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتا اور ان کی عیب گیری کرتا ہو وہ در اصل نبی کریم ﷺ کی عیب گیری کرتا ہے ، کیونکہ آپﷺنے تو انہیں بشارتیں سنائی ہیں اور انہیں امین اور ثقہ قرار دیا ہے ۔ اور وہ شخص در اصل اﷲ تعالیٰ پر بھی اعتراض کرتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہی انہیں اپنے نبی کے ساتھ کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں اپنی رضا مندی سے نوازا اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا ۔

اور وہ شخص دراصل پورے دینِ الٰہی میں طعنہ زنی کرتا ہے کیونکہ اس دین کو نقل کرنے والے یہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی تو ہیں ، اس لئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عیب گیری کرنا انتہائی خطرناک امر ہے ، جس سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے ، اﷲ تعالیٰ ہم سب کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔آمین ثم آمین    



([1])[ البقرۃ : ۱۳۷]

([2])[ النساء : ۱۱۵]

([3])[الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ : ج۱ ص ۷۔۸ ]       

([4]) التوبہ:۱۰۰

([5])[ الدّر المنثور : ۴/ ۲۷۲]    

([6])[التوبۃ : ۱۱۷]

([7])[ تفسیر القرطبی : ۸/۲۷۹۔ تفسیر ابن کثیر : ۲/۵۲۲]

([8])[ مسند احمد : ۳/ ۱۱ حدیث : ۱۱۰۹۵، وأصلہ فی صحیح مسلم ، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا ۔ حدیث : ۴ ۴]

([9])[ النمل :۵۹]      

([10])[ جامع البیان : ۲۰/۲ ، نیز دیکھئے : منھاج السنۃلابن تیمیہ : ۱/۱۵۶]

([11])   [حلية الأولياء: ۱/ ۳۰۵۔۳۰۶]       

([12])[مسنداحمد : ۱/۳۷۹ ، شرح السنۃ :۱/ ۲۱۴ بإسناد حسن]    

([13])[ الفتح : ۲۹]

([14])[ تفسیر ابن کثیر : ۴/۲۶۱]

([15])[ مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب أن بقاء النبی ﷺ أمان لأصحابہ ۔ حدیث : ۲۵۳۱]

([16])[ شرح مسلم للنووی : ۱۶/ ۸۳]

([17])[ البخاری : کتاب الشہادات ، باب لا یشہد علی شہادۃ جور إذا شہد ، حدیث :۲۶۵۲۔مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونہم ، حدیث : ۲۵۳۳]            

([18])[البخاری : ۲۵۴۱ ، ۳۶۷۳، مسلم :۲۵۴۰]        

([19])[مسند احمد :۱۷۳۸۸، الطبرانی : ۲۲/۷۴۲۔البزّار:۲۷۶۹(کشف الأستار )، مجمع الزوائد ۱۰/۱۸: إسنادہ حسن ]        

([20])[مجموع الفتاوی : ۴/۴۳۰]              

([21])[ بخاری : ۳۶۵۹ ]

([22])[ بخاری : کتاب فضائل أصحاب النبی ﷺ باب قول النبی ﷺ لوکنت متخذا خلیلا : ۳۶۶۸]

([23])[ عقیدۃ أھل السّنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ : ۲/ ۵۱۴]          

([24])[ البخاری : ۳۶۶۰]

([25])[ البخاری : ۳۶۶۱]         

([26])[ البخاری : ۳۶۵۴، مسلم : ۲۳۸۲]

([27])[ مستدرک حاکم ۳/۲۸۴ : صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی ]    

([28])[البخاری : ۳۸۵۶]

([29])[ البخاری : ۳۶۵۲]         

([30])[ البخاری : ۳۶۶۶ ]        

([31])[ مسلم : ۱۰۲۷]

([32])[ البخاری :۳۶۶۲، مسلم : ۲۳۸۴]     

([33])[ البخاری : ۳۶۵۵]

([34])[ البخاری : ۳۶۷۱، ابو داؤد : ۴۶۲۹]             

([35])[ ترمذی : ۳۶۸۱ ، ۳۶۸۳ باسنا د حسن ]          

([36])[ البخاری : ۶۳۸۴]

([37])[ طبقات ابن سعد ۳/۱/۱۹۳]            

([38])[ البخاری : ۳۶۸۰، مسلم : ۲۳۹۵]

([39])[ ترمذی : ۳۶۸۲ وغیرہ باسناد صحیح لغیرہ ]    

([40])[ رواہ احمد فی المسند ۲/۹۵ وغیرہ باسناد حسن ]

([41])[ البخاری : ۳۶۸۳ ، مسلم : ۲۳۹۶]   

([42])[بخاری : ۳۶۷۷ ، مسلم : ۲۳۸۹]     

([43])[ البخاری : ۳۶۹۵، مسلم : ۲۴۰۳]

([44])[صحیح مسلم:۲۴۰۱]

([45])[البخاری : ۲۷۷۸ ]              

([46])[ البخاری : ۴۲۱۰، مسلم : ۲۴۰۶]

([47][ البخاری : ۴۲۵۱]

([48])[ مسند احمد : ۴/۳۷۰ باسناد صحیح ]

([49])[ احمد فی فضائل الصحابۃ : ۱۰۷۸ باسناد حسن ]             

([50])[ مسلم : ۷۸]

([51])[ مسند احمد : ۱/۱۸۸ باسناد صحیح ]

([52])[صحیح مسلم:۲۴۱۷]

([53])[الأحزاب:۳۲۔۳۳]

([54])[ ھود : ۷۱۔۷۳]

([55])[ مسلم : ۲۴۲۴]

([56])[ ترمذی : ۳۲۰۵ ۔ وصححہ الألبانی ]

([57])[ مسند احمد ج ۲۸ ص ۱۹۵ : ۱۶۹۸۸ ۔ الأرناؤط : حدیث صحیح ]     

([58])[الأحزاب : ۶]  

([59])[ الأحزاب : ۵۳]

([60])[ الأحزاب : ۲۸ ۔۲۹]       

([61])[ البخاری : ۴۷۸۶ ،مسلم : ۱۴۷۵]

([62])[ الأحزاب : ۳۱]            

([63])[الأحزاب : ۳۲]

([64])[ البخاری : ۶۲۸۵۔ ۶۲۸۶، مسلم : ۲۴۵۰]

([65])[ مستدرک حاکم باسناد صحیح ]

([66])[ ابوداوؤد : ۵۲۱۷ ، ترمذی : ۳۸۸۱ ۔ وصححہ الألبانی ]

([67])[ الترمذی : ۳۷۸۱ وصححہ الألبانی]

([68])[ البخاری : ۳۷۵۳ ، ۵۹۹۴ ]

([69])[ الترمذی : ۳۷۷۰ وصححہ الألبانی]

([70])[ مسند احمد ج ۳۸ ص ۲۱۱ :۲۳۱۳۳ ۔ وإسنادہ صحیح ، ورواہ الترمذی عن البراء بن عازب۵ : ۳۷۸۲ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۲۷۸۹ ]  

([71])[ رواہ احمد ج ۱۵ ص ۴۲۰ : ۹۶۷۳ ، وج ۱۳ ص ۲۶۰ : ۷۸۷۶ ، وابن ماجہ باختصار : ۱۴۳ وحسنہ الألبانی]

([72])[ ابو داؤد : ۱۱۰۹ ، النسائی : ۱۴۱۳، ابن ماجہ : ۳۶۰۰ ، وصححہ الألبانی ]

([73])[ البخاری : ۳۷۱۱ ، مسلم : ۱۷۵۹]

([74])[ البخاری : ۳۷۱۳]         

([75])[بخاری : ۳۶۷۷ ، مسلم : ۲۳۸۹]

([76])[الحشر : ۹ ]

([77])[ بخاری : تفسیر القرآن باب ( ویؤثرون علی أنفسہم) : ۴۸۸۹ ، ۳۷۹۸، مسلم کتاب الأشربۃ باب إکرام الضیف : ۲۰۵۴]       

([78])[ بخاری : ۳۷۸۰ ، ۳۷۸۱ ]

([79])[بخاری : ۳۷۷۹]            

([80])[ بخاری : ۳۷۷۸ ، مسلم : ۱۰۵۹]

([81])[ بخاری : ۳۷۸۶ ، مسلم : ۲۵۰۹]    

([82])[ بخاری : ۳۷۹۶]           

([83])[ البخاری ۔ الجھاد والسیر ، باب الجاسوس ، حدیث ۳۰۰۷، مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب فضل أہل بدر ، حدیث : ۲۴۹۴]

([84])[ البخاری ۔ کتاب المغازی ، باب شھود الملآئکۃ بدرا ، حدیث :۳۹۹۲]

([85])[ ابوداؤد : کتاب الجہاد ، باب فی فضل الشہادۃ ، حدیث :۲۵۲۰، مسند احمد ،حدیث :۲۳۸۴، حسّنہ الألبانی فی صحیح أبوداؤد: برقم :۲۱۹۹]

([86])[ الفتح : ۱۸۔۱۹]

([87])[ البخاری : کتاب المغازی ، باب غزوۃ الحدیبےۃ ، حدیث : ۴۱۵۴، مسلم :کتاب الإمارۃ باب إستحباب مبایعۃ الإمام الجیش ، حدیث : ۱۸۵۶]

([88])[مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب فضائل أصحاب الشجرۃ ، حدیث : ۲۴۹۶]    

([89])[ النووی ، شرح مسلم : ۱۶/۸۵]

([90])[ الحشر :۱۰]

([91])[ الجامع لأحکام القرآن : ۱۸/ ۳۲]     

([92])[ مسلم کتاب التفسیر باب حدّثنا يحيٰ بن يحيٰ... حدیث : ۳۰۲۲]           

([93])[بخاری ۔ کتاب مناقب الأنصار باب حب الأنصار من الإیمان : ۳۷۸۳ ، مسلم کتاب الإیمان باب الدلیل أنّ حبّ الأنصار وعلی رضی اﷲ عنہ من الإیمان ... : ۷۵]

([94])[ شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ۴۶۷]

([95])[ شرح العقیدۃ الواسطیۃ : ۱۴۲۔۱۵۲] 

([96])[ ترمذی ، مسند احمد ۔ صحیح الجامع للألبانی : رقم ۵۰ ]

([97])[ البقرۃ : ۱۴۳]

([98])[تفسیر جامع البیان : ۲/۷، تفسیر القرطبی : ۲/۱۵۳، تفسیر ابن کثیر :۱/۳۳۵]

([99])[آل عمران : ۱۱۰]

([100])[ البخاری کتاب العلم باب ألا لیبلّغ الشاہد منکم الغائب ، حدیث :۱۰۵، مسلم کتاب القسامۃ باب تحریم الدماء والأعراض والأموال ، حدیث: ۱۶۷۹]

([101])[تفسیر القرطبی :۱۶/۳۹۹]

([102])[الأحزاب :۵۸]

([103])[ الطبرانی فی الکبیر : ۳/۱۷۴، وانظر : الصحیحۃ للألبانی : ۲۳۴۰] 

([104])[جامع الأصول:۹/۴۰۸]