یوم عاشورا کا اسلامی طریقہ اورجاہلوں کا طرزِعمل
وصف
زیرنظر مقالہ میں یومِ عاشوراء(دسویں محرّم) کا صحیح اسلامی طریقہ بیان کرکے بعض نام نہاد اہل سنت والجماعت مسلمانوں اور روافض شیعہ کے جاہلانہ طرز عمل سے پردہ اٹھا گیا ہے۔
- 1
یوم عاشورا کا اسلامی طریقہ اورجاہلوں کا طرزِعمل
PDF 1.3 MB 2019-05-02
- 2
یوم عاشورا کا اسلامی طریقہ اورجاہلوں کا طرزِعمل
DOCX 475.4 KB 2019-05-02
کامل بیان
یومِ عاشوراء کا اسلامی طریقہ اور جاہلوں کا طرز ِعمل
[ الأردية – اُردوUrdu – ]
اعداد: شیخ عبد العزیز بن مرزوق طریفی ۔حفظہ اللہ۔
ترجمہ:شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنی
مراجعہ:عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ
ناشر:دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ،ریاض
مملکتِ سعودی عرب
عاشوراء بين هدي الإسلام وهدي الجهلاء
إعداد: الشيخ/عبد العزيز بن مرزوق الطريفي-حفظه الله-
ترجمة: شفيق الرّحمن ضياء الله المدني
مراجعة:عزيز الرّحمن ضياء الله السنابلي
الناشر:مكتب توعية الجاليات بالربوة، الرياض
المملكة العربية السّعودية
یومِ عاشوراء کا اسلامی طریقہ اورجاہلوں کا طرزِعمل
مصدر: شبكة الدِّفاع عن السُّنّة
http://www.dd-sunnah.net/forum/showthread.php?t=7675
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
ہرطرح کی تعریف و توصیف صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ،میں اس کی مکمل تعریف بیان کرتا ہوں،اوراس کے بندے ونبی محمدﷺ پر درود وسلام بھیجتا ہوں۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
اسلام میں دسویں محرّم(عاشوراء) کا دن نہایت ہی عظمت ومرتبت والا ہے،نبیﷺہجرت سے قبل اور اس کے بعداس روز نعمتِ الہی کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے،کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے ظلم وجور سے نجات دلایاتھا، اور یہی اس دن کےفضیلت کی اصل ہے،اور دیگر (ایام )پر اس کے منقبت کی ابتدا ہے۔
دیگرایام پر اس کی خصوصیت اوراہمیت کی وجہ ہے:
زمانہ جاہلیت میں نبیﷺاس دن روزہ رکھتے تھےحتیٰ کہ مکہ میں کفّارِ قریش اور مدینہ میں یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے،چنانچہ صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنمہا سے مروی ہے کہ :’’جب رسولﷺمدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا،تو ان سے پوچھا کہ: یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟،انہوں نے کہا:یہ عظیم دن ہے ،ا س دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم وجورسے نجات دلایا تھا، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق آب کیا تھا، توحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکرانے کے طورپر یہ روزہ رکھا تھاچنانچہ ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، نبیﷺ نے فرمایا:’’ہم حضرت موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم(یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
اور بطورتاکید نبی ﷺنے رمضان سے پہلے اس کے روزہ کو فرض قراردیا تھا پھر رمضان کی فرضیت کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
یوم عاشوراء کی دیگر ایّام پر فضیلت کے چند اسباب:
۱۔تمام انبیاء علیہم السلام کا مسلسل اس دن روزہ رکھنا، اور جہاں تک رہی بات ’’مسند‘‘ احمد کی روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قبل اس دن روزہ رکھنے کی جو بات ہے، تویہ صحیح نہیں ہے،اوریہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے،اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہود میں سے جس نے ان کی اتباع وپیروی نہیں کیا لیکن موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا، تو وہ کافر ہے، چنانچہ عبد اللہ بن سلام نبیﷺ کے پاس تشریف لانے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نصرانیت کی اتباع وپیروی نہ کرنے کی وجہ سے کافر تھے۔
اور صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :’’جب رسولﷺ نے دسویں محرّم کا روزہ رکھا اور اس کے روزہ رکھنے کا حکم دیا توصحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ یہ ایسا دن ہے جس کی یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں،توآپﷺ نے فرمایا : جب آئندہ سال ہوگا تو نویں محرّم کا روزہ رکھیں گے،راوی کہتے ہیں کہ: جب آئندہ سال آیا تو رسول ﷺوفات پاچکے تھے۔ ‘‘
۲۔رمضان سے پہلے اس کا فرض ہونا، اور یہ فرضیت صرف صیامِ عاشوراء کے لئے ہی تھی، مگرجب ماہِ رمضان کے روزےکی فرضیت ہوئی تو رسولﷺ نے اس کا روزہ رکھنا چھوڑدیا ،البتہ صحابہ کرام کو یوم عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں تاکیدی حکم دیا ،اور وہ اس دن روزہ رکھنےکے حریص بھی تھے۔ جیسا کہ صحیحین میں ابن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’نبیﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا،اور جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو اس (عاشوراء)کا روزہ رکھنا ترک کردیا‘‘۔ اور یہ حدیث فرضیت کے منسوخ ہونے اور استحباب کے باقی رہنے پر دلیل ہے۔
۳۔ نبیﷺ کا مبلغین کو بھیج کرلوگوں میں اس دن کے روزے کا اعلان کروانا،اورایسا آپﷺنے عاشوراء اور رمضان کے علاوہ کسی بھی نفلی روزہ کے بارے میں نہیں کیا،چنانچہ صحیحین میں ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’عاشوراء کی صبح کو رسول ﷺ نے مدینہ کے اردگرد انصار کی بستیوں میں یہ کہلا بھیجا کہ:’’جس نے روزہ کی حالت میں صبح کی وہ اپنا روزہ پورا کر لے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بھی بقیہ دن بھر کچھ نہ کھائے پیئے، بلکہ روزہ داروں کی طرح رہے،ربیع کا بیان ہے کہ: اس کے بعد سے ہم لوگ یوم عاشورا ء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے۔ ہم مسجد میں جاتے تو بچوں کو کھیلنے کے لئے روئی کا کھلونا بنا دیتے تھے۔ جب کوئی بچہ کھانے کی ضد کرتا اور روتا تو اسے کھلونا دے کر بہلا لیتے حتٰی کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔‘‘اور ایک دوسری روایت میں ہے:’’اور جب وہ ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انہیں گڑیا دے کر بہلادیتے یہاں تک کہ وہ روزہ پورا کرلیتےـ‘‘
فضائلِ عاشوراء:
یومِ عاشورا ء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کے کفارے کا سبب ہے،جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے یوم عاشوراء کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺنے فرمایا: ’’مجھے اللہ تعالیٰ سے یہی امید ہے کہ یہ گزشتہ سال کے گناہ کو مٹادے گا۔ ‘‘
اور عاشوراء کی یہ فضیلت عرفہ کے روزہ کے علاوہ کسی بھی نفلی روزے کی فضیلت کو حاصل نہیں ہے،کیونکہ عرفہ کا روزہ رکھنا گزشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہ کا کفّارہ بن جاتا ہے۔اور جس نے عاشوراءا ورعرفہ کا روزہ رکھا تو گویا اس نےسال گزشتہ کے گناہوں کے کفارہ کے اسباب کو جمع کرلیا،اوریہ اس کے حق میں دوسرے کی بہ نسبت زیادہ موکّد وثابت ہوگیا،ساتھ ہی اس عمل کا لکھا ہو ثواب بھی حاصل ہوگا۔جیسا کہ گنہگار شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے،جبکہ سچّی توبہ صرف ایک مرتبہ استغفار کرنے سے قبول ہوجاتی ہے، لیکن شارع نے استغفار،عرفہ ا ورعاشوراء کے روزے کے ساتھ ہی گناہ کے کفّارے کا تذکرہ کیا،اور گناہ کے کفّارہ کے علاوہ دیگرفضائل اور بہترین انجام کونہیں ذکر کیا، کیونکہ گناہیں بھلائی کے جانے اور برائی کےآنے کا سبب ہیں، اور جیسا کہ اثر میں ہے:
’’مصیبت وآزمائش صرف گناہ سے نازل ہوتی ہے۔‘‘
اور جب گناہیں ختم ہوجاتی ہیں تو بندہ سے اس کی لوازمات ونحوستیں ختم ہوجاتی ہیں،اور جب یہ بلا ٹل جاتی ہے تو اس کی جگہ خیروبرکت نازل ہوجاتی ہے، اسی لئے شارع نے آثار ولوازمات کے ذکر سے زیادہ اسباب و وسائل پر دھیان دیا ہے،اور یہ شریعت کے تمام ابواب میں ہے۔
۴۔نبیﷺکا عاشوراء کے روزہ کا شدّت سے کوشش(تلاش) وجستجوکرنا،بلکہ اس کی تلاش وجستجو رمضان کے روزہ کی تلاش و جستجو سے ملائی گئی ہے، جیسا کہ صحیحن میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: ’’میں نے نبی ﷺکو یوم عاشوراء اور ماہ رمضان کے روزہ کے فضل کو تلاش کرنے سے زیادہ کسی اور کام میں منہمک نہیں دیکھا‘‘۔
۵۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا عاشوراء کے روزہ کا شدید حرص رکھنا اور اس کا حکم دینا،اور اس کے فوت ہونے کا اندیشہ رکھنا،جیسا کہ ابن جریر طبری ؒنے اپنی کتا ب’’ تہذیب الآثار‘‘ میں اسود رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا ہے کہ: ’’میں نے رسولﷺکے ساتھیوں میں سے علی وابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کے علاوہ یوم عاشوراء کے روزہ کا حکم دیتے کسی کو(زیادہ) نہیں پایا۔ ‘‘
اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہےکہ:’’وہ عاشوراء کے دن چاشت کے وقت بیدار ہوئے یہاں تک کہ دن چڑھ گیا اور انہیں اس کا پتا نہ چلا،جب انہیں اس کا علم ہوا تو گبھراگئے،پھر انہوں نے روزہ رکھا اور ہمیں چاشت کے بعد روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ‘‘ اور یہ (تمام) صحیح آثار ہیں۔
یہود ونصاریٰ کی مخالفت میں یوم عاشوراء اور اس سے ایک دن قبل روزہ رکھنا مشروع ہے،کیونکہ وہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔
اورنبیﷺصرف عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے پھر اہل کتاب کی مخالفت میں اس سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کو مشروع قراردیا، جیسا کہ صحیح مسلم میں حکم بن اعرج سے منقول ہے کہ: ’’میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس اس حال میں گیا کہ وہ زمزم کے پاس اپنے چادر سے ٹیک لگائے ہوئےبیٹھے تھے، میں نے کہا: مجھےعاشوراء کے روزہ کے بارے میں بتلائیں؟ تو انہوں نے کہا: جب تو محرّم کا چاند دیکھے تو اسے شمارکرنا شروع کردے اور نویں (محرّم )کی صبح روزہ رکھ، میں نے کہا:کیا اسی طرح رسول ﷺاس دن کا روزہ رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔‘‘
اور اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبیﷺ نے نویں ودسویں محرّم کے روزہ کو مشروع قراردیا ہے،وہ اس لئے کہ’’عاشوراء ‘‘کا نام عاشوراء اس وجہ سے پڑا کہ وہ دسویں محرّم کادن ہے،اور نویں محرّم کو’’تاسوعاء‘‘کہتے ہیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نویں محرّم کے روزہ کا حکم دسویں کا علم رکھتے ہوئے دیا ۔
اور اسی طرح سلف صحابہ وغیرہم کا عمل تھا کہ وہ عاشوراء اور اس سے ایک دن پہلے کا روزہ رکھتے تھے، اور یہ چیز ابن عباس ،ابن سیرین وغیرہماسے ثابت ہے،چنانچہ ابن سیرین کے بارے میں آتا ہے کہ وہ دسویں کا روزہ رکھتے تھے اور جب انہیں یہ خبر ملی کی ابن عباس رضی اللہ عنہما نویں اور دسویں کا روزہ رکھتے ہیں تو انہوں نے بھی ان دونوں کا روزہ (رکھنا شروع کردیا)۔
اورعبدالرزاق نے اپنی کتاب’’المصنّف‘‘میں اور بیہقی وغیرہما نے ابن جریج سے روایت کیا ہے،اورانہیں عطاء نے خبردیا ہے،اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یومِ عاشوراء کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ’’یہودکی مخالفت کرو اور نوویں ودسویں کا روزہ رکھو۔ ‘‘
رہی بات تین دن روزہ رکھنے([1] ) کی یعنی یوم ِعاشوراء(دسویں محرّم) اور اس سے ایک دن قبل اور اس کےایک دن بعد کی ،تو اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، اور پھر یہ کہ نبی ﷺنے (یہودیوں کی)مخالفت کا ارادہ کیا تھا، اور مخالفت صرف نویں کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوجاتی ہے، اور صحابہ کرام میں سے کسی سے گیارہویں محرّم کا روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے۔
بلکہ یہ بعض سلف تابعین طاوس بن کیسان وغیرہ سے آیا ہے،جیسا کہ ابن ابی شیبہ کے یہاں ثابت ہے کہ وہ(طاوس بن کیسان) عاشوراء کے فوت ہونے کے اندیشہ سے عاشوراء اور اس سے ایک دن قبل اور ایک دن بعد کا روزہ رکھتے تھے۔
اوراگر اس دن سے پہلے اور بعد کچھ بھی نہ رکھے اور صرف عاشوراء کا روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ استطاعت کے باوجود نہ رکھنا خلاف اولیٰ ہے، اوراس میں کم سے کم درجہ کی اتباع ہے اور اس میں حدیث کے مطابق کفّارہ (گناہ مٹنے)کا اجرمتحّقق وثابت ہوگا، لیکن یہود کی مخالفت کا اجر نہیں حاصل ہوگا۔
اور بعض سلف سے دسویں محرّم کے روزہ کی تخصیص ثابت ہے جیسا کہ عبدالرزاق نے اپنی کتاب’’المصنّف ‘‘ میں ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث سے ذکر کیا ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن حارث کو عاشوراء کی شام یہ کہلابھیجا :’’سحری کھاؤ اور روزہ کے ساتھ صبح کرو،چنانچہ عبدالرحمن نے روزہ کے ساتھ صبح کیا۔‘‘
عاشوراء کے دن کیے جانے والےغیرمشروع (ناجائز)اعمال:
عاشوراء کو غم وماتم کا دن بنادینا ،جیسا کہ رافضہ کرتے ہیں، یہ سخت ترین منکر اور اسلام کے اندر جاہلانہ طرزعمل ہےاورعقل سلیم کے خلاف ہے، اور اس کے چند وجوہات ہیں:
اوّل: یہ عمل یوم عاشوراء کو نبی ﷺ کی طرف سے انجام دیئے جانے والے طریقہ کے خلاف ہے، کیونکہ آپ ﷺ اس دن خوش ہوتے، اس کی آمد پر سعادت محسوس کرتے،اور منعمِ حقیقی(رب) کا اس نعمت پر روزہ رکھ کرشکر ادا کرتے تھے، اوررہی بات اس دن کا حزن وغضب، سینہ کوبی وتطبیر(شیعہ کے نزدیک تلواروغیرہ سے سرکوزخمی کرنا تطبیرکہلاتا ہے)، اور خون بہا کر استقبال کرنا تویہ نعمتِ الہی کی ناشکری ہے، اور دین میں نئی بدعت کا ایجاد کرنا ہے، اور عقلوں کو ابلیس کے سپرد کرنا ہے، اور جاہلوں کو سمجھاناہے۔اوریہ لوگ اس دن جو کرتے ہیں وہ ہردن اور ہر مصیبت کے لمحے میں ناجائز ہے تو پھر مقام ِعبادت میں،عظیم نعمت کی شکرپر،اورآسمانی شریعت میں جس پر تمام ملت بشمول اہل کتاب اور اہل اسلام سب متفق ہیں، کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
اور پھر اسلام میں اصل یہی ہے کہ فروع کے اندر ہرشریعت منصوص ومخصوص دلیلوں کی بنا پر مستقل حکم رکھتی ہے،اس کے باوجودیوم عاشورا ء اپنی جلالت قدر اوراس میں نعمت واحسان کی عظمت کی وجہ سے اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے، اسی لئے انبیاء اور ان کے متبوعین کے نزدیک قیامت تک دائمی شکر کا مستحق ہوئی۔اور ٹھوس سبب اور اللہ کی عظیم حکمت ،اور اس کے ظہور کی وجہ سے نبیﷺ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اقتداء کرنا درست قرار پائی، جبکہ اصل یہی ہے ، جیسا کہ خبرمیں نبیﷺ سے وارد ہے:
’’اگرموسیٰ( علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے توانہیں بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہوتا‘‘۔
اور حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے اورانہیں بھی محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق حکم دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔اسی وجہ سے موسیٰؑ ،عیسیٰؑ ا ورمحمدﷺ کے ثابت شدہ ٹھوس طریقے کی مخالفت رافضہ کے یہاں مزید بڑھ جاتی ہے۔
اورپھر ان(عاشوراء کے دن کیے جانے والے ناجائز) اعمال میں عقل سلیم اورسچی منطق کی مخالفت پائی جاتی ہےجو تعصّب کو بالائے طاق رکھ کرغوروفکر کرنے والےکے لئے خوب واضح اور نمایاں ہے،اور اس کے چند اسباب ہیں:
اوّل:آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے نزول سے لے کر زمین پر اترنے تک یہ نہیں معلوم کہ لوگوں میں سے کسی بھی امّت نے اپنی مشہور شخصیت اور پیروکار کو اس کے علوشان اورقدر و منزلت کے باوجودانتقال ہوجانے کے بعد ان کا ایسا ماتم منایا ہو جس میں نوحہ، سینہ کوبی وتطبیر(تلوار وغیرہ کے ذریعہ سرزخمی کرنا)کے ذریعہ عبادت کی جاتی ہوجیسا کہ رافضہ کرتے ہیں،اور نقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بہت سارے اسلاف ایسے ہیں جو جلیل القدر صحابی حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بلند مقام واعلیٰ مرتبہ والے تھے، جیسے انبیاء ورسل صلی اللہ علیہ وسلم،چنانچہ ان میں سے بعض قتل کئے گئے جیسے یحیٰ علیہ السلام ،اور بعض کو ان کی قوم نے پھانسی پر چڑھانے کا دعویٰ کیا جیسے عیسیٰ علیہ السلام،اسی طرح زمین کے بادشاہوں،قوموں کےسرداران اور ان کے سچے وجھوٹے متبوعین وپیروکاروں نےامتدادِزمانہ ومرورایّام کے مطابق اس سلسلے کا کوئی کام نہیں کیا۔اورعقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بعض قبائل بعض کا نقل کرتی ہے، اور ایک دوسرے کے اعمال سے اپنے اعمال کا اعتبار کرتی ہے گرچہ بعض وجہوں سے ہی کیوں نہ ہو، تو یہ (عمل)کیسے (مشروع) ہوسکتا ہے جب اس کی جگہ تشریعی وتوقیفی ہو، اور(یہ عمل) کیسے (جائز) ہوسکتا ہے جبکہ شریعت نے اس چیز سے منع کیا ہے۔
دوم:اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کئے جانے والے معبود،اور ان کے ساتھ عبادت گزاروں کا تعلق دوسروں سے اشد ہے، اوروہ انہیں سے اپنی حیات وموت ،اورآمدورفت کو وابستہ کرتے ہیں، جیسا کہ ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم اور ہمارے نبی ﷺ کی قوم کرتی ہے،تو دونوں خلیلوں نے مشرکین کے معبودوں کے ٹکڑے کرڈالے،تو انہوں نے وہ نہیں کیا جو ان لوگوں نے کیا،اور اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کہتا ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّـهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ۗ ﴾[البقرة: 165] ’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیئے اور ایمان والے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔‘‘
اور جب ہم مشرکین کے حال کی خبر دینے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سچائی کا تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی اپنے معبودوں سے دوستی اللہ تعالیٰ کی محبت سے بڑھ کرہے، اوریہ اس غیب سے ہے جوصرف وحی سے جانی جاسکتی ہے،کیونکہ مجرد دعویٰ کو قبول نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اس میں صدق وکذب کا احتمال پایا جاتا ہے، اس کے باوجود انہوں نے وہ نہیں کیا جو ان کے علاوہ لوگوں نے کیا، تو اس کا فاعل اس بات سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ اپنے فعل میں سچا ہوگا،اور اس کا گمان ہے کہ اس کا دافع محبت ہے، جبکہ عقل اس گمان کا تردید کرتی ہے، یا تو اس نے اس فعل کو حقیقی محبت سے خالی ہوکر کیا ہوگا، بلکہ اس چیز کے کرنے پر اسے جھوٹی محبت اور دھوکہ باز نفس نے ابھارا ہوگا،اور دشمن ومدّمقابل کو اس طریقے سے غیض وغضب میں ڈالنے کے لئے کیا ہوگا جس کا سبب واقتضا کے قیام کے باوجود ماضی میں کوئی ذکر نہیں۔یا یہ فعل اس حُبّ کی بنا پر ہوگا جو آیت میں مذکور مشرکین کی محبت سے زیادہ ہوگا، اور یہ بات اگر صحیح وجائز ہوجائے تو صریح کفر ہوگا۔
سوم:علی رضی اللہ عنہ جو اسلام میں کافی مقام ومرتبہ اورشان والے ہیں، اور وہ تمام متاخرین شیعہ کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر فوقیت رکھتے ہیں، اور صحابہ میں سے حسن وحسین رضی اللہ عنہم بھی ہیں۔ اورعلی رضی اللہ عنہ)اہل اسلام کی سچی اقرار کے مطابق مظلوم ہوکر قتل کئے گئے، جنہیں عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے سن چالیس ہجری میں قتل کیا ،اس کے باوجود ان کے قتل کے دن صحابہ میں سے ان کے ساتھیوں وپیرکاروں جن میں سے حسن وحسین بھی تھے وہ کا م نہیں کئے جو حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کیا گیا،حالانکہ ان کے بیٹے حسن ان کی قتل کے بعد اکیس برس تک زندہ رہے، اور وہ لوگوں کی بہ نسبت اپنے والد کے قتل کے دِن ولمحہ کو زیادہ جاننے والے تھے،اور وہ ان کے سب سے زیادہ قریب ومستحق تھے، پھر بھی انہوں نے اپنے باپ کی موت پر کچھ بھی نہیں کیا۔بلکہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ فوت ہوئے جو ان کے سگے ومحبوب بھائی تھے، اوراس وقت وہ سن ۴۸ھ میں زندہ تھے، لیکن حسین رضی اللہ عنہ نے ان سب کاموں میں سے کچھ بھی نہیں کیا،بلکہ حسین رضی اللہ عنہ نے نمازِجنازہ کے لئے دوسرے کو بڑھایا،چنانچہ انہوں نے سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو ان کے مقام ومرتبہ کی وجہ سے نماز کے لئے آگے بڑھایا باوجودیکہ ان کے مابین (کچھ اختلاف) بھی تھا ،جیسا کہ عبد الرزاق نے اپنی کتاب ’’المصنّف ‘‘ میں سفیان سے،ان سے سالم بن ابی حفصہ نے،ان سے ابوحازم نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ:میں حسن کی وفات کے دن حاضرہوا تو میں نے حسین رضی اللہ عنہ کو سعید بن عاص کو کہتے ہوئے دیکھا اور آپ ان کے گردن میں کوچ رہے تھے:
’’ آگے بڑھیں کیونکہ اگریہ سنت نہ ہوتی تو میں آپ کو نہ بڑھاتا۔‘‘
اورحسن وحسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
چہارم:شہادت حسین کے دن جو کچھ سینہ کوبی،تطبیر(تلواروغیرہ سے سرزخمی کرنا)،نوحہ وبین ،رخسار پیٹتے اور اجتماع کرتے ہیں اگر یہ عقل وشرع کے اعتبار سے درست ہوتی تو اس میں قیاس درست ہوتا، اور اس فعل کودرست قراردینے والے پر یہ لازم ہوتا کہ وہ ان تمام اسلامی جماعت کے فعل کو درست قراردے جو اپنے مظلوم ومجبور ومقہورمقتولین پر کرتی ہیں، گرچہ تنزل کے باب سے ہی سہی کیونکہ اسلامی جماعتیں آپس میں اصل کے اعتبار سے فضیلت میں متفق ہیں۔
اور اس طرح پورے سال ماتم کی سی کیفیت برپا ہوجاتی جس میں صرف اور صرف چہروں کو نوچنے،سینوں کوچاک کرنے اور آہ وبکا کا ایک لامتناہی عمل بن کے رہ جاتا ،اور ہر جماعت اپنی جیسی تمام دوسری جماعتوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے اور شریک ہونے کی دعوت دیتی۔
اس میں حق اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے روگردانی ہے، دین ودنیا کی مصلحتوں کی خلاف ورزی ہے، اسے ایک کم فہم آدمی بھی سمجھ سکتا ہے چہ جائیکہ دانا وبینا شخص۔
تعجّب کی بات ہے کی یہ جماعت اس طرح کے فعل بد کو دین وشریعت کا عمل قرارد یتی ہے حالانکہ شریعت کا مخاطب ہروہ شخص ہے جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بطور دین تسلیم کیا،اور چونکہ محمد ﷺ پوری انسانیت کی طرف مبعوث کئے گئے تھے اس لئے اس شخص کا قول بالکل تعجّب خیز نہیں جو یہ مانتا ہے کہ کفّار بھی دین اسلام کے فروعی قوانین کے مخاطب ہیں۔
ان تمام (اعمال) کی ردّ کے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان کافی ہے :( من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ)۔
’’جس نے دین میں کوئی ایسا کام کیا جو اس میں سے نہیں ہے وہ مردود ہے۔‘‘
اسی طرح بعض علماء جو یوم عاشوراء کو اہل وعیال پر خرچ کرنے میں کشادگی کے استحباب کا تذکرہ کرتے ہیں، تو اس باب میں جو کچھ بھی وارد ہے وہ درست نہیں ہے، اور اس کا ائمہ ناقدین احمد وغیرہ نے انکار کیا ہے۔
اور یوم عاشوراء کو غسل ونظافت،طہارت وپاکی، سُرمہ وخضاب لگانے کے لئے مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے،اور نہ ہی سلف میں سے کسی نے اسے مطلق طورپر مستحب گردانا ہے۔
واللہ اعلم۔
عبد العزیز بن مرزوق الطریفی
(طالبِ دُعا : [email protected])
[1])) –جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے (زاد المعاد :ج۲ص۷5) میں عاشوراء کے روزے کےتین مراتب ذکر کئے ہیں:
1- کامل ترین مرتبہ یہ ہے کہ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھا جائے۔
2- دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھا جائے اور اکثر احادیث اسی پر (دلالت کرتی) ہیں۔
3- یا صرف دس محرّم کا ہی روزہ رکھا جائے۔
اور جہاں تک رہی بات نویں کو صرف روزہ کیلئے خاص کرنا تویہ آثار وحدیث کے نہ سمجھنے،اوراس کے الفاظ وطرق کی عدم تتبع کی وجہ سے ہے،اوریہ لغت وشرع کے اعتبارسے بعید ترہے،اوراللہ ہی درستگی کی توفیق دینے والاہے۔(مترجم)
علمی زمرے: