قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی بیس دلیلیں اور قبروں پر مساجد و حجرے تعمیر کرنے کا حکم (⮫)


 قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی بیس دلیلیں اور قبروں پر مساجد و حجرے تعمیر کرنے کا حکم

الحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم، أما بعد!

        اللہ تعالیٰ نے جنات و انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ مقصد عظیم یہ ہے کہ جن و انس صرف ایک اللہ پاک کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و ما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون“ (سورۃ الذاریات/56) (ترجمہ: میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔) عبادت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی و خوش ہوتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے، چاہے وہ اقوال کی صورت میں ہو یا ظاہر و باطنی اعمال کی شکل میں ہو۔

        ”چنانچہ نماز، زکاۃ، روزہ، حج، صدق گوئی، امانت کی ادائیگی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، وفائے عہد و پیمان، امر بالمعروف ونہی عن المنکر (اچھی بات کا حکم دینا اور برائی کے کاموں سے روکنا) کفار و منافقین سے جہاد، پڑوسی، یتیم، مسکین، مسافر اور غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک و برتاؤ اور تعاون، جانوروں پر رحم، دعا، ذکر، تلاوت اور اس قبیل کی دیگر عبادتیں۔

        اسی طرح اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت، اللہ کا خوف و خشیت اور اس سے لو لگانا، دین کو اللہ کے لئے خالص کرنا، اللہ کے حکم کی تعمیل میں صبر کا مظاہرہ، اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر، اللہ کے فیصلے سے راضی ہونا، اللہ پر بھروسہ، اس کی رحمت کی امید، اس کے عذاب کا خوف اور اس قبیل کے دیگر باطنی اعمال بھی اللہ کی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں۔“[1]؎

        اللہ کی عبادت کی ضد شرک ہے جس کا ارتکاب اللہ کی عبادت میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی انسان عبادت میں کسی کو اللہ کا شریک بنا لیتا ہے اور جس طرح اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اسی طرح اس غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس سے اس طرح خوف کھاتا ہے جیسے اللہ سے خوف کھاتا ہے، کسی عبادت کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے، مثلاً اس غیر اللہ کے لئے نماز پڑھنا، جانور ذبح کرنا، نذر ماننا اور اس قبیل کے دیگر اعمال کو انجام دینا۔

        بندوں پر یہ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے کہ اس نے ان تمام چور دروازوں کو بھی بند کر دیا ہے جو بذات خود شرک نہیں ہیں لیکن شرک تک پہنچانے والے ہیں تاکہ انسان دین کے معاملے میں ہلاکت سے ہمکنار کرنے والے ان اسباب سے چوکنا بھی رہے اور اس سے دور بھی رہے۔ ان اسباب ہلاکت میں سے ایک قبروں کے پاس نماز پڑھنا ہے جس کی اسلامی شریعت میں ممانعت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سی احادیث میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔ ان احادیث کا بیان اس رسالہ میں ان شاء اللہ آگے آئے گا۔ اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ قبر کے پاس نماز پڑھنے والا جب اس عمل کو انجام دیتا ہے تو شیطان اس کے لئے اس نماز کو اس طرح مزین کرکے پیش کرتا ہے جیسے کہ اس نے اس میت کے لئے نماز پڑھی ہو، اسے سجدہ کیا ہو، اس سے دعا مانگی ہو اور اس کی طرف متوجہ ہوا، خاص طور پر اس نمازی کے لئے جس نے سختی و پریشانی کی حالت میں قبر کے پاس نماز ادا کی ہو۔ جو اس کیفیت میں مبتلا ہوا وہ اللہ کی عبادت کے اندر شرک  میں مبتلا ہو گیا، اس کی وجہ سے انسان ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔

        اس مختصر رسالہ میں مَیں نے کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر اہل سنت کی کتابوں میں جو مسائل متفرق طور پر بیان ہوئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل کو یہاں جمع کر دوں اور اس کے ذریعہ خود کو اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہنچاؤں۔ چنانچہ میں نے اس رسالہ میں قبر کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت سے متعلق شرعی دلائل کو بیان کیا ہے۔ پھر اس ممانعت کے تعلق سے چاروں مسالک کے علماء کے اقوال کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے نقل کیا ہے، اس کے بعد قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی علت کی وضاحت کی ہے۔ اس رسالہ کا ایک حصہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کے حکم کو واضح کرنے کے لئے خاص کیا گیا ہے اور یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ قبروں پر تعمیر مساجد کی حرمت چاروں مسالک کے علماء کے نزدیک مخصوص طور پر ثابت ہے، پھر اس مسئلہ میں تمام علماء کے اتفاق و اجماع کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک فصل کے تحت قبروں پر حجرے اور رہائش گاہوں وغیرہ  تعمیر کرنےکا حکم  بیان کیا گیا ہے۔

        میں اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کے وہ اس رسالہ کو تحریر کرنے والے اور پڑھنے والے سب کے لئے باعث نفع بنا دے، ہمیں اور تمام مسلمانوں کو علم نافع کو حاصل کرنے اور سنت نبوی کی اتباع کرنے کی توفیق دے جیسا کے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے پسند کیا ہے۔ اور ہم سب کو عبادات میں بدعات اور نئے امور کو شامل کرنے سے بچنے کی توفیق دے تاکہ ہم سب کی عبادتیں اللہ پاک کے یہاں شرف قبولیت حاصل کریں اور قیامت کے دن بھی ہمارے لئے نفع بخش ثابت ہوں۔

واللہ أعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا

بقلم:

ماجد بن سلیمان الرسی

20، جمادی الآخرۃ

1434ھ

majed.alrassi@gmail.com

 فصل

 مسجد کا معنی و مفہوم

         لفظ مسجد کا استعمال دو معانی کے لئے ہوتا ہے، ایک عام اور دوسرا خاص۔ مسجد کے عام معنی سے مراد ہر وہ جگہ ہے جہاں پر نماز ادا کرنا درست ہے، چاہے وہ ہموار نرم زمین ہو یا کنکریلی پتھریلی غیر مسطح زمین ہو، چاہے وہ کوئی عمارت ہو یا چھت کے بغیر کھلی فضا میں ہو۔ اس مفہوم میں نبی کریم صلی اللی علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ”جعلت لي الأرض مسجدا وطھورا“[2]؎ (میرے لئے روئے زمین کو نماز پڑھنے کی جگہ اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔) اس حدیث میں طھورًا سے مراد وہ چیز ہے جس سے تیمم کے ذریعہ پاکی حاصل کرنا درست ہو۔

         لفظ مسجد خاص معنی کے اعتبار سے وہ عمارت ہے جو نماز کی ادائیگی کے لئے تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ لفظ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں استعمال ہوا ہے: ”إنما یعمر مساجد اللہ من آمن بااللہ و الیوم الآخر و أقام الصلاۃ و آتی الزکاۃ و لم یخش إلا اللہ“[3]؎ (ترجمہ: اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکاۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔)

قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لینے کا مطلب

       قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لینے میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قبروں کے اوپر باقاعدہ مسجدیں بنائی جائیں۔ دوسرے یہ کہ کسی تعمیر شدہ عمارت کے بغیر قبروں کے پاس نماز پڑھی جائے۔[4]؎

قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لینے والوں کا قبروں کے ساتھ رویہ

         قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لینے والوں کی دو حالتیں ہیں:

         پہلی حالت: یہ لوگ یا تو نماز اور سجدوں کے ذریعہ بذات خود قبر کی عبادت کرتے ہیں، جس طرح بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے سامنے ان عبادتوں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ سراسر کفر ہے۔ اس کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں۔

         دوسری حالت: یا پھر یہ لوگ اس اعتقاد کے ساتھ قبر کے پہلو میں نماز پڑھتے ہیں کے قبر کے پاس پڑھی جانے والی نماز کو اس نماز کی بہ نسبت خصوصیت و فضیلت حاصل ہے جو قبر کے آس پاس ادا نہیں کی گئی ہے، حالانکہ ان لوگوں کا مقصود اللہ ہی کے لئے نماز پڑھنا ہوتا ہے۔ احادیث نبوی میں قبروں کے آس پاس پڑھی جانے والی ان ہی نمازوں کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ عنقریب آئے گی۔

 فصل

 قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی علت کا بیان

      اسلامی شریعت میں قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، چاہے قبر مسجد کی عمارت کے نیچے ہو یا صحراء و بیابان میں ہو۔ اس ممانعت کے چھ اسباب ہیں:

         پہلا سبب: عام طور قبروں کے پاس نماز پڑھنے والوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ قبروں کے پاس پڑھی جانے والی نماز کی اس نماز کے مقابلہ میں خاص برکت، خصوصیت اور فضیلت ہے جو کسی دوسری جگہ پڑھی جاتی ہے۔ اس اعتقاد کی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے۔ شریعت میں  صرف مسجد حرام[5]؎، مسجد نبوی[6]؎ ، مسجد اقصیٰ[7]؎ ، مدینہ کی مسجد قباء[8]؎  اور (صحیح قول کے مطابق) مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ کے پاس وادئ عقیق[9]؎  میں پڑھی جانے والی نماز کی افضلیت کی صراحت کی گئی ہے۔ اس بنیاد پر قبروں کے پاس نماز پڑھنا بدعات اور نئے ایجاد کردہ اعمال میں سے ہے۔ اور یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ بدعات اہل بدعات کی طرف لوٹا دیئے جانے والے کام ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں، بلکہ بدعات کو انجام دینے والا سنگین اور بھاری گناہ کو اپنے نامۂ اعمال میں درج کراتا ہے، جیسا کہ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”و إیاکم و محدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ“[10]؎  (تم لوگ نئے کام کرنے سے بچو، اس لئے کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔)

         عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کی جو اس کا حصہ نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“[11]؎

         صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہماری لائی ہوئی شریعت کے مطابق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔[12]؎

         شیخ مرعی بن یوسف کرمی حنبلی[13]؎  رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ بات جان لیجیئے کہ تمام عام جگہوں کی شریعت میں اصلاً کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی خصوصیت ہے جو اس کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے، بلکہ وہ عام جگہوں ہی کی طرح ہے۔ ایسی عام جگہوں میں سے کسی جگہ کا قصد کرنا یا وہاں نماز، دعاء یا ذکر وغیرہ کے لئے بالقصد جمع ہونا واضح گمراہی اور شرمناک فاش غلطی ہے، اس لئے کے یہ دین میں نئی شریعت سازی ہے اور ایک ایسی عام جگہ کو فضیلت دینا ہے جس کی شریعت میں کوئی فضیلت نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف خواہش پرستی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایسے معبود سے تعبیر کیا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:”أفرأیت من اتخذ إلھہ ھواہ“[14]؎ (ترجمہ: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔) اس کام میں ان مشرکین کی مشابہت پائی جاتی ہے جو چند جگہوں اور مقامات کو صرف خواہش پرستی کی بنیاد پر فضیلت دیتے تھے۔ پھر ان جگہوں پر مجسمہ نصب ہونے کی وجہ سے بالقصد سفر کرکے وہاں جاتے تھے یا مجسمہ کے بغیر بھی وہاں کا سفر کرتے تھے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کا یہ عمل انہیں اللہ تعالیٰ کا تقرب عطا کرتا ہے۔[15]؎

         اسی طرح قبرستانوں میں نماز پڑھنے کی افضلیت کی بات کرنا شریعت پر بہتان تراشی ہے اور علم و جانکاری کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف غلط بات منسوب کرنا ہے۔ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”قل إنما حرمّ ربی الفواحش ما ظھر منھا و ما بطن و الإثم و البغی بغیر الحق و أن تشرکوا باللہ ما لم ینزل بہ سلطاناً و أن تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون“[16]؎  (ترجمہ: آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔)

         دوسرا سبب: قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قبر کے پاس نماز پڑھنے کا محرک بذات خود صاحب قبر کی تعظیم ہوتا ہے جبکہ نمازی کے ذہن و دماغ پر اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا تصور حاوی ہونا ضروری ہے۔

         تیسرا سبب: قبر کے پاس نماز پڑھ کے صاحب قبر کی جو تعظیم کی جاتی ہے اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ خود صاحب قبر کے لئے عبادتوں کو انجام دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، پھر اس کے لئے رکوع، سجود، اس سے دعا، اس کے لئے جانور ذبح کرنا اور اس کی قبر کا طواف سب ہونے لگتا ہے۔ اس طرح وہ نمازی کھلی بت پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے، العیاذ باللہ۔ نووی رحمہ اللہ کا قول ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور کسی دوسرے کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے اس وجہ سے منع فرمایا ہے کہ آپ کو یہ اندیشہ تھا کے مرور زمانہ کے ساتھ لوگ آپ کی تعظیم میں مبالغہ کریں گے اور اس کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے، پھر ہو سکتا ہے کہ یہ لوگوں کو کفر تک پہنچا دے جیسا کہ بہت سی قدیم اقوام کے ساتھ پیش آ چکا ہے۔[17]؎

         جلال الدین سیوطی شافعی[18]؎  رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الأمر با لاتباع و النھی عن الابتداع“ میں رقمطراز ہیں:

         ”جس علت کی وجہ سے شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس کی وجہ سے بہت سی اقوام یا تو شرک اکبر میں مبتلا ہو گئیں یا اس سے کم تر درجہ کے شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں۔ اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ بہت سی گمراہ قومیں نیک لوگوں کی قبروں کے پاس روتی اور گڑگڑاتی ہیں، خشوع و خضوع کا اظہار کرتی ہیں اور تذلل و انکساری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ لوگ ان قبروں کی دل سے عبادت کرتے ہیں، ویسی عبادت وہ اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں اور وقت سحر اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی نہیں کرتے ہیں۔ وہ لوگ ان قبروں کے پاس نماز پڑھ کے اور ان قبر والوں سے دعا مانگ کے جس طرح کی امید وابستہ کرتے ہیں ویسی امید وہ ان مساجد میں عبادت کرنے کے بعد بھی نہیں لگاتے جن کی طرف سفر کرکے جانا مشروع ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پرستی کے فساد و بگاڑ کی جڑ کاٹنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ اسی کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں مطلق طور پر نماز پڑھنے کی ممانعت فرما دی، اگرچہ نمازی نے اس خطہ اور اس جگہ کے بابرکت ہونے کا قصد نہ کیا ہو۔ آپ نے اُس فساد و بگاڑ کے سدباب کے لئے ممانعت فرمائی جس کی وجہ سے بتوں اور استھانوں کو پوجا گیا۔“[19]؎

         ابن تیمیہ[20]؎  رحمہ اللہ کا قول ہے: قبروں کو سجدہ گاہیں بنانا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی ایک بنیاد ہے۔[21]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: قبروں کے پاس نماز پڑھنا، قبروں کو سجدہ گاہیں بنانا اور قبروں کے اوپر مسجدیں تعمیر کرنا سنگین بدعات اور شرک کے اسباب میں سے ہے۔[22]؎

         چوتھا سبب: قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے کی ممانعت اس وجہ سے بھی ہے کہ مساجد میں قبریں بنانا اس حقیقی حکمت کے برخلاف ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مساجد کی تعمیر کو مشروع کیا ہے۔ اور وہ حکمت یہی ہے کہ مساجد کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا جائے جس میں کوئی بھی اللہ کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اس کے برخلاف جب مساجد میں قبریں بنائی جاتی ہیں تو اس کی وجہ سے مساجد کے اندر اللہ اور مخلوق کے درمیان شراکت داری لازم آتی ہے، کیونکہ اس صورت میں مساجد کو اللہ اور مخلوق دونوں کا گھر بنا دیا جاتا ہے۔

         پانچواں سبب: اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مساجد کی تعمیر کو اس مقصد کے تحت مشروع کیا ہے تاکہ وہاں صرف اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے لئے ادا کی جانے والی نماز کی تعظیم ہو۔ مساجد کی تعمیر کا مقصد مردوں کی تعظیم نہیں ہے، چاہے وہ مردے انبیاء ہوں یا علماء و صالحین ہوں یا ان کے علاوہ ہوں۔ اسی لئے قبروں کے پاس نماز یا ان مساجد میں نماز جہاں قبریں ہوں، ممنوع ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں نمازی کے دل میں تعظیم کا جو تصور پیدا ہوگا وہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ غیر اللہ کی مشارکت بھی ہو جائے گی یعنی اس قبر والے کی جو وہاں مدفون ہے۔

         چھٹا سبب: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مساجد میں مردوں کی تدفین کو مشروع نہیں کیا ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد ابتدا کی تین فضیلت یافتہ صدیوں میں یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ اس کی بنیاد پر مساجد میں قبریں بنانا اللہ کے دین میں ایجاد کردہ نئی بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جیسا کے اوپر نقل کی گئی عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں گزر چکا ہے۔

 فصل

 قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے کی ممانعت کے دلائل

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث میں قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے کی ممانعت وارد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض کی شدت کے باوجود اس ممانعت کی تاکید فرمائی۔ پھر دوسری مرتبہ زندگی کے بالکل آخری لمحات میں بھی اس ممانعت کی تاکید فرمائی تھی۔ اس سے اس معاملہ کی اہمیت اور اس کی خطرناکی کا اندازہ ہوتا ہے، کیونکہ جاں کنی کے عالم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے کی ممانعت کو نہیں بھولے۔ اس سلسلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سے زیادہ حدیثیں وارد ہیں۔ یہاں ان احادیث کو قارئین کے لئے نقل کیا جا رہا ہے۔

         1۔ جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ[23]؎  دن قبل یہ فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ اس بات سے آگاہ رہو کہ تم سے پہلے کے لوگ انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے۔ تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنا لینا، میں تم لوگوں کو اس کام سے روک رہا ہوں۔[24]؎

         اس حدیث کو مقید کرنے والے (اللہ ان کومعاف کرے) نے کہا ہے کہ اسی وجہ سے صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تدفین کی۔ یہ قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے ان کے معمول کے برخلاف تھا، اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو نماز پڑھنے کی جگہ نہ بنالی جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس علت کی وضاحت کی ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔

         2۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض وفات میں جس سے جانبر نہ ہو سکے، فرمایا: یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔

         عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کی قبر بھی ظاہر کر دی جاتی۔[25]؎

         عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ اگر صحابہ کرام کو یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیں گے اور قبر کے پاس نماز پڑھیں گے تو آپ کی قبر بھی ظاہر کر دی جاتی، یعنی آپ کو بھی قبرستان میں دفن کیا جاتا اور دیگر قبروں کی طرح آپ کی قبر بھی لوگوں کے لئے ظاہر ہوتی۔ لیکن اس اندیشہ کی وجہ سے کہ لوگ آپ کی قبر کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں گے، تمام صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ آپ کی تدفین گھر کے اندر ہوتا کہ آپ کی قبر پر مسجد بنانے یا آپ کی قبر کے پاس نماز پڑھنے کا امکان باقی نہ رہے۔

         3۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لئے اس کام کو حرام قرار دیا ہے۔[26]؎

         4۔ عائشہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ بار بار اپنی ایک اونی چادر کو اپنے چہرہ پر ڈالتے اور جب دم گھٹنے لگتا تو چادر کو چہرہ سے ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہود اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔“ آپ یہود و نصاری کے اس کام سے اپنی امت کو بچنے کی تعلیم دے رہے تھے۔[27]؎

         اوپر گزری ہوئی حدیث کی طرح اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی طرح قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے سے بچنے کی تاکید کر رہے ہیں اور اس کے لئے آپ نے لعنت کا اسلوب اختیار کیا ہے تاکہ آپ کی امت کے افراد اہل کتاب جیسا کام کرنے سے دور رہیں۔

         ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ اس مرض کی وجہ سے دنیا سے کوچ کرنے والے ہیں تو آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی قبر کی بھی ویسی ہی تعظیم نہ کی جائے جیسا کہ گزری ہوئی قوموں نے اپنے انبیاء کی قبروں کی تعظیم کی ہے، لہذا آپ نے یہود و نصاری پر لعنت بھیجی، اس میں یہ اشارہ تھا کہ جو ان کی طرح اس کام کو انجام دے گا وہ مذموم و ملعون ہے۔[28]؎

         قارئین کرام کے لئے یہاں پر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں وفات سے پانچ دن قبل مردوں کے تعلق سے غلو کرنے سے تاکیدی طور پر منع فرمایا جیسا کہ جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور ہے۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ بھی آپ نے اس معاملہ میں تاکید فرمائی جیسا کہ اس حدیث میں صراحت کی گئی ہے۔ یہ تاکید بھی آپ نے موت کے بالکل قریب فرمائی ہے۔ اس سے اس معاملہ کی سنگینی اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

         شیخ احمد رومی حنفی[29]؎  رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ حدیث مصابیح کی صحیح حدیثوں میں سے ایک ہے جو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے ذریعہ یہود و نصاری پر لعنت کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان جگہوں پر نماز پڑھتے تھے جہاں ان کے انبیاء مدفون تھے، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قبرستانوں میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ اس مذموم عمل میں وہ یہود و نصاری کی مشابہت اختیار نہ کریں۔

         بعض محققین کہتے ہیں: نیک لوگوں کی قبروں کی متبرک جگہوں پر نماز پڑھنے کی ممانعت بھی اس میں شامل ہے، خاص طور پر تب جبکہ ان نیک لوگوں کی تعظیم کی خاطر وہاں نماز پڑھی جائے۔ نوح علیہ السلام کی قوم میں بت پرستی کی ابتداء قبروں کے پاس لوگوں کے تعظیماً کھڑے ہونے سے ہوئی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں اس کی خبر دی ہے۔[30]؎[31]؎

         5۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا: میرے صحابۂ کرام کو بلاؤ۔ چنانچہ تمام صحابۂ کرام آپ کے پاس آئے، آپ یمن میں تیار کی جانے والی معافری چادر سے اپنا چہرہ ڈھکے ہوئے تھے، آپ نے چہرہ سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔[32]؎

         اس حدیث نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ مسئلہ کتنا اہم تھا کہ آپ نے چند صحابہ کو اپنا یہ آخری پیغام سنانے پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ آپ کی یہ خواہش ہوئی کہ زیادہ سے زیادہ اصحاب کرام آپ کے اس آخری پیغام کو سنیں، اسی لئے آپ نے فرمایا کے میرے صحابہ کرام کو میرے پاس بلاؤ۔[33]؎

         6۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود کو ہلاک و برباد کرے، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔[34]؎

         7۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سب سے بدترین لوگ وہ ہیں جن کے زندہ رہتے ہوئے قیامت آئے گی اور جن لوگوں نے قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔[35]؎

         8۔ ابوعبیدہ عامر بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخری بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ تھی: حجاز کے یہودیوں اور اہل نجران یعنی نجران کے نصاری کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دو اور یہ جان لو کہ سب سے بدترین وہ لوگ ہیں جو قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے ہیں۔[36]؎

9۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا۔ اللہ نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔[37]؎

         شیخ سعد بن حمد بن علی بن عتیق[38]؎ رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی اس دعا کہ اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا جس کی پرستش کی جائے، کے بعد یہ خبر دی کہ قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے والوں پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبروں کی پرستش اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا سبب ہے۔[39]؎

         ابن عبدالبر[40]؎ مالکی رحمہ اللہ کا قول ہے: حدیث میں لفظ ”الوثن“ آیا ہے، اس سے مراد صنم ہے، یعنی سونا، چاندی یا کسی اور چیز سے بنایا ہوا مجسمہ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس چیز کی بھی عبادت کی جاتی ہے وہ وثن ہے، چاہے وہ بت ہو یا بت کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہو۔ عرب بتوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اور ان کی پرستش بھی کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی امت بھی ان گزری ہوئی اقوام کی طرح بت پرستی میں مبتلا نہ ہو جائے۔ ان کے کسی نبی کی وفات ہو جاتی تو یہ لوگ ان کی قبر کے پاس تعظیماً کھڑے ہوتے تھے جیسے بت پرست بتوں کے سامنے تعظیماً کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! تو میری قبر کو بت نہ بنا جس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے، جسے سجدہ کیا جائے اور جس کی عبادت کی جائے۔ کیونکہ یہ وہ مذموم کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اور اپنی امت کو گزری ہوئی قوموں کے برے کرتوت سے بچنے کی تاکید کرتے تھے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھیں اور انہیں قبلہ و سجدہ گاہ بنا لیا، جیسا کہ بت پرست اقوام نے اپنے بتوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ لوگ اپنے بتوں کو سجدہ کرتے تھے اور ان کی تعظیم کرتے تھے جو شرک اکبر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اس سے آگاہ کرتے تھے کہ یہ مذموم کام اللہ تعالیٰ کے غصّہ و ناراضگی کا سبب ہے تاکہ مسلمان گزشتہ قوموں کی راہ پر نہ چل پڑیں۔

         آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب اور تمام کفار کے برخلاف عمل کو پسند فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے بارے میں اندیشہ تھا کہ یہ لوگ اہل کتاب اور کفار کے نقش قدم کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر غور نہیں کیا جس میں عار دلانے اور ڈانٹنے کے انداز میں فرماتے ہیں کہ ”تم لوگ یقینی طور پر گزشتہ قوموں کے نقش قدم پر چلوگے، بالکل قدم سے قدم ملا کر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوگا تو تم لوگ بھی اس میں داخل ہوگے۔“[41]؎[42]؎

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کر لی، اللہ کا شکر اور اس کی حمد و ثناء ہے کہ آپ کی قبر کو بت نہیں بنایا جا سکا جیسا کہ دوسرے لوگوں کی قبروں کو بت بنا کر پوجا گیا، بلکہ حجرہ کی تعمیر کے بعد کوئی شخص اس کے اندر داخل ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ حجرہ کی تعمیر سے پہلے ذمہ دار افراد کسی کو حجرہ میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ وہاں جا کر دعا مانگے یا قبر نبوی کے پاس نماز پڑھے یا اس کے علاوہ کوئی اور غیر شرعی کام کرے جو دوسرے کی قبر کے پاس انجام دیا جاتا ہے۔ کچھ نادان لوگ حجرۂ نبوی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں یا اپنی آواز بلند کرتے ہیں یا ایسی بات زبان سے نکالتے ہیں جن کی ممانعت کی گئی ہے۔ یہ سب حجرۂ نبوی کے باہر ہی ہوتا ہے، قبر نبوی کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر اور اس کی حمد و ثناء ہے کہ اس نے آپ کی دعا قبول کر لی اور اللہ نے کسی کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ آپ کی قبر کے پاس جا کر وہاں نماز پڑھے یا دعا کرے یا آپ کو شریک ٹھہرائے جیسا کہ دوسرے کے ساتھ ہوا، کیونکہ دوسرے کی قبر کو بت بنا کر پوجا گیا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں کوئی اگر اس حجرہ میں جاتا تھا تو عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاطر جاتا تھا۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کبھی کسی کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ آپ کی قبر کے پاس جا کر کوئی ایسا کام کرے جس کی ممانعت کی گئی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد وہ حجرۂ نبوی بند کر دیا گیا، یہاں تک کہ بعد میں وہ حصہ مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا، اس کے بعد حجرۂ نبوی کے دروازہ کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا اور حجرہ کے باہر سے ایک دوسری دیوار تعمیر کر دی گئی۔ یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو میلے اور عید کی جگہ بننے اور آپ کی قبر کو بت پرستی کا اڈہ بننے سے روکنے کے لئے کیا گیا، ورنہ یہ سب کو معلوم ہے کہ مدینہ کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور کسی مسلمان ہی کی وہاں تک رسائی ہوگی، مدینہ کے سارے مسلمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر امتی کی قبر قابل تعظیم ہے۔ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے تحفظ کے لئے جو کچھ کیا ہے اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ مسلمان قبر مکرم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ہیں، بلکہ ان کے تماتر حفاظتی اقدامات کا سبب یہی ہے کہ آپ کی قبر کو بت بنا کر اس کی پرستش نہ کی جائے اور آپ کے گھر کو عید اور میلے کی جگہ نہ بنا لیا جائے نیز آپ کے ساتھ وہ سارے مذموم کام انجام نہ دیئے جائیں جو اہل کتاب نے اپنے انبیاء کی قبروں کے ساتھ انجام دیئے۔[43]؎

         10۔ ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ قبروں کے اوپر بیٹھو۔[44]؎ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: تم لوگ قبروں کے اوپر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔[45]؎ قبر کی طرف نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت قبر کو سامنے رکھا جائے۔

         نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے: اس حدیث میں قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی ممانعت کی صراحت کی گئی ہے۔

         11۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ قبر کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ قبر کے اوپر نماز پڑھو۔[46]؎

12۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت بنانے، ان پر بیٹھنے اور ان کے اوپر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[47]؎

13۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری زمین سجدہ گاہ ہے۔[48]؎ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان اور حمام نماز پڑھنے کی جگہیں نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حمام میں نماز پڑھنے کا گناہ اور اس کی قباحت قبرستان میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کم ہے۔ اس لئے کہ قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے والوں کی مذمت اور لعنت میں تواتر کے ساتھ حدیثیں وارد ہیں۔

14۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔[49]؎ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: اپنی کچھ نمازیں گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔[50]؎ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھو، اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔[51]؎

ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ حدیث کے الفاظ ”اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ“ سے یہ مسئلہ مستنبط کیا گیا ہے کہ قبریں عبادت کی جگہ نہیں ہیں، لہذا قبروں کے پاس نماز مکروہ ہوگی۔

ابن منذر رحمہ اللہ نے ”الأوسط“ میں کہا ہے: اکثر علماء کا موقف یہی ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔[52]؎[53]؎

میں کہتا ہوں: یہاں کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے، نہ کہ کراہت تنزیہی، اس لئے کہ متقدمین کے نزدیک کراہت سے حرمت مراد ہوتی ہے۔ قرآن مجید کا بھی یہی طریقہ ہے کہ اس میں کراہت سے حرمت مراد ہوتی ہے مثلاً یہ آیت کریمہ: ”و کرّہ إلیکم الکفر و الفسوق و العصیان“[54]؎ (ترجمہ: اللہ نے کفر، گناہ اور نافرمانی کو تمہاری نگاہ میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔) متاخرین کے نزدیک کراہت کا مطلب ہے: جس کا تارک تعمیل حکم کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جس کا ارتکاب کرنے والا سزا کا مستحق نہیں ہوتا ہے۔[55]؎ ابن منذر نے مکروہ سے مراد حرمت لی ہے، اس لئے کہ وہ متقدمین میں سے ہیں۔ اس کی وضاحت ان کے بعد کے کلام سے ہوتی ہے۔ انھوں نے آگے چل کر یہ لکھا ہے: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی کچھ نمازیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ اس حدیث میں واضح طور پر صراحت موجود ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔[56]؎

15۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میری قبر کو عید اور میلے کی جگہ نہ بنانا اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بنانا، تم لوگ جہاں بھی رہو وہیں سے مجھ پر درود بھیجنا، تمہارے درود مجھ تک پہنچیں گے۔[57]؎

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبروں سے تشبیہ دی ہے جن میں نمازیں نہیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اصلاً قبریں نماز پڑھنے کی جگہیں نہیں ہیں۔ یہاں پر یہی وضاحت مقصود بھی ہے۔

         16۔ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی ایک دلیل وہ روایت بھی ہے جسے سعید بن منصور نے اپنی سنن میں سہیل بن ابی سہیل سے نقل کیا ہے کہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاتے ہوئے دیکھا تو حسن بن حسن نے ان سے کہا: کیا بات ہے، میں نے آپ کو قبر نبوی کے پاس دیکھا ہے؟ سہیل نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ یہ جواب سن کر حسن بن حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آپ مسجد نبوی میں داخل ہوں تو سلام کر لیں۔[58]؎ اس کے بعد حسن بن حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم لوگ میری قبر کو عید اور میلہ کی جگہ نہ بناؤ اور تم لوگ اپنے گھروں کو قبرستانوں کی طرح نہ بناؤ۔ یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں، تم لوگ مجھ پر درود بھیجا کرو، تم جہاں بھی رہو وہاں سے بھیجے ہوئے تمہارے درود مجھ تک پہنچ جائیں گے۔ اس معاملہ میں تم اور جو اندلس میں ہے دونوں برابر ہیں۔[59]؎

         میں کہتا ہوں: اس حدیث میں بھی گزری ہوئی حدیث کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبروں سے تشبیہ دی ہے جن میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبریں اصلاً نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”تم لوگ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔“ سے مراد یہ ہے کہ تم لوگ اپنے گھروں کو نماز، دعا اور تلاوت قرآن وغیرہ سے بالکل خالی نہ رکھو کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ سے گھر قبروں کی طرح ہو جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالقصد گھروں میں عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور بالقصد قبروں کے پاس عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ شرک میں مبتلا نصاری اور ان کے جیسے دوسرے لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں۔[60]؎

         17۔ علی بن حسین بن علی بن ابی طالب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس تھوڑی سی باقی بچی جگہ میں داخل ہو جاتا اور وہاں پر دعا کرتا تھا۔ علی بن حسین نے اس شخص کو بلا کر کہا: کیا میں تم سے ایک حدیث رسول نہ بیان کروں جسے میں نے اپنے والد سے اپنے دادا کے حوالہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میری قبر کو عید اور میلہ کی جگہ نہ بناؤ، تم لوگ مجھ پر درود بھیجو، تم لوگ جہاں بھی رہو تمہارے درود مجھ تک پہنچ جائیں گے۔[61]؎

         اسماعیل قاضی کی نقل کردہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ”تم لوگ جہاں بھی رہو مجھ پر درود اور سلام بھیجو، تمہارا سلام اور درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔

         میں کہتا ہوں: یہ حدیث بھی گزری ہوئی حدیث ہی کی طرح ہے۔ اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھروں کو قبروں سے تشبیہ دی ہے جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قبریں اصلاً نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔

         18۔ قبرستانوں میں نماز پڑھنے کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آج جہاں پر مسجد نبوی ہے وہ جگہ مسجد کی تعمیر سے پہلے مشرکین کا قبرستان تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کی قبروں کو کھودوا کر مردوں کی باقیات اور ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوسری جگہ منتقل کروا دیا، پھر زمین کو ہموار کرکے اس پر مسجد تعمیر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ سے قبروں کو ہٹانے کے بعد ہی اسے مسجد بنایا۔[62]؎

         19۔ قبرستان میں نماز پڑھنے کی حرمت کی ایک دلیل اس کام کو کرنے والے پر صحابہ کرام کی نکیر ہے۔ اور صحابہ کرام کی نکیر بھی حجت ہونے کے لئے کافی ہے، اس لئے کہ وہ قیامت تک مسلمانوں کے لئے نمونہ ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دن میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا، میرے سامنے ایک قبر تھی جس کا مجھے علم نہیں تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے آواز دی: قبر، قبر، مجھے لگا کہ انھوں نے ”قمر“ کہا تو میرے قریب کھڑے لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ انھوں نے قبر کہا ہے، پھر میں وہاں سے ہٹ گیا۔[63]؎

         ثابت بیان کرتے ہیں، جیسا کہ عبدالرزاق کی روایت میں آیا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تو میرا ہاتھ پکڑ لیتے اور قبروں سے دور ہٹ جاتے تھے۔

         میں کہتا ہوں: اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت صحابہ کرام کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔

         قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت کا قول صحابہ کرام اور تابعین عظام کی ایک جماعت سے منقول ہے، مثلاً انس بن مالک، عبداللہ بن عمرو، الحسن العرنی[64]؎، المسیب بن رافع[65]؎، خثیمہ بن عبدالرحمٰن مدنی[66]؎، ابراہیم نخعی[67]؎، ابن سیرین[68]؎ اور مکحول[69]؎۔[70]؎

         20۔ قبروں کو نماز پڑھنے کی جگہ بنانے کی ممانعت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے کہ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس نماز پڑھنا فضیلت یافتہ عمل ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے اسے انجام نہ دیا ہو جبکہ وہ سب سے زیادہ خیر و بھلائی کی چاہت رکھنے والے تھے اور وہ خیر و بھلائی کے کاموں کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ وہ قیامت تک مسلمانوں کے لئے نمونہ و مثال ہیں، خاص طور پر جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فضیلت یافتہ مقامات کے بارے میں بتا دیا ہے اور ان مقامات پر نماز پڑھنے کے لئے امت کو ابھارا ہے، یعنی تینوں مساجد اور مسجد قباء۔

         شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: سلف امت میں سے کوئی بھی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی کے بھی دور میں انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس نماز پڑھنے یا دعا کرنے کے لئے نہیں جاتے تھے، نہ ان سے سوال کرتے تھے، نہ ان سے فریاد کرتے تھے، نہ تو دور سے نہ ہی ان کی قبروں کے پاس جا کر۔[71]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں لوگ حدیث کی سماعت، دینی مسائل دریافت کرنے اور ملاقات کے لئے ان کے پاس جاتے تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ان کے پاس جا کر قبر مکرم کے پاس نہیں جاتا تھا، نہ نماز پڑھنے کے لئے، نہ دعاء وغیرہ کرنے کے لئے، بلکہ کبھی کوئی ان سے قبروں کو دکھانے کی درخواست کرتا تھا تو وہ انہیں تینوں قبریں دکھا دیا کرتی تھیں۔[72]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں یہ بات تواتر کے ساتھ لازمی طور پر ثابت شدہ ہے کہ آپ نے مساجد کو آباد کرنے اور ان میں نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ آپ نے نبی یا غیر نبی کی قبر یا قیام گاہ پر مزار بنانے کا حکم نہیں دیا ہے۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بلاد اسلامیہ میں سے حجاز، شام، یمن، عراق، خراسان، مصر اور مغرب (مراکش) وغیرہ میں کسی بھی قبر پر کوئی عمارت نہیں تھی اور نہ کوئی مزار تھا جس کا زیارت کے لئے قصد کیا جاتا ہو۔[73]؎

         21۔ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جو دوسرے خلیفۂ راشد ہیں اور جن کی سنت اور طریقہ کی پیروی کی جاتی ہے، نے اس جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا وقت ہو جانے کی وجہ سے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ کو نماز کے لئے خاص کرنے کا قصد نہیں کیا تھا تو پھر اس جگہ کی نماز کا کیا حکم ہوگا جہاں آپ نے بالقصد جا کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے مثلاً قبر کے پاس؟

         معرور بن سوید کی روایت ہے کہ ہم لوگ حج کے ایک سفر میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انہوں نے فجر کی نماز میں ”ألم تر کیف فعل ربک بأصحاب الفیل“ اور ”لإیلاف قریش“ کی تلاوت کی، حج کی ادائیگی کے بعد جب واپسی ہوئی تو ایک جگہ لوگوں کو دیکھا کہ وہ وہاں نماز پڑھنے کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی طرح اہل کتاب ہلاک ہوئے، انہوں نے انبیاء کے آثار کو گرجے بنا لئے۔ جس کے ذمہ کوئی نماز ہو جس کا وقت فوت ہو رہا ہو تو وہ یہاں نماز پڑھے اور جس کے ذمہ کوئی نماز نہ ہو جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ یہاں نماز نہ پڑھے۔[74]؎

         ایک روایت میں یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ اپنی سواریوں سے اتر اتر کر ایک مسجد میں نماز پڑھ رہیں ہیں تو انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ وہ مسجد ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہو گئے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے آثار کو گرجے بنا لئے۔ اس طرح کی مساجد کے پاس سے جس کا گزر ہو اور کسی نماز کا وقت ہو گیا ہو تو وہ وہاں نماز پڑھ لے ورنہ وہاں سے گزر جائے۔[75]؎

         شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ اہتمام کے ساتھ عبادت کی غرض سے جانے کو مشروع نہیں کیا ہے۔ جو جگہ مسجد نہیں ہے، عبادت کے لئے اس کا قصد کرنا مشروع نہیں ہے؛ چاہے وہ نبی کی جگہ ہو یا نبی کی قبر ہو۔[76]؎

         22۔ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی شروع کی تین احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیث نبوی میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے والوں کے لئے سخت وعید موجود ہے: ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے۔“[77]؎

         آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب اور دیگر تمام کفار کے برخلاف عمل کرنا پسند تھا، آپ کو اپنی امت کی طرف سے ان کفار کے نقش قدم پر چلنے کا اندیشہ تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ امت کو عار دلاتے اور ڈانٹتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے: تم لوگ بالشت دربالشت اور ہاتھ درہاتھ گزری ہوئی قوموں کی پیروی کروگے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی وہاں جاؤگے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے یہود و نصاری مراد ہیں۔ آپ نے فرمایا: تو پھر کون مراد ہوں گے؟[78]؎

         قبروں کو عبادت گاہ بنا لینا یہ کفار کا دین ہے۔ موجودہ دور میں اس کا عملی نمونہ وہ ہے جس کا تذکرہ شیخ محمد ناصرالدین البانی[79]؎ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”تخذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد“ میں کیا ہے۔

         وہ کہتے ہیں: میں نے مجلۃ المختار کے مئی 1958ء کے شمارہ میں ایک مقالہ پڑھا تھا جس کا عنوان تھا: ”الفاتیکان المدینۃ القدیمۃ المقدسۃ(قدیم مقدس شہر ویٹیکن) اس میں مقالہ نگار ”رونالڈ کار لوئس پیٹی“ نے اس شہر میں واقع پیڑس کے گرجا گھر کا حال بیان کیا تھا۔ مقالہ نگار کہتا ہے: سینٹ پیٹرس کا گرجا گھر مسیحی دنیا کا اپنی نوعیت کا سب سے بڑا گرجا گھر ہے۔ یہ وسیع رقبہ پر قائم ہے اور گزشتہ سترہ صدی سے مسیحی عبادت کے لئے وقف ہے۔ یہ گرجا گھر خود سینٹ پیٹرس کی قبر پر تعمیر کیا گیا ہے جو ماہی گیری کا کام کرتے تھے اور مسیح کے حواریوں میں سے تھے۔ اس گرجا گھر کی زمین کے نیچے بڑی تعداد میں پرانی قبریں اور قدیم رومیوں کے کھنڈرات ہیں۔ اس کے بعد مقالہ نگار نے بتایا ہے کہ بڑی عیدوں کے دنوں میں ایک لاکھ افراد عبادت کے لئے اس گرجا گھر کا رخ کرتے ہیں۔[80]؎

         23۔ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اس حرمت پر ائمہ اسلام کا اتفاق ہے۔ اور یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ مسلمانوں کا اجماع ایک شرعی دلیل ہے، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔[81]؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے: جماعت کے ساتھ اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔[82]؎

         ابن رجب حنبلی[83]؎ رحمہ اللہ نے حدیث رسول ”لعن اللہ الیھود و النصاری أتخذوا قبور أنبیاءھم مساجد“ (یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیں۔) کی تشریح کرتے ہوئے قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت پر ائمہ کا اتفاق نقل کیا ہے۔ ان کا قول ہے: ائمہ اسلام کا اس مفہوم پر اتفاق ہے،[84]؎ یعنی قبروں کے پاس نماز کی حرمت پر۔

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب کوئی شخص بالقصد کسی نبی یا کسی نیک انسان کی قبر کے پاس نماز پڑھتا ہے اور اس جگہ پڑھی گئی نماز کے ذریعہ برکت کے حصول کی امید کرتا ہے تو یہ سراسر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی، اللہ کے دین کی مخالفت اور ایک نیا دین ایجاد کرنا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ہے۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے لازمی طور پر جو کچھ سمجھا اور جانا ہے اس کی بنیاد پر ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ قبر کے پاس نماز کی کوئی فضیلت نہیں، چاہے وہ کوئی بھی قبر ہو اور نہ قبروں کے آس پاس کے علاقہ میں پڑھی گئی نماز کی خیر کے معاملہ میں کوئی خصوصیت ہے بلکہ اس میں شر ہی کی خاصیت ہے۔[85]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: سلف میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ قبر کے پاس یا قبر کے مزاروں میں نماز پڑھنا مستحب ہے یا وہاں نماز پڑھنے کی کوئی فضیلت ہے اور نہ یہ کہ وہاں پر نماز و دعا دوسری جگہ کی نماز و دعا سے افضل ہے، بلکہ تمام سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ مساجد اور گھروں میں پڑھی گئی نماز قبروں کے پاس پڑھی گئی نماز سے افضل ہے، یعنی انبیاء و صالحین کی قبروں کے پاس پڑھی گئی نماز سے، چاہے اسے مزاروں کا نام دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔[86]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: سلف کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ قبروں کے پاس نماز و دعا کا قصد کرنا مشروع نہیں ہے۔ ائمہ اسلام میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ قبروں کے پاس نماز و دعا قبروں سے خالی مساجد میں نماز و دعا سے افضل ہے، بلکہ علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جو مسجدیں قبروں کے اوپر نہیں بنائی گئی ہیں ان میں نماز و دعا قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز و دعا سے افضل ہے۔ بلکہ قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز و دعا کی ممانعت ہے اور اس کے مکروہ ہونے پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے۔ بہت سے علماء نے قبروں والی مساجد میں نماز و دعا کے حرام ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ اس طرح کی مساجد میں نماز کے باطل ہونے کی بات کہی ہے۔[87]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: ائمہ اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ مشاعر (دینی اعتبار سے اہم مقامات) میں نماز پڑھنے کا کوئی حکم نہیں ہے، نہ وجوبی اور نہ استحبابی اور نہ قبروں پر بنائے گئے مزاروں میں نماز کی عام جگہوں پر پڑھی گئی نماز کے مقابلہ میں کوئی فضیلت ہے، چہ جائیکہ مساجد میں پڑھی گئی نماز کے مقابلہ میں ان کی کوئی فضیلت ہو۔ اس مسئلہ پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے۔ چنانچہ جس نے یہ اعتقاد رکھا کہ قبروں کے پاس یا مزاروں میں نماز پڑھنے کی دوسری جگہوں کے مقابلہ میں فضیلت ہے یا قبروں وغیرہ کے پاس پڑھی گئی نماز کچھ عام مساجد میں پڑھی گئی نماز سے افضل ہے، وہ مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گیا، بلکہ وہ دین و ملت سے خارج ہو گیا۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ قبروں کے پاس اور مزاروں میں نماز پڑھنے کی جو ممانعت ہے وہ نہی تحریمی ہے۔[88]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: مالک، شافعی، احمد کے اصحاب اور اہل عراق وغیرہ ائمہ دین نے منصوص طور پر اس مفہوم کی صراحت کی ہے۔ نیز انس رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے۔[89]؎

خلاصہ

         جو احادیث اوپر نقل کی گئی ہیں وہ قبروں کے پاس نماز کی حرمت پر قطعیت کے ساتھ دلالت کرنے والی ہیں۔ اور ایسا کیونکر نہ ہو جبکہ ان احادیث میں اس فعل بد کو انجام دینے والے کے لئے شدید زجر و توبیخ کے پانچ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں:

         پہلا:   اس برے کام کو انجام دینے والے کے لئے لعنت۔

         دوسرا:        یہ یہود و نصاری کا طریقہ ہے۔

         تیسرا: اس فعل بد سے صریح الفاظ میں روکا گیا ہے۔ اس کے لئے حدیث میں ”لا تتخذوا“ کا لفظ آیا ہے۔

         چوتھا: اس برے کام کو انجام دینے والے کو اللہ تعالیٰ سے برسرپیکار ہونے کی بدعا دی گئی ہے اور اس کے لئے ”قاتلہ اللہ“ کے الفاظ آئے ہیں۔

         پانچواں:       اس فعل شنیع میں ملوث ہونے والے کے لئے کہا گیا ہے کہ یہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برے لوگ ہوں گے۔

         اب اتنی سخت زجر و توبیخ کے بعد اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے مومن کے لئے کیا گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ قبروں کے پاس نماز کی حرمت کے معاملہ میں بحث و مباحثہ میں الجھے؟


 فصل

 قبروں کے پاس نماز پڑھنے کے حکم کے بارے میں ائمہ اسلام کےاقوال

      شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہمیں مالک[90]؎ نے خبر دی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کو ہلاک و برباد کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں، سرزمین عرب میں دو ادیان باقی نہیں رہیں گے۔

         انہوں نے کہا کہ اس باب میں وارد سنت و آثار کی وجہ سے میں اس کام کو ناپسند کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (واللہ اعلم) اس بات کو ناپسند فرمایا کہ مرنے کے بعد کسی مسلمان کی ایسی تعظیم کی جائے کہ اس کی قبر کو مسجد بنا لیا جائے۔ اس معاملہ میں بعد میں آنے والے لوگ فتنہ و گمراہی میں مبتلا ہونے سے مامون و محفوظ نہیں رہ سکتے۔[91]؎

         میں کہتا ہوں: یہ بات گزر چکی ہے کہ متقدمین کے نزدیک کراہت تحریمی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید کا اسلوب ہے: ”وکرّہ إلیکم الکفر و الفسوق و العصیان“ (اللہ نے کفر کو، گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسند بنا دیا ہے۔) متاخرین کے نزدیک کراہت سے مراد ایسا کام جسے ترک کرنے والا تعمیل حکم کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جسے انجام دینے والا سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ امام شافعی کے کلام کا مقصود اول الذکر ہے، اس لئے کہ وہ متقدمین میں سے ہیں۔

         ابوبکر اثرم کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ یعنی امام احمد سے قبرستان میں نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کی گیا تو انہوں نے قبرستان میں نماز پڑھنے کو ناپسند کیا۔ پھر ان سے دریافت کیا گیا کہ قبروں کے درمیان مسجد ہوتی ہے کیا اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ انہوں نے اسے بھی ناپسند کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ اس مسجد اور قبروں کے درمیان رکاوٹ ہے۔ امام احمد نے اس مسجد میں فرض نماز پڑھنے کو بھی ناپسند کیا اور جنازہ کی نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ انہوں نے ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا تذکرہ کیا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: تم لوگ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو۔ امام احمد نے کہا کہ اس حدیث کی سند جید ہے۔[92]؎

         سفیان ثوری، ابوحنیفہ، اوزاعی، شافعی اور ان کے اصحاب نے بھی قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔ یہ بات ابن عبدالبر نے ”التمھید“[93]؎ میں کہی ہے۔

         ابن قدامہ نے المغنی میں کہا ہے کہ علی، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہم)، عطاء، نخعی اور ابن منذر نے بھی قبرستان مین نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے۔[94]؎

         شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: اصحاب مالک، شافعی، احمد اور فقہائے کوفہ میں سے کئی ایک علمائے مسالک نے قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کی ممانعت کو نصاً ذکر کیا ہے۔ متعدد علماء نے اس کی حرمت کی صراحت کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعنت کرنے اور اس معاملہ میں آپ کی سخت ممانعت ہی کی وجہ سے علماء و فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔[95]؎


 قبروں کو مساجد بنانے کی صورتیں

         آپ یہ جان لیں، اللہ تعالیٰ مجھ پر اور آپ پر رحم فرمائے، کہ قبروں کو مسجدیں بنانے کی تین صورتیں ہیں:

         پہلی صورت: قبر کھلی ہوئی زمین پر ہو، چاہے وہ جگہ قبرستان ہو یا غیر آباد صحراء و بیابان ہو۔ اس کے بعد نمازی وہاں جا کر نماز ادا کرتا ہو۔

         دوسری صورت: قبر مسجد کی عمارت کے اندر ہو، چاہے قبر مسجد کی تعمیر سے پہلے سے ہو اور مسجد بعد میں قبر کے اوپر بنی ہو، یا مسجد پہلے سے ہو اور بعد میں اس کی عمارت کے اندر میت کی تدفین ہوئی ہو، چاہے قبر مسجد کے قبلہ کی سمت میں ہو یا مسجد کے پچھلے حصہ میں ہو یا مسجد کے دائیں طرف ہو یا بائیں طرف ہو۔

         تیسری صورت: قبر مسجد کے آنگن میں ہو، جیسا کی آج کل کچھ مساجد میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت اس کی آراضی کا کچھ حصہ بطور آنگن کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر اس آنگن سے متصل دیوار یا چہاردیواری کے ذریعہ مسجد کی زمین کو ہر چہار جانب سے گھیر دیا جاتا ہے۔ ان تمام صورت حال میں اگر قبر کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے تو اس کا شمار قبروں کو مسجدیں بنانے ہی میں ہوگا، اس لئے کہ قبر مسجد کے لئے وقف شدہ زمین میں واقع ہے۔

قبروں کو مسجدیں بنانا بہر صورت حرام ہے چاہے قبر نمازی کے آس پاس جہاں پر بھی واقع ہو

       آپ یہ بات جان لیں، اللہ ہم پر اور آپ پر رحم فرمائے، کہ قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز پڑھنے کی حرمت ہر حال میں باقی رہتی ہے، چاہے قبر مسجد کے احاطہ میں ہو یا قبرستان میں ہو یا صحراء و بیابان میں ہو، چاہے قبر نمازی کے سامنے ہو یا اس کے پیچھے ہو یا اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف ہو، چاہے قبر کھلی زمین میں کھلے آسمان کے نیچے ہو یا مسجد کی عمارت کے اندر ہو، چاہے مسجد کی تعمیر پہلے ہوئی ہو اور میت کو اس میں بعد میں دفن کیا گیا ہو یا قبر پہلے سے ہو اور بعد میں اس پر مسجد تعمیر کی گئی ہو، چاہے قبر اسی منزل میں ہو جہاں نمازی نماز پڑھ رہا ہو یا اوپری یا نچلی منزل میں ہو، چاہے قبر مسجد کی عمارت کے اندر ہو یا اس کے آنگن میں ہو، اس لئے کہ مسجد کا آنگن اسی کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ چونکہ ان تمام صورت حال میں صاحب قبر کی تعظیم کا پہلو موجود ہے، لہذا ایسی جگہ نماز پڑھنا حرام ہے: اس لئے کہ اسلامی شریعت میں یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ شرعی حکم کا وجود یا عدم وجود اس کی علت سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر علت موجود ہے تو شرعی حکم برقرار رہے گا ورنہ نہیں اور یہاں پر علت نماز کی جگہ میں قبر کا پایا جانا ہے، اس کی وجہ سے نماز کی حالت میں نمازی کا دل قبر کی طرف متوجہ ہوتا ہے جبکہ اس کی ساری توجہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہئے۔

تنبیہ:

       آپ یہ بات جان لیں، اللہ آپ کی حفاظت فرمائے، کہ اگر قبر کی سمت رخ کرکے نماز پڑھی جا رہی ہو تو حرمت اور زیادہ شدید ہو جاتی ہے، اس کے دو اسباب ہیں:

پہلا سبب: جب نمازی قبر کو اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھتا ہے تو وہ صاحب قبر کی زیادہ تعظیم کرنے والا ہو جاتا ہے بہ نسبت اس صورت کے جبکہ قبر اس کے سامنے نہ ہو۔

دوسرا سبب: قبر کو سامنے رکھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بتوں کی پرستش کرنے والوں کی مشابہت لازم آتی ہے جو بتوں کو سامنے رکھ کر ان کی عبادت کرتے ہیں اور عبادات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا بذات خود ایک منکر عمل ہے۔

دوسری تنبیہ

آپ یہ بات بھی جان لیں، اللہ آپ پر رحم کرے، کہ اس مسجد میں نماز پڑھنے کی حرمت زیادہ سخت ہے جس میں قبر ہو بہ نسبت اس حالت کے کوئی قبر کے پاس نماز پڑھے جہاں مسجد نہ ہو، مثلاً کوئی قبرستان یا بیابان میں موجود قبر کے پاس نماز پڑھے، اس لئے کہ پہلی حالت میں نمازی کے لئے نماز پڑھنے کا محرک یہ ہوگا کہ اس مسجد میں قبر موجود ہے اور وہ اس کی تعظیم کر رہا ہے۔ یہ حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بلند و بالا ذات کی تعظیم میں کمی کرنا ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم کی جائے اور صرف اسی کی عظمت و قدرت کو دل میں جگہ دی جائے، جس میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قبر والی مسجد میں نماز پڑھنے کی حرمت زیادہ سخت ہے بہ نسبت ان قبروں کے پاس نماز پڑھنے کے جہاں مسجدیں نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت عطا کرنے والا ہے۔


 فصل

 قبروں کے پاس نماز پڑھنے کا حکم، یہ نماز صحیح ہوگی یا باطل؟

      کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کر سکتا ہے کہ ہمیں یہ بات تو معلوم ہوگئی کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز باطل ہو جائے گی اور اسے دہرانا واجب ہوگا یا یہ کہ نماز صحیح ہو جائے گی اور نماز پڑھنے والا گنہگار ہوگا؟

         جواب: آپ یہ بات جان لیں، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، کہ قبر کے پاس پڑھی گئی نماز کی صحت کے تعلق سے علماء کا اختلاف ہے۔ کچھ علماء نے اس نماز کو باطل قرار دیا ہے، کیونکہ حدیث میں اس عمل کو انجام دینے والے کے لئے لعنت کی بات آئی ہے۔ ان علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ کسی متعین کام پر لعنت کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل باطل ہے۔ جن علماء نے زور دے کر یہ بات کہی ہے ان میں سے ایک ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: انبیاء، صالحین اور بادشاہوں کی قبروں پر تعمیر شدہ مساجد کے وجود کو ختم کرنا ضروری ہے، چاہے منہدم کرکے ہو یا کسی دوسرے طریقہ سے ہو۔ اس معاملہ میں معروف علماء کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اس طرح کی مساجد میں نماز پڑھنا بلا اختلاف مکروہ ہے۔ ہمارے نزدیک ظاہر مسلک کے اعتبار سے اس طرح کی مساجد میں پڑھی گئی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے، اس لئے کہ احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہے اور اس عمل کو انجام دینے والے کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے، نیز کچھ دوسری حدیثیں بھی ہیں جن سے اسی حکم کی صراحت ہوتی ہے۔ اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔[96]؎

         جلال الدین سیوطی شافعی نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول کو اپنی کتاب ”الأمر بالاتباع و النھی عن الابتداع“ میں نقل کیا ہے۔[97]؎

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد علامہ ابن قیم[98]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: قبر والی مسجد میں نماز درست نہیں ہوتی ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور قبر کو مسجد بنانے والے اور قبر پر چراغ جلانے والے پر لعنت کی ہے۔[99]؎ یہی وہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول و نبی کو مبعوث کیا۔ اور آج اس دین کی اجنبیت کی جو حالت ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔[100]؎

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ائمہ مسلمین میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ قبر کے پاس نماز و دعا قبروں سے خالی مساجد میں نماز و دعا سے افضل ہے۔ بلکہ علمائے مسلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو مساجد قبروں کے اوپر نہیں ہیں، ان میں نماز و دعا قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز و دعا سے افضل ہے، بلکہ قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز و دعا کی ممانعت ہے اور اس نماز و دعا کے مکروہ ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ بہت سے علماء نے اس نماز و دعا کی حرمت کی صراحت کی ہے بلکہ قبر والی مسجد میں پڑھی گئی نماز کے باطل ہونے کی بات کہی ہے۔[101]؎

         حاصل کلام یہ ہے کہ جمہور علماء قبروں کے پاس پڑھی گئی نماز کے باطل ہونے کی بات کہتے ہیں۔ کچھ علماء نے یہ کہا ہے کہ قبروں کے پاس پڑھی گئی نماز درست ہے، اسے دہرانا ضروری نہیں ہے، لیکن ایسا کرنے والے نے ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ ان دونوں حالتوں میں قبر کے پاس نماز پڑھنے والا گنہگار ہوتا ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ قبر کے پاس پڑھی گئی نماز کے باطل ہونے کی بات زیادہ قوی ہے جیسا کہ آپ نے دلائل کی روشنی میں ملاحظہ کیا۔ لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم

ایک استثناء

       آپ یہ بات سمجھ لیں، اللہ تعالیٰ مجھ پر اور آپ پر رحم فرمائے، کہ قبروں کے پاس جس نماز کو ادا کرنے کی ممانعت ہے اس سے مراد رکوع و سجود والی نماز ہے۔ البتہ جس کی مسجد میں نماز جنازہ فوت ہو گئی ہے اس کے لئے قبرستان میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔ اس کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ مسجد نبوی کی صفائی کرنے والے ایک سیاہ فام شخص یا سیاہ فام خاتون کا انتقال ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام نے خبر دی کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: تم لوگوں نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ تم لوگ مجھے اس کی قبر پر لے چلو یا فرمایا کہ تم لوگ مجھے اس خاتون کی قبر پر لے چلو، پھر آپ ان کی قبر کے پاس آئے اور نماز جنازہ ادا کی۔[102]؎

ایک شبہ اور اس کا جواب

       کچھ اہل علم نے یہ سمجھا ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت کی علت مردوں کے پیپ وغیرہ کی نجاست ہے جو قبر کے آس پاس کی زمین سے ملوث ہو جاتی ہے، لیکن معاملہ یہ نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں نے سمجھا ہے۔ ہم اس موقف کی تردید میں نیچے چھ اسباب کو نقل کر رہے ہیں جو ابن تیمیہ[103]؎ اور ان کے شاگرد ابن قیم[104]؎ رحمہما اللہ کے کلام کا خلاصہ ہیں:

         پہلا سبب: قبروں کے آس پاس نماز پڑھنے کی یہ علت حدیث میں مذکور نہیں ہے اور نہ ہی نصاً یا ظاہراً کسی بھی اعتبار سے حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ یہ وہ علت ہے جس کا لوگوں نے اپنی سوچ و فکر سے گمان کیا ہے اور اندازہ لگایا ہے۔ اس کی صحیح علت دوسرے علماء نے بیان کی ہے اور امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے دور کے سلف و خلف میں سے متعدد علمائے کرام نے اس علت کو ذکر کیا ہے -وہ علت مشرکین سے مشابہت ہے اور یہ اندیشہ ہے کہ یہ کام شرک کے ارتکاب کا ذریعہ بن جائے گا۔

         دوسرا سبب: اگر مٹی کے نجس ہونے کو ممانعت کی علت مان لیا جائے تو پھر انبیائے کرام کی قبروں کے معاملہ میں یہ علت باقی نہیں رہتی، حالانکہ ان کی قبروں کے پاس بھی نماز کی ممانعت ہے جبکہ ان کی قبریں آلائش سے آلودہ نہیں ہوتیں اور نہ اصلاً قبروں کے اندر ان کا جسم بوسیدہ ہوتا ہے، ان کی قبروں کی مٹی کے نجس ہونے کا امکان نہیں رہتا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو کھانے کو حرام کر دیا ہے۔[105]؎ وہ اپنی قبروں میں تر و تازہ ہوتے ہیں، لہذا ان کے قبروں کی مٹی پاک ہے۔

         تیسرا سبب: نمازی جب قبر کے پاس نماز پڑھتا ہے تو قبر کے اندر کی ناپاک مٹی سے اس کا کوئی سابقہ نہیں پڑتا ہے، اس کے اور قبر کے اندر کی ناپاک مٹی کے درمیان ایک رکاوٹ ہوتی ہے، وہ یا تو پاک مٹی ہوتی ہے یا بچھانے کی کوئی پاک چیز ہوتی ہے۔

         چوتھا سبب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو کھودوا کر ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوسری جگہ منتقل کروا دیا تھا، لیکن قبر کے اندر کی مٹی کو منتقل کرنے کا حکم آپ نے نہیں دیا تھا۔ اگر قبرستان میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی علت مردوں کی پیپ کی نجاست ہوتی جو مٹی میں ملوث ہو جاتی ہے تو آپ قبر کے اندر کی مٹی کو بھی منتقل کرنے کا حکم دیتے۔

         پانچواں سبب: قبر یا قبرستان کی زمین کا نجس ہونا قبروں کو بت بنا کر پوجنے کا وسیلہ و ذریعہ نہیں ہے جبکہ قبروں کو بت بنا لینا وہاں پر نماز پڑھنے کی ممانعت کی علت ہے۔ اور احادیث میں بھی اس علت کا ذکر ہے، لہذا زمین یا مٹی کی نجاست کو قبروں کے پاس نماز نہ پڑھنے کی علت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ[106]؎ اور ان کے بعد جلال الدین سیوطی شافعی[107]؎ رحمہما اللہ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

         چھٹا سبب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ قبرستان اور حمام کو چھوڑ تمام روئے زمین نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے کی جگہ ہے۔ اگر قبرستان اور حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت کا سبب نجاست ہوتی تو پیشاب پاخانے، کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ اور جانوروں کو ذبح کرنے کی جگہ کا ذکر قبرستان سے پہلے خصوصیت کے ساتھ ہوتا۔

         مختصر یہ کہ جسے شرک اور اس کے اسباب و ذرائع کا علم ہے اور جسے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد کا علم ہے وہ بلا خوف تردید پوری قطعیت سے یہ بات کہے گا کہ قبروں کو عبادت گاہ بنا لینے والوں پر لعنت اور اس کام کی ممانعت میں مبالغہ کا سبب نجاست نہیں ہے بلکہ اس کا سبب شرک کی نجاست ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا اپنے دامن کو آلودہ کر لیتا ہے۔

ایک دوسرا شبہ اور اس کا ازالہ

       ابن حبان نے اپنی کتاب ”المجروحین“ میں عن بکر بن زیاد الباھلی، عن عبداللہ بن المبارک، عن سعید بن أبی عروبۃ، عن زرارۃ بن أوفی عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی، اس سفر میں جبریل علیہ السلام میرے ساتھ میرے والد (ابراہیم) علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرے تو کہا: اے محمد! آپ سواری سے اتر کے یہاں دو رکعات نماز ادا کیجئے۔ یہ آپ کے والد ابراہیم کی قبر ہے۔

         پھر جبریل میرے ساتھ بیت لحم سے گزرے تو کہا: یہاں سواری سے اترکے دو رکعات نماز ادا کیجئے، یہاں آپ کے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی، پھر وہ میرے ساتھ صخرہ کے پاس آئے اور کہا: یہاں پر آسمان تک جانے کی ایک سیڑھی ہے۔

         ابن حبان کہتے ہیں: راوی نے ایک طویل کلام نقل کیا ہے جسے ذکر کرنا مجھے پسند نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حدیث سے قبروں کے پاس نماز پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ موضوع (گڑھی ہوئی) حدیث ہے۔ اسے ابن حبان نے حدثنا محمد بن أحمد بن إبراھیم (بالرملۃ) قال: حدثنا عبداللہ بن سلیمان بن عمیرۃ البلوی المقدسی قال: حدثنا بکر بن زیاد الباھلی کی سند سے نقل کیا ہے۔ آگے وہی سند ہے جو اوپر گزری۔

         ابن حبان نے راوی بکر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ بہت زیادہ دجل و فریب کرنے والے شیخ ہیں، ثقہ راویوں کے حوالہ سے حدیثیں گڑھتے ہیں۔ ان کی مرویات کو کتابوں میں صرف قدح و جرح کے لئے نقل کرنا جائز ہے۔ ذھبی نے ”میزان الاعتدال“ میں کہا ہے کہ ابن حبان نے سچ کہا ہے[108]؎، اسی وجہ سے ذھبی نے اسے ”ترتیب الموضوعات“[109]؎ میں ذکر کیا ہے۔ شوکانی نے اسے ”الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ“[110]؎ میں نقل کیا ہے۔ ابن الجوزی نے اسے ابن حبان کی سند سے اپنی کتاب ”الموضوعات من الأحادیث المرفوعات“[111]؎ میں نقل کیا ہے۔

 قبروں پر مسجدیں بنانے کا مسئلہ

      لوگوں نے صرف قبروں کے پاس نماز پڑھنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ انہوں نے قبروں پر مسجدیں تعمیر کر لیں تاکہ قبروں کے پاس مستقل نماز پڑھی جائے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے، چاہے وہ فرض نمازیں ہوں یا نفل۔ اس سلسلہ میں ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اس طرح کی مساجد میں پڑھی جانے والی نماز اجر و ثواب کے اعتبار ان مساجد کی نماز سے افضل ہے جو قبروں سے خالی ہوں۔ ان کا یہ اعتقاد بھی تھا کہ قبر والی مساجد میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے بہ نسبت ان مساجد کے جہاں قبریں نہیں ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے مسجد تعمیر کرتے ہیں، پھر یہ وصیت کرتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد انہیں اسی مسجد میں دفن کیا جائے۔

         اس سلسلہ میں اگر ہم سنت نبوی کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر مسجد بنانے والے پر لعنت کی ہے اور واضح طور پر یہ خبر دی ہے کہ یہ قیامت کے دن بدترین لوگوں میں سے ہوں گے۔

 فصل

 قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کی ممانعت سے متعلق دلائل

      اس زیر نظر تحریر کے آغاز میں قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت سے متعلق صحیح احادیث نبویہ سے نو دلائل پیش کئے جا چکے ہیں۔ ان دلائل سے اس بات کی وضاحت ہو چکی ہے کی قبروں کو مساجد بنانے کی بدترین صورت قبروں پر مساجد کی تعمیر ہے۔

         یہ دسویں حدیث خاص طور پر قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت کی صراحت کرتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک گرجا گھر کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں جب کسی نیک آدمی کا انتقال ہو جاتا تو یہ لوگ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے تھے اور اس میں یہ تصویر بنا لیا کرتے تھے۔ یہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بدترین لوگ ہوں گے۔[112]؎

         ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء، علماء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مساجد بنا لینا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔[113]؎

         ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نصاری کی طرح نیک لوگوں کی قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور ان میں تصویریں بنا لینا حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں کام انفرادی طور پر بھی حرام ہی ہیں۔ انسانوں کی تصویریں بنانا بھی حرام ہے اور قبروں پر مساجد تعمیر کرنا بھی بذات خود حرام کام ہے جیسا کہ دوسرے نصوص سے اس کی صراحت ہوتی ہے۔[114]؎

         گیارہویں دلیل: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں کو مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت کی ہے۔[115]؎

         بارہویں دلیل: قبروں پر مساجد کی تعمیر کی ممانعت کی یہ دلیل قرآن میں موجود ہے۔[116]؎

         ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو حکم حدیث[117]؎  سے معلوم ہوتا ہے وہی حکم قرآن سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ وہ اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے: ”قال الذین غلبوا علی أمرھم لنتخذن علیھم مسجدا“[118]؎  (ترجمہ: جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنا لیں گے۔) اللہ تعالیٰ نے نے اس آیت میں مسجدوں پر قبریں بنانے[119]؎  کو غلبہ حاصل کرنے والوں کا عمل قرار دیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فعل شنیع کی بنیاد طاقت، غلبہ اور خواہشات کی پیروی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ جو ہدایت نازل کی ہے اس کی اتباع کرنے والے اہل علم و فضل کا یہ کام نہیں ہے۔[120]؎

         میں کہتا ہوں: شیخ مقبل بن ہادی وادعی[121]؎  رحمہ اللہ نے اس آیت کے تعلق سے ایک فائدہ مجھے تحریری شکل میں دیا۔ اس میں انہوں نے کہا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اصحاب کہف کی قوم کے لوگ کافر تھے۔ اس کی دلیل اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و کذلک أعثرنا علیھم لیعلموا أن وعداللہ حق“ (ترجمہ: ہم نے اس طرح لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کر دیا کہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ بالکل سچا ہے۔) اور وہ شخص کافر ہے جسے اللہ کے وعدہ کے سچا ہونے کا یقین نہ ہو۔

         میں کہتا ہوں: جب یہ بات واضح ہو گئی کہ قبروں پر مسجدیں بنانا کفار کا طریقہ ہے تو بندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ کفار جیسا کام کرنے سے بچے اور ان کے اس مبغوض عمل کو ترک دے۔

         تیرہویں دلیل: صحابہ کرام، تابعین عظام اور شروع کی تین فضیلت یافتہ صدیوں کے لوگوں کا مساجد میں مردوں کو دفن نہ کرنے اور قبروں پر مساجد تعمیر نہ کرنے پر اجماع ہے جبکہ ان کے زمانے کے فوت شدہ افراد لوگوں میں سب سے افضل اور خیر امت کا درجہ رکھتے تھے۔

         قبروں پر مساجد بنانے کی کراہت کے تعلق سے صحابہ کرام سے منقول آثار میں سے ایک اثر وہ ہے جسے ابن ابی شیبہ نے اپنی ”مصنف“ میں انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ اس کام کو مکروہ[122]؎   سمجھتے تھے کہ کوئی شخص قبروں کے درمیان مسجد بنائے۔[123]؎

         قبروں پر مسجدیں بنانے کی کراہت سے متعلق تابعین سے منقول آثار میں سے ایک وہ ہے جسے ابن ابی شیبہ نے اپنی ”مصنف“ میں اپنی سند سے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے کہ وہ قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔[124]؎  

         البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابراہیم سے ابراہیم ابن یزید نخعی مراد ہیں جو امام وقت تھے۔ وہ صغار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے 96ھ میں وفات پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اس علم و حکمت کو ان صحابہ کرام سے حاصل کیا ہوگا جن کا زمانہ انہوں نے پایا تھا۔ اس میں اس بات کی قطعی دلیل موجود ہے کہ صحابہ و تابعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قبروں سے متعلق اس حکم کے باقی ہونے کے قائل تھے۔[125]؎  

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسی طرح وہ مساجد جو قبر کے اوپر تعمیر کی گئی ہیں جنہیں مشاہد (مزار) کہا جاتا ہے، اسلام میں نئی بدعت ہے اور ان مزارت کی طرف سفر کرکے جانا بھی نئی بدعت ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز شروع کی تین فضیلت یافتہ صدیوں میں تعمیر نہیں کی گئی تھی۔[126]؎

         ابن تیمیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنانے کا رواج تیسری صدی ہجری میں ہوا۔ وہ کہتے ہیں: مزراوں کا ظہور اور ان کا چلن اس وقت ہوا جب بنو عباس کی خلافت کمزور ہو گئی اور امت تفرقہ و انتشار کا شکار ہو گئی۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے زندیقوں کی کثرت ہو گئی اور اہل بدعت کی باتیں ان میں عام ہونے لگیں۔ یہ ساری برائیاں مقتدر کے دور حکومت میں شروع ہوئیں جو تیسری صدی ہجری کے اواخر کا زمانہ تھا۔ اسی دور میں مغرب کے علاقہ میں قرامطہ عبیدیہ قداحیہ کا ظہور ہوا۔ ان میں سے اکثر لوگوں کے اندر زندیقیت اور بڑی و نمایاں بدعات موجود تھیں۔[127]؎  


 فصل

 قبروں پر مساجد کی تعمیر چاروں مسالک میں حرام ہے، اس کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے

         اس سلسلہ میں احادیث میں وارد حرمت کی بنیاد پر چاروں مسالک کے علماء قبروں پر مسجدیں بنانے کی حرمت کے قائل ہیں۔ اس تعلق سے ان کے اقوال[128]؎   مندرجہ ذیل ہیں:

احناف کا مسلک

         امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام محمد شیبانی رحمہ اللہ کا قول ہے: قبر کے باہر کسی بھی چیز کے اضافہ کے ہم قائل نہیں ہیں۔ قبروں کی چونہ کاری، اسے مٹی سے لیپنا یا اس کے پاس نماز پڑھنا ہمارے نزدیک مکروہ ہے۔[129]؎   احناف کے یہاں مطلق کراہت تحریم کے لئے ہوتی ہے، یہی ان کے یہاں معروف ہے۔

         ڈاکٹر شمس الدین افغانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”جھود علماء الحنفیۃ فی إبطال عقائد القبوریۃ“ میں ایک فصل کے تحت قبروں پر تعمیر کے سلسلہ میں قبر پرستوں کے عقائد کے ابطال میں علمائے احناف کی کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر اس موضوع سے متعلق کچھ شبہات کا ذکر کرکے ان کا جواب دیا ہے۔[130]؎  

مالکیہ کا مسلک

       قرطبی اپنی کتاب ”الجامع لأحکام القرآن“ میں لکھتے ہیں: قبروں پر مساجد بنانا، ان میں نماز پڑھنا، قبروں پر عمارت بنانا اور اس قبیل کے دیگر امور جن کی ممانعت احادیث میں وارد ہے، جائز نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے ان تمام کاموں کی ممانعت پر دلالت کرنے والی احادیث کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے: ہمارے علماء کہتے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کے لئے انبیاء اور علماء کی قبروں کو مساجد بنانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ ائمہ نے ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ قبروں پر بیٹھو۔ یعنی قبروں کو قبلہ نہ بناؤ کہ ان پر نماز پڑھنے لگو یا ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو جیسا کہ یہود و نصاری نے کیا، اس لئے کہ یہ قبر میں مدفون انسان کی عبادت کا سبب بنے گا جیسے کہ یہ بتوں کی عبادت کا سبب بنا۔[131]؎  

         میں کہتا ہوں: شیخ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ جو مالکی مسلک کے علمائے متاخرین میں سے ہیں، نے قبروں کے پاس نماز پڑھنے اور ان پر مساجد بنانے کی حرمت پر مفصل کلام کیا ہے۔ ان کا یہ کلام ان کی کتاب ”أضواء البیان“ میں سورۃ الحجر کی آیت ”و لقد کذب أصحاب الحجر المرسلین“ کی تفسیر کے تحت موجود ہے۔

شافعیہ کا مسلک

       امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الأم“ میں لکھتے ہیں: قبر پر مسجد تعمیر کرنا میرے نزدیک مکروہ ہے۔[132]؎  

         نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: شافعی اور اصحاب کے نصوص قبر پر مسجد تعمیر کرنے کے مکروہ ہونے پر متفق ہیں، چاہے میت صلاح و تقوی میں مشہور ہو یا نہ ہو، اس لئے کہ اس تعلق سے وارد احادیث میں عموم پایا جاتا ہے۔[133]؎  

         جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”الأمر بالاتباع و النھی عن الابتداع“ میں لکھتے ہیں: ”ان کے علاوہ دیگر نئی بدعات مثلاً قبروں کے پاس نماز پڑھنا، انہیں مساجد بنا لینا اور ان پر مساجد تعمیر کرنا، ان سب کی ممانعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ ان کاموں کے کرنے والے کے لئے سخت وعید بھی آئی ہے۔ قبروں پر مساجد تعمیر کرنے والے اور قبر کے پاس قندیل، موم بتی اور چراغ جلانے والے پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔ نیز مختلف مسالک کے علماء نے اس کی ممانعت کی صراحت کی ہے، کیونکہ احادیث میں بھی ان کاموں کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اس کے بعد ان کاموں کی حرمت میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ پھر انہوں نے جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نقل کی ہے۔[134]؎  

حنابلہ کا مسلک

       ابن قدامہ رحمہ اللہ کا قول ہے: اس حدیث[135]؎   کی وجہ سے قبروں پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں۔ آپ نے امت کو یہود و نصاری کے اس فعل بد سے بچنے کی تاکید کی۔ متفق علیہ

         اس کی وجہ یہ ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کے لئے اسے خاص کرنا ویسے ہی ہے جیسے بتوں کو سجدہ کرکے اور اس کا تقرب اختیار کرکے اس کی تعظیم کی جائے۔ ہمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ بت پرستی کی ابتداء مردوں کی تعظیم سے ہوئی جبکہ ان کی تصویریں بنائی گئیں، انہیں تبرک کے لئے چھوا گیا اور ان کے پاس نماز پڑھی جانے لگی۔[136]؎  

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا: کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے جس میں قبر ہو اور لوگ وہاں جماعت و جمعہ کے لئے جمع ہوتے ہوں یا نہیں صحیح ہے؟ اور کیا قبر کو ہموار کیا جائے گا یا اس پر کوئی رکاوٹ یا دیوار بنائی جائے گی؟

         انہوں نے جواب دیا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبر کے اوپر مسجد تعمیر نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم سے پہلے کے لوگ قبروں کو مسجدیں بنا لیا کرتے تھے، خبردار! تم لوگ قبروں کو مسجدیں نہ بنانا۔ میں تم لوگ کو اس سے روک رہا ہوں۔

         کسی میت کو مسجد میں دفن کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر مسجد مردہ کی تدفین سے پہلے سے ہو تو پھر قبر کو وہاں سے ہٹایا جائے گا یا تو قبر کو زمین سے برابر کرکے اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا یا پھر اگر قبر نئی ہو تو قبر کھود کر لاش کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔ اگر مسجد قبر کے بعد بنائی گئی ہے تو یا تو مسجد کو وہاں سے ختم کیا جائے گا یا پھر قبر کی شکل کو مٹا دیا جائے گا۔ قبر پر بنی ہوئی مسجد میں کوئی فرض یا نفل نماز نہیں ادا کی جائے گی، اس لئے کہ شریعت میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔[137]؎

         ابن تیمیہ کا یہ قول بھی ہے: قبروں کو مساجد بنا لینے کی ممانعت میں قبروں پر مساجد کی تعمیر اور قصداً قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی ممانعت بھی شامل ہے۔ یہ دونوں چیزیں علماء کے نزدیک متفقہ طور پر ممنوع ہیں۔ علماء نے قبروں کے اوپر مساجد تعمیر کرنے سے منع کیا ہے بلکہ اس کی حرمت کی صراحت کی ہے اور نص سے بھی یہی حکم معلوم ہوتا ہے۔[138]؎

         ابن قیم رحمہ اللہ نے منافقین کی تعمیر کردہ مسجد ضرار کے واقعہ سے مستنبط فوائد کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ان فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ایسے کام کے لئے وقف صحیح نہیں ہے جو نیکی اور تقرب الہی کے دائرہ سے خارج ہو، اس کا اعتبار کرتے ہوئے اس مسجد ضرار کے لئے بھی وقف صحیح نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر قبر پر تعمیر شدہ مسجد کو منہدم کر دیا جائے گا، اسی طرح پہلے سے تعمیر شدہ مسجد میں اگر کسی میت کو دفن کر دیا گیا تو اس کی قبر کھود کر لاش کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔ امام احمد وغیرہ نے نصاً اس کی صراحت کی ہے۔ دین اسلام میں مسجد اور قبر ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، ان دونوں میں جو بھی دوسرے سے موخر ہو اس سے روکا جائے گا اور جو پہلے سے موجود ہو اسے باقی رکھا جائے گا۔ اگر دونوں کو ایک ساتھ وجود میں لایا گیا ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ نہ ایسی مسجد کے لئے وقف صحیح ہوگا اور نہ ایسی قبر والی مسجد میں نماز درست ہوگی، اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور قبر کو مسجد بنانے والے یا قبر پر چراغاں کرنے والے پر لعنت کی ہے۔ یہی وہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول و نبی کو مبعوث کیا تھا، لیکن آج لوگوں کی زندگی میں اس دین کی اجنبیت کی جو حالت ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔[139]؎

         ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں غزوۂ طائف کے فوائد کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرک اور طاغوت کی پرستش کے اڈوں کو منہدم کرنے اور مٹانے کی قدرت حاصل ہونے کی صورت میں انہیں ایک دن بھی باقی رکھنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ یہ کفر اور شرک کی علامتیں ہیں اور ان جگہوں پر جو کچھ انجام دیا جاتا ہے وہ سنگین ترین منکرات ہیں، لہذا یقینی طور پر ختم کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں برداشت کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی حکم ان مزاروں کا بھی ہے جنہیں قبروں کے اوپر تعمیر کیا گیا ہے اور انہیں بت اور طاغوت بنا کر اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کی جاتی ہے۔ نیز ان پتھروں کا بھی یہی حکم ہے جن کی تعظیم، تبرک کے حصول، نذر و نیاز اور چومنے کے لئے ان کا قصد کیا جاتا ہے۔ ان سب کو مٹانے کی قدرت رکھنے کی صورت میں انہیں روئے زمین پر باقی رکھنا جائز نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے شرک کے اڈے قدیم معبودان باطلہ لات، عزی اور تیسرے منات کی شکل اختیار کر چکے ہیں جہاں پر آخری درجہ کے سنگین شرکیہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔ اس باطل پرستی کے مقابلہ کے لئے اللہ ہی سے مدد کی فریاد ہے۔[140]؎

         ابن قیم رحمہ اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس درخت کو کاٹ دیئے جانے کا تذکرہ کیا ہے جہاں بیعت رضوان ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار کو منہدم کروا دیا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ جو چیز فساد و بگاڑ کے اعتبار سے اس سے بھی بڑھ کر ہو تو اسے بھی منہدم کر دیا جائے گا مثلاً وہ مساجد جو قبروں کے اوپر تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں اسلام کا یہی حکم ہے کہ انہیں مکمل طور پر منہدم کرکے زمین کے برابر کر دیا جائے۔ مسجد ضرار سے بھی زیادہ ان مساجد کا انہدام ضروری ہے۔[141]؎

         اس کے بعد مقید عفااللہ عنہ کہتے ہیں: مسالک اربعہ کے علماء کے علاوہ میں سے علامہ محمد بن علی شوکانی[142]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ بات کیسے کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں نے اس منکر عمل پر نکیر نہیں کی جبکہ وہ اس کی ممانعت کے دلائل کو ہمیشہ پیش کرتے رہے ہیں اور اس فعل بد کو انجام دینے والے کے لئے لعنت کی بات ہمیشہ بتاتے رہے ہیں۔ ہر زمانہ میں سلف سے لے کر خلف سب اس کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ علمائے اسلام اس فعل بد پر نکیر بھی کرتے رہے ہیں اور اس فعل بد سے لوگوں کو روکنے کے معاملہ میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ابن قیم اپنے استاذ تقی الدین جو سلف و خلف سب کے مسالک کا احاطہ کرنے والے امام وقت تھے، کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمومی طور پر تمام مسالک کے علماء نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت کی صراحت کی ہے۔

         اس کے بعد شوکانی کہتے ہیں: امام احمد، امام مالک اور امام شافعی کے اصحاب نے اس کی حرمت کی صراحت کی ہے۔ ایک جماعت نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن ان اسلاف سے حسن ظن رکھتے ہوئے اس کراہت کو حرمت پر محمول کیا جانا چاہئے۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس فعل بد کی اجازت دیں گے جسے انجام دینے والے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر سے لعنت کرنے اور اس سے منع کرنے کی بات منقول ہے۔[143]؎

         شوکانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”شرح الصدور فی تحریم رفع القبور“ میں رقمطراز ہیں: ایک جاہل آدمی کی نظر جب کسی ایسی قبر پر پڑتی ہے جس پر گنبد تعمیر کیا گیا ہو تو وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے، پھر وہ وہاں قبروں پر پڑی خوشنما و زرق برق چادروں اور جگمگا رہے چراغوں کو دیکھتا ہے، اس کے چاروں طرف کی فضا خوشبوؤں اور دھونیوں سے معطر ہوتی ہے تو اس کے دل میں اس قبر کی عظمت بیٹھ جاتی ہے، اس قبر والے کی منزلت کا تصور کرنے سے اس کا ذہن قاصر رہتا ہے، اس کے دل پر اس کا ایسا رعب و دبدبہ طاری ہوتا ہے کہ یہیں سے اس کے دل میں شیطانی عقائد کی تخم ریزی شروع ہو جاتی ہے جو مسلمانوں کو بہکانے اور بندوں کو گمراہی کے راستہ پر ڈالنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ اسلام کے راستہ سے دور ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ قبر والے سے اس چیز کا سوالی بن جاتا ہے جسے عطا کرنے کی قدرت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، اس طرح وہ مشرکین کی صفوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ جن خصوصیات کا اوپر ذکر ہوا ہے ویسی قبر کو پہلی بار دیکھنے اور اس کی پہلی زیارت ہی میں وہ اس شرک کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اس لئے کہ ایسی قبر کو دیکھنے کے بعد اس کے دل میں اس خیال کا پیدا ہونا لازمی ہے کہ زندہ لوگوں کے ذریعہ اس مردہ کا اس درجہ اہتمام یقینی طور پر کسی دنیوی یا اخروی فائدہ کے حصول کے لئے ہے۔ اس قبر کی زیارت کرنے والے، اس کے پاس تعظیماً کھڑے ہونے والے اور اس کے کونے کو اپنے ہاتھوں سے تھامنے والے کے مقابلہ میں وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ شیطان اس کے بھائیوں میں سے بنی آدم کی ایک جماعت کو وہاں قبر کے پاس کھڑا کرا دیتا ہے جو زائرین کو دام فریب میں پھنساتے ہیں، معاملہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اسے ڈراتے ہیں اور بہت سے کام خود کرکے اسے اس طرح مردہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں کہ کند ذہن اور مغفل قسم کے لوگوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔ یہ انسان نما شیطان بہت سے جھوٹ گڑھ کے اسے مردہ کی کرامات کا نام دے دیتے ہیں، اسے لوگوں میں پھیلاتے ہیں، اپنی مجالس میں اور لوگوں سے ملاقات کے وقت باربار اس کا تذکرہ کرتے ہیں، اس طرح وہ جھوٹ زبان زد خاص و عام ہو کر مشہور ہو جاتا ہے، مردوں سے حسن ظن اور دلچسپی رکھنے والے اس قسم کی جھوٹی باتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، ان کی عقلیں بیان کردہ ان اکاذیب کو قبول کر لیتی ہیں۔ سننے والا اسے اپنی مجالس میں بیان کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے جہلاء عقیدہ کی بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس مردہ کے لئے اپنے قیمتی مالوں کا نذرانہ پیش کرنے لگتے ہیں، وہ اپنی محبوب ترین املاک اور سرمائے کو اس اعتقاد کے ساتھ اس قبر پر لٹاتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعہ اس مردہ کے مقام و جاہ کے طفیل بہت سارا خیر اور اجر عظیم حاصل کر لیں گے۔ اسی کے ساتھ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ یہ قربت الہی کا عظیم کام، نفع بخش اطاعت اور مقبول نیکی ہے۔ اس کے ذریعہ ان جعلسازوں کی مراد پوری ہوتی ہے جنہیں لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ان قبروں پر متعین کر دیا گیا ہے۔ وہاں پر وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک سے ایک حرکتیں کرتے ہیں، جھوٹی حکایات سنا کر لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں تاکہ انہیں ان سادہ لوح اور کم عقل لوگوں کے مال میں سے کچھ حاصل ہو جائے۔

         ان ملعون حیلوں اور ابلیسی ہتھکنڈوں کے ذریعہ قبروں کے اوقاف میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا اور ان کی مالیت انسانی وہم و گماں کی حد سے تجاوز کر گئی۔ یہاں تک کہ حال یہ ہو گیا کہ اگر ان میں سے مشہور قبروں کے لئے وقف کی گئی زمینوں کے غلے کو اکٹھا کیا جائے تو وہ مسلمانوں کے کسی بڑے قصبہ کی پوری آبادی کے لئے کافی ہو جائے۔ اور اگر باطل مقاصد کے لئے وقف کی گئی ان جائیدادوں کو فروخت کر دیا جائے تو اس کے ذریعہ فقراء کی ایک بڑی جماعت کا فقر اور ان کی محتاجی دور ہو جائے۔ یہ سارے نذر و نیاز اللہ کی معصیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ثابت شدہ ارشاد ہے کہ اللہ کی معصیت سے تعلق رکھنے والے نذر و نیاز کا نہ کوئی اعتبار ہے، نہ انہیں پورا کیا جائے گا۔

         اس میں شک نہیں کہ قبروں کے لئے مال وقف کرنے والے ان فریب خوردہ لوگوں سے اگر کہا جائے کہ وہ میت کی قبر کے لئے اپنے مال کو وقف کرنے کے بجائے اطاعت و قربت الہی کے کام کے لئے وقف کریں تو وہ اس کے لئے کبھی راضی نہیں ہوں گے۔ اندازہ لگایئے کہ شیطان نے ان لوگوں کو گمراہی کے کیسے گہرے اور تاریک گڈھے میں گرا دیا ہے۔

         یہ وہ فساد و بگاڑ ہے جو قبروں کو بلند و پختہ کرنے، ان کی چونہ کاری اور رنگ و روغن کرنے اور انہیں سجانے و آراستہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔[144]؎

          خلاصہ یہ کہ قبروں پر مساجد کی تعمیر حرام ہے اور اسی بنیاد پر قبروں کو مساجد میں داخل کرنا بھی حرام ہے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ قبریں علاحدہ ہوں اور مساجد علاحدہ ہوں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مساجد کی تعمیر اس لئے مشروع نہیں کی ہے کہ ان میں مردوں کو دفن کیا جائے اور نہ قبرستانوں کے انتظام کا حکم اس لئے ہے کہ اس میں نماز پڑھی جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مساجد کو صرف عبادت کے لئے مشروع کیا ہے اور قبرستانوں کو صرف مردوں کی تدفین کے لئے خاص کیا ہے۔ واللہ اعلم

 چند شبہات اور ان کے جوابات

       پہلا شبہ: بہت سے لوگوں نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کے جواز پر اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مسجد نبوی کے اندر ہے۔ اگر یہ حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد نبوی میں تدفین نہ ہوتی!

       اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہیں ہوئی تھی بلکہ آپ کو آپ کے گھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا تھا جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ یہ ایک معروف اور قطعی بات ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس وقت مسجد نبوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان سے بالکل الگ تھی۔ گھر کی الگ دیوار تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آمد و رفت کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام کی وفات کے بعد مسلمانوں کو مسجد کی توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کا دور حکومت تھا۔ انہوں نے ازواج مطہرات کے حجروں کو مسجد نبوی میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ اسی موقع پر عائشہ رضی اللہ عنہا کا پورا حجرہ مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے حجرۂ نبوی جس میں آپ کی قبر تھی، مسجد کا حصہ بن گیا۔ اسی وجہ سے بعد کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع ہی میں مسجد کے اندر دفن کیا گیا تھا۔[145]؎

         اس بات سے آگاہی ضروری ہے کہ مسجد نبوی کی کئی مرتبہ توسیع ہوئی ہے۔ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں بھی مسجد نبوی کی توسیع کی گئی ہے جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ لیکن ان دونوں صحابہ کرام نے مسجد کی توسیع ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف سے نہیں کی تھی بلکہ دوسری سمتوں سے مسجد کو وسیع کیا تھا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس کی وجہ سے ایک شرعی ممانعت کی خلاف ورزی ہوگی، اسی لئے جب عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی تھی تو انہوں نے مسجد سے متصل حجرۂ نبوی کو اس کی اصلی حالت پر باقی رکھا تھا، بلکہ انہوں نے اس موقع پر کہا تھا کہ حجرۂ نبوی کو مسجد نبوی میں شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔[146]؎

         شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسی لئے ہم قطعیت کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ ولید بن عبد الملک سے غلطی کا صدور ہوا تھا، اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔ اگر وہ مسجد نبوی کی توسیع کے لئے مجبور تھے تو وہ حجرۂ نبوی سے تعرض کئے بغیر دوسری سمتوں سے مسجد کی توسیع کر سکتے تھے۔[147]؎

         علامہ حافظ محمد بن عبد الہادی[148]؎ رحمہ اللہ اپنی کتاب ” الصارم المنکی“ میں رقمطراز ہیں: ولید بن عبد الملک کے عہد خلافت میں حجرۂ نبوی کو مسجد میں اس وقت شامل کیا گیا جب مدینہ میں رہائش پذیر صحابہ کرام وفات پا چکے تھے۔ سب سے اخیر میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی وفات ہوئی۔ عبد الملک کے عہد خلافت میں 78ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ولید نے 86ھ میں خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور 96ھ میں وفات پائی۔ اسی مدت کے دوران مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور حجرۂ نبوی کو مسجد میں شامل کیا گیا۔[149]؎

         ان کا یہ قول بھی ہے: عہد صحابہ میں حجرۂ نبوی مسجد سے باہر اور اس سے متصل تھا۔ چاروں عبادلہ یعنی عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن زبیر اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کے انتقال کے بعد، بلکہ مدینہ میں سکونت پذیر تمام صحابہ کرام کی وفات کے بعد عبد الملک بن مروان کے عہد خلافت میں حجرۂ نبوی کو مسجد نبوی میں شامل کیا گیا۔[150]؎

         میں کہتا ہوں: اسی لئے ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”البدایۃ و النھایۃ“[151]؎ میں لکھا ہے کہ کبار تابعین میں سے ایک سعید بن مسیب کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہے، کو مسجد نبوی میں شامل کرنے کے عبد الملک بن مروان کے اقدام کو ناپسند کیا تھا۔ اسی لئے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس بارے میں کہا ہے کہ اس معاملہ میں سعید بن مسیب کا انکار بعید از قیاس نہیں ہے، اس لئے کہ وہ کبار تابعین میں سے ہیں اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے رواۃ میں سے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کو ہلاک و برباد کرے، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں۔“ ولید کو اللہ معاف کرے، انہوں نے علماء سے مشورہ کئے بغیر قبر نبوی کے حصہ کو مسجد میں شامل کر دیا تھا اور ان کا عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔[152]؎

         ولید کے اس اقدام سے جو شرعی خلاف ورزی ہوئی تھی اس کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے مسلمانوں نے کچھ اقدامات بھی کئے۔ اس کے لئے ان لوگوں نے قبلہ کی سمت واقع گھر کی دیوار کو اونچی کر دی تاکہ نمازیوں کے لئے نماز پڑھتے وقت سامنے قبر ہونے کا تصور ہی پیدا نہ ہو۔ ابن رجب کہتے ہیں: قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے: مسلمانوں نے قبر نبوی کے سلسلہ میں سد ذریعہ کی آخری حد تک کوشش کی۔ اس کے لئے انہوں نے آپ کے حجرہ کی دیوار کو بلند کر دیا۔ حجرہ کے اندر داخل ہونے کے راستہ کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اور قبروں کو چاروں طرف سے گھیر دیا۔ پھر مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ جب قبر نمازیوں کے سامنے ہوگی تو اسی کو قبلہ بنا لیا جائے گا اور نماز پڑھتے وقت اسی کی طرف رخ کرنے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے قبر کے شمالی کونوں پر دو دیواریں تعمیر کیں اور ان دونوں دیواروں کو اس طرح ٹیڑھا کر دیا کہ وہ دونوں مثلث کی شکل میں باہم مل گئیں تاکہ کوئی آپ کی قبر کو قبلہ نہ بنا سکے۔ اسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ اگر اس طرح کے خدشات نہ ہوتے تو آپ کی قبر کو بھی ظاہر کر دیا جاتا۔[153]؎

         اس شبہ کے جواب میں اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ تین باتوں پر مشتمل ہے۔

         پہلی بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین مسجد میں نہیں کی گئی بلکہ آپ کی تدفین آپ کے گھر میں ہوئی تھی۔

         دوسری بات: حجرۂ نبوی کو مسجد میں شامل کئے جانے کے وقت صحابہ کرام موجود نہیں تھے۔ اگر وہ اس وقت موجود ہوتے تو حجروں کی طرف سے مسجد نبوی کی توسیع نہ ہوتی۔ خلفائے راشدین کے دور میں کئی بار مسجد نبوی کی توسیع ہوئی لیکن امہات المومنین کے حجروں کو توسیع میں شامل نہیں کیا گیا۔

تیسری بات: حجرۂ نبوی کو مسجد نبوی میں شامل کرنا ولید بن عبد الملک کی غلطی تھی، اللہ انہیں معاف فرمائے۔

         تنبیہ: اگر مسجد نبوی کے امور کے ذمہ داران مسجد نبوی کی حدود کو سابقہ حالت پر واپس لے جائیں جیسا کہ ماضی میں تھا تو یہ بہتر ہو اور فتنہ سے دور رکھنے کے لئے کارگر ہو۔ اس کی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ حجرہ کی مغربی دیوار کو مسجد سے الگ کر دیا جائے اور اس کے لئے مسجد کی جنوبی دیوار سے شمالی دیوار تک ایک لمبی دیوار بنائی جائے تاکہ قبر کی دیوار نمازیوں کے سامنے ظاہر ہی نہ ہو، پھر اس دیوار کو مشرق کی طرف موڑا جائے یہاں تک کہ وہ مسجد کی اس مشرقی دیوار سے مل جائے جو شاہ فہد بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے ذریعہ جدید توسیع کے وقت تعمیر کی گئی ہے۔ اگر ذمہ داران ایسا کر لیں تو یہ بہتر بھی ہوگا اور قبر نبوی سے لوگوں کے فتنہ میں پڑنے کا امکان بھی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ذمہ داروں کو اس کی توفیق سے نوازے آمین۔

         دوسرا شبہ: کچھ لوگوں نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کے جواز پر طبرانی کی نقل کردہ اس روایت سے استدلال کیا۔ وہ روایت مع سند اس طرح ہے: حدثنا عبدان بن أحمد حدثنا عیسی بن شاذان حدثنا ابو ھمام الدلال حدثنا إبراھیم بن طھمان عن منصور عن مجاہد عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فی مسجد الخیف قبر سبعین نبیا[154]؎ یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد خیف میں ستر انبیاء کی قبریں ہیں۔ بزار نے اس روایت کو عن ابی ھمام بہ کی سند سے نقل کیا ہے۔[155]؎

         علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اس لئے کہ اس کی سند میں راوی عیسیٰ بن شاذان ہیں۔ ابن حبان نے ”الثقات“ میں کہا ہے کہ یہ عجیب و غریب روایتیں نقل کرتے ہیں۔ اس کی سند میں ابراھیم بن طہمان بھی ہیں جو ثقہ ہیں لیکن یہ بھی عجیب و غریب روایتیں نقل کرتے ہیں۔ یہ بات حافظ ابن حجر نے کہی ہے۔[156]؎

         اس کے بعد شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ عیسیٰ بن شاذان یا ابراھیم بن طہمان میں سے کسی ایک پر اس حدیث میں تحریف ہوئی ہے۔ اور انہوں نے ”صلی(نماز پڑھی) کے بجائے ”قُبِرَ(دفن کئے گئے) کہہ دیا ہے۔ اس لئے کہ لفظ ”صلی“ ہی حدیث میں مشہور ہے۔ طبرانی نے المعجم الکبیر[157]؎ میں ایک ایسی سند سے جس کے رواۃ ثقہ ہیں عن سعید بن جبیر عن ابن عباس کی سند سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ ”صلی فی مسجد الخیف سبعون نبیا“ یعنی مسجد خیف میں ستر انبیاء نے نماز ادا کی ہے۔

         منذری (2/116) کہتے ہیں: طبرانی نے اس روایت کو المعجم الاوسط[158]؎ میں نقل کیا ہے، اس کی سند حسن ہے۔ شیخ البانی کے بقول: میرے نزدیک اس حدیث کے حسن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔[159]؎[160]؎

         حاصل کلام یہ کہ اوپر نقل کردہ تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ منیٰ میں واقع مسجد خیف میں ستر انبیاء نے نماز ادا کی ہے، نہ کہ اس مسجد میں ستر انبیاء کی قبریں ہیں۔ الحمد اللہ اس وضاحت کے بعد یہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔

         تیسرا شبہ: کچھ لوگوں نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کے جواز پر دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آدم علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھی، نماز میں چار تکبیریں کہیں، اس دن جبریل نے فرشتوں کی امامت کی، آدم علیہ السلام کو مسجد خیف میں دفن کیا گیا، انہیں قبلہ کی طرف سے قبر میں اتارا گیا، ان کے لئے لحد یعنی بغلی قبر بنائی گئی اور ان کی قبر کوہان نما کی گئی۔[161]؎

         اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس کتاب[162]؎  کے محقق مجدی بن منصور شوری حفظہ اللہ نے اس اثر کی سند کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی سند بہت زیادہ ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں: اس کے ایک راوی عبد الرحمٰن بن مغول کے بارے میں ابوداؤد نے کہا ہے کہ وہ حدیثیں گڑھتا تھا۔ بخاری نے کہا ہے کہ روایت حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور اس کے ایک راوی عبد اللہ بن مسلم بن ھرمز بھی ضعیف ہیں جیسا کہ ”التقریب“ میں مذکور ہے۔

         چوتھا شبہ: کچھ لوگوں نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کے جواز پر حاکم کی ایک روایت سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب ”الکنی“ میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ ”اسماعیل (علیہ السلام) کی قبر مقام حجر میں ہے۔“ اس روایت سے قبروں پر بنی ہوئی مساجد میں نماز پڑھنے کے جواز پر بھی استدلال کیا گیا ہے۔

         اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ سخاوی نے اسے ”المقاصد الحسنۃ“[163]؎  میں اور عجلونی نے ”کشف الخفاء“ میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ عجلونی کے بقول: اسے دیلمی نے ضعیف سند سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔[164]؎  نیز البانی رحمہ اللہ نے بھی ”تحذیر الساجد“[165]؎  میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

         شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کسی بھی مرفوع حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ اسماعیل علیہ السلام یا ان کے علاوہ انبیائے کرام میں سے کسی کو مسجد حرام میں دفن کیا گیا۔ اس طرح کی کوئی بات حدیث کی معتبر کتابوں مثلاً کتب سۃ، مسند احمد، طبرانی کی تینوں معجم وغیرہ احادیث کے معروف مجموعے میں نہیں آئی ہے۔ یہی اس حدیث کے ضعیف ہونے بلکہ بعض محققین کے نزدیک موضوع ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ اس سلسلہ میں جو کچھ بھی منقول ہے وہ سب معضل آثار ہیں جو کمزور اور موقوف سندوں سے نقل کی گئی ہیں۔ ازرقی نے ”اخبار مکہ“ میں ان سب آثار کو نقل کیا ہے، پھر اوپر نقل کردہ اثر کو ذکر کیا ہے۔[166]؎

         اوپر نقل کی گئی حدیث کو محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: ”موسوعۃ الأحادیث و الآثار الضعیفۃ و الموضوعۃ“۔[167]؎

         پانچواں شبہ: اس معاملہ میں کچھ لوگوں نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں وارد اس تفصیل کو دلیل بنا لیا ہے کہ جب ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ابوجندل رضی اللہ عنہ نے ان کی تجہیز و تکفین کی، ان کی نماز جنازہ پڑھی اور ان کی قبر کے اوپر مسجد تعمیر کی۔ اس واقعہ کو ابن عبد البر نے اپنی کتاب ”الاستیعاب“ میں موسی بن عقبہ کی سند سے نقل کیا ہے۔

         اس شبہ کے کئی جواب ہیں[168]؎:

         پہلا جواب: اس بیان کردہ واقعہ کی سند ضعیف ہے۔ اس کے راوی موسیٰ بن عقبہ کی کسی بھی صحابی سے سماعت ثابت نہیں ہے، نہ ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے اور نہ کسی دوسرے صحابی سے۔ اس لئے کہ موسیٰ نے کسی بھی صحابی رسول کا زمانہ نہیں پایا، لہذا اس واقعہ کی سند معضل ہے۔

         دوسرا جواب: یہ روایت اس سے زیادہ صحیح روایتوں کے برخلاف ہے۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آئے ابوجندل رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کو امام بخاری (2731) اور امام احمد (4/328-331) نے عبد الرزاق عن معمر قال أخبرنی عروۃ بن الزبیر عن المسور بن مخرمہ و مروان کی سند سے موصولاً نقل کیا ہے، لیکن اس میں یہ اضافہ نہیں ہے کہ ابوجندل رضی اللہ عنہ نے ابوبصیر کی قبر پر ایک مسجد تعمیر کی۔

         اسی طرح ابن اسحاق نے ”السیرۃ“ میں اس واقعہ کو زھری سے مرسلاً نقل کیا ہے۔ اور امام احمد (4/323-326) نے اسے عن ابن اسحاق عن الزھری عن عروۃ بہ کی سند سے معمر کی روایت کے مثل موصولاً نقل کیا ہے، لیکن اس روایت میں بھی قبر پر مسجد تعمیر کرنے کی بات نہیں ہے۔

         اسی طرح ابن جریر نے اپنی ”تاریخ“ (3/271-285) میں اسے معمر و ابن اسحاق دونوں کی سند سے اس اضافہ کے بغیر نقل کیا ہے۔

         اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند کے معضل ہونے اور غیر ثقہ رواۃ سے مروی ہونے کی وجہ سے قبر پر مسجد کی تعمیر سے متعلق اضافہ منکر ہے۔

         تیسرا جواب: اگر ان تمام بحث و مباحثہ کی وجہ سے یہ مان بھی لیا جائے کہ ابوجندل رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کی روایت صحیح ہے تب بھی ایک صحابی کے عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مقدم نہیں کیا جا سکتا ہے، حالانکہ یہاں تو صحابی رسول ابوجندل رضی اللہ عنہ سے جو کچھ منقول ہے اس کی نسبت ان کی طرف ثابت ہی نہیں ہے۔ اس طرح اشکال دور ہو جاتا ہے، الحمد اللہ

چھٹا شبہ: کچھ لوگوں نے قبروں کے اوپر تعمیر کے جواز پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دفن کیا گیا۔

         اس کا دو طریقہ سے جواب دیا جا سکتا ہے:

         پہلا: مجمل جواب: اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت میں تضاد نہیں ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام سے منع فرمایا ہو پھر صحابہ کرام آپ کی وفات کے فوراً بعد اس ممنوع کام کو کرنے پر متفق ہو جائیں۔

         دوسرا: مفصل جواب: صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرۂ عائشہ میں تعظیم کے مقصد سے دفن نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے دو اسباب تھے:

         پہلا سبب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو لوگوں سے دور رکھنا تاکہ وہ آپ کی تعظیم میں غلو نہ کریں۔ اس کے دلائل پیچھے ذکر کئے جا چکے ہیں۔

         دوسرا سبب: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام کو جو خصوصیت عطا کی ہے اس کی تعمیل، یعنی نبی کی تدفین اسی جگہ ہوگی جہاں پر اس کی روح قبض کی گئی ہے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ہے۔ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی نقل کردہ یہ روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی گئی تو آپ کی تدفین کو لے کر صحابہ کرام کی رائیں مختلف تھیں تو اس موقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس تعلق سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے جسے میں بھولا نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ کسی نبی کی روح اسی جگہ قبض کرتا ہے جہاں پر اسے تدفین کی خواہش ہوتی ہے۔“ تم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ دفن کرو جہاں پر آپ کا بستر تھا۔[169]؎

         اگر یہ کہا جائے کہ تو کیا سارے مردوں کو گھروں کے اندر دفن کرنا جائز ہوگا؟

         اس کا جواب یہ ہے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابو عبداللہ (یعنی امام احمد) کے نزدیک قبرستان میں مردے کو دفن کرنا انہیں گھروں میں دفن کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لئے کہ زندہ وارثوں کو اس کی وجہ سے کم نقصان ہوگا، نیز قبرستان آخرت کی سکونت گاہوں سے زیادہ مشابہ ہے، اس کی وجہ سے میت کو زیارت کرنے والوں کی زیادہ دعائیں حاصل ہوں گی اور لوگ اللہ سے ان پر رحم کرنے کی درخواست کریں گے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگ صحراء و بیابان ہی میں دفن کئے جاتے رہے ہیں۔[170]؎

         آج لوگ جو قبروں پر عمارتیں تعمیر کرتے ہیں، اس سے ان کا مقصد صاحب قبر کی تعظیم کرنا ہوتا ہے، نہ کہ لوگوں کو قبر والے کی تعظیم سے دور رکھنا۔ دونوں کے محرکات الگ الگ ہیں۔ اس وضاحت سے یہ شبہ بھی ختم ہو جاتا ہے، الحمداللہ

         ساتواں شبہ: کچھ لوگوں نے قبروں پر گنبدوں کی تعمیر کے جائز ہونے کی بات کہی ہے اور اس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر اس وقت گنبد کے موجود ہونے سے استدلال کیا ہے۔ اس شبہ کے جواب میں صنعانی[171]؎ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تطھیر الاعتقاد من أدران الشرک و إلالحاد“ میں رقمطراز ہیں: یہ حقیقت حال سے نا واقفیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ یہ گنبد جو اس وقت مسجد نبوی میں موجود ہے، اس کی تعمیر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، نہ صحابہ کرام نے کی، نہ تابعین عظام نے کی، نہ تبع تابعین نے کی، نہ علمائے امت نے کی اور نہ ائمہ ملت نے کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر موجود گنبد کو بعد کے ایک شاہ مصر نے 678ھ میں تعمیر کرایا جس کا نام قلاوون صالحی ہے جو ملک منصور سے معروف ہے۔ ”تحقیق النصرۃ بتخلیص معالم دار الھجرۃ“ میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ شاہ مصر کا یہ اقدام بین الاقوامی امور و معاملات سے تعلق رکھتا ہے، اس میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے جس میں بعد والے اگلوں کی اتباع کریں۔[172]؎

         اس کو مقید کرنے، اللہ ان سے چشم پوشی کرے، کہتے ہیں: سوڈان سے تعلق رکھنے والے ایک سائل نے سعودی عرب کی دائمی کمیٹی برائے افتاء و علمی تحقیقات سے یہ مسئلہ دریافت کیا تھا کہ یہاں سوڈان میں کچھ اہل تصوف مردہ کی قبر پر گنبد بنانے کے لئے قبر نبوی پر تعمیر شدہ گنبد سے استدلال کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں دینی حکم کیا ہے؟

         دائمی کمیٹی برائے افتاء نے اس کے جواب میں لکھا تھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر تعمیر شدہ گنبد میں ان لوگوں کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جو اولیاء و صالحین کی قبروں پر گنبد تعمیر کرنے کے لئے اسے بہانہ بناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جو گنبد موجود ہے اس کی تعمیر میں نہ تو آپ کی وصیت کا کوئی دخل تھا، نہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور قرون اولیٰ کے ائمہ ہدایت میں سے کسی نے اسے تعمیر کیا جن کے خیر و بھلائی کا دور ہونے کی شہادت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل بدعات نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ثابت شدہ ارشاد ہے کہ ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہ ثابت شدہ روایت ہے کہ انہوں نے ابو الہیاج سے کہا تھا: کیا میں تم کو ایسی مہم پر روانہ نہ کروں جس مہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روانہ کیا تھا؟ تم کسی بھی مجسمہ کو دیکھنا تو اسے مسخ کر دینا اور کسی بھی اونچی قبر کو دیکھنا تو اسے برابر کر دینا۔ یہ امام مسلم کی نقل کردہ روایت ہے۔ جب قبر نبوی پر گنبد کی تعمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ ائمہ خیر و ہدایت کے ذریعہ اس کی تعمیر ہوئی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے اس طرح کی تعمیر کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر اہل بدعات کے ذریعہ قبر نبوی پر تعمیر کئے گئے گنبد سے مسلمانوں کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے            وصلی اللہ علی محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔[173]؎

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء

نائب صدر                      رکن                     رکن

عبدالرزاق عفیفی                       عبداللہ بن عذیان          عبداللہ بن قعود

صدر

عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

 فصل

 قبروں پر حجرے اور گنبد وغیرہ بنانے کا حکم

         کچھ مسلم ممالک میں قبروں پر پختہ اینٹ، سنگ مرمر یا سرامیک کے ذریعہ عمارت تعمیر کرنے، قبروں پر چونہ کاری کرنے کا رواج ہے، یا تو یہ عمارت باہر کی طرف سے قبر سے متصل ہوتی ہے یا قبر کے اوپر گنبد یا حجرہ کی شکل میں ہوتی ہے۔ قبر کے اوپر تعمیرات کی یہ تمام شکلیں شرعاً حرام ہیں۔ اس حرمت کے مندرجہ ذیل پانچ اسباب ہیں:

         پہلا سبب: یہ مردہ کی تدفین کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے برخلاف ہے۔

         دوسرا سبب: قبروں پر تعمیر میت کی تعظیم اور اس کی شان میں غلو کا سبب ہے۔ زیارت کرنے والوں کو جب قبر کے اوپر کوئی عمارت نظر آتی ہے تو ان کے دلوں پر اس کا رعب طاری ہوتا ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے دلوں میں میت کی عظمت کے قائل ہو جاتے ہیں، ان کا دل اس مردہ سے وابستہ ہو جاتا ہے، پھر وہ اسے مصیبت کے وقت پکارتے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ افسوس کہ یہ سارے غیر مشروع کام کچھ مسلم ممالک میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ قبر کو بلا عمارت رکھنا مشروع ہے۔ اس معاملہ میں تمام مسلمانوں کی قبروں کا ایک ہی حکم ہے۔

         تیسرا سبب: قبر پر تعمیر کی وجہ سے پہلی میت کے پرانی و بوسیدہ ہو جانے کے بعد مستقبل میں کسی دوسری میت کو وہاں اس جگہ پر دفن کرنے کی گنجائش نہیں رہتی، کیونکہ قبر کے اوپر بنی عمارت اس راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے، لوگ اس عمارت کو منہدم کرکے وہاں پر دوسری میت کو دفن کرنے میں حرج و تنگی محسوس کرتے ہیں، اس لئے وہ عمارت مستقبل میں وہاں کسی کی تدفین کی راہ میں رکاوٹ اور تنگی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر قبر کے اوپر کوئی عمارت نہ بنائی گئی ہو تو پہلی قبر کے آثار و نشان مٹ جانے کے بعد اس کی جگہ دوسری میت کی تدفین کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

         چوتھا سبب: اگر لوگ ہر تعظیم کی جانے والی قبر پر عمارت بنانے لگیں تو پورا شہر مردوں کی عمارت سے بھر جائے گیا اور جگہ جگہ زندہ انسانوں کے رہنے کے لئے مکانات کے بجائے مردوں کی عمارتیں نظر آئیں گی۔ ایسی صورت میں انسانوں کو جو مشقت ہوگی وہ پوشیدہ نہیں ہے۔

         پانچواں سبب: قبروں کی چونہ کاری کا سبب فخر و مباہات اور دنیا کی زندگی کی آرائش ہے جبکہ قبریں آخرت کی منزل ہوتی ہیں، یہ فخر و مباہات کے مظاہرہ کی جگہ نہیں ہے۔ میت کو تو اس کا علم و عمل آراستہ کرتا ہے۔

قبروں پر عمارت بنانے کی ممانعت کے دلائل

       قبروں پر عمارت بنانے کی ممانعت کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اور صحابہ و تابعین کے بہت سے آثار وارد ہیں۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

         جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی چونہ کاری کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔[174]؎

         ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر عمارت بنانے یا اس کی چونہ کاری کرنے سے منع فرمایا ہے۔[175]؎

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کچھ تعمیر کرنے، ان پر بیٹھنے یا ان پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[176]؎

         نعمان بن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں: جند[177]؎ میں میرے چچا کا انتقال ہو گیا تو میں اپنے والد کے ساتھ ابن طاووس کے پاس گیا۔ ان سے میرے والد نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! میں اپنے بھائی کی قبر کی چونہ کاری کرنا چاہتا ہوں، آپ کی کیا رائے ہے؟ یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہا: سبحان اللہ، اے ابو شیبہ آپ کے لئے خیر اس میں ہے کہ آپ اپنے بھائی کی قبر کو نہ پہچانیں، البتہ آپ وہاں جا کر ان کے لئے استغفار اور دعا کریں، کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی قبروں پر کچھ تعمیر کرنے یا اس کی چونہ کاری کرنے یا اس پر پیڑ پودے لگانے[178]؎ سے منع فرمایا ہے۔ آپ مسلمانوں کی سب سے اچھی قبریں وہ ہیں جو غیر معروف ہیں۔[179]؎

         ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ تم لوگ تیز رفتاری کے ساتھ میرے جنازہ کو لے کر چلو، میرے جنازہ کے پیچھے دھونی دینے کا برتن نہ ہو، میری لحد کے اندر کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو، میری قبر کے اوپر کوئی عمارت تعمیر نہ کرنا، میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں مصیبت کے وقت بال منڈوانے والی، واویلا کرنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی سے بری الذمہ ہوں۔ لوگوں نے دریافت کیا: کیا آپ نے اس تعلق سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے۔[180]؎

         ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے اوپر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔[181]؎

         ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو وصیت کی تھی کہ ان کی قبر کے اوپر خیمہ وغیرہ نصب نہ کیا جائے۔[182]؎

         عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر کے اوپر فسطاط دیکھا جو بالوں سے بنا ہوا گھر ہوتا ہے، اسے خیمہ بھی کہا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا: اے لڑکے! قبر کے اوپر سے اس خیمہ کو ہٹا دو، ان کا عمل انہیں سایہ کرے گا۔[183]؎

         نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی وصیت کی تھی کہ ان کی قبر کے اوپر خیمہ نصب نہ کیا جائے۔[184]؎

         ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے محمد بن کعب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ خیمے جو قبروں پر نصب کئے جاتے ہیں، ایک نئی بدعت ہے۔[185]؎

         قبروں پر کی گئی تعمیر اسلام میں نئی بدعت ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مدینہ میں بقیع قبرستان میں اساطین امت، صحابہ کرام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے سربرآوردہ افراد اور سادات تابعین کی قبریں ہیں، لیکن چونکہ سلف صالحین نے ان قبروں کے اوپر کچھ تعمیر کرنے یا ان قبروں کی چونہ کاری کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی لہذا ان میں سے بیشتر قبروں کے آثار و نشانات مٹ چکے ہیں اور ان میں سے چند معدود افراد کی قبریں بھی معروف نہیں ہیں۔[186]؎

         امام مالک کا قول ہے: (تقریباً دس ہزار صحابہ کرام نے مدینہ میں وفات پائی، بقیہ صحابہ کرام دوسرے علاقوں اور شہروں میں پھیل گئے اور وہیں سکونت اختیار کی[187]؎) ان میں سے غالب اکثریت کی قبریں یقینی طور پر معلوم نہیں ہیں اور نہ ان قبروں کی سمتوں کا کچھ اتہ پتہ ہے۔

         ابن بطہ[188]؎ رحمہ اللہ نے قبروں کی چونہ کاری اور ان پر کی گئی تعمیر کو بدعات میں شمار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: قبروں پر کچھ تعمیر کرنا، ان کی چونہ کاری کرنا اور ان کی زیارت کے لئے سفر کرنا بدعت ہے۔[189]؎

         شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ قبروں کی چونہ کاری نہ کی جائے۔ اس لئے کہ یہ چونہ کاری وغیرہ زینت و آرائش اور اظہار فخر کے کاموں میں سے ہے اور موت کے بعد ان دونوں کاموں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ میں نے مہاجرین و انصار کی قبروں پر چونہ کاری نہیں دیکھی ہے۔ میں نے ایسے حکمرانوں کو دیکھا ہے جو مکہ میں قبروں پر کی گئی تعمیر کو منہدم کر دیتے تھے اور اس وقت کے فقہاء اس انہدامی کاروائی کو برا نہیں سمجھتے تھے۔[190]؎

         قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: لحد میں پختہ اینٹوں کا استعمال مکروہ ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے اسے مکروہ کہا ہے، اس لئے کہ پختہ اینٹیں تعمیر کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں جبکہ قبر اور اس کے مردے بوسیدہ ہونے کے لئے ہیں، لہذا قبر پختہ و مستحکم کرنے کی چیز نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر پتھر اور پختہ اینٹ کو ایک ہی حکم میں رکھا جائے گا۔[191]؎

         امام مالک کہتے ہیں: قبروں کی چونہ کاری، ان پر کچھ تعمیر کرنا اور قبروں پر تعمیر کے لئے پتھر کا استعمال میرے نزدیک مکروہ ہے۔[192]؎

         ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسی طرح قبروں کے اوپر تعمیر کئے گئے گنبدوں کو منہدم کرنا واجب ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر ان کی تعمیر ہوئی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کچھ تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے، لہذا جو تعمیر آپ کی نافرمانی اور مخالفت پر ہوئی ہو وہ ایک حرام تعمیر ہے اور وہ قطعی طور پر غاصب کی تعمیر کردہ چیز کے مقابلہ بدرجہ اولیٰ منہدم کئے جانے کی مستحق ہے۔[193]؎

         شیخ علامہ صدیق حسن خان[194]؎ قنوجی رحمہ اللہ کہتے ہیں: صحیح احادیث میں قبروں کو بلند کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ جو قبر بھی بلند یا نمایاں نظر آتی ہو وہ شرعی طور پر منکر کی قبیل سے ہے۔ مسلمانوں پر اس کا انکار کرنا اور اسے زمین کے برابر کرنا واجب ہے۔ اس معاملہ میں نبی اور غیر نبی اور نیک و بد کے درمیان فرق نہیں کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اکابر صحابہ کرام کی ایک جماعت کا انتقال ہوا لیکن ان کی قبریں بلند نہیں کی گئیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو نمایاں اور ابھری ہوئی قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے آپ کی قبر کو بلند نہیں کیا۔

         علماء اور صلحاء اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کا وہی شعار ہو جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رہنمائی کی ہے۔ اور علماء و صلحاء کی قبروں کو اس بدعت کے ساتھ خاص کرنا ان کے علم و فضل کے منافی ہے۔ اگر وہ کلام کرنے کی حالت میں ہوتے تو اپنی قبروں پر بنی عمارت اور ان کی آرائش کو دیکھ کرنا خوش ہوتے۔ اور اس بات سے راضی نہ ہوتے کہ جو چیز دین میں بدعت اور ممنوع ہے وہ ان کا شعار و نشان بن جائے۔ اگرکوئی اپنی زندگی میں اس سے راضی و خوش تھا مثلاً وہ شخص جو مرنے سے پہلے یہ وصیت کرتا ہے کہ اس کی قبر پر عمارت تعمیر کی جائے اور اسے آراستہ کیا جائے تو ایسا شخص صاحب فضل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص حقیقتاً عالم ہے تو اسے اس کا علم اس بات کے لئے ملامت کرے گا کہ اس کی قبر پر کوئی ایسی چیز ہو جو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے برخلاف  ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے جہلاء طبقہ کے ذریعہ اختیار کی گئی قبروں کو پختہ اور مزین کرنے کی بدعت کتنی زیادہ قبیح ہے۔[195]؎

         امام محمد بن اسماعیل صنعانی رحمہ اللہ قبروں پر تعمیر کے مظاہر کا انکار کرتے ہوئے اور یہ واضح کرتے ہوئے کہ اس منکر پر کچھ علماء کی خاموشی اس کا اقرار نہیں ہے، کہتے ہیں: ”ہر خاموشی رضا مندی نہیں ہوتی ہے۔ قبروں پر تعمیر سے متعلق ان منکرات کو ان لوگوں نے ایجاد کیا جن کے ہاتھوں میں سیف و سنان تھا۔ لوگوں کے جان و مال اور ان کی عزتیں ان حکمرانوں کے حکموں اور فرامین کے تابع تھے۔ ایسی صورت حال میں کوئی شخص کیسے ان ظالم حکمرانوں کو ان منکرات سے باز رکھتا؟ قبروں پر تعمیر کئے ہوئے یہ گنبد اور مزار شرک و الحاد کا سب سے بڑا ذریعہ اور اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ ان مزاروں کو بنانے والے عام طور پر بادشاہ، امراء اور حکمران ہی ہیں جنہوں نے یا تو اپنے کسی رشتہ دار یا کسی ایسے شخص کی قبر پر مزارات تعمیر کئے ہیں جن کے بارے میں وہ حسن ظن رکھتے ہیں۔[196]؎

         امام علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ نے ایک جگہ قبروں پر تعمیر کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ قبر کا آسمان کے نیچے کھلی جگہ پر ہونا ضروری ہے، اس کے اوپر کمرہ، گنبد یا مسجد وغیرہ بنا کر اسے ڈھکا نہیں جائے گا۔ وہ کہتے ہیں: ”یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہئے کہ صحابہ کرام سے لے کر اب تک کے اول و آخر سب لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ قبروں کو بلند کرنا اور ان کے اوپر عمارت بنانا ایک ممنوعہ بدعت ہے۔ اسے انجام دینے والے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعید وارد ہے۔ اس معاملہ میں مسلمانوں میں سے کسی کا اختلاف نہیں ہے۔[197]؎

قبروں پر تعمیر شدہ مساجد کے تعلق سے مسلمانوں کی ذمہ داری

       گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ قبروں کو مسجدیں بنا لینا حرام و منکر عمل ہے۔ اور حسب قدرت منکر کا ازالہ مسلمانوں کے اوپر واجب ہے؛ اس حکم میں عوام اور حکمران سب برابر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم میں سے جو شخص کوئی منکر دیکھے تو وہ اپنے ہاتھوں سے اسے مٹا دے، اگر اس کی قدرت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے۔ یہ سب سے کمزور ترین ایمان ہے۔[198]؎

         جب مسجد قبر سے پہلے سے موجود ہو تو قبر کھود کر میت کو وہاں سے قبرستان میں منتقل کرنا واجب ہے۔ اس طرح مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے محفوظ جگہ ہو جائے گی۔

         جب قبر پہلے سے موجود ہو اور اس پر بعد میں مسجد بنائی گئی ہو تو پھر مسجد کو منہدم کر دینا واجب ہے، اس لئے کہ یہ مسجد تقوی کی بنیاد پر اللہ کی تعظیم کے لئے تعمیر نہیں کی گئی بلکہ اس میت کی تعظیم کے لئے تعمیر کی گئی، لہذا اسے منہدم کر دینا واجب ہے، اس لئے کہ جس چیز کی تعمیر غیراللہ کے لئے ہوئی ہو اسے منہدم کر دینا مشروع ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی تعمیر کردہ مسجد ضرار کو منہدم کر دیا تھا، اس لئے کہ اللہ کے تقوی اور اس کی خوشنودی کی خاطر اس کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔

         اللہ تعالیٰ نے مساجد کی تعمیر اس لئے مشروع نہیں کی ہے کہ وہاں مردوں کی قبریں بنائی جائیں اور نہ قبریں مساجد بنانے کے لئے ہیں، لہذا ہر چیز کو اس کے شرعی استعمال اور علت کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ واللہ اعلم

قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے اور قبروں کے اوپر مساجد تعمیر کرنے کے مفاسد کا بیان

       اوپر جو باتیں بیان کی جا چکی ہیں ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لینے یا ان پر مساجد تعمیر کرنے کی وجہ سے کئی طرح کے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں، مثلاً:

         1۔ اس کا سب سے بڑا فساد و بگاڑ یہ ہے کہ شیطان قبر کے اوپر بنی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنے والے کو اس قبر کے اندر مدفون میت کو پکارنے، اس سے فریاد کرنے یا اس کے لئے نماز پڑھنے کے لئے ورغلاتا ہے۔ یہ شرک اکبر ہے۔

         2۔ شیطان نمازی کے دل میں ان مساجد میں عبادت کی فضیلت کا اعتقاد پیدا کرتا ہے جن میں مردوں کو دفن کیا گیا ہے جبکہ اس طرح کا اعتقاد رکھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ تین مساجد یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد بیت المقدس کو چھوڑ کر بقیہ تمام مساجد میں نماز پڑھنے کا اجر و ثواب یکساں ہے۔ جس نے یہ دعویٰ کیا کہ مذکورہ تینوں فضیلت یافتہ مساجد کے علاوہ دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے، اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف افتراپردازی کی۔

         3۔ قبروں کو مساجد بنانے سے اللہ کی اس حکمت میں تحریف واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس نے مساجد کی تعمیر کو مشروع کیا ہے، یعنی اللہ کی عبادت اور نماز کی ادائیگی۔ لوگ اس حکمت الہیہ میں تحریف کرکے مساجد کو مردوں کو دفن کرنے کی جگہ بنا لیتے ہیں۔

         4۔ قبروں کو مساجد بنا لینے کا محرک مردے کی تعظیم ہوتا ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم۔ اس صورت میں بھی اس حکمت الہیہ میں تحریف کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اللہ نے مساجد کی تعمیر کو مشروع کیا ہے۔

         5۔ قبروں کو مساجد بنا لینے کی وجہ سے ان قبروں کے پاس پڑھی جانے والی نمازیں باطل ہو جاتی ہیں۔ اس طرح انسان کا عمل بیکار اور ضائع چلا جاتا ہے۔

         6۔ قبروں کو مساجد بنانے میں یہود و نصاری کی مشابہت ہے اور یہ بذات خود حرام ہے۔ ان گمراہ قوموں کی مخالفت واجب ہے، نہ کہ ان کی متابعت۔

         مذکورہ بالا ان تمام مفاسد کی وجہ سے شریعت نے قبروں کو مساجد بنانے کو حرام قرار دیا ہے۔ اور قبروں پر مساجد کی تعمیر بدرجہ اولیٰ حرام ہے، لہذا قبرستانوں اور مساجد کا الگ الگ ہونا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مساجد کی تعمیر کا حکم اس لئے نہیں دیا ہے کہ وہاں مردوں کو دفن کیا جائے اور نہ قبرستانوں کی جگہ خاص کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ وہاں نماز پڑھی جائے بلکہ اللہ نے صرف عبادت کے لئے مساجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے اور صرف مردوں کی تدفین کے لئے قبرستانوں کو خاص کرنے کا حکم دیا ہے۔ واللہ اعلم


 فصل

 قبر پر اضافی مٹی ڈال کر اسے بلند کرنے کا حکم

         آپ یہ بات جان لیجئے، اللہ آپ پر اور مجھ پر رحم فرمائے، کہ قبر پر اضافی مٹی ڈال کر اسے ایک بالشت سے زیادہ بلند کرنا ممنوع ہے، ایک بالشت کی اجازت اس لئے ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قبر ہے تو روند کر یا اس پر بیٹھ کر اس کی بےحرمتی نہ کی جائے۔ اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ قبر کو بلند کرنے میں قبر والے کی تعظیم کا پہلو ہوتا ہے۔ ایک بالشت[199]؎ کے علاوہ پوری قبر زمین کے برابر کر دینا واجب ہے۔ قبر کی مٹی کو بلند کرنے کی ممانعت کے تعلق سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعدد آثار وارد ہیں، مثلاً:

         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت کی باگ ڈور علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے ابو الہیاج اسدی کو جو ان کے محافظ دستے کے سربراہ تھے، قبروں پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے روانہ کیا۔ ابو الہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تم کو اس مہم پر روانہ نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روانہ فرمایا تھا؟ یعنی تمہیں جو بھی مجسمہ ملے اسے مسخ کر دینا اور جو بھی بلند قبر ملے اسے زمین کے برابر کر دینا۔[200]؎

محترم قارئین! یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجسموں کو مسخ کر دینے اور بلند قبروں کو زمین کے برابر کر دینے کا حکم دیا، اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں غیراللہ کی عبادت کا سبب بن سکتی ہیں۔ و لا حول و لا قوۃ إلا باللہ العظیم

         جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے اوپر کچھ تعمیر کرنے یا اس پر اضافی مٹی ڈالنے یا اس کی چونہ کاری کرنے سے منع کیا ہے۔ راوی سلیمان بن موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ قبر کے اوپر کچھ لکھنے کی ممانعت کی ہے۔[201]؎

         ثمامہ بن شفی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ سرزمین روم میں ”رودس[202]؎ “ کے مقام پر فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہاں ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا تو فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے ان کی قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔[203]؎

         عبداللہ بن شرحبیل کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عثمان رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور تمام قبروں کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا تو انہیں برابر کر دیا گیا سوائے عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام عمرو کی قبر کے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یہ کونسی قبر ہے جسے برابر نہیں کیا گیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ ام عمرو کی قبر ہے۔ انہوں نے اس قبر کو بھی برابر کرنے کا حکم دیا۔[204]؎

         ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ایک مولی (آزاد کردہ غلام) کی روایت نقل کی ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے مردہ کو دفن کرنے کے بعد کوئی ایسی نئی بات پیدا کر دی ہے جو مسلمانوں کی قبروں میں نہیں ہوتی ہیں تو تم اسے مسلمانوں کی قبروں کی طرح برابر کر دو۔[205]؎

         معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے: قبروں کو زمین کے برابر کرنا سنت ہے۔ یہود و نصاری نے اپنے مردوں کی قبروں کو بلند کیا، تم لوگ ان کی مشابہت اختیار نہ کرو۔[206]؎

         شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: مجھے یہ بات پسند ہے کہ قبر پر دوسری جگہ کی اضافی مٹی نہ ڈالی جائے۔ قبر کے صرف ایک بالشت حصہ کو زمین سے بلند رکھا جائے۔[207]؎

         یہ بات گزر چکی ہے کہ قبروں کو بلند کرنے کی ممانعت میں انہیں کوہان نما بنانا شامل نہیں ہے، یعنی انہیں ایک بالشت کے بقدر کوہان کی طرح بلند رکھنا تاکہ معلوم ہو کہ یہ قبر ہے اور اس کی وجہ سے نہ کوئی اس پر بیٹھے، نہ اسے روندا جائے اور نہ اسے دوسری مرتبہ کھودا جائے۔

         قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے: قبر کو کوہان کی طرح رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بالشت کے بقدر اس کے حصہ کو بلند رکھا جائے۔ لفظ ”تسنیم“ سنام البعیر (اونٹ کے کوہان) سے ماخوذ ہے۔[208]؎

         قبر کے ایک بالشت حصہ کو کوہان نما رکھنے کے جواز کے تعلق سے سلف صالحین سے متعدد آثار وارد ہیں۔ ان میں سے ایک بخاری کی نقل کردہ سفیان تمار کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو کوہان نما دیکھا۔[209]؎

         ابن ابی شیبہ نے سفیان تمار کا یہ قول نقل کیا ہے: میں اس گھر میں دخل ہوا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبر کو کوہان نما دیکھا۔[210]؎

         ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے شعبی کا یہ قول نقل کیا ہے: میں نے شہدائے احد کی قبریں دیکھیں، وہ آپس میں قریب قریب اور کوہان نما تھیں۔[211]؎

         ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے ابومیمونہ کی روایت نقل کی ہے، وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اپنی قبر کو چار انگلیوں کے بقدر بلند رکھنے کی وصیت کی تھی۔[212]؎

         شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: مجھے قبر کو زیادہ بلند کرنا پسند نہیں ہے، صرف اتنی مقدار بلند رکھی جائے جس سے پتہ چلے کہ یہ قبر ہے تاکہ نہ اسے روندا جائے اور نہ کوئی اس پر بیٹھے۔[213]؎

         ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: قبر کے صرف تھوڑے سے حصہ کو بلند رکھنا مستحب ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں جو بھی مجسمہ ملے اسے مسخ کر دینا اور جو بھی اونچی قبر ملے اسے زمین کے برابر کر دینا۔ امام مسلم وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ اس کے بعد ابن قدامہ کہتے ہیں: قبر کو کوہان نما بنانا اسے مسطح بنانے سے افضل ہے۔ مالک، ابو حنیفہ اور ثوری اسی کے قائل ہیں۔[214]؎

         اگر یہ سوال کیا جائے کہ میت کی قبر کے اندرونی حصہ کے تعلق سے مشروع کیا ہے؟

         اس کا جواب یہ ہے کہ اس سلسلہ میں مشروع یہ ہے کہ میت کو کچی اینٹوں سے ڈھک دیا جائے، پھر قبر پر مٹی ڈالی جائے اور اس کا تھوڑا سا حصہ بلند رکھا جائے تاکہ پتہ چلے کہ یہ قبر ہے۔[215]؎

         قبروں پر مٹی کا لیپ چڑھانا یا تدفین کے بعد قبر کے اوپر پانی چھڑکنا قبر کو بلند کرنا نہیں ہے، اس لئے کہ یہ کام قبر کے کوہان نما حصہ کو باقی رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ قبر ہے تو نہ اسے روندا جائے اور نہ کوئی اس کے اوپر بیٹھے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے حسن بصری کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ قبر کے اوپر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے[216]؎۔ انہوں نے اپنی سند سے ابو جعفر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ قبر کے اوپر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[217]؎

         ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کچھ اہل علم جن میں حسن بصری بھی ہیں، نے قبروں پر مٹی کا لیپ چڑھانے کی اجازت دی ہے۔ شافعی کے بقول: قبر پر مٹی کا لیپ چڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[218]؎

 فصل

 قبروں پر چراغ جلانے کا حکم

      قبروں پر چراغ جلانا اور قمقمے وغیرہ روشن کرنا ان کی تعظیم کا حصہ ہے۔ قبروں پر چراغ جلانے والے مردہ کی تعظیم کے مقصد سے یہ کام کرتے ہیں تاکہ اس کی قبر تاریک نہ رہے۔ یہ غلو ہے جس کی شریعت میں مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام میں سے کسی نے وفات سے قبل اپنی قبر کو روشن کرنے کی وصیت نہیں کی تھی۔ اگر یہ کام مشروع ہوتا تو وہ لوگ اس کے زیادہ مستحق تھے۔

         قبروں پر چراغ جلانا ایسے کام میں اپنے مال کو خرچ کرنا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

         ابن قدامہ رحمہ اللہ کا قول ہے: قبروں پر چراغ روشن کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں بلا فائدہ مال کا ضیاع ہے اور اس میں قبروں کی ایسی تعظیم کا پہلو ہے جو بتوں کی تعظیم کے مشابہ ہے۔[219]؎

         ابن حجر ہیتمی[220]؎ رحمہ اللہ نے قبروں پر چراغ جلانے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ”الزواجر عن اقتراف الکبائر“ میں لکھتے ہیں: ایک سو اکیسواں، ایک سو بائیسواں اور ایک سو تئیسواں کبیرہ گناہ: قبروں کو مساجد بنا لینا یا قبروں پر چراغ روشن کرنا، عورتوں کا قبروں کی زیارت کرنا اور عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا ہے۔

فائدہ

       پیچھے اس بات سے آگاہ کیا جا چکا ہے کہ حدیث نبوی: ”لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرات القبور و المتخذین علیہا المساجد و السرج“[221]؎ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں، قبروں کو مساجد بنا لینے والوں اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔) یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ“ رقم (225، 525) میں ثابت کیا ہے۔ البتہ اس حکم سے حدیث کا ایک لفظ ”السرج“ مستثنیٰ ہے، شیخ البانی نے صراحت کی ہے کہ یہ اضافہ ضعیف ہے۔ شیخ مقبل بن ہادی وادعی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث میں ”السرج“ کے اضافہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ انہوں نے ذاتی طور پر میرے لئے تحریر کردہ فائدہ میں کہا ہے: ”قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کرنے سے متعلق حدیث ضعیف ہے، اس لئے کہ اس کی سند میں ام ہانی رضی اللہ عنہا کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ابوصالح جن کا نام باذام یا باذان ہے، ضعیف راوی ہیں۔ لیکن قبروں پر چراغ جلانا بدعت ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ کام نہیں ہوتا تھا۔“

          اگر یہ کہا جائے کہ رات کے وقت تدفین کی صورت میں راستہ اور تدفین کی جگہ کو دیکھنے کے لئے چراغ جلانے یا روشنی کا انتظام کرنے کا کیا حکم ہے؟

          اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت حال میں چراغ جلانے یا روشنی کا انتظام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تدفین کرنے والے چراغ یا روشنی لے کر جائیں اور تدفین سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنے ساتھ واپس لے آئیں۔[222]؎

 فصل

 قبروں کی تعظیم کی مختلف شکلیں

      آج کل قبروں کی تعظیم کی مختلف صورتیں نظر آتی ہیں، مثلاً ان کے اوپر پردے ڈالنا، اس کے پاس قالین اور سنگ مرمر بچھانا، قبر کے لئے مخصوص قسم کا کپڑا تیار کرنا، قبروں کو خوشبوؤں سے معطر کرنا، ان کے دروازوں پر مجاورین، دربان اور خاص قسم کے پہرے دار بٹھانا، قبر کے لئے جالی یا کھڑکی بنانا جس سے لوگ قبر کو دیکھتے ہیں۔ یہ سارے کام اللہ کے دین میں نئی بدعات کی ایجاد ہیں جن کی تاکید و تعلیم کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ شیخ علی بن محمد سعید سویدی شافعی[223]؎ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”العقد الثمین فی بیان مسائل الدین“ میں قبروں کے پاس کئے جانے والے کاموں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ قبروں کو ہر چیز سے زیادہ بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اوپر قرآن مجید کی آیات لکھتے ہیں، ان قبروں کے لئے صندل کی لکڑی یا ہاتھی کے دانت کے تابوت تیار کرتے ہیں، قبروں کے اوپر خالص سونے اور چاندی جڑے ہوئے ریشمی پردے رکھتے ہیں، اس سے بھی انہیں تشفی نہیں ہوتی تو قبروں کے چاروں طرف چاندی کی کھڑکیاں لگاتے ہیں، ان پر سونے کی قندیلیں لٹکاتے ہیں، قبروں کے اوپر سونے یا منقش شیشے کا گنبد بناتے ہیں، اس کے دروازے کو سجاتے ہیں، ان دروازوں کے لئے چوروں سے حفاظت کی خاطر چاندی وغیرہ کے تالے بنواتے ہیں۔ یہ سارے کام رسولوں کے لائے ہوئے دین کے برخلاف ہیں اور اللہ و اس کے رسول کے ساتھ عین دشمنی و عداوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر یہ اللہ اور اس کے رسول کے متبعین میں سے ہوتے تو یہ غور کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کیا کرتے تھے جبکہ وہ اس امت میں سب سے افضل تھے۔ نیز یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر غور کرتے کہ صحابہ کرام نے کتنی سادگی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تھی۔[224]؎

         شیخ حسین بن محمد مغربی[225]؎ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”البدر التمام شرح بلوغ المرام“ میں رقمطراز ہیں: ”وہ احادیث جن میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں پر لعنت کی گئی ہے اور ایسی قبروں کو بت اور غیراللہ کی پرستش کے مقامات سے تشبیہ دی گئی ہے، مثلاً یہ حدیث ”لا تجعلوا قبری و ثنا یعبد من دون اللہ“ (میری قبر کو بت اور استھان نہ بنا لینا اللہ کو چھوڑ کر جس کی عبادت کی جاتی ہے۔) ان احادیث سے قبروں کے اوپر عمارت بنانے، ان کی تزئین کاری، چونہ کاری، وہاں پر خوبصورت و آراستہ صندوق رکھنے، قبروں کے اوپر اور ان کی فضا میں پردے لٹکانے اور قبر کی دیوار کو برکت کے لئے چھونے کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ اور جہالت و ناواقفیت کے عام ہونے کی وجہ سے یہی سارے کام لوگوں کو اس بت پرستی تک پہنچا دیتے ہیں جس میں پچھلی قومیں ملوث ہو چکی ہیں۔ اسی لئے اسلام میں ان تمام کاموں سے بالکلیہ منع کیا گیا ہے تاکہ فساد عقیدہ کا سبب بننے والے ان وسائل و ذرائع کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ اسلام میں حصول منفعت اور دفع مضرت کا جو شرعی حکم ہے، یہ اقدام اس کے حسب حال بھی ہے، چاہے قبروں کو بذات خود نفع و نقصان کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہو یا آگے چل کر اس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔[226]؎

قبروں کی اہانت کی صورتیں

       اسلام وسطیت اور اعتدال پر قائم دین ہے۔ اسلام نے جہاں قبروں کی تعظیم سے منع کیا ہے اسی طرح اس نے قبروں کی اہانت سے بھی روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و کذلک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدًا“[227]؎ (ترجمہ: ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں۔)

         قبروں کی اہانت کی پانچ صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:

         پہلی صورت: قبر پر بیٹھنا یا اسے روندنا، اس کی ممانعت کی دلیل مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔[228]؎“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے: تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھ جائے اور وہ اس کے کپڑے کو جلاتے ہوئے اس کی کھال تک پہنچ جائے یہ اس کے لئے قبر کے اوپر بیٹھنے سے بہتر ہے۔[229]؎ ایک روایت میں آیا ہے کہ یہ اس کے لئے قبر کو روندنے سے بہتر ہے۔[230]؎

         جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی چونہ کاری کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر کچھ تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔[231]؎

         دوسری صورت: جوتے پہن کر قبروں کے درمیان چلنا، اس کی ممانعت کی دلیل بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے جوتے والے! اپنے جوتے اتار دو۔[232]؎

         قبرستان میں قبروں سے دور ہٹ کر ان جگہوں میں جہاں ابھی قبریں نہیں کھودی گئی ہیں، یا قبرستان میں چلنے کے لئے بنائے گئے راستہ پر جوتے پہن کر چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلنا حرام ہے۔

         تیسری صورت: قبرستان میں قضائے حاجت کرنا، اس کی ممانعت کی دلیل عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انگارے یا تلوار پر چلوں یا میں اپنے پاؤں سے اپنے جوتے ٹانکوں یہ مجھے اس سے زیادہ گوارا ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں۔ اور قبروں کے بیچ میں قضائے حاجت کروں یا بازار کے بیچ، اس کی مجھے پرواہ نہیں[233]؎ (یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے)

         ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے مجاہد کا یہ قول نقل کیا ہے: قبرستان کے اندر وہ پیشاب پاخانہ نہیں کرے گا۔[234]؎

         ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: مسلمان کی قبر کو حرمت حاصل ہے جیسا کہ سنت نبوی سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ مسلمان مردہ کا گھر ہے، لہذا اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ قبر کے اوپر نہ تو نجاستیں ڈالی جائیں گی، نہ اس پر پاؤں رکھا جائے گا، نہ اسے روندا جائے گا، نہ اس پر ٹیک لگایا جائے گا۔ یہی ہمارا اور جمہور علماء کا موقف ہے، نہ قبروں کے آس پاس بری بات کی جائے گی نہ برے کام کئے جائیں گے جن سے مردے کو اذیت ہو۔ قبر کے پاس صاحب قبر کو سلام کرنا اور اس کے لئے دعا کرنا مستحب ہے۔ مردہ جتنا زیادہ افضل ہوگا اس کا سلام و دعا کا حق اتنا ہی زیادہ موکد ہوگا۔[235]؎

         چوتھی صورت: مردہ کی قبر کو اکھاڑنا، اس کی حرمت کی دلیل مالک کی نقل کردہ روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ کی قبر اکھاڑنے والے مرد و عورت پر لعنت کی ہے۔[236]؎

         قبر اکھاڑنے کی ممانعت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے مردہ کی ہڈی کو توڑنے کی نوبت آسکتی ہے۔ اور مردہ کی ہڈی کو توڑنا حرام ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مردہ حالت میں مومن کی ہڈی کو توڑنا زندہ حالت میں اس کی ہڈی کو توڑنے کی طرح ہے۔[237]؎

         لیکن میت جب بوسیدہ ہوکر مٹی ہو جائے جیسا کہ قدیم قبرستانوں میں ہوتا ہے تو اس صورت میں پرانے مردہ کی قبر اکھاڑ کر اس کی ہڈیوں کو الگ ہٹا کر دوسرے مردہ کو اس میں دفن کرنا جائز ہے۔ لیکن ایسا کرنا اس صورت میں صحیح ہے جبکہ شہر کی آراضی تنگ ہو جانے کی وجہ سے اس کی ضرورت ہو۔

          پانچویں صورت: مردے کو گالی دینا، مردے کو گالی دینے کی ممانعت کے تعلق سے بہت سی احادیث اور آثار وارد ہیں۔ ان میں سے ایک عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مردوں کو گالی نہ دو، اس لئے کہ وہ اس انجام تک پہنچ چکے ہیں جسے انہوں نے اپنے اعمال کی شکل میں پیش کیا تھا۔[238]؎

          ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول نقل کیا ہے: تم لوگ صرف خیر و بھلائی کے ساتھ اپنے مردوں کا تذکرہ کرو۔[239]؎

          ابن ابی شیبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے: مردہ کو گالی دینے والا ہلاکت کے گڈھے میں جھانکنے والے کی طرح ہے یعنی ہلاکت کی طرف قدم بڑھانے والے کی طرح ہے۔[240]؎

 فائدہ

       آپ یہ بات جان لیں، اللہ آپ پر رحم کرے، کہ جن جگہوں پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، وہ صرف قبرستانوں اور ان مساجد تک محدود نہیں ہیں جن میں قبریں موجود ہوں، بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ البتہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے کی حرمت زیادہ شدید ہے، کیونکہ اس میں قبر کے اندر مدفون میت سے تعلق استوار کرنے کی خرابی پائی جاتی ہے۔ ان مقامات کا تذکرہ طویل ہے جہاں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، لیکن ہم یہاں اختصار کے ساتھ انہیں بیان کر رہے ہیں[241]؎:

         1۔ ان جگہوں پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے جہاں گمراہ قوموں پر عذاب آیا اور انہیں زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ بابل میں عذاب کی جگہ سے گزرے تو انہوں نے وہاں نماز نہیں پڑھی۔[242]؎

         2۔ گندگی کی جگہیں جو عموماً پاک و صاف نہیں ہوتیں وہاں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ مثلاً حمام اور کوڑا ڈالنے کی جگہ۔ حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی دلیل ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس کا تذکرہ کتاب کے شروع میں آ چکا ہے۔ کوڑا ڈالنے کی جگہ کو حمام پر قیاس کیا گیا ہے۔

         3۔ ان گرجا گھروں میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے جن میں مجسمے موجود ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ہم تمہارے گرجا گھروں کے اندر داخل نہیں ہوں گے کیونکہ وہاں تصویریں یعنی مجسمے ہیں۔[243]؎

         عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس گرجا گھر میں نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے جس میں مجسمے ہوں۔[244]؎ نصاری کے عبادت خانے ”کنائس“ اور یہود کے عبادت خانے ”بیع“ کہلاتے ہیں۔

         4۔ اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ آپ سے ایک شخص نے دریافت کیا: کیا میں اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔[245]؎

         5۔ ایسی جگہ نماز پڑھنا بھی ممنوع ہے جس میں کفار کی نماز و عبادت کے ساتھ مشابہت ہوتی ہو، مثلاً مجسمہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا، اگرچہ وہ مجسمے گرجاگھروں کے باہر ہی کیوں نہ ہوں اور آگ وغیرہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ عبادات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا سب سے بدترین مشابہت ہے۔

 خاتمہ

      خلاصہ کلام یہ کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا اور قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا حرام ہے۔ شرعی نصوص اس حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح قبروں پر حجرے اور تابوت بنانا بھی حرام ہے، اس لئے کہ یہ ان قبروں کے معاملہ میں غلو اور ان کی تعظیم کا ذریعہ ہے جس کے بعد لوگ ان قبروں کو عبادت اور نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیتے ہیں۔ گزشتہ قومیں اس بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہیں۔ مساجد اور قبرستانوں کا الگ الگ زمینوں پر ہونا ضروری ہے۔ مساجد کی تعمیر اس لئے نہیں ہوئی ہے کہ وہاں مردوں کو دفن کیا جائے اور نہ قبریں اس لئے بنتی ہیں کہ انہیں سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ واللہ اعلم، والحمدللہ أولا و آخراً و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم تسلیماً کثیراً

         ان سطور کے ساتھ یہ رسالہ مکمل ہوا    والحمدللہ أولا و آخرا ولا حول ولا قوۃ إلّا باللہ تعالیٰ

تحریر کردہ:

ماجد بن سلیمان الرسی

اہم مصادر ومراجع

1۔ مسند أبی داؤد الطبالسی، تحقیق: دکتور محمد بن عبدالمحسن الترکی، ناشر: دار ھجر، مصر

2۔ الکتاب المصنف فی الأحادیث و الآثار، عبداللہ بن أبی شیبہ، تحقیق: محمد عبدالسلام شاھین، ناشر: مکتبۃ دار الباز، مکۃ

3۔ مصنف عبدالرزاق، تحقیق: حبیب الرحمٰن أعظمی، ناشر: المکتب الإسلامی، بیروت

4۔ فتح الباری، ابن رجب حنبلی، ناشر: مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، المدینۃ المنورۃ

5۔ الأوسط فی السنن و الإجماع و الاختلاف، محمد بن إبراھیم بن منذ نیسا پوری، تحقیق: محققین کی ایک جماعت، ناشر: دار الفلاح، مصر

6۔ فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اسماعیل بن اسحاق قاضی، تحقیق: محمد ناصر الدین البانی، ناشر: المکتب الإسلامی، بیروت

7۔ الإبانۃ الصغری، ابن بطۃ العکبری، تحقیق: ڈاکٹر رضا بن لغسان معطی، ناشر: مکتبۃ العلوم و الحکم، المدینۃ

8۔ الأمر با لاتباع و النھی عن الابتداع، جلال الدین سیوطی، تحقیق: مشھور حسن سلمان، ناشر: دار ابن القیم، دمام

9۔ اقتضاء الصراط المستقیم، ابن تیمیۃ، تحقیق: ڈاکٹر ناصر عقل، طباعت پنجم، ناشر: مکتبۃ الرشد، ریاض

10۔ الاستغاثۃ فی الرد علی البکری، ابن تیمیۃ، تحقیق: عبداللہ سہلی، طباعت اول، ناشر: مدار الوطن، مصر

11۔ إعلام الموقعین عن رب العالمین، ابن قیم جوزی، تحقیق: محمد معتصم باللہ بغدادی، ناشر: دار الکتاب العربی، لبنان

12۔ إغاثۃ اللھفان فی مصاید الشیطان، ابن قیم جوزی، تحقیق: محمد عزیر شمس، ناشر: دار عالم الفوائد، مکہ

13۔ الشرک و وسائلہ عند أئمۃ الشافعیۃ، ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمٰن خمیس، ناشر: مدار الوطن، ریاض

14۔شرح الصدور بتحریم رفع القبور، محمد بن علی شوکانی، تحقیق: محمد صبحی بن حلاق، طباعت اول، ناشر: دار الھجرۃ، یمن

15۔ شفاء الصدور فی زیارۃ المشاھد و القبور، مرعی بن یوسف کرمی حنبلی، ناشر: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکہ

16۔ تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد، محمد ناصر الدین البانی، طباعت چہارم، ناشر: المکتب الإسلامی، بیروت

17۔ دمعۃ علی التوحید، مقالہ: حقیقۃ القبوریۃ و أثرھا فی واقع الأمۃ، ناشر: المنتدی الإسلامی، لندن

18۔ التمھید لما فی الموطأ من المعانی و الأسانید، ابن عبد البر مالکی، تحقیق: أسامۃ بن إبراھیم، ناشر: الفاروق الحدیثیۃ للطباعۃ و النشر، مصر

19۔ المغنی، ابن قدامۃ مقدسی، تحقیق: ڈاکٹر عبداللہ ترکی، ڈاکٹر عبد الفتاح حلو، ناشر: دار ھجر، مصر

20۔ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد، ابن قیم جوزی، تحقیق: عبدالقادر ارناؤوط، شعیب ارناؤوط، ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت

21۔ الجنائز، محمد ناصر الدین البانی، سن طباعت 1112ھ، ناشر: مکتبۃ المعارف، ریاض

22۔ وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، نور الدین علی بن احمد سمہودی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت



[1]؎      ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی (10/149-150) سے معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ منقول۔

[2]؎      صحیح بخاری (335) صحیح مسلم (521) یہ روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

[3]؎      سورۃ التوبہ: 18

[4]؎      یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے ، دیکھئے مجموع الفتاوی (27/160)

[5]؎      اس کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری مسجد میں پڑھی گئی نماز مسجد حرام کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھی گئی نماز سے ایک ہزار درجہ افضل ہے اور مسجد حرام میں پڑھی گئی نماز کسی دوسری جگہ پڑھی گئی نماز سے ایک لاکھ درجہ افضل ہے۔“ اس روایت کو امام ابن ماجہ (1406) اور امام احمد (3/343) نے نقل کیا ہے، روایت کے الفاظ سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ شیخ البانی اور مسند امام احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[6]؎      اس کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو اوپر گزری، نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اس مسجد میں پڑھی گئی نماز مسجد حرام کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھی گئی نماز سے ایک ہزار درجہ بہتر ہے۔“ صحیح بخاری (1190) صحیح مسلم (1394)

[7]؎      اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف تین مساجد کے لئے سفر کیا جائے گا، مسجد حرام، مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ۔ صحیح بخاری (1189) صحیح مسلم (1397)

[8]؎      اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سنیچر کو سواری سے یا پیدل مسجد قباء تشریف لے جاتے تھے اور وہاں دو رکعات نماز ادا کرتے تھے۔ صحیح بخاری (1193) صحیح مسلم (1399) روایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہے۔ نیز اسید بن ظہیر انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد قباء میں پڑھی گئی نماز عمرہ کی طرح ہے۔ سنن ترمذی (324) سنن ابن ماجہ (1411) شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[9]؎      اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رات میرے پاس میرے رب کا ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہئے کہ عمرہ حج میں داخل ہو گیا۔ صحیح بخاری (1534) یہ عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔=

                      =لہذا ایک مسلمان کے لئے وادئ عقیق میں نماز ادا کرنا مسنون ہے جبکہ وہ بالقصد سفر کئے بغیر وہاں سے گزر رہا ہو۔ یہ حج یا عمرہ کے سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ جب بھی سفر یا کسی اور سبب سے اس کا گزر وادئ عقیق سے ہو تو اس کے لئے وہاں نماز ادا کرنا مستحب ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے باہر نکلتے تو شجرۃ کے راستہ باہر نکلتے اور جب مدینہ میں داخل ہوتے تو معرس کے راستہ داخل ہوتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ کے سفر پر روانہ ہوتے تو مسجد شجرہ میں نماز ادا کرتے اور مکہ سے واپس لوٹتے تو ذوالحلیفہ میں وادی کے اندر پہنچ کر نماز ادا کرتے، وہیں رات گزارتے، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ صحیح بخاری (1533) ابن رجب نے اپنی فتح الباری میں وادئ عقیق میں نماز ادا کرنے کے استحباب کے تعلق سے مالک، شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کے اقوال نقل کئے ہیں۔ دیکھئے فتح الباری (3/435-436) (کتاب الصلاۃ، باب المساجد التی علی طریق المدینۃ)

                     ابن حجر نے فتح الباری میں اوپر نقل کی گئی عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس حدیث سے وادئ عقیق کی مدینہ جیسی فضیلت معلوم ہوتی ہے، نیز اس سے اس وادی میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بھی علم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

[10]؎    اس روایت کو امام ابو داؤد (4607) امام ترمذی (2676) امام ابن ماجہ (42) امام احمد (4/126-127) امام ابن حبان (1/179) وغیرہ نے نقل کیا ہے، روایت کے الفاظ ابن حبان کے نقل کردہ ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[11]؎    صحیح بخاری (2697) صحیح مسلم (1718)

[12]؎    صحیح مسلم (1718)

[13]؎    شیخ مرعی بن یوسف بن ابی بکر کرمی مقدسی حنبلی، محدث، فقیہ، مورخ اور ادیب تھے، قاہرہ کے اکابر علمائے حنابلہ میں سے تھے۔ ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ ان کی اہم تصانیف میں ”دلیل الطالب لنیل المطالب“ فقہ حنبلی کے فروعی مسائل سے متعلق ہے اور ”أقاویل الثقات فی تأویل الأسماء والصفات“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے مصر میں 1033ھ میں وفات پائی، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ (بحوالہ معجم المؤلفین)

[14]؎    سورۃ الجاثیۃ: 23

[15]؎    شفاء الصدور فی زیارۃ المشاھد والقبور، ص 58-59، ناشر: مکتبۃ نزاز مصطفی الباز، مکہ

[16]؎    سورۃ الاعراف: 33

[17]؎    المنھاج بشرح صحیح مسلم بن الحجاج، شرح حدیث نمبر (529)

[18]؎    امام، حافظ، مورخ اور ادیب عبدالرحمٰن بن ابی بکر خضیری سیوطی نے تمام فنون میں شہرت حاصل کی۔ ان کی تقریباً چھ سو تصانیف ہیں۔ علوم قرآن میں ”الإتقان فی علوم القرآن“، تفسیر میں ”الدر المنثور فی التفسیر با لمأثور“، علوم حدیث میں ”ألفیۃ السیوطی فی الحدیث“ اور فن حدیث میں ”الجامع الکبیر“ اور ”الجامع الصغیر“ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کی وفات 911ھ میں ہوئی۔ ان کی سوانح کے لئے ملاحظہ کیجئے: شوکانی کی ”البدر الطالع“ اور زرکلی کی ”الأعلام“

[19]؎    سیوطی کی الأمر با لاتباع و النھی عن الابتداع، ص 138-139

[20]؎    امام، علامہ، بحر علم، فقیہ، بجا طور پر شیخ الاسلام کہے جانے کے مستحق ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام حرانی دمشقی ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے دین اسلام کی اس وقت تجدید کی جب اس کی اجنبیت مستحکم ہو چکی تھی، دنیا کلامی بدعات، صوفیوں کی خرافات، قبر پرستوں کی شرکیات اور اہل فلسفہ و روافض کے الحاد کی وجہ سے تاریک ہو چکی تھی۔ ایسے تاریک اور پر آشوب حالات میں انہوں نے کتاب و سنت کے منہج کے مطابق صاف ستھرے اسلام کی دعوت کی تجدید کی، حق کا اعلان کیا، اہل باطل سے مناظرہ کیا، اس راہ میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے علم کو قبولیت عطا فرمائی، ان کی تصنیفات کے انبار لگ گئے۔ ان کے بعد آنے والے علمائے سنت نے ان کی خوشہ چینی کی۔ ان کے بعض شاگرد ائمہ اسلام قرار پائے مثلاً ابن قیم، ابن کثیر، ذھبی اور ابن عبدالہادی وغیرھم۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے 728ھ میں وفات پائی۔ کچھ محققین نے ان کے سوانح نگاروں کے اقوال کو ایک نفیس و عمدہ کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے اور اس کا نام ”الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیہ خلال سبعۃ قرون“ رکھا ہے۔ یہ کتاب شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ترتیب دی گئی ہے اور اس کی طباعت و نشر کا کام دار عالم الفوائد، مکہ کے ذریعہ انجام پایا ہے۔ جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بارے میں مزید معلومات درکار ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے۔

[21]؎    مجموع الفتاوی (27/191)

[22]؎    الجواب الباھر لمن سألہ من أولیاء الأمور عما أفتی بہ فی زیارۃ المقابر۔ نیز دیکھئے مجموع الفتاوی (27/327-328)

[23]؎    حدیث میں ”خمس“ یعنی پانچ کا لفظ آیا، اس سے مراد پانچ دن یا پانچ راتیں ہیں۔

[24]؎    صحیح مسلم (532)

[25]؎    صحیح بخاری (1330) صحیح مسلم (529) روایت کے الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

[26]؎    سنن نسائی (2045) مسند احمد (6/252) شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[27]؎    صحیح بخاری (435، 436) صحیح مسلم (531) روایت کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔

[28]؎    فتح الباری، شرح حدیث (435-436)

           ایک اشکال اور اس کا جواب:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث میں نصاری کا ذکر کیوں ہوا ہے؟ اسے سمجھنا کچھ لوگوں کے لئے مشکل ہو گیا ہے، اس لئے کہ یہود میں تو کئی انبیاء ہوئے ہیں جن کی وفات ہوئی تو انہیں دفن کیا گیا اور ان کی قبریں وجود میں آئیں لیکن نصاری کا معاملہ ان کے برخلاف ہے، اس لئے کہ ان میں صرف عیسیٰ علیہ السلام نبی ہوئے ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرے نبی نہیں ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی قبر نہیں ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ نصاری میں بھی انبیاء ہوئے ہیں لیکن وہ باقاعدہ مبعوث کئے گئے رسول نہیں تھے، مثلاً ایک قول کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اور ان کی والدہ مریم علیہ السلام انبیاء کے زمرہ میں تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں ”انبیاء“ یہود و نصاری دونوں قوموں کا لحاظ کرکے کہا گیا ہے۔ اور انبیاء سے ان کے بڑے بڑے متبعین مراد ہیں، لہذا صرف ان کے انبیاء کے تذکرہ پر اکتفاء کیا گیا۔ صحیح مسلم میں جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ”یہ لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، اسی لئے جب ما قبل کی حدیث میں تنہا نصاری کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا: ”جب ان میں کسی نیک آدمی کی وفات ہو جاتی“ اور اس کے بعد کی حدیث میں تنہا یہود کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا: ”قبور أنبیاءھم“ یعنی ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں ”الاتخاذ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو ”ابتداع“ اور ”اتباع“ سے زیادہ عام مفہوم کا حامل ہے۔ یہود نے اس مذموم کام کو ایجاد کیا اور اس کی شروعات کی تھی اور نصاری نے ان کی اتباع کی تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نصاری بھی بہت سے انبیاء کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہود تعظیم کرتے ہیں۔

[29]؎    ان کا نام احمد بن محمد اقحصاری حنفی ہے، رومی سے معروف ہیں۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے علماء میں سے تھے۔ شرعی علوم سے ان کا اشتغال رہا ہے، ان کی کئی تصانیف بھی ہیں۔ انھوں نے 1043ھ میں وفات پائی۔ ”حاشیہ علی تفسیر أبی السعود“ اور ”مجالس الأبرار و مسالک= =الأخیار فی شرح مأۃ حدیث من المصابیح“ وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔ ان کے مفصل حالات زندگی کے لئے دیکھئے: ”ھدیۃ العارفین(1/157) مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، سن طباعت 1413ھ اور معجم المؤلفین (2/252) غیراللہ کو پکارنے کی ممانعت سے متعلق ان کا کلام ان کی کتاب ”مجالس الأبرار و مسالک الأخیار“ کی سترہویں اور ستاونویں مجلس کے تحت منقول ہے۔

[30]؎    اس سے مراد سورۃ نوح کی یہ آیت مبارکہ ہے: ”و قالوا لا تذرنّ آلھتکم و لا تذرنّ ودا و لا سواعاً و لا یغوث و یعوق و نسرا“ (اور کہا انہوں نے کہ ہر گز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا) اس آیت کی تفسیر کے لئے مفسرین کے کلام کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

[31]؎    المجالس الأربعۃ من مجالس الأبرار، ص 7-9، تحقیق: ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمٰن الخمیس، ناشر: دار العاصمہ (اختصار کے ساتھ)

[32]؎    مسند احمد (5/204) مسند طیالسی (669) شیخ البانی نے تحذیر الساجد ص 16 میں اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

[33]؎    دمعۃ علی التوحید، ص 6، معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ، ناشر: المنتدی الإسلامی، لندن

[34]؎    صحیح بخاری (437) صحیح مسلم (530) سنن نسائی (2046) میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے: لعن اللہ الیھود و النصاری اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد (یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیں)

[35]؎    مسند احمد (1/405) شیخ البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد ص 19 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[36]؎    مسند احمد (1/195) المسند (3/223) کے محققین اور شیخ البانی نے الصحیحۃ (1132) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[37]؎    مسند احمد (2/246) شیخ البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد، ص 18 میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور المسند کے محققین نے کہا ہے کہ اس روایت کی سند قوی ہے۔

[38]؎    زاہد و پرہیزگار علامہ شیخ سعد ابن شیخ حمد بن علی بن عتیق چودہویں صدی ہجری کے نصف اول میں نجد کے ایک شہرت یافتہ عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے علماء سے علوم حدیث کی تحصیل کی تھی، پھر مکہ آکر وہاں کے مشائخ سے علم حاصل کیا، اس کے بعد اپنے وطن نجد میں منصب قضاء پر فائز ہوئے اور تدریسی خدمت بھی انجام دی۔ بہت سے افراد نے ان سے علم حاصل کیا اور اپنے دور میں نجد کے چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہوا، ان میں سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ محمد بن ابراہیم اور اپنے دور میں سعودی عرب کے مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز شامل ہیں۔ شیخ سعد رحمہ اللہ نے 1349ھ میں وفات پائی۔ ان کی مفصل سوانح کے لئے دیکھئے شیخ عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن عبداللہ آل شیخ کی کتاب ”مشاھیر علماء نجد“

[39]؎    شیخ سعد بن حمد بن عتیق کی تالیف ”عقیدۃ الطائفۃ الناجیۃ فی توحید الإلھیۃ“ ص 38، ناشر: دارالعاصمہ، ریاض

[40]؎    شیخ الاسلام، حافظ المغرب ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر نمری اندلسی قرطبی مالکی ایک شہرت یافتہ محدث و فقیہ گزرے ہیں جن کی بلند پایہ تصانیف بھی ہیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ”التمھید“ مؤطا امام مالک کی احادیث کی شرح ہے۔ ان کی دوسری مشہور کتاب ”الاستذکار“ موطا کے آثار کی شرح ہے۔ نیز ان کی کتاب ”الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب“ اور ”جامع بیان العلم و فضلہ“ اہل علم کے درمیان معروف ہے۔ حدیث نبوی کی روایت کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ 463ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے مزید حالات زندگی کے لئے دیکھئے ”تذکرۃ الحفاظ“ (3/217)

[41]؎    اس روایت کو ابن ابی عاصم نے السنۃ (45) میں کثیر بن عبداللہ المزنی عن أبیہ عن جدہ کی سند سے نقل کیا ہے۔ شیخ البانی نے اس کی سند کو بہت زیادہ ضعیف قرار دیا ہے۔ (ناشر: المکتب الإسلامی)

میں کہتا ہوں: حدیث کے الفاظ ثابت اور صحیح ہیں۔ اس طرح کی روایت صحیح بخاری (3456) (7320) اور صحیح مسلم (2669) میں منقول ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ضرور بالضرور گزشتہ قوموں کے نقش قدم پر بالشت دربالشت اور ہاتھ درہاتھ چلوگے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم لوگ بھی وہاں جاؤگے۔“ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے یہود و نصاری مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ان کے علاوہ اور کون مراد ہوگا؟ روایت کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔

[42]؎    التمھید، کتاب جامع الصلاۃ (5/177)

[43]؎    الجواب الباھر لمن سألہ من أولیاء الأمور عما أفتی بہ فی زیارۃ المقابر۔ یہ اقتباس مجموع الفتاوی (27/327-328) میں بھی منقول ہے۔

[44]؎    صحیح مسلم (972)

[45]؎    صحیح مسلم (972)

[46]؎    اس روایت کو طبرانی نے المعجم الکبیر (12051، 12168) میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد، ص 22-23 اور السلسلۃ الصحیحۃ (1016) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[47]؎    مسند ابویعلی (1020) شیخ البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد، ص 26 میں اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

[48]؎    سنن ابی داؤد (492) سنن ترمذی (317) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[49]؎    صحیح بخاری (432)

[50]؎    صحیح مسلم (777)

[51]؎    سنن ترمذی (451) سنن نسائی (1597) مسند احمد (2/6) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[52]؎    اس سے مراد یہ حدیث ہے: ”الأرض کلھا مسجد إلا المقبرۃ و الحمام“ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔

[53]؎    (5/458) ناشر: دار الفلاح، مصر

[54]؎    سورۃ الحجرات: 7

[55]؎    سلف کے نزدیک کراہت سے حرمت مراد ہوتی ہے، اس بحث کی مکمل تفصیل کے لئے دیکھئے امام ابن قیم کی إعلام الموقعین (1/52) (فصل: تحریم القول علی اللہ بغیر علم-قد یطلق لفظ الکراھۃ علی التحریم) اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مجموع الفتاوی (32/241) اور شنقیطی کی ”المذکرۃ فی أصول الفقہ“ ص 22، ناشر: مکتبۃ العلوم و الحکم، مدینہ۔

                     کچھ علماء نے مکروہ کی یہ تعریف کی ہے کہ جس کام کو چھوڑ دینا اسے کر گزرنے سے زیادہ بہتر ہو۔ یا وہ کام جس سے تاکیدی طور پر منع نہ کیا گیا ہو۔ دیکھئے شیخ دکتور سعد بن ناصر شثری حفظہ اللہ کی کتاب ”شرح الورقات“، ص 39، ناشر: کنوز أشبیلیا، ریاض

[56]؎    (5/459)

[57]؎    سنن ابی داؤد (2042) مسند احمد (2/367) روایت کے الفاظ مسند احمد کے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے احکام الجنائز، ص 280 میں اس روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

[58]؎    اس سے مراد وہ مشروع سلام ہے جو مسجد میں داخل ہوتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں ہمیں اس کی تعلیم بھی دی ہے: تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو وہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے، اس کے بعد یہ دعا پڑھے: اللھم افتح لی أبواب رحمتک (اے اللہ! تو ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔) الحدیث- اس روایت کو امام ابوداؤد (465) امام ترمذی (465) اور امام ابن ماجہ (772) نے ابوحمید یا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس باب میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سنن ابن ماجہ (771) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنن ابن ماجہ (773) میں منقول ہے۔ ان دونوں روایتوں کو بھی شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

[59]؎    اس روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے، روایت کے الفاظ ان ہی کے نقل کردہ ہیں، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”الاقتضاء(1/302) میں سعید بن منصور کی سند سے اسے نقل کیا ہے۔ کتاب کے مطبوع نسخہ میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے بقول: اس کی سند قوی ہے۔ دیکھئے احکام الجنائز ص 280 ”تم اور جو اندلس میں ہے دونوں برابر ہیں“ یہ حسن رضی اللہ عنہ کا کلام ہے۔ اس روایت کو اسماعیل قاضی نے اپنی کتاب فضل الصلاۃ علی النبی، ص 30 میں نقل کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس روایت کا مرفوع حصہ مصنف عبدالرزاق (3/577) اور مصنف ابن ابی شیبہ (2/152) میں بھی منقول ہے۔

[60]؎    اقتضاء الصراط المستقیم (2/662)

[61]؎    اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے مصنف (2/150) الفاظ ان ہی کی روایت کے ہیں اور ان کی سند سے حافظ ضیاء مقدسی نے الأحادیث المختارۃ (428) میں نقل کیا ہے۔ نیز اسے ابویعلی (1/361) اور اسماعیل قاضی نے بھی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص (20) میں نقل کیا ہے۔ اس کتاب کے محقق شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اپنے متعدد طرق اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔

[62]؎    صحیح بخاری (428) اور صحیح مسلم (524) میں منقول انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے بنو نجار کے باغ کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا، وہاں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، آپ کے حکم سے کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے اور مشرکین کی قبریں کھود کر ان کی باقیات کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کی۔

[63]؎    اس روایت کو امام بخاری نے کتاب الصلاۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجد میں تعلیقاً نقل کیا ہے، بیہقی نے السنن الکبری (2/435) میں اسے موصولاً نقل کیا ہے، روایت کے الفاظ ان ہی کے نقل کردہ ہیں۔ نیز عبدالرزاق نے بھی اسے اپنی مصنف (1581) میں نقل کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے المطالب العالیۃ (دارالعاصمہ کی طباعت) (رقم 339) میں کہا ہے کہ یہ خبر صحیح ہے امام بخاری نے اسے تعلیقاً نقل کیا ہے۔ نیز دیکھئے حافظ ابن حجر کی تغلیق التعلیق (2/228-230) ناشر: المکتب الاسلامی

[64]؎    حسن بن عبداللہ عرنی کوفی ثقہ ہیں۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے ”تھذیب التھذیب“۔

[65]؎    مسیب بن رافع اسدی کاہلی کی کنیت ابوالعلاء ہے، وہ کوفہ کے رہنے والے اور نابینا تھے، ثقہ ہیں اور تابعین کے چوتھے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے 105ھ میں وفات پائی، دیکھئے ”التقریب“۔

[66]؎    خیثمہ بن عبدالرحمٰن بن ابی سبرۃ جعفی کوفی ثقہ ہیں، 80ھ کے بعد سو سال سے کم عمر میں ان کی وفات ہوئی، دیکھئے ”تقریب التھذیب“۔

[67]؎    ابراہیم نخعی عراق کے فقیہ تھے۔ ان کا نام ابراہیم بن یزید بن قیس بن اسود ہے، یہ کوفہ کے رہنے والے اپنے دور کے مشہور فقیہ تھے، ان کی وفات 95ھ میں ہوئی۔ دیکھئے تذکرۃ الحفاظ (1/95)

[68]؎    امام ربانی ابوبکر محمد ابن سیرین انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مولی تھے۔ 110ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ دیکھئے تذکرۃ الحفاظ (1/62)

[69]؎    شام کے مشہور عالم مکحول بن ابی مسلم ہذلی اپنے دور کے معروف فقیہ اور حافظ حدیث تھے، ان کی وفات 113ھ میں ہوئی۔ دیکھئے تذکرۃ الحفاظ (1/82)

[70]؎    ان سب کے اقوال کے لئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (7574-7578، 7581، 7582، 7585)

[71]؎    مجموع الفتاوی (27/81)

[72]؎    ”الجواب الباھر لمن سألہ من أولیاء الأمور عما أفتی بہ فی زیارۃ المقابر“ اور مجموع الفتاوی (27/324)

[73]؎    اقتضاء الصراط المستقیم (2/760-762)

[74]؎    مصنف ابن ابی شیبہ (2/153)

[75]؎    مصنف عبدالرزاق (2/118) رقم (2734) اسے ابن وضاح نے البدع و النھی عنھا باب ما جاء فی اتباع الآثار میں نقل کیا ہے، ابن تیمیہ نے الاقتضاء (2/751) میں اس کی نسبت سنن سعید بن منصور کی طرف کی ہے، لیکن یہ اثر اس کے مطبوع حصہ میں نہیں ہے، ہو سکتا ہے اس کے گم شدہ حصہ میں ہو۔ اس اثر کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی (27/33) اور الرد علی البکری= =(2/433)، ابن حجر نے فتح الباری (1/678) شرح اثر (483) اور البانی نے فضائل الشام و دمشق ص 50 (مکتبۃ المعارف، ریاض کی طباعت) میں صحیح قرار دیا ہے۔

[76]؎    مجموع الفتاوی (27/33-34)

[77]؎    سنن ابی داؤد (4031) بروایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما۔ شیخ البانی کے بقول: یہ روایت حسن صحیح ہے۔

[78]؎    صحیح بخاری (3456) (7320) صحیح مسلم (2669) روایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہے۔

[79]؎    شیخ علامہ محدث محمد ناصرالدین بن نوح نجاتی، اصل کے اعتبار سے البانی، نشو و نما کے اعتبار سے شامی ان مجددین میں سے تھے جنہوں نے چودہویں صدی ہجری اور پندرہویں صدی ہجری کے اوائل میں اللہ کے دین کی تجدید کی۔ انہوں نے حدیث، عقیدہ اور فقہ میں مسلمانوں کے علمی سرمائے کی گرانقدر خدمت انجام دی۔ مخطوطات کی تحقیق، احادیث کی تخریج اور صحیح و ضعیف احادیث کو الگ الگ کرنے کے میدان میں ان کی خدمات بے مثال اور عظیم الشان ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعد آنے والے بہت سے اہل علم ان کی تحقیق و تخریج پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ پوری زندگی یکسو ہو کر احادیث نبویہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے انہوں نے سنت نبویہ کی خدمت= =کے معاملہ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوا لیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اپنے پیچھے گرانقدر علمی سرمائے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے، کسی باحث نے ان کی کتابوں کی تعداد 231 تک پہنچائی ہے جو تالیف، تحقیق، تخریج اور تعلیق کی شکل میں موجود ہیں۔

                     شیخ رحمہ اللہ نے اہل بدعات، متصوفین، قبوریوں، نئے ایجاد کردہ دعوتی مناہج کے متبعین اور کتاب و سنت سے منحرف رجحانات رکھنے والوں کی تردید کی بھی مبارک خدمت انجام دی اور شام وغیرہ میں ان کے شکوک و شبہات کا پردہ چاک کرکے انہیں مسکت جواب دیا۔ شیخ رحمہ اللہ نے رجب 1420ھ میں 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی وفات ان کے ہم عصر اور سعودی عرب کے سابق مفتی عام سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی وفات کے چند ہی مہینے بعد ہوئی۔ ان دونوں علمائے اسلام کی وفات سے اسلام اور مسلمانوں کا بھاری خسارہ ہوا۔ اس سانحہ کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید رنج و غم لاحق ہوا۔ شیخ البانی کے حالات زندگی اور علمی شخصیت کے بارے میں مزید معلومات کے لئے دیکھئے:

(1) ”الامام الألبانی رحمہ اللہ، دروس و مواقف و عبر“ تالیف: ڈاکٹر عبدالعزیز بن محمد سدحان، ناشر: دارالتوحید، ریاض۔

(2) ”حیاۃ الألبانی و آثارہ و ثناء العلماء علیہ“ تالیف: محمد بن ابراہیم شیبانی، ناشر: مکتبہ السداوی، مصر۔

[80]؎    ص 124

[81]؎    یہ روایت سنن ترمذی (2167) میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز اسے حاکم نے بھی اپنی مستدرک (1/115،116) میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس قاعدہ کلیہ پر اہل سنت کا اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اسلام کے قواعد میں سے ہے۔

[82]؎    یہ روایت سنن ترمذی (2166) میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی گئی ہے۔ شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[83]؎    زین الدین ابولفرج عبدالرحمٰن بن احمد بغدادی دمشقی، ابن رجب حنبلی کے نام سے معروف ہیں۔ شام کے معتبر اور جلیل القدر علما ء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے آٹھویں صدی ہجری کا زمانہ پایا۔ ان کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے، ان میں ابن قیم اور ابن الہادی رحمہما اللہ جیسے اساطین علم و فن بھی شامل ہیں۔ انہوں نے حدیث اور فقہ میں نمایاں مقام حاصل کیا اور حنبلی مسلک کے چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہوا۔ ان کی کئی مولفات بھی ہیں، ان میں ”فتح الباری شرح صحیح البخاری“، ”القواعد الفقھیۃ“، ”شرح علل الترمذی“، ”جامع العلوم و الحکم“ اور ”ذیل طبقات الحنابلۃ“ نمایاں اہمیت کی حامل ہیں۔ کسی محقق نے ان کے متفرق رسائل کو ایک مجموعہ کی شکل میں جمع کیا ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعۂ رسائل دارالفاروق الحدیثیۃ، مصر سے شائع ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”إنباء الغمر“ میں اور ابن العماد نے ”شذرات الذھب“ میں ان کے حالات زندگی کی تفصیلات درج کی ہیں۔ ابن رجب رحمہ اللہ نے دمشق میں 795ھ میں وفات پائی۔

[84]؎    ابن رجب رحمہ اللہ کی ”فتح الباری“ (3/248) کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ فی البیعۃ

[85]؎    اقتضاء الصراط المستقیم (2/193)

[86]؎    مجموع الفتاوی (27/77-78)

[87]؎    اقتضاء الصراط المستقیم (2/774-775)

[88]؎    مجموع الفتاوی (24/318) نیز دیکھئے ”الرد علی الإخنائی“ ص 159

[89]؎    مجموع الفتاوی (27/34)

[90]؎    یعنی مشہور امام مالک بن انس۔

[91]؎    الأم، کتاب الجنائز، باب ما یکون بعد الدفن (1/278) نووی نے امام شافعی سے اسی طرح کی بات حدیث نمبر (972) کی تشریح میں نقل کیا ہے؛ نیز ابن رجب نے بھی اسے فتح الباری (3/248) میں نقل کیا ہے۔ اس کی عبارت کے الفاظ یہ ہیں: شافعی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ کسی مخلوق کی ایسی تعظیم کی جائے کہ اس کی قبر کو مسجد بنا لیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے والے اور اس کے بعد آنے والوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا پورا اندیشہ ہے۔

[92]؎    میں نے امام احمد سے متعلق ابوبکر اثرم کے اس کلام کو ابن رجب کی فتح الباری (3/195) سے نقل کیا ہے۔

[93]؎    کتاب وقوت الصلاۃ، باب النوم عن الصلاۃ

[94]؎    المغنی، باب الصلاۃ فی النجاسۃ و غیر ذلک (2/468)

[95]؎    مجموع الفتاوی (27/160)

[96]؎    اقتضاء الصراط المستقیم (2/675)

[97]؎    ص 124

[98]؎    محمد بن ابی بکر بن سعد زرعی دمشقی جو ابن قیم الجوزیہ کے نام سے معروف ہیں، آٹھویں صدی کے بلند پایہ عالم تھے۔ مسلسل اپنے استاذ ابن تیمیہ کی صحبت میں رہے، یہاں تک کہ 728ھ میں ان کی وفات ہو گئی۔ ابن قیم اپنے استاذ کے بڑے اور نامور شاگردوں میں سے تھے۔ استاذ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے دعوت اور علمی جہاد کا محاذ سنبھالا، یہاں تک کہ 751ھ میں وفات پا گئے۔ ان کا علم وسیع، دلیل طاقتور اور استنباط باریک بینی پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں، ان کی مولفات تمام حلقوں میں مقبول ہیں۔ بعد کے لوگوں نے ان کے علم سے خوب استفادہ کیا اور ان پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ ہمیشہ صحیح اسلامی عقیدے کی نصرت و حمایت کے لئے سینہ سپر رہے۔ اپنے نثری اور منظوم کلام کے ذریعہ اہل بدعات کا رد کیا، خاص طور پر اہل فلسفہ، قبوریوں، اللہ کے اسماء و صفات کے باب میں تاویل کرنے والوں اور اہل تصوف کے رد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت کی بارش برسائے۔ انہوں نے اور ان کے استاذ ابن تیمیہ نے اللہ کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دیا۔ دونوں امت اسلامیہ کی زندگی میں تاریخی موڑ ثابت ہوئے۔ ان کے مفصل حالات زندگی کے لئے دیکھئے ابن العماد کی ”شذرات الذھب“ اور ابن رجب کی ”طبقات الحنابلۃ“ ۔ شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ نے ان کے سوانح نگاروں کی علمی کاوشوں کو اپنی کتاب ”ابن قیم الجوزیۃ حیاتہ و آثارہ“ میں جمع کر دیا ہے۔

[99]؎    ابن قیم رحمہ اللہ کا اشارہ اس حدیث نبوی کی طرف ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت کی ہے۔ اس حدیث میں وارد لفظ ”السرج“ پر کلام پیچھے گزر چکا ہے۔ وہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبروں پر چراغ جلانا جائز ہے، بلکہ یہ ممنوع ہے کیونکہ اس میں مدفون کے ساتھ غلو ہے، یہ دین میں ایجاد کردہ ایک نئی بدعت ہے اور مال کی بربادی کا سبب ہے۔

[100]؎  زاد المعاد (3/572)

[101]؎  اقتضاء الصراط المستقیم (2/774-775)

[102]؎  صحیح بخاری (458) روایت کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں، صحیح مسلم (956)

[103]؎  دیکھئے: مجموع الفتاوی (27/159-160)

[104]؎  دیکھئے: إغاثۃ اللھفان، ص 339-342

[105]؎  اس باب میں وارد حدیث کے لئے دیکھئے: سنن ابی داؤد (1047) سنن نسائی (1373) سنن ابن ماجہ (1085) مسند احمد (4/8) روایت اوس بن ابی اوس رضی اللہ عنہ کی ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[106]؎  دیکھئے ”اقتضاء الصراط المستقیم“ (2/678)

[107]؎  دیکھئے جلال الدین سیوطی کی کتاب ”الأمر بالاتباع و النھی عن الابتداع“، ص 136

[108]؎  (2/61) (بکر بن زیاد کے احوال کے تحت)

[109]؎  روایت نمبر (8)

[110]؎  ص 441

[111]؎  (1/162)

[112]؎  صحیح بخاری (427) صحیح مسلم (528) روایت کے الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

[113]؎  ”التمھید“ کتاب الجامع، باب ما جاء فی إجلاء الیھود من المدینۃ (14/326)

[114]؎  ابن رجب کی فتح الباری، شرح حدیث نمبر (427)

[115]؎  اس روایت کو امام ابوداؤد (3236) امام ترمذی (320) امام نسائی (2042) اور امام احمد (1/229) نے نقل کیا ہے۔ شیخ البانی نے السلسلۃ الضعیفۃ (225) میں ایک لفظ ”السرج“ جو کہ ضعیف ہے، کے علاوہ پوری روایت کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبروں پر چراغ وغیرہ جلانا جائز ہے، بلکہ یہ ممنوع ہے، اس لئے کہ اس سے قبروں کی تعظیم کا اظہار ہوتا ہے۔  قبروں پر چراغ جلانے والوں کا مقصد میت کی تعظیم ہوتا ہے تاکہ اس کی قبر تاریک نہ رہے۔ یہ واضح طور پر غلو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام میں سے کسی نے انتقال سے پہلے یہ وصیت نہیں کی تھی کہ ان کی قبر پر روشنی کی جائے۔ اگر یہ کام مشروع ہوتا تو وہ اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے کہ ان کی قبریں روشن کی جاتیں۔ قبروں پر چراغاں کرنے کے تعلق سے مزید باتیں آگے آئیں گی۔

[116]؎  میں نے قوت استدلال کا لحاظ کرتے ہوئے قرآن مجید سے ماخوذ اس دلیل کو بعد میں ذکر کیا ہے، اس لئے کہ اوپر احادیث کی شکل میں جو دلائل گزرے ہیں وہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت کو کھلے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جبکہ قرآن کی اس آیت کا مفہوم اس ممانعت پر دلالت کر رہا ہے، یعنی یہ آیت سے مستنبط کی گئی دلیل ہے۔

[117]؎  اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں۔

[118]؎  سورۃ الکھف: 21

[119]؎  یہ شاید سبقت قلم ہے، اس میں شک نہیں کہ ان کی مراد قبروں پر مساجد بنانا ہے۔

[120]؎  فتح الباری، کتاب الصلاۃ باب ھل تنبش قبور الجاھلیۃ (3/193)

[121]؎  علامہ، محدث، یمن میں سلفی دعوت کے مجدد شیخ مقبل بن ہادی ہمدانی وادعی نے مکہ اور مدینہ میں رہ کر علم دین حاصل کیا، پھر اپنے شہر آکر سلفی دعوت کی ترویج کے لئے کام کیا۔ ”دماج“ قصبہ میں انہوں نے دارالحدیث کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا۔ دنیا بھر سے طلبائے علوم دینیہ وہاں ان کے پاس پہنچے اور ان سے استفادہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ ان میں سے کچھ لوگ علماء کی صف میں شامل ہوئے۔=

=شیخ مقبل کی چالیس سے زائد مؤلفات بھی ہیں۔ سن 1422ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے حالات زندگی کے لئے دیکھئے حمید بن قائد عتمی کی کتاب ”الإبھاج بترجمۃ العلامۃ المحدث أبی عبدالرحمٰن مقبل بن ھادی وادعی و دارالحدیث بدماج“ ناشر: دار شرقین، صنعاء

[122]؎  متقدمین کے یہاں کراہت کا کیا مطلب ہوتا ہے اس کی وضاحت پیچھے کی جا چکی ہے، ان کے یہاں اس سے حرمت مراد ہوتی ہے۔

[123]؎  نمبر (7579)

[124]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11743)

[125]؎  تحذیر الساجد، ص 92-93

[126]؎  الاستغاثۃ فی الرد علی البکری، ص 334-335

[127]؎  مجموع الفتاوی (27/466)

[128]؎  میں نے ان علماء کے اقوال اور کچھ شبہات علامہ البانی رحمہ اللہ کی تالیف کردہ نفیس کتاب ”تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد“ سے نقل کیا ہے۔

[129]؎  کتاب ”الآثار“ ص 45

[130]؎  دیکھئے: صفحات 1613-1646

[131]؎  الجامع لأحکام القرآن (10/388-389) تفسیر سورۃ الکھف: 21

[132]؎  الأم، کتاب الجنائز باب ما یکون بعد الدفن۔ یہ بات پیچھے گزر چکی ہے کہ متقدمین کے نزدیک کراہت سے حرامت مراد ہوتی ہے۔

[133]؎  المجموع (5/289) عنقریب ہی إن شاء اللہ اس تعلق سے جلال الدین سیوطی شافعی رحمہ اللہ کا کلام اور انہوں نے قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت پر علماء کا جو اتفاق نقل کیا ہے اسے پیش کیا جائے گا۔

[134]؎  ص 129-130 معمولی اختصار کے ساتھ

[135]؎  اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور ان پر مساجد بنانے والوں پر اللہ نے لعنت کی ہے

[136]؎  المغنی (3/441) اختصار کے ساتھ

[137]؎  مجموع الفتاوی (22/194-195)

[138]؎  اقتضاء الصراط المستقیم (2/774-775)

[139]؎  زاد المعاد فی ھدی خیر العباد (3/572)

[140]؎  زاد المعاد (3/506)

[141]؎  إغاثۃ اللھفان (1/380)

[142]؎  شیخ، فقیہ، اصولی محمد بن علی بن محمد شوکانی یمنی نے بہت سے اساتذہ سے بہت سے فنون کو حاصل کیا۔ انہوں نے بہت سی کتابیں بھی تالیف کیں، ان میں سے ایک ”إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول“ ہے، فن تفسیر میں ان کی کتاب ”فتح القدیر“ ہے۔ ان کے فتاوی کا مجموعہ ”الفتح الربانی فی فتاوی الشوکانی“ کے نام سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”الصوارم الحداد القاطعۃ لعلائق مقالات أرباب الاتحاد“ میں خالق و مخلوق کے اتحاد کی بات کرنے والوں کا رد کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتابیں اور رسائل ہیں جن کی کل تعداد 114 تک پہنچتی ہے۔ شوکانی رحمہ اللہ نے 1250ھ میں وفات پائی۔ ان کی خود نوشت سوانح کے لئے دیکھئے ”البدر الطالع“۔ زرکلی کی ”الأعلام“ (6/298) میں بھی ان کے حالات زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

[143]؎  شرح الصدور فی تحریم رفع القبور، ص 37

[144]؎  شوکانی کی ”شرح الصدور فی تحریم رفع القبور“ ص 30-34

[145]؎  ولید بن عبد الملک کے عہد میں مسجد نبوی کی توسیع کی مفصل معلومات کے لئے دیکھئے ”تاریخ الأمم و الملوک“ جو ”تاریخ طبری“ کے نام سے معروف ہے، سن 88ھ کے واقعات۔

[146]؎  طبقات ابن سعد (4/21) بحوالہ تحذیر الساجد ص 65

[147]؎  تحذیر الساجد، ص 64

[148]؎  شیخ محمد بن احمد بن عبد الہادی مقدسی نے ابن تیمیہ، ابن قیم، ذھبی اور مزی وغیرہ سے علم دین حاصل کیا۔ ذھبی نے ”المعجم المختص بالمحدثین“ میں ان کے حالات زندگی کو درج کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”وہ ماہر فقیہ، مجود قاری، محدث، حافظ حدیث، نحوی اور مختلف فنون میں مہارت رکھنے والے تھے۔ انہوں نے میرے بارے میں بھی لکھا جس سے میں نے استفادہ کیا۔“ ان کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ”وہ حافظ حدیث، علامہ اور ناقد تھے۔ انہوں نے اتنے علوم کی تحصیل کی تھی کہ بڑے شیوخ بھی اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ وہ مختلف فنون کے ماہر تھے، حدیث کی علتوں، اسناد اور رواۃ کے علم میں وہ علم کے پہاڑ تھے۔ وہ بہت اچھی فہم و فراست کے مالک اور صحیح ذہن کے حامل تھے۔“ ان کی کئی مؤلفات ہیں، ان میں سے ”المحرر فی الأحکام“ اور ”الصارم المنکی فی الرد علی السبکی“ جو قبروں کی زیارت کے سفر کو جائز قرار دینے کے موضوع پر ہے، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی ایک کتاب ”اختیارات شیخ الاسلام ابن تیمیہ“ کے نام سے بھی ہے۔ ان کے علاوہ ان کی اور بھی کتابیں ہیں۔ انہوں نے 744ھ میں 39 سال کی عمر میں وفات پائی۔ بحوالہ ابن حجر رحمہ اللہ کی ”الدرر الکامنۃ فی أعیان المئۃ الثامنۃ“ (1/137) مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ

[149]؎  الصارم المنکی، ص 137، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ

[150]؎  مرجع سابق، ص 305-306

[151]؎  سن 88ھ کے واقعات کے تحت

[152]؎  تحذیر الساجد، ص 61-62۔ ابن تیمیہ نے بھی مجموع الفتاوی (27/418) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

[153]؎  ابن رجب کی فتح الباری (3/248)

[154]؎  المعجم الکبیر (12/414) رقم (13525)

[155]؎  کشف الأستار عن زوائد البزار (2/48)

[156]؎  تحذیر الساجد، ص 70-71

[157]؎  جلد 11، رقم (12283)

[158]؎  (5/468) رقم (5407)

[159]؎  شیخ البانی نے صحیح الترغیب (1127) میں اسے حسن لغیرہ کہا ہے۔

[160]؎  تحذیر الساجد، ص 69 اور اس کے بعد

[161]؎  سنن دارقطنی، کتاب الجنائز باب مکان قبر آدم علیہ السلام و التکبیر علیہ أربعا، رقم (1794)

[162]؎  یہ کتاب مکتبہ عباس أحمد الباز، مکہ سے شائع ہوئی ہے۔

[163]؎  دیکھئے زرقانی کی ”مختصر المقاصد الحسنۃ“ رقم (704) ناشر: الکتب الإسلامی، بیروت

[164]؎  ”کشف الخفاء و مذیل الإلباس عما اشتھر من الأحادیث علی ألسنۃ الناس“ رقم (1854) ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت

[165]؎  تحذیر الساجد، ص 76

[166]؎  تحذیر الساجد، ص 75-76

[167]؎  رقم (15589)

[168]؎  تحذیر الساجد، ص 80-82 کا خلاصہ

[169]؎  امام ترمذی (1018) نے اسے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے احکام الجنائز ص (174) میں اس کی متعدد طرق و شواہد کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ دوسرے محدثین نے اسے مسلم بن عبید اشجعی سے موقوفاً نقل کیا ہے۔ دیکھئے شعیب ارناؤوط کے ذریعہ کی گئی اس حدیث کی تخریج جو سنن ترمذی (1039) پر ان کے حاشیہ کا حصہ ہے۔ مطبوع: الرسالۃ العالمیۃ، بیروت

[170]؎  المغنی (3/441)

[171]؎  ان کا پورا نام و نسب محمد بن اسماعیل کحلانی صنعانی ہے جو امیر سے معروف ہیں۔ ان کا نسب امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ وہ اپنے دور کے امام کبیر، مجتہد مطلق اور صاحب تصانیف عالم دین تھے، ان کی پیدائش 1099ھ میں ہوئی۔ انہوں نے تمام علوم میں مہارت حاصل کی اور اپنے ہم عصروں سے فائق ہو گئے۔ صنعاء میں علم کے میدان میں تنہا سیادت و قیادت کی۔ ان کی کئی قابل قدر تصنیفات ہیں مثلاً ”تطھیر الاعتقاد من أدران الشرک و الالحاد“، ”الإنصاف فی حقیقۃ الأولیاء و ما لھم من الکرامات و الألطاف“، ”مسألۃ فی الذبائح علی القبور وغیرھا“ اور ”سبل السلام“ جسے انہوں نے مغربی کی ”البدر التمام“ سے اختصار کیا ہے اور ”العدۃ“ جو ابن دقیق العید کی ”شرح العمدۃ“ کا حاشیہ ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ وہ دین کے آثار و نقوش کی تجدید کرنے والے ائمہ کرام میں سے تھے۔ ان کی وفات 1182ھ میں ہوئی۔ امام صنعانی کا یہ سوانحی تعارف امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ”البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع“ سے کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ منقول ہے۔

[172]؎  تطھیر الاعتقاد، ص 43 اختصار کے ساتھ

[173]؎  فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (2/182-183) فتوی نمبر 6258، مطبوعہ: مکتبۃ المعارف، ریاض

[174]؎  صحیح مسلم (970)

[175]؎  مسند احمد (6/299) مسند کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے (44/179)

[176]؎  مسند ابو یعلی (1020) البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد، ص 22 میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

[177]؎  جند جنوب صنعاء کے شہر تعز کا ایک قصبہ ہے، دیکھئے یاقوت حموی کی معجم البلدان

[178]؎  قبر پر پیڑ پودے اور گھاس وغیرہ لگانے والوں کا مقصد مردہ کے عذاب میں تخفیف ہوتا ہے۔ یہ ایک باطل کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مرتبہ عذاب میں تخفیف کی امید کرتے ہوئے کسی کی قبر پر کھجور کی ہری ٹہنی گاڑی تھی، یہ آپ کے ساتھ خاص ہے، آپ نے امت کے لئے اسے مشروع نہیں کیا ہے اور نہ صحابہ میں سے کسی نے اس کام کو کیا ہے۔ یا پھر ان لوگوں کا مقصد نصاری کی مشابہت ہوتا ہے، اس لئے کہ نصاری کی قبریں پیڑ پودوں اور گلابوں کی کثرت کی وجہ سے باغوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ باطل پرستی پر مبنی کام ہے، اس لئے کہ دینی امور میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔

[179]؎  مصنف عبد الرزاق رقم (6495)

[180]؎  مسند احمد (4/397) البانی رحمہ اللہ نے تحذیر الساجد، ص 92 میں اس کی سند کو قوی کہا ہے۔

[181]؎  سنن ابن ماجہ (1564) البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

[182]؎  مصنف ابن ابی شیبہ رقم (11748)

[183]؎  امام بخاری نے اسے صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر، باب نمبر (81) میں تعلیقاً نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ”تغلیق التعلیق“ (2/492-493) میں اسے موصولاً نقل کیا ہے۔ ناشر: المکتب الإسلامی

[184]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11747) مسند احمد (2/292)، مسند احمد (13/293) کے محققین نے اسے صحیح لغیرہ کہا ہے۔

[185]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11751)

[186]؎  دیکھئے: ”وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفی“، ص 916

[187]؎  سمہودی نے قوسین کے درمیان کی عبارت کو قاضی عیاض کی کتاب ”المدارک“ کی طرف منسوب کیا ہے۔ دیکھئے: سمہودی کی کتاب ”وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفی“، ص 916

[188]؎  ان کا نام عبیداللہ بن محمد بن محمد عکبری ہے، یہ ابن بطہ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ اپنے وقت کے امام، بہت نیک و صالح، لوگوں کے لئے نمونہ اور ایک مثالی شخصیت اور حنبلی فقیہ تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کے موضوع پر ان کی ایک مستند کتاب ”الإبانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ“ بہت معروف ہے۔ 387ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے ”تاریخ الاسلام“ (8/612) ناشر: دارالغرب الاسلامی

[189]؎  ”الإبانۃ الصغری“ ص 366

[190]؎  الأم، کتاب الجنائز باب ما یکون بعد الدفن

[191]؎  قرطبی کی الجامع لأحکام القرآن، تفسیر سورۃ الکھف، آیت 21، معمولی اختصار کے ساتھ۔

[192]؎  المدوّنۃ (1/189)

[193]؎  إغاثۃ اللھفان (1/380)

[194]؎  وہ امام، علامہ، محقق، سنت کو زندہ کرنے والے اور بدعت کا قلع قمع کرنے والے تھے، ان کی کنیت ابو الطیب، نام صدیق بن حسن بن علی لطف اللہ قنوجی ہے، انہوں نے ہند کے شہر بھوپال میں سکونت اختیار کی اور ریاست بھوپال کے امیر تھے۔ ان کی متعدد تالیفات= =ہیں، ان میں سے عقیدہ میں ان کی کتاب ”الدین الخالص“ اور ”قطف الثمر فی بیان عقیدۃ أھل الأثر“ اور فقہ میں ”الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البھیۃ“ معروف ہیں۔ ان کے علاوہ بھی تفسیر و حدیث کے فن میں ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ 1307ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ یہ معلومات شیخ صدیق حسن خان کی کتاب ”قطف الثمر“ کے محقق ڈاکٹر عاصم بن عبداللہ قریوتی کے مقدمہ سے معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ ماخوذ ہیں۔ ناشر: عالم الکتب، لبنان۔

[195]؎  الروضۃ الندیۃ، کتاب الجنائز، معمولی اختصار و ترمیم کے ساتھ۔

[196]؎  تطھیر الاعتقاد عن أدران الالحاد، ص 52-53، تحقیق: شیخ اسماعیل انصاری رحمہ اللہ

[197]؎  شرح الصدور فی تحریم القبور، ص 20، ناشر: دارالھجرۃ، صنعاء

[198]؎  صحیح مسلم (49) روایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہے۔

[199]؎  ایک بالشت کی تخصیص کی دلیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔

[200]؎  صحیح مسلم (969)

[201]؎  سنن ابی داؤد (3226) سنن نسائی (2026) روایت کے الفاظ سنن نسائی کے ہیں۔ شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[202]؎  رودس بحر شام کے وسط میں ایک جزیرہ ہے جسے مسلمانوں نے 53ھ میں فتح کیا تھا۔ دیکھئے معجم البلدان مادۃ ”أفرنجہ“

[203]؎  صحیح مسلم (968)

[204]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11795) شیخ البانی نے تحذیر الساجد، ص  88 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[205]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11796)

[206]؎  طبرانی کی المعجم الکبیر (19/352) اس کا ابتدائی حصہ مصنف ابن ابی شیبہ (11797) میں منقول ہے۔

[207]؎  الأم، کتاب الجنائز باب ما یکون بعد الدفن، اختصار کے ساتھ

[208]؎  قرطبی کی الجامع لأحکام القرآن، تفسیر سورۃ الکھف، آیت نمبر 21، معمولی اختصار کے ساتھ

[209]؎  صحیح بخاری (1390)

[210]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11733)

[211]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11735)

[212]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11746)

[213]؎  سنن ترمذی (3/367)

[214]؎  المغنی، کتاب الجنائز (3/435-437)

[215]؎  مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: شیخ البانی رحمہ اللہ کی ”کتاب الجنائز“

[216]؎  المصنف (12055)

[217]؎  المصنف (12056)

[218]؎  ترمذی نے اپنی سنن میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث (1052) کو نقل کرنے کے بعد یہ بات کہی ہے۔

[219]؎  المغنی (3/440-441) اختصار کے ساتھ

[220]؎  ان کا نام احمد بن محمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی شافعی ہے، یہ شافعی مسلک کے فقیہ اور صوفی تھے۔ یہ مکہ آئے اور وہیں بس گئے، یہاں تک کہ 973ھ میں انتقال کر گئے۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: ابن عماد عبدالحی بن احمد العکری الدمشقی کی کتاب ”شذرات الذھب فی أخبار من ذھب“ ناشر: دار ابن کثیر، دمشق

[221]؎  سنن ابی داؤد (3236) سنن ترمذی (320) سنن نسائی (2042) مسند احمد (1/229) روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے۔

[222]؎  دیکھئے: شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب ”القول المفید علی کتاب التوحید“ (1/429) ناشر: دار ابن الجوزی، دمام

[223]؎  ان کا پورا نام ابوالمعالی علی بن محمد سعید سویدی بغدادی عباسی ہے۔ یہ ایک محدث و مورخ گزرے ہیں۔ ”الکوکب المنیر فی شرح المناوی الصغیر“ اور ”العقد الثمین فی مسائل الدین“ وغیرہ ان کی تالیفات ہیں۔ 1237ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے ”معجم المؤلفین“ (2/506) ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت

[224]؎  بحوالہ ”الشرک و وسائلہ عند أئمۃ الشافعیۃ“ المبحث الثالث: وسائل الشرک الئی حذر منھا علماء الشافعیۃ، مؤلف: ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمٰن الخمیس

[225]؎  شیخ حسین گیارہویں صدی ہجری کے علمائے یمن میں سے ہیں۔ مغربی یمن سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کو ”المغربی“ کہا جاتا ہے ورنہ وہ اصلاً یمنی ہیں اور یمن ہی میں ان کی نش و نما ہوئی۔ انہوں نے متعدد علمائے یمن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ حصول علم سے فراغت کے بعد قضاء و تدریس کے میدان میں خدمت انجام دی۔ انہوں نے اپنی کتاب ”البدر التمام“ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ”بلوغ المرام“ کی شرح کی۔ بعد میں صنعانی رحمہ اللہ نے اپنی مطول شرح ”سبل السلام“ کی تالیف میں اس پر اعتماد کیا۔ شیخ حسین رحمہ اللہ نے 1119ھ میں وفات پائی۔ یہ سطور ”البدر التمام“ کے محقق علی بن عبداللہ زین کی تحریر کردہ سوانح سے معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ ماخوذ ہیں۔ ان کی تفصیلی سوانح کے لئے دیکھئے: محمد بن محمد بن یحیٰ زبارۃ حسنی یمنی صنعانی رحمہ اللہ کی کتاب ”نشر العرف لنبلاء الیمن بعد الألف“

[226]؎  البدر التمام (4/232-233) تحقیق: علی بن عبداللہ الزین، معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ

[227]؎  سورۃ البقرۃ: 143

[228]؎  صحیح مسلم (972) سنن ابی داؤد (3229) سنن ترمذی (1050) سنن نسائی (759) کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: تم لوگ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان کے اوپر بیٹھو۔ مسند احمد (4/135) کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: تم لوگ قبروں کے اوپر نہ بیٹھو اور نہ ان پر نماز پڑھو۔

[229]؎  صحیح مسلم (971)

[230]؎  مسند احمد (2/528) مسند احمد کے محقق نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[231]؎  اس کی تخریج گزر چکی ہے۔

[232]؎  سنن ابی داؤد (3230) سنن نسائی (2048) سنن ابن ماجہ (1568) مسند احمد (5/83) ہے۔ الفاظ مسند احمد کے ہیں، یہ روایت بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ شیخ البانی نے صحیح ابی داؤد میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

[233]؎  سنن ابن ماجہ (1577) مصنف ابن ابی شیبہ (11773) شیخ البانی نے إرواء الغلیل (63) میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[234]؎  مصنف ابن ابی شیبہ (11779)

[235]؎  اقتضاء الصراط المستقیم (2/665)

[236]؎  اسے مالک نے کتاب الجنائز باب ما جاء فی الاختفاء میں نقل کیا ہے، روایت کے الفاظ ان ہی کے ہیں۔ نیز بیہقی نے السنن الکبری (8/270) عبدالرزاق نے المصنف (10/215) میں نقل کیا ہے۔ بیہقی نے السنن الکبری (8/270) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ کی قبر اکھاڑنے والے مرد و عورت پر لعنت کی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحۃ (2148) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[237]؎  اسے امام احمد (6/58) اور ابو داؤد (3207) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے، الفاظ مسند احمد کے ہیں۔ شیخ البانی نے ”صحیح ابی داؤد“ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

[238]؎  صحیح بخاری (1393)

[239]؎  المصنف (11989)

[240]؎  المصنف (11988)

[241]؎  شیخ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الأضواء“ میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ”و لقد کذب أصحاب الحجر المرسلین“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ نیز شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ و الکتاب“ میں ان دس مقامات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں نماز پڑھنا ممنوع ہے، بہت عمدہ بحث کی ہے۔ یہ بحث مذکورہ کتاب میں ساٹھ صفحات (1/357-416) پر مشتمل ہے۔ جسے اس مسئلہ میں تفصیل درکار ہو وہ اس کتاب کے مذکورہ صفحات کا مطالعہ کرے۔

[242]؎  اسے ابن ابی شیبہ نے المصنف، کتاب الصلاۃ باب فی الصلاۃ فی الموضع الذی قد خسف بہ میں اور عبدالرزاق نے المصنف، کتاب الصلاۃ باب فی المکان الذی فیہ العقوبۃ میں نقل کیا ہے۔

[243]؎  اسے عبدالرزاق نے المصنف، کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ فی البیعۃ میں نقل کیا ہے۔

[244]؎  مرجع سابق

[245]؎  صحیح مسلم (360)