كمونسٹ حكومت كے ماتحت رہنے كى بنا پر نماز روزے كا علم نہيں كيا اب ان كے ذمہ قضاء ہے ؟
عاشوا تحت الحكم الشيوعي ولم يدروا ما صلاة ولا صيام فهل عليهم قضاء ؟
[ أردو - اردو - urdu ]
محمد صالح المنجد
ترجمہ:اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1435
كمونسٹ حكومت كے ماتحت رہنے كى بنا پر نماز روزے كا علم نہيں كيا اب ان كے ذمہ قضاء ہے ؟
سوال: ميں ايك بلغارى مسلمان عورت ہوں، میں كمونسٹ حكومت كے ماتحت زندگى بسر کرتی رہی ہوں، اور اسلام كے متعلق مجھے كسى بھى چيز كا علم نہيں، بلكہ اكثر اسلامى عبادات ممنوع تھيں، بيس برس كى عمر تك تو مجھے اسلام كا كچھ علم نہ تھا، اور اس كے بعد اللہ كى شريعت پر عمل كرنا شروع كيا، ميرا سوال يہ ہے كہ: اس سے قبل ميں نے جو نمازيں ادا نہيں کیں،اور روزے نہيں ركھے كيا اس كى ميرے ذمہ قضاء ہے ؟ اللہ تعالى آپ كو جزائے خير دے۔
الحمد للہ:
اول:
سب سے پہلے تو ہم اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ آپ نے ظالم اور فاجر كمونسٹ حكومت سے نجات حاصل كر لى ہے، چاليس برس سے زائد مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا رہا، اور ان كا دينى تشخص ختم كرنے كى كوشش كى جاتى رہى، اور اس مدت ميں مساجد كو منہدم كيا گيا، اور كچھ مساجد كو عجائب گھروں ميں تبديل كر ديا گيا، اور اسلامى مدارس پر زبردستى قبضہ كر ليا گيا، اور مسلمانوں كے نام تبديل كيے گئے، اور اسلامى تشخص كو بالكل مٹانے كى كوشش كى گئى، ليكن .. اللہ تعالى تو اپنا نور مكمل كر كے رہے گا، چاہے كافر ناپسند ہى كريں.
تو اس طرح ( 1989م ) میں ظلم وزیادتی پر مبنی کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا،جس سے مسلمانوں كو بہت شديد خوشى حاصل ہوئى اور وہ اپنى قديم مساجد كى طرف پلٹے اور ا نكى مرمت كرنے لگے، اور اپنے بچوں كو قرآن مجيد كى تعليم دينے لگے، اور مسلمان عورتيں باپرد ه ہو كر راستوں اور شاہراہوں پر نكل آئيں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان كے دين كى جانب اچھى طرح لوٹائے، اور ا نكى مدد و نصرت فرمائے، اور انہيں عزت عطا كرے، اور ان كے دشمن كو ذليل و رسوا كرے. آمين
دوم:
بلغاریہ ميں مسلمانوں كى ايك نسل كمیونسٹ حكومت كے تحت پرورش پائى جسے اسلام كےمتعلق كسى چيز كا علم ہى نہ تھا، صرف انہيں يہ پتہ تھا كہ وہ مسلمان ہيں، كيونكہ كمیونسٹ حكومت اسلام كى تعليم ميں حائل ہو چكى تھى، اور اسے دينى تعليم حاصل كرنے نہ ديتى تھى، بلكہ قرآن مجيد بھى اپنے ملك داخل نہيں ہونے ديتى تھى، اور نہ ہى كوئى اسلامى كتاب لے جا سكتا تھا.
اور يہ لوگ جنہيں اسلامى احكام و عبادات اور فرائض كا علم نہ تھا ان كے ذمہ ان عبادات كى قضاء ميں سے كچھ لازم نہيں، كيونكہ جب مسلمان كے ليے شرعى علم حاصل كرنا ممكن نہ ہو، اور نہ ہى اسے شرعى احكام پہنچے ہوں تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا " (البقرۃ: 286 (
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مسلمان اس بات پر متفق ہيں كہ جو شخص بھى دار كفر ميں ہو اور ايمان قبول كرنے كے بعد وہ ہجرت كرنے سے عاجز ہو تو جس سے وہ عاجز ہے اس پر وہ چیزواجب نہيں، بلكہ وجوب امکان کے مطابق ہوتی ہے، اور اسى طرح جب اسے كسى چيز كا حكم معلوم نہ ہو، تو اگر اسے نماز فرض ہونے كا علم نہ ہو، اور كچھ مدت تك وہ نماز ادا نہ كرے، تو علماء كے ظاہر قول كے مطابق اس كے ذمہ نماز كى قضاء نہيں، امام ابو حنيفہ اور اہل ظاہر كا مسلك يہى ہے، اوریہی امام احمد كے ہاں دو وجہوں ميں سے ايك ہے.
اور اسى طرح سارے واجبات رمضان كے روزے، اور زكاۃ كى ادائيگى وغيرہ بھى.
اور اگر اسے شراب كى حرمت كا علم نہيں ہو اور وہ شراب نوشى كر لے تو مسلمان اس پر حد جارى نہ كرنے پرمتفق ہيں، بلكہ نمازوں كى قضاء ميں انہوں نے اختلاف كيا ہے ....
اور اس سب كى اصل يہ ہے كہ: کیا شریعت اس شخص پر لازم ہے جو اسے نہیں جانتا ہے یا کسی پر بھی اسکی جانکاری کے بغیر لازم نہیں؟ اس مسئلہ میں درست بات یہی ہے کہ: حكم علم کے حصول کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ہے، اور جب كسى چيز كے وجوب كا علم ہى نہ ہو تو اس كى قضاء نہيں.
چنانچہ صحيح (بخاری ومسلم)ميں ثابت ہے كہ: صحابہ میں سے بعض رمضان المبارك ميں طلوع فجر كے بعداس وقت تك كھاتے اور پيتے رہے جب تك كہ سفيد دھاگہ سياہ دھاگہ سے واضح نہ ہوگیا، اورنبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قضاء كا حكم نہيں ديا، اور صحابہ میں سے کچھ ایسے بھى تھے جو مدت تك جنابت كى حالت ميں ٹہرے رہے، اور انہيں تيمم كر كے نماز ادا كرنے كے جواز كا علم ہى نہ تھا، مثلا ابو ذر ، عمر بن خطاب اور عمار رضى اللہ تعالى عنہم جب جنبى ہوئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں سے كسى كو بھى قضاء كا حكم نہيں ديا.
اور اسمیں کوئی شک نہیں کہ مکہ اور دیہی علاقوں میں مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ انھیں اسکے منسوخ ہونے کی خبرملی لیکن وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دئے گئے۔اور اس طرح كى مثاليں بہت زيادہ ہيں.
اور يہ اس اصل كے مطابق ہے جس پر سلف اور جمہور ہيں كہ: اللہ سبحانہ و تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، تو وجوب قدرت و استطاعت كے ساتھ مشروط ہے، اور سزا بھى اس وقت ہوتى ہے جب حجت قائم ہونے كے بعد مامور كو ترك كيا جائے، يا پھر كسى ممنوع كام كا ارتكاب كيا جائے " انتہى مختصرا.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 19 / 225 ).
اور اس بنا پر جن عبادات كے وجوب كا آپ لوگوں كو علم نہيں تھا اس ميں سے كسى كى بھى آپ كے ذمہ قضاء نہيں.
اور ہماری آپ کو یہ نصیحت ہے کہ شرعی علم کو حاصل کرنے اور دین میں تفقہ پیدا کرنے کی جانب متوجہ ہوں،اور اسلام کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی زیادہ سے زیادہ حریص مند ہوں۔ اور مسلم نسل کی اچھی تربیت کریں تا كہ وہ مسلمانوں كے خلاف كى جانے والى سازشوں كا مقابلہ كرسكيں، اور خاص كر آپ كے ملك ميں ہونے والى سازش كا.
آخر ميں ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسلام اور مسلمانوں كو عزت دے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب