نواقض اسلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں،اور درود و سلام ہوں اس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس کے خاندان، اس کے اصحاب اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے والوں پر۔حمد وصلاۃ کے بعد:اے مسلمان! جان لے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام بندوں پر اسلام قبول کرنا، اس پر قائم رہنا اور ہر اس شے سے بچنا واجب کیا ہے جو اس کے مخالف ہو۔اور اللہ نے اپنے نبی محمد ﴾ کو اس کی طرف دعوت دینے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔اور ساتھ ہی اللہ عزّوجلّ نے اس بات کی خبر دی کہ جس نے آپ ﷺ کی پیروی کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے آپ ﷺ سے رو گردانی کی وہ گمراہ ہو گیا۔اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں ارتداد کے اسباب نیز ہر قسم کے شرک اور کفر سے ڈرایا ہے۔مرتد کے حکم میں علماء رحمھم اللہ نے یہ بات ذکر کی ہے کہ ارتداد کی بہت ساری قسمیں ہیں جس سے ایک مسلمان دین اسلام سے مرتد ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا خون اور اس کا مال حلال ہو جاتا ہے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ان میں سے دس نواقض ایسے ہیں جو بہت سنگین وخطرناک اور بہت زیادہ پیش آنے والے ہیں جنہیں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے ذکر کیا ہے۔ اللہ ان سب پر رحم فرمائے۔ذیل میں ہم انھیں اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتے تاکہ آپ اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کریں اس مید کے ساتھ کہ وہ ان سے سلامت اور محفوظ رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ وضاحتی باتیں بھی ہوں گی جنہیں ہم ان کے بعد ذکر کریں گے۔اوّل:دس نواقض میں سے یہ بھی ہے:اللہ کی عبادت میں شرک کرنا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔)نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾ (ترجمہ: یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا۔)شرک میں مُردوں سے دعا کرنا، ان سے مدد طلب کرنا، ان کے لئے نذرونیاز وذبیحہ پیش کرنا شامل ہے جیسے کوئی شخص جنات اور صاحب قبر کے لئے ذبح کرے۔دوم:جو شخص اپنے اور اللہ کے مابین غیر اللہ کو واسطہ ووسیلہ بناتا ہے، ان سے دعا مانگتا ہے، ان سے شفاعت کا طلب گار ہوتا ہے اور ان پر توکل کرتا ہے (جس نے ایسا کیا) وہ بالاجماع کافر ہو جاتا ہے۔سوم:جو مشرکین کو کافر قرار نہیں دیتا یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے یا پھر ان کے مذہب کو صحیح قرار دیتا ہے تو (جس نے ایسا کیا) اس نے کفر کیا۔چہارم:جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کا طریقۂ کار زیادہ کامل ہے یا پھر آپ ﷺ کے فیصلے کی بجائے کسی غیر کا فیصلہ زیادہ بہتر اور افضل ہے۔جیسے وہ لوگ جو طاغوتوں کے فیصلے کو آپ ﷺ کے فیصلے پر ترجیح دیتے ہیں۔ پس ایسا شخص کافر ہے۔پنجم:جو رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں سے کسی حکم کو ناپسند کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے اگرچہ وہ بظاہر اس پر عمل بھی کرے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ﴾ (ترجمہ: یہ اس لئے کہ وه اللہ کی نازل کرده چیز سے ناخوش ہوئے، پس اللہ تعالیٰ نے (بھی) ان کے اعمال ضائع کر دیئے)ششم:جو شخص رسول اللہ ﷺ کے دین میں سے کسی حکم کا یا پھر اس پر ملنے والے ثواب یا سزا کا مذاق اڑاتا ہے۔اور اس بات کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ﴾ (ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟)﴿لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (ترجمہ: تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے)ہفتم: جادو۔ ﴿صَرف﴾ (دلوں کو پھیرنا) اور ﴿عَطف﴾ (دل میں جھکاؤ اور میلان پیدا کرنا) بھی جادو ہی کی ایک قسم ہے۔ جو شخص جادو کرتا ہے یا پھر اسے اچھا خیال کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔اور اس بات کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ (ترجمہ: وه دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر)ہشتم:مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی پشت پناہی اور مدد کرنا۔جس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾(ترجمہ: تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وه بےشک انہی میں سے ہے، ﻇالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راه راست نہیں دکھاتا)نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی اس کی دلیل ہے کہ:﴿فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (ترجمہ: پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا)نہم:وہ شخص کافر ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بعض لوگ محمد ﷺ کی شریعت کی پابندی سے نکل سکتے ہیں جیسا کہ خضر علیہ السلام موسی علیہ السلام کی شریعت کے پابند نہیں تھے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْأِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)دہم:اللہ کے دین سے اعراض کرنا بایں طور کہ نہ تو اسے سیکھے اور نہ اس پر عمل کرے۔اس بات کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ومن أظلم ممن ذٌكر بآيات ربه ثم أعرض عنها إنا من وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآياتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ﴾ (ترجمہ: اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں)مذکورہ نقواضِ اسلام کا مرتکب مرتد کہلائے گا چاہے اس کا ارتکاب مذاق واستہزاء میں ہوا ہو یا سنجیدگی میں، البتہ مُکرہ (مجبور) شخص مرتد نہیں ہوگا، یہ نواقضِ اسلام بہت ہی زیادہ سنگین اور کثرت سے وقوع ہونے والے ہیں۔چنانچہ مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان سے بچے اور اس بات سے ڈرتا رہے کہ کہیں وہ ان کی زد میں نہ آ جائے۔ ہم اللہ کے غضب کا باعث بننے والی اشیاء اور اس کے دردناک عذاب سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔وَصَلَّى اللهُ عَلَى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ، وَآلِه وَصَحْبِهِ وَسَلِّمْ۔
ہفتم: جادو۔ ﴿صَرف﴾ (دلوں کو پھیرنا) اور ﴿عَطف﴾ (دل میں جھکاؤ اور میلان پیدا کرنا) بھی جادو ہی کی ایک قسم ہے۔ جو شخص جادو کرتا ہے یا پھر اسے اچھا خیال کرتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
اور اس بات کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ (ترجمہ: وه دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر)
ہشتم:
مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی پشت پناہی اور مدد کرنا۔
جس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾(ترجمہ: تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وه بےشک انہی میں سے ہے، ﻇالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راه راست نہیں دکھاتا)
نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی اس کی دلیل ہے کہ:
﴿فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (ترجمہ: پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا)
نہم: وہ شخص کافر ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بعض لوگ محمد ﷺ کی شریعت کی پابندی سے نکل سکتے ہیں جیسا کہ خضر علیہ السلام موسی علیہ السلام کی شریعت کے پابند نہیں تھے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْأِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)
دہم: اللہ کے دین سے اعراض کرنا بایں طور کہ نہ تو اسے سیکھے اور نہ اس پر عمل کرے۔
اس بات کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ومن أظلم ممن ذٌكر بآيات ربه ثم أعرض عنها إنا من وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآياتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ﴾ (ترجمہ: اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں)
مذکورہ نقواضِ اسلام کا مرتکب مرتد کہلائے گا چاہے اس کا ارتکاب مذاق واستہزاء میں ہوا ہو یا سنجیدگی میں، البتہ مُکرہ (مجبور) شخص مرتد نہیں ہوگا، یہ نواقضِ اسلام بہت ہی زیادہ سنگین اور کثرت سے وقوع ہونے والے ہیں۔
چنانچہ مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان سے بچے اور اس بات سے ڈرتا رہے کہ کہیں وہ ان کی زد میں نہ آ جائے۔ ہم اللہ کے غضب کا باعث بننے والی اشیاء اور اس کے دردناک عذاب سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔
وَصَلَّى اللهُ عَلَى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ، وَآلِه وَصَحْبِهِ وَسَلِّمْ۔
یہاں پر شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہو ہوتا ہے۔
نواقض اسلام کی چوتھی قسم میں یہ باتیں بھی شامل ہیں:جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ لوگوں کے وضع کردہ نظام اور قوانین اسلامی شریعت سے افضل ہیں۔یا پھر یہ عقیدہ رکھے کہ یہ قوانین اسلامی شریعت کے ہم پلہ ہیں اور فیصلے کے لئے ان کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے اگرچہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعتقاد رکھے کہ اسلامی قانون کی رو سے فیصلہ کرنا افضل ہے یا پھر یہ سمجھے کہ اسلامی نظام کی بیسویں صدی میں تطبیق نہیں ہو سکتی یا یہ مسلمانوں کی پسماندگی کا باعث ہے یا پھر یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام کا دائرۂ کار بندے کے اپنے رب کے ساتھ تعلق تک محدود ہے اور دیگر امور حیات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔چوتھی قسم میں یہ باتیں بھی شامل ہیں:جو شخص یہ رائے رکھتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنے اور شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کے الٰہی حکم کا نفاذ دور جدید سے مناسبت نہیں رکھتا۔اسی طرح اس (چوتھی) قسم میں یہ بھی شامل ہیں:ہر وہ شخص جو عقیدہ رکھے کہ معاملات و حدود اور دیگر امور میں اللہ کی شریعت کے بجائے کسی اور نظام قانون کی رو سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے اگرچہ وہ اسے شریعت کے فیصلے سے افضل خیال نہ کرے۔کیونکہ اس نے اس طرح سے ایک ایسی شے کو جائز کر لیا جس کے بارے میں اجماع ہے کہ اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔جو شخص بھی کسی ایسی شے کو جائز ٹھہراتا ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور دین میں جس کے حرمت بدیہی طور پر معلوم ہے جیسے زنا، شراب، سود اور اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور قانون سے فیصلہ کرنا، تو ایسے شخص کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ایسے کاموں کی توفیق دے جو اس کی رضا کا موجب ہوں اور ہمیں اور تمام مسلمانوں کو راہ راست پر چلائے۔بے شک وہ سننے والا اور بہت قریب ہے۔وَصَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّد، وَآلِه وَصَحْبِهِ۔
جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ لوگوں کے وضع کردہ نظام اور قوانین اسلامی شریعت سے افضل ہیں۔
یا پھر یہ عقیدہ رکھے کہ یہ قوانین اسلامی شریعت کے ہم پلہ ہیں اور فیصلے کے لئے ان کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے اگرچہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعتقاد رکھے کہ اسلامی قانون کی رو سے فیصلہ کرنا افضل ہے یا پھر یہ سمجھے کہ اسلامی نظام کی بیسویں صدی میں تطبیق نہیں ہو سکتی یا یہ مسلمانوں کی پسماندگی کا باعث ہے یا پھر یہ عقیدہ رکھے کہ اسلام کا دائرۂ کار بندے کے اپنے رب کے ساتھ تعلق تک محدود ہے اور دیگر امور حیات میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔
چوتھی قسم میں یہ باتیں بھی شامل ہیں:
جو شخص یہ رائے رکھتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنے اور شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کے الٰہی حکم کا نفاذ دور جدید سے مناسبت نہیں رکھتا۔
اسی طرح اس (چوتھی) قسم میں یہ بھی شامل ہیں:
ہر وہ شخص جو عقیدہ رکھے کہ معاملات و حدود اور دیگر امور میں اللہ کی شریعت کے بجائے کسی اور نظام قانون کی رو سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے اگرچہ وہ اسے شریعت کے فیصلے سے افضل خیال نہ کرے۔
کیونکہ اس نے اس طرح سے ایک ایسی شے کو جائز کر لیا جس کے بارے میں اجماع ہے کہ اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔
جو شخص بھی کسی ایسی شے کو جائز ٹھہراتا ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور دین میں جس کے حرمت بدیہی طور پر معلوم ہے جیسے زنا، شراب، سود اور اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور قانون سے فیصلہ کرنا، تو ایسے شخص کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ایسے کاموں کی توفیق دے جو اس کی رضا کا موجب ہوں اور ہمیں اور تمام مسلمانوں کو راہ راست پر چلائے۔
بے شک وہ سننے والا اور بہت قریب ہے۔
وَصَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّد، وَآلِه وَصَحْبِهِ۔
***