توبہ کے بعد ضرورت پڑنے پر حرام مال میں تصرّف کا طریقہ؟

وصف

مال حرام سے توبہ کرنے کے بعد اگر انسان کو اس مال کے استعمال کی ضرورت پڑ جائے تو شرعی نقطہ نظر سے اسکا کیا حکم ہے ؟۔ فتوی مذکور میں اسی کا تفصیلی جواب پیش ہے۔

Download
اس پیج کے ذمّے دار کو اپنا تبصرہ لکھیں

کامل بیان

    توبہ کے بعد ضرورت پڑنے پر حرام مال میں تصرّف کا طریقہ؟

    كيف يتصرّف في مال الحرام بعد التوبة مع حاجته له؟

    [ اردو- أردو - urdu ]

    شیخ محمد صالح المنجد

    ترجمہ: اسلام سوال وجواب ویب سائٹ

    تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ

    ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
    تنسيق: موقع islamhouse

    2013 - 1434

    توبہ كے بعد ضرورت پڑنے پر حرام مال ميں تصرف كا طريقہ؟

    ميں ايك عرب ملك ميں كئى برس سے بطور اكاؤنٹنٹ ملازمت كر رہا ہوں، مجھے دوران ملازمت علم ہوا كہ يہ حرام ہے، اور ميرا شمار سود لكھنے والوں ميں ہوتا ہے، كيونكہ ميں اپنى كمپنى كے ليے بنك سے سود پر مطلوب قرض كى درخواستيں لكھتا ہوں، اور يہ عمل ہر وقت ميرى زندگى كو مكدر كيے ركھتا ہے، اب ميں واپس اپنے مُلك جانا چاہتا ہوں، اور اپنے گھرانے كے ساتھ ايك نئى زندگى كا آغاز كرنے كے ليے جو كچھ بھى ميرے پاس مال ہے وہ اسى تنخواہ كا ہے!! چنانچہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

    بعض افراد نے مجھے يہ كہا ہے كہ مجھے توبہ كرنى چاہيے اور ميں اس مال كو خرچ كردوں ليكن اس ميں سے خود كوئى فائدہ حاصل نہيں كر سكتا!!

    اور ايك دوسرے شخص نے يہ كہا كہ مجھے اس سے توبہ تو كرنى ہوگى ليكن مال سے استفادہ كيا جا سكتا ہے، اور كثرت سے صدقہ و خيرات بھى كرنا ہوگى، يہ علم ميں رہے كہ ميرے پاس آمدنى كا كوئى اور ذريعہ نہيں، اور نہ ہى اس مال كے علاوہ كوئى اور راس المال ہے جس سے ميں نئى زندگى شروع كرسكوں، اور نہ ہى سركارى ملازمت حاصل ہونا ممكن ہے كيونكہ يہ بہت مشكل ہے... اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے اس كے متعلق مجھے معلومات فراہم كريں، كہ مجھے زندگى شروع كرنے كے ليے كيا كرنا چاہيے ؟

    الحمد للہ:

    اول:

    سود لكھنے، يا اس كا حساب و كتاب ركھنے، يا سود حاصل كرنے كے ليے درخواستيں لكھنے، يا اس طرح كى كوئى اور ملازمت جس ميں سودى معاملات ميں تعاون ہوتا ہو جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہوتا ہے.

    اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

    ‘‘ اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا والا ہے’’(المآئدۃ:( 2

    اور صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پانچ افراد پرلعنت فرمائى:

    جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے والے، كھلانے والے، لكھنے والے، اور سود كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب(گناہ) میں برابر ہيں " صحيح مسلم حديث نمبر (1598)۔

    اس ليے اس طرح كى ملازمت ترك كرنى واجب اور ضرورى ہے، اور صرف ايسے كام كى ملازمت كرنى چاہيے جو مباح ہو، اور پھر جو شخص بھى كوئى كام اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے، اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر عوض ديتا ہے.

    مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21113 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

    دوم:

    جس كسى نے بھى حرام طريقے سے مال كمايا مثلا گانے بجانے كى اجرت، يا رشوت، يا نجومى اور كہانت كى كمائى، يا جھوٹى گواہى دے كر، يا سود كى لكھائى وغيرہ كر كے، يا اس طرح كے دوسرے حرام كام سے كمائى كى اور پھر وہ اللہ تعالى كے سامنے توبہ كر لے، اوراپنے كيے پر نادم ہو اور آئندہ ايسا عمل نہ كرنے كا عہد كرلے، اگر اس نے مال خرچ كر ليا ہو تو اس پر كچھ گناہ نہيں، اور اگر مال اس كے پاس ہو تو اس كے ليے اس مال كو نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، اور اگر وہ محتاج اور ضرورت مند ہو تو وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس میں سے لے كر باقى مال سے چھٹكارا حاصل كر لے.

    ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    "اگر كسى دوسرے شخص نے اسے حرام معاوضہ ديا اور اس نے وہ معاوضہ لے بھى ليا ، مثلا زانيہ عورت، گانے بجانے والا، شراب فروخت كرنے والا، جھوٹى گواہى دينے والا ، اور اس طرح كے دوسرے افراد، پھر وہ توبہ كر لے اور وہ معاوضہ اس كے پاس ہو تو ايك گروہ كا کہنا ہے كہ:

    وہ اس معاوضہ اور مال كو اس كے مالك كو واپس كردے؛ كيونكہ وہ اس كا بعنيہ مال ہے، اور اس نے وہ مال شارع كے حكم سے نہيں ليا، اور نہ ہى مال كے مالك كو اس مال كے عوض كوئى مباح اور جائز نفع حاصل ہوا ہے.

    اوردوسرے گروہ کا کہنا ہے:

    بلکہ اسے اس مال کا صدقہ کرکے توبہ کرنی چاہيے، اورجس سے لیا ہے اسکے پاس لوٹانے کی ضرورت نہیں، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور دونوں قولوں ميں زيادہ صحيح بھى يہى ہے " ... ا.هـ.

    ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 389 )۔

    اور ابن قيم رحمہ اللہ نے(( زاد المعاد )) ميں اس مسئلہ كو شرح وبسط كے ساتھ بيان كرتے ہوئے يہ طے كيا ہے كہ اس مال سے خلاصى اور توبہ كى تكميل اسطرح ہو گى كہ: وہ مال صدقہ كر ديا جائے، اور اگر وہ اس كا محتاج اور ضرورتمند ہو تو وہ بقدر حاجت اس مال سے ليكر باقى مال صدقہ كر دے " ا.هـ.

    ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 778 )۔

    اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    "اور اگر يہ زانيہ عورت اور شراب فروخت كرنے والا شخص توبہ كر لے، اور وہ فقير اور مسكين ہوں تو ان كى ضرورت كے مطابق اس مال سے دينا جائز ہے، اسی طرح اگر وہ شخص تجارت كرنے، يا كوئى بنائى اور سوت كاتنے كى مہارت ركھے تو اسے راس المال کے بقدر ديا جا ئيگا " ا.هـ.

    ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 308 )۔

    اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ ڈاكٹر عبد اللہ بن محمد السعيدى كى كتاب " الربا فى المعاملات المصرفيۃ المعاصرۃ ( 2 / 779 - 874 ) كا مطالعہ كريں.

    سوم:

    شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہما اللہ كى سابقہ كلام سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ:

    اگر توبہ كرنے والا شخص اس مال كا محتاج اور ضرورتمند ہو تو وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس مال سے لے سكتا ہے، اور اس كے ليے اس مال ميں سے تجارت يا صنعت كے ليے راس المال لينا جائز ہے.

    چہارم:

    اس ليے كہ آپ كےكام ميں كچھ تو مباح اور جائز ہے، اور كچھ حرام تو آپ اس ميں حرام كا اندازہ لگائيں اور اس كے عوض ميں جتنا مال آپ كے پاس حرام ہے اس سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں، اور اگر آپ كے ليے اس كا اندازہ لگانا مشكل ہو تو آپ اس مال كے نصف سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں.

    شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    "... اور اگر اس كا مال حرام اور حلال كے ساتھ مختلط ہو اور اسے دونوں كى مقدار كا علم نہ ہو تو وہ اسے نصف نصف كر لے " ا.هـ.

    ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 307 )۔

    اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ اختيار كرنے كى توفيق دے، اور جس ميں آپ كى دنيا و آخرت كى سعادت ہے اس كام ميں آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كو يہ يقين كر لينا چاہيے كہ اللہ سبحانہ وتعالى ہى روزى رساں ہے، اور وہ بڑا ہى رحم كرنے والا اور مہربان ہے جو اپنے توبہ كرنے والے اور اس كى طرف رجوع كرنے والے كو كبھى اكيلا نہيں چھوڑتا، بلكہ اس پر اپنى رحمت كے خزانے كھول ديتا ہے، اور اس كے رزق ميں كشادگى فرما كر، اس كے مال ميں بركت فرما كر اس پر اپنى رحمت كى بركھا برساتا ہے، كيونكہ وہ اپنے بندے كا توبہ كرنا پسند فرماتا ہے،اور اس كى ندامت سے خوش ہوتا ہے، اور احسان كے بدلے ميں عظیم احسان فرماتا ہے.

    اللہ جلّ شانہ كا فرمان ہے:

    "كيا وہ جانتے نہيں كہ اللہ تعالى اپنے بندوں كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور وہى صدقات كو قبول فرماتا ہے، اور يہ كہ اللہ ہى توبہ قبول كرنے والا اور رحمت كرنے والا ہے"(التوبۃ : 104 )۔

    اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اسطرح ہے:

    " جو شخص بھى نيك اور صالح عمل كرے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ ايمان والا ہو تو ہم اسے يقينا نہايت بہتر زندگى عطا فرمائينگے اور ان كے نيك اعمال كا بہتر بدلہ بھى انہيں ضرور ضرور دينگے"النحل ( 97 )۔

    اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

    "اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر بھروسہ اور توكل كرتا ہے اللہ تعالى اسے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہےگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے"(الطلاق : 2 - 3 )۔

    واللہ اعلم .

    الاسلام سوال و جواب