نماز کی عظمت واہمیت (⮫)



: الصلاة الصلاة


بسم اللہ الرحمن الرحیم

ربِّ يسر وأعن

الحمد لله رب العالمین، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، سيدنا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين، أما بعد:

 نماز كی عظمت ومرتبت کے دس دلائل:

۱-شہادتین کے بعد نماز ہی وہ پہلی عبادت ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ، وہ اسلام کا دوسرا رکن ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،  انہوں نے فرمایا:  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"([1])۔

شہادتین کے بعد نماز کو یہ مقام ومرتبہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ (بندہ کا) عقیدہ صحیح سالم اور درست ہے، اور اس کےدل میں شہادتین کا معنی ومفہوم    جاگزیں ہے جسے وہ (نماز کے ذریعہ ) سچ ثابت کررہا ہے۔

۲- ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل مکہ میں سنہ تین بعثت نبوی کو اس وقت نماز فرض ہوئی جب  اسراء ومعراج کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  آسمان پر لے جایا گیا،  چنانچہ  ساتویں آسمان  کے اوپر  اللہ  نے اپنے نبی محمد پر بغیر  کسی فرشتہ کے واسطہ کے بالمشافہ طور پر  نماز فرض کی   ، جبکہ دیگر عبادتیں  بالواسطہ طور پر  فرض کی گئیں۔

۳-اس سے پتہ چلتا ہے کہ نماز ہر بالغ اور  عاقل مسلمان پر فرض ہے ، خواہ مرد ہو یا عورت۔

۴-اسلام میں نماز کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ کسی دوسری عبادت کو نہیں، چنانچہ نما ز دین کا ستون ہے جس کے بغیر (اس کی عمارت کھڑی نہیں رہ سکتی)، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ  نے معاذ سے فرمایا: "کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟" معاذ نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے) آپﷺ نے فرمایا: "دین کی اصل اسلام ہے  اور اس کا ستون   نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے"([2])۔

۵-نماز  بندہ اوراس کے رب کے درمیان سرگوشی کا ایک وسیلہ ہے، کیوں کہ ا س میں اللہ عزیز وبرتر سے دعا ،  اس کی حمد وثنا ، قرآن کی تلاوت، تسبیح وتحمید  ، تکبیر اور  اعضاء وجوارح  کا  خشوع وخضوع  شامل ہے،  جیسے رکوع وسجود کرنا اور پروردگار کے سامنے  خشوع وخضوع ، عاجزی وانکساری   اور پست نگاہی  کے ساتھ کھڑا  ہونا ، شیخ عبد الرحمن بن سعدی رحمہ اللہ نے اللہ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا:

{إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ}[العنكبوت:45]

ترجمہ: یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ، بے شک اللہ کا ذکر بہت بڑ ی چیز ہے ۔

نماز میں اس سے بھی بڑھ کر ایک عظیم اور مہتم بالشان مقصد پنہاں ہے،  وہ یہ کہ  نماز  دل  ، زبان   اور پورے جسم سے  اللہ کا ذکر کرنے سے عبارت ہے،  کیوں کہ اللہ تعالی نے بندوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اور سب سے افضل عبادت نماز ہے، اس کے اندر اعضاء وجوارح کی اتنی بندگیاں شامل ہیں جو دیگر عبادتوں  میں نہیں، اسی لیے اللہ نے فرمایا:  (بے شک اللہ کا ذکر بہت بڑ ی چیز ہے )۔ انتہی

 ۶-نماز کے اندر بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو دیگر عبادتوں میں  نہیں پائی جاتیں، ان میں سے  اہم خصائص یہ ہیں:

·  اس کے لیے ندا لگائی جاتی ہے جسے اذان کہا جاتا ہے۔

·    اسے ادا کرنے کے لیے طہارت واجب ہے۔

۷-سفر وحضر، خوف وامان اور صحت وبیماری ہر حالت میں نماز ادا کرنا واجب ہے، الا یہ کہ ایسی بیماری لاحق ہوجائے جس کی وجہ سے عقل جاتی  رہے۔

۸-نماز کی عظمت ومرتبت ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر مرگ پر بھی یہ وصیت فرمائی کہ نماز کا خاص اہتمام کیا جائے، چنانچہ  ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس مرض میں رسول اللہ ﷺ نے انتقال فرمایا، اس کے دوران میں آپ فرمایا کرتےتھے: "نماز (کی حفاظت کرو ) اور ان  (لونڈی، غلاموں کی) جو تمہارے ہاتھوں کی ملکیت ہیں" ۔آپ نے یہ الفاظ باربار فرمائے حتی کہ آپ کی زبان مبارک رک گئی([3])۔

احمد كی ایک روایت میں آیا ہے: یہاں تک کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کو اپنے دل میں دہراتے رہے اور آپ کی زبان مبارک  سے صاف صاف  الفاظ نہیں نکل  رہے تھے۔

آپ کے فرمان : (جو تمہارے ہاتھوں کی ملکیت ہیں) سے مراد : لونڈی اور غلام  ہیں، جن کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی۔

حدیث میں (ما يفيض بها لسانه)  کے الفا ظ آئےہیں( معنی: آپ کی زبان مبارک رک گئی) یعنی: اس وصیت کے علاوہ آپ کی زبان پر کوئی بات نہیں آرہی تھی۔اس کا ماخذ یہ تعبیر ہے: استفاض على ألسنۃ الناس کذا وکذا ، یعنی: لوگوں کی زبان پر یہ اور یہ بات جاری وسار ی ہوگئی۔ دوسری روایت میں (يُفيص)  کا لفظ آیا ہے، یعنی: آپ صاف صاف بولنے پر  قادر نہیں رہے،  إفاصۃ کے معنی ہوتے ہیں وضاحت کرنا، اس طور پر دونوں الفاظ کا مفہوم ایک ہی ہے، وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حفاظت اور اہتمام کی وصیت  فرماتے رہے  یہاں تک کہ  بیماری کی شدت کے سبب آپ صاف صاف بولنے سے عاجز ہوگئے۔

۹-یہ نماز کی عظمت ومرتبت ہی ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے جس عبادت کے بار ے میں حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، چنانچہ  ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں سے جس عمل کا  سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، فرمایا:  ہمارا عزیز وبرتر پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ (پہلے ہی) خوب جاننے والا ہے:  میرے بندے کی نماز دیکھو! کیا اس نے اس کو پورا کیا ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ چنانچہ وہ اگر کامل ہوئی تو پوری کی پوری لکھ دی جائے گی اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو فرمائے گا کہ دیکھو! کیا میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں؟ اگر نوافل  ہوئے تو وہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے فرضوں کو اس کے نفلوں سے پورا کر دو۔ پھر اسی انداز سے دیگر اعمال لیے جائیں گے"([4])۔

۱۰-اس کی عظمت ومرتبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آخری زمانے میں دین کا جو حصہ سب سے اخیر میں ( لوگوں میں مفقود ہوجائے گا)  وہ نماز ہوگی،  اگر نماز ضائع ہوگئی تو پورا دین جاتا رہے گا اور دین کا کوئی حصہ (اس کے اندر ) باقی نہ رہے گا، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: " اسلام  کے سارے بندھن ایک ایک کرکے ٹوٹتے جائیں گے، جب بھی کوئی بندھن ٹوٹے گا، لوگ اس کے بعد والے بندھن سے چمٹ جائیں گے، سب سے پہلے  ٹوٹنے والا  بندھن حکومت ہے اور سب سے اخیر میں ٹوٹنے والا بندھن نماز ہے"([5])۔

حدیث  میں  (عرى الإسلام) كے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد اسلام کے فرائض اوراحکام وقوانین ہیں،   یعنی لوگ ان فرائض واحکام پر عمل کرنا چھوڑ دیں گے، جس کے نتیجے میں دین کی غربت (اجنبیت) مزید بڑھ جائے گی حتی کہ لوگ نماز سے بھی برگشتہ ہوجائیں گے، اور سب سے اخیر میں نماز ہی چھوڑیں گے، جوکہ آخر ی زمانے میں ہوگا۔


 باب  نماز کے وجوب کا بیان

* اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا}([6])

ترجمہ: یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔

* عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،  انہوں نے فرمایا:  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"([7])۔

*انس بن مالك رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ([8])حاصل ہے، لہذا تم اللہ کے ذمے میں خیانت (بدعہدی) نہ کرو"([9])۔

*معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتوں  کی وصیت فرمائی، ان میں سے آپ  نے یہ بھی ذکر کیا: بالقصد کوئی فرض نماز نہ چھوڑا کرو، کیوں کہ جو شخص جان بوجھ کر کوئی فرض نماز چھوڑتا ہے وہ اللہ کے ذمہ (حفاظت ) سے نکل جاتا ہے([10])۔


 باب نماز کااہتمام کرنے، اس کی پابندی کرنے اور اس میں سستی کرنے سے ڈرانے کا بیان

*اللہ تعالی کا فرمان ہے: {حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى}

ترجمہ: نمازوں کی  حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی۔

الصلاۃ الوسطى  (درمیان والی نماز) سے مراد عصر کی نماز ہے۔

*عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ  آپ نے ایک روز نماز کا ذکر کیا تو فرمایا: جو شخص نماز کی حفاظت کرتا ہے اس کے لیے وہ قیامت کے دن نور، برہان اور نجات ہوگی،  او رجو شخص اس کی  حفاظت نہیں کرتا اس کے لیے نہ نور ہوگا، نہ برہان اور نہ نجات، اور وہ قیامت کے دن قارون وفرعون  اور ہارون اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا([11])۔

ابن القیم([12]) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  ان چار اشخاص کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ سارے  کافروں کے سردار تھے،  اس میں ایک  باریک نکتہ بھی پنہاں ہے، وہ یہ کہ جو شخص نماز کی حفاظت نہیں کرتا وہ یا تواپنے مال ومنال میں مشغول ہوتا ہے ، یا اپنی بادشاہی میں، یا اپنی ریاست وسرداری میں یا اپنی تجارت میں مصروف رہتا ہے۔ چنانچہ جس شخص کو اس کا مال نماز سے مصروف کردے وہ قارون کے ساتھ ہوگا، جسے اس کی بادشاہت نماز سے مشغول  کردے وہ فرعون کے ساتھ ہوگا، جسے اس کی ریاست وسرداری – جیسے وزارت یا اس جیسا کوئی دوسرا عہدہ ومنصب- نماز سے غافل کردے وہ ہامان کے ساتھ ہوگا اور جسے اس کی تجارت نماز سے پھیردے وہ ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا([13])۔

*عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں، جو آدمی انہیں ادا کرے، ان میں سے کسی کو ان کی حیثیت ہلکی سمجھ کر ضائع نہ کرے([14]) تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے کوئی عہد نہیں۔ چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل کرے“([15])۔

* ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں سے جس عمل کا  سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، فرمایا:  ہمارا عزیز وبرتر پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ (پہلے ہی) خوب جاننے والا ہے:  میرے بندے کی نماز دیکھو! کیا اس نے اس کو پورا کیا ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ چنانچہ وہ اگر کامل ہوئی تو پوری کی پوری لکھ دی جائے گی اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو فرمائے گا کہ دیکھو! کیا میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں؟ اگر نوافل  ہوئے تو وہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے فرضوں کو اس کے نفلوں سے پورا کر دو۔ پھر اسی انداز سے دیگر اعمال لیے جائیں گے"([16])۔

*نماز کی اہمیت کے پیش نظر ہی  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  مرض الموت میں بھی اس کی وصیت فرمائی،چنانچہ  ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس مرض میں رسول اللہ ﷺ نے انتقال فرمایا، اس کے دوران میں آپ فرمایا کرتےتھے:"نماز (کی حفاظت کرو ) اور ان  (لونڈی، غلاموں کی) جو تمہارے ہاتھوں کی ملکیت ہیں" ۔آپ نے یہ الفاظ باربار فرمائے حتی کہ آپ کی زبان مبارک رک گئی([17])۔

 باب نماز قائم کرنے کی فضیلت کا بیان

*نماز سب سے افضل عمل ہے، چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "سیدھی راہ پر قائم رہو اور تم (کما حقہ) قائم نہیں رہ سکو گے، اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے"([18])۔

*نماز جنت میں داخل ہونے کا ایک عظیم سبب ہے، قرآن مجید کی  بہت سی  آیتوں میں اللہ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ جنتی حضرات اپنے جن نمایاں اعمال کی وجہ سے  جنت کے مستحق ہوں گے، ان میں نماز قائم کرنا او رزکوۃ ادا کرنا بھی سر فہرست ہیں۔مثال کے طور پر اللہ تعالی  کا یہ فرمان ملاحظہ کریں:

{إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُور لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُور }[فاطر: 29-30]

ترجمہ:جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی۔تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل اور زیادہ دے بے شک وہ بڑا بخشنے والا قدردان ہے۔

*بكر بن ابی موسی اپنے والد سے روایت کرتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دو ٹھنڈے وقتوں کی نمازیں (پابندی سے)  ادا کیں ، وہ جنت میں داخل ہو گا  ([19])

ٹھنڈے وقتوں سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے، اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دو نمازوں کے وقت موسم  (عام طور پر) ٹھنڈا ہوتا ہے۔

*نماز کی پابندی اور حفاظت کرنا دخول جہنم سے روکنے والے اعمال میں سے ہے :چنانچہ  زہیر بن عمارۃ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جو سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے "([20])۔ یعنی فجر اور عصر کی نمازیں ۔

*نماز گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے([21])، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے لیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا گناہ بیان کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِين}[هود:114]

 یعنی: "آپ دن کے دونوں اطراف میں اور کچھ رات گئے نماز پڑھیں۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے یاد کرنے والوں کے لیے۔" اس شخص نے آپ ﷺ سے دریافت کیا: آیا یہ امر خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ میری امت میں سے جو بھی اس پر عمل کرے یہ سب کے لیے ہے"([22])۔

(برائیوں کو دور کردیتی ہیں) : یعنی: انہیں مٹا دیتی ہیں۔

*ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچوں نمازیں اور (ہر) جمعہ (دوسرے) جمعہ تک درمیانی مدت کے  گناہوں کا کفارہ (ان کو مٹانے والے) ہیں، جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیاجائے"([23])۔

 *فائدہ: اہل علم نے اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ  پنج وقتہ نمازیں اور دیگر نیک اعمال کبیرہ گناہوں کو نہیں مٹاتے، بلکہ کبیرہ گناہوں کی معافی توبہ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم کیا سمجھتے ہو اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو،کیا اس (کے جسم ) کا کوئی میل  کچیل باقی رہ جائے گا؟ صحابہ نے عرض کیا: اس کا کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے،اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے گناہوں کو صاف کر دیتا ہے"([24])۔

*فجر اور عصر کی نمازیں پابندی سے ادا کرنے کا ثواب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کادیدار نصیب ہوگا جوکہ جنتیوں کے لیے سب سے بڑی نعمت ہوگی، اس کی دلیل جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا تو فرمایا: "یقینا تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اسے دیکھنے میں تمہیں  کوئی دقت نہیں ہو گی، اس لیے اگر تمہارے لیے ممکن ہو تو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے نماز نہ چھوڑو"۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوب}[ق:39]

یعنی:"آفتاب نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیں"([25])۔

حدیث میں (لا تَضامُّون ) کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں: اللہ کو دیکھتے وقت آپس میں تمہارے درمیان مڈ بھیڑ نہیں ہوگی۔

حرف تا کے ضمہ او ر میم کے سکون  کے ساتھ بھی روایت آئی ہے  (لا تُضامُون)  ، اس کے معنی ہیں: اللہ کو دیکھتے وقت تمہارے اوپر ظلم نہیں ہوگا کہ تم میں سے کوئی دیکھے   اور کوئی نہیں دیکھے  ([26])۔

یہ معنی بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اللہ کو دیکھتے ہوئے  نور الہی  کی وجہ سے تمہاری آنکھیں خیرہ نہیں ہوں گی، کیوں کہ انسان   اللہ کے نور کی تاب نہیں لاسکتا، لیکن آخرت میں مومنوں کو اتنی قوت دی جائے گی کہ وہ اس نور کو برداشت کرلیں گے، اس کے بعد اللہ عزیز وبرتر کے دیدار سے بہرہ ور ہوں گے۔

اور یہ تمام معانی درست ہیں۔

 باب وقت مقررہ  پر نماز ادا کرنے کے وجوب کا بیان

*اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا}

ترجمہ: یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: نماز کا بھی مقررہ وقت ہے جس طرح حج کا مقررہ وقت ہے([27])۔

*ابو الملیح فرماتے ہیں: ہم ابر آلود دن میں حضرت  بریدۃ رضی اللہ عنہ  کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک تھے، انہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا"([28])۔

 باب وقت مقررہ پر نماز ادا کرنے کی فضیلت کا بیان

*وقت مقررہ پر نماز ادا کرنا افضل ترین اعمال میں سے ہے، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے  زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: "نماز کی بروقت ادائیگی" ۔انھوں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: "والدین سے حسن سلوک"۔ انھوں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ  نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"۔ حضرت عبداللہ بن  مسعود رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان کیا، اگر میں مزید پوچھتا تو آپ اور بیان فرماتے([29])۔


 باب نماز کو اس کے مقررہ  وقت سے مؤخر کرنے کی  شدید ممانعت  کا بیان

* اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّين الَّذِينَ هُمْ عَن صَلاَتِهِمْ سَاهُون}

ترجمہ: ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کرتے ہیں)، یہی قول مسروق بن الاجدع اور ابو الضحى کا بھی ہے([30])۔

*مصعب بن سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: اے والد محترم!  اللہ تعالی کے  اس فرمان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ : {فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّين الَّذِينَ هُمْ عَن صَلاَتِهِمْ سَاهُون}   ہم میں سے کون ہے جس سے بھول چوک نہیں ہوتی؟ ہم میں سے کون ہے جو  (نماز کے دوران)  تخیل وتصور  میں مبتلا نہیں ہوتا ؟ انہوں نے فرمایا: یہ مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نماز  کے وقت مقررہ کو ضائع کرنا ہے، بایں طور کہ لہو ولعب میں مگن رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت جاتا رہے([31])۔

*ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: آیت میں سہو سے مراد نماز کو ترک کرناہے، اگر یہ معنی مراد نہ ہوتا تو انہیں نمازی نہیں کہا جاتا، بلکہ اس سے مراد نماز کے واجبات سے غفلت برتنا ہے ، یا تو اس کے واجبی وقت سے ، جیسا کہ ابن مسعود وغیرہ کا قول ہے، یا دل جمعی اور خشوع وخضوع سے غفلت برتنا ہے۔

صحیح  یہ ہے کہ اس سے دونوں قسم کی غفلت مراد ہے، کیوں کہ اللہ پاک نے ایسے لوگوں کے لیے نماز پڑھنے کا ذکر تو کیا ہے، ساتھ ہی ان کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ اس سے غفلت برتتے ہیں،  جس سے مراد اس کے واجبی وقت سے غافل رہنا ، یا واجبی اخلاص اور واجبی دل جمعی وحاضر دماغی سے غفلت برتنا ہے([32])۔

*ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص سے نماز عصر فوت ہو گئی، گویا اس کے  سب  آل واولاد  اور مال واسباب لٹ گئے"([33])۔

(اس کے  سب  آل واولاد  اور مال واسباب لٹ گئے) یعنی: وہ سب چھین لیے گئے اور وہ  اہل وعیال اورمال ومنال سے محرو م ہوگیا([34])۔

* ابو الملیح فرماتے ہیں: ہم ابر آلود دن میں حضرت  بریدۃ رضی اللہ عنہ  کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک تھے، انہوں نے فرمایا: نماز عصر جلدی پڑھ لو کیونکہ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا"([35])۔

* سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بکثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے۔ ”کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟“ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کو بیان کرتا۔ آپ ﷺ نے ایک صبح فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے،انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا:(ہمارے ساتھ) چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سر توڑ دیتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کےواپس آنے سے پہلے پہلے دوسرے کا سر صحیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا ا ور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آئی تھی۔

آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ! کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟

 انہوں نے کہا: آگے چلو۔ آگے چلو۔

 حدیث کے اخیر  میں ہے کہ  ان دونوں فرشتوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں اور اس کے گناہ کے بارے میں بتایا اور فرمایا:  وہ پہلا شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور پتھر سے اس کا سر کچلا جارہاتھا،  یہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا،پھر اسے چھوڑ دیتا([36])اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جاتا تھا([37])۔

*ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب آدمی (رات کے وقت) سو جاتا ہے تو شیطان اس کی گدی([38]) پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ ہر گرہ پر یہ پھونک دیتا ہے کہ ابھی تو بہت رات باقی ہے سو جاؤ۔ پھر اگر آدمی بیدار ہو گیا اور اللہ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اگر اس نے وضو کر لیا تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، اس کے بعد اگر اس نے نماز پڑھی تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ پھر صبح کو وہ خوش مزاج اور دلشاد لگتا ہے، بصورت دیگر صبح کے وقت بددل اور خستہ جسم بیدار ہوتا ہے"([39])۔

*عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات سے لے کر صبح تک سویا رہا۔ آپ نے فرمایا: "یہ ایسا شخص ہے جس کے دونوں یا ایک کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے"۔

*عمر بن عبد العزیز نے اپنے والیوں (یعنی مختلف شہر کے گورنروں)  کو لکھ بھیجا کہ نماز کے وقت مصروف رہنے سے بچو ، کیوں کہ جو شخص نماز کو ضائع کردے ، وہ اسلام کے دیگر احکام کو اور  زیادہ ضائع کردیتا ہے([40])۔

 باب نماز با جماعت  کی فضیلت کا بیان

*ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ "آدمی کا باجماعت نماز ادا کرنا اس کے اپنے گھر اور اپنے بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور یہ اس طرح کہ جب وہ عمدہ طریقے سے وضو کر کے مسجد کی طرف روانہ ہو اور محض نماز کے لیے چلے تو جو قدم بھی اٹھائے گا اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند ہو گا اور ایک گناہ بھی معاف ہو گا۔ پھر جب وہ نماز ادا کر لے گا تو جب تک اپنی جائے نماز پر رہے گا، فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہیں گے کہ یا اللہ! تو اس پر اپنا فضل و کرم فرما، یا اللہ! تو اس پر رحمت و شفقت فرما۔ اور جب تک تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کرتا ہے تو وہ گویا نماز ہی میں رہتا ہے"([41])۔

*عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ فرماتے ہیں: جو یہ چاہے کہ کل (قیامت کے دن )اللہ تعالیٰ سے مسلمان کی حیثیت سے ملے تو وہ جہاں سے ان (نمازوں ) کے لیے بلایا جائے ، ان نمازوں کی حفاظت کرے (وہاں مساجد میں جا کر صحیح طرح سے انہیں ادا کرے )کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کے لے ہدایت کے طریقے مقرر فر مادیے ہیں اور یہ (مساجد میں باجماعت نماز یں )بھی انہی طریقوں میں سے ہیں ۔ کیونکہ اگر تم نمازیں اپنے گھروں میں پڑھو گے ، جیسے یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا ، اپنے گھر میں پڑھتا ہےتو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے  ۔ کوئی آدمی جو پاکیز گی حاصل کرتا ہے (وضوکرتا ہے )اور اچھی طرح وضو کرتا ہے ، پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا رخ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ، جو وہ اٹھاتا ہے ، ایک نیکی لکھتا ہے ، اور اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کا ایک گناہ کم کر دیتا ہے ، اور میں نے دیکھا کہ ہم میں سے کوئی (بھی ) نماز با جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا ، سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا (بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ )ایک آدمی کو اس طرح لایا جاتا کہ (کمزوری ولاغری کی وجہ سے) اسے دو آ دمیوں کے درمیان سہارا دیا گیا ہوتا ، حتی کہ صف میں لاکھڑا کیا جاتا ([42])۔

*مسجد میں نماز پڑھنے والے شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے سائے تلے جگہ دے گا،  جس دن سورج مخلوق سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا، چنانچہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔ اس دن اس کے سائے([43]) کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حکمران،  وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو، جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے...الحدیث

*مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے: وہ آدمی جب مسجد سے نکلتا ہے تو (اس کا دل) اسی کے ساتھ معلق رہتا ہے یہاں تک کہ اس میں لوٹ آئے ...الحدیث([44])

*ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جو شخص دن کے پہلے حصے میں یا دن کے دوسرے حصے میں مسجد کی طرف گیا اللہ تعالیٰ (ہر دفعہ آنے پر)اس کے لئے جنت میں (النُّزل)  میزبانی کا انتظام فرماتا ہے،جب بھی وہ ( آئے)صبح کو آئے یا شام کو آئے"([45])۔

النُّزل (میزبانی)  سے مراد وہ مقام ہے جو مہمان کے لیے تیار کیا جاتا ہے([46])۔

 باب پہلی جماعت جس کے لیے اذان دی جاتی اور اقامت کہی جاتی ہے،

  اس  میں نماز پڑھنے کے وجوب اور اس سے پیچھے رہنے کی مذمت کا بیان

*پہلی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے وجوب کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی  نے جنگ کی حالت میں بھی نما ز باجماعت کو واجب قرار دیا ہے جوکہ سب سے مشکل وقت ہوتا ہے،  یہ نماز صلاۃ الخوف کے نام سے جانی جاتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ} الآية

ترجمہ: جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی ہو ۔

*اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِين}

ترجمہ:نمازوں کوقائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

اس آیت میں رکوع کرنے والوں سے مراد مسجد کی جماعت ہے۔

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرا ارادہ ہوا کہ میں ایندھن جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے اذان دینے کا کہوں، پھر کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کسی کو اگر امید ہو کہ وہاں مسجد میں اسے موٹی ہڈی یا اچھے پائے ملیں گے تو وہ ضرور عشاء میں بھی حاضر ہو“۔

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے: پھر میں کچھ اشخاص کو ساتھ لے کر ،جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ، ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں ([47])۔

*ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اذان سن کر (نماز کے لیے مسجد میں) نہیں آتا، اس کی کوئی نماز نہیں، سوائے کسی عذر کی صورت کے"([48])

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کےرسول ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر )مجھے مسجد میں لے آئے ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے ۔ آپ نے اسے اجازت دے دی ، جب وہ واپس ہو ا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا : "کیا تم نماز کا بلاوا (اذان )سنتے ہو؟ " اس نے عرض کیا :جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا:"تو اس پر لبیک کہو"([49])

*خلاصہ کلام یہ کہ جماعت کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنا واجب ہے، الا یہ کہ کوئی عذر ہو جیسے خوف، بارش ، یا سخت آندھی، جماعت سے مراد پہلی جماعت ہے،  جس کے لیے اذان دی جاتی اوراقامت کہی جاتی ہے ،  بعض لوگ پہلی جماعت  سے پیچھے رہ جاتے ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے، جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ مسجد میں دوسری تیسری جماعت کا سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ نمازی کئی جماعتوں میں بٹ جاتےہیں اور کوئی ایک جماعت نہیں رہ پاتی، اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے([50])۔

 باب نماز جمعہ  چھوڑنے  کی  شدید ممانعت کا بیان

*ابن عمر اور ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر فرمایا: ”لوگ جمعے چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ یقینی طور پر غافلین میں سے ہو جائیں گے۔“([51])

 باب  نماز جمعہ کے لیے جلدی جانے اور پہلی صف میں بیٹھنے کی فضیلت کا بیان

* ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے  كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مردوں کی بہترین صف پہلی اور بدترین صف آخری ہے "([52])۔

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم جان لو، یا لوگ جان لیں کہ اگلی صف میں کیا (فضیلت) ہے تو اس پر قرعہ اندازی ہو"([53])۔

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور فجر باجماعت ادا کرنے میں کتنا ثواب ہے تو ان دونوں (کی جماعت) میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے"([54])۔

*براء بن عازب  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”اللہ عزوجل پہلی صفوں میں آنے والوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں“([55])۔

ابن حبان نے اپنی صحیح میں ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے: اللہ تعالی پہلی صف (میں آنے والوں )  پر رحمت نازل کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔

* عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگلی صف والوں کے لئے تین بار دعائے مغفرت فرماتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک بار([56])۔

نسائی میں یہ الفاظ آئے ہیں: پہلی صف والوں کے لئے تین بار دعا فرماتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک بار۔

*ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے اپنے (بعض) صحابہ میں یہ بات دیکھی کہ وہ پیچھے رہتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” جو لوگ پیچھے رہنے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں ان کا انجام یہ ہو گا کہ اللہ عزوجل انہیں مؤخر کر دے گا۔“ ([57])

یعنی اپنے وسیع فضل اور بلند مقام سے پیچھے کر دے گا۔

* عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ صف اول سے پیچھے رہتے (اور اسے اپنی عادت بنا لیتے) ہیں    اللہ انہیں بھی پیچھے کر دے گا“([58])۔

*ابراہیم بن یزید نخعی([59]) فرماتے ہیں: جس شخص کو تم دیکھو کہ وہ تکبیر اولی کو پکڑنے میں سستی کرتا ہے، اس سے اپنے ہاتھ دھولو([60])۔


 باب جو شخص مکمل طریقے سے رکوع اور سجدہ نہ کرے  اس کے تعلق سے وعید کا بیان

*ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے، اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: "واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی"۔ وہ آدمی واپس گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے اس نے (پہلے) پڑھی تھی۔ پھر اس نے آ کر نبی ﷺ کو سلام کیا۔ آپ نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) فرمایا: "واپس جاؤ اور نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی"۔ پھر اسی طرح تین دفعہ ہوا بالآخر اس نے کہا: قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: "اچھا جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اللہ أکبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پڑھو۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر سجدہ کرو اور سجدے میں اطمینان سے رہو۔ پھر سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اسی طرح اپنی پوری نماز مکمل کرو"۔([61])

یہ حدیث اہل علم کے درمیان حدیث المسیء صلاتہ کے نام سے مشہور ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام اور رکوع وسجود جیسے نماز کے تمام ارکان کی ادائیگی  میں اطمینان ایک  رکن کی حیثیت رکھتا  ہے ۔

*زید  بن وہب سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص ابواب کِندہ (دروازہ کا نام) سے داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا، لیکن نماز میں رکوع وسجود مکمل طریقے سے ادا نہیں کیے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تم کتنے سال سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: چالیس سال سے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی، اگر اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے تمہاری موت ہوگئی تو تم اس فطرت کے علاوہ (کسی اور فطرت پر) مروگے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہوئی تھی([62])۔

*عبدالرحمٰن بن شبل  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں سے منع فرمایا: کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے، درندے کی طرح بازو بچھانے سے اور آدمی نماز کے لیے ایک ہی جگہ مقرر کرلے، جیسے اونٹ (بیٹھنے کے لیے) ایک جگہ مقرر کر لیتا ہے([63])۔

(کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے منع فرمایا) ، اس میں ہلکا سجدہ کرنے اور سجدے میں اطمینان بحال نہ رکھنے   کی ممانعت آئی  ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے اطمینان کو نماز کے   ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا ہے،  جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی، اور اسے ترک کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طریقے سے رکوع اور سجدہ کیاکرتے تھے، چنانچہ رکوع کرتے تو مکمل اطمینان کے ساتھ رکوع میں رہتے،سجدہ کرتے تو پورے اطمینان سے سجدہ میں رہتے  اور ماثور دعائیں پڑھتے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا واجب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ انسان کی لمبی نماز اس کی فقہ وبصیرت کی دلیل ہے([64])۔

*ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا:  {وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ}

یعنی: اور نمازوں کو قائم کرو۔

چنانچہ اللہ نے ہمیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ، جس کا مطلب ہے اسے درست اور کامل  طریقے سے قیام، رکوع وسجود  اور اذکار وادعیہ کے ساتھ ادا کیا جائے، اللہ پاک نے کامیابی کو نماز میں نمازی کے خشوع وخضوع سے معلق قرارد یا ہے، لہذا جس شخص کی نماز میں خشوع وخضوع نہ ہو وہ کامیاب لوگوں میں سے نہیں ہے، یہ ناممکن ہے کہ جلد بازی  میں ٹھونگے مارتے ہوئے جو نماز ادا کی جائے ، اس میں خشوع وخضوع ہو،  بلکہ اطمینان کے بغیر خشوع وخضوع کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے،  نماز جس قدر پر  اطمینان  ہوگی اسی قدر  اس میں خشوع وخضوع بھی ہوگا، اور خشوع وخضوع میں جس قدر کمی آئے گی اسی قدر عجلت بھی  بڑھے گی، یہاں تک کہ ا س کے جسم کی حرکت اس بے کار حرکت کی طرح ہوجائے گی جس میں نہ تو خشوع وخضوع ہوتا ہے ، نہ بندگی کا احساس وشعور، اور نہ بندگی کی معرفت وواقفیت([65])۔

 باب تارک ِ صلاۃ کا حکم

*شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہی ہے، جس نے اس کے وجوب کاانکار کرتے ہوئے اسے ترک کردیا تو  وہ بالاجماع کافر ہے، اور جو شخص سستی وکاہلی میں اسے ترک کردے ، اس کے سلسلے میں قدیم   زمانے   میں اور اب بھی   علمائے کرام کے دو اقوال پائے جاتے ہیں([66])،   ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "کتاب الصلاۃ وحکم تارکھا" کے آغاز میں فرماتے ہیں:

اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی  اختلاف نہیں کہ جان بوجھ کر فرض نماز کو ترک کرنا   عظیم ترین گناہوں (کبائر)    میں سے ہے،  جس کا گناہ اللہ کے نزدیک قتل وخوں ریزی ، ڈاکہ زنی، زناکرناری، چوری اور شراب نوشی سے بڑھ کر ہے،  اور ایسا شخص دنیا وآخرت میں اللہ کی سزا، اس کی ناراضگی اور رسوائی سے دوچار ہوتا ہے۔ انتہی

*سستی وکاہلی میں نماز چھوڑنے والا کافر ہے، اس کی ایک دلیل سورۃ مریم میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاَةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا* إِلاَّ مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلاَ يُظْلَمُونَ شَيْئًا}

ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سوا ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا۔بجز ان کے جو توبہ کرلیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ  اللہ تعالی نے نمازوں کو ضائع کرنے اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: (بجز ان کے جو توبہ کرلیں اور ایمان لائیں) ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ نماز ضائع کرنے اور خواہشات کی پیروی کرنے کی حالت میں وہ مومن نہیں تھے۔

*اللہ تعالی کا فرمان ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلاَ أَوْلاَدُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُون}

ترجمہ:اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں او ر جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔

ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: وجہ استدلال یہ ہے کہ  اس آیت کریمہ  میں مطلق خسارہ کا حکم اس شخص پر لگایا جو اپنے مال اور اولاد میں مشغولیت کے باعث نماز سے غافل ہوگیا اور خسران مطلق صرف کفار کے لیے ہوتا ہے، اور اگر مسلمان کو اپنے  گناہ اور نافرمانی کے باعث خسارہ ہوجائے تو اسے آخرت میں نفع مل  جائے گا([67])۔

*اللہ تعالی نے سورۃ التوبۃ میں مشرکوں کے بارے میں فرمایا: {فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ}

ترجمہ:  اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکاۃ دیتے رہیں  تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مومنوں کی اخوت (بھائی چارہ) محض نماز کی ادائیگی کی بنا پر ہے، جب وہ نماز نہ پڑھیں گے تو وہ مومنوں کے بھائی نہ ہوں گے، کیوں کہ وہ مومن نہیں،  كیوں کہ ربانی حکم ہے     إنما المؤمنون إخوة تمام مومن بھائی بھائی ہیں([68])۔

*تارک صلاۃ کے کافر ہونے کی دلیل احادیث میں بہت آئی  ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

*بريدة بن الحصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان امتیاز نماز سے ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا“([69])۔

*جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "بے شک آدمی اورشرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز کا ترک ہے"([70])۔

*ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بندہ اور کفر وایمان کے درمیان (فیصلہ کرنے والی چیز ) نماز ہے   ، جس نے نماز چھوڑ دیا اس نے شرک کیا([71])۔

*جہاں تک صحابہ کرام کے فتاوی کی بات ہے تو جمہور صحابہ  کرام تارک صلاۃ  کے کافر ہونے کے قائل ہیں، بلکہ کئی علمائے کرام نے تارک صلاۃ کے کافر ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے جیسا کہ آرہا ہے،   مثال کے طور پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مرض الموت میں فرمایا: تارک صلاۃ  کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے([72])۔

*شریک نے عبد الملک بن عمیر سے اور انہوں نے ابو الملیح سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: تارک صلاۃ کا کوئی اسلام نہیں۔ شریک سے پوچھا گیا: کیا منبر پر انہوں نے ایسا کہا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں([73])۔

*علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بے نمازی عورت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جو شخص نماز نہ پڑھے وہ کافر ہے۔

*آپ مزید فرماتے ہیں:  جس شخص نے جان بوجھ کر ایک وقت کی نماز ترک کردی ، وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری([74])۔

*جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا: کیا آپ (صحابہ) اپنے مابین گناہ کے ارتکاب کو کفر گردانتے تھے؟ تو انہوں نے کہا:  نہیں، بندہ اور کفر کے درمیان   فاصلہ ختم کرنے والی چیز ترک صلاۃ ہے([75])۔

*آپ سے مزید دریافت کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  آپ (صحابہ) کے نزدیک کونسا عمل کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرتا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: نماز([76])۔

*ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ہمارا خیال ہے کہ نماز نہ چھوڑی جائے کیوں کہ ترک صلاۃ کفر ہے([77])۔

*نیز فرمایا: جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا دین سے کوئی سروکار نہیں([78])۔

*ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے اندر ایمان نہیں اور جس کا وضو نہ ہو اس کی نماز نہیں([79])۔

*عبد اللہ بن شقیق جوکہ جلیل القدر تابعی ہیں، وہ فرماتے ہیں: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ   کسی بھی عمل کے ترک کرنے کو کفر نہیں گردانتے تھے سوائے نماز کے([80])۔

*جہاں تک   تارک ِ صلاۃ کے  کافر ہونے سے متعلق  تابعین کے فتاوی کی بات ہے تو امام لالکائی رحمہ اللہ نے "شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ" میں لکھا ہے  :

(حسن سے مروی ہے کہ: مجھے پہنچا     ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کہا کرتے تھے:  بندہ اور شرک کے درمیان ایسا  فرق  جس کی وجہ سے بندہ کافر ہوجاتا ہے،  یہ ہے کہ بغیر کسی  عذر کے نماز ترک کردے۔

تابعین میں سے اس قول کے قائل: مجاہد، سعید بن جبیر ، جابر بن زید ، عمرو بن دینار ، ابراہیم نخعی اور القاسم بن مخیمرۃ ہیں۔

جبکہ فقہاء میں سے مالک، اوزاعی، شافعی، شریک بن عبد اللہ نخعی، احمد، اسحاق، ابو ثور اور ابو عبید القاسم بن سلام بھی اسی قول کے قائل ہیں)([81])۔

 *اسحاق بن راہویہ کا قول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ تارک صلاۃ کافر ہے، یہی  رائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک کے اہل علم کی بھی ہے کہ جو شخص  جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے نماز ترک کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جاتا  ہے ، تو  وہ کافر ہے([82])۔

*سعید بن جبیر فرماتے ہیں: جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کیا اس نے کفر کیا([83])۔

*ایوب السختیانی نے فرمایا: نماز کو ترک کرنا کفر ہے ، ا س میں کوئی اختلاف نہیں۔

*عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: جس نے  جان بوجھ  بغیر کسی عذر  کے  نماز کو مؤخر کیا یہاں تک کہ اس کا وقت نکل گیا   تو اس نے کفر کیا([84])۔

*حافظ عبد العظیم منذری نے فرمایا:  صحابہ کرام کی  ایک جماعت اور ان کے بعد  کی ایک جماعت بھی  اس کے قائل ہیں کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز ترک کردے یہاں تک کہ اس کا پورا وقت نکل جائے تو وہ کافر ہے،  ان میں   عمر بن خطاب ، عبد اللہ بن مسعود ، عبد اللہ بن عباس، معاذ بن جبل، جابر بن عبد اللہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم سر فہرست ہیں۔صحابہ کرام کے علاوہ احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، عبد اللہ بن مبارک، نخعی، حکم بن عتیبہ، ایوب السختیانی، ابو داود الطیالسی، ابو بکر بن ابی شیبۃ اور زہیر بن حرب وغیرہ رحمہم اللہ بھی اس کے قائل ہیں([85])۔

*ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمر ، معاذ، عبد الرحمن بن عوف اور ابو ہریرۃ  وغیرھم  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ جوشخص جان بوجھ کر کوئی فرض نماز ترک کردے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے تو وہ کافر اور مرتد ہے([86])۔ 

*محمد بن نصر مروزی ([87])فرماتے ہیں: یہ جمہور اہل حدیث کا قول ہے([88])۔

*ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص ربانی حکم کو تسلیم کرتا ہے تو وہ نماز کے ترک پر کیوں اصرار کرتا ہے، جب کہ اسے علم ہے کہ اللہ تعالی نے نماز   قائم کرنے کا حکم دیا ہےاور یہ بات طبعا او رعادۃ محال ہے کہ  ایک شخص دن اور رات کی پانچ نمازوں کو ربانی فرض بھی مانتا ہو اور پھر انہیں ترک بھی کردے اور پھر اسے ترک نماز کی وعید اور سزا کا بھی پورا پورا علم ہو اور پھر وہ نماز کو ترک کردے ، یہ قطعی طور پر مشکل ہے۔جو شخص نماز کو فرض جانتا ہے وہ اسے کبھی بھی ترک نہیں کرسکتا، کیوں کہ ایمان انسان کو نماز کی اقامت کا حکم دیتا ہے اور اگر اس کا  دل نماز کی تلقین نہیں کرتا تو وہ بالکل ایمان سے محروم ہے([89])۔

*مسلمانوں کے امام پر واجب ہے کہ تارک صلاۃ سے توبہ کرائے ، اگر وہ توبہ کرلے  تو چھوڑ دے، ورنہ اس کے کفر کے قائلین کے نزدیک اسے مرتد ہونے کی وجہ سے  قتل کردیا جائے  ، یا اس کے فسق کے قائلین کے نزدیک اسے حد کے طور پر قتل کردیا جائے، کیوں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے  مانعین زکاۃ سے جنگ کیا، جو لوگ اس کے وجوب کے منکر تھے ان سے بھی اور جو اس کی فرضیت کا اعتراف کرنے کے باوجود ادا کرنے سے انکار کررہے تھے، ان سے بھی ،  تارک صلاۃ کو قتل کرنے کا قول شافعی اور اہل علم  کی ایک جماعت کا ہے۔

 باب ترک صلاۃ  پر مترتب  ہونے والے دینی ودنیاوی احکام کابیان

*تارکِ صلاۃ کے کافر ہونے کی وجہ سے یہ مترتب ہوتا ہے کہ جو شخص نماز کا تارک ہو وہ کسی نمازی مسلمان خاتون سے شادی نہ کرے، اگر شادی کر لی ہو تو اس کے ساتھ ازدواجی زندگی گزرانا اس کے لیے جائز نہیں، اس سے ہمبستری کرنا اس کے لیے حرام ہے، کیوں کہ وہ  خاتو ن مسلمان ہے اور مرد کافرہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلاَ تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لاَ هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلاَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ }

ترجمہ: اگر وه تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وه ان کے لیے حلال ہیں۔

*اسی طرح اگر مرد نماز پڑھتا ہو اور بیوی نماز نہ پڑھتی ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس سے شادی   کرے اور نہ اس کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارے،  کیوں کہ مسلمان  کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مسلمان یا کتابی عورت  کے علاوہ کسی اور سے  شادی کرے، لیکن مرتد عورت سے شادی کرنا اس کے لے جائز نہیں ، واللہ المستعان۔

*تارکِ صلاۃ کے لئے جائز نہیں کہ مکہ کے حدود حرم میں داخل ہو، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا}

ترجمہ : اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔

*تارک صلاۃ کی اگر وفات ہوجائے تو نہ اسے غسل دیا جائے ، نہ  اسے کفن پہنایا جائے اور نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اسے دفن کیا جائے اور نہ اس کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا کی جائے، کیوں کہ غسل دینا، کفن پہنانا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا  ایسے احکام ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں،  چنانچہ جس انسان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہو جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ وہ تارک صلاۃ ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ    فریب میں ڈال کر لوگوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے پر مجبور کردے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَىَ قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُواْ وَهُمْ فَاسِقُون}

ترجمہ: ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار بے اطاعت رہے ہیں۔

*تارک صلاۃ کے  ساتھ   جو احکام  خاص ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذبح کردہ جانو ر ([90])حرام  ہیں، کیوں کہ ذبح کرنے کے شروط میں سے یہ بھی ہے کہ  ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی (اہل کتاب میں سے ) ہو، لیکن مرتد اور مجوسی وغیرہ  کا ذبح کردہ جانور حلال نہیں ہے۔

*تارک صلاۃ اپنے  رشتہ داروں کا وارث نہیں  ہوسکتا ، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ”مسلمان،    کافر   کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر،    مسلمان   کا“([91])۔

*رہی بات تارک صلاۃ کی  اخروی زندگی کی بات    تو یہ معلوم سی بات ہے کہ کافر کی موت جب کفر کی حالت میں ہوجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا* خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا لاَّ يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا}

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ جس میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وه کوئی حامی ومددگار نہ پائیں گے۔

 فائدہ: نماز آنکھ کی ٹھنڈک اس وقت بنتی ہے جب اس میں چھ خصلتیں یکجا ہوں

ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ  وہ نماز جس سے آنکھ کو ٹھنڈک اور دل کو قرار ملتا ہے، اس سے مراد ایسی نماز ہے جس میں چھ خصلتیں یکجا ہوں:

پہلی خصلت: اخلاص،  اس سے مراد یہ ہے کہ نماز  پر آمادہ کرنے والی چیز   یہ ہوکہ بندہ کے اندر اللہ کی رغبت ، اس کی محبت،اس کی رضا جوئی، اس کی قربت  ومودت کی طلب اور اس کے اوامر کی بجا آوری پائی جائے ،  بایں طور کہ نماز پر آمادہ کرنے  میں کسی طرح کا کوئی دنیا وی مقصد ہرگز  نہ شامل ہو،  بلکہ اس کا مقصد صرف بلند وبرتر پروردگار کی رضاجوئی ، اس کی محبت، اس کے عذاب کا خوف اور ا س کی مغفرت اور اجر وثواب کی امید ہو۔

دوسری خصلت: صداقت وخیرخواہی، اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے دل کو مکمل طور پر اللہ کے لیے خالی کردے،  پورا  زور اللہ کی طرف متوجہ ہونے میں صرف کرے، نماز میں دل دماغ کو حاضر رکھے ، ظاہری وباطنی ہر دو اعتبار سے عمدہ ترین اور کامل ترین طریقہ سے نماز ادا کرے،  کیوں کہ نماز کے کچھ حصے ظاہری اور کچھ باطنی ہیں، چنانچہ   نظر آنے والے افعال وحرکات اور سنے جانے والے اقوال اس کے ظاہری حصے   ہیں، جبکہ خشوع وخضوع، حاضر دماغی، اللہ کی طرف دل کو یکسو رکھنا اور پورے   سراپا کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ رہنا، بایں طور کہ  اس کا دل کسی اور طرف متوجہ نہ ہو، یہ نماز کی روح کی حیثیت رکھتا ہے، اور افعال اس کے جسم کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر نماز روح سے خالی ہوگئی تو اس جسم کی طرح ہوجائے گی جس میں روح نہ ہو۔

کیا بندہ کو شرم نہیں آتی کہ اس طرح کی بے روح نماز کے ساتھ  اپنے آقا سے روبرو ہو؟

یہی وجہ ہے کہ ایسی نماز کو بوسیدہ کپڑے کی طرح  لپیٹ کر  ا  نمازی کے چہرے پر مار دیا جائے گیا، اور وہ نماز کہے گی: اللہ تجھے غارت کرے جس طرح تونے مجھے ضائع وبرباد کیا۔

وہ نماز  جس کا ظاہر وباطن کامل ہو وہ بلندی کی طرف چڑھتی ہے  اور اس میں سورج کی طرح نور ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتی ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا اور اسے قبول کرتا ہے، وہ نماز کہتی ہے: اللہ تیری حفاظت کرے جس طرح تونے میری حفاظت کی۔

تیسری خصلت: پیروی اور اقتداء، اس کا مطلب یہ ہے کہ  نمازی پوری کوشش کرے کہ  اپنی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ادا کرے،  جیسے آپ نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح پڑھے، لوگوں نے نماز   میں  اپنی طرف سے جو کمی بیشی کر رکھی ہے اور  جن اعمال وحرکات کا اضافہ کرر کھا ہے جو کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اور نہ کسی صحابی سے، ان سے بچتا رہے،   ان رخصت پسند  لوگوں کے اقوال پر عمل نہ کرے جو  وجوب کے ادنی ترین مقام پر اکتفا کرتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ان کی مخالفت کرتے اور ان کے ساقط کردہ احکام کو واجب ٹھہراتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث بھی  ان کی تائید کرتی ہیں، پھر بھی رخصت پسند حضرات ان سنتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ: (ہم فلاں مذہب کے مقلد ہیں)۔ اس سے اللہ کے نزدیک وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے اور نہ سنت کو جاننے کے بعد اس سے پہلو تہی کرنے کا یہ کوئی معقول عذر ہے، کیوں کہ اللہ پاک نے صرف رسول کی اطاعت اور پیروی کا حکم دیا ہے، ان کے علاوہ کسی اور کی پیروی کاحکم نہیں دیا، بلکہ دوسرے کی پیروی اسی وقت کی جائے جب اس کا حکم رسول کے حکم کے مطابق ہو ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور ترک بھی ۔

اللہ پاک نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکم نہ مان لیں، آپ کے فیصلہ کومانیں اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیں، آپ کے علاوہ کسی اور کا فیصلہ اوراس کی پیروی ہمیں ذرا بھی نفع نہیں دے سکتی اور نہ ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا سکتی ہے، اور ہمارا یہ جواب([92]) اس وقت کچھ کام نہ آئے گا جب ہم  قیامت کے دن اللہ تعالی کی یہ ندا سنیں گے: { مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِين} (تم نے نبیوں کو کیا جواب دیا)۔ اللہ تعالی ہم سے اس بارے میں ضرور سوال کرے گا اور ہم سے جواب طلب کرے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:  {فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِين}

ترجمہ: پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے وحی کی گئی  ہے کہ تمہیں میرے ذریعہ آزمایا جائے گا اور میرے بارے میں سوال کیا جائے گا) ([93])۔یعنی قبر میں سوال کیا جائے گا۔

چنانچہ جس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا علم ہو اور کسی انسان کے قول کی وجہ سے اسے ترک کردے تو (اسے یاد رکھنا چاہئے کہ) قیامت کے دن وہ حساب وکتاب کے مرحلہ سے گزرکے گا اور اپنی غلطی سے آگاہ ہوجائے گا۔

چوتھی خصلت: احسان کی خصلت، یعنی مراقبہ کی خصلت، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس طرح اللہ کی عبادت کرے گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہو، یہ خصلت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اللہ پر اور اس کے اسماء وصفات پر اس قدر کامل ایمان ہو کہ وہ گویا اللہ کو آسمانوں کے اوپر ، فرش پر مستوی دیکھ رہاہو،  جو اپنے اوامر ونواہی کے ذریعہ کلام فرماتا ہے، مخلوق کے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے، حکم اسی کے پاس سےاترتا ہے اور اسی تک  پہنچتا ہے، بندوں کے اعمال اور ان کی وفات کے وقت ان کی روحیں اللہ کے پاس پیش کی جاتی ہیں، وہ ان تمام مناظر کا اپنے دل سے  مشاہدہ کرے، اللہ کے اسماء وصفات کا مشاہدہ کرے، زندہ وجاوید اور سب کو تھامنے  والے (پروردگار) ، سننے اور دیکھنے والے (رب)، غلبہ وحکمت والے (پالنہار)  کا مشاہدہ کرے، جو محبت بھی کرتا اور بغض بھی کرتا ہے، راضی بھی ہوتا اور غصہ بھی ہوتا ہے، جو چاہے انجام دیتا ہے اور جو  چاہے حکم کرتا ہے،   وہ اپنے عرش پر مستوی ہے، بندوں کا نہ کوئی عمل اس سے مخفی ہے، نہ کوئی قول اور نہ ان کے باطنی حالات اس سے پوشیدہ ہیں، بلکہ وہ   آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

احسان ایک ایسی خصوصیت ہے جس پر  تمام تر قلبی اعمال کی بنیاد ہے،  اس سے حیا، تعظیم وتوقیر، خشیت ومحبت، رجوع وانابت، توکل اور اللہ پاک کے سامنے عاجزی وانکساری برتنے کا جذبہ  پیدا ہوتا ہے،  وساوس اور تخیلات کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے، اور دل دماغ  اور تفکر وتامل  اللہ سے وابستہ  ہوجاتے ہیں۔

بندہ کو اللہ کی قربت اسی قدر حاصل ہوتی ہے جس قدر وہ مقام احسان پر فائز ہوتا ہے، اسی کے مطابق نماز کے درجات متعین ہوتے ہیں، یہاں تک کہ دو لوگوں کی نماز کے درمیان  آسمان وزمین کا فرق ہوتاہے،  جب کہ دونوں  کے  قیا م اور رکوع وسجود  یکساں ہوتے  ہیں۔

 پانچویں خصلت:  احسان مندی کی خصلت،  یعنی وہ گواہی دے کہ تمام تر احسانات اللہ پاک کی جانب سے ہیں، اللہ نے ہی اسے اس مقام پر کھڑا کیا، اسے اس کے لائق بنایا، اسے یہ توفیق دی کہ اس کا دل اور اس کا جسم  عبادت الہی میں محو ہوسکے، اگر اللہ پاک نہ ہوتا تو یہ سب ممکن نہ تھا، جیسا کہ صحابہ  کرام  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے  حدی خوانی کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:

والله لو لا الله ما اهتدينا

ولا تصدقنا ولا صلينا

 ترجمہ: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرپاتے اور نہ نماز پڑھ سکتے۔

الله تعالی کا فرمان ہے:

{يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لاَّ تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلاَمَكُم بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِين}

ترجمہ: اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ در اصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو۔

اللہ پاک نے ہی مسلمان کو مسلمان اور نمازی کو نماز ی بنایا، جیسا کہ خلیل علیہ السلام نے فرمایا:

{رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ }

ترجمہ: اے ہمارے رب ! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ ۔

نیز فرمایا: {رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي }

ترجمہ: اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ۔

احسان صرف اور صرف اللہ کا ہے کہ اس نے اپنے بندہ کو عبادت کی توفیق دی، بلکہ یہ اس کے  عظیم ترین انعامات میں سے ہے،  اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّهِ }

ترجمہ: تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: {وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُون}

ترجمہ: لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے۔ یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔

یہ ایک عظیم ترین خصلت ہے جوکہ بندہ کے لیے نہایت مفید ہے، بندہ جس قدر توحید پر کاربند ہوتا ہے اسی قدر اس کے اندر یہ خصلت بھی موجود ہوتی ہے۔

اس خصلت کا فائدہ یہ ہےکہ  وہ دل کے درمیان اور  اپنے عمل پر  خود پسندی کا شکار ہونے کے درمیان حائل ہوتی ہے، کیوں کہ بندہ جب گواہی دیتا ہے کہ اللہ پاک ہی اس کا محسن ہے، اسی نے اسے توفیق اور ہدایت دی ہے، یہ گواہی اسے اس بات سے بے نیاز کردے گی کہ وہ اپنے عمل کو دیکھ کر  خود پسندی کا شکار ہو یا اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی برتری ظاہر کرے، چنانچہ یہ خصلت اس کے دل میں رفعت پیدا کرتی ہے ، لہذا وہ خود پسندی میں مبتلا نہیں ہوتا، اس کی زبان کو درست راہ دکھاتی ہے ، لہذا وہ نہ احسان  جتاتا  اور نہ اس پر فخر کرتا ہے، مقبول ومرفوع عمل کی یہی شان اور پہچان بھی ہے۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ حمد وثنا کو اس کے سزاوار اور  مستحق  (پروردگار)  کی طرف منسوف کرتا ہے، چنانچہ اپنی ذات  کی  حمد وثنا   میں محو نہیں رہتا ، بلکہ اللہ کی حمد وثنا کرتا ہے، اسی طرح تمام تر نعمتوں کو اللہ کی نوازش شمار کرتا ہے، تمام تر فضل واحسان کو اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور یہ اقرار کرتا ہے کہ تمام تر خیر وبھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، یہ  کمال توحید کی علامت  ہے، مقام توحید پر وہ اسی وقت ثابت قدم ہوتا ہے جب اسے اس کا علم ہوتا اور وہ اس کی گواہی دیتاہے،  جب وہ اس سے واقف ہوتا اور  اس مقام پر جم جاتا ہے تو یہ اس کی خوبی بن جاتی ہے،  اور جب یہ اس کے دل کی خصلت بن جاتی ہے تو اس کے اندر اللہ کی محبت وانسیت، اس سے ملنے کا اشتیاق، اس کے ذکر اور اس کی اطاعت سے محظوظ ہونے کا ایسا  جذبہ   پیدا ہوتا ہے  کہ اس کا مقابلہ دنیا کی کسی بھی عظیم ترین نعمت سے  نہیں کیا جاسکتا ۔

انسان کا دل اگر اس سے محروم ہو اور اس کے لیے وہاں تک رسائی کی راہ مسدود ہو تو اس کی زندگی میں کوئی خیر وبھلائی نہیں ہے، بلکہ اس کی حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

{ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُون}

ترجمہ: آپ انہیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی ) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑدیجئے یہ خود ابھی جان لیں گے۔

چھٹی خصلت: خود کو کوتاہ تسلیم کرنے کی خصلت، بندہ فرمان الہی کو بجا لانے کے لیے چاہے انتہائی درجہ کی جد وجہد کیوں  نہ کر لے  اور اپنی پوری طاقت کیوں نہ صرف کردے، وہ بہر حال کوتا ہ ہی رہے گا ،  اللہ پاک کا حق اس پر بڑا عظیم ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ اس کی اطاعت وبندگی اور خدمت اس سے کہیں بڑھ کر کی جائے، اللہ پاک کی عظمت وجلال کا تقاضہ ہے کہ اس کے شایان شان طریقہ سے اس کی عبادت کی جائے۔

اگر بادشاہوں کے خدام اور ان کے غلام ان  کی خدمت کرتے ہوئے تعظیم وتوقیر، ادب واحترام، حیا وحشمت، خوف وہیبت  اور نصح وخیرخواہی سے پیش آتے ہیں، بایں طور کہ اپنے دل  اور اعضاء وجوراح سب ا ن کے لیے یکسو کردیتے ہیں،  تو بادشاہوں کا بادشاہ اور آسمان وزمین کا پالنہار بدرجہ اولی اس کا حق رکھتا ہے کہ اس کےساتھ اس قسم کا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ادب واحترام  برتا جائے۔

بندہ جب اپنے اندر یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس نے کما حقہ اپنے پروردگار کی بندگی کا حق بلکہ اس کے  حق کے قریب بھی  ادا نہیں کیا  ، تو اسے اپنی کوتاہی کا ادراک ہوجاتا ہے، پھر اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ استغفار کرے، اپنی کوتاہی اور تفریط پر  اور اس بات پر معذرت طلب کرے کہ اس نے اللہ کا حق اس طرح ادا نہ کیا جس طرح کرنا چاہئے  تھا، وہ بندہ بندگی کا حق ادا نہ کرنے پر بخشش کا جس قدر محتاج ہوتا ہے ، وہ محتاجگی اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے کہ وہ اس پر ثواب کا مطالبہ کرے،  اگر وہ اس کا حق کما حقہ ادا کربھی دے تو  بندگی  کے بموجب اس پر یہ واجب بھی تھا،  کیوں کہ  غلام کا عمل اور اپنے آقا کی خدمت  اس کے غلام اور ماتحت ہونے کی وجہ سے اس پر واجب ہے،  اگر وہ اپنے آقا سے اپنےعمل اورخدمت کے بدلے اجرت طلب کرے تو لوگ اسے احمق اور بے وقوف قرار دیں گے، جب کہ وہ اس کا حقیقی غلام ہے بھی نہیں، بلکہ وہ حقیقت میں ہر جہت سے  اللہ کا غلام ہے ، چنانچہ اس کاعمل اور خدمت کرنا اس کے غلام ہونے کی وجہ سے اس پر واجب ہے، اگر اللہ تعالی اسے اس پر اجر وثواب سے نوازے تو یہ محض اس کا فضل واحسان ہے ، نہ کہ بندہ کا استحقاق، اس کو سامنے رکھیں تو ہمارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے: ”تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔“ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:مجھے بھی نہیں الا یہ کہ مجھے اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے سائے میں لے لے"([94])۔

اس خصلت   کے چار اصول ومبادی ہیں:  درست نیت، بلند عزم وہمت، ساتھ ہی رغبت وچاہت اور خوف وہیبت۔

یہ چار امور اس خصلت کے اصول ومبادی ہیں، بندہ کے ایمان واحوال اور ظاہر وباطن میں جو بھی کمی آتی ہے، اس کی وجہ ان چار اصول ومبادی کی کمی یا ان میں سے بعض کی کمی ہوتی ہے۔

عقلمند انسان کو ان چاروں چیزوں پر  غور کرنا چاہئے ، انہیں  اپنا طرز حیات اور اسلوب زندگی بنانا چاہئے، ان پر ہی اپنے علوم ومعارف، اعمال واقوال اور حالات وکوائف کی بنیاد رکھنی چاہئے،  جو  لوگ بھی صالحیت کے بلند  مقام پر پہنچے، وہ  ان کی بنیاد پر ہی پہنچے،  اور جو اس سے پیچھے رہ گئے وہ ان امور کے مفقود ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔

والله أعلم، والله المستعان وعليه التكلان، وإليه الرغبة، وهوالمسئول بأن يوفقنا وسائر إخواننا من أهل السنة لتحقيقها علما وعملا، إنه ولي ذلك والمان به، وهو حسبنا ونعم الوكيل([95]).


 خاتمہ:

نماز رزق لانے والی، صحت کی محافظ ، تکالیف دور کرنے والی او رمقوی قلب ہے، نیز چہرے  کو روشن کرتی او ر طبیعت کو فرحت بخشتی ہے، کاہلی  کو دور کرکے تمام اعضاء میں نشاط لاتی ہے،  قوتوں کو بڑھاتی  اور شرح صدر کرتی ہے، نیز روح کے لیے غذا ہے ، قلب کو روشن کرتی ، انعامات کی محفافظ ، عذاب کو دفع کرنے والی ، حصول برکت کا ذریعہ  ،   شیطان سے دور کرنے والی اور  رحمن سے قریب کرنے والی ہے۔

مختصر یہ کہ جسم ودل کی صحت اور دونوں کی قوتوں کی حفاظت میں اور ان سے خسیس مواد کو دور کرنے میں نما ز کا بڑا اثر ہے،   دو شخص جب کسی آفت ومصیبت، یا آزمائش  کے شکار ہوتے ہیں، تو ان میں سے جو نماز ی ہوتا ہے اس کی آفت ومصیبت دوسرے کے مقابلے میں کم اور اس کا انجام زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔

دنیاوی تکالیف کو دور کرنے میں نماز کا  ایک عجیب وغریب اثر ہے، خصوصا اس وقت جب کہ اس کے تمام ظاہری وباطنی  حقوق  ادا کیے جائیں ، دنیا وآخرت   کی تکالیف کو دور کرنے اور دونوں جہان کی خیر وبھلائی حاصل کرنے کا  کوئی طریقہ نماز کی طرح کارگر نہیں ہے([96])۔

آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: اس کا راز یہ ہےکہ نماز اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ تعلق پیداکرتی ہے اور اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ بندے کا جتنا زیادہ تعلق ہوگا اتنے ہی اس پر خیر کے دروازے کھلتے جائیں گے اور تکالیف کے دروازے بند ہوتے جائیں گے اور اس کے لیےرب کی جانب سے  توفیق الہی  ، عافیت وسلامتی اور صحت وتندرستی، غنیمت ومالداری، راحت ونعمت اور فرحت ومسرت کے اسباب مہیا ہونے لگتے ہیں اور یہ تمام نعمتیں اس کی قدم بوسی کرنے لگتی ہیں([97])۔



([1]) اسے بخاری (۸) اور مسلم (۱۶) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔

([2]) اس حدیث کو ترمذی (۲۶۱۶) نے روایت کیا ہے اور کہا کہ : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

([3]) اس حدیث کو ابن ماجہ (۱۶۲۵) اور احمد (۶/۲۹۰) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الإرواء" (۷/۲۳۸) میں اسے صحیح کہا ہے۔

([4]) اس حدیث کو ابوداود (۸۶۴) اور احمد (۲/۴۲۵) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابو داود کے روایت کردہ ہیں، اور البانی رحمہ الله اور  "المسند" کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

([5]) اسے احمد (۵/۲۵۱) اور ابن حبان (۶۷۱۶) نے ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے اس کی سند کو جیّد کہا ہے۔

آپ کا فرمان: (سب سے پہلے ٹوٹنے والا بندھن حکومت ہے) یعنی: سب سے پہلے جو بندھن ٹوٹے گا وہ یہ کہ طرز حکومت اور حاکموں میں بگاڑ آجائے گی، میرا کہنا ہے: ہمارے زمانے میں یہ فساد وبگاڑ واضح اور نمایاں ہے، چنانچہ مسلم ممالک  میں جو  نظامہائے  حکومت رائج   ہیں  وہ انسانوں کے وضع کردہ  ہیں  ، بہت کم ہی ممالک ہیں جہاں اسلامی نظام حکومت نافذ ہے، والى اللہ المشتکى۔

([6])[النساء:103]، اس آیت میں:{مَوْقُوتًا}  کا مطلب ہے: مکتوبا، جو یہاں پر فرض اور واجب کے معنی میں ہے۔ اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے:{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون} اس آیت کی تفسیر میں یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جیسا کہ ابن جریر الطبری نے ان سے روایت کیا ہے۔

([7]) اسے بخاری (۸) اور مسلم (۱۶) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں، جیسا کہ گزر چکا ہے۔

([8]) ذمہ سے مراد حفاظت ونگہبانی کا وعدہ ہے۔ دیکھیں: "المعجم الوسیط"

([9]) اسے بخاری (۳۹۱) نے روایت کیا ہے۔

([10]) اسے احمد (۵/۲۳۸) نے روایت کیا ہے اور اس کے شواہد کی بنیاد پر البانی نے  اسے "إرواء الغلیل" (۲۰۲۶) میں صحیح کہا ہے۔

([11]) اسے امام احمد (۲/۱۶۹) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

([12]) آپ محمد بن ابی بکر بن سعد زرعی دمشقی ہیں  جو ابن قیم الجوزیہ کے نام سے معروف ہیں،  آپ آٹھویں صدی کے بلند پایہ عالم تھے۔ مسلسل اپنے استاذ ابن تیمیہ کی صحبت میں رہے، یہاں تک کہ 728ھ میں ان کی وفات ہو گئی۔ ابن قیم اپنے استاذ کے بڑے اور نامور شاگردوں میں سے تھے۔ استاذ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے دعوت اور علمی جہاد کا محاذ سنبھالا، یہاں تک کہ 751ھ میں وفات پا گئے۔ ان کا علم وسیع، ان کی دلیل قوی  اور استنباط  لطیف  ہوتا تھا۔ ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں، ان کی مولفات تمام حلقوں میں مقبول ہیں۔ بعد کے لوگوں نے ان کے علم سے خوب استفادہ کیا اور ان پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ ہمیشہ صحیح اسلامی عقیدے کی نصرت و حمایت کے لئے سینہ سپر رہے۔ اپنے  منثور  اور منظوم کلام کے ذریعہ اہل بدعات کا رد کیا، خاص طور پر اہل فلسفہ، قبر پرستوں، اللہ کے اسماء و صفات کے باب میں تاویل کرنے والوں اور اہل تصوف کے رد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت کی بارش برسائے۔ انہوں نے اور ان کے استاذ ابن تیمیہ نے  دین الہی کی تجدید کا فریضہ انجام دیا۔ دونوں امت اسلامیہ کی زندگی میں تاریخی موڑ ثابت ہوئے۔ ان کے مفصل حالات زندگی کے لئے دیکھئے ابن العماد کی ”شذرات الذھب“ اور ابن رجب کی ”ذیل طبقات الحنابلۃ“ ۔ شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ نے ان کے سوانح نگاروں کی علمی کاوشوں کو اپنی کتاب ”ابن قیم الجوزیۃ حیاتہ و آثارہ“ میں جمع کر دیا ہے۔

([13]) "کتاب الصلاۃ وحکم تارکھا" ص: ۷۰، تارک نماز کو کافر گرداننے والوں کے دلائل کے سیاق میں یہ قول مذکور ہے۔

([14]) یعنی ان نمازوںمیں سے کسی نماز کو بالکلیہ ترک نہ کرے۔

([15]) اس حدیث کو ابو داود (۱۴۲۰) اور احمد (۵/۳۱۵) نے روایت کیا ہے اور البانی اور "المسند" کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

([16]) اس حدیث کو ابوداود (۸۶۴) اور احمد (۲/۴۲۵) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابو داود کے روایت کردہ ہیں، اور البانی رحمہ  اللہ اور  "المسند" کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے۔

([17]) اس حدیث کو ابن ماجہ (۱۶۲۵) اور احمد (۶/۲۹۰) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الإرواء" (۷/۲۳۸) میں اسے صحیح کہا ہے۔

([18]) اس حدیث کو ابن ماجہ (۲۷۷) اور احمد (۵/۲۷۷) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الإرواء" میں حدیث نمبر (۴۱۲) کے تحت صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح "المسند" کے محققین نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔

([19]) اسے بخاری (۵۷۴) اور مسلم (۶۳۵) نے روایت کیا ہے۔

([20]) صحیح مسلم (۶۳۴)

([21]) یعنی ایسے گناہ جن کا تعلق بندہ اور اس کے رب سے ہے، جسے شراب نوشی یا حرام گانا بجانا وغیرہ، البتہ وہ گناہ جس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو اس کی معافی کے لیے ضروری ہے کہ حق دار سے معافی تلافی کرائی جائے، خواہ وہ حق مال سے متعلق ہو یا عزت وناموس سے یا خون سے۔

([22]) اسے بخاری (۴۶۸۷) اور مسلم (۲۷۶۳) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روايت كرده   ہیں۔

([23]) صحیح مسلم (۲۳۳)

([24]) صحیح مسلم (۶۶۷)

([25]) اسے بخاری (۴۸۵۱) اور مسلم (۶۳۳) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری  کے روایت کردہ ہیں۔

([26]) دیکھیں: النہایۃ، مادۃ: ضمم

([27]) اس قول کو ابن جریر الطبری نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے۔

([28]) اس حدیث کو بخاری (۵۵۳) نے روایت کیا ہے۔

([29]) اس حدیث کو بخاری (۵۹۷۰) اور مسلم (۸۵) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔

([30]) دیکھیں: تفسیر ابن کثیر، سورۃ الماعون

([31]) اس اثر کو ابو یعلی (۷۰۴) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کو منذری نے "الترغیب والترھیب" ، کتاب الصلاۃ، باب الترھیب من ترک الصلاۃ متعمدا میں اور البانی نے "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۷۶) میں حسن قرار دیا ہے۔

([32]) دیکھیں: "مدارج السالکین" ، منزلۃ الخشوع

([33]) اسے بخاری (۵۵۲) اور مسلم (۶۲۶) نے روایت کیا ہے۔

([34]) ایک شخص نے ذکر کیا کہ وہ ایک دفعہ عصر کی نماز کے وقت سوگیا، تو خواب میں دیکھا کہ وہ سفر میں ہے اور اس کے پاس ایک نئی کار ہے جس میں اس کے اہل خانہ بھی سوار ہیں، چنانچہ وہ کسی کام سے کار سے اترا اور اسی درمیان ایک چور نے وہ کار اہل خانہ سمیت چوری کر لی۔ ان کا بیان ہے: پھر میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اس خواب کو اسی حدیث سے تعبیر کیا۔

([35]) اس حدیث کو بخاری (۵۵۳) نے روایت کیا ہے۔

فائدہ:  یہ معلوم بات ہے کہ کلی طور پر اعمال کو غارت کرنے والا عمل صرف کفر اکبر ہے جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے،   اسی بنا پر اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ: جو شخص جان بوجھ کر بالقصد  نماز کو اس کے وقت مقررہ سے مؤخر کرے وہ  کفر کا مرتکب ہے، اللہ کی پناہ،  ان کی دلیل بریدۃ کی مذکورہ حدیث  ہے ، نیز یہ حدیث بھی ان کی دلیل ہے کہ : (ہمارے درمیان اور ان (کافروں) کے درمیان جو عہد ہے، وہ نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا)۔  اس حدیث میں (ہمارے درمیان اوران کے درمیان ) سے مراد : مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہے۔ راجح قول کے مطابق وہ کافر  ہو  یا نہیں،   یہ تو طے ہے کہ اس کے اعمال غارت ہوجاتے ہیں، خواہ وہ اپنے ایمان پر برقرار ہی کیوں نہ رہے، جوکہ معمولی بات نہیں ہے، اس لیے ان لوگوں کو اللہ سے  خوف کھانا چاہیے  جو کام کاج میں مصروف رہتے ہیں او رنماز کو مؤخر کردیتے ہیں، یا دیر رات تک شب باشی کرتے ہیں ، اس کے بعد سوجاتے اور نماز فجر کے لیے بیدا ر نہیں ہوتے۔اکثر لوگوں کی  عادت بن چکی ہے کہ وہ  اپنی ڈیوٹی ٹائم کے مطابق الارم لگاتے ہیں ، جوکہ  عموما  نماز فجر اور طلوع آفتاب کے بعد کا وقت ہوتا ہے،  اور جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو فجر کی قضا کرتے ہیں، جبکہ اس کی قضا درست ہوگی یا نہیں، یہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے، واللہ المستعان۔

([36]) یعنی اس سے غافل ہوجاتا، چنانچہ نہ اس کے احکام سیکھتا اور نہ اس کے مطابق عمل کرتا۔

([37]) اس حدیث کو بخاری (۷۰۴۷) نے روایت کیا ہے۔

([38]) یعنی اس کے سر کے  پچھلے حصہ پر، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اتنی گہری اور لمبی نیند میں چلا جاتا ہے کہ گویا اس کے سر پر تین گرہیں لگا دی گئی ہوں۔ دیکھیں: "النہایۃ"

([39]) اس حدیث کو بخاری (۱۱۴۲) اور مسلم (۷۷۶) نے روایت کیا ہے۔

([40]) اس قول کو ابو نعیم نے "حلیۃ الأولیاء" (۷۳۵۱) میں روایت کیا ہے، ناشر: دار الکتب العلمیۃ-بیروت

([41]) اس حدیث کو بخاری (۶۴۷) اور مسلم (۶۴۹) نے اس کا ایک ٹکڑا روایت کیا ہے۔

([42]) اس حدیث کو مسلم (۶۵۴) نے روایت کیا ہے۔

([43]) اس حدیث کو بیہقی نے اپنی کتاب "الأسماء والصفات" (۷۹۳) میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا۔ اس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا...الحدیث، اس روایت کو کتاب کے محقق عبد اللہ الحاشدی نے صحیح کہا ہے۔

دونوں احادیث کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، کیوں کہ مذکورہ سائے کی اضافت عرش کی طرف بھی جائز ہے اور اللہ تعالی کی طرف بھی جائز ہے، ملکیت اور اعزاز کے معنی میں۔

([44]) اس حدیث کو بخاری (۶۸۰۶) اور مسلم (۱۰۳۱) نے روایت کیا ہے۔

([45]) اسے بخاری (۶۶۲) اور مسلم (۶۶۹) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔

([46]) دیکھیں: "النہایۃ" ، اسی طرح ملاحظہ کریں: "فتح الباری" لابن حجر میں مذکورہ حدیث کی شرح ۔

([47]) اس حدیث کو بخاری (۷۲۲۴) اور مسلم (۶۵۱) نے روایت کیا ہے۔

([48]) اس حدیث کو ابن ماجہ (۷۹۳) وغیرہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الإرواء" (۲/۳۳۷) میں اسے صحیح کہا ہے۔

([49]) صحیح مسلم (۶۵۳)

([50]) اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے رجوع کریں: "أھمیۃ الصلاۃ فی ضوء النصوص وسیر الصالحین" تالیف: فضل الہی ظہیر، ناشر: مؤسسۃ الجریسی-ریاض

([51]) صحیح مسلم (۸۶۵)

([52])  صحیح مسلم (۴۴۰)

([53]) صحیح مسلم (۴۳۹)

([54]) صحیح بخاری(۶۱۵) اور صحیح مسلم (۴۳۷)

([55]) اس حدیث کو ابو داود (۶۶۴) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

([56]) اسے نسائی (۸۱۶) اور ابن ماجہ (۹۹۶) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

([57]) صحیح مسلم (۴۳۸)

([58]) اس حدیث کو ابو داود (۶۷۹) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

تنبیہ: حدیث کا تتمہ یوں ہے: " اللہ انہیں جہنم میں بھی پیچھے کردے گا"۔ لیکن شیخ البانی نے اس اضافہ کو ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے میں نے ذکر نہیں کیا ،دیکھیں: "السلسلۃ الضعیفۃ" (۶۴۴۲)

([59]) آپ امام  وحافظ اور فقیہ العراق ہیں، حدیث کے راویوں میں سے ہیں، آپ کی وفات سنہ ۹۶ھ میں ہوئی، آپ کی سوانح کے لیے رجوع کریں: "سیر أعلام النبلاء" (۴/۵۲۰)

([60]) اس قول کو حافظ ابو نعیم الأصبہانی نے "حلیۃ الأولیاء" (۵۴۸۹) میں روایت کیا ہے، تحقیق: مصطفى عبد القادر، ناشر: دار الکتب العلمیۃ-بیروت

([61]) صحیح بخاری (۷۵۷) اور صحیح مسلم (۳۹۷)

([62]) اس واقعہ کو محمد بن نصر مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" ، باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ ، رقم (۹۴۰) میں روایت کیا ہے۔

([63]) اس حدیث کو امام نسائی (۱۱۱۱) اور ابن ماجہ (۱۴۲۹) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

(درندے کی طرح بازو بچھانے سے منع فرمایا) اس کا مطلب ہے کہ سجدہ کی حالت میں اپنے بازو زمین پر پھیلادے، جبکہ مشروع طریقہ یہ ہے کہ صرف ہتھیلیوں کو پھیلاکر رکھے اور بازوؤں کو زمین سے اٹھا کر رکھے۔

سندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اور آدمی نماز کے لیے ایک ہی جگہ مقرر کرلے...) یعنی مسجد میں ایک خاص جگہ مقرر کرلے اور جب بھی  نماز پڑھنی ہو تو اسی جگہ پڑھے، بالکل اونٹ کی طرح  جو ہمیشہ اپنی پرانی جگہ پر ہی بیٹھتا ہے۔انتہی

([64]) صحیح مسلم (۸۶۹)

([65]) "کتاب الصلاۃ وحکم تارکھا" فصل: قول المطولین للصلاۃ، ص۳۳۹-۳۴۰ معمولی تصرف کے ساتھ

([66]) دیکھیں: شرح النووی لصحیح مسلم، کتاب الإیمان‘ مقدمۃ باب "بیان إطلاق اسم الکفر على من ترک الصلاۃ"

([67]) "کتاب الصلاۃ" ص۶۰، تارک صلاۃ کو کافر قرار دینے والوں کے دلائل کے بیان میں

([68]) سابق مرجع، ص۵۹

([69])  اس حدیث کو ترمذی (۲۶۲۱)، نسائی (۴۶۲)، ابن ماجہ (۱۰۷۹)، ابن حبان (۱۴۵۴)، احمد (۵/۳۴۶) اور لالکائی نے "شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ" (۱۵۲۰) نے باب الصلاۃ من الإیمان میں روایت کیا ہے، البانی نے کتاب "الإیمان" لابن ابی شیبۃ (۴۶) کی تعلیق  میں لکھا ہے کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ابن القیم نے بھی "کتاب الصلاۃ" کے اندر یہی حکم ذکر کیا ہے، دیکھیں: تارکِ صلاۃ کو کافر قراردینے والوں کے دلائل کا سیاق، ص۶۸، نیز ابن تیمیہ نے بھی "مجموع الفتاوی" (۷/۵۱۳) میں اس حدیث کو صحیح  کہا ہے۔

([70]) اس حدیث کو امام مسلم (۸۲) نے روایت کیا ہے، اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی تقریبا مذکورہ الفاظ کے ساتھ ہی اس حدیث کو روایت کیا ہے، جیسے ابو داود (۴۶۷۸)، ترمذی (۲۶۱۸-۲۶۲۰)، نسائی (۴۶۳)، ابن ماجہ (۱۰۷۸)، احمد (۳/۳۷۰) اور لالکائی نے "شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ" (۱۵۱۳-۱۵۱۷)  میں  باب الصلاۃ من الإیمان  کے تحت  روایت کیا ہے، دیکھیں: "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۶۳)۔

([71]) اس حدیث کو لالکائی نے "شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ" میں روایت کیا ہے اور فرمایا کہ: اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور البانی نے "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۶۶) میں اسے ذکر کیا ہے۔

([72])  اسے مالک نے "الموطأ" کے اندر کتاب الطھارۃ ، باب العمل فیمن علیہ الدم من جرح أو رعاف میں، لالکائی (۱۵۲۸، ۱۵۲۹) نے اور مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" کے اندر  باب إکفار تارک الصلاۃ (۹۳۰) میں روایت کیا ہے۔

([73]) مروزی نے اسے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب إکفار تارک الصلاۃ (۹۳۰) کے تحت روایت کیا ہے۔

([74]) اس قول کو اور اس سے ماقبل کے قول کو مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ (۹۳۳، ۹۳۴) کے تحت روایت کیا ہے۔

([75]) اسے لالکائی (۱۵۳۷) اور مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ کے تحت روایت کیا ہے۔

([76])اسے لالکائی (۱۵۳۸) اور مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ کے تحت روایت کیا ہے۔

([77]) اسے لالکائی (۱۵۳۲) نے روایت کیا ہے۔

([78]) اسے مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ (۹۳۶) کے تحت روایت کیا ہے اور ابن ابی شیبۃ نے کتاب "الإیمان" (۴۷) میں روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۷۴) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

([79]) اسے لالکائی (۱۵۳۶) اور ابن نصر مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ (۹۴۵) کے تحت روایت کیا ہے البتہ ان کی روایت میں آخری جملہ نہیں ہے اور البانی نے "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۷۵) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

([80]) اسے امام ترمذی (۲۶۲۲) اور مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" میں باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ (۹۴۸) کے تحت روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الجامع" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیں ان کی تعلیق: "صحیح الترغیب والترھیب" (۵۶۵)

([81])"شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ" (۱۵۰۲) ، نیز دیکھیں: (۱۵۳۹)

([82]) اس قول کو محمد بن نصر مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ" باب ذکر النھي عن قتل المصلین (۹۹۰) میں اور ابن عبد البر نے "التمھید"، کتاب صلاۃ الجماعۃ ، باب إعادۃ الصلاۃ مع الإمام میں روایت کیا ہے، نیز یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ: اگر اسے قضا کرنے سے انکار کرے اور کہے کہ: میں نماز نہیں پڑھوں گا۔

([83]) اسے مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ"، باب ذکر إکفار تارک الصلاۃ (۹۱۹) میں روایت کیا ہے۔

([84]) اس قول کو اور اس سے ما قبل کے قول کو مروزی نے "تعظیم قدر الصلاۃ"، باب النھي عن قتل المصلين (۹۷۸-۹۷۹) میں روایت کیا ہے۔

([85]) "الترغیب والترھیب" ، کتاب الصلاۃ، ختام باب الترھیب من ترک الصلاۃ متعمدا.

([86]) "المحلى" لابن حزم (۱/۱۵۲-۱۵۲) ، مسئلہ (۲۷۹)

([87]) آپ امام، شیخ الاسلام، حافظ اور شافعی فقیہ ہیں، آپ کی وفات سنہ ۲۹۴ھ میں ہوئی، آپ کی سوانح کے لیے دیکھئے: "سیر أعلام النبلاء" (۴/۳۳)

([88]) "تعظیم قدر الصلاۃ، باب ذکر النهي عن قتل المسلمین وإباحۃ قتل من لم یصل، اثر نمبر (۱۰۰۲) کے بعد۔

([89]) "کتاب الصلاۃ وحکم تارکھا" ص۶۳، تارک صلاۃ کو کافر گرداننے والوں کی دسویں دلیل کے بعد۔

([90]) یعنی جس جانور کو وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اس کا کھانا حرام ہے، خواہ اس پر اللہ کا نام لے یا نہ لے۔

([91]) اس حدیث کو بخاری (۶۷۶۴) اور مسلم (۱۶۱۴) نے اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔

([92]) یعنی یہ جواب کہ : (ہم فلاں مذہب کے مقلد ہیں)

([93]) اس حدیث کو خطابی نے "غریب الحدیث" میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، اس کا تکملہ یوں ہے: (اگر وہ نیک شخص ہوگا تو اسے قبر میں بیٹھایا جائے گا اور اسے خوف وہراس لاحق نہ ہوگا)۔

([94]) اس حدیث کو بخاری (۶۴۶۳) اور مسلم (۲۸۱۶) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مذکورہ الفاظ ہی کی طرح روایت کیا ہے۔

([95]) "رسالۃ ابن القیم إلى أحد إخوانہ" ص۳۴-۴۶، معمولی اختصار کے ساتھ، مقدمہ: شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ ، تحقیق: عبد اللہ بن محمد المدیفر

([96]) مؤلف -اللہ ان کی مغفرت فرمائے -کا کہنا ہے: یہی وجہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی غم لاحق ہوتا تو آپ نماز پڑھنے لگتے"۔ اس حدیث کو ابوداود (۱۳۱۹) نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

([97]) "زاد المعاد" (۴/۳۳۲)