اسلامی آداب
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله صلى الله عليه وعلى آله وسلم تسليماً كثيراً إلى يوم الدين
حمد وصلاۃ کے بعد:
بے شک ہم پر اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمارے لئے دین کو مکمل کیا اور ہم پر نعمت کی تکمیل فرمائی اور ہمارے لئے ایک ایسے رسول کو بھیجا جو امت کے تئیں مہربان ہیں ۔رسول نے ہر بھلائی کی جانب ہماری رہنمائی فرمائی اور ہر شر سے ہمیں خبردار کیا ۔اللہ کا درود وسلام قیامت تک آپ پر نازل ہوتا رہے۔
جن اچھی باتوں کی جانب آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی اور جن برائیوں سے ہمیں خبردار کیا ان میں دین و دنیا کے امور سے متعلق بہت سے آداب بھی ہیں ۔چنانچہ عبادتوں کے کچھ آداب ہیں اور لوگوں اور اہل و عیال سے میل جول کے بھی کچھ آداب ہیں ۔
ان آداب میں سے کچھ آداب مستحب ہیں تو کچھ مکروہ ہیں جبکہ کچھ واجب ہیں اور کچھ حرام ہیں، اور کچھ آداب مباح کے درجہ میں ہیں ۔کتاب پڑھتے ہوئے یہ باتیں مزید واضح ہوجائیں گی۔
یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ سلف و خلف میں سے اہل علم نے اس موضوع کو تشنہ تصنیف نہیں چھوڑا بلکہ اس موضوع پر بہت سے رسائل اور کتابیں تالیف کی گئیں ۔ ان میں سب سے مشہور ابن قیم الجوزیہ کی کتاب زاد المعاد ، ابن مفلح کی کتاب الآداب الشرعیۃ ،سفارینی کی کتاب غذاء الالباب اور ان کے علاوہ کچھ دوسری کتابیں ہیں ۔میری خواہش تھی کہ میں ان کتابوں میں پائے جانے والے مواد کی تلخیص کروں اور ان آداب کو قابل فہم انداز میں پیش کروں اور طول طویل بحث سے گریز کروں، ہاں مگر جہاں اس کی ضرورت محسوس ہو ۔
اخیر میں کہنا یہ ہے کہ کمال ایک مشکل امر ہے اور اسے حاصل کرنا بھی دشوار ہے، لہذا جس شخص کو کوئی خامی نظر آئے تو اسے درست کردے اور کوئی کمی پائے تو اسے پورا کردے ۔اللہ اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ۔
والله المستعان، وعليه التكلان ولا حول ولا قوة إلا بالله العظيم، وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وسلم تسليماً كثيراً، والحمد لله رب العالمين.
- اللہ تعالی فرماتا ہے: {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون}
ترجمہ:ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
- اللہ فرماتا ہے: {أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا}
- ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔
- اللہ تعالی فرماتا ہے: {أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا}
ترجمہ:کیا یہ قران میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔
- اللہ کا ارشاد ہے: { وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً}
ترجمہ:اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (...جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور آپس میں اس کا درس و مذاکرہ کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ عزوجل ان کا ذکر ان فرشتوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں...)([1])۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے)([2])۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:(قرآن مجید کا ماہر، قرآن لکھنے والے انتہائی معزز اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو انسان قرآن مجیدپڑھتاہے اور ہکلاتا ہے۔اور وہ(پڑھنا)اس کے لئے مشقت کا باعث ہے،اس کے لئے دو اجر ہیں)([3])۔
1-قرآن سیکھنے اور اس کی تلاوت کرنے کے وقت اخلاص کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔اس لیے کہ تلاوت قرآن ایک عبادت ہے جس کے ذریعہ اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے،ہر وہ عمل جس کے ذریعہ قربت الہی حاصل کی جاتی ہے،اگر اس میں قبولیت عمل کی دو شرطیں اخلاص اور متابعت مفقود ہوں تو وہ عمل صاحب عمل پر لوٹا دیا جاتا ہے،امام نووی فرماتے ہیں:پہلی چیز جس کا قاری کو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قاری قرآن کی تلاوت میں اخلاص پیدا کرے،تلاوت قرآن کے ذریعہ اللہ پاک کی خوشنودی کا خواہاں ہو،اورقرآن کی تلاوت کے ذریعہ اللہ کی قربت کے سواکسی اور چیز کا ارادہ نہ رکھاتا ہو([4])۔امام نووی کا یہ قول درست ہے،کیوں کہ بعض قاری تلاوت کے ذریعہ لوگوں کی نظریں اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں،اپنی مجلس کے تئیں لوگوں کی توجہ اور اپنی تعظیم وتوقیر حاصل کرنا چاہتے ہیں-ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں-۔قاری کے لیے یہ زجر وتوبیخ ہی کافی ہے کہ وہ ایسے شخص کی عاقبت سے واقف ہو جو قرآن اس مقصد سے سیکھتا ہے کہ اسے قاری کہا جائے ! چنانچہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا: (قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری اور بہادر ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا...)الحدیث([5])۔
2-قرآن پر عمل کرنا :یعنی قرآن کے حلال وحرام کردہ امور کو حلال وحرام سمجھنا،اس کی منہیات سے اجتناب کرنا اور اس کے اوامر کو بجالانا،اس کی محکم(آیتوں)پر عمل کرنا اور اس کی متشابہ(آیتوں)پر ایمان رکھنا،اور اس کے حدود کو نافذ کرنا اور اس کے حروف کو ادا کرنا۔ ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید آئی ہے جسے اللہ نے قرآن کے علم سے نوازا لیکن اس نے قرآن پر عمل نہیں کیا،چنانچہ صحیح بخاری کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب والی لمبی حدیث میں یہ بھی آیا ہے: ( ان دونوں نے مجھے کہا:آگے چلیے ۔ ہم چلے تو ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو بالکل چت لیٹا ہوا ہے۔ اور ایک آدمی اس کے سرہانے ایک پتھر لیے کھڑا ہے۔ وہ اس پتھر سے اس کا سر پھوڑرہا ہے۔ جب پتھر مارتا ہے تو وہ لڑھک کردور چلا جاتا ہے، پھر وہ اسے جاکر اٹھالاتاہے۔ اور جب اس لیٹے ہوئے شخص کے پاس لوٹ کرآتاہے تو اس وقت تک اس کا سر جڑ کراچھا ہوجاتا ہے اور جیسے پہلے تھا اسی طرح ہوجاتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ مارتا ہے۔ میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟ ان دونوں نے کہا: آگے چلیے۔[ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:]جس شخص کو میں نے دیکھا کہ اس کا سر پھوڑا جارہا ہے وہ ایسا شخص ہے جسے اللہ نے قرآن سکھایا،وہ رات میں اس سے الگ ہوکر سو گیا اور دن میں اس کی خاطر عمل نہیں کیا،قیامت تک اس کے ساتھ ایساہی کیا جائے گا)([6])۔
3-قرآن کو دہراتے رہنے اور اسے ہمیشہ پڑھتے رہنے پر ابھارنا:قرآن کو دہرانے سے مراد یہ ہے کہ تلاوت قرآن پر ہمیشگی برتی جائے اور اسے دہرایا جائے،اور ہمیشہ اسے پڑھتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے اپنی گہری وابستگی اور اس کی تلاوت کے ذریعہ اس سے تجدید تعلق کیا جائے([7])،اللہ کی کتاب کو یاد کرنے میں مشغول رہنے والا اور اس کا حافظ اگر اسے بار بار نہ پڑھے اور بار بار اسے نہ دہرائے تو اس کا حافظہ نسیان کا شکار ہوجائے گا،کیوں کہ قرآن سینہ سے جلد ہی نکل جاتا ہے،اس لیے اس پر توجہ دینا، کثرت سے اسے پڑھنا اور اس کی تلاوت کرنا واجب ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی مثال پیش کی جس سے ہمارے سامنے ایسے حافظ قرآن کی حالت واضح ہوجاتی ہے جو قرآن کا اہتمام کرتا ہے اور ایسے حافظ قرآن کی بھی جو اس سے لا پرواہی برتتا ہے،ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اگروہ اس کی نگرانی کرے گا تو اسے روک سکے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ بھاگ جائے گا)([8])۔
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قرآن مجید ہمیشہ پڑھتے رہو اور اس کا دَور کرتے رہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ قرآن اونٹ کے اپنی رسی تڑوا کر بھاگ جانے سے زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے)([9])۔
حافظ ابن حجر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: قرآن کادورہ کرنے اور تلاوت قرآن پر ہمیشگی برتنے کی تشبیہ ایسے اونٹ کو باندھنے سے دی گئی ہے جس کے بھاگ جانے کا خدشہ ہو،کیوں کہ جب (قرآن) بار بار پڑھا جاتا ہے تو حافظہ محفوظ رہتا ہے،جس طرح جب اونٹ رسی سے بندھا رہتا ہے تو وہ محفوظ رہتا ہے،خصوصیت کے ساتھ اونٹ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اونٹ پالتو جانوروں میں سب سے زیادہ بدکنے والا جانور ہے،اور اس کے بدک جانے کے بعد اسے قابو میں کرنا مشکل ہے([10])۔
4-یہ مت کہیں کہ میں بھول گیا بلکہ یہ کہیں کہ مجھے بھلا دیا گیا،یا مجھ سے چھوٹ گیا یا مجھ پر نسیان طاری ہوگیا:اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے، وہ کہتی ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ رات کے وقت ایک سورت پڑھ رہاتھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی جو مجھے فلاں فلاں سورت سے بھلا دی گئی تھی)۔
مسلم کی ایک روایت میں ہے: (...اس نے مجھے فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں نے فلاں فلاں سورتوں میں سے چھوڑ رکھا تھا)([11])۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں (کہنا چاہیے) کہ مجھے بھلا دیا گیا) ([12]۔
امام نووی فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں آیت بھول گیا کہنا مکروہ ہے،اور یہ کراہت تنزیہی ہے،لیکن یہ کہنا کہ "مجھے بھلا دیا گیا"مکروہ نہیں ہے،بلکہ یہ کہنا منع ہے کہ"میں بھول گیا"اس لیے کہ اس طرح کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت کے تعلق سے اس نے تساہل اور غفلت برتی ۔جب کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: { أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا }
ترجمہ: تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں:حدیث کی سب سے بہتر تاویل یہ ہے کہ حدیث کا یہ معنی لیا جائے کہ اس سے مراد حالت کی مذمت بیان کرنا ہے نہ کہ قول کی مذمت ، یعنی میں وہ حالت بھول گیا جو قرآن یاد کرنے والی کی حالت ہوتی ہے،چنانچہ وہ قرآن سے اس قدر غافل ہوگیا کہ وہ قرآن بھول گیا([13])۔
مسئلہ:اس شخص کا کیا حکم ہے جس نے مکمل قرآن یا قرآن کا کچھ حصہ یاد کیا پھر بھول گیا؟
جواب:لجنہ دائمہ کا کہنا ہے : ... حافظ قرآن کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ تلاوت قرآن سے غافل رہے،اور یہ بھی اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ اس کے مراجعہ میں کوتاہی سے کام لے،بلکہ اسے چاہئےکہ روزانہ قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت کا خوگر بنے،جو اس کے حفظ وضبط میں معاون ہو اور بھولنے کی نوبت نہ آئے، اپنے اس عمل پر ثواب کی امید رکھے اور عقیدہ اور عمل میں اس کے احکام سے استفادہ کرنے کا ارادہ رکھے۔
لیکن جو شخص قرآن کا کچھ حصہ یاد کرے اور اپنی مشغولیت یا غفلت کی وجہ سے بھول جائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا،قرآن یاد کرنے کے بعد اسے بھول جانے کے تعلق سے جو وعید آئی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت نہیں ہے۔اللہ توفیق سے نوازے([14])۔
ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔
ابن سعدی فرماتے ہیں:اللہ اپنی کتاب میں غور وفکر کرنے کا حکم دے رہا ہے،اور اس حکم سے مراد ہے : قرآن کے معانی ومفاہیم میں غور کرنا ،قرآن،اس کے اصول ومبادی،اوراس کی سزا وعقاب اور اس کے لوازمات پر باریکی سے غور وخوض کرنا۔
کیوں کہ کتاب اللہ میں تدبر وتفکر تمام علوم ومعارف کی کنجی ہے،غور وفکر کے ذریعہ ہر طرح کا خیر ظاہر ہوتا اور اسی کے ذریعہ تمام علوم کا انکشاف ہوتا ہے،اس سے دل میں ایمان کا اضافہ ہوتااور اس کا درخت مضبوط ہوتا ہے، یہ بندہ کو اپنے معبود و پالنہار اور اس کی صفات کمال سے روشناس کراتا اور نقص وکمی سے اللہ کو منزہ کرنے والی صفات سے آگاہ کرتا اوراللہ تک لے جانے والے راستے کی رہنمائی کرتا، ا س راہ پر چلنے والوں کی صفت سے اور ان کے لیے اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں ان سے آگاہ کرتا ہے۔وہ اپنے اس دشمن سے واقف ہوجاتا ہے جو حقیقت میں دشمن ہے، عذاب تک لے جانے والے راستوں سے باخبر ہوتا ہے، اس پر چلنے والوں کی صفت سے اور عذاب کے اسباب پائے جانے کی صورت میں ان کے لیے جو سزائیں مقرر ہیں، ان سے آشنا ہوتا ہے، بندہ جس قدر غور وفکر کرے گا، اسی قدر علم وعمل اور فقہ وبصیرت میں اس کا مقام ومرتبہ بلند ہوتا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے، اس پر ابھارا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ یہی نزول قرآن کا مقصد ہے: { كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب }([15]) .
ترجمہ: یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لیے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کرام نے اس کو عملی طور پر اپنی زندگی میں اپنایا، چنانچہ امام احمد عبد الرحمن سے روایت کرتے ہیں، ان کا بیان ہے: ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ کرام نے بیان فرمایا جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں پڑھتے، اور اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھتے جب تک کہ یہ نہ جان لیں کہ ان آیتوں میں علم وعمل کی کونسی باتیں ہیں، وہ کہتے ہیں: اس طرح ہم نے علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا([16])۔
اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام مالک نے اپنے موطأ میں یحیی بن سعید سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں اور محمد بن یحیی بن حبان بیٹھے ہوئے تھے تو محمد نے ایک شخص کو بلایااور کہا: مجھے ایسا کوئی ایسی روایت سناؤ جو تم نے اپنے والد سے سنا ہے، اس شخص نے کہا: میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ زید بن ثابت کے پاس گئے او ران سے عرض کیا: سات دن میں قرآن ختم کرنے کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے؟ زید نے کہا: اچھا ہے، لیکن میں نصف ماہ میں یا دس دنوں میں قرآن ختم کروں یہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے، تم پوچھ سکتے ہوکہ ایسا کیوں؟ میرے والد نے کہا: میں اس کی وجہ جاننا چاہتاہوں۔ زید نے عرض کیا: اس لیے تاکہ میں اس پر غور وفکر کروں اور ٹھہر ٹھہر کر سوچوں([17])۔
ترجمہ: جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں۔
نيز اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی اس کی دلیل ہے کہ:
{لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِين}
ترجمہ:تاکہ تم ان کی پیٹھ پر جم کر سوار ہوا کرو ، پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ، او ر کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے اسے ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
حدیث میں تو ساری کیفیت کا ذکر آیا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن دیکھا کہ آپ سواری پر سورۃ الفتح کی تلاوت فرما رہے تھے([18])۔
اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے: نبی ﷺ میری گود میں تکیہ لگا لیتے تھے جبکہ میں حیض سے ہوتی، پھر آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے([19])۔
رہی بات چلتے ہوئے قرآن پڑھنے کی تو اسے سواری کی حالت پر قیاس کیا جائے گا کیوں کہ دونوں حالت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حدیث میں ٹیک لگانے سے مراد گود میں سر رکھنا ہے۔
ابن حجر فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاست کی جگہ کے قریب قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے، یہ نووی کا قول بھی ہے([20])۔
ترجمہ: جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
ناپاکی کی حالت میں قرآن چھونے کی ممانعت اس صحیفہ میں صراحت کے ساتھ آئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کے نام لکھاتھا، اس میں ہے کہ: (قرآن کو پاک وصاف شخص ہی چھو سکتا ہے)([21])۔
جواب: ہاں ، نیام کے اندر اگر قرآن ہو تواسے اٹھانا جائز ہے ،کیوں کہ ایسے میں وہ قرآن کو نہیں چھو رہاہوتا ہے([22])۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس شخص کے پاس مصحف ہو اسے چاہئے کہ وہ کپڑوں کے درمیان اور اپنے جھولا (یا بیگ) میں اور ساز وسامان کے اندر ا سے رکھے ۔خواہ وہ کپڑا مرد کا ہو یا عورت کا یا بچہ کا، اور خواہ کپڑا مصحف کے اوپر ہو یا اس کے نیچے ، واللہ اعلم([23])۔
فائدہ: جیب میں مصحف رکھنا جائز ہے ، لیکن یہ جائز نہیں کہ انسان مصحف کے ساتھ قضائے حاجت کی جگہ میں چلا جائے ، بلکہ کتا ب اللہ کی تعظیم واحترام کرتے ہوئے اسے مناسب مقام پر رکھ دے، لیکن جب اسے خوف ہوکہ باہر رکھنے سے کوئی چرا سکتا ہے تو مجبوری کی حالت میں ضرورت کے پیش نظر مصحف کے ساتھ بیت الخلا میں داخل ہونا جائز ہے([24])۔
۸-جو شخص حدث اصغر کی حالت میں ہو ، اس کے لیے زبانی قرآن پڑھنا جائز ہے: لیکن حالت جنابت میں کسی بھی صورت میں قرآن کی تلاوت کرنا جائز نہیں، اس کی دلیل علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں –ہر حال میں- قرآن پڑھایا کرتے تھے سوائے یہ کہ آپ جنبی ہوں)([25])۔
رہی بات حدث اصغر کی تو اس حالت میں زبانی قرآن پڑھنا جائز ہے، اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ وہ ایک رات اپنی خالہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ میمونہ کے گھر قیام پزیر تھے، فرمایا: (جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا)([26])۔
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کانیند سے بیدار ہونے کے بعد اور وضو کرنے سے قبل قرآن کی تلاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کا وضو پیشاب پاخانہ اور نیند کی وجہ سے ٹوٹ جائے اس کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے، لیکن اکمل وافضل طریقہ یہ ہے کہ طہارت کی حالت میں ہی قرآن پڑھے۔
لیکن اس شخص کی ملامت اور نکیر نہیں کی جائے گی جو اس حالت میں قرآن پڑھے، بلکہ جو شخص اس کی نکیر کرے اس کو ملامت کرنازیادہ مناسب ہے کیوں کہ صحیح حدیث میں اس کا جواز آیا ہے۔ موطأ مالک میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک جماعت میں تھے اور وہ جماعت قرآن کی تلاوت کرر ہی تھی، پھر قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور لوٹے تو قرآن پڑھتے ہوئے لوٹے، اس پر ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ بغیر وضو کے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں؟ عمر نے جواب دیا: اے چھوٹے سے مسلمان! تجھے کس نے یہ فتوی دیا؟([27])۔
جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض علما ء نے زبانی تلاوت کرنے کو دیکھ کر پڑھنے سے زیادہ افضل قرار دیا ہے، جبکہ دوسرے لوگوں نے ا س سے منع کیا ہے ، اور یہ لوگ اکثریت میں ہیں، ان کا کہنا ہے: دیکھ قرآن کی تلاوت کرنا افضل ہے، کیوں کہ ایسی حالت میں انسان کی نظر قرآن پر رہتی ہے، اور قرآن کودیکھنے سے متعلق کچھ آثار وارد ہوئے ہیں جوکہ صحیح نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کی ہے، چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں: بعض علماء کا کہنا ہے: اس مسئلہ کا دار ومدار خشوع وخضوع پر ہے، اگر زبانی تلاوت کرتے ہوئے خشوع وخضوع زیادہ بحال رہے تو زبانی تلاوت کرنا افضل ہوگا اور اگر دیکھ کر قرآن پڑھنا زیادہ خشوع وخضوع کاباعث ہو تودیکھ کر پڑھنا زیادہ افضل ہوگا، اور اگر دونوں حالتیں یکساں ہوں تو دیکھ کر پڑھنا زیادہ افضل ہوگا، کیوں کہ اس سے قرآن زیادہ یاد رہتا ہے اور نظر قرآن پر جمی رہتی ہے۔
شیخ ابو زکریا النووی اپنی کتاب التبیان میں فرماتے ہیں: بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ سلف کا قول وعمل اسی تفصیل پر مبنی ہے([28])۔
ابن الجوزی فرماتے ہیں: جس شخص کے پاس مصحف ہو اسے چاہئے کہ روزانہ کچھ آیتیں (اس میں دیکھ کر) پڑھا کرے تاکہ وہ (مصحف) متروک نہ قرار پائے([29])۔
۹-حائضہ اور نفساء کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے: کیوں کہ اس کی ممانعت کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں آئی ہے، البتہ مصحف کو چھوئے بغیر تلاوت کرے گی۔ لجنۃ دائمہ کا فتوی ہے: مصحف کو چھوئے بغیر حائضہ اور نفساء کا قرآن کی تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء کے مختلف اقوال میں سے یہ صحیح ترین قول ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے([30])۔
۱۰-تلاوت سے قبل مسواک سے منہ کو صاف کرنا مستحب ہے۔ یہ کلام الہی کے ساتھ ادب کا تقاضہ ہے، چنانچہ جب قاری کلام الہی کی تلاوت کرنا چاہے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ مسواک سے اپنے منہ کو پاک صاف کرے یا کوئی بھی دوسرا طریقہ استعمال کرے جس سے منہ کی صفائی ہوسکے، بے شک یہ کلام الہی کے ساتھ ادب سے پیش آنے کا ایک طریقہ ہے۔اس کی دلیل کے طور پر حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے، وہ فرماتے ہیں: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے جب بیدار ہوتے تو پہلے مسواک سے اپنے منہ کو صاف کرتے )([31])۔
۱۱-سنت یہ ہے کہ تلاوت کے وقت اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے۔ تلاوت سے قبل اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا سنت ہے، اس کی اصل دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: { فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم }
ترجمہ: قرآن پڑھنے کے وقت راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
حدیث سے اس کی دلیل ابوسعید خدری کی یہ روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب رات کو قیام فرماتے تو «الله أكبر» کہتے پھر یوں کہتے: «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ» ”پاک ہے تو، اے اللہ! اپنی حمد کے ساتھ، تیرا نام بڑی برکت والا ہے۔ تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ پھر تین بار کہتے «لا إله إلا الله»”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ پھر تین بار کہتے «لا إله إلا الله»”اللہ سب سے بڑا اور بہت بڑا ہے۔“ «أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ» ”میں، اللہ سننے والے جاننے والے کی پناہ چاہتا ہوں کہ شیطان مردو مجھے وساوس اور برے خیالات میں مبتلا کرے اور مجھے تکبر پر آمادہ کرے اور غلط شعر و شاعری کی طرف لے آئے۔“ اس کے بعد آپ تلاوت فرماتے([32])۔
مذکورہ آیت اور اس حدیث سے استعاذہ کے دو صیغے معلوم ہوتے ہیں۔
1- أعوذ بالله من الشيطان الرجيم.
2- أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه.
3-أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم([33]) .
قاری کے لیے مستحب یہ ہے کہ کبھی یہ صیغہ پڑھے اور کبھی وہ صیغہ۔
استعاذہ کا فائدہ: تاکہ تلاوت کے دوران شیطان انسان کے دل سے دور رہے، اور وہ قرآن میں غور وفکر کر سکے، اس کے معانی ومفاہیم کو سمجھ سکے، اس سے مستفید ہوسکے، کیوں کہ آپ حاضر دماغی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں اور غفلت کے ساتھ قرآن پڑھیں ، دونوںمیں بہت فرق ہے۔یہ ابن عثیمین کا قول ہے([34])۔
رہی بات بسم اللہ کی تو یہ سنت ہے۔انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک روز رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تھے اور اسی اثناء میں آپﷺ کچھ دیر کے لیے نیند جیسی کیفیت میں چلے گئے، پھر آپﷺ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا تو ہم نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ کس بات پر ہنسے؟ آپﷺ نے فرمایا: ،،ابھی مجھ پر ایک سورت نازل کی گئی ہے۔،، پھر آپﷺ نے پڑھا: (بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ) ،،بلاشبہ ہم نےآپﷺ کو کوثر عطا کی۔ پس آپﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں، یقیناً آپﷺ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔،، الحدیث([35])۔
مسئلہ: لوگوں کا معمول ہے کہ جب وہ قرآن کی تلاوت ختم کرتے ہیں تو (صدق اللہ العظیم) کہتے ہیں، کیا اس کی کوئی صحیح دلیل ہے؟
جواب: تلاوت ختم کرتے وقت (صدق اللہ العظیم) کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اگرچہ یہ اکثر لوگوں کا عمل بن چکا ہے، بہت سے لوگوں کا عمل اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ حق پر ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِين}
ترجمہ: گو آپ لاکھ چاہیں اکثر لوگ ایمان دار نہیں ہوں گے۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا ایک دلچسپ قول ہے کہ: ہدایت کے راستے سے اس لیے خوف نہ کھاؤ کہ اس پر چلنے والے لوگ کم تعداد میں ہیں، اور (گمراہی کے راستے پر)چلنے والے لوگوں کی کثرت سے دھوکہ نہ کھاؤ کہ وہ سب ہلاک ہونے والے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ دلیل اس بات کی آئی ہے کہ تلاوت ختم کرتے ہوئے یہ جملہ کہنا ممنوع ہے، چنانچہ بخاری ومسلم نے عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو۔“ میں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بے شک میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے قرآن سنوں۔“ انہوں نے کہا: پھر میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب میں درج ذیل آیت ہر پہنچا: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاء شَهِيدًا}”پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔“ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”رک جاؤ۔“ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے([36])۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود سے یہ نہیں کہا کہ: (صدق اللہ العظیم ) کہو، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ پہلی صدی کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ وہ تلاوت ختم کرتے ہوئے یہ جملہ پڑھا کرتے تھے، اور نہ ہی صحابہ کرام کے بعد آنے والے اسلاف سے ثابت ہے، چنانچہ اب ہمارے لیے یہ کہنے کے سوا کوئی گنجائش نہیں کہ یہ ایک نئی چیز ہے اور حدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں آئی ہے جو اس کو جائز ٹھہرائے۔
لجنہ دائمہ کا فتوی ہے: صدق اللہ العظیم کہنا فی ذاتہ درست ہے، لیکن پابندی کے ساتھ تلاوت قرآن سے فارغ ہوتے وقت اسے دہرانا بدعت ہے، کیوں کہ علمم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا اور نہ آپ کے خلفائے راشدین نے ایسا کیا جبکہ وہ کثرت سے قرآن پڑھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ( جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہے) اور ایک روایت میں آیا ہے : (جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے)([37])۔
فائدہ: نووی نے اپنی کتاب الأذکار میں ذ کر کیا ہے کہ: قاری کے لیے مستحب ہے کہ جب سورۃ کے درمیان سے تلاوت کا آغاز کرے تو ایسی آیت سے شروع کرے جو (معنوی اعتبار سے) ایک دوسرے سے مربوط ہو، اسی طرح اگر ٹھہرے تو ایسی آیت پر ٹھہرےجو سابقہ آیت سے مربوط ہو اوربات ختم ہورہی ہو۔ آغاز وانتہا میں پارہ، حزب اور عشر کی پاسداری نہ کرے، کیوں کہ یہ زیادہ تر درمیان کلام میں آتے ہیں....پھر آپ نے فرمایا: اسی لیے علمائے کرام فرماتے ہیں: مکمل سورۃ کی تلاوت کرنا زیادہ افضل ہے بنسبت کسی لمبی سورۃ کی متعین مقدار کی تلاوت کرنے سے ، کیوں کہ معنوی ربط وضبط بعض اوقات اور بعض حالات ومقامات میں بہت سے لوگوں سے مخفی ہوجاتا ہے([38])۔
ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر۔
ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنے کا مطلب ہے: ٹھہر ٹھہر کر اور واضح انداز میں تلاوت کرنا...ابن عباس اللہ تعالی کے فرمان : { وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً}کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اسے کھول کھول کر پڑھا کرو۔ ابو اسحاق فرماتے ہیں: یہ وضاحت اس طرح پوری نہیں ہوتی کہ تیز رفتاری سے قرآن پڑھے، بلکہ اس طرح ہوتی ہے کہ تمام حروف کو کھول کھول کر اور ترتیل کے ساتھ کما حقہ ادا کرے([39])۔
ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی کوسمجھنے کے لیے یہ طریقہ تلاوت زیادہ کارگر ہے۔
بہت سے صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اسلاف عظام نے تلاوت قرآن میں بے جا سرعت کو مکروہ قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی رغبت تاکہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب حاصل ہو، قاری کو عظیم ترین مصلحت اور فائدہ سے محروم کردیتی ہے جوکہ قرآن میں غور وفکر کرنا، اس سے اثر قبول کرنا اور قاری پر اس کے اثرات کا ظاہرہونا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص قرآن کی آیتوں پر غور وفکر کرتے ہوئے اور اس کے معانی کوسمجھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کرتا ہے ، اس کی حالت اس شخص سے کہیں درجہ کامل ہوتی ہے جو تیز رفتاری کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے تاکہ جلدی ختم کرسکے اور زیادہ سے زیادہ تلاوت کرسکے۔
تیز رفتاری سے قرآن کی تلاوت کرنے کی مذمت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک قول بھی مروی ہے، چنانچہ ابو وائل روایت کرتے ہیں: ا یک آدمی جو نہیک بن سنان کہلاتا تھا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا:ابو عبدالرحمان! آپ اس کلمے کو کیسےپڑھتے ہیں؟آپ اسے الف کے ساتھ مِّن مَّاءٍ غَيْرِآسِنٍ سمجھتے ہیں۔ یا پھر یاء کے ساتھ مِّن مَّاءٍ غَيْرِياسِنٍ ؟تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا:تم نے اس لفظ کے سواتمام قرآن مجید یادکرلیاہے؟اس نے کہا:میں (تمام) مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتاہوں۔اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:شعر کی سی تیز رفتاری کےساتھ پڑھتے ہو؟کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا،لیکن جب وہ دل میں پہنچتا اور اس میں راسخ ہوتاہے تو نفع دیتا ہے([40])۔
ابو جمرۃ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : (میں نے ابن عباس سے کہا: میں تیز رفتاری سے پڑھتا ہوں، تین دن میں قرآن ختم کرلیتا ہوں، آپ نے فرمایا: میں ایک رات میں صرف سورۃ البقرۃ کی تلاوت کروں اور اس پر غور وفکر کروں اور ترتیل کے ساتھ اس کی تلاوت کروں، یہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے بنسبت اس سے کہ تمہاری طرح پڑھوں) ۔ ایک روایت میں ہے: ( اگر تمہیں پڑھنا ہی ہو تو ایسے پڑھو کہ تمہارے کان سن سکیں اور تمہارا دل یاد رکھ سکے)([41])۔
ابن مفلح کہتے ہیں: احمد نے کہا: ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا مجھے پسند ہے اور آپ نے تیزی کے ساتھ پڑھنے کو نا پسند فرمایا۔ حرب کا کہنا ہے: میں نے احمد سے سوال کیا کہ تیزی کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟ تو آپ نے اسے مکروہ بتایا ، الا یہ کہ انسان کی زبان ہی ایسی ہو، یا ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی قدرت نہ رکھتا ہو ، پوچھا گیا : کیا اس پر گناہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: جہاں تک گناہ کی بات ہے تو میں یہ کہنے کی جرات نہیں کرسکتا([42])۔
جواب: اگر تیز روی سے تلاوت میں خلل نہ آتا ہو تو بعض علماء نے تیزی سے پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے تاکہ کثرتِ تلاوت سے اجر وثواب بھی کثرت سے حاصل ہو، جبکہ بعض علماء نے ترتیل اور تدبر کے ساتھ تلاوت کرنے کو افضل قرار دیا ہے۔
ابن حجر فرماتے ہیں: تحقیقی بات یہ ہے کہ سرعت اور ترتیل دونوں میں ہی ایک طرح سے افضل ہیں، بشرطیکہ تیز رفتاری سے پڑھنے والا حروف وحرکات اور جزم (سکون) اور واجبات کی ادائیگی میں کمی نہ کرے، چنانچہ یہ بعید نہیں کہ دونوں میں سے کوئی ایک طریقہ دوسرے سے افضل ہو یا فضیلت میں دونوں ہی طریقے یکساں ہوں،غو روفکر کرتے ہوئے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک قیمتی جوہر صدقہ کرے اور جو شخص تیزی سے تلاوت کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح جوکئی ایک جواہر صدقہ کرے لیکن ان سب کی قیمت ایک جوہر کے برابر ہو، ایک جوہر کی قیمت دوسرے کئی جواہر کے برابر ہوسکتی ہے، اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے([43])۔
۱۳-کھینچ کر پڑھنا مستحب ہے، یہ ہمارے رسول علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت ہے، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی ﷺ کی قراءت کیسے تھی؟ تو انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا یعنی بسم اللہ کو کھنیچ کر پڑ ھتے الرحمن کو مد کے ساتھ پڑھتے اور الرحیم کو بھی کھینچ کر تلاوت کرتے([44])۔
۱۴- خوش الحانی سے تلاوت کرنا مستحب ہے اور تلاوت میں لحن (طرب آمیز طرز اور لَے) ممنوع ہے۔اس کی دلیل براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کو نماز عشاء میں ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴾ پڑھتے سنا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوش الحان یا اچھا پڑھنے والا کوئی نہیں سنا([45])۔
خوش الحانی سے تلاوت کرنے سے متعلق صحیح احادیث آئی ہیں، جن میں سے چند احادیث یہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کسی چیز کے لیے اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر قرآن کریم کی وجہ سے بے نیاز ہونے کی دی ہے([46]))([47])۔
ابن کثیر فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی چیز اس طرح نہیں سنی جس طرح اس نے نبی کی وہ تلاوت سنی جس میں انہوں نے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے تلاوت کی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کی تلاوت میں کمال خلقت اور منتہائے خشیت کے ساتھ خوش الحانی یکجا ہوتی ہے، جو کہ تلاوت کا مقصد ہے۔اور اللہ پاک اپنے تمام بندوں کی آوازیں سنتا ہے خوا ہ وہ نیک ہوں یا فاجر ([48])۔
امام احمد فرماتے ہیں: قاری خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے، خوف وخشیت اور غور وفکر کے ساتھ اسے پڑھے ، یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا معنی ہے : ( اللہ تعالی نے اپنے نبی کو کسی چیز کے لیے اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر قرآن کریم کی وجہ سے بے نیاز ہونے کی دی ہے)([49])۔
ایک حدیث یہ بھی ہے: (جو شخص خوبصورت آواز سے قرآن کی تلاوت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں )([50])۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قرآن کی تلاوت خوبصورت آواز میں کرو)([51])۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آواز میں طرب ، سوز اور خشوع پیدا کیا جائے۔یہ ابن کثیر کا قول ہے([52])۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسی اشعری کی تلاوت سنی تو فرمایا : (كاش! تم مجھے دیکھتے جب گزشتہ رات میں بڑے انہماک سے تمہاری قراءت سن رہا تھا تمہیں آل داؤدکی خوبصورت آوازوں میں سے ایک خوبصورت آوازدی گئی ہے )([53])۔ ابو یعلی کے نزدیک یہ اضافہ آیا ہے کہ موسی نے کہا: (اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ میری تلاوت سن رہے ہیں تو میں مزید خوبصورتی کے ساتھ تلاوت کرتا)([54])۔
ابو موسی کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ تلاوت میں تکلف کرنا جائز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تلاوت کو شرعی حد سے باہر نکال دیا جائے بایں طور کہ خوب تان کر پڑھے، (حرو ف وحرکات کو) صحیح طریقہ سے ادا نہ کرے اور اس میں مبالغہ سے کام لے یہاں تک کہ وہ لحن (طرب آمیز طرز) میں تبدیل ہوجائے، یہ طریقہ ہر گز مشروع نہیں ہے۔ امام احمد نے لحن (جھوم جھوم کر طرب) کے ساتھ تلاوت کرنے کومکروہ قرار دیا اور فرمایا: یہ بدعت ہے([55])۔ شیخ تقی الدین فرماتے ہیں: طرب آمیز طرز اور لَے کے ساتھ اس طرح قرآن کی تلاوت کرنا جس طرح گانا گایا جاتا ہے، مکروہ اور بدعت ہے، جیسا کہ مالک، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہ ائمہ کرام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے([56])۔
۱۵-قرآن کی تلاوت کرنے یا سننے کے وقت رونا۔ دونوں کی دلیل حدیث میں آئی ہے، پہلے کی دلیل عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: (میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ کے پیٹ سے ہانڈی کے ابلنے کی سی آواز آرہی تھی، یعنی آپ رو رہے تھے)([57])۔
عبد اللہ بن شداد فرماتے ہیں: میں نے عمر کے بلکنے کی آواز سنی جبکہ میں آخری صف میں تھا، وہ اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے: { إنما أشكو بثي وحزني إلى الله }([58]) .
دوسرے کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ ! مجھے قرآن سناؤ۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں (تم مجھے قرآن سناؤ)“، میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی حتیٰ کہ میں اس آیت ہر پہنچا: { فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيداً }”پھر اس وقت کیا کیفیت ہو گی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے۔ اور آپ کو (اے رسول!) ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔“ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ”بس کرو، اب یہ کافی ہے۔“ میں نے اپ کی طرف غور سے دیکھا تو آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں([59])۔
آج کل کچھ لوگ جس قسم کی (پرتکلف) چیخ وپکار اور نوحہ گیری کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے، کسی کو یہ بد گمانی نہیں ہونی چاہئے کہ ہم سب کے بارے میں یہی حکم لگاتے ہیں ، ہرگز نہیں! بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ سچے دل والے بھی ہیں اور کچھ ایسے نہیں ہیں۔تکلف کرنے والوں پر تعجب ہوتا ہے کہ جب دعائے قنوت میں امام کی دعا سنتے ہیں تو آنسو پر آنسو بہائے جاتے ہیں لیکن جب کلام الہی اور قرآن کی آیات سنتے ہیں تو ان کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو بھی نہیں گرتا! ہم ایسے تکلف پسندوں سے کہنا چاہیں گے کہ: ٹھہر جاؤ! سب سے کامل ترین کیفیت والے وہ لوگ ہیں جن کی صفت اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یہ بتایا: {اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ }
ترجمہ: اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے ، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں، آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالی کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں۔
سب کامل کیفیت والا شخص وہ ہے جس کی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہو کہ آپ کے رونے کی آواز ہانڈی کے ابلنے کی سی ہوتی تھی۔
لیکن ہمیں جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ کہ بعض اسلاف کرام تلاوت قرآن یا سماع قرآن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بے ہوش گئے یا ان کو موت آگئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ: تابعین اور ان کے علاوہ دیگر اسلاف کرام کے ساتھ رونما ہونے والے ان واقعات کا ہم انکار نہیں کرتے ہیں، لیکن (غور کرنے کی بات یہ ہے کہ) صحابہ کرام –رضوان اللہ علیہم- کے زمانہ میں ایسا نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان (تابعین اور اسلا ف کے دل پر) اثر ڈالنے والا عامل بڑا قوی اور اثر انگیز تھا، جبکہ ان کے دل اس کے سامنے کمزور تھے چنانچہ وہ اس کی تاب نہ لاسکے اور اس طرح کے واقعات رونما ہوئے، وہ اس معاملہ میں صادق تھے اور معذور بھی۔
ابن مفلح فرماتے ہیں: علم وعمل کے امام اور امام احمد کے استاد یحی بن القطان کے ساتھ ایسا اکثر ہوا کرتا تھا۔
امام احمد فرماتے ہیں :اس تاثیر کو اگر کوئی شخص اپنی ذات سے دور رکھ سکتا تھا تو یحی ضرور رکھ سکتےتھے۔
ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے ساتھ بھی یہ کیفیت پیدا ہوئی، ان میں سے کچھ لوگ سچے اور صادق تھے تو کچھ لوگ ایسے نہیں تھے۔ اللہ کی قسم! ان میں سے جو سچے تھے ان کا مقام ومرتبہ بھی بلند ہے۔کیوں کہ جب تک حاضر دماغی اور زندہ دلی نہ ہو، سنی جانے والی آیتوں کےمعانی اور اس کی قدر ومنزلت کا علم نہ ہو، اور جو معنی ومفہوم مراد ہو ، اس کا احساس وشعور نہ ہو، تو یہ کیفیت نہیں پیدا ہوسکتی، لیکن پہلی حالت زیادہ کامل ہے، کیوں کہ جس کی وہ حالت ہوتی ہے اس پر بھی وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو ان لوگوں پر ہوتی ہے بلکہ اس کی کیفیت اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، نیز اس کے اندر ثابت قدمی اور قوت قلبی بھی موجود ہوتی ہے۔اللہ تعالی سبھوں سے راضی ہو([60])۔
فائدہ: خوش الحان قاری سے تلاوت کی درخواست کرنا مستحب ہے، یہ اس حدیث سے مزید واضح ہوجاتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود کو حکم دیا کہ وہ آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کریں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے عبداللہ ! مجھے قرآن سناؤ۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل کیا گیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں (تم مجھے قرآن سناؤ)“، میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی حتیٰ کہ میں اس آیت ہر پہنچا: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاء شَهِيدًا}
”پھر اس وقت کیا کیفیت ہو گی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے۔ اور آپ کو (اے رسول!) ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔“ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: ”بس کرو، اب یہ کافی ہے۔“ میں نے اپ کی طرف غور سے دیکھا تو آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں([61])۔
عبد اللہ بن مسعود ہی وہ شخص ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کے لیے یہ امر خوش کن ہو کہ قرآن اسی طرح طراوت وتازگی کے ساتھ پڑھے جس طرح وہ نازل ہوا تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد کی طرح تلاوت کرے)([62])۔
آپ کا شمار ان چار صحابہ کرام میں سے ہوتا ہے جن سے قرآن سیکھنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ۔آپ علیہ الصلاۃ والسلا م نے فرمایا: (قرآن مجید چار آدمیوں سے پڑھو: عبداللہ بن مسعودسے، سالم سے، جو ابوحذیفہ کے آزاد کردہ ہیں، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے)([63])۔
۱۶-بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب ہے بشرطیکہ کسی نقصان اور فساد کا باعث نہ ہو۔نووی نے اپنی کتاب الأذکار میں ذکر کیا ہے: بلند آواز سے تلاوت کرنے کی فضیلت بہت سی احادیث میں آئی ہے اور پست آواز سے تلاوت کرنے کی فضیلت بھی بہت سے آثار میں آئی ہے ، علمائے کرام فرماتے ہیں : ان احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پست آواز سے پڑھنا ریا ونمود سے دور رہنے کا ذریعہ ہے، چنانچہ یہ اس شخص کے حق میں افضل ہے جو ریا ونمود سے ڈرتا ہو، ور اگر ریا ونمود کا خدشہ نہ ہو تو بلند آواز سے پڑہنا زیادہ افضل ہے، بشرطیکہ کسی نمازی ، یا سوئے شخص یا کسی اور کی اذیت کا باعث نہ ہو۔بلند آواز سے پڑھنا زیادہ افضل ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں عمل کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اس کا فائدہ دوسرے کو بھی پہنچتا ہے، اس سے قاری کے دل میں بیداری پیدا ہوتی ہے، وہ غور وفکر کرنے پر آمادہ ہوتا ہے، اپنے کان کو تلاوت پر لگائے رکھتا ہے، نیند کو بھگاتا ہے، نشاط میں اضافہ کرتا ہے، دوسرے سوئے ہوئے اور غافل شخص کو بھی بیدا ر کرتا ہے، اس میں نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ جب قاری کے دل میں اس طرح کی نیت پائی جائے تو بلند آواز سے تلاوت کرنا افضل ہوگا([64])۔لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک اہم بات کی طرف اشارہ کریں ، وہ یہ کہ جوشخص بلند آواز سے تلاوت کرے اسے چاہئے کہ آس پاس کے لوگوں کی رعایت کرے ، جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا کوئی تلاوت قرآن میں مصروف ہو، تو بلند آواز سے تلاوت کرکے انہیں تکلیف نہ پہنچائے ۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز سے قراءت کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ”خبردار! تم بلاشبہ سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو مگر کوئی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قراءت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے۔“ یا فرمایا: ”نماز میں (اپنی آواز بلند نہ کرے)۔“([65])
تنبیہ: مردوں کی موجودگی میں لڑکیوں کا تلاوت قرآن کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں ان لڑکیوں کی وجہ سے فتنہ ہونے کا اندیشہ ہے اور شریعت نے حرام امور کی جانب لے جانے والے تمام ذرائع پر پابندی لگائی ہے([66])۔
فائدہ: اجر وثواب کے حصول کے لئے آواز سے اور بول کر تلاوت کرنا ضروری ہے۔ اور بعض لوگ جو بغیر ہونٹ ہلائے ہی تلاوت کرتے ہیں؛ اس سے تلاوت کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ ابن باز حفظہ اللہ ([67])اپنے ایک فتوے میں فرماتے ہیں: قرآن کو تدبر وتفکر کے ساتھ اور اس کے معنی کو سمجھے بغیر ( اور ہونٹوں کو ہلائے بغیر) فقط دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس سے وہ شخص قارئ(پڑھنے والا ) نہیں کہلائے گا اور اسے قرآن تلاوت کرنے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ آواز کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے، گرچہ (آواز اتنی ہلکی ہو کہ)اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنی تلاوت کی آواز نہ سنائے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: قرآن پڑھا کرو کیونکہ بروز قیامت یہ اصحاب قرآن کا سفارشی بن کر آئےگا. اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔ اصحاب قرآن سے نبی اکرم ﷺ کی مراد وہ لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں، جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے۔ نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی۔ اسے ترمذی اور دارمی نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ اور کوئی اس وقت تک قارئ(پڑھنے والا) نہیں کہلا سکتا جب تک وہ بول کر نہ پڑھے، جیسا کہ اہل علم نے اس کی وضاحت کر رکھی ہے۔ توفیق دینے والا تو اللہ ہی ہے([68])۔
17۔ ایک مرتبہ قرآن مکمل کرنے کی مستحب مدت: سلف صالحین مختلف مدتوں میں ایک مرتبہ قرآن کریم کو مکمل کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی دو مہینے میں مکمل کرتا تو کوئی ایک مہینے میں۔ کوئی دس راتوں میں مکمل کرتا تو کوئی سات راتوں میں، جبکہ اکثر سلف سات راتوں میں ہی قرآن ایک مرتبہ مکمل کیا کرتے تھے۔ الأذکار میں یہ امام نووی رحمہ اللہ کا بیان ہے([69])۔ان میں بعض ایسے بھی تھے جو سات سے کم یعنی تین راتوں میں اور بعض ہر دن اور ہر رات میں ایک بار قرآن مجید مکمل کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا قصہ مشہور ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ہر مہینے میں ایک بار قرآن مجید ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کیا: مجھ میں تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: اچھا تم سات راتوں میں قرآن مجید ختم کیا کرو، اس سے زیادہ نہ پڑھو([70])۔ لہذا بعض سلف نے اس حدیث کی بنیاد پر قرآن مجید مکمل کرنے کے لئے اقل مدت سات دنوں کو بنا لیا تھا۔ اور بعض نے تین دنوں کو اقل مدت قرار دیا تھا، اور ان کی دلیل ابوداود وغیرہ کی یہ حدیث ہے: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو۔ انہوں نے کہا: مجھ میں (اس سے زیادہ کی) طاقت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اسے تین روز میں مکمل پڑھا کرو([71])۔
جبکہ امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی قوت ونشاط پر منحصر ہے، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہےکہ وہ ایک رات میں قرآن مجید مکمل کیا کرتے تھے، اور سلف کی ایک جماعت سے بھی ایسا کرنا مروی ہے۔یہ ابن مفلح رحمہ اللہ کا قول ہے([72])۔
ہمارے نزدیک وہ قول راجح ہے جسے امام نووی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: یہ معاملہ الگ الگ لوگوں کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے۔ لہذا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے معمولی غور فکر سے قرآن کا معنی اور اس کی باریک باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں تو وہ اتنی مدت کو اختیار کرسکتا ہے جس میں وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکے۔ اور جو نشر علم یا مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے یا دین اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ میں مشغول رہتا ہو تو اسے اتنی مدت اختیار کرنی چائیے جس سے نہ اس کی ذمہ داری میں خلل واقع ہواور نہ قرآن کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھنے کا مقصد فوت ہو۔ اور جو ان مذکورہ لوگوں میں سے نہ ہو تو اسے چاہیے کہ حتی الامکان زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرے، البتہ اتنا نہ پڑھے کہ اکتا جائے اور نہ اس تیزی کے ساتھ پڑھے کہ کچھ نہ سمجھے([73])۔
تنبیہ: قرآن مجید مکمل کرنے کے وقت کوئی مخصوص دعا نہیں ہے۔ نیز ختمِ قرآن کی ڈھیر ساری دعاوں کا لوگوں کے درمیان مشہور ہوجانا اور رواج پاجانا ان دعاوں کی مشروعیت کی دلیل نہیں ہے اور نبی اکرم ﷺ سے نہ کوئی ایسی مرفوع روایت ہی موجود ہے جو تکمیل قرآن کے وقت کسی دعا کے اہتمام کرنے پر دلیل بن سکے۔ لوگوں میں منتشر ان دعاوں میں سب سے مشہور دعا؛ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی "دعاء ختم قرآن عظیم" ہے جو ان کی جانب منسوب تو ہے لیکن ان کی جانب اس دعا کی نسبت قطعا درست نہیں۔ شیخ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ نے اس دعا کو شیخ الاسلام کے فتاوی میں شامل کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس کی نسبت ان کی جانب مشکوک ہے([74])۔
جب ہم دعا ختم قرآن پر بات کر ہی رہے ہیں تو آئیے شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کا بیان کردہ خلاصہ بھی ایک علمی فائدہ کی شکل میں ذکر کرتے چلیں جسے انہوں نے اپنے رسالہ بنام"مرویات دعاء ختم القرآن" میں بیان کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
سابقہ تفصیل کے پیش نظر ان دونوں مقامات میں حکم کے اعتبار سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کا خلاصہ دو امور پر مشتمل ہے:
اولا: نماز سے باہر ختم قرآن کے وقت قارئ کا دعا کرنا اور اس دعا میں لوگوں کا حاضر ہونا؛ اس امت کے اولین لوگ یعنی سلف صالحین سے ثابت ہے، جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کا عمل گزر چکا۔ اور اس پر تابعین کی ایک جماعت اور امام احمد نے حرب، ابو حارث اور یوسف بن موسی کی روایت کے مطابق؛ ان کی متابعت کی ہے۔ نیز یہ مشروع دعا میں سے۔ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ قول گزر چکا ہے : یہ وقت دعا اور قبول دعا کے سب سے زیادہ تاکیدی اوقات میں سے ہے۔
ثانیا: امام یا منفرد کا نماز میں رکوع سے پہلے یا اس کے بعد اور نماز تراویح میں یا کسی دوسری نماز میں؛ ختم قرآن کی دعا پڑھنے کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے کچھ بھی وارد نہیں ہے اور نہ آپ کے صحابہ سے ہی کچھ ثابت ہے([75])۔
18۔اونگھ آنے پر قرآن کریم کی تلاوت روک دینا سنت ہے: اس سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ کی حدیث میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص رات کو قیام کرے اور اس کی زبان پر قراءت مشکل ہوجائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو اسے لیٹ جانا چاہیے([76])۔
"اس کی زبان پر قراءت مشکل ہوجائے" یعنی اس کی زبان رک جائے اور اس پر قرآن جاری نہ ہوسکے۔یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([77])۔
اور قرآن مجید کی تلاوت سے روکنے کی وجہ کو نبی اکرم ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بیان کیا ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں اونگھنے لگے تو وہ سوجائے حتیٰ کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھتاہے تو ممکن ہے وہ استغفار کرنے چلے لیکن اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگے([78])۔نبی اکرم ﷺ نے یہاں بہت باریک نکتہ بیان کیا ہے۔ انسان جب اونگنے لگتا ہے تو اپنی گفتگو خلط ملط کردیتا ہے۔ لہذا (اس حالت میں) قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور نماز ادا کرنے والے کو نماز وتلاوت سے رک جانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کہیں نادانستہ طور پر مصلی خود اپنے آپ پر بددعا نہ کرجائے۔ نیز تاکہ بغیر سمجھے بوجھے سرعت کے ساتھ اور غیر عربی زبان میں قرآن کریم کی تلاوت سے قرآن مجید کو محفوظ رکھا جاسکے۔
فائدہ: جب قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو جمائی آنے لگے تو اسے تلاوت سے رک جانا چاہیے کیونکہ اگر وہ جمائی لیتے لیتے تلاوت کرتا رہےگا تو (اس کے منھ سے) ایسی پریشان کن اور مضحکہ خیز آوازیں اور باتیں نکلیں گی جن سے قرآن مجید کو محفوظ ومنزہ رکھنا ضروری ہے۔
19۔ بغیر قطع کلامی کے لگاتار تلاوتِ قرآن کرنا مستحب ہے: یہ ان آداب میں سے ہے جن کو اختیار کرنا قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے لئے مستحب ہے۔ لہذا جب وہ تلاوت شروع کرے تو ضروری کام کے علاوہ اپنی تلاوت کو نہ روکے، کیونکہ کلام اللہ کے ادب کا یہ تقاضہ ہے کہ دنیاوی امور کی وجہ سے اس کی تلاوت نہ روکی جائے۔ اور آپ بعض ان لوگوں کو دیکھ کر تعجب کریں گے جو مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ کتنی مرتبہ معمولی دنیاوی امور کی وجہ سےاپنی تلاوت کو روکتے ہیں۔ دراصل یہ شیطان کی کارستانی ہوتی ہے(جو ان کا دھیان بھٹکاتا رہتا ہے) کیونکہ وہ کسی مسلمان کا بھلا کبھی نہیں چاہ سکتا!
اس امر کی دلیل تابعی جلیل حضرت نافع رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت میں موجود ہے، وہ فرماتے ہیں: حضرت ابن عمر ؓ جب قرآن پڑھتے تو اس سے فارغ ہونے تک کوئی بات نہ کرتے تھے۔ ایک دن میں نے ان کے قرآن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تو انہوں نے سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر پہنچے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ آیت کس چیز کے متعلق نازل ہوئی تھی؟میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا: یہ آیت فلاں فلاں چیز کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا([79])۔ یہ تھی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی عادت، وہ نشر علم کے علاوہ کسی اور وجہ سے اپنی تلاوت نہیں روکتے تھے۔ اور نشر علم بھی تو عبادت ہی ہے۔
20۔قارئ کے لئے یہ مسنون ہے وہ تسبیح کی آیت پر تسبیح بیان کرے، عذاب کی آیت پر اس سے پناہ طلب کرے اور رحمت کی آیت پر اللہ سے رحمت کی دعا کرے: حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنی اس حدیث میں جس میں وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں؛ اس میں فرماتے ہیں: ۔۔۔پھر آپ نے آل عمران شروع کردی،اس کو پورا پڑھا،آپ ٹھہر ٹھہر کر قرأت فرماتے رہے ۔جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے توسبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت ) سے گزرتے(پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔( اللہ سے) پناہ مانگتے۔([80]) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر قارئ قرآن کے لئے نماز اور نماز کے علاوہ ان امور کو انجام دینا مستحب ہے([81])۔
21۔ سجدہ کی آیت پر سجدہ کرنا مسنون ہے: کتاب اللہ میں کُل پندرہ سجدے ہیں۔ جب کوئی تلاوت کرنے والا ان مقامات سے گزرے تو اس کے لئے مسنون ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس میں نبی اکرم ﷺ سے وارد اس ذکر کو پڑھے: اللَّهُمَّ احْطُطْ عَنِّي بِهَا وِزْرًا وَاكْتُبْ لِي بِهَا أَجْرًا وَاجْعَلْهَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا(اے اللہ! اس سجدے کی وجہ سے میرے گناہوں کا بوجھ اتار دے اور میرے لئے اس کا ثواب لکھ دے اور اسے اپنے پاس میرے لئے ذخیرہ بنادے۔) اور ترمذی میں اتنا اضافہ ہے: وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ( اور مجھ سے اس سجدہ کو ویسے ہی قبول فرما جس طرح تونے اپنے بندے داود علیہ السلام سے قبول فرمایا تھا)([82])۔
یا یہ دعا پڑھے : سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ(میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے۔)([83])۔
یا یہ پڑھے: اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ( اے اللہ!میں نے تیرے ہی حضور سجدہ کیااور تجھ ہی پر ایمان لایا اور ا پنے آپ کو تیرے ہی حوالے کیا،میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نےاسے پیدا کیا،اس کی صورت گری کی اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں تراشیں،برکت والاہے اللہ جو بہترین خالق ہے ۔)([84])
(یاد رہے کہ) سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے، یعنی اس کو انجام دینے والے کو اجر وثواب حاصل ہوگا جبکہ اس کو ترک کرنے والے کو کوئی گناہ نہ ہوگا۔ لیکن مومنوں کے لئے اسے چھوڑنا اور اس میں تفریط سے کام لینا مناسب نہیں ہے۔ اس کی سنیت اور عدم وجوب کی دلیل یہ ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ پر قرآن کی تلاوت کی اور(سجدہ تلاوت آنے پر) سجدہ نہ کیا۔ چنانچہ عطاء بن یسار حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک دفعہ نبی ﷺ کے حضور سورہ نجم تلاوت کی تھی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا تھا([85])۔
اسی طرح کا عمل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا ، چنانچہ بروز جمعہ انہوں نے منبر پر سورہ النحل کی تلاوت کی اور آیت سجدہ پر سجدہ کیا ، پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو دوبارہ انہوں نے سورہ النحل کی تلاوت کی، لیکن جب سجدہ کا مقام آیا تو فرمایا: لوگو! ہم آیت سجدہ پڑھ رہے ہیں، جس نے اس پر سجدہ کیا اس نے ٹھیک اور درست کام کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا اس پر کوئی گناہ نہیں، تاہم حضرت عمر ؓ نے سجدہ نہ کیا۔ حضرت نافع نے ابن عمر ؓ کے واسطے سے حضرت عمر ؓ سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے :اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت ہم پر فرض نہیں کیا ہے، ہاں! اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں([86])۔
مسئلہ: کیا سجدہ تلاوت کے لئے نماز کی طرح تکبیر، تسلیم، طہارت اور قبلہ رخ ہونا ضروری ہے؟
جواب: قرآنی سجدوں کے لئے تکبیر تحریمہ اور اس سے نکلنے کے لئے تسلیم مشروع نہیں ہے۔ یہی نبی اکرم ﷺ کا طریقہ رہا ہے اور اسی پر سلف صالح عمل کرتے آئے ہیں۔ نیز مشہور ترین ائمہ اسلام سے بھی یہی منقول ہے لہذا یہ نماز نہیں ہے، اس لئے اس میں نماز کے شروط لاگو نہیں ہوں گے، بلکہ یہ(سجدہ تلاوت) بغیر طہارت ووضو کے بھی جائز ہے۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بغیر وضو کے سجدہ تلاوت کیا کرتے تھے۔ البتہ اگر ان میں بھی نماز کے شروط کا اہتمام کیا جائے تو یہ افضل ہے اور بغیر کسی عذر کے ان شروط کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے([87])۔
فائدہ: قرآن مجید کی تلاوت کو اہتمام کے ساتھ سننے والے (مستمع) کے لئے سجدہ تلاوت مسنون ہے نہ کہ اس شخص(سامع) کے لئے جو بغور اس کو نہ سن رہا ہو۔ مستمع اور سامع میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر کسی چیز کو سننے کے لئے خاموشی اختیار کرتا ہے جبکہ دوسرا یعنی سامع ایسا نہیں کرتا۔ لہذا اگر کسی جگہ دو لوگ ہوں جن میں ایک قارئ قرآن کی تلاوت کو بغور سن رہا ہو جبکہ دوسرا فقط اس جگہ سے گزرا ہو(اور اس کے کانوں میں تلاوت کی آواز چلی گئی ہو) اور قارئ سجدہ کرے تو بغور سننے والے(مستمع) کے لئے سجدہ کرنا مسنون ہے نہ کہ سامع کے لئے، کیونکہ تلاوت کو بغور سماعت کرنے والا قارئ کے حکم میں ہوتا ہے جبکہ فقط سامع اس کے حکم میں نہیں ہوتا۔ یہ بات موسی وہارون علیہما السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے: قد أجيبت دعوتكما فاستقيما
ترجمہ: تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی لہذا تم دونوں ثابت قدم رہو۔
جبکہ یہاں دعا کرنے والے موسی علیہ السلام تھے لیکن چونکہ ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کی دعا پر آمین کہہ رہے تھے اس لئے وہ بھی دعا کرنے والے کے حکم میں ہوئے اور اسی لئے اللہ نے دونوں کو مخاطب کیا([88])۔
فائدہ 2: سجدہ تلاوت میں فقط مذکورہ اذکار پر ہی اکتفا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے سجدہ کی دعا "سبحان ربی الأعلی" پڑھنی واجب ہے، اس کے بعد سجدہ کرنے والا جس ذکر کو پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک فقط سجدہ تلاوت کے اذکار کو پڑھنا بدعات میں سے ہے([89])۔
22۔ مصحف کو چومنا اور اس کو دونوں آنکھوں کے درمیان لگانا مکروہ عمل ہے: جس کو علم نہیں ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ مصحف کی تعظیم اور کلام اللہ کی تقدیس کی خاطر آپ مصحف کو چومنے اور اس کو دونوں آنکھوں کے درمیان لگانے کو ناپسند کیوں کرتے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ مصحف کو چومنا اور اس کو دونوں آنکھوں کے درمیان لگانا وغیرہ ایسا عمل ہے جس سے بندہ اللہ کا تقرب اختیار کرتا ہے، اور (کسی عمل کے ذریعہ)تقرب الہی حاصل کرنے کا راستہ تب تک بند ہے(یعنی کوئی چیز تب تک عبادت نہیں ہوسکتی) جب تک کسی غیر معارض دلیل سے(اس کا عبادت ہونا یا تقرب الہی کا ذریعہ ہونا) ثابت نہ ہوجائے۔ اور ہم اللہ کی، اس کے کلام کی اور سنت نبویﷺ کی تعظیم کی بنیاد پر ہی مصحف کو چومنے سے روکتے ہیں کیونکہ شک وشبہ سے پاک ذرائع سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے۔ یعنی اس کے انجام دینے والے پر دے ماری جائے گی۔
امام احمد رحمہ اللہ سے اس مسئلے میں کئی روایات منقول ہیں جن میں ایک توقف کا قول ہے۔ اس روایت کے متعلق قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں: امام احمد نے اس مسئلے میں توقف اختیار کیا ہے گرچہ اس عمل میں کلام اللہ کی رفعت وتعظیم ہے، کیونکہ تقرب الہی کے وہ اعمال جو قیاس سے ثابت نہیں ہوسکتے ان کا انجام دینا جائز نہیں ہے، گرچہ وہ عمل تعظیم کا ہو، الا یہ کہ دلیل شرعی موجود ہو۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو دیکھا تو فرمایا: تو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، اگر رسول اللہ ﷺ نے تیرا بوسہ نہ لیا ہوتا تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔ اسی طرح جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے طواف کرتے وقت بیت اللہ کے تمام ارکان کا بوسہ لیا تو اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نکیر فرمائی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیت اللہ کی کوئی بھی چیز چھوڑی نہیں جاسکتی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: چھوڑنا ہی سنت ہے۔ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ کے فعل پر ان کے اس اضافے کو قابل اعتراض قرار دیا([90])۔
نیز جب سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کے بعد مزید نمازیں ادا کررہا ہے تو اسے منع کیا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ اے ابو محمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن سنت کی خلاف ورزی کرنے پر عذاب دے گا([91])۔
لجنہ دائمہ کہتی ہے: قرآن کریم کو چومنے پر ہم کسی دلیل سے واقف نہیں ہیں۔ اور اسے تو تلاوت وتدبر اور اس پر عمل کرنے کے لئے نازل کیا گیا ہے([92])۔
23۔ قرآنی آیات کو دیواروں وغیرہ پر لٹکانا مکروہ ہے: کئی گھروں میں بعض سورتوں یا قرآنی آیات کو کمروں اور گزرگاہوں کے دیواروں پر لٹکانے کا رواج عام ہے۔ بعض لوگ تبرک کی نیت سے لٹکاتے ہیں اور بعض خوبصورتی کی غرض سے۔ بعض حضرات ان سے اپنی دکان سجاتے ہیں اور اپنی تجارت کے مطابق آیات کا انتخاب کرتے ہیں اور بعض اپنی گاڑیوں میں تبرک یا حفاظت کی غرض سے انہیں لٹکاتے ہیں۔ نیز کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں یاد دہانی کے لئے لٹکایا ہے۔
اس سلسلے میں لجنہ دائمہ کا ایک مطول فتوی ہے جس میں قرآنی آیات کو دیواروں اور دکانوں پر لٹکانے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
1۔ قرآن جن مقاصد کے لئے نازل ہوا ہے، جیسے ہدایت اور نصیحت حاصل کرنے اور اہتمام کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے کے لئے وغیرہ۔ قرآنی آیات کو لٹکانا یا ان جیسے اعمال کو انجام دینا ان مقاصد سے روگردانی ہے۔
2۔ یہ عمل نبی اکرم ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدین کے طریقے کے خلاف ہے۔
3۔ اس عمل کو ممنوع قرار دینے سے شرک کا سد باب اور تعویذ گنڈوں کا خاتمہ ہوتا ہے گرچہ وہ قرآنی آیات سے ہی کیوں نہ ہوں۔
4۔ قرآن تلاوت کرنے کے لئے نازل ہوا ہے نہ تجارتوں کو چمکانے کے لئے۔
5۔ اس عمل کی وجہ سے قرآنی آیات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے وقت ان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
اس کے بعد لجنہ دائمہ کہتی ہے: من جملہ طور پر شر کے دروازے کو بند کرنے اور جس منہج پر قرون اولی میں ائمہ ہدایت گامزن تھے جس کو خود نبی اکرم ﷺ نے خیر بھلائی والا زمانہ قرار دیا ہے؛ اسی منہج پر چلنے میں آج مسلمانوں کے لئے ان کے عقائد واحکامات کی، بدعتوں سے حفاظت ممکن ہے، جس کا شر نہ جانے کہاں تک جاسکتا ہے([93])۔
اللہ تعالی نے فرمایا: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا}
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔
نیز فرمایا: {فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً}
ترجمہ: پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو، یہ اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحفہ ہے۔
مزید ارشاد فرمایا: {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}
ترجمہ: اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیداکیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو، نیز غور سے سنو وہ تمھیں کیا جواب دیتے ہیں؟وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم ؑ نے کہا: "السلام علیکم"تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا: "السلام علیک ورحمۃ اللہ"تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ انھوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا([94])۔
نیز ارشاد فرمایا: تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ تم مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو عام کرو([95])۔
مزید ارشاد فرمایا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ۔پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!وہ کو ن سے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فر یا : جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو۔۔۔الحدیث([96])۔
آداب کا بیان:
1۔سلام کرنا سنت ہے جبکہ اس کا جواب دینا واجب ہے: اس کی سنیت کے دلائل بکثرت موجود ہیں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان گزرچکا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: جب تم اس سے ملو تو اس کو سلام کرو۔۔۔الحدیث۔ اسی طرح آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل اس قدر مشہور ومعروف ہے کہ ہمیں مزید نصوص بیان کرنے کی حاجت وضرورت نہیں ہے۔
اور جہاں تک سلام کا جواب دینے کا مسئلہ ہے تو یہ واجب ہے۔ جس کو سلام کیا جائے اس پر سلام کا جواب دینا واجب ہے، اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو گنہگار ہوگا۔ اس کے وجوب کے دلائل بھی بکثرت موجود ہیں، جن میں سے ایک دلیل رب تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا} ترجمہ: اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ نیز ابن حزم، ابن عبد البر اور شیخ تقی الدین رحمہم اللہ نے سلام کا جواب دینے کے وجوب پر اجماع نقل کیا ہے([97])۔
مسئلہ: اگر کوئی آدمی کسی جماعت کو سلام کرے تو کیا پوری جماعت کو جواب دینا واجب ہے، یا ان میں سے کوئی ایک جواب دے سکتا ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص کسی جماعت کو سلام کرے اور وہ سب کے سب جواب دے دیں تو یہ افضل ہے۔ البتہ اگر ان میں سے کسی ایک نے جواب دیا تو بقیہ تمام لوگوں سے ذمہ داری اتر گئی اور ان پر کوئی گناہ نہیں ہے([98])۔علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک جماعت گزر رہی ہو تو ان میں سے کسی ایک کا سلام کہہ دینا کافی ہے ۔ اور بیٹھے ہوئے ( لوگوں ) میں سے کوئی ایک جواب دیدے تو کافی ہے ([99])۔
سلام کی کیفیت ونوعیت:
افضل یہ ہے کہ "السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ" کہا جائے۔
اس کے بعد "السلام علیکم ورحمتہ اللہ" کا درجہ آتا ہے۔
اور اس کے بعد " السلام علیکم" کا۔
اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا جبکہ آپ اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے، تو اس شخص نے کہا "السلام علیکم"۔ ﷺ نے فرمایا: دن نیکیاں۔ اس کے بعد ایک دوسرا آدمی گزرا تو اس نے کہا 'السلام علیکم ورحمتہ اللہ"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیس نیکیاں۔ پھر ایک تیسرا شخص گزرا تو اس نے کہا "السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تیس نیکیاں([100])۔
اور جہاں تک سلام کا جواب دینے کی بات ہے تو جواب یا تو سلام کی طرح دیا جائے گا یا اس سے بہتر انداز میں، کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا} ترجمہ: اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔
نیز سلام کا جواب جمع کی ضمیر کے ساتھ دیا جائے گا گرچہ سلام کرنے والا فرد واحد ہو؛ یعنی اس طرح کہا جائے گا "وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔
مسئلہ: اگر سلام کرنے والا "وبرکاتہ" پر سلام ختم کرے تو کیا مذکورہ آیت (تم اس سے اچھا جواب دو) کی وجہ سے جواب دینے میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے؟ جیسے جواب میں اضافہ کرتے ہوئے " ومغفرتہ واحسانہ " وغیرہ کہہ دیا جائے؟
جواب: سلام کا جواب دیتے وقت برکت کی دعا(وبرکاتہ) کے بعد کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا، گرچہ سلام کرنے والے نے برکت کی دعا(وبرکاتہ) پر اپنا سلام مکمل کیا ہو۔ نیز گرچہ بعض علما نے مذکورہ آیت کے پیش نظر اس عمل کو مستحسن قرار دیا ہے لیکن سنت کی اتباع اس پر مقدم ہے۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : "وبرکاتہ" پر سلام ختم ہوجاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے(ابراہیم علیہ السلام) کے متعلق فرمایا: (رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ )تم پر اے اس گھر کے لوگو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ نیز یہ دونوں حضرات اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی سلام میں "وبرکاتہ" کے بعد مزید اضافہ کرے([101])۔
3۔ "علیک السلام" کے الفاظ میں سلام کرنا ناپسندیدہ ہے: اس مسئلے میں کئی صریح ترین احادیث وارد ہیں، جن میں جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : عَلَیْكَ السَّلَامُ(آپ پر سلامتی ہو) تو آپﷺ نے فرمایا: عَلَیْكَ السَّلاَمُ مت کہو بلکہ السلام عَلَیْكَ (سلامتی ہو آپ پر) کہو([102])۔ابوداود کے الفاظ یہ ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو میں نے کہا : «عليك السلام يا رسول الله» آپ ﷺ نے فرمایا یہ لفظ «عليك السلام» مت بولو ، یہ مُردوں کا سلام ہے ([103])۔یہ احادیث "علیک السلام" کے الفاظ میں سلام کرنے کی کراہیت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں بعض علما نے مختلف صورتیں ذکر کی ہیں لیکن ان صریح ترین نصوص کی وجہ سے اسے بیان کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔
4۔ جب بڑی جماعت ہو یا اس میں شک ہو کہ جسے سلام کیا گیا ہے اس نے سلام سنا یا نہیں ؛تو تین بار سلام کرنا مستحب ہے: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی بات کرتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے اور جب کوئی قوم آتی اور رسول اللہ ﷺ انہیں سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے ([104])۔امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: اس حدیث کو اس صورتحال پر محمول کیا جائے گا کہ (آپ ﷺ ایسا تب کرتے تھے) جب مجمع زیادہ ہوتا تھا([105])۔ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک اضافی بات کہی ہے: کہ اگر کوئی کسی کو سلام کرے اور اسے گمان گزرے کہ اس نے سلام نہیں سنا ہے تو دوسری اور تیسری مرتبہ اسے دہرائے۔ البتہ تیسری مرتبہ سے زائد نہ کرے([106])۔
5۔ بلند آواز سے سلام کرنا اور جواب دینا سنت ہے: نبی اکرم ﷺ کا سلام کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ آپ بلند آواز سے سلام کیا کرتے تھے اور اسی طرح جواب بھی بلند آواز سے دیا کرتے تھے۔ لہذا آہستہ سلام کرنے سے اجر وثواب حاصل نہیں ہوگا سوائے مستثنی حالات میں جن کا بیان آگے آئے گا۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اثر نقل کیا ہے: ثابت بن عبید کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں آیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے تو انہوں نے فرمایا: جب تم سلام کرو تو سب کو سنا کر کرو کیونکہ یہ ایک مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے([107])۔ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ آپ سلام کا جواب؛ سلام کرنے والے کو سنا کردیا کرتے تھے([108])۔اور ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: سلام کو پھیلانے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ خاموشی اور آہستگی سے سلام کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اسے زور سے کرنا شرط ہے۔ اور کم از کم سلام شروع کرتے وقت آواز کو بلند کرنا اور بلند آواز سے جواب دینا لازم ہے، نیز فقط ہاتھ وغیرہ سے اشارہ کرنا کافی نہیں ہے([109])۔اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سلام کرنے والا سلام کی سنت کو درست طور پر تب ہی ادا کرسکتا ہے جب کم از کم سلام کرتے وقت وہ اپنی آواز اتنی بلند کرے کہ وہ جسے سلام کررہا ہے اسے سنا سکے۔ اگر اس نے اسے اپنا سلام نہیں سنایا تو درحقیقت اس نے سلام کیا ہی نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں مد مقابل پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہوگا۔ نیز سلام کا جواب دینے کا وجوب تب ساقط ہوگا جب وہ اپنی آواز کو اتنی بلند کرے کہ سلام کرنے والے کو اپنا جواب سنا سکے۔ لہذا اگر اس نے اسے اپنا جواب نہیں سنایا تو اس سے سلام کا جواب دینے کا وجوب ساقط نہ ہوا([110])۔
6۔ عمومی طور پر(سب کو) سلام کرنا مسنون ہے؛ یعنی جسے آپ جانتے ہیں اسے بھی اور جسے نہیں جانتے اسے بھی: کیونکہ صحیحین میں حدیث مروی ہے: حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا، کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور جسے تم پہچانتے ہو اسے بھی اور جسےنہیں پہچانتے ہو اسے بھی سلام کرو([111])۔اس حدیث میں سلام کو رواج دینے اور اسے لوگوں کے درمیان پھیلانے پر ابھارا گیا ہے کیونکہ اس میں عظیم مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن میں سب سے بڑی مصلحت آپس میں مسلمانوں کے درمیان محبت والفت پیدا کرنا اور ایک دوسرے کے لئے ان کے دلوں کو (بغض وعداوت سے) سلامت رکھنا ہے۔ جبکہ فقط خاص لوگوں کو سلام کرنے کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے، یعنی آدمی صرف انہیں ہی سلام کرے جنہیں وہ جانتا ہے۔ (شریعت میں)یہ عمل تعریف کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ فقط خاص لوگوں کو سلام کرنا قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ چیز بھی علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام معرفت کی بنا پر ہو گا۔ اور ایک روایت میں ہے: ایک آدمی دوسرے کو سلام تو کہے گا، لیکن معرفت کی بنا پر کہے گا([112])۔نیز ایک اور روایت میں ہے: قیامت سے کچھ پہلے؛ سلام صرف خاص لوگوں کو کیا جائے گا۔۔۔الحدیث([113])۔
7۔آنے والے کا سلام کرنا مستحب ہے: یہ مشہور مسئلہ ہے اور لوگوں کے درمیان رائج بھی ہے۔ نیز بہت سے دلائل اس امر پر شاہد ہیں کہ آنے والے کے لئے سلام کرنا مستحب ہے نہ کہ موجود شخص کے لئے۔ جیسا کہ تین لوگوں کا قصہ گزرچکا جو نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تھے اور ان میں سے پہلے نے کہا تھا " السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"، جبکہ دوسرے نے کہا تھا "السلام علیکم ورحمتہ اللہ"۔ اور تیسرے نے کہا تھا "السلام علیکم"۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کوئی چند بیٹھے ہوئے لوگوں یا منفرد کسی بیٹھے ہوئے شخص کے پاس آئے تو ہر حال میں آنے والا ہی سلام کی ابتدا کرے، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا اور تعداد میں کم ہو یا زیادہ([114])۔
8۔ سنت یہ ہے کہ سوار پیدل کو ، چلنے والا بیٹھے کو، کم لوگ زیادہ لوگوں کو اور چھوٹا بڑے کو سلام کرنے میں پہل کرے۔ اس سلسلے میں کئی صحیح احادیث وارد ہیں جن میں چند حسب ذیل ہیں:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھے کو اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں([115])۔اور بخاری کی روایت ہے: چھوٹا بڑے کو سلام کرنے میں، چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرنے میں اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرنے میں پہل کرے۔([116])
ان مذکورہ لوگوں کے سلام میں پہل کرنے کی حکمت کو بعض علما نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: چھوٹے کا بڑے کو سلام میں پہل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بڑے کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت وتوقیر کی جائے۔ یقینا یہ قابل عمل ادب ہے۔
اور سوار کا پیدل کو سلام میں پہل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سلام کرنا سوار شخص کو تواضع وانکساری اختیار کرنے پر ابھارے اور غرور وتکبر میں پڑنے سے بچائے۔
نیز پیدل چلنے والے کا بیٹھے کو سلام میں پہل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ چلنے والا بیٹھے شخص کے ساتھ ویسے ہی معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شخص گھر والوں میں تشریف لاتا ہے(یعنی گھر میں داخل ہوتا ہے)۔
اسی طرح کم لوگوں کا زیادہ لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ زیادہ لوگوں یا بڑی جماعت کا حق زیادہ عظیم ہوتا ہے([117])۔
مسئلہ: کیا اس ترتیب کی مخالفت کرنے پر کوئی حکم لاگو ہوگا؟ جیسے بڑا اگر چھوٹے کو سلام کردے یا پیدل اگر سوار کو سلام کردے یا بڑی جماعت چھوٹی جماعت کو سلام کردے یا بیٹھا شخص چلنے والے کو سلام کردے!
جواب: اس مخالفت پر کوئی گناہ نہیں ہے لیکن ایسا کرنے والا اولی وافضل عمل کو ترک کرنے والا قرار دیا جائے گا۔ مازری کہتے ہیں: مستحب کو ترک کرنے سے مکروہ کی انجام دہی لازم نہیں آتی بلکہ یہ خلاف اولی ہوتا ہے۔ لہذا جسے سلام میں پہل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر وہ پہل نہ کرے اور اس کا مد مقابل پہل کردے تو پہلا شخص مستحب عمل کو چھوڑنے والا قرار پائے گا اور دوسرا شخص سنت پر عمل کرنے والا۔ البتہ( جسے سلام میں پہل کرنے کا حکم نہیں ہے) اگر وہ خود ہی سلام میں پہل کردے تو یقینا وہ بھی مستحب عمل کا تارک بن جائے گا([118])۔
مسئلہ: جب دو پیدل چلنے والے یا دو سوار لوگ ایک دوسرے سے ملیں تو کون سلام میں پہل کرے؟
جواب: ایسی صورت میں چھوٹے شخص کا سلام میں پہل کرنا مستحب ہے جیسا کہ اس سلسلے میں حدیث گزر چکی۔ البتہ اگر عمر میں دونوں برابر ہوں اور ہر اعتبار سے دونوں یکساں ہوں تو ان میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کردے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے([119])۔اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: جب دو چلنے والے ملیں تو افضل شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرے([120])۔
مسئلہ: جب دو لوگ چل رہے ہوں اور ان کے درمیان کوئی حائل جیسے درخت یا دیوار وغیرہ آجائے؛ تو کیا جب وہ ملیں تو دوبارہ سلام کرنا مشروع ہے؟
جواب: ہاں ان کے لئے سلام کرنا مشروع ہے، گرچہ بار بار ایسا ہو، کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے ۔ پس اگر ان کے درمیان کوئی درخت ، دیوار یا پتھر حائل ہو جائے اور پھر دوبارہ ملے ، تو بھی سلام کہے([121])۔
9۔اجنبی(غیر محرم) عورت کو سلام کرنے کا حکم: اجنبی عورت کو سلام کرنے سے بعض علما نے منع کیا ہے اور بعض نے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ جبکہ بعض علما نے اس مسئلے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ اجنبی عورت خوبصورت اور جوان ہو تو سلام کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر وہ سن رسیدہ ہو تو جائز ہے۔ صالح کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم (امام احمد) سے سوال کیا : کیا عورت کو سلام کیا جاسكتا ہے؟ تو انہیں نے کہا: اگر سن رسیدہ ہو تو جائز ہے لیکن اگر نوجوان عورت ہو تو اس سے گفتگو کرنا جائز نہیں ہے([122])۔اور اس مسئلے میں ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ معمر اور محرم خواتین کو سلام کیا جاسکتا ہے، ان کے علاوہ کسی کو نہیں([123])۔یہی قول قابل اختیار (راجح) ہے۔ اس ممانعت کی علت واضح ہے؛ یعنی سد ذریعہ اور فتنہ کا اندیشہ۔ نیز نبی اکرم ﷺ سے جو خواتین کو سلام کرنا منقول ہے وہ اس لئے کیونکہ آپ معصوم تھے اور کسی فتنہ کا اندیشہ بھی نہ تھا۔ اسی طرح صحابہ کے اس طرح کے عمل کو بھی فتنہ سے حفاظت پر محمول کیا جائے گا(یعنی انہیں بھی فتنہ کا کوئی اندیشہ نہ تھا)۔ اس کی مثال یہ روایت ہے جسے ابن ابی حازم نے اپنے والد کے حوالے سے حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے : ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ کی طرف کسی کو بھیجا کرتی تھیں، بضاعہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کا ایک باغ تھا، پھر وہ وہاں سے چقندر منگواتیں اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر ان میں جو کے دانے پیس کر ملاتیں۔ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے کے لیے آتے۔ وہ ہمیں اپنا تیار کردہ کھانا پیش کرتیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی دوپہر کا کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے([124])۔
10۔بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے: یہ اس لئے تاکہ بچوں کو بھی سلام کی عادت دلائی جاسکے اور بچپن سے ہی شرعی آداب بجا لانے کی انہیں مشق کروائی جاتی رہے۔ نیز بچوں کو سلام کرنے والا نبی اکرم ﷺ کی سنت کی اتباع بھی کرتا ہے۔ اس بات کی خبر ہمیں جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے دی ہے، فرماتے ہیں: وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے آپ ﷺ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا([125])۔نیز بچوں کو سلام کرنے سے نفس میں تواضع پیدا ہوتا ہے اور انسان کے سلوک میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔
مسئلہ: حب کوئی بالغ انسان کسی بچے کو سلام کرے یا کوئی بچہ کسی بالغ انسان کو سلام کرے تو کیا ان دونوں صورتحال میں سلام کا جواب دینا واجب ہوگا؟
جواب: اگر کوئی بالغ انسان کسی بچے کو سلام کرے تو اس بچے پر جواب دینا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن پر احکامات فرض یا واجب ہوتے ہیں۔ جبکہ اگر کوئی بچہ کسی بالغ انسان کو سلام کرے تو اس انسان پر جواب دینا واجب ہے۔ یہی جمہور اہل علم کا قول ہے([126])۔
11۔ کسی جگہ سوئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں بیدار لوگوں کو سلام کرنا: ایسی صورتحال میں سلام کرنے والے کو اپنی آواز اتنی پست رکھنی چاہئے کہ بیدار لوگ سن لیں اور سونے والے نہ جاگیں۔ اس مسئلے میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں: ہم ان(بکریوں) کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور ہم رسول اللہ ﷺ کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپ ﷺ رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے([127])۔
اس حدیث میں نبی اکرم کے بلند وبالا ادب کا تذکرہ ہے کہ بیک وقت آپ سونے والوں کا خیال بھی کیا کرتے اور ان کی نیندیں برباد نہ ہونے دیتے تھے اور سلام کی فضیلت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے!
12۔ اہل کتاب کو سلام کرنے میں پہل کی ممانعت: نبی اکرم ﷺ کی زبانی ہمیں اہل کتاب کو سلام کرنے میں پہل سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: یہود نصاری کو سلام کہنے میں ابتدا نہ کرو اور جب تم ان میں سے کسی کو راستے میں ملو تم اسے راستے کے تنگ حصے کی طرف جانے پر مجبور کردو([128])۔اب اس صریح ممانعت کے بعد مزید کسی کے کلام کی کوئی حیثیت نہیں۔
مسئلہ: اگر اہل کتاب کو سلام کرنے کی حاجت پیش آجائے تو کیا انہیں سلام کیا جاسکتا ہے؟
جواب: سابقہ حدیث اس امر کی ممانعت میں بہت واضح ہے، لیکن اگر اس کی حاجت پیش آجائے تو سلام کے علاوہ دوسرے الفاظ کہے جائیں۔ جیسے کیف أصبحت(آپ کی صبح کیسی رہی) یا کیف أمسیت(آپ کی شام کیسی رہی) وغیرہ۔ ابن مفلح فرماتے ہیں کہ شیخ تقی الدین نے فرمایا: اگر اسے سلام کے علاوہ کسی دوسرے مانوس الفاظ میں مخاطب کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے([129])۔
اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو سعید المتولی نے کہا: اگر کوئی کسی ذمی کو خوش آمدید کہنا چاہے تو سلام کے علاوہ کسی اور الفاظ میں ایسا کرے۔ جیسے کہے هداك الله ( اللہ آپ کو ہدایت دے) يا أنعم الله صباحك(اللہ آپ کی صبح بہتر بنا دے)۔ میں(امام نووری) کہتا ہوں: اگر ایسی حاجت پیش آجائے تو ابو سعید کی اس بات میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے: صُبحت بالخير أو السعادة أو بالعافية( آپ کی صبح خیر وبھلائی یا نیک بختی یا عافیت کے ساتھ ہو) یا صبحك الله بالسرور أو بالسعادة والنعمة أو بالمسرة( اللہ آپ کی صبح کو خوشیوں والی یا سعادت والی یا نعمتوں والی یا پرمسرت بنا دے)، یا اس جیسے دوسرے کلمات کہے۔
البتہ اگر ایسی حاجت پیش نہ آئے تو بہتر یہی ہے کہ اس سے کچھ نہ کہے، کیونکہ ان الفاظ کی ادائیگی بھی اس کے ساتھ فراخ دلی، لگاو پیدا کرنے اور کہیں نہ کہیں اس سے محبت کا اظہار کرنے کے مترادف ہے جبکہ ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا ہم ان سے محبت کا اظہار بھی نہیں کرسکتے، واللہ اعلم([130])۔
13۔ اہل کتاب کو "وعلیکم" کے ذریعہ سلام کا جواب دینا: اس کی وضاحت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم کہو: وعلیکم([131])۔اس حدیث میں ہمیں واضح طور پر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اہل کتاب کے سلام کا جواب دیتے وقت ہمیں فقط "وعلیکم"(یعنی تم پر بھی) کہنا ہے۔
مسئلہ: اگر ہم کسی کتابی(جو اہل کتاب میں سے ہو) کو واضح طور پر "السلام علیکم٫ کہتے سنیں؛ تو کیا حدیث پر عمل کرتے ہوئے ہم انہیں "وعلیکم" ہی کہیں گے؟ یا انہیں مکمل جواب دیتے ہوئے "وعلیکم السلام" کہیں گے؟
جواب: بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ اگر ہمیں یقینی طور پر علم ہو کہ انہوں نے سلام کے الفاظ ہی کہے ہیں اور اس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو تو انہیں ہم سلام کے جواب کے طور پر وہی الفاظ لوٹا دیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر سننے والے کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ جس نے انہیں "سلام علیکم" کہا ہے (اس نے بعینہ یہی الفاظ کہے ہیں) اور اس میں کوئی شک نہ ہو، تو کیا وہ بھی جوابا اسے "وعلیک السلام" کہہ سکتا ہے یا فقط"وعلیک" پر ہی اکتفا کرے۔ اس سلسلے میں دلائل وقواعد شرعیہ کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اسے "وعلیک السلام" کہے، کیونکہ یہ عدل کا معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ :جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اضافہ کرنے کو مستحب قرار دیا ہے جبکہ عدل کو واجب کیا ہے۔ اور یہ عمل(عدل کرنا) اس مسئلے میں وارد احادیث کے کسی بھی طور پر خلاف نہیں ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے جو "وعلیکم" پر اکتفا کرنے کا حکم دیا تھا وہ ایک خاص سبب کی وجہ سے تھا جس کا ذکر گزر چکا، یعنی وہ لوگ جو طریقہ اپنے سلام میں اختیار کرتے تھے( اس کی وجہ سے آپ نے ایسا حکم دیا تھا)۔ اس کے بعد امام ابن قیم رحمہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی جانب اشارہ کیا، وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب انہوں نے "السام علیکم" کہا تو کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے "وعلیکم" کہہ دیا تھا؟۔۔۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم "وعلیکم" کہو۔
اعتبار گرچہ لفظ کے عموم کا ہوتا ہے لیکن مذکورہ مثال کے پیش نظر ہی اس عموم کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس مثال کے خلاف۔
فرمان باری ہے: { وَإِذَا جَاؤُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلاَ يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ }
ترجمہ: اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا.
لہذا اگر سبب مذکور زائل ہوجائے اور کتابی(جو اہل کتاب میں سے ہو) "السلام علیکم ورحمتہ اللہ" کہے تو عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اس کے سلام کی طرح ہی جواب دیا جائے([132])۔
14۔ جس مجلس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شامل ہوں اس مجلس میں سلام کرنا جائز ہے: یہ مسئلہ نبی اکرم ﷺ کے عمل سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ بخاری ومسلم نے روایت بیان کی ہے : نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان ،بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔۔۔۔۔الحدیث([133])۔
جس مجلس میں مسلمان وکفار دونوں شامل ہوں اس مجلس میں سلام میں پہل کرنا اجماعی طور پر جائز ہے۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([134])۔جس حدیث میں اہل کتاب کو سلام میں پہل کرنے کی ممانعت وارد ہے اس سے مذکورہ مسئلے میں حجت نہیں پکڑی جاسکتی کیونکہ اس حدیث میں ذمی یا اہل کتاب کی ایک جماعت کو سلام کرنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ یہاں مجلس مسلمانوں کی ہے۔ لہذا ایسی مجلس میں، فقط مسلمانوں پر سلام کی نیت سے سلام کرنا جائز ہے جس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شامل ہوں۔
امام احمد رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: ہم یہود ونصاریٰ کے ساتھ اپنے معاملات کرتے ہیں اور ہم ان کے گھر جاتے ہیں جبکہ ان کے پاس مسلمان بھی بیٹھے ہوتے ہیں؛ تو کیا ہم انہیں(ان مسلمانوں کو) سلام کرسکتے ہیں؟
آپ نے جواب دیا: ہاں، البتہ ان مسلمانوں پر سلام کی نیت کرکے سلام کرو([135])۔
اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کوئی کسی جماعت کے پاس سے گزرے اور اس میں مسلمان ہوں یا ایک مسلمان اور ایک کافر ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں یا اس ایک مسلمان کو سلام کرنے کی نیت سے سلام کردے([136])۔
مسئلہ: جس جماعت میں مسلمان وکفار دونوں شامل ہوں؛ کیا اس جماعت پر ان الفاظ میں سلام کیا جاسکتا ہے "السلام علی من اتبع الهدى" ؟
جواب: جس جماعت میں مسلمان وکفار دونوں شامل ہوں اس جماعت پر "السلام علی من اتبع الهدى" کے الفاظ میں سلام نہیں کیا جائے گا بلکہ معتاد سلام کیا جائے گا اور نیت مسلمانوں پر سلام کرنے کی کرلی جائے گی۔ اسی طرح کی بات ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہے: جب مسلمان اور نصاری دونوں جمع ہوں تو ان پر معتاد الفاظ میں سلام کرے، یعنی "السلام علیکم" کہے اور اس سلام سے مسلمانوں کو مراد لے لے([137])۔
15۔ کسی عذر کی وجہ سے اشارہ سے سلام کرنا جائز ہے: اشارہ سے سلام کرنا بنیادی طور پر منع ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کا طریقہ ہے اور ہمیں ان سے دوری اختیار کرنے کا اور ان کی مشابہت سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ جس حدیث میں اشارہ سے سلام کرنے کی ممانعت وارد ہے اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے صفت غرابت سے متصف کیا ہے۔ نیز ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کی سند میں ضعف ہے، لیکن امام نسائی نے جید سند سے جابر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت بیان کیا ہے : یہودیوں کی طرح سلام نہ کیا کرو، ان کا سلام سر، ہاتھ اور اشارہ سے ہوتا ہے([138])۔
اس حدیث کے خلاف اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی حدیث آتی ہے، وہ فرماتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا([139])۔لیکن اس حدیث کو اس امر پر محمول کیا جائے کہ وہ سلام اشارہ کے ساتھ ساتھ لفظی بھی تھا۔امام نووی رحمہ اللہ ترمذی کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس حدیث کو اس امر پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺ نے لفظ واشارہ دونوں کے ساتھ سلام کیا تھا، ابودود کی یہ روایت اس پر دلیل ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: انہوں نے ہم کو سلام کیا([140])، ([141])۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اشارہ سے سلام کرنے کی ممانعت صرف ان کے ساتھ خاص ہے جو لفظی طور پر سلام کرنے پر حسی اور شرعی اعتبار سے قادر ہوں، ورنہ جو شخص کسی ایسی کام میں مشغول ہو جس کی وجہ سے وہ لفظی طور پر سلام کا جواب نہ دے سکے اس کے لئے یہ مشروع ہے، جیسے نمازی، بعید اور گونگا شخص۔ نیز کسی بہرے کو سلام کرتے وقت([142])۔
16۔نمازی کو سلام کرنا اور اس نمازی کا اشارہ سے جواب دینا جائز ہے: مصلی کو سلام کرنا جائز ہے اور صحابہ کے فعل پر نبی اکرم ﷺ کی خاموش تائید سے یہ عمل ثابت ہے، کیونکہ وہ نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا کرتے تھے جبکہ آپ حالت نماز میں ہوتے تھے، اس کے باوجود ایسا کرنے سے آپ ﷺ ان پر نکیر نہیں کیا کرتے تھے۔ لہذا آپ ﷺ کا خاموش رہنا اس امر کے جواز کی دلیل ہے۔ جیسے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا، پھر میں آپﷺ کو آ کر ملا، آپﷺ سفر میں تھے۔ قتیبہ نے کہا: آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپﷺ کو سلام کہا، آ پﷺ نے مجھے اشارہ فرمایا۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلوایا اور فرمایا: ابھی تم نے سلام کہا جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اور اس وقت (سواری پر نماز پڑھتے ہوئے) آپﷺ کا رخ مشرق کی طرف تھا([143])۔
اسی طرح صہیب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا جبکہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کہا تو آپ ﷺ نے اشارے سے جواب دیا۔ (نابل کہتے ہیں) جہاں تک میں جانتا ہوں سیدنا ابن عمر ؓ نے یہ کہا تھا: اپنی انگلی سے اشارہ کیا([144])۔
یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث نمازی کو سلام کرنے اور نمازی کا اشارہ سے جواب دینے کی جواز پر دلیل ہیں۔
مسئلہ: نماز میں اشارہ سے جواب دینے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: نماز میں سلام کا جواب دینے کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے، کیونکہ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا عمل مختلف قسموں کا ہے۔ کبھی آپ نے انگلیوں سے اشارہ کرکے جواب دیا ہے جیسا کہ صہیب رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث میں منقول ہے([145])، اور کبھی ہاتھ سے اشارہ کرکے جواب دیا ہے، جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا، اور کبھی ہتھیلی کے اشارہ سے جواب دیا ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ (مسجد) قباء میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ (اس اثنا میں آپ ﷺ کے پاس) انصار آ گئے۔ اور انہوں نے آپ کو سلام کیا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلال ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا، جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے اور ان لوگوں نے آپ کو سلام کیا تھا؟ انہوں نے کہا: اس طرح اور اپنی ہتھیلی پھیلائی۔ (حسین بن عیسیٰ نے اپنے شیخ جعفر بن عون سے اس کی وضاحت یوں نقل کی ہے کہ) جعفر بن عون نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو نیچے کیا اور اس کی پشت کو اوپر کی طرف([146])۔
عون المعبود میں ہے: جان لیجئے کہ اس حدیث میں پوری ہتھیلی کے اشارہ سے ، حدیث جابر میں ہاتھ کے اشارہ سے اور حدیثِ ابن عمر عن صہیب میں انگلیوں کے اشارہ سے سلام کا جواب دینا منقول ہے۔ جبکہ بیہقی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے " آپ ﷺ نے اپنے سر سے اشارہ کیا" کے الفاظ مروی ہیں، اور انہی کی ایک اور روایت میں ہے "آپ ﷺ نے اپنے سر کے اشارہ سے جواب دیا"۔ ان روایات میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک بار ایسا کیا اور ایک بار ایسا کیا، لہذا یہ سب طریقے جائز ہیں، واللہ اعلم([147])۔
17۔قرآن تلاوت کرنے والے کو(بحالت تلاوت) سلام کرنا جائز ہے اور اس سلام کا جواب دینا واجب ہے: بعض علما نے تلاوت قرآن میں مشغول شخص کو سلام کرنے سے منع کیا ہے اور بعض علما نے اس کی اجازت دی ہے، جبکہ راجح انہی لوگوں کا قول ہے جنہوں نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ سلام کو عام کرنے اور سلام کا جواب دینے کے وجوب پر دلالت کرنے والے دلائل کے عموم سے قرآن مجید تلاوت کرنے والے شخص کو خارج کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس شخص کا ذکر الہی کی سب سے اعلی قسم یعنی تلاوت قرآن کریم میں مشغول ہونے سے نہ یہ لازم آتا کہ اسے سلام نہ کیا جائے اور نہ اس سے سلام کا جواب دینے کا وجوب ہی ساقط ہوتا ہے۔
لجنہ دائمہ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہے: قارئ قرآن کو سلام میں پہل کرنا جائز ہے اور (جب اسے سلام کیا جائے تو) اس پر سلام کا جواب دینا واجب ہے، کیونکہ اس عمل سے روکنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، جبکہ سلام میں پہل کرنے اور سلام کرنے والے کو اس کا جواب دینے کے متعلق جو دلائل وارد ہیں ان میں عموم ہے، اور اس عموم کا باقی رہنا ہی اصل ہے، یہاں تک کہ کوئی تخصیص ثابت ہوجائے([148])۔
18۔ قضائے حاجت کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے: اس مسئلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ اس روایت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے: ایک آدمی گزرا جبکہ رسول اللہ ﷺ پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے سلام کہا، آپ ﷺ نے اسے سلام کا جواب نہ دیا([149])۔اس لئے اہل اعلم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیشاب وپاخانہ کرنے والے کے لئے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے([150])۔نیز جسے بحالت قضائے حاجت سلام کیا گیا ہو اس کے حق میں مستحب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے وہ وضو کرنے کے بعد اس سلام کا جواب دے۔ مہاجر بن قنفذ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرے اور آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے۔ انہوں نے سلام کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ﷺ نے وضو کیا (اور جواب دیا) اور معذرت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے یہ بات ناپسند آئی کہ طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔‘‘ راوی کو شبہ ہے کہ آپ ﷺ نے «عَلَى طُهْرٍ» کہا تھا یا «عَلَى طَهَارَةٍ» (معنی دونوں کا ایک ہی ہے)([151])۔
19۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا مستحب ہے: اگر گھر خالی ہو تو بعض اہل علم صحابہ ودیگر علما نے خود اپنے آپ کے لئے سلامتی کی دعا کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: اگر کوئی ایسے گھر میں داخل ہو جہاں کوئی نہ رہتا ہو تو اسے ان الفاظ میں سلامتی کی دعا کرنی چاہیے: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين ( ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو)([152])۔اسی طرح کی بات امام مجاہد سے بھی مروی ہے([153])۔
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سلام کو عام کرنے کے عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ جو شخص کسی ایسی جگہ جائے جہاں کوئی نہ ہو تو وہ خود اپنے آپ کو سلام کرے کیونکہ فرمان باری ہے: {فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً}
ترجمہ: جب تم گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ کو(اور اپنے گھر والوں کو) سلام کرلو([154])۔
اور اگر گھر میں فقط آپ کے اہل وعیال ہوں تو آپ کے لئے انہیں سلام کرنا بھی مستحب ہے۔ چنانچہ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا : جب تم اپنے اہل وعیال کے پاس آو تو انہیں سلام کیا کرو کیونکہ یہ اللہ کی جانب سے بابرکت اور پاکیزہ تحفہ ہے([155])۔
لیکن گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا واجب نہیں ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں، میں نے عطا سے پوچھا: جب میں گھر سے نکل کر دوبارہ گھر میں داخل ہوں تو کیا یہ واجب ہے کہ میں گھر والوں کو سلام کروں؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں، کیونکہ کسی صحابی سے اس کا واجب ہونا منقول نہیں ہے لیکن میں اس عمل کو پسند کرتا ہوں اور اسے کبھی ترک نہیں کرتا الا یہ کہ بھول جاوں([156])۔لیکن اس کی فضیلت کو جاننے کے بعد کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس عمل سے دوری اختیار کرے۔ نیز اس کی فضیلت میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تین لوگوں کا ضامن ہے کہ اگر زندہ رہا تو کفایت بھر روزی عطا کرے گا اور اگر فوت ہوا تو جنت میں داخل ہوگا: جو اپنے گھر میں سلام کرکے داخل ہوا اللہ اس کا ضامن ہے، جو مسجد کی جانب نکلا اللہ اس کا ضامن ہے اور جو اللہ کے راستے(جہاد) میں نکلا اللہ اس کا ضامن ہے([157])۔
20۔ سلام بھیجنے اور پہنچانے والے، دونوں کو جواب دینا: یہ مسئلہ سنت سے ثابت ہے، چنانچہ ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میرے والد نے آپ کو سلام کہا ہے ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: عليك وعلى أبيك السلام (تم پر اور تمہارے والد پر سلامتی ہو) ([158])۔
اسی طرح سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: حضرت جبرئیل ؑ سلام کہتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓ نے جواب میں کہا: وعليه السلام ورحمة الله یعنی ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو([159])۔
نیز جس حدیث میں جبریل علیہ السلام کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سلام پہنچانا منقول ہے اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو حضرت جبریل علیہ السلام کے حوالے سے اللہ کا سلام پہنچایا تو انہوں نے جوابًا کہا: بے شک اللہ ہی سلامتی ہے اور اسی سے سلامتی ہے، آپ اور جبریل، دونوں پر سلامتی ہو([160])۔
ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ سلام پہنچانے والے کو بھی سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے کسی سند میں مجھے یہ بات نہیں ملی کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو بھی سلام کا جواب دیا تھا، لہذا یہ اس بات پر دلیل ہے کہ (سلام پہنچانے والے کو سلام کا جواب دینا) واجب نہیں ہے([161])۔
فائدہ: ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں،کسی نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا : فلاں آپ کو سلام کہتا ہے۔ آپ نے جواب دیا: یہ کتنا بہترین تحفہ ہے اور کتنی معمولی ذمہ داری ہے([162])۔
21۔تحیۃ المسجد کو اہل مسجد کو سلام کرنے پر مقدم کرنا: مسجد میں داخل ہونے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اہل مسجد کو سلام کرنے سے پہلے تحیۃ المسجد(دوگانہ نماز کے ذریعہ مسجد کا سلام) ادا کرے۔ جس حدیث میں صحابی کا نماز میں غلطی کرنا منقول ہے اسی حدیث میں مذکورہ امر پر دلیل موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے تو ایک اور آدمی بھی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے سلام عرض کیا۔ نبی ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’واپس جا، نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ ایسا تین مرتبہ ہوا([163])۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والا پہلے تحیۃ المسجد ادا کرے اس کے بعد لوگوں کو سلام کرے، تاکہ تحیۃ المسجد اہل مسجد کو سلام کرنے پر مقدم ہوسکے، کیونکہ یہ(تحیۃ المسجد) اللہ کا حق ہے جبکہ مخلوقات کو سلام کرنا مخلوقات کا حق ہے۔ اور ان سب معاملات میں اللہ کے حق کو مقدم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے صحابی کی، نماز میں غلطی کرنے والی حدیث بیان کی اور اسے اپنے قول پر دلیل بناتے ہوئے فرمایا: نبی اکرم ﷺ نے صحابی کی نماز پر اعتراض کیا لیکن تاخیر سے یعنی نماز کے بعد، آپ کو سلام کرنے پر نکیر نہیں کی([164])۔
نبی اکرم ﷺ کے اس صحابی کی خاموش تائید سے یہ بات واضح ہوگئی تحیۃ المسجد کو اہل مسجد کو سلام کرنے پر مقدم کرنا سنت ہے۔
22۔ دوران خطبہ جمعہ سلام کرنا مکروہ ہے: اس سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تو نے دوران خطبہ میں اپنے ساتھی سے کہہ دیا کہ خاموش رہ، تو نے لغو اور بے ہودہ بات کی([165])۔لہذا چونکہ نبی اکرم ﷺ نے دوران خطبہ مقتدیوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا ہے اس لئے دوران خطبہ سلام کرنا بھی مشروع نہیں ہے۔
مسئلہ: اگر کوئی مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کردے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو، تو کیا مقتدیوں پر سلام کا جواب دینا واجب ہے؟
جواب: لجنہ دائمہ کہتی ہے: جب کوئی بروز جمعہ مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو اور وہ اس خطبہ کو سن بھی رہا ہو تو اس کے لئے اہل مسجد کو سلام میں پہل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ دوران خطبہ؛ اہل مسجد کے لئے اس کے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔ البتہ اگر کوئی اشارہ سے جواب دیدے تو جائز ہے([166])۔
مسئلہ: دوران خطبہ جمعہ اگر کسی مقتدی کے پاس بیٹھا ہوا شخص اس کو سلام یا مصافحہ کرے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: لجنہ دائمہ کہتی ہے: اس سے اپنے ہاتھ سے مصافحہ کرلے لیکن اس سے بات نہ کرے اور اس کے سلام کا جواب پہلے خطبہ کے بعد دیدے۔ اور اگر اس نے آپ کو دوسرے خطبہ کے دوران سلام کیا ہو تو خطیب کے دوسرے خطبے سے فارغ ہونے کے بعد آپ اسے سلام کا جواب دیدیں([167])۔
23۔ کلام سے پہلے سلام کرنے کی ترغیب: امت کے سلف وخلف کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی گفتگو پر سلام کو مقدم کیا کرتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ انسان ہر گفتگو سے پہلے سلام کرے، اور اس سلسلے میں احادیث صحیحہ اور امت کے سلف صالحین کا عمل معروف ومشہور ہے۔ اس باب میں یہی مذکورہ دلائل معتمد ہیں۔ اور جہاں تک اس حدیث کی بات ہے جسے ہم نے ترمذی کی کتاب میں روایت کیا ہے: جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کلام سے پہلے سلام ہے۔ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ترمذی اس کے متعلق فرماتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے([168])۔
24۔ گنہگاروں اور بدعتیوں کو سلام کرنا: جہاں تک گنہگاروں کی بات ہے تو انہیں سلام کیا بھی جائے گا اور ان کے سلام کا جواب بھی دیا جائے گا۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ مسلمان آدمی جو فسق وفجور اور بدعت کی انجام دہی میں مشہور نہ ہو؛ وہ سلام کرسکتا ہے اور اس کو سلام کیا بھی جاسکتا ہے۔ لہذا اس کو سلام کرنا اور اس کے سلام کا جواب دینا سنت ہے([169])۔
البتہ اگر کوئی گنہگار انسان فسق وفجور اور معصیت میں مشہور ہو، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اسے سلام کرنا ترک کردو؟
جواب: اگر اسے سلام نہ کرنے میں مصلحت غالب ہو، جیسے اگر اسے سلام نہ کیا جائے اور اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے تو وہ اپنے گناہوں سے باز آسکتا ہے؛ تو ایسی صورت میں سلام ترک کردیا جائے گا تاکہ وہ باز آسکے۔ البتہ اگر معاملہ الٹا ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ ایسا کرنے سے وہ گناہ میں مزید بڑھ جائے گا تو ہم اسے سلام کریں گے اور اور اس کے سلام کا جواب بھی دیں گے تاکہ کم مقصان ہو، کیونکہ یہاں سلام کو ترک کرنے میں کوئی مصلحت نہیں ہے۔ دراصل اس مسئلے کی بنیاد ہجر( یعنی کسی سے قطع تعلق کرلینا) کے مسئلے پر مبنی ہے۔
اور جہاں تک بدعتیوں کا معاملہ ہے؛ تو بعض بدعتیں مکفرہ ہوتی ہیں اور بعض ایسی نہیں ہوتیں۔ لہذا بدعت مکفرہ کے مرتکب کو کسی صورت میں سلام نہیں کیا جائے گا جبکہ بدعت غیر مکفرہ کے مرتکب کا وہی حکم ہوگا جو اہل معاصی کا ہے جیسا کہ ان کے متعلق بیان گزر چکا۔
یہاں ہم اہل بدعت سے قطع تعلق ہونے پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا بیان نقل کرتے ہیں، اور شیخ کا بیان سلام کے مسئلے پر بھی منطبق ہوگا کیونکہ ضمنی طور پر سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کا مسئلہ، ہجر(قطع تعلقی) کے مسئلے میں داخل ہے۔ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک ان(اہل بدعت کو) سے قطع تعلقی کا مسئلہ ہے تو اس کا انحصار اس کی بدعت پر ہے۔ اگر بدعت مکفرہ ہے تو اس سے قطع تعلق ہونا واجب ہے اور اگر بدعت مکفرہ نہیں ہے تو ہم اس سے قطع تعلقی کرنے میں ذرا توقف سے کام لیں گے۔ اگر اس سے قطع تعلق ہونے میں مصلحت ہوگی تو ہم قطع تعلق ہوجائیں گے اور اگر ایسا کرنے میں کوئی مصلحت نہ ہوگی تو ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایسا اس لئے کیونکہ مومن سے قطع تعلق ہونا اصلا حرام ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دنوں سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع تعلقی رکھے([170])۔
ان تمام مسائل میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں ان کا نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کسی غزوے میں جانے سے پیچھے رہ جانے اور اللہ کا ان کی غلطی بخش دینے کا واقعہ مذکور ہے۔ اسی حدیث میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے باقی تمام پیچھے رہ جانے والوں میں سے صرف ہم تینوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے لوگوں کو منع فر دیا تھا، لہذا لوگ ہم سے دور دور رہنے لگے اور ہمارے لیے اس حد تک بدل گئے کہ میں محسوس کرنے لگا کہ کوئی اجنبی سرزمین ہے۔ ہم پچاس دن تک اسی حال میں رہے۔ دوسرے دونوں ساتھی تو تھک ہار کر گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے لیکن میں چونکہ سب میں جوان اور طاقتور تھا، لہذا باہر نکلا کرتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوا کرتا تھا اور بازاروں میں پھرا کرتا تھا لیکن مجھ سے کوئی شخص بات نہ کرتا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی اس وقت حاضر ہوتا جب آپ نماز کے بعد لوگوں کے ساتھ تشریف فرما ہوتے۔ میں جب آپ کو سلام کرتا تو اپنے دل میں یہی سوچتا رہتا کہ آیا میرے سلام کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کے لب مبارک متحرک ہوئے تھے یا نہیں؟([171])
25۔ مجلس سے علیحدہ ہوتے وقت سلام کرنا مسنون ہے: جس طرح مجلس میں تشریف آوری کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح مجلس سے علیحدہ ہوتے وقت بھی سلام کرنا مسنون ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہئے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تو بھی سلام کہے ۔ پہلی دفعہ سلام کہنا دوسری دفعہ کے مقابلے میں کوئی زیادہ اہم نہیں ہے ([172])۔
فرمان باری ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا}
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو.
نیز فرمایا: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ}
ترجمہ:ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں۔
ایک اور مقام پر فرمایا: {وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ}
ترجمہ:اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیئے۔
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: اجازت مانگنے کس حکم تو دیکھنے کے سبب ہی سے ہے۔ متفق علیہ۔
آداب کا بیان:
1۔ اجازت طلب کرنے سے پہلے سلام کرنا مسنون ہے: سیدنا کلدہ بن حنبل ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا صفوان بن امیہ ؓ نے ان کو دودھ ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ، جبکہ نبی کریم ﷺ مکہ کی بالائی جانب میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ کلدہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی مجلس میں جا داخل ہوا اور سلام نہ کہا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ پیچھے ہٹو اور کہو السلام علیکم ‘‘ یہ واقعہ صفوان بن امیہ کے مسلمان ہو جانے کے بعد کا ہے ([174])۔
جناب ربعی سے روایت ہے کہ بنو عامر کے ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی جبکہ آپ ﷺ گھر کے اندر تھے ۔ اور اس نے کہا : کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ تو نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا : اس کی طرف جاؤ اور اسے اجازت طلب کرنے کا ادب سکھاؤ، اسے کہو کہ ( اس طرح ) کہے : السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی تو بولا : السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟([175])
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت کرتے ہوئے فرمایا: السلام علی رسول اللہ، السلام علیکم، کیا عمر کو داخل ہونے کی اجازت ہے؟([176])
2۔ اجازت طلب کرنے والے کو دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہونا چاہئے: ایسا اس لئے تاکہ اس کی نظر ایسی جگہ نہ پڑ جائے جہاں دیکھنا جائز نہیں ہے، یا گھر کا سر پرست جس چیز کو کسی کو دکھانا نہیں چاہتا؛ ایسی کسی چیز پر نظر پڑجائے۔ کیونکہ اجازت لینے کا حکم نظر ہی کی وجہ سے ہے(کہ انسان اندر نہ جھانکے۔) چنانچہ حضرت عبد الله بن بسرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی کے دروازے پر جاتے تو اس کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوئے کرتے تھے۔بلکہ دائیں یا بائیں جانب ہو کر کھڑے ہوتے اور فرماتے ’’السلام علیکم ،السلام علیکم‘‘اور ان دنوں دروازوں پر پردے نہیں ہوا کرتے تھے([177])۔
حضرت ہذیل ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص....اور بقول عثمان بن ابی شیبہ حضرت سعد ؓعنہ آئے اور نبیﷺ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت طلب کرنے لگے ....عثمان بن ابی شیبہ نے وضاحت کی کہ وہ دروازے کے عین سامنے کھڑے ہو گئے...تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا:اس طرف ہٹ کر کھڑے ہو یا اس طرف۔اجازت لینے کا حکم نظر ہی کی وجہ سے ہے(کہ انسان اندر نہ جھانکے۔)([178])
3۔ کسی دوسرے کے گھر میں بغیر اس کی اجازت کے جھانکنا حرام ہے: اجازت لینے کا حکم نظر ہی کی وجہ سے ہے(کہ انسان اندر نہ جھانکے)۔ لہذا جو حد سے تجاوز ہو اور بغیر اجازت کے چیزوں کو دیکھے جنہیں دیکھنا جائز نہیں ہے اور اس کی آنکھ پھوڑ دی جائے تو نہ کوئی قصاص لیا جائے گا اور نہ اس پر کوئی دیت ہے۔ اس کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا :جس نے اجازت کے بغیر لو گوں کے گھر میں تانک جھانک کی، انھیں اجا زت ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑدیں([179])۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں تمہاری اجازت کے بغیر جھانک رہا اور تم اسے کنکری مارو جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی سزا نہیں([180])۔
نیز حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے کسی گھر میں جھانکا تو نبی ﷺ ایک لمبے نیزے کا پھل لیے ہوئے اس کی طرف اٹھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ اس کی طرف چپکے چپکے تشریف لے گئے تاکہ بے خبری میں اسے مار دیں([181])۔
4۔ تین مرتبہ اجازت طلب کی جائے، اگر اجازت مل گئی تو بہتر ورنہ اجازت طلب کرنے والے کو لوٹ جانا چاہئے: ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے([182])۔
مسئلہ: اگر کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ ملے لیکن اسے یہ گمان گزرے کہ اس نے اس کی آواز ہی نہیں سنی ہے، تو ایسی حالت میں اجازت طلب کرنے والا کیا کرے؟
جواب: علما نے کہا ہے کہ وہ حدیث کے ظاہری معنی پر عمل کرتے ہوئے لوٹ جائے۔نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس وقت تک اجازت طلب کرسکتا ہے جب تک اسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کی آواز سن لی گئی ہے([183])۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اجازت تین مرتبہ طلب کی جائے گی۔ میں اس سے زیادہ ایسا کرنے کو پسند نہیں کرتا، الا یہ کہ جسے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی آواز نہیں سنی گئی ہے۔ لہذا اگر اسے یقین ہو کہ اس کی آواز نہیں سنی گئی ہے تو تین سے زائد مرتبہ اجازت طلب کرنے میں، میں کوئی حرج نہیں سمجھتا([184])۔
5۔ جب اجازت طلب کرنے والے سے پوچھا جائے کہ "کون ہے" تو وہ "میں" کہنے پر اکتفا نہ کرے: اس کی وجہ یہ ہے کہ اجازت طلب کرنے والے کے "میں" کہنے سے اس کا تعارف نہیں ہوتا، بلکہ ابہام وپوشیدگی باقی رہتی ہے اور اس کے "میں" کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس عمل کی کراہت کی دلیل حابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس قرض کے متعلق حاضر ہوا جو میرے والد گرامی کے ذمے تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے دریافت فرمایا: کون ہو؟“ میں نے عرض کی: میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں ہوں، میں ہوں، گویا آپ نے اس انداز کو ناپسند فرمایا([185])۔
اگر اجازت طلب کرنے والا یہ کہے کہ میں فلاں ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مسجد تشریف لے گئے جبکہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ محو تلاوت تھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کون ہے یہ؟ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں، میں ہوں بریدہ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کو آل داود کی بانسریوں میں سے ایک بانسری(یعنی خوبصورت آواز) عطا کی گئی ہے([186])۔
اسی طرح اگر اجازت طلب کرنے والا یہ کہے کہ میں "ابو فلاں" ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ بخاری کی روایت ہے: حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون عورت ہے؟‘‘ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔۔۔۔الحدیث([187])۔
نیز اگر مجرد نام کے غیر معروف ہونے کی وجہ سے اس سے تعارف نہ ہوسکے تو اجازت طلب کرنے والے کا "میں فلاں قاضی ہوں" یا " میں فلاں شیخ ہوں" کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([188])۔
تنبیہ: اگر اجازت طلب کرنے والے کے نام سے تعارف نہ ہوسکے کیونکہ اسی نام کے اور بھی لوگ موجود ہیں، اور نہ اس کی آواز سے اسے پہچانا جاسکے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنا تعارف کرانے کے لئے مزید وضاحت سے کام لے تاکہ تعارف ممکن ہوسکے۔ اس امر کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے: جب نبی اکرم ﷺ عید کے دن خواتین میں خطبہ دے کر اپنے گھر لوٹ آئے تو ابن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ آئیں اور آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی ، چنانچہ عرض کیا گیا :اللہ کے رسول اللہ ﷺ !زینب آئی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا:’’ کون سی زینب؟‘‘ عرض کیا گیا : ابن مسعود ؓ کی بیوی ۔ آپ نے فرمایا:اچھا!انھیں اجازت دے دو۔ چنانچہ اجازت دی گئی۔۔۔الحدیث([189])
6۔ اجازت طلب کرنے والے کو بہت زور سے دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہئے: کیونکہ یہ برا طریقہ ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کا دروازہ ناخنوں سے کھٹکھٹایا جاتا تھا([190])۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کو صحابہ کے اعلی ترین آداب پر محمول کیا جائے گا۔ یہ عمل اس شخص کے حق میں تو بہتر ہے جو دروازے کے قریب ہی رہتا ہو، جبکہ جو دروازے سے اتنا دور رہتا ہو کہ ناخنوں سے کھٹکھٹانے سے آواز اس تک نہیں پہنچے گی تو جس انداز میں دستک دینے کی ضرورت محسوس ہو ویسے ہی دستک دیا جائے([191])۔
میمونی کہتے ہیں: ابو عبداللہ کے دروازے پر ایک عورت نے ذرا زور سے دستک دے دی، تو وہ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ یہ تو تو پولیس کی دستک ہے([192])۔
7۔ اگر گھر کا مالک اجازت طلب کرنے والے کو کہے کہ لوٹ جاو تو اسے لوٹ جانا چاہئے: کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزه ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔
قتادہ کہتے ہیں: بعض مہاجرین نے کہا کہ میں نے اپنی پوری عمر اس آیت کو سمجھنے میں گزاردی، اس کے بعد مجھے جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ کہ میں اپنے کسی بھائی سے (اس کے پاس داخل ہونے کی) اجازت طلب کروں اور وہ لوٹ جانے کو کہہ دے تو مجھے خوش دلی سے لوٹ جانا چاہئے([193])۔
8۔ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو اجازت طلب کرنے والے کو اس میں داخل نہیں ہونا چاہئے: کیونکہ ایسا کرنا دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کیونکہ ایسا کرنا درحقیقت دوسروں کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا ہے، کیونکہ (اگر وہ موجود ہوتا) تو اجازت دے بھی سکتا تھا اور نہیں بھی دے سکتا تھا([194])۔
9۔ جسے دعوت دی جائے یا کسی کو بھیج کر بلوایا جائے و اسے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے: کیونکہ دعوت دینا یا اس کے لئے کسی کو بھیجنا اجازت کو شامل ہوتا ہے، لہذا دعوت دینے یا کسی کو بھیج کر بلانے سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی کو بلانے کے لیے آدمی کا بھیجا جانا ، اس ( آنے والے ) کے لیے اجازت ( کے معنی میں ) ہے ([195])۔نیز ابو ہریرۃؓ سے ہی روایت ہے‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ بلانے والے کے ساتھ چلا آئے تو یہی اجازت ہے([196])۔
بعض اہل علم نے بعض صورتحال کو مستثنی کیا ہے جیسے مدعو اگر دعوت کے مقررہ وقت سے کچھ تاخیر سے پہنچے یا دعوت کسی ایسی جگہ ہو جہاں عام طور سے اجازت طلب کی جاتی ہو، تو ان حالات میں اجازت طلب کی جائے گی([197])۔
10۔ مجلس سے اٹھتے اور علیحدگی اختیار کرتے وقت اجازت طلب کرنا: یہ ایک عظیم نبوی ادب ہے۔ زیارت کرنے والوں کو مجلس سے علیحدگی اختیار کرتے وقت بھی ادب کو ملحوظ رکھنا سکھایا گیاہے۔ لہذا جس طرح آپ نے مجلس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی تھی اسی طرح جازت طلب کرکے ہی آپ مجلس سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ غالبا اس امر کی علت یہ ہے کہ انسان کی نگاہ کسی حرام یا ناپسندیدہ چیز پر نہ پڑ جائے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی آدمی اپنے بھائی کی زیارت کے لیے جائے اور اس کے پاس بیٹھ جائے تو وہاں سے بلا اجازت نہ اٹھے([198])۔
اس حدیث میں ایک عظیم ادب کی جانب رہنمائی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ زیارت کرنے والا بغیر اجازت نہ اٹھے۔ جبکہ بعض عربی ممالک میں بہت سے لوگ اس ادب کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آپ انہیں پائیں گے کہ وہ بغیر اجازت ہی مجلس سے نکل جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ سلام بھی نہیں کرتے ہیں، یہ تو اسلام کے ایک دوسرے ادب کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا قول ہے ([199])۔
11۔ ماں، بہن اور جو ان کے حکم میں ہیں ان سے اجازت طلب کرنا: ایسا اس لئے تاکہ ان کے ستر پر نگاہ نہ پڑجائے یا انہیں ایسی حالت میں دیکھ لیا جائے جس حالت میں دیکھے جانے کو خواتین ناپسند کرتی ہیں۔ علقمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایک آدمی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا میں اپنی ماں سے بھی (ان کے پاس داخل ہونے کے لئے)اجازت طلب کروں؟ تو آپ نے جواب دیا: (یقینا اجازت طلب کرو) کیونکہ تم انہیں ان کی ہر حالت میں دیکھا پسند نہیں کرسکتے ہو([200])۔
اور مسلم بن نذیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا : کیا میں اپنی امی سے (ان کے پاس داخل ہونے کے لئے) اجازت طلب کروں؟ تو انہوں نے جواب دیا: اگر ان سے اجازت طلب نہ کروگے تو بہت ممکن کے کہ تماری نظر کسی ناپسندیدہ چیز پر پڑ جائے([201])۔
نیز عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں اپنی بہن سے اجازت طلب کروں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے دوبارہ کہا: دو بہنیں میری پرورش میں ہیں، میں ہی ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں اور ان کا خرچہ اٹھاتا ہوں، کیا تب بھی میں ان سے (ان کے پاس داخل ہونے کے لئے) اجازت طلب کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کیا تو انہیں عریاں دیکھنا چاہتا ہے؟([202])
12۔ بیوی کے پاس آتے وقت اسے آگاہ کردینا مستحب ہے: تاکہ شوہر اپنی بیوی کے متعلق کوئی ایسی چیز نہ دیکھ لےجس سے اسے غصہ آجائے، یا بیوی ایسی حالت میں ہو جس میں وہ نہیں چاہتی ہو کہ اس کا شوہر اسے اس حالت میں دیکھے۔حضرت زینب، زوجہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: جب عبداللہ بن مسعود (باہر سے اپنی ضرورت پوری کرکے) تشریف لاتے تو کھنکھار کر یا تھوکنے کی آواز نکالا کرتے تھے تاکہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہ دیکھ لیں جسے وہ ناپسند کرتے ہوں([203])۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو کھنکھار لے۔ نیز مہنا کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا کہ آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو کیا اسے اجازت طلب کرنا چاہئے؟ آپ نے فرمایا: جب داخل ہو تو اپنے جوتے/چپل کو حرکت دیدے([204])۔
13۔ بار بار چکر لگانے والے غلام اور جو بچے بالغ نہیں ہوئے ہیں وہ تین اوقات میں اجازت طلب کریں گے:
پہلا وقت: نماز فجر سے پہلے۔
دوسرا: قیلولہ کے وقت۔
تیسرا وقت: نماز عشا کے بعد۔
ان کے علاوہ بقیہ اوقات میں ( ان کے لئے بغیر اجازت داخل ہونے میں) کوئی حرج نہیں ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی اگر وہ ان اوقات کے علاوہ کسی دوسرے وقت تمہارے پاس آجائیں تو تم انہیں آنے دو،اگر وہ ان اوقات کے علاوہ کسی اور وقت کچھ دیکھ لیں تو اس میں نہ تمہارے لئے کوئی حرج ہے اور نہ ان پر۔ کیونکہ انہیں بلا تکلف آنے کی اجازت ہے، اور کیونکہ وہ تمہارے پاس بار بار آنے جانے والے ہیں، یعنی تمہاری خدمت وغیرہ کے لئے۔۔۔۔اس کے بعد آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اثر نقل کیا: عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو لوگوں نے تین اوقات میں اجازت طلب کرنے کے متعلق سوال کیا جن کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ تعالی ستیر ہے اور وہ پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ پہلے تو لوگوں کے پاس نہ دروازوں پر پردے تھے اور نہ کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے تھے، جس کی وجہ سے بسا اوقات لونڈی غلام، ان کی اولاد یا ان کے ماتحت پرورش پارہے یتیم بچے بے خبر ی میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے (تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا)۔لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان مذکورہ اوقات میں اجازت طلب کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالٰی نے انہیں پردے عطا کئے اور ان کی روزی میں کشادگی عطا کی اور انہوں نے پردے لٹکا لئے اور الگ الگ کمرے بنا لئے، تو لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ ان کے لئے کافی ہے اور اب اجازت طلب کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی جس کا اللہ نے انہیں حکم دیا تھا([205])۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آپس میں مصافحہ کیا کرو کیونکہ یہ بغض وکینہ کو دور کرتا ہے اور آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرو کیونکہ اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اور یہ بھی بغض وعداوت کو دور کرتا ہے([206])۔
نیز فرمان نبویﷺ ہے: جو کوئی دو مسلمان ملاقات کرتے اور پھر مصافحہ کرتے ہیں ، تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان دونوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے([207])۔
آداب کا بیان:
1۔ مصافحہ کرنا مستحب ہے: ایسے بعض آثار کا تذکرہ گزرچکا ہے کہ مصافحہ کرنا بغض وعداوت کو ختم کرتا ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے مصافحہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر عمل کیا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا صحابہ کرام مصافحہ کیا کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا: ہاں([208])۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے توبہ قبول ہونے کے قصے میں مذکور ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ وہاں موجود تھے۔ اتنے میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ جلدی سے اٹھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دیا([209])۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب اہل یمن آئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اہل یمن آگئے ہیں، وہ تم سے زیادہ نرم دل والے ہیں۔ انہی لوگوں نے مصافحہ کی ابتدا کی تھی ([210])۔
نیز براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مکمل سلام یہ ہے کہ (سلام کے بعد) آپ اپنے بھائی سے مصافحہ کریں([211])۔
مصافحہ کرنا ملاقات کے وقت مسنون ہے اور یہ سلام میں تاکید پیدا کرنے کے لئے ہے۔ الادب المفرد میں ہے: جان لیجئے کہ ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا انسیت پیدا کرنے کے لئے ہے اور اس سے زبانی سلام کو تقویت ملتی ہے، کیونکہ سلام کرنا امن وامان کا اعلان ہے اور مصافحہ کرنا اس اعلان پر بیعت کرنے کے مترادف اور اس کی تلقین ہے۔ نیز اس سے زبانی سلام کی تاکید ہوتی ہے تاکہ دونوں ملاقات کرنے والے ایک دوسرے سے مطمئن رہیں([212])۔
ہم نہیں سمجھتے کہ مصافحہ کے جواز اور اس کی ترغیب دینے والے ان آثار کے بیان کے بعد اب کوئی مسلمان اس خیر وبھلائی کے حصول میں بخیلی سے کام لے گا یا سنت سے اعراض کرےگا۔
مسئلہ: فرض نمازوں کے بعد بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاس بیٹھے شخص کو سلام کرتے ہیں، کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: فرض نمازوں کے بعد سلام کرنا مشروع نہیں ہے۔ نہ نبی اکرم ﷺ سے اس کا ثبوت ملتا ہے، نہ خلفا راشدین سے اور نہ صحابہ کرام سے۔ ایسا عمل کرنا دین میں بدعت ایجاد کرنا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے۔
فضل اللہ الجیلانی کہتے ہیں کہ ابن عابدین نے کہا: پنج وقتہ نمازوں کے بعد اس عمل کو انجام دینے سے جاہلوں کو یہ پیغام جاسکتا ہے کہ اس موقع پر اس کی انجام دہی مسنون ہے اور اسے دوسرے مواقع کی بنسبت زیادہ خصوصیت حاصل ہے۔ جبکہ ان کے کلام کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان مواقع پر سلف صالحین نے اس عمل کو انجام نہیں دیا ہے۔
الملتقط میں ہے: نماز کے بعد مصافحہ کرنا ہر حال میں مکروہ ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے انجام نہیں دیا اور یہ روافض کا طریقہ ہے۔ شافعیہ سے یہ منقول ہے کہ یہ بدعت ہے اور شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ نیز اس کو انجام دینے والے کو پہلے پہل منع کیا جائے گا اس کے بعد اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔
المدخل میں ہے: یہ بدعی اعمال میں سے ہے۔ شریعت میں صرف کسی مسلمان بھائی سے ملاقات کے وقت ہی مصافحہ مشروع ہے، نمازوں کے بعد نہیں۔لہذا شریعت نے اس کا جو موقع مقرر کیا ہے اسی وقت اس کو انجام دیا جائے گا۔ ایسا کرنے والے کو منع کیا جائے گا اور خلاف سنت عمل کرنے کی وجہ سے اسے ڈانٹ پلائی جائے گی([213])۔
فائدہ 1: بخاری نے الادب المفرد میں سلمہ بن وردان سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو سلام کررہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی لیث کا آزاد کردہ غلام ہوں۔ انہوں نے میرے سر پر تین مرتبہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تمہیں برکت دے([214])۔ لہذا بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے کیونکہ یہ ان کے لئے رحمت اور شفقت ومحبت ہے۔نیز ایسا کرنے سے وہ خیر وبھلائی کے عادی بنتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ کا اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بچوں سے شفقت ومحبت اور رحمت سے پیش آتے تھے۔
2۔اجنبی(غیر محرم) عورتوں سے مصافحہ کرنا حرام ہے: اس کی دلیل بخاری کی روایت کردہ مہاجر عورتوں کی بیعت والی حدیث ہے جسے عائشہ-رضی الله عنها وعن أبيها- نے بیان کیا ہے: ۔۔۔۔۔۔چنانچہ جب وہ اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے: ’’اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔‘‘ اللہ کی قسم! بیعت لیتے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کو نہیں چھوا۔ آپ ﷺ ان خواتین سے زبانی بیعت لیتے تھے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے صرف ان چیزوں پر عہد لیا جن کا اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے: ’’میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔‘‘یہ آپ صرف زبان سے کہتے تھے([215])۔یعنی آپ بس ان سے یہ باتیں زبانی کہا کرتے تھے، عادت کے مطابق بیعت کے وقت مردوں کی طرح ان سے ہاتھ سے مصافحہ کرکے نہیں کہتے تھے۔ یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے([216])۔
امیمہ بنت رقیقہ رضی الکہ عنہا کی حدیث میں اس بات پر گواہی موجود ہے اور اس میں عورتوں سے مصافحہ نہ کرنے کی صراحت بھی موجود ہے۔ چنانچہ جب نبی اکرم ﷺ نے عورتوں سے بیعت لی تو اس طرح لی، وہ فرماتی ہیں: ہم نے کہا: اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺہم پر(ہم سے بھی) زیادہ مہربان ہیں۔ اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ میرا زبانی طور پر سو عورتوں سے(بیعت کی) بات چیت کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہر ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔‘‘([217])
ابن عبد البر کہتے ہیں: آپ کا یہ فرمانا " میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا" اس بات پر دلیل ہے کہ مردوں کے لئے کسی ایسی عورت کو چھونا جائز نہیں ہے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔ نیز نہ ان کے ہاتھوں کو مس کرنا جائز ہے اور نہ ان سے مصافحہ کرنا([218])۔
فائدہ: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی حائل کے ذریعے سے غیر محرم عورت سے مصافحہ کرنا جائز ہے جبکہ یہ غلط اعتقاد ہے۔ غیر محرم عورتوں سے مطلقا مصافحہ کرنا جائز ہی نہیں ہے۔ ہاں نبی اکرم ﷺ کے متعلق ایسے کچھ آثار مروی ہیں کہ آپ ﷺ عورتوں سے کپڑے کے اوپر سے مصافحہ کیا کرتے تھے لیکن وہ سب کی سب مرسل روایتیں ہیں اور وہ اتنی مضبوط نہیں ہیں کہ ان احادیث صحیحہ وصریحہ کو باطل کرسکیں جو اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کی ممانعت پر وارد ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مسئلے میں کچھ روایتیں مروی ہیں لیکن وہ سب کی سب مرسل ہیں، انہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (8/488) میں ذکر کردیا ہے۔ لہذا ایسی روایتوں سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی، بالخصوص جب وہ ان سے زیادہ صحیح روایتوں کے خلاف ہوں([219])۔
3۔ مصافحہ کرتے وقت جب تک دوسرا ہاتھ نہ کھینچ لے تب تک اپنا ہاتھ نہ کھینچنا مستحب ہے:کیونکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپﷺ سے مصافحہ کرتا تو آپﷺ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا۔۔۔۔الحدیث([220])۔اس حدیث میں مصافحہ کرنے اور اگر مشقت نہ ہو تو لمبی مدت تک ہاتھ پکڑے رہنے کے استحباب پر دلیل ہے۔
مسئلہ: اگر دو لوگ مصافحہ کریں اور دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں تو پہلے کسے ہاتھ کھینچنا چاہئے؟
جواب: شیخ تقی الدین کہتے ہیں: اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جسے یہ غالب گمان گزرے کہ دوسرا شخص خود اپنا ہاتھ کھینچ لے گا تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا ہاتھ تھامے رہے( خود نہ کھینچ لے، اور اگر ایسا گمان ہو کہ دوسرا شخص بھی ہاتھ نہیں کھینچے گا تو پہلے شخص کو ہاتھ کھینچ لینا چاہیے)، کیونکہ اگر ان دونوں کے لئے ہاتھ تھامے رہنے کو مستحب قرار دے دیا جائے تب تو انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہنا پڑےگا۔ لیکن (اس مسئلے میں)عبد القادر کی بیان کردہ قید بھی عمدہ ہے ([221])کہ مصافحہ میں پہل کرنے والا شخص پہلے ہاتھ کھینچے([222])۔
4۔ آنے والے کے استقبال کے لئے کھڑے ہونا: کسی کے لئے کھڑے ہونے کی تین صورتیں ہیں:
پہلی صورت: کسی آدمی کے سر کے ارد گرد کھڑے ہونا۔ یہ ظالم وجابر لوگوں کا طریقہ ہے۔
دوسری صورت: جب کوئی تشریف لائے تو اس کی جانب بڑھنے/جانے کے لئے کھڑے ہونا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تیسری صورت: کسی کو دیکھ کر کھڑے ہوجانا۔ یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ مذکورہ تفصیل ابن قیم رحمہ اللہ کا بیان کردہ ہے([223])۔
پہلی صورت کی دلیل: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہﷺ بیمار پڑ گئے اور ہم نے آپﷺکی اقتدا میں نماز پڑھی جبکہ آپﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی تکبیر لوگوں کو سنا رہے تھے آپﷺ نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ہمیں کھڑے ہوئے دیکھا تو آپﷺ نے ہمیں اشارہ فرمایا (جس پر) ہم بیٹھ گئے اور ہم نے آپﷺ کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’تم ابھی وہ کام کررہے تھے جو فارسی اور رومی کرتے ہیں، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، حالانکہ وہ (بادشاہ) بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ کیا کرو، اپنے ائمہ کی اقتدا کرو، (امام) اگر کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘ ([224]) یقینا اس طرح کھڑا ہونا ممنوع ہے اور یہ حدیث بڑے لوگوں کے لئے کھڑے ہونے کی ممانعت پر صریح دلیل ہے۔ نیز یہ ظالم وجابر لوگوں کا عمل ہے۔
ہاں اگر ایسی کوئی حاجت پیش آجائے تو جائز ہے، جیسے کسی کے لئے کھڑے نہ ہونے پر یہ خدشہ ہو کہ وہ اس پر ظلم کرے گا تو اس بنیاد پر اس کے لئے قیام کیا جاسکتا ہے۔ نیز اگر کسی کی تکریم کے لئے قیام کیا جائے اور مقصد یہ ہو کہ اس شخص کی عزت وتکریم اور اس کے دشمن کی تذلیل کی جائے تو جائز ہے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے وقت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب قریش نے صلح کے معاملات طے کرنے کے لئے نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنا ایلچی نے بھیجا تو اس موقع پر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی تعظیم میں آپ کے پاس تلوار تانے کھڑے تھے تاکہ کفار کا جو ایلچی معاملات طے کرنے آیا تھا اس کو ذلیل کرسکیں۔ مذکورہ تفصیل شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بیان فرمائی ہے([225])۔
دوسری صورت کی دلیل: امام مالک نے موطا میں عکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا جو قصہ روایت کیا ہے، اس میں ہے: انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے، جب آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرط مسرت میں ان کی جانب دوڑ پڑے جبکہ آپ کے کاندھے پر کوئی چادر بھی نہیں تھی اور ان سے بیعت لے لی([226])۔
نیز کعب رضی اللہ کے توبہ والا واقعہ گزر چکا ہے جس میں طلحہ رضی اللہ عنہ کا انہیں مبارکباد دینے کے غرض سے کھڑے ہونے کا تذکرہ موجود ہے، حضرت کعب فرماتے ہیں: جب میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فر ماتھے اور لوگ آپ کے اردگرد بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی([227])۔
تیسری صورت جوکہ متنازع ہے، یعنی کسی جو دیکھ کر کھڑے ہوجانا: ابو مجلز کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نکلے جبکہ عبداللہ بن عامر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے۔ (انہیں دیکھ کر) ابن عامر کھڑے ہوگئے جبکہ ابن زبیر بیٹھے رہے اور وہ ان دونوں میں زیادہ مرتبے والے تھے۔ اس پر معاویہ ؓ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تو اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ([228])۔اور ابوداود کے الفاظ ہیں: سیدنا معاویہ ؓ نے ابن عامر سے کہا : بیٹھ جائیں ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے رہیں تو اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ([229])۔
اس حدیث کو سمجھنے میں اہل علم تین گروہ میں منقسم ہیں:
پہلا گروہ: یہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث بڑے اور عظیم لوگوں کے لئے ہونے کی کراہیت پر دلیل ہے، جیسا کہ فارس اور روم کے بڑے لوگوں کے لئے(قیام) کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اس حدیث کو مسلم کی اس حدیث سے جوڑ دیا ہے جس میں کسی بیٹھے ہوئے شخص کے سر کے پاس قیام کرنے کی کراہیت کا تذکرہ ہے جیسا کہ عجمی لوگ اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
دوسرا گروہ: ان لوگوں نے اس حدیث سے کسی آنے والے کے لئے کھڑے ہونے کی کراہیت پر استدلال کیا ہے اور یہ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث اس باب میں صریح ہے۔ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب ابن عامر انہیں دیکھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ لہذا ان کا ایسے موقع پر اس حدیث کو بیان کرنا؛ حدیث کے مراد کو واضح کرنے کے لئے ایک مضبوط قرینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیز ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بات پر اعتراض نہ کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بات درست ہے۔
جن لوگوں نے حدیثِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کسی آدمی کے سر کے پاس کھڑے ہونے کے مسئلے پر محمول کیا ہے ان پر اس گروہ نے کئی زاویوں سے رد کیا ہے:
پہلا زاویہ: اہل عرب اس قیام کو، یعنی کسی کے سر کے پاس قیام کرنے کو نہیں جانتے تھے۔ یہ تو اہل فارس وروم کا طریقہ ہے۔
دوسرا زاویہ: اس قیام کو "قیام للرجل" (کسی آدمی کے لئے قیام کرنا) نہیں کہا جاتا بلکہ اسے تو "قیام علیہ"( کسی کے پاس کھڑے ہونا) کہا جاتا ہے اور یہی قیام اہل فارس وروم سے مشابہت رکھتا ہے۔ جبکہ کسی کے آنے پر اس کی جانب جانے کے لئے قیام کرنا اہل عرب کا طریقہ رہا ہے۔ یہ تفصیل ابن قیم رحمہ اللہ کی بیان کردہ ہے([230])۔
تیسرا گروہ: ان لوگوں نے اس مسئلے میں تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قیام کسی کی عظمت وبڑائی کی خاطر ہے تو مکروہ ہے اور اگر قیام کسی کی عزت وتکریم کے لئے ہے تو مکروہ نہیں ہے۔ یہ غزالی رحمہ اللہ کا قول ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے اس قول کو مستحسن قرار دیا ہے([231])۔
اس پوری تفصیل کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں مختصرا بیان کردیا ہے: نبی اکرم ﷺ اور خلفا راشدین کے زمانے میں سلف کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ وہ جب نبی اکرم ﷺ کو دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے، جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں، بلکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ان کو نبی اکرم ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا، لیکن وہ آپ کو دیکھ کر قیام نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں([232])۔جبکہ جب کوئی ایک مدت کے بعد واپس آتا تو یہ لوگ اس سے ملاقات کی غرض سے کھڑے ہوا کرتے تھے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق مروی ہے کہ آپ عکرمہ رضی اللہ عنہ کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ نیز جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انصار سے کہا تھا کہ اپنے سردار کے استقبال لئے اٹھو( کھڑے ہوکر جاو)([233])۔ وہ بنو قریظہ کے مابین فیصلہ کرنے کے لئے آئے تھے کیونکہ وہ انہیں ثالث بنانے پر تیار ہوگئے تھے۔
لوگوں کو چاہیے کہ عہد نبوی ﷺ میں سلف جس راستے پر گامزن تھے، وہ اسی راستے پر چلتے ہوئے ان کی اتباع کریں کیونکہ یہی لوگ بہترین زمانہ والے ہیں۔ اور بہترین بات اللہ کا کلام ہے اور بہترین طریقہ نبی اکرم محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ لہذا سب سے بہتر شخص( یعنی نبی اکرم ﷺ) کے طریقے اور بہترین زمانے والوں کے طریقے کو چھوڑ کر دوسروں کے طریقے کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
اور جس شخص کی فر مانبرداری جاتی ہو اس کے لئے قطعا یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اس عمل کی انجام دہی پر لوگوں کی تائید کرے، تاکہ (لوگ اس مسئلے کو سمجھ جائیں اور )جب وہ لوگ اسے دیکھیں تو اس کے لئے کھڑے نہ ہوجائیں۔ البتہ ان ملاقات کے وقت کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے جب کھڑے ہونے کی اجازت ہے ۔ اور جہاں تک سفر سے واپس آنے والے سے ملاقات کی غرض سے کھڑے ہونے کا مسئلہ ہے تو یہ اچھی چیز ہے۔
اور اگر لوگوں میں کھڑے ہوکر، آنے والے کی عزت کرنے کا رواج ہو اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو آنے والا یہ سوچے گا کہ اس کی حق تلفی کی گئی ہے اور اسے نیچا دکھایا گیا ہے، جبکہ وہ مسنون طریقہ سے ناواقف ہو؛ تو اس کے لئے کھڑا ہوجانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ آپس کے میل جول کے لئے زیادہ مناسب ہے اور بغض وعداوت کو دور کرنے کا سبب ہے۔ البتہ جو شخص اپنی قوم کے، سنت پر عمل پیرا ہونے سے واقف ہو، تو اس کے لئے قیام کو ترک کردینا اسے تکلیف دینے کا سبب نہیں ہوگا([234])۔
اور ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر نہ کھڑے ہونے کو بے عزتی کرنا سمجھا جاتا ہو یا اس سے کسے مفسدہ( فتنہ وفساد) کا اندیشہ ہو تو ایسا نہ کیا جائے۔ ابن عبد السلام نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے([235])۔
5۔ کیا ملاقات کے وقت ایک آدمی دوسرے آدمی کے سر کا بوسہ لے سکتا ہے؟: موجودہ زمانے کی طرح صحابہ اور ان کے بعد کے سلف کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ وہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے (کے سر ) کا بوسہ لیتے ہوں۔ جو آثار بوسہ لینے پر دلالت کرتے ہیں وہ اتنے قوی نہیں ہیں کہ اس عمل سے صریح طور پر منع کرنے والی احادیث کو باطل قرار دے سکیں۔ ان احادیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے دو طریقے سے رد کیا ہے۔ پہلا: یہ تمام احادیث معلول ہیں جن سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ دوسرا: اگر یہ صحیح بھی ہوجائیں تو صحیح ترین احادیث کی معارض نہیں بن سکتیں ([236])۔چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘، اس نے پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘، اس نے کہا: پھر تو و ہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ (بس اتنا ہی کافی ہے)([237])عام ملاقات کے وقت جھکنے اور بوسہ لینے کی ممانعت کے متعلق اس حدیث میں صراحت وارد ہے۔ لیکن سفر سے واپسی یا لمبی مدت تک غائب رہنے کے بعد ملاقات ہونے پر گلے ملنے سے نہیں روکا جائے گا۔ اس پر ہماری دلیل جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عمل ہے: جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں ہیں کہ مجھے ایک حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے پہنچی تو میں نے ایک اونٹ خریدا اور اس پر کاٹھی کسی اور ایک ماہ کا سفر کرکے میں شام آگیا۔ وہاں پتہ چلا کہ وہ عبداللہ بن انیس ہیں۔ میں نے کسے سے ان کو اطلاع بھیجی کہ دروازے پر جابر آیا ہے۔ وہ شخص واپس آیا اور اس نے سوال کیا: جابر بن عبداللہ؟ میں نے کہا ہاں۔ تو عبداللہ بن انیس باہر نکلے اور انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے کہا ایک حدیث مجھے ملی ہے جو میں نے (نبی اکرم ﷺ سے بلاواسطہ) نہیں سنی ہے، مجھے خوف ہوا کہ میں مر جاؤں یا آپ مر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کے بندے یا فرمایا انسان حشر میں ننگے بند اور بُهمًا اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا بُهمًا کا کیا معنی ہے۔ انہوں نے کہا: جن کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ تو ایک فرشتہ ان کو آواز دے گا جسے دور سے بھی سنا جاسکے گا (شائد انہوں نے کہا تھا: جس طرح قریب سے سنا جاتا ہے) : کہ میں فرشتہ ہوں ہو، کسی جنتی کے لئے جنت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی جہنمی اس کے ظلم کی وجہ سے انصاف کا مطالبہ کردے اور کسی جہنمی کو جہنم میں جانے کا موقع نہیں ہے اگر کوئی جنتی اس کے ظلم کی وجہ سے داد خواہی چاہے([238])۔
فائدہ: والد کا اپنے بچے کا بوسہ محبت ومودت کی علامت ہے۔ نبی اکرم ﷺ اپنی اولاد کا بوسہ لیا کرتے تھے۔ اور آپ نے حسن وحسین کا بھی بوسہ لیا ہے۔ نیز ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی دختر نیک عائشہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں وارد احادیث اتنی مشہور ہیں کہ ہمیں ان کی تخریج بیان کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے۔
فائدہ 2: دینداری کی بنیاد پر ہاتھ کا بوسہ لینے کو بعض علما نے جائز قرار دیا ہے۔ مروذی کہتے ہیں: میں نے ابو عبداللہ سے ہاتھ کے بوسہ لینے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا: اگر دینداری کی بنیاد پر کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ ابوعبیدہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے ہاتھ کا بوسہ لیا تھا۔ لیکن اگر دنیا کی بنیاد پر کیا جائے تو جائز نہیں ہے، الا یہ ہے کسی کی طاقت وقوت اور اس کی تلوار کا خوف ہو۔ اور عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے بہت سے علما، فقہا، محدثین اور بنی ہاشم، قریش اور انصار کے لوگوں کو ان کے( یعنی ان کے والد کے) ہاتھ اور سر کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے([239])۔
جبکہ بعض علما نے ہاتھ کا بوسہ لینے کو ناپسند کیا ہے اور اسے سجدہ صغری قرار دیا ہے۔ سلیمان بن حرب کہتے ہیں: یہ سجدہ صغری ہے۔ البتہ انسان کا خود سے اپنا ہاتھ بڑھانا تاکہ لوگ اس کا بوسہ لیں، تو یہ بلا اختلاف ممنوع ہے، چاہے کوئی بھی ہو،بخلاف اس کے اگر بوسہ لینے والا خود ہی ابتدا کرے([240])۔
6۔ استقبال کرتے وقت جھکنا یا سجدہ ریز ہونا حرام ہے: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسولﷺ! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘، اس نے پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘، اس نے کہا: پھر تو و ہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ (بس اتنا ہی کافی ہے)([241])۔یہ حدیث ممانعت میں صریح ہے اور اس کو حرمت سے پھیرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا یہ حرمت کی متقاضی ہے۔ چنانچہ کسی مخلوق کے لئے جھکنا ہرگز جائز نہیں ہے کیونکہ فقط اللہ جل وعلا کے سامنے ہی جھکا جاتا ہے۔ اور کسی مخلوق کو سجدہ کرنا تو بدر اولی حرام ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استقبال کے وقت جھکنا ممنوع ہے، جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے کہ جب لوگوں نے آپ ﷺ یہ پوچھا کہ کیا جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اس کے لئے جھکے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں۔ کیونکہ رکوع وسجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے کرنا جائز نہیں ہے([242])۔
اور جہاں تک سجدوں کی بات ہے تو کسی عقلمند کو اس میں کوئی شک نہیں ہوسکتا کہ سجدہ صرف اللہ کو ہی کیا جاسکتا ہے، کسی اور کو نہیں۔ نیز سجدے میں جو بندگی ہے وہ فقط جھکنے میں نہیں ہے کیونکہ جھکنا ایسی شکل نہیں ہے جس میں عاجزی وانکساری، خشوع وخضوع اور عبادت وبندگی، سب بیک وقت جمع ہوسکیں، برخلاف سجدہ کے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما میں نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے: اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے اس میں خوب دعا کرو، (یہ دعا اس) لائق ہے کہ تمہارے حق میں قبول کر لی جائے([243])۔
"قمن" یعنی یہ دعا قبول ہونے کے لائق ہے۔ چونکہ سجدے میں تعظیم کے عظیم مظاہر موجود ہیں اس لئے کسی اور کے لئے اس کو انجام دینا حرام ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے: جب حضرت معاذ ؓ شام سے آئے تو انہوں نے نبی ﷺ کو سجدہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: معاذ! یہ کیا؟ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ مجھے اپنے دل میں یہ بات اچھی لگی کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ (تعظیم اور احترام کا) یہ طریقہ اختیار کریں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم (یہ کام) نہ کرو۔ اگر میں کسی کو اللہ کے سوا کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی، جب تک اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی اگر وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہوئی ہو اور خاوند اس سے خواہش کا اظہار کرے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے([244])۔
سجدہ کے متعلق ایک فائدہ : اللہ کی تعظیم اور اس کی بندگی میں انسان سجدے میں اپنے جسم کا سب سے باعزت حصہ "چہرہ" اُس زمین پر رکھ دیتا ہے جس پر پیر کے بل چلا جاتا ہے۔ مومن کے دل میں بحالت سجدہ اللہ کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرنے میں جو لذت ملتی ہے وہ کسی اور موقع پر نہیں ملتی۔ لہذا پاک ہے وہ ذات؛ نمازی جس کے لئے زمین پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور ان الفاظ میں اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں: سبحان ربی الاعلی ( میں اپنے بلند وبالا رب کی تسبیح بیان کرتا ہوں)
اللہ فرماتا ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلاَةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلاَةِ الْعِشَاء }
ترجمہ:ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کیا:"ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فرمادیا۔ جب وہ شخص اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے"([245])۔
1-ان تین اوقات کے علاوہ اوقات میں زیارت کرنا جن کاآیت استئذان میں ذکر ہوا:اللہ سبحانہ وتعالی نے مومنوں کو اس بات کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ تین خلوت اور پردے کے اوقات میں اپنے خادموں اور ان چھوٹے بچوں کو اپنے پاس آنے سے منع کریں جو سن بلوغت کو نہیں پہنچے ہیں،وہ تین ممنوعہ اوقات یہ ہیں:فجر سے قبل،قیلولہ کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد۔
اس (ممانعت کی )علت یہ ہے کہ یہ اوقات سونے،راحت وسکون حاصل کرنے اور بیوی کے پاس جانے کا وقت ہے،اسی لیے ان اوقات میں جانے سے منع کیا گیا ہے الا یہ کہ اجازت لی جائے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تین اوقات میں سے کسی بھی وقت زیارت اہل خانہ کے مزاج کو گدلہ کردیتی ہے،ان کی راحت وسکون کو بے کل کردیتی اور ان کے لیے حرج کا سبب ہوتی ہے۔اس لیے کہ اکثر لوگ ان اوقات میں کسی کے استقبال کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں،اس سے یہ حالت مستثنی ہے کہ انسان ظہرانہ یا رات کے کھانے میں ولیمہ کے لیے مدعو ہو،کیوں کہ یہ اس زمرے میں نہیں آتا،آئیے ہم اس کی تائید میں حدیث اور اثر دیکھتے ہیں۔
جہاں تک حدیث کی بات ہے،تو ایک حدیث ہے جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں (ام المومنین)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے،وہ کہتی ہیں:"ایسے دن (مکی زندگی میں) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی، تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپ (معمول کے خلاف اچانک) ظہر کے وقت ہمارے گھر تشریف لائے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں....الحدیث"([246])۔
موضع شاہد: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے وقت میں تشریف لانا جو زیارت کا وقت نہیں ہے،اور وہ قیلولہ کا وقت ہے، اس وقت میں آپ کی تشریف آوری پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو تعجب بھی ہوا،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک یہ وقت زیارت کا وقت نہیں تھا۔
جہاں تک اثر کی بات ہے تو ایک اثر وہ ہے جسے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے تعلق سے روایت کیا ہے،اس اثر میں ہے: (وہ کہتے ہیں:اگر مجھے کسی کے بار ےمیں یہ خبر ملتی ہے کہ اس کے پاس حدیث ہے تو میں اس کے پاس قیلولہ کے وقت جاتا ہوں ، اس کے دروازے پر میں اپنی چادرسرہانے رکھ کر لیٹ جاتا ہوں ،اور ہوائے کے جھونکے میرے چہرے کو غبار آلود کر دیتے ہیں...)([247])۔
موضع شاہد یہ ہے کہ ابن عباس طلب علم کے حریص تھے اور وقت کو غنیمت جانتے تھے اس کے باوجود وہ انتظار کو ترجیح دیتے تھے،تاکہ مطلوب شخص باہر نکل آئے،کیوں کہ وہ قیلولہ کے وقت تشریف لاتے تھے جو قوم کی راحت وآرام کاوقت ہوتا ہے۔
2-زیارت کرنے والا گھر والے کی اجازت کے بغیرنہ ان کی امامت کرے اور نہ ہی ان کےبستر پر بیٹھے،وہ اس لیے کہ گھر کا آدمی اپنے گھر میں دوسرے سے زیادہ حق رکھتا ہے،چنانچہ نماز کی امامت، اور گھر والے کے لیے تیار کیے گئے بستر پر بیٹھنا اجازت کے بعد ہی روا ہوسکتا ہے،یہ بات ابو مسعود انصاری کی اس حدیث میں ہے،جسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا روایت کیاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:" لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو، اگر وہ سنت (کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو۔(ایک روایت میں ہے:عمر میں جو بڑے ہوں)کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس (دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے۔ (ایک روایت میں ہے: الا یہ کہ آپ کو اجازت دے دے،یا اجازت ہو)([248])۔
امام نووی فرماتے ہیں: حدیث کا معنی یہ ہے کہ گھر کا مالک،صاحب مجلس اور مسجد کا امام دوسرے سے زیادہ حق رکھتا ہے،اگرچہ دوسرا شخص بڑا فقیہ، زیادہ قرآن پڑھنے والا، زیادہ تقوی والااور اس سے زیادہ افضل ہی کیوں نہ ہو۔پھر بھی صاحب مکان سب سےزیادہ حقدار ہے،اگر وہ چاہے تو خودہی آگے بڑھے،اور اگر چاہے تو کسی دوسرے کو امامت کے لیے آگے بڑھائے،اگرچہ وہ جسے آگے بڑھارہا ہو وہ دیگر حاضرین کے بالمقابل مفضول ہی کیوں نہ ہو،اس لیے کہ وہ اس کے اختیار میں ہے، اس لیے وہ اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے([249])۔
3-زیارت کم کرنا: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث اور ان کا یہ قول: "ایسے دن (مکی زندگی میں) بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں"۔ایک دوسری روایت میں ہے:"ان پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ صبح وشام ہمارے پاس تشریف نہ لاتے ہوں"۔اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی کثرت سے زیارت کیا کرتے تھے،جہاں تک مشہور حدیث"زر غبا تزدد حبا"([250])(کبھی کبھار زیارت کرو،محبت میں اضافہ ہوگا)کی بات ہے تو اس حدیث کے تعلق سے ابن حجر فرماتے ہیں:گویا امام بخاری باب کے عنوان([251]) کے ذریعہ اس مشہور حدیث"زر غبا تزدد حبا " کے ضعیف ہونے کی خبر دے رہے ہیں،یہ حدیث کئی طرق سے وارد ہوئی ہے،جن میں سے اکثر طرق غریب ہیں،ان میں کوئی بھی ایک طریق کلام سے خالی نہیں([252])۔اور اگر اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس حدیث اور حدیث عائشہ کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے،حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:اس حدیث کا عموم خصوص کو قبول کررہا ہے،چنانچہ یہ حدیث ایسے شخص پر محمول کی جائے گی جس کے لئے خصوصیت اور محبت ثابت نہ ہو،چنانچہ ایسی صورت میں اس کی کثرتِ زیارت سے اس کے مقام ومرتبہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
ابن بطال فرماتے ہیں:خوش طبع دوست کی محبت کثرت زیارت سے اور بڑھ جاتی ہے‘ برخلاف دوسرے افراد کی زیارت کے([253])۔
فائدہ:ابن عبد البر فرماتے ہیں:
وقابلني منه البشاشةُ والبشرُ | أزور خليلي ما بدالي هَشُّهُ | |
ولو كان في اللقيا الولايةُ والبشرُ ([254]) | فإن لم يكن هشٌ وبشٌ تركتُهُ |
ترجمہ: جب میں اپنے دوست کی زیارت اس وقت کرتا ہوں جب وہ مجھے ہشاش وبشاش نظر آتا اور مسکراتے ہوئے میرا استقبال کرتا ہے‘ اور اگر مجھے لگتا ہے کہ وہ ہشاش وبشاش نہیں ہے تو تو میں اسے چھوڑ کر چلا آتا ہوں،اگرچہ ملاقات سے محبت و سرور حاصل ہوتاہے۔
6-باب:ضیافت کے آداب:
اللہ تعالی فرماتا ہے: { هل أتاك حديث ضيف إبراهيم المكرمين * إذا دخلوا عليه فقالوا سلاماً قال سلامٌ قومٌ منكرون * فراغ إلى أهله فجاء بعجل سمين * فقربه إليهم قال ألا تأكلون } ([255]) .
ترجمہ: کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وه جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں۔ پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) ﻻئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے، اور جوشخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، اورجوشخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول: ”جب تمہیں اس (ولیمے) کی دعوت دی جائے تو اسے قبول کرو۔“ راوی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ اگر روزے سے ہوتے تو بھی شادی اور غیر شادی کی دعوت میں ضرور شرکت کرتے([257])۔
جمہور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دعوت قبول کرنا مستحب ہے سوائے ولیمہ کی دعوت کے،کیوں کہ ان کے نزدیک ولیمہ کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بد ترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے جس کے لیے دولت مند کو دعوت دی جاتی ہے اور فقراء کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور جس نے دعوت ترک کر دی (قبول نہ کی) اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی)([258])۔
امام مسلم اور دیگر محدثین کے نزدیک بعض روایتوں میں ہے: (جواس میں شرکت کے لیے آتا ہے اسے اس سے روکا جاتا ہے اور جو اس (میں شرکت) سے انکار کرتا ہے اسے بلایا جاتا ہے)۔
لیکن بعض اہل علم نے اس طرح کی دعوتوں میں شریک ہونے کے لیے کچھ شرطیں مقرر کی ہیں،
شیخ محمد بن صالح العثیمین نے ان شروط کو بیان کیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
أ-دعوت دینے والا ان لوگوں میں سے ہو جن سے قطع تعلق کرنا واجب یا سنت نہیں ہے۔
ب-دعوت کہ جگہ میں کوئی منکر (قابل نکیر عمل) کا وجود نہ ہو،اگر وہاں کوئی منکر ہو اور اس منکر کا ازالہ بھی ممکن ہوتودو سبب کی بنیاد پر وہاں شریک ہونا واجب ہے:دعوت قبول کرنا،اور منکر کو تبدیل کرنا۔اور اگر وہاں کے منکر کو دور کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتو اس میں شریک ہونا حرام ہے۔
ب-دعوت دینے والا مسلمان ہو،بصورت دیگر دعوت قبول کرنا واجب نہیں،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں...)ان حقوق میں آپ نے یہ بھی ذکر کیا:"جب وہ آپ کو دعوت دے آپ اس کی دعوت قبول کریں"۔
ث-دعوت دینے والی کی کمائی حرام نہ ہو،اس لیے کہ اس کی دعوت کو قبول کرنے سے یہ لازم آئے گا کہ آپ حرام کھانا کھائیں،اور یہ جائز نہیں،بعض اہل علم کا یہی موقف ہے،جبکہ دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ اگر کمائی حرام طریقے سے حاصل ہوئی ہو تو اس کا گناہ حاصل کرنے والے کو ہوگا،نہ کہ اس شخص کو گناہ ہوگا جو (حرام کی کمائی حاصل کرنے والے)سے جائز طریقے سے کچھ حاصل کرے ،برخلاف ایسی چیز کے جو بذات خود حرام ہے،جیسے شراب،غصب کردہ چیز اور اس طرح کی دوسری چیزیں ،یہ قول درست ہے(پھر آپ نے دلائل پیش کیے)۔
ج-قبول دعوت سے اسقاط واجب لازم نہ آتا ہو یا اس دعوت کی وجہ سے ایسی چیز نہ ساقط ہوتی ہو جو اس سے زیادہ واجب ہے،اگر ایسا ہو تو دعوت قبول کرنا حرام ہے۔
ح- قبول دعوت میں قبول کرنے والوں کے لئے نقصان نہ ہو،جیسے سفر کی ضرورت یا اپنے ایسے اہل خانہ کی جدائی کا سامنا پڑجائے جن لوگوں کے لیے اس کی موجودگی ضروری ہو([259])۔
اسی طرح ہم ایک شرط کا اضافہ کرتے ہیں:
خ-داعی(دعوت دینے والا) مدعو(جسے دعوت دی جائے)کی تعیین نہ کرے اور نہ ہی اسے دعوت کے لیے خاص کرے،چنانچہ اگر وہ کسی کی تعیین نہ کرے جیسے عام مجلس میں داعی دعوت کا اعلان کرے‘ تو ایسی صورت میں یہ دعوت واجب نہیں ہوگی کیوں کہ یہ (عمومی دعوت )ہے۔
جواب:وہ کارڈ جو لوگوں کو بھیجا جاتا ہے،کس کے لیے یہ کارڈ بھیجا جاتا ہے اس کا پتا نہیں ہوتا ہے،چنانچہ ہم یہ کہیں گے کہ یہ دعوت عمومی دعوت کے مشابہ ہے،اس لیے اسے قبول کرنا واجب نہیں ہے،لیکن اگر معلوم ہوجائے یا یہ غالب گمان ہو کہ جسے یہ کارڈ بھیجا گیا ہے وہ واقعی وہی ہے،تو یہ دعوت بالمشافہ کے حکم میں آئےگا۔یہ قول ابن عثیمین کا ہے([260])۔
فائدہ:روزہ دعوت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے،چنانچہ جسے بحالت روزہ دعوت دی جائے،اسے چاہیے کہ دعوت قبول کرلے اور ان کے لئے مغفرت اور برکت کی دعا کرے،چاہے اس کا روزہ فرض ہو یا نفل،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ دار ہے تو دعا کرے اور اگر روزے کے بغیر ہے تو کھانا کھائے)([261])۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان"فلیصل" کی تفسیر امام احمد اور دیگر محدثین کے نزدیک بعض روایتوں میں دعا سے کی گئی ہے(اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کرے)([262])۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا ۔جب کھانا رکھا گیا تو ایک آدمی نے کہا:میں روزے سے ہوں،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے بھائی کو دعا دو،اس نے تمہاری خاطر کھانے کاخرچ برداشت کیا ہے،روزہ توڑ لو اور چاہو تو اس کے بدلے دوسرے دن روزہ رکھ لو)([263])۔
امام نووی فرماتے ہیں: جہاں تک روزے دار کی بات ہے تو بغیر کسی اختلاف کے اس پر کھانا واجب نہیں ہے،لیکن اگر اس کا روزہ فرض ہو تو اس کے لیے کھانا جائز نہیں،اس لیے کہ فرض سے نکلنا جائز نہیں،اور اگر اس کا روزہ نفلی ہوتو اس کے لیے کھانا اور روزہ ترک کرنابھی جائز ہے،اور اگر صاحب طعام کو اس کا روزہ مشکل لگے تو روزہ توڑنا افضل ہے بصورت دیگر روزہ مکمل کرنا بہتر ہے،واللہ اعلم([264])۔
2-مہمان کی عزت واکرام واجب ہے:احادیث اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ مہمان کی عزت واکرام کرنا واجب اور مستحب عمل ہے،چنانچہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: (ہم لوگوں نے کہا اےاللہ کے رسول! آپ ہمیں (تبلیغ وغیرہ کے لیے) بھیجتے ہیں۔ ہم لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہماری میزبانی نہیں کرتے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم کسی ایسی قوم کے پاس پڑاؤ ڈالو جو تمہارے لیے مہمان کے شایان شان اہتمام کریں تو وہ قبول کرو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو مہمانی کا حق دستور کے مطابق ان سے وصول کرلو)([265])۔
ترمذی کے الفاظ ہیں: "اگر وہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو، تو زبردستی لے لو"۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: (مہمان نوازی تین دن ہے اور خصوصی اہتمام ایک دن اور ایک رات کا ہے اور کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں (ہی) ٹھہرا رہے حتی کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے۔ صحابہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول! وہ اسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا؟ آپ نے فرمایا: وہ اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو جس سے وہ اس کی میزبانی کر سکے) (تو وہ مجبور ہوکر غلط کام کے ذریعے سے اس کی میزبانی کا انتظام کرے)([266])۔
امام نووی نے ضیافت پر اجماع ذکر کیا ہے،اور کہا کہ یہ اسلام کے تاکیدی امور میں سے ایک ہے([267])۔ اس کے بعد ضیافت کے وجوب وسنت کے مابین علمائے کرام کے اختلاف کو بیان کیا ہے،چنانچہ امام مالک،امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کی رائے ہے کہ ضیافت سنت ہے واجب نہیں،اور ان لوگوں نے ان احادیث کو ان کے مشابہ دیگر احادیث پر محمول کیاہے،جیسے یہ حدیث کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر واجب ہے اور اس کے علاوہ دسوری احادیث،لیث اور امام احمد نے کہا کہ ضیافت ایک دن اور ایک رات واجب ہے،ساتھ ہی امام احمد نے اس ضیافت کو شہر والوں کے بجائے بستی اور گاؤں والوں کے ساتھ مقید کیا۔
امام خطابی نے کہا کہ مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ضیافت کرنے والے کے یہاں تین دن کے بعد بھی بغیر کسی درخواست کے ٹھہرا رہے،یہاں تک کہ اس کا دل تنگ ہوجائے، اور اس کا اجر وثواب جاتا رہے([268])۔
ابن الجوزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول "حتی يؤثمه" کی روشنی میں کہا کہ اگر مہمان نوازی کرنے والے کے پاس ضیافت کرنے کے ساز وسامان نہ تو ہو ایسی صورت میں وہ مہمان کے قیام کرنے سے ناراض ہوجاتا ہے،بلکہ بسا اوقات اسے قباحت کے ساتھ ذکر کرتاہے،اور بسااوقات مہمان کے لیے خورد ونوش کے سامان حاصل کرنے میں گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے([269])۔لیکن یہ صورت اس سے مستثنی ہے کہ اگر مہمان کو میزبان کے تعلق سے یہ علم ہوجائے کہ وہ اسے ناپسند نہیں کر رہا ہے،یا وہ اس سے تین دن سے زیادہ دنوں تک ٹھہرنے کی درخواست کررہا ہو،لیکن اگر مہمان کو میزبان کے بارے میں شک ہوجائے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ تین دنوں کےبعدنہ ٹھہرے۔
3-مہمان کو خوش آمدید کہنا مستحب ہے:ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: (جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرحبا (خو ش آمدید) ان لوگوں کو جو آن پہنچے ‘ نہ وہ ذلیل ہوئے، نہ شرمندہ....)([270])۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انسان ترحیبی کلمات اور اس کے مشابہ الفاظ کے ذریعے اپنے مہمانوں کا استقبال کرتا ہے تو مہمانوں کو خوشی اور مسرت پہنچتی ہے،اور حقیقت حال اس کی تصدیق کرتی ہے۔
حدیث میں کچھ فائدے ہیں،ہم ان میں کچھ ایسے فائدے کو ذکر کریں گے جن کا تعلق موضوع بحث سے ہے،چنانچہ اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ اگر کسی خاص جماعت کو دعوت ملتی ہے پھر اس کے بعد کوئی ایسا شخص ان میں شامل ہوجاتا ہے جو دعوت کے وقت حاضر نہ تھا تو وہ عمومی دعوت میں شامل نہ ہوگا....اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اگر کوئی شخص دعوت میں طفیلی کی حیثیت سے آئے تو دعوت دینے والے کو اسے دعوت سے محروم کرنے کا اختیار ہوتا ہے،اگر وہ اس کی اجازت کے بغیر دعوت میں شامل ہوجائے تو صاحب دعوت کو اسے نکالنے کا اختیار ہے،اگر کوئی دعوت میں طفیلی بننا چاہے تو آغاز میں اسے اس سے منع نہیں کیا جائے([272])،اس لیے کہ وہ شخص(دعوت میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئے،لیکن آپ نے اسے واپس نہیں کیا کیوں کہ یہ احتمال تھا کہ دعوت دینے والا اسے خوشی خوشی اجازت دے دے گا۔یہ ابن حجر کا قول ہے([273])۔
اس ضمن میں ہمارے قول کا کوئی اعتبار نہیں کہ اس میں تکلف ہے یا اس میں تکلف نہیں ہے،بلکہ اس کا مرجع ومصدر صرف عرف عام ہے،چنانچہ لوگ جس چیز سے واقف ہو ں اور اسے تکلف شمار کریں ‘ تو وہ تکلف ہے،اور جسے تکلف شمار نہ کریں وہ تکلف کے زمرے میں نہیں ہے۔
مہمان کے لیے کھانا اسی مقدار میں تیار کیا جائے جو بغیر اسراف اور کمی کے ضرورت کو پورا کردے،سارے امور میں سب سے بہتر طریقہ وہ ہے جو درمیانہ ہو، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہتے ہوئے سنا: "ایک آدمی کا کھانا دو کےلیے کافی ہوجاتا ہے۔ اور دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوجاتا ہے"([275])۔
جہاں تک آج کل کی دعوتوں میں بعض لوگوں کا اسراف سے کام لینے، تکلف برتنے،اور اس کے مشروع دائرے سے نکلنے کی بات ہے تو اس بارے میں پوچھیں ہی نہیں! بعض لوگ تو دوسروں کے ساتھ مسابقہ آرائی کرتے ہیں کہ دونوں میں سے کون اپنے ساتھی پر غلبہ حاصل کرتا ہے، نوع بنوع کے پکوان اور اس کی بہتات اور اس میں مبالغہ آرائی جس کا مقصدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ کہیں کہ فلاں بن فلاں نے اتنا اعلی پیمانے پر انتظام کیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مذموم عمل ہے،اس طرح کا کھانا کھانا جائز نہیں،اس دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ہے کہ: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باہم فخر کرنے والوں کی دعوت کھانے سے منع فرمایا"([276])۔
خطابی فرماتے ہیں:متباریان(دوفخر کرنے والوں)سے مراد ایسے دو اشخاص ہیں جو اپنے کردار سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتےہیں تاکہ یہ نمایا ں ہو سکے کہ دونوں میں سے کون اپنے ساتھی پر غلبہ حاصل کرتا ہے،حالانکہ یہ عمل مکروہ ہے کیوں کہ اس میں ریا ونمود اور فخر ومباہات ہے،اوریہ ان منہیات میں سے ہے جن کاتعلق باطل طریقے سے مال کھانے سے ہے۔
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔
اللہ رب العالمین نے مومنوں کو نبی کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے سے منع فرمایا ہے،اسی طرح مومن بھی ایسے دوسرے کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں،کیوں کہ ممانعت میں تمام مومن شامل ہیں۔
امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اللہ نے مومنوں کو نبی کے گھر میں داخل ہونے سے روکا ہے،لیکن اس ممانعت میں تمام میں مومن داخل ہیں ،اور اس سلسلے میں لوگ اللہ کے ادب کو اپنے لیے لازم سمجھیں، چنانچہ یاد رکھیں کہ کھانے کے وقت بغیر اجازت کے داخل ہونے سے انہیں منع کیا گیا ہے، نہ کہ کھانے سے قبل کہ ایسا نہ ہو کہ انہیں کھانا تیار ہونے کا انتظار کرنا پڑے([277])۔ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی کہ وہ دعوت میں بہت پہلے جایا کرتے تھے،اور کھانا تیار ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے،چنانچہ اللہ نے لوگوں کو اپنے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: {غير ناظرين إناه}
ترجمہ:اس کے پکنے کا انتظار (نہ ) کرتے رہو۔
یعنی کھانا پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے کہ کب تیار ہو ([278])۔
پھر اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ جسے کھانے کی ضرورت درپیش ہو اسے چاہیے کہ (کھانے سے فراغت کے بعد)لوٹ جائے،اور گفگتو کرنے کے لیے بیٹھ نہ جائے۔اس لیے کہ اس کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایذا اور تکلیف ہے،اسی طرح دیگر لوگ بھی کھانے سے فراغت کے بعد مدعو حضرات کی موجودگی کو باعث حرج اور تکلیف محسوس کرتے ہیں،اس لیے ان کا وہاں ٹھہرنا مناسب نہیں،الا یہ کہ گھر کا مالک خود چاہ رہا ہو کہ وہ ٹھہریں،یا ٹھہرنا لوگوں کی عادت (عرف عام) میں شامل ہو،اور اس میں کوئی مشقت ودشواری نہ ہوتو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں،اس لیے کہ وہ علت جس کی وجہ سے ممانعت آئی ہے وہ معدوم ہے۔
7- جو بڑے ہوں ان کو مقدم رکھا جائے اور جو دائیں جانب ہو اسے مقدم کیا جائے: لوگوں کی ضیافت کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ بڑے مہمان کو مقدم رکھے اور ان پر خصوصی توجہ دے،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں اس کی ترغیب دی ہے ،چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں نے خواب میں خودکو دیکھا کہ میں ایک مسواک سے دانت صاف کررہا ہوں،اس و قت دو آدمیوں نے(مسواک حاصل کرنے کےلیے) میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ان میں ایک دوسرے سے بڑا تھا،میں نے وہ مسواک چھوٹے کو دے دی،پھر مجھ سے کہا گیا :بڑے کو دیں([279])،تو میں نے بڑے کو دی)([280])۔
مزید آپ علیہ السلام نے فرمایا: (جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں)([281]) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: " بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے)([282])۔
جہاں تک سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی بات ہے: ( رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ’’تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟‘‘ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا)([283])۔
تو اگرچہ یہ حدیث دائیں کو مقدم رکھنے کا فائدہ دے رہی ہے خواہ دائیں جانب چھوٹا بچہ ہو یا بڑا انسان،لیکن پھر بھی بڑے کو دوسرے پر مقدم کرنے والی احادیث سے اس کا تعارض نہیں ہے ،اور دونوں احادیث کے درمیان جمع وتطبیق ممکن ہے،چنانچہ ہم یہ کہتے ہیں:
دائیں کو مقدم رکھنے کی بات ایسے شخص پر منطبق ہوگی جو کچھ نوش کیا اور اس میں سے کچھ باقی رہ گیا،ایسی صورت میں باقی مادہ مشروب ایسے شخص کو دیا جائے گا جو اس کے دائیں جانب ہو الا یہ کہ وہ اجازت دے دے تو (بائیں جانب والے کو بھی دیا جا سکتا ہے)،اسی معنی کی طرف ابن عبد البر نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اس حدیث کے اندر باہم مل کر کھانے اور مجلس میں ساتھ بیٹھنے کے کچھ آداب بیان کیے گئے ہیں جن میں سے یہ بھی کہ اگر آدمی کچھ کھائے یا پیئے تو باقی ماندہ چیز اپنے دائیں جانب والے کو دے،چاہے جو بھی ہو،اگرچہ دائیں جانب والا مفضول اور اس کے بائیں جانب والا فاضل ہی کیوں نہ ہو([284])۔
بڑے کو مقدم رکھنے والی حدیث ابتدائی طور پر کھانے یا پینے پر محمول کی جائے گی،پھر اس کے بعد اس کے دائیں جانب والے کو دیا جائے گا،شاید اس قول کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے تقویت ملتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی پلایا جاتا تو آپ کہتے کہ بڑے سے آغاز کرو)([285])۔
اس قول سے دلائل کے مابین جمع وتطبیق ہوجاتی ہے،واللہ اعلم۔
8-کھانے سے فراغت کے بعد مہمان کا میزبان کے حق میں دعا کرنا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے کہ اگر آپ کسی قوم کے پاس کھانا کھاتے تو ان کے حق میں دعا کرتے،چنانچہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (نبی کریم ﷺ سعد بن عبادہ ؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے روٹی اور روغن زیتون پیش کیا، چنانچہ آپ ﷺ نے اسے تناول فرمایا، پھر نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا: «أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلَائِكَةُ» یعنی: روزے دار تمہارے ہاں افطار کیا کریں، نیک صالح لوگ تمہارا کھانا کھایا کریں اور فرشتے تمہیں دعائیں دیا کریں)([286])۔
بعض اہل علم نے اس دعا کو صرف افطار کے وقت کے ساتھ خاص کیا ہے،جبکہ اکثر اہل علم نے اس کا اطلاق افطار اور دوسری دعوت پر بھی کیا ہے([287])۔
اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی دودھ دوہنے والی لمبی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا ہے: ( اللهم أطعم من أطعمني وأسق من أسقاني ) ([288])یعنی: اے اللہ کھلا اس کو جس نے مجھے کھلایا ،اور پلا اس کو جس نے مجھے پلایا۔
امام نووی فرماتے ہیں:اس میں محسن اور خادم اور کار خیر میں ہاتھ بٹانے والے کو دعا دینے کی تعلیم دی گئی ہے،اور داعی(دعوت دینے والا) بھی خیر کا کام کرنے والا ہوتا ہے۔
عبد بن بُسر نے روایت کیا کہ ان کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا،چنانچہ جب انہوں نے آپ کو مدعو کیا تو آپ نے ان کی دعوت قبول فرمائی،جب آپ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے یہ دعا دی: ( اللهم اغفر لهم وارحمهم وبارك لهم فيما رزقتهم ) ([289]) . یعنی: اے اللہ ان کی مغفرت فرما،ان پر رحمت نازل کر اور جو تو نے انہیں عنایت فرمایا ہے اس میں انہیں برکت دے۔
9-گھر کے دروازے تک مہمان کے ساتھ جانا مستحب ہے:اس سے ضیافت کی تکمیل ہوتی ہے، یہ مہمان کے خاطر تواضع کی دلیل اور ان سے انسیت ومحبت کی پہچان ہے،اس تعلق سے کوئی ایسی مرفوع حدیث ثابت نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے،لیکن اس امت کے اسلاف اور اس کے اماموں کے آثار موجود ہیں،ہم ان آثار میں سے ایک پر اکتفا کریں گے:ابو عبید القاسم بن سلام نے امام احمد بن حنبل کی زیارت کی..ابو عبید کہتے ہیں: (جب میں کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہوگئے،میں نے کہا:اے ابو عبد اللہ آپ ایسا نہ کریں،تو انہوں نے کہا،امام شعبی فرماتے ہیں:زیارت کرنے والے کی زیارت کی تکمیل کا تقاضہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ دروازے تک جائیں اور ان کوسواری تک چھوڑ آئیں...)([290])۔
-{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير}[المجادلة:11]
ترجمہ: اے مسلمانو! جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر اور پاکیزہ تر ہے ہاں اگر نہ پاؤ تو بیشک اللہ تعالٰی بخشنے والا ہے([291])۔
آداب کا بیان:
1۔مجالس میں ذکر الہی کی فضیلت اور جو مجالس اللہ کے ذکر سے خالی ہوں ان سے دوری کا حکم: جن مجالس میں ذکر الہی نہ ہوتی ہو ان سے دور رہنے کی شدید تاکید آئی ہے۔ جیسا کہ ابوہریرہ I کی حدیث ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور انہوں نے اس میں اﷲ کا ذکر نہ کیا ہو ‘ تو وہ ایسے ہیں گویا کسی مردار گدھے پر سے اٹھے ہوں اور ( آخرت میں ) یہ مجلس ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی ( تمنا کریں گے کاش کہ ہم نے اس میں اﷲ کا ذکر کر لیا ہوتا ) ([292])۔ اس حدیث میں اس طرح کی مجالس سے تنفر اختیار کرنے ترغیب دی گئی ہے۔
(تو وہ ایسے ہیں گویا کسی مردار گدھے پر سے اٹھے ہوں) : یعنی وہ مجلس اسی (مردارگدھے) کی مانند بدبودار اور گندی ہے کیونکہ اس مجلس میں وہ لوگ اپنی گفتگو میں لوگوں کی عزتوں کو اچھالتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔([293])
(یہ مجلس ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی): حسرت یعنی ندامت۔ اور ایسا ان کی جانب سے تفریط اور لاپرواہی کی وجہ سے ہوگا۔
جبکہ دوسری جانب اگر ان مجالس کو اللہ کے ذکر اور اس کی حمد وثنا اور نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اہل وعیال پر درود وسلام سے آباد کیا جائے تو یہ مجالس اللہ کی محبوب ترین مجالس بن جائیں گی اور ان میں شامل ہونے والے افراد کو بیش بہا خیر وبھلائی حاصل ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ I کی حدیث میں اس امر کی وضاحت موجود ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے راستوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کے ذکر میں مصروف پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: آؤ تمہارا مطلب حل ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ اپنے پروں کے ذریعے سے انہیں گھیر لیتے ہیں اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان کا رب عزوجل ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے: میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری کبریائی بیان کرتے ہیں، تیری حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری زندگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں۔ پھر اللہ ان سے پوچھتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں اللہ کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیفیت کیسی ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو وہ تیری خوب عبادت کریں اور تیری خوب شان وعظمت بیان کریں تیری بہت زیادہ تسبیح کریں۔ اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیِں: وہ تجھ سے جنت کے طالب ہیں۔ اللہ تعالٰی پوچھتا ہے: کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس کی بہت زیادہ حرص وتمنا اور رغبت کریں۔ اللہ تعالٰی دریافت کرتا ہے وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: جہنم سے وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ا گر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس سے بہت دور بھاگیں اور اس سے بہت زیادہ ڈریں گے۔ آپ ﷺ نے کہا: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے۔ ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: ان میں فلاں شخص ایسا ہے جو ان سے نہیں بلکہ وہ تو اپنی کسی ضرورت کے تحت ان میں آیا تھا ۔اللہ تعالٰی نے فرمایا: وہ ایسے ہم نشین ہیں جن میں بیٹھنے والا بھی محروم ونامراد نہیں رہتا([294])۔
2۔ہم نشین کا انتخاب: ہم نشین اور ساتھی کا انتخاب انسان کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انسان اپنے ہم نشین سے لازمی طور پر متاثر ہوتا ہے ،گرچہ وہ کتنا ہی مضبوط وقوی اور کتنے ہی حفاظت کے ساتھ چلنے والا کیوں نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اچھے اور نیک دوست کے انتخاب کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: انسان اپنے محبوب ساتھی کے دین پر ہوتا ہے ۔ تو تمہیں چاہئے کہ غور کرو کس سے دوستی کر رہے ہو ([295])۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ساتھی کے عادات اور اس کے طور طریقے پر چلتا ہے۔اس لئے ساتھی اور دوست کے انتخاب میں ہر آدمی کو غور وفکر سے کام لینا چاہئے۔ جس کے دین واخلاق سے انسان مطمئن ہو اسی کو دوست بنائے اور جس سے مطمئن نہ ہو اس کے انتخاب سے اجتناب کرے کیونکہ طبعیت ایک دوسرے سے متاثر ہوتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لئے ایک مثال بیان کی ہے جس میں آپ نے یہ واضح کیا ہے کہ انسان پر اس کے ہم نشین کا کتنا اثر پڑتا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: اچھے اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا تجھے ہدیہ دے گا یا تو اس سے خرید کرے گا یا کم ازکم اس کی عمدہ خوشبو سے محظوظ ہو گا۔ اور بھٹی دھونکنے والا تیرے کپڑے جلا دے گا یا کم ازکم تجھے اس کے پاس بیٹھنے سے ناگوار بو اور دھواں پہنچے گا([296])۔
اس حدیث میں برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نیک وصالح لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ برا ساتھی وہ ہے جو یا تو بدعتی ہو یا فاسق وفاجر ہو۔
چنانچہ اگر وہ بدعتی ہو تو سختی کے ساتھ اس سے دوری اختیار کرنے اور اس کی صحبت سے پرہیز کرنے کے سلسلے میں سلف کے کئی اقوال منقول ہیں، کیونکہ یہ دین ودنیا دونوں کے لئے ضرر رساں ہے۔ نیز بدعتیوں کی مجالس دو چیزوں سے خالی نہیں ہوتی۔ یا تو انسان ان کی بدعت میں مبتلا ہوجائے گا، یا ان بدعتیوں کی جانب سے پیدا کردہ گمراہ کن شبہات کی وجہ سے حیرت میں پڑ جائے گا اور شکوک وشبہات کا شکار ہوجائےگا۔ان دونو ں ہی حالات میں شر ہی ہاتھ آتاہے۔
اہل بدعت کی مذمت اور ان کی مجالس سے دوری اختیار کرنے کے سلسلے میں جو اقوالِ سلف وارد ہیں ، ان میں سے حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ہے: اہل بدعت کی نہ مجالست اختیار کرو، نہ ان سے بحث ومباحثہ کرو اور نہ ان کو سنو۔ اور ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نہ ان کی مجالست اختیار کرواور نہ ان سے ملو جلو۔ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ وہ تمہیں اپنی ضلالت وگمراہی میں ڈال دیں گے اور بہت سی ان باتوں کو جنہیں تم یقینی طور پر جانتے ہو، وہ ان کو تم پر خلط ملط کردیں گے۔ ابن المبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں: تمہاری مجلس مسکین لوگوں کے ساتھ ہو، اور اہل بدعت کی مجالست سے پرہیز کیا کرو۔ اور فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کے فرشتے ذکر الہی کی مجلسوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں، لہذا تم کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو؛ دیکھ بھال لیا کرو۔ اور تم اہل بدعت کے ساتھ نہ بیٹھا کرو کیونکہ اللہ تعالی ان کی جانب نہیں دیکھتا۔ نیز بدعتیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا منافقت کی نشانی ہے([297])۔
اور اگر برا ساتھی فاسق وفاجر ہوا تو آپ (اس کی مجلس میں)بےہودہ باتیں، باطل اقوال اور غیبت وغیرہ سننے سےنہیں بچ سکیں گے۔ اور عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے نمازوں کی ادائیگی میں میں سستی ولاپرواہی جیسے گناہوں میں آپ مبتلا ہوجائیں جو دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بہت سے لوگ، جنہوں نے ہدایت واستقامت کا راستہ اختیار کیا تھا ؛ ایسے ہی لوگوں کی مجالست اور صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوگئے۔
٣۔مجلس میں آتے وقت اور مجلس سے اٹھتے وقت سلام کرنا: سلام کے آداب کے بیان میں یہ بات گزر چکی ہے کہ مجلس میں آتے وقت اور مجلس سے رخصت ہوتے وقت اہل مجلس کو سلام کرنا سنت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھراگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو سلام کرے۔ (پہلا سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے([298])۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
4۔کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھ جانا مکروہ ہے: جوشخص کسی ایسی جگہ پر بیٹھا ہو جہاں بیٹھنا جائز ہے جیسے مسجد وغیرہ ،تو دوسروں کی بنسبت وہی اس جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ یعنی اگر اسے کوئی ضرورت پیش آجائے اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے، لیکن کچھ ہی دیر میں لوٹ آئے تو اس جگہ پر بیٹھنے کا وہ زیادہ مستحق ہوگا۔ اور اگر اس جگہ پر کوئی اور بیٹھ گیا ہوگا تو اس شخص کے لئے جائز ہے کہ اسے(یعنی اس کی جگہ پر بیٹھے ہوئے شخص کو) وہاں سے اٹھا دے۔ نبی اکرم ﷺ کا وہ فرمان اس پر صادق آتا ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں: جب تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو،اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے:جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہو، پھر اس جگہ لوٹ آئے تو وہی اس (جگہ )کا زیادہ حقدارہے([299])۔
لہذا اس جگہ پر بیٹھنے کا حق صاحب نشست کو ہی ہے، کسی اور کو نہیں، کیونکہ وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ (شریعت میں) کسی کو اس کی جائز جگہ سے اٹھانے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے تاکہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے۔ بلکہ وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے، پھر وہ (کوئی دوسرا) اس جگہ پر بیٹھ جائے([300])۔
اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ مسلمان کی حق تلفی نہ ہونے پائے جس سے دلوں میں بغض وعداوت پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس طرح (مسلمانوں کو) تواضع وانکساری پر ابھارا گیا ہے جس سے محبت ومودت پیدا ہوتی ہے۔ نیز جائز ومباح امور (کے حصول) میں تمام لوگ برابر کے مستحق ہے۔ اس لئے جو ایک بار کسی چیز کا مستحق ہوگیا، وہی اس کا مستحق بنا رہتا ہے۔ اور جو کوئی کسی چیز کا مستحق بن گیا ، اس سے ناحق وہ چیز چھین لینا ڈکیتی ہے اور ڈکیتی حرام ہے۔ یہ ابن جمرہ رحمہ اللہ کا قول ہے([301])۔
مسئلہ: ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا کہ کسی کو اس کی نشست سے اٹھانا اور اس کی جگہ پر بیٹھ جانا مکروہ ہے، لیکن اگر یہ صاحب نشست کی اجازت سے ہو تو کیا یہ کراہیت ختم ہوسکتی ہے ؟
جواب :اگر صاحب نشست کسی دوسرے کے لئے اپنی نشست سے دستبردار ہوجائے تو اس جگہ پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس جگہ پر بیٹھنے کا حق صاحب نشست کو تھا اور وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہوچکا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو اس عمل کی بھی کراہیت منقول ہے اسے ابو الخصیب نے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: میں بیٹھا ہوا تھا کہ ابن عمر تشریف لائے۔ آپ کو دیکھ کر ایک آدمی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تاکہ آپ اس کی جگہ بیٹھ جائیں۔ لیکن آپ وہاں نہ بیٹھے بلکہ کسی اور جگہ بیٹھے۔ اس پر اس آدمی نے کہا : اگر آپ بیٹھ جاتے تو کوئی حرج نہیں تھا۔ ابن عمر نے فرمایا: (اس سلسلے میں) میں نے رسول اللہ ﷺ کا جو عمل دیکھا ہے ، اس کے بعد میں نہ تمہاری جگہ پر بیٹھ سکتا ہوں اور نہ کسی اور کی جگہ پر۔ (کہتے ہیں): ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آیا، اسے دیکھ کر مجلس سے ایک دوسرا آدمی اپنی جگہ سے اٹھ گیا تاکہ وہ اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ جب وہ آدمی اس جگہ پر بیٹھنے کے لئے جانے لگا تو آپ ﷺ نے اسے منع کردیا([302])۔
جہاں تک ابن عمر کی جانب منسوب اس عمل کی بات ہے تو اس کے متعلق امام نووری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان کا یہ عمل تقوی پر مبنی ہے۔ ان کا اس جگہ پر بیٹھ جانا حرام نہیں تھا کیونکہ وہ شخص خود اپنی مرضی سے اٹھ گیا تھا۔ لیکن (ابن عمر کا یہ رد عمل) دو زاویوں سے زہد وورع پر مبنی ہے:
پہلا: ممکن ہے کوئی شخص اپنی مرضی سے نہیں بلکہ شرم وحیا کی بنیاد پر ان کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ جائے۔ لہذا اس صورتحال سے بچنے کے لئے سد باب کے طور پر آپ نے ایسا کیا۔
دوسرا: نیکی اور ثواب کے اعمال کو کسی کے لئے قربان کردینا( یا چھوڑ دینا) مکروہ یا کم از کم خلاف اولی ہے۔ لہذا ابن عمر اس عمل سے اس لئے بچتے تھے تاکہ کوئی شخص پہلی صف میں اپنی جگہ پر انہیں ترجیح دے کر مکروہ یا خلاف اولی عمل کا ارتکاب نہ کرجائے، وغیرہ وغیرہ([303])۔
مسئلہ 2: بعض لوگ جان بوجھ کر مسجد میں جائے نماز(مصلی) رکھ دیتے ہیں تاکہ پہلی صف کی فضیلت کو حاصل کرسکیں جبکہ وہ مسجد تاخیر سے آتے ہیں۔ کیا یہ عمل جائز ومشروع ہے؟
جواب: اس مسئلے پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےسیر حاصل گفتگو فرمائی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: بہت سے لوگ جو مسجد جانے سے پہلے ہی اپنی جائے نماز (مصلی) جمعہ کے دن مسجد میں رکھوا دیتے ہیں، ان کا یہ عمل باتفاق مسلمین ممنوع ہے، بلکہ یہ حرام ہے۔ اور کیا اس پر نماز بھی ہوگی یا نہیں؟ اس مسئلے میں علما کے دو اقوال ہیں؛ کیونکہ اس طرح مسجد کے ایک حصہ پر اپنی جائے نماز (مصلی) بچھا دینا درحقیقت اس حصے پر قبضہ جمالینے کے مترادف ہے اور مسجد میں اس سے پہلے آنے والے مصلیوں کو اس جگہ پر نماز پڑھنے سے روک دینا ہے۔۔۔۔(اس کے بعد فرماتے ہیں:)۔۔۔۔مشروع طریقہ یہ ہے کہ لوگ پہلی صف کو (علی الترتیب) مکمل کرتے جائیں، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح بارگاہ الٰہی میں فرشتے صف بستہ ہوتے ہیں؟ ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کس طرح صف بندی کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں([304])۔
اور صحیحین کی حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں([305])۔
لہذا شریعت کا حکم یہی ہے کہ انسان خود جلدی مسجد آنے کی کوشش کرے۔ اس لئے اگر کوئی پہلے جائے نماز (مصلی) بھیج دیتا ہے اور خود تاخیر سے آتا ہے تو دو طریقے سے وہ شریعت کی مخالفت کرتا ہے: ایک تو یہ کہ اسے پہلے آنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ اس طرح وہ تاخیر کرتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس طرح وہ مسجد کے کچھ لوگوں کی حق تلفی کرتا ہے اور مسجد میں پہلے آنے والے لوگوں کو اس جگہ پر نماز پڑھنے سے اور پہلی صف کو پہلے مکمل کرنے روکتا ہے۔ اس کے بعد جب سارے لوگ آچکے ہوتے ہیں تب وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ جبکہ حدیث میں ہے : "جو لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہے وہ جہنم کی طرف لے جانے والا پل بناتا ہے([306])۔نیز نبی ﷺ نے (گردنیں پھلانگنے والے سے)فرمایاتھا: بیٹھ جاؤ تم نے اذیت دی([307])۔
اگر کوئی شخص کسی جگہ جائے نماز(مصلی) بچھا دے تو کیا جو مسجد میں پہلے داخل ہو وہ اس جائے نماز(مصلی) کو اٹھا کر وہاں نماز ادا کرسکتا ہے؟ اس سلسلے میں علما کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ کسی دوسرے کی ملکیت میں بغیر اس کی اجازت کے تصرف کرنا کہلائے گا۔
دوسرا قول: کسی دوسرے کے لئے اس کو اٹھا کر اس جگہ پر نماز ادا کرنی درست ہے کیونکہ یہ پہلے آنے والا شخص اس پہلی صف میں نماز ادا کرنے کا مستحق ہے اور اسی بات کا اسے حکم بھی دیا گیا ہے۔ جبکہ وہ اس حکم کی بجا آوری اور اس حق کو؛ بغیر اس جائے نماز (مصلی) کو وہاں سے اٹھائے ،حاصل نہیں کرسکتا ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کے بغیر حکم کی بجا آوری نامکمل ہو، وہ چیز بھی اس حکم میں شامل ہوتی ہے۔نیز اس نے اس جائے نماز کو وہاں غصباً رکھا ہے جو کہ ایک منکر کام ہے اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: تم میں سے جوشخص منکر (برائی)دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے، اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنی زبان سے روکے ، اوراگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے۔ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے([308])۔البتہ ایسا کرنے میں انسان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اس کا یہ رد عمل کہیں اس سے بڑے منکر کا سبب نہ بن جائے، واللہ اعلم([309])۔
5۔ مجلس میں وسعت پیدا کرنا: فرمان باری ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير}
ترجمہ: اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے([310])۔
اللہ رب العالمین کی جانب سے اپنے بندوں کو سکھایا گیا یہ ایک ادب ہے کہ جب وہ کسی مجلس میں جمع ہوں اور ان میں سے کسی کو یا کسی آنے والے کو اس مجلس میں شامل ہونے کے لئے کشادگی چاہئے ہو تو ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ مجلس میں کشادگی کردیا کریں تاکہ اس مجلس میں شمولیت کا مقصد پورا ہوسکے۔ ایسا کرنے سے کشادگی کرنے والے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ بغیر اسے پریشانی ہوئے ہی اس کے بھائی کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
نیز چونکہ اللہ کے یہاں بدلہ اور جزا عمل کے مطابق دیا جاتا ہے اس لئے جو اپنے بھائی کے لئے کشادگی کرے گا اللہ اس کے لئے کشادگی پیدا کردےگا اور جو اپنے بھائی کے لئے وسعت پیدا کرے گا، اللہ اس کے کئے وسعتیں پیدا کردےگا۔
(اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ): یعنی جب مجلس سے کھڑے ہو جانے اور اس سے الگ ہوجانے کا کہا جائے۔
(تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ): یعنی جلدی سے کھڑے ہوجاؤ تاکہ جس مصلحت کی خاطر اٹھنے کو کہا گیا ہے وہ پورا ہوجائے۔ ان امور کے لئے اٹھ کھڑے ہونا ،علم اور ایمان کی دلیل ہوتی ہے۔ یہ ابن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے([311])۔
6۔دو لوگوں کے درمیان بیٹھ کر تفریق کرنا جائز نہیں ہے: اس سلسلے میں ایک حدیث مروی ہے ، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوآدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے([312])۔ نبی اکرم ﷺ کا سکھایا ہوا یہ عظیم ادب ہے۔ آپ نے دو لوگوں کے درمیان بغیر ان کی اجازت کے بیٹھ کر تفریق کرنے سے منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے ان دونوں کے درمیان محبت والفت ہو یا دونوں راز ونیاز کی باتیں کررہے ہوں اس لئے ان کے بیچ میں بیٹھ کر ان کے درمیان تفریق کردینا انہیں ناگوار گزر سکتا ہے۔ یہ عون المعبود سے ماخوذ ہے([313])۔
7۔ مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا: یہ صحابہ کے عمل سے ثابت ہے اور اس پر نبی اکرم ﷺ نے خاموش رہ کر ان کی تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے توجس کو جہاں جگہ ملتی وہ وہیں بیٹھ جاتا([314])۔ لہذا صحابہ میں سے کوئی صحابی جب مجلس میں آتے تو نہ تکلف کرکے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے، نہ بھیڑ بھڑکا کرتے اور نہ بیٹھے ہوئے لوگوں میں گھس کر انہیں تنگ جگہ میں بیٹھنے پر مجبور کرتے، بلکہ انہیں جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے۔ یقینا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کمالِ ادب کا عمدہ واعلی مظہر ہے۔
8۔ دو لوگوں کا اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی کرنے کی ممانعت: لسان العرب میں ہے: النجو: یعنی دو لوگوں کا سرگوشی کرنا۔ کہا جاتا ہے: نجوته نجوا أی ساررته، اسی طرح :ناجيته۔ ان سب کا اسم النجوی ہے([315])۔ ممنوع سرگوشی یہ ہے کہ دو لوگ اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی کریں۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ جب تیسرا شخص اپنے دونوں ساتھیوں کو آپس میں سرگوشی کرتا دیکھے تو کہیں اس کی دل آزاری نہ ہوجائے۔ اور شیطان کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح مسلمان کے دل میں رنج وغم، وسوسے اور شکوک وشبہات ڈال دے۔ لہذا نبی اکرم ﷺ کی جانب سے اس امر کی ممانعت آگئی تاکہ شیطان کے تمام راستے بند ہوجائیں اور کوئی مسلمان اپنے بھائیوں کے متعلق برا گمان نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اصل وبنیاد کا درجہ رکھتا ہے: دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں ([316]) اس سے وہ رنجیدہ ہو گا([317])۔اور ایک روایت میں ہے: دو لوگ اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں راز ونیاز کی باتیں نہ کریں ([318])۔البتہ اگر چار لوگ ہوں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ممانعت کی وجہ ہی باقی نہ رہی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اسی بات کو بیان کرتی ہے، چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جب تم تین آدمی ہوتو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کیا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تیسرے کو رنج ہوگا۔ اگر لوگ آپس میں ملے جلے ہوں تو کوئی حرج نہیں([319])۔
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل میں اس حدیث کی تطبیق بھی موجود ہے، چنانچہ عبد اللہ بن دینار رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں اور عبداللہ بن عمر؛ خالد بن عقبہ کے گھر میں تھے جو کہ بازار میں ہے، اتنے میں ایک شخص نے آپ سے سرگوشی کرنی چاہی۔ اس وقت عبداللہ بن عمر کے ساتھ فقط میں تھا اور وہ شخص جو ان سے سرگوشی کرنا چاہتا تھا۔ لہذا عبداللہ بن عمر نے ایک اور آدمی کو بلالیا اور ہم چار لوگ ہوگئے. اس بعد آپ نے مجھ سے اور جس آدمی کو بلایا تھا اس سے کہا کہ تم دونوں ذرا پیچھے ہوجاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: دو لوگ تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں([320])۔
9۔بغیر اجازت کسی کی گفتگو سننے کی ممانعت: جو شخص لوگوں کی گفتگو سنتا ہے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہیں، ایسے شخص کے متعلق سخت ترین وعید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایسا خواب بیان کیا جو اس نے دیکھا نہ ہو تو قیامت کے دن اسے جو کے دو دانوں میں گرہ باندھنے کا مکلف کیا جائے گا جسے وہ ہرگز نہ کرسکے گا۔ اور جس شخص نے کسی قوم کی باتوں پر کان لگایا حالانکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں یا وہ اس سے دور بھاگتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ([321]) پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ اور جو کوئی تصویر بنائے گا اسے عذاب دیا جائے گا اور اسے اس میں روح ڈالنے کا مکلف کیا جائے گا جو وہ نہیں کرسکے گا([322])۔
یاد رہے کہ یہ ممانعت تب ہے جب وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، البتہ اگر وہ اس سے راضی ہوں تو ان لوگوں کی باتین سننا ممانعت کے اس حکم سے خارج ہے۔ اسی طرح اگر وہ لوگ بلند آواز سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کوسنا کر گفتگو کررہے ہوں تب بھی ان کی باتیں سننا ممانعت کے اس حکم میں داخل نہیں، کیونکہ اگر وہ اپنی گفتگو مخفی رکھنا چاہتے تو اس طرح بلند آواز سے گفتگو نہ کرتے([323])۔
10۔ممنوع بیٹھک: نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض مخصوص طریقوں سے اور بعض مخصوص صورتحال میں بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ ان مخصوص طریقوں اور حالتوں میں بیٹھنے کی ممانعت کی بعض وجوہات کو ہم نے نبی اکرم ﷺ سے سن کر جانا ہے اور بعض کو اجتہاد اور غور وفکر کے ذریعہ۔
بیٹھنے کا ممنوع طریقہ: آدمی اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے کرلے اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے جڑ پر جو گوشت ہوتا ہے اس پر ٹیک لکا گر بیٹھے([324])۔اس کا تذکرہ شرید بن سوید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اپنا بایاں ہاتھ کمر کے پیچھے کر کے انگوٹھے کی جگہ پر دباؤ ڈال کر بیٹھا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ان لوگوں کی طرح بیٹھتے ہو جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے([325])۔
اور جس صورتحال میں بیٹھنا منع ہے، وہ آدمی کا دھوپ اور سائے کی بیچ میں بیٹھنا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص دھوپ میں بیٹھا ہو ، مخلد کے الفاظ ہیں اگر کوئی سائے میں بیٹھا ہو اور پھر اس سے سایہ ٹل جائے اور وہ کچھ دھوپ میں آ جائے اور کچھ سائے میں تو وہاں سے اٹھ جائے([326])۔اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: اپنے بیٹھنے کی جگہ تبدیل کرلے([327])۔نیز بریدہ رضی اللہ عنہ کی سند سے مروی حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: نبی اکرم ﷺ نے کچھ سائے اور کچھ دھوپ میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے([328])۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شیطان کی بیٹھک ہے۔ اس بات کی صراحت مسند احمد وغیرہ کی روایت میں آئی ہے۔ چنانچہ امام احمد نے نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی آدمی(رجل من أصحاب النبی ﷺ) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آدمی کو اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں ہو اور کچھ سائے میں اور فرمایا: یہ تو شیطان کی بیٹھک ہے([329])۔
مسئلہ: صحیح مسلم وغیرہ میں جابر بن عبداللہ کی روایت ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص چت لیٹ کر اپنی ٹانگ کودوسری ٹانگ(کھڑی کرکے اس) پر نہ رکھے([330])۔جبکہ صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ عبادہ بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا جبکہ آپ نے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھا ہوا تھا([331])۔ان دونوں حدیثوں میں ظاہری طور پر تعارض ہے، لہذا ان کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوگی؟
جواب: بعض علما نے کہا کہ ایسا کرنے کی ممانعت؛ نبی اکرم ﷺ کے فعل سے منسوخ ہے جبکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر رد کرتے ہوئے کہا کہ مجرد احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوتا([332])۔
میں کہتا ہوں: کونسی حدیث پہلے کی ہے اور کونسی بعد کی، یہ جاننا از حد ضروری ہے۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ ان دونوں کے درمیان جمع وتطبیق دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: ممکن ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیان جواز کے لئے(اس کے جواز کو بیان کرنے کے لئے) ایسا کیا ہو کہ جب تم چت لیٹو تو ایسا بھی کرسکتے ہو، اور میں نے تمہیں مطلقا ایسا کرنے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ اُس شخص کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے جس کی شرمگاہ کا کچھ حصہ کھل جاتا ہو یا کھلنے کے قریب ہو۔ واللہ اعلم([333])۔
اِس قول کی تائید کہ نبی اکرم ﷺ نے بیان جواز کے لئے ایسا کیا تھا اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے نہیں ہے؛ اُس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادہ بن تمیم کی اپنے چچا سے بیان کردہ روایت کے معاً بعد ذکر کیا ہے: ابن شہاب، سعید بن مسیب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ عمر وعثمان رضی اللہ عنہما بھی ایسا کیا کرتے تھے([334])۔ لہذا بعض صحابہ کا ایسا کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا اس عمل کو انجام دینا بیان جواز کے لئے تھا بشرطیکہ شرمگاہ کے بے پردہ ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو، واللہ اعلم۔
11۔ بکثرت ہنسنے کی ممانعت: مروت و ادب کا یہ تقاضہ نہیں ہے کہ مجلس میں ہنسنا ہنسانا ہی غالب رہے، کیونکہ ہلکہ پھلکی ہنسی تو یقینا نفس کو نشاط بخشتی ہے لیکن بکثرت ہنسنا ایک ایسی بیماری ہے جو دل کو مردہ کردیتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زیادہ مت ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے([335])۔
12۔ لوگوں کے سامنے ڈکار([336])لینا مکروہ ہے: اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ تک ایک مرفوع حدیث مروی ہے جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے، کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپﷺ نے فرمایا: تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا([337])۔
13۔مجالس کو کفارہ مجلس کی دعا پڑھ کر ختم کرنا مستحب ہے: چونکہ ایک طرف انسان کمزور ہوتا ہے اور شیطان اس کو گمراہ کرنے کی کوشش میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ نیز اس کو بھٹکانے اور اس سے گناہ کروانے کے لئے ہمیشہ تگ ودو کرتا رہتا ہے۔ اسی لئے یہ ان کی مجالس اور مجمعوں میں گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے اور انہیں جھوٹ اور باطل پر ابھارتا رہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ اللہ جو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، اس نے اپنے نبی ﷺ کی زبانی انہیں ایسے کلمات سکھا دئے ہیں جنہیں پڑھنے سے تمام میل کچیل اور(گناہوں کی شکل میں) گندگی ان سے صاف ہوجاتی ہے جو اس مجلس میں انہیں لگ گئی تھی۔ نیز اللہ نے ان کلمات کو مجالس خیر کے لئے بطور مہر بنا کر بھی ان پر احسان کیا ہے۔لہذا اولا وآخرا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔
ان کلمات کا ذکر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس سے بہت سی لغو اور بیہودہ باتیں ہو جائیں، اور وہ اپنی مجلس سے اٹھ جانے سے پہلے یہ پڑھ لے: سُبْحَانَكَ ربنا وَبِحَمْدِكَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ ثم أَتُوبُ إِلَيْكَ( اے ہمارے رب ! تو اپنی تعریفوں سمیت پاک ہے ‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں پھر میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔) تو اس کی اس مجلس میں اس سے ہونے والی لغزشیں معاف کر دی جاتی ہیں([338])۔
ترمذی میں بھی ہے: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ( اے اﷲ ! تو اپنی تعریفوں سمیت پاک ہے ‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور میں تیری ہی طرف رجوع کرنے والا ہوں)([339])
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: رسول اللہ ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھتے یا نماز سے فارغ ہوتے تو کچھ کلمات پڑھتے۔ حضرت عائشہ نے آپ سے ان کلمات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر کسی شخص نے (اس مجلس میں) اچھی باتیں کی ہوں گی تو یہ کلمات قیامت تک کے لیے ان باتوں کے لیے مہر بن جائیں گے اور اگر اس نے اور قسم کی (غلط یا فضول) باتیں کی ہوں گی تو یہ اس کے لیے کفارہ (گناہ مٹانے والے) بن جائیں گے۔ اوروہ کلمات یہ ہیں :سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ (اے اللہ! تو ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہے اور تمام تعریفوں اور خوبیوں والا ہے۔ میں تجھ سے معافی طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ (یعنی ہر قسم کی غلطی سے توبہ کرتا ہوں۔))([340])
-فرمان باری ہے: {وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولا}[الإسراء:36]
ترجمہ: جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ. کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے.
-فرمان نبوی ﷺ ہے: جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان اور ٹانگوں کے درمیان کی ضمانت دے دے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں([341])۔
1۔زبان کی حفاظت: ایک مسلمان کو اپنی زبان کا خوب خیال رکھنا چاہئے۔ لہذا قول باطل، جھوٹی بات، غیبت، چغلی اور فحش کلامی سے اسے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ بلکہ مجموعی طور پر اسے اپنی زبان کو ہر اس چیز سے بچا کر رکھنا چاہیے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ انسان بسا اوقات ایسی بات کرجاتا ہے جس سے اس کی دنیا وآخرت دونوں ہلاک وبرباد ہوجاتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات پر درجات بلند کرتا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان اس صورتحال پر صادق آتا ہے: بے شک بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق غوروفکر نہیں کرتا، اس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں اتنی دور جا گرتا ہے جس قدر مشرق اور مغرب کے درمیان مسافت ہے۔اور صحیح مسلم اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: جس قدر مشرق اور مغرب کے درمیان مسافت ہے([342])۔ نیز مسند احمد میں اس طرح کے الفاظ بھی ہیں: بے شک بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس سے اپنے ساتھیوں کو ہنساتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے جہنم سے وہ ثریا ستارے سے بھی دور جاگر تا ہے([343])۔
جس طرح ایک کلمہ اللہ کو ناراض کرنے کا سبب بنتا ہے ٹھیک اسی طرح یہ رفعت اور سعادت کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک بندہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے بات منہ سے نکالتا ہے، اسے وہ کچھ اہمیت بھی نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہوتا ہے اس کے ہاں اس کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم چلاجاتا ہے([344])۔
نیز جب معاذ رضی اللہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ سوال کیا کہ کون سا عمل جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے دوری کا سبب ہے، تو آپ ﷺ نے(جواباً) ارکان اسلام اور دیگر بھلائیوں کا تذکرہ کیا،اس کے بعد ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: ہاں، اللہ کے نبی! پھر آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: ’اسے اپنے قابو میں رکھو، میں نے کہا: اللہ کے نبی! کیا ہم جوکچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ کے علاوہ اور کس وجہ سے اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟([345])۔
معاملہ یہیں ہر بس نہیں ہوتا بلکہ جو اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرے؛ رسول اللہﷺ نے اس کے لئے جنت کی ضمانت لی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان اور ٹانگوں کے درمیان کی ضمانت دے دے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں([346])۔
لہذا ہر مسلمان پر یہ واجب ہے کہ رضائے الہی کی خاطر اور اجر وثواب کے حصول کے لئے وہ حرام امور سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرے۔ یہ کام ان لوگوں کے لئے بہت آسان ہے جن کے لئے اللہ آسانیاں پیدا کردے ۔
فائدہ: ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں اس روایت کو مرفوعا ہی جانتا ہوں)کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے اعضا زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: توہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے([347])۔
(تکفر اللسان) یعنی اعضاء جسمانی زبان کے سامنے اپنی عاجزی وانکساری ظاہر کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں کہ اے زبان ! اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اور اگر تو نے خلاف ورزی کی اور صراط مستقیم سے بھٹک گئی تو ہم تیرے ہی تابع ہیں، لہذا ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر([348])۔اس حدیث میں اور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان میں کوئی تعارض نہیں ہے جو نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے: سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے([349])۔
امام طیبی رحمہ اللہ ([350])فرماتے ہیں: زبان دل کا ترجمان اور ظاہری بدن میں اس کا نائب وخلیفہ ہے۔ لہذا جب زبان کی جانب کسی امر کی نسبت کی جائے تو یہ نسبت حکما ًمجازی ہوتی ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں : شفی الطبیب المریض( یعنی ڈاکٹر نے مریض کو شفایاب کردیا، جبکہ شفا تو اللہ دیتا ہے) ۔ میدانی کہتے ہیں: انسان اپنے دونوں چھوٹی چیزوں سے ہی مکمل ہوتا ہے، ان دونوں سے مراد دل اور زبان ہے۔ یعنی انہی دونوں چیزوں کی بنیاد پر وہ مکمل ہوتا ہے، اس کے بعد (میدانی نے) زہیر کے یہ اشعار بیان کئے:
آپ کتنے ہی خاموش لوگوں کو دیکھ کر انہیں اچھا سمجھ لیتے ہیں جبکہ ان کی برتری یا کمی تو ان کے بات کرنے سے معلوم ہوتی ہے۔
کیونکہ آدمی آدھا اپنی زبان سے اور آدھا اپنے دل سے مکمل ہوتا ہے، ان دونوں کے بغیر تو انسان فقط گوشت اور خون کا مرکب ہے۔
2۔اچھی بات کریں یا خاموش رہیں: گفت وشنید کرنے والوں کو گفتگو کرنے کا یہ نبوی ادب سکھایا گیا ہے کہ جب وہ بات کریں تو ٹھہر کر اور سوچ سمجھ کر بات کریں۔ چنانچہ اگر وہ بات بھلی ہوئی تو بہت اچھا، اسے وہ بات کرنی چاہیے۔ اور اگر وہ بات بری ہوئی تو اسے اس بات کو ترک کردینا چاہیے کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور جوکوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے([351])۔
آپ کا یہ فرمانا( ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے)، اس کے متعلق ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ نبی اکرم ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے، کیونکہ بات یا تو خیر وبھلائی کی ہوتی ہے یا شر وبرائی کی، یا ان میں سے کسی ایک کی جانب لوٹنے والی ہوگی۔ بھلائی کی باتوں میں شریعت کی جانب سے مطلوب تمام فرض ومستحب باتیں داخل ہیں۔ لہذا آپ ﷺ نے ان باتوں کی مختلف قسمیں ہونے کے باوجود ان تمام کو کہنے کی اجازت دی ہے۔ اس اجازت میں وہ باتیں بھی داخل ہیں جو خیر کی جانب لوٹنے والی ہیں۔ جبکہ جو ان کے علاوہ ہیں وہ یا تو سراپا شر ہیں یا شر ہی جانب لوٹنے والی ہیں۔ لہذا آپ نے ایسی باتوں میں غور وفکر کرتے وقت خاموشی کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے([352])۔
3۔بہترین اور بھلی بات بھی صدقہ ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ یا تو بھلی بات کریں یا خاموش رہیں۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے بھلی بات کہنے پر ابھارا ہے کیونکہ بھلی بات میں ذکر الہی بھی شامل ہے۔ نیز اس سے ان کے دین ودنیا کی اصلاح اور خود آپس میں ان کی اصلاح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھلی بات میں اور بھی فوائد مضمر ہیں۔ اسی طرح اس پر انسان کو اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ دو شخصوں کے مابین انصاف کرنا بھی صدقہ ہے، کسی شخص کا اس کے جانور پر سامان لاد دینا بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات منہ سے نکالنا بھی صدقہ ہے۔ ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے([353])۔
اس کے علاوہ کئی بھلی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے کہنے والے کو جہنم سے دور کردیتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ جہنم کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا چہرہ انور پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی پھر آگ کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا چہرہ انور پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی پھر فرمایا: آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ممکن ہو۔ اگر کسی کو یہ بھی یہ میسر نہ ہو تو وہ اچھی بات کہہ کر اس سے محفوظ رہے([354])۔
4۔ کم گوئی کی فضیلت اور کثرت کلامی کی کراہیت کا بیان: کئی احادیث میں کم گوئی کی ترغیب دلائی گئی ہے کیونکہ کثرت کلامی گناہ میں پڑنے کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بکثرت گفتگو کرنے والا انسان اپنی سبقت لسانی کی وجہ سے گناہ میں پڑنے سے محفوظ نہیں رہتا۔ اسی لئے کم گوئی کی ترغیب دلائی گئی ہے اور کثرت کلامی سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، ناحق مطالبات اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے نیز فضول باتوں، کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے([355])۔
(فضول باتوں کو بھی تمہارے لئےناپسند کیا ہے) اس کا مطلب ہے ایسے لوگوں کے قصے کہانیوں میں پڑنا جن کے احوال ومعمولات سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([356])۔
اور کثرت کلامی شریعت کی نظر میں مذموم ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے (دنیامیں) سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اورمیرے نزدیک تم میں (دنیامیں) سب سے زیادہ قابل نفرت اورقیامت کے دن مجھ سے دوربیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی،([357]) بلا احتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبرکرنے والے (مُتَفَيْهِقُونَ) ہیں، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! ہم نے ثرثارون (باتونی)اور متشدقون (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن متفيهقون کون لوگ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: تکبرکرنے والے([358])۔
فائدہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فضول باتوں میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: جس کی باتیں زیادہ ہوں گی اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی۔اور ابن القاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: کثرت کلامی میں کوئی خیر نہیں ہے، بلکہ یہ تو عورتوں اور بچوں کی خصوصیت مانی جاتی ہے کیونکہ ان کا کام ہی باتیں کرنا ہے نہ کہ خاموش رہنا۔
نیز کسی نے یہ شعر کہا: ؎
آدمی اپنی زبانی لغزش کی وجہ سے مرجاتا ہے نہ کہ اپنے پیر کے ٹھوکر لگنے سے۔ کیونکہ اس کی زبانی لغزش اسے مکمل طور سے ناقابل اعتبار بنا دیتی ہے جبکہ ٹھوکر کی وجہ سے پیر کا زخم تو کچھ ہی دنوں میں بھر جاتا ہے([359])۔
5۔ غیبت اور چغلی کی شدید ممانعت([360]): ان دونوں کی شدید ممانعت پر کتاب وسنت کے دلائل مشہور ومعروف ہیں اور اس پر سخت ترین وعید بھی سنائی گئی ہے۔ ان دونوں کی ممانعت عوام الناس کو اچھی طرح معلوم ہے لیکن اس کے باوجود آپ بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے جو لوگوں کی عزتیں اچھالنے اور ان کی غیبت بیان کرنے میں اپنی زبان چلانے سے خوف نہیں کھاتے۔ درحقیقت شیطان ان کے سامنے ان اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا ہے تاکہ ان کے درمیان تفرقہ ڈال سکے اور آپس میں ان کے سینوں کو غصہ اور کینہ وکپٹ سے بھرسکے۔ لہذا شریعت انہیں متحد کرنے کے لئے،دلوں میں محبت والفت پیدا کرنے کے لئے، لوگوں سے حسن ظن رکھنا سکھانے کے لئے، اور حق اور بھلی بات کہنے کی ترغیب دینے کے لئے آئی ہے۔ جبکہ شیطان ان میں تفرقہ ڈالنے، آپس میں ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنے، لوگوں کے خلاف بد ظنی پھیلانے اور باطل اور خبیث قسم کی باتوں کے لئے کوششیں کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: شیطان اس بات سے نا امید ہوگیا ہے کہ جزیر ہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے سے (مایوس نہیں ہوا۔)([361])
حدیث کا معنی: شیطان اس بات سے نا امید ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اب اس کی عبادت کریں گے، البتہ وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑوں، بغض وعداوت، جنگ وجدال اور فتنوں کے ذریعہ شر وفساد پھیلانے کی تگ ودو کرتا رہتا ہے۔یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([362])۔
لوگوں کے درمیان بغض وعداوت اور لڑائی جھگڑے کی بنیاد ڈالنے والے اسباب میں سے ایک سبب غیبت وچغلی ہے۔ اور شیطان کے متعلق ہمارے پروردگار نے ہمیں بتا ہی دیا ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے، اور اس بات میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں کہ دشمن ہماری بھلائی کبھی نہیں چاہ سکتا۔ لہذا ہمیں اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس (شیطان)سے دشمنی رکھیں اور اس کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ فرمان باری ہے: {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِير}
ترجمہ: یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو، وه تو اپنے گروه کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وه سب جہنم واصل ہو جائیں([363])۔
لوگوں میں تفرقہ ڈالنے اور آپس میں ان کے دلوں کو بغض وعداوت سے بھرنے کے لئے غیبت اور چغلی؛ شیطان اور اس کے چیلوں کا ہتھیار ہے۔ نیز یہ دونوں ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کو ہلاک وبرباد کردیتی ہیں اور جماعت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر انسان کو یہ خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ غیبت اور چغلی کرنے والوں کے لئے اللہ نے جو عذاب تیار کیا ہے ، کہیں وہ اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اور انہی کی وجہ سے اہل وعیال اور عزیز واقارب کے مابین قطع تعلقی ہوجاتی ہے۔ آئیے ان کے متعلق وارد دلائل میں سے بعض کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔ خوش نصیب تو وہ ہے جس کا دل حق کو قبول کرلے اور جس کی زبان خلق خدا کی عزتیں اچھالنے سے محفوظ رہے:۔
· اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلاَ يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيم}
ترجمہ: اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے([364])۔
· ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو جو اپنی زبانوں سے ایمان لائے ہو مگر ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے ! مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیبوں کے درپے ہوا کرو ، بلاشبہ جو ان کے عیبوں کے درپے ہو گا اللہ بھی اس کے عیبوں کے درپے ہو گا ۔ اور اللہ جس کے عیبوں کے درپے ہو گیا تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا([365])۔
· ابووائل نےحضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی کہ ان کو پتہ چلا کہ ایک آدمی (لوگوں کی باہمی) بات چیت کی چغلی کھاتا ہے توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: چغل خور(نمام) جنت میں داخل نہ ہو گا۔ اور ایک روایت میں "قتات" کا لفظ ہے([366])۔اور یہ دونوں الفاظ( نمام اور قتات) ایک ہی معنی میں ہیں۔
فائدہ: چھ مواقع پر غیبت جائز ہے:
پہلا موقع: ظلم کی شکایت کرتے وقت۔ مظلوم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ حاکم یا قاضی وغیرہ، یا جو صاحب اقتدار ہو، یا جو اسے ظالم کے ظلم سے انصاف دلا سکے، اس کے پاس جاکر اپنی مظلومیت کو بیان کرے۔
دوسرا موقع: برائی کو بدلنے، یا گنہگار کو راہ راست پر لانے کے لئے کسی کی مدد لینے کے لئے۔ لہذا یہ جائز ہے کہ جو برائی کو ختم کرنے کی قدرت رکھتا ہو اس سے کوئی کہے کہ فلاں آدمی ایسا کرتا ہے، آپ اسے ڈانٹیں۔۔۔۔یا اس جیسے کلمات کہے۔ لہذا اس کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ برائی کا ازالہ ہوجائے۔ اگر یہ مقصد نہ ہو، تب تو یہ حرام ہی ہوگا۔
تیسرا موقع: فتوی پوچھنے کے وقت۔ جیسے کوئی شخص مفتی سے کہے کہ میرے والد یا میرے بھائی نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔یا اس جیسی کوئی بات کہے۔ لہذا ایسا کرنا بوقت حاجت جائز ہے، لیکن احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنی بات اس طرح کہے: آپ ایسے آدمی یا ایسے شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے ایسا ایسا کیا ہے؟۔ ایسا کہنے سے کسی کا(نام لے کر) تعین کئے بغیر ہی مقصد پورا ہوجائے گا، گرچہ تعین بھی جائز ہے۔
چوتھا موقع: مسلمانوں کو شر وبرائی سے آگاہ کرنے اور ان کو نصیحت کرتے وقت۔ جیسے مجروح راویوں اور گواہوں پر جرح کرنا اور کسی انسان کی مصاہرت ورشتہ کے وقت اس کو مشورہ دینا، بشرطیکہ خیرخواہی مقصود ہو۔ اسی شرط کو پورا کرنے میں لوگ غلطی کرجاتے ہیں۔ بسا اوقات گفتگو کرنے والا حسد وجلن سے بھرا ہوتا ہے اور شیطان اسے مغالطہ میں ڈال دیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ خیرخواہی کررہا ہے۔ لہذا اس معاملے میں انسان کو متنبہ رہنا چاہیے۔
پانچواں موقع: کہ جب کوئی شخص اعلانیہ طور پر فسق وفجور کے کام اور بدعت کو انجام دے،مثلا اعلانیہ طور پر لوگوں کا مال ہڑپنے والا، (ناجائز طور پر) ٹیکس اور مال ودولت وصولنے والا اور باطل وناجائز امور کی ذمہ داری لینے والا۔ ان کی ان برائیوں کے ساتھ ایسے لوگوں کا تذکرہ کرنا جائز ہے، البتہ ان کے علاوہ کسی اور عیب کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنا حرام ہے، الا یہ کہ غیبت جائز ہونے کے جن اسباب کو ہم نے ذکر کیا ان میں سے کوئی سبب پایا جائے۔
چھٹا موقع: کسی کے تعارف کے وقت۔ اگر کوئی انسان کسی خاص لقب سے معروف ہو جیسے ضعیف البصر، لنگڑا، بہرا، اندھا اور بھینگا وغیرہ، تو ان کے تعارف کے وقت ان القاب کو ذکر کرنا جائز ہے، جبکہ بطور ہجو؛ ان کا تذکرہ حرام ہے۔ نیز اگر ان القاب کو ذکر کئے بغیر ان کا تعارف ممکن ہو تو ایسا ہی کیا جائے، کیونکہ یہی افضل ہے۔
یہ چھ اسباب ہیں جنہیں علما نے بیان کیا ہے اور ان میں سے اکثر پر اجماع ہے اور صحیح ترین احادیث میں ان کے دلائل موجود ہیں جو کہ مشہور ومعروف ہیں۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([367])۔
فائدہ2: جس کے سامنے کسی کی چغلی کی جائے اس پر یہ چھ کام واجب ہیں:
پہلا: وہ چغل خور کی تصدیق نہ کرے کیونکہ وہ فاسق ہوتا ہے۔
دوسرا: اسے اس کام سے منع کرے، اسے نصیحت کرے اور اس کے اس کام کی قباحت وشناعت کو بیان کرے ۔
تیسرا: اللہ کے لئے اس سے بغض رکھے کیونکہ ایسا انسان اللہ کے یہاں بھی مبغوض ہوتا ہے، اور جس سے اللہ بغض رکھے اس سے بغض رکھنا واجب ہے۔
چوتھا: اپنے اس بھائی کے متعلق بدگمان نہ ہوجائے جو موجود نہیں ہے(یعنی جس کے متعلق چغلی کی گئی ہے)۔
پانچواں: چغل خور نے اس کے سامنے جو باتیں بیان کیں ہوں اس کی وجہ سے وہ بحث وتفتیش اور جاسوسی میں نہ لگ جائے۔
چھٹا: چغل خور کو جس کام سے منع کیا گیا ہے وہی کام وہ خود نہ کرنے لگ جائے یعنی چغل خور کی چغلی کو لوگوں کے سامنے خود بیان نہ کرے، جیسے یہ کہنا کہ فلاں نے مجھ سے ایسا ایسا بیان کیا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے وہ خود بھی چغل خور بن جائے گا۔
یہ امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ کے آخری کلمات ہیں۔ چغل خوری کے متعلق ان تمام باتوں کو تب ملحوظ رکھا جائے گا جب چغلی کرنے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو۔ البتہ اگر اس کی حاجت وضرورت پیش آجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ باتیں امام نووی رحمہ اللہ کی ہیں([368])۔
6۔ہر سنی سنائی بات کو بیان کرنے کی ممانعت: ایسا اس لئے کیونکہ لوگوں سے سنی سنائی ہوئی باتوں میں سچ وجھوٹ دونوں موجود ہوتا ہے۔ لہذا اگر کوئی انسان ہر سنی سنائی بات کو بیان کرنے لگے تو یقینا وہ جھوٹ بولنے کا مرتکب ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا رہے ۔ ایک دوسری روایت میں ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردیتا ہو([369])۔
7۔جھوٹ کی سخت ترین ممانعت: خلاف واقع خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں، جس سے اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول ﷺ کی زبانی منع فرمایا ہے۔ فرمان باری ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِين}
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو([370])۔
اس آیت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جھوٹوں کے ساتھ نہ رہو۔ نیز حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "سچائی" نیکی کا راستہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک وہ صدیق کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ اور "جھوٹ" برائی(الفجور) کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف کے جاتی ہے آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب (بہت جھوٹا) لکھا جاتا ہے([371])۔
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام راغب فرماتے ہیں: الفجر(یعنی برائی) کا اصل معنی الشق(یعنی پھاڑنا) ہے۔ لہذا الفجور کا معنی ہوتا ہے دین ومذہب کی چادر کو پھاڑ ڈالنا۔ نیز اس کا اطلاق فساد کی جانب میلان اور گناہوں میں لگ جانے پر بھی ہوتا ہے۔ دراصل یہ شر وبرائی کا ایک جامع نام ہے([372])۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب کلام کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو (اس میں) خیانت کرے([373])۔لہذا جو جھوٹ بولنے کی صفت سے متصف ہو تو جان لینا چاہیے کہ اس میں منافقوں کی خصلتوں میں سے ایک خصلت پیدا ہوگئی ہے۔
اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے خواب والی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکور ہے:"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میں نے آج رات دو آدمیوں کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مقدس زمین پر لے گئے۔ وہاں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی بیٹھا اور دوسرا کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا ہے جسے وہ بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں داخل کرتا ہے جو اس طرف کوچیرتا ہوا،اس کی گدی تک پہنچ جاتا ہے، پھر اس کے دوسرے جبڑے میں بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ اس عرصے میں پہلاجبڑا ٹھیک ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دوبارہ ایسے ہی کر دیتا ہے۔ میں نےپوچھا:یہ کیا ہے؟ ان دونوں نے مجھے کہا:آگے چلیے ۔۔۔۔۔۔"
اس کے بعد حدیث کے آخری حصے میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں آدمیوں سے کہا : " تم نے مجھے رات بھر پھرایا ہے، اب میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت بتاؤ؟‘ انھوں نے جواب دیا:اچھا۔ وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جارہا تھا وہ بہت جھوٹا آدمی تھا اور جھوٹی باتیں کیا کرتا تھا جو اس سے نقل ہوکر تمام اطراف عالم میں پہنچ جاتی تھیں۔اسلیے قیامت تک اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا رہے گا ۔۔۔۔"الحدیث ([374])۔
فائدہ: سب سے بڑا جھوٹ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنا، اور کسی مسلمان کا مال ہڑپنے کے لئے اللہ کی جھوٹی قسم کھانا ہے۔
جہاں تک اللہ پر جھوٹ باندھے کا تعلق ہے تو یہ کئی طریقے سے ممکن ہے۔ جیسے کلام اللہ کی بے جا تاویل، بلا علم اس کی تفسیر کرنا اور قرآنی نصوص کو بعض جدید حوادث وواقعات پر فٹ کرنا۔ جبکہ سلف صالحین بلا علم کلام اللہ کی تفسیر کرنے سے سختی کے ساتھ بچتے تھے۔ ان کے چند اقوال ملاحظہ ہوں:۔
· ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے کونسی زمین پناہ دےگی اور مجھ پر کونسا آسمان سایہ کرے گا اگر میں نے کتاب اللہ (کی تفسیر) میں ایسی بات کہہ دی جسے میں نہ جانتا ہوں۔
· ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی آیت کی تفسیر پوچھی گئی لیکن انہوں نے (اپنی لاعلمی جتاتے ہوئے) انکار کردیا جبکہ اگر اس آیت کے متعلق تم میں سے کسی سے پوچھا جاتا تو یقینا وہ ضرور بول اٹھتا۔
· امام مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں: تفسیر کرنے میں اللہ کا تقوی اختیار کرو کیونکہ در حقیقت یہ اللہ سے روایت بیان کرنا کہلاتا ہے۔
(ان نقولات کو ذکر کرنے کے بعد) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ائمہ سلف کے یہ اور ان جیسے دیگر آثار وروایات؛ بلا علم ،کلام اللہ کی تفسیر کرنے میں حرج محسوس کرنے اور اس سے بچنے پر محمول کئے جائیں گے۔ البتہ جو عربی زبان ولغت اور شریعت ؛دونوں کے علم کی بنیاد پر اس سلسلے میں گفتگو کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے([375])۔
اور جہاں تک رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے کی بات ہے تو یہ حدیث گھڑ کر انجام دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ یہ بات آپ ﷺ نے کہی ہے یا یہ کام آپ نے انجام دیا ہے یا آپ نےاس عمل کو درست قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والے کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’(دیکھو!) مجھ پر جھوٹ نہ باندھنا کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا، وہ یقینا دوزخ میں جائے گا۔ اور ایک روایت میں ہے : جہنم میں داخل ہوگا([376])۔
اور جہاں تک کسی مسلمان کا مال ہڑپنے کے غرض سے اللہ کی جھوٹی قسم کھانے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹی قسم اس لیے کھائی کہ کسی مسلمان یا اپنے بھائی کا مال ہضم کرے تو اللہ تعالٰی سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا([377])۔
نیز حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا([378])، ([379])۔
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جسے ایسا گناہ سمجھتے تھے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہے وہ یمین غموس ہے یعنی آدمی اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپنے کی غرض سے جھوٹی قسم کھائے([380])۔
فائدہ 2: تین چیزوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:
1۔ لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے میں۔
2۔ جنگ میں۔
3۔ آدمی کا اپنی بیوی سے گفتگو کرنے اور عورت کا اپنے خاوند سے گفتگو کرنے میں۔
اس سلسلے میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا کی حدیث کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے([381])۔اور ابو داود کی روایت میں ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ کی کہیں اجازت دی ہو مگر تین مواقع پر ۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے : میں ایسے آدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہو اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہ ہو ، اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر جو اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائے ([382])۔
اس حدیث (میں جھوٹ )سے کیا مراد ہے، اس سلسلے میں علما کا اختلاف ہے لیکن جمہور اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ ان تین مذکورہ مقامات پر جھوٹ بولنا جائز ومباح ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہاں حقیقی جھوٹ مراد نہیں ہے بلکہ توریہ(دو معنی والے الفاظ بولنا) اور معاریض(اشارہ اور کنایہ میں گفتگو کرنا) مراد ہے([383])۔اس اختلاف کا سبب غالبا اس حدیث میں وارد اضافی الفاظ ہیں کہ آیا یہ مدرج ہیں یا مرفوعا ثابت؟ جبکہ یہ اضافہ ثابت ہے(جیسا کہ ہم نے حاشیہ میں بیان کیا)۔ خلاصہ یہ نکلا کہ ان تینوں مذکورہ امور میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ نیز اس حدیث (میں وارد اضافی الفاظ) کے کئی شواہد بھی موجود ہیں۔ چنانچہ "لوگوں کے درمیان اصلاح" کا شاہد سابقہ حدیث ہے( ام کلثوم بنت عقبہ والی حدیث)۔ اور "جنگ میں جھوٹ بولنا" اس کا شاہد جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کعب بن اشرف کی ذمہ داری کون لے گا، اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اذیت دی ہے۔" محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں۔" انہوں نے عرض کیا: مجھے اجازت دیجئے کہ میں (یہ کام کرتے ہوئے) کوئی بات کہہ لوں۔ آپ نے فرمایا: کہہ لینا۔ چنانچہ وہ اس کے پاس آئے، بات کی اور باہمی تعلقات کا تذکرہ کیا اور کہا: یہ آدمی صدقہ (لینا) چاہتا ہے اور ہمیں تکلیف میں ڈال دیا ہے۔ جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگا: اللہ کی قسم! تم اور بھی اکتاؤ گے۔۔۔۔۔الحدیث([384])۔اس میں محل شاہد یہ الفاظ ہیں "مجھے اجازت دیجئے کہ میں (یہ کام کرتے ہوئے) کوئی بات کہہ لوں۔" ۔
"یہ آدمی صدقہ (لینا) چاہتا ہے" یعنی ہم سے اس نے صدقہ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسے اس کی جگہ تک پہنچا دے۔
"اور ہمیں تکلیف میں ڈال دیا ہے۔" یعنی ہمیں اوامر ونواہی(یعنی شریعت کی جانب سے واجب کردہ اعمال کی انجام دہی اور منع کردہ اعمال سے رک جانے) کا پابند کردیا ہے([385])۔
نیز "بیوی کو خوش کرنے کے لئے اس سے جھوٹ بولنا" اس کا شاہد عطا بن یسار کی بیان کردہ روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنی بیوی کے ساتھ جھوٹ بولنے میں گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹ نہیں بولنا، اللہ تعالیٰ جھوٹ کو پسند نہیں کرتا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول میں (جھوٹ بول کر) اس سے صلح چاہتا ہوں اور اس کے نفس کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر کوئی گناہ نہیں([386])۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جہاں تک انسان کا اپنی بیوی کو جھوٹ بولنے اور اس کی بیوی کا اس سے جھوٹ بولنے کے جواز کی بات ہے تو یہ تب جائز ہے جب الفت ومحبت کا اظہار اور یونہی (اس کے دل کو خوش کرنے کے لئے) ایسے وعدے کر دئے جائیں جنہیں پورا نہیں کیا جاتا ہے، یا اس جیسی کوئی بات کی جائے۔ لیکن جہاں تک بیوی کے وہ حقوق جو شوہر پر ہیں یا شوہر کے وہ حقوق جو بیوی پر ہیں، ان کو ادا نہ کرنے کے متعلق یا (ناجائز طور پر) آدمی کا اپنی بیوی کی کوئی چیز یا بیوی کا شوہر کی کسی چیز کو لے لینے کے متعلق دھوکہ دہی اور فریب کاری سے کام لینے کی بات ہے، تو اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے، واللہ اعلم([387])۔علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس جھوٹ کو مباح قرار دیا گیا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی بیوی سے ایسے وعدے کرے جنہیں وہ پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہو، یا کسی سامان کے بارے میں اسے بتائے کہ اس نے اسے اتنی اتنی قیمت میں خریدا ہے یعنی اس کو راضی وخوش کرنے کے لئے حقیقت سے زیادہ قیمت بتلائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ممکن ہے اسے حقیقت حال کا علم ہوجائے اور اس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے بدگمان ہوجائے۔ لہذا یہ تو اصلاح کے بجائے فساد کا سبب ہے([388])۔
8۔ فحش امور اور فحش گوئی کی ممانعت([389]): ہمارے نبی ﷺ لوگوں میں سب سے کامل اخلاق والے اور فحش گوئی وبدکلامی سے سب سے زیادہ دور رہنے والے تھے۔ نیز آپ ﷺ فحش گوئی، لعن طعن اور بدکلامی جیسی باطل گفتگو سے منع کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن طعنہ دینے والا([390])اور فحش کلام وبدزبان نہیں ہوتا ہے([391])۔
فحش کلامی دو معنوں میں مستعمل ہے۔ کبھی تو سب وشتم اور بدزبانی کے معنی میں آتا ہے۔ جیسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نہ تو فحش گوتھے اور نہ بدزبان ہی تھے بلکہ آپ فرمایا کرتےتھے: بلاشبہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کااخلاق اچھاہو([392])۔
اور کبھی گفتگو کرنے اور جواب دینے میں حد سے متجاوز ہونے کے معنی میں آتا ہے([393])۔جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ کے پاس یہود میں سے کچھ لو گ آئے ،انھوں نے آکر کہا : (السام عليك يا أبا القاسم) (ابو القاسم !آپ پر موت ہو) کہا آپ نے فر یا : وَ عَلَيكُم (تم لوگوں پر ہو!)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر یا : بلکہ تم پر موت بھی ہو ذلت بھی([394])۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عائشہ!زبان بری نہ کرو۔انھوں(عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا )نے کہا : آپ نے نہیں سنا، انھوں نے کیا کہا تھا ؟آپ ﷺ نے فر یا : انھوں نے جو کہا تھا میں نے ان کو لوٹا دیا ،میں نے کہا:تم پر ہو ([395])۔
تنبیہ: لعن طعن کرنے والا صدیق( سچائی کی صفت سے متصف) نہیں ہوسکتا ہے اور بروز قیامت نہ اسے شفاعت نصیب ہوگی اور نہ وہ گواہ بنے گا۔ اور جس نے کسی کو لعنت کی اور وہ اس لعنت کا مستحق نہ ہو، تو وہ اسی کی جانب لوٹ آتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک صدیق کے شایان شان نہیں کہ وہ زیادہ لعنت کرنے والا ہو([396])۔
نیز حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ شفاعت کرنے والے ہوں گے، نہ گواہ بنیں گے([397])۔
اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ہوا پرلعنت بھیجی تو آپﷺ نے فرمایا: ہوا پر لعنت نہ بھیجو اس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے، اورجس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے([398])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں لعن طعن کرنے کے متعلق سخت تنبیہ موجود ہے۔ نیز جو شخص لعنت کرنے کا عادی ہوجاتا ہے اس میں بہترین اور خوبصورت صفات نہیں پائی جاتیں، کیونکہ دعا میں لعنت (یعنی بددعا )کرنے کا مطلب درحقیقت رحمت الہی سے دور کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے کی دعا کرنا ان مومنوں کا اخلاق نہیں ہوتا جنہیں اللہ رب العالمین نے آپس میں رحمت وشفقت سے رہنے والے اور تقوی ونیکی کے امور پر ایک دوسرے کی مدد کرنے والے قرار دیا ہے۔ نیز جنہیں اللہ نے ایک عمارت کی مانند بنایا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور انہیں اس طرح بنایا ہے گویا وہ سب ایک ہی جسم ہوں۔ اسی طرح ایک مومن اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے جو وہ خود اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ لہذا جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی پر لعنت کی بددعا کی جس کا مطلب اسے رحمت الٰہی سے دور کرنا ہوتا ہے؛ تو اس نے اس بھائی سے قطع تعلقی اور اس سے پیٹ پھیر لینے کی انتہا کردی۔ ایک کافر کے ساتھ مسلمان جو سب سے آخری درجے کا تعامل کرتا ہے یہ وہی ہے اور اس پر بددعا بھی کرتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر حدیث میں ہے : مومن پر لعنت کرنا اس کے قتل کے مترادف ہے([399])۔ کیونکہ جس طرح قاتل ،مقتول سے دنیاوی فوائد کو منقطع کردیتا ہے اسی طرح مومن کو لعنت کرنے والا اسے اخروی نعمتوں اور رحمت الٰہی سے دور کردیتا ہے([400])۔
تنبیہ 2: سب سے بڑا گناہ بلکہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے والدین پر لعنت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے۔ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول! کوئی شخص اپنے والدین پر کیسے لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: آدمی کسی کے والد کو گالی دے گا تو وہ اس کے والد کو برا بھلا کہے گا اور اگر وہ کسی کی ماں کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کی ماں پر سب وشتم کرے گا۔ نیز صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (صحابہ) کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ہاں! انسان کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تو وہ ا س کے باپ کو گالی دیتا ہے۔ جب یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے([401])۔
9۔ جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے اس کی فضیلت: عربی لغت میں المراء کا معنی ہے حجت بازی اور جھگڑا کرنا۔ اور لغت میں اس کا بنیادی یا اصلی معنی بحث ومباحثہ ہے۔ نیز یہ بھی کہ آدمی اپنے مناظرہ کرنے والے شخص کے کلام سے ایسی باتوں یا ایسے نزاعی معنی وغیرہ کا استخراج کرے جو نزاع کو ہوا دینے والی ہوں۔ "من مریت الشاۃ؟"(بکری کس نے دوہی) تب کہتے ہیں جب کوئی اس کو دوہے اور اس کا دودھ نکالے([402])۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں ذمہ دار ہوں ایک محل کا ‘ جنت کی ایک جانب میں([403]) اس شخص کے لیے جو جھگڑا چھوڑ دے ‘ اگرچہ حق پر ہو ۔ اور ایک محل کا ‘ جنت کے درمیان میں ‘ اس شخص کے لیے جو جھوٹ چھوڑ دے ‘ اگرچہ مزاح ہی میں ہو ‘ اور جنت کی اعلی منازل میں ایک محل کا ‘ اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے ([404])۔
اس حدیث میں اس امر کا بیان ہے کہ جو سچا اور برحق ہونے کے باوجود حجت بازی اور جھگڑا ترک کردے اس کے لئے لسان نبوت ﷺ کے ذریعہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تحفۃ الاحوذی میں ہے: ایسا اس لئے کیونکہ اس نے اس سے جھگڑا کرنے والے شخص کا دل توڑنے، اس پر اپنی برتری ثابت کرنے اور اپنی فضیلت جتانے سے احتراز کرلیا([405])۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآن کریم میں جھگڑا کرنا کفر ہے ([406])۔یعنی اس میں حجت بازی سے کام لینا۔
نیز سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک تمھارے دلوں میں الفت رہے، جب اس میں تمہیں اختلاف کا اندیشہ ہو تو اٹھ جاؤ([407])۔ یہ اختلاف قرآنی آیات کے معانی کو سمجھنے میں ہوسکتا ہے یا ان آیات کو پڑھنے اور ادا کرنے کی کیفیت میں بھی ہوسکتا ہے۔ جب قرآن کے متعلق، شر پیدا کرنے والا اختلاف ہوجائے تو ایک مسلمان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس سے فورا رک جائے تاکہ کسی قسم کی شر وبرائی میں نہ پڑے اور یہ نزاع مزید نہ بڑھے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قرآن میں ہونے والے جس اختلاف کے وقت اس کو چھوڑ کر اٹھ جانے کا حکم دیا گیا ہے؛ علما کے نزدیک اس سے ایسا اختلاف مراد ہے جو ناجائز ہو یا ناجائز امور کی جانب کے جانے والا ہو۔ جیسے خود قرآن ہی میں اختلاف کرنا(جیسے کیا یہ کلام الہی ہے یا نہیں وغیرہ) یا اس کے کسی ایسے معنی پر اختلاف کرنا جس میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یا ایسا اختلاف جو شک وشبہ، فتنہ اور لڑائی جھگڑے کا سبب بنے، وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ جہاں تک دین کے فروعی مسائل میں اختلاف، بر سبیل فائدہ اور اظہار حق کے لئے اہل علم سے مناظرہ کرنے اور ان کا ان میں اختلاف کرنے کی بات ہے تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کا تو حکم دیا گیا ہے جس کی فضیلت جگ ظاہر ہے۔ نیز اس کی مشروعیت پر عہد صحابہ سے لے کر آج تک کے تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، واللہ اعلم([408])۔
اسی طرح اس حدیث میں اجتماعیت اور الفت ومحبت پر ابھارا گیا ہے، تفرقہ بازی اور لڑائی جھگڑے سے ڈرایا گیا ہے اور ناحق حجت بازی اور بحث ومباحثہ سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی برا یہ ہے کہ کسی امر پر قرآن کی کسی آیت واضح طور پر دلالت کررہی ہو لیکن وہ امر، انسانی رائے کے خلاف ہو تو خوب غور وفکر کرکے اس آیت کی تاویل کی جائے اور اسے اس رائے کے عین مطابق بنا دیا جائے۔ معاند قسم کا آدمی ہی ایسی حرکت کرتا ہے اور اپنی اس تاویل کے دفاع میں اتر آتا ہے۔ یہ قول فتح الباری میں ہے([409])۔
فائدہ: { فَلاَ تُمَارِ فِيهِمْ إِلاَّ مِرَاء ظَاهِرًا }
ترجمہ: " پس آپ ان کے مقدمے میں صرف سرسری گفتگو کریں"۔
امام سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"فلا تمار" یعنی ان سے بحث ومباحثہ نہ کریں۔
"الا مراءا ظاہرا" یعنی ایسی گفتگو کریں جو مبنی بر علم ویقین ہو اور مفید ہو۔ اور جہاں تک ایسے بحث ومباحثے کی بات ہے جو مبنی بر جہل ہو، جس میں غیب دانی کا دعوی کیا جائے، جو بے فائدہ ہو اور جس سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل نہ ہورہا ہو جیسے اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے بارے میں بحث کرنا؛ تو اس کے متعلق مناقشہ کرنا اور بحث ومباحثے کا بازار گرم کرنا وقت کا ضیاع ہے اور اس سے بلا وجہ دلوں کی محبت متاثر ہوتی ہے([410])۔
10۔ لوگوں کو اپنے جھوٹ سے ہنسانے کی ممانعت: بعض لوگ اہل محفل کو ہنسانے کے لئے اپنے متعلق یا کسی دوسرے کے متعلق جھوٹ بات گھڑتے ہیں( اور اسے بیان کرتے ہیں)۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ اس طرح وہ کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرجاتے ہیں۔ سیدنا معاویہ بن بہز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا , آپ ﷺ فرماتے تھے: ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں ۔ ہلاکت ہے اس کے لیے ! ہلاکت ہے اس کے لیے ! ([411])
11۔ جب کوئی اپنے بھائی سے بات کرے اس کے بعد ادھر ادھر دیکھے (کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا) تو یہ بات امانت ہے: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم سے بات کرے اس کے بعد ادھر ادھر مڑ کر دیکھے ( کہ کہیں کوئی سنتا تو نہیں ) تو یہ بات امانت ہے([412])۔
راقم الحروف -عفا اللہ عنہ -کہتا ہے: یہ ایک عظیم نبوی ادب ہے۔ بات کرنے کے بعد اس آدمی کا دائیں بائیں دیکھنے کو نبی اکرم ﷺ نے کسی راز کو بطور امانت اس کے پاس رکھنا قرار دیا ہے لہذا اس پر اس کی حفاظت واجب ہے اور کسی کو بتانا جائز نہیں۔
ابن رسلان کہتے ہیں: کیونکہ اس کا ادھر ادھر التفات کرنا؛ وہ جس سے گفتگو کررہا ہے اس کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کوئی اس کی گفتگو سن لے اور یہ کہ اس نے اس گفتگو کو راز رکھنا چاہا ہے۔ اس کا ادھر ادھر دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا وہ کہ رہا ہو میری اس گفتگو کو راز رکھنا یعنی مجھ سے سن کر راز رکھنا کیونکہ یہ تمہارے پاس میری امانت ہے([413])۔
12۔ گفتگو کرنے میں عمر میں بڑے شخص کو مقدم کرنا: اس مسئلے میں یہ حدیث بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے: حضرت رافع بن خدیج اور حضرت سہل بن ابی حشمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خیبر میں آئے اور کھجوروں کے باغ میں جدا جدا ہو گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا۔ پھر عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصیہ اور محیصہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے پہلے بات کرنا چاہی اور وہ سب سے چھوٹے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔یحیی بن سعید کہتے ہیں: یعنی بڑا گفتگو کرے([414])۔
اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس عمل سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے کہ جب بڑے صحابہ کی موجودگی میں وہ خود گفتگو کرنے کے لئے آگے نہ بڑھے تھے۔فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس درخت کا نام بتاؤ جس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں گرتے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے اس کا جواب دینا مناسب خیال نہ کیا کیونکہ مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ (جیسے اکابر صحابہ) موجود تھے۔ پھر جب ان دونوں بزرگوں نے کچھ نہ کہا تو نبی ﷺ نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔چنانچہ جب میں اپنے والد کے ہمراہ وہاں سے باہر نکلا تو میں نے کہا: اے ابو جان! میرے دل میں آیا تھا کہ وہ کھجور کا درخت ہے انہوں نے فرمایا: پھر تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے منع کیا تھا؟ اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے صرف اس امر نے منع کیا کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ خاموش ہیں تو میں نے آپ (بزرگوں) کے سامنے بات کرنا برا خیال کیا۔
اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں: اور میرے دل میں یا(کہا:) میرے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ وہ کھجور کا د رخت ہے۔ میں ارادہ کرنے لگا کہ بتادوں ،لیکن(وہاں) قوم کے معمر لوگ موجود تھے تو میں ان کی ہیبت سے متاثر ہوکر بولنے سے رک گیا۔
مسند احمد اور دارمی کے الفاظ یہ ہیں: میں نے دیکھا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں، لہذا میں خاموش رہ گیا([415])۔
میں کہتا ہوں: بات کرنے میں بڑے شخص کو مقدم کرنے کے متعلق نبی اکرم ﷺ کی کئی احادیث مشہور ہیں، جیسے آپ ﷺ نے مسواک کرنے کے لئے بڑے شخص کو مقدم کیا تھا۔ اس کا ذکر ضیافت کے آداب کے بیان میں گزرچکا ہے۔
13۔ کسی کی بات نہ کاٹی جائے: لوگوں کی بات نہ کاٹنا ادب میں سے ہے کیونکہ وہ لگاتار گفتگو کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی گفتگو کررہا ہو اور کوئی اس کی بات کاٹ دیتا ہے تو یہ اس پر بہت شاق گزرتا ہے اور اس کی وجہ سے دلوں میں کینہ وکپٹ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، ایک مرتبہ نبی ﷺ مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ﷺ (اسے کوئی جواب دیے بغیر) اپنی باتوں میں مصروف رہے۔ (حاضرین میں سے) کچھ لوگ کہنے لگے: آپ نے دیہاتی کی بات کو سن تو لیا ہے لیکن اسے پسند نہیں فرمایا۔ اور بعض کہنے لگے: ایسا نہیں ہے بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں۔ جب آپ اپنی گفتگو ختم کر چکے تو فرمایا: ’’قیامت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟‘‘ دیہاتی نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ اس نے دریافت کیا: امانت کس طرح ضائع ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’جب (ذمے داری کے) کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرنا([416])۔
اس حدیث محل شاہد یہ جملہ ہے"رسول اللہ ﷺ اپنی بات میں مصروف رہے" یعنی آپ نے اپنی گفتگو نہیں روکی کیونکہ گفتگو کرنے کا حق صاحب مجلس کو تھا ، اس سائل کو نہیں۔اسی لئے نبی اکرم ﷺ اپنی گفتگو مکمل ہونے تک نہیں رکے۔
اسی طرح ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے بھی دلیل لی جاسکتی ہے۔ ابن عباس نے عکرمہ رحمہ اللہ سے کہا: لوگوں کو ہفتے میں ایک دن وعظ کیا کرو۔ اگر تم اس پر آمادہ نہ ہو تو دو مرتبہ۔ اگر زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو تین مرتبہ۔ لوگوں کو اس قرآن سے متنفر نہ کرو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تم لوگوں کے پاس آؤ جبکہ وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم انہیں وعظ کرنا شروع کر دو اور ان کی باہمی گفتگو کاٹ کر انہیں پریشان کرو۔ تمہیں خاموش رہنا چاہیئے، ہاں جب وہ تمہیں وعظ کا کہیں تو پھر تم انہیں نصیحت کرو اس طرح کہ وہ اس کے خواہش مند ہوں([417])۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بات کاٹنے کی ممانعت کی علت بیان کردی کہ اس سے لوگ اکتاہٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد عکرمہ رحمہ اللہ کو یہ ہدایت دی کہ وہ خاموشی سے لوگوں کی باتیں سنیں اور جب لوگ ان سے گفتگو کرنے کو کہیں تب ہی وہ انہیں وعظ ونصیحت کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس وقت وہ جو کچھ کہیں گے بہت امکان ہے کہ لوگ اسے قبول کریں گے۔
14۔ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا اور اس میں عجلت سے کام نہ لینا: خوب تیز گفتگو کرنے سے بہت ممکن ہے کہ سننے والا اسے ٹھیک طرح سے نہ سمجھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی گفتگو میں تیزی نہیں تھی بلکہ جو آپ کے پاس بیٹھتا وہ بآسانی آپ کی گفتگو سمجھ لیتا۔ حدیث میں ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی اکرم ﷺ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے تھے کہ اگر کوئی گننے والا آپ کی باتیں شمار کرنا چاہے تو کرسکتا تھا۔ مسلم کی روایت میں ہے : نبی اکرم ﷺ تم لوگوں کی طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اور احمد کی روایت میں ہے: نبی اکرم ﷺ تمہاری طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے بلکہ آپ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے کہ سننے والا انہیں یاد کرلیتا([418])۔
"نبی اکرم ﷺ تم لوگوں کی طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے" اس کا مطلب یہ ہے کہ ﷺ بکثرت ایک کے بعد ایک باتیں ارشاد نہیں فرماتے تھے([419])۔
اور ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی آپ ﷺ جلدی جلدی ایک کے بعد ایک باتیں ارشاد نہیں فرمایا کرتے تھے تاکہ سننے والے پر باتیں خلط ملط نہ ہوجائیں([420])۔
15۔ گفتگو کرتے وقت آواز پست رکھنا: فرمان باری ہے: { وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِير}
ترجمہ: اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے([421])۔
"واغضض من صوتك" اس فرمان کا مطلب ہے کہ لوگوں اور اللہ کے ساتھ ادب اختیار کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھو۔
"إن أنكر الأصوات" یعنی سب سے بدترین آواز "گدھوں کی آواز ہے"۔
لہذا اگر آواز کو بلند کرنے میں کسی قسم کا فائدہ ہوتا تو اسے گدھے کی خصوصیت قرار نہ دی جاتی جس کی بے وقعتی اور بے وقوفی سے سب واقف ہیں۔یہ ابن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے([422])۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوسروں پر آواز بلند کرنا سوء ادب اور ان کی بے حرمتی ہے۔
شیخ تقی الدین کہتے ہیں: جب کوئی دوسروں پر اپنی آواز بلند کرتا ہے تو ہر عقلمند یہ دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ یہ اس کا بہت کم احترام نہیں کرتا۔
اور ابن زید کہتے ہیں: اگر آواز بلند کرنا اچھا اور بھلا کام ہوتا تو اللہ تعالی گدھے کو کبھی بلند آواز والا نہ بناتا([423])۔
16۔ ایسے الفاظ اور باتیں جن سے اجتناب کرنا چاہیے: بعض لوگوں کی زبانوں پر ایسے الفاظ وکلمات جاری رہتے ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ بسا اوقات وہ ان باتوں کو کہنے کا حکم نہیں جانتے ہیں، اور ایسے ہی لوگ زیادہ ہیں، جبکہ بعض دفعہ ان کا حکم انہیں معلوم ہوتا ہے لیکن لوگ بھول کر ادا کردیتے ہیں۔ ان میں سب سے برے لوگ وہ ہیں جو جان بوجھ کر ایسی ہفوات بکتے ہیں۔ یہاں ہم ان تمام الفاظ کا احاطہ تو نہیں کرسکتے لیکن ان میں سے بعض الفاظ کو مختصرا بیان کرتے ہیں کیونکہ (عربی میں ایک مقولہ ہے) جو چیز مکمل نہ جانی جاسکے اسے مکمل طور سے چھوڑ بھی نہیں دینا چاہئے۔
مسئلہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دل سلامت (صاف) ہو تو الفاظ کو درست کرنا اتنا اہم نہیں ہے۔
جواب: اگر الفاظ کی درستی سے یہ مراد ہے کہ گفتگو عربی زبان کے مطابق کی جائے تو یقینا یہ صحیح بات ہے کیونکہ عقیدے کی سلامتی کے لئے یہ اہم نہیں کہ گفتگو عربی زبان میں ہی ہو، ہاں معنی ومفہوم صحیح ہونا چاہیے۔ اور اگر الفاظ کی درستی سے یہ مراد ہے کہ کفر شرک والے الفاظ کو ترک کردیا جائے تو ان کا یہ کہنا غلط ہے اور الفاظ وجملوں کی درستی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لہذا کسی انسان سے ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ جب تک تمہاری نیت درست ہے؛ تم کچھ بھی کہہ سکتے ہو ۔ بلکہ ہم یہ کہیں گے الفاظ اور جملے شریعت کے مطابق ہونے چاہیے۔ یہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا قول ہے([424])۔
أ. تکفیر کرنے اور بدعتی وفاسق قرار دینے کے الفاظ: رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان معلوم ہے کہ جس شخص نےاپنے کسی بھائی کو کہا: اے کافر! تو ان دونوں میں ایک کافر ہوگیا۔ اور ابو داود کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: جس کسی مسلمان نے کسی مسلمان کو کافر کہا ، تو اگر وہ ( فی الواقع ) کافر ہوا تو ٹھیک، ورنہ کہنے والا ہی کافر ہے([425])۔
بہت کم ایسے لوگ ہیں، اللہ جن کی بصیرت چھین لیتا ہے اور وہ لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور انہیں کافر، بدعتی اور فاسق قرار دے دیتے ہیں، گویا اللہ نے ان سے ایسا کرنے کو کہا ہو۔ (حال یہ ہے کہ) ایک آدمی پورے انشراح صدر کے ساتھ کسی کو کافر، بدعتی یا فاسق قرار دے دیتا ہے جبکہ صحابہ میں سے سلف صالحین اور وہ ائمہ اسلام جنہوں نے ان کے منہج کو اختیار کیا، جیسے امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ؛ یہ سب کے سب ایسا کرنے سے بہت بچا کرتے تھے، بالخصوص لوگوں کو کافر قرار دینے سے ۔ وہ تکفیر وغیرہ جیسی کوئی بات اس وقت تک اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے جب تک ان کے سامنے ایسے دلائل نہ آجاتے جن میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو، اس معین شخص کے کافر وغیرہ ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے اور اس پر حجت قائم کی جاچکی ہو۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کے خطبے میں ارشاد فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ تمہارے ہاں اس شہر اور اس مہینے میں اس دن کی حرمت ہے۔ چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے، اس لیے کہ شاید حاضر ایسے شخص کو خبر کر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے([426])۔
ب. کسی کا یہ کہنا کہ لوگ ہلاک ہوگئے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ایک شخص (یہ) کہتا ہے: لوگ ہلاک ہو گئے تو وہ انہیں ہلاک کر دیتا ہے([427])۔
"فهو أهلكهم"اگر اسے کاف کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہوگا کہ وہ ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ اور اگر کاف کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہوگا کہ اس نے انہیں ہلاک قرار دےدیا، نہ یہ کہ وہ حقیقتا ہلاک ہوگئے([428])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ (حدیث میں وارد) یہ مذمت اس شخص کے لئے ہے جو لوگوں کو ذلیل وحقیر گردانتے ہوئے، ان پر اپنی برتری جتاتے ہوئے اور ان کے حال واحوال کو برا قرار دیتے ہوئے ایسا کہتا ہے( یعنی کہتا ہے کہ لوگ ہلاک ہوگئے)۔ کیونکہ مخلوقات کی بدلتی حالتوں میں اللہ کی پوشیدہ حکمتوں کو وہ نہیں جانتا۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی اپنے آپ میں اور لوگوں میں کوئی دینی خرابی دیکھ کر ایسے الفاظ کہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے (ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے ) کہا : اللہ کی قسم! حضرت محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت سے میں اب کوئی بات نہیں پاتا سوائے اس کے کہ لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں۔ حدیث کی یہی تشریح امام مالک رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے اور علما نے اس پر ان کی متابعت کی ہے۔
اور امام خطابی کہتے ہیں: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی آدمی لوگوں کی عیب جوئی کرتا ہے، ان کی خرابیاں بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ "لوگ ہلاک وبرباد ہوگئے" یا اس جیسی باتیں کرتا ہے تو لوگوں کی عیب جوئی اور انہیں برابھلا کہنے سے جو گناہ اسے ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ خود سب سے زیادہ ہلاک وبرباد ہوجاتا ہے یعنی خود اسی کا حال سب سے برا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو برا جاننے اور اس طرح کی باتیں کرنے کی وجہ سے بسا اوقات وہ فخر وغرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خود کو سب سے بہتر سمجھنے لگتا ہے، واللہ اعلم([429])۔
ت. غیر اللہ کی قسم کھانا: اللہ تعالی کے لئے روا ہے کہ وہ اپنی جس مخلوق کی چاہے قسم کھالے کیونکہ وہی خالق حقیقی اور ملکیت(مخلوقات) میں تصرف کا حق رکھتا ہے۔ انسان، جنات، درخت، پہاڑ اور آسمان وزمین سب اسی کی مخلوقات ہیں، لہذا اس کے لئے ان میں سے کسی کی بھی قسم کھانا جائز ہے۔ جبکہ مخلوقات کے لئے یہ روا وجائز نہیں کہ وہ اپنے مالک وخالق کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائیں۔ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: علما نے کہا کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا، اس چیز کی تعظیم و تکریم کا متقاضی ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ساری عظمت تو تن تنہا اللہ ہی کی ہے([430])۔
مخلوقات (عربی زبان میں) لفظ الجلالہ "اللہ" سے پہلے واو، با اور تا لگا کر قسم کھا سکتی ہے۔ اسی طرح اللہ کی عزت، اس کی صفات اور اس کے کلمات کی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اللہ کی عزت، اس کی صفات اور اس کے کلمات کی قسم کھانے کا باب۔۔۔۔اس کے بعد کہا۔۔۔۔۔۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے بیان کیا کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک آدمی بچا رہ جائے گا تو وہ کہے گا اے میرے رب میرا چہرہ جہنم کی طرف سے پھیر دے، تیری عزت کی قسم میں اس کے بعد تجھ سے کچھ نہ مانگوں گا([431])۔
نیز کسی مخلوق کی نسبت اللہ کی جانب کرکے بھی اللہ کی قسم کھائی جاسکتی ہے، جیسے کعبہ اور آسمان وزمین کی اضافت اللہ کی جانب کرکے اس کی قسم کھائی جائے۔مثلا آپ کہتے ہیں: ورب الکعبۃ( کعبے کے رب کی قسم ہے) ورب السماء( آسمان کے رب کی قسم ہے) وغیرہ وغیرہ۔ البتہ ایسی مخلوقات کی اضافت سے اللہ کو پاک رکھنا ہے جن کی اضافت اس کی جانب ناپسندیدہ ہو، گرچہ وہی اس کا خالق ہے، کیونکہ اللہ کے ساتھ ادب اختیار کرنے کا یہی تقاضہ ہے۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی مشہور دعا میں ہے "والشر لیس الیك"(یعنی برائی کا تیری طرف کوئی گزر نہیں ہے)([432])، جبکہ اس کا خالق بھی وہی اللہ ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کچھ الفاظ ہیں جو انہی سابقہ تین قسموں کے ضمن میں آتے ہیں، جیسے آپ ﷺ کا یہ فرمانا "وایم الله"( اللہ کی قسم) اور یہ فرمانا "والذی نفسی بيده" (قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے) اور یہ فرمانا "لا ومقلب القلوب" (دلوں کو پھیرنے والے کی قسم ہے)([433])۔
نیز جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وارد ہے، امام ترمذی روایت کرتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کوکہتے سنا: ایسا نہیں، قسم ہے کعبہ کی، تواس سے کہا: غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا ہے: جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا([434])۔جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث غیر اللہ کی ہر طرح کی قسم کھانے کی ممانعت میں عام ہے۔ نیز بعض دوسری خاص احادیث بھی وارد ہیں جیسے آبا واجداد کی قسمیں کھانے کی ممانعت والی حدیث۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی کو قسم کھانی ہو ہے وہ صرف اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے([435])۔
اسی طرح امانت کی قسم کھانے کے متعلق بھی خاص حدیث آئی ہے۔ چنانچہ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے امانت کی قسم کھائی ‘ وہ ہم میں سے نہیں ([436])۔
اور نبیوں کی قسم اور کسی کی زندگی کی قسم کھانی بھی جائز نہیں ہے۔ جیسے کوئی کہے: تمہاری زندگی کی قسم یا فلان کی زندگی کی قسم یا اس جیسے دوسرے جملے جس میں غیر اللہ کی قسمیں کھائی جائیں، یہ سب جائز نہیں ہے۔
ث. طلاق دینے کی قسم ٹھانا: بعض جاہل لوگوں میں یہ رواج ہے کہ وہ طلاق دینے کی قسم اٹھا لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں :میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا ورنہ اللہ کی قسم میں طلاق دے دوں گا، یا میں یہ کام نہیں کروں گا، ورنہ اللہ کی قسم میں طلاق دے دوں گا۔ ایسا کرکے یہ جاہل آدمی اپنے گھر کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے اور اپنے بے گناہ اہل وعیال پر ظلم وستم ڈھا سکتا ہے جبکہ پوری غلطی اسی بے وقوف کی ہوتی ہے جس نے انجام کی پرواہ کئے بغیر اپنی زبان چلا دی۔ اور کبھی کبھی جس امر پر قسم کھائی گئی ہو وہ معمولی شیئ ہو جیسے کوئی شخص کسی شخص کے خلاف اس کے گھر میں داخل ہونے کے متعلق قسم کھالے، یا اس جیسی دوسری قَسمیں۔
طلاق کی قسم کھاکر اس قسم کو توڑ دینے پر علما کا اختلاف ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگی یا نہیں۔ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ طلاق کی قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی، جبکہ اہل علم کی ایک جماعت نے اسے یمین(قسم کھانا) کی طرح قرار دیا ہے، لہذا قسم توڑنے پر اسے کفارہ یمین(قسم توڑنے کا کفارہ) دینا ہوگا۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنے ایک جواب فرماتے ہیں: جہاں تک ان لوگوں کے طلاق کی قسم اٹھانے کی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ کی قسم میں طلاق دے دوں گا، یا اگر تونے ایسا نہ کیا تو اللہ کی قسم میں طلاق دے دوں گا، یا اگر تونے ایسا کیا تو میری بیوی کو طلاق ہوجائے گی، یا اگر تونے ایسا نہ کیا تو میری بیوی کو طلاق ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ؛ تو یہ سارا طریقہ نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے خلاف ہے۔ بہت سے اہل علم بلکہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر اس نے قسم توڑ دی تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اس کی بیوی مطلقہ ہوجائے گی، گرچہ قول راجح یہ ہے کہ اگر اس نے یہ جملہ ازراہ یمین(قسم) کہا ہے یعنی اس کا مقصد کسی چیز پر ابھارنا یا اس سے روکنا، یا کسی امر کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنا یا کسی امر کی تاکید کرنی ہو؛ تو اس کا حکم یمین(قسم) کا ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے.
چنانچہ آپ ﷺ کے اس چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کو اللہ نے یمین(قسم)قرار دیا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی نے نیت کی ہوگی۔ لہذا اس شخص نے طلاق دینے کی نیت نہیں کی بلکہ اس نے قسم کھانے کی نیت کی ہےیا قسم کا معنی دل میں رکھ کر یہ جملہ کہا ہے(کہ میں طلاق دے دوں گا)۔ اس لئے اگر وہ قسم توڑ دے تو اس کے لئے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا ہی کافی ہوگا( یعنی طلاق واقع نہ ہوگی)، یہی راجح قول ہے([437])۔
ج. کسی منافق کو "سید"(سردار، آقا) یا "سیدی"(میرے سردار، میرے آقا) کہنا: اس سلسلے میں بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: کسی منافق کو ’’سید ‘‘( سردار ، آقا ) کہہ کر مت پکارو ۔ اس لیے کہ اگر وہ سردار ہوا تو تم نے اپنے رب عزوجل کو ناراض کر دیا ([438])۔
"اگر وہ سردار ہوا" یعنی اگر وہ اپنی قوم کا سردار ہو یا غلام، لونڈیوں اور مال ودولت کا مالک ہو۔
" تو تم نے اپنے رب عز وجل کو ناراض کردیا" یعنی تم نے اسے غصہ دلا دیا کیونکہ ایسا کہنا اس منافق کی تعظیم ہے جبکہ وہ کسی تعظیم کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
اندازہ لگایا جائے اگر وہ کسی طرح کا سردار بھی نہ ہو تو اس کو سردار کہنے کا کیا حکم ہوگا، تب تو یہ جھوٹ اور منافقت ہو گی۔ ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: منافق کو سردار نہ کہو کیونکہ اگر منافق ہوتے ہوئے وہ تمہارا سردار ہوا تو گویا تم اس سے کمتر ہو، جبکہ تم اس سے کمتر رہو، یہ اللہ کو ہرگز پسند نہیں۔ یہ قول عون المعبود میں ہے([439])۔
تنبیہ: انگریزی زبان بولنے والوں میں کسی کو مخاطب کرتے وقت لفظ (mister) کا استعمال بہت عام ہے ،جس کا مطلب سردار یا میرے سردار ہوتاہے، کیونکہ اہل زبان کا یہی طریقہ ہے۔ جبکہ منافق کو اس کلمہ سے مخاطب کرنے کی ممانعت آئی ہے، لہذا بدرجہ اولی کسی مسلمان کا کسی کافر کو مخاطب کرنے یا اسے آواز دیتے وقت اس لفظ کا استعمال کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ اعتبار معنی مقصود کا ہوتا ہے، نہ کہ ظاہری الفاظ کا، واللہ اعلم۔
امام ابن قیم "أحکام أهل الذمة" میں رقمطراز ہیں: فصل: اہل کتاب کو میرے سردار یا میرے آقا کہہ کر مخاطب کرنا۔ اہل کتاب کا ہمارے سردار یا ہمارے آقا وغیرہ کہہ کر مخاطب کیا جانا قطعا حرام ہے([440])۔
ح. زمانہ کو برا بھلا کہنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملات ہیں۔ رات اور دن کو میں ہی پھیرتا ہوں([441])۔
اور مسند احمد کی روایت میں ہے: زمانے کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اللہ عز وجل نے فرمایا: میں ہی زمانہ ہوں اور دن ورات میرے ہیں، میں ہی ہر نیا دن لاتا ہوں اور اسے پرانا کردیتا ہوں اور میں ہی یکے بعد دیگرے لوگوں کو بادشاہت عطا کرتا رہتا ہوں([442])۔
زمانہ جاہلیت میں عربوں کی یہ عادت تھی کہ جب انہیں کوئی بلا یا مصیبت پہنچتی تو وہ زمانہ کو برا بھلا کہتے تھے، بلکہ اس امت کے بھی بعض لوگ گرچہ وہ قلت میں ہیں؛ اہل جاہلیت کی بعض صفات سے متصف ہیں اور مصیبت نازل ہونے پر انہی کی طرح حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ اس حدیث میں زمانہ کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ زمانہ کو گالی دینا درحقیقت زمانے کی خالق اور اس کو قابو کرنے اور اس میں رد وبدل کرنے والے کو گالی دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں زمانہ کو گالی دینے یا اسے برا بھلا کہنے سے منع کردیا گیا تاکہ وہ زمانہ کے خالق کو برا بھلا کہنے اور اسے گالی دینے سے بچ سکیں([443])۔
مسئلہ: کیا یہ کہنا جائز ہے: "بے کار زمانہ" یا "زمانہ غدار ہے" یا "ہائے بربادی جسے میں نے زمانہ میں دیکھا ہے"۔
جواب: ابن عثیمین حفظہ اللہ ([444])فرماتے ہیں: جن عبارات کو سوال میں پیش کیا گیا ہے انہیں دو اعتبار سے دیکھا جائے گا:
اول: ان کے ذریعہ زمانہ کو گالی دی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے۔ اگر ایسا ہو تب تو ان کو کہنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے، کیونکہ زمانہ میں جو کچھ تبدیلی آتی ہے وہ اللہ کی جانب سے آتی ہے۔ لہذا جس نے زمانہ کو برا بھلا کہا درحقیقت اس نے اللہ کو گالی دی۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے، وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے جبکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام معاملاتِ ہیں اور میں ہی دن ورات کو بدلتا ہوں۔
دوم: ان الفاظ کو برسبیل اخبار کہا جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ لوط علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وقال هذا يوم عصيب(یعنی لوط علیہ السلام نے کہا کہ آج کا دن بہت مصیبت کا دن ہے) یعنی بڑا سخت ترین دن ہے۔ اور ہر آدمی یہ جملہ کہتا ہےکہ یہ بڑا سخت دن ہے، اور اس دن میں ایسا ایسا ہے۔ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن" یہ زمانہ غدار ہے" کہنا درحقیقت گالی ہے کیونکہ غداری ایک مذموم صفت ہے۔لہذا ایسا کہنا جائذ نہیں ہے۔
اسی طرح جہاں تک یہ جملہ کہنے کی بات ہے: "ہائے بربادی جسے میں نے زمانہ میں دیکھا ہے"، تو اگر کہنے والے نے "ہائے میری بربادی" مراد لی ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ زمانہ کو گالی دینا نہیں ہوا۔ لیکن اگر اس نے زمانہ یا دن کو مراد لیا ہو تو یہ زمانہ کو گالی دینا ہے اور یہ جائز نہیں ہے([445])۔
خ. "تم پر حرام ہے" یا "تم پر ایسا کرنا حرام ہے" کہنا: کسی چیز کو حرام قرار دینا جائز نہیں ہے الا یہ کہ کسی چیز کو اللہ یا اس کا رسول حرام قرار دیں۔ کیونکہ کسی چیز کو حرمت کی صفت سے متصف کرنا اللہ ربوبیت میں دخل اندازی ہے گرچہ انسان کی نیت درست ہو۔نیز اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ چیز حرام ہے جبکہ وہ حرام نہیں ہوتی ہے۔ دینی اعتبار سے انسان کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ ان جملوں سے پرہیز کرے([446])۔ کیونکہ ایسا کہنے والے کے متعلق یہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل نہ ہوجائے: {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُون}
ترجمہ: کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں([447])۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ بغیر کسی دلیل کے اپنی زبان سے نکلی ہوئی کسی بات کے سبب چیزوں کو حرام وحلال نہ کیا کرو([448])۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {يَاأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيم}
ترجمہ: اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں([449])۔
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: {كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِين}
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اورزمین میں فساد نہ کرتے پھرو([450])۔
نیز نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: اے لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاو اور اپنے سامنے سے کھاو([451])۔
آداب کا بیان:
1۔ سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے کی ممانعت: سونے اور چاندی کے برتنوں اور پلیٹوں میں کھانے پینے والوں کے لئے احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ریشم اور دیباج نہ پہنو اور نہ سونے چاندی کے برتنوں میں کچھ پیو اور نہ ان کی پلیٹوں میں کچھ کھاؤ کیونکہ یہ چیزیں دنیا میں ان (کافروں) کے لیے اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں([452])۔
اور ام المومنین سیدہ ام سلمہ ؓ (زوجہ نبی مکرم ﷺ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص چاندی کے برتن میں پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹ غٹ کر کے([453]) ڈال رہا ہے([454])۔علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس میں پینا جائز نہیں ہے([455])۔
نیز کوئی ایسی نص نہیں ہے جو اس حکم کی حکمت کو بیان کرے۔ ایک مسلمان کے پاس جب کتاب وسنت صحیحہ سے کوئی دلیل آجائے تو انگلی کے پورے کے برابر بھی اسے اس سے متجاوز نہیں ہونا چاہیے اور نہ عمل میں آسانی کے لئے ا س میں تاویل سے کام لینا چاہیے۔ بعض اہل علم نے اس ممانعت کی حکمت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں ان کے آراء مختلف ہیں۔ ان کے بیان کردہ حکمتوں میں سے چند یہ ہیں: ظالم وجابر اور عجمی بادشاہوں سے مشابہت، فضول خرچی اور تکبر، اور نیکوکار اور فقرا جن کے پاس ان میں سے اپنی ضروریات وحاجات کا سامان بھی نہیں ہوتا ہے، انہیں تکلیف پہنچانا۔ یہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا قول ہے([456])۔
فائدہ: اسماعیلی کہتے ہیں: "تمہارے لئے یہ چیزیں آخرت میں ہیں(یہ جملہ ایک روایت میں ہے): یعنی دنیا میں جو تم نے ان کو ترک کردیا تھا، آخرت میں تم انہیں بطور بدلہ استعمال کروگے، اور ان لوگوں نے جو ان کو استعمال کرکے اللہ کی نافرمانی کی تھی اس کا بدلہ وہاں انہیں ان چیزوں سے محروم کرکے دیا جائے گا۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں: ممکن ہے کہ اس میں اس جانب اشارہ ہو کہ جو دنیا میں اس کو خوب استعمال کرےگا وہ آخرت میں اس کو استعمال نہ کرسکے گا جیسا کہ شراب پینے کے بارے میں گزر چکا([457])۔
2۔ ٹیک لگا کر اور پیٹ کے بل اوندھے لیٹ کر کھانا منع ہے: سیدنا ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں تھا کہ آپ نے اپنےپاس موجود ایک آدمی (صحابی) سے فرمایا: ”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا([458])۔
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ٹیک لگانے کے طریقے پر اختلاف ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا مطلب کھانے کے لئے کسی بھی طریقے پر بیٹھنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی کسی ایک طرف جھک کر بیٹھنا ہے۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب بائیں ہاتھ سے زمیں پر ٹیک لگانا ہے۔ خطابی کہتے ہیں: عوام یہ سمجھتی ہے کہ ٹیک لگانے کا مطلب کسی ایک طرف جھک کر کھانا ہے جبکہ اس کا مطلب ہے مسند پر بیٹھ کر کھانا۔
اور ابن حجر فرماتے ہیں: جب اس عمل کا مکروہ یا خلاف اولی ہونا ثابت ہوگیا تو کھانے کے لئے بیٹھنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ دوزانو ہوکر بیٹھے یا دائیں پیر کو بچھالے اور بائیں پیر پر بیٹھ جائے([459])۔اس کراہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ طریقہ جابر وظالم عجمی بادشاہوں کا ہے۔ نیز اس طرح وہ شخص بیٹھتا ہے جو بہت کھانا کھانا چاہتا ہے([460])۔
دوسرا طریقہ ؛ یعنی آدمی کا پیٹ کے بل اوندھے لیٹ کر کھانا: اس کی ممانعت کی دلیل یہ ہے: سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھانے کے متعلق دو باتوں سے منع فرمایا ہے۔ ایک ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جس پر شراب پی جائے، دوسرے پیٹ کے بل اوندھے لیٹ کر کھانا([461])۔
فائدہ: نبی اکرم ﷺ کا کھانے کے لئے بیٹھنے کا طریقہ: آپ ﷺ صفت اقعاء میں (دونوں گٹھنے کھڑے کرکے تھوڑے سے زمین پر لگ کر) بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ اپنے گھٹنوں کے بل تورک کرکے کھانے کے لئے بیٹھتے تھے اور اللہ عزوجل کے لئے انکساری اختیار کرتے ہوئے اپنے بائیں پیر کے اندرونی حصے کو دائیں پیر کے ظاہری حصے پر رکھ دیتے تھے۔ یہ تفصیل ابن القیم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے([462])۔
پہلی صورت کے متعلق حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دونوں گھٹنے کھڑے کر کے ([463])تھوڑے سے زمین پر لگ کر بیٹھے تھے،کھجوریں کھا رہے تھے([464])۔
اور دوسری صورت کے متعلق حضرت عبد للہ بن بسر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک بکری نبیﷺ کی خدمت میں ہدیے کے طور پر پیش کی، رسول اللہﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کھانے لگے۔ ایک اعرابی نے (تعجب سے) کہا: بیٹھنے کا یہ کیسا انداز ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے شریف بندہ بنایا ہے، متکبر اور سرکش نہیں بنایا۔‘‘([465])
3۔ جب کھانا حاضر ہو تو اسے نماز پر مقدم کرنا: اس مسئلے میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: جب رات کا کھانا سامنے رکھ دیا جائے اور نماز بھی کھڑی ہو گئی ہوتو پہلے کھانا کھاؤ۔([466])اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا رات کا کھانا لگا دیا جائے اور نماز کے لیے اقامت ہو جائے تو کھانے سے ابتدا کرو اور وہ (شخص) نماز کےلیے جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس کھانے سے فارغ ہو جائے۔‘‘([467])
ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے اگر رات کا کھانا لگا دیا جاتا اور نماز کا وقت ہوجاتا تو آپ بغیر اس سے فارغ ہوئے نہ اٹھتے تھے۔ امام احمد نے اپنی مسند نے روایت بیان کی ہے: نافع سے مروی ہے کہ بسا اوقات ابن عمر رضی اللہ عنہما روزہ سے ہوتے تو انہیں بھیج دیا کرتے تھے لہذا جب وہ انہیں رات کا کھانا پیش کرتے تو مغرب کی اذان ہوجاتی۔ اس کے بعد اقامت بھی کہہ دی جاتی اور وہ اسے سن رہے ہوتے لیکن اپنا کھانا نہ چھوڑتے یہاں تک اسے ختم کرلیتے اس کے بعد نماز کے لئے نکلتے۔ نافع کہتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے: اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے سامنے رات کا کھانا پیش کردیا جائے تو کھانا کھانے میں جلد بازی سے کام نہ لو([468])۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اٹھ جائے اور اس کا نفس کھانے میں ہی اٹکا رہے۔ نتیجے کے طور وہ بے چین رہے اور نماز میں خشوع وخضوع جاتا رہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے بسند حسن ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ یہ دونوں کھانا کھارہے ہوتے تھے اور تنور میں گوشت بھنا رہا ہوتا تھا۔ پھر جب موذن اقامت کہتا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما اس سے کہتے کہ جلدبازی سے کام نہ لو کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اٹھ جائیں اور ہمارے دل میں کچھ نا کچھ کھانے کی خواہش باقی رہ جائے۔ اور ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں ہے: تاکہ ہماری نماز میں اس کی وجہ سے کوئی خلل نہ ہو([469])۔
یہ حکم فقط رات کے کھانے کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ حکم ہر اس کھانے کے متعلق ہے جس میں انسان کا دل لگا رہتا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھانا اور دو خباثت بھری چیزوں(بول وبراز) کی موجودگی میں نماز سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’کھانا سامنے آ جائے تو نماز نہیں۔ اور نہ وہ (شخص نماز پڑھے) جس پر پیشاب پاخانہ کی ضرورت غالب آ رہی ہو۔‘‘([470])
فائدہ: بعض علما نے کہا کہ جس کے سامنے کھانا آجائے اس کے بعد اقامت کہہ دی جائے تو اسے چند لقمے کھا لینے چاہئے جس سے اس کی بھوک کی شدت ختم ہوجائے۔ اس پر امام نووی رحمہ اللہ رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمانا "نماز کے لئے جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اس کھانے سے فارغ ہوجائے"، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے شخص کو حاجت بھر مکمل کھانا کھالینا چاہئے، یہی درست موقف ہے۔ اور جہاں تک ہمارے بعض اصحاب نے جو یہ تاویل پیش کی ہے اسے چند لقمے کھا لینے چاہئے تاکہ بھوک کی شدت ختم ہوجائے، تو یہ بات درست نہیں ہے اور مذکورہ حدیث اس کو صراحتاً باطل قرار دے رہی ہے([471])۔
مسئلہ: جب کھانا حاضر کردیا جائے اور اقامت کہہ دی جائے تو کیا حدیث کے ظاہری معنی پر عمل کرتے ہوئے کھانا تناول کرلینا واجب ہے، یا یہ حکم استحبابی ہے؟
جواب: مسند احمد وغیرہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل اس بات پر دلالت کرتا کے کہ مطلق طور پر کھانے کو نماز پر مقدم کیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے یہ قید لگائی ہے کہ ایسا تب کیا جائے گا جب دل کھانے میں لگا رہے۔ پس اگر دل کھانے میں اٹکا رہے تو اس کے حق میں افضل یہی ہے کہ وہ کھانا کھالے تاکہ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرسکے۔ جیسا کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے: یہ انسان کی سمجھداری کی علامت ہے کہ وہ اپنی حاجت پوری کرلے تاکہ جب وہ نماز کے لئے آئے تو اس کا دل (ہر قسم کے سوچ وفکر) فارغ ہو([472])۔
راجح بات وہ ہے جسے ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اثرِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بیان کرنے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے اس اثر کو ذکر کرنے کے بعدکہ: نماز سے پہلے رات کا کھانا کھالینا نفس لوامہ کو دور کردیتا ہے؛ فرمایا: ان تمام آثار میں یہ اشارہ موجود ہے کہ دل کا کھانے میں لگا رہنا ہی اس حکم کی علت ہے۔ لہذا حکم کو اپنی علت کے موجود یا غیر موجود ہونے کے اعتبار سے ہی موجود یا غیر موجود ہونا چاہیے، نہ کہ تھوڑا یا مکمل کھانا تناول کرنے کے اعتبار سے([473])۔
4۔کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونا: کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے متعلق مجھے نبی اکرم ﷺ تک کوئی بھی ایسی صحیح ومرفوع حدیث نہیں ملی جس پر اعتماد کیا جاسکے۔امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کھانے کے بعد ہاتھ دھونے والی حدیث حسن ہے جبکہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ہے([474])۔
لیکن ایسا کرنا مستحب عمل ہے تاکہ ہاتھ میں لگی گندگی کو دور کیا جاسکے جو جسم کے لئے نقصاندہ ہے۔امام احمد سے اس مسئلے میں دو روایات ملتی ہیں جن میں سے ایک کراہت کی جبکہ دوسری استحباب کی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں تفصیل بیان کی ہے اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کو گندگی لگی رہنے سے مقید کیا ہے۔ نیز اپنی کتاب الآداب میں ابن مفلح رحمہ اللہ نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے وہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے استحباب کے قائل ہیں اور اہل علم کی ایک جماعت کا بھی یہی موقف ہے([475])۔الحمدللہ اس معاملے میں وسعت ہے۔
اور جہاں تک کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں کئی صحیح احادیث مروی ہیں، جن میں چند یہ ہیں:
· سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حال میں سو گیا کہ اس کے ہاتھ پر چکنائی([476]) لگی رہ گئی اور اس نے اس کو دھویا نہیں اور پھر اسے کچھ ہو گیا تو اپنے آپ ہی کو ملامت کرے([477])۔
· حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بکری کے شانے کا گوشت تناول فرمایا، پھر کلی کی، ہاتھ دھوئے اور نماز ادا کی([478])۔
· ابان بن عثمان سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے گوشت اور روٹی کھائی اس کے بعد کلی کی اور اپنے دونوں ہاتھ دوئے۔ پھر ان سے اپنے چہرے کا مسح کیا لیکن وضو نہیں کیا([479])۔
فائدہ: جو حالت جنابت میں ہو اس کے لئے بعض اہل علم نے کھانا کھانے سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث اور ایک اثر مروی ہے۔ حدیث یہ ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب جنابت کی حالت میں سونا چاہتے یا کھانا چاہتے تو اس سے پہلے نماز کے وضو کی طرح وضو کر لیتے تھے۔ نیز مسند احمدمیں وضو شرعی کے علاوہ مزید اضافہ ہے کہ: رسول اللہ ﷺ جب حالت جنابت میں ہوتے اور سونا چاہتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کرلیتے اور جب آپ کھانا یا پینا چاہتے تو اپنی ہتھیلیوں کو دھوتے تب اگر چاہتے تو کھاتے یا پیتے([480])۔
اور اثر یہ ہے: نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حالت جنابت میں سونا یا کھانا چاہتے تو اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنی تک دھوتے اور اپنے سر کا مسح کرتے اس کے بعد سوتے یا کھاتے([481])۔
شیخ تقی الدین( ابن تیمیہ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے کھانا کھانے کے لئے وضو کو مستحب قرار دیا ہو الا یہ کہ آدمی حالت جنابت میں ہو([482])۔
تنبیہ: حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضو فرماتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو ہاتھ دھو لیتے([483])۔ اس حدیث سے محدث البانی رحمہ اللہ نے کھانے سے پہلے مطلق طور پر ہاتھ دھونے کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے([484])۔لیکن اس مشروعیت کو مطلق قرار دینا کئی وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔
پہلی وجہ: یہ حدیث سونے اور کھانے پینے کے متعلق حالت جنابت میں نبی اکرم ﷺ کے عمل کو بیان کررہی ہے۔
دوسری وجہ: بعض روایات میں وضو کرنے کا تذکرہ ہے جبکہ بعض میں ہاتھوں کو دھونے کا ذکر ہے۔ ایسا اس لئے تاکہ دونوں عمل کے جواز کو بیان کیا جاسکے۔
سندی رحمہ اللہ اپنے حاشیہ میں فرماتے ہیں: " آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو دھو یا" یعنی کبھی آپ نے اسی پر اکتفا کیا تاکہ اس کو بھی جائز قرار دے سکیں اور کبھی وضو کیا تاکہ کمال حاصل ہوسکے([485])۔
تیسری وجہ: امام مالک، احمد، ابن تیمیہ اور نسائی جیسے محدثین وائمہ رحمہم اللہ ([486]) کا کلام ہم نے نقل کیا؛ یہ لوگ اس حدیث کو روایت کرنے کے باوجود اس کو مطلق طور پر محمول کرنے کے قائل نہیں ہیں جس طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے مطلق قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ معاملہ حالت جناب پر محمول کیا جائے گا۔ لہذا اس حدیث میں کھانے سے پہلے وضو اور ہاتھوں کو دھونا حالت جنابت کے ساتھ مقید ہے۔واللہ اعلم۔
5۔ کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ کہنا اور اس کے بعد اللہ کی حمد بیان کرنا: کھانا تناول کرنے سے پہلے انسان کا بسم اللہ کہنا اور اس کے بعد اللہ کی حمد بیان کرنا مسنون ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ کہنے اور اس کے آخر میں اللہ کی حمد بیان کرنے کا کھانے اور پینے کی چیزوں پر بڑا عجیب وغریب اثر ظاہر ہوتا ہے یعنی اس سے اس کا فائدہ بڑھ جاتا ہے، کھانے میں عمدگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس سے ہونے والا نقصان ختم ہوجاتا ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں: اگر کھانے میں چار چیزیں جمع ہوجائیں تو کھانے میں کمال پیدا ہوجاتا ہے: اس کی ابتدا میں اللہ کا نام لے لیا جائے، اس کے آخر میں اس کی حمد بیان کردی جائے، وہ کھانا زیادہ لوگ کھائیں اور وہ کھانا حلال ہو([487])۔
کھانے سے پہلے بسم اللہ کہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں شیطان کی مشارکت حرام کردی جاتی ہے اور اس کی جانب سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تو اپنے ہاتھ نہ ڈالتے جب تک آپ ﷺ شروع نہ کرتے اور ہاتھ نہ ڈالتے۔ ایک دفعہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ کھانے پر موجود تھے اور ایک لڑکی دوڑتی ہوئی آئی جیسے کوئی اس کو ہانک رہا ہے اور اس نے اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنا چاہا تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر ایک دیہاتی دوڑتا ہوا آیا تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر فرمایا کہ شیطان اس کھانے پر قدرت پا لیتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے اور وہ ایک لڑکی کو اس کھانے پر قدرت حاصل کرنے کو لایا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر اس دیہاتی کو اسی غرض سے لایا تو میں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اس (شیطان) کا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔"([488])
اللہ کا نام لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کھانے والا "بسم اللہ" کہے۔ عمر بن ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں صغر سنی میں رسول اللہ ﷺ کے ہاں زیر پرورش تھا، کھاتے وقت برتن میں میرا ہاتھ چاروں طرف گھوما کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: بیٹے! کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے تناول کرو۔اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا([489])۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاذکار میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" مکمل کہنے کو افضل قرار دیا ہے۔ البتہ اگر فقط "بسم اللہ" کہے تو بھی کافی ہے اور سنت پر عمل ہو جائے گا([490])۔اس پر ابن حجر رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں رد کیا ہے کہ: انہوں نے جو دعوی کیا ہے میرے نزدیک اس کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے([491])۔
میں کہتا ہوں: اکثر نصوص میں "الرحمٰن الرحیم" کے اضافے کے بغیر "بسم اللہ" یا اس جیسے ہی الفاظ ہیں۔ بلکہ طبرانی میں "الرحمٰن الرحیم" کے اضافے کے بغیر تسمیہ کے الفاظ (بسم اللہ) عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیٹے! جب تم کھاو تو کہو "بسم اللہ"، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے تناول کرو([492])۔
اور اگر کھانے والا بسم اللہ کہنا بھول جائے اور اسے دوران کھانا یاد آئے تو اسے "بسم الله أوله وآخره" یا "بسم الله في أوله وآخره" کہنا چاہیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی کھانا کھانے لگے تو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرے، اگر شروع میں بھول جائے تو چاہیئے کہ یوں کہے «بسم الله أوله وآخره» اللہ کے نام سے اس (کھانے) کے شروع میں اور آخر میں بھی([493])۔
اور جہاں تک کھانے اور پینے کے بعد حمد بیان کرنے کی بات ہے تو اس کی بڑی فضیلت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے۔ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات پر (اپنے) بندے سے راضی ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی کھانا کھائے تو اس پر اللہ کی حمد کرے یا پینے کی کوئی چیز (پانی، دودھ وغیرہ) پیے تو اس پر اللہ کی حمد کرے۔"([494])
کھانے اور پینے کے بعد حمد بیان کرنے کے کئی الفاظ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
أ۔الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّنَا، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلاَ مُوَدَّعٍ ([495]) وَلاَ مُسْتَغْنًى، رَبَّنَا
ب۔الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَفَانَا وَأَرْوَانَا، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلاَ مَكْفُورٍ
سیدنا ابو امامہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے یا جب اپنا دسترخوان اٹھاتے تو یہ دعا پڑھتے : الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَفَانَا وَأَرْوَانَا، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلاَ مَكْفُورٍ (تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کافی کھلایا اور سیراب کیا۔ نہ(یہ کھانا) کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے) اور نہ ہم اس نعمت کے منکر ہیں۔) ایک مرتبہ آپ نے یوں دعا کی: الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّنَا، غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلاَ مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنًى، رَبَّنَا(اسے ہمارے رب! تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں۔ نہ یہ کھانا کفایت کیا گیا (کہ مزید کی ضرورت نہ رہے) اور نہ اسے وداع کیا گیا ہے اور اے ہمارے رب! نہ ہمیں اس سے بے نیازی ہو۔) ([496])
ت۔الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلاَ قُوَّةٍ
معاذ بن انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کھانا کھایا پھر کھانے سے فارغ ہو کر کہا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلاَ قُوَّةٍ (حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر میری کسی کوشش و قوت کے مجھے یہ رزق عنایت فرمایا)([497])
ث۔الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَ وَسَقَى وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجًا
سیدنا ابوایوب انصاری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کچھ کھاتے پیتے تو یوں کہا کرتے تھے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَ وَسَقَى وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجًا (حمد اس اللہ کی جس نے کھلایا، پلایا، اسے خوش گوار بنایا اور اس کے باہر نکلنے کا نظام بھی بنا دیا۔)([498])
ج۔ اللهم أطعمت وأسقيت وأقنيت وهديت وأحييت فلله الحمد على ما اعطيت.
عبد الرحمن بن جبیر سے مروی ہے کہ انہیں اس شخص نے خبر دی جس نے آٹھ سال رسول اللہ ﷺ کہ خدمت کی کہ جب کوئی کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ” بسم اللہ“ پڑھتے اور جب کھانے سے فارغ ہوتے تو کہتے: اللهم أطعمت وأسقيت وأقنيت وهديت وأحييت فلله الحمد على ما اعطيت (اے اللہ! تو نے کھلایا، تو نے پلایا، تو نے راضی و مطمئن کیا، تو نے ہدایت دی اور تو نے زندہ کیا، سو تیرے لیے ہی تعریف ہے (ان نعمتوں پر) جو تو نے عطا کیں۔)([499])
فائدہ: کھانے کے بعد حمد بیان کرنے کے جتنے الفاظ وارد ہیں ان سب کا پڑھنا مستحب ہے۔ لہذا کبھی آدمی کوئی دعا پڑھ لے اور کبھی کوئی تاکہ اسے یہ تمام احادیث یاد ہوجائیں، ان دعاوں کی برکت حاصل ہو اور ان دعاوں کے معانی کو ذہن میں رکھ کر کبھی کوئی دعا اور کبھی کوئی دعا پڑھنے سے اسے نفس کا سکون میسر ہو۔ کیونکہ جب نفس کسی چیز کی جیسے کوئی خاص ذکر/دعا کو پڑھنے کی عادی ہوجاتی ہے تو کثرت تکرار کی وجہ سے اس کے معانی ذہن میں کم ہی مستحضر رہ پاتے ہیں۔
فائدہ 2: عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جسے اللہ کھانا کھلائے، اسے کھا کر یہ دعا پڑھنی چاہیے: (اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ) اور جس کو اللہ دودھ پلائیے اسے کہنا چاہیے (اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ وَزِدْنَا مِنْهُ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کھانے وپینے کی جگہ ان دونوں کی ضرورت پوری کر سکے‘‘([500])۔
6۔ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا چاہیے اور بائیں ہاتھ سے کھانا پینا منع ہے: اوپر کے سطور میں عمرو بن ابی سلمہ کو نبی اکرم ﷺ کی یہ ہدایت گزری : بیٹے! کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے تناول کرو([501])۔نیز جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بائیں ہاتھ سے نہ کھایا کرو کیونکہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا ہے([502])۔اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب تم میں سے کوئی شخص پئے تو اپنے دائیں ہاتھ سے پئے کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتاہے اوربائیں ہاتھ سے پیتا ہے([503])۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: چونکہ بائیں ہاتھ کو استنجا کرنے(پیشاب کرنے کے بعد پانی استعمال کرنے) اور ناپاک چیزوں کو چھونے کے لئے جبکہ دائیں ہاتھ کو کھانا کھانے کے لئے بنایا گیا ہے اس لئے ان دونوں کا ایک دوسرے کے کام کو انجام دینا درست نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مرتبے والے کی عزت وشرف میں کمی آتی ہے اور کم درجے والے کے درجے میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہذا جس نے حکمت کے خلاف عمل کیا اس نے شیطان کی موافقت کی([504])۔
اس سلسلے میں احادیث اتنی مشہور ہیں کہ عوام سے بھی مخفی نہیں اس کے باوجود بہت سے مسلمان-اللہ انہیں ہدایت دے- اس بری خصلت یعنی بائیں ہاتھ سے کھانے پینے کے شکار ہیں ۔ اور جب انہیں اس سلسلے میں کچھ کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اب ہماری عادت بن چکی ہے اور اسے ترک کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔ اللہ کی قسم یہ بس شیطان کی دھوکہ بازی ہے جسے وہ مزین کرکے ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیں شریعت کی اتباع سے روکتا ہے۔ من جملہ طور پر درحقیقت یہ انکے دلوں میں ایمان کی کمی کی دلیل ہے ورنہ نبی اکرم ﷺ کے حکم اور آپ کی ممانعت کی خلاف ورزی کا کیا معنی ہوسکتا ہے!
نیز ان لوگوں میں خبیث ترین شخص تو وہ ہے جو تکبر وغرور میں ایسا کرتا ہے۔ چنانچہ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھا۔ وہ بولا کہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کرے تجھ سے نہ ہو سکے۔ وہ ساری زندگی اس ہاتھ کو منہ تک نہ اٹھا سکا۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے: اس کا دایاں اس کے بعد کبھی اس کے منھ تک نہ جاسکا([505])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں بلا عذر، حکم شرعی کی خلاف ورزی کرنے والے کو بددعا دینے کے جواز کی دلیل موجود ہے۔ نیز اس حدیث میں ؛ ہر حال میں حتی کہ کھانے کے وقت بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی اور اگر کھانے والا کھانے کے آداب کی خلاف ورزی کرے تو اسے کھانے کے آداب سکھانے کی تعلیم دی گئی ہے([506])۔
فائدہ: اگر کوئی ایسا عذر ہو جسکی وجہ سے دائیں ہاتھ سے نہ کھایا جاسکے تو بائیں ہاتھ سے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔
7۔ اپنے سامنے سے کھانا: حدیث عمرو بن سلمہ کی ایک روایت اس طرح بھی ہے، انھوں نےکہا:ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھایا اور میں نے پیالے کی ہر جانب سے گوشت لینا شروع کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"اپنے آگے سے کھاؤ۔"([507])
اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ جہاں سے لوگ ہاتھ ڈال کر کھارہے ہوں وہاں سے کھانا سوء ادب ہے اور ممکن ہے کہ کھانے والے اس حرکت کی وجہ سے گھن محسوس کریں ، بلکہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں کوئی ہم پر اعتراضًا یہ کہہ سکتا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہیں گے: ایک درزی نے نبی ﷺ کو کھانے کی دعوت دی جو اس نے خصوصی طور پر آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ میں بھی نبی ﷺ کے ہمراہ گیا۔ اس نے جوکی روٹی اور شوربا پیش کیا جس میں کدو اور خشک گوشت تھا۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ کدو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھا رہے ہیں([508])۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ یہاں ہم وہی کہیں گے جو ابن عبد البر رحمہ اللہ نے کہا ہے: اگر شوربا ، سالن اور کھانے میں دو یا اس سے زیادہ انواع ہوں تو ہاتھ کو ہر جانب لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ دسترخوان پر جو کچھ ہے اس میں سے منتخب کرکے کھایا جاسکے۔ اس کے بعد حدیث کے اس لفظ "اپنے سامنے سے کھاو" پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا: آپ ﷺ نے اپنے سامنے سے کھانے کا حکم اس لئے دیا تھا کیونکہ ایک ہی قسم کا کھانا موجود تھا۔واللہ اعلم۔ اہل علم نے یہی تشریح بیان کی ہے([509])۔اس طرح دونوں احادیث میں جمع وتطبیق کی صورت نکل گئی۔واللہ الموفق۔
8۔ پلیٹ کے کنارے سے کھانا ،نہ کے اس کے اوپر(درمیان) سے: اس سلسلے میں ایک حدیث ہے، سیدنا ابن عباس ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی کھانا کھانے لگے تو پیالے کے اوپر (درمیان) سے نہ کھائے بلکہ نیچے (ایک جانب) سے کھائے۔ بلاشبہ برکت اس کے اوپر کی طرف سے اترتی ہے۔ اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: پلیٹ کے کناروں سے کھاو، اس کے درمیان سے نہ کھاو کیونکہ اس کے درمیان میں برکت نازل ہوتی ہے([510])۔
درمیانی حصے کو برکت کے نزول کے لئے اس خاص کیا گیا کیونکہ یہی سب سے موزوں جگہ ہے۔ اور ممانعت کی علت یہ ہے کہ کھانے والا درمیان میں نازل ہورہی برکت سے محروم نہ رہ جائے ۔ اسی طرح اگر کھانے والی ایک جماعت ہو تو کنارے کو چھوڑ کر درمیان سے کھانے والا ادب کی خلاف ورزی کرنے والا اور اچھی چیزیں کھانے کے معاملے میں دوسروں پر خود کو ترجیح دینے والا کہلائے گا، واللہ اعلم([511])۔
9۔ تین انگلیوں سے کھانا اور کھانے کے بعد انہیں چاٹ لینا مستحب ہے: نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ آپ اپنی تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور کھانے سے فارغ ہوکر انہیں چاٹ لیتے تھے، جیسا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا بیان آیا ہے جسے وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں سے کھایا کرتے تھے اور انہیں پوچھنے سے پہلے چاٹ لیتے تھے([512])۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک یا دو انگلیوں سے کھانا تناول کرنے سے کھانے والے کو اس کی لذت محسوس نہیں ہوتی، نہ اس سے اس کا دل بھرتا ہے اور نہ وہ جلد شکم سیر ہوپاتا ہے۔ نیز اس کی وجہ سے ہر لقمے پر کھانا ہضم کرنے والے اعضا اور معدہ دونوں ہی پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ اور پانچ انگلیوں سے کھانا تناول کرنے کی وجہ سے ان اعضا اور معدہ میں کھانا بڑی مقدار میں جمع ہوجاتا ہے اور بسا اوقات کھانے کی نلیاں بند ہوجانے کی وجہ سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ نیز اس کی وجہ سے ان نلیوں کو جبرا اس کھانے کو اندر بھیجنا پڑتا ہے، معدے پر بھی بوجھ ہوجاتا ہے اور کھانے والا نہ لذت محسوس کرتا ہے اور نہ اس کا دل ہی بھرتا ہے۔ اس لئے کھانے کا سب سے مفید ترین طریقہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کی اقتدا کرنے والوں کا طریقہ ہے یعنی تین انگلیوں سے کھانا([513])۔
نیز ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ہاتھ صاف کرنے سے پہلے اسے خود چاٹے یا کسی اور کو چٹا دے۔ اور احمد وابو داود کی روایت میں ہے: اس وقت تک اپنا ہاتھ رومال سے نہ پونچھے جب تک کہ اسے چاٹ نہ لے یا چٹوا نہ لے۔([514])
اس کی وجہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث میں مذکور ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے انگلیاں اور پیالہ چاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم نہیں جانتے اس کے کس حصےمیں برکت ہے([515])۔
"تم نہیں جانتے اس کے کس حصےمیں برکت ہے" یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ -اللہ اعلم- انسان کے پاس جو کھانا آتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ برکت اس کھانے میں ہے جو اس نے کھالیا یا اس کی انگلیوں میں لگے کھانے میں ہے یا پلیٹ کے میں بچے کھانے اور گرے ہوئے لقمے میں ہے؟ لہذا اسے اس پورے کھانے کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ یہ برکت اسے حاصل ہوسکے۔ برکت کا اصلی معنی زیادتی، خیر و بھلائی کی پائیداری اور اس سے استفادہ ہے۔ جبکہ یہاں اس کا مطلب-اللہ اعلم- وہ کھانا ہے جو خوراک بن سکے، جس سے بعد میں نقصان نہ ہو اور جو انسان کو اللہ کی اطاعت کے لئے مضبوط بنائے وغیرہ۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([516])۔
10. جب لقمہ گرجائے تو اسے اٹھا کر صاف کرکے کھا لینا مستحب ہے: اس سلسلے میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کالقمہ گر جائے تو وہ اسے ا ٹھا لےاور اس پر جو ناپسندیدہ چیز(تنکا،مٹی) لگی ہو اس کو اچھی طرح صاف کرلے اور اسے کھالے،اس لقمے کو شیطان کےلیے نہ چھوڑے۔ اور ایک روایت میں ہے: بے شک شیطان تم میں سے ہر ایک کی ہر حالت میں اس کے پاس حاضر ہوتاہے حتیٰ کہ کھانے کے وقت بھی،جب تم میں سے کسی سے لقمہ گرجائے تو جو کچھ اسے لگ گیا ہے،اسے صاف کرکے کھالے اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور جب( کھانے سے) فارغ ہوتوا پنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ اسے پتہ نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے([517])۔
اس حدیث میں کئی فوائد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
· شیطان انسان کی گھات میں بیٹھا رہتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی تاک میں رہتا ہے۔ نیز وہ انسان کے معاملات میں شریک ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے، حتی کہ اس کے کھانے پینے میں بھی۔
· لقمے سے مٹی وغیرہ کو صاف کرکے اسے کھالینا اور شیطان کو اس سے محروم کرنا کیونکہ وہ دشمن ہے اور دشمن کو محروم رکھا جاتا ہے اور اس سے دور رہا جاتا ہے۔
· یہ بھی ایک فائدہ ہے کہ ممکن ہے کہ کھانے کی برکت گرے ہوئے لقمے میں ہو۔
· شیطان انسان کے پاس آتا ہے/حاضر ہوتا ہے اور انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے، لہذا عقل کی بنیاد پر اس کے حاضر ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، جیسا کہ بعض عقلانی/منطقی حضرات کرتے ہیں۔
11۔ دو کھجوریں اکھٹی کھانے کی ممانعت: یہ ممانعت جماعت کے لئے ہے، فرد واحد کے لئے نہیں۔ اس سلسلے میں کئی صحیح احادیث مروی ہیں، جیسے شعبہ حضرت جبلہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے([518])۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ المشکل میں فرماتے ہیں: یہ حدیث جماعت کے بارے میں ہے۔ عام طور پر ایک کھجور کھایا جاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی انسان ایک ساتھ دو کھجوریں کھائے گا تو اس طرح وہ اس جماعت کے لوگوں سے زیادہ کھاجائے گا اور ان پر خود کو ترجیح دینے والا قرار پائے گا۔ اس لئے اجازت کی ضرورت پڑی([519])۔
نیز اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ یا تو حرمت کے لئے ہے یا کراہت کے لئے، اور من جملہ طور پر اہل علم دونوں ہی موقف کے قائل ہیں۔ جبکہ امام نووی رحمہ اللہ مسئلے میں تفصیل بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں: درست بات یہ ہے کہ اس میں تفصیل بیان کی جائے۔ اگر کھانا ان تمام لوگوں کے لئے ہو تو دو کجھوریں اکھٹی کھانا حرام ہے الا یہ ہے وہ رضامند رہیں۔ اور ان کی رضامندی ان کی صراحت کرنے سے معلوم ہوگی یا اس چیز سے جو صراحت کے قائم مقام ہو، جیسے کوئی قرینہ حال ہو یا ان کی جانب سے کوئی ایسا اشارہ ہو جس سے یقینی طور پر یا غالب گمان کے مطابق ان کی رضامندی معلوم ہوجائے۔ اور اگر ان کی رضامندی میں شک ہوجائے تو ایسا کرنا حرام ہے۔ اور اگر کھانا کسی اور کے لئے ہو یا ان میں سے کسی ایک کے لئے ہو تو فقط اسی ایک فرد کی اجازت شرط ہوگی۔ لہذا اگر اس کی رضامندی کے بغیر ایسا کیا گیا تو یہ حرام ہوگا۔ البتہ تمام کھانے والوں سے بھی اجازت لےلے تو یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ اور اگر کھانا خود کے لئے ہو اور وہ ان لوگوں کا میزبان ہو تو بھی اکٹھی دو کجھوریں کھانا حرام نہیں ہے۔ نیز اگر کھانا کم ہو تو بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے تاکہ مساوات قائم کی جاسکے۔ جبکہ اگر کھانا بکثرت ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کھانے پینے میں ادب کا تقاضہ یہی ہے کہ(ایسا کرکے) کھانے کا شدید حریص نہ بنا جائے الا یہ ہے کوئی جلدی میں ہو اور اسے کسی کام کے لئے جلد جانا ہو([520])۔
مسئلہ: کیا کجھور پر کھانے کے دیگر اقسام کو بھی قیاس کیا جائے گا جنہیں ایک ایک کرکے کھایا جاتا ہے۔
جواب: ہاں، اگر عام طور پر ایک ایک کرکے کھانے کا رواج ہو تو اس پر انہیں بھی قیاس کیا جائے گا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان تمام کھانوں کو اس پر قیاس کیا جائے جنہیں ایک ایک کرکے کھانے کا رواج ہے([521])۔
12۔ کھانے کی حرارت ختم ہوجانے کے بعد اسے کھانا مستحب ہے: حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ ثرید بناتیں تو اسے کسی چیز سے ڈھانک دیتیں تاکہ اس کی حرارت ختم ہو جائے، اس کے بعد فرماتیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ برکت کے اعتبار سے سب سے عظیم کھانا وہ ہے جس کی حرارت ختم ہوگئی ہو([522])۔ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کھانا اس وقت تک نہ کھایا جائے جب تک اس کی گرمی ختم نہ ہو جائے([523])۔نیز جب کھانا گرم ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس کھانے کو نہیں کھاتے تھے۔ یہ ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے([524])۔ یہاں کھانے میں برکت کا سب سے قریب ترین معنی یہ ہے کھانا ایسا ہوجائے جو خوراک بن سکے، جس سے بعد میں نقصان نہ ہو اور جو انسان کو اللہ کی اطاعت کے لئے مضبوط بنائے وغیرہ۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([525])۔
13۔ کھانے میں عیب نکالنے اور اسے حقیر جاننے کی ممانعت: اس سلسلے میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ اگر پسند ہوتا تو کھا لیتے ،اگر ناپسند ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے([526])۔کھانے میں عیب نکالنا جیسے آپ کا یہ کہنا کہ یہ کھانا بہت نمکین ہے یا اس میں نمک کم ہے یا کھٹا ہے یا پتلا ہے یا گاڑھا ہے یا ٹھیک سے پکا ہوا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([527])۔اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ کھانا اللہ کی مخلوق ہے لہذا اسے معیوب نہیں کہا جاسکتا ہے۔ نیز کھانے میں عیب نکالنے سے کھانا بنانے والے کا دل دکھتا ہے اور اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اسی نے اسے تیار کیا ہے۔ لہذا نبی اکرم ﷺ نے اس دروازے کو ہی بند کردیا تاکہ کسی بھی طرح کسی مسلمان کا دل نہ دُکھے۔ شریعت اسلامیہ ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھتی ہے( کہ کسی بھی طرح کسی مسلمان کا دل نہ دُکھے)۔
مسئلہ: کیا یہ حدیث اس بات سے ٹکراتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سانڈے کو کھانے سے رک گئے تھے؟([528])اور سانڈے کے بارے میں آپ ﷺ کے اس فرمان کہ "میں خود کو اس سے کراہت کرتے ہوئے پا تا ہوں" اور ایک روایت میں ہے"یہ گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا" ، کیا آپ ﷺ کے اس قول کو عیب کی وجہ سے اس کھانے سے رک جانا شمار کیا جائے گا؟
جواب: ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ نیز سانڈے کے بارے میں آپ کا یہ قول کھانے میں عیب نکالنے کے قبیل سے نہیں ہے بلکہ یہ تو اسے نہ کھانے کی وجہ کی وضاحت ہے کہ آپ ﷺ ایسا کھانا نہیں کھاتے ہیں یا آپ کو یہ کھانا کھانے کی عادت نہیں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سانڈے کو نہ کھانے والی حدیث کھانے میں عیب نکالنے کے قبیل سے نہیں ہے بلکہ اس میں آپ نے صرف اس بات کی خبر دی ہے کہ میں یہ خاص کھانا پسند نہیں کرتا([529])۔
14۔ کھڑے ہوکر کھانے پینے کا حکم: کھڑے ہوکر پینے کے متعلق علما کا اختلاف ہے اور ان کی اختلاف کی وجہ بعض صحیح احادیث کا ظاہری طور پر باہمی تعارض ہے۔ بعض احادیث میں کھڑے ہوکر پینے سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض میں اس کا عکس مذکور ہے۔ ان میں سے بعض احادیث کو ہم یہا ں بیان کرتے ہیں:
اولا: کھڑے ہوکر پینے سے منع کرنے والی احادیث:
1۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے ڈانٹ کر منع فرمایا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے([530])۔
2۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے ڈانٹ کر منع فرمایا ہے([531])۔
3۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سے کوئی کھڑے ہوکر نہ پیئے، پس جو بھول کر ایسا کرجائے تو اسے قے کردینا چاہیے([532])۔
ثانیا: وہ احادیث جن میں کھڑے ہوکر پینے کا جواز موجود ہے:
1۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آب زمزم پلایا تو آپ نے کھڑے ہوکر پیا([533])۔
2۔ حضرت نزال سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے پاس (مسجد کوفہ کے) صحن میں پانی لایا گیا تو انہوں نے کھڑے ہو کر نوش کیا اور فرمایا: کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ خیال کرتے ہیں جبکہ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے (اس وقت) کرتے دیکھا ہے۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے، انہوں نے فرمایا: اگر میں کھڑے ہوکر پی رہا ہوں تو تم حیرت سے کیا دیکھ رہے ہو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہوکر پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور اگر میں بیٹھ کر پی رہا ہوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹھ کر بھی پیتے ہوئے دیکھا ہے([534])۔
3۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کھڑے اور چلتے پھرتے کھایا پیا کرتے تھے([535])۔
4۔ عائشہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں کسی انسان کے کھڑے ہوکر پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ نیز ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ دونوں کھڑے ہوکر پیا کرتے تھے([536])۔
ظاہری طور پر انہی باہم متعارض نظر آنے والی احادیث کی وجہ سے اہل علم نے اس عمل کے حکم کو بیان کرنے میں اختلاف کیا ہے۔ اس مسئلے میں سب سے معتدل قول وہ ہے جسے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں بیان کیا ہے، کہتے ہیں: ۔۔۔لیکن ان احادیث میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پینے کی رخصت کو عذر پر محمول کیا جائے۔ چنانچہ وہ احادیث جن میں ممانعت آئی ہے جیسے صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع کیا ہے۔ اسی طرح قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے والے کو ڈانٹ کر منع کیا۔ قتادہ نے کہا کہ ہم نے پوچھا: اور کھڑے ہوکر کھانے کا کیا حکم ہے؟ تو انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بھی شر والا اور خبیث ترین عمل ہے۔ اور جن احادیث میں اس کی رخصت دی گئی ہے جیسے صحیحین کی علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی حدیث کہ: نبی اکرم ﷺ نے آب زمزم کھڑے ہوکر پیا۔ اور بخاری میں ہے: علی رضی اللہ نے مسجد کوفہ کے صحن میں کھڑے ہوکر پانی پیا، اس کے بعد فرمایا: کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ خیال کرتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا جیسے میں نے کیا ہے۔ اس حدیث کے متعلق مروی ایک اثر میں یہ صراحت ہے کہ وہ زمزم کا پانی تھا، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے۔ نیز یہ عمل حج میں کیا گیا تھا۔ لوگ وہاں طواف کرتے ہیں، زمزم پیتے ہیں، دوسروں کو زمزم پلاتے ہیں اور لوگوں سے اس کو طلب بھی کرتے ہیں۔ وہاں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ۔نیز یہ معاملہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وفات سے کچھ ہی دن قبل کا ہے۔ لہذا یہ اور اس طرح کا معاملہ ممانعت سے مستثنیٰ ہے اور اس کی بِنا اس شرعی قاعدہ پر ہے کہ حاجت کے وقت ممنوع چیزیں مباح وجائز ہوجاتی ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑی چیزیں حاجت کے وقت جائز ومباح ہوجاتی ہیں۔ بلکہ وہ چیزیں جن کا کھانا پینا حرام ہوتا ہے وہ بھی شدید ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہیں، جیسے مردار اور خون([537])۔
15۔ برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونکنے کی کراہت: پینے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ پینے والا برتن میں سانس نہ لے اور نہ اس میں پھونک مارے۔ اس کا بیان کئی صحیح احادیث میں موجود ہے۔ جیسے نبی اکرم ﷺ کا فرمان جو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔۔۔الحدیث([538])۔اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے([539])۔
برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونکنے کی ممانعت ادب کے قبیل سے ہے اور یہ اس لئے کیونکہ ایسا کرنے سے برتن کے گندا ہونے یا اس میں بدبو پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ یا منھ اور ناک سے اس میں کسی چیز کے گرجانے کا بھی اندیشہ رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([540])۔اور جہاں تک پینے کی چیز میں پھونکنے کی بات ہے تو یہ اس لئے منع ہے کیونکہ پھونکنے والے کے منھ سے اس میں ایسی بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس شی کو ناپسند کیا جانے لگتا ہے، بالخصوص اگر اس کے منھ کی بو میں تبدیلی واقع ہوگئی ہو([541])۔
16۔ تین سانس میں پینا مستحب ہے جبکہ ایک بار میں پی جانا بھی جائز ہے: اس سلسلے میں انس بن مالک رضی اللہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : نبی کریم ﷺ پینے کی چیز میں تین مرتبہ سانس لیتے تھے اور فرماتے تھے:"یہ(طریقہ) زیادہ سیر کرنے والا،زیادہ محفوظ اور زیادہ مزیدار ہے۔" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں (بھی) پینے کی چیز میں تین مرتبہ سانس لیتا ہوں([542])۔ پینے کی چیز میں تین مرتبہ سانس لینے سے مراد یہ ہے کہ برتن کو پینے والے کے منھ سے ہٹا لیا جائے اور اس کے باہر سانس لے، کیونکہ برتن میں سانس لینا ممنوع ہے۔
نیز ایک مرتبہ میں پی لینا بھی جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اس کی دلیل ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب وہ مروان بن الحکم کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا: کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو پینے کی چیز میں پھونکنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے؟ تو ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں، تو ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا: میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہوتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تو برتن کو اپنے منھ سے دور کرلے اس کے بعد سانس لے۔ اس نے کہا: اگر میں اس میں کوئی گندگی دیکھوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اسے گرا دے([543])۔
امام مالک کہتے ہیں: گویا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حدیث میں اس میں رخصت ہے کہ کوئی ایک سانس میں جتنا پینا چاہے اتنا پی لے۔ اور ایک سانس میں پینے میں مَیں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ کیونکہ حدیث کے اس ٹکڑے میں "میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہوپاتا" اس بات کی رخصت موجود ہے([544])۔اسی طرح شیخ الاسلام فرماتے ہیں: اس حدیث میں-یعنی پچھلی حدیث میں- اس امر پر دلیل ہے کہ اگر کوئی ایک سانس میں سیراب ہوجاتا ہے اور اسے دوسری سانس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تو یہ جائز ہے۔ نیز میں کسی امام میں کو نہیں جانتا جنہوں نے تین سانس کو واجب اور ایک سانس میں پینے کو حرام قرار دیا ہو([545])۔
17۔ مشکیزے کے منھ سے منھ لگا کر پینے کی کراہت: اس مسئلے میں کئی صحیح احادیث مروی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مشکیزے کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع کیا تھا نیز اس سے بھی منع کیا تھا کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی لگانے سے روکے([546])۔نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مشکیزے کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا تھا([547])۔
ان دونوں احادیث میں مشکیزے سے منھ لگاکر پینے کی صریح ممانعت وارد ہے۔ لہذا ایسا کرنا یہ چاہیے کہ پینے کی چیز کو برتن میں ڈال لیا جائے اس کے بعد اس سے پیا جائے۔ بعض اہل علم نے اس ممانعت کو حرمت پر جبکہ اکثر نے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے ۔ اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ممانعت والی احادیث کو سابقہ جواز کا ناسخ بتایا ہے([548])۔
بعض اہل علم نے اس ممانعت کی بعض حکمتوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے بعض کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:
· برتن یا مشکیزے میں پینے والے کے منھ سے بار بار سانس کی ہوا جائے جس کی وجہ سے اس میں تعفن اور بدبو پیدا ہوجائے۔ نتیجے کے طور پر اس سے گھن کیا جائے۔
· بسا اوقات مشکیزے میں کیڑے مکوڑے یا جانور یا گندگی ہوتی ہے۔ممکن ہے کہ نادانستہ طور پر یہ چیزیں پینے والے کے منھ میں داخل ہوکر نقصان کا سبب بنیں۔
· بسا اوقات پانی میں پینے والے کا لعاب شامل ہوجاتا ہے جس سے دوسرے لوگ گھن کرتے ہیں([549])۔
· ممکن ہے کہ پینے والے کا لعاب یا اس کی سانس دوسروں کو بیمار کردے کیونکہ اطبا کے یہاں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ چھوت والی بیماریاں لعاب اور سانس سے منتقل ہوتی ہیں۔
مسئلہ: آپ ﷺ کا لٹکے ہوئے مشکیزے سے پانی پینا ثابت ہے ([550])۔ لہذا ہم جواز فراہم کرنے والے آپ کے اس فعل اور اس امر سے منع کرنے والے آپ کے فرمان کے درمیان تطبیق کیسے دیں گے؟
جواب: ابن حجر کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ نے شرح الترمذی میں فرمایا: اگر عذر کی وجہ سے ایسا کرنے اور بغیر عذر کے ایسا کرنے میں فرق بیان کیا جائےتو جمع وتطبیق ممکن ہوجائے گی۔ جیسے اگر مشکیزہ لٹکا ہوا ہو اور ضرورت مند کو پینے کے لئے نہ کوئی برتن ملے اور نہ وہ ہتھیلی سے پینے پر قادر ہو، تو ایسی صورت میں (مشکیزے سے منھ لگا کر پینے میں) کوئی کراہت نہیں ہے۔ لہذا ان مذکورہ احادیث کو حالت عذر پر محمول کیا جائے گا۔ جبکہ منع کرنے والی احادیث کو بغیر عذر کے ایسا کرنے پر محمول کیا جائے گا۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں: اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جواز والی تمام احادیث میں یہ مذکور ہے کہ مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ نیز لٹکے ہوئے مشکیزے سے پانی پینے اور مطلق طور پر مشکیزہ سے پانی پینے میں فرق ہے کیونکہ اول الذکر ثانی الذکر سے اخص ہے۔ اور احادیث میں مطلق طور پر ایسا کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے سوائے مذکورہ صورتحال کے اور اسی حد تک(یعنی عذر کی بنا پر)۔ اور جواز والی احادیث کو حاجت وضرورت پر محمول کرکے دونوں احادیث میں جمع وتطبیق کی صورت نکالنا انہیں نسخ پر محمول کرنے سے بہتر ہے، واللہ اعلم([551])۔
18۔ قوم کو پانی پلانے والے کا آخر میں پینا مستحب ہے: اس مسئلے میں قتادہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، وہ فرماتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔رسول اللہ ﷺ پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ ﷺ نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: ’’پیو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! جب تک آپﷺ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: ’’قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔‘‘ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی نوش فرمایا۔۔۔۔الحدیث([552])۔اس حدیث میں اس امر پر صریح دلالت موجود ہے کہ جو قوم کو سیراب کرنے اور پلانے کا ذمہ دار ہو وہ انہیں خود پر ترجیح دے گا اور نبی اکرم ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے خود آخر میں پیئے گا۔
۱۹-کھانے پر گفتگو کرنا مستحب ہے، اس میں عجمیوں کی مخالفت ہے([553]) کیوں کہ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کھانے پر خاموش رہتے ہیں، اور مشابہت اختیار کرنا منع ہے۔ابن مفلح فرماتے ہیں: اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں: میں ایک دفعہ ابو عبد اللہ [احمد بن حنبل] اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ، ہم خاموش رہے اور وہ کھاتے ہوئے الحمد للہ بسم اللہ پڑھے جارہے تھے، اس کے بعد فرمایا: کھانا اور حمد بجالانا اس سے بہتر ہے کھائے اور خاموش رہے۔ میں نے احمد سے مروی کوئی روایت نہیں دیکھی جس سے اس کی واضح مخالفت ہوتی ہو اور نہ ہی اکثر اصحاب احمد کے کلام میں یہ مخالفت پایا۔بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ احمد نے اس معاملہ میں اثر (دلیل) کی اتباع کی ، کیوں کہ ان کا طریقہ وشیوہ تھا کہ وہ دلیل کی اتباع کرتے تھے([554])۔
۲۰-جماعت کے ساتھ کھانا کھانا مستحب ہے۔ نبوی آداب میں سے ہے کہ اجتماعیت کے ساتھ کھانا کھایا جائے، کیوں کہ اجتماعیت برکت کا سبب ہے، کھانے والوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہوگی برکت بھی اسی قدر زیادہ ہوگی، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے ، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے:"ایک آدمی کا کھانا دو کےلیے کافی ہوجاتا ہے۔ اور دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوجاتا ہے"([555])۔ابن حجر فرماتے ہیں: طبرانی نے ابن عمر سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں اجتماعیت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اس حدیث کا ابتدائی حصہ یوں ہے: (اجتماعیت کے ساتھ کھایا کرو اور الگ الگ بیٹھ کر نہ کھایا کرو، کیوں کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہوجاتا ہے)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعیت کی برکت سے ہی (ایک کا کھانا دو کے لیے ) کافی ہوجاتا ہے، اور اجتماع جتنا بڑا ہوگا برکت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی([556])۔
وحشی بن حرب اپنے والد سے اور وہ (وحشی کے) دادا صحابی (وحشی بن حرب ) سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب نبی کریم ﷺ نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کھاتے ہیں مگر سیر نہیں ہوتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تم لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر کھاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اکٹھے ہو کر کھایا کرو اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت پیدا کر دی جائے گی۔“([557])۔
۲۰-بسیار خوری کرنا یا اتنا کم کھانا کہ جسم کمزور ہوجائے مکروہ ہے۔بسیار خوری جسم کو بیمار کردیتی ہے اور اسے بہت سی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے، اس سے جسم میں پزمردگی اور کاہلی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انسان کے لیے اطاعت کا کام بوجھ ہوجاتا ہے، اس سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے –اللہ ہمیں قساوت قلبی سے محفوظ رکھے- ۔ اس کے برعکس کم کھانے سے جسم کمزور ہوتا ہے اور انسان اطاعت کے کام کرنے میں جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہے۔ہمارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج سے بہتر اور کامیاب کوئی علاج نہیں، اگر ہم آپ کی پیروی کرتے رہیں تو ہمیں عام حالات میں ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتےہوئے سنا: ( کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برانہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کوسیدھارکھیں اوراگرزیادہ ہی کھانا ضروری ہوتو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے)([558])۔
اس تعلق سے اسلاف کے کچھ اقوال آئے ہیں جن پر ہمیں ٹھہر کر غور کرنا چاہئے، ابن ملفح کہتے ہیں: ابن عبد البر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: شکم سیری سے بچو ، کیوں کہ یہ نماز سے غافل کردیتی، جسم کو تکلیف پہنچاتی ہے، تم اپنی غذا میں درمیانہ روی اختیار کرو، کیوں کہ یہ کبر وغرو ر سے دور، جسم کے لیے باعث صحت، عبادت میں معاون ہے، انسان اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنی شہوت کو اپنے دین پر ترجیح نہ دے دے۔
علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: معدہ جسم کا حوض ہے، رگوں کو وہی سے غذا فراہم ہوتی ہے، اگر معدہ صحیح سالم رہا تو صحت وعافیت کے ساتھ رگوں میں خون جاری رہتا ہے اور معدہ بیمار ہوگیا تو رگوں میں بھی بیماری دوڑنے لگتی ہے۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں: دوچیزیں دل کو سخت کردیتی ہیں: کثرت کلام اور کثرت طعام۔
الخلال نے اپنی کتاب (الجامع) میں احمد کا یہ قول نقل کیا ہے: ان سے کہا گیا: ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو کم سے کم کھاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مجھے پسند نہیں، میں نے عبد الرحمن بن مہدی کوکہتے ہوئے سنا: ایک قوم نے ایسا کیا تو فرض کی ادائیگی کے قابل نہیں رہی([559])۔
۲۲-ایسے دستر خوان پر بیٹھنا حرام ہے جس پر شراب پی جاتی ہو۔اس سلسلے میں ایک حدیث آئی ہے جسے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: (رسول اللہ ﷺ نے کھانے کے متعلق دو باتوں سے منع فرمایا ہے۔ ایک ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جس پر شراب پی جائے، دوسرے پیٹ کے بل اوندھے لیٹ کر کھانا)([560])۔احمد کے نزدیک یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: (جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، وہ اس دستر خوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب پی جاتی ہو..)([561])۔اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس برائی کی موجود گی میں اس دستر خوان پر بیٹھنے سے رضا مندی اور اس کا اقرار ظاہر ہوتا ہے([562])۔
سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مشرکوں نے ہم سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا ساتھی تمہیں ہر چیز سکھاتا ہے یہاں تک کہ تمہیں قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھاتا ہے ۔ تو سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ، انہوں نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم میں کا کوئی اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے یا قبلے کی طرف ( دوران استنجا ) چہرے کا رخ کرے اور آپ نے ہمیں گوبر اور ہڈی ( سے استنجاکرنے) سے روکا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم کے ساتھ استنجا نہ کرے ۔ ([564])
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لعنت کے تین اسباب سے دوری اختیار کرو : گھاٹوں پر ، عام شاہراہ پر ، اور سایہ دار درخت کے نیچے قضائے حاجت کرنے سے([565]) ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : موجب لعنت بننے والی دو چیزوں سے بچو ۔ صحابہ نے کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دو چیزیں کیا ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو عام راستے یا سایے دار درخت کے تلے قضائے حاجت کرتا ہے ۔ ([566])
لفظِ "موارد" کا ذکر صرف حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا ہے، اور "موردۃ" کے معنی ہیں: پانی تک پہنچنے کا راستہ، جیسا کہ لسان العرب میں مذکور ہے([567])۔ اس لفظ کااطلاق پانی کی طرف جانے والے راستوں کے ساتھ پانی کے چشمے پر بھی ہوتا ہے ،اس کا واحد "مورد" ہے ، عرب کہتے ہیں : "وردت الماء إذا حضرته لتشرب۔(([568]))یعنی : " وردت الماء "( میں پنگھٹ پر گیا ) "اس وقت کہا جاتا ہے، جب آپ چشمے پر پانی پینے کے لئے جائیں"
یہ دونوں احادیث جن میں پہلی حدیث لعنت کے تین اسباب سے بچنے اور دوسری حدیث لعنت کے دو اسباب سے اجتناب برتنے کے متعلق ہے، اس سے مراد کیا ہے ؟
خطابی کہتے ہیں : لاعنین سے مراد وہ دو امور ہیں جو لعنت کا موجب بنتے ہیں ‘ لوگوں کو لعن طعن کرنے پر مجبور کرتے ہیں‘ یعنی وہ دونوں اعمال لوگوں کی نگاہ میں قابل لعنت ومذمت ہیں ، یعنی بالعموم لوگ اس عمل پر لعن طعن بھیجتے ہیں، تو چونکہ وہ عمل لعنت کا سبب ہوتا ہے اسی وجہ سے لفظِ لعنت کی اضافت ان دو مقامات کی جانب کی گئی ہے (جہاں یہ مذموم حرکت کی جاتی ہے) ، مزید کہتے ہیں : یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں لاعن ملعون کے معنی میں اور ملاعن موضعِ لعن کے معنی میں وارد ہوا ہو ، (میں کہتا ہوں) ایسی صورت میں ابو داود میں مذکور حدیث کی تقدیری عبارت یوں ہوگی : اتقوا الأمرين الملعون فاعلهما ... اس کے معنی یہ ہوں گے –واللہ اعلم- کہ ان دو اعمال سے گریز کرو جن کے مرتکبین کو عموما لوگ لعن طعن کیا کرتے ہیں۔ جبکہ صحیح مسلم کی روایت ہماری سابقہ توجیہ کے موافق ہے، یعنی لعنت کے دو کاموں سے بچو ،کیونکہ عموما معاشرے میں ایسے افراد پر لعن طعن کی جاتی ہے ، واللہ اعلم ([569])
ان تین مقامات پر رفع حاجت کی ممانعت کی علت یہ ہیکہ ان جگہوں کو گندگی سے آلودہ کرنا مسلمانوں کی اذیت کا باعث ہے جو کہ حرام ہے، جیسا کہ نص قرآنی میں وارد ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے : ( اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے)
فائدہ : درخت کے سائے تلے رفع حاجت کرنے کی ممانعت میں وہ جگہ بھی شامل ہے جہاں لوگ سردیوں کے موسم میں دھوپ کے لئے بیٹھتے ہیں۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ قیاس جلی کے قبیل سے ہے۔([570]) لہٰذا اس مقام پر بھی فراغت کرنا ممنوع ہے ، کیونکہ سایے دار درخت کے تلے رفع حاجت کی ممانعت کی علت یہاں بھی پائی جارہی ہے اور جیسا کہ اصولی قاعدہ ہے کہ حکم اپنے وجود اور عدم وجود میں علت سے مرتبط ہوتا ہے۔
فائدہ 2: زیر نظر حدیث صرف قضائے حاجت کی ممناعت پر دلالت کرتی ہے، پیشاب کرنے پر نہیں ۔ اس سلسلے میں امام نووی رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے ، چنانچہ حدیث مذکور کی شرح میں لکھتے ہیں : (الذي يتخلى في طريق الناس وظلهم ) کا معنی یہ ہیکہ ایسی جگہ پر فضلہ کا اخراج کرنا جو لوگوں کی عام گزر گاہ ہو ۔ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے اس کی تردید فرمائی ہے ،کہتے ہیں : امام نووی رحمہ اللہ کا "التخلي" کا "التغوط" سے تفسیر کرنا درست نہیں ہے ، اگر ان کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے ،پھر بھی "تخلي "میں پیشاب کرنا قیاسا داخل ہے ، مزید کہتے ہیں : التخلي سے مراد قضائے حاجت کے لئے الگ تھلگ ہونا ہے خواہ وہ الگ ہونا پیشاب کرنے کے لیے ہو یا فضلہ کے اخراج کے لئے ۔۔۔ اور جیسا کہ یہ بات معلوم ہے کہ " براز " کا لغوی معنی زمین کی کھلی اور کشادہ جگہ کے ہیں ، اور یہ لفظ قضائے حاجت کے لئے بطور کنایہ مستعمل ہے ، عرب کہتے ہیں :" تبرز الرجل إذا تغوط" ، اور لفظ "براز" گرچہ رفع حاجت سے متعلق ہے ، تاہم اس میں پیشاب کرنا بھی شامل ہے ۔ ([571])
مسئلہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ قضائے حاجت کے وقت کھجور کی جھاڑی کی اوٹ لیا کرتے تھے ، اور جیسا کہ معلوم ہے کہ جھاڑی کا سایہ ہوتا ہے ، تو ایسی صورت میں ان دو متضاد روایات میں جمع وتطبیق کیونکر ممکن ہے ؟
جواب : جس سایے کی بابت قضاے حاجت کی ممانعت ہے ، اس سے وہ سایہ مراد ہے جہاں لوگوں کا بالقصد جانا ہوتا ہو، یا وہاں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہو،نیز اسے قیلولہ کے لئے بھی استعمال میں لایا جاتا ہو، اور جہاں تک فعل نبوی کی بات ہے تو وہ سایہ لوگوں کے نزدیک بالعموم پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ،اور نہ ہی منع کردہ روایت سے یہ سایہ مقصود ہے، نیز یہ امر محال بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام سے منع فرمائیں اور پھر ازخود اسے انجام دیں ۔
اس بارے میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشا ب کرنا منع ہے ) ([572])، اور اس میں ممانعت کی علت بالکل واضح ہے ،کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ پانی ناپاک ہوجایے، نیز اس میں رفع حاجت کرنا بدرجہ اولیٰ قبیح امر ہے، ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس ممانعت کااطلاق بہتے پانی پر نہیں ہوتا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیث کے مفہوم کے بموجب اگر پانی بہتا ہوا ہو اور زیادہ مقدار میں ہو تو اس میں پیشاب کرنا حرام نہیں ہے ۔ ([573])
یہ حکم اللہ رب العزت کے اسم کی اہانت اور بے حرمتی سے بچنے کے لئے دیا گیا ہے ، اور کسی مسلمان کا کسی ایسی چیز کے ساتھ بیت الخلا میں داخل ہونا جائز نہیں جس میں اللہ کا نام کندہ ہو ، مگر کسی حاجت کے پیش نظر ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنی شرح میں کہتے ہیں ، مصنف کا کہنا : ( إلا لحاجة ) یہ صورت کراہیت کے حکم سے مستثنی ہے ، یعنی اگر ایسی کوئی حاجت درپیش ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ بطور مثال وہ کرنسی جس میں اللہ کا نام مندرج ہو ، اس کے ساتھ داخل ہوا جاسکتا ہے ،کیونکہ اگر ہم نے کرنسی لیکر داخل ہونے سے منع کردیا تو اس شخص کا بیت الخلا کے باہر کرنسی رکھنے میں کئی طرح کے خدشات ہیں:باہر رکھنے میں اس کے بھول جانے کا امکان ہے ، یا اگر وہ جگہ ایسی ٹھہری جہاں ہوا کا گزر ہوتا ہو تو اس کا ہوا کے ذریعہ اڑ جانے کا اندیشہ ہے ، اگر وہ ایسی جگہ ہوئی جہاں لوگوں کا مجمع لگتا ہو تو وہاں اس کے چوری ہونے کا بھی احتمال ہے ۔ ([574])اور جہاں تک مصحف لیکر بیت الخلا میں داخل ہونے کی بات ہے تو اس کی حرمت میں کوئی شک نہیں ، اہل علم بھی یہی کہتے ہیں ، تاہم ان کے نزدیک ایک صورت میں مصحف کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت ہے ، وہ اس وقت جب اس کے چوری ہونے کا خدشہ ہو ، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس بابت اللہ سے ڈریں ، اور ایسی جگہ کلام اللہ کو نہ لے جائیں جس سے کلام اللہ کی توہین لازم آتی ہو ، معا ان پر یہ بھی لازم ہے کہ متعلقہ امر کے تئیں احتراز برتنے میں ہر ممکنہ کوشش کریں جیسے بیت الخلا سے نکلنے تک مصحف کسی شخص کے حوالے کردیں ، یا اسی طرح کی کوئی دوسری صورت اختیار کرلیں ، اگر اس سے بھی قاصر ہوں تو (یاد رکھیں) اللہ نے بقدر استطاعت ہی انسان کو مکلف بنایا ہے ۔([575])
اس کے متعلق کافی صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں، ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لیں یا مغرب کی طرف۔
اور صحیح مسلم وغیرہ کے الفاظ ہیں:
قبلہ کی طرف نہ منہ کرو ، نہ پیٹھ کرو اس طرف پائخانہ یا پیشاب میں، البتہ پورب یا پچھم کی طرف منہ کرو۔“ ([576])
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف (یہ سن کر) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (واسع سے) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔([577])
سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مشرکوں نے ہم سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا ساتھی تمہیں ہر چیز سکھاتا ہے یہاں تک کہ تمہیں قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھاتا ہے ۔ تو سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ، انہوں نے ہمیں منع فرمایا ہے کہ ہم میں کا کوئی اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے یا قبلے کی طرف ( دوران استنجا ) چہرے کا رخ کرے اور آپ نے ہمیں گوبر اور ہڈی ( سے استنجاکرنے) سے روکا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم کے ساتھ استنجا نہ کرے ۔([578])
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا، (لیکن) میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو(قضائے حاجت کی حالت میں) قبلہ رو دیکھا ۔([579])
مروان اصفر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا:ابوعبدالرحمٰن! (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔([580])
گزشتہ احادیث بظاہر متعارض معلوم ہوتی ہیں، اسی بناپر اہل علم کے درمیان قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب رخ یا پشت کرنے میں چہار دیواری ( بیت الخلا) اور کھلے مکان کی تفریق میں اختلاف ہے، ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث قبلہ کی جانب چہرہ اور پشت کرنے کی ممانعت میں مطلق ہے خواہ چہار دیواری ہو یا صحرا حدیث کی ممانعت دونوں کو متضمن ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث (جس میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے چھت پر چڑھنے کا ذکر رہے) چہار دیواری یا اس کے قائم مقام کسی جگہ بجائے قبلہ رخ ہوکر صرف پشت کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قضائے حاجت کے وقت اپنے اور قبلہ کے درمیان سواری کو بطور حائل استعمال کرنا۔ نیز سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث جو استقبال قبلہ کی ممانعت میں مطلق ہے خواہ چہار دیواری ہو یا نا ہو۔ اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل مذکور ہے کہ (قضائے حاجت کے وقت) استقبال قبلہ جائز ہے۔
زیربحث مسئلہ میں دلائل کے باہم متعارض ہونے کے پیش نظر اہل علم سے کئی آرا منقول ہیں۔ لیکن ان تمام کے درمیان جمع وتطبیق کی صورت ممکن ہے، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس امر میں علما کا کوئی اختلاف نہیں کہ اگر مختلف احادیث کے درمیان جمع وتطبیق ممکن ہو تو ایسی صورت میں کسی حدیث کو ترک نہیں کیاجائے گا، بلکہ متعارض احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرنا اور ان تمام پرعمل کرنا واجب ہے۔([581]) ہمارے نزدیک راجح یہ ہیکہ کھلے مکان میں قضاے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب چہرہ یاپشت کرنا حرام ہے، اور چہار دیواری میں یہ عمل جائز ہے، اسی طرح متعلقہ شخص اور قبلہ کے درمیان کسی ایسی چیز کا پایا جانا جو قبلہ کا رخ اور پشت کرنے میں حائل ثابت ہوتا ہوتو بھی یہ عمل جائز ہے، دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کی بھی یہی رائے ہے۔ ([582])
5- بیت الخلا سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کیا کرنا اور کہنا چاہیئے:
رفع حاجت کی جگہیں گندگی اور ناپاکی کی جگہ ہیں، اور یہ مشہور ہے کہ شیاطین نجاست میں ملوث رہتے ہیں اور یہ جگہ ان کے ہاں کافی پسندیدہ ہیں، اس لئے عام طور سے وہ بیت الخلا اور غسل خانے کو ہی اپنا ٹھکانا بناتے ہیں، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کی یہ جگہیں جن اور شیطان کے موجود رہنے کی جگہیں ہیں۔([583])
اور شیطان انسان کا دشمن ہے، اور وہ اپنی دشمنی اور نقصان پہچانے کی عادت سے کبھی باز نہیں آتا، بلکہ وہ پیشاب وپاخانہ کی جگہوں پر اپنے اس مقصد کو پورا کرتا ہے، اس لئے شریعت نے انسان کو اپنے جسم اور عقل کی حفاظت کرنے کی تعلیم دی ہے، شریعت نے کچھ ایسے اذکار مقرر کئے ہیں جو اسے شر سے محفوظ رکھتا ہے، لہذا بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پاؤں رکھنا چاہییے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شریعت کا اس باب میں مستقل قاعدہ ہے کہ کسی کام کواگر دائیں اور بائیں دونوں طرف سے کرنا ممکن ہو، تو وہ عمل جو باعث تکریم ہے اسے داہنی طرف سے انجام دیں جیسے، وضو کرنا ، غسل کرنا، مسواک کرتے وقت داہنی طرف سے شروع کرنا، بغل کے بال صاف کرنا، کپڑے اور جوتے پہننا، کنگھی کرنا، گھر اور مسجد میں داخل ہونا، بیت الخلا سے نکلنا وغیرہ ، اگر معاملہ برعکس ہو تو بائیں جانب سے پہل کریں، جیسے بیت الخلا میں داخل ہونا،جوتے اتارنا، مسجد سے نکلنا۔ ([584])
اور بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ کہنا مستحب ہے، کیونکہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنوں اور بنی آدم (انسانوں) کی شرمگاہوں کے درمیان پردہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص پاخانہ میں داخل ہو «بسم اللہ کہے۔([585])
اور أعوذ باالله من الخبث والخبائث کہنا مسنون ہے ۔([586])
عبد العزیز بن صہیب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو اللهم انی اعوذبک من الخبث والخبائث یہ دعا پڑھتے ، امام بخادی کہتے ہیں : سعید بن زید نے فرمایا : إذا أراد أن يدخل . جب داخل ہونے کا ارداہ ہو ۔ اور ( إذا أراد الخلاء) اس بات پر دلالت کرتا ہے، یہ دعا داخل ہونے سے پہلے پڑھنا چاہیئے نہ کہ داخل ہونے کے بعد ۔
استعاذہ ( پناہ طلبی) کا فائدہ:ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: گندگی اور شیاطین سے اللہ کی پناہ طلب کرناچاہیے، کیونکہ یہ گندی جگہ ہے، اور گندی جگہ بد نفسوں کا مسکن ہوا کرتا ہے، لہذا یہ شیاطین کی ٹھکانے ہوئے ،اس لئے مناسب ہے کہ جب بیت الخلا میں داخل ہونا ہو تو یہ دعا پڑھیں : أعوذ بالله من الخبث والخبائث . تاکہ ہر طرح کی شر اور شریر النفس ذات سے محفوظ رہ سکیں۔([587])
اور بیت الخلا سے نکلتے وقت دائیں پاؤں سے نکلیں، اور ( غفرانک) کہیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت سے فارغ ہوتے تو غفرانک کہتے، اور ترمذی میں ہے کہ ( إذا خرج من الخلاء )([588]) اور عند الخروج سے بعد الخروج من الخلا مراد ہے،یعنی بیت الخلا سے نکلنے کے بعد یہ دعا پڑھنا ہے۔
فائدہ: یہ تعلیم صرف بیت الخلا کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ صحرا میں بھی اس پر عملدرآمد کرنا مستحب ہے، جب قضاے حاجت کرنے والا (رفع حاجت کے لیے) مخصوص کردہ جگہ کے قریب آئے تو وہ بیت الخلا میں داخل ہونے کی دعا پڑھ لے، اور جب فارغ ہو تو فارغ ہونے کی دعا پڑھ لے، امام نووی کہتے ہیں : اس طریقے کے مستحب ہونے میں اجماع ہے، اور اس مسئلے میں چہار دیواری اور کھلے مکان کی کوئی تفریق نہیں ہے واللہ اعلم ([589])
6 قضاے حاجت کے وقت پردے کا اہتمام کرنا:
یہ نبوی ادب ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قضاے حاجت کے وقت سترپوشی کرنے کی تعلیم دی ہے، کیونکہ قضاے حاجت شرمگاہ کے ظاہر ہونے کا سبب بنتا ہے، اور شریعت ستر پوشی اور شرمگاہ کی حفاظت کی بات کرتا ہے، نہ کہ اسے ظاہر کرنے کی، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا۔ مغیرہ! پانی کی چھاگل اٹھا لے۔ میں نے اسے اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میری نظروں سے چھپ گئے۔ آپ نے قضائے حاجت کی۔ اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔
اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ چلے یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں اوجھل ہوگئے، اور مسند احمد کی روایت ہے کہ ہم چلے یہاں تک لوگوں سے دور ہوگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے نیچے اترے، پھر آپ کافی دور چلے، اور مجھ سے چھپ گئے، یہاں تک میں آپ کو دیکھ بھی نہیں پاتا تھا،
اور انہی سے روایت ہے کہ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ذَهَبَ الْمَذْهَبَ ([590]) أَبْعَدَ۔([591])
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت (یعنی پیشاب اور پاخانہ) کے لیے جاتے تو دور تشریف لے جاتے تھے۔
عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم خلفه، فاسر إلي حديثا، لا احدث به احدا من الناس، وكان احب ما استتر به رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته، هدف، او حائش نخل([592]) "، قال ابن اسماء في حديثه: يعني حائط نخل.([593])
ترجمہ: کہ مجھے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر میرے کان میں ایک بات کہی وہ بات کسی سے بیان نہ کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت کے وقت ٹیلے کی یا کھجور کے درختوں کی آڑ پسند تھی۔ (تاکہ ستر کو کوئی نہ دیکھے)۔ ابن اسما کی حدیث میں کھجور کے درختوں کے دیوار کا ذکر ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ اس حدیث کی فقہ میں سے ہے کہ قضائے حاجت کے وقت دیوار، یا اونچی جگہ، یا گڑھے کے ذریعہ ستر پوشی کرنا مستحب ہے، با یں طور انسان کا پورا جسم لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوجائے، تو یہ سنت مؤکدہ ہے، واللہ اعلم ([594])
چہار دیواری میں حاجت کرنے والا غسل خانے، اور بیت الخلا کی وجہ سے شرمگاہ کے ظاہر ہونے سے محفوظ ہوچکا ہے، اس سہولت رسانی پر اللہ کا احسان ہے۔
فائدہ: صحرا میں حاجت کرنے والے کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنا کپڑا زمین سے قریب ہونے سےقبل نہ کھولے ، خاص طور سے ایسی جگہ جہاں کسی کی نگاہ پڑنے کا امکان ہو۔
7بیٹھ کر اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنا
اصل حکم یہ ہے کہ پیشاب بیٹھ کر کیا جائے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں.جو تم سے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو تم اس کی تصدیق نہ کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔ ([595])
کیونکہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے کپڑا اور بدن پیشاب کے چھینٹوں سے محفوظ نہیں رہ پاتا، لیکن اگر کھڑے ہوکر پیشاب کرنےکی نوبت درپیش ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رايتني انا والنبي صلى الله عليه وسلم نتماشى، فاتى سباطة([596]) قوم خلف حائط، فقام كما يقوم احدكم فبال، فانتبذت منه، فاشار إلي فجئته، فقمت عند عقبه حتى فرغ"۔([597])
ترجمہ: (ایک مرتبہ) میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے تھے کہ ایک قوم کی کوڑی پر (جو) ایک دیوار کے پیچھے (تھی) پہنچے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہو گئے جس طرح ہم تم میں سے کوئی (شخص) کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا اور میں ایک طرف ہٹ گیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (پردہ کی غرض سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہو گئے۔
حدیث ِحذیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے درمیان کوئی تناقض نہیں ہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشتر حالت پر محمول کیا جائے، اور دوسری حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنےکے محض ثبوت پرہے، اور علما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے عمل کے بارے میں کہا ہے یہ جواز کے بیان کے لئے ہے، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی جگہ تھے، جہاں بیٹھ کر پیشاب کرنا ممکن نہیں تھا۔
فائدہ: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے متعلق دو شرائط ہیں:
1) پیشاب کے چھینٹ سے مامون ہونا
2) لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہنا
یہ بات ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ ([598])
مسئلہ: کیا بلا ضرورت کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے؟
جواب : دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کا کہنا ہے: اگر کوئی بغیر ضرورت کے کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، لیکن رفع حاجت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر جس پر عمل تھا اور جو افضل طریقہ بھی ہے، اس کی مخالفت سمجھی جائے گی۔([599])
8۔قضاے حاجت میں داہنا ہاتھ استعمال کرنے کی ممانعت
جان لیں! جس نے بھی نصوص شرعیہ پر غوروفکر کیا ہے، وہ پائے گا کہ شریعت نے بایاں پیر اور ہاتھ کے نسبت داہنے ہاتھ اور پیر کو زیادہ معزز سمجھا ہے، اور شریعت نے بندوں کو اس جانب رہنمائی بھی کی ہے کہ وہ داہنے عضو کو اچھے کاموں میں استعمال کریں، اور بائیں عضو کو اس کے برعکس میں استعمال کریں، اسی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے اور عضو تناسل چھونے سے منع فرمایا ہے، ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دو وجہوں سے مس ذکر اور داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے:
1)داہنے عضو کی قدر ومنزلت کے تئیں اسے ادنی درجے کے کاموں میں استعمال نہ کرنا، اس لیے بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت داہنا پیر بعد میں رکھنا،اور مسجد میں داخل ہوتے وقت داہنا پیر پہلے رکھنے کی ہدایت ہے،نیز کھانے پینے کے لئے داہنا ہاتھ اورگندگی کے کاموں کے لئے بائیں عضو کو خاص کیا گیا ہے۔
2) اگر دایاں ہاتھ سے براہ راست نجاست چھویا جائے، تو انسان کو کھانے پینے کے وقت داہنے ہاتھ سے کیا چیز چھوئی گئی ہے اس کا خیال گزرے گا ، جس سے طبیعت میں تنفر اور کراہیت پیدا ہوگی، اور یہ بھی محسوس ہوگا کہ اس گندگی کا اثر باقی ہے، اس لیے اس سے دوری اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ انسان مطمئن ہوکر کھان پان کرے۔ ([600])
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" إذا بال احدكم، فلا يأخذ ذكره بيمينه، ولا یستنجی بيمينه، وإذا شرب، ولا یتنفس فی الاناء"
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنے عضو تناسل کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے، اور نہ برتن میں سانس چھوڑے“
اور صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے "لا يمسكن احدكم ذكره بيمينه وهو يبول، ولا يتمسح من الخلاء بيمينه" ([601])
ترجمہ: کوئی تم میں سے اپنا ذکر پیشاب کرتے وقت داہنے ہاتھ سے نہ تھامے اور پائخانہ کے بعد داہنے ہاتھ سے استنجاء نہ کرے۔
امام نووی کہتے ہیں: علما کا اجماع ہے کہ داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا منع ہے، اور جمہور کہتے ہیں یہ ممانعت نہی تحریمی کے بجائے نہی تنزیہی کے قبیل سے ہے۔([602])
مسئلہ: کیا رفع حاجت کے وقت سرین کو داہنے ہاتھ سے چھونے کی ممانعت کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی ہے؟
جواب: رفع حاجت کے وقت داہنے ہاتھ سے دبر کو چھونا، پیشاب کرتے وقت عضو تناسل چھونے سے بدرجہ اولی ممنوع ہے، یہ قیاس اولی ہے، شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کم تر صورت کی تنبیہ پر اس لیے اکتفا فرمایا کیونکہ وہ اپنے برتر صورت پھی دلالت کرتا ہے، خاص طور سے یہ ذہن میں رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ([603]) ، لیکن اس کے باوجود آپ کی حیا داری کبھی تبلیغ دین میں مانع نہیں ٹھہری۔ اور یہاں کم تر صورت کے بیان سے معنی حاصل ہو جارہا ہے اور ساتھ ہی اشد صورت پر تنبیہ بھی ہوجا رہی ہے ،واللہ اعلم
مسئلہ2: طلق بن حبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اتنے میں ایک شخص آیا وہ دیہاتی لگ رہا تھا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! وضو کر لینے کے بعد آدمی کے اپنے عضو تناسل چھونے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اسی کا ایک لوتھڑا ہے“، یا کہا: ”ٹکڑا ہے([604])
سوال یہ ہے کہ حدیث بظاہر تمام احوال میں مس ذکر کی اباحت پر دلالت کر رہی ہے، تو حدیث ابوقتادہ اور حدیث مذکور کے مابین جمع وتطبیق کی صورت کیا ہوگی؟
جواب: ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے، طلق رضی اللہ عنہ کی حدیث مطلق ہے، اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پیشاب کرنے کی حالت کے ساتھ خاص ہے، ابن ابی جمرہ کہتے ہیں: ( ان کا کہنا ) : (إنما هو بضعة منك) یعنی: جسم کا ایک لوتھڑا ہے، یہ تمام احوال کے جواز پر دلالت کرتا ہے، لیکن ابوقتادہ کی حدیث سے پیشاب کرنے کی حالت نکل جاتی ہے، اس کے علاوہ بقیہ تمام احوال مباح ہیں۔([605])
یہ شریعت کی خوبی میں سے ہے، کہ اس میں سہولت اور تخفیف رکھی گئی ہے،اور عدم استطاعت اور مشقت کے وقت رفعِ حرج کی تعلیم دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ( يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارداہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں۔
شریعت کے جملہ آسانیوں میں سے ایک آسانی یہ بھی ہے، کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پتھر اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے استنجا کرنے کی سہولت فراہم کی ہے، جیسے فراغت کے بعد عام پیپر یا ٹشو پیپر استعمال کرنا، یہ پاکی حاصل کرنے میں پانی کے قائم مقام ہے، اور بلاشک کہ یہ آسانی ہے، کیونکہ پانی ہر احوال میں مناسب نہیں رہتا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتبعت النبي صلى الله عليه وسلم وخرج لحاجته، فكان لا يلتفت، فدنوت منه، فقال:" ابغني احجارا استنفض([607]) بها او نحوه، ولا تاتني بعظم ولا روث، فاتيته باحجار بطرف ثيابي فوضعتها إلى جنبه واعرضت عنه، فلما قضى اتبعه بهن"۔([608])
ترجمہ:(ایک مرتبہ)رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا۔ (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پتھر ڈھونڈ دو، تاکہ میں ان سے پاکی حاصل کروں، یا اسی جیسا (کوئی لفظ) فرمایا اور فرمایا کہ ہڈی اور گوبر نہ لانا۔ چنانچہ میں اپنے دامن میں پتھر (بھر کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں رکھ دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹ گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (قضاے حاجت سے) فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں سے استنجاء کیا۔
فائدہ: استنجا بسا اوقات پانی سے حاصل ہوتا ہے، اور کبھی پتھر سے، اور کبھی ان دونوں سے بھی ہوتا ہے، پہلی اور دوسری صورت کے متعلق صحیح احادیث وارد ہیں، تیسری صورت کے متعلق ہمارے علم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مذکور نہیں ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے وہ عمل کامل طہارت کا باعث ہے، یہ قول ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے۔([609])
10- گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنا مکروہ ہے :
اللہ نے جب بزبان رسالت پانی کے عوض پتھر اور دیگر اشیا کو صفائی ستھرائی کے لئے مباح قرار دیا، تو اس کے ساتھ چند مقاصد کے پیش نظر نظافت کے لئے گوبر اور ہڈی کے استعمال کو منع فرمایا، یہ ممانعت امر تعبدی کے رو سے ہے، یا اس میں پاکی کی خاصیت نہیں پائی جاتی ہے، جس طور سے پتھر اور دیگر چیزوں میں پائی جاتی ہے، اس لئے یہ ممانعت وارد ہوئی ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے" اتى النبي صلى الله عليه وسلم الغائط، فامرني ان آتيه بثلاثة احجار، فوجدت حجرين والتمست الثالث فلم اجده، فاخذت روثة فاتيته بها، فاخذ الحجرين والقى الروثة، وقال: هذا ركس۔ ([610])
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میں تین پتھر تلاش کر کے آپ کے پاس لاؤں۔ لیکن مجھے دو پتھر ملے۔ تیسرا ڈھونڈا مگر مل نہ سکا۔ تو میں نے خشک گوبر اٹھا لیا۔ اس کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر (تو) لے لیے (مگر) گوبر پھینک دیا اور فرمایا یہ خود ناپاک ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا۔ تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جنوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جنوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جن تھے۔ تو انہوں نے مجھ سے توشہ مانگا میں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ جب بھی ہڈی یا گوبر پر ان کی نظر پڑے تو ان کے لیے اس چیز سے کھانا ملے۔ ([611])
اس روایت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہڈی اور گوبر کو صفائی ستھرائی کے کام میں استعمال کرنا کیوں منع ہے۔
فائدہ: جِن کے کھانے پر قیاس کرتے ہوئے انسان کے کھانے کی چیزوں سے بھی استنجا کرنا منع ہے، یہ استدلال قیاس اولی کے قبیل سے ہے، اسی طرح مقدس اوراق سے بھی استنجا کرنا حرام ہے، جیسے شرعی علوم کی کتابیں؛ اس لئے کہ اس میں قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں، نیز اسی طرح لفظ جلالہ اور قرآن سے استنجا کرنا بھی بدرجہ اولی ممنوع ہے ۔
11- طاق عدد سے استنجا کرنا:
یہ حکم اس جگہ کی صفائی کی خاطر ہے، کم از کم تین دفعہ پتھر استعمال کرنا چاہیے تاکہ پوری جگہ کی صفائی ہوجاے، سابقہ حدیث جو سلمان رضی اللہ سے مروی ہے اس میں مذکور ہے کہکہ تین عدد سے کم سے استنجا نہ کرو۔ ([612])
اگر تین عدد سے کم سے صفائی ہوجاتی ہے پھر بطور واجب تین کی تعداد پوری کریں گے، اور اگر تین عدد سے زائد سے صفائی حاصل ہو، اور تعداد جفت میں ہو، جیسے چار اور چھ وغیرہ ، تو ایسی صورت میں طاق عدد استعمال کرنا مستحب ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں کا کوئی استنجا کرے ، تو اسے چاہیئے کہ وہ طاق عدد سے استعمال کرے ۔([613])
بہت سے اہل علم نے قضاے حاجت کے وقت گفتگو کرنے کو مکروہ سمجھا ہے، اور یہ حکم ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ماخوذ ہے :ایک شخص نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ ([614]) لیکن کسی ضرورت کے تحت گفتگو کی جاسکتی ہے، جیسے کسی ایسے نابینے کی رہنمائی کرنا جو کنویں میں گرنے کے قریب ہو، یا کسی سے پانی طلب کرنا ہو وغیرہ۔([615])
مسجد میں حاضر ہونے کے آداب کا بیان
- اللہ کا فرمان ہے: {يَابَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ } ([616])
ترجمہ: اے اولاد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز کے لیے پورا وضو کرے پھر فرض نماز کے لیے (مسجد کو) چلے اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت سے یا مسجد میں نماز پڑھے تو اللہ اس کے گناہ بخش دے گا۔([617])
جس نے پیاز یا کچا لہسن کھایا ہو اس پر واجب ہے کہ وہ مسجد جانے سے پرہیز کرے، تاکہ اس کی بدبو سے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو، نیز جس نے مصلیوں کو ایذا پہنچایا اس نے فرشتوں کو تکلیف پہونچایا۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو وہ ہم سے دور رہے یا (یہ کہا کہ اسے) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے اور اسے اپنے گھر میں بیٹھنا چاہیے۔ ([618])
نیز سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع کیا۔ پھر ہمیں ضرورت ہوئی اور ہم نے کھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اس بدبودار درخت میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے اس لئے کہ فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جس سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ ([619])
جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ لہسن اور پیاز کھاکر مسجد جانے سے منع کیا گیا ہے،اور اس کی وجہ سے جماعت کے فوتگی پر کوئی گناہ نہیں ہے،لیکن ایک گروہ اس امر کی مخالفت کرتاہے، حالانکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے، { فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم} ([620])
ترجمہ: سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے.
بعض لوگ اس کی مخالفت کا ارداہ تو نہیں کرتے لیکن حسن نیت کے بنا پر یہ گراں سمجھتے ہیں کہ وہ جماعت ترک کریں گرچہ لہسن یا پیاز کیوں نہ کھا رکھا ہو۔ یہ کوئی مقبول عذر نہیں ہے، بلکہ بعض عامی افراد اس کی ممانعت سے آگہی رکھنے کے باوجود اس کا اہتمام نہیں کرتے، بے شک یہ دل میں ایمان کے کمزور ہونے کی دلیل ہے۔
تنبیہ: مذکورہ اشیا پیاز، لہسن، اور گندنا کے بو پر ہر اس بو کو قیاس کیا گیا ہے جس سے نمازیوں کو دقت ہوتی ہے، جیسے سیگریٹ، بدبودار لباس یا وہ بدبو جو انسانی جسم سے خارج ہوتا ہے، لہذا مصلی پر واجب ہے کہ وہ مسجد جانے سے پہلے اپنے احوال کا جائزہ لے لے، تاکہ وہ نمازیوں کی تکلیف کا باعث نہ بنے، اور گناہگار نہ ہو۔
فائدہ: اگر پیاز اور لہسن کھایا ہوا شخص کوئی ایسی چیز استعمال کرلیتا ہے جس سے اس کی بدبو زائل ہوجاتی ہے، تو وہ مسجد جاسکتا ہے، لیکن اس امر کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ بو بالکلیہ ختم ہوچکی ہو، اور اس سے نمازیوں کو دقت نہیں ہوگی، اور جہاں تک بعض لوگوں کامنجن سے پیاز اور لہسن کی بو ختم کرنے کی بات ہے ، تو یہ بڑی غلط فہمی ہے ، کیونکہ پیاز اور لہسن کی بو کا تعلق معدے سےہوتا ہے، نہ کہ منہ سے۔
2- مسجد کے لیے جلد نکلنا مستحب ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے لیے جلد نکلنے اور اس کی طرف پہل کرنے کی ترغیب دی ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس میں سبقت کرنے کی کوشش کرتے۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کتنا ثواب ہے، تو ضرور پشت کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔
اور صحیح مسلم میں ہے :اگر تم لوگ پہلی صف کی فضیلت جانتے تو اس میں شرکت کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔([621])
ان احادیث یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کے لیے جلدی نکلنے میں کتنا عظیم اجروثواب ہے،اس کا پتہ ایسے چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد جلد پہونچنے کے اجر کو مبہم رکھا ہے، اور یہ ابہام اس پر دلالت کرتا ہےکہ مسجد کے لیے جلد نکلنے میں بڑا اجر وثواب ہے، پھر اس کے لیے قرعہ اندازی کرنا یہ بھی اس بات کی طرف قوی اشارہ کرتا ہے کہ اس عمل میں بڑا اجر مضمر ہے۔
نماز کے لیے نکلنے والے شخص کے لیے مستحب ہے کہ اس کی چال میں خشوع ،سکینت اور طمانیت ہو، کیونکہ جو نماز کے لئے نکلتا ہو اور اپنے چلنے میں مطمئن ہو تو یہ اس کی نماز کے تئیں خشوع اور اہتمام کا موجب ہے، اور اس کے برعکس جو نماز کی ادائیگی کے لئے دوڑ کر جلد بازی کرتے ہوئے آیا ہو تو وہ نماز میں اس حال میں داخل ہوگا کہ اسکا ذہن کہیں اورمنتشر ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لیے دوڑ کر آنے سے منع فرمایا ہے اگرچہ نماز کیوں نہ کھڑی ہوگئی ہو،
قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سنی۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم نماز کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، نماز کا جو حصہ پاؤ اسے پڑھو اور اور جو رہ جائے اسے (بعد) میں پورا کر لو۔ ([622])
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتار سے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ (امام کے ساتھ) پالو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تو اسے بعد میں پورا کرو۔([623])
ان دو احادیث میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ( إذا أتيتم الصلاة ) کا لفظ آیا ہے، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ( إذا أقيمت الصلاة) مذکور ہے، تو کیا ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب نمازی مسجد کو آئے تو اس پر واجب ہے کہ وہ سکون اور متانت کے ساتھ آئے خواہ نماز کھڑی ہو، یا نہ ہو۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ( إذا أقيمت الصلاة) تو اس میں اس امر کا بیان ہے، جو عام طور سے لوگوں کو نماز کے لیے دوڑنے پر آمادہ کرتا ہے، اس سے یہ واضح ہوگیا کہ ان دونوں عبارتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، واللہ اعلم
نماز کے لیے چل کر جانے والوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس نبوی دعا کا اہتمام کریں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلتےتھے تو پڑھا کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں ان کا اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزارنے کا ذکر ہے، اس حدیث کے آخری حصے میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے آپ کو آگاہ فرمایا ، تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا، اور آپ کی دعا میں یہ الفاظ تھے " اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وامامي نورا، وخلفي نورا، وعظم لي نورا "۔
ترجمہ : یا اللہ! میرے دل میں نور کردے اور آنکھ میں نور اور کان میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور پیچھے نور اور میرے لئے مزید نور بڑھا دے۔
ابوداود کے الفاظ ہیں : کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے تو یہ دعا پڑھا۔ (دعا کا ترجمہ اوپر گزر چکا ہے) ([624])
۵مسجد میں داخل ہونے اور نکلتے وقت دعا پڑھنا :
مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:
الف- اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، اللهم افتح أبواب رحمتك، ( اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلم اور ان کی آل پر دورو سلام نازل فرما، اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے)
اور جب مسجد سے نکلنا ہو تو یہ دعا پڑھیں "اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، اللهم إني أسألك من فضلك."
ترجمہ : اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر دورو سلام نازل فرما، اور اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں،
اور یہ دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں پڑھنا ہے کیونکہ آپ مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے و قت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
ابو حمید اور ابو اسید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی مسجد میں آۓ تو کہے: «اللَّهُمَّ افْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ» یا اللہ! کھول دے میرے لیے دروازے اپنی رحمت کے اور جب نکلے تو کہے: «اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ» یااللہ! میں مانگتا ہوں تیرا فضل یعنی رزق اور دنیا کی نعمتیں۔([625])
اور ابو داود میں ہے :جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم افتح لي أبواب رحمتك» اے اللہ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے، پھر جب نکلے تو یہ کہے: «اللهم إني أسألك من فضلك» اے اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں“۔
ب- مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنا بھی مستحب ہے، ( أعوذ بالله العظيم، وبوجهه الكريم، وسلطانه القديم، من الشيطان الرجيم)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب آپ مسجد تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے تھے، أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم"، قال([626]): أقط؟ قلت: نعم، قال: فإذا قال ذلك، قال الشيطان: حفظ مني سائر اليوم۔([627])
ترجمہ : میں اللہ عظیم کی، اس کی ذات کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں) تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے: اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پیر پہلے رکھنا مستحب ہے، کیونکہ یہ عمل نبوی ہے، اس لئے کہ مسجد سب سے برگزیدہ جگہ ہے، اور اس کے شرف ومنزلت کی خاطر داہنا پیر پہلے داخل کرنا زیادہ بہتر ہے، اور نکلتے وقت بایاں پیر پہلے رکھنا چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا، کیونکہ مسجد کے علاوہ دوسری جگہیں شرف ومنزلت میں کم تر ہیں، اور یہ شرعی طریقے میں سے ہے کہ داہنے ہاتھ اور پیر کو اچھے کاموں میں استعمال کیا جائے، اور بائیں ہاتھ اور پیر کو ادنی درجے کے کاموں میں لگایا جائے، اور اس باب کا جو عام قاعدہ ہے وہ حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ماخوذ ہے، فرماتی ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔([628])
اور مسجد میں داخل ہونے کی جو سنت ہے اسے انس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے: یہ سنت میں سے ہے کہ جب مسجد میں داخل ہوں تو داہنے پیر کو پہلے رکھیں، اور جب نکلنا ہو تو بائیں پیر آگے رکھیں،۔([629])
اور محدثین کے بارے میں یہ معروف ہے کہ صحابی جب من السنۃ کہے تو وہ حدیث حکما مرفوع ہوتی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ کی سابقہ حدیث پر یہ باب بندھا ہے ( باب التیمن فی دخول المسجد وغیرہ) پھر انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کو بیان فرمایا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ داہنے پیر سے داخل ہوتے تھے اور نکلتے وقت بایاں پیر آگے کرتے تھے ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں معروف ہے کہ آپ سنت نبوی کی پیروی میں کافی حریص تھے۔
۷مسجد میں داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد ادا کرنا مستحب ہے:
مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے ، یہ واجب نہیں ہے، لیکن سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر صحابہ کو اس دو رکعت کی ہدایت دی ہے، جیسا کہ ابو قتادہ السلمی - رضی اللہ عنہ- کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں کا کوئی جب مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرلے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو دوسری احادیث کے پیش نظر وجوب کے بجائے استحباب پر محمول کیا گیا ہے، جیسے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں : نجد والوں میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سر پریشان یعنی بال بکھرے ہوئے تھے، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنتے تھے اور ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نزدیک آن پہنچا، جب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنا ہے، اس نے کہا بس اس کے سوا تو اور کوئی نماز مجھ پر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل پڑھے (تو اور بات ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا اور تو کوئی روزہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر تو نفل روزے رکھے (تو اور بات ہے) طلحہ نے کہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا۔ وہ کہنے لگا کہ بس اور کوئی صدقہ مجھ پر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ تو نفل صدقہ دے (تو اور بات ہے) راوی نے کہا پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا۔ یوں کہتا جاتا تھا، قسم اللہ کی میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔([630])
بنابریں اہل ایمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ان دو رکعتوں سے پہلو تہی کرے کیونکہ ان میں کافی خیر ہے۔
۸مسجد میں بیٹھنے کی فضیلت :
مسجد میں بیٹھنے اور نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت میں جو حدیث آئی ہے وہ یہ ہے : جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں رہتا ہے اور جب تک وہ نماز پڑھتا رہتا ہے، فرشتے اس کے لئے دعائے خیر کر رہے ہوتے ہیں، جب تک وہ اس جگہ میں ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے، فرشتے کہتے ہیں کہ یا اللہ! تو اس پر رحم کر، یا اللہ اس کو بخش دے، یا اللہ! تو اس کی توبہ قبول کر جب تک کہ وہ ایذا نہیں دیتا، جب تک وہ حدث نہیں کرتا۔ (یعنی تب تک فرشتے بھی کہتے رہتے ہیں) ([631])
یہ بندوں پر اللہ رب العالمین کی رحمت اور بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے مسجد میں بیٹھنے اور نماز کے انتظار کرنے میں نماز پڑھنے کی طرح اجر رکھا ہے، نیز اللہ نے فرشتوں کو اس بات پر مامور کیا ہے کہ وہ نماز کے انتظار میں رہنے والوں کے لئے رحمت، مغفرت اور توبہ کی دعا کریں، لیکن اس واسطے یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ نماز کے منتظر افراد کے حق میں فرشتوں کی دعائیں اور مذکورہ ثواب چند امور سے مشروط ہیں۔
1) واقعتا نماز نے اہل وعیال اور شغل کی طرف جانے سے روک رکھا ہو
2) منتظر صلوۃ کے حق میں فرشتوں کی دعا اس بات کی رہین ہے کہ وہ اسی جگہ ٹھہرا رہا ہو جہاں اس نے نماز پڑھی ہے۔دوسری توجیہ یہ ہے کہ منتظر صلوۃ فرشتوں کی دعا کا مستحق اس وقت ہوگا جب اس نے نماز کا انتظار مسجد میں کیا ہو، اور اسی جگہ پر انتظار کیا ہو جہاں اس نے گزشتہ نماز پڑھی ہے، لیکن حدیث کا سیاق پہلی توجیہ کی تائید میں ہے۔
3) نماز کا انتظار کرنے کا ثواب اور فرشتوں کا اس کے لیے دعا کرنا یہ تمام چیزیں حدث یا ایذا دینے کی صورت میں ساقط ہوجاتی ہے، اور ایذا یہ ہے کہ آپ کے قول یا فعل سے مسلمانوں یا فرشتوں کو تکلیف پہونچتی ہو۔ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں، کہ احداث یہ ہیکہ منتظر صلوۃ سے کوئی ایسی چیز سرزد ہو جو ناقض وضو قرار پاتا ہو۔ ([632])
تنبیہ: بہت سے لوگ اس خالی وقت ( اذان اقامت کے درمیان نماز کے انتظار کا وقت) کو یونہی ضائع کردیتے ہیں، آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ نمازیوں اور آنے والوں پر نظریں دوڑاتے ہیں، بعض لوگ مسجد کے نقش ونگار، اس کی عمارت اور دیگر چیزوں پر پر غور وخوض کرتے ہیں، لیکن اگر وہ اس وقت کو غنیمت جان کر اس میں قرآن پڑھیں، اذکار کا اہتمام کریں، یا دلی جمعی کے ساتھ دعا مانگیں کیونکہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، تو یہ ان کے حق میں کافی خیر کا باعث ہوگا۔
دوسری تنبیہ: نماز کی امامت ایک نوعیت کی ولایت ہے، لہذا امام پر واجب ہے کہ وہ مقتدیوں پر نرمی برتے، اور انہیں کسی طرح کی تکلیف ومشقت میں نہ ڈالے،
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :یااللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو پھر وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی ان پر سختی کر اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے تو بھی اس پر نرمی کر۔([633])
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ان لوگوں کو ڈانٹ پلانے کے لئے کافی بلیغ جملہ ہے جو لوگوں کو حرج ومشقت میں ڈالتے ہیں، نیز یہ حدیث لوگوں پر نرمی کرنے کے باب میں بھی کافی اہم ہے، اور اس معنی میں کافی واضح احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔ ([634])
اور یہ امر واقعی ہے کہ بعض آئمہ کرام لاشعوری یا شعوری طور پر لوگوں کو مشقت میں ڈالتے ہیں: وہ نماز قائم کرنے میں تاخیر کرتے ہیں، لوگوں کو اپنی حاجت وضرورت پوری کرنے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، نیزوہ نمازی جسے ضروری طور پر کوئی حاجت درپیش ہو وہ حرج میں پڑجاتا ہے کہ آیا تنہا نماز پڑھ لوں ،یا اس امام کا انتظار کروں؟ ۔
بہترین امام وہ ہے جس نے جماعت کے لیے ایک وقت متعین کرلیا ہو([635])، بایں طور اگر اس سے کسی بنا پر تاخیر ہوجاتی ہو تو لوگوں کو خود سے نماز پڑھنے کی اجازت ہو، اپنی تاخیر کی وجہ سے لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالتا ہو، انہیں سہولت فراہم کرتا ہو۔ اور یہ عمل قیام جماعت اور لوگوں کی تئیں امام کے شفیق اور مہربان ہونے کی دلیل ہے ۔ اللہ توفیق سے نوازے ۔
مسجد میں پیٹھ کے بل لیٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھ کر لیٹاکرتے تھے ، عبد اللہ بن زید بن عاصم سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ ابن شہاب زہری سے مروی ہے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح لیٹتے تھے۔([636])
لیکن ایسی صورت میں شرمگاہ کے ظاہر ہونے سے مامون ہونا ضروری ہے، کیونکہ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں میں رکھنے میں شرمگاہ کے کھلنے کا خدشہ ہوتا ہے، لہذا جس کے لیے اس کی حفاظت ممکن ہو تو اس کے لیے ایسا منع نہیں ہے۔
فائدہ: بعض لوگ پرہیز گاری کے تئیں قبلے کی جانب پیر کرنے میں حرج محسوس کرتے ہیں، لیکن یہاں حرج محسوس کرنا صحیح نہیں، کیونکہ قبلے کی جانب ایک پاؤں یا دونوں پاؤں پھیلانے والا گناہ گار نہیں ہوتا خواہ وہ داخل مسجد ہو یا خارج مسجد۔ ([637])
تنبیہ : لیکن مسجد میں قبلے کی جانب پیر پھیلانے والے پر واجب ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ اس کا پیر مصحف کے جانب نہ ہوتا ہو۔([638]) یہ حکم کلام اللہ کی تعظیم وتکریم کے پیش نظر ہے، بلکہ لوگ اپنی مجلسوں میں ایسے شخص پر نکیر کرتے ہیں جو ان کی طرف پیر پھیلا کر بیٹھتا ہے، تو اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو اپنے پیر مصحف کی جانب کرتا ہو؟ بلا شک اس پر بدرجہ اولی نکیر کرنے کا حکم ہونا چاہیے۔
۱۰مسجد میں سونے کا جواز:
ضرورت کے تحت مسجد میں سونا جائز ہے، اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم([639]) مسجد میں سویا کرتے تھے،([640]) ابن عمر رضی اللہ عنہ شادی ہونے سے قبل مسجد میں سویا کرتے تھے، نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے۔([641])
تنبیہ: اگر مسجد میں نیند کی حالت میں احتلام ہوجائے، تو نیند سے بیدار ہوتے ہی مسجد سے باہر نکل جایا جاے تاکہ غسل جنابت کیا جاسکے۔([642])
۱۱۔مسجد میں خرید وفروخت کا ممنوع ہونا :
مسجد میں خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ مسجد اس غرض کے لیے نہیں بنائی گئی ہے، اس کی تعمیر ذکی الہی ، اقامت صلوٰۃ، اور لوگوں کو دینی تعلیم فراہم کرنے کے لئے کی گئی ہے، ۔۔۔ اور اگر کوئی کسی کو خرید وفروخت کرتے دیکھتا ہے، تو اسے بد دعا دینی چاہیے کہ اللہ تیری تجارت میں برکت نہ دے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آپ کسی کو مسجد خرید وفروخت کرتے دیکھیں تو اسے کہیں: لا أربح الله تجارتك.. کہ اللہ تیری تجارت میں برکت نہ دے۔ ([643])
تنبیہ: اس کمرہ یا ہال میں بیع وفروخت کرنا جو مسجد سے ملحق ہو ، یا وہ جگہ جسے نماز کے لیے مخصوص کیا گیا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟
دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کا کہنا ہے: وہ جگہ جو نماز کے لئے مخصوص ہے اگر وہ مسجد کے تابع ہے تو وہاں خرید وفروخت کرنا یا کسی سامان کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب آپ مسجد میں کسی کو خرید وفروخت کرتے دیکھیں تو اسے کہیں: لا أربح الله تجارتك.. کہ اللہ تیری تجارت میں برکت نہ دے، نیز ان کا کہنا ہے: کمرے کے متعلق تفصیل ہے، اگر وہ مسجد کے حدود میں آتا ہو تو اس کا حکم مسجد کا ہوگا، اور اس پر وہی حکم لاگو ہوگا جو حکم ہال کا ہے، اگر وہ کمرہ حدود مسجد سے باہر ہو اگرچہ اس کے دروازے مسجد کے دائرے میں آتے ہوں تو وہ مسجد کے حکم میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ گھر جس میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رہا کرتی تھیں اس گھر کا دورازہ مسجد سے ملحق تھا، لیکن وہ مسجد کے حکم میں نہیں تھا۔([644])
فائدہ : اتباع سنت نبوی کے تئیں جو کوئی کسی شخص کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے سنے تو یہ کہے : لا أربح الله تجارتك۔۔۔۔ لفظ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ اس حکم میں نادان اور باخبر کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
اللہ کی مسجد کی تعمیر اس کے ذکر، تسبیح، تلاوت قرآن،اور نماز کی ادائیگی کے لئے ہوتی ہے ، اسے گمشدہ چیزوں کے تفتیش کے لیے نہیں بنایا جاتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی مسجد میں گمشدہ اشیا کا اعلان کرتے ہوئے کسی شخص کو دیکھے، تو اسے کہنا چاہیئے کہ اللہ تیرا سامان واپس نہ کرے، کیونکہ مساجد اس کے لئے نہیں بنائی گئی ہیں،۔مسند احمد میں ہے ( لا أداھا الله عليك) اور دارمی میں ہے ( لاأدى الله عليك) ([646])
اس بنیاد پر اگر کوئی گمشدہ سامان اعلان کرتے ہوئے کسی کو سنتا ہے تو اسے " لا ردها الله عليك، یا "لا أداها الله عليك" یا " لا أدی الله عليك"، کہنا چاہیے، اور ان تمام کلمات کا معنی ایک ہے،
13-مساجد میں آواز بلند کرنا :
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: ”اے کعب!“ تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول! تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابن حدرد) سے فرمایا: ”اٹھو اور اسے ادا کرو“۔([647])
نیز سائب بن یزید نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟ ([648])
ظاہری طور پر غور کرنے سے یہ احادیث آپس متعارض معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بلند آواز کرنے پر کوئی نکیر نہیں کی، بلکہ آپ نے کعب رضی اللہ عنہ کو آدھا قرض معاف کردینے کا حکم دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معروف ہے کہ ضرورت کے وقت کسی امر کی رہنمائی کرنے میں آپ تاخیر نہیں کرتے، اور عمر رضی اللہ عنہ کا اثر مسجد میں بلند آواز کرنے کے مکروہ ہونے پر دلالت کر رہا ہے،اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ وہ اس بات کا التزام کرتے تھے کہ دلیل کی جانکاری کے بغیر کسی پر نکیر نہیں فرماتے تھے، مطلب یہ روایت حکما مرفوع ہے، شاید یہ توجیہ امام مالک سے منقول ایک روایت کی تائید میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی ضروری امر، خیر و بھلائی یا علم کی غرض سے آواز بلند کرنا اور شوروغوغا کی وجہ سے آواز کے بلند ہونے میں تفریق کرنی چاہیے، پہلی صورت جائز ہے ،جبکہ دوسری صورت عدم جواز کی ہے۔([649])
تنبیہ: دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کا کہنا ہے: ہاتھ پھیلاکر سوال کرنا مسجد یا غیر مسجد میں ضرورت کے تحت جائز ہے،ورنہ بصورت دیگر حرام ہے، اگر سائل سخت طور پر حاجت مند ہو، اور اپنی حاجت دور کرنے سے قاصر ہو، نیز لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگی ہوں، اور اپنے ذکر احوال میں جھوٹ سے کام نہ لیا ہو، اور نہ ہی جہرا اپنی ضرورت کا اعلان کیا ہو جس سے نمازیوں کو ضرر پہونچتا ہو، جیسے لوگوں کا ذکر واذکار منقطع ہوگیا ہو ، یا دوران خطبہ سوال کیا ہو، یا ایسے وقت سوال کر رہا ہو جب لوگ نفع بخش علم سماعت کر رہے ہوں، یا اس طرح کی دیگر اشیا جس سے لوگوں کی عبادت میں خلل پیدا ہوتا ہو، تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنے سنن میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا ( هل منكم أحد أطعم اليوم مسكينا؟) کیا تم میں سے کسی نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا اور میں دیکھتا ہوں کہ ایک سائل سوال کر رہا ہے، تو میں نے عبد الرحمن کے سامنے روٹی کا ایک ٹکڑا پایا ،میں نے اس سے وہ روٹی لی اور اس سائل کو دے دیا۔ امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام مسلم نے اپنے صحیح میں اور امام نسائی نے اپنے سنن میں ابو حازم سلمان الاشجعی کے طریق سے قدرے اختلاف کے ساتھ اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، یہ حدیث مسجد میں صدقہ کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اور ضرورت کے وقت مسجد میں سوال کرنے کے جواز پر بھی دال ہے، اگر بلا ضرورت سوال کیا گیا ہو، یا اپنے بارے میں جھوٹ بول کر مانگا گیا ہو، یا مسجد میں سوال کرنے سے مصلیوں کا نقصان ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اسے سوال کرنے سے منع کردیا جائے گا۔([650])
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے کئی دفعہ انگلیوں کو آپس میں ڈالا ہے، خواہ مسجد میں رہے ہوں یا خارج مسجد، اس سے مطلقا انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔([651])
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں سہو ہونے کا ذکر ہے، فرماتے ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ ([652])
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انگلیوں کو آپس میں ڈالنے کی ممانعت بھی ثابت ہے، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کا ارادہ کر کے نکلے تو اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست نہ کرے، کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے“۔([653])
ان تمام میں جمع کی صورت یہ ہیکہ انگلیوں کو آپس میں ڈالنے کی ممانعت کا تعلق نماز سے قبل کا ہے، کیونکہ مسجد کی طرف جانا والا شخص نماز کے حکم میں ہوتا ہے، اور نماز ختم ہونے کے بعد نماز سے فارغ ہونے کے حکم میں ہوتا ہے۔
15- مسجد میں مباح دنیوی امور پرگفتگو کا جواز :
مرد کا اپنے بھائی سے مسجد میں مباح دنیوی امور کے متعلق گفتگو کرنا جائز ہے، اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے اور صحابہ کرام بھی مسجد میں اس طرح کی گفتگو کرتے تھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے، اورآپ اس طرح باتوں کو منظور بھی فرماتے تھے، اور یہ اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔([654])
سماک بن حرب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، بہت بیٹھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں فجر کی نماز پڑھتے وہاں سے آفتاب نکلنے تک نہ اٹھتے، جب آفتاب نکلتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور لوگ باتیں کرتے اور جاہلیت کے کاموں کا ذکر کرتے اور ہنستے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرماتے۔([655])
لیکن مسجد میں دنیوی امور کے متعلق گفتگو کرنے میں چند امور کی پاسداری ضروری ہے:
1) یہ گفتگو آس پاس کے نماز پڑھنے والے، قرآن کی تلاوت کرنے والے، اور علم میں مشغول افراد کو اپنے اعمال سے پھیرنہ دے،
2) اسے عادت نہ بنایا جائے
3) دوران گفتگو حرام باتوں اور کاموں سے اجتناب کرے
4) اس طرح کی باتیں مختصر ہوں، زیادہ نہ ہوں۔
مسجد میں کھانے اور پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں کھانا کھایا کرتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل جواز پر دلالت کرتا ہے،
عبد اللہ بن الحارث بن جزء الزبيدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں روٹی اور گوشت کھایا کرتے تھے۔ ([656])
لیکن مسجد میں کھانے اور پینے والے شخص کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کھانے، پینے کے سامان سے مسجد میں گندگی نہ ہو۔([657])
۱۷مسجد میں شعر کہنے کا جواز :
مسجد میں شعر کہنا جائز ہے، اگر کلام مباح ہو اور حرام نہ ہو تو مسجد شعر پڑھنے کی جگہ ہو سکتی ہے، شعر میں بھی ان باتوں سے اجتناب کیا جائے گا، جس سے عام گفتگو میں اجتناب کیا جاتا ہے، کیونکہ شعر ایسا کلام ہے، جس میں جو بہتر ہے تو بہتر ہے ، اور خراب ہے تو خراب، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد میں شعر پڑھا کرتے تھے، جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی مدح سرائی کرتے، اور مشرکین کی ہجو اور تردید کیا کرتے تھے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا بھی فرمائی ہے،
سعید بن مسیب کہتے ہیں([658]): عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس وقت یہاں شعر پڑھا کرتا تھا جب آپ سے بہتر شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں تشریف رکھتے تھے۔([659]) پھر حسان رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے تم نے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! (کفار مکہ کو) میری طرف سے جواب دے۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں بیشک (میں نے سنا تھا)۔ ([660])
18- مساجد میں نیزوں اور دیگر ہتھیار سے کھیلنے کا جواز :
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میرے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اپنی چادر سے مجھے چھپائے ہوئے تھے اور حبشی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے،
اور ایک روایت میں ہے کہ: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر آئے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کی گیت گا رہی تھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچھونے پر لیٹ گئے اور اپنا منہ ان کی طرف سے پھیر لیا اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے جھڑکا کہ یہ شیطان کی تان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”ان کو چھوڑ دو (یعنی گانے دو) پھر جب وہ غافل ہو گئے، میں نے ان دونوں کے چٹکی لی کہ وہ نکل گئیں اور وہ عید کا دن تھا۔ اور سوڈانی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے، سو مجھے یاد نہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش ظاہر کی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ” تم اسے دیکھنا چاہتی ہو“ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ” اے بنی ارفدہ! تم اپنے کھیل میں مشغول رہو۔“ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بس“ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ۔([661])
یہاں جو کھیل تھا وہ نیزوں کا تھا اور وہ عید کے دن کھیلا جارہا تھا؛ کیونکہ عید کا دن خوشی اور مسرت کا دن ہے، اور نیزوں سے کھیلنے سے مشق بھی ہوتا ہے اور جنگی تربیت بھی حاصل ہوتی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نیزے سے کھیلنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ انہیں کھیلنے کا حکم دیا، کیونکہ یہ محض کھیل نہیں ہے، بلکہ اس کے ماورا کئی فوائد اس سے حاصل ہوتے ہیں ۔([662])
۱۹جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے زینت کا اظہار کرنا مستحب ہے:
مسلمانوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ عیدین اور جمعہ کی نماز کے لیے ایسے خوبصورت کپڑے زیب تن کریں، جس سے خوبصورتی نمایاں ہوتی ہو، اس لیے کہ شارع نے جمعہ اور عیدین کے لئے خوبصورت کپڑا پہننے کی ترغیب دی ہے، اس امر پر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث دلالت کرتی ہے، فرماتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔([663])
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کے اس بات پر کوئی نکیر نہیں کی، کہ انہوں نے جمعہ اور وفود کے استقبال کے لئے نئے کپڑے پہننے کی بات کیوں کی، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کپڑے پر نکیر فرمایا جس میں ریشم تھا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جمعہ، عیدین اور وفود کے استقبال کے لئے اچھے کپڑے پہننا پسندیدہ عمل ہے،
اور نماز جمعہ کے لیے خوشبو اور تیل لگا کر آنا زینت میں سے ہے، اس کی کافی ترغیب آئی ہے، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔([664])
20- اذان کے بعد مسجد سے نکلنے کی ممانعت
اذان کے بعد کسی کا مسجد سے نکلنا مکروہ ہے ۔ سوائے ایسے شخص کے جس کے پاس کوئی ایسا عذر ہو، جو اس کے مسجد سے نکلنے کو جائز ٹھہراتا ہو، جیسے تجدید وضو وغیرہ،تو ایسا شخص اذان کے بعد مسجد سے نکل سکتا ہے۔
ابو الشعثاء سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ مؤذن نے اذان دی اور ایک شخص مسجد سے اٹھا اور جانے لگا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ باہر چلا گیا، تب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس شخص نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔([665])
یہ حدیث مرفرع حکمی ہے، کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس طرح کے مسائل میں کبھی اجتہاد نہیں کرسکتے،تو اذان کے بعد مسجد سے نکلنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ فرض نماز نہ پڑھ لے، مگر کسی عذر کے تحت اذان کے بعد مسجد سے نکلا جاسکتا ہے، کیونکہ بلا عذر اذان کے بعد مسجد سے نکلنے میں کوئی ایسی مصروفیت یا رکاوٹ پیش آسکتی ہے جو نماز با جماعت پڑھنے سے مانع ہو، اور وہ جماعت کی فوتگی کاسبب بن جائے۔
۲۱مسجد میں جوتا پہن کر نماز پڑھنا سنت میں سے ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا ضرورت جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، بلکہ آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں!۔ ([666])
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے؟“، ان لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے“۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے: «قذرا» کہا، یا: «أذى» کہا، اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجاست لگی ہوئی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور ان میں نماز پڑھے“۔
اور مسند احمد کی روایت ہے کہ جب تم میں کا کوئی شخص مسجد آئے تو جوتے کو الٹ کر دیکھ لے، اگر اس میں کوئی گندگی لگی ہو، تو اسے زمین میں رگڑ دے، پھر جوتے میں نماز پڑھے ۔([667])
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جوتا پہن کر نماز پڑھنا سنت ہے، جسکا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، نیز اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اگر جوتے میں گندگی ہو تو اسے زمین رگڑ دیا کریں، کیونکہ زمین کی مٹی اس کے لیے باعث طہارت ہے، یہ علما کے دو قول میں سے صحیح قول ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا جوتا پہن کر مسجد میں نماز پڑھنا ساتھ ہی جوتوں سے روندی جگہ پر ان کا سجدہ کرنا، یہ تمام باتیں جوتے کے نچلے حصے کی طہارت پر دلالت کرتی ہیں، جبکہ وہ رفع حاجت کے لئے بھی جوتے استعمال کرتے تھے،اور اگر اس پر کوئی نجاست کا اثر دیکھتے تو اس کی پاکی کی خاطر اسے زمین پر رگڑ دیتے۔ ([668])
تنبیہ: عصر حاضر میں اب مساجد میں قالین بچھنے لگی ہے، اب یہ رواج ہوچکا ہے کہ لوگ جوتا یا چپل پہن کر مسجد میں داخل نہیں ہوتے، اور نہ ہی جوتا پہن کر قالین پر چلتے ہیں، ایسی صورت میں اگرچہ اس سنت کے ضائع ہونے پر آپ کو غیرت آرہی ہو،اور آپ اس سنت پر عمل کرنے کے کافی حریص ہوں، پھر بھی مسجد میں جوتا یا چپل پہن کر نہ داخل ہوں، تاکہ کسی مصلحت کے حصول کے سبب کوئی خرابی نہ در آئے، کیونکہ اکثر عوام اس سنت سے ناواقف ہے، اور اس ناواقفیت کی بنیاد پر اگر ان کے سامنے کوئی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوتا ہے، تو وہ ضرور اس پر نکیر کریں گے، بنابریں مسجد میں شوروغوغا کا ماحول پیدا ہوگا، اس کے ساتھ جوتا یا چپل پہن کر آنے میں اس قالین کے گندہ ہونے کا بھی اندیشہ ہے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، لہذا اس سنت پر عمل کرنے کے خواہشمند حضرات کو چاہیئے کہ وہ جوتا پہن کر یا تو گھر میں نماز پڑھ لیا کریں، یا سیر وتفریح، یا اپنی خاندان کی مسجد میں جوتا یا چپل پہن کر نماز پڑھا کریں۔
۲۲عورتوں کا مسجد میں آنے کے آداب :
عورتوں کو مسجد میں آنے کی مناہی نہیں ہے،اور نہ ہی انہیں مسجد آنے سے روکنا صحیح ہے، جب تک کہ وہ کسی شرعی منہیات کا ارتکاب نہ کرے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صریح طور پر وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اگر عورت مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے منع نہ کریں۔([669])
دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کہتی ہے: مسلمان عورتوں کا مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے، اگر وہ مسجد جانے کی اجازت طلب کرے، تو اسے مسجد جانے سے روکنا شوہر کے لیے جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ پردہ کا اہتمام کر رہی ہو، اور نہ ہی اس کے بدن کوئی ایسا عضو ظاہر ہوتا ہوں جس کا دیکھنا اجنبی کے لئے حرام ہو، (پھر کمیٹی کتاب وسنت کے دلائل پیش کرنے کے بعد کہتی ہے) کہ تمام شرعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر مسلمان عورت اپنے پہنوائے میں اسلامی آداب کی پاسداری کرتی ہے، اور ان امور سے اجتناب کرتی ہے جو فتنے کا باعث ہیں، نیز مختلف اشتعال انگیز زیب وزینت سے بھی پرہیز کرتی ہے جو کمزور ایمان افراد کے میلان کاسبب بنتی ہیں، تو ایسی عورتوں کو مسجد جانے سے منع کرنا درست نہیں ہے، اگر وہ اپنی زیب وزینت سے اہل شر کو مائل کرتی ہیں، اور ایسوں کے فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں، جن کے دل میں روگ ہے، تو ایسی صورت میں انہیں مسجد جانے سے روکنا چاہییے ، بلکہ انہیں گھر سے نکلنے اور عام جگہوں پر جانے سے بھی پابندی عائد کرنی چاہیے۔ ([670])
مسجد حاضر ہونے کے باب میں عورتوں کے چند احکام مردوں سے مختلف ہیں:
1- ایسی خوشبو اور زینت کا اہتمام نہ کرے جو باعث فتنہ ہو
جیسے جاذب نظر لباس پہننا، یا پازیب پہننا، جب بھی یہ چیزیں پائی جائیں گی، یا جزوی طور پرہی جاے، عورت کو مسجد آنے سےمنع کیا جائے گا،
اور جہاں تک خوشبو کا تعلق ہے تو اس بابت بالخصوص نص وارد ہے،
عبد اللہ بن مسعود کی زوجہ حضرت زینب فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کوئی خاتون جب نماز کیلئے مسجد آنا چاہے تو خوشبو نہ لگائے۔“ ([671])
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو عورت کسی خوشبو کی دھونی لے تو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء میں شریک نہ ہو۔“([672])
جہاں تک دوسری زیب وزینت کا سوال ہے، اگر اس کے استعمال سے جذبات برانگیختہ ہوتے ہوں، یا کسی فتنے کا موجب ہو، تو فتنے اور شر کے سد باب کے لیے اسے مسجد جانے سے منع کردیا جائے گا۔
ب- حائضہ اور نفسا کا مسجد میں ٹھہرنا منع ہے:
جنبی،حائضہ،اور نفسا کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، اگر وہ مسافر ہوں تو جائز ہے، اللہ تعالیٰ کا قول ہے ( ولا جنبا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا) ترجمہ: جنابت کی حالت میں جب تک غسل نہ کرلو، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو کوئی اور بات ہے۔ حائضہ اور نفسا کے مسجد میں داخلے کی ممانعت کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے مسجد سے جانماز لاکر دو۔“ میں نے کہا: میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیض تیرے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔([673])
عائشہ رضی اللہ عنہا کا (میں حائضہ ہوں) کہنا اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حائضہ بلاعذر مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ٹھہر سکتی ہے، اور ممانعت کی علت یہ ہیکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خون کی نجاست مسجد کو آلودہ نہ کردے،
فائدہ: مستحاضہ مسجد میں داخل ہوسکتی ہے، بلکہ اس کے لیے اعتکاف بھی مشروع ہے، لیکن مسجد کو نجاست سے محفوظ رکھنا ضروری ہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: بعض امہات المومنین حالت استحاضہ میں اعتکاف کرتی تھیں۔([674])
ت- مرد کے پیچھے نماز پڑھنا، اور اختلاط سے بچنا
مسجد میں عورتوں کی صف مردوں کی صف سے پیچھے ہوگی، اور عورت مرد سے جتنا دور ہوگی یہ اس کے حق میں اتنا ہی خیر اور افضل ہے،جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کی صفوں میں سب سے بہتر پہلی صف ہے اور سب سے بری آخری صف ہے۔ اور خواتین کے لیے سب سے بری پہلی صف ہے (جب کہ مردوں کی صفیں ان کے قریب ہوں) اور اچھی صف پچھلی صف ہے۔ (جو کہ مردوں سے دور ہو)۔ ([675])
کیونکہ مردوں کا عورتوں سے قریب ہونے میں شہوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اور اس سے نماز کی روح یعنی خشوع ختم ہوجاتی ہے، اس لیے شریعت نے اس جانب توجہ دی ہے کہ مرد حضرات عورت سے دور رہیں، اور عورتیں مردوں سے، گرچہ مسجد ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح نبی کریم صلیٓ اللہ علیہ وسلم نے دوری اختیار کرنے کی تعلیم کے ساتھ اس بات کا بھی اہتمام کرتے تھے کہ (نماز کے بعد) مسجد میں کچھ دیر ٹھہرتے تھے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے مسجد سے نکل جائیں، تاکہ ان پر مردوں کی نظر نہ پڑے ، نیز ان سے اختلاط قائم ہونے سے قبل وہ اپنی گھروں کو لوٹ جائیں۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فوراً بعد (باہر آنے کے لیے) اٹھ جاتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔ جب تک اللہ کو منظور ہوتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔([676])
نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے بہترین نمونہ ہے ، تو لوگوں کے لئے مناسب ہے اپنی نماز گاہ میں کچھ دیر ٹھہر جائیں، یہاں تک کہ عورتیں چلی جائیں، اور عورتوں پر واجب ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر نہ ٹھہریں، بلکہ فورا اپنی گھر کی طرف پلٹ جائیں، یہ ان کے اور مرد دونوں کے حق میں باعث خیر ہے، لیکن اگر عورتوں کے نکلنے کا راستہ مردوں کے نکلنے کے راستے سے دور ہو اور اختلاط کا کوئی اندیشہ نہ ہو ، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مرد کے باہر نکلنے میں یا عورت کا مسجد میں کچھ دیر ٹھہرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہاں علت زائل ہوگئی ہے، واللہ اعلم
تنبیہ: اگر عورتوں کی نماز گاہ مردوں کے جائے نماز سے الگ تھلگ ہو، تو ایسی صورت میں عورتوں کے لئے پہلی صف بہتر ہوگی، اور آخری صف بری صف ہوگی، ایسا اس لیے کہ جس علت کے تحت عورتوں کے لئے پہلی صف برا سمجھا گیا ہے وہ مردوں کا عورتوں سے الگ ہونے کی وجہ سے زائل ہوگیا، نتیجتا خیر کا پہلو پہلی صف میں عود کر آیا۔
12- سونے کے آداب
- اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: {وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُم مِّن فَضْلِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُون}.([677])
ترجمہ: اور (بھی) اس کی (قدرت کی) نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل (یعنی روزی) کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے جو لوگ (کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
- نیز فرمان باری تعالی ہے: {وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا}.([678])
ترجمہ: اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا۔
- حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرو، پھر اپنی دائیں کروٹ لیٹو، پھر یہ کہو: "اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیرے سپرد کر دیا اور اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔۔"۔([679])
آداب:
1- سونے سے قبل آگ اور چراغوں کو بجھانا اور دروازہ بند کر دینا: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے منقول حدیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب رات میں سونے لگو تو چراغ بجھا دیا کرو اور دروازے بند کر لیا کرو۔([680])
ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ( سو تے وقت ) بر تن ڈھک لیا کرو ورنہ دروازے بند کر لیا کرو اور چراغ بجھا لیا کرو کیو نکہ یہ چوہا بعض اوقات چراغ کی بتی کھینچ لیتا ہے اور گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔([681])
نیز ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو۔([682])
ان آثار میں آگ اور چراغوں کو بجھا کر نیز دروازہ مقفل کر کے سونے کا حکم ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مذکورہ حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے یا استحباب پر۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے مکان میں تنہا رات گزارے جہاں آگ جل رہی ہو تو سونے سے قبل اسے لازما بجھا دے یا پھر ایسے اسباب اختیار کرے کہ آگ لگنے کا خدشہ جاتا رہے۔اسی طرح اگر چند لوگوں کی ایک جماعت کسی گھر میں قیام پذیر ہو تو ان میں سے کسی ایک فرد پر اور بالخصوص سب سے آخر میں سونے والے پر اس واجب کی ادائیگی لازم ہے، اس میں تفریط کرنے والا سنت کی خلاف ورزی کا مرتکب اور واجب کا تارک ہے۔([683])
رہا سونے سے قبل دروازہ بند کرنے کا مسئلہ تو اس سلسلے میں صحیح مسلم میں حضرت جابر t کی حدیث میں وارد ہے کہ: "اللہ کا نام لے کر دروازوں کو بند کردوں کیونکہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا"۔([684])
ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دروازہ مقفل کر کے سونے کے حکم میں دینی ودنیوی فوائد شامل ہیں، جن میں سے؛ سرکش، مفسدین اور بالخصوص شیطانوں سے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے۔رہا نبی اکرم ﷺ کا فرمان: "کیونکہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا۔" ، اس سے در اصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ (دروازہ) بند کرنے کا مقصد شیطان کو انسانوں کے ساتھ میل جول سے دور رکھنا ہے۔ نیز خصوصا اس آخر الذکر امر کی علت بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک مخفی شے ہے جس کا علم صرف بذریعہ وحی ممکن ہے۔([685])
مسألہ: اگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے سبب آگ لگنے کا خدشہ باقی نہ رہے تو کیا ایسی صورت میں آگ اور چراغوں کو بجھائے بغیر سونا جائز ہوگا؟
جواب: اگر (آگ لگنے کا) خدشہ نہ رہے ۔۔۔ توعلت کے نہ پائے جانے کے باعث بظاہر اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے حدیث مذکور میں (چراغ) بجھانے کی علت یہ بتائی ہے کہ موذی چوہا گھر میں آگ بھڑکا دیتا ہے، لہذا جب علت ہی معدوم ہو گئی تو ممانعت بھی باقی نہیں رہے گی۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا کلام ہے۔([686])
2۔ سونے سے قبل وضو کرنا۔ اس سلسلے میں براء بن عازب t کی بیان کردہ حدیث وارد ہوئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو نماز کے وضو کی مانند وضو کرو۔ حدیث" ([687])۔ جو سونے کا ارادہ کر رہا ہو اس کے حق میں وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، جس کی تائید مسند کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: "جب تم اپنی خوابگاہ میں حالت طہارت میں آؤ۔۔۔۔"([688])، اگر کوئی با وضو ہے تو وہی اس کیلیے کافی ہے کیونکہ اصل مقصود با وضو ہو کر سونا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی رات وفات ہو جائے اور تا کہ اسے اچھے اور سچے خواب آئیں نیز خواب میں شیطان کے کھلواڑ اور اس کے خوف وہراس میں مبتلا کرنے کی کوششوں سے محفوظ رہے۔ مذکورہ باتیں امام نووی رحمہ اللہ نے فرمائی ہیں([689])۔
3۔ بستر پر نیم دراز ہونے سے قبل اسے صاف کرنا۔ سوتے وقت آپ ﷺ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ بستر پر لیٹنے سے قبل اپنے تہہ بند کے داخلی حصے سے تین بار اپنا بستر صاف کرتے تھے، ابو ہریرہ t بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے تہبند کا اندرونی([690]) حصہ لے کر اس سے اپنے بستر کو جھاڑے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز داخل ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ حدیث"، ایک دوسری روایت میں ہے: "جب تم سے کوئی اپنے بستر پر جائے تو کپڑے کے کنارے سے اسے تین مرتبہ جھاڑے۔۔۔ حدیث"، نیز صحیح مسلم کی روایت میں ہے: "۔۔۔۔تو اپنے تہبند کا اندرونی حصہ لے کر اس سے اپنے بستر کو جھاڑے، پھر بسم اللہ کہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس (کے اٹھ جانے) کے بعد اس کے بستر پر (مخلوقات میں سے) کون آیا؟"، اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: "جب کوئی تم میں سے اپنے بستر پر سے اٹھ جائے پھر لوٹ کر اس پر (لیٹنے، بیٹھنے) آئے تو اسے چاہیے کہ بستر کو جھاڑ دے۔۔۔ حدیث"۔([691])
حدیث مذکور کی تمام روایات کو جمع کرنے سے کئی ایک فوائد نکلتے ہیں، جن میں سے: ان میں سے:
پہلا: سونے سے قبل بستر صاف کرنا مستحب ہے۔
دوسرا: مستحب یہ ہے کہ تین بار صاف کیا جائے۔
تیسرا: صاف کرتے وقت بسم اللہ پڑھا جائے۔
چوتھا: اگر بستر سے اٹھنے کے بعد دوبارہ لیٹنے کا ارادہ تو مستحب یہی ہے کہ دوبارہ اسے جھاڑ لے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی علت یہی بتائی ہے کہ: " کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس (کے اٹھ جانے) کے بعد اس کے بستر پر (مخلوقات میں سے) کون آیا؟"۔ البتہ تہہ بند کے داخلی حصہ سے بستر جھاڑنے کی علت ہمارے علم میں نہیں ہے، اور اس بابت علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں، ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو کہ عمل کا معاملہ حکمت وعلت کے جاننے پر موقوف نہیں ہے بلکہ حدیث جب صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو اس پر عمل کیا جائے گا خواہ اس کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس کا تعلق اطاعت وفرمانبرداری سے ہے ، یہ بڑا عظیم قاعدہ ہے لہذا اسے مضبوطی سے تھام لو۔
4۔ دائیں پہلو سونا اور دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سونا: اس تعلق سے براء بن عازب t کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاؤ۔۔۔۔حدیث"([692])، ایک دوسری روایت حضرت حذیفہ t سے مروی ہے کہ: " نبی ﷺ جب رات میں بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے۔۔۔۔ حدیث" اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ: "آپ ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے۔۔۔۔"([693])۔
دائیں پہلو سونے کے متعدد فوائد ہیں:
پہلا: (انسان) جلد بیدار ہوتا ہے۔
دوسرا: چونکہ دل دائیں جانب ہوتا ہے لہذا نیند کے سبب بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا ہے۔
تیسرا: امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اطباء نے اس ہیئت کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ جسم کیلیے یہ بڑا مفید ہے، چنانچہ ڈاکٹرز کہتے ہیں: کچھ دیر دائیں پہلو پر لیٹنے کے بعد بائیں پہلو پر لیٹ جائے گا۔ یہ (قول) فتح الباری میں منقول ہے۔([694])
5۔ قرآن کی بعض آیات تلاوت کرنا: نبی اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک کہ قرآن کریم کی بعض آیات تلاوت نہ کر لیتے۔ سونے سے قبل قرآن کی تلاوت کرنا مسلمان کو شیطان کی شر انگیزیوں سے محفوظ رکھتا ہےاور اچھے خواب پر بھی معاون ہے۔ اس تعلق سے طرح طرح کی احادیث بکثرت وارد ہوئی ہیں۔میں ان میں سے چند ایک چیزیں جمع کر کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
(ا)۔ آیۃ الکرسی کی تلاوت: اس سلسلے میں ابو ہریرہ t کا واقعہ معروف ہے جو سارق زکوۃ کے ساتھ پیش آیا تھا، چنانچہ ابو ہریرہ t جب اس معاملے کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دینے کا عزم کیا تو شیطان نے ان سے کہا: "مجھے چھوڑدو۔ میں تجھے چند کلمات بتاتا ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں نفع دے گا۔ میں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ اس نے کہا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے آؤ تو آیت الکرسی {اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم}شروع سے لے کر آخر آیت تک پڑھ لیا کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی طرف سے ایک نگران تمھاری حفاظت کرے گااور صبح تک شیطان تمھارے قریب نہیں آئے گا۔ میں نے اسے چھوڑدیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ گزشتہ رات تمھارے قیدی نے کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھے چند کلمات بتائے گاجن کے ذریعے سے اللہ مجھے نفع دے گا تو میں نے اسے چھوڑدیا۔ آپ نے پوچھا: ’’وہ کلمات کیا ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: اس نے مجھ سے کہا کہ جب تم اپنے بسترپر آؤ تو آیت الکرسی {اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم}شروع سے آخر تک پڑھو۔ یہ کام کرنے سے اللہ کی طرف سے تمھارے لیے ایک نگران مقرر ہو جائے گا جو تمھاری حفاظت کرے گا اور صبح تک شیطان بھی تمھارے پاس نہیں بھٹکےگا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کارہائےخیر کے بڑے حریص تھے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’سنو!اس نے بات تو سچی کی ہے لیکن خود وہ جھوٹا ہے۔ اے ابو ہریرہ ؓ!تم جانتے ہو کہ جس سے تم تین راتوں سے باتیں کرتے رہے ہو وہ کون ہے؟‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے عرض کیا: میں نہیں جانتا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شیطان تھا۔‘‘([695])
(ب)۔ سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر دم کرنا([696])۔ نبی اکرم ﷺ ہمیشہ سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھا کرتے تھےپھر دونوں ہتھیلیوں پر دم کر کے بقدر استطاعت اپنے جسم پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ نبی ﷺ ہر رات جب بستر پر تشریف لاتے تو دونوں ہاتھوں کو ملا کر ان پر پھونک مارتے اور ان پر ﴿ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد ﴾ ﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَق ﴾ ﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاس ﴾ پڑھتے پھر ان دونوں ہاتھوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ پہلے سر مبارک اور چہرہ انور پر ہاتھ پھیرتے پھر باقی جسم پر۔ اس طرح آپ ﷺ تین مرتبہ یہ عمل کرتے تھے۔([697])
اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اس عمل پر مداومت کرتے تھے، اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان ہے کہ "ہر رات ایسا کرتے تھے" ، نیز یہ بھی کہ انہیں پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں دم کرنا ہے پھر بقدر استطاعت جسم پر ہاتھ پھیرا جائے گا؛ سر سے شروع کر کے چہرہ اور بدن کے سامنے کے حصے پر ہاتھ پھیرا جائے گا۔حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تین بار تھک تھکانا ہے۔ تھک تھکانے کا فائدہ یہ ہے کہ دم اور ذکر الہی کے معاً بعد نکلنے والی سانس، تھوک اور ہوا میں برکت ہوتی ہے۔ یہ قاضی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ ([698])
فائدہ: سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر دم کرنے کا معاملہ صرف سوتے وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ جو کوئی بھی کسی قسم کی تکلیف محسوس کرے اس کیلیے مستحب یہ ہے کہ ان سورتوں کو پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر دم کرے پھر اپنے جسم پر ہاتھ پھیر لے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہےکہ: رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوتے تو معوذات سے اپنے بدن پر دم کرتے اور اپنا ہاتھ اپنے بدن پر پھیرتے تھے۔ جب آپ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذات ([699]) پڑھ کر آپ پر دم کرتی تھی جس طرح آپ کرتے تھے۔ پھر نبی ﷺ کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔([700])
(ت)۔ سورہ کافرون پڑھنا، شرک سے براءت کی دلیل ہے۔ فروہ بن نوفل t اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نوفل ؓ سے فرمایا تھا : "{قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُون} پڑھو اور اسی پر اپنی بات چیت ختم کر کے سو جاؤ ۔ بیشک اس میں شرک سے براءت کا اظہار ہے ۔"([701])
(ث)۔ سورہ ملک (تبارک) اور سورہ سجدہ (الم تنزیل السجدہ) کی تلاوت کرنا۔ جابر t کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ اس وقت تک سوتے نہ تھے جب تک کہ سونے سے پہلے آپﷺ سورہ ’’سجدہ‘‘ اور سورہ (تبارك الذی) (یعنی سورہ ملک) پڑھ نہ لیتے تھے۔([702])
فائدہ: سورہ ملک (تبارک) کے تعلق سے ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس میں اس کی تلاوت پر مداومت کی ترغیب آئی ہے، چنانچہ ابوہریرہ t نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قرآن کریم کی ایک سورت تیس آیتوں والی، اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گی، حتیٰ کہ اسے بخش دیا جائے گا۔“ (مراد ہے) {تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير}.([703])
(ج)۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھنا۔ حضرت ابو مسعود بدری t سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سورہ بقرہ کی آخری دو آیات ہیں، جو کوئی انہیں رات کو پڑھے وہ اس کے لیے کافی ہیں۔([704])
نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان " وہ اس کے لیے کافی ہیں" کے تعلق سے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا معنی بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ قیام اللیل سے کفایت کر جائے گاجبکہ بعض شیطان سے حفاظت اور بعض دوسرے علما مصائب سے حفاظت مراد لیتے ہیں۔ (امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ) تمام معانی مراد لینا ممکن ہے۔([705])
6۔ بعض دعائیں اور اذکار پڑھنا۔ سوتے وقت نبی اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ سب سے آخر میں کچھ دعائیہ کلمات پڑھتے، ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " جو شخص کہیں لیٹا ہو اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو تو قیامت کے دن اسے حسرت و افسوس ہو گا ۔ اور جو شخص کہیں بیٹھا ہو اور وہاں اللہ عزوجل کا ذکر نہ کیا ہو تو قیامت کے دن اسے حسرت و افسوس ہو گا ۔ "([706])
نبی اکرم ﷺ کے سوتے وقت کے اذکار پر جو کوئی غور وفکر کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ وہ بڑے عظیم اور بہترین معانی پر مشتمل اذکار ہیں، چنانچہ اس میں توحید کی تمام اقسام موجود ہی، اس میں اللہ رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار ہے، اس میں مغفرت، توبہ، رجوع الی اللہ اور اخروی عذاب سے نجات کا سوال ہے، اس میں نفس اور شیطان کے شر سے اللہ پناہ چاہنے کا ذکر ہے، اس میں رب کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کی تعریف کا ذکر ہے، نیز ان کے علاوہ بھی بے شمار فوائد ہیں جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔ میں یہاں نبی اکرم ﷺ کی چند ایک دعاؤں کا ذکر کروں گاتا کہ جسے مزید خیر وبھلائی کی کی حرص ہو وہ ان سے استفادہ کرے، توفیق یافتہ وہی ہے جو بھلائیوں کی طرف سبقت کرے۔
(أ)۔ «اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك» پڑھنا۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سونا چاہتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ لیتے ‘ پھر یہ دعا پڑھتے «اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك» ”اے اﷲ ! جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ “ یہ کلمات تین بار دہراتے ۔([707])
(ب)۔ «بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ أَمُوتُ وَأَحْيَا» پڑھنا۔ حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں بیان کیا کہ نبی ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ سوتا ہوں اور بیدار ہوتا ہوں۔“ اور جب نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔"([708])
(ت)۔ "اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا" پڑھنا۔ حضرت عبداللہ بن عمر t نے ایک شخص سے کہا کہ جب وہ اپنے بستر پر جائے تو یہ دعا کرے: "اے اللہ! میری جان کو تو نے پیدا کیا اور تو ہی اس کو موت دے گا، اس جان کی موت بھی اور زندگی بھی تیرے ہی لیے ہے، اگر تو اس کو زندہ رکھے تو اس کی حفاظت فرمانا اور اگر تو اس کو موت دے تو اس کی مغفرت کرنا، اے اللہ! میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں۔" ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث حضرت عمر t سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ان سے جو حضرت عمر سے زیادہ افضل ہیں (میں نے یہ حدیث) رسول اللہ ﷺ سے (سنی ہے)۔([709])
(ث)۔ "بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ" حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے پستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو پہلے اسے اپنی چادر کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز داخل ہو گئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے: اے میرے رب! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیری قوت سے میں اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اس کی حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے"۔([710])
(ج)۔ "اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ" پڑھنا۔ حضرت ابو ہریرہ t فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو بستر پر دائیں کروٹ لیٹے، پھر دعا کرے: "اے اللہ! اے آسمانوں کے رب اور زمین کے رب اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے رب اور ہر چیز کے رب، دانے اور کٹھلیوں کو چیر(کر پودے اور درخت اگا) دینے والے! تورات، انجیل اور فرقان کو نازل کرنے والے! میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ! تو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں، اے اللہ! تو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں ہے، تو ہی ظاہر ہے، تیرے اوپر کوئی شے نہیں ہے، تو ہی باطن ہے، تجھ سے پیچھے کوئی شے نہیں ہے، ہماری طرف سے (ہمارا) قرض ادا کر اور ہمیں فقر سے غنا عطا فرما۔"([711])
(ح)۔ "اللهم فاطر السموات والأرض" پڑھنا۔ ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق t نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی کلمات ارشاد فرمائیں جو میں صبح اور شام کے وقت پڑھا کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ پڑھا کرو «اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة رب كل شىء ومليكه أشهد أن لا إله إلا أنت أعوذ بك من شر نفسي وشر الشيطان وشركه» " اے اللہ ! آسمانوں اور زمیں کے پیدا کرنے والے ! پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے ! ہر شے کے پالنے والے اور اس کے مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں اپنے نفس کی شرارت ، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ " یہ دعا صبح ، شام اور سوتے وقت پڑھا کرو ۔([712])
(خ)۔ "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا" پڑھنا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بستر پر جاتے تو فرماتے: "اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، (ہر طرح سے) کافی ہوا اور ہمیں ٹھکانا دیا۔ کتنے لوگ ہیں جن کا نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے نہ ٹھکانہ دینے والا۔"([713])
(د)۔ ۳۳ بار سبحان اللہ ، ۳۳ بار الحمد للہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھنا۔ حضرت علی بن ابی طالب t سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی t نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”یوں ہی لیٹے رہو۔“ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ، اور ۳۳ مرتبہ الحمد اللہ کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔([714])
(ذ)۔ "بسم الله وضعت جنبي اللهم اغفر لي ذنبي" پڑھنا۔ سیدنا ابوزھیر انماری t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو سونے لگتے تو یہ دعا پڑھتے «بسم الله وضعت جنبي اللهم اغفر لي ذنبي وأخسئ شيطاني وفك رهاني واجعلني في الندي الأعلى» ” اللہ کے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھ دیا ۔ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے ، میرے شیطان کو دفع ( دور ) کر دے ، میرے نفس کو ( آگ سے ) آزاد کر دے اور مجھے اعلیٰ و افضل مجلس والوں میں بنا دے ۔ “ ( ملائکہ اور انبیاء و رسل کا ہم نشین بنا دے ) ۔([715])
(ر)۔ جسے نیند میں ڈرنے کا عارضہ لاحق ہو وہ یہ دعا پڑھے "أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامّاَت مِنْ غَضَبِهِ وعقابه": عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پر انہیں یہ کلمات سکھایا کرتے تھے: «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامّاَت مِنْ غَضَبِهِ وعقابه وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ» ”میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں۔ اس کی ناراضی سے، اس کے عقاب سے ، اس کے بندوں کی شرارتوں سے، شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں۔ مسند احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں چند کلمات سکھائے جنہیں ہم نیند میں ڈر کر اٹھتے وقت کہتے، (وہ کلمات یہ ہیں): "بسم الله أعوذ بكلمات الله التامات".... حدیث۔([716])
(ز)۔ "اللهم أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك" پڑھنا۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو: "اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ" اے اللہ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے، میں نے خود کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا کام تجھے سونپ دیا، نیز تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانہ نہیں مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تم اس رات مر جاؤ تو فطرتِ اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر (بالکل سوتے وقت) پڑھو۔([717])
فائدہ: حضرت شداد بن اوس t سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سید الاستغفار یہ (وظیفہ) ہے کہ تو کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں ان بری حرکتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کی ہیں۔ جو تیری نعمتیں ہیں میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اس استغفار پر یقین رکھتے ہوئے دل کی گہرائی سے اسے پڑھا پھر شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت ان کو پڑھ لیا، پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔([718])
یہ رب تعالی کا اپنے مومن بندوں پر فضل ہے کہ عمل قلیل پر بھی اجر عظیم سے نوازتا ہے، لہذا ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان دعاؤں کے پڑھنے میں صبح وشام کوتاہی کا شکار ہو، بلکہ اس کے آداب وشرائط کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر مواظبت کرے تا کہ زمین تا آسمان جیسی کشادہ جنت سے سرفراز ہو، اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ان جنتیوں میں سےے بنا دے جن سے تو راضی ہوا اور جو تجھ سے راضی ہو گئے۔ آمین۔
7۔ سونے والا شخص جب کوئی اچھا یا برا خواب دیکھے تو کیا کرے؟
انسان کبھی بے کار خواب دیکھتا ہے اور کبھی اچھا، اچھا خواب اللہ رب العالمین کی جانب سے ہوتا ہے اور برا شیطان کی جانب سے۔ حضرت ابو قتادہ t سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے جبکہ بُرا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، لہذا اگر تم میں سے کوئی پریشان خواب دیکھے جس سے وہ ڈر محسوس کرتے تو اسے چاہیے کہ اپنی بائیں جانب تھوک دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ مانگے، اس طرح وہ اس کو نقصان نہیں دے گا۔([719]) صحیح بخاری میں ایک دوسری سند سے مروی الفاظ یہ ہیں: " لہذا جو شخص کوئی برا خواب دیکھے تو وہ بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے اور شیطان سے اللہ تعالٰی کی پناہ مانگے"، صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: "اچھا خواب اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہے ،اور برا خواب شیطان کی جانب سے ہے، جس شخص نے کو ئی خواب دیکھا اور اس میں سے کو ئی چیز اس کو بری لگی تو وہ (تین بار)اپنی بائیں جانب تھوکے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے تو وہ خواب اس کو کو ئی نقصان نہیں پہنچا ئے گا اور یہ خواب وہ کسی کو بیان نہ کرے۔اگر اچھا خواب دیکھے تو خوش ہو اورصرف اس کو بتا ئے جو اس سے محبت کرتا ہے۔" صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر یا :" جب تم میں سے کو ئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے برا لگے تو تین بار اپنی بائیں جانب تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور جس کروٹ لیٹا ہوا تھا اسے بدل لے۔" نیز صحیح مسلم میں ہی حضرت ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ: اگر تم میں سے کوئی شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اٹھ کر نماز پڑھے اور لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہ بتا ئے۔
اس حدیث کے تمام طرق جمع کرنے سے مختلف فوائد حاصل ہوتے ہیں:
پہلا: خواب کبھی اچھا اور کبھی برا ہوتا ہے، اچھا خواب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی جانب سے جسے "حُلم" یعنی بے کار خواب کہتے ہیں۔
دوسرا: جو شخص اچھا خواب دیکھے وہ اسے اپنے لیے بشارت سمجھے اور خیر کی امید رکھے نیز اس کی خبر اپنے کسی محبوب شخص کو دے، ایسا خواب اللہ کی جانب سے بشارت ہوتی ہے۔چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے: جب کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا لگے تو اسے بیان کرے کیونکہ یہ اللہ رب العالمین کی بشارت میں سے ہے۔
تیسرا: اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اس کیلیے مستحب یہ ہے کہ بائیں طرف تین بار تُھک تُھکائے، پھر شیطان مردود سے یا اس کے شر سے اللہ رب العالمین کی پناہ چاہے، اگر تین بار ایسا کرتا ہے تو یہ بہتر ہے، پھر پہلو بدل کر لیٹ جائے، اور اگر اٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو یہ اس کیلیے بہتر ہے، اگر یہ تمام امور یا ان میں سے بعض بھی انجام دیے -جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے- تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، کسی کو اس کے تعلق سے خبر بھی نہیں دے گا۔
8۔ چہرے کے بل سونے مکروہ ہے۔ طخفہ t جو اصحاب صفہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ: میں مسجد میں اوندھے منہ اپنے پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا کہ میرے پھیپھڑے میں تکلیف تھی ۔ تو اچانک میں نے پایا کہ کسی نے مجھے اپنے پاؤں سے حرکت دی ہے اور کہہ رہا ہے ۔ ” اس طرح سے سونا اﷲ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ “ کہتے ہیں : میں نے دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے ([720])۔ ابن ماجہ کے الفاظ کچھ یوں ہیں: اس انداز سے کیوں سوتے ہو؟ سونے کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس انداز سے سونے کی ممانعت کے سلسلے میں حدیث بالکل صریح اور واضح ہے۔اور اس امر کی بھی وضاحت موجود ہے کہ اللہ رب العالمین اس ہیئت کو نا پسند کرتا ہے۔ لہذا اللہ کے ناپسندیدہ امور سے اجتناب کیا جائے گا۔ جہاں تک کراہیت کی علت کا سوال ہے تو ابو ذر t کی روایت میں اس کی بھی صراحت بیان کر دی گئی ہے، فرماتے ہیں: میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، میرے پاس سے نبی ﷺ گزرے تو مجھے قدم مبارک سے ٹھوکا دے کر فرمایا: پیارے جندب! یہ اہل جہنم کے لیٹنے کا انداز ہے([721])۔ اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ کراہیت کا سبب اہل جہنم کی مشابہت ہے۔واللہ اعلم۔
9۔ بغیر منڈیر والی چھت پر سونے کی کراہیت۔ اس سلسلے میں علی بن شیبان t سے منقول روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی ایسی چھت پر سوئے جس کے گرد کوئی منڈیر ([722]) (پردہ وغیرہ ) نہ ہو تو اس سے ذمہ اٹھ گیا ۔ “ اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ: جو کوئی بغیر منڈیر کی چھت پر رات گزارے جس کے چاروں اطراف کوئی ایسی شی نہیں ہو جو اس کے قدموں کو روکے تو اس سے عہد ختم ہو گیا۔ ([723])
فضل اللہ جیلانی فرماتے ہیں: ۔۔۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ حصول نفع اور دفع ضرر سے متعلق کار آمد اسباب اختیار کرنے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرے۔حدیث مذکور اس کی من جملہ دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔لہذا جو شخص بغیر منڈیر والی چھت پر رات گزارے اس نے نقصان سے بچاؤ کا کار آمد راستہ اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کبھی حالت نیند میں پلٹ جائے یا نیند سے اُٹھ کر غندگی کے عالم میں کسی اور طرف چلنا شروع کر دے اور نیچے گر جائے لہذا مناسب ہے کہ ان کار آمد اسباب کو اختیار کرتے ہوئے ایسی جگہ نہ سوئےاگر پھر بھی کوئی سوئے تو ایسا شخص گرنے کے اسباب اختیار کرتا ہے اور یقینا وہ گر جائے گا۔البتہ جو کوئی اسباب نافعہ اختیار کرتا ہے، اللہ رب العالمین کا ذکر کرتا ہے اور اس پر توکل کرتا ہے تو ایسا شخص اللہ رب العالمین کی حفاظت میں ہے، یا تو رب تعالی اس کی حفاظت کرے گا یا پھر اس کی تکالیف ومصائب پر گناہوں کو مٹا کر یا درجات بلند کر کے اسے اجر سے نوازے گا۔اسباب اختیار کرنے کے باوجود بھی اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ شہید ہےجیسا کہ گرنے اور ڈوبنے کے سبب مرنے والے کے سلسلے میں حدیث وارد ہوئی ہے۔ اور جو شخص امکان کے باوجود بھی اسباب اختیار نہ کرے وہ اللہ کی ذمہ داری میں نہیں ہوتا چنانچہ ایسے شخص کو نہ مصیبت پر اجر ملتا ہے اور نا ہی مرنے پر درجہ شہادت، بلکہ اس بات کا بھی ڈر ہوتا ہے کہ ایسا شخص خود کشی کرنے والوں کے زمرے میں شامل نہ ہو جائے۔واللہ اعلم بالصواب۔([724])
10۔ نیند سے بیدار ہونے والا کیا پڑھے؟
سونے والا جب نیند سے بیدار ہو تو مشروع یہ ہے کہ وہ چند ایک دعاؤں اور قرآنی آیات کا اہتمام کرے۔ ہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کریں گے۔
(أ)۔ رات میں جس کی آنکھ کھلے وہ یہ پڑھے: "إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ"۔ حضرت عبادہ بن صامت t سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص رات کو اٹھے([725]) اور کہے: (لا إله إلا الله ۔۔۔ ولا قوة إلا بالله) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے۔ اور تمام تعریفات اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ میں اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ وہ سب سے بڑا ہے۔ نیکی کرنے کی اور برائی سے بچنے کی طاقت اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔‘‘ پھر یہ دعا پڑھے: (اللهم اغفرلي) "اے اللہ! مجھے معاف فر دے۔" یا کوئی اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر وضو کر کے نماز پڑھے تو اس کی نماز بھی قبول ہوتی ہے۔([726])
(ب)۔ سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کرنا۔ اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس روایت میں ہے جس میں ان کا اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزارنے کا ذکر ہے، فرماتے ہیں: ۔۔۔ تاآنکہ جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔۔۔حدیث۔([727])
(ت)۔ «الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ» پڑھنا۔ حضرت حذیفہ t کی روایت کردہ حدیث میں ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب بستر پر تشریف لے جاتے تو کہتے: ”تیرے ہی نام کے ساتھ میں سوتا اور جاگتا ہوں“ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: ”تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔([728])
آداب سفر کا بیان
حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔"([729])
آداب:
1۔ مسافر کا (اپنے احباب کو) الوداع کہنا مستحب ہے۔
مسافر کیلیے مستحب ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال اور اقارب واحباب کو الوداعیہ کلمات کہے، ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:تم میں سے جب کوئی سفر پر نکلے تو اقارب واخوان کو وداع کرے، کیوں کہ اللہ رب العالمین ان کی دعاؤں میں برکت ڈالتا ہے۔ ا مام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص سفر سے آئے تو اس کے احباب واقارب اس سے ملنے اور سلام کرنے آئیں اور اگر سفر پر نکلنے والا ہو تو وداع کرنے کی غرض سے خود ہی لوگوں کے پاس جائے اور ان کی دعاؤں سے فیضیابی حاصل کرے([730])۔بوقت وداع ایک متروکہ سنت ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ مسافر کو نبی اکرم ﷺ کی دعا کے ساتھ رخصت کرنا۔ چنانچہ سیدنا قزعہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر t نے مجھ سے کہا: ادھر آؤ! میں تمہیں الوداع کہوں، جیسے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے الوداع کہا تھا: «أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ» "میں تیرے دین، تیری امانت اور تیرے عمل کے اختتام کو اﷲ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں۔"([731])
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: "أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ" یعنی میں رب العالمین تمہارے دین کی حفاظت کا سوال کرتا ہوں۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: "وَأَمَانَتَكَ"، امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں امانت سے مراد اس کے اہل وعیال اور اس کے پیچھے رہ جانے والے مال ومتاع ہیں جنہیں وہ کسی امانت دار شخص یا وکیل یا ان جیسے دیگر افراد کے پاس بطور امانت چھوڑتا ہے۔یہاں امانت کے ساتھ دین کا ذکر اس لیے آیا ہے کیونکہ سفر ایک پر خطر معاملہ ہے اور بسا اوقات اس میں مشقت وتھکاوٹ لاحق ہونے لی وجہ سے انسان دین سے متعلق بعض امور سے تساہل برتنے لگتا ہے لہذا آپ ﷺ نے مسافر کیلیے ان دونوں امور میں توفیق واعانت کی دعا کی۔ ([732])
أبو ہریرہ t سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سفر کا ارادہ کیا چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ: اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے وصیت کریں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ عز وجل کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ ہر اونچائی چڑھتے وقت تکبیر کہنا، جب وہ شخص چلا گیا تو آپ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! اس کیلیے زمین کو سمیٹ دے اور اس کے سفر کو آسان کر دے۔ ([733])
2۔ تنہا سفر کرنے کی کراہت: اس تعلق سے حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "تنہا سفر کرنے کا جو نقصان، مجھے معلوم ہے وہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو کوئی سوار بھی رات کے وقت اکیلا سفر نہ کرے۔"([734])
اس حدیث میں کئی ایک فوائد ہیں:
پہلا: نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اُن پیش آمدہ مصائب کے تعلق سے کوئی خبر نہیں دی جو تنہا سفر کرنے کے نتیجے میں دوران سفر لاحق ہوتی ہیں اور در حقیقت یہ اکیلے سفر کرنے سے خوف دلانے کا سخت ترین انداز ہے۔
دوسرا: ممانعت صرف رات کے وقت میں ہے، دن اس میں داخل نہیں ہے۔
تیسرا: ممانعت؛ پیدل اور سوار دونوں کو شامل ہے، اور نبی اکرم ﷺ کا قول: "مَا سَارَ رَاكِبٌ بِلَيْلٍ" امر غالب پر محمول کیا جائے گا، ورنہ پیادہ بھی گھوڑ سوار کے معنی میں داخل ہے۔واللہ اعلم۔
نیز تنہا سفر کرنے سے ممانعت کے سلسلے میں ایک حدیث عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اکیلا سوار شیطان ہے ، دوسواربھی شیطان ہیں اورتین سوار قافلہ والے ہیں۔"([735])
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: تن تنہا اکیلے سفر کرنا شیطان کا عمل ہےاور شیطان لوگوں کو اسی پر ابھارتا اور بلاتا رہتا ہے، اور یہی معاملہ دو شخص کا بھی ہے، البتہ جب تین افراد ہو جائیں تو یہ ایک جماعت اور قافلہ بن گئے، نیز فرمایا: سفر میں اکیلا شخص اگر فوت ہو جائے تو وہاں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہوگا جو اسے غسل دے اور تجہیز وتکفین کا اہتمام کرے، نہ ہی کوئی ایسا بندہ ہوگا جسے وہ اپنے مال کے تعلق سے وصیت کر سکتا ہے اور نا ہی اس کا ترکہ (مال ومتاع) اور اس کی خبر وفات اس کے اہل خانہ تک پہنچا سکتا ہے۔ نیز کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو سامان اٹھانے پر اس کی مدد کر سکے، البتہ اگر تین لوگ ہونگے تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے، باری باری اپنی ڈیوٹی نبھائیں گے، چوکیداری کریں گے، جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کریں گے اور اس میں وہ ثواب بھی سمیٹیں گے۔([736])
3۔ سفر میں تین یا اس سے زائد افراد ہوں تو کسی ایک کو امیر بنانا مستحب ہے۔
شریعت نے اجتماعیت اور عدم اختلاف کی طرف بلایا ہے بلکہ اس کی ترغیب دی ہے اور اس پر ابھارا ہے، چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری t سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تین افراد سفر پر نکلیں تو چاہیئے کہ ایک کو اپنا امیر مقرر کر لیں"۔([737])
چونکہ سفر ان امور میں سے ہے جن سے اجتماعیت اور آپسی مودت قائم ہوتی ہے لہذا تین یا اس سے زائد کی مسافر جماعت کیلیے یہ مستحب ہے کہ وہ آپس میں کسی ایک کو امیر مقرر کر لیں جو ان کی قیادت کرے اور انہیں وہ حکم دے جس میں ان کی مصلحت ہو، باقی لوگوں پر اس امیر کی اطاعت واجب ہے بشرطیکہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے، اگر وہ لوگ ایسا کریں گے تو انہیں اجتماعیت اور دل کی سلامتی حاصل ہوگی جو کہ ان کے سفر میں بغیر نا مرادی اور آپسی کسی رنجش کے بغیر ان کے اغراض کی تکمیل میں معاون ہوگی۔ اور نبی اکرم ﷺ کا حالت سفر میں تین افراد میں سے کسی ایک امیر بنانے کی ترغیب دینا تمام مسلمانوں کے اجتماع کی طرف توجہ دلانا ہے۔ واللہ اعلم۔
4۔ سفر میں کتا اور گھنٹی ساتھ رکھنے کی ممانعت:
نبی اکرم ﷺ نے سفر میں کتا اور گھنٹی اور ساتھ رکھنے سے منع کیا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر یا :"(رحمت کے)فرشتے (سفرکے)ان رفیقوں کے ساتھ نہیں چلتے جن کے درمیان کتا ہواور نہ (ان کے ساتھ جن کے پاس ) گھنٹی ہو۔"([738])
گھنٹی سے ممانعت کا سبب یہ ہے کہ وہ شیطان کی بانسری ہے، جس کی صراحت صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث میں آئی ہے جو ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "گھنٹی شیطان کی بانسری ہے"۔([739])
رہا کتے کو ساتھ رکھنے کی ممانعت کا مسئلہ، تو اس کی علت کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض کا کہنا ہے کہ: چونکہ حراست والے اور شکار کرنے والے کتے کے علاوہ دوسرے کتوں کے رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ سفر میں کتا ساتھ رکھنے والوں کو فرشتوں کی صحبت سے محرومی کی سزا دی گئی لہذا یہ حضرات برکت واستغفار اور اطاعت الہی پر معاونت جیسے فاضل امور سے محروم کر دیے جاتے ہیں، بعض دوسرے علما کا کہنا ہے کہ ممانعت کتے کی نجاست کے سبب وارد ہوئی ہے([740])۔ واللہ اعلم۔
5۔ بلا محرم عورت کے لیے سفر کی ممانعت۔
شریعت مطہرہ نے عورت کو بلا محرم سفر کرنے سے منع کیا ہے، کیونکہ یہ اس کے اور اس کے اردگرد کے مردوں کے لیے فتنہ کو جنم دے گا۔ اس بابت وارد احادیث صحیح ہیں، ان کی تضعیف وتاویل کی کوئی گنجائش نہیں۔ صحیحین وغیرہ میں ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ پر ایمان اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت اس حالت میں طے کرے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔ صحیح مسلم کے الفاظ میں ہے: "کسی مسلما ن عورت کے لیے حلال نہیں وہ ایک رات کی مسافت طے کرے مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ ایسا آدمی ہو جو اس کا محرم ہو" ۔([741])
اور حضرت ابن عباس t سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: "کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے اور نہ کوئی عورت محرم کے بغیر سفر کرے۔‘‘ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں نے اپنا نام فلاں فلاں جہاد کے لیے لکھوادیا ہے لیکن میری اہلیہ حج کے لیے جا رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ تم اپنی بیوی کے ہمراہ حج کرو۔"([742])
جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ بلا محرم کسی عورت کے ایک دن اور ایک رات سفر کرنے سے متعلق واضح ممانعت موجود ہے۔ اپنے شوہر، والد ، بیٹے، بھائی اور ان جیسے دیگر محرم کے ساتھ (ہی سفر کرے گی)۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ کا اس شخص کو جس نے غزوہ میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا تھا، اپنی اہلیہ کے ساتھ سفر حج پر نکلنے کا حکم دینا؛ خواتین کے لیے بغیر محرم سفر کرنے کی حرمت پر واضح دلیل ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کئی ایک جمع شدہ متعارض امور میں سے سب اہم کو مقدم کرنے کی دلیل ہے، کیوں کہ جب سفر جہاد اور اہلیہ کے ساتھ سفر حج میں تعارض اور ٹکراؤ ہوا تو آپ ﷺ نے سفر حج کو ترجیح دی، کیوں کہ غزوہ میں ان کی جگہ کوئی اور لے سکتا تھا جب کہ سفر حج میں یہ ممکن نہیں تھا۔([743])
ایک اشکال: بعض لوگوں کی زبان سے بارہا یہ سننے کو ملتا ہے کہ موجودہ زمانے میں عورت کے لیے تنہا سفر کرنا ایک ضرورت بن گئی ہے کیوں کہ موجودہ حالات اسی کا تقاضا کرتے ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہوائی جہاز یا ریل گاڑی میں سفر کرنے سے اکیلے سفر کی علت ختم ہو جاتی ہے۔ اور بعض لوگ تو یہ بھی کہتے کہ جب میں نے بذات خود اپنی اہلیہ کو ایئر پورٹ پہنچایا نیز اس کے ہوائی جہاز میں سوار ہونے کا یقینی علم بھی ہو گیا پھر دوسرے شہر میں اس کا بھائی اسے لینے آجائے تو ایسی صورت میں تنہا سفر کرنے کی ممانعت کہاں باقی رہ جاتی ہے؟
اس کا جواب کئی ایک طریقوں سے ممکن ہے:
(۱)۔ امت جن عظیم فتنوں سے دوچار ہوئی ان میں سے ایک فتنہ عورتوں کا بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس سے خوف بھی دلایا ہے، فرمایا: "بلاشبہ دنیا بہت میٹھی اور ہری بھری ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں (تم سے پہلے والوں کا) جانشیں بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، لہذا تم دنیا (میں کھو جانے سے) بچتے رہنا اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے سے) بچ کر رہنا، اس لیے کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں (کے معاملے) میں تھا۔"([744])
لہذا اگر عورتوں کو چھوڑ دیا جائے کہ گھومتی اور اتراتی رہے ، مردوں کے پہلو سے پہلو ملا کر کام کرے، منصب وقیادت کی ذمہ داری سنبھالے تو پھر اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ہمیں وہی عذاب لاحق نہ ہو جائے جو بنی اسرائیل کو لاحق ہوا تھا۔ والعیاذ باللہ۔
(۲)۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنےمیں کوئی دو رائے نہیں کہ عورت کمزور اور جلد متاثر ہونے والی ذات ہے، (دوسروں) کی طرف جلد مائل ہو جاتی ہے، اسے ایک ایسے مرد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی حفاظت کرے اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کرے([745])، اور جب ان امور کے ساتھ ساتھ اکثر مردوں کے دلوں میں پیدا ہونے والی ایمانی کمزوری اور دینی حمیت کا فقدان بھی شامل ہو جائے تو معاملہ کی سنگینی اوربھی بڑھ جاتی ہے اور فتنہ اور بھی عظیم ہو جاتا ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز یا ان جیسی دیگر سواریوں میں جن میں مسافروں کا ایک پورا مجموعہ ہوتا ہے، تنہائی کا معاملہ باقی نہیں رہتا ہے، تو انہیں جوابا یہ کہا جائے گا کہ عورت کا اجنبی مردوں کے درمیان بیٹھنا اور اپنے پیش آمدہ امور میں ان سے بلا واسطہ ہم کلام ہونا فی نفسہ محل نظر ہے۔ کیوں کہ بعض مرد ایسے ہیں جن کا دل بہت زیادہ بیمار ہوتا ہے، بعض دوسرے نظروں کے تیر چلاتے ہیں، اور اس مستزاد یہ کہ محرم میں سے کوئی اس کا نگراں اور محاسب نہیں ہوتا۔
جہاں تک ہوائی جہاز یا اس جیسی دوسری سواری میں بٹھانے اور پھر اسے دوسرے شہر میں محرم کا اسے لینے آجانے کی بات ہے ، تو یہ اور ان جیسے دوسرے اشکالات کے بارے میں کہا جائے گا کہ: آپ کو کیا خبر؛ اگر کسی فنی خرابی کے پیش نظر ہوائی جہاز کو کسی دوسرے مقام پر اتارنا پڑا -جو کہ بسا اوقات ہوتا ہے- ، بلکہ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اگر اس جگہ دو یا تین دن رکنا پڑے تو ایسی صورت میں محرم کہاں سے میسر ہوگا، اس کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کے انتظامات کون کرے گا۔
6۔ بروز جمعرات صبح تڑکے سفر کرنا مستحب ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا اپنے سفر میں معمول یہ تھا کہآپ بروز جمعرات نکلنا پسند فرماتے تھے اور صبح تڑکے ہی نکلتے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک t سے مزید روایت ہے کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک کے لیے جمعرات کے دن نکلے تھے۔ اور آپ ﷺ جمعرات کے روز سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے: حضرت کعب بن مالک t سے روایت ہے، وہ کہا کرتے تھےکہ رسول اللہ ﷺ جمعرات کے دن کے سوا بہت کم سفر کے لیے نکلتے تھے۔([746])
سیدنا صخر غامدی t بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اے اﷲ! میری امت کے لیے ان کی صبحوں میں برکت ڈال دے۔“ چنانچہ آپ ﷺ کو کوئی مہم یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو انہیں دن کے پہلے پہر روانہ فرماتے۔ اور سیدنا صخر ؓ ایک تاجر صحابی تھے، تو وہ اپنے کارندوں کو دن کے پہلے پہر روانہ کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ مالدار ہو گئے تھے اور ان کا مال خوب بڑھ گیا تھا۔([747])
مسألہ: بروز جمعہ سفر کیا حکم ہے؟
جواب: (حنابلہ) مذہب میں راجح یہی ہے کہ جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے اس دن زوال کے بعد سفر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر یہ کہا جاتا کہ: اذان کے بعد سفر کرنا جائز نہیں ہے تو زیادہ بہتر ہوتا، کیوں کہ اللہ رب العالمین نے اذان کے بعد ہی جمعہ کو جانے اور خرید وفروخت ترک کرنے کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے: "اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔"البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ: زوال کا ہونا جمعہ کے وجوب کا سبب ہے کیوں کہ زوال ہوتے ہی وقت داخل ہو جاتا ہے۔
7۔ سفر کی دعا اور اس باب میں وارد اذکار۔
احادیث نبویہ اذکار وادعیہ سے بھرے پڑے ہیں، جنہیں مسافر سوار ہونے سے لے کر اپنے گھر واپس لوٹنے تک پڑھتا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
(أ)۔ سواری پر بیٹھنے کی دعا۔ جناب علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی بن ابی طالب t کے ہاں حاضر تھا کہ سوار ہونے کے لیے آپ کے سامنے سواری لائی گئی۔ آپ نے جب اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو کہا: «بسم الله» پھر جب ٹھیک طرح سے اس پر بیٹھ گئے تو کہا: «الحمد الله» پھر کہا: «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ» ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے تابع کیا اور ہم از خود اس کو اپنا تابع نہ بنا سکتے تھے اور بلاشبہ ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔“ پھر کہا: «الحمد الله» تین بار۔ پھر کہا: «الله اكبر» تین بار۔ پھر کہا: «سُبْحَانَكَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي, فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ» ”اے اﷲ! تو پاک ہے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف فرما دے، بلاشبہ تیرے سوا اور کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش سکے۔“ پھر آپ ہنسے۔ آپ سے کہا گیا: امیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ ﷺ نے ایسے ہی کیا تھا، جیسے کہ میں نے کیا ہے اور آپ ﷺ ہنسے (بھی) تھے، تو میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا: اے اﷲ کے رسول! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ تیرے رب کو اپنے بندے پر تعجب آتا ہے جب وہ کہتا ہے (الٰہی!) میرے گناہ بخش دے، بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا۔“([748])
(ب)۔ سفر کی دعاؤں میں سے ایک دعا نکلتے وقت اور واپسی کے وقت (پڑھی جاتی ہے)۔ سیدنا ابن عمر t نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ ﷺ کہیں سفر میں جانے کے لئے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے: "سبْحانَ الذي سخَّرَ لَنَا هذا و كنَّا له مُقرنينَ، وَإِنَّا إِلى ربِّنَا لمُنقَلِبُونَ . اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ في سَفَرِنَا هذا البرَّ والتَّقوى ، ومِنَ العَمَلِ تَرْضى . اللَّهُمَّ هَوِّنْ علَيْنا سفَرَنَا هذا وَاطْوِ عنَّا بُعْدَهُ ، اللَّهُمَّ أَنتَ الصَّاحِبُ في السَّفَرِ ، وَالخَلِيفَةُ في الأهْلِ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وعْثَاءِ السَّفَرِ ، وكآبةِ المنظَرِ ، وَسُوءِ المنْقلَبِ في المالِ والأهلِ"پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں [ الزخرف: 14,13 ] اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور گھر والوں میں برے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے تو بھی یہی دعا پڑھتے مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے کہ :"آيبون تائبون عائدون عابدون لربنا حامدون" "ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں"۔([749])
حضرت ابن عمر t سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ جہاد یا حج وعمرے سے لوٹتے تو زمین کی ہر اونچی جگہ پر چڑھتے وقت تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: " لا إله إلاَّ اللَّه وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْك ولَهُ الحمْدُ، وَهُو على كلِّ شَيءٍ قَدِيرٌ . آيِبُونَ تَائِبُونَ عابِدُونَ ساجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ . صدقَ اللَّه وَعْدهُ، وَنَصر عبْده، وَهَزَمَ الأَحزَابَ وحْدَه " ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اسی کی حکومت وبادشاہت ہے۔ وہی تعریف کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم سفر سے لوٹنے والے توبہ کرنے والے، اپنے مالک کی بندگی کرنے والے، اس کے حضور سجدہ ریز ہونے والے اپنے پروردگار کی تعریف کرنے والے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے کفار کی افواج کوشکست سے دوچارکردیاہے۔‘‘([750])
(ت)۔ اونچی جگہ چڑھتے اور وادی میں اترتے وقت کی دعا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث کے آخرکے الفاظ ہیں: نبی کریم ﷺ اور آپ کے لشکری جب کسی گھاٹی پر چڑھتے تو «الله أكبر» اور اگر کسی پستی میں اترتے تو «سبحان الله» کہتے اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے (کہ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہی جاتی ہے)۔([751])
(ث)۔ بستی وغیرہ میں داخل ہونے کی دعا۔ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب کسی بستی کے قریب ہوتے اور داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو کہتے: اے اللہ! ساتوں آسمانوں، اور جن پر وہ سایہ فگن ہیں ان سب کے رب! ساری زمینوں اور ان ساری چیزوں کے رب جن کا وہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور اے شیاطین اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان سب کے رب!ہوا اور اس سے اڑنے والے گرد وغبار کے رب، میں تجھ سے اس بستی اور بستی والوں کی خیر وبھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس بستی اور اس کے باشندوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ ([752])
(ج)۔ مسافر کے لیے وقت صبح کا مستحب ذکر۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب کسی سفر میں ہوتے اور سحر کے وقت اٹھتے تو فرماتے: "(ہماری طرف سے) اللہ کی حمد اور اس کے انعام کی خوبصورتی (کے اعتراف) کا سننے والا یہ بات دوسروں کو بھی سنا دے۔ اے ہمارے رب! ہمارے ساتھ رہ، ہم پر احسان کر، میں آگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کر رہا ہوں۔"([753])
فائدہ: مسافر کو اپنے سفر کو غنیمت جاننا چاہیے اور اپنے لیے، اپنے آباء واجداد ، اہل وعیال اور دیگر احباب کے لیے دعا کرنی چاہیے، خوب سے خوب دعائیں کرے ، جامع دعا اختیار کرے، خشوع وخضوع اور عاجزی کے ساتھ دعا کرےکیوں کہ مسافر کی دعا مقبول ہوتی ہے لہذا اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ t سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تین دعاؤں کے قبول ہونے میں شک نہیں۔ باپ کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔"([754])
8۔ سفر میں نفل نماز پڑھنا۔ متروکہ سنتوں میں ایک؛ انسان کا اپنی سواری پر نفل نماز کی ادائیگی ترک کرنا ہے، چنانچہ نادراً ہی کسی کو دیکھو گے کہ وہ ہوائی جہاز یا دوسری کسی سواری پر نفل نماز یا وتر کی ادائیگی کرتا ہو، نبی اکرم ﷺ اپنی سواری پر وتر پڑھا کرتے تھے، نیز مسافر کیلیےنفل نماز میں قبلہ کا استقبال بھی شرط نہیں ہے اگر وہ سواری پر ہے، کیوں کہ اس میں بڑی مشقت ہے، البتہ تکبیر تحریمہ کہتے وقت قبلہ کا استقبال کرنا افضل ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سفر کے دوران میں نماز شب اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، اس کا جدھر کو بھی منہ ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے([755])۔لہذا مسافر کے لیے مستحب ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے اپنی سواری پر نفل نماز اور وتر کی ادائیگی کرے۔
مسألہ: کیا مسافر کے لیے ہوائی جہاز، گاڑی یا ریل گاڑی میں بوقت ضرورت نماز پڑھنا جائز ہے؟ یا پھر یہ اسے مؤخر کرے گا تا کہ ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں اس کی ادائیگی ممکن ہو؟ اور کیا ایسی صورت میں قبلہ کا استقبال ضروری ہے؟
اگر گاڑی، ریل گاڑی، ہوائی جہاز یا چوپائے پر سوار شخص ، سواری سے اتر کر فریضہ کی ادائیگی میں اپنی ذات پر کسی قسم کا خوف محسوس کرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ کسی مناسب جگہ ادا کرنے کی غرض سے اگر اسے مؤخر کر دیا تو اس کا وقت فوت ہو جائے گا، تو ایسی صورت میں وہ حسب استطاعت نماز پڑھے گا۔ اس کی دلیل رب العالمین کا یہ عمومی قول ہے: "اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا"۔ اور یہ فرمان: "پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو"۔ اور یہ فرمان بھی: "اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی"۔
رہا یہ مسألہ کہ سواری کا رخ جس طرف بھی ہو اس طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے گا یا پھر پوری نماز میں استقبال قبلہ شرط ہے یا صرف نماز شروع کرتے وقت۔ تو یہ مسألہ اس کی استطاعت سے متعلق ہے، اگر پوری نماز میں استقبال قبلہ ممکن ہو تو یہ واجب ہوگا کیوں کہ سفر وحضر میں استقبال قبلہ فرض نماز کی درستی کے لیے شرط ہے۔ اور اگر پوری نماز میں ممکن نہ ہو تو بقدر استطاعت اللہ کا تقوی اختیار کرے گا۔ مذکورہ آیات اس کی دلیل ہیں۔([756])
9۔ (سفر میں) کسی جگہ ٹھہرنے کی دعا۔
مسافر کو سونے کھانے اور دوسری ضروریات کی تکمیل کے لیے سواری سے اترنے کی ضرورت پڑتی ہے، اور زمین میں کیڑے مکوڑے، درندے اور شیطانوں میں سے کیا کچھ ہو سکتے ہیں ان کے بارے میں رب ہی جانتا ہے، لہذا ہمارے اوپر یہ اللہ رب العالمین کی نعمت ہی ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کی زبانی ہمارے لیے ایک دعا مشروع کی جس کا پڑھنا -باذن اللہ- ہمیں ہر مخلوق کے شر سے بچائے گا۔ چنانچہ حضرت خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جو شخص کسی (بھی) منزل پر اترا اور اس نے یہ کلمات کہے: میں اللہ (سے اس) کے مکمل ترین کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی، تو اس شخص کو اس منزل سے چلے جانے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔"([757])
حدیث میں کئی ایک فوائد ہیں:
پہلا: کسی بھی جگہ اترتے وقت یہ دعا پڑھی جائے گی، یہ صرف حالت سفر میں سواری سے اترتے وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
دوسرا: اللہ کا کلام اس کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے، کیوں کہ یہ نا ممکن ہے کہ کسی مخلوق سے پناہ چاہی جائے ، یہی اہل سنت کی جماعت کا موقف ہے۔ یہ قول ابن عبد البر رحمہ اللہ کا ہے۔([758])
تیسرا: کسی جگہ ٹھہرتے وقت اس دعا کا پڑھنے والا اللہ رب العالمین کی خاص حفاظت میں ہوتا ہے، چنانچہ جب تک وہ اس جگہ کو نہ چھوڑے تب تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہونچاتی ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ خبر صحیح اور بالکل سچی بات ہے، جس کی صداقت ہمیں دلائل اور تجربات کے ذریعہ معلوم ہے، کیوں کہ میں نے جب سے اس حدیث کے بارے میں سنا ہے تب سے اس پر برابر عمل کرتا رہا حتی کہ ایک مرتبہ میں نے اسے چھوڑ دیا چنانچہ مجھے مہدیہ (ایک بستی کا نام ہے) میں ایک بچھو نے ڈنک مار لیا، میں نے جب غور وفکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ میں اس دعا کا ورد بھول گیا تھا۔([759])
10۔ کسی جگہ اترتے اور کھانا کھاتے وقت ایک ساتھ جمع ہونا۔
اللہ رب العالمین نے اجتماع میں قوت وعزت اور حفظ وبرکت رکھا ہے جبکہ تفرقہ میں ضعف وکمزوری دشمنوں کا غلبہ اور بے برکتی رکھا ہے۔ چنانچہ اگر کچھ لوگ اکٹھے سفر کر رہے ہوں تو ان کے لیے مستحب یہی ہے کہ ایک ساتھ ٹھہریں اور ایک ساتھ رات گزاریں، اسی طرح ایک ساتھ کھانا بھی کھائیں تا کہ وہ برکت سے بہرہ ور ہوں۔
کسی جگہ ٹھہرتے وقت اکھٹے ہونے کی دلیل حضرت ابو ثعلبہ الخشنی t بیان کرتے ہیں کہ مجاہدین جب کسی منزل پر پڑاؤ کرتے تھے، عمرو بن عثمان کے الفاظ ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ پڑاؤ کرتے تھے تو لوگ وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جاتے تھے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا ان وادیوں اور گھاٹیوں میں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔“ چنانچہ اس کے بعد جب بھی آپ ﷺ کسی منزل پر پڑاؤ کرتے تو صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے کے بہت ہی قریب رہتے حتیٰ کہ کہا جاتا: اگر ان پر ایک ہی کپڑا تان دیا جائے تو سب پر آ جائے۔([760])
اور اکٹھے کھانا کھانے سے برکت اور کثرت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ وحشی بن حرب اپنے والد سے اور وہ (وحشی کے) دادا صحابی (وحشی بن حرب ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب نبی کریم ﷺ نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کھاتے ہیں مگر سیر نہیں ہوتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تم لوگ علیحدہ علیحدہ ہو کر کھاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اکٹھے ہو کر کھایا کرو اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، اس میں تمہارے لیے برکت پیدا کر دی جائے گی۔“([761])
فائدہ: دوران سفر کھانا ایک جگہ جمع کرنا مستحب ہے، جسے عربی میں "تناهد" کہتے ہیں، جس کا معنی یہ ہے کہ: مسافروں میں ہر کوئی اپنے زاد سفر کا کچھ حصہ نکال کر اس شخص کے حوالے کرے جو ان پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے، پھر سب ایک ساتھ مل کر کھانا کھائیں۔([762])
امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو کیا پسند ہے؟ آیا یہ کہ انسان اکیلے کھانا کھائے یا پھر کسی کے ساتھ کھائے؟ فرمایا: ایک ساتھ کھائے، یہ آپسی تعاون کے لیے زیادہ مناسب ہے۔کیوں کہ جب تم اکیلے ہوگے تو تمہارے لیے کھانا پکانا اور دیگر امور انجام دینا ممکن نہیں ہوگا، ایک ساتھ جمع ہو کر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ عمل سلف صالحین سے ثابت ہے، حسن بصری رحمہ اللہ جب سفر کرتے تو سب کے ساتھ اپنا حصہ نکالتے اور الگ سے مزید اتنا اور بھی خاموشی سے نکالتے۔([763])
11۔ دوران سفر سونا: سفری تھکاوٹوں سے آرام کی غرض سے بسا اوقات بعض لوگوں کو زمین پر ہی سونے کی ضرورت پڑتی ہے اور چونکہ شریعت مطہرہ لوگوں کی راہنمائی اس جانب کرتی ہے جس میں ان کی جلد یا بدیر بھلائی پوشیدہ پوتی ہے، لہذا انہی منجملہ راہنمائیوں میں سے ایک؛ مسافر کو سونے کے تعلق سے راہنمائی کرنا ہےتا کہ زمین کے کیڑے مکوڑوں اور دوسرے موذی جانوروں سے تکلیف نہ پہنچے، چنانچہ ابوہریرہ t سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم شادابی (کے زمانے) میں سفر کرو تو زمین سے اونٹوں کو ان کا حصہ دو اور جب تم خشک سالی میں سفر کرو تو اس (سے متاثرہ علاقے میں) سے ان (اونٹوں کی ٹانگوں) کا گودا بچا کر لے جاؤ (تیز رفتاری سے نکل جاؤ تاکہ زیادہ عرصہ بھوکے رہ کر وہ کمزور نہ ہو جائیں) اور جب تم رات کے آخری حصے میں قیام کرو([764]) تو گزرگاہ میں ٹھہرنے سے اجتناب کرو کیونکہ رات کے وقت وہ جگہ جانوروں کی گزر گاہ اور حشرات الارض کی آماجگاہ ہوتی ہے۔"([765])
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ امور؛ سفر اور سفر میں پڑاؤ کے آداب سے متعلق ہیں جن کی راہنمائی نبی اکرم ﷺ نے کی ہے۔ کیوں کہ کیڑے مکوڑے زہریلے جانور کی اقسام میں سے ہیں، اور درندے رات کے وقت راستوں پر چلتے ہیں کیوں کہ وہاں چلنا بھی آسان ہوتا ہے اور کچھ گری پڑی چیزیں کھانے کو بھی مل جاتی ہیں ۔نیز وہاں پردار چیونٹیاں بھی ہوتی ہیںلہذا اگر کوئی انسان راستے میں رات گزارتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی موذی جانور کا وہاں سے گزر ہو اسی لیے راستے سے الگ ہٹ کر رات گزارنا بہتر ہے۔([766])
مسافر پر لازم ہے کہ جب وہ سونے لگے تو بقدر استطاعت ہر اس ممکن وسیلہ کو اختیار کرے جو اسے نماز فجر کے لیے جگانے میں معاون ثابت ہو۔ اور الحمد للہ ہمارے اس زمانے میں اس قسم کے وسائل تک رسائی بالکل آسان ہے اور کم قیمت پر دستیاب بھی ہیں۔ ہمارے رسول ﷺ خود بھی نماز فجر کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ کو نیند نے آلیا ، آپ نے (سواری سے )اتر کر پڑاؤ کیا اور بلال سے کہا : ’’ہمارے لیے رات کا پہرہ دو (نظر رکھو کہ کب صبح ہوتی ہے ؟)‘‘([767])
اور نسائی اور مسند احمد میں جبیر بن مطعم t سے مروی ہے کہ حضرت جبیر t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سفر میں (آخر رات میں سوتے وقت) فرمایا: "اس رات کون ہمارے لیے فجر کی نماز کا خیال رکھے گا؟ کہیں ہم نماز سے سوئے ہی نہ رہ جائیں۔“ حضرت بلال ؓ نے کہا: میں۔۔۔ حدیث"۔([768])
اور حضرت ابو قتادہ t سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺجب سفر میں ہوتے اور رات (کے آخری حصے )میں آرام کے لیے لیٹے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح سے ذرا پہلو پر لیٹتے تو اپنی کہنی کھڑی کر لیتے اور سر ہتھیلی پر ٹکا لیتے ۔([769])
12۔ مسافر کے لیے مستحب ہے کہ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد بلا تاخیر گھر لوٹ آئے۔
مسافر کے لیے مستحب یہی ہے کہ جوں ہی اپنا مقصود سفر حاصل کر لے، فوراً اپنے گھر واپس لوٹ آئے، ضرورت سے زیادہ قیام نہ کرے، اس کی کئی ایک حکمتیں ہیں جن کا بیان آگے آئے گا۔
رسول ﷺ نے بھی اس امر کی طرف راہنمائی کی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’سفر عذاب کا ایک حصہ ہے جو کھانے پینے اور سونے کو موقوف کردیتا ہے لہٰذا جب سفر کی ضرورت پوری ہو جائے تو اپنے گھر جلدی واپس آنا چاہیے۔‘‘([770])
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اپنے گھر والوں سے بلا سبب دور رہنے کی کراہیت اور جلد واپس لوٹنے کے استحباب کا بیان ہے، خصوصاً ان حضرات کے لیے جنہیں اپنے غائبانہ میں (اپنے مال واولاد کے) کے ضیاع کا خوف ہوتا ہے۔ مزید بر آں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہنے میں ایک طرح کی راحت محسوس ہوتی ہے جو دین ودنیا کی خیر وبھلائی پر معاون بھی ہوتی ہے۔نیز (اپنے شہر میں) قیام پذیر ہونے میں اجتماعیت کا حصول ہے اور ادائیگی عبادت پر تقویت ملتی ہے۔([771])
13۔ بوقت شب مسافر شخص کا اپنے اہل کے پاس آنا مکروہ ہے۔
حضرت جابر t سے روایت ہے، کہ: نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو (اچانک) گھر والوں کے پاس جا پہنچے۔اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: "جب تم میں سے کوئی شخص رات کے وقت گھر واپس آئے تو رات کو (اچانک) اپنے گھر میں داخل نہ ہو (بلکہ اتنی دیر توقف کرے) کہ شوہر کی غیر حاضری میں رہنے والی اپنی صفائی کر لے اور الجھے بالوں والی بال سنوار لے۔"نیز صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو (اچانک) گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت (جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے) کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے۔([772])
مسافر شخص جب اپنے اہل وعیال کے پاس واپس آئے تو بہتر یہ ہے کہ بوقت شب گھر میں داخل نہ ہو، تا کہ کوئی ایسی چیز نہ دیکھ لے جسے وہ نا پسند کرتا ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔۔۔ جو شخص طویل مدت کے بعد گھر واپس آ رہا ہو اس کے لیے اچانک اپنی اہلیہ کے پاس آنا مکروہ اور نا پسندیدہ امر ہے، البتہ اگر کسی قریبی مقام کی طرف سفر کیا ہو جہاں سے رات کے وقت واپسی ممکن ہو تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ: "جب لمبے عرصے کے لیے دور رہا ہو"۔ اور اگر کسی بڑے قافلے میں ہو یا لشکر کے ساتھ ہو یا ان کے مثل کسی دوسری جماعت کے ساتھ ہو نیز واپسی اور پہنچنے کی خبر پھیل چکی ہو اور اس کی اہلیہ بھی اپنے شوہر کی واپسی کی خبر سے واقف ہو کہ وہ فلاں وقت پہنچنے والے ہیں، تو ایسی صورت میں مسافر شخص کے لیے کسی بھی وقت گھر میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیوں کہ جس کی علت کی بنا پر منع کیا گیا تھا وہ زائل ہے، اصل مقصود یہ ہے کہ اہل خانہ تیاری کر لیں اور مذکورہ امر حاصل ہو چکا ہے، لہذا یہ اچانک داخل ہونے کے حکم میں نہیں آئے گا۔([773])
میں (مؤلف) کہتا ہوں کہ: فون اور موبائل فون کے ذریعہ اپنے آنے کی خبر دینا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔
14۔ وطن واپسی کے بعد مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب آپ سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔ حضرت کعب بن مالک t سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب چاشت کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد میں آکر بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔([774])
یہ بھی ان متروکہ سنتوں میں سے ایک ہے جس پر بہت کم لوگ عمل کرتے ہیں، ہم اللہ رب العالمین سے دعا گو ہیں کہ ہمیں ظاہری وباطنی دونوں اعتبار سے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کی توفیق عطا فرما۔ وباللہ التوفیق۔
- حضرات براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کاحکم دیاتھاوہ:جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ:چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔([775])
آداب کا بیان:
1۔مریض کی عیادت کے فضائل: اس کی فضیلت میں کئی حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے چند کو میں یہاں بیان کرتا ہوں:
· حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں، بیان فرماتے ہیں:مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتاہے تو واپس آنے تک وہ برابر جنت ([776])میں پھل چنتا رہتاہے([777])۔
· جابر بن عبد اللہ رضی اللہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی اس نے رحمت الہی میں غوطہ لگایا،اور جب بیٹھ گیا تو اس نے رحمت میں جگہ بنالی([778])۔
· اور ایک روایت میں ہے : جس نے کسی کی عیادت کی اس نے رحمت الہی میں غوطہ لگایا،اور جب بیٹھ گیا تو اس نے رحمت میں جگہ بنالی۔ اور جب وہ اس کے پاس سے نکلتا ہے تو گھر لوٹنے تک وہ رحمت الہی میں غوطہ زن رہتا ہے۔([779])
· ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا: آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی۔ وہ کہے گا: میرے رب! میں کیسے تیری عیادت کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔([780])
· حضرت علی رضی اللہ عنہسے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پاس عیادت کے لیے آتا ہے تو وہ مریض کے پاس آکر بیٹھنے تک جنت کے پھل چنتا آتا ہے۔ جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو اس پر رحمت سایہ فگن ہو جاتی ہے۔ اگر (عیادت) صبح کے وقت ہو تو شام تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں۔([781])
مریض کی عیادت کے فضائل اور عیادت کرنے والے کو ملنے والے اجر وثواب کے بیان میں جو احادیث صحیحہ بیان کی گئیں ان کا مطلب یہ نہیں کہ مریض کی عیادت کرنے میں تفریط سے کام لیا جائے، بلکہ چاہئے کہ جلد وہاں سے نکل جایا جائے اور عیادت کے عمل کو برابر جاری رکھا جائے تاکہ رحمت الہی کو حاصل کیا جاسکے۔ نیز مریض کی عیادت میں اور بھی کئی فوائد ہیں ، مثلا: مریض کی دل جمعی کرنا، اس کی ضرورتوں کوجاننا اور اس کی مصیبت سے عبرت پکڑنا۔ ان فوائد کو ابن جوزی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔([782])
2۔بچوں کی عیادت کا بیان:جس طرح بڑوں کی عیادت کی جاتی ہے اسی طرح جب بچے بیمار ہوجائیں تو ان کی بھی عیادت کی جانی چاہئے۔کیونکہ بچوں کی عیادت میں بھی وہ مقصد موجود ہے جو بڑوں کی عیادت میں پایاجاتا ہے ،یعنی مریض کے حق میں دعا کرنا، اس کے درد وتکلیف کو ہلکا کرنا، شرعی طریقے پر اس کا رُقیہ کرنا اور عیادت کرنے والے کو مریض کی عیادت سے اجر وثواب کا حاصل ہونا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو بلاوابھیجا اور آپ کے ہمراہ وہ ،حضرت سعد اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہتھے؛کہ میری لخت جگر بستر مرگ پر پڑی ہے، اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ ﷺ نے انہیں سلام بھیجا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کو اختیار ہے جو چاہے دے اور جو چاہے لے لے۔ اس کے نزدیک ہر چیز ایک مقرر مدت تک کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالٰی سے اس مصیبت پر اجر کی امید رکھو اور صبر کرو۔صاحبزادی نے پھر آپ ﷺ کو قسم دے کر بلاوا بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ اٹھے پھر بچی کو نبی ﷺ کی گود میں رکھ دیا گیا جبکہ اس کی سانس اکھڑ رہی تھی اور وہ بے قرار تھی، (یہ منظر دیکھ کر) نبی ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رحمت ہے اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے اسے رکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ صرف انہی بندوں پر رحم کرتا ہے جو خود بھی رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔([783])
3۔خواتین کا مردوں کی عیادت کرنا:خواتین کا مردوں کی عیادت کرنا جائز ہے، گرچہ وہ (مرد)اجنبی ہی کیوں نہ ہوں، بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو،وہ خواتین باحجاب ہوں اور خلوت نہ اختیار کی جائے۔ لہذا اگر ان شرائط کو ملحوظ رکھا جائے تو اجنبی مرد وزن کا ایک دوسرے کی عیادت کرنا جائز ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟
اور مسند احمد میں ہے، عروہ فرماتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ کے صحابہ بیمار ہوگئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ، ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ بھی بیمار ہوگئے۔چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے ان کی عیادت کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت دے دی۔(جب وہ ان کے پاس عیادت کے لئے گئیں) تو پوچھا: (ابا جان! )آپ کی طبعیت کیسی ہے؟([784])
اسی طرح ابن شہاب، ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی: ایک مسکین عورت بیمار ہوگئی تو آپﷺ کو اس کی بیماری کی خبر دی گئی ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور ان کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے۔۔۔۔الحدیث([785])
ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس امر کی دلیل موجود ہے کہ خواتین کی عیادت جائز ومباح ہےگرچہ وہ محرم نہ ہوں، اور میرے نزدیک یہ تب جائز ہے جب خاتون سن رسیدہ ہو([786])،لہذا اگر سن رسیدہ نہ ہو تب جائز نہیں ہے۔ہاں اگر اس خاتون کی جانب دیکھے بغیر اس طبعیت دریافت کرلے تو جائز ہے۔([787])
4۔بے ہوش شخص کی عیادت کرنے کا بیان: بعض لوگ ایسے شخص کی عیادت کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو ایسی حالت میں ہو کہ انہیں اپنے گرد ونواح کا کچھ شعور نہ ہو، مثلا وہ شخص جس پر بار بار غشی طاری ہوتی ہو، یا وہ شخص جس کی سوچنے سمجھنے اور شعور واحساس کی صلاحیت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ہو۔ اور ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جب وہ مریض زیارت کرنے والے کی موجودگی کو محسوس ہی نہیں کرسکتا تو اس کی زیارت کرنے کا کیا فائدہ؟ جبکہ یہ فہم باطل ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ دلیل اس کے خلاف ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ سخت بیمار ہوا تو نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پیدل چلتے ہوئے میری مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت انہوں نے مجھے بے ہوش پایا۔ نبی ﷺ نے وضو کیا، پھر اس وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیسے تقسیم کروں؟ کس طرح اس کے متعلق فیصلہ کروں؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوگئی۔([788])
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عیادت کی مشروعیت صرف اسی بات پر موقوف نہیں ہے کہ مریض کو عیادت کرنے والے کا علم ہو بلکہ اس کی کئی وجوہات ہیں ، مثلا مریض کے اہل وعیال کی دل جمعی کرنا، عیادت کرنے والے سے برکت کی دعا حاصل کرنے کی امید اور رقیہ وغیرہ کے لئے مریض کے جسم پر ہاتھ رکھنا، اس پر ہاتھ پھیرنا اور اس پر جھاڑ پھونک کرنا۔([789])، ([790])
5۔مشرک کی عیادت کا بیان: بعض اہل علم کے نزدیک کافر کی عیادت مکروہ ہے کیونکہ عیادت کرنے میں ایک طرح کی عزت وتوقیر ہوتی ہے ([791]) (جبکہ ایک کافر اس عزت وتوقیر کے لائق نہیں ہوتا ہے) ، اور جب اس کے اسلام لانے کی امید ہو تو بعض اہل علم نے اس کی عیادت کی اجازت دی ہے، اور یہی قول عمل نبویﷺ کے زیادہ موافق ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک یہودی کا لڑکا نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ لڑکا ایک دفعہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اسکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے فرمایا: ’’تم اسلام قبول کر لو۔‘‘چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔([792])، اور حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: آپ لا إله إلا الله کہہ دیں۔ میں اس کلمے کے سبب اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کروں گا۔([793])
6۔مریض کی عیادت کا وقت: نبی اکرم ﷺ سے کوئی ایسی حدیث مروی نہیں ہے جس میں مریض کی زیارت وعیادت کے لئے کسی خاص وقت کا تعین کیا گیا ہو۔لہذا جب معاملہ ایسا ہے تو دن ورات میں کسی بھی وقت ان کی زیارت کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ انہیں کسی مشقت کاسامنا نہ کرنا پڑے۔کیونکہ عیادت کا مقصد مریض کی تکلیف کو ہلکا کرنا اور اسے تسلی دینا ہے نہ کہ اسے مشقت میں ڈالنا۔ نیز زمان ومکان کے مطابق عیادت کے اوقات بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ممکن ہے کہ کبھی رات میں زیارت زیادہ مناسب ہو اور کسی اور وقت ناپسندیدہ۔ مروذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رمضان کے مہینے میں ،میں ابو عبداللہ(امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ) کے ہمراہ رات میں ایک مریض کی عیادت کے لئے گیا، (عیادت کے بعد) انہوں نے مجھ سے کہا: رمضان میں بوقت شب ہی عیادت کی جاتی ہے([794])۔ اسی طرح دوپہر کے وقت لوگوں کی قیلولہ کرنے کی عادت ہے، وہ اس وقت آرام کرتے ہیں۔چنانچہ اثرم رحمہ اللہ نے فرمایا: موسم گرما میں دو پہر کے وقت ابو عبداللہ (امام احمد رحمہ اللہ) سے کہا گیاکہ فلاں شخص مریض ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ وقت کسی کی عیادت کا نہیں ہے۔([795])
نیز عیادت کے لئے جگہ کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔لہذا ممکن ہے کہ کسی ملک میں کسی خاص وقت میں عیادت کا رواج ہو جبکہ کسی دوسرے ملک میں وہ وقت اس کے لئے مناسب نہ ہو۔
7۔بوقت عیادت مریض پر آسانی کرنا: عیادت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھا اور ٹھہرا نہ رہے کیونکہ مریض درد والم میں مبتلا رہتا ہے۔ عیادت کرنےوالے کا اس کے پاس زیادہ دیر تک رہنا اسے مشقت میں ڈال سکتا ہے اور اس کے درد والم میں مزید اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے عیادت کا وقفہ مختصر رکھنا حسن عیادت کی دلیل ہے۔ چنانچہ ابن طاوس رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: افضل ترین عیادت وہ ہے جس میں عیادت کا وقفہ مختصر ہو۔۔۔۔ اور اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں بصرہ سے محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی زیارت کی غرض سے نکلا تو میں نے انہیں پیٹ کے مرض میں مبتلا پایا۔لہذا ہم کھڑے ہی کھڑے ان کی عیادت کیا کرتے تھے۔۔۔۔ اور شعبی رحمہ کا قول ہے: مریض پر بستی کے بے وقوف شخص کی عیادت سے زیادہ تکلیف دہ اس کے اپنے لوگوں کی بیماری ہے کہ ایک تو وہ لوگ غیر مناسب وقت میں آجاتے ہیں اور لمبے عرصے تک بیٹھے ہی رہتے ہیں([796])۔
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر مریض ؛ عیادت کرنے والے کا لمبی مدت تک بیٹھنا اور بار بار اس کا زیارت کے لئے آنا پسند کرتا ہو تو ایسا کرنا چاہئے تاکہ اسے خوشی ومسرت حاصل ہو اور تسلی ملے، جیسا کہ جب جنگ خندق میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے تھے تو نبی اکرم ﷺ ان کی عیادت کرتے تھے اور آپ ﷺ نے ان کے لئے ایک خیمہ بھی بنوانے کا حکم دیا تھا تاکہ نزدیک سے ان کی عیادت کرسکیں۔([797])، بھلا وہ کون صحابی ہوں گے جو اس بات کو ناپسند کرتے ہوں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائیں اور بار بار ان کی زیارت کریں!
عیادت کرنے والا کہاں کھڑا ہو؟: عیادت کرنے والے کے لئے یہ مستحب ہے وہ مریض کے سرہانے کھڑا ہو کیونکہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے بعد نیک لوگوں کا یہی طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی کا لڑکا نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ لڑکا ایک دفعہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اسکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’تم اسلام قبول کر لو۔‘‘چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔۔۔الحدیث([798])۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے : نبی ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو اس کے سرہانے بیٹھتے تھے۔۔۔الحدیث([799])۔ اور ربیع بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں حسن کے ساتھ قتادہ کی عیادت کو گیا، تو حسن ان کے سرہانے بیٹھ گئے۔ پھر ان سے ان کی طبعیت دریافت کی اور ان کے لئے دعا کی([800])۔
عیادت کرنے والے کا مریض کے سرہانے بیٹھنے کے کئی فوائد ہیں، جیسے اس سے مریض کی اداسی وگھبراہٹ کم ہوتی ہے اور عیادت کرنے والا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے لئے دعا اور دم کرسکتا ہے، وغیرہ۔
9۔ مریض کی طبعیت دریافت کرنا اور اسے موت کے متعلق تسلی دینا: مریض کا حال اور اس کی طبعیت دریافت کرنا حسن عیادت میں سے ہے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟۔۔۔الحدیث([801])۔
اور مریض کو موت کے متعلق تسلی دینا بھی حسن عیادت میں سے ہے، جیسے اس طرح کے جملے کہے جائیں : فکر نہ کرو، عنقریب تم شفایاب ہوجاؤگے، یا یہ کہا جائے کہ یہ بیماری زیادہ خطرناک نہیں ہے اور اللہ جلد تمہیں ٹھیک کردےگا ان شاء اللہ۔ لیکن ایسا تب تک کیا جاسکتا ہے جب تک اس کی موت کے آثار نمایاں نہ ہو۔ مریض کو اس کی موت کے متعلق تسلی دینے سے بیماری سے جلد شفایابی میں کافی مدد ملتی ہے اور لوگوں کے درمیان یہ مجرب اور معروف علاج ہے۔
فائدہ: مریض کا اپنی بیماری کی شکایت کرنا دو وجوہات میں سے کسی ایک وجہ سے ہوتا ہے:
پہلی وجہ: یہ شکایت کبیدہ خاطر ہوکر بے صبری کی وجہ سے کی جائے۔ لہذا یہ بلا شک وشبہ ناپسندیدہ ہے کیونکہ ایسا کرنا اللہ کی قضا وقدرت پر کمزور یقین اور اس سے ناخوش ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری وجہ: یہ شکایت ؛مخلوقات کو خاطر میں لائے بغیر یا ان سے تعلق بنائے بغیر فقط خبر دینے کے طور پر ہو۔ لہذا بلا شک وشبہ یہ جائز ومباح ہے اور دلیل بھی موجود ہے جس سے اس کے جواز کو تقویت ملتی ہے۔ چنانچہ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) عائشہ رضی اللہ نے کہا : ہائے میرا دردَ سر! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کروں گا اور دعا مانگوں گا۔‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا: ہائے افسوس! اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق اپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو اسی دن رات کسی بیوی کے ہاں بسر کریں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں۔۔۔۔الحدیث([802])۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کو تیز بخار تھا میں نے آپ کے بدن کو چھوتے ہوئے کہا: آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں جیسے تم میں سے دو آدمیوں کو بخار ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے آپ کو ثواب بھی دو گنا ہوگا؟ آپ نے فرمایا : ہاں، جب بھی کسی مسلمان کو بیماری یا اس کے علاوہ کوئی تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ گرا دیتی ہے جس طرح درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔([803])
10۔مریض کے پاس رونا: یعنی اس کا کیا حکم ہے؟ اور کیا یہ جائز ومشروع ہے یا ممنوع ہے؟ عمل نبوی ﷺ سے جو بات ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جائز ومباح ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی ﷺ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی معیت میں ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے اپنے اہل خانہ کے درمیان پایا تو آپ نے دریافت فرمایا:’’آیا انتقال ہو گیا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: نہیں ، اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! پھر نبی ﷺ روپڑے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کو روتا دیکھ کر دوسرے لوگ بھی رونے لگے۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا:’’کیا تم سنتے نہیں ہو؟اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کے غمزدہ ہونے سے عذاب نہیں دیتا بلکہ۔۔۔آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔۔اس کی وجہ سے عذاب یا رحم کرتا ہے۔ بے شک میت کو اس کے عزیزوں کے چلا کر گریہ وزاری کرنے سے عذاب دیا جا تاہے([804])۔ اس حدیث میں مریض کے پاس گریہ وزاری کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے،لہذا میت کے پاس رونا بدرجہ اولی اس میں داخل ہے۔ البتہ اس گریہ وزاری میں نوحہ نہ ہو کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے نوحہ کرنے سے منع کیا ہے۔
11۔مریض کے پاس کس طرح کی باتیں یا دعائیں کی جائیں: جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے اسے چاہئے کہ وہ اس کے پاس صرف اچھی بات کرے کیونکہ فرشتے اس کی باتوں پر آمین کہتے ہیں۔ اس بات کی صراحت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آئی ہے ، وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب تم مریض یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ جو تم کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔"کہا:جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے تو میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ !ابو سلمہ وفات پاگئے ہیں۔آپ نے فرمایا:"تم(یہ کلمات) کہو:اےاللہ! مجھے اور اس کو معاف کر اور اس کے بعد مجھے اس کا بہترین بدل عطا فرما۔"کہا:میں نے(یہ کلمات) کہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کےبعد وہ دے دیے جو میرے لئے ان سے بہتر ہیں،یعنی محمد ﷺ ([805])۔
اور عیادت کرنے والے کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ وہ مریض کے حق میں رحمت ومغفرت، گناہوں سے پاک ہونے اور سلامتی وعافیت کی دعائیں کرے۔ اور نبی اکرم ﷺ سے بھی بعض دعائیں منقول ہیں، لہذا عیادت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان دعاؤں کو بھی اختیار کرے کیونکہ یہ ایسی شخصیت سے منقول ہیں جو معصوم ہیں ،جنہیں جوامع الکلم عطا کیا گیا تھا، اور جو اپنی طرف کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ وہی کہتے تھے جو ان پر وحی کی جاتی تھی۔ چنانچہ آپﷺ کی بعض دعائیں حسب ذیل ہیں:
أ. (لا بأس طهور إن شاء الله)
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی(دیہاتی )کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: ’’لا بأس طهور إن شاء الله ‘‘ (کوئی حرج نہیں، إن شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہوگا۔) لہٰذا آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی کہا: ’’کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا۔‘‘ اس نے کہا: آپ کہتے ہیں کہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کردےگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ایک سخت بخار ہے جو ایک بوڑھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اسے قبر میں لے جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اب ایسا ہی ہوگا([806])۔
’’لا بأس‘‘: یعنی (کوئی حرج کی بات نہیں ہے)بیماری گناہوں کی بخشش کا باعث ہے۔ لہذا اگر بیماری سے عافیت بھی مل جائے تو دو گنا فائدہ ہے اور اگر عافیت نہ ملے تب بھی گناہوں کی بخشش کی شکل میں ایک فائدہ بہر حال حاصل ہوگا۔
’’طھور‘‘: یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے،اس کی تقدیر اس طرح ہوگی ’’هو طهور لك من ذنوبك ‘‘ (وہ تمہیں تمہارے گناہوں سے پاک کرنے والی ہے)، یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے([807])۔
اس حدیث میں ایک فائدہ یہ ہے کہ مریض کو چاہئے کہ وہ لوگوں کی دعاؤں کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرے اور جب وہ اس کے حق میں گناہوں سے پاکی کی دعا کریں تو مذکورہ حدیث میں اس دیہاتی کی طرح بدسلوکی اور غصے کا اظہار نہ کرے۔
ب. (اللهم اشف ..... فلانا) ایک یا تین مرتبہ۔
یہ دعا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مروی ہے جب نبی اکرم ﷺ نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی تھی۔ اس حدیث میں ہے: پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایا:اے اللہ! سعد کو شفا دے۔۔۔الحدیث۔اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: اے اللہ! سعد کو شفا دے۔ اے اللہ! سعد کو شفا دے۔" تین بار فرمایا([808])۔ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اے اللہ! سعد کو شفا دے‘‘ اس جملے میں اس امر پر دلیل موجود ہے کہ مریض کے لئے عافیت کی دعا کرنا مستحب ہے([809])۔
ت. (أسأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك) سات مرتبہ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی ابھی اجل نہ آئی ہو تو سات بار اس کے پاس یہ دعا ’’أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ”(میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت اور بڑائی والا اور عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفاء عنایت فرمائے۔) پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت دیدے گا۔([810])
ث. (اللهم اشف عبدك ينكأ لك عدوا، أو يمشي إلى جنازة[ ایک روایت میں ہے: الصلاة])
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے، تو چاہیئے کہ یوں کہے ’’اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ يَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا أَوْ يَمْشِي لَكَ إِلَى جَنَازَةٍ”(اے اللہ! اپنے بندے کو شفا عنایت فرما، یہ تیری راہ میں کسی دشمن کو زخمی کرے گا یا تیری رضا کے لیے کسی جنازہ میں شریک ہو گا۔)اور مسند احمد کے الفاظ ہیں :إلى الصلاة(یعنی کسی نماز میں شریک ہوگا)([811])۔
12۔مریض پر ہاتھ رکھنا: عیادت کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے مریض کے جسم پر ہاتھ رکھے اور اس کے لئے دعا کرے۔بسا اوقات جسم پر ہاتھ رکھنے سے درد کم یا بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے، لیکن چونکہ اس کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے یقینی طور پر ایسا نہیں کہا جاسکتا۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مریض کے جسم پر ہاتھ رکھنے سے اسے تسلی ملتی ہے اور عیادت کرنے والے کو اس کی شدت ِمرض کا علم ہو جاتا ہے تاکہ وہ اسی کے مطابق اس کے حق میں عافیت کی دعا کرے۔نیز اگر عیادت کرنے والا نیک وصالح ہو تو وہ اس کے جسم اور درد کی جگہ پر ہاتھ پھیر کر رقیہ کرتا ہے جس سے مریض کو فائدہ ہوتا ہے۔میں(ابن حجر) کہتا ہوں: بسا اوقات عیادت کرنے والا علاج جانتا ہے ،لہذا وہ بیماری کی تشخیص کرلیتا ہے اور مریض کے لئے مناسب علاج بھی بتادیتا ہے([812])۔ نبی اکرم ﷺ سے مریض کے جسم پر ہاتھ رکھنے کا ذکر کئی مقامات پر ملتا ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث میں ہے: پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایا’’اے اللہ! سعد کو شفا دے۔۔۔‘‘الحدیث۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : رسول اللہ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو اس کی اس جگہ پر ہاتھ رکھتے جہاں اسے درد یا تکلیف ہوتی اور کہتے: بسم اللہ([813])۔
13۔مریض کو رقیہ کرنا: عیادت کرنے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ مریض کو دم اور جھاڑ پھونک(رقیہ) کرے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کیا کرتے تھے، بالخصوص اگر وہ نیک صالح لوگوں میں سے ہو ، کیونکہ اس کا رقیہ کرنا اس کی پرہیزگاری اور نیک بختی کی وجہ سے دوسروں کی بنسبت زیادہ مفید ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اہل وعیال اور دوسرے مریضوں کا رقیہ کیا ہے۔نیز اپنے بعض صحابہ کے رقیہ کرنے کو آپﷺ نے درست قرار دیا ہے۔ ان میں سے بعض روایات کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:۔
أ. معوذات کے ذریعہ رقیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:جب رسول اللہ ﷺ کے گھروالوں میں سےکوئی بیمار ہوتا تو آپ پناہ دلوانے والے کلمات(معوذات)([814]) اس پرپھونکتے([815])۔۔۔الحدیث([816])۔
ب. سورہ فاتحہ کے ذریعہ رقیہ :
اس باب میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ایک قوم کے سردار کے ساتھ پیش آمدہ واقعہ ہے جس میں اس سردار کو بچھو نے ڈنگ مار دیا تھا۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اسے سورہ فاتحہ کے ذریعہ رقیہ کیا۔چنانچہ انہیں بکریوں کاا یک ریوڑ(تیس بکریاں) پیش کی گئیں ۔ انہوں نے انھیں (فوری طور پر) قبول کرنے (کا م میں لا نے) سے انکا ر کر دیا اور کہا :یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ ! کو ماجرا سنادوں ۔وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوئےاور سارا ماجرا آپ کو سنایا اور کہا : اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں نے فاتحہ الکتاب کے علاوہ اور کو ئی دم نہیں کیا ۔آپ ﷺ مسکرائے اور فر یا :’’تمھیں کیسے پتہ چلا کہ وہ دم (بھی) ہے؟‘‘ اس کے بعد فرمایا: انہیں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھو۔([817])
ت. )أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا) کے ذریعہ رقیہ کرنا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے تھے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ ﷺ اس کے لیے یوں دعا کرتے: أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا (اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی مرض باقی نہ رہے)۔ اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: جب ہم میں سے کوئی شخص بیمار ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس(کےمتاثرہ حصے) پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے،پھر فرماتے: أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ ۔۔۔۔۔۔الحدیث([818])۔
ث. (بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ) کے ذریعہ رقیہ کرنا:
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا:اے محمد!کیا آپ بیمار ہوگئے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:"ہاں۔" جبرائیل علیہ السلام ؑ نے یہ کلمات کہے: بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِاسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ (میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتاہوں،ہر چیز سے(حفاظت کے لئے) جو آپ کو تکلیف دے،ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے،اللہ آپ کو شفا دے،میں اللہ کے نام سے آ پ کو دم کر تا ہوں)([819])۔
ج. (بِسْمِ اللَّهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا) کے ذریعہ رقیہ کرنا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا پڑھا کر مریض کو دم کرتے تھے: بِسْمِ اللَّهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا (اللہ کے نام سے ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے مل کر (ہمارے رب کے حکم سے) ہمارے مریض کی شفا یابی کا ذریعہ ہوگی)۔ اور صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: جب کسی انسان کو اپنے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تی یا اسے کوئی پھوڑا نکلتا یا زخم لگتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی انگشت مبارک سے اس طرح کرتے : (یہ بیان کرتے ہو ئے ) سفیان نے اپنی شہادت کی انگلی زمین پر لگائی ،پھر (یہ کہتے ہوئے)اسے اٹھا یا : بِاسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا (اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے ہم میں سے ایک کے لعاب دہن کے ساتھ ہمارے رب کے اذن سے ہمارا بیمار شفایاب ہو)([820])۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے لعاب دہن کو اپنی انگشت شہادت پر لگائے، پھر اسے زمین کی مٹی پر رکھے تاکہ کچھ مٹی اس کی انگلی میں لگ جائے۔ اس کے بعد اس انگلی کو متاثرہ جگہ پر رکھے اور اسی دوران یہ کلمات کہے، واللہ اعلم([821])۔
تنبیہ:
بعض لوگ مریض کی عیادت کے وقت اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، اور بعض حضرات اس پر جلد شفا یابی کی تمنائیں یا اس جیسی دوسری عبارتیں بھی لکھ دیتے ہیں۔ مریض کو پیش کرنے کے لئے ان کے نزدیک یہ سب سے افضل چیز ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بات اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ تقلید نصرانی ممالک سے آئی ہے جن کی مشابہت اختیار کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے کیونکہ یہود ونصاری کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
ان لوگوں کا معاملہ کتنا عجیب وغریب ہے! ان لوگوں نے مریض کے حق میں رحمت،مغفرت ،عافیت اور اس کے گناہوں کی بخشش کی دعاؤں کو چند کھوکھلے جملوں اور ایسی تمناوں سے بدل دیا ہے جو تقدیر الٰہی کو نہ مقدم کرسکتی ہیں اور نہ موخر! اور قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے ثابت شدہ رقیہ شرعیہ کو انہوں نے پھولوں کے گلدستہ سے بدل دیا ہے جو ایک دو دنوں کے بعد کوڑے دان کی نظر کردی جاتی ہیں! اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہوگئے، آمین۔
14۔مریض کو مرگ الموت میں کلمہ شہادہ کی تلقین کرنا اور جب وہ فوت ہوجائے تو اس کی آنکھیں بند کردینا اور اس کے حق میں دعا کرنا: جب مریض کی موت کا وقت قریب ہوجائے اور اس کی علامات ظاہر ہوجائیں تو ایسے وقت میں عیادت کرنے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ مریض کو اللہ کی وسیع رحمت کی یاد دہانی کرائے اور اسے اس سے ناامیدی نہ دلائے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،انھوں نےکہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:تم میں سے ہر شخص کو اسی حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو([822])۔ علماء کہتے ہیں: اللہ کے متعلق حسن ظن رکھنے کا معنی یہ ہے کہ یہ گمان رکھا جائے کہ وہ اس پر رحم کرےگا اور اسے معاف کرےگا، یہ قول امام نووی رحمہ اللہ کا ہے([823])۔ اسی طرح اس کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ وہ مریض کو شفقت ونرمی کے ساتھ کلمہ شہادت کی تلقین کرے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اپنے مرنے والوں کو لااله الا اللہ کی تلقین کرو([824])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کلمے کی تلقین کا حکم استحباب کا ہے۔ اور علما کا اس تلقین کی مشروعیت پر اجماع ہے البتہ انہوں نے بکثرت اور لگاتار تلقین کو ناپسند کیا ہے تاکہ کہیں وہ اپنی اس سختی اورتکلیف کی شدت کی وجہ سے اپنے دل سے کلمہ شہادت کو ناپسند نہ کردے اور غیر مناسب الفاظ نہ ادا کردے۔ نیز ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ کلمہ پڑھ لے تو دوبارہ تلقین نہ کی جائے۔ ہاں اگر پہلی تلقین کے بعد وہ گفتگو کرلے تو اسے دوبارہ تلقین کی جائے تاکہ اس کے منھ سے آخری بات کلمہ شہادت ہی نکلے([825])۔ اور جب وہ فوت ہوجائے تو حاضرین کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس کی آنکھیں بند کردیں اور اس کے حق میں دعا کریں۔ اس کی دلیل ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے،اس وقت ان کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں تو آپ نے انھیں بند کردیا،پھر فرمایا:جب روح قبض کی جاتی ہے تو نظر اس کا پیچھاکرتی ہے۔اس پر انکے گھر کے کچھ لوگ چلا کر ر ونے لگے تو آ پ ﷺ نے فرمایا؛تم اپنے لئے بھلائی کے علاوہ اور کوئی دعا نہ کرو کیونکہ تم جو کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ!ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مغفرت فرما،ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجات بلند کر اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں تو اس کا جانشین بن اور اے جہانوں کے پالنے والے!ہمیں اور اس کو بخش دے،اس کے لئے اس کی قبر میں کشادگی عطا کر اور اس کے لئے اس(قبر) میں روشنی کردے([826])۔
15۔باب: لباس اور زیب وزینت کے آداب
-اللہ تعالی کا فرمان ہے: {يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُون، يَابَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُون}[الأعراف:27،26]
ترجمہ: اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے ([827])۔
-حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو، جب تک اس میں فضول خرچی یا تکبر کی آمیزش نہ ہو([828])۔
آداب کا بیان:
1۔ستر ڈھانپنا واجب ہے: حسی لباس کے ذریعہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی پردہ پوشی فرما کر ان پر احسان کیا ، پھر اس سے بھی عظیم معنوی لباس کی جانب ان کی رہنمائی کی، چنانچہ ارشاد فرمایا: {يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُون، يَابَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُون}[الأعراف:27،26]
ترجمہ: اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالی بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے انہیں لباس اور زیب وزینت کی چیزیں مہیا کیں۔ لباس تو ستر (سوآت)کو چھپانے کے کام آتا ہے ، اور ’’ریش‘‘ وہ لباس ہے جو تجمل اور زیب وزینت کے لئے پہناجاتا ہے۔اول الذکر چیز ضروریات انسانی میں داخل ہے جبکہ ریش تکمیلات وزیادات میں شامل ہے([829])۔ اور ستر چھپانا ان عظیم آداب میں سے ہے جن کے اہتمام کا اسلام میں حکم دیا گیا ہے، بلکہ مرد وزن کو ایک دوسرے کے ستر کی جانب دیکھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں۔چنانچہ شریعت اسلامیہ؛ شر کے تمام دروازوں کو بند کرنے کے لئے آئی ہے۔ ستر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے ظاہر کرنے یا جس کی جانب دیکھنے کو انسان نا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ پردہ میں رکھنے والی چیزوں میں سے ہوتی ہے، اور وہ عیب ہے۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کی جانب دیکھنے کو آپ ناپسند کرتے ہوں، ان چیزوں کی جانب دیکھنا عیب کہلائے گا۔([830])
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرد ، مردکا ستر نہ دیکھے اور عورت ، عورت کا ستر نہ دیکھے۔ مرد، مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ ہو اور عورت ، عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ ہو ([831])، ([832])۔
حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے ، کہا: میں ایک بھاری پتھر اٹھائے ہوئے آیا اور میں نے ایک ہلکا سا تہبند باندھا ہوا تھا ، کہا: تو میرا تہبند کھل گیا اور پتھر میرے پاس تھا۔ میں اس (پتھر) کو نیچے نہ رکھ سکا حتی کہ اسے اس کی جگہ پہنچا دیا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: واپس جا کر اپنا کپڑا پہنو اور ننگے نہ چلا کرو([833]) ۔
جناب بہز بن حکیم اپنے والد سے وہ دادا (معاویہ بن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ہمارے ستروں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، کیا اختیار کریں اور کیا چھوڑیں؟ (یعنی کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی شرمگاہ (اور ستر) کی حفاظت کرو، صرف بیوی یا لونڈی سے اجازت ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب لوگ آپس میں ملے جلے بیٹھے ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں تک ہو سکے کوئی تیرا ستر ہرگز نہ دیکھے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جب کوئی اکیلا ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کی نسبت اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیا کی جائے([834])۔ مردوں کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے ؛ جس کی پردہ پوشی کرنے کاحکم دیا گیا ہے (سوائے اپنی بیوی اور لونڈی کے لئے)۔ اور عورت کا مکمل جسم ہی ستر ہے سوائے اس کے شوہر کے لئے۔البتہ اس کے محارم کے لئے جسم کے ان اعضا کی جانب دیکھنا جائز ہے جو عمومی طور پر ظاہر ہوجاتے ہیں، جیسے چہرہ، دونوں ہاتھ، بال اور گردن وغیرہ۔نیز عورتوں کے درمیان اس کا ستر ناف تا گھٹنا ہے۔
مسئلہ : کیا مرد کی ران ستر ہے:
جواب: اللجنہ الدائمہ کا فتوی ہے: جمہو علما کا یہ موقف ہے کہ مرد کی ران ستر ہے۔ ان کا مستدل ایسی حدیثیں ہیں جو سند میں عدم اتصال یا بعض راویوں کے ضعف کی وجہ سے کلام سے خالی نہیں۔البتہ یہ حدیثیں آپس میں مل کر قابل حجت بن جاتی ہیں۔ ان احادیث میں وہ روایت بھی ہے جسے امام مالک نے موطا میں اور امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے جرھد الاسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور میری چادر میری ران سے کھلی ہوئی تھی۔ (یہ دیکھ کر )آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے ران کو ڈھانک لو کیونکہ ران ستر ہے۔ اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے([835])۔ علما کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مرد کی ران ستر نہیں ہے۔ ان کا مستدل انس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : نبی اکرمﷺ نے اپنی ران سے چادر ہٹا دی یہاں تک کہ مجھے آپ کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی۔ اس حدیث کو امام احمد اور امام بخاری رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے جبکہ جرہد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں زیادہ احتیاط ہے([836])۔ جمہور علما کا قول ہی احتیاط والا قول ہے کیونکہ اول الذکر احادیث اس مسئلے میں نص کی حیثیت رکھتی ہیں جبکہ حدیث انس رضی اللہ عنہ محتمل ہے([837])۔
مسئلہ۔ 2: بعض عورتیں دانستہ طور پر ایسا لباس زیب تن کرتی ہیں جس سے ان کی پُر فتن چیزیں اور باطنی زیب وزینت ظاہر ہوجاتی ہے؛ جیسے ان کی پیٹھ یا ران کا کچھ حصہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ یا وہ ایسا لباس پہنتی ہیں جس سے ان کا جسم لگ بھگ نظر آتا ہے یا ایسا تنگ لباس ہوتا ہے جس سے ان کی پُر فتن چیزیں واضح ہونے لگتی ہیں۔ اور بعض عورتیں اپنی اس کارکردگی پر یہ دلیل دیتی ہیں کہ عورتوں کے مابین عورت کا ستر ؛ناف سے گھٹنا تک ہی ہے۔لہذا ایسا لباس وہ فقط عورتوں کی مجلس میں ہی زیب تن کرتی ہیں! تواس کا کیا جواب ہوگا؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کے سامنے عورت کا ستر ناف سے گھٹنا تک ہے ، بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جبکہ موجودہ زمانے میں اکثر عورتیں ستر کے معاملے یں حد سے متجاوز ہوجاتی ہیں([838])۔ بلکہ صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض خواتین ہی آپس میں فتنے میں مبتلا ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی واقعات موجود ہیں جو انتہائی واضح ہیں۔ لہذاصرف خواتین کی مجلس کا ہونا اس بات کے لئے کافی نہیں ہے کہ عورت جو چاہے زیب تن کرلے بلکہ اگر اس سے فتنہ کا اندیشہ ہو اور جذبات بھڑک سکتے ہوں تو ایسا لباس حرام ہوگا، گرچہ خواتین کے درمیان ہی کیوں نہ ہو۔
تنگ لباس پہننے کے متعلق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی ایک گفتگو ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اسے یہاں ذکر کردیں، چنانچہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں([839]): ایسا تنگ لباس زیب تن کرنا حرام ہے جو عورت کی پُر فتن چیزوں کو نمایا ں کرتا ہو، کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی ہیں([840])۔ نبی ﷺ کے فرمان( كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ ) کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اتنا مختصر لباس زیب تن کریں گی جس سے واجب ستر کی پردہ پوشی بھی نہیں ہوسکے گی۔ اسی طرح اس کا ایک اور معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اتنا باریک لباس زیب تن کریں گی جس سے بآسانی ان کی جلد نظر آئے گی۔ نیز ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ اتنا تنگ لباس زیب تن کریں گی کہ اس سے جسم تو چھپ جائے گا لیکن اس سے جسم کی پُر فتن چیزیں ظاہر دکھائی دیں گی۔ لہذا خواتین کے لئے ان تنگ لباس کو زین تن کرنا جائز نہیں ہے، سوائے شوہر کےکہ جس کے سامنے ستر کا ظاہر کرنا جائز ہے کیونکہ میاں بیوی کے درمیان کوئی ستر نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُون، إِلاَّ عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِين}[المؤمنون:6،5]
ترجمہ: جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔
اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جس میں ہمارے ہاتھ ایک دوسرے سے آگے پیچھے پڑتے تھے([841])۔ لہذا آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان کوئی پردہ پوشی نہیں ہے جبکہ عورت کے محار م کے درمیان اس کے ستر کی پردہ پوشی واجب ہے۔ نیزایسا شدید تنگ کپڑا زیب تن کرنا نہ محارم کے سامنے جائز ہے اور نہ خواتین کی مجلس میں ؛ جو عورت کی پُر فتن چیزوں کو ظاہر کرنے والا ہو ([842])۔
فائدہ: یہ اللہ کے ساتھ حسن ادب ہے کہ انسان جب غسل کرے تو اپنے ستر کو کسی چیز سے چھپا لے، بالخصوص جو انسان ایسی کھلی جگہ میں ہو جہاں کوئی پردہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ایک کھلی جگہ ([843])میں کپڑا باندھے بغیر نہا رہا تھا تو آپ ﷺ منبر پر چڑھے اور اللہ عزوجل کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: اللہ عزوجل انتہائی حیاء والا اور پردہ پوش ہے، حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے، سو تم میں سے جب کوئی غسل کرنے لگے، تو پردہ کر لے۔ اوربہز بن حکیم کی اپنے والد اور وہ دادا سے بیان کردہ روایت میں ہے: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جب کوئی اکیلا ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کی نسبت اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے([844])۔
2۔مردوں کا عورتوں کی مشابہت اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنے کی حرمت: اس معاملے میں سخت ترین وعید اور رسول اللہ ﷺ سے بہت تاکید کے ساتھ لعنت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی چال ڈھال اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کی مشا بہت کرتی ہیں۔ ایک دوسرے الفاظ اس طرح ہیں : نبی ﷺ نے مخنث مردوں پر اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی چال ڈھال اختیار کرتی ہیں نیز آپ نے فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فلاں کو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں مخنث (ہیجڑے) کو نکالا تھا([845])۔ یہ تشبہ لباس میں بھی ہوسکتا ہے، انداز گفتگو میں بھی ہوسکتا ہے اور چال چلن میں بھی ہوسکتا ہے۔ لہذا جب مرد اپنی چال چلن، اپنی گفتگو اور اپنے لباس میں عورتوں کا انداز وطریقہ اختیار کرنے لگے تو وہ اس لعنت میں داخل ہوجائے گا۔ اور جب کوئی عورت اپنی چال چلن، گفتگو اور لباس میں مردوں کا انداز وطریقہ کرنے لگے تو وہ بھی اس لعنت میں داخل ہوجائے گی۔
مسئلہ: اگر یہ تشبہ فطری ہو تو کیا تب بھی یہ قابل لعنت ومذمت ہوگا؟
جواب: ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو شخص فطری طور پر ایسا ہو اسے اس عادت کو بتدریج ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ اگر اس سے ایسا نہیں کیا اور اپنی روش پر اڑا رہا تو وہ بھی قابل مذمت ہوگا،بالخصوص اگر ایسا معلوم ہو کہ وہ اپنے اس عمل سے راضی ہے۔ یہ باتیں لفظ’’متشبہین‘‘ سے واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں([846])۔
3۔لباس وغیرہ میں نعمت الہی کو ظاہر کرنا مستحب ہے: اللہ نے جس کو مال ودولت عطا کی ہو اسے چاہئے کہ فضول خرچی اور تکبر سے سے بچتے ہوئے خوب صورت لباس زیب تن کرے۔ نیز اپنے آپ پر بے جا سختی اور اپنے مال میں بخیلی سے کام نہ لے بلکہ نعمت الہی کا اظہار کرتے ہوئے خوب صورت، نئے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے۔چنانچہ ابولاحوص (عوف) اپنے والد رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے گھٹیا کپڑے ([847])پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس مال ہے؟میں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام ، ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کی نعمت اور احسان کا اثر تم پر نظر آنا چاہئے([848])۔
اس معاملے میں لوگ تین طرح کے ہیں ؛ایک متوسط گروہ ہے جبکہ باقی دونوں دو انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک گروہ نے بزعم خویش دین سمجھ کر یا بخیلی کرتے ہوئے اپنے نفس پر سختی اور تنگی سے کام لیا۔ اور دوسرے گروہ نے افراط سے کام لیا اور حد سے متجاوز ہوکر کپڑوں اور لباس میں خوب مال ودولت لُٹائی۔جبکہ اعتدال اختیار کرنے والے گروہ نے اسراف اور تکبر سے بچتے ہوئے اپنے اوڑہنے پہننے اور گھر ومکان میں نعمت الہی کو ظاہر کیا۔
4۔ کپڑے کو تکبر کی بنا پر لٹکانے کی حرمت: جو شخص کبر وغرور سے اپنے کپڑے کو لٹکائے پھرتا ہے اس کے حق میں اللہ تعالی نے یہ وعید سنائی ہے کہ جس دن اسے اللہ رب العالمین کی سب سے زیادہ حاجت وضرورت ہوگی اس دن وہ اس کی جانب نظر کرم نہیں کرےگا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس شخص کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جس نے تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹا([849])۔ انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ایک آدمی جوڑا پہنے ہوئے اور اپنے بالوں میں کنگھی کر کے([850]) فخر وغرور سے چل رہا تھا کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا، اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔ اور مسند احمد میں ہے : ایک آدمی جوڑا پہنے ہوئے اپنے زلف پر فخر وغرور کرتے ہوئے چل رہا تھا جبکہ اس کی ازار ٹخنے سے نیچے لٹکی ہوئی تھی کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا ،اوروہ قیامت تک زمین میں دھنستا یا گرتا ہی چلا جائے گا([851])۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے یہ احادیث لوگوں کے درمیان کپڑے کو کبر وغرور سے لٹکانے کی حرمت پر صریح دلیل ہے، کیونکہ تکبر اللہ کی صفات میں سے ہے ایک باکمال صفت ہے۔ چنانچہ مخلوق کی یہ شان نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عزت اللہ عزوجل کا تہبند ہے اور کبریائی اس (کے کندھوں) کی چادر ہے۔ جو شخص ان (صفات) کے معاملے میں میرے مدمقابل میں آئے گا، میں اسے عذاب دوں گا۔ اور ابو داود کے الفاظ ہیں : رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا: اللہ عزوجل فرماتا ہے بڑائی میری (اوپر کی) چادر ہے اور عظمت میری (نیچے کی) چادر ہے، چنانچہ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کو بھی کھینچنے کی کوشش کرے گا (میرا شریک ہونے کی کوشش کرے گا) میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا([852])۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ینازعنی‘‘ کا مطلب یہ ہےکہ کوئی اس کو اختیار کرلے، گویا وہ بھی اس صفت میں شریک ہے۔ یقینا تکبر کرنے کے متعلق یہ سخت ترین وعید ہے جو اس کی حرمت پر صریح دلیل ہے([853])۔
فائدہ: اچھا کپڑا زیب تن کرنا ، خواہ وہ عمدہ ہو یا نہ ہو ؛ کبر وغرور میں شمار نہیں کیا جائے کہ جس کو پہننے والا وعید کا مستحق ہوتا ہے۔ مذموم وہ شخص ہے جس کے دل میں کبر وغرور ہو اور وہ اترا کر اور اپنے آپ پر فخر وغرور کرے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام دلائل سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ جو اپنے عمدہ اور اچھے لباس کے ذریعہ نعمت الہی کے اظہار کا ارادہ رکھتا ہو اور اس پر اللہ کا شکر بجالاتا ہو، نیز جن کے پاس یہ نعمت نہیں ہے اسے حقیر نہ جانتا ہو؛ اس کے لئے جائز ومباح لباس زیب تن کرنا مضر نہیں ہے گرچہ وہ انتہائی عمدہ ہوں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر کہتے ہیں حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا([854])، ([855])۔
تنبیہ: ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ان احادیث کے سیاق وسباق سے([856]) یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ کپڑے کو لٹکانے کی قید غالب حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لگائی گئی ہے جبکہ تکبر وغرور اور اتراہٹ بہر حال قابل مذمت ہے، گرچہ کوئی اپنے لباس کو سمیٹ کر رکھے([857])۔
لباس ِشہرت کی حرمت: اکثر لوگ اور بالخصوص خواتین عمدہ لباس زیب تن کرنے کے معاملے میں پیش پیش رہتی ہیں تاکہ ان کے لباس کو لوگ دیکھیں اور ان کے درمیان اسے شہرت حاصل ہو۔ نیز اس بنا پر وہ لوگوں پر فخر وبرتری بھی جتاتی ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا، اللہ اسے بروز قیامت ذلت کا لباس پہنائے گا۔ اور ایک جملہ یہ بھی ہے: اسی کے مثل لباس پہنائے گا([858])۔
ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شہرت سے مراد کسی چیز کا ظاہر ہونا ہے۔ اور یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے لباس کا رنگ لوگوں کے لباس کے رنگوں سے جدا ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان مشہور ہوجائے اور لوگوں کی نظریں اس کی جانب اٹھیں۔ نیز اس بنا پر وہ لوگوں پر فخر وغروراور برتری جتلائے۔۔۔۔ نیز ابن رسلان کہتے ہیں : چونکہ اس نے دنیا میں لباس شہرت زیب تن کیا تاکہ لوگوں کے درمیان معزز بن سکے اور دوسروں پر فخر کرتا رہا اس لئے اللہ تعالی قیامت کے دن بطور سزا اسے ایسا لباس پہنائے گا جس کی ذلت وحقارت لوگوں کے درمیان مشہور ہوگی۔ کیونکہ جیسا عمل ہوگا ویسی ہی سزا ہوگی۔ نیز ’’لباس ذلت‘‘ یعنی اللہ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا۔ اس سے مراد ایسا لباس ہے جس سے بروز قیامت ذلت ورسوائی ہاتھ آئے گی جیسا کہ اس نے دنیا میں ایسا لباس پہنا تھا جس سے وہ لوگوں پر برتری حاصل کرسکے اور ان کے درمیان معزز ہوسکے۔ یہ قول عون المعبود میں ہے([859])۔
تنبیہ: لباس شہرت فقط عمدہ کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جو گرچہ معمولی ہو لیکن شہرت کا سبب ہو۔نیز انسان کا اس کو پہننے کا مقصد یہ ہو کہ اس سے لوگوں کے درمیان شہرت حاصل ہوسکے۔ ایسا کپڑا شہرت کا لباس کہلائے گا۔ مثلا وہ شخص جو معمولی ترین لباس اس مقصد سے زیب تن کرتا ہے کہ لوگ اسے زہد وورع والا تصور کریں، وغیرہ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شہرت کا لباس مکروہ ہے اور وہ ایسا لباس ہے جو حد معتاد سے زیادہ اونچا ہو اور جو حد معتاد سے زیادہ نیچے لٹکا ہوا ہو۔ کیونکہ سلف صالحین بہت اونچا اور بہت نیچا ،دونوں قسم کی لباس شہرت کو مکروہ جانتے تھے۔ اور حدیث میں ہے: جو شہرت کا لباس پہنے گا، اللہ اسے ذلت کا لباس پہنائے گا۔ اور بہترین معاملہ اعتدال والا معاملہ ہے([860])۔
6۔مردوں کے لئے سونا اور ریشم حرام ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو: مردوں پر سونا اور ریشم پہننا حرام ہے اور خواتین کے لئے جائز ومباح ، کیونکہ سونا وہ زیور ہے جس کی ضرورت عورتوں کو زیب وزینت اختیار کرنے کے لئے پڑتی ہے ۔یہی معاملہ ریشم کا بھی ہے۔ جبکہ مرد کو اس کی حاجت نہیں ہے۔ نیز سونا اور ریشم اس کے کے حق میں بے جا عیش وآرام کا سامان ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر سے سخت محنت اور جد وجہد کا جذبہ جاتا رہتا ہے۔ لہذا جب شرعا یہ ممنوع ہو تب اس کی حرمت کا کیا حال ہوگا؟ تب تو اطاعت گزاری اور اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی واجب ہوگا۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے ریشم لیا اور اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور سونا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا، پھر فرمایا: بلاشبہ یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں([861])۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں ا س کو نہیں پہنے گا([862])۔نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا تھا([863])۔
مذکورہ احادیث وآثار سے سونا اور ریشم کی حرمت قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے لیکن چند ایسے حالات ہیں جو اس حرمت سے مستثنی ہیں: چنانچہ اگر مرد کو خارش کی بیماری ہو تو اس کے لئے ریشم پہننا جائز ہے۔ حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو خارش کی وجہ سے ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دی([864])۔ اور ریشم پہننا جنگ میں بھی جائز ومباح ہے۔ اسی طرح اگر کسی بنیادی ضرورت جیسے کسی کے پاس سوائے ریشمی لباس کے اور کوئی کپڑا نہ ہو، یا اگر سردی سے بچنا مقصود ہو ؛تو ریشم پہننا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی لباس میں محض چار انگلیوں کے بقدر ریشم ہو تو وہ بھی جائز ہے کیونکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، وہ فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا،سوائے دو، تین یا چار انگلیوں(کی پٹی) کے([865])۔
نیزمردوں کے لئے علاج کے طور پر سونا کا استعمال جائز ہے، جیسا کہ عرفجہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، عبدالرحمٰن بن طرفہ نے بیان کیا کہ معرکہ کلاب میں میرے دادا عرفجہ بن اسعد کی ناک کٹ گئی تھی ۔ تو انہوں نے چاندی کی بنوائی مگر اس میں بو پڑ گئی ‘ تو نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے سونے کی ناک بنوا لی ([866])۔
مسئلہ: کیا بچوں کو ریشم پہنانا جائز ہے؟
جواب: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک بچوں کو ریشم پہنانے کا مسئلہ ہے تو جو بچے بالغ نہیں ہوئے ہوں ان کے متعلق علما کے دو مشہور اقوال ہیں۔ لیکن ان میں اقرب الی الصواب بات یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جس چیز کی انجام دہی مردوں پر حرام ہو، بچوں سے اس کی انجام دہی کروانا بھی حرام ہے۔ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دیا جاتا ہےاور دس سال کاہونے کے بعد (نماز نہ ادا کرنے پر) اسے مارا بھی جاتاہے، تو اس کے لئے حرام لباس زیب تن کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے زبیر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے کو ریشم کا لباس پہنے ہوئے دیکھا تو اسے پھاڑ دیا اور فرمایا: انہیں ریشم کے کپڑے نہ پہنایا کرو۔ اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس ریشمی لباس کو پھاڑ دیا تھا جسے وہ زیب تن کئے ہوئے تھا([867])۔
7۔سنت یہ ہے کہ مرد کا لباس لمبائی میں چھوٹا ہو جبکہ عورت کا لباس لمبا ہو: شریعت محمدیہ نے مرد وعورت کے لباس میں فرق کیا ہے، یعنی لباس کے لمبے اور چھوٹے ہونے میں۔ چنانچہ شریعت کی جانب سے مرد کے لئے یہ حد مقرر ہے کہ اس کا لباس پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان رہے جبکہ عورتوں پر قدم تک کو ڈھانکنا واجب قرار دیا ہے تاکہ کچھ بھی ظاہر نہ ہوسکے۔ ایسا اس لئے کیونکہ عورت کا جسم یا اس کا کچھ حصہ ہی مرد کے لئے فتنہ ہے۔ لہذا اسے مکمل طور پر پردہ پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور مردوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کپڑے کو اٹھا کر رکھیں تاکہ ان کے دلوں میں کبر وغرور اور خود پسندی داخل نہ ہوجائے۔ نیز اس لئے بھی کہ کپڑے کو لٹکا کر رکھنے میں بے جا عیش وآرام ہے جو مردانہ طبعیت کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔
کیسی عجیب بات ہے کہ اکثر لوگوں نے سنت کی مخالفت کرکے معاملے کو بالکل الٹ ہی ڈالا ہے۔ چنانچہ مردوں نے اپنے کپڑے لمبے لمبے کرلئے یہاں تک کہ کپڑا زمین پر گھسیٹاتا چلا جاتا ہے گویا زمین پر جھاڑو دیا جارہا ہو۔ اور عورتوں کے کپڑے اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ ان کی پنڈلیاں نمایاں ہوجاتی ہیں، بلکہ بعض عورتیں تو اس سےبھی تجاوز کرجاتی ہیں۔
اس مسئلے میں احادیث وآثار کثیر تعداد میں مروی ہیں جن کا علم ہر عوام وخواص کو ہے۔ لیکن نفسانی خواہشات اورشہوت انسانی نے حق کی اتباع اور اس کو لازم پکڑنےسے روک دیا ہے۔ مومنوں کی یاددہانی اور نافرمانوں کو تنبیہ کے غرض سے اپنے حافظے کے مطابق ہم یہاں چند احادیث وآثار بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے اپنے اور ان کے لئے ہدایت اور دین پر استقامت کا سوال کرتے ہیں:۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہو ؛جہنم میں ہوگا۔ اور مسند احمد میں ہے : مومن کا تہبند آدھی پنڈلی کے نیچے سے ٹخنوں کے اوپر تک ہے، پس جو اس کے نیچے ہو وہ جہنم میں ہوگا([868])۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ تین (قسم کے لوگ) ایسے ہیں جن سے اللہ گفتگو نہیں کرے گا، نہ قیامت کے روز ان کی طرف سے دیکھے گا اور نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اسے تین دفعہ فرمایا۔ ابو ذررضی اللہ عنہ نےکہا: نا کام ہو گئے اور نقصان سے دو چار ہوئے، اے اللہ کے رسول! یہ کون ہیں؟ فرمایا: اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) نیچے لٹکانے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا([869])۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب تہبند کا ذکر کیا تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عورت کے متعلق پوچھا کہ وہ اسے کس قدر لمبا کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ایک بالشت لٹکا لے ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اس سے تو اس کے پاؤں ننگے ہوں گے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو ایک ہاتھ لٹکا لے اور اس سے زیادہ نہ کرے ([870])۔
تنبیہ 2:بعض لوگ ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے عمل کو دلیل بناتے ہیں کہ ان کا کپڑا نیچے لٹک جاتا تھا، جبکہ اس میں کسی کے لئے دلیل نہیں ہے، بلکہ اس میں دلیل ان کے خلاف ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹ کر چلے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے تہبند کا ایک کنارہ ڈھیلا ہو کر لٹک جاتا ہے مگر یہ کہ میں اس کی نگہداشت کرتا رہتا ہوں ۔نبی ﷺ نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو تکبر وغرور سے ایسا کرتے ہیں([872])۔ کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانے پر استدلال کرنے والے کو ہم کہیں گے کہ اگر آپ کے اندر یہ تین شرطیں پائی جائیں تب ہی ہم آپ کے لئے کپڑے کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے کی اجازت دیں گے: پہلی شرط: آپ کے تہبند کا ایک کنارہ ڈھیلا ہوکر لٹک جاتا ہو، تہبند کے ہر طرف کا کنارہ نہیں۔ دوسری شرط: جب جب آپ کا کپڑا بغیر آپ کے اختیار کے نیچے لٹکے گا آپ اس کی نگہداشت کرتے رہیں گے اور اسے اوپر اٹھائیں گے، جیسا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسند احمد میں ہے[یعنی مسند احمد کی ایک روایت میں ہے]: ’’میرا کپڑا کبھی کبھی گر کر لٹک جاتا ہے‘‘ [ابن حجر کہتے ہیں] گویا جب وہ چلتے تھے یا کوئی اور حرکت کرتے تھے تو بغیر ان کے اختیار کے ان کی بندھن کھل جاتی تھی۔ چنانچہ اگر وہ لٹکنے سے اس کی حفاظت کرتے تو وہ نہیں گرتا کیونکہ جب بھی وہ گرنے لگتا وہ اسے باند لیتے([873])۔ تیسری شرط: نبی اکرم ﷺ اس بات کی گواہی دیں کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو غرور وتکبر میں ایسا کرتے ہیں! یہ آخری شرط اب تو کسی طور بھی ممکن نہیں۔
فائدہ: کپڑوں کو تین وجوہات کی بنا پر لٹکایاجاتا ہے:
پہلا : یہ کبر وغرور کی بنا پر ہو۔ ایسا کرنے والے کی جانب اللہ بروز قیامت نظر رحمت نہیں کرے گا۔
دوسرا: ایسا برابر اور قصدا کیا جائے، یعنی یہ کبر وغرور کی بنیا پر نہ ہو بلکہ لوگوں کی پیروی میں ایسا کیا جائے۔ لہذا ایسا کرنے والے پر نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم میں ہوگا([874])۔
تیسرا:ایسا کسی اچانک ضرورت کے تحت کیا جائے، جبکہ اس میں کبر وغرور مقصد نہ ہو۔ اس آخر صورت میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کا صدور خود نبی اکرم ﷺ سے سورج گرہن کے وقت ہوا ہے، حدیث میں ہے: آپ جلدی میں اٹھے اور اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے ([875])۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ اگر ایسا جلد بازی کی وجہ سے ہوجائے تو یہ ممانعت میں داخل نہیں ہے...([876])۔ کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا صدور ہو چکا ہےجیسا کہ گزر چکا([877])۔
ترجمہ: مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد۔۔۔۔الخ
پھر اللہ تعالی نے فرمایا: اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے: یعنی چلتے وقت زمین پر اپنے پیر زور زور سے نہ ماریں کہ زیورات جیسے پازیب وغیرہ سے آواز پیدا ہو جس کی وجہ سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے اور فتنہ کا سبب ووسیلہ بنے([879])۔
9۔ ایسا لباس پہننا حرام ہے جس میں صلیب یا تصاویر بنی ہوں: صلیب سے مراد اس کی تصویر ہے اور تصاویر سے مراد ذی روح کی تصویر ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذی روح کی تصویر والا ایک تکیہ نبی اکرم ﷺ کے لئے خریدا تھا جسے دیکھ کر نبی اکرم ﷺ نے انہیں ٹوکا اور اس سے منع کیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس میں تصویریں تھیں۔ نبی ﷺ (اسے دیکھ کر) دروازے ہی پر کھڑے رہے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے کہا: (اللہ کے رسول!) میں اللہ کے حضور اس غلطی سے توبہ کرتی ہوں جس کا میں نے ارتکاب کیا ہے ۔آپ نے فرمایا: یہ گدا کس لیے ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ آپ کے بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے کے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اس قسم کی تصاویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا: جو تم نے بنایا تھا اسے زندہ کر کے دکھاؤ۔ اور جس میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ ([880])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کہتے ہیں کہ جس گھر میں تصویر ہوتی ہے فرشتے اس گھر میں اس لئے داخل نہیں ہوتے کیونکہ یہ ایک کھلی نافرمانی ہے اور اس میں (یعنی تصویر بنا کر)اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوقات میں اس کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے۔ نیز بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے([881])۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو اپنے گھر میں جب بھی کوئی ایسی چیز ملتی جس میں صلیب کی تصویر ہوتی تو آپ اسے توڑ ڈالتے تھے۔ مسند احمد کے الفاظ ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں جب بھی کوئی ایسا کپڑا دیکھتے جس میں صلیب کی تصویر ہوتی تو آپ اسے پھاڑ دیتے تھے([882])۔
گزشتہ پوری بحث سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ جس لباس میں ذی روح یا صلیب کی تصویر ہو اس کو پہننا حرام ہے۔ لہذا جو اس طرح کی چیزوں میں مبتلا ہو اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے ایسی تصاویر کو مٹا دے یا ان کی ہیئت بدل دے، پھر اگر چاہے تو اس کپڑے کو استعمال کرے یا اس سے فائدہ حاصل کرے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا تھا۔ چنانچہ فرماتی ہیں : رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے تو میں نے اپنے گھر کے سائبان پر ایک پردہ لٹکا دیا جس پر تصویریں تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو اسے کھینچ کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ سنگین عذاب میں وہ لوگ گرفتار ہوں گے جو اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی چیزوں کی مشابہت کرتے ہیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے (اس پردے کو پھاڑ کر) اس کے لیے ایک یا دو تکیے بنا لیے([883])۔
مسئلہ: کیا ایسے کپڑے میں نماز درست ہوگی جس میں ذی روح یا صلیب کی تصاویر ہوں؟
جواب: اللجنہ الدائمہ کا ایک فتوی ہے: ایسے کپڑوں میں نماز ادا کرنا جائز نہیں جن میں ذی روح جیسے انسان ، پرندوں یا چوپایوں کی تصاویر ہوں، نیز نماز کے علاوہ بھی کسی مسلمان کے لئے ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہے۔ البتہ جس نے تصاویر والے کپڑوں میں نماز ادا کرلی تو اس کی نماز درست ہوگی لیکن جسے یہ حکم شرعی معلوم ہو وہ گنہگار بھی ہوگا۔۔۔۔۔[گھنٹی اور صلیب پہننے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لجنہ کا کہنا تھا:] گھنٹی اور صلیب پہننا نہ نماز کے اندر جائز ہے اور نہ اس کے علاوہ، یہاں تک کہ کھرچ کر اسے زائل کردیا جائے یا اس پر رنگ کردیا جائے جس سے یہ چھپ جائے۔ لیکن اگر کسی نے اسی حالت میں نماز ادا کرلی تو اس کی نماز درست ہوگی۔ البتہ اس پر پہلی فرصت میں اس صلیب کو زائل کرنا واجب ہوگا کیونکہ یہ نصرانیوں کےشعار میں سے ہے اور کسی مسلمان کے لئے ان کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے([884])۔
10۔ لباس وغیرہ پہنتے وقت دائیں جانب سے شروعات کرنا سنت ہے: اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بنیادی حیثیت کی حامل ہے، وہ فرماتی ہیں: نبی ﷺ طہارت کرنے ،کنگھی کرنے ، اور جوتا پہننے میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔ اور صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں، اور جوتا پہننے میں دائیں طرف سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے([885])۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شریعت میں یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے اور اس کا تعلق دائیں جانب کی منزلت ومرتبت سے ہے۔ جیسے لباس ، پائے جامہ اور موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن تراشنا، موچھیں تراشنا، بال سنوارنا یعنی کنگھی کرنا، بغل کے بال اکھیڑنا، سر مونڈنا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلا سے باہر نکلنا ، کھانا پینا، مصافحہ کرنا اور حجر اسوہ کا استلام کرنا وغیرہ۔ یہ اور اس جیسے تمام اعمال میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ جبکہ ان کے متضاد اعمال ، جیسے بیت الخلا میں داخل ہونا، مسجد سے باہر نکلنا، ناک صاف کرنا، پیشاب کے بعد استنجا کرنا(پانی لینا) اور کپڑے ، پائے جامے اور موزے اتارنا وغیرہ۔ یہ اور ان جیسے اعمال میں بائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ اور یہ سب کچھ داہنے جانب کی شرف ومنزلت کی بنا پر ہے۔، واللہ اعلم([886])۔
11۔جوتے/چپل پہننے کا مسنون طریقہ: (اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ) پہلے داہنا پیر اس میں داخل کیا جائے ،اس کے بعد بایاں پیر۔ اور ان کو اتارتے وقت پہلے بایاں پیر نکالا جائے، اس کے بعد دایاں پیر۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو دائیں جانب سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں جانب سے اتارے تاکہ دائیں طرف پہننے میں اول اور اتارنے میں آخر ہو([887])۔ نیز مسلمان کے لئے ایک جوتے میں چلنا ناپسندیدہ ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے کسی شخص کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ اس کو ٹھیک کرنے سے پہلے دوسرے (جوتے) میں نہ چلے([888])۔ اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو دائیں جانب سے شروع کرے اور جب اتارے بائیں جانب سے اتارے تاکہ دائیں طرف پہننے میں اول اور اتارنے میں آخر ہو۔ اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں : اور دونوں جوتے پہنے یا دونوں جوتے اتار دے([889])۔
یاد رہے کہ یہ تمام امور مستحب ہیں، واجب نہیں۔ لیکن جسے کوئی ضرورت پیش آجائے یا جوتا ٹوٹ جائے یا موزہ پھٹ جائے تو اس کے درست ہوجانے تک وہ رُکا رہے، یا دوسرا جوتا بھی اتار دے اور اپنا سفر جاری رکھے۔ کیونکہ کسی مومن کے لئے نبی اکر م ﷺ کے منع کردہ امور کی مخالفت جائز نہیں ہے، گرچہ معاملہ حرام کا نہیں بلکہ کراہت کا ہو۔ چنانچہ انسان کو ظاہری اور باطنی، ہر اعتبار سے نبی اکرم ﷺ کے طریقے کی جانب لوٹ آنا چاہئے تاکہ آپ ﷺ کی اتباع حقیقی کا شرف حاصل ہوسکے۔
نیز یہ بھی جان لیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جو ایک پیر کے جوتے میں چلنے سے منع کیا ہے،؛ علما نے اس کی کئی علتیں بیان کی ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علما کا کہنا ہے کہ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ یہ عزت ووقار کے خلاف ہے اور (دیکھنے سے) بہت بھونڈا ، بھدا اور بگڑی ہوئی شکل معلوم ہوتی ہے۔ نیز جس پیر میں جوتا ہوتا ہے وہ دوسرے پیر سے اونچا رہتا ہے جس کی وجہ سے چلنے میں کافی دقت ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ پاؤں پھسلنے وغیرہ کا باعث بھی بن جاتا ہے([890])۔
پھر اس کے بعد مجھے شیخ البانی حفظہ اللہ ([891]) کی کتاب سلسلہ الصحیحہ میں ان کی ذکر کردہ ایک روایت ملیجسے امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں روایت کیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک شیطان ایک جوتے میں چلتا ہے([892])۔
نبی اکرم ﷺ نے ایک پیر کے جوتے میں چلنے سے کیوں منع کیا ہے ،اس کی وجہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ یہ شیطان کی چال ہے۔ اس علت کے ثابت ہوجانے کے بعد اب ہمارے لئے مزید مشقت کرنے اور مزید علتوں کو بیان کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔
فائدہ: کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنا بھی سنت ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی ،سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے یہاں کئے جبکہ وہ مصر میں (امیر) تھے۔ وہاں پہنچے تو ان سے کہا: میں میں آپ سے بلاوجہ ملنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں نے اور آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی، مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو خوب یاد ہو گی۔ انہوں نے کہا: کون سی حدیث؟ فرمایا فلاں فلاں! پھر کہا: اور کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس علاقے کے امیر ہیں ؟ سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تحقیق کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں بہت زیادہ اسباب عیش جمع کرنے اور بہت زیادہ زیب و زینت سے منع فرمایا کرتے تھے۔ پھر پوچھا کیا وجہ ہے کہ آپ کے جوتے نہیں ہیں؟ کہا کہ نبی کریم ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی رہا کریں([893])۔
12۔ نیا لباس پہنتے وقت کیا کہا جائے: نبی اکرمﷺ سے کئی دعائیں منقول ہیں جنہیں آپ نیا لباس زیب تن کرتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ان میں سے چند یہ ہیں:
أ. (اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ، أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی نیا کپڑا حاصل کرتے تو اس کا نام لیتے، یعنی قمیص یا پگڑی وغیرہ اور یہ دعا پڑھتے :اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ، أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ۔ (اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے، تو نے مجھے یہ پہنایا ہے، میں تجھ سے اس کی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس بھلائی کا جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس شر سے جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔)([894])
ب. الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ
معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کھانا کھانے کے بعد یوں دعا کرے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ(حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر میری کسی کوشش و قوت کے مجھے یہ رزق عنایت فرمایا)، تو اس کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔مزید فرمایا: اور جو کوئی کپڑا پہنے پھر یہ دعا کرے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ (حمد اس اللہ کی جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور بغیر میری کسی کوشش اور قوت کے مجھے یہ عنایت فرمایا)، تو اس کے اگلے اور پچھلے (سب) گناہ بخش دیے جاتے ہیں([895])۔
جو نیا لباس پہنے اس کے لئے یہ دعائیں پڑھنی مستحب ہے:
أ. الْبَسْ جَدِيدًا وَعِشْ حَمِيدًا وَمُتْ شَهِيدًا
حضر ت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض پہنے دیکھا تو فرمایا: تمھارا یہ لباس دھلا ہوا ہے یا نیا ہے؟ انھوں نے کہا: بلکہ دھلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: الْبَسْ جَدِيدًا وَعِشْ حَمِيدًا وَمُتْ شَهِيدًا) تمھیں نیا لباس، قابل تعریف زندگی اور شہادت کی موت نصیب ہو)([896])۔ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمانا (الْبَسْ جَدِيدًا) : یہ صیغہ امر ہے ۔ اس سے یہ دعا مراد لی گئی ہے کہ اللہ انہیں نیا لباس عطا کرے([897])۔
ب. تُبْلَى وَيُخْلِفُ اللَّهُ تَعَالَى
سیدہ ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام خالد رضی اللہ عنہا کو میرے پاس لاؤ۔چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ ”سناہ“ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے([898])۔
ابونضرہ نے کہا: نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جائی تُبْلَى وَيُخْلِفُ اللَّهُ تَعَالَى (اللہ کرے تم اسے خوب (استعمال کر کے) پرانا کرو اور اللہ اس کے بعد اور بھی عنایت فرمائے)([899])۔
فائدہ: نبی اکرمﷺ نے ام خالد کو ان کے نام کے بجائے ان کی کنیت سے پکارا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ بچوں کا کتنا خیال کرتے تھے اور ان سے کتنا لاڈ وپیار کیا کرتے تھے۔ نیز بیٹوں اور بیٹیوں کو ان کے نام کے بجائے ان کی کنیت سے پکارناانہیں ان کی اہمیت کا احساس دلاتاہے کہ بڑوں کی طرح ان کا بھی ایک مقام مرتبہ ہے۔ جس نے ایسا کرکے دیکھا اسے یہ بات معلوم ہوگئی۔
تنبیہ: ہم پر واجب ہے کہ ہم دائیں جانب سے اعمال انجام دینے میں نبی اکرم ﷺ کی سنت کو یاد رکھیں ، چنانچہ لباس پہنتے وقت داہنے جانب کو مقدم رکھنا ہے اور اتارنے میں بائیں جانب کو۔
13۔سفید کپڑا پہننا مستحب ہے:اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: سفید کپڑے پہنا کرو، بلاشبہ یہ تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر ہیں اور انہی میں اپنی میتوں کو کفن دیا کرو۔۔۔الحدیث([900])۔ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سفید کپڑے پہنا کروکیونکہ وہ زیادہ پاکیزہ او رصاف ستھرے رہتے ہیں اور فوت شدگان کو بھی انہی میں کفناؤ([901])۔
جبکہ اس کے بالمقابل نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو زعفرانی اور سرخی مائل لباس پہننے سے منع کیا ہے([902])۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے گیروے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہو ئے دیکھا تو آپ نے فر یا :یہ کافروں کے کپڑے ہیں تم انھیں مت پہنو۔ اور ایک دوسرے الفاظ اس طرح ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے گیروے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہو ئے دیکھا تو آپ نے فر مایا :کیا تمھا ری ماں نے تمھیں یہ کپڑےپہننے کا حکم دیا ہے؟میں نے عرض کیا: میں ان کو دھو ڈالوں ؟آپ نے فر یا :بلکہ ان کو جلا دو([903])۔ نبی ﷺ کا یہ فرمانا (کیا تمھا ری ماں نے تمھیں یہ کپڑےپہننے کا حکم دیا ہے؟)؛ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ عورتوں کا لباس اور ان کا طریقہ ہے۔ اور جہاں تک اس کپڑے کو جلادینے کا حکم ہے تو اس کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ انہیں اور دوسروں کو اس جیسے عمل سے باز رکھنے کے لئے ایک طرح کی سزا اور سختی ہے۔یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([904])۔ نیز زعفرانی کپڑا پہننے کی ممانعت کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے، بلکہ یہی قول زیادہ درست ہے، کیونکہ حدیث میں یہ الفاظ وارد ہیں : یہ کافروں کے کپڑے ہیں ، لہذا تم انھیں مت پہنو۔
جواب: ممانعت خالص سرخ کپڑے کے متعلق ہے۔ البتہ اگر اس میں دوسرے رنگوں کی بھی آمیزش ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں سرخ لباس پہننے کے متعلق سات اقوال ذکر کئے ہیں۔ان میں سے ہم یہاں وہ قول ذکر کررہے ہیں جس کو ہم راجح سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں : ساتواں قول: ممانعت فقط اس لباس کے ساتھ خاص ہے جو مکمل سرخ ہو، اس لباس کے ساتھ اس ممانعت کا تعلق نہیں ہے جس میں سفید وسیاہ وغیرہ رنگ بھی شامل ہوں۔ اس لئے سرخ جوڑے والی احادیث کو اسی تفصیل پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یمنی کپڑے عام طور پر سرخ اور دیگر رنگوں سے مزین ہوتے ہیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض علما اتباع سنت سمجھ کر سرخی مائل لباس زیب تن کیا کرتے تھے، جبکہ یہ غلط بات ہے کیونکہ یمنی سرخ جوڑے دھاری دار چادر سے بنتے ہیں اور ان دھاری دار چادر وں کو فقط سرخ رنگ سے ہی نہیں رنگا جاتا ہے(یعنی ان میں سرخ کے ساتھ ساتھ دیگر رنگوں کی بھی آمیزش ہوتی ہے)([906])۔
14۔ مردوں کے لئے جائز ومباح انگوٹھی کا استعمال: مردوں کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے بخلاف سونے کی، کیونکہ سونے کی انگوٹھی ان کے لئے حرام ہے۔ نیز چھوٹی انگلی میں انگوٹھی پہننا مستحب ہے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا: ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر نقش کندہ کرایا ہے ،اس بنا پر کوئی شخص انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی چھنگلیا(چھوٹی انگلی) میں اس (انگوٹھی) کی چمک دیکھ رہا ہوں([907])۔
نیز نبی اکرم ﷺ نے درمیانی اور شہادت کی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : مجھے انہوں نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے اس انگلی یا اس کے بعد والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ کونسی دو انگلیاں تھیں یہ عاصم ([908]) کو نہیں معلوم ہوسکا([909])۔
لہذا جو انگوٹھی پہننا چاہے اس کے لئے اسے چھوٹی انگلی میں پہننا مستحب ہے، جبکہ درمیانی یا اس کے بعد والی انگلی میں پہننا مکروہ تنزیہی ہے([910])۔
اور جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ اسے کس ہاتھ میں پہنا جائے تو اس سلسلے دونوں ہاتھوں میں پہننے سے متعلق آثار واحادیث وارد ہونے کی وجہ سے علما کا اختلاف ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور جہاں تک فقہا کے نزدیک اس مسئلے کے حکم کا سوال ہے تو ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ داہنے اور بائیں ، دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہنا جائز ہے اور کسی بھی ہاتھ میں اسے پہننا مکروہ نہیں ہے۔ البتہ ان کا اختلاف اس میں ہے کہ کس ہاتھ میں اسے پہننا افضل ہے۔لیکن بہت سارے علما سلف نے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی ہے اور بہت ساروں نے بائیں ہاتھ میں بھی۔۔۔۔([911]) لہذا اس مسئلے میں وسعت ہے وللہ الحمد۔
15۔ خوشبو استعمال کرنا مستحب ہے: یہ ایسی زینت ہے جو نفس کو جِلا بخشتی ہے اور فرحت وشادمانی پیدا کرتی ہے۔ اور تمام لوگوں کے بالمقابل ،ہمارے رسول ﷺ کی ذات سے سب سے عمدہ قسم کی خوشبو آیا کرتی تھی۔انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے کسی موٹے یاباریک ریشم کونبی کریم ﷺ کی ہتھیلی سے نرم نہیں پایا اور نہ میں نے کبھی کوئی خوشبو یا عطر نبی کریم ﷺ کی خوشبو یا مہک سے اچھی سونگھی ہے۔ اور سنن دارمی کے الفاظ یہ ہیں : میں نے کبھی کوئی مہک، مسک یا کوئی دوسری خوشبو نبی کریم ﷺ کی مہک سے اچھی نہیں سونگھی ہے([912])۔
خوشبو ؛مرد وعورت دونوں کے لئے یکساں طور پر مباح ہے۔ البتہ حج وعمرہ میں بحالت احرام،دونوں کے لئے حرام ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مرفوع روایت ہے جس میں اس شخص کا واقعہ مذکور ہے جسے اس کی اونٹنی نے گرا کر اس کی گردہ توڑ دی تھی ، اس میں نبی ﷺ کا فرمان ہے: اسے خوشبو مت لگانا([913])۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بھی مرفوع روایت ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے محرم کے لباس کے متعلق سوال کیا ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اور نہ وہ کپڑے پہنو جنہیں زعفران اور ورس سے رنگا گیا ہو۔‘‘([914])
نیز عورتوں کے لئے دو حالات میں خوشبو لگانا منع ہے۔ پہلی حالت: جو عورت اپنے شوہر کی وفات کے وقت سوگ کی حالت میں ہو، تو وہ چار مہینے اور دس دنوں تک خوشبو نہیں لگا سکتی۔ کیونکہ عطیہ رضی اللہ عنہا وغیرہ کی حدیث ہے، وہ کہتی ہیں : ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے روکا جاتا تھا، سوائے شوہر کےکہ اس کے معاملے میں چار ماہ دس دن تک سوگ کا حکم تھا، نیز یہ بھی حکم تھا کہ اس دوران ہم نہ سرمہ لگائیں، نہ خوشبو استعمال کریں اور نہ کوئی رنگین کپڑا پہنیں، مگر جس کپڑے کا دھاگا بناوٹ کے وقت ہی رنگا ہوا ہو۔ البتہ حیض سے فراغت کے وقت یہ اجازت تھی کہ جب ہم میں سے کوئی غسل حیض کرے تو وہ کست أظفار (خوشبو) استعمال کرے۔ اس کے علاوہ ہمیں جنارے کے ساتھ جانے سے بھی روک دیا گیا تھا([915])۔
دوسری حالت: اگر کوئی عورت کسی ایسی جگہ جائے جہاں اجنبی مرد موجود ہوں، گرچہ وہ فقط ان کے راستے سے گزرے اور وہ لوگ اس عورت کی خوشبو پالیں ، تو یہ بھی منع ہے۔ اس معاملے میں بہت ساری عورتوں نے تفریط سے کام لیا ہے اور تساہل کی شکار ہوگئی ہیں، جبکہ اس سلسلے میں صریح احادیث آئی ہیں جن میں سخت ترین وعیدیں وارد ہیں۔ چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جو بھی عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں (اور اس کی طرف متوجہ ہوں) تو وہ بدکارہ (زانیہ) ہے([916])۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: ان کو ایک عورت ملی انہوں نے اس سے عطر کی خوشبو محسوس کی اور اس کی چادر کا پلو غبار بھی اڑاتا آ رہا تھا۔ انہوں نے اس کہا: اے جبار کی بندی! بھلا تو مسجد سے آئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: تو کیا اسی کے لیے تو نے خوشبو لگائی تھی؟ کہنے لگی، ہاں۔ انہوں نے کہا: میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے: جو عورت اس مسجد کے لیے خوشبو لگا کر آئے اس کی نماز قبول نہیں حتیٰ کہ واپس جائے اور اس اہتمام سے غسل کرے جیسے کہ وہ جنابت سے کرتی ہے([917])۔
16۔ بال سنوارنے اور منڈوانے میں سنت نبویﷺ کا بیان: مرد کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے بال کو سنوارے، اسے صاف ستھرا رکھے اور اس کا خیال رکھے۔ اس مسئلے میں بنیادی دلیل جابر بن عبداللہ کی بیان کردہ روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرے بکھرے سے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے بالوں کو سنوار لے؟ اور آپ ﷺ نے ایک دوسرے آدمی کو دیکھا جس کے کپڑے میلے ہو رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لے؟ ([918])
نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بال رکھے ہوں تو چاہئے کہ انہیں بنا سنوار کر رکھے([919])۔ لیکن اس کو بنانے سنوارنے میں اتنی مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہئے کہ عورتوں کے مشابہ ہوجائے۔کیونکہ بال کو مبالغہ کے ساتھ بنانا سنوارنا عورتوں کا شیوہ ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا، سوائے اس کے کہ ناغہ کرکے کی جائے([920])۔ اسی طرح حمید حمیری کہتے ہیں کہ میں ایک صاحب سے ملا جو رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ تھے جیسے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی صحبت میں رہے تھے، انہوں نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم میں سےکوئی شخص ہر روز کنگھی کرے([921])۔
اور جہاں تک بال منڈوانے کا مسئلہ ہے تو پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ کی بالوں کی طرح ، اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا اور کانوں کی لَو تک بڑھانا افضل ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی ﷺ میانہ قامت تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی تھی۔ آپ کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔۔۔۔الحدیث۔ اور صحیح مسلم میں ہے: بال بڑے تھے ([922])جو کانوں کی لوتک آتے تھے([923])۔
البتہ بال منڈوانا کبھی واجب ہوجاتا ہے، کبھی حرام ہوتا ہے اور کبھی مستحب یا جائز۔
بال منڈوانا واجب ہے: جب انسان حج یا عمرہ میں ہو اور بال چھوٹے (تقصیر)نہ کرائے ہوں، تو بال منڈوانا واجب ہے۔ اسی طرح جب (لمبے بالوں میں) غیر مسلموں کی مشابہت ہورہی ہو تب بھی بال منڈوانا واجب ہوجاتا ہے۔
بال منڈوانا حرام ہے: اگر حج وعمرہ کے علاوہ ،عبادت اور دین سمجھ کر بال منڈوایا جارہا ہو تو یہ حرام ہے، جیسا کہ صوفی حضرات کرتے ہیں۔
بال منڈوانا مستحب ہے: جب کوئی کافر اسلام قبول کرے اور بالخصوص تب جب وہ گھنے بالوں والا ہو۔ اسی طرح جب نومولود بچے کی پیدائش کو سات دن پور ے ہوجائیں تو اس کے ولی کے لئے اس کا بال مونڈنا اور اس کے وزن بھر صدقہ کرنا مستحب ہے۔اور جب بال بہت لمبے ہوجائیں یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کے بالوں کی مقدار سے بھی متجاوز ہوجائیں تو اس کو مونڈ دینا مستحب ہے۔نیز اگر بالوں کی وجہ سے کوئی شخص اتنا خوبصورت معلوم ہوتا ہو کہ مردوں یا عورتوں کے لئے وہ فتنہ کا مرکز بن جائے، تو ایسی صورت میں بھی سر کے بال منڈوانا مستحب ہے۔
بال منڈوانا جائز ہے: جب انسان بالوں سے زیادہ اہم ترین امور میں مشغول رہنے کی وجہ سے ان کی کی دیکھ ریکھ نہ کرسکے تو اس کے لئے بال منڈوانا جائز ہے۔ (امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: بال رکھنا سنت ہے؛ اگر ہم رکھ سکتے تو ضرور رکھتے لیکن اس کے رکھنے میں مشقت اور صرفہ اٹھانی پڑتی ہے)۔ اسی طرح دوا وعلاج کے لئے بھی اس کا منڈوانا جائز ہے([924])۔
تنبیہ: آج کل کے نوجوانوں میں بال کو ایسے طریقے پر منڈوانے کا رواج چل پڑا ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ یعنی سر کے بعض حصے کو مونڈنا اور بعض حصے کو چھوڑ دینا۔ شریعت اور لغت میں اسے القزع کہتے ہیں([925])۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے قزع سے منع کیا ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: میں نے نافع سے کہا : قزع کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : بچے کے سر کے بعض حصے کو مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے([926])۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قزع کی چار قسمیں ہیں: پہلی: سر کے کسی کسی حصے کو مونڈ دیا جائے۔ یہ تقزع السحاب سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے بادلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ دوسری: سر کے درمیانی حصے کو مونڈ دینا اور اس کے کناروں کو چھوڑ دینا ، جیسا کہ نصرانی پادری کیا کرتے ہیں۔ تیسری: سر کے کناروں کو مونڈ دیا جائے اور درمیان میں بال چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ بہت سارے اوباش اور گھٹیا لوگ کرتے ہیں۔ چوتھی: سر کے سامنے حصے کو مونڈ دیا جائے اور پیچھے کے حصے کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ سب کی سب قزع کی شکلیں ہیں،واللہ اعلم([927])۔
فائدہ: جو کوئی اپنے بال منڈوانا چاہے اسے چاہئے کہ وہ داہنے جانب سے اس کی ابتدا کرے، اس کے بعد بائیں جانب کے بال مونڈے۔ کیونکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی ،پھر بال مونڈنے والے سے فر یا :" پکڑو۔"اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک ) لوگوں کو دینے لگے ([928])۔
17۔مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا اور مونچھیں کترنا سنت ہے: مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا اور مونچھیں چھوٹی کرنا واجبی سنت ہے۔ اوراس معاملے میں ہمارے لئےکوئی چھوٹ نہیں ہے کہ ہم جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں چھوڑ دیں، بلکہ یہ ایک حتمی امر ہے جسے بجالانا اور جس کی اتباع کرنا واجب ہے۔ ارشاد باری ہے : {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِينًا}۔
ترجمہ: اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا یاد رکھو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
یعنی جو ایمان کی صفت سے متصف ہو اسے چاہئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی حاصل کرنے ، ان کے غیض وغضب سے دور بھاگنے ، ان کے فرامین کی بجاآوری کرنے اور ان کے منع کردہ امور سے اجتناب کرنے میں سرعت سے کام لے۔ لہذا جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں اور اسے واجب اور حتمی قرار دے دیں تو یہ قطعا مناسب نہیں کہ کسی مومن مرد و عورت کے لئے اس میں کوئی اختیار بھی باقی رہے ؛ کہ اگر وہ چاہیں تو اسے انجام دیں اور چاہیں تو انجام نہ دیں! بلکہ مومن مرد وعورت یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ؛ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں۔ لہذا وہ اپنی نفسانی خواہشات کو ،اپنے اور اللہ اور اس کے رسول کے درمیان آڑ نہیں بناتے ہیں۔یہ ابن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے([929])۔
داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کترنے کے متعلق نبی اکرم ﷺ کا فرمان بہت ساری احادیث میں متعدد الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں :
· ڈاڑھی اور مونچھیں کتراؤ([930])۔
· مونچھیں پست کراؤ اور ڈاڑھی خوب بڑھاؤ([931])۔
· مشرکوں کی مخالفت کرو، مونچھیں اچھی طرح تراشو اور داڑھیاں بڑھاؤ([932])۔
· مونچھیں اچھی طرح کاٹو! اور داڑھیاں بڑھاؤ، مجوس کی مخالفت کرو([933])۔
موچھیں تراشنے اور اور داڑھیاں برھانے کے حکم نبوی ﷺ میں دو چیزیں جمع ہوجاتی ہیں:
پہلی چیز: نبی اکرم ﷺ کا واجبی حکم؛ جسے وجوب سے پھیرنے والا نہ کوئی صارف یا قرینہ موجود ہے اور ایک نہ مسلمان کے لئے کسی بھی حال میں جس کی مخالفت جائز ہے۔
دوسری چیز: مشرکوں کی مخالفت کا حکم۔ شرعی نصوص سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی مشابہت جائز نہیں ہے۔ لہذا ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت گزاری کرے اور ان کے حکم کی نافرمانی نہ کرے تاکہ کسی فتنہ میں پڑنے سے بچ جائے اور اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا نہ پڑے۔
بعض اہل علم نے سلف کے بعض آثار کی بنیاد پر داڑھی کو طول وعرض سے کاٹنے چھاٹنے کے متعلق کلام کیا ہے لیکن اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے منقول الفاظ واحادیث بہت صریح ہیں جو ان آثار سے ہمیں بے نیاز کردیتی ہیں، کیونکہ دلیل وحجت تو نبی اکرم ﷺ کے فرمان میں ہی ہے، نہ کہ آپ کے صحابہ ومتبعین کے افعال واقوال میں۔
لہذا راجح موقف یہ ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور ذرا بھی تراش وخراش نہ کی جائے۔ اور مونچھوں کے متعلق راجح موقف یہ ہے کہ اسے جڑ سے نہ کاٹا جائے بلکہ جو حصہ ہونٹ سے باہر ہورہا ہو اسے تراش دیا جائے، واللہ اعلم۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([934])۔
18۔بالوں کی سفیدی کو سیاہ رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے بدل دینا سنت ہے: جس کے سر اور چہرے کے بال سفید ہوچکے ہوں اس کے لئے ان بالوں کو رنگ دینا سنت ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: یہود ونصاریٰ اپنے بالوں کو رنگ نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو([935])۔ لیکن سیاہ رنگ سے اجنتاب کیا جائے گا کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس رنگ سے بالوں کو رنگنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے سال جب حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا جن کے داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس(سفیدی)کو کسی چیز سے تبدیل کردو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو([936])۔ نبی ﷺ کا فرمان ’’ سیاہ رنگ سے اجتناب کرو‘‘ ؛ سیاہ رنگ سے رنگنے کی حرمت پر دلیل قاطع ہے۔ لہذا سفید بال کو سیاہ رنگ کے علاوہ کسی بھی رنگ سے رنگا جاسکتا ہے اور یہ ممانعت مردوعورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے کہا گیا: کیا آپ سیاہ خضاب کو ناپسند کرتے ہیں؟ فرمایا: اللہ کی قسم ہاں !کیونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد کے متعلق نبی اکرم ﷺ کا فرمان موجود ہے: سیاہ رنگ سے اجتناب کرو([937])۔
فائدہ: ؎
بوڑھوں میں شمار کئے جانے کے خوف سے سفید بالوں کو سیاہ خضاب لگانے والو ! باز آجاؤ۔ کیونکہ اگر تم سفید کبوتر کو سیاہ رنگ سے رنگ دوگےتو وہ کالا کوا نہیں بن جائےگا!([938])
19۔سرمہ لگانے کا بیان: سرمہ لگانا عورت کے لئے زینت ہے جبکہ مرد وعورت دونوں کے لئے علاج کا سامان اور بڑے فائدے کی چیز ہے۔ اہل عرب اسے آشوب چشم میں بطور علاج استعمال کرتے تھے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس میں اس عورت کا تذکرہ ہے جس کا شوہر فوت ہوگیا تھا اور اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ چنانچہ جب لوگوں نے اس کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو بطور علاج سرمہ لگانے کی بات بھی کی (لیکن آپ ﷺ نے اس سے منع کردیا)([939])۔
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کپڑے سفید پہنا کرو، یہ تمہارے لباسوں میں سب سے بہتر لباس ہے،اور اسی میں اپنی میتوں کو کفن دیا کرو۔نیز تمہارے سرموں میں سے بہترین سرمہ اثمد ([940])ہے جو بینائی کو تیز کرتا اور پلکوں کے بال اگاتا ہے([941])۔اسی طرح سنت یہ ہے کہ اسے طاق عدد میں استعمال کیا جائے، یعنی داہنی اور بائیں آنکھوں میں اسے تین تین مرتبہ ، یا داہنی آنکھ میں دو مرتبہ اور اور بائیں آنکھ میں تین مرتبہ لگایا جائے۔ یا ایسا کیا جائے کہ داہنی آنکھ میں دو مرتبہ اور بائیں آنکھ میں ایک مرتبہ لگایا جائے یا اس کا الٹا کرلیا جائے تاکہ مجموعی اعتبار سے اس کی تعداد طاق ہوجائے۔ یا تعداد مزید بڑھا لی جائے لیکن خیال رہے کہ تعداد طاق ہی رہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے پہلی صورت کو راجح قرار دیا ہے([942])۔
تنبیہ: مرد سرمہ کو بطور زینت لگائے، یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ زینت مرد کے لئے نہیں ہے اور عورتوں کی مانند مرد زینت اختیار کرے ؛یہ اس کی مردانگی کے خلاف ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اثمد سرمہ کی ترغیب اس لئے دلائی ہے کیونکہ اس میں کئی فوائد ہیں، اس لئے نہیں کہ مرد اسے اپنی آنکھوں کو سجانے سنوارنے کے لئے استعمال کرنے لگے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: تم اثمد سرمہ لازمی طور پر استعمال کیا کرو، یہ بال اگاتا ہے، آنکھ میں پڑنے والے تنکے یا ذرے کو نکال دیتا ہے اور آنکھ کی صفائی کرتا ہے([943])۔
20۔ وہ زیب وزینت جو عورتوں پر بھی حرام ہیں: اللہ تعالی نے عورتوں کو زیب وزینت اختیار کرنے کے لئے مختلف اقسام کی چیزیں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، جیسے سرمہ، عطر ، مہندی اور دیگر وہ چیزیں جس سے عورتیں زیب وزینت اختیار کرتی ہیں۔ اسی طرح ان پر زینت اختیار کرنے والی بعض ایسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے جو در حقیقت اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے، مثلا ،خوبصورتی کے لئے گودنا(وشم) ([944])، چہرے کے بال اکھاڑنا(نمص) ([945])، دانتوں میں کشادگی کروانا(تفلج) ([946]) اور مصنوعی بال لگانا (وصل) ([947]) وغیرہ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے گودنے والی، گدوانے والی، خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں میں کشادگی کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔ یہ بات بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کی کنیت ام یعقوب تھی، وہ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آ کر کہنے لگی: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں ایسی عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب کے حکم کے مطابق بھی ملعون ہے؟ اس عورت نے کہا: میں نے تو سارا قرآن جو دو تختیوں کے درمیان ہے پڑھ ڈالا ہے، اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی۔ انہوں نے فرمایا: اگر تم نے قرآن کو (بغور) پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ مسئلہ ضرور مل جاتا۔ کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: ’’رسول، تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘ اس عورت نے کہا: میں نے یہ آیت تو پڑھی ہے۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: آپ ﷺ نے ان تمام کاموں سے منع فرمایا ہے۔ اس عورت نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپ کی بیوی بھی یہ کام کرتی ہو گی۔ انہوں نے فرمایا: جاؤ میرے گھر جا کر دیکھ لو، چنانچہ وہ عورت گئی اور گھر میں دیکھا لیکن اس طرح کی (معیوب) چیز نہ مل سکی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا میرے ساتھ کیسے رہ سکتی تھی([948])۔ نیز مسلم کے الفاظ ہیں : اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشادہ کرنے والیوں پر (تاکہ خوبصورت و کمسن معلوم ہوں) اور اللہ تعالیٰ کی خلقت (پیدائش) بدلنے والیوں پر۔ اور بخاری وغیرہ میں حضرت عبد اللہ سے مروی ہے: اللہ نے مصنوعی بال لگوانے والی پر لعنت کی ہے۔
احادیث میں اس قدر صراحت اور سخت ترین وعید کے باوجود بہت ساری عورتیں ان چیزوں کا یا ان میں سے بعض کا ارتکاب کرتی ہیں۔ اگر یہ ایمان کی کمزوری نہیں تو اور کیا ہے ۔ورنہ (کمزوری ایمان کے علاوہ)ان چیزوں کو ہلکا تصور کرنے اور جبار وقہار رب العالمین کے غیض وغضب اور اس کے غصے کے شکار ہونے پر آخر انہیں کونسی چیز ابھار سکتی ہے۔ اے اللہ ہم تجھ سے اپنے دین ودنیا میں سلامتی وعافیت کا سوال کرتے ہیں۔
تنبیہ: یہ لعنت فقط عورتوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اگر مرد حضرات بھی چہرے کے بال اکھیڑنے لگے، یا گدوانے لگے، یا مصنوعی بال لگوانے لگے یا خوبصورت دکھائی دینے کے لئے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے لگے، یا ان اعمال کو دوسرےلوگوں سے کروانے لگے، تو وہ بھی اس لعنت میں داخل ہوں گے۔ لہذا حدیث میں عورتوں کے متعلق بطور خاص لعنت کا ذکر ان کی اغلبیت کی وجہ سے ہے کیونکہ ان اعمال کو زیادہ تر عورتیں ہی انجام دیتی ہیں، جیسے نوحہ کرنا۔ واللہ اعلم۔
16۔سوار ہونے اور چلنے کے آداب کا بیان
-اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَالَّذِي خَلَقَ الأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُون، لِتَسْتَوُوا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِين}([949])
ترجمہ: جس نے تمام چیزوں کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے کشتیاں بنائیں اور چوپائے جانور (پیدا کیے) جن پر تم سوار ہوتے ہو۔تاکہ تم ان کی پیٹھ پر جم کر سوار ہوا کرو پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے اس کی جس نے ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہمیں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔
آداب کا بیان:
1۔تکبر کی چال چلنے کی ممانعت: تکبر کی چال چلنا ان مذموم صفات میں سے ہے جو کبر وغرور، خودپسندی اور فخر سے پیدا ہوتی ہے۔، جبکہ مومن تواضع اور عاجزی جیسی صفات سے متصف ہوتا ہے نہ کہ کبر وغرور اور اکڑ سے۔ کیونکہ تکبر تو اللہ رب العالمین کی چادر ہے، جو اسے اللہ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا؛اللہ اسے عذاب میں مبتلا کرےگا۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عزت اللہ عزوجل کا تہبند ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ جو شخص انہیں مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرےگا ، میں اسے عذاب دوں گا([950])۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کے نبی ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی جوڑا پہنے ہوئے اور اپنے بالوں میں کنگھی کر کے فخر وغرور سے چل رہا تھا کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا ،اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی چلا جائے گا([951])۔
تکبر کی چال فقط جنگ کے وقت دشمنوں کو غصہ دلانے کے لئے جائز ہے، جیسا کہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ۔ انہوں نے اپنا سرخ عمامہ باندھا اور (ایڑیوں کے بل) کبر وغرور والی چال چلتے ہوئے دونوں صف کے درمیان داخل ہوگئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: یہ ایسی چال ہے جسے سوائے ایسے مواقع کے ، اللہ ہمیشہ ناپسند کرتا ہے۔
2۔ بہترین اور معتدل چال: ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب چلتے تو خم کھاکر چلتے ([952])،([953]) ، اور آپ لوگوں میں سب سے زیادہ تیز، اچھے انداز میں اور انتہائی پرسکون چال چلتے تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا،گویا آپ کے چہرہ مبارک پر سورج چمک رہا ہو۔اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا، گویا زمین آپ کی خاطر لپیٹی جارہی ہو۔ نیز ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں زحمت اٹھانی پڑتی تھی اور آپ کو ئی دقت محسوس کئے بغیر، چلتے چلے جاتے تھے([954])۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب چلتے تو خم کھاکر چلتے ، گویا بلندی سے اتر رہے ہوں([955])، ([956])۔ نیز کہتے ہیں کہ جب آپ ﷺ چلتے تو تقلع ([957])سے چلتے([958])۔ میں کہتا ہوں : تقلع بلند زمین کو کہتے ہیں، جیسے اونچی جگہ سے اترنے والا چلتا ہے۔ یہ رفتار وقار اور ہمت وشجاعت کی علامت ہوتی ہے۔ نیز یہ رفتار تمام رفتاروں سے زیادہ مناسب اور جسم کے لئے زیادہ آرام دہ ہے۔ اور یہ احمقانہ،ذلت ورسوائی اور لڑکھڑاہٹ والی چال سے بعید ہوتی ہے([959])۔
فائدہ: ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں دس اقسام کی چالوں کا تذکرہ کیا ہے:۔
پہلی قسم: سب سے بہترین اور معتدل چال خم کھاکر تقلع کے ساتھ چلنا ہے جیسے کوئی اونچائی سے اترتا ہے۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی چال ہے۔
دوسری قسم: احمق اونٹ کی مانند مضطرب چال چلنا۔ یہ مذموم چال ہے اور یہ چلنے والے کی کم عقلی پر دلالت کرتا ہے، بالخصوص اگر وہ چلتے وقت بکثرت دائیں اور بائیں التفات بھی کرتا چلے۔
تیسری قسم: لڑکھڑا کر اور ڈگ بھر بھر کر چلنا، گویا وہ کوئی لادی لکڑی ہو۔ یہ چال بھی مذموم اور قبیح ہے۔
چوتھی قسم: دوڑنا
پانچویں قسم: رمل یعنی جو دوڑنے سے قدرے تیز اور چھوٹےچھوٹے قدوں سے ہوتی ہے، اسے خبب بھی کہتے ہیں۔
چھٹی قسم: نسلان: یہ ایسی ہلکی چال ہوتی ہے جس سے چلنے والا تھکتا نہیں ہے۔
ساتویں قسم: خوزلی: ہچکولے کھاکر چلنا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی چال ہے جس میں لچک اور ہیجڑوں کا انداز ہوتا ہے۔
آٹھویں قسم: قہقری : یہ پیچھے کی جانب چلنے کو کہتے ہیں۔
نویں قسم: جمزی: اس میں چلنے والا کود کود کر چلتا ہے۔
دسویں قسم: متکبرانہ چال، یہ متکبرین اور فخروغرور کرنے والوں کی چال ہوتی ہے([960])۔
3۔ایک جوتے میں چلنا مکروہ ہے([961])۔
4۔ کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنا سنت ہے: فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی ہمیں ننگے پاؤں چلنے کا حکم دیا کرتے تھے([962])۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث جس میں نبی ﷺ کا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کا قصہ مذکور ہے، اس میں ابن عمر فرماتے ہیں: پھر آپ اٹھے اور آپ کےساتھ ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے،ہم دس سے زائد لوگ تھے،ہمارے پاس نہ جوتے تھے نہ موزے،نہ ٹوپیاں اور نہ ہی قمیص۔ہم اس شوریلی زمین پر چل رہے تھے۔۔۔الحدیث([963])۔ جوتے اور چپل میں چلتے چلتے آدمی جس نزاکت کا عادی ہوجاتا ہے، ننگے پاؤں چلنا اس نزاکت کو ختم کردیتا ہے([964])۔
5۔سواری کا مالک سواری میں سب سے آگے بیٹھنے کا مستحق ہے: جو کسی چیز کا مالک ہوتا ہے ، دوسروں کی بنسبت وہی اس کا سب سے زیادہ مستحق بھی ہوتا ہے۔ کسی زندہ جانور پر سواری کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور جمادات سے بنی سواری کا بھی یہی حکم ہے۔ لہذا اونٹ، گھوڑا یا گاڑی کا مالک دوسروں کی بنسبت سواری میں آگے بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔لہذا اس کی اجازت کے بغیر سواری میں آگے کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ اس بات کو بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرتی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺ چلے جا رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص جس کے ساتھ گدھا تھا آپﷺ کے پاس آیا۔ اور آپﷺ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ سوار ہو جائیے، اور خود پیچھے ہٹ گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی سواری کے سینے پر یعنی آگے بیٹھنے کے زیادہ حق دار ہو الاّ یہ کہ تم مجھے اس کا حق دے دو۔ یہ سن کر فوراً اس نے کہا: میں نے اس کا حق آپ کو دیدیا۔ پھر آپﷺ اس پر سوار ہو گئے([965])۔
6۔ اگر سواری کے جانور کو تکلیف نہ پہنچے تو اس پر کسی کا ردیف بننا جائز ہے : سواری پر سوار ہونے کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ جب تک سواری کا جانور برداشت کرسکے، اس پر دو سے تین لوگ سوار ہوسکتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو اپنا ردیف بنایا ہے جیسے حضرت معاذ ([966])، حضرت اسامہ ([967]) اور حضرت فضل ([968]) رضی اللہ عنہم کو۔ اسی طرح آپﷺ نے عبد اللہ بن جعفر اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہم ([969])وغیرہ کو بھی ایک ساتھ اپنا ردیف بنایا تھا([970])۔
7۔سواری کے جانور کو منبر(بیٹھنے کی جگہ) بنانا مکروہ ہے: اس سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اپنے جانوروں کی پیٹھوں کو منبر بنانے سے بچو، بلاشبہ اللہ عزوجل نے ان کو تمہارے تابع کیا ہے تاکہ یہ تمہیں ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچا دیں جہاں تم مشقت کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتے تھے اور اس نے تمہارے لیے زمین بنائی ہے تو اپنی ضرورتیں اس پر پوری کیا کرو ([971])۔ یعنی ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر اسے روک کر خرید وفروخت وغیرہ کی باتیں نہ کیا کرو بلکہ اس سے اتر کر اپنی حاجت پوری کرلو، اس کے بعد اس پر سوار ہوجاو۔یہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے([972])۔ یاد رہے کہ اس میں نبی اکرم ﷺ کا اپنی سواری کو حجۃ الوداع میں روک کر (اس پر بیٹھے بیٹھے گفتگو کرنے کو) دلیل نہ بنایا جائے کیونکہ ایسا ایک اعلی مصلحت کے حصول کی خاطر کیا گیا تھا جسے بار بار دہرایا نہیں جاسکتا۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک نبی اکرمﷺ کا حجۃ الوداع میں اپنی سواری کو روک کر اس پر ٹہرے رہنے کا مسئلہ ہے تو یہ ممانعت میں داخل نہیں ہے کیونکہ ایسا ایک ہی مرتبہ اور مصلحت عامہ کی خاطر کیا گیا تھا، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے جانور کو وہ تھکاوٹ وکمزوری لاحق نہیں ہوتی ہے جو بغیر کسی مصلحت کے ،بطور عادت ایسا کرنے سے اسے پہنچتی ہے۔ جیسے اسے بیٹھنے کی جگہ بنا لی جائے ، اس پر بیٹھے بیٹھے لوگوں سے گفت وشنید کی جائے اور اس سے اترنے کا نام ہی نہ لیا جائے۔ اس طرح تو یہ معاملہ برابر اور لمبے لمبے وقفے کے لئے ہوتا رہےگا۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ کا اپنی سواری پر خطبہ دینے کا معاملہ بالکل اس کے برخلاف تھا۔ چنانچہ آپ ﷺنے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ لوگوں کو خطبہ سناسکیں اور انہیں اسلام کے امور اور حج کے احکامات سے آگاہ کرسکیں۔ ایسا تو نہ بار بار کیا جاتا ہے اور نہ اس میں لمبا وقت ہی لگتا ہے۔ نیز یہاں مصلحت عامہ بھی موجود ہے([973])۔
-اللہ تعالی کا فرمان ہے: {قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُون، وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ }
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے۔مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں([974])۔
- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ راستوں پر بیٹھنے سے اجتناب کرو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس معاملے میں تو ہم مجبورہیں کیونکہ وہی تو ہماری بیٹھنے اور گفتگو کرنے کی جگہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا اگر ایسی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق اداکرو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا سلام کا جواب دینا اچھی بات بتانا اور بری بات سے منع کرنا([975])۔
آداب کا بیان:
1۔راستے کا حق ادا کرنا واجب ہے: نبی اکرم ﷺ نے راستے کا حق بیان کردیا ہےاور وہ یہ ہیں: نظریں نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ یہاں تمام حقوق کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ تو بعض ہی حقوق ہیں۔ کئی دوسری احادیث میں ان کے علاوہ مزید حقوق کا تذکرہ موجود ہے، لہذا مذکورہ حدیث میں جو حقوق بیان کئے گئے ہیں وہی کُل کے کُل نہیں ہیں۔
أ. نظریں نیچی رکھنا: نظریں نیچی رکھنے کے حکم میں مرد وعورت یکساں طور پر داخل
ہیں کیونکہ حرام کردہ چیزوں کی جانب دیکھنا انسان کو دل کے عذاب وتکلیف میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ حرام نظر اسے سکون پہنچاتی ہے اور اس کے دل کو سرور بخشتی ہے۔لیکن ہائے افسوس! نیز سب سے زیادہ عذاب وتکلیف تو اسے ہوتی ہے جو اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مطابق: دانستگی کے ساتھ حرام نظر ڈالنا انسان کے دل کو ایک ایسے رشتے سے جوڑ دیتا ہے جس سے وہ ایک طرح کے عذاب وتکلیف میں مبتلا رہتا ہے۔ نیز جیسے جیسے یہ رشتہ مضبوط ہوتا جاتا ہے اور انسان کے لئے یہ بوجھ بنتاجاتا ہے یا وہ عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے، ویسے ویسے اس تکلیف دہ عذاب میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، خواہ وہ اپنے محبوب کو حاصل کرلے یا حاصل کرنے سے عاجز رہے۔ چنانچہ اگر وہ اسے حاصل کرنے سے عاجز رہا تو فکر وغم اور حزن وملال کے عذاب سے دوچار رہتا ہے، اور اگر اس نے اسے حاصل بھی کرلیا تو خوف ِہجر اور اس کو منانے اور راضی کرنے کی فکر وجستجو کے عذاب میں گرفتار رہتا ہے ([976])۔ اور ان تمام کی بنیاد اور ابتدا یہی حرام نظر ہوتی ہے۔ لہذا اگر اس شخص نے اپنی نظر نیچی کرلی ہوتی تو اسے اور اس کے دل کو سکون واطمینان حاصل ہوجاتا ۔
نیز نادانستہ طور پر انسان جن چیزوں میں مبتلا ہوسکتا ہے ،شریعت مطہرہ نے اس سے بھی لاپرواہی نہیں برتی ہے ۔چنانچہ نادانستہ طور پر جس شخص کی نظر کسی اجنبی عورت پر پڑجائے تو شریعت نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ فی الفور اس سے اپنی نظرکو پھیر لے۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑجا نے کے بارے میں پو چھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نظر ہٹا لوں([977])۔ اچانک نظر: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان کی نظر نادانستہ طور پر کسی اجنبی عورت پر پڑ جائے تو پہلی مرتبہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ نیز اس پر واجب ہے کہ وہ فورا اپنی نظر کو اس سے پھیر لے۔ لہذا اگر اس نے اسی وقت اپنی نظر پھیر لی تب تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے لیکن اگر اس نے برابر نظر گڑائے رکھی تو گنہگار ہوگا، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ یہ امام نووی رحمہ اللہ کا قول ہے([978])۔
ب. تکلیف نہ دینا: تکلیف نہ دینا اور لوگوں کو جسمانی اعتبار سے یا ان کی عزت وآبرو کے
تعلق سے کسی تکلیف دہ امر کا ارتکاب نہ کرنا بھی راستوں کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔۔۔الحدیث([979])۔ یہ حدیث نبی اکرم ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے۔ لہذا اس میں وہ انسان بھی داخل ہے جو لوگوں کو ان کی عزت وآبرو کے متعلق زبان طعن دراز کرکے یا انہیں برا بھلا کہہ کر تکلیف دیتا ہے۔ اسی طرح اس میں وہ انسان بھی داخل ہے جو لوگوں کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہی معاملہ ہاتھ کا بھی ہے ، کہ اس سے پہنچے والا ضرر صرف مارنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کئی طریقوں سے اس کے ذریعہ تکلیف دی جاسکتی ہے ،مثلا لکھ کر لوگوں کی چغل خوری کرنا اور انہیں نقصان پہنچانا یا قتل کرنا وغیرہ۔ بلکہ اس دین کی من جملہ خوبیوں میں سے ایک عظیم خوبی یہ ہے کہ اگر انسان اپنی ذات کے شر ونقصان سے دوسرے لوگوں کو بچاتا رہے تو یہ خود اس کی ذات کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے۔جیسا کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ مذکور ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل افضل ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ پرایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کی قیمت زیادہ ہو اور وہ اپنے مالک کی نظر میں نہایت پسندیدہ ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اگر یہ نہ کرسکوں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر کسی فاقہ زدہ کی مدد کردو یا کسی بے ہنر اناڑی کو کوئی کام سکھا دو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کرسکوں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’تم لوگوں کو نقصان نہ پہنچاؤ کیونکہ یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے جسے تم اپنے اوپر کرتے ہو۔ اور مسلم کے الفاظ اس طرح ہیں : لوگوں سے اپنا شر روک لو (انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ) یہ تمہاری طرف سے خود تمہارے لیے صدقہ ہے([980])۔
ت. سلام کا جواب دینا: راستوں کے حقوق میں سے ایک حق؛ سلام کا جواب دینا ہے۔ اور
یہ واجب ہے کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی اکرم ﷺکا فرمان موجود ہے : ایک مسلمان کے لیے اس کے بھا ئی پر پانچ چیزیں واجب ہیں :سلام کا جواب دینا ،چھینک مارنے والے کے لیے رحمت کی دعا کرنا ،دعوت قبول کرنا ،مریض کی عیادت کرنا اور جنازوں کے ساتھ جا نا ([981])۔
جبکہ اس باب میں بہت سے لوگ لاپرواہی کے شکار ہیں اور ان کا سلام صرف پہچان والوں کے ساتھ خاص ہوکر رہ گیا ہے۔ لہذا جسے وہ جانتے ہیں فقط اسی کو سلام کرتے ہیں یا فقط اسی کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اور جنہیں وہ نہیں جانتے ان کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے۔جبکہ یہ بڑی غلطی اور سنت کی صریح مخالفت ہے([982])۔
ث. بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا واجب ہے: یہ معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے
کیونکہ اسی بنیاد پر یہ امت سب سے بہترین امت قرار پائی ہے۔فرمان باری ہے : {كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ}
ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو([983])۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جو اس امت کا فرد بننا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ شرط کو پورا کرے۔اسے ابن جریر نے روایت کیا ہے۔ لہذا جو ان صفات (یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) سے متصف نہیں وہ ان اہل کتاب کی طرح ہے جن کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں نے مذمت بیان فرمائی ہے : {كَانُواْ لاَ يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَفْعَلُون}
ترجمہ: آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً بہت برا تھا([984])۔
اور اس امر کو ترک کرنے کی وجہ سے عذاب الہی نازل ہوتی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے کہ: سیدنا ابوبکر صدیق کھڑے ہوئے اور اللہ عزوجل کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” اے لوگو ! تم یہ آیت کریمہ پڑھتے تو ہو : عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم (اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ۔ ) مگر اس کے معنی و مفہوم کو غلط سمجھتے ہو ۔میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : بلاشبہ لوگ جب کسی برائی کو ہوتا دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہوتا ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے ([985])۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں امت کے لئے بہت سے فوائد مضمر ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: سماج کی کشتی کا ہلاک یا غرق ہونے سے بچے رہنا،باطل اور اہل باطل کا قلع قمع کرنا، بیش بہا بھلائی کی آمد اور شر وبرائی سے حفاظت، امن وامان قائم ہونا اور فضل وشرف کا عام ہونا اور رذالت وکمینگی جیسی صفات کا قلع قمع ہونا وغیرہ۔
نیکی کا حکم دینا اور غلط کاموں سے منع کرنا کسی مخصوص جماعت (مثلاً کوئی تنظیم وغیرہ) یا چند خاص لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک پر ،اس کی استطاعت بھر واجب ہے۔ نیز اس سلسلے میں وارد حدیث بھی عام ہے اور اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام ) دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے، اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے([986])۔ لیکن یہاں چند امور کی جانب اشارہ ضروری ہے:
پہلی بات: برائی سے منع کرنے کا کام (حدیث میں بیان کردہ) ترتیب کے مطابق ہونا چاہئے۔ یعنی جب تک انسان پہلے مرحلے کو اختیار کرنے سے قاصر نہ ہوجائے تب تک اس کے بعد والے مرحلے میں منتقل نہ ہو۔ مثلا جو اپنی زبان سے برائی کو روکنے پر قادر ہو وہ فقط دل میں برا جاننے پر اکتفا نہ کرے۔، وغیرہ وغیرہ۔
دوسری بات: جو صاحب اقتدار ہو وہ برائی کو سب سے اعلی طریقے سے روکےگا۔ مثلا جو گھر کا سرپرست ہوتا ہے ،گھر میں اسی کی بات مانی جاتی ہے اور گھر کے قوانین میں رد وبدل بھی وہی کرسکتا ہے۔ چنانچہ ایسا شخص برائی کو اپنے ہاتھ سے روکنے پر قادر ہے، لہذا اس کےلئے اس سےکم درجے والے طریقے کو اختیار کرنے کی قطعا گنجائش نہیں ہے۔
تیسری بات: برائی کو روکنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ کہ واقعی وہ برائی ہے بھی یا نہیں؟، اور کیا وہ ان امور میں سے ہے جن میں اختلاف جائز ہے؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں لوگوں کی ایک بڑی جماعت غلطی کی شکار ہے، لہذا متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔
چوتھی بات: برائی کو روکنے اور اس سے منع کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ مصالح اور مفاسد کے اصول وقواعد کا خاص خیال رکھے اور برائی کو روکنے کے لئے تب ہی آگے بڑھے جب اسے یہ معلوم ہو کہ یہاں روکنے اور منع کرنے میں مصلحت کا پہلو مفسدت کے پہلو پر غالب ہے۔ البتہ اگر اسے ایسا محسوس ہو کہ برائی سے منع کرنے اور اس سے روکنے کے نتیجے میں مفسدت کا پہلو غالب رہےگا تو اسے اس جانب پیش قدمی سے رُک جانا چاہئے تاکہ شر وفساد کا دروازہ نہ کھل جائے۔
پانچویں بات: برائی کو روکنے والا اگر پہلے اور دوسرے طریقے کو اختیار کرنے سے قاصر رہے تو ایسا نہ ہو کہ اس کا دل بھی غافل رہ جائے اور جب برائی کو ہوتا دیکھے تو بغیر دل میں برا جانے گزر جائے اور اس کے چہرے پر بھی ناچاقی کے اثرات مرتب نہ ہوں۔
ج. راستہ پوچھنے والوں کو راستہ بتانا: راسے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ
راستہ پوچھنے والے کو راستہ بتایا جائے اور اس کی جانب اس کی رہنمائی کی جائے، خواہ وہ گم ہوگیا ہو یا نابینا شخص ہو۔ اس حق کا ذکر صراحت کے ساتھ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اُس حدیث میں آیا ہے جس میں ہے کہ چند لوگوں نے نبی ﷺ سے راستہ کے حقوق پوچھے تو آپﷺ نے (اس حق کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہوئے)ارشاد فرمایا: اور راہ گیر کی رہنمائی کرنا ( بھی راستہ کے حقوق میں شامل ہے)([987])۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ راہ گیر کو راستہ بتانا صدقات میں سے ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی کو راستہ بتادینا بھی صدقہ ہے([988])۔
2۔راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا: راستے کے مستحب آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادیا جائے۔ بلکہ یہ تو ایمان کا ایک شعبہ ہے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کے ستر سے اوپر یا ساٹھ سے اوپرشعبے (اجزا) ہیں۔ سب سے افضل لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے([989])۔
نیز یہ بھی صدقات میں سے ہے اور اس کی بدولت ایک آدمی جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: لوگوں کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے۔۔۔۔۔اس کے بعد کہا: تم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو(یہ بھی)صدقہ ہے([990])۔ انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک بار ایک شخص کسی راستے پر جا رہا تھا، اس نے راستے میں ایک خاردار شاخ دیکھی تو اس کو (راستے سے) پیچھے کر دیا، اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے عمل کی جزا دی اور اس کو بخش دیا۔۔۔۔الحدیث۔ اور ابوداود کے الفاظ اس طرح ہیں: ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام نہیں کیا تھا ، اس نے راستے سے کانٹوں کی ایک ٹہنی دور کر دی ۔ یہ ( ٹہنی ) یا تو درخت پر تھی کہ اس نے کاٹ پھینکی یا راستے میں پڑی تھی اور اس نے ایک طرف ہٹا دی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کر لیا اور اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فر دیا ([991])۔
3۔لوگوں کے گزرنے والے راستے اور ان کی سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرنے کی حرمت: نبی اکرم ﷺ نے ہمیں لوگوں کے گزرنے والے راستے اور ان کی سایہ حاصل کرنے والی جگہ میں قضائے حاجت کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق حقوق عامہ سے ہے۔ لہذا کسی کے لئے یہ قطعا جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے آنے جانے والےراستے کو یا اس سائے کی جگہ کو خراب کرے جہاں لوگ بیٹھنے ہیں اور سورج کی گرمی سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو!‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!سخت لعنت والے وہ دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو انسان لوگوں کی گزرگاہ میں یا ان کی سایہ دار جگہ میں (جہاں وہ آرام کرتے ہیں) قضائے حاجت کرتا ہے (لوگ ان دونوں کاموں پر اس کو سخت برا بھلا کہتے ہیں)([992])۔ نبی ﷺکا یہ فرمانا کہ’’تم دو سخت لعنت والے کاموں سے بچو‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ان دو کاموں سے اجتناب کرو جس کی وجہ سے لوگ لعنت کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں، کیونکہ جو کوئی، لوگوں کے گزرگاہ یا ان کی سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرے وہ ان کے سب وشتم سے نہیں بچ سکتا([993])۔
4۔ مرد، عوررت کی بنسبت راستے کے درمیان میں چلنے کا زیادہ حق رکھتا ہے: صاحب شریعت جناب محمد رسول اللہ ﷺ عورتوں کو مردوں سے جُدا رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور اس پر بڑے حریص تھے۔ آپ ﷺ نے عورتوں سے پیدا ہونے والے فتنوں کے تمام راستوں پر قدغن لگائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے عورتوں کے چلنے کے لئے راستے کا کنارا اور مردوں کے لئے راستے کا درمیانی حصہ مقرر کردیا ہے تاکہ مرد وزن کا اختلاط نہ ہونے پائے اور فتنہ نہ بڑھے، جیسا کہ آج لوگوں کا حال ہوچکا ہے، الا من رحم اللہ۔ چنانچہ سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ ﷺ مسجد سے نکل رہے تھے اور مرد عورتوں کے ساتھ درمیان راستے میں گھس کر چل رہے تھے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا : پیچھے پیچھے رہو ۔ تمہیں مناسب نہیں کہ راستے کے عین درمیان میں چلو([994])۔ بلکہ راستے ( اور گلی ) کے اطراف میں چلا کرو ۔ چنانچہ عورت دیوار کے ساتھ لگ کر چلا کرتی تھی ۔ حتیٰ کہ دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے کی وجہ سے اس کا کپڑا دیوار کے ساتھ اٹک اٹک جاتا تھا ۔ ([995])۔
عورتوں کا راستے کے کنارے چلنے میں ان کے لئے زیادہ پردہ پوشی ہے اور یہی ان کے حق میں زیادہ شرم وحیا والا عمل ہے ، نہ کہ راستے میں مردوں سے مقابلہ آرائی کرنے اور خود کے ساتھ ساتھ انہیں بھی فتنہ میں مبتلا کرنے میں ۔ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والا سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کے متعلق تھا اور اسی سبب وہ ہلاک وبرباد بھی ہوئے۔
5۔ کسی شخص کو اس کی سواری پر چڑھنے یا اس کے سامان کو اس پر چڑھانے میں مدد کرنا: راستے کے مستحب آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ اسے اپنی سواری پر سوار ہونے میں دقت آرہی ہے تو آپ اس کی مدد کردیں یا س کے سامان کو اس کی سواری پر چڑھانے میں مدد کردیں۔ آج بھی ایسا کرنا ممکن ہے کیونکہ بعض معمر حضرات بسا اوقات وھیل چیئر میں بآسانی سوار نہیں ہوسکتے ہیں،بالخصوص اگر وہ وھیل چیئر جسامت میں بڑی ہو۔
ان تمام امور کی انجام دہی صدقہ ہے جس پر ایک مسلمان اجر و ثواب حاصل کرتاہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: روزانہ انسان کے ہرجوڑ پر صدقہ لازم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے کہ اسے سہارا دے کر اس کی سواری پر سوار کرادے یا اس کا سامان اٹھا کر اس پر رکھ دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔۔۔۔۔۔الحدیث۔ اور مسلم کے الفاظ ہیں : اسے اس پر سوار کرادے([996])۔
۱۸- ہمسائیگی کے آداب کا بیان
- اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: {وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ}.([997])
" اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے "
- نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: "حضرت جبرئیل O ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کر لیا وہ ہمسائے کو وارث بنادیں گے۔"([998])
آداب:
۱۔ ہمسائے کی تکریم اور اس کے بارے میں وصیت۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں پڑوسی کے سلسلے میں وصیت فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا: " اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے"۔
قریبی ہمسائے کے دو حقوق ہیں: ایک قرابت داری کا حق اور ایک ہمسائیگی کا حق، جبکہ دور کے پڑوسی کے لیے صرف ہمسائیگی کا حق ہے۔دونوں کی تکریم کی جائے گی، ان کا خیال رکھا جائے گا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے گا۔نیز حضرت عائشہ J کی حدیث میں اس حق کی تاکید بھی وارد ہوئی ہے، فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "حضرت جبرئیل O ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کر لیا وہ ہمسائے کو وارث بنادیں گے۔"([999])
شیخ ابو محمد بن ابی جمرہ فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے سلسلے میں کی گئی وصیت پر اس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ حسب استطاعت ان کے ساتھ ہر طرح کی خیر وبھلائی کا معاملہ کیا جائے، تحفے تحائف دیے جائیں، سلام کیا جائے، ملتے وقت چہرے پر بشاشت ہو، ان کے احوال دریافت کیے جائیں، ضرورتوں میں ان کی مدد کی جائے، نیز ان کے علاوہ بھی دیگر خیر کے امور انجام دییے جائیں، ساتھ ہی کسی بھی قسم کی اذیت پہنچانے سے گریز کیا جائے، خواہ وہ حسی ہو یا معنوی۔ عبداللہ بن عمرو L کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہترہے، اوراللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہترہے"۔
فائدہ: ہمسائے کے حکم میں مسلم کافر، نیک اور فاسق، دوست اور دشمن، اجنبی اور ہم وطن، نفع بخش اور نقصان پہنچانے والا، کوئی اپنا ہو یا پرایا، نزدیکی گھر والا پڑوسی ہو یا دور کے گھر والا؛ سبھی اس حکم میں داخل ہیں، البتہ سب کے الگ الگ مراتب ہیں، بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے، چنانچہ ان میں سب سے اعلی وہ ہے جن میں مذکورہ تمام صفات جمع ہوں، پھر وہ جن میں اکثر صفات پائی جائیں، اسی طرح (جن کے اندر کم صفات ہوں وہ اور کم درجے کے پڑوسی ہوں گے) ایک صفت کے حامل تک آجائیں۔ نیز اس کے برعکس بھی اسی طرح مراتب طے کیے جائیں گے۔ لہذا ہر کسی اس کے مطابق حق دیا جائے گا، بسا اوقات دو یا اس سے زیادہ صفتیں متعارض بھی ہو جاتی ہیں یا کبھی مساوی ہو جاتی ہیں۔ مذکورہ قول ابن حجر V نے فتح الباری میں بیان کیا ہے۔([1000])
۲۔ قریبی پڑوسی اور اس کے حقوق۔ ایسا پڑوسی جو بالکل قریب ہو اور (جس کا گھر آپ کے گھر سے) ملا ہوا ہو، اس کے اتنے حقوق ہیں جو دور کے پڑوسی کے لیے نہیں ہے۔ مذکورہ حکم حضرت عائشہ J کے اس سوال سے اخذ کیا جائے گا، حضرت عائشہ J سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: "جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔"([1001])
لہذا جب نبی اکرم ﷺ دور کے پڑوسی کے بجائے قریبی ہمسائے کو خصوصی طور سے تحفہ دینے کا حکم دیا، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ قریبی کا حق دور کے ہمسائے سے زیادہ ہے۔
اس کی حکمتوں میں سے یہ ہے کہ: قریبی ہمسایہ اپنے پڑوسی کے گھر میں تحفے تحائف اور دوسری چیزوں کے آنے جانے سے واقف ہوتا ہے چنانچہ دور والوں کی بنسبت قریب والوں کا دل ان چیزوں کی طرف زیادہ لگا رہتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی کو اگر کوئی اہم ضرورت پیش آ جائے تو اس کے قریب کے پڑوسی ہی اس کی مدد کو آتے ہیں خصوصاً ان اوقات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں، یہ قول ابن حجر V کا ہے۔ ([1002])
اکثر لوگوں کا یہی معاملہ ہے، چنانچہ وہ قریبی پڑوسیوں کا خصوصی طور پر زیادہ خیال رکھتے ہیں جبکہ دور کے پڑوسیوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا جاتا ہے۔
ہمسائیگی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی داخل کرنے یا کمرہ وغیرہ بنانے کی غرض سے اس کی دیوار پر لکڑی رکھنے سے منع نہ کرے۔ چنانچہ ابو ہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "کوئی پڑوسی دوسرےپڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔‘‘ پھر حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: کیا بات ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روگردانی کرتے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم!میں یہ حدیث تم سے بیان کرتا رہوں گا۔"
لیکن کئی ایک امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
پہلا: یہ کہ بنیاد سے دیوار کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
دوسرا: یہ کہ دوسرے شخص کو اس کی ضرورت ہو۔
تیسرا: دیوار کا سہارا لیے بغیر گھر بنانے کا کوئی دوسرا طریقہ میسر نہ ہو۔
اگر مذکورہ امور میں سے کوئی ایک یا چند ایک امور نہ پائے جائیں کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے پڑوسی کی دیوار کا سہارا لے کر کچھ بنائے، کیوں کہ اس میں نقصان کا پہلو شامل ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔([1003])
3۔ پڑوسیوں کو اذیت دینے کی حرمت۔ کسی مومن کے لیے اپنے پڑوسی کو کسی بھی قسم کی اذیت دینا جائز نہیں ہے، چنانچہ ابو ہریرہ t کی حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے اور اس شخص کے سلسلے میں سخت وعید بیان کی گئی ہے جو اپنے پڑوسی کو اذیت دیتا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان کو اور پڑوسی کو اذیت دینے کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے جو اس امر کی سنگینی پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ (ابو ہریرہ t ) فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔"([1004])
ابو شریح t کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "واللہ! وہ ایمان والا نہیں واللہ! وہ ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔" عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کون؟ آپ نے فرمایا: "جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں([1005]) سے محفوظ نہ ہو۔"([1006])
نیز ابو ہریرہ t سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘([1007])
ابو شریح t کی حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے ایسے شخص کے ایمان کی تین بار نفی کی ہے جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتا، (ایمان کی نفی سے) مراد یہ ہے کہ ایسا پڑوسی جس کی اذیت اور شر سے دوسرے محفوظ نہ رہتے ہوں اس کا ایمان کامل نہیں ہے، اس کے گناہ اور ظلم کے سبب اس کا ایمان بھی کم ہو جاتا ہے۔
اور ابو ہریرہ t کی حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اس سے مراد یہ ہے کہ -واللہ اعلم- ایسا شخص ابتدائی مرحلے میں جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ہم نے ایسا اس لیے کہا ہے کیوں کہ تمام نصوص جمع کرنے سے یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ مومن بندہ جنت میں داخل ہوگا خواہ وہ اس سے قبل عذاب سے دوچار ہی کیوں نہ ہو۔ یا یہ کہ جس شخص کے ظلم سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو اس کی موت حالت کفر پہ ہوتی ہے۔
پڑوسی کی جانب سے ملنے والی اذیت مختلف درجات کی ہوتی ہیں، بعض تو معمولی قسم کی ہوتی ہیں جب کہ بعض دوسری اذیتیں بڑی سنگین ہوتی ہیں بلکہ پڑوسی کی جانب سے ملنے والی اذیتوں میں سے سب سے عظیم اذیت اہل خانہ کے تعلق سے اذیت دینی ہے، اور یہ اللہ کے نزدیک عظیم گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔‘‘ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔‘‘([1008])
فائدہ: ابو ہریرہ t سے مروی ہےکہ: نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا ، اس نے اپنے ہمسائے کی شکایت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جاؤ اور صبر کرو ۔" وہ پھر آپ ﷺ کے پاس دو یا تین بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: " جا اپنا سامان راستے پر ڈال دے ۔" چنانچہ اس نے اپنا مال متاع راستے پر ڈال دیا ۔ لوگ اس سے پوچھنے لگے ( کہ کیا ہوا ؟ ) تو اس نے انہیں اپنے ہمسائے کا سلوک بتایا ۔ تو لوگ اسے لعنت ملامت کرنے لگے ۔ اللہ اس کے ساتھ ایسے کرے اور ایسے کرے ۔ تو وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور اس سے بولا : اپنے گھر میں واپس چلے جاؤ ۔ ( آئندہ ) میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہیں دیکھو گے ۔([1009])
۱۹۔ چھینکنے اور جماہی لینے کے آداب کا بیان
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بلاشبہ اللہ تعالٰی چھینک کو پسند اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے جب کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہر مسلمان پر جو اسے فرض ہے کہ اس کا جواب دے البتہ جماہی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو اسے روکے۔۔۔۔"([1010])
آداب:
پہلا: چھینکنے کے آداب:
۱۔ چھینکنے والے کی چھینک کے جواب([1011]) دینے کا حکم وارد ہوا ہے اور یہ مستحب امر ہے۔ ہمارے دین کے محاسن میں سے ہے کہ چھینکنے کے بعد ہمارے لیے ایک دعا مشروع کی جو کہ اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے۔([1012])
چنانچہ اس کے سبب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اور اللہ سے ہدایت اور احوال کی درستگی کی دعا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کاحکم دیاتھاوہ:جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔([1013])
چھینکنے والے کو جواب دینا فرض کفایہ ہے لہذا اگر حاضرین میں سے کسی نے جواب دے دیا تو باقی لوگوں سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔([1014]) نیز اس کا ترک کرنا جائز نہیں ہے، جس کی دلیل پچھلی حدیث میں مذکور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے۔ ہر مسلمان جو الحمدللہ سنے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یرحمك اللہ کہے۔
۲۔ چھینکنے والے چھینک کا جواب اس کے الحمد للہ کہنے کے بعد دیا جائے گا۔ جس کی دلیل نبی اکرم ﷺ یہ فرمان ہے جسے حضرت انس بن مالک t سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپ ﷺ نے ایک کی چھینک کا جواب دیا اور دوسرے کی چھینک کا جواب نہ دیا۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس نے "الحمد للہ کہا تھا اور دوسرے نے الحمد للہ نہیں کہا تھا۔"([1015])
نیز ابو موسی اشعری t سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "جب تم میں سےکسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کو جواب میں دعا دواور اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو دعا نہ دو۔"([1016])
مسألہ: کیا کسی کی چھینک کا جواب دینے کے لیے "الحمد للہ" کی ادائیگی کا علم ہونا ضروری ہے؟
جواب: زیادہ درست بات یہی ہے کہ جب یہ متحقق اور ثابت ہو جائے کہ چھینکنے والے نے "الحمد للہ" کہا ہے تو اسے جواب دے گا، مقصود یہ نہیں ہے کہ جواب دینے والا چھینکنے والے کے "الحمد للہ" کہنے کو سنے، بلکہ اصل مقصود یہ ہے کہ "الحمد للہ" کہا جائے، لہذا جب وہ کہنا ثابت ہو جائے گا اسے جواب دیا جائے گا، اس کی مثال ایسی ہی جیسے کہ چھینکنے والا گونگا ہو اور اس کی زبان کی حرکت سے یہ سمجھ آ جائے کہ اس نے "الحمد للہ" کہا ہے۔ نیز نبی اکرم ﷺ کا فرمان یہی ہے کہ: "اگر الحمد للہ کہے تو اسے جواب دو۔ یہی درست موقف ہے۔ واللہ اعلم۔مذکورہ قول امام ابن القیم V کا ہے۔([1017])
مسألہ (۲): جو شخص چھینکنے کے بعد "الحمد للہ" کہنا بھول جائے، کیا اسے یاد دلانا مستحب ہے؟ تا کہ اس کا جواب دیا جائے۔
جواب: بعض اہل علم جیسے امام نخعی اور نووی W نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے کہ اسے یاد دلایا جائے۔ کیوں کہ یہ نیکی اور تقوی کے کاموں پر مدد کرنے نیز بھلائی کا حکم دینے اور نصیحت کرنے کے حکم میں آئے گا، ان کے بالمقابل ابن العربی اور اور ابن القیم نے یہ موقف اختیارکیا ہے کہ ایسے شخص کو یاد دہانی نہیں کروائی جائے گی۔
ابن القیم V فرماتے ہیں: بظاہر حدیث رسول سے ابن العربی V کے قول کو ہی تقویت ملتی ہے، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کو جواب نہیں دیا تھا جس نے چھینکنے کے بعد "الحمد للہ" نہیں کہا تھا، نہ ہی اسے "الحمد للہ" کہا اور نہ ہی اسے یاد دہانی کرائی، یہ اس کے لیے ایک قسم کی تعزیری سزا، نیز برکت کی دعا سے محرومی بھی ہے۔ چونکہ اس نے اپنے آپ کو "الحمد للہ" کی برکت سے محروم کیا اور اللہ کو بھلا دیا، لہذا اللہ رب العالمین مومنوں کے دل اور زبان کو اس کا جواب دینے اور اس کے لیے دعا کرنے سے پھیر دیا، اگر یاد دہانی کرانا سنت ہوتا تو نبی اکرم ﷺ سب سے پہلے اس پر عمل کرتے اور اس کی تعلیم دیتےنیز اس پر مدد بھی کرتے۔ ([1018])
3۔ چھینکنے والے کے لیے مسنون یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ "الحمد لله" یا "الحمد لله على كل حال" کہے، اس کی دلیل حضرت ابو ہریرہ t سے مروی حدیث ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں کوئی چھینک مارے تو وہ "الحمد لله" کہے۔۔۔۔۔حدیث"، نیز ابو داود کے الفاظ ہیں: "جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو چاہیئے کہ کہے «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں اﷲ کی تعریف ہے ۔ "([1019])
4۔ چھینک کا جواب دینے والے کے لیے "يرحمك الله" کہنا مسنون ہے۔ اس کی بھی دلیل حضرت ابو ہریرہ t سے مروی حدیث ہے، نبی اکرم ﷺ فرمایا: "جب تم میں کوئی چھینک مارے تو وہ الحمد اللہ کہے۔ اس کا بھائی یا ساتھی یرحمك اللہ کہے۔۔۔۔ حدیث"
5۔ چھینک کا جواب ملنے کے بعد چھینکنے والے کے لیے یہ کہنا مسنون ہے: "یھدیکم اللہ ویصلح بالکم" یا "يرحمنا الله وإياكم" حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب تم میں کوئی چھینک مارے تو وہ الحمد اللہ کہے۔ اس کا بھائی یا ساتھ یرحمك اللہ کہے۔ جب اس کا ساتھی یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا جواب میں یھدیکم اللہ ویصلح بالکم کہے۔" ([1020])
یا یہ کہے: "يرحمنا الله وإياكم ويغفر لنا ولكم"، اس کی صراحت نافع V کی روایت کردہ اس حدیث میں آئی ہے جو حضرت ابن عمر L سے منقول ہے کہ: انہوں نے چھینکا تو کسی نے "يرحمك الله" کہا، آپ نے جوابا "يرحمنا الله وإياكم ويغفر لنا ولكم" کہا۔([1021])
6۔ چھینکنے والے کا اپنی آواز پست رکھنا مستحب ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ عموماً چھینکنے والے شخص سے اونچی اور پریشان کن آواز نکلتی ہے لہذا اس کے لیے مستحب ہے کہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر یا کپڑا رکھ کر اپنی آواز پست کرے۔ منہ پر ہاتھ رکھنے یا کپڑا رکھنے کے کئی دوسرے فوائد بھی ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ: عموماً چھینکنے والے کے منہ سے کچھ نہ کچھ نکلتا ہے، لہذا اس کے لیے اپنے منہ پر ہاتھ رکھنا مستحب ہے، اس تعلق سے روایت بھی وارد ہوئی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ: نبی اکرمﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے۔([1022])
7۔ چھینک کا جواب تین بار دینا ہے، اس سے زیادہ چھینک آنا زکام کی علامت ہے۔ سلمہ بن اکوع نے بیان کیا، انھوں نے نبی ﷺ سے سنا:آپ کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ نے اسے دعا دی يَرْحَمُكَ اللَّهُ اللہ تم پر رحم فرمائے۔"اسے دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا "اس شخص کو زکام ہے۔([1023])
اس حدیث میں صرف دو بار جواب دینے کا ذکر ہے، البتہ دوسرے نصوص موجود ہیں جن میں تین بار چھینک کے جواب دیے جانے کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ ابوہریرہ t سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی کو اس کی چھینک آنے پر تین بار جواب دے اور جو اس سے زیادہ ہو ‘ تو پھر وہ زکام زدہ ہے ۔([1024])
امام نووی V فرماتے ہیں کہ: اس مسئلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ ابن العربی مالکی V فرماتے ہیں: بعض کہتے ہیں کہ: دوسری بار میں ہی کہا جائے گا کہ: تمہیں زکام ہے۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ: تیسری بار میں کہا جائے گا، جبکہ بعض کے نزدیک چوتھی بار میں کہا جائے گا۔ زیادہ درست بات یہی ہے کہ تیسری بار میں کہا جائے گا۔ (ابن العربی V) فرماتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ: اس (تین بار چھینکنے) کے بعد تم ان میں سے نہیں رہے جنہیں جواب دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ جو تمہیں لاحق ہے یہ زکام اور بیماری ہے، چھینک کی نعمت نہیں ہے([1025])۔ حدیث مذکور میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان: "اس شخص کو زکام ہے" اس شخص کو عافیت کی دعا دینے کی تاکید ہے۔ کیوں کہ زکام کا ہونا بیماری ہے، اس (حدیث) میں تین بار ک بعد چھینک کا جواب نہ دینے کا جواز موجود ہے، نیز اس حدیث میں اس مرض پر تنبیہ کرنا بھی مقصود ہے تا کہ انسان اس کے علاج کا اہتمام کرے، غفلت نہ برتے ورنہ معاملہ بڑا سنگین ہو جائے گا۔ الغرض نبی اکرم ﷺ کی تمام باتیں حکمت ورحمت اور علم وہدایت سے پُر ہیں۔ یہ علامہ ابن القیم V کا قول ہے۔([1026])
۸۔ ذمی کی چھینک کا جواب دینا جائز ہے۔ اس سلسلے میں ابو موسی t کی حدیث وارد ہوئی ہے، فرماتے ہیں: یہودی لوگ نبی کریم ﷺ کی مجلس میں عمداً چھینکیں مارا کرتے تھے اور توقع کرتے تھے کہ آپ ﷺ انہیں دعا دیتے ہوئے «يرحمكم الله» "اﷲ تم پر رحم فرمائے" کہیں گے ۔ مگر آپ ﷺ انہیں یوں جواب دیتے «يهديكم الله ويصلح بالكم» " اﷲ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے ۔ "([1027])
اس حدیث کی بنیاد پر یہ جائز ہے کہ اگر ذمی چھینک کے بعد الحمد للہ کہتے ہیں تو انہیں ہدایت کی اور ایمان کی توفیق ملنے کی دعا دی جائے گی، البتہ ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا نہیں کی جائے گی، کیوں کہ وہ اس کے حقدار نہیں ہیں۔
فائدہ: دوران نماز چھینکنے والے کے لیے "الحمد للہ" کہنا جائز ہے لیکن سننے والے کے لیے اس کا جواب دینا جائز نہیں ہے۔([1028])
دوسرا: جماہی لینے کے آداب۔
- جماہی کو روکنا مستحب ہے، اور یہ شیطان کی جانب سے ہے۔ اس تعلق سے ابو ہریرہ t کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: البتہ جماہی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔۔۔ حدیث۔ ([1029])
امام نووی V فرماتے ہیں: جماہی عموماً جسمانی تھکاوٹ، پُر معدہ، آرام طلبی اور سستی کے سبب آتی ہے، اور شیطان کی طرف اس کی نسبت کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہی شہوات اور خواہشات کی طرف بلاتا ہے، اس سے مقصود اس سبب سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جس سے یہ امور پیدا ہوتے ہیں اور وہ کھانے پینے میں افراط کرنا ہے۔([1030])
رہا جماہی کو روکنے کا مسئلہ تو وہ مستحب ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار احادیث وارد ہیں جن میں سے ابو ہریرہ t سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جماہی لینا، شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی شخص جماہی لے تو جس قدر ممکن ہو اسے روکے کیونکہ جب کوئی (جماہی کے وقت) ہا، ہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔" اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں: لہٰذاتم میں سے جب کسی شخص کو جماہی آئے تو وہ جہاں تک اس کو روک سکے روکے۔ نیز مسند احمد کے الفاظ میں ہے: "تو اسے (جماہی کو) بقدر استطاعت روکے اور آہ آہ نہ کہے، کیوں کہ جب تم میں سے کوئی اپنا منہ کھولتا ہے تو شیطان کو اس سے ہنسی آتی ہے۔"([1031])
ابو سعید خدری t فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جب تم میں سے کسی شخص کو جماہی آئے تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو روکے کیونکہ (ایسا نہ کرنے سے) شیطان اندر داخل ہو تا ہے۔" اور مسند احمد کی روایت میں ہے: :"جب تم میں سے کسی شخص کو جماہی آئے تو وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے کیونکہ (ایسا نہ کرنے سے) جماہی لیتے وقت شیطان اندر داخل ہو تا ہے۔"([1032])
بسا اوقات جماہی آتے وقت منہ کو بقدر استطاعت بند رکھ کر جماہی روکی جاتی ہے اور بسا اوقات دانتوں کو ہونٹ پر رکھ کر روکی جاتی ہے جبکہ بسا اوقات ہاتھ یا کپڑا یا اس جیسی دوسری چیز منہ پر رکھ کے روکی جاتی ہے۔
۲۰۔ بھائی چارگی کے آداب کا بیان
- اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: {الأَخِلاَّء يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلاَّ الْمُتَّقِين}.([1033])
اس دن دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔
- ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" انسان اپنے محبوب ساتھی کے دین پر ہوتا ہے ۔ تو تمہیں چاہیئے کہ غور کرو کس سے دوستی کر رہے ہو ۔ "([1034])
آداب:
دوست اور ہم نشیں چننا۔ ابو ہریرہ t کی مرفوع حدیث میں گزرا کہ: :" انسان اپنے محبوب ساتھی کے دین پر ہوتا ہے ۔ تو تمہیں چاہیئے کہ غور کرو کس سے دوستی کر رہے ہو ۔"
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھی کی عادت اس کے راستے اور اس کے اخلاق پر ہوتا ہے، لہذا سوچ سمجھ کر دوستی کرنی چاہیے، جس کا دین واخلاق بہتر ہو اس سے دوستی کرو اور جس کا اس کے برعکس ہو اس سے دوری اختیار کروکیوں کہ اخلاق متاثر ہونے والی چیز ہے۔ یہ صاحب عون المعبود کا قول ہے۔([1035])
ابوسعید خدری t روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "صرف مومن آدمی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا بھی کوئی متقی ہی کھائے ۔ "([1036])
اس حدیث میں وارد (غلط) صحبت کی ممانعت میں مرتکبین کبائر اور فسق وفجور کرنے سب شامل ہیں، کیوں کہ انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کیا ہے اور کی صحبت دین کو نقصان پہنچائے گی، نیز یہ حدیث کفار اور منافقین کی صحبت سے ممانعت پر بھی بدرجہ اولی دلالت کرتی ہے۔
اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " اور تیرا کھانا بھی کوئی متقی ہی کھائے"۔ اس تعلق سے امام خطابی V فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ یہ فرمان دعوت کے کھانے کے سلسلے میں آیا ہے، ضرورت اور حاجت کے وقت کھلائے جانے والے کھانے کے سلسلے میں نہیں، کیوں کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا}[ اور اللہ تعالٰی کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو]۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ قیدی جو بھی تھے وہ سب کفار اور فاجر وفاسق تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے فاجر وفاسق شخص کی صحبت، اس کے ساتھ میل جول رکھنے اور کھانے پینے سے اس لیے منع کیا کیوں کہ ساتھ کھانا پینا دلوں میں الفت ومحبت پیدا کرتا ہے۔([1037])
بُرے ساتھی کی صحبت یقینی طور سے نقصاندہ ہوتی ہے خواہ اس سے بچنے کی جو بھی تدابیر اختیار کی جائے، کیوں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے قول سے ثابت ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری t سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری والےاورلوہار کی بھٹی کی سی ہے کستوری والےکی طرف سے کوئی چیز تجھ سے معدوم نہ ہوگی، تو اس سے کستوری خرید لےگایا اس کی خوشبو پائے گا۔ اس کے برعکس لوہار کی بھٹی تیرا بدن یا تیرا کپڑا جلا دے گی یا تو اس سے بدبو دار ہوا حاصل کرے گا۔ "([1038])
۲۔ اللہ کی خاطر محبت۔ بھائی چارگی کا سب سے عظیم درجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی وجہ سے ہو اور اللہ کی خاطر ہو، کسی منصب کے پانے کی چاہ نہ ہو اور نہ ہی جلد یا بدیر کسی منفعت کے حصول کی امید ہو۔ اور نہ ہی کسی مادی منفعت یا اور کسی شے کے پانے کی آرزو ہو۔ اور جس کی محبت اللہ کی وجہ اور اللہ کی خاطر ہو وہ یقینی طور سے مقصد تک پہنچ گیا، اور دنیوی مقاصد کے شائبہ سے بھی اسے پاک رکھے تا کہ اس میں فساد داخل نہ ہو۔جس کی محبت اللہ کی خاطر ہو اسے خوش ہونا چاہیے کہ اس کے لیے اللہ کا وعدہ اور بروز قیامت میدان محشر کی ہولناکی سے نجات ہے، اور اللہ کے عرش کے سائے تلے اسے جگہ ملے گی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ t سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلال کی بنا پر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں رکھوں گا، آج کے دن جب میرے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہیں۔"([1039])
اور معاذ بن جبل t فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ رب العالمین فرماتے ہیں: میری خاطر محبت کرنے، ایک ساتھ بیٹھنے، ایک دوسرے کی زیارت کرنے اور ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت ثابت ہو گئی۔"([1040])
حضرت ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فر دیا۔ جب وہ شخص اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے۔"([1041])
ملاحظہ: جو کوئی اپنے بھائی سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ اسے بتلا دے، اس سلسلے میں ایک مشہور حدیث وارد ہوئی ہے جسے حضرت انس بن مالک t اور دیگر صحابہ کرام نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص اس کے پاس سے گزرا ۔ تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بیشک مجھے اس سے محبت ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا : "کیا تو نے اس کو بتایا ہے ؟" اس نے کہا : نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " اس کو بتا دے ۔" چنانچہ وہ اس سے جا کر ملا اور اس سے بولا : مجھے تم سے اللہ کے لیے محبت ہے ۔ تو اس نے جواب دیا : اللہ بھی تم سے محبت کرے جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔([1042])
اور مسند احمد کی ایک روایت ہے: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اسے جا کر بتاؤ، تمہاری محبت پائیدار ہو جائے گی۔ چنانچہ انہوں نے جا کر اسے بتایا اور کہا: میں تم سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں، یا (یہ کہا کہ) اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔تو اس شخص نے کہا کہ: اللہ رب العالمین بھی تجھ سے محبت کرے جس کی خاطر تو نے مجھ سے محبت کی ہے۔ ([1043])
ملاحظہ (۲): اللہ کی خاطر محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اہنے نفس اور اہنے دل کا محاسبہ کرتے رہیں اور یہ دیکھتے رہیں کہ کہیں اس محبت میں کسی ایسی چیز کی آمیزش تو نہیں ہو گئی جو اس میں نقص اور ملاوٹ پیدا کرتی ہے اور اسے حقیقی محبت کے دائرے نکال باہر کرتی ہے؟ یا ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ ابتدا میں محبت خالص لوجہ اللہ ہو پھر انسان کی غفلت کے سبب کچھ دنوں بعد ایسی اخوت میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کا مقصد منفعت کا حصول رہ جاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حد سے زیادہ غفلت برتنے کے سبب عشق وعاشقی اور محبت وفریفتگی کا مرض بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ چنانچہ خوبصورت بے ریش نوجوانوں سے میل جول رکھنا اور اسے اخوت فی اللہ کا نام دینا، اسی طرح بعض خواتین کا خواتین کے ساتھ تعلقات میں حد سے تجاوز کرنا کبھی کبھی ان جیسے امور کو جنم دیتا ہے۔
۳۔ بھائیوں کے لیے خوش اخلاقی نرمی اور محبت کا اظہار کرنا۔ ایک بھائی اپنے بھائی کے لیے کم از کم جو کر سکتا ہے وہ ہے خوش اخلاقی اور مسکراتے ہوئے ملنا، یہ نیکی اور ادب میں شامل ہے جس کا آپسی بھائی چارگی میں پایا جانا لازم ہے، جب کبھی اپنے بھائی سے ملے یا اسے تو خوش اخلاقی کے ساتھ اور مسکراتے ہوئے ملے، حضرت ابوذر t سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: "نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے (مسلمان) بھائی کو کھلتے ہوئے چہرے سے ملو۔"([1044])
جابربن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "ہربھلائی صدقہ ہے، اوربھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملو۔۔۔۔ حدیث"۔([1045])
نرمی اور رفق ومحبت آپسی بھائی چارگی کو مضبوط اور آپسی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ کیوں کہ "اللہ تعالٰی تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔"([1046]) اور "اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو درشت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا۔"([1047])
جب نرمی اتنی اہم صفت ہے تو مسلمانوں کی آپسی بھائی چارگی میں اس کا پایا جانا اور ایک دوسرے کے لیے دلوں کا نرم ہونا بدرجہ اولی ضروری ہے۔ ابن مسعود t سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ہر آسان، نرم خو، نرم اخلاق اور لوگوں سے قریب شخص پر جہنم کی آگ حرام کر دی گئی ہے۔"([1048])
وہ امور جو محبت کو دوام بخشتے ہیں اور دلوں سے عداوت ختم کرتے ہیں ان میں سے ایک تحفہ وتحائف کا تبادلہ کرنا ہے، چنانچہ امام مالک V مؤطا میں روایت بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو، اس سے خیانت دور ہوتی ہے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور عداوت ختم ہوتی ہے۔"([1049])
اور کہنے والے نے کیا ہی بہترین کہا ہے([1050]):
لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا دلوں میں محبت کو جنم دیتا ہے
نیز باطن میں الفت ومحبت کے بیج بوتا ہے اور جب سامنے ہوں تو خوبصورتی کےلباس سے مزین کرتا ہے۔
۴۔ نصح وخیر خواہی کے استحباب کا بیان، اور یہ کمال اخوت کی دلیل ہے۔نصیحت شرعاً ایک مطلوب امر ہے جس کی ترغیب شارع S کی جانب سے وارد ہوئی ہے۔ نیز یہ ان امور میں سے ہے جن پر نبی اکرم ﷺ اپنے اصحاب سے بیعت لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ جریر بن عبد اللہ t فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔([1051]) اور نبی اکرم ﷺ کا اسے نماز اور زکوۃ کے ساتھ ملانا جو کہ ارکان اسلام میں سے ہے، اس کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کی طرف راہنمائی کرنی ہے۔
اسی طرح سے تمیم بن اوس داری t سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ ہم (صحابہ) نے پوچھا: کس کی (خیر خواہی؟) آپ (ﷺ) نے فرمایا: ’’اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے امیروں کی اور عام مسلمانون کی (خیرخواہی۔)‘‘۔ یعنی نصیحت سب سے افضل اور کامل دین ہے۔([1052])
ابن جوزی V فرماتے ہیں: یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی خاطر نصیحت کرنا، دین کا دفاع اور رب تعالی کی ذات میں کسی قسم کے شرک سے منع کرنا ہے، چہ جائے کہ اللہ رب العالمین ہر طرح کے شرک سے بے نیاز ہے، مگر اس کا فائدہ بندے کو ہی ملتا ہے۔ اسی طرح کتاب اللہ کے ساتھ نصح وخیر خواہی سے مقصود یہ ہے کہ (باطل امور سے) اس کا دفاع کیا جائے اور اس کی تلاوت پر مداومت برتی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے حق میں نصح وخیر خواہی، ان کی سنت پر عمل اور اس کے نشر واشاعت کی دعوت دینا ہے ۔ مسلم حکمرانوں کے ساتھ نصح وخیر خواہی، ان کی اطاعت کرنا، ان کے ساتھ جہاد کرنا ، ان کی بیعت کو لازم پکڑنا اور انہیں دھوکے میں مبتلا کرنے والی تعریف سے بچتے ہوئے غلطیوں پر نصیحت کرنا۔ عام مسلمانوں کے حق میں نصیحت، ان کے ساتھ خیر وبھلائی کی نیت کرنا ہے، نیز انہیں دین کی ضروری باتوں کا علم سکھانا اور راہ حق کی طرف ان کی راہنمائی کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔([1053])
لہذا عام مسلمانوں کے ساتھ نصیحت؛ ان کے ساتھ بھلائی چاہنا، ان کے سامنے حق واضح کرنا، ان کی راہنمائی کرنا، دینی معاملات میں ان کے ساتھ دھوکہ دہی نہ کرنا اور نہ ہی ان کے ساتھ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنا ہے۔ نیز اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی داخل ہے خواہ لوگوں کی مخالفت ہی کیوں نہ لازم آئے۔ رہا عوام کے مطابق چلنے اور بھائی چارگی کے نام پر دینی امور میں ان سے سمجھوتہ کرنا تا کہ وہ پاس بیٹھنا نہ چھوڑ دیں تو یہ وہ نصیحت ہرگز نہیں ہے جس کا حکم ہمیں نبی اکرم ﷺ نے دیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نصیحت کرتے وقت حکمت کو مد نظر رکھنا چاہیے، لیکن حق بیان کرنا ضروری ہے اور خاص طور سے جب آپ اپنے بھائیوں کے درمیان میں ہوں تو بیان حق کی آپ مکمل قدرت رکھتے ہیں۔
۵۔ اپنے بھائیوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا: ہمارے لیے اس باب میں اسوۂ حسنہ موجود ہے، اور سب سے عظیم اسوہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ فریضۂ رسالت آپ ﷺ کو اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مدد کرنے میں مانع نہیں ہوتا تھا، جس کی مثال نبی اکرم ﷺ کا اپنے ساتھیوں کی معیت میں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر حصہ لینا ہے۔ حضرت انس t فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رجز پڑھتے ہوئے پتھر لانے لگے۔ نبی ﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے اور آپ بھی اس وقت یہ رجز پڑھتے تھے: ’’اے اللہ! بھلائی تو بس آخرت کی بھلائی ہے۔ اس لیے تو مہاجرین اور انصار کو معاف فر دے۔‘‘([1054])
اسی طرح جنگ خندق کا بھی ایک واقعہ ہے، حضرت جابر t فرماتے ہیں: ہم خندق کے دن زمین کھود رہے تھے۔ اچانک ایک سخت چٹان نمودار ہوئی۔ صحابہ كرام ؓ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی: خندق میں ایک سخت چٹان نکل آئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں خود اتر کر اسے دور کرتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے تو (بھوک کی وجہ سے) آپ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے اور ہم بھی تین دن سے بھوکے پیاسے تھے۔ نبی ﷺ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور جب اس چٹان پر ماری تو مارتے ہی وہ ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئی۔۔۔۔ حدیث۔([1055])
اس بابت نبی اکرم ﷺ سے منقول احادیث میں سے ایک حدیث جسے حضرت ابوموسیٰ اشعری t نے روایت کیا ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس کے ایک حصے سے دوسرے حصے کو تقویت ملتی ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل فرمایا۔([1056])
ہم میں سے ہر شخص اپنے دوسرے بھائی کا محتاج ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنے مفلس بھائیوں کی مفلسی دور کرنے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں یا حاجت مندوں کی حاجت برآری کی خاطر ان کے لیے خیر کی سفارش کرتے ہیں یا تعاون کی اس جیسی دیگر صورتیں اختیار کرتے ہیں، [اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے]۔([1057])
۶۔ بھائیوں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آنا اور فخر وتکبر سے اجتناب کرنا۔ اپنے بھائیوں کے لیے تواضع اور نرم خوئی اختیار کرنا آپسی تعلقات اور اخوت کے صلہ کو مضبوط کرتا ہے، جب کہ تکبر، گھمنڈ یا ان پر فخر کرنا آپسی نفرت کا سبب بنتا ہے اور صلۂ اخوت کو ختم کرتا ہے۔
تواضع امر مطلوب ہے جب کہ فخر ایک ممنوع اور مذموم شے ہے، چنانچہ حضرت عیاض بن حمار t روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو حتی کہ کو ئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔"([1058])
نیز فخر وتکبر؛ اور ظلم وزیادتی اور سرکشی کا راستہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ حسب ونسب اور مال میں برابر نہیں ہوتے اور یہی اللہ رب العالمین کی اپنی مخلوق کے تئیں سنت ہے۔ چنانچہ شریف وہ نہیں ہے جس نے خود کو شریف بنا لیا ہو اور نہ ہی رذیل وہ ہے جس نے اپنے آپ کو رذیل بنایا ہو اور نہ امیر وفقیر کا یہ معاملہ ہے، بلکہ یہ سب اللہ کی کامل حکمت کے تقاضے کے پیش نظر ہوتا ہے۔کیوں کہ اللہ رب العالمین کی اپنے مخلوقات کے اندر بہت سارے امور ہیں۔ کسی کا برتر ہونا اسے یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ دوسروں پر فخر اور برتری جتائے۔ بلکہ با عزت، صاحب حسب ونسب یا مالدار شخص جب اللہ کی خاطر تواضع کرے، اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آئے تو اللہ کے نزدیک اسے بلندی درجات اور قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ t نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔"۔([1059])
۷۔ اچھا اخلاق: اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جسے اللہ رب العالمین نے اخلاق حسنہ کے لباس سے مزین کیا ہو، کیوں کہ جس کسی کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہے پھر لوگوں کے درمیان اس کا ذکر خیر ہوتا ہے اور اس کا قد اونچا ہوتا ہے۔ حسن اخلاق؛ خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا ہے ،نیز اذیتیں برداشت کرنا، غصہ پی جانا اور اس کے علاوہ دیگر بہترین صفات بھی حسن اخلاق میں شامل ہیں۔ ابن منصور V فرماتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ سے حسن اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: غصہ نہ کرو اور نہ ہی بحث ومباحثہ کرو۔ اسحاق بن راہویہ V فرماتے ہیں: بشاش چہرے کے ساتھ ملنا ، غصہ نہ کرنا اور ان جیسی دءگر مذموم صفات سے اجتناب کرنا حسن اخلاق میں داخل ہے۔ اسے امام خلال V نے ذکر کیا ہے۔ نیز امام خلال نے سلام بن مطیع V کا یہ شعر حسن اخلاق کی تفسیر میں نقل کیا ہے:
جب کبھی تم اس کے پاس آؤ گے اس کے چہرے پر چمک دیکھو گے، گویا کہ جو تم اس طلب کرنا چاہ رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو۔
اور لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس سب سے اچھے اخلاق والا ہے۔ روئے زمین کی سب سے بہترین شخصیت جناب محمد رسول اللہ ﷺ -جن کا اخلاق دنیا کے تمام لوگوں میں سب سے اعلی ہے- فرماتے ہیں: ’’بلاشبہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔‘‘ ([1060])
اور نبی اکرم ﷺ ابتداء نماز کے وقت دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی: (واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت) اور میری بہترین اخلاق کی طرف راہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ پر چلانے والا کوئی نہیں، اور برے اخلاق مجھ سے ہٹا دے، تیرے سوا برے اخلاق کو مجھ سے دور کرنے والا کوئی نہیں۔
جو شخص ان صفات کا حامل ہو تو پھر لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، اس کے ساتھ بیٹھنے اور ہم نشینی اختیار کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں، اس کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس برے اخلاق والوں کی باتیں انہیں تھکا دیتی ہیں، اس کی مجالس سے لوگ دور بھاگتے ہیں اور وہ لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ اور بوجھ تصور کیے جاتے ہیں۔ فضیل بن عیاض V سے ان کا قول منقول ہے کہ: جس کا اخلاق بگڑ گیا اس کا دین، حسب ونسب اور اس کی محبت والفت کا معاملہ خراب ہو گیا۔([1061])
اپنے بھائیوں کے ساتھ رہن سہن کے امور میں حسن اخلاق کا بہت بڑا دخل ہے، اسی کے سبب اجتماعیت کو دوام حاصل ہوتا ہے، دل جڑ جاتے ہیں اور سینوں سے کینہ کپٹ دور ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارے بھائیوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائیوں سے بشاشت کے ساتھ ملیں اور انہیں اچھی اچھی باتیں کہیں اور ان کی غلطیوں اور خطاؤں سے چشم پوشی کریں اور ان کے لیے عذر تلاش کریں۔([1062])
۸۔ دل کی سلامتی۔ نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی: "اور میرے دل سے میل کچیل ([1063])(بغض، حسد اور کینہ وغیرہ) نکال دے۔"([1064])
یہ بڑی عظیم الشان صفت ہے جو بہت کم لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے، کیوں کہ نفس انسانی کا س سے بچ پانا اور اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر دوسروں کو دے دینا ایک دشوار طلب امر ہے، اس پر مستزاد یہ کہ بہت سارے لوگ ظلم وستم کا معاملہ کرتے ہیں، لہذا جب کوئی شخص لوگوں کے ظلم وستم کا جواب خوش دلی کے ساتھ دے، ان کی برائی کا جواب برائی سے نہ دے، ان سے کینہ نہ رکھے تو ایسا شخص اخلاق عالیہ اور عالی ظرفی کے بلند مرتبہ کو پا لیتا ہے ، اور یہ صفت نادراً ہی اب لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے، لیکن اللہ جس کے لیے آسان کر دے اس کے لیے یہ بڑی آسان شے ہے۔ ابوہریرہ t سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے اور فاجر آدمی فریبی اور بخیل ہوتا ہے ۔"([1065])
نبی اکرم ﷺ کے فرمان: "مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے" کی تفسیر میں علامہ مبارکپوری V فرماتے ہیں: (مومن) چالباز نہیں ہوتا چنانچہ وہ اپنی خوئے تسلیم اور نرمی کے سبب دھوکہ کھا جاتا ہے جو کہ فریب کاری (جیسی مذموم صفت) کے بالکل برعکس ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ مومن فطری طور پر سیدھا سادا، شر اور برائی کا کم ادراک رکھنے والا اور اس کے پیچھے نہ پڑنے والا ہوتا ہے ، اور ایسا اس لیے نہیں کہ وہ اس سے عدم واقفیت رکھتا ہے، بلکہ یہ اس کی شرافت اور حسن اخلاق ہے۔ یہی مرقاة المفاتيح میں بھی مذکور ہے۔ امام مناوی V فرماتے ہیں: یعنی اسے ہر کوئی دھوکہ دے دیتا اور ہر چیز اس پر اثر انداز ہو جاتی ہے، وہ برائی کا ادراک نہیں کر پاتا کیوں کہ اسے چالبازی نہیں آتی، چنانچہ دل کی اچھائی اور حسن ظن کے سبب وہ دھوکہ کھا جاتا ہے۔
اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان: "اور فاجر آدمی فریبی اور بخیل ہوتا ہے"، اپنے بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا اور ان کی ٹوہ میں نہ رہنا۔ اپنے بھائیوں کے تعلق سے حسن ظن رکھنا حسن معاشرت میں داخل ہے۔ اور ان کی باتوں اور اعمال کو اچھی چیزوں پر محمول کرنا، نیز ہمیں بد گمانی سے منع کیا گیا ہے کیوں کہ بڑی بُری بات ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ t سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : "خود کو بد گمانی سے دور رکھو کیونکہ بد گمانی جھوٹی بات ہے۔ جاسوسی([1066]) نہ کرو اور نہ کسی کی ٹوہ ہی میں لگے رہو۔"۔۔۔۔حدیث۔([1067])
یہاں ممانعت سے مراد بد گمانی سے منع کرنا ہے۔ امام خطابی V فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کے بارے میں اگر کوئی گمان قائم ہو تو اس کی تحقیق وتصدیق کرنا ہے، دل میں کھٹکنے والی باتیں اس میں داخل نہیں ہے۔ امام خطابی V کے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ: بد گمانی حرام تب ہوتی ہے جب بد گمانی پر قائم رہے اور دل بھی اس پر مطمئن ہو جائے، البتہ اگر دل میں استقرار نہ پائے تو پھر کوئی حرج نہیں جیسا کہ اس حدیث میں بیان آیا: (اللہ تعالی نے اس امت سے وسوسے کو معاف کیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ ادا کر لے یا پھر جان بوجھ کر نہ کرے)۔ نیز اس کی یہ تفسیر بھی گزری کہ: اس سے مراد وہ آتے جاتے خیالات ہیں۔ یہ امام نووی V کا قول ہے۔([1068])
امام قرطبی V فرماتے ہیں کہ: یہاں ظن سے مراد بلا سبب تہمت لگانا ہے، جیسے کہ کوئی شخص کسی پر بلا جواز زنا کی تہمت لگائے، اسی لیے اللہ رب العالمین نے لفظ "ظن" پر "ولا تجسسوا" کو عطف کیا ہے، اور یہ اس لیے کیوں کہ جب کوئی کسی پر تہمت لگانے کا سوچتا ہے تو اس کی تحقیق کی غرض سے جاسوسی میں لگ جاتا ہے، پھر وہ (خبر کی) تلاش میں لگ جاتا ہے اور سننے کی کوشش کرنے لگتا ہے، چنانچہ اس سے منع کر دیا گیا۔ حدیث مذکور؛ اللہ رب العالمین کے اس فرمان کے موافق ہے: "اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم کسی کی غیبت کرو ۔ "
آیت کے سیاق میں اس حکم کی دلیل ملتی ہے کہ مسلمان کی عزت کی حفاظت کا غایت درجہ اہتمام کیا جائے گا، جس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے اس سلسلے میں کوئی گمان قائم کر کے اس میں غور وخوض سے منع کیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں پتہ کرنے میں اس لیے لگا ہوا ہوں تا کہ معاملہ کی تحقیق ہو جائے۔ اسے جواب دیا جائے گا کہ: (اللہ رب العالمین کا فرمان ہے) "اور ٹوہ میں نہ لگے رہو"۔ اگر یہ کہے کہ: میں ٹوہ میں لگے بغیر تحقیق کروں گا۔ اسے جواب دیا جائے گا کہ: " اور نہ تم کسی کی غیبت کرو"۔([1069])
فائدہ: اپنے بھائیوں کے تعلق سے حسن ظن میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کی باتوں کو اچھے معانی پر محمول کیا جائے، لہذا جب ان کے تعلق سے کوئی نا مناسب بات تم تک پہنچے تو ان کے لیے عذر تلاش کرو۔ کہو: ممکن ہے اس کی مراد یہ ہو، ممکن ہے اس نے یہ کہنا چاہا ہو،تا آنکہ تم کسی دوسرے معنی پر محمول کرنے کی کوئی گنجائش نہ پاؤ۔
۱۰۔ غلطیاں معاف کرنا اور غصہ پی جانا۔ چونکہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سہنا اور ملنا جلنا لازمی امر ہے اور اس صورت میں بعض بھائیوں کی طرف سے کچھ کمی کوتاہی بھی ہوتی رہتی ہے جیسے کچھ کہہ دینا یا کوئی نا مناسب فعل سرزد ہو جانا، لہذا مظلوم شخص کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ اپنا غصہ پی جائے اور ظلم کرنے کو بخش دے۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں ".([1070])
"جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اللہ نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے۔"([1071])
اللہ رب العالمین کا فرمان: {والكاظمين الغيظ } کا معنی یہ ہے کہ: اگر کسی کی جانب سے انہیں پہنچنے والی اذیت پر غصہ آتا ہے جس کی وجہ سے دل میں حقد اور کینہ بھر جاتا ہے اور قولاً اور فعلاً انتقام کی خواہش بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بشری تقاضے کے مطابق عمل کرنے کے بجائے غصہ پی جاتے ہیں اور اذیت دینے والوں کی اذیت پر صبر کرتے ہیں۔
نیز اللہ رب العالمین کا فرمان: {والعافين عن الناس}، اس میں عفو ودر گزر کی تمام اقسام داخل ہیں خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی، عفو ودر گزر کی صفت؛ غصہ پی جانے کے مقابلے میں زیادہ عظیم صفت ہے، کیوں کہ معافی کا مطلب یہ ہے کہ مؤاخذہ بھی نہ کیا جائے اور تکلیف دینے والے کو معافی بھی دے دی جائے، اور یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان حسن اخلاق کی صفت سے متصف ہو، بد اخلاقی سے مبرا ہو۔ اور ان میں سے ہو جس نے اپنے رب کے ساتھ تجارت کی اور اس کے بندوں رحم کھاتے ہوئے اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کیا، نیز ایذا رسانی کو نا پسند کرتے ہوئے انہیں معافی دی تا کہ اللہ رب العالمین بھی اسے معاف فرمائے اور اس کا اجر رب تعالی کے یہاں ثابت ہو جائے، بندۂ عاجز سے اس کی امید نہ رکھی۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے"۔ غصہ کے اظہار کی طاقت کے باوجود بھی اسے پی جانے والے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زبانی اجر عظیم کا وعدہ ہے، چنانچہ معاذ بن انس جہنی t سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص غصہ ضبط کرلے حالانکہ وہ اسے کرگزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلا ئے گا اور اسے اختیاردے گا کہ وہ جس حورکوچاہے منتخب کرلے‘‘۔([1072])
لوگوں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور اور ظلم سے در گزر کرنا کمزوری یا عیب کی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو عزت وسر بلندی کی بات ہے۔
حضرت ابوہریرہ t نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔" مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: "جس کسی نے کسی کے ظلم کو معاف کیا ہے، اللہ نے اس کی عزت میں اضافہ ہی کیا ہے"۔([1073])
اور جو کوئی اللہ کی خاطر بھائی چارگی کرتا ہے اسے چاہیے کہ ایک دوسرے کی غلطیوں سے در گزر کریں، ان میں سے نیک حضرات کو چاہیے کہ وہ برے لوگوں کو معاف کریں، جب ایسا ہو جائے گا تو ان کے دل پاک وصاف ہو جائیں گے اور بہت اچھے طریقہ سے زندگی گزاریں گے۔
فائدہ: خطا کار کا عذر قبول کرنا عفو ودر گزر میں داخل ہے، اس تعلق سے بڑے بہترین اقوال منقول ہیں:
حسن بن علی L فرماتے ہیں: اگر کسی شخص نے میرے ایک کان میں گالی دی اور دوسرے کان میں معذرت ظاہر کی تو میں اس کا عذر قبول کروں گا جب تک کہ جھوٹ واضح نہ ہو جائے۔
اسی مفہوم میں ایک نظم بھی ہے:
مجھے کہا گیا کہ: فلاں نے آپ کے ساتھ بد سلوکی کی ہے اور کسی جوان کا ظلم پر خاموشی اختیار کر لیناشرم کی بات ہے۔
میں نے کہا: اس نے ہمارے پاس آ کر معذرت پیش کی، (اور) عذر پیش کر دینا، ہمارے نزدیک گناہ کی دیت ہے۔
احنف V فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص تمہارے پاس آ کر عذر پیش کرے تو اسے بخوشی قبول کرو۔([1074])
۱۱۔ حسد، بغض اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کی ممانعت۔ اس تعلق سے انس t سے منقول حدیث وارد ہوئی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ باہم حسد کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو([1075])۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو نیز کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔"([1076])
حسد دو طرح کا ہوتا ہے، ایک اچھا ہے جب کہ دوسرا قابل مذمت ہے، قابل مذمت یہ ہے کہ دوسروں سے زوال نعمت کی تمنا کی جائے جو کہ ظلم وسر کشی ہے۔ اور قابل تعریف حسد وہ ہے جسے ہم رشک کرنے سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اوروں کی نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی آرزو کرنا نیز ان سے اس نعمت کے زوال کی تمنا نہ کرنا اور یہی نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان سے مقصود ہے: "حسد (رشک) تو صرف دو آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے، ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا علم دیا اور وہ رات کی گھڑیوں میں اس کے زریعے سے قیام کرتا ہے دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالٰی نے مال دیا اور وہ دن رات اس کی خیرات کرتا رہتا ہے۔"([1077])
بغض، محبت کی ضد ہے، اور پیٹھ پھیرنا؛ قطع تعلقی کا نام ہے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ: تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس نعمت کے زوال کی تمنا نہ کرے جو اسے اس کے رب نے عطا کی ہے کیوں کہ یہ ظلم وسر کشی ہے، اور نہ ہی تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے بغض رکھے، بلکہ ایک دوسرے سے محبت کرو، اور تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو تین دنوں سے زیادہ نہ چھوڑے کیوں کہ مسلمانوں کا آپس میں قطع تعلق کرنا حرام ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو"، یعنی اپنے بھائیوں کے ساتھ تعامل اور رہن سہن کے امور میں محبت وشفقت اور نرمی وتلطف اور خیر وبھلائی کے امور میں تعاون اور اس جیسے خلوص دل والے معاملات کریں، اور نصیحت کو ہر حال میں لازم پکڑیں۔ مذکورہ باتیں امام نووی V کی ہیں۔([1078])
ملاحظہ: قطع تعلقی کبھی اللہ کی خاطر ہوتا ہے اور یہ تادیباً کیا جاتا ہے، اور کبھی ذاتی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے، چنانچہ اگر ذاتی وجوہات کی بنا پر ہو تو تین راتوں سے زیادہ قطع تعلقی کی اجازت نہیں ہے، نبی اکرم ﷺ کے آگے ذکر کیے جانے والے فرمان کو اسی پر محمول کیا جائے گا: ترجمہ
اور جو اللہ کی خاطر ہوتا ہے اس میں ایک کسی منکر کے مرتکب سے قطع تعلقی کرنا ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین لوگوں سے اس وقت تک تعلقات منقطع کر رکھا تھا جب تک کہ ان کی توبہ نازل نہیں ہو گئی۔ اور اس کی کوئی محدود مدت نہیں ہے بلکہ جوں ہی مقصود حاصل ہو جائے گا، قطع تعلقی ممنوع اور حرام ٹھہرے گا۔([1079])
فائدہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ V فرماتے ہیں: اور قطع تعلقی کی یہ قسم [تادیباً قطع تعلق کرنا]، جن سے قطع تعلق کیا جا رہا ان کی طاقت وقوت ، کمزوری وناتوانی اور قلت وکثرت کے اعتبار سے مختلف ہو سکتا ہے، کیوں کہ قطع تعلقی کا مقصد اس شخص کی زجر وتوبیخ اور تادیب کرنی ہے ساتھ ہی یہ بھی مقصود ہوتا ہے کہ عوام الناس بھی اس جیسے کام سے دور رہے، لہذا اگر اس سے قطع تعلقی میں مصلحت یہ پوشیدہ ہو کہ شر وفساد اور منکر میں کمی آجائے، ایسی صورت میں یہ مشروع ہوگا۔ اور اگر اس سے نہ ہی منکر کرنے والا اور نہ ہی دوسرے کی اصلاح ہو رہی ہو بلکہ الٹا شر اور بڑھ ہی جائے نیز قطع تعلق کرنے والا کمزور ہو اور شر کے بڑھنے کا مزید امکان ہو اور مصلحت کے مقابلے میں شر کے بڑھنے کا خدشہ زیادہ ہو تو ایسی صورت میں قطع تعلق کرنا غیر مشروع ہے، بلکہ بعض لوگوں کے ساتھ تعلق بنا کر رکھنا، قطع تعلقی کے مقابلے میں زیادہ نفع بخش ہوتا ہے، جب کہ کبھی قطع تعلقی بعض لوگوں کے حق میں زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ بعض لوگوں سے قطع تعلق کرتے تھے جب کہ بعض دوسرے سے نہیں کرتے تھے۔(ابن تیمیہ V کی بات مکمل ہوئی)۔([1080])
فائدہ: قطع تعلقی جب ذاتی مصلحت کی غرض سے ہو شریعت نے تین دنوں تک اپنے بھائی سے قطع تعلقی کی اجازت دی ہے، اس سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ اور اس کی حکمت یہ کہ نفس انسانی کو ایسے واقعات وحوادث کا سامنا ہوتا جو اسے غیض وغضب میں مبتلا کر دیتا ہے، لہذا جس کوئی بھی اپنے کسی بھائی کے تئیں اپنے دل میں غصہ پاتا ہے تو اس کے لیے تین دنوں تک اس سے قطع تعلقی کی اجازت ہے اور اتنی مدت غصہ کی علامات اور دل میں پائے جانے والے دوسرے امور کے خاتمہ کے لیے کافی ہے، اسی کے مثل وہ عورت بھی جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کی موت کا سوگ منا رہی ہو، چنانچہ اس کے لیے تین دنوں تک سوگ منانا جائز ہے اور اس سے زیادہ کرنا مذکورہ علت کے سبب جائز نہیں ہے، کیوں کہ نفس کو پہنچنے والی مصیبتوں میں سے موت بڑی عظیم مصیبت ہے جس سے ناقابل بیان حزن وملال لاحق ہوتا ہے، چنانچہ عورت کے لیے سوگ منانا جائز کیا گیا، اور اس بات کی اجازت دی گئی کہ اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دے تا کہ غم ہلکا ہو جائے، البتہ تین دن سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور کامل حکمت تو صرف اللہ رب العالمین کی ہی ہے۔
۱۲۔ ایک دوسرے کو بُرے القاب ([1081]) سے پکارنا۔ وہ زبانی آفتیں جو گناہوں کو کھینچ لاتی ہیں، سینہ میں غصہ کی آگ بھڑکاتی ہیں اور آپس میں افتراق وانتشار کا موجب ہیں، ان میں سے ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنا، معیوب اور مذموم القاب کے ذریعہ انہیں عار دلانا، ان کی تضحیک کرنا یہ سب شامل ہے۔ اس سلسلے میں اللہ رب العالمین کی جانب سے ممانعت بھی وارد ہوئی ہے، فرمان باری تعالی ہے: "اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے" ([1082])۔ اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
ابوجبیرہ بن ضحاک t بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ {وَلاَ تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ}” برے برے ناموں اور لقبوں سے مت پکارو ، ایمان لے آنے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے ۔ “ یہ ہم ، بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں تشریف لائے تو ہم میں کوئی ایسا نہ تھا کہ اس کے دو یا تین نام نہ ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ کسی کو بلاتے ” ارے فلاں ! “ تو لوگ کہتے : اے اللہ کے رسول ! رکیے ۔ تحقیق یہ آدمی اس نام سے ناراض ہوتا ہے ۔ چنانچہ آیت {وَلاَ تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ} اتری ۔ ([1083])
عوام الناس کے اندر آج کل یہ بہت پایا جاتا ہے، اور یہ زبان کے ظلم، اس کے گناہ اور اس کی آفتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اور نجات یافتہ صرف وہی ہے جس نے اپنی زبان کو تھامے رکھا اور مسلمانوں کی عزت وآبرو کے تعلق سے اپنی زبان قابو میں رکھا، غلط گوئی سے اجتناب کیا، اللہ رب العالمین ہمیں اور آپ سب کو زبان کی آفتوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھے۔
۱۳۔ بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرانا مستحب ہے۔ آپس میں بسا اوقات لڑائی جھگڑا ہونا ایک لازمی امر ہے، جس کا نتیجہ بسا اوقات عداوت اور بغض وحسد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور لوگوں میں توفیق یافتہ وہی ہے جسے اللہ نے لوگوں کے جھگڑوں اور ترک تعلقات کے معاملات میں صلح صفائی کرنے والا بنایا ہے۔ ابوالدرداء t کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جودرجہ میں نماز، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے‘‘، صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ ضرور بتایئے، آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ آپس میں میل جول کرا دینا ہے ([1084]) اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈنے والی ہے‘‘۔([1085])
شریعت مطہرہ؛ اتحاد واتفاق، مل جُل کر رہنے، دل پاک وصاف رکھنے کی بڑی ترغیب دی ہے اور اختلاف وافتراق اور آپس میں دوری اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرانے والے شخص کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی اور اسے گناہ بھی نہ ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔‘‘([1086]) بلکہ لوگوں کے درمیان اصلاح اور دلوں سے کدورتوں کے دور کرنے کی کوشش کے سبب ایسا شخص اجر وثواب کا مستحق ہوگا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے تمام جوڑوں پر صدقہ ہے اور دو لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔۔۔۔ حدیث‘‘۔ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں دو لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے‘‘۔ ([1087])
اہل عقل ودانش کو وہ لوگوں کے درمیان اصلاح کرانے والا ہونا چاہیے، لہذا اس کار خیر کے اجر عظیم کا علم ہو جانے کے بعد ان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس سے الگ رہیں اور کنارہ کشی اختیار کریں۔
۱۴۔ احسان جتانے کی حرمت: عام طور سے آپس میں تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، چنانچہ یہ اس کو ہدیہ دے رہا ہوتا ہے اور وہ اُس سے ہدیہ لے رہا ہوتا ہے۔ یہ ان کے درمیان کمال اخوت کی دلیل اور اس کے دوام واستقرار کا سبب ہے۔ کم ظرف لوگ عطیہ دیتے وقت احسان جتانے لگ جاتے ہیں یا تو بخالت کرتے ہیں یا پھر خود پسندی کے شکار ہو جاتے ہیں۔
امام قرطبی V فرماتے ہیں: احسان جتانا عموماً بخیل اور خود پسندی کے شکار شخص کی جانب سے ہوتا ہے۔ چنانچہ بخیل کو لگتا ہے کہ اس کا تحفہ بڑا عظیم ہے گرچہ فی نفسہ وہ بڑی معمولی اور حقیر شے ہی کیوں نہ ہو، اور خود پسندی کا شکار شخص اپنی ذات کو نگاہ عظمت سے دیکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ لینے والے پر احسان کر رہا ہے، جبکہ احسان جتانا شرعاً حرام ہے۔ نیز احسان جتلانے والا مذموم شخص ہے اور بڑے خطرے کے کنارے ہے۔ ابن مفلح V فرماتے ہیں: تحفہ دینے کے بعد احسان جتلانا حرام ہے، بلکہ اس کے گناہ کبیرہ ہونے کے سلسلے میں امام احمد V سے واضح نص موجود ہے۔(ابن مفلح V کی بات مکمل ہوئی)۔ احسان جتلانے کی حرمت کے تعلق سے آیات اور احادیث بالکل قطعی اور واضح ہیں۔ جیسے اللہ رب العالمین کا یہ فرمان: "جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں"۔([1088])
نیز نبی اکرم ﷺ کا فرمان جسے ابو ذر t نے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تین (قسم کے لوگ) ہیں، اللہ ان سے قیامت کے روز گفتگو نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف سے دیکھے گا اور نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘ ابو ذر tنے کہا: آپ نے اسے تین دفعہ پڑھا۔ ابو ذر t نےکہا: نا کام ہو گئے اور نقصان سے دو چار ہوئے، اے اللہ کے رسول! یہ کون ہیں؟ فرمایا: ’’اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) نیچے لٹکانے والا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا۔‘‘([1089])
اور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان جسے عبد اللہ بن عمرو L نے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "احسان جتلانے والا ماں باپ کا نافرمان اور عادی شراب نوش جنت میں نہیں جائیں گے"۔([1090])
۱۵۔ راز کی حفاظت کرنا اور انہیں افشا نہ کرنا۔یہ ایک امانت جس کی حفاظت اور جسے چھپانا واجب اور لازم ہے، اور افشاء راز کا مرتکب امانت میں خیانت کرنے والا ہے اور یہ منافقین کی ایک نشانی ہے۔ حضرت ابوہریرہ t سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کہے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘([1091])
جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑکر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے‘‘، اور مسند احمد کی روایت میں ہے: "جب مخاطب یہ دیکھے کہ گفتگو کرنے ادھر اُدھر دیکھ کر گفتگو کر رہا ہے تو یہ (گفتگو) امانت ہے"۔ راز کو چھپا کر رکھنا اور لوگوں سے بیان نہ کرنا واجب اور لازم ہے، خواہ مجمع میں ہو یا پھر اکیلے میں ۔ یہ شریعت کی جانب سے لوگوں کے رازوں کی حفاظت کی شدید حرص دکھائی ہے اور اس طرف خصوصی توجہ دی ہے، چنانچہ متکلم کا تنہائی میں گفتگو کرتے ہوئے دوران گفتگو دائیں بائیں دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ: یہ ایک راز ہے لہذا میرے اس راز کی حفاظت کرنا۔
نیز اس تعلق سے ایک روایت بھی وارد ہوئی ہے جسے حضرت انس t بیان کیا، کہا: رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا ئے اس وقت میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہا: آپ نے ہم سب کو سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا تو میں اپنی والد ہ کے پاس تا خیر سے پہنچا ،جب میں آیا تو والدہ نے پو چھا : تمھیں دیر کیوں ہوئی۔؟میں نے کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کا م سے بھیجا تھا ۔ انھوں نے پو چھا : آپ کا وہ کام کیا تھا؟ میں نے کہا: وہ ایک راز ہے۔ میری والدہ نے کہا: تم رسول اللہ ﷺ کا راز کسی پر افشانہ کرنا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ثابت !اگر میں وہ راز کسی کو بتاتاتو تمہیں (جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے طلبگار ہو) ضرور بتا تا ۔
صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: "نبی ﷺ نے مجھ سے ایک راز کی بات کی تھی۔ میں نے آپ کے وہ راز کسی کو نہیں بتایا۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی مجھ سے اس کے متعلق پوچھا تو میں نے انہیں بھی نہیں بتایا۔" ([1092])
۱۶۔ دو چہرہ والا ہونے کی مذمت۔ دو چہرے والوں کے تعلق سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں میں سب سے زیادہ برا اسے پاؤ گے جو دورخی پالیسی اختیار کرنے والا (دوغلا اور منافق) ہوگا، یعنی جو ان لوگوں میں ایک منہ لے کر آئے اور دوسروں میں دوسرا منہ لے کر جائے۔‘‘۔
امام قرطبی V فرماتے ہیں: دو چہروں والا شخص سب سے بُرا اس لیے ہے کیوں کہ اس کی صورت حال منافق کے جیسی ہے، کیوں کہ وہ جھوٹ اور فریب کا راستہ اختیار کر کے چاپلوسی کرتا ہے، لوگوں کے بیچ فساد پھیلاتا ہے۔
امام نووی V فرماتے ہیں: (دو چہرے والا شخص) وہ ہوتا ہے جو ہر شخص کے پاس وہی ظاہر کرتا جو اسے راضی کرے، چنانچہ اسے یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس کا حمایتی ہے اور اس کے مخالفین کا دشمن ہے، اس کا یہ عمل خالص نفاق، جھوٹ، دھوکہ، حیلہ سازی اور دونوں فریق کے رازوں سے مطلع ہونے کے حکم میں آتا ہے، یہ نفاق اور حرام ہے۔ فرماتے ہیں: البتہ ایسا کرنے سے جس شخص کا مقصد دو جماعت کے درمیان اصلاح کرانا ہے تو یہ قابل تعریف امر ہے۔
دوسرے علما فرماتے ہیں: دونوں شخص کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس میں سے مذموم وہ شخص ہے ہر کسی کو یہ باور کراتا ہے کہ اس کا عمل اچھا ہے اور اس کے مخالف کا عمل بُرا ہے، نیز ہر شخص کے سامنے اس کے مخالف کی مذمت کرتا ہے۔ اور قابل تعریف شخص وہ ہے جو ہر شخص کو اس کے مخالف کے تعلق سے اچھی بات بتاتا ہے اور اس کی غلطیوں کے تعلق سے معذرت پیش کرتا ہے، نیز بقدر امکان ان کی اچھی باتیں ذکر کرتا ہے اور بُری باتوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ (امام نووی V کی گفتگو مکمل ہوئی)۔([1093])
زوجہ کے ساتھ رہنے کے آداب
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ"([1094])۔
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا: خاوند پر عورت کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب کپڑا پہنے تو اسے بھی پہنائے، چہرے پر نہ مارے، اسے برا بھلا نہ کہے اور گھر ہی میں (اس سے) علیحدگی اختیار کیے رکھے۔([1095])
آداب:
1. شادی کی ترغیب دینا جو کہ ایک مسنون عمل ہے۔
چونکہ مرد، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے بموجب عورتوں کے طرف میلان رکھنے والا ہوتا ہے، اور یہی معاملہ عورتوں کا بھی ہوتا ہے کہ وہ فطری طور پر مردوں کی طرف مائل ہوتی ہے، لہذا شریعت نے چاہا کہ اس فطری امر کو ایک صحیح راہ دکھائی جائے تا کہ لوگوں کے نسب اور نطفہ محفوظ رہے اور تا کہ وہ جانوروں کی طرح ایل دوسرے سے تعلقات نہ بناتے پھریں، اور اس کا راستہ صرف نکاح کا ہی ہے. یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس کی ترغیب بھی دی اور اس کے فوائد بھی بیان کیے اور اپنی امت کو اس پر ابھارا بھی ہے. چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو تو اسے نکاح کرلینا چاہیئے اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھ لے کیونکہ ان سے نفسانی خواہشات ٹوٹ جاتی ہیں"۔([1096])
نیز اس باب میں انس t کی حدیث بھی وارد ہے جس میں ان تین لوگوں کا ذکر ہے جنہیں نبی اکرم ﷺ کی عبادت کا حال بتایا گیا تو انہوں نے اسے کم خیال کیا اور اپنے اوپر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کر لیا، چنانچہ نبی اکرم ﷺ ان کے اس عمل پر انہیں جھڑکتے ہوئے کہا: "کیا تم نے یہ باتیں کہی ہیں؟ خبردار! اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اس کے علاوہ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے"۔([1097])
ان ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "دنیوی چیزوں میں سے بیوی اور خوشبو مجھے بہت پسند ہیں۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے"۔([1098])
کنوارگی اور شادی سے علیحدگی انبیاء ورسل کی سنت نہیں ہے، امام احمد ﷺ فرماتے ہیں: کنوارگی، یقیناً اسلام کا حصہ نہیں ہے، اور جو کوئی بھی تمہیں شادی ترک کرنے کا کہے اس نے تمہیں اسلام کے علاوہ کسی اور راستے کی دعوت دی ہے.([1099]) جو شخص نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور اپنے اوپر زنا کا خوف محسوس کرے نیز اس دل بھی اس طرف مائل ہو تو اس پر نکاح کرنا واجب ہے، کیوں کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو فحش امور جیسے زنا اور اس جیسے دوسرے کاموں میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے، جو کہ حرام ہے۔
2۔ معروف طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا۔
بیویوں کے ساتھ آدابِ معاشرت کے تعلق سے بنیادی دلیل اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے: "اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ"۔
یعنی: خواتین کے بھی اپنے شوہروں کے اوپر وہی حقوق وواجبات ہیں جو ان کے اپنے شوہروں کے تئیں ان کے اوپر عائد ہوتے ہیں، زوجین کے حقوق کی بنیاد عرف عام پر ہے، اور عرف عام کا مطلب ہے: کسی شہر یا کسی زمانے میں ہم مثل افراد کے اوپر ایک دوسرے کے تئیں عائد شدہ واجبات وحقوق کا معروف اور رائج طریقہ۔ اور یہ طریقہ زمان ومکان، احوال واشخاص اور دیگر امور کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نان ونفقہ، لباس، رہن سہن، مکان اور اسی طرح ازدواجی تعلقات،ان تمام امور کے سلسلے میں عرف عام کا اعتبار کیا جائے گا۔ یہ اس وقت جب نکاح سے پہلے کسی قسم کی کوئی شرط متعین نہ کی گئی ہو، اور اگر کوئی شرط متعین کر دی گئی ہو تو اس کا اعتبار کیا جائے، سوائے ایسی شرط کے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے۔ یہ ابن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے۔([1100])
ابن عباس V فرماتے ہیں: مجھے اپنی بیوی کے لیے زیب وزینت اختیار کرنا اسی طرح پسند ہے جس طرح مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے زیب وزینت اختیار کرے۔ کیوں کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ"۔ ([1101])
معاویہ بن حمید t فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ہم پر بیوی کے کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جب تو کھائے تو اسے کھلائے، جب تو پہنے تو اسے پہنائے۔" یا یوں کہا: "جب کما کر لائے (تو اسے پہنائے) اور چہرے پر نہ مار، برا نہ بول اور اس سے جدا نہ ہو مگر گھر میں"۔([1102])
مسألہ: کیا روز مرہ کے امور میں عورت کے ذمہ اس کے خاوند کی خدمت واجب ہے، مثلاً: کھانا بنانا، گھر کے معاملات کی دیکھ ریکھ کرنا اور اس جیسے دیگر امور ۔
جواب: شیخ الاسلام ابن تیمیہ V فرماتے ہیں: علما کا اس بابت اختلاف ہے کہ کیا عورت پر گھر کی صاف صفائی کرنا، کھانا پانی اور روٹی پیش کرنا، آٹا گوندھنا، ما تحتوں کے لیے کھانا بنانا اور مویشیوں کے لیے چارہ تیار کرنا اور ان جیسے دیگر امور میں شوہر کی واجب ہے یا نہیں؟
بعض علما نے اسے واجب کہا ہے، اور یہ قول اسی طرح ضعیف ہے جس طرح جماع اور صحبت کو غیر واجب کہنے کا قول ضعیف ہے۔ کیوں کہ یہ حسن معاشرت میں شمار نہیں کیا جاتا۔ بلکہ رفیق سفر وہ ہے جو انسان کا ہم مثل ہوتا ہے، اور اس کا رفیق خانہ اگر مصالح کے حصول میں اس کا معاون نہ ہو تو یہ حسن معاشرت سے خارج شے ہے۔
ایک دوسرا قول خدمت کے وجوب کا ہے، اور یہی راجح بھی ہے ۔
کیوں کہ خاوند کو قرآن پاک میں آقا کا درجہ عطا کیا گیا جبکہ عورت حدیث رسول کے مطابق اس کی خدمت گزار ہے، اور خدمت گزار پر خدمت واجب ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں یہی معروف ہے۔
جن علما نے وجوب کا فتویٰ دیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ تھوڑی بہت خدمت ضروری ہے جبکہ بعض دوسرے علما یہاں بھی معاشرے میں عام رواج کے مطابق خدمت کے وجوب کے قائل ہیں۔ اور یہی راجح بھی ہے.
لہذا عورت پر اپنے شوہر کی خدمت معاشرے میں پائے جانے والے ان کے ہم مثل لوگوں کے مطابق واجب ہے۔ اشخاص واحوال کے بدلنے سے اس میں یک گونہ تبدیلی بھی آتی ہے، جیسے گاؤں میں بسنے والی لڑکیوں کے اوپر جو ذمہ داریاں واجب ہوں گی وہ شہر میں رہنے والی لڑکیوں پر نہیں ہوں گی، اسی طرح طاقتور اور ضعیف لڑکیوں کا معاملہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔([1103])
3. عورتوں کے ساتھ نرمی برتنے کی وصیت۔
نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو یہ وصیت کی ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ خیر وبھلائی کا معاملہ کریں،کیوں کہ عورتیں حقیقتاً کمزور ہوتی ہیں، لہذا اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کرے، نا کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے یا اس طرح کا سلوک کرے جس طرح مردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، یہ اور ان جیسے دوسرے اسباب کی بنا پر مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کریں۔ حضرت ابوہریرہ t سے، انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔([1104])
خواتین کے تعلق سے جو وصیتیں کی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں دین کے ضروری علم سے بھی روشناس کرایا جائے، جیسے: پاکی، حیض ونفاس اور نماز کے مسائل، اور اگر مالک نصاب بھی ہو تو زکاۃ کے مسائل کا علم لینا بھی ضروری ہے۔ اور اگر کم علمی کے سبب ان کے لیے حصول علم مشکل ہو جائے تو ان اسباب کا مہیا کرنا ضروری ہے جو ان کے لیے حصولِ علم کی راہ آسان کرے،
اور عبادت کی ادائیگی کے لیے جن علوم کا ہونا ضروری ہے ان کے سیکھنے میں معاون اور مددگار ہوں، جیسے شرعی کتابیں، آڈیو کیسٹس خرید کر لانا، علمی مجالس میں اسے ساتھ لے کر جانا اور اس جیسے دوسرے اسباب علم مہیا کرنا۔
ان کے متعلق کی گئی وصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی تربیت کی جائے اور واجبات کی ادائیگی اور حجاب پہننے کا لازمی طور سے انہیں حکم دیا جائے۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: " اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ". نیز اللہ کا فرمان ہے: " اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر"۔([1105])
نیز مالک بن حویرث t کی حدیث میں ہے کہ: جب وہ مدینہ میں ۲۰ دن ٹھہرنے کے بعد کوچ کرنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلے جاؤ اور ان کے درمیان رہ کر انہیں علم سکھاؤ اور انہیں (نیکی کا) حکم دو"۔([1106])
لہذا جب کوئی عورت فرائض کی ادائیگی میں یا شرعی حجاب پہننے میں کوتاہی کرے، یا شوہر کے بلانے پر ایک ساتھ رات گزارنے سے انکار کر دے، یا کسی واجبی امر میں نافرمانی کی مرتکب ہو، تو ایسی صورت میں گھر کا نگراں ہونے کی وجہ سے مرد اپنی بیوی کو تادیبا اتنی سزا دے سکتا ہے جتنا سے اس کی اصلاح ہو جائے، تادیبی سزا کے مختلف مراحل ہیں، اور مردوں کے لیے اگلے مرحلے میں قدم رکھنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ ماقبل کے مرحلے کے ذریعہ اصلاح کا امکان ہو۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالٰی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے"۔([1107])
چنانچہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ وعظ نصیحت کی جائے اور اللہ کا خوف دلایا جائے۔
دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ بستر الگ کر لیا جائے۔
تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ تادیبی سزا کے طور پر معمولی پٹائی کرے، غصہ اور ناراضگی والی مار نہ مارے۔
مسألہ: جس کی بیوی نماز نہ پڑھتی ہو، کیا وہ اسے نماز کا حکم دے اور اگر پھر بھی نہ پڑھے تو کیا کرے؟
جواب: جی ہاں! خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نماز کا حکم دے، بلکہ اس پر واجب یہ ہے کہ جس کسی کو بھی وہ نماز کی بابت حکم دینے کی طاقت رکھتا ہے اسے اس کا حکم دے گا، بالخصوص جب اس کے علاوہ کوئی اور اس واجب کی ادائیگی کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: " اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ". نیز فرمایا: " اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر"۔ اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:"انہیں علم وادب سے آراستہ کرو"۔
بہتر یہ ہے کہ اسے رغبت اور شوق دلا کر (نماز پر) ابھارے، جس طرح وہ اپنی ضروریات کے لیے اسے ابھارتا ہے، اگر پھر بھی نماز نہیں پڑھتی ہے تو اسے طلاق دے دے۔ راجح قول کے مطابق ایسا کرنا واجب ہے۔ نماز کا تارک متفقہ طور پر سزا کا مستحق ہے جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھنے لگے، بلکہ اگر نماز نہیں پڑھے تو قتل کیا جائے گا اور ایسا شخص کافر اور مرتد ہے، واضح ہو کہ اس مسئلے میں دو مشہور قول ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔([1108])
4۔ بیوی کے ساتھ دل لگی اور خوش طبعی کا مظاہرہ کرنا۔
بہت سارے مرد جفا کشی کا معاملہ کرتے ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ دل لگی کی باتیں اور مزاح کا رویہ نہیں اپناتے، بلکہ بعض تو اسے مردانگی میں نقص گردانتے ہیں، یا یہ سمجھتے ہیں کہ (ایسا کرنے سے) ان کی ہیبت اور ان کا مقام ان کی بیویوں کی نگاہ میں کم ہو جائے گا، جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، کیوں کہ اگر یہ درست بات ہوتی تو سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ اس سے اجتناب کرتے، جبکہ ان کا معاملہ یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کی دلجوئی، ان کے ساتھ مزاح اور خوش مزاجی کا معاملہ فرماتے تھے، اس سلسلے میں مشہور ومعروف احادیث بھی وارد ہوئی ہیں، ان میں سے نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان:" مسلمان تفریح کے طور پر جو کام بھی کرتا ہے وہ باطل (بے کار) ہے، سوائے کمان سے تیر چلانے اور گھوڑوں کو تربیت دینے کے اور بیوی سے دل لگی کرنے کے، اس لیے کہ یہ (تینوں کام) حق ہیں"۔
نبی اکرم ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مسابقہ کرنے کا بھی واقعہ بھی انہی میں سے ہے، چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھی، میں نے آپ ﷺ کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا تو میں آپ ﷺ سے آگے بڑھ گئی۔ پھر جب میں بھاری ہو گئی تو آپ ﷺ مجھ سے بڑھ گئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ اس (پہلی دوڑ) کا بدلہ ہے"۔([1109])
اور انہی میں سے نبی اکرم ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمانا بھی شامل ہے:"میں خوب جانتا ہوں جب تم مجھ پر خوش ہوتی ہو اور جب مجھ پر ناراض ہوتی ہو"۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو یہ کیونکر معلوم ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں نہیں، مجھے رب محمد کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی تو کہتی ہو: نہیں نہیں سیدنا ابراہیم ؑ کے رب کی قسم! میں نے عرض کی: میں نے عرض کی: ہاں اللہ کے رسول اللہ کی قسم! غصے کے وقت صرف آپ کا نام زبان نہیں لاتی۔ (دل میں آپ کی محبت میں غرق ہوتی ہوں)۔([1110])
5۔ بیوی کی غلطیوں پر صبر کرنا اور ان لغزشوں سے چشم پوشی کرنا۔
اور چند امور کی بنا پر ایسا کرنا لازم ہے:
ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ عورت کی فطرتاً غیرت مند ہوتی ہے، اسی وجہ سے وہ کچھ ایسا کر گزرتی ہے جسے مرد پسند نہیں کرتا، نیز اس صفت کے ساتھ جب عورت کی کج رو زبان بھی شامل ہو جائے تو ایسی صورت میں مرد کے لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ بیوی کی جانب سے ملنے والی اذیت پر صبر کرے اور جس قدر ممکن ہو سکے چشم پوشی کرے اور لغزشوں اور غلطیوں کو معاف کرے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ t سے مروی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو"۔([1111])
حدیث کا معنی یہ ہے کہ: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حوا کی تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہوئی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے"۔
یعنی: عورت کی زبان سب سے ٹیڑھی ہوتی ہے، اس میں مردوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ اپنی بیویوں کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کریں کیوں کہ وہ فطرتاً ہی ایسی ہیں لہذا اس کا ٹھیک ہونا بڑا دشوار امر ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے"۔
یعنی: اگر تم اس کی عادات واطوار کو بدلنے پر مصر رہو گے تو تمہارے معاملات بگڑ جائیں گے، اور اس طرح کی ضد سے طلاق کی نوبت آجائے گی، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ:"عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے کسی ایک طریقے پر ہرگز سیدھی نہیں رہ سکتی، اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو (اسی طرح) فائدہ اٹھا لو گے کہ اس میں کجی رہے گی اور اگر تم اسے سیدھا کرنے چلو گے تو اسے توڑ ڈالو گے، اور اسے توڑنا اس کی طلاق ہے"۔([1112])
نیز انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نبی اکرم ﷺ کا اپنی بعض ازواج مطہرات کی غیرت پر صبر کرنے کی صفت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ: نبی ﷺ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تھے۔ اتنے میں کسی دوسری زوجہ محترمہ نے اپنے خادم کے ہاتھ ایک پیالہ بھیجا جس میں کھانا تھا، تو اس بیوی نے (جس کے پاس) آپ تشریف فرماتھے) ہاتھ مار کر پیالہ توڑ ڈالا۔ آپ نے پیالہ اٹھا کر اسے جوڑا اور اس کے اندر کھانا رکھ کر فرمایا: ’’ کھاناکھاؤ۔‘‘ اس دوران میں آپ نے اس قاصد اور پیالے کو روکے رکھا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو شکستہ (ٹوٹا ہوا) پیالہ رکھ لیا اور صحیح پیالہ واپس کردیا۔ ([1113])
6۔ بیوی کے ساتھ صحبت کرنا شوہر کے ذمہ واجب ہے۔
شوہر کے اوپر واجب ہے کہ بیوی کے ساتھ اس کی حاجت کے بقدر صحبت کرے، اور لمبے عرصے تک اس سے صحبت ترک کر کے اسے مشقت میں نہ ڈالے، کیوں کہ عورتوں کے غلط راہ اختیار کرنے کے بڑے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے۔
ایک دوسری نوعیت کی مشقت بھی ہے جس سے بعض مرد حضرات غافل رہتے ہیں اور وہ ہے؛ بوقت جماع بیوی کی حالت کا خیال نہ رکھنا، اور اس کی پرواہ نہ کرنا کہ اس کی بیوی کی ضرورت پوری ہوئی یا نہیں۔ اللہ کی قسم! ایسا کرنا؛ کسی عورت سے ایک لمبے عرصے تک جماع نہ کرنے سے بھی زیادہ سنگین امر ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: مرد پر واجب ہے کہ اپنی بیوی سے حسب معتاد جماع کرے، نیز یہ اس کے اوپر واجب حقوق میں سب سے عظیم حق ہے بلکہ اس کے نان ونفقہ سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ البتہ اس کی مدت کی تحدید کے سلسلے میں مختلف آراء ہیں، چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ: چار مہینے میں ایک بار واجب ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ جس طرح بقدر حاجت اسے نفقہ دینا ضروری ہے اسی طرح بقدر حاجت اور حسب استطاعت اس کے ساتھ جماع کرنا بھی واجب ہے۔ اور یہی راجح قول بھی ہے۔([1114])
فائدہ: جماع کے آداب:
(أ)- جماع سے قبل بسم اللہ کہنا۔ اس تعلق سے صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جسے ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: اللہ کے نام کی برکت سے۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور تو جو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ اگر دونوں کے ملاپ سے کوئی بچہ مقدر ہے تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا"۔([1115])
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا"۔
اس سے مراد یہ ہے کہ: اس بچے کو شیطان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، نہ ہی دینی اعتبار سے اور نہ ہی دنیوی اعتبار سے۔ اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ شیطان کے وسوسے سے بھی مکمل طور پر محفوظ رہے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے فتح الباری میں بیان کیا ہے۔([1116])
ملاحظہ: مذکورہ دعا جماع کا ارادہ یعنی جماع کرنے سے قبل پڑھی جائے گی، جماع کرنے کے دوران نہیں۔ اس کا علم ہمیں نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان: " اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے " سے ہوا۔
(ب)- جماع کرتے وقت ستر پوشی کرنا۔
اس کی دلیل بہز بن حکیم کی اپنے والد سے وہ دادا (معاویہ بن حیدہ) سے روایت کردہ روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ہمارے ستروں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، کیا اختیار کریں اور کیا چھوڑیں؟ (یعنی کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: "اپنی شرمگاہ (اور ستر) کی حفاظت کرو، صرف بیوی یا لونڈی سے اجازت ہے"۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب لوگ آپس میں ملے جلے بیٹھے ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جہاں تک ہو سکے کوئی تیرا ستر ہرگز نہ دیکھے"۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جب کوئی اکیلا ہو تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "لوگوں کی نسبت اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے"۔([1117])
نبی اکرم ﷺ کے فرمان: "لوگوں کی نسبت اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے"، میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زوجین کے لیے بہتر یہ ہے کہ جماع کرتے وقت ایک کپڑا اپنے اوپر ڈال لیں جو دونوں کی ستر پوشی کرے۔ واللہ اعلم۔
(ت)- جنبی شخص جب دوبارہ جماع کرنا چاہے تو اس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔ اس کا بیان ابو سعید خدری t کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے، پھر دوبارہ جانا چاہے تو وضو کر لے"۔([1118])
ملاحظہ: عزل (عورت کے رحم سے باہر منی نکالنا) کو بعض علما نے حرام قرار دیا ہے جبکہ ائمہ اربعہ کی رائے یہ ہے کہ عورت اگر اجازت دے دے تو یہ جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
7۔ زوجین کے خصوصی تعلقات کا ذکر کسی اور سے کرنا حرام ہے۔
بعض جاہل لوگوں کے درمیان یہ چلن عام ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ قائم کیے گئے خصوصی تعلقات کا ذکر دوسروں سے کر دیتے ہیں، بلکہ بعض نرے جاہل قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ: ہم تو انہی امور کے تعلق سے گفتگو کر رہے ہیں جنہیں شریعت نے ہمارے لیے حلال کیا ہے، کسی حرام عمل کا ذکر تو نہیں کر رہے ہیں۔
ایسے لوگوں سے جواباً عرض ہے کہ: شریعت مطہرہ نے بیوی اور باندی سے جماع اور صحبت حلال کیا ہے، مگر اپنی بیوی کے خلوت والے معاملات لوگوں کو سنانے اور خبر دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ بلکہ عقل انسانی اور فطرت سلیمہ اسے قبیح اور ناگوار سمجھتی ہے۔
ابو سعید خدری t سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے دن، اللہ کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ (آدمی) اس کا راز افشا کر دیتا ہے۔([1119])
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: کسی شخص کا اپنی بیوی کے خصوصی تعلقات کا دوسروں سے تذکرہ کرنا، اس کی تفصیل سنانا کہ فلاں فلاں باتیں ہوئیں، یا ایسا ایسا ہوا، ان سب کی حرمت کا بیان اس حدیث میں موجود ہے۔
جہاں تک سوال ہے مجرد جماع کی بابت گفتگو کرنے کی، تو اگر بلا فائدہ اور بلا ضرورت ہو تو ایسا کرنا مکروہ ہے، کیوں کہ یہ تقاضائے ادب کے خلاف ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے"۔
اور اگر ایسی کوئی ضرورت پیش آجائے کہ اسے بتانا پڑے یا اس کے بتانے پر کوئی فائدہ مرتب ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں کراہت بھی باقی نہیں رہتی، جیسے: کوئی شخص اپنے اوپر لگے اس الزام سے انکار کرنا چاہے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں گیا ہے یا وہ جماع کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان: میں اور یہ ایسا کرتے ہیں، اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا ابو طلحہ t عنہ سے سوال کرنا: کیا تم رات کو شب زفاف منا لی؟، اور جابر t سے یہ فرمانا کہ: عقلمندی کی دلیل ہے عقلمندی کی دلیل ہے۔ واللہ اعلم۔ ([1120])
ملاحظہ: زوجین کے خصوصی تعلقات کا کسی اور سے ذکر کرنے کے حکم میں مرد اور عورت یکساں طور پر داخل ہیں، لہذا نصوص میں گرچہ صرف مردوں کو مخاطب کیا گیا ہے مگر اس کا حکم عام ہے اور اس میں مرد وعورت سبھی شامل ہیں۔
8۔ بیویوں کے درمیان عدل کرنا۔ نبی اکرم ﷺ نے بیویوں کے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا: "جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور پھر وہ کسی ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ قیامت کے روز اس کیفیت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا"۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ: اس کا آدھا جسم گرا ہوا (مفلوج) ہو گا۔([1121])
اور اللہ رب العالمین نے اس بات کی نفی کی ہے کہ مرد حضرات اپنی بیویوں کے درمیان کے درمیان عدل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ فرمایا: " تم سے یہ کبھی نہیں ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو اس لئے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی نہ چھوڑو"۔([1122])
اب جمع کی کیا صورت ہوگی، کیوں کہ بظاہر تو آیت اور حدیث میں تعارض نظر آ رہا ہے؟
جواب یہ ہے کہ: آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیوں کہ آیت میں جس عدل کی نفی کی گئی ہے اس کا تعلق محبت سے ہے، اور اس پر کسی کا بس نہیں چلتا، کیوں کہ یہ دل کا معاملہ ہے اور قلبی محبت کسی کے اختیار میں نہیں، یہی معاملہ صحبت اور جماع کا بھی ہے، کیوں کہ مرد کی رغبت کسی بیوی میں زیادہ ہوتی اور دوسری میں کم، لہذا دن اور دوسری چیزوں کی تقسیم میں عدل واجب ہے، رہا صحبت اور جماع کا مسئلہ تو اس میں عدل واجب نہیں ہے، لیکن ایسا کرنا جائز نہیں کہ دوسری بیویوں کو بالکل ہی چھوڑ دے۔
جہاں تک حدیث میں وارد عدل کا معاملہ، تو اس سے مراد یہ ہے کہ: رات گزارنے، نان ونفقہ دینے اور ان جیسے دیگر امور جن میں عدل کیا جانا ممکن ہے، ان میں عدل کیا جائے۔ لہذا اس تطبیق کے ذریعہ یہ واضح ہو گیا کہ آیت میں مذکور عدل کی نفی اور حدیث میں وارد عدل کے حکم کے بیچ کوئی تعارض نہیں ہے۔
مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کے تئیں اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور ان کے درمیان عدل وانصاف سے کام لیں، نیز ان پر ظلم کرنے سے اجتناب کریں، کیوں کہ ان پر ظلم کرنے والے کو گناہ ملے گا اور ایسے لوگ سزا کے مستحق ہوں گے، جبکہ عدل وانصاف کرنے والے کو اجر سے نوازا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "عدل کرنے والے اللہ کے ہاں رحمٰن عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں"۔
22- دعا کے آداب کا بیان
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے"۔ ] غافر60[ .
نیز فرمایا: "بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے"۔ ] النمل 62[ .
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: " تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالٰی ان لوگوں کو نہ پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں"۔ ] الأعراف55[ .
اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "دعاکے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱ ور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے"۔([1123])
آداب:
1- دعا عبادت ہے۔
اللہ رب العالمین کے فرمان: "اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے"، میں بڑی عظیم دلیل ہے کہ دعا، اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں کی جائے گی اور نہ ہی دعا کرنے میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ ہونا جائز ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ دعا، اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت ہے، چنانچہ نعمان بن بشیر t کی حدیث نبی اکرم کا فرمان منقول ہے کہ: {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔ پھر آپﷺ نے سورہ مومن کی آیت: {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ} سے {دَاخِرِين} تک پڑھی۔([1124])
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جو اللہ سے دعا نہ کرے یا اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعائیں مانگے وہ اللہ کی عبادت سے اعراض کرنے والے ہیں۔
2- دعا کرنے والے کے لیے، دعا کے سبب حاصل ہونے والا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ یہ اس توحید کو پختہ کرنے کا سبب ہے جس پر بندے کی فلاح وکامرانی کا انحصار ہے، کیوں کہ وہ بندہ جس اپنی دعائیں صرف اللہ رب العالمین سے کی ہیں، اس کے سوا کسی اور کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا، اور مکمّل اخلاص کے ساتھ صرف اسی سے سب کچھ مانگا، اس نے یقینی طور سے توحید کا ایک پہلو شرکیہ امور سے خالص کر لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعا، اللہ رب العالمین کی عبادت میں داخل ہے، جسے اس کے سوا کسی اور کے لیے انجام نہیں دیا جائے گا۔
دعا کرنے والے کے لیے دعا کی فضیلت یہ بھی اللہ سے سرگوشی کرنے کی حلاوت ملتی ہے اور بندہ اپنے رب کے سامنے عاجزی وانکساری اختیار کرتا ہے، کیوں کہ اس کے سامنے عاجزی اختیار کرنے، اسے پکارنے اور اس سے دعا کرنے میں ایسی لذت ملتی ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔
ابن القيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اللہ والوں نے کہا ہے: مجھے اللہ رب العالمین سے کوئی ضرورت ہوتی ہے اور پھر جب میں اس سے اپنی وہ ضرورت طلب کرتا ہوں تو مجھے رب کی مناجات، اس کی معرفت، اس کے لیے عاجزی اختیار کرنے اور اس کی منت سماجت کرنے کے سبب مجھ پر رحمتوں کے وہ دروازے منکشف ہوئے جنہیں دیکھ کر میری آرزو یہ ہونے لگی کہ میری ضرورت کی تکمیل نہ ہوتی اور میں اسی حالت میں رہتا۔([1125])
دعا کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ وہ قضاء وقدر کو بدل دیتی ہے، جیسا صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "دعاکے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱ ور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے"۔([1126])
حدیث کا معنی یہ ہے کہ: دعا، تقدیر کو بدلنے کا سبب بنتی ہے، چنانچہ مریض کبھی اپنے رب سے دعا مانگتا ہے اور اسے شفایابی مل جاتی ہے، اور جب ہم غور وفکر کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ اس معاملے کا تعلق بھی قضاء وقدر سے ہی ہے، لہذا، وہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہے جو کسی شخص کے مقدر میں یہ لکھ دیتا ہے کہ وہ بیمار ہوگا اور پھر وہ اسے توفیق دے کر اس کی تقدیر میں یہ لکھ دیتا ہے کہ وہ اس بیماری اور تکلیف کے خاتمے کے لیے دعا کرے گا، پھر اسے شفایابی عطا کرے گا۔ چنانچہ از ابتدا تا انتہا معاملہ قضاء وقدر سے ہی متعلق ہے، البتہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ دعا سے ہی قضا وقدر بدلتا ہے۔([1127])
3- والدین کی فرمانبرداری دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے:
والدین کی اطاعت وفرمانبرداری دعا کی قبولیت کے عظیم اسباب میں سے ہے، نیز یہ ان عظیم اعمال میں سے ایک ہے جنہیں ایک مسلمان انجام دیتا ہے، قرآن وحديث میں اس کے فضائل اور بہترین نتائج کے دلائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین یا ان میں سے ایک کا مطیع وفرمانبردار ہمیشہ خیر وبھلائی کی توفیق سے بہرہ ور ہوتا ہے، لوگوں کے کے نزدیک محبوب ہوتا ہے، اور وہ اس لیے کیوں کہ اللہ رب العالمین نے ان کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی ہوتی ہے، ان کے علاوہ وہ قبولیت دعا کے یقین کے بہت قریب ہوتا ہے۔
سیدنا عمر t نے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے کہ: "تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کرانا۔ تو میرے لئے دعا کرو"۔
اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث جس میں تین لوگوں کے واقعہ کا ذکر ہے جو غار کے اندر تھے اور پتھرنے اس کے منہ پر آ کر راستہ بند کر دیا تھا، تو ان میں سے ایک نے کہا: " اےاللہ! میرے بوڑھے والدین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں لوٹتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے تک گھر نہ آیا۔ جب آیا تو دیکھا کہ میرے والدین سو گئے ہیں۔ میں نے دودھ دوہا جیسا کہ میں دوہتا تھا اور اس لیے ان کے سرہانے کھڑا رہا لیکن انھیں بیدار کرنا مجھے اچھا نہ لگا اور یہ بھی مجھے مناسب معلوم نہ ہواکہ(والدین سے پہلے) بچوں کو دودھ پلادوں۔ حالانکہ وہ میرے پاؤں کے پاس بلبلا رہے تھے۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں فجر ہوگئی۔ (اے میرے رب!) اگر تو جانتاہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر دور کردے کہ ہمیں آسمان نظر آئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کچھ پتھر ہٹا دیا جس سے انھوں نے آسمان دیکھا"۔([1128])
4- قبل از دعا اعمال صالحہ کی بجا آوری مستحب ہے:
جیسے نماز، زکاۃ، صدقات، صلہ رحمی اور ان کے ہم مثل دیگر اعمال جو حب الہی کا موجب اور اس کے تقرب کا سبب ہوتے ہیں۔ الغرض اللہ کی بندے سے محبت، اس کی رضا، تایید ونصرت اور دعا کی قبولیت کا متقاضی ہے۔ جبکہ اللہ رب العالمین کا بندے پر غضبناک ہونا، اس کی دعاؤں کے رد ہونے، اس کی رسوائی اور رب تعالیٰ کی اس سے ناراضگی کا متقاضی ہے۔ چنانچہ بندہ جب نماز سے فارغ ہو کر دعا کرے یا روزہ رکھنے کے بعد دعا کرے یا صلہ رحمی کے بعد دعا کرے تو ان احوال میں دعا کی قبولیت زیادہ متیقن ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
5۔ فرائض کی ادائیگی کے بعد بکثرت نوافل کی ادائیگی، دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے:
فرض عبادات کی ادائیگی کے بعد نوافل؛ جیسے: نفل نمازیں، نفل روزے، مستحب صدقے اور ان کے ہم مثل دیگر نفلی عبادات، تقرب الٰہی کے متلاشی بندے کی قبولیت دعا کا سبب ہے۔ اس کی تصدیق اس حدیث سے ہوتی ہے جسے حضرت ابو ہریرہ t نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بےشک اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: جس نے میرے کیسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں کے ذریعےسے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت مجھے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے بھی مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے دیتا ہوں۔ میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا جس کو میں کرنے والا ہوتا ہوں، جو مجھے مومن کی جان نکالتے وقت ہوتا ہے، وہ موت کی بوجہ تکلیف پسند نہیں کرتا اور مجھے بھی اسے تکلیف دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔([1129])
6- بوقت دعا قبلہ کا استقبال مستحب ہے:
روئے زمین کی سب سے مقدس جہت خانہ کعبہ کی جہت ہے، چنانچہ نمازی اپنی نمازوں میں اسی طرف رخ کرتے ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو دعا کرتے وقت اسی کا استقبال کرتے ہیں، اس باب میں ان کے لیے بہترین سلف یعنی نبی اکرم ﷺ کا عمل موجود ہے، چنانچہ آپ ﷺ اپنی بعض دعائیں قبلہ رخ ہو کر کیا کرتے تھے، انہیں میں سے آپ ﷺ کا کفار قریش پر بد دعا کرنا بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود t سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے قبلہ رو ہو کر کفار قریش کے چند لوگوں: شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے خلاف بددعا کی تھی۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کی لاشیں میدان بدر میں دیکھیں۔ سورج کی سخت حرارت نے ان کی لاشوں کو بدبودار کر دیا تھا اور یہ نہایت گرم دن تھا۔([1130])
نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں میں بدر کے دن کی گئی ایک دعا بھی ہے، عمر بن خطاب t فرماتے ہیں کہ: جب بدر کا دن تھا، رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو نبی ﷺ قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔۔۔۔" حدیث۔([1131])
7- دعا کرتے وقت ہاتھوں کو اٹھانا مستحب ہے:
عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے یہ فائدہ ملا کہ بوقت دعا ہاتھوں کا اٹھانا مستحب ہے، جس کی دلیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ قول " پھر اپنے ہاتھ پھیلائے" ہے۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل بھی موجود ہے کہ وہ جمرہ وسطی اور صغریٰ کو کنکری مارنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے تھے، اور جب بڑے شیطان کی علامت کو کنکری مارتے تو اس کے پاس کھڑے نہ رہتے بلکہ واپس لوٹ جاتے اور فرماتے: میں نے نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔([1132])
مسألہ: مذکورہ احادیث سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان متعارض ہے کہ نبی اکرم ﷺ استسقاء کے علاوہ کسی اور موقع پر دعا کرتے وقت اپنے ہاتھوں کہ نہ اٹھاتے، چنانچہ آپ ﷺ اپنے ہاتھوں کو اتنا بلند کرتے کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔
لہذا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اور وہ احادیث جن میں نبی اکرم ﷺ کے کئی ایک مواقع پر دعا کا تذکرہ ہے ان میں جمع کیسے ممکن ہے؟
جواب: ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انس رضی اللہ عنہ کا فرمان: "سوائے استسقاء کے"، بظاہر استسقاء کے علاوہ کسی اور موقع پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت پر دال ہے، جو کہ ان احادیث کے مخالف ہے جن میں استسقاء کے علاوہ بھی دوسرے مواقع پر ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔۔۔ بعض علما کی رائے یہ ہے کہ ان آخر الذکر احادیث پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نفی رویت پر محمول کیا جائے گا، اور یہ اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ کسی اور نے نبی اکرم ﷺ کو ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جبکہ دوسرے علما دونوں احادیث میں تطبیق کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ایک خاص صفت پر محمول کیا جائے گا۔۔۔ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ: (استسقاء کے ساتھ) خاص کرنے سے، ایک مخصوص ہیئت کی نفی مقصود ہے، بالکلیہ ہاتھ اٹھانے کی نفی مقصود نہیں ہے، کیوں کہ یہ تو نبی اکرم ﷺ سے ثابت شدہ امر ہے۔
8- آہستگی سے دعا کرنے کے استحباب کا بیان:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اپنے رب کو گڑگڑا کر اور آہستگی سے پکارو"۔ ] الأعراف 55 [ .
(اس آیت میں) اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خوب سے خوب دعا کرنے نیز اسے خاموشی اور مخفی انداز میں انجام دینے اور آواز بلند کیے بغیر مناجات کا حکم دیا ہے۔ مخفی انداز میں دعا کرنے میں ادب واخلاص مکمل طور پر پائے جاتے ہیں، جو دعا کرنے والے کی دعا کے قریب ہوتی ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: مسلمان خوب سے خوب دعائیں کیا کرتے تھے مگر آوازیں سنائی نہیں دیتی تھیں، یعنی: صرف سرگوشیاں ہوتی تھیں جو ان کے اور ان کے رب کے بیچ ہوا کرتی تھیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اپنے رب کو گڑگڑا اور آہستگی کے ساتھ پکارو۔ (سورہ اعراف: 55)۔
اللہ رب العالمین نے ایک نیک بندے کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے عمل سے رضامندی بھی ظاہر کی ہے، چنانچہ فرمایا: جب اس نے اپنے رب خفیہ طور سے پکارا۔ (مریم: 3)۔([1133])
فائدہ: مخفی انداز سے دعا کرنے کے متعدد فوائد ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان میں سے کئی ایک کو ذکر کیا جن کا ملخص ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں:
پہلا: ایسا بندہ عظیم ایمان کا حامل ہے، کیوں کہ اسے یہ علم ہے کہ اللہ مخفی انداز میں کی جانے والی دعاؤں کو بھی سنتا ہے۔
دوسرا: اس میں ادب اور تعظیم کا بڑا عظیم پہلو ہے، کیوں کہ بادشاہوں کے سامنے آوازیں اونچی نہیں کی جاتی، اور جو کوئی ان کے سامنے آواز بلند کرتا ہے انہیں وہ نا پسند کرتے ہیں، اور اللہ کی صفت تو (مخلوق سے) سے اعلیٰ وبرتر ہے۔ لہذا جب وہ خفیہ طور سے کی جانے والی دعاؤں کو سنتا ہے تو لائق ادب یہی ہے کہ اس کے سامنے آواز پست رکھی جائے۔
تیسرا: اس میں خشوع وخضوع زیادہ پایا جاتا ہے۔
چوتھا: اس میں اخلاص زیادہ بہتر انداز میں پایا جاتا ہے۔
پانچواں: اس صورت میں دعا کرتے وقت دل جمعی کے ساتھ عاجزی وانکساری آتی ہے، کیوں کہ آواز بلند ہونے سے یہ چَھٹ جاتی ہے۔
چھٹا: اور یہ بڑا انوکھا نکتہ ہے کہ پکارے جانے والے کے قریب ہونے کی دلیل ہے، نا کہ دور رہنے والے کا کسی دور رہنے والے کو پکارنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اپنے بندے زکریا علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: جب اس نے اپنے رب خفیہ طور سے پکارا۔ (مریم: 3)۔
ساتواں: اس میں دعا پر مداومت برتنے کا امکان زیادہ ہے، کیوں کہ زبان اور اعضاء وجوارح کو محسوس نہیں ہوتی، اس کے برعکس جب کوئی اپنی آواز بلند کرتا ہے تو زبان تھک جاتی ہے اور اس کی ہمت جواب دیتی ہے۔
آٹھواں: خفیہ طور سے دعا کرنے میں رکاوٹوں کا اور خلل پڑنے کا خدشہ نہیں ہوتا۔
نواں: رط کی طرف متوجہ ہونا اور اس کی عبادت کرنا عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اور ہر نعمت پر حسد کی جاتی ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اور اس نعمت سے بڑی تو کوئی نعمت نہیں۔
دسواں: دعا، اللہ رب العالمین کا ذکر کرنا ہے، جس میں اس رب سے سوال کرنا اور اس کی اسماء وصفات کے ذریعہ اس کی تعریف کرنا سب شامل ہے، لہذا یہ ذکر سے بھی زیادہ بڑا عمل ہے۔([1134])
9- یکسوئی اور دل جمعی کے کے ساتھ دعا کرنا قبولیت کے اسباب میں سے ہے:
داعی کا حضور قلب کے ساتھ دعا کرنا ان اسباب میں سے ایک ہے جو دعا کو قبولیت کے اور قریب کرتی ہیں، دلائل کا عموم اس پر دلالت کرتا ہے، جیسے اللہ رب العالمین کا فرمان: اپنے رب کو گڑگڑا اور آہستگی کے ساتھ پکارو۔ (سورہ اعراف: 55)۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا: اور اسے خوف وحرص کے ساتھ پکارو۔ (سورہ اعراف: 56)۔ کیوں کہ آہ وزاری، آہستگی اور خوف طمع کے ساتھ دعا کرنا حضور قلب کو مستلزم ہے، اور یہ بالکل واضح بات ہے، حدیث میں ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی، اور (اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا‘‘۔([1135])
10- بار بار دعا کرنا اور رو رو کر، گڑگڑا کر دعا کرنا مستحب ہے۔
رو رو کر اور گڑگڑا کر دعا کرنا، رب کی عین عبادت ہے، اور جب دعا کرنے والا بار بار دعا کرتا ہے، اپنی دعا میں منت سماجت دکھاتا ہے، اپنی عاجزی، حاجت اور خود کو اپنے رب کا محتاج دکھاتا ہے تو وہ اس بات کے بڑا قریب ہو جاتا ہے کہ اللہ اس کی سن لے، اور جو شخص بکثرت دروازے پر دستک دیتا ہے، اس کے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔
، عمر بن خطاب t فرماتے ہیں کہ: جب بدر کا دن تھا، رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے، اور آپ کے ساتھ تین سو انیس آدمی تھے، تو نبی ﷺ قبلہ رخ ہوئے، پھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بلند آواز سے اپنے رب کو پکارنے لگے: "اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا اسے میرے لیے پورا فرما۔ اے اللہ! تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا مجھے عطا فرما۔ اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری بندگی نہیں ہو گی۔" آپ قبلہ رو ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے مسلسل اپنے رب کو پکارتے رہے حتی کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گئی۔ اس پر حضرت ابوبکر t آپ کے پاس آئے، چادر اٹھائی اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے: اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کا مانگنا اور پکارنا کافی ہو گیا۔ وہ جلد ہی آپ سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: "جب تم لوگ اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں ایک دوسرے کے پیچھے اترنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔" پھر اللہ نے فرشتوں کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔([1136])
حضرت ابو ہریرہ t سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت طفیل بن عمرو t رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! قبیلہ دوس نے نافرمانی اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ آپ ان کے خلاف اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ ان کے خلاف بددعا کریں گے لیکن آپ ﷺ نے دعا کی: "اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں یہاں لے آ"۔([1137])
11- پر عزم ہو کر دعا کرنا([1138]):
دعا کرنے والے پر واجب یہ ہے کہ قطعیت کے ساتھ رب سے سوال کرے اور اسے اللہ کی مشیت سے معلق نہ کرے، یا اپنی دعا میں تردد اور قبولیت کے عدم یقین کا شکار نہ ہو۔ پر عزم ہو کر اور قبولیت کا یقین رکھ کر دعا کرنا، حصول مقصود کے اسباب میں سے ہے، کیوں کہ عزم ویقین اس امر کی دلیل ہے کہ داعی اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہے، نیز یہ کہ وہ جسے پکار رہا ہے وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اور وہ ہر شے پر قادر ہے، زمین وآسمان میں کوئی بھی شے اسے عاجز نہیں کر سکتی۔
اس باب میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تم اللہ سے دعا کرو تو عزم کے ساتھ کرو۔ اور تم میں سے کوئی یوں نہ کہے: اگر تو چاہے تو مجھے عطا کر دے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی مجبور نہیں کرسکتا"۔ نیز صحیح مسلم میں ہے: "بلکہ وہ پختگی اور اصرار سے سوال کرے اور بڑی رغبت کا اظہار کرے، کیونکہ دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز بڑی نہیں ہے"۔([1139])
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب تم اللہ سے دعا کرو تو پر عزم ہو کر دعا کرو، یعنی مکمل یقین کے ساتھ بلا کسی تردد کے دعا کرو، یہ جملہ: "کسی چیز کا عزم کرنا"، اس وقت کہتے ہیں جب آپ نے اس چیز کے کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہو۔ بعض علما کہتے ہیں کہ: پر عزم ہو کر دعا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دعا کرنے کسی کمزوری کا اظہار کیے بنا مکمل یقین کے ساتھ دعا کرنا۔ بعض کا کہنا ہے کہ: (دعا کی) قبولیت کے تئیں اللہ رب العالمین سے حسن ظن رکھنا ہے۔ اس کی (پر عزم ہو کر دعا مانگنے کی) حکمت یہ ہے کہ: مشیت الہی پر دعا کو معلق کرنے میں اللہ رب العالمین سے اور اپنی حاجت سے ایک قسم کی بے نیازی اور بے محتاجی کا اظہار ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان: "اللہ رب العالمین پر کوئی اکراہ کرنے والا نہیں" ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ: کسی شخص کا اپنی دعا کو اللہ کی مشیت پر معلق کرنے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ رب کی مشیت کے بنا بھی اسے ملنے کا امکان ہے، اور جب مشیت نہ ہو رو صرف اکراہ ہی بچ جاتا ہے، جبکہ اللہ رب العالمین کے اوپر کوئی بھی اکراہ نہیں نہیں کر سکتا۔ ([1140])
12- دعا سے قبل اللہ کی حمد وثنا پیش کرنا بعد ازاں نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا مستحب ہے۔
اللہ کی حمد وثنا اور اس کی بزرگی بیان کرتے ہوئے دعا کی ابتدا کرنا، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنا نیز انہی دونوں امور کے ساتھ دعا کا اختتام بھی کرنا، ان عظیم اسباب میں سے ہے جن کے ذریعے داعی کی دعا قبول ہوتی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علما کا اجماع ہے کہ حمد وثنا کے ذریعے دعا کی ابتدا مستحب ہے، بعد ازاں نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا جائے گا، پھر اختتام کے وقت بھی ان کا اہتمام کیا جائے گا۔([1141])
فضالہ بن عبید t کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنی نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نہ ہی اللہ کی بزرگی بیان کی اور نا ہی نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا، تو نبی اکرم ﷺ اس سے کہا کہ:" اے نماز پڑھنے والے تو نے جلد بازی کی"۔ پھر آپ ﷺ نے اسے اسے سکھایا، ایک دوسرے شخص کو نبی اکرم ﷺ نے دعا کرتے ہوئے سنا جس نے حمد وثنا بیان کی اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھی بھیجا، تو آپ نے کہا کہ: "دعا کرو! تمہاری دعا قبول کی جائے گی اور مانگو! تمہیں عطا کیا جائے گا"۔ ترمذی کے الفاظ کچھ یوں ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے ساتھ (مسجد میں ) تشریف فرما تھے، اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا، اس نے نماز پڑھی، اور یہ دعاکی: اے اللہ! میری مغفرت کردے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے مصلی! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ ( درود) بھیج، پھر اللہ سے دعا کر’’، کہتے ہیں:اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے نماز پڑھی، اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم ﷺ پردرود بھیجا تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اے مصلی! دعاکر، تیری دعاقبول کی جائے گی‘‘۔([1142])
اسی کے مثل ابن مسعود t کی حدیث بھی ہے، فرماتے ہیں: ـ میں نماز پڑھ رہا تھا، اور نبی اکرم ﷺ موجود تھے، ابو بکر اور عمر ؓ (بھی) آپ کے ساتھ تھے، جب میں (قعدہ اخیرہ میں) بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مانگو، تمہیں دیا جائے گا، مانگ تمہیں دیا جائے گا‘‘۔([1143])
13- دعا میں اعمال صالحہ کا وسیلہ لینا قبولیت کے اسباب میں سے ہے:
بندے کا اپنے رب سے دعا کرنا اور اس میں نیک اعمال کا وسیلہ لینا اور انہیں اپنی دعا کے سامنے پیش کرنا، دعا کو قبولیت کے اور بھی قریب کر دیتا ہے، اس باب میں ان تین لوگوں کا قصہ منقول ہے جو غار میں تھے اور ان پر ایک بڑی چٹان آ کر گر گئی تھی، پھر ان کا وہاں سے نکلنا مشکل ہو گیا، تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم ا پنے اپنے اعمال کو یاد کرو کہ کس نے کیا کیا نیک عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے، پھر اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو تم سے دور کردے۔ اور مسند احمد کے الفاط میں ہے: ہر اہنے سب سے بہترین عمل کا حوالہ دے کر دعا کرے، امید ہے کہ اللہ رب العالمین ہمیں اس سے نجات دے۔([1144])
چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے اپنا سب سے نیک عمل پیش کیا اور اپنے رب سے دعا کی، پھر اللہ رب العالمین نے ان کی دعائیں قبول کر کے انہیں مشکلات وہلاکت سے نجات دی۔
14- جامع دعاؤں کا اہتمام کرنا مستحب ہے:
سب سے جامع دعا وہ ہے جو قرآن وحدیث میں ہے، چنانچہ قرآن اللہ کا کلام ہے، جو سب اعلیٰ وارفع کلام ہے، اور حدیث وحی الہی ہے جسے اللہ نے اپنے نبی پر نازل کی ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ جامع کلمات سے نوازے گئے تھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو قرآن وحدیث کی ثابت شدہ دعاؤں کے ذریعے دعا کرتا ہے اس کی دعا اس شخص کے مقابلے میں زیادہ جلد قبول ہوتی ہے جو غیر ماثور دعاؤں کا اہتمام کرتا ہے۔ قرآن حدیث کی دعائیں لا تعداد ہیں جن کا شمار ممکن نہیں، لیکن ہم ان میں سے بعض کا تذکرہ کریں گے تا کہ ہمیں علم ہو جائے کہ کس طرح سے ان دعاؤں نے خیر وبھلائی کی تمام انواع واقسام کو سمیٹ رکھا ہے اور ہر طرح کے شر سے اس میں پناہ طلب کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار}[البقرة:201]
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}[الفرقان:74]
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين}[الأعراف:23]
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بھی انہی میں سے ایک ہے: "۔۔۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ"۔([1145])
اسی طرح حضرت ابو بکر t کی حدیث جس میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ: آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جو میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ پڑھا کرو: (اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ ۔۔۔ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ) ’’اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا۔ اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں، اس لیے تو مجھے اپنی طرف سے معاف کر دے اور مجھ پر مہربانی کر دے۔ یقینا تو ہی بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ ([1146])
15- دعا کے اختتام میں ان اسماء وصفات کا ذکر کرنا مستحب ہے جو مانگنے والے کی حاجت کے مطابق ہے: اور زیادہ مکمل اور جامع دعا ہے، جیسے اللہ رب العالمین کا فرمان: {رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّاب}[آل عمران:8]
لہٰذا جب سوال اللہ رب العالمین کی رحمت عطا کرنے سے متعلق تھا تو مناسب یہی تھا کہ رب تعالیٰ کو وہاب کی صفت سے متصف کرتے ہوئے دعا کا اختتام کیا جائے۔
اسی طرح اللہ رب العالمین کا فرمان: {رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَاد}[آل عمران:194]
چونکہ اس آیت میں مومنوں نے اپنے رب سے ان چیزوں کا سوال کیا جس کا وعدہ ان کے رب نے اپنے رسولوں کے ذریعے کیا تھا نیز یہ کہ وہ انہیں بروز قیامت رسوا نہ کرے، لہذا مناسب یہی تھا کہ دعا کا اختتام رب العالمین کو صادق الوعد کی صفت سے متصف کرتے ہوئے اور اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کیا جائے کہ اس کا قول حق ہے۔ چنانچہ آگے فرمایا: {إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَاد}.
اسی طرح اللہ رب العالمین کا یہ فرمان جو اس نے عیسٰی علیہ السلام کے قول کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا جب انہوں نے آسمان سے کھانا نازل کرنے کی بابت سوال کیا: {قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِين}[المائدة:114]
چنانچہ یہاں مناسب یہی تھا کہ اللہ رب العالمین کو خیر الرازقین کی صفت سے متصف کرتے ہوئے دعا ختم کی جائے۔
دعا کرنے والے کے لیے مستحب یہی ہے کہ دعا کی مناسبت سے اختتامی کلمات ذکر کرے، چنانچہ اگر اولاد کی دعا مانگے تو دعا کا اختتام کچھ یوں کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی وہاب ورزاق ہے، اور اگر گناہوں کی بخشش کا سوال کرے تو دعا کے اختتام پر یہ کہے کہ وہ غفور رحیم ہے، اور اگر مال طلب کرے تو اللہ رب العالمین کو رزاق، سخی اور کریم کی صفات سے متصف کرتے ہوئے دعا کا اختتام کرے۔
16- نماز میں آخری تشہد میں سلام سے قبل دعا کرنا قبولیت کے اسباب میں سے ہے: چنانچہ عبد اللہ بن مسعود t کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز کا تشہد سکھایا پھر آخر میں کہا کہ: "پھر جو اسے سب سے زیادہ پسند ہو وہ دعا مانگے"، اور صحیح مسلم کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "جو سوال کرنا اسے پسند ہو وہ سوال کرے"۔([1147])
سب سے بہتر عمل جسے بندہ انجام دیتا ہے وہ نماز ہے اور یہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب اعمال میں سے ہے، کیوں کہ اس میں بندہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، اس سے سوال کرتا اور اس سے دعائیں مانگتا ہے نیز اس کے لیے سجدہ کرتا ہے، اور اس میں وہ ہیئت اور ایسے ذکر پائے جاتے ہیں جو بندے کے لیے اس کے رب سامنے عاجزی ، خشوع وخضوع اور انکساری اختیار کرنے کی دلیل ہیں۔ ان امور کے ساتھ جب بندہ دعا کرتا ہے تو وہ دعا قبولیت کے بڑے قریب ہوتی ہے، اور کیوں کر ایسا نہ ہو؟ جب کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو اس موقع پر دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ بڑی فضیلت والی جگہ ہے جسے غنیمت سمجھنا اور اس وقت دعا کرنے پر حریص ہونا مناسب امر ہے۔
فائدہ: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ جان لو کہ آخری تشہد میں کی جانے والی دعا مستحب ہے، واجب نہیں، نیز خوب لمبی دعا کرنا مستحب ہے الا یہ کہ امام ہو، اس دعا میں دنیا وآخرت کی ہر وہ بھلائی مانگ سکتا ہے جو وہ چاہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ دعاء ماثورہ کا اہتمام کرے نیز اپنے الفاظ کے ذریعہ دعا کرنا بھی جائز ہے البتہ دعاء ماثورہ ہی افضل ہے، مزید یہ کہ ماثورہ میں سے بھی بعض دعائیں ہیں جو خاص طور سے اس موقع پر ثابت جبکہ بعض دیگر عام دعائیں ہیں۔([1148])
۱۷- مرغے کے بانگ دیتے وقت دعا کرنا مستحب ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے شیطان کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔‘‘([1149])
نبی کریم ﷺ کا فرمان: ’"جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل طلب کرو"، امام نووی V فرماتے ہیں کہ قاضی V فرماتے ہیں: اس کا سبب یہ ہے کہ دعا پر فرشتے کی آمین کہے جانے کی امید ہے، نیز ان کے استغفار اور تضرع واخلاص کی گواہی دیے جانے کی بھی امید ہے۔([1150])
۱۸- دعا میں حد سے تجاوز کرنا حرام ہے:
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: "تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالٰی ان لوگوں کو نہ پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں"۔
عبداللہ بن مغفل t نے (ایک بار) اپنے صاحبزادے کو دعا کرتے سنا (جو یوں کہہ رہا تھا) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوں تو مجھے اس کی دائیں جانب سفید محل عنایت ہو۔ اس پر سیدنا عبداللہ ؓ نے فرمایا: بیٹا! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ بیشک میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرماتے تھے میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت میں اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ مبالغہ کریں گے۔([1151])
دعا میں حد سے تجاوز کرنا، قبولیت کی راہ میں اور حصول مقصود کے سامنے رکاوٹ ہے۔ کیوں کہ دعا کرنے والا ایسی شیز کا سوال کرتا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے لہذا یہ حد سے تجاز کرنا کہلائے گا، اور حد سے تجاوز کرنا رب کو نا پسند اور قبولیت سے دور امر ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: لہذا دعا میں حد سے تجاوز کبھی حرام امور پر معاونت طلب کر کے ہوتا ہے، جو کہ جائز نہیں اور کبھی ایسی چیز طلب کر کے ہوتا ہے جسے اللہ کرے گا، جیسے دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کا سوال کرنا یا یہ دعا کرنا کہ اسے انسانی حوائج وضروریات سے چھٹکارا مل جائے جیسے کھانے پینے کی حاجت محسوس نہ ہو، یا یہ سوال کرنا کہ اسے غیب کی اطلاع دے دی جائے، یا اسے معصوم عن الخطا لوگوں میں شامل کر لیا جائے یا بغیر بیوی (اور شادی) کے اسے اولاد عطا کر دیا جائے، اور اس جیسی دوستی چیزوں کا سوال کرے جس کا شمار "دعا میں حد سے تجاوز" کرنے میں ہوتا ہے، اس فعل کو اور ایسا کرنے والے کو اللہ رب العالمین پسند نہیں کرتا، نیز "حد سے تجاوز کرنے" کا ایک معنی آواز بلند کرنا بھی بیان کیا گیا ہے۔([1152])
19- قافیہ بند کلام([1153]) کے ذریعہ دعا کرنا مکروہ ہے:
دعا میں بے جا تکلف مناسب نہیں ہے اور نا ہی مسجع مقفع عبارتیں استعمال کرنا اچھی بات ہے، جہاں تک نبی اکرم ﷺ سے منقول دعاؤں میں اس طرح کی مسجع عبارتوں کے وارد ہونے کا سوال ہے تو اسے بلا تکلف قافیہ بندی پر محمول کیا جائے، ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اس پر ان احادیث کے سبب اعتراض وارد نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ سے صادر ہونے والے قافیہ بند کلام، بلا تکلف صادر ہونے پر محمول کیا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی گفتگو میں اعلیٰ درجہ کی یکسانیت اور ارتباط پایا جاتا ہے۔ جیسے نبی اکرم ﷺ کا جہاد کے سلسلے میں یہ فرمان:" اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے، دشمنوں کو شکست دینے والے"۔([1154])
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی عکرمہ V کو نصیحت کردہ حدیث میں ہے کہ: دعا میں قافیہ بندی سے اجتناب کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو دیکھا ہے وہ ہمیشہ اس سے بچا ہی کرتے تھے۔([1155])
۲۰- گناہ کی دعا یا رشتہ داری کو توڑنے کی دعا یا پھر جلد قبولیت کی طلب؛ دعا کی قبولیت میں مانع ہے:
دعا کرنے والے کی دعا کی قبولیت میں مانع یہ بھی ہے کہ وہ گناہ کی دعا یا رشتہ داری کو توڑنے کی دعا یا پھر جلد قبولیت کی طلب کرے۔
اس کی صراحت ابو ہریرہ t سے مروی حدیث میں آئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جب تک کوئی بندہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور قبولیت کے معاملے میں جلد بازی نہ کرے، اس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔" عرض کی گئی: اللہ کے رسول! جلد بازی کرنا کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ کہے: میں نے دعا کی اور میں نے دعا کی اور مجھے نظر نہیں آتا کہ وہ میرے حق میں قبول کرے گا، پھر اس مرحلے میں (مایوس ہو کر) تھک جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔"([1156])
فائدہ (۱): ابو سعید خدری t سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:" جو کوئی بھی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں کسی گناہ اور رشتہ داری کے توڑنے کا سوال نہ ہو تو اللہ اسے تین میں سے کوئی ایک شے عطا کرتا ہے: یا اس کی دعا فوراً قبول کر لیتا ہے، یا اس کے لیے اس دعا کو ذخیرہ آخرت بنا دیتا ہے یا پھر اسی کے بقدر اس سے کوئی مصیبت دور فرما دیتا ہے، صحابہ نے فرمایا: پھر تو ہم اور زیادہ دعائیں کریں گے، تو نبی اکرم ﷺ نت فرمایا: اللہ اور زیادہ دینے والا ہے"۔([1157])
ایک دوسرا فائدہ: بسا اوقات دعا کی قبولیت میں تاخیر کسی حکمت کے سبب ہوتی ہے جسے اللہ جانتا ہے مگر بندہ سے وہ مخفی رہتی ہے، بندے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی اختیار کردہ شے اس کے لیے اس کی اپنی اختیار کردہ شے سے بہتر ہوگی، لہذا جب کوئی اپنے رب سے دعا کرے، منت سماجت اور آہ وزاری کے ساتھ سوال کرے، قبولیت دعا میں مانع امور سے اجتناب کرے تو پھر قبولیت میں تاخیر ہونے سے پریشان نہ ہو۔
بسا اوقات داعی کی دعا قبول نہیں کی جاتی، یہ قطعاً اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بندہ اللہ کے نزدیک محبوب نہیں ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لیے مغفرت طلب کی اور نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے لیے نجات طلب کی - اور یہ دونوں اولوالعزم رسولوں میں سے تھے- مگر اس کے باوجود اللہ نے ان کی دعائیں قبول نہیں کی، جس کے سبب اور حکمت کا علم رب تعالیٰ کو تھا، لہذا تمام مخلوقات اسی اللہ کی ہیں، اور ان تمام کے اندر تصرف کا حق صرف اسی کو حاصل ہے، جب معاملہ اس طرح کا ہے تو قبولیت کی تاخیر کا شکوہ کرنا بندے کے لیے مناسب نہیں ہے اور نا ہی یہ مناسب ہے کہ وہ دعا ترک کر دے، کیوں کہ یہ ایک عبادت ہے جس پر اسے اجر وثواب ملے گا۔
21- مال حرام کھانا دعا کی قبولیت میں مانع ہے:
یہ ان عظیم رکاوٹوں میں سے ایک ہے جن کے سبب دعائیں رد کر دی جاتی ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فر یا :"اے لو گو !اللہ تعا لیٰ پا ک ہے اور پا ک ( مال) کے سوا ( کو ئی ل ) قبو ل نہیں کرتا اللہ نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعا لیٰ نے فر یا :"اے پیغمبران کرام! پا ک چیز یں کھا ؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فر یا اے مومنو!جو پا ک رزق ہم نے تمھیں عنا یت فر یا ہے اس میں سے کھا ؤ ۔پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا :" جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔(دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلا تا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے اس کا پینا خرا م کا ہے اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی۔([1158])
نبی اکرم ﷺ کا فرمان: " تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی"، کا مطلب یہ ہے کہ جس کی ایسی صفت ہو اس کی دعا کیونکر قبول کی جائے گی اور کیسے سنی جائے گی؟؟ یہ قول امام نووی رحمہ اللہ کا ہے۔([1159])
(حدیث میں مذکور) اس شخص کو دیکھیں، جس کا سفر طویل تھا، بال پراگندہ تھے، قدم اور جسم گرد وغبار میں اٹے ہوئے تھے، اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اپنے رب کے سامنے دست سوال دراز تھا، اور (واضح ہو کہ) جو ان مذکورہ صفات کا حامل ہو اس کی دعا قبولیت کے بڑے قریب ہوتی ہے، مگر چونکہ یہ شخص مال حرام کھایا کرتا تھا، لہذا اس کی دعا مقبول ہونے سے رک گئی، اور ایسا حرام مال کی نحوست اور دنیا وآخرت میں بندے پر اس کے آثار قبیحہ کے سبب ہوا۔
22- وہ مقامات واحوال جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں:
رات کے آخری پہر دعا کرنا: اس سلسلے میں بھی مشہور صحیح احادیث وارد ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہمارا بزرگ و برتر پروردگار ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے۔ اور آواز دیتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اسے قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟"۔([1160])
ب- حالت سجدہ میں دعا کرنا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو"۔([1161])
اور شاید حالت سجدہ میں بندے کی رب سے قربت کی حکمت یہ ہے کہ: سجدے کی حالت میں عبودیت، خشوع وخضوع اور عاجزی وانکساری کا وہ نمونہ پایا جاتا ہے جو اس کے علاوہ کسی اور صورت میں نہیں پایا جاتا، نیز اس حالت میں بندہ اپنی پیشانی زمین پر اپنے قدموں کی جگہ پر رکھے ہوتا ہے -جس کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی- چنانچہ وہ اس حالت میں عاجزی وانکساری اور عبودیت کے اس مقام پر ہوتا ہے جہاں سے وہ سجدہ کرنے والا اور دعا کرنے والا اپنے رب کے قریب ہوتا ہے، اور اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔
ت- اذان اور اقامت کے درمیان: انس t کی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اذان واقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی"۔ ([1162])
ث- جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کی بابت: اس بابت ابو ہریرہ t سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر فرمایا تو کہا: "اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے۔"([1163]) اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔ جمعہ کے دن کی اس گھڑی کے بارے میں (جس میں دعا قبول ہوتی ہے) بے شمار اقوال منقول ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان اقوال کی تعداد 42 بتائی ہے، ان میں سب سے راجح دو قول ہے:
پہلا: امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر سلام پھیرنے تک کا وقفہ ہے۔ اس کی دلیل ابو موسی t کی حدیث ہے۔ چنانچہ ابو بردہ بن ابی مو سیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہا: مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا تم نے اپنے والد کو جمعے کی گھڑی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہو ئے سنا ہے؟ کہ کہا: میں نے کہا: جی ہاں میں نے انھیں یہ کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: "یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز مکمل ہو نے تک ہے"۔([1164])
دوسرا: جمعہ کے دن کا آخری وقت ہے۔ جابر بن عبداللہ t راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جمعہ کے دن میں بارہ گھڑیاں ہیں، جو بھی مسلمان اس حالت میں پایا جائے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی سوال کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عنایت فرما دیتا ہے، لہٰذا اسے عصر کے بعد کی آخری ساعت میں تلاش کرو"۔([1165])
دونوں احادیث کے درمیان جمع کی بابت وہی کہا جائے گا جو ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے، فرماتے ہیں:… لہذا دونوں ہی وقت قبولیت کا وقت ہے، گرچہ علی وجہ الخصوص یہ وقت عصر کے بعد کا آخری وقت ہے، چنانچہ یہ ایک معینہ وقت ہے جو مقدم یا موخر نہیں ہوتا، نماز کے جو اوقات ہیں وہ نماز کے تابع ہوتے، اور اسی کے مطابق مقدم اور موخر ہوتے رہتے ہیں، کیوں کہ مسلمانوں اکٹھا ہونا، نماز پڑھنا اور آہ وزاری کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے کا دعا کی قبولیت پر بڑا اثر ہوتا ہے، چنانچہ ان کے اکٹھے ہونے کی گھڑی میں قبولیت کی امید ہوتی ہے، تمام احادیث اس تفسیر کے مطابق جمع ہو جاتی ہیں۔ نیز نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو ان دونوں اوقات میں دعا اور اللہ سے گریہ زاری کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ([1166])
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ قول ابن عبد البر رحمہ اللہ کے قول کی مانند ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: مناسب یہی ہے کہ مذکورہ دونوں اوقات میں خوب سے خوب دعائیں کی جائیں، تقریباً یہی بات ان سے قبل امام احمد رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے، اور یہ تطبیق کی سب سے بہترین صورت ہے۔ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جب یہ معلوم ہو گیا کہ اس مبارک گھڑی کو اور لیلۃ القدر کو مخفی رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ دعا کرنے والے نماز اور دعا وغیرہ میں خوب سے خوب محنت کریں، نیز یہ کہ اگر اسے بیان کر دیا جاتا تو لوگ اسی پر بس کر کے باقی ایام واوقات کو یونہی چھوڑ دیتے، لہذا اب اس کے بعد اس کی تحدید کے سلسلے میں کوشش کرنا تعجب خیز امر ہے۔([1167])
ج- بوقت افطار روزہ دار کی دعا: اس کی ایک دعا رد نہیں کی جاتی، یہ ابو ہریرہ t کی حدیث سے ثابت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتی، روزہ دار کی یہاں تک کہ افطار کر لے۔۔۔۔ حدیث"۔([1168])
ج- مظلوم، مسافر اور والد کی اپنی اولاد پر بد دعا: حضرت ابن عباس L سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ t کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا: "تم ایک قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، ان کے پاس پہنچ کر انھیں دعوت دو کہ وہ لاإلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔۔۔۔۔ اور مظلوم کی بددعا سے بھی بچو کیونکہ اس کی بد دعا اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا"۔([1169])
ابوہریرہ t کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا، مسافرکی دعا اوربیٹے کے اوپرباپ کی بددعا"۔([1170])
ملاحظہ: مسافر حالت سفر دعا کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے خوب سے خوب تر دعا کرنے کی حرص دکھائے اور اس میں کمی نہ کرے، بعض دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو دنیا میں صلاح وتقوی اور آخرت کی کامیابی کا وارث بنا دیتی ہیں۔
سرکش ظالم اس بات سے ڈرے کہ اسے ایسے مظلوم کی بد دعا نہ لگ جائے جس کے زخم خوردہ دل سے آہ نکلی ہو، اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا، چنانچہ اس کی دعا بڑی سرعت کے ساتھ قبول ہوں گی۔
والدین اپنی اولاد کو بد دعا دینے سے اجتناب کریں، کیوں کہ ان کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں، بسا اوقات یوں ہو سکتا ہے کہ کوئی بات زبان سے نکل گئی اور رب کی بارگاہ میں مقبول ہو گئی تو والد کا دل حسرت وندامت سے بھر جائے گا۔
خ- سخت جنگ کی حالت میں اور اذان کے وقت کی دعا۔ یہ امر سہل بن سعد t کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "دو وقت کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں یا بہت کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک اذان کے وقت اور دوسری جنگ کے وقت، جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ جاتے ہیں"۔([1171])
د- ذو النون علیہ السلام کی بوقت مصیبت دعا۔ سعد t کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ذوالنون (یونس علیہ السلام) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی: {لاَّ إِلَهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِين} کیوں کہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔([1172])
ذ- بارش کے نزول کے وقت۔ حدیث میں وارد ہے: "لشکر کے آمنے سامنے ہوتے وقت دعا کرو، اسی طرح نماز کی اقامت کے وقت اور بارش نازل ہوتے وقت"۔([1173])
23- وہ مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور ان میں سے:
أ- وقوف عرفہ کرنے والوں کے لیے عرفہ کی شام دعا کرنا۔ نبی اکرم ﷺ نے وقوف عرفہ کرنے والوں کے لیے عرفہ کے دن ظہر اور عصر جمع تقدیم کے ساتھ پڑھنا مسنون قرار دیا ہے تا کہ حاجی اپنے رب دعاء ومناجات کے لیے فارغ ہو سکے، اور یہی نبی اکرم ﷺ کا عمل بھی تھا، چنانچہ جب آپ نماز سے فارغ ہو جاتے تو پہاڑ کے نیچے اپنی سواری پر کھڑے ہو جاتے اور غروب آفتاب تک دعا کرتے۔([1174])
اس وقوف کو اللہ رب العالمین پسند فرماتا ہے اور فرشتوں کے درمیان اس کے ذریعہ فخر کرتا ہے، اسی دن جہنم سے بکثرت لوگوں کو آزاد کرتا ہے، چنانچہ ام المومنین عائشہ -اللہ ان سے اور ان کے والد سے راضی ہو- سے مروی ہے کہ بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:"کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے:یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟"۔([1175])
ب- صفا اور مروہ پر دعا۔ جب نبی اکرم ﷺ حجۃ الوداع میں صفا پہاڑی کے قریب ہوئے تو یہ پڑھا: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ} "صفا اور مروہ اللہ کے شعائر(مقرر کردہ علامتوں) میں سے ہیں۔"میں(بھی سعی کا) وہیں سے آغاز کررہا ہوں جس( کےذکر) سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا۔"اورآپ ﷺ نے صفاسے(سعی کا) آغاز فرمایا۔اس پر چڑھتے حتیٰ کہ آپ ﷺ نے بیت اللہ کودیکھ لیا،پھر آپ ﷺ قبلہ رخ ہوئے،اللہ کی وحدانیت اورکبریائی بیان فرمائی۔اور کہا:"اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں،وہ اکیلا ہے،ساری بادشاہت اسی کی ہے اورساری تعریف اسی کے لئے ہے۔اکیلے اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں،اس نےاپنا وعدہ خوب پورا کیا،اپنے بندے کی نصرت فرمائی ،تنہا(اسی نے) ساری جماعتوں(فوجوں) کو شکست دی۔"ان (کلمات) کے مابین دعا فرمائی۔آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشادفرمائے تھے۔پھر مروہ کی طرف اترے۔ ۔۔۔حتیٰ کہ آپ ﷺ مروہ کی طرف پہنچ گئے۔آپ ﷺ نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا۔([1176])
ف- جمرہ وسطی اور صغری کو کنکری مارنے کے بعد دعا کرنا۔ سالم بن عبد اللہ V حضرت عبداللہ بن عمر t سے روایت ہے کہ وہ قریب والے جمرے کو سات کنکریاں مارتے اور ہرکنکری کے بعد اللہ أکبر کہتے۔ پھر آگے بڑھتے اور نرم زمین پر پہنچ کرقبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہتے۔ اس طرح دیر تک وہاں کھڑے رہتے۔ پھر درمیان والے جمرے کو کنکریاں مارتے۔ اس کے بعد بائیں جانب نرم وہموار زمین پر چلے جاتے اور قبلہ رو ہوجاتے۔ پھر دیر تک ہاتھ اٹھاتے کر دعا کرتے رہتے اور یوں دیر تک وہاں کھڑے رہتے۔ پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو رمی کرتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ پھر واپس آجاتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔([1177])
کتاب ہذا کی تالیف پیر کی شب ۲۷ ربیع الاول، سن ۱۴۲۴ھ کو مکمل ہوئی، ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہی ہے اور اسی کا انعام واحسان ہے۔
([1]) صحیح مسلم (۲۶۹۹)
([2]) صحیح بخاری (۵۰۲۷)
([3]) اس حدیث کو بخاری (۴۹۳۷) اور مسلم (۷۹۸) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([4]) الأذکار: ص۱۶۰ دار الہدى۔ طباعت سوم ۱۴۱۰ھ
([5]) صحیح مسلم (۱۹۰۵)
([6]) صحیح بخاری : (۱۳۸۶)
([7]) دیکھیں: فتح الباری (۸/۶۹۹- ۶۹۷) طباعت: دار الریان للتراث
([8]) اس حدیث کو بخاری (۵۰۳۱) اور مسلم (۷۸۹) نے روایت کیا ہے۔
([9]) صحیح بخاری (۵۰۳۳)
([10]) فتح الباری:(۸/۶۹۷-۶۹۸)
([11]) اس حدیث کو بخاری (۵۰۳۸) اور مسلم (۷۸۸) نے روایت کیا ہے۔
([12]) اس حدیث کو بخاری (5039) اور مسلم (790) نے روایت کیا ہے۔
([13]) شرح صحیح مسلم: (تیسری جلد- ۶/۶۳) طباعت: دار الفکر
([14]) فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء: (۴/۶۴) طباعت: الرئاسۃ العامۃ لإدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد
([15] ). تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان . (2/112) طباعت: الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء .
([16]) مسند احمد: (۲۲۹۷۱)
([17]) موطأ مالک: (۳۲۰) (۱/۱۳۶) طباعت: دار الکتاب العربی
([18]) اس حدیث کو بخاری (۵۰۳۴) اور مسلم (۷۹۴) نے روایت کیا ہے۔
([19]) اس حدیث کو بخاری (۲۹۷) اور مسلم (۳۰۱) نے روایت کیا ہے۔
([20]) فتح الباری: (۱/۴۷۹)
([21]) اس حدیث کو امام مالک نے موطأ (۴۶۸) میں روایت کیا ہے، یہ صحیفہ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کے نام اہل یمن کے لیے لکھا تھا وہ سنن ، فرائض اور دیات پر مشتمل ہے ، اس کے بارے میں ابن عبد البر فرماتے ہیں : یہ اہل علم کے نزدیک ایک مشہور ومعروف کتا ب ہے، اس کی شہرت اسناد سے بے نیاز کردیتی ہے۔ (التمہید: ۱۷/۳۹۶) طباعت: دار طیبۃ۔ اس حدیث کو البانی نے الإرواء (۱۲۲) میں صحیح قرار دیا ہے اور ذکر فرمایا کہ امام احمد نے اس سے حجت پکڑی ہے، اور اسحاق بن راہویہ نے اسے صحیح کہا ہے (۱/۱۵۸) طباعت: المکتب الاسلامی۔
([22]) دیکھیں: فتوى اللجنۃ الدائمۃ رقم (۵۵۷) (۴/۷۶)
([23]) فتاوی النساء: ص۲۱ طباعت: دار القلم
([24]) فتوی اللجنۃ الدائمۃ: (۲۲۴۵) (۴/۴۰)
([25]) اس حدیث کو امام احمد (۶۲۷) نے روایت کیا ہے اور اس کے محققین نے کہا: اس کی سند حسن ہے اور حافظ کا یہ قول نقل کیا کہ: حق یہ ہے کہ یہ حدیث حسن کے قبیل سے ہے جو قابل حجت ہے (دیکھیں: مسند احمد طباعت: مؤسسۃ الرسالۃ ص۶۱-۶۲) اس حدیث کو ترمذی (۱۳۱) نے بھی روایت کیا ہے اور کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
([26]) اس حدیث کو بخاری (۱۸۳) اور مسلم (۶۷۳) نے روایت کیا ہے۔
([27]) موطأ: (۴۶۹)
([28]) فضائل القرآن: ص۲۱۲۔ تحقیق: ابو اسحاق الحوینی طباعت: مکتبۃ ابن تیمیہ
([29]) الآداب الشرعیۃ لابن مفلح: (۲/۲۸۵) طباعت: مؤسسۃ الرسالۃ
([30]) فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: (۳۷۱۳) (۴/۷۴)
([31]) اس حدیث کو بخاری (۱۱۳۶) اور مسلم (۲۵۵) نے روایت کیا ہے۔
([32]) اس حدیث کو ابوداود (۷۷۵) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں: اس حدیث کو سنن اربعہ کی مؤلفین نے روایت کیا ہے....ترمذی فرماتے ہیں: وہ اس باب میں سب سے مشہور روایت ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم) (۱/۱۳) طباعت: مکتبۃ الحرمین
[33] ان صیغوں کا ذکر سنن ابی داود (785) میں آیا ہے اور البانی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا ہے۔ البتہ ابن عثیمین نے اس روایت کو بطور شاہد کے الشرح الممتع میں ذکر کیا ہے جس سے ان کے نزدیک اس روایت کے ثابت ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ دیکہیں: الشرح الممتع (3/71) ط. مؤسسة آسام .
([34]) الشرح الممتع: (۳/۱۷)
([35]) صحیح مسلم (۴۰۰)
([36]) صحیح بخاری (۵۰۵۵) اور مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں، صحیح مسلم (۸۰۰)
([37]) فتوی نمبر: (۴۳۱۰) (۴/۱۱۸) آپ نے دیکھا کہ ہم نے اس مسئلہ میں تفصیل سے کام لیا ہے کیوں کہ اس پر عمل کرنے والوں کی تعداد بہت ہے۔ حالانکہ اس کا حکم واضح ہے۔ اللہ المستعان
([38]) ص ۱۶۳
([39]) لسان العرب لابن منظور : (۱۱/۲۶۵) طباعت: دار صادر
([40]) صحیح بخاری (۷۷۵) اور صحیح مسلم (۸۲۲) مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([41]) اس قول کو ابن کثیر نے فضائل القرآن (ص۲۳۶) میں روایت کیا ہے اور اس کے محققین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ زائد الفاظ کو بیہقی نے شعب الایمان میں شعبہ سے روایت کیا ہے اور کتاب الفضائل کے محققین نے کہا: اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھیں : حاشیہ (ص۲۳۷)
([42]) الآداب الشرعیۃ : ۲/۲۹۷
([43]) فتح الباری: (۸/۷۰۸)
([44]) صحیح بخاری (۵۰۴۵)
([45]) صحیح بخاری (۷۶۹)
([46])راوی حدیث کے ایک شاگرد کہتے ہیں: اس سے مراد قرآن کریم کو خوش الحانی سے بآواز بلند پڑھنا ہے۔
([47]) صحیح بخاری (۵۰۲۳) اور صحیح مسلم (۷۹۲)
([48]) فضائل القرآن: (۱۷۹-۱۸۰)
([49]) الآداب الشرعیۃ: ۲/۲۹۷
([50]) اس حدیث کو ابوداود (۱۴۶۹) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
([51])اس حدیث کو ابوداود (۱۴۶۸) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔
([52]) فضائل القرآن: ص۱۹۰
([53]) صحیح مسلم (۷۹۳) صحیح بخاری (۵۰۴۸) نے حدیث کا دوسرا ٹکڑا روایت کیا ہے۔
([54]) دیکھیں: فتح الباری: (۸/۷۱۱)
([55]) الآداب الشرعیۃ: ۲/۳۰۱)
([56]) الآداب: (۲/۳۰۲)
([57]) شرح السنۃ للبغوی (۷۲۹) اس کی محققین کہتے ہیں: اس حدیث کو ترمذی نے الشمائل میں اور احمد ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے (۳/۲۴۵) طباعت: المکتب الإسلامی
[58] . اس حدیث کو بخاری نے تعليقاً روایت کیا ہے اور اس پر یہ باب قائم کیا ہے: باب : إذا بكى الإمام في الصلاة۔ ابن حجر فرماتے ہیں: اس اثر کو سعيد بن منصور نے ابن عیینہ سے اور انہوں نے اسماعيل بن محمد بن سعد سے روایت کیا ہے،انہوں نے عبد الله بن شداد سے سنا اور اس میں یہ اضافہ ہے: فجر کی نماز میں ۔( فتح الباری 2/241،242)
([59]) صحیح بخاری (۵۰۵۰)
([60]) الآداب الشرعیۃ: (۲/۳۰۵)
([61]) صحیح بخاری (۵۰۵۰)
([62]) اس روایت کو امام احمد نے المسند (۳۵) میں روایت کیا اور اس کے محققین نے اس کی سند کو حسن قرار دیا (۱/۲۱۱) طباعت: مؤسسۃ الرسالۃ
([63]) صحیح بخاری (۳۷۶۰)
([64]) الأذکار: ص۱۶۲
([65]) اس حدیث کو ابوداود (۱۳۳۲) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([66]) فتاوي اللجنة الدائمة (5413) (4/127)
(([67] شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا انتقال سنہ 1999ء میں ہوچکا ہے۔
([68]) مجلة البحوث الإسلامية . العدد (51) لعام 1418هـ (ص140)
([69]) دیکھیں : الأذكار ص153
([70]) بخاری(5054)
([71]) ابو داود(1391) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح کہا ہے۔
([72]) الآداب الشرعية (2/282)
([73]) الأذكار ص154
([74]) الاجزاء الحديثية. للشيخ بكر أبو زيد-حفظه الله- ص239 ( حاشية ) . ط. دار العاصمة . الرياض. الطبعة الأولى1416هـ
([75]) الاجزاء الحديثية . (مرويات دعاء ختم القرآن) ص290 اگر آپ چاہیں تو اس کا مطالعہ کریں کیونکہ اس مسئلے کے بیشتر روایات کو شیخ نے اس کتاب میں بیان کردیا ہے جنہیں آپ کسی دوسری جگہ شائد نہ پائیں ۔
([76])مسلم (787)
([77]) شرح مسلم ( تیسری جلد-6/62)
([78])مسلم (786)
([79]) بخاری(4526)
([80]) مسلم (772)
([81]) شرح مسلم (تیسری جلد- 6/52)
([82]) ترمذی(3424)، ابن ماجہ(1053) الفاظ اسی کے ہیں، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، برقم(872-1062)
([83]) ابو داود(1414) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے، برقم(1255) ، نیز یہ حدیث مسند احمد(23502)، نسائی(1129)، ترمذی(3425) میں بھی ہے۔
([84]) مسلم(771)، مسند احمد(805)، نسائی(1126)، ترمذی(3421)، ابو داود(760)، ابن ماجہ(1054)
([85]) بخاری(1037، مسلم(577)، مسند احمد(21081)، ترمذی(576)، نسائی(960)، ابو داود(1404)
([86]) بخاری(1077)
([87]) الفتاوى(23/165)
([88]) دیکھئے: الشرح الممتع لابن عثيمين (4/131-133)
([89]) دیکھئے: شيخ بكر أبو زيد کی تصحيح الدعاء،. ص293 . ط . دار العاصمة، المملكة العربية السعودية، پہلی طبعہ 1419هـ
([90]) الآداب الشرعية . لابن مفلح (2/273)
([91]) التمهيد . لابن عبد البر(20/104) ط. دار طيبة .
([92]) فتوى (8852) (4/122)
([93]) فتوى رقم (2078) (4/30-33) . ہم اس فتوے کو پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ بہت سے فوائد ہیں۔
([94]) بخاری(3326) ، مسلم (2841)
([95]) باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون( باب: اس بات کا بیان کہ جنت میں سوائے مومنوں کے کوئی داخل نہ ہوگا) (54)
([96]) مسلم رقمِ حدیث (2162)
([97]) الآداب الشرعية (1/356) ط. مؤسسة الرسالة.
([98]) امام نووي کی شرح صحيح مسلم (2160)ط. دار الفكر ، فتح الباري رقمِ حدیث(6231) ط. دار الريان . والآداب الشرعية
([99]) ابو داود(5210)۔ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ نیز اسے ابن عبد البر نے نبی اکرم اکرم ﷺ تک اپنی سند سے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور اس کا کوئی معارض نہیں۔ اس کی سند میں سعید بن خالد الخزاعی ہے؛ یہ مدنی راوی ہیں۔ ان کے متعلق ابن عبد البر نے کہا: بعض محدثین کے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ ایک جماعت نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔(التمھید: 5/290) ط۔دار طیبہ۔ جبکہ ارواء الغلیل میں شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور امام نیساپوری کا یہ قول نقل کیا ہے: یہ حدیث حسن ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس حدیث کے کئی طرق(سندوں) کو ذکر کیا ہے جن سے اسے تقویت مل جاتی ہے۔ اس کے بعد آخر میں فرماتے ہیں: غالبا یہ حدیث ان طرق سے مل کر قوی ہوجاتی ہے اور حسن بن جاتی ہے، بلکہ یہی راجح ہے، واللہ اعلم۔(الارواء، حدیث نمبر: 778)۔ تنبیہ: میں نے اس موضوع میں طوالت سے کام لیا ہے کیونکہ جب کسی جماعت کا ایک فرد سلام کا جواب دیدے تو پوری جماعت سے گناہ کے ساقط ہونے کا انحصار اسی حدیث کی صحت پر ہے، لہذا اس امر کی معرفت ضروری ہے۔واللہ الموفق۔
([100]) ترمذی (2689) امام ترمذٰی نے کہا یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح ہے۔ نیز اسے بخاری نے الأدب المفرد (986) میں اور مسند احمد (19446) اور دارمی(2640) نے بھی روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([101]) التمهيد (5/293)
([102]) ترمذی رقم (2722) اور اس حديث کو انہوں نے حسن صحيح کہا ہے۔
([103]) سنن ابو داود رقمِ حدیث(5209) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح کہا ہے۔
([104]) بخاری (6244)
([105]) یعنی اور ان میں سے بعض نے نہ سنا ہو اور آپ ﷺ نے سبھوں کو سلام کیا ہو۔ یہ بات ابن حجر نے فتح الباري(11/29) میں کہی ہے۔ اور امام نووی کا کلام ریاض الصالحین میں موجود ہے: (باب كيفية السلام ص291) ط. دار عالم الكتب. اگیارہویں طبعہ 1409هـ
([106]) فتح الباري رقمِ حدیث (6244) (11/29) . نیز دیکھئے: زاد المعاد (2/418) ط. مؤسسة الرسالة
([107]) الأدب المفرد (1005) اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح الإسناد کہا ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی یہی بات کہی ہے(11/18) . صحيح الأدب المفردص385
([108]) زاد المعاد (2/419)
([109]) فتح الباري (11/21)
([110]) الأذكار ص 354،355، میں نے اس باب بکثرت نقولات زکر کی ہیں کیونکہ اس مسئلے میں بہت سے لوگ لاپرواہی برتتے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان کو ان چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے تاکہ اسے گناہ نہ ہو۔
([111]) بخاریرقمِ حديث (12) ، مسلم رقمِ حديث (39).
([112]) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے السلسلة الصحيحة (648)میں ذکر کیا ہے اور یہ مسند مسند احمد میں بھی ہے:(1/387)
([113]) مسند احمد (1/407،408) علامہ الباینی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے، دیکھئے الصحيحة رقم(647)
([114]) الأذكار ص370
([115]) بخاری (6232)، مسلم (2160)
([116]) (6231)
([117]) فتح الباري (11/19)
([118]) فتح الباري (11/19)
([119]) بخاری (6077)
([120]) بخاری فی الأدب المفرد (994) . اس کی سند کو ابن حجر نے الفتح (11/18). میں صحیح قرار دیا ہے۔ مجھے شیخ البانی کی صحيح الأدب المفرد اور ضعیف الادب المفرد میں یہ حدیث نہیں ملی۔
([121]) ابو داود (5200) نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے جن میں ایک مرفوع جبکہ دوسری موقوف ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے کہا: یہ موقوفا اور مرفوعا دونوں صحیح ہے۔
([122]) الآداب الشرعية (1/352)
([123]) زاد المعاد 2/411،412)
([124]) بخاری(6248)
([125]) بخاری(6247)، مسلم (2168) الفاظ اسی کے ہیں۔
([126]) شرح صحيح مسلم للنووي (ساتویں جلد / تیرہواں حصہ /ص123) ، وفتح الباري(11/35)
([127]) مسلم (2055) یہ ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔
([128]) مسلم (2167)
([129]) الآداب الشرعية (1/391)
([130]) الأذكار ص366-367
([131]) بخاری(6258)، مسلم(2163)
([132]) أحكام أهل الذمة .(1/425-426) رمادي للنشر . ط.الأولى 1418هـ. مزید دیکھیں: فتاوي العقيدة لابن عثمين ص235-236. اور السلسلة الصحيحة للالبانی(2/327-330)
([133]) بخاری (6254) ، مسلم (1798)
([134]) .شرح صحيح مسلم (چھٹی جلد/بارہواں حصہ / ص125)
([135]) الأدآب الشرعية (1/390)
([136]) الأذكار للنووي ص367
([137]) فتاوي العقيدة. ص237 . ط. دار الجيل .
([138]) فتح الباري (11/16)
([139]) ترمذی (2697) الفاظ اسی کے ہیں ، مسند احمد (27014) ، ابن ماجہ (3701)، دارمی(2637)، بخاری في الأدب المفرد (1003 ، 1047) . علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح کہا ہے۔
([140]) ابو داود(5204)
([141]) الأذكار ص 356
([142]) فتح الباري (11/16)
([143]) مسلم (540)
([144]) ابو داود (925). علامہ البانی نے اسے صحيح کہا ہے.صحيح أبي داود (818).
([145]) ابو داود (926) ، یہ بعینہ وہی حدیث ہے جو گزر چکی (540)، میں نے ابو داودکی روایت اس لئے بیان کی کیونکہ اس میں ہاتھ کا تذکرہ ہے۔
([146]) ابو داود 927) . علامہ البانی نے اسے حسن صحيح کہا ہے. صحيح أبي داود رقم (820)
([147]) عون المعبود . شرح سنن ابو داود ( دوسری جلد/ تیسرا حصہ/ ص138) ط. دار الكتب العلمية
([148]) فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ( 4/83)
([149]) مسلم (370)
([150]) شرح مسلم للنووي (دوسری جلد/ چوتھا حصہ/ ص55)
([151]) ابو داوداور الفاظ اسی کے ہیں (17) ۔ اس کی کسی سند کے متعلق ابن مفلح نے کہا: اس کی سند جید ہے: (الآداب الشرعية (1/355) . نیز یہ مسند احمد 18555، نسائی (38) ، ابن ماجہ (350) ، دارمی (2641) میں بھی ہے۔
([152]) الأدب المفرد. للبخاري (1055) .نیز اسے ابن أبي شيبة نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند کو حافظ ابن حجر نے حسن کہا ہے: (فتح الباري11/22) اسی طرح اس کی سند کو علامہ البانی نے صحيح الأدب المفرد میں حسن قرار دیا ہے.
([153]) تفسير ابن كثير (3/305) ط. دار الدعوة
([154]) فتح الباري(11/22)
([155]) الأدب المفرد (1095) علامہ البانی نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
([156]) تفسير ابن كثير (3/305)
([157]) الأدب المفرد . (1094)، اسے علامہ البانی نے صحیح کہا ہے۔
([158]) ابو داود. (5231) ، علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور یہ مسند مسند احمد (22594) مین بھی ہے۔
([159]) بخاری (6253)
([160]) حافظ ابن حجر نے کتاب المناقب کی جانب اس کی نسبت کی ہے لیکن مجھے (وعلیک وعلی جبریل السلام) کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت نہیں ملی، دیکھیں: فتح الباري(11/41) ، (7/165)
([161]) فتح الباري(11/41)
([162]) الآداب الشرعية (1/393)
([163]) بخاری(7939)
([164]) زاد المعاد 2/413،414)
([165]) بخاری(934)
([166]) فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء(8/243)
([167]) فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء (8/246)
([168]) الأذكار. ص362
([169]) الأذكار . ص364
([170]) فتاوي العقيدة. ص 614
([171]) بخاری(4418)، آپ نے غور کیا ہوگا کہ میں نے شواہد کو بیان کرنے میں طوالت سے کام لیا ہے، ایسا اس لئے تاکہ یہ بیان کرسکوں کہ سلام ترک کرنا اور قطع تعلق ہوجانا دونوں ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تحت آتے ہیں۔
([172]) ترمذی(2861) امام ترمذٰ نے اسے حسن کہا ہے. نیز یہ ابو داود(5208) بخاری فی الأدب المفرد(1008). والطحاوي في مشكل الآثار (1350) ط. مؤسسة الرسالة میں بھی ہے اور اسے علامہ البانی نے حسن صحیح کہا ہے۔
([173]) غور کریں کہ ہم نے سلام کے باب کو اجازت طلب کرنے کے باب پر مقدم رکھا ہے کیونکہ اجازت طلبی کی ابتداسلام سے کرنا مستحب ہے۔ نیز احادیث کے ظاہری معنوں پر عمل کرتے ہوئے بھی، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے (کہو: السلام علیکم ، کیا میں داخل ہوجاوں؟) اس کی تخریج آرہی ہے۔ اسی طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کی اتباع کرتے ہوئے بھی میں نے ایسا کیا ہے۔
([174]) مسند احمد (14999) ،ابو داود(5176 ) الفاظ اسی کے ہیں، ترمذی(2710)۔ علامہ البای نے اسے صحيح کہا ہے۔
([175]) مسند احمد (22617) ، و ابو داود،الفاظ اسی کے ہیں 5177. وقال الالبانیصحيح
([176]) بخاری فی الأدب المفرد . علامہ البانی نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے. (صحيح الأدب المفرد ص420)۔ ابن عبد البر نے اپنی سند سے اسے روایت کیا ہے اس سے پہلے کہا ہے: یہ حدیث اجازت طلب کرنے کی کیفیت کے متعلق یہ سب سے عمدہ حدیث ہے...(التمهيد 3/202)
([177]) مسند احمد (17239) ، ابو داودالفاظ اسی کے ہیں (5186). علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے. اور بخاري نے الأدب المفرد 1078 ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: جب نبی ﷺ کسی دروازے پر اجازت طلب کرتے تو اس کی طرٖ رُخ کرکے نہ کھڑے ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں رہتے، اگر اجازت ملتی تو ٹھیک ورنہ لوٹ جاتے۔ علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
([178]) ابو داود (5174) علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([179]) مسلم (2158).
([180]) بخاری(6888)، مسلم (2158)
([181]) بخاری(6242)، مسلم (2157) .
([182]) بخاری فی صحيحه 6245 ، مسلم 2153 . یہ ایک حدیث کا حصہ ہے جس میں عمر بن خطاب اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کے درمیان پیش آئے ایک واقعی کا بیان ہے۔
([183]) انظر فتح الباري (11/29) رقمِ حدیث 6245 ، مسلم بشرح النووي (ساتویں جلد- چودھواں حصہ / 108) رقمِ حدیث 2153.
([184]) التمهيد لا بن عبد البر (3/192)
([185]) بخاری (6250) مسلم (2155)
([186]) بخاری فی الأدب المفرد۔ اس کے شارح کہتے ہیں: اسے مسلم نے کتاب الصلاۃ میں روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں: مسلم نے اسے مسافروں کی نماز اوراسے قصر کرنے کی کتاب/باب قرآن کو خوبصورت آواز میں پڑھنا مستحب ہے، میں عبداللہ بن بریدہ عن ابیہ کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک عبد اللہ بن قیس یا ابو موسی اشعری کو آل داود کی بانسریوں میں سے ایک بانسری عطا کی گئی ہے۔
تنبیہ: یہ حدیث مجھے شیخ البانی کی صحیح اور ضعیف الادب المفرد میں نہیں ملی، ممکن ہے کہ ناسخ سے چھوٹ گئی ہو، واللہ اعلم۔
([187]) بخاری (357) ، مسلم (336)
([188]) نیز فرمایا: ام فلاں والی حدیث کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا۔ اسی طرح ابو قتادہ اور ابو ہریرہ والی احادیث بھی ہیں۔ اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے: میں فلاں ہوں جو اس نام سے معروف ہوں، واللہ اعلم۔. ( شرح مسلم رقمِ حدیث 2155)
([189]) بخاری (1462)
([190]) بخاری فی الأدب المفرد (1080)، اسے علامہ البانی نے صحیح کہا ہے۔ نیز امام حاکم کی کتاب علوم الحدیث میں یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کے طریق سے ہے۔ جیسا کہ ابن حجر نے فتح الباري (11/38) میں کہا ہے۔
([191]) فتح الباري (11/38) رقمِ حدیث 6250
([192]) الآداب الشرعية (1/73).
([193]) تفسير ابن كثير (3/281) سورة النور آية 29
([194]) تفسير ابن كثير (3/281)
([195]) ابو داود(5189) . علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([196]) ابو داود (5190) علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([197]) يیکھئے: شرح سنن ابو داود رقم الحدیث (5189،5190) ، وشرح الأدب المفرد رقم الحدیث(1074)
([198]) علامہ البانی نے سلسلته الصحيحة میں کہا : اسے أبو الشيخ نے تاريخ اصبهان (113) میں روایت کیا ہے ،السلسلة (1/304) رقم(182)
([199]) السلسلة الصحيحة (1/306)
([200]) بخاری فی الأدب المفرد (1059)، علامہ البانی نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
([201]) بخاری فی الأدب المفرد (1060)، علامہ البانی نے اسے حسن الاسناد کہا ہے۔ امام مالک نے اپنے موطا میں صفوان بن سلیم عن عطا کی سند سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی آدمی نے سوال کیا: اے اللہ رسول ﷺ کیا میں اپنی والدہ سے اجازت طلب کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: میں ان کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تب بھی اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا: میں ان کی خدمت کرتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: پھر بھی اجازت طلب کرو، کیا تم انہیں عریاں دیکھا چاہتے ہو؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو اجازت طلب کیا کرو۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں اس حدیث کی ان الفاظ کے ساتھ کوئی صحیح سند نہیں جانتا، جبکہ یہ مرسل صحیح ہے اور اس کے معنی کے صحیح ہونے پر اجماع ہے۔(التمہید 16/229)
([202]) بخاری فی الأدب المفرد (1063)، علامہ البانی نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
([203]) اسے ابن كثير نے اپنی تفسير (3/280) میں بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
([204]) الآداب الشرعية (1/424،425)
([205]) تفسير ابن كثير (3/303) سورة النور آية (85)، ابن کثیر اس کے بعد کہتے ہیں: یہ سند ابن عباس تک صحیح ہے۔ نیز ابو داودکی ایک روایت(5192) میں یہ الفاظ ہیں: عراق کے کسی جماعت نے کہا: اے ابن عباس! آپ اس آیت کا کیا معنی لیتے ہیں۔۔۔الحدیث۔ علامہ البانی نے اسے حسن الاسناد کہا ہے(موقوف)۔ اور ابن عبد البر نے اپنی سند سے ابن عباس کی اسی سیاق وسباق والی روایت بیان کی ہے جو ابوداود میں ہے۔(التمهيد 16/233)
([206]) اس حدیث کو امام مالک نے عن عطاء بن عبداللہ الخراسانی کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔۔الحدیث(1685)۔ ابن عبد البر تمہید میں فرماتے ہیں: یہ-یعنی یہ حدیث- اپنے تمام حسن سندوں سے مل کر متصل ہے، اس کے بعد اس کی بعض سندوں کو ذکر کیا ہے۔(التمہید: 21/12)
([207]) ابو داود(5212) علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے. ترمذی(2727) ، ابن ماجہ (3703)
([208]) بخاری(6263)
([209]) اسے امام بخاری نے کتاب الاستئذان ، باب المصافحہ میں تعلیقا بیان کیا ہے اور یہ کتاب المغازی میں حضرت کعب کے قصے میں موصولا بھی مروی ہے(4418)
([210]) ابو داود(5213) بخاری فی الأدب المفرد (967)،اور الفاظ اسی کے ہیں۔ نیز یہ جملہ ’’ اسی نے سب سے پہلے مصافحہ کی ابتدا کی‘‘ انس رضی اللہ عنہ کی جانب سے مدرج جملہ ہے، یہ بات علامہ البانی نے کہی ہے۔ اور اس بات کی وضاحت امام مسند احمد کی روایت سے بھی ہوجاتا ہے(3/223،155)۔ دیکھئے السلسلہ الصحیحہ (527) (2/50)۔
([211]) بخاری فی الأدب المفرد(968)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
([212]) الادب المفرد کے شارح نے یہ بات فیض الباری(4/412) سے نقل کی ہے، دیکھئے شرح الادب (2/432) . المكتبة السلفية۔
([213]) شرح الأدب المفرد( 2/430-431)
([214]) رقم الحدیث(966)۔ اس پر امام بخاری نے یہ باب قائم کیا ہے: بچوں سے مصافحہ کرنے کا بیان۔ نیز علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن الاسناد کہا ہے۔
([215]) حديث (5288)
([216]) فتح الباري(8/505)
([217]) مسند احمد (26466) ، ترمذی(1597) ، نسائی (4181) ، ابن ماجہ(2874) ، مالک في الموطأ (1842)
([218]) التمهيد (12/243)
([219]) السلسلة الصحيحة (2/53)
([220]) ترمذی(2490) ، ابن ماجہ(3716)، اس کے تمام طرق کے ساتھ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، فرمایا: یہ حدیث ان طریق کی وجہ سے صحیح ہے، بالخصوص جبکہ اس کے شواہد موجود ہیں، اس کے بعد ان شواہد کو بھی ذکر کیا۔ السلسلہ الصحیحہ (2485) (5/635)
([221]) یہاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے اس ققل کی جانب اشارہ کیا ہے (اور مکروہ ہے کہ۔۔۔۔۔ جس سے مصافحہ کیا ہے اس کے ہاتھ کھینچنے سے پہلے خود ہی اپنا ہاتھ کھینچ لے)۔ اسے ابن المفلح نے الآداب میں ذکر کیا ہے(2/251)
([222]) الآداب لابن مفلح (2/251)
([223]) حاشية السنن ( ) کچھ تصرف کے ساتھ۔
([224]) مسلم (413)س
([225]) شرح رياض الصالحين (1/260) . دار الوطن . ط الأولى 1415هـ
([226]) التمهيد (12/52)
([227]) اسے امام بخاری نے کتاب الاستئذان ، باب المصافحہ میں تعلیقا بیان کیا ہے اور یہ کتاب المغازی میں حضرت کعب کے قصے میں موصولا بھی مروی ہے(4418)
([228]) بخاری فی الأدب المفرد (977). علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([229]) سنن ابو داود (5229). علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([230]) شرح ابن قيم على سنن ابو داود ( عون المعبود 14/95) ط.دار الكتب العلمية .
([231]) فتح الباري (11/56)
([232]) بخاری فی الأدب المفرد (946)،معمولی تصرف کے ساتھ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([233]) بخاری(6262)
([234]) مجموع الفتاوي (1/374-375)
([235]) فتح الباري (11/56)
([236]) السلسلة الصحيحة (160) (1/251)
([237]) ترمذی (2728) ابن ماجہ(3702) وغيرهما. نیز علامہ البانی نے سلسلته الصحيحة (160) (1/248) میں بھی اسے ذکر کیا ہے۔
([238]) بخاری فی الأدب المفرد(970)، علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔ نیز ابن حجر نے اس کی نسبت امام مسند احمد، ابو یعلی اور بخٓری یی جانب کی ہے(فتح الباری 1/209)
([239]) الآداب لابن مفلح (2/247)
([240]) الآداب (2/248)
([241]) ترمذی (2728) ابن ماجہ(3702) وغيرهما. نیز علامہ البانی نے سلسلته الصحيحة (160) (1/248) میں بھی اسے ذکر کیا ہے۔
([242]) مجموع الفتاوى (1/377)
([243]) مسلم(479)، مسند احمد(1903)، نسائی(1045)، ابو داود(876)، ابن ماجہ(3899)،دارمی(1325)
([244]) مسند احمد(18913)، ابن ماجہ(1853)، الفاظ اسی کے ہیں، نیز علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے( 1515)۔
([245]) اسے مسلم نے (۲۵۶۷) احمد نے (۹۰۳۶) اور بخاری نے الادب المفرد (۳۵۰) میں روایت کیا ہے۔
([246]) اسے بخاری (۲۱۳۸) ‘ احمد (۲۵۰۹۸) اور ابوداود (۴۰۸۳) نے روایت کیا ہے۔
([247]) الدارمی (۵۷۰)
([248]) اسے مسلم (۶۷۳) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں‘ نیز اسے احمد ‘ ابوداود (۵۸۲)‘ ترمذی (۲۳۵)‘ نسائی (۷۸۰) ‘ ابن ماجہ (۹۸۰) نے بھی روایت کیا ہے اور قوسین کے اندر جو جملے لکھے گئے ہیں وہ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([249]) شرح صحیح مسلم للنووی: (جلد ۳/۵/۱۴۲) ح:۶۷۳
([250]) اسے ابن حبان نے اپنی صحیح (۶۲۰) میں روایت کیا ہے‘ الآداب الشرعیۃ کے محققین اس حدیث کے تعلق سے لکھتے ہیں: اس کی سند صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ دیکھیں: حاشیۃ الآداب : (۳/۵۴۱)
([251]) (باب هل يزور صاحبه كل يوم، أو بكرة وعشية ؟) . كتاب الأدب . باب 64
([252]) فتح الباری: (۱۰/۵۱۴) ح:۶۰۷۹
([253]) الفتح: (۱۰/۵۱۵) ح: ۶۰۷۹
([254]) . الآداب الشرعية (3/524)
([255]) . الذاريات (24-27)
([256]) بخاری (۱۲۴۰) ‘ مسلم (۲۱۶۲)‘ احمد (۲۷۵۱۱)‘ ترمذی (۲۷۳۷)‘ نسائی (۱۹۳۸) ‘ ابو داود (۵۰۳۰) ‘ ابن ماجہ (۱۴۳۵)
([257]) بخاری (5179)، مسلم(1429)، أحمد(4698)، ترمذی (1098)، ابو داود(3736)، ابن ماجہ(1914)، مالك(1159)، الدارمی(2205)
([258]) بخاری(5177)، مسلم(1432)، أحمد(10040)، ابو داود(3742)، ابن ماجہ(1913)، مالك(1160)
([259]) القول المفید على کتاب التوحید: ۳/۱۱۱-۱۱۳ معمولی تصرف کے ساتھ
([260]) القول المفید على کتاب التوحید: ۳/۱۱۳
([261]) مسلم(1431)، احمد(7691)، ترمذی(780)، ابو داود(2460)
([262]) احمد (۹۹۷۶)
([263]) ابن حجر لکھتے ہیں: اس حدیث کو اسماعیل بن ابی اویس نے اپنے والد سے اور انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے ۔ (فتح الباری: ۴/۱۸۲) البانی نے کہا: حسن۔ اس حدیث کو بیہقی نے بھی روایت کیا ہے: (۴/۲۷۹)‘ نیز دیکھیں: إرواء الغلیل: (۷/۱۱) ح: ۱۹۵۲
([264]) شرح صحیح مسلم (۹/۱۹۷-۱۹۸)
([265]) بخاری(6137)، مسلم(1727)، احمد(16894)، ترمذی (1589)، ابو داود(3752)، ابن ماجہ(3676)
([266]) بخاری(6135)، مسلم(48/كتاب اللقظۃ) مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں،احمد(26620) ترمذی(1967)، ابو داود(3748)، ابن ماجہ(3672)، مالك(1728)، دارمی(2035)
([267]) دیکھیں: شرح مسلم (۱۲/۲۶)
([268]) غذاء الألباب للسفارینی : (۲/۱۵۹)
([269]) کشف المشکل من حدیث الصحیحین: (۴/۸۸)
([270]) بخاری (۶۱۷۶) مسلم (۱۷)
([271]) بخاری(5434)، مسلم(2036)، ترمذی(1099)
([272]) اس مسئلہ میں نووی نے مخالفت کی ہے ‘ چنانچہ وہ کہتے ہیں: (مدعو شخص کے ساتھ اگر کوئی بن بلایا آدمی چل پڑے تو اسے روکنا چاہئے اور اجازت نہیں دینی چاہئے ...) شر ح مسلم ح: ۲۰۳۶
([273]) فتح الباری: ۹/۴۷۱-۴۷۲ ‘ ح: ۵۴۳۴
([274]) صحیح بخاری (۷۲۹۳)‘ یہ حدیث مرفوع کے حکم میں کیوں کہ صحابی کا یہ کہنا کہ: ہمیں منع کیا گیا (مرفو ع کے حکم میں آتا ہے) ‘ جیسا کہ علم الاصول کا مسلمہ قاعدہ ہے۔
([275])مسلم (2059)، ابوداود (13810)، ترمذی(1820)، ابن ماجہ(3254)، دارمی(2044)
([276]) ابوداود (۳۷۵۴) ‘ البانی نے کہا کہ: یہ حدیث صحیح ہے۔
([277]) فتح القدیر: (۴/۳۴۱)
([278]) فتح القدیر : (۴/۳۴۰) معمولی تصرف کے ساتھ
([279]) یہ بات حضرت جبرئیل نے کہی۔
([280]) مسلم (۳۰۰۳) اس حدیث کو بخار ی نے تعلیقاً کتاب الوضوء ‘ باب دفع السواک إلى الأکبر میں روایت کیا ہے ‘ یہ حدیث ابو عوانہ کتاب (المستخرج) میں موصولا مروی ہے‘ اسے ابن حجر نے فتح الباری (۱/۴۲۵) میں ذکر کیا ہے۔
([281]) اسے بخاری نے الأدب المفرد ( ۳۵۳) میں روایت کیا ہے اور البانی نے کہا : یہ حدیث صحیح ہے۔ یہ حدیث دوسرے طرق سے احمد (۶۶۹۴) اور ترمذی (۱۹۲۰) میں مروی ہے۔
([282]) اسے بخاری نے الأدب المفرد (۳۵۷) اور ابوداود (۴۸۴۳) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
([283]) بخاری (5620)، مسلم(2030)، احمد(22317)، مالك (1724)
([284]) التمہید : (۶/۱۵۵)
([285]) اسے ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حافظ نے کہا: اس کی سند قوی ہے‘ فتح الباری: (۱۰/۸۹)
([286]) اسے ابوداود (۳۸۵۴) نے روایت کیا اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ نیز احمد (۱۱۷۶۷) اور دارمی (۱۷۷۲) نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ احمد اور دارمی کے الفا ظ یہ ہیں :( اور فرشتے تمہارے اوپر نازل ہوں) ۔ اسے ابن ماجہ (۱۷۴۷) نے بھی روایت کیا ہے ‘ راوی حدیث: عبد اللہ بن الزبیر ‘ ان کے الفاظ بھی ابوداود کے الفاظ جیسے ہیں۔
([287]) دیکھیں: الآداب الشرعیۃ: ۳/۲۱۸
([288]) مسلم (۲۰۵۵)‘ احمد (۲۳۳۰۰) ‘ ترمذی (۲۷۱۹)
[289] . مسلم(2042)، احمد(17220) ، ترمذی(3576)، ابو داود(3729)، دارمی(2022)
([290]) الآداب الشرعیۃ: ۳/۲۲۷
([291]) المجادلۃ (11)
([292]) ابوداود(4855)،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مسند احمد(9300)، اور ترمذی(3380) میں معمولی فرق کے ساتھ ہے۔ چنانچہ مسند احمد اور ترمذی میں ہے: لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں، اور نہ اپنے نبی اکرمﷺ پر (درود) بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت وندامت کا باعث بن سکتی ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، اور چاہے تو انہیں بخش دے۔ (اور نہ اپنے نبی اکرمﷺ پر (درود) بھیجیں) یہ قول دراصل تعمیم کے بعد تخصیص ہے۔ اور (ترۃ) کا معنی پیچھے رہ جانا، ملامت وحسرت ہاتھ لگنا اور نقصان ہونا۔(دیکھئے تحفة الأحوذي بشرح جامع ترمذی . لعبد الرحمن المباركفوري- دار الكتب العلمية -الطبعة الأولى 1410هـ (9/227) )
([293]) عون المعبود . ساتویں جلد (13/138)
([294]) بخاری(6408)، مسلم (2689) ، مسند احمد(7376)، ترمذی(3600)۔
([295]) ابوداود(4833) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، مسند احمد(7968)، ترمذی(2378)
([296]) بخاری(5534)، مسلم(2628)، مسند احمد(19127)
([297]) یہ نقولات شرح أصول واعتقاد أهل السنة والجماعة لللالكائي . (دار طيبة - الطبعة الرابعة 1416هـ ) (1/150-156) سے ہیں۔
([298]) ابوداود(5208) علامہ البانی رحمہ الل نے اسے حسن صحيح کہا ہے. ترمذی(2706) الفاظ اسی کے ہیں۔
([299]) مسلم(2179) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(7514)، ابوداود(4853)، ابن ماجہ(3717)، دارمی(2654)
([300]) بخاری(6270) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2177)، مسند احمد(4645)، ترمذی(2750)، ابوداود(4828)، دارمی(2653)
([301]) فتح الباري (11/65)
([302]) مسند احمد (5542)
([303]) شرح صحيح مسلم . ساتویں جلد (14/133)
([304])مسلم(430)، مسند احمد(20519)، ابوداود(661)، نسائی(816)، ابن ماجه( 992)
([305]) بخاری(615)، مسلم (437)، مسند احمد (7185)، ترمذی(225)، نسائی(540)،موطا مالك(151)
([306]) مسند احمد (15182)، ترمذی(513)، وابن ماجة(1126) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعيف کہا ہے۔
([307]) مسند احمد(17221)نسائی(1399)ابوداود(1118)ابن ماجه(1125)علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابوداود اور ابن ماجہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے(923)۔
([308])مسلم (49)، مسند احمد(10689)، ترمذی(2172)، نسائی(5008)، ابوداود (1140)، ابن ماجه(1275)
([309]) مجموع الفتاوى (22/189-191)
([310]) المجادلة (11)
([311]) تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان (7/316)
([312]) ابوداود(4845) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح کہا ہے. مسند احمد(6960)، ترمذی(2752)
([313]) ساتویں جلد(13/133)
([314]) ابوداود(4825) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ مسند احمد(20423)، ترمذی(2725)
([315]) لسان العرب . لابن منظور (15/308) مادة (نجا)
([316]) دوسری روایات میں یہ لفظ ہے ( لا يتناجى ) .
([317]) بخاری(6288)، مسلم(2183)، مسند احمد(4550)، ابوداود(4851) الفاظ اسی کے ہیں، ابن ماجه(3776)، موطا مالك(1856)
([318]) مسند احمد (4650)
([319]) بخاری(6290) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2184)، مسند احمد(3550)، ترمذی(2825)، ابوداود(4851)، ابن ماجه(3775)، دارمی(2657)
([320]) موطا مالك (1856) ، مسند احمد (5477) مختصراً.
([321]) الآنك: پگھلا ہوا سیسہ، دیکھئے فتح الباری (12/447))
([322]) بخاری(7042) اور الفاظ اسی کے ہیں ، مسند احمد(1869)، ترمذی(1751)، ابوداود(5024)
([323]) دیکھئے فتح الباري (12/447)
([324]) دیکھئے عون المعبود. المجلد السابع (13/135)
([325]) مسند احمد(18960) ، ابوداود(4848) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
([326]) ابوداود(4821) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے، مسند احمد(8753) .
([327]) مسند احمد(8753)
([328]) ابن ماجه(3790) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (3014)
([329]) امام احمد کے علاوہ اور کس نے اسے روایت کیا ہے یہ دیکھنے کے لئے دیکھئے :السلسلة الصحيحة(838)۔
([330]) مسلم (2099)، مسند احمد(13766)، ترمذی(2767)
([331]) بخاری(5969) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم (2100)، مسند احمد(15995)، ترمذی(2765)، نسائی(721)، ابوداود(4866)، موطا مالك(418)، دارمی(2656)
([332]) دیکھئےفتح الباري(1/671)
([333]) مسلم بشرح النووي . ساتویں جلد (14/65)
([334]) بخاری(475)
([335]) ابن ماجه(4193) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے (3400). دیکھئے الصحيحة (2/18) رقم (506)
([336]) لسان العرب میں ہے: التجشؤ: معدہ کے بھر جانے پر اس کا سانس لینا (یعنی معدہ سے ہوا خارج ہونا، (نیز کہتے ہیں) جشأت المعدۃ وتجشأت: تنفست ( یعنی معدہ کا ڈکار لینا) ان افعال کا اسم الجشاء ہے۔ (1/48) مادۃ:جشأ
([337]) اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے (2478) اور کہا: یہ حديث حسن غريب ہے، نیز اسے ابن ماجه(3350) نے بھی روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے (3413)، اور امام بغوی نے شرح السنة(4049) میں حسن قرار دیا ہے۔ شرح السنہ کے الفاظ یہ ہیں: ( أقصر من جشائك ) . یعنی ہم سے اپنے ڈکار کو دور رکھو۔
([338]) مسند احمد(10043)، یہی روایت ابوداود میں بھی عبد الله بن عمرو بن العاص کے طريق سے مروی ہے(4857) ،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے (تین مرتبہ کے الفاظ کے علاوہ)صحیح قرار دیا ہے۔
([339]) (3433) نیز امام ترمذٰ نے کہا: یہ حديث حسن صحيح غريب ہے۔
([340]) نسائی(1344) الفاظ اسی کے ہیں، نیز ابن حجر نے کہا کہ اس کی سند قوي ہے: الفتح(13/555)، مسند احمد(23965)
([341]) اس کا حوالہ آگے آرہا ہے۔
([342]) بخاری(6477) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2988)، مسند احمد(8703)
([343]) (8967)
([344]) بخاری(6478) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(8206) اور امام مالک (1849) نے امام بخاری اور مسند احمد کی روایت سے ذرا مختلف روایت کیا ہے۔
([345]) ترمذی(2616) امام ترمذی نے اسے حسن صحيح کہا ہے۔ مسند احمد(21511)، ابن ماجہ(3973)
([346]) امام بخاري نے اسے سهل بن سعد کے طريق سے روایت کیا ہے(6474) اور احمد(22316)، ترمذی(2408) نے الفاظ کے ذرا کے ساتھ روایت کیا ہے۔.
([347]) مسند احمد(11498) الفاظ اسی کے ہیں، مسند مسند احمد کے محققین نے کہا: اس کی سند حسن ہے(18/402) (11908) . نیز اسے ترمذي(2407) نے بھی روایت کیا ہے۔
([348]) دیکھئے لسان العرب (5/150) مادة (كفر)
([349])
([350]) تحفة الأحوذي (7/75) کچھ تصرف کے ساتھ۔
([351]) بخاری(6018) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(47)، مسند احمد(75751).
([352]) فتح الباري(10/461)
([353]) بخاری(2989)الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1009)، مسند احمد(27400)
([354]) بخاری(6563) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1016)، مسند احمد(17782) آخری حصہ کے علاوہ۔ نسائی(2553)۔
([355]) بخاری(5975)، مسلم(593) كتاب الأقضية، مسند احمد(1781)، دارمی(2751)
([356]) مسلم بشرح النووي . چھٹی جلد(12/10)
([357]) لسان العرب میں ہے: الثرثار المتشدق یعنی بہت بولنے والا۔۔۔الثرثرۃ فی الکلام : بکثرت بولنا اور الفاظ کو بار بار دہرانا۔۔۔۔۔جیسے آپ کہتے ہیں: رجل ثرثار(باتونی آدمی) اور امرأۃ ثرثارۃ(باتونی عورت) اور قوم ثرثارون(باتونی قوم)۔ نیز نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ لوگ باتونی اور زبان دراز تکبر کرنے والے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو بلاوجہ اور حق سے روگردانی کرتے ہوئے بہت بولتے ہیں۔(4/102) مادۃ (ثرر)
([358]) ترمذی نےطريق جابر(2018) سے روایت کیا ہے اور الفاظ اسی کے ہیں، نیز ترمذي کہتے ہیں: یہ حديث حسن غريب ہے، اور مسند احمد نے طريق ابو ثعلبة الخشني (17278) سے روایت کیا ہے۔
([359]) یہ تمام منقولات الآداب الشرعية لابن مفلح (1/66-67) سے معمولی تصرف کے ساتھ منقول ہیں۔
([360]) غیبت: نبی اکرم ﷺ نے اس کی تعریف یوں بیان کی ہے: اپنے بھائی کا اس طرح تذکرہ جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ اس کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ انہوں (صحابہ) نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول خوب جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کا اس طرح تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔ عرض کیا گیا: آپ یہ دیکھئے کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات واقعی موجود ہو جو میں کہتا ہوں (تو؟) آپ نے فرمایا: جو کچھ تم کہتے ہو، اگر اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اگر اس میں وہ (عیب) موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔ اسے مسلم(2589)، احمد(7106)، ترمذی(1934)، ابوداود(4874)، دارمی(2714) نے الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے۔ غیبت کو پہنچانے کا ضابطہ: ہر وہ بات جس کے ذریعہ آپ کسی کے سامنے کسی مسلمان کی تنقیص بیان کریں، تو یہ غیبت اور حرام ہے۔
چغل خوری: علما کہتے ہیں: کسی کی بات فساد پھیلانے اور جھگڑا پیدا کرنے کی غرض سے دوسرے تک پہنچانے کو چغل خوری کہتے ہیں(یہ امام نووی کا قول ہے، شرح مسلم پہلی جلد (2/93) )۔
([361]) مسلم(2812)، مسند احمد(13957)، ترمذی(1937)
([362]) مسلم بشرح النووي . نویں جلد(17/131)
([363]) فاطر(6)
([364]) الحجرات (12)
([365]) ابوداود(4880) الفاظ اسی کے ہیں، علامہ البانی نے اس حدیث کو حسن صحيح کہا ہے. مسند احمد(19277)۔
([366]) بخاری(6056)، مسلم(105)الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(22814)، ترمذی(2026)، ابوداود(48719)۔
([367]) رياض الصالحين ص 450-451 . معمولی تصرف کے ساتھ۔
([368]) شرح صحيح مسلم . پہلی جلد (2/93-94)
([369]) مسلم (5) مقدمہ کے الفاظ ہیں، ابوداود(4992)
([370]) التوبة (119)
([371]) بخاری(6094) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2607)، مسند احمد(3631)، ترمذی(1971)، ابوداود(4989)، ابن ماجه(46)، دارمی(2715)
([372]) فتح الباري (10/524)
([373]) بخاری(6095)، مسلم(59)، مسند احمد(8470)، ترمذی(2631)،نسائی(5021)
([374]) بخاری(1386)، مسند احمد(19652)
([375]) یہ نقولات الفتاوى(13/371-374) سے ہیں۔
([376]) بخاری(106) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1)، مسند احمد(630)، ترمذی(2660)، ابن ماجه(31)
([377]) بخاری(6659) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(138)، مسند احمد(3566)، ترمذی(1269)، ابوداود(3243)، ابن ماجه(2323)
([378]) اس کا نام غموس(داخل ہونا) اس لئے ہے کیونکہ جھوٹی قسم کھانے والا گناہ اور جہنم میں داخل ہوگا۔
([379]) بخاری(6675) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(6845)، ترمذی(3021)، النسائئ(4011)، دارمی(2360)
([380]) ابن حجر فرماتے ہیں: اسے آدم بن إياس نے مسند شعبة میں اور إسماعيل القاضي نے الأحكام میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (فتح الباري11/566)
([381]) بخاری (2692)
([382]) ابوداود(4921) الفاظ اسی کے ہیں، اور علامہ البانی رحہ الل نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور اس کی اصل صحیحین میں ہے۔ چنانچہ اسے بخاری نے (2692) ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے۔ اور اسے مسلم(2605) نے مذکورہ دونوں الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن اس اضافہ کو زہری کا قول بتایا ہے: (ابن شہاب نے کہا: لوگ جو جھوٹی باتیں کرتے ہیں، میں نے ان میں سے تین کے سوا کسی بات کے بارے میں نہیں سنا کہ اس کی اجازت دی گئی ہے۔۔۔۔) ابن حجر بھی اسی طرف گئے ہیں اور کہا کہ یہ زیادتی مدرج ہے۔(دیکھئے فتح الباری:/5/353)۔ لیکن اس پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیحہ(454) میں تعاقب کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ سےمرفوعا ثابت ہے۔اگر آپ چاہیں تو مطالعہ کرسکتے ہیں۔ نیز اس حدیث کو احمد(26731) اور ترمذی(1938) نے بھی روایت کیا ہے۔
([383]) دیکھئے صحیح مسلم بشرح النووي . آٹھویں جلد (16/135) ، فتح الباري(5/353)، شرح رياض الصالحين . لابن عثمين (1/272)
([384]) بخاری(3031) اس پر یہ باب قائم کیا ہے: باب الكذب في الحرب(جنگ میں جھوٹ بولنے کا بیان)، مسلم (1801) الفاظ اسی کے ہیں، ابوداود(2768)
([385]) فتح الباري(6/184)
([386]) امام البانی صحیحہ میں کہتے ہیں: اسے حمیدی نے اپنی مسند میں (رقم 329) میں روایت کیا ہے۔(السلسلہ: 1/817، رقم 498)۔ نیز جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن سلسلہ صحیحہ میں محولہ مقام کا مراجعہ کیجئے؛ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس حدیث کو علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ میں کیوں درج کیا ہے۔
([387]) شرح صحيح مسلم . آٹھویں جلد(16/135)
([388]) السلسلة الصحيحة (1/818)
([389]) لسان العرب میں ہے: افحش الرجل تب کہتے ہیں جب کوئی فحش گوئی کرے۔ نیز کہتے ہیں قد فحش علینا فلان(یعنی فلان نے ہم سے فحش گفتگو کی) وانه لفحاش(یعنی وہ بہت فحش کلامی کرنے والا آدمی ہے) وتفحش فی کلامه(یعنی وہ اپنی گفتگو میں فحش گوئی سے کام لیتا ہے)۔۔۔۔۔اسی طرح الفاحش اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے قول وفعل میں فحش اور بد زبان ہوتا ہے۔ اور المتفحش اسے کہتے ہیں جو دانستہ طور پر عمدا لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ (6/325,326) مادۃ: (فحش)۔ معمولی تصرف کے ساتھ منقول۔
([390]) لسان العرب میں ہے: حدیث میں ہے: مومن طعن وتشنیع کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔یعنی وہ غیبت اور مذمت وغیرہ کرکے لوگوں کی عزتیں نہیں اچھالتے۔ "طعان" طعن فيه سے بروزن فعال ہے۔ اور جب کوئی کسی کی عیب جوئی کرتا ہے تو- اسی(طعن فیہ) سے- کہتے ہیں بالقول یطعن(یعنی وہ قولا اسے طعن وتشنیع کرتا ہے)عین کے زبر وپیش کے ساتھ، لعنت کرنے والا،نیز اسی سے الطعن فی النسب بھی کہا جاتا ہے(یعنی کسی کے نسب کو مطعون کرنا۔ (13/266) مادۃ (طعن)
([391]) مسند احمد(3938)، بخاری :الأدب المفرد(312) الفاظ اسی کے ہیں، نیز اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے، ترمذی(1977)
([392]) بخاری(3559)، مسلم(2321)، مسند احمد(6468)، ترمذی(1975)
([393]) دیکھئے لسان العرب (6/325)
([394]) الذام: یعنی عیب ، اسے بغیر ہمزہ کے پڑھا جاتا ہے۔
([395]) بخاری(6024)، مسلم (2165) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(24330)، ترمذی2701)، ابن ماجه(3698).
([396]) مسلم(2597)، مسند احمد(8242)، بخاری في الأدب المفرد(317)
([397]) مسلم(2598) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(26981)، بخاری في الأدب المفرد(316)، ابوداود(4907)
([398]) ترمذی(1978)، ابوداود(4908) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قراردیا ہے۔
([399]) یہ صحیح بخاری(6047)، مسلم(110)، مسند احمد(15950) کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔
([400]) صحيح مسلم بشرح النووي. آٹھویں جلد(16/127)
([401]) بخاری(5973)، مسلم(90)، مسند احمد(6493)، ترمذی(1902)، ابوداود(5141)
([402]) لسان العرب (15/278) مادة (مرا)
([403]) لسان العرب (7/152) مادۃ "ربض" میں ہے: ابن خالویہ نے کہا: ربض المدینہ، را ءاور با ءکے پیش کے ساتھ؛ اس کا معنی ہے شہر کا بنیادہ حصہ۔ اور ان دونوں کے زبر کے ساتھ؛ اس کا معنی ہے شہر کے اطراف کا حصہ۔ حدیث میں ہے: انا زعیم ببیت فی ربض الجنة؛ یہاں با ءکے زبر کے ساتھ ہے، جس کا معنی ہے جنت سے باہر اس کے اطراف کا حصہ، جس طرح شہر اور قلعوں کے اطراف میں عمارتیں بنیں ہوتی ہیں۔
([404]) ابوداود(4800) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، دیکھئے الصحيحة(273). اورطريق أنس بن موطا مالك سے اسے ترمذی(1993)، ابن ماجہ(51) نے روایت کیا ہے لیکن ربض الجنة کے بجائے وسط الجنة کے الفاظ ہیں.
([405]) تحفة الأحوذي (6/109)
([406]) مسند احمد(7789)، ابوداود(4603) ابن القيم نے اسے حسن کہا ہے. دیکھئے عون المعبود. چھٹی جلد (12/230)،اور علامہ البانی نےحسن صحيح کہا ہے.
([407]) بخاری(5060)، مسلم(2667)، مسند احمد(18337)، دارمی(3359)
([408]) شرح صحيح مسلم . آٹھویں جلد(16/188)
([409]) فتح الباري (8/721)
([410]) تيسير الكريم الرحمن . (5/24) سورة الكهف (22)
([411]) ابوداود(4990) علامہ البانی رحمہ اللہ نےاسے حسن قرار دیا ہے، مسند احمد(19519)، ترمذی(2315)، دارمی(2702)، والبغوي في شرح السنة(4131)
([412]) ابوداود(4868) وحسنه الألباني، مسند احمد(14644)، ترمذی(1959)
([413]) عون المعبود . ساتویں جلد(13148)
([414]) بخاری(6142) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1669)، ترمذی(1422)، نسائی(4713)، ابوداود(4520)، ابن ماجه(2677). نیز یہ مسند احمد(15664)، موطا مالك(1630)، دارمی(2353) میں بھی ہے۔
([415]) بخاری(6044) الفاظ اسی کے ہیں ، مسلم(2811)، مسند احمد(4585)، ترمذی(2867)، دارمی(282)
([416]) بخاری(59)، مسند احمد(8512)
([417]) بخاری(6337)
([418]) بخاری(3568)، مسلم(2493)، مسند احمد(25677)، ترمذی(3639)، ابوداود(3654)
([419]) شرح مسلم . آٹھویں جلد(16/45)
([420]) فتح الباري(6/669)
([421]) لقمان (19)
([422]) تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان (6/160)
([423]) الآداب الشرعية (2/26)
([424]) فتاوي العقيدة( دار الجيل ، مكتبة السنة ) ط. الثانية 1414هـ (ص 730)
([425]) بخاری(6104) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(60)، مسند احمد(4673)، ترمذی(2637)، ابوداود(4687)، موطا مالك(1844)
([426]) بخاری(67) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1679)، مسند احمد(19873)، دارمی(1916)
([427]) مسلم(2623)، مسند احمد(9678)، ابوداود(4983)، موطا مالك(1845)، بخاری في الأدب المفرد(759)
([428]) دیکھئے شرح صحيح مسلم . المجلد الثامن (16/150)
([429]) شرح مسلم . المجلد الثامن (16/150)
([430]) فتح الباري (11/540)
([431]) صحيح بخاری. كتاب الأيمان والنذور .
([432]) مسلم (771)، مسند احمد(805)، ترمذی(3422)، نسائی(897)، ابوداود(760)، دارمی(1314)
([433]) بخاری (6627) ، (6628) ، (6629)
([434]) ترمذی (1535) امام ترمذی نے کہا یہ حديث حسن ہے. مسند احمد(6036)، ابوداود(3251) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نےاصحیح قرار دیا ہے۔
([435]) بخاری(6646)، مسلم(1646)، مسند احمد(4534)، ترمذی(1533)، نسائی(3766)، ابوداود(3249)، ابن ماجه(2094)، موطا مالك(1037)، دارمی(2341)
([436]) ابوداود(3253) الفاظ اسی کے ہیں، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔، مسند احمد (22471)
([437]) فتاوى الشيخ محمد الصالح العثيمين (2/796)
([438]) ابوداود(4977) الفاظ اسی کے ہیں اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔. مسند احمد(22430)، و بخاری في الأدب المفرد(760)
([439]) شرح سنن أبي داود. ساتویں جلد(13/221) معمولی تصرف کے ساتھ۔
([440]) (3/1322)
([441]) بخاری(4826)، مسلم(2246)، مسند احمد(7204)، ابوداود(5274)، موطا مالك(1846).
([442]) مسند احمد (10061) اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: اس کی سند صحيح ہے. دیکھئے فتح الباري(10/581)
([443]) دیکھئے فتح الباري(8/438)، وشرح صحيح مسلم . آٹھویں جلد (15/4)
([444]) شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سنہ 2001ء میں وفات پاچکے ہیں۔
([445]) فتاوي العقيدة ـ ( ص 614-615)
([446]) فتاوى الشيخ: محمد بن صالح العثيمين . إعداد :اشرف عبد المقصود. دار عالم الكتب . ط. الثانية 1412هـ (1/200-201)
([447]) النحل (116)
([448]) فتح القدير (3/227)
([449]) المؤمنون (51)
([450]) البقرة (60)
([451]) بخاری(5376) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2022)، مسند احمد(15895)، ابو داود(3777)، ابن ماجہ(3267)، مالک(1738)دارمی(2045)
([452]) بخاری(5426)، مسلم(2067)، مسند احمد(22927)، ترمذی(1878)، نسائی(5301)، ابو داود(3723)، ابن ماجه(3414)، دارمی(2130)
([453]) لسان العرب میں ہے: الجرجرة: يعني آواز. والجرجرة: جانور کا حلق سے آواز نکالتے رہنا، اور یہ وہ آواز ہے جسے اونٹ اپنے حلق میں نکالتا رہتا ہے۔وقد جرجر..... نیز حدیث میں ہے:جو شخص چاندی کے برتن میں پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹ غٹ کر کے ڈال رہا ہے، یعنی اس میں بھر رہا ہے۔ لہذا پینے اور گھونٹ بھرنے کو جرجرة کہا گیا ہے اور یہ پانی کے (پیٹ میں) گرنے کی آواز ہوتی ہے۔(4/131) مادة:(جرر)
([454]) بخاری(5634)، مسلم(2065)، مسند احمد(26028)، ابن ماجه(3431)، مالك(1717)، دارمی(2129)
([455]) اس اجماع کو ذکر کیا ہے ابن عبد البر نے التمہید(16/104) میں اور ابن المنذر نے۔ دیکھئے فتح الباری(10/97)۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پینا کھانے ہی کے حکم میں ہے۔
([456]) التمهيد(16/105). نیز دیکھئے فتح الباري (10/97)
([457]) فتح الباري (10/98)
([458]) بخاری(5399) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(18279)، ترمذی(1830)، ابو داود(3769)، ابن ماجه(3262)، دارمی(2071)
([459]) فتح الباري(9/452). میں کہتا ہوں: یہ طریقہ، یعنی دائیں پیر کو کھڑا کرنا اور بائیں پیر پر بیتھنا؛ اسے ابو الحسن بن المقری نے الشمائل میں اس حدیث کے ذریعہ بیان کیا ہے ( جب آپ بیٹھتے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھتے اور دائیں پیر کو کھڑا کرلیتے گویا کہ آپ اٹھنے کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔) عراقی نے تخریج احیاء علوم الدین میں کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے(2/6) . ط. دار الحديث ، الطبعة الأولى 1412هـ.
([460]) دیکھئے زاد المعاد(4/222)، وفتح الباري(9/452)
([461]) ابو داود(3774) وصححه الألباني،ابن ماجہ(3370)
([462]) زاد المعاد (4/221)
([463]) یعنی اپنی پنڈلیوں کو کھڑا کرکے اپنی سرین پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ شرح مسلم . ساتویں جلد (13/188)
([464]) مسلم(2044)، مسند احمد(12688)، ابو داود(3771)، دارمی(2062)
([465]) ابن ماجه(3263) الفاظ اسی کے ہیں، اس کی سند کو ابن حجر نے الفتح (9/452) میں حسن قرار دیا ہےاور علامہ البانی نے اسے صحيح کہا ہے(2658) . یہ حدیث سنن ابو داود(3773) میں بھی ہے لیکن اس میں گٹھنوں کا تذکرہ نہیں ہے۔
([466]) بخاری(5464)، مسلم(557)، مسند احمد(12234)، ترمذی(353)، نسائی(853)، دارمی(1281)
([467]) بخاری(674)، مسلم(559)، مسند احمد(5772)، ترمذی(354)، ابو داود(3757)، ابن ماجه(934)، دارمی(1281)
([468]) مسند احمد(6323)
([469]) فتح الباري (2/189)
([470]) مسلم(560)، مسند احمد(23646)، ابو داود(89)
([471]) مسلم بشرح النووي . تیسری جلد (5/38)
([472]) امام بخاری نے اسے کتاب الاذان، باب: جب کھانا حاضر ہوجائے اور نماز کے لئے اقامت کہہ دی جائے، میں تعلیقا بیان کیا ہے۔ جبکہ اس اثر کو ابن المبارک نے کتاب الزہد میں موصولا بیان کیا ہے۔ نیز محمد بن نصر المروزی نے کتاب تعظیم الصلاۃ میں اپنی سند سے بھی روایت کیا ہے، یہ ابن حجر کا قول ہے۔ فتح الباري(2/187)
([473]) فتح الباري (2/189-190)
([474]) الآداب لشرعية (3/214)
([475]) الآداب (3/221)
([476]) لسان العرب میں ہے: الغَمَرُ حرکات کے ساتھ: بدبو اور گوشت کی بو اور جو چکنائی ہاتھ میں لگی رہ جاتی ہے۔ (5/32) مادۃ(غمر)
([477]) مسند احمد(7515)، ابو داود(3852) اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے، نیز یہ ترمذی(1860)،ابن ماجہ(3297)، دارمی(2063) میں بھی ہے۔
([478]) مسند احمد (27486)،ابن ماجہ(493) نیز اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے(498).
([479])مالك (53)
([480]) بخاری(286)، مسلم(305) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(24193)، نسائی(255)، ابو داود(224)، ابن ماجه(584)، دارمی(757)
([481]) مالك(111)
([482]) الآداب الشرعية (3/214)
([483]) نسائی(256) مسند احمد(24353) وغيرهما۔
([484]) السلسلة الصحيحة (1/674) رقم (390)
([485]) شرح سنن نسائی. للسيوطي ، وحاشية السندي . دار الكتاب العربي. (1/138-139)
([486]) اس اعتبار سے کہ امام نسائی نے اس حدیث پر تین طرح کے ابواب قائم کئے ہیں۔ پہلا: جنبی کا کھانے کے لئے وضو کرنا۔ دوسرا: جب کوئی جنبی کھانے کا ارادہ کرے تو اپنے ہاتھ دھونے پر اکتفا کرے۔ تیسرا: جب کوئی جنبی کھانے یا پینے کا ارادہ کرے تو اپنے ہاتھ دھونے پر اکتفا کرے۔
([487]) زاد المعاد (4/232)
([488]) مسلم (2017)، مسند احمد(22738)، ابو داود(3766)
([489]) بخاری(5376) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2022)، مسند احمد(15895)، ابو داود(3777)، ابن ماجہ(3267)، مالک(1738)دارمی(2045)
([490]) الأذكار للنووي(334)
([491]) فتح الباري(9/431)
([492]) الطبراني في معجمه الكبير۔ نیز اسے علامہ البانی نے اپنے سلسلہ صحیحہ میں داخل کرکے کہا ہے کہ اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔(1/611)، برقم (344)
([493]) ابو داود(3767) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البای نے اسے صحیح قرار دی ہے، مسند احمد(25558)، ترمذی(1858)،ابن ماجہ(3264)، دارمی(2020)
([494]) مسلم(2734)، مسند احمد(11562)، ترمذی(1816)
([495]) ’’غیر مودع‘‘ یعنی اس کی طلب ترک نہیں کی جاسکتی اور جو اللہ کے پاس ہے اس کی رغبت ہی ترک کی جاسکتی ہے۔ اسی سے فرمان باری ہے(ما ودعک ربک) یعنی آپ کو آپ کے رب نے چھعڑ نہیں دیا۔ اور متروک کا معنی یہ ہے اس سے بے نیاز ہوجایا جائے۔ بعض نے اسے ( غير موِّعٍ ) پڑھا ہے یعنی میں اپنے رب کی اطاعت کو ترک کرنے والا نہیں ہوں۔ یہ شرح السنہ میں امام بغوی کا قول ہے 11/277-278)۔
([496]) بخاری(5459) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(21664)، ترمذی(3456)، ابو داود(3849)، ابن ماجہ(3284)، دارمی(2023)، والبغوي في شرح السنة (2828).
([497]) ترمذی (3458) انہوں نے اسے حديث حسن غريب کہا ہے،ابن ماجہ(3285) اسے علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے(3348)
([498]) ابو داود( 3851) اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([499]) علامہ البانی السلسلة الصحيحة(1/111) (71) میں فرماتے ہیں: اسے مسند احمد (4/62،5/375) ، اور ابو الشيخ نے أخلاق النبي صلى الله عليه وسلم میں روایت کیا ہے، اس کے بعد اس کی سند کو بیان کیا اور کہا: یہ سند صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقات ہیں اورمسلم کے رجال ہیں۔
([500]) ترمذی(3455) انہوں نے اسے حديث حسن کہا ہے،ابن ماجہ(3322) نیز اسے علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے(3385)۔
([501]) بخاری(5376) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2022)، مسند احمد(15895)، ابو داود(3777)، ابن ماجہ(3267)، مالک(1738)دارمی(2045)۔
([502]) مسلم(2019) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(14177)،ابن ماجہ(3268)، مالک( 1711)
([503]) مسلم (2020) ، مسند احمد(4523)، ترمذی(1800)، ابو داود(3776)، مالك(1712)، دارمی(2030)
([504]) كشف المشكل (2/594) (1227)
([505]) مسلم(2021)، مسند احمد(16064)
([506]) شرح صحيح مسلم . ساتویں جلد (14/161)
([507]) مسلم (2022) اس کی تخريج گزر چکی ہے.
([508]) بخاری(5436) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2041)، مسند احمد(12219)، ترمذی(1850)، ابو داود(3782)، مالك(1161)، دارمی(2050)۔ اور الدباء یعنی کدو، اس لفظ کا ذکر صراحت کے ساتھ مسند احمد کی روایت میں آیا ہے، کہا( نبی اکرم کو ایک پیالہ پیش کیا گیا جس می کدو تھا، کہا: آپ ﷺ کو کدو بہت پسند تھا۔ کہا: آپ ﷺ اپنی انگلی یا انگلیوں سے کدو تلاشنے لگے)۔ اور القدید: یعنی نمک لگایا ہوا ایسا گوشت جسے سورج کی گرمی سے سکھا دیا گیا ہو۔
([509]) التمهيد (1/277)
([510]) ابو داود(3772) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(2435) ترمذی(1805) امام ترمذی نے کہا: یہ حديث حسن صحيح ہے،ابن ماجہ(3277)، دارمی(2046)
([511]) دیکھئے عون المعبود. پانچویں جلد (10/177)
([512]) مسلم(20232)، مسند احمد(26626)، ابو داود(3848) ، دارمی(2033)
([513]) زاد المعاد(4/222) معمولی تصرف کے ساتھ۔
([514]) بخاری(5456)، مسلم(2031)، مسند احمد(3224)، ابو داود(3847)، ابن ماجہ(3269)، دارمی(2026)
([515]) مسلم (2033) اور الفاظ اسی کے ہیں، احمد(13809)، ابن ماجه(3270)
([516]) شرح مسلم . ساتویں جلد (13/172)
([517]) مسلم(2033)، مسند احمد(14218)
([518]) بخاری(2455)، مسلم(2045)، مسند احمد(5017)، ترمذی(1814)، ابو داود(3834)، ابن ماجہ(3331). اس جملہ ’’ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے‘‘ کے متعلق امام شعبہ کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ جملہ ابن عمر کا قول ہے۔ مسلم اور احمد کی روایت کو ملاحظہ کریں۔
([519]) كشف المشكل من حديث الصحيحين (2/565) رقم (1165)
([520]) شرح مسلم . ساتویں جلد(13/190)
([521]) الآداب الشرعية (3/158)
([522]) دارمی (2047) مسند احمد(26418) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں بھی ذکر کیا ہے(392)۔
([523]) علامہ البانی نے إرواء الغليل(1978) میں کہا : صحيح، اوراسے بیہقی(7/2580) نے روایت کیا ہے۔
([524]) زاد المعاد(4/223)
([525]) شرح مسلم . ساتویں جلد (13/172)
([526]) بخاری(5409)، مسلم(2064)، مسند احمد(9882)، ترمذی(2031)، ابو داود(3763)، ابن ماجہ(3259)، شرح السنة(2843)
([527]) شرح مسلم . ساتویں جلد(14/22)
([528]) بخاری()، مسلم(1946)، احمد(2679)، نسائی(4316)، ابو داود(3794)، ابن ماجه(3241)، مالك(1805)، دارمی(2017)
([529]) شرح مسلم . ساتویں جلد(14/22)
([530]) مسلم(2024)، مسند احمد(11775)، ترمذی(1879)، ابو داود(3717)، ابن ماجہ(3424)، دارمی(2127)
([531]) مسلم (2025)، مسند احمد(10885)، شرح السنة (3045)
([532]) مسلم(2026) ، مسند احمد(8135) اس جملہ کے علاوہ ’’جو بھول کر پی لے وہ قے کردے‘‘
([533]) بخاری(1637)، مسلم(2027)، مسند احمد(1841)، ترمذی(1882)، نسائی(2964)، ابن ماجہ(3422)
([534]) بخاری(5615)، مسند احمد(797)، نسائی(130)، ابو داود(3718)
([535]) احمد(4587)، ابن ماجہ(3301) اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے (3364)، دارمی(2125)
([536]) موطا(1720،1721،1722)
([537]) الفتاوى (32/209-210)
([538]) بخاری(5630)، مسلم(267)، مسند احمد(22059)، ترمذی(1889)، نسائی(47)، ابو داود(31)
([539]) ترمذی(1888) انہوں نے اسے حديث حسن صحيح کہا ہے، ابو داود(3728) اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے، نیز یہ ابن ماجه(3429) میں بھی ہے لیکن سانس کے تذکرے کے بغیر۔
([540]) شرح صحيح مسلم . دوسری جلد(3/130)
([541]) زاد المعاد(4/235)
([542]) بخاری(45631)، مسلم(2028) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(11776)، ترمذی(1884)، ابن ماجہ(3416)، دارمی(2120) حدیث کے دوسرے حصے کو ترمذی اور ابن ماجہ نے ذکر نہیں کیا ہے۔
([543]) ترمذی(1887) انہوں نے اسے حديث حسن صحيح کہا ہے، مسند احمد(10819)، مالک(1718) اور الفاظ اسی کے ہیں، دارمی(2121)
([544]) التمهيد لابن عبد البر:(1/392)
([545]) الفتاوى(32/209)
([546]) بخاری(5627) ، مسند احمد(7113) نے اسے دوسرے حصے کے بغیر ذکر کیا ہے جبکہ یہ دوسرے حصہ ایک دوسری روایت میں موجود ہے. ورواه مسلم(1609)، ترمذی(1353)، ابو داود(3634)،ابن ماجہ(2335)، مالک(1462) ان تمام نے حدیث کے فقط دوسرے حصے کو ذکر کیا ہے۔
([547]) بخاری(5629)، مسند احمد(1990)، ترمذی(1825)، نسائی(4448)، ابو داود(3719)، ابن ماجہ(3421)، دارمی(2117)
([548]) فتح الباري(10/94)
([549]) زاد المعاد(4/233)، وفتح الباري(10/94)، و الآداب الشرعية(3/166)
([550]) ترمذی(1892) ترمذی کے الفاظ یہ ہیں: کبشہ ؓ کہتی ہیں: رسول اللہﷺ میرے گھرتشریف لائے، آپ نے ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے منہ سے کھڑے ہوکر پانی پیا، پھر میں مشکیزہ کے منہ کے پاس گئی اور اس کو کاٹ لیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ نیز یہ حدیث ابن ماجه(3423) میں بھی ہے اور اسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے برقم(2780)
([551]) فتح الباري (10/94)
([552]) مسلم(681)، مسند احمد(22040)، ترمذی(1894)، ابن ماجہ(3434)، دارمی(2135). بعض نے اسے مطولا بیان کیا ہے اور بعض نے فقط وہ حصہ جو محل شاہد ہے، جبکہ بعض نے ان دونوں الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
([553]) دیکھیں: إحیاء علوم الدین للغزالی: (۲/۱۱) دار الحدیث طباعت اول ۱۴۱۲ھ
([554]) الآداب الشرعیۃ: ۳/۱۶۳
([555]) اس حدیث کو مسلم (۲۰۵۹) احمد (۱۳۸۱۰) ترمذی (۱۸۲۰) ابن ماجہ (۳۲۵۴) اور دارمی (۲۰۴۴) نے روایت کیا ہے۔
([556]) فتح الباری: (۹/۴۴۶)
([557]) اس حدیث کو ابوداود (۳۷۶۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ نیز احمد (۱۵۶۴۸) اور ابن ماجہ (۳۲۸۶) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
([558]) اس حدیث کو ترمذی (۲۳۸۰) نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ نیز اسے احمد (۱۶۷۳۵) اور ابن ماجہ (۳۳۴۹) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے (۲۷۲۰)
([559]) الآداب الشرعیۃ: ۳/۱۸۳-۱۸۵ مع تقدیم وتاخیر
([560]) اس حدیث کو ابو داود (۳۷۷۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے، نیز اسے ابن ماجہ (۳۳۷۰) نے بھی روایت کیا ہے البتہ ا ن کی روایت میں حدیث کا پہلا ٹکڑا نہیں ہے۔
([561]) احمد نے دوسرے طریق سے روایت کیا ہے( ۱۴۲۴۱)، اور ترمذی (۲۸۰۱) اور دارمی (۲۰۹۲) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
([562]) دیکھیں: عون المعبود پانچویں جلد: (۱۰/۱۷۸)
([563]) لفظ تخلی کا اطلاق استنجا اور قضاے حاجت دونوں پر ہوتا ہے ۔
([564]) صحیح مسلم (262)، مسند احمد(23191)، جامع ترمذي(16)، سنن ابو داود(7)، سنن نسائي(41)، سنن ابن ماجه(316).
([565])سنن ابوداود (26) امام البانی نے اسے صحیح کہا ہے ، سنن ابن ماجہ (328)
([566]) صحیح مسلم (269)، مسند احمد(8636)، سنن ابو داود(25)
([567]) (3/456) مادة:( ورد )
([568]) عون المعبود شرح سنن ابو داود. جلد اول(1/31)
([569]) شرح مسلم للنووي . جلد ثاني(3/132)
([570]) الشرح الممتع على زاد المستقنع (1/102) . دار آسام . ط. الثانية 1414هـ
([571]) دیکھیں شرح مسلم للنووي . جلد ثاني(3/132)، عون المعبود . جلد اول(1/30-31)
([572]) صحیح مسلم (281)، مسند احمد(14258)، سنن نسائي(35)، سنن ابن ماجه(343)
([573]) شرح صحيح مسلم . جلد اول(2/152). علما نے اس مسئلے میں تفصیل کیا ہے ، ہم نے طوالت کے پیش نظر صرف خلاصہ درج کرنے پر اکتفا کیا ہے ۔
دیکھیں شرح مسلم للنووي، وشرح بخاری لا بن حجر(1/413-414) .
([574]) الشرح الممتع على زاد المستقنع (1/91)
([575]) الشرح الممتع (1/91)
([576]) صحیح بخاري(144) اور الفاظ اسی کے ہیں، صحیح مسلم(264)، مسند احمد(23003)، سنن ابو داود(9)، سنن نسائي(21)، سنن ابن ماجه(318)
([577]) صحیح بخاري(145) اور الفاظ اسی کے ہیں، صحیح مسلم(266)، مسند احمد(4592)، سنن نسائي(23)، سنن ابو داود(12)، سنن ابن ماجه(322)، موطا مالك(455)، سنن دارمي(667)
([578]) صحیح مسلم (262)، مسند احمد(23191)، جامع ترمذي(16)، سنن ابو داود(7)، سنن نسائي(41)، سنن ابن ماجه(316).
([579]) جامع ترمذي(9) امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن غريب ہے، سنن ابو داود(13) علامہ البانیرحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے، مسند احمد(14458)، سنن ابن ماجه(325)
([580]) سنن ابو داود(11)
([581]) شرح مسلم . جلد ثاني(3/126)
([582]) دیکھیں فتوى نمبر (4480) (5/97-99)
([583]) سنن ابو داود(6) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، مسند احمد(18800)، سنن ابن ماجه(296)
([584]) الفتاوى(21/108-109)
([585]) سنن ابن ماجه(297) 245 نمبر کے تحت علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھیں إرواء الغليل (50) ، جامع ترمذي(606)
([586]) ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں : الخبث : ( با کے سکون کے ساتھ) بمعنی شر، الخبائث شریر النفس ذات ، اور الخبث: ( با کے پیش کے ساتھ) خبیث کی جمع ہے، جس کا معنی مذکر شیاطین ہے، اور الخبائث: خبیثہ کی جمع ہے جس کا معنی مونث شیاطین ہے۔ ( عام طور سے جزم کے ساتھ پڑھا جاتا ہے) اسی لئے اکثر شیوخ کی روایت میں یہی درج ہے۔ جیسا کہ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ ( الشرح الممتع 1/82-83).
([587]) الشرح الممتع (1/83)
([588]) سنن ابو داود(30) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، مسند احمد(24694)، جامع ترمذي(7)، سنن ابن ماجه(300)
([589]) شرح مسلم . جلد ثاني(4/60)
([590]) کسائی کہتے ہیں: پاخانے کی جگہ کو خلا، مذہب، مرفق اور مرحاض بھی کہتے ہیں ۔ ( لسان العرب 1/394) مادة :( ذهب )
([591]) سنن ابو داود(1) علامہ البانیرحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح کہا ہے ، سنن نسائي(17)، سنن ابن ماجه(331)، سنن دارمي(660)
([592]) لسان العرب میں ہے، الهدف: ريگستان کی اونچی جگہ، ایک قول ہے کہ ھدف ہر اونچی جگہ کو کہتے ہیں جیسے حیود الرمل المشرفہ۔۔ جوہری کہتے ہیں: ھدف ہر اونچی جگہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عمارت ، ریت کا ٹیلہ، یا پہاڑ کی اونچی جگہ ہو۔ (9/346) مادة (هدف) .
حائش: جوہری کہتے ہیں، حائش کھجور کے درختوں کو کہتے ہیں، کسی ایک درخت کو حائش نہیں کہا جاتا، اور حائش اصل میں جھاڑی کو کہتے ہیں، خواہ وہ کھجور کی جھاڑی ہو یا کسی دوسرے درخت کی، کہا جاتا ہے، حائش للطرفاء، اور حدیث میں ہے أنه دخل حائش نخل فقضى حاجته، یعنی کھجور کی جھاڑی میں داخل ہوے، اور رفع حاجت کیے، یہ وہ کھجور کا درخت ہے جو ایک دوسرے سے جڑا رہتا ہے ۔ ( 6/291) مادة :( حوش )
([593]) صحیح مسلم (342)، مسند احمد(1747)، سنن ابو داود(2549)، سنن ابن ماجه(340)
([594]) شرح مسلم. جلد ثاني( 4/30)
([595]) سنن نسائي( 29) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، سنن ترمذي(12)، سنن ابن ماجه(307)
([596]) سباطہ: یعنی کچڑا، یہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں مٹی ، عام گندگی اور گھر کے جھاڑو کے بعد بہارن کو پھینکا جاتا ہو ۔ ( لسان العرب 7/309) مادة :( سبط)
([597]) صحیح بخاري(225)، صحیح مسلم(273)، مسند احمد(22730)، سنن ترمذي(13)، سنن نسائي(18)، سنن او داود(23)، سنن ابن ماجه(305)، سنن دارمي(668)
([598]) الشرح الممتع (1/92)
([599]) (5/89-90) . فتوى(4213)
([600]) مشكل الصحيحين (2/138) رقم (604)
([601]) صحیح بخاري(153)، صحیح مسلم(267)، مسند احمد(18927)، سنن ترمذي(15)، سنن نسائي(24)،سنن ابو داود(31)، سنن ابن ماجه(310)، سنن دارمي(673)
([602]) شرح مسلم . جلد ثاني (3/127)
([603]) صحیح بخاري(3562)، صحیح مسلم(2320)، مسند احمد(11286)، سنن ابن ماجه(4180)
([604]) سنن ابو داود(182) ابن حجر نے کہا کہ یہ حديث صحيح یا حسن ہے، (فتح الباري 1/306) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، مسند احمد(15857)، سنن ترمذي(85)، سنن ابن ماجه(483).
([605]) فتح الباري (1/306)
([606]) الاستنجاء: پانی سے نجاست دھونے یا پتھر سے گندگی صاف کرنے کے معنی میں مستعمل ہے، ور زجاج کہتے ہیں : الاستنجاء: مٹی یا پانی سے صفائی کرنا ،اور استنجا جائے نجاست کو دھل کر یا پوچھ کر صاف کرناہے ۔ ( لسان العرب 15/306) مادة : (نجا) . =
الاستجمار : ابو زید کہتے ہیں: استجمار پتھر سے استنجا کرنے کو کہتے ہیں، ایک قول یہ ہے: یہ استنجا کے معنی میں ہے ، استجمار اور استنجا ایک شئ ہے، جب پتھر سے صاف کرنا مقصود ہو، یہ چھوٹے پتھر کو کہتے ہیں، جمرات الحج اسی سے ماخوذ ہے کیونکہ اس میں کنکریاں پھینکی جاتی ہے ۔ . ( اللسان: 4/147) مادة : ( جمر ) .
([607]) ابن منظور کہتے ہیں: حدیث میں ہے: ابغني أحجارا استنفض بها، یعنی مجھے پتھر ڈھونڈ دو، تاکہ میں ان سے پاکی حاصل کروں، یہ نفض الثوب سے ماخوذ ہے ،کیونکہ وہ پتھر سے اپنی نجاست دور کرتا ہے۔ ( اللسان: 7/241) مادة: (نفض)
([608]) صحیح بخاری (155)
([609]) الشرح الممتع (1/105)
([610]) صحیح خاري(156)، مسند احمد(3677)، سنن ترمذي(17)، سنن نسائي(42)، سنن ابن ماجه(314)
([611]) صحیح بخاري، کتاب المناقب (3860)
([612]) اس کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([613]) صحیح بخاري (161)، صحیح مسلم(237) مسند احمد(7180)، سنن نسائي(88)، سنن ابو داود(35)، سنن ابن ماجه(409)، موطا امام مالك(34)، سنن دارمي(703)
([614]) صحیح مسلم (370)، سنن نسائي(37)، سنن ابو داود(16)، سنن ابن ماجه(353)
([615]) دیکھیں شرح صحيح مسلم للنووي. جلد ثاني (4/55)، اور الشرح الممتع على زاد المستقنع لابن عثيمين (1/95)
([616]) سورۃ الاعراف (31)
([617]) صحیح مسلم(232)
([618]) صحیح بخاري(855)
([619]) صحیح بخاري(854) صحیح مسلم (564) مسند احمد(14596)، سنن نسائي(707)، جامع ترمذي(1806)، سنن ابو داود(3823)
([620]) سورۃ النور (63)
([621]) صحیح بخاري(615)، صحیح مسلم(437)، (439)، مسند احمد(7680)، جامع ترمذي(225)، سنن نسائي(540)
([622]) صحیح بخاري(635)، صحیح مسلم(603)، مسند احمد(22102)، سنن دارمي(1283)
([623]) صحیح بخاري(908)، صحیح مسلم(602)، مسند احمد(7606)، سنن ترمذي(327)، سنن ابو داود(572)، سنن ابن ماجة(775)
([624]) صحیح مسلم:(763)، سنن ابو داود(1353) علامہ النانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح لہا ہے۔ (1025)، مسند احمد(3531)
([625]) صحیح مسلم(713) مسند احمد(15627)، سنن نسائي(729)، سنن ابو داود(465)، سنن ابن ماجة(772)، سنن دارمي(1394) میں فليسلم على النبي –صلى الله عليه وسلم- کا اضافہ ہے، امام نووي رحمہ اللہ کہتے ہیں َ: امام مسلم ، امام ابو داود، امام نسائي اور امام ابن ماجة کے علاوہ دیگر محدثین نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے ۔ ( الأذكار ص 59). اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سنن ابوداود کی روایت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صحیح ہے۔
([626]) القائل : عقبة بن مسلم راوي الحديث عن عبد الله . قاله الالبانیفي صحيح أبي داود (1/93)
([627]) سنن ابو داود(466) امام نووي رحمہ اللہ نے کہا اس کی سند جید ہے (الأذكار ص60)، علامہ البانیرحمہ اللہ نے اسے صحيح کہا ہے .
([628]) صحیح بخاري(168) صحیح مسلم(268)،مسند احمد(24106)، جامع ترمذي(608)، سنن نسائي(421)، سنن ابن ماجة(401)
([629]) مستدرک حاکم (1/338) (791)، امام حاکم نے کہا یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح ہے، اور امام ذہنی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے۔
([630]) صحیح بخاري(46)،صحیح مسلم(11)، مسند احمد(1393)، سنن نسائي(458)، سنن ابو داود(391)، موطا امام مالك(425)، سنن دارمي(1578)
([631]) صحیح بخاري(176)، صحیح مسلم(649) مسند احمد(7382)، سنن نسائي(733)، سنن ابو داود(559)، موطا امام مالك(382).
([632]) فتح الباري(4/400)
([633]) صحیح مسلم(1828)، مسند احمد(24101)
([634]) شرح صحيح مسلم. جلد ششم(12/167-168)
([635]) ادارہ برائے امور مساجد نے ہر نماز کے لئے اذان اور قامت کے درمیان مناسب وقت متعین کر رکھا ہے، اور وہ وقت نماز کی تیاری اور جماعت کے لئے مسجد آنے کے لئے کافی ہے۔
([636]) صحیح بخاري(475)، صحیح مسلم(2100)، جامع ترمذي(2765) سنن نسائي(721)، سنن ابو داود(4866)، مسند احمد(15995)، موطا امام مالك(418)، سنن دارمي(2656)
([637]) یکھیں: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء . (6/292) فتوی نمبر(5795)
([638]) عام طور سے مصاحف نمازیوں کے سامنے قبلے کی جانب رکھے جاتے ہیں۔
([639]) أصحاب الصفة: وہ فقرا حضرات ہیں جو مسجد نبوی میں رہا کرتے تھے، اور ان کا سونا اور کھانا بھی وہیں ہوا کرتا تھا۔
([640]) صحیح بخاري(442).
([641]) صحیح بخاري(440)
([642]) فتاوى اللجنة الدائمة (6/292) فتوى نمبر (5795) . قوسین کے درمیان درج الفاظ معنی کی زیادتی کے لئے ہے۔
([643]) جامع ترمذي(1321) امام ترمذی نے اسے حسن غریب کہا ہے، بعض اہل علم کے ہاں اس پر عمل ہے، وہ مسجد میں خرید وفروخت مکروہ سمجھتے ہیں، یہ امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق کا قول ہے، بعض اہل علم نے مسجد میں بیع وفروخت کرنے کی رخصت دی ہے۔ سنن دارمي(1401)
([644]) (6/283) فتوى نمبر :( 11967)
([645]) نشدت الضالة یعنی کسی کے بارے میں اعلان کرنا اور سوال کرنا . (لسان العرب3/421) مادة: نشد
([646]) صحیح مسلم(568)، مسند احمد(8382) (9161) سنن ترمذي(1321)، سنن ابو داود(473)، سنن ابن ماجة(767)، سنن دارمي(1401)
([647]) صحیح بخاري(4587)صحیح مسلم(1558)،مسند احمد(15364)، سنن نسائي(5408)، سنن ابو داود(3595)، سنن ابن ماجة(2429)، سنن دارمي(2587)
([648]) صحیح بخاري(470)
([649]) فتح الباري (1/658)
([650]) (6/285-286)
([651]) صحیح بخاري(481) صحیح مسلم(2585)،مسند احمد(19127)، جامع ترمذي(1928) سنن نسائي(2560)
([652]) صحیح بخاري(482) صحیح مسلم(573) مسند احمد(9609)، جامع ترمذي(399)، سنن نسائي(1224) سنن ابو داود(1008)، سنن ابن ماجة(1214)، موطا امام مالك(210)، سنن دارمي(1499)
([653]) سنن ابو داود(562) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح کہا ہے. مسند احمد(17637)، سنن دارمي(1404)
([654]) صحیح بخاري(642)ْ صحیح مسلم(376)، مسنداحمد(11576)، جامع ترمذي(518)، سنن نسائي(791)، سنن ابو داود(201)
([655]) صحیح مسلم(2322)، مسنداحمد(20333)، سنن نسائي(1358)
([656]) سنن ابن ماجة(3300) امام الالبانینے اسے صحيح کہا ہے(2685) –(3363)
([657]) یہ واقعات رمضان کے مہینے میں بکثرت پیش آتے ہیں، جب لوگ افطار کے لئے جمع ہوتے ہیں، لہذا اس سے متنبہ رہنا چاہیے
([658]) یہ حدیث مرسل ہے، لیکن صحیح بخاری (453)اور دیگر کتب احادیث میں موصولا مذکور ہے، اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع حاصل ہے۔
([659]) جس سبب کے تحت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی ہے، وہ یہ ہیکہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں انکے شعر پڑھنے پر نکیر فرمائی تھی۔ سنن نسائی[ 716] کی روایت سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے، " کہتے ہیں " عمر رضی اللہ عنہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بغل سے گزرے، اور وہ شعر خوانی کر رہے تھے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ترچھی نگاہ سے دیکھا۔
لحظ إليه: آنکھ کے کنارے سے دیکھنا، خواہ بائیں جانب دیکھنا ہو یا دائیں جانب، یہ نگاہ غصے میں دیکھی جانی والی نگاہ سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔( لسان العرب 7/458) مادة : لحظ .
([660]) صحیح بخاري(3212)، صحیح مسلم(2485)، مسند احمد(21429)، سنن نسائي(716)
([661]) صحیح بخاري(455)،( 950)، صحیح مسلم(892)، مسنداحمد(23775)، سنن نسائي(1594)، سنن ابن ماجة(1898)
([662]) دیکھیں: فتاوى اللجنة الدائمة (6/305-306)
([663]) صحیح بخاري(886)، صحیح مسلم(2068)، مسند احمد(4699)، سنن نسائي(1382)، سنن ابو داود(1076)، سنن ابن ماجة(3591)، موطا امام مالك(1705)
([664]) صحیح بخاري(883)، مسند احمد(23198)، سنن نسائي(1403)، سنن دارمي(1541)
([665]) صحیح مسلم (655)،مسند احمد(9118)، سنن ترمذي(204)، سنن نسائي(683)، سنن بو داود(536)، سنن ابن ماجة(733)، سنن دارمي(1205)
([666]) صحیح بخاري(386)، صحیح مسلم(255)، مسند احمد(11565)، جامع ترمذي(400)، سنن نسائي(775)، سنن دارمي(1377)
([667]) سنن بو داود(650) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح " کہا ہے، مسند احمد(10769)، سنن دارمي(1378)
([668]) المستدرك على مجموع فتاوى شيخ الإسلام بن تيمية (3/69) . جمع وترتيب : الشيخ محمد بن عبد الرحمن بن قاسم –حفظه الله- الطبعة الأولى لعام 1418هـ .
([669]) صحیح بخاري(5238)، صحیح مسلم(442)، مسند احمد(4542)،سنن ترمذي(570)،سنن نسائي(706)، سنن ابو داود(568)، سنن ابن ماجة(16)، سنن دارمي(1278)
([670]) (7/330-332)
([671]) صحیح مسلم(443)، مسند احمد(26507)، سنن نسائي(5129)
([672]) صحیح مسلم(444)،سنن حمد(7975)، سنن نسائي(5128)
([673]) صحیح مسلم(298)، مسند احمد(23664)،سنن ترمذي(134)، سنن نسائي(271)، سنن ابو داود(261)، سنن ابن ماجة(632)، سنن دارمي(771)
([674]) صحیح بخاري(311)، مسند احمد(24477)، سنن ابو داود(2476)، سنن ابن ماجة(1780)،سنن دارمي(877)
([675]) صحیح مسلم(440)، سنن احمد(7351)، سنن ترمذي(224)، سنن نسائي(820)، سنن ابو داود(678)، سنن ابن ماجة(1000)، سنن دارمي(1268)
([676]) صحٰیح بخاري(866)، مسند احمد(26001)، سنن نسائي(1333)، سنن ابو داود(1040)، سنن ابن ماجة(932)
([677]) [الروم:23].
([678]) [النبأ:9].
([679]) صحیح بخاری (247)، صحیح مسلم (2710)۔
([680]) صحیح بخاری (6296)، صحیح مسلم (2012)، احمد (13816)، ترمذی (1812)، ابو داود (3731)، مالک (1727)۔
([681]) یہ روایت صحیح بخاری، کتاب الاستئذان میں آئی ہے۔ (6259)۔
([682]) صحیح بخاری (6293)، صحیح مسلم (2015)، احمد (4501)، ترمذی (1813)، ابو داود (5246)، ابن ماجہ (3769)۔
([683]) فتح الباري (11/89)۔
([684]) المجلد السابع (13/155) رقم (2012)۔
([685]) فتح الباري(11/90)۔
([686]) شرح مسلم. المجلد السابع (13/156) حديث رقم (2015)۔
([687]) رواه بخاری(247)، مسلم (2710)، احمد(18114)، ترمذی(3574)، ابو داود(5046)۔
([688]) (18089)
([689]) شرح مسلم . المجلد التاسع (17/29)۔
([690]) تہہ بند کا داخلی حصہ: یعنی وہ حصہ جو جسم کے قریب ہوتا ہے اور اور پہنتے وقت ہاؤں لے دائیں جانب ہوتا ہے۔ کیوں کہ تہہ بند پہننے والا دائیں جانب سے پہنتا ہے اور یہی وہ حصہ ہے جو جسم سے لگا ہوتا اور دھویا جاتا ہے۔ اللسان ( 11/240) مادة : ( دخل ) . اس کے بعد والی روایت میں مذکور "صنفة الثوب" بھی اسی معنی میں ہے یعنی کپڑے کا وہ کنارہ جو جلد کے قریب ہوتا ہے۔ دیکھیں: (فتح الباري 11/130)۔
([691]) رواه بخاری(6320)، (7393)، مسلم(2714)، احمد(7752)، ترمذی(3401)، ابو داود(5050)، ابن ماجہ(3874) دارمی(2684).
([692]) اس روایت کی تخریج گزر چکی ہے۔
([693]) بخاری(6314)، احمد(22733)، دوسرے محدثین نے "ہاتھ" کے لفظ کے بغیر ذکر کیا ہے۔
([694]) (11/113)۔
([695]) بخاری. في كتاب الوكالة/ باب . إذا وكل رجلاً فترك الوكيل شيئاً فأجازه الموكل فهو جائز... اور اس حدیث کو امام نسائي، إسماعيلي اور أبو نعيم نے موصولاً بیان کیا ہے .. (فتح الباري 4/569).
([696]) نفث، تُھک تُھکانے سے کم درجہ کی چیز ہے، کیوں کہ تُھک تُھکانے میں لعاب کی بھی آمیزش ہوتی ہے جبکہ "نفث" پھونک مارنے کی طرح ہے۔ بعض علما کے نزدیک دونوں ایک ہی شی ہے۔ (لسان العرب 2/195) مادة :(نفث).
([697]) رواه بخاری(5017).
([698]) شرح صحيح مسلم للنووي . المجلد السابع(14/150).
([699]) اس میں سورہ اخلاص بھی اغلبیت کی بنا پر داخل ہے۔ (فتح الباري 8/680).
([700]) بخاری(4439)، مسلم(2192)،احمد(24310)، ابو داود(3902)ابن ماجہ(3529)، مالک(1755).
([701]) ابو داود( 5055) مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہی ہیں. علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، مسند احمد(23295)، ترمذی(3403)، دارمی(3427).
([702]) بخاری في الأدب المفرد (1027)، اور علامہ البانیرحمہ اللہ نے اسے صحيح لغيره کہا ہے: (917)
([703]) ابو داود(1400) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ، احمد(7915)، ترمذی(2891)، ابن ماجہ(3786).
([704]) بخاری(4008)، مسلم(807)، احمد(16620)، ترمذی(2881)، ابو داود(1397)، ابن ماجہ(1368)،دارمی(1487).
([705]) شرح صحيح مسلم . تیسری جلد(6/76).
([706]) رواه ابو داود( 5059)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([707]) مسند احمد (25926)، ابو داود(5045) مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہیں، علامہ البانی رحمہ اللہ نے (تین مرتبہ) کے لفظ کے علاوہ باقی حدیث کو صحیح کہا ہے . نیز امام ترمذي(3398)، اور امام أحمد(22733) نے اس حدیث کو حضرت حذيفة بن اليمان سے بھی روایت کیا ہے.
([708]) بخاری(6312)، احمد(22760)، ترمذی(3417)، ابو داود(5049)، ابن ماجہ(3880).
([709]) مسلم (2712)، احمد(5478).
([710]) بخاری(6320)، مسلم(2714)، احمد(7313)، ترمذی(3401)، ابو داود(5050) اور الفاظ اسی کے ہیں، ابن ماجہ(3874)،دارمی(2684).
([711]) مسلم (2713)، احمد(8737)، ترمذی(3400)، ابو داود(5051)، ابن ماجہ(3831)۔
([712]) ابو داود(5067) وصححه الألباني، احمد(7901)، ترمذی(3392)، دارمی(2689).
([713]) مسلم(2715)، احمد(12142)، ترمذی(3396)، ابو داود(5053).
([714]) بخاری: (6318)، مسلم(2727)، احمد(605)، ترمذی(3408)، ابو داود(2988)، دارمی(2685).
([715]) ابو داود(5054)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([716]) ابو داود(3893) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے، ورواه أحمد(6657)، ترمذی(3528)
([717]) بخاری(247)، مسلم(2710)، احمد(18044)، ترمذی(3394)، ابو داود(5046)، ابن ماجہ(3876)، دارمی(2683).
([718]) بخاری(6306)، احمد(16662)، ترمذی(3393)، والنسائي(5522).
([719]) بخاری(3292)، (6995 مسلم(2261)،(2262)،(2263) احمد(22129)، ترمذی(2277)،ابو داود(5021)، ابن ماجہ(3909)، مالک(1784)، دارمی(2141).
([720]) بخاری في الأدب المفرد(1187) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ (905)، ابن ماجہ(3723) . نیز یہ حدیث مسند احمد(7981)، اور ترمذي(2768) میں أبو ہریرہ سے مروی ہے۔
([721]) رواه ابن ماجه(3724) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ (3017).
([722]) ایک دوسری روایت میں ( ليس له حجارٌ ) کے الفاظ ہیں، دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے جس کا معنی یہ ہے کہ دیوار یا اس کے مثل کوئی پردہ یا رکاوٹ ہو جو اسے گرنے سے روکے۔ دیکھیں: شرح الأدب المفرد(2/601)۔
([723]) اسے امام بخاری نے "الأدب المفرد" میں نقل کیا ہے: (1192) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے: (908)، نیز اسے امام أحمد(20225) اور ابو داود(5041) نے بھی روایت کیا ہے۔
([724]) شرح الأدب المفرد (2/601).
([725]) لسان العرب میں ہے کہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے کتاب النہایہ میں "من تعارّ من الليل" کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعنی نیند سے جاگنا اور بیدار ہونا۔ (4/92) مادة: ( تعر).
([726]) بخاري(1154)، ترمذي(3414)، ابو داود(5060)، ابن ماجه(3878)، دارمی(2687)۔
([727]) بخاري(183)، مسلم(763)، أحمد(2165)، النسائي(1620)، ابو داود(58)، مالك(267).
([728]) بخاري(6312)، أحمد(22760)، ترمذي(3417) میں اس لفظ: ( الحمد لله الذي أحيا نفسي) کے ساتھ منقول ہے، نیز ابو داود(5049)، ابن ماجه (3880)، دارمی(2686) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
([729]) بخاری(1804)، مسلم(1927)، احمد(7184)، ابن ماجہ(2882)، مالک(1835)،دارمی(2670).
([730]) الآداب الشرعية (1/450).
([731]) ابو داود(2600) وصححه الألباني، احمد(4510)، ترمذی(3442)، ابن ماجہ(2826).
([732]) عون المعبود بشرح سنن أبي داود . چوتھی جلد: (7/187).
([733]) امام بغوی رحمہ اللہ نے اسے شرح السنہ میں ذکر کیا ہے اور اسے حسن کہا ہے: (1346). (5/143).
([734]) بخاری(2998)، احمد(4734)، ترمذی(1673)، ابن ماجہ(3768)، دارمی(2679).
([735]) ابو داود(2607) وحسنه الألباني، احمد(6709)، ترمذی(1674)، مالک(1831).
([736]) عون المعبود. چوتھی جلد: (7/191).
([737]) ابو داود: ( 2608). امام البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح.
([738]) مسلم: (2113)، احمد: (7512)، ترمذی: (1703)، ابو داود: (2555)، دارمی: (2676).
([739]) مسلم: (2114)، احمد: (8565)، ابو داود: (2556).
([740]) عون المعبود. چوتھی جلد: (7/162).
([741]) بخاری(1088)، مسلم(1339)، احمد(7181)، ترمذی(1170)، ابو داود(1733)، ابن ماجہ(2899)، مالک(1833).
([742]) بخاری(3006)،مسلم(1341)، احمد(1935)، ابن ماجہ(2900).
([743]) شرح صحيح مسلم . پانچویں جلد: (9/93).
([744]) مسلم(2742)، احمد(10759)، ترمذی(2191)، ابن ماجہ(4000).
([745]) چہ جائیکہ دور حاضر میں مردوں کی برابری کا دعوی کرنے والی بعض خواتین اس حقیقت کی منکر ہو، کیوں کہ وہ خود بھی اپنی ذات کی حقیقت سے آشنا ہے اور اپنی ناتوانی سے بھی واقف ہے، یہی اللہ رب العالمین کی اپنی مخلوقات میں سنت ہے جو تبدیل نہیں ہو سکتی۔ لیکن چونکہ اسے یہ خدشہ ہے کہ پچھڑی ہوئی اور دقیانوسی خیالات کی سمجھی جائے کا لہذا (موجودہ) ثقافت کے شانہ بشانہ چلنے اور مغربی تہذیب وتمدن کی حامل عورتوں کی ہم رکابی کے لیے وہ لازمی طور سے ان کی طرح تنہا سفر کرے گی، ان کے جیسا لباس پہنے گی، اجنبی مردوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی، اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اسے دقیانوسی خیالات کی حامل سمجھا جائے گا۔ اللہ ہمیں اور ان تمام لوگوں کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
([746]) بخاری(2950)، احمد(15354)۔
([747]) ابو داود(2606) اور الفاظ اسی کے ہیں، وصححه الألباني. احمد(15012)، ترمذی(1212)، ابن ماجہ(2236)، دارمی(2435).
([748]) ابو داود(2602) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، ترمذی(3446).
([749]) مسلم(1342)، احمد(6338)، ابو داود(2599)، ترمذی(3447)، دارمی(2673).
([750]) اسے امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنة: (1351) (5/149) میں روایت کیا ہے، نیز فرمایا: اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے، اس روایت کو محمد نے عبد اللہ بن یوسف سے اور امام مسلم نے ابن ابی عمر عن معن کی سند سے روایت کیا ہے، وہ دونوں امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں۔
([751]) ابو داود (2599) علامہ البانی رحمہ اللہ نے "اور نماز بھی اسی قاعدے پر ہے" کے علاوہ باقی حدیث کو صحیح کہا ہے۔
([752]) زاد المعاد کے محقق فرماتے ہیں: اس کی سند حسن ہے، اسے ابن السنی نے عمل اليوم والليلة ص197، وابن حبان(2377) والحاكم2/100 میں حضرت صہیب سے نقل کیا ہے۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے " أمالي الأذكار" میں حسن کہا ہے۔ دیکھیں: حاشية الزاد (1/464).
([753]) مسلم(2718)، ابو داود(5086) . نبی اکرم ﷺ کا فرمان: ( سمع سامع ): یعنی میرے اس قول کو دوسروں تک پہونچا دے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ: "(ہماری طرف سے) اللہ کی حمد اور اس کے انعام کی خوبصورتی (کے اعتراف) کے سننے والے نے گواہی دی۔ اور نبی اکرم ﷺ کا فرمان: ( ربنا صاحبنا وأفضل علينا): اے اللہ! تو ہماری حفاظت فرما اور ہم پر اپنی وافر نعمتوں کا فضل برسا اور ہم سے تمام پریشانیوں کو دور فرما۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان: ( عائذا بالله من النار ): حال ہونے کی وجہ منصوب ہے، یعنی میں جہنم سے اللہ رب العالمین کی پناہ چاہتا ہوں۔ یہ قوم امام نووی رحمہ اللہ کا ہے۔ دیکھیں: شرح مسلم: نوویں جلد: (17/34-35).
([754]) ابو داود(1536) وحسنه الألباني، احمد(7458)، ترمذی(1950)، ابن ماجہ(3862).
([755]) بخاری(1000)، مسلم(700)،احمد(4936)، ترمذی(472)، والنسائي(490)، ابو داود(1224)، ابن ماجہ(1200)،مالک(271)، دارمی(1590).
([756]) فتاوي اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء. (8/123-124) رقم (1375).
([757]) مسلم(2708)، احمد(26579)، ترمذی(3437)، ابن ماجہ(3547)، دارمی(2680).
([758]) التمهيد (24/186).
([759]) فتح المجيد شرح كتاب التوحيد. ص161 . ط : دار اليقين للنشر والتوزيع. ( مصر ).
([760]) ابو داود(2628) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، أحمد(17282).
([761]) ابو داود(3746)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے ، احمد(15648)، ابن ماجہ(3286).
([762]) الآداب الشرعية (3/182).
([763]) الآداب الشرعية (3/182).
([764]) اس معنی کو بیان کرنے کے لیے عربی میں لفظ "المُعرِّس" استعمال ہوتا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ: ایسا شخص جو دن بھر سفر کرے اور رات کو آرام کرے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ لفظ آخر رات میں قیام کرنے پر بولا جاتا، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ: عرس المسافر: یعنی مسافر نے وقت سحر قیام کیا۔ جبکہ ایک علما کی ایک جماعت کہتی ہے کہ: التعريس: قافلہ کا سفر میں آخری پہر میں قیام کرنے کو کہتے ہیں، ایل لمحہ آرام کر کے اپنی سواری کو بٹھاتے ہیں پھر ہلکی سی نیند لیتے ہیں پھر پو پھٹتے ہی نکل پڑتے ہیں۔ یہ صاحب لسان العرب کا قول ہے: (6/136) مادة: (عرس).
([765]) مسلم(1926)، احمد(8237)، ترمذی(2858)، ابو داود(2569).
([766]) شرح صحيح مسلم . نوویں جلد: (13/59).
([767]) مسلم (680)، ابو داود(435)، ابن ماجہ(697)، مالک(25).
([768]) النسائي(624)، احمد(16304).
([769]) مسلم (683)، احمد(22126).
([770]) بخاری(1804)، مسلم(1927)، احمد(7184)، ابن ماجہ(2882)، مالک(1835)، دارمی(2670).
([771]) فتح الباري (3/730).
([772]) بخاری(1801)، مسلم(715) كتاب الامارة.
([773]) شرح مسلم . ساتویں جلد: (13/61).
([774]) بخاری(3088)، مسلم(2769)، احمد(15345).
([775]) بخاری (1239)، مسلم(2066)، مسند احمد(18034)،ترمذی(2809)، النسائي(1939)
([776]) امام بغوی رحمہ اللہ اپنی شرح میں فرماتے ہیں: ’’فی خراف الجنة‘‘ ،’’فی مخارف الجنۃ‘‘ اور ’’خرف الجنۃ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اور یہ مخرف کی جمع ہے۔ اصمعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس سے مراد کھجور چننا ہے ۔ اسے ’’خرف ‘‘وغیرہ اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ چُنا جاسکتا ہے۔۔۔ابن انباری رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس سے مراد ’’جنت کا پھل چننا‘‘ ہے کیونکہ عرب کہتےہیں ’’خرفت النخلۃ اخرفہا‘‘ ۔ لہذا نبی اکرم ﷺ نے مریض کی عیادت کرنے والے کے اجر وثواب کو پھل چننے والے کے پاس جمع ہونے والے پھل سے تشبیہ دی ہے۔
([777]) مسلم (2568)، مسند احمد(21868)، ترمذی(967)
([778]) اسے امام بخاری نے الادب المفرد (522) میں روایت کیا ہے اور یہ بلاغات مالک میں سے ہے( باب عیادۃ المریض والطیرۃ)۔ اس حدیث کے متعلق ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ مدنی صحیح حدیث (التمھید 24/273)۔نیز اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح الادب المفرد میں صحیح قرار دیا ہے۔
([779]) اسے ابن عبد البر نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ تک اپنی سند سے روایت کیا ہے(التمھید 24/273)
([780]) مسلم (2569) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد (8989)
([781]) مسند احمد(756)،ابو داود(3098)، ابن ماجه(1442) اور الفاظ اسی کے ہیں۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے : صحیح ابن ماجہ(1191)
([782]) کشف المشکل من حدیث الصحیحین، رقم(715)، (2/236) معمولی تصرف کے ساتھ۔
([783]) بخاری (5655)، مسلم(923)، مسند احمد(21269)،النسائي(1868)،ابو داود(3125)
([784]) بخاری (5654) امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: خواتین کا مردوں کی عیادت کرنے کا بیان، ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی تھی جو اہل مسجد میں سے تھے۔ اس حدیث کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر کے بغیرامام مسلم (1376) نے بھی روایت کیا ہے، مسند احمد(23839)، موطا امام مالک(1648)
([785]) موطا امام مالک (531)۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حدیث کو مرسل بیان کرنے میں امام مالک سے روایت کرنے والے مختلف نہیں ہیں۔۔۔۔جبکہ یہ حدیث امام مالک کے طریق کے علاوہ مسند متصل صحیح طریق سے مروی ہے ۔ (التمہید 6/254)
([786]) لسان العرب میں ہے: ۔۔۔۔۔۔۔تجالت أي أسنت وكبرت(یعنی تجالت کا معنی ہے سن رسیدہ ہو گئی)۔ اور ام صبیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے: كنا نكون في المسجد نسوة قد تجاللن أي كبرن (یعنی ہم سن رسیدہ خواتین مسجد میں ہوا کرتی تھیں)۔ نیز کہا جاتا ہے: جلت فھی جليلةِ ،وتجالت فهي متجاّلة. (11/116) مادة : (جلل)
([787]) التمہید (6/255)
([788]) بخاری (5651)، مسلم(1616)، مسند احمد(13886)، ترمذی(2097)، النسائي(138)،ابو داود(2886)، ابن ماجه(2728)، سنن دارمی(733)
([789]) فتح الباری (10/119)۔ نیز ابن منیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : حدیث جابر میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ان دونوں حضرات کو ان کی(حضرت جابر کی) بے ہوشی کی خبر تھی، غالبا اتفاق سے ان کے تشریف لانے کے وقت ہی وہ بے ہوش ہوگئے تھے۔ [اس پر ابن حجر رحمہ اللہ رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:] میں کہتا ہوں: بلکہ سیاق وسباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بے ہوشی کی خبر ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہو گئی تھی جبکہ وہ دونوں حضرات راستے میں تھے۔ اور صرف مریض کو عیادت کرنے والے کی موجودگی کا علم ہونا۔۔۔۔۔۔الخ(10/118-119)
([790]) تنبیہ: بعض عرب ممالک میں یہ نظریہ رائج ہے کہ جس مریض کا دماغ مر چکا ہو( یعنی دماغ نے کام کرنا بالکل بند کردیا ہو) اسے ایک انجکشن دے کر مار دیا جائے تاکہ وہ زندگی کی تکلیفات سے راحت پالے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ان کے طبی قوانین کے مطابق اب اس مریض کو موت آنا یقینی ہے بس مسئلہ اتنا ہے کہ کب آئے گی۔ لہذا ہم اسے یہ انجکشن اس لئے دیتے ہیں تاکہ اسے ان تکلیفوں سے راحت دلا سکیں جو اس حالت میں زندہ رہتے ہوئے اس کو پہنچ سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(باقی اگلے صفحے میں)
ایسے لوگوں کو جوابا کہا جائے گا کہ : آپ لوگ اس طریقے پر اسے راحت پہنچانے کے بجائے الٹا اسے اور دوسروں کو بھی (بہت ساری خیر وبھلائی سے)محروم کررہے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اہل ایمان واحسان میں سے ہو (یعنی مومن ہو)تو مذکورہ حالت میں اس کا زندہ رہنا اس کے گناہوں کی بخشش اور اس کی بلندی درجات کا باعث ہے۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جب بھی کسی مسلمان کو بیماری یا اس کے علاوہ کوئی تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ گرا دیتی ہے جس طرح درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔ بخاری (5667) وغیرہ۔ نیز اس کے زندہ رہنے سے یہ بھی ممکن ہے کہ اسے لوگوں کی نیک دعائیں حاصل ہوں اور اللہ تعالی ان دعاوں کو شرف قبولیت بخش کر اسے اس بیماری سے شفا دےدے، کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی اس کے حق میں دعاوں کی بدولت اس کے سارے گناہ بخش دئے جائیں۔ اس کے علاوہ اس شخص کے زندہ رہنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے اہل وعیال کو جو غم وتکلیف پہنچتی ہے اس کی وجہ سے ان کے گناہوں کی بھی بخشش ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: مسلمان کو جو بھی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکیلف اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کاٹنا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالٰی اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔بخاری (5642) وغیرہ۔ اس شخص کے زندہ رہنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس طرح حسن سلوک کا سلسلہ چلتا رہےگا، بالخصوص تب جب وہ مریض ماں یا باپ ہو۔ نیز اس کے زندہ رہنے میں اس کی زیارت وعیادت کے ذریعہ بکثرت اجر وثواب کے حصول کے مواقع بھی موجود ہیں۔ لہذا ان مذکورہ وجوہات کی بنا پر اس قول کی شناعت واضح ہوتی ہے کہ : دماغی طور پر مردہ شخص کے زندہ رہنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے اور موت ہی اس کے لئے افضل ہے۔واللہ اعلم۔
([791]) دیکھیں التمہید (24/276)
([792]) بخاری (5657)، مسند احمد(12381)،ابو داود(3095)
([793]) بخاری (6681)، مسلم(24)، مسند احمد(23162)، النسائي(2035)
([794]) الآداب الشریعۃ (2/190)
([795]) الآداب الشریعۃ (2/189)
([796]) التمہید لابن عبد البر (24/277) جملے کی تقدیم وتاخیر میں معمولی تصرف کے ساتھ۔
([797]) بخاری (463)
([798]) اس کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([799]) الادب المفرد(536)، اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الاسناد کہا ہے(416)
([800]) الادب المفرد(537)، اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الاسناد کہا ہے(417)
([801]) اس کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([802]) بخاری (5666)۔۔ اس حدیث کو عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ کے طریق سے ان لوگوں نے روایت کیا ہے: امام احمد(25380)، ابن ماجہ(1465) اور دارمی(80)۔
([803]) بخاری (5667)، مسلم(2571)، مسند احمد(3611)، سنن دارمی(2771)
([804]) بخاری (1304)، مسلم(924)
([805]) مسلم(919)، مسند احمد(25958)، ترمذی(977)، النسائي(1825)، ابن ماجه(1447)
([806]) بخاری (3616)
([807]) فتح الباری(10/124)
([808]) بخاری (5659)، مسلم(1628)، مسند احمد(1443)، اور ترمذی(2116)، النسائي(3626)، موطا امام مالک(1495) اور سنن دارمی(3196) میں دعا کے بغیر یہ حدیث مروی ہے۔
([809]) کشف المشکل من حدیث الصحیحین (1/233) رقم (164)
([810]) مسند احمد(2138)، ترمذی(2083)،ابو داود(3106) الفاظ اس کے ہیں اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
([811]) مسند احمد(6564)،ابو داود (3107) الفاظ اس کے ہیں اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
([812]) فتح الباری(0/126)
([813]) ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (10/126) میں کہتے ہیں: اس حدیث کو ابو یعلی نے بسند حسن روایت کیا ہے۔
([814]) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: معوذات سے مراد سورہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ہے۔ اور جمع کا صیغہ یا تو اس اعتبار سے استعمال کیا گیا ہے کہ اقل جمع دو ہوتا ہے یا اس اعتبار سے کہ یہاں ان سورتوں میں استعمال شدہ الفاظ مراد ہے۔ اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ معوذات سے ان سورتوں کے ساتھ ساتھ سورہ اخلاص بھی مراد ہے اور تغلیبا معوذات کہہ دیا گیا، یہی آخری قول معتمد ہے۔ فتح الباری(7/738)
([815]) النفث: اس سے وہ پھونک مراد ہے جو تھوکنے سے ذرا کم ہوتا ہے۔ کیونکہ تھوکنے میں کچھ مقدار میں لعاب بھی باہر آتا ہے جبکہ نفث ہوا کی پھونک مارنے کی طرح ہوتا ہے۔ یہ بات لسان العرب(2/195) مادہ : (نفث) میں کی گئی ہے۔
([816]) بخاری (5748)، مسلم(2192) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(24207)،ابو داود(3902)، ابن ماجه(3529)، موطا امام مالک(1755)۔
([817]) بخاری (2276)، مسلم(2201) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(10686)،ابو داود(3418)، ابن ماجه(2156)۔
([818]) بخاری (5675)، مسلم(2191)، مسند احمد(24317)، ابن ماجه3520)۔
([819]) مسلم(2186)، مسند احمد(11140)، ترمذی(972)، ابن ماجه(3523)۔
([820]) بخاری (5745)، مسلم(2194)، مسند احمد(24096)،ابو داود(3895)، ابن ماجه(3521)۔
([821]) شرح مسلم ، ساتواں جلد(14/151)
([822]) صحبیح مسلم(2877)، مسند احمد(13711)،ابو داود(3113)، ابن ماجه (4167)
([823]) شرح مسلم للنووی: ساتواں جلد(17/176)
([824]) مسلم(916)، مسند احمد(10610)، ترمذی(976)، النسائي(1826)،ابو داود(3117)، ابن ماجه(1445)۔
([825]) شرح مسلم: تیسری جلد (6/183)
([826]) مسلم(920) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(26003)،ابو داود(3118)، ابن ماجه(1454)۔
([827]) الاعراف (26-27)
([828]) النسائي(2559)، اسے علامہ البانی رحمہ اللہ (صحیح النسائي ، رقم 2399) میں ھسن قرار دیا ہے، مسند احمد(6656)، ابن ماجه(3605)۔ یہ حدیث بخاری ، کتاب اللباس کی ابتدا میں معلقا مروی ہے۔
([829]) تفسیر القرآن العظیم(2/217) طبع دار الکتب العلمیہ، بیروت 1418ھ
([830]) الشرح الممتع(2/144)
([831]) یعنی وہ دونوں ننگے بدن ایک ہی کپڑے میں نہ لیٹیں۔ یہ بات تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی میں کہی گئی ہے۔
([832]) مسلم(338)، مسند احمد(11207) ترمذی(2793)، ابن ماجه(661)۔
([833]) مسلم(341)،ابو داود(4016)
([834])ابو داود(4017) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے (رقم 3391)حسن قرار دیا ہے، ترمذی(2794)، ابن ماجه(1920)۔
([835]) علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابوداود کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے(برقم 3389)
([836]) دیکھئے بخاری /کتاب الصلاۃ/ باب: ما یذکر فی الفخذ۔
([837]) فتوی اللجنۃ الدائمۃ رقم (2252) (6/165-167)۔
([838]) ایسی خبریں ایک مومن کے لئے باعث مسرت نہیں ہوتیں، اس لئے ہم آپ کی سماعت وبصارت کو ایسی خبروں سے دور رکھیں گے۔ لہذا جنہیں جاننا ہو وہ (اپنے گرد ونواح کی) خواتین سے دریافت کرلیں کیونکہ ان کے پاس ایسی بہت ساری خبریں ہوتی ہیں۔واللہ المستعان۔
([839]) اس پر انتہائی باریک اور برہنہ لباس کو بدر جہ اولی قیاس کیا جائے گا۔
([840]) مسلم(2128)، مسند احمد(8451)، موطا مالک(1694)۔ اور مسلم میں اس کا مکمل حصہ موجود ہے: اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
([841]) بخاری (261)، مسلم(316) وغیرہ۔
([842]) فتاوی الشیخ محمد بن عثیمین(2/826،825)۔ طبع دار عالم الکتب-ریاض- پہلی طبع۔
([843]) البراز، با کے زبر کے ساتھ: اس سے مراد دور دراز کی بالکل خالی اور وسیع وعریض زمین ہوتی ہے۔ جب انسان ایسی جگہ جاتا ہے تو کہتے ہیں : قد برز یبرز بروزا، یعنی وہ کھلی جگہ میں گیا ہے۔ اور البراز با کے زبر کے ساتھ : اس مراد وہ جگہ بھی ہوتی ہے جہاں درخت وغیرہ کی کوئی آڑ نہ ہو۔۔۔۔(لسان العرب 5/309)، مادہ: (برز)۔
([844]) اس کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([845]) بخاری (5885)،(5886)، مسند احمد(1983)، ترمذی(2784)،ابو داود(4097)، ابن ماجه(1904)، سنن دارمی( 2649)
([846]) فتح الباری(10/345)
([847]) یعنی گھٹیا اور انتہائی حقیر کپڑا۔
([848])ابو داود(4063)، الفاظ اسی کے ہیں، اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے، مسند احمد(15457)، النسائي(5223)۔
([849])ابو داود(5788)، مسلم(2087)، مسند احمد(8778)، موطا مالک(1698)۔
([850]) الجمۃ جیم کے پیش کے ساتھ: سر کے اس حصے سے زلف کا نکلنا جہاں بالوں کا جمگٹھا ہوتا ہے، اور یہ وفرہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے : رسول اللہ ﷺ کے گھونگھریالے بال تھے: الجمہ سر کے اس بال کو کہتے ہیں جو مونڈھوں تک ہوتا ہے۔(لسان العرب 12/107) مادہ (جمم)۔
([851]) بخاری (5789)، مسلم(2088)،مسند احمد(7574)، سنن دارمی(437)
([852]) مسلم(2620)، مسند احمد(7335)،ابو داود(4090)، ابن ماجه(4174)۔
([853]) شرح مسلم، آٹھویں جلد (16/148،149)
([854]) مسلم(91)، مسند احمد(3779)۔
([855]) فتح الباری(10/271)
([856]) یہاں ابن حجر ان احادیث کو مراد لے رہے ہیں جو تکبر کی بنا پر اپنے کپڑے کو لٹکانے کے متعلق وارد ہیں۔
([857]) فتح الباری(10/271)
([858]) مسند احمد(5631) الفاظ اسی کے ہیں۔ابو داود(4029) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے (برقم 3399)۔ نیز یہ ابن ماجه (3606) میں بھی ہے۔
([859]) (عون المعبود) بشرح سنن ابی داود، چھٹی جلد(11/50،51) معمولی تصرف کے ساتھ۔
([860]) الفتاوی (22/138)
([861])ابو داود(4057) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے (برقم 3422)، النسائي (5144)، ابن ماجه(3595)۔
([862]) مسلم(2074)
([863]) بخاری (5864)، مسلم(2089)، مسند احمد(9709)، النسائي(5273)
([864]) بخاری (2919)، مسلم(2076)،، مسند احمد(11821)، ترمذی(1722)، النسائي(5310)،ابو داود(4056)، ابن ماجه(3592)۔
([865]) بخاری (5828)، مسلم(2069) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(367)، النسائي(5312)، ابن ماجه(2820)۔
([866])ابو داود(4232) علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں برقم(3651): حسن ، اور مسند احمد(18527)، ترمذی(177)، النسائي(5161)۔
([867]) الفتاوی (22/143)
([868]) بخاری (5787)، مسند احمد(10177)، النسائي(5330)
([869]) مسلم(106)، مسند احمد(20811)، ترمذی(1211)، النسائي(2564)،ابو داود(4087)، ابن ماجه(2208)، سنن دارمی(2605)۔
([870]) مسند احمد(25972)،ابو داود(4117) الفاظ اسی کے ہیں اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور ترمذی(1732)، النسائي(5327)، ابن ماجه(358)، موطا مالک(1700)، سنن دارمی(1644)۔
([871]) فتاوی الشیخ ابن عثیممین(2/838)
([872]) بخاری (5784) الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2085)، مسند احمد(5328)، سنن ترمذٰی(1730)، النسائي(5332)،ابو داود(4085)، ابن ماجه(3569)، ،موطا مالک(16696)
([873]) فتح الباری(10/266)
([874]) بخاری (5787)، مسند احمد(9064)، النسائي(5330)
([875]) بخاری (5785)، مسند احمد(19877)، النسائي(1502)
([876]) فتح الباری(10/267)
([877]) یہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی بخاری ، کتاب اللباس کی شرح کا خلاصہ ہے (کیسیٹ نمبر 2 طرف أ)
([878]) تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان (5/410)
([879]) تفسیر سعدی(5/412)
([880]) بخاری (5957)، مسلم(2107)، مسند احمد(25559)، موطا مالک(1803)
([881]) شرح مسلم، ساتویں جلد(14/69)
([882]) بخاری (5952)، مسند احمد(23740)،ابو داود(4151)
([883]) بخاری (5952 الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(2107)، مسند احمد(24197)، النسائي(761)، ابن ماجه(3653)
([884]) فتاوی اللجنۃ الدائمۃ رقم (5611)، (6/179)، ورقم(2615) (6/183)
([885]) بخاری (5854)، مسلم(268)، مسند احمد(24106)، ترمذی(608)، النسائي(421)،ابو داود(4140)، ابن ماجه(401)
([886]) شرح مسلم آٹھویں جلد (3/131)
([887]) بخاری (5856)، مسلم(2097)، مسند احمد(7753)، ترمذی(1779)،ابو داود(4139)، ابن ماجه(3616)، موطا مالک(1702)
([888]) مسلم(2098)، مسند احمد(9199)، النسائي(5369)
([889]) بخاری (5855)، مسلم(2097)، مسند احمد(7302)، ترمذی(1774)،ابو داود(4136)، ابن ماجه(3617)، موطا مالک(1701)
([890]) شرح مسلم، ساتویں جلد (14/62)
([891]) شیخ البانی رحمہ اللہ سنہ 1999ء میں وفات پاچکے ہیں۔(مترجم)
([892]) شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ سند صحیح ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شیخین کے راویوں میں سے ہیں، سوائے ربیع بن سلیمان المرادی کے جو کہ ثقہ ہے۔ دیکھئے السلسلۃ الصحیحۃ رقم(348) (1/616-617)
([893]) مسند احمد(23449)،ابو داود(4160) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([894]) ترمذی(1767)،ابو داود(4020) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([895])ابو داود(4023) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے دونوں جگہ [وما تأخر) کی زیادتی کے بغیر اسے حسن قرار دیا ہے۔، نیز یہ سنن دارمی (2690) میں بھی ہے۔
([896]) مسند احمد(5588)، ابن ماجه(3558) الفاظ اسی کے ہیں اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے رقم (2879)۔
([897]) شرح ابن ماجہ للسندی۔
([898]) بخاری (5823)، مسند احمد(26517)،ابو داود(4024)۔
([899]) سنن ابو ادود(4020) یہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہی حدیث کا تتمہ ہے جو گزر چکی۔
([900]) مسند احمد(2220)،ابو داود(4061) علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا: صحیح۔ نیز یہ حدیث سنن ابن مانہ(1472) اور ترمذی(994) میں بھی ہے۔
([901]) مسند احمد(19599)، النسائي(5322)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے برقم(4915)۔ نیز یہ ابن ماجه(3567) میں بھی ہے۔
([902]) المعصفر: وہ کپڑا جو زرد رنگ سے رنگا گیا ہو۔ اور بن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے عام طور پر سرخ ہوتے ہیں۔(دیکھئے فتح الباری 10/318)
([903]) مسلم(2077) الفاظ اسی کے ہیں۔ مسند احمد(6477)، النسائي(5316)۔
([904]) شرح مسلم، ساتویں جلد (14/45)
([905]) بخاری (5901ا۹، مسلم(2337)، مسند احمد(18191)، سنن ترمذٰی(1724)، النسائي(5060)،ابو داود(4183)۔
([906]) فتح الباری(10/319)
([907]) بخاری (5874) الفاط اسی کے ہیں، مسلم(2092)، مسند احمد(12309)، سنن ترمذٰی(2718)، النسائي(5201)، النسائي(4214)
([908]) یہ عاصم بن کلیب ہیں جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں۔
([909]) مسلم(2078)،ابو داود(4225)۔ابو داود کی روایت میں میں ان انگلیوں کی صراحت موجود ہے جن کے متعلق راوی کو شک ہوگیا تھا، چنانچہ (علی رضی اللہ اللہ عنہ ) فرماتے ہیں : اور مجھے انہوں نے اس یا اس انگلی یعنی انگشت شہادت یا درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے-عاصم کو شک ہے...۔
([910]) دیکھئے شرح مسلم للنووی، ساتویں جلد (14/59)
([911]) شرح مسلم للنووی، ساتویں جلد (14/59)
([912]) بخاری (3561)، سنن دارمی(61)
([913]) بخاری (1850)، الفاظ اسی کے ہیں، مسلم(1206)، مسند احمد(1853)، ترمذی(951)، النسائي(1904)،ابو داود(3238)، ابن ماجه(3084)، سنن دارمی(1852)
([914]) بخاری (5803)، مسلم(1177)، مسند احمد(4468)، ترمذی(833)، النسائي(2666)،ابو داود(1823)، ابن ماجه(2932)،موطا مالک(717)، سنن دارمی(1798)
([915]) بخاری (313)، مسلم(938)، مسند احمد(20270)، النسائي(3534)،ابو داود(2302)، ابن ماجه(2087)، سنن دارمی(2286)
([916]) مسند احمد(19248)، النسائي(5126) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے برقم(4737)،ابو داود(4173)، ترمذی(2786)، سنن دارمی(2646)
([917]) مسلم(444)،ابو داود(4174) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(7309)، النسائي(5128)
([918]) مسند احمد(14436) النسائي(5236)،ابو داود(4062)۔ اس حدیث کو ابن عبد البر نے اپنی سند سے التمہید(5/51) میں روایت کیا ہے۔ ابن حجر اس کے متعلق کہتے ہیں: اسےابو داود اور نسائی نے بسند حسن روایت کیا ہے( الفتح 10/379-380)۔ نیز اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نےابو داود اور نسائی کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
([919])ابو داود(4063) علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن صحیح کہا ہے۔
([920]) مسند احمد(16351)، ترمذی(1756)،ابو داود(4159)۔ اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ النسائي(5055)
([921]) النسائي(5054)،ابو داود(28)۔ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسے نسائی نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ نیز اسے اور نسائی کی روایت کو برقم(4679) علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
([922]) الجمۃ من شعر الرأس: وہ بال جو مونڈھوں تک ہو۔ (لسان العرب 12/107) مادۃ (جمم)
([923]) بخاری (3551)، مسلم(2337)، مسند احمد(18086)، ترمذی(1724)، النسائي(5060)،ابو داود(4183۔
([924]) شعر الرأس(أحكام وفوائد متنوعة عن شعر الرأس) جناب سلیمان الخراشی کی کتاب سے معمولی تصرف کے ساتھ منقول۔ یہ اس باب میں ایک بہترین رسالہ ہے۔ طبع دار القاسم، طبعہ اولی 1419۔ اور امام احمد کا کلام مولف نے حاشیۃ لروض(1/162) کے حوالے سے بیان کیا ہے اور آپ کہ یہ قول الآداب الشرعیۃ (3/328) میں بھی مل جائے گا۔
([925]) لسان العرب میں ہے: والقُزَّعةُ والقُزْعةُ: بالوں کا وہ مجموعہ جو بچوں کے سر پر چھوڑ دیا جاتا ہے گویا سر کے کناروں میں کئی چوٹیاں ہوں۔ القَزَعُ: بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور بعض جگہوں پر الگ الگ کرکے بال کو چھوڑ دیا جائے، یہ منع ہے۔(8/271-272) مادة:(قزع) .
([926]) صحیح بخاري(5921)، مسلم(2120)، مسند احمد(4459)، النسائي(5050)،ابو داود(4194)، ابن ماجه(3637)۔
([927]) تحفة الودود بأحكام المولود . (ص119) ط. دار الجيل - بيروت . الطبعة الأولى 1408هـ
([928]) مسلم(1305)، سنن ترمذی(912)،ابو داود(1981)
([929]) تفسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان . (6/222-223)
([930]) صحیح بخاري (5892).
([931]) صحیح بخاري(5893)
([932]) مسلم(259)/54
([933]) مسلم(259)/55
([934]) شرح صحیح مسلم، دوسری جلد (3/123)
([935]) بخاری(5899)،مسلم(21003)، أحمد(7233)، النسائي(5069)،ابو داود(4203)، ابن ماجه(3621)
([936]) مسلم(2102)، مسند احمد(13993)، النسائي(5076)، أبود اود(4204)، ابن ماجه(3624)
([937]) الآداب الشرعية (3/334-335)
([938]) الآداب الشرعية (3/336)
([939]) دیکھئے بخاری(5707)، مسلم(1489)
([940]) الاثمد : یہ ایک معروف سیاہ پتھ ہے جو سرخی مائل ہوتا ہے اور حجاز میں بایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بہترین قسم اصبہان سے لائی جاتی ہے۔ فتح الباری (10/167) میں یہ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے۔
([941]) مسند احمد(2048)،ابو داود(3878)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز یہ ترمذی( 1757)، ابن ماجہ(3497) میں بھی ہے۔
([942]) دیکھئے فتح الباری(10167)
([943]) اسے ابن أبي عاصم اور طبراني نے روایت کیا ہے اور ابن حجر نے اسے سنده حسن کہا ہے. ( فتح الباري: كتب الطب : 10/167)
([944]) ابو عبید کہتے ہیں: وشم ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور اس طرح ہوتا ہے کہ عورت اپنی ہتھیلی اور کلائی میں چھوٹی بڑی سوئی چبھوتی ہے یہاں تک کہ اس پر اثر کرجائے، پھر اسے سرمہ، نیل یا فلوروسینٹ سے بھر دیتی ہیں جس کی وجہ سے اس کا اثر نیلا یا سبز ہوجاتا ہے۔ (لسان العرب : 12/638) مادۃ: وشم۔
المستوشمۃ اس عورت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے گدواتی ہے۔
([945]) النمص: بال اکھاڑنا۔ اور نمص شعرہ ینمصہ نمصا کا مطلب ہے بال اکھاڑنا۔ النامصۃ: اس عورت کو کہتے ہیں جو زینت اختیار کرنے کے لئے گدواتی ہے۔ حدیث میں ہے لعنت النامصۃ والمنتمصۃ (گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت ہے)۔ اما فراء کہتے ہیں : نامصۃ اس عورت کو کہتے ہیں جو چہرے سے بال اکھاڑتی ہے، اسی لئے منقاش کو منماص کہتے ہیں کیونکہ وہ چہرے سے بال اکھاڑتا ہے۔ المنتصمۃ: اس عورت کو کہتے ہیں جو بذات خود بال اکھاڑتی ہے۔ (لسان العرب : 7/101) مادۃ : نمص)
([946]) فلج الاسنان: دانتوں کے درمیان دوری ۔ اور رجل افلج اس انسان کو کہتے ہیں جس کے دانتوں کے درمیان دوری اور کشادگی ہو۔ اسے التفلیج بھی کہتے ہیں۔ (التہذیب): الفلج بین الاسنان ثنایا اور رباعی دانتوں کے درمیان پیدائشی طور پر دوری اور کشادگی کو کہتے ہیں۔ اگر وہ تکلف کرنے ایسا کرے تو اسے التفلیج کہتے ہیں۔۔۔۔ نیز حدیث میں ہے: انہ لعن المتفلجات للحسن؛ یعنی (آپ ﷺ نے )خوبصورتی کے لئے دانتوں میں کشادگی کروانے والیوں (پر لعنت کی ہے)(لسان العرب :2/346-347 معمولی تصرف کے ساتھ) مادۃ: فلج۔
([947]) الواصلۃ من النساء: وہ عورت جو اپنے بال میں دوسرا بال لگاتی ہے۔ المستوصلۃ: اس عورت کو کہتے ہیں جو ایسا کروانے کا مطالبہ کرتی ہے اور جس سے ایسا کیا جاتا ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں : یہ بالوں میں کیا جاتا ہے، اور اس طرح کہ عورت جعلی طور پر اپنے بال میں دوسرے بال کو جوڑ دیتی ہے۔ (لسان العرب: 11/727) مادۃ:وصل۔
([948]) بخاری(4886)،(4877)، مسلم(2125)، مسند احمد(3935)، النسائي(5099)، ترمذی(2782)،ابو داود(4169)، ابن ماجه(1989)، دارمی(2647)
([949]) الرخرف (13-14)
([950]) مسلم(2620) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(8677)،ابو داود(4090)، ابن ماجه(4174)
([951]) بخاری(5789)، مسلم(2088)، مسند احمد(7574)، دارمی(437)
([952]) التکفی: آگے کی جانب ہچکولے کھاکر چلنا جیسے کشتی چلتے ہوئے ہچکولے کھاتی ہے۔(لسان العرب : 1/141،142) مادۃ: کفأ.
([953]) مسلم(2330)
([954]) الترمذٰی(3648)
([955]) الصبب : کسی نہر کا اترنا یا کوئی ڈھلواں راستہ۔ نبی اکرم ﷺ کی صفت یہ تھی کہ آپ ایسے چلتے تھے گویا اونچائی سے اتر رہے ہوں یعنی کسی ڈھلواں جگہ میں اتر رہے ہوں۔لہذا جب آپ ﷺ چلتے تو ایسا لگتا کہ آپ بڑی قوت سے اپنے قدموں کے بل چل رہے ہیں۔ (لسان العرب: 1/517) مادۃ: صبب۔
([956])ابو داود (4864)کی ایک روایت میں ہے: كأنما يهوي في صبوب (یعنی گویا آپ ﷺ کسی ڈھلان جگہ میں اتر رہے ہیں)۔
([957]) تقلع فی مشیتہ : یعنی ایسے چلنا جیسے وہ اونچائی سے اتر رہے ہیں۔۔۔ اور ی بھی کہا گیا ہے : اس سے مراد قوت کے ساتھ چلنا ہے یعنی جب وہ چلتے تو بڑی قوت کے ساتھ پیروں کو زمین سے اٹھاتے ، نہ کہ آہستگی اور نرمی سے قریب قریب ڈگ بھرتے کیونکہ یہ تو عورتوں کی چال ہے اور انہیں ہی اس سے متصف کیا جات ہے۔۔۔۔(لسان العرب: 8/290)مادۃ: قلع۔
([958]) الترمذی(3638)
([959]) زاد المعاد(1/167-177)
([960]) زاد المعاد (1/167-169)
([961]) لباس اور زینت کے باب میں اس پر گفتگو گزر چکی۔
([962]) مسند احمد(23449)، أبو داد(4160) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([963]) مسلم(925)
([964]) اس سلسلے میں لباس وزینت کے باب میں بعض مباحث گزر چکی ہیں، چنانچہ دوبارہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
([965]) ترمذی(2773) امام ترمذی نے کہا : یہ حديث اس سند سے حسن غريب ہے. ابو داود(2573)علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح کہا ہے۔
([966]) بخاری(2856)، مسلم(30)
([967]) بخاری(1670)، مسلم(1280)
([968]) بخاری(1513)، مسلم(1334)
([969]) مسلم (2428)، مسند احمد(1744)
([970]) اس حدیث میں اس بات پر دلیل موجود ہے کہ جانورپر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے، اور عین ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے وہ جانور مر جائے۔ نیز اس حدیث میں ایک اور نکتے کی جانب اشارہ ہے جو فطری طور پر سمجھ میں آتا ہے، اور وہ یہ کہ (جدید)مصنوعی سواریوں پر اس کے بنانے والے کی جانب سے مقرر کردہ حد سے زیاد بوچھ ڈالنے سے بچنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے اس میں نقص پیدا ہوسکتا ہے اور وہ خراب ہوسکتا ہے۔
([971])ابو داود(2567) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار دیا ہے۔
([972]) عون المعبود : چوتھی جلد (7/169)
([973]) عون المعبود : چوتھی جلد (7/168) (حاشية)
([974]) النور (30-31)
([975]) رواه بخاری(2465)
([976]) الفتاوى(14/156-157)
([977]) مسلم(2159)، مسند احمد(18679)، ترمذی(2776)،ابو داود(2148)، دارمی(2643)
([978]) شرح صحيح مسلم. ساتویں جلد (14/115)
([979]) بخاری(10)، مسلم(40)، مسند احمد(6714)، النسائي(4996)،ابو داود(2481)، دارمی(2716)
([980]) بخاری(2518)، مسلم(84)، مسند احمد(20824)
([981]) بخاری(1240)، مسلم(2162) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(27511)، ترمذی(2737)، النسائي(1938)،ابو داود(5030)،ابن ماجه(1435)
([982]) سلام کے آداب کے بیان میں اس پر گفتگو ہوچکی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس بحث کا مراجعہ کرسکتے ہیں۔
([983]) آل عمران (110)
([984]) تفسير القرآن العظيم . (1/387) (دار الكتب العلمية )
([985]) مسند احمد کے جز اول کے دونوں محقق (شعیب الارنؤوط اور عادل مرشد) کہتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے اور شیخین کی شرط پر ہے(1/198) نیز یہ ان کتابوں میں بھی درج ہے:ابو داود(4338)اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے، ترمذی(2168) ابن ماجه(4005)۔
([986]) مسلم(49)، مسند احمد(10689)، ترمذی(2172)، النسائي(5008)،ابو داود(1140)، ابن ماجه(1275)
([987])ابو داود(4815) اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے برقم(4031) حسن صحیح قرار دیا ہے۔
([988]) بخاری(2891)
([989]) بخاری میں أبي هريرة -رضي الله عنه کی حدیث بغیر اماطۃ الاذی کے ہے (9) مسلم (35) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(8707) ،(2614)، نسائی(5005) ، ابو داود4676)، ابن ماجہ(57)
([990]) بخاری(2989)، مسلم(1009) الفاظ اسی کے ہیں، مسند احمد(27400)
([991]) بخاری(654)، مسلم(1914) الفاظ اسی کے ہیں ، مسند احمد(7979)، ترمذی(1958)،ابو داود(5245) ابن ماجه(3682)، مالك(295)
([992]) مسلم(269)، مسند احمد(8636)،ابو داود(25)
([993]) اس موضوع کے متعلق بعض مباحث قضائے حاجت کے آداب کے باب میں گزر چکے ہیں۔
([994]) النہایۃ میں ہے: (أن تحققن) : یعنی وہ اس کے (حُق) میں چلیں، حُق سے مراد راستہ کا درمیانی حصہ ہے۔ اسے عون المعبود میں (اس کے مولف نے) ذکر کیا ہے۔ ساتویں جلد (14/127)
([995])ابو داود(5272)
([996]) بخاری(2891)،مسلم(1009)، مسند احمد(27400)
([997]) [النساء:36].
([998]) بخاری(6014)۔
([999]) بخاری(6014)، مسلم(2624)، احمد(23739)، ترمذی(1942)، ابو داود(5151)، ابن ماجه(3637).
([1000]) فتح الباری: (۱۰/۴۶۱)۔
([1001]) بخاری(6020)، احمد(24895)، ابو داود(5155).
([1002]) فتح الباري(10/461).
([1003]) ابن ماجه(2340) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے: (1910، 1911).
([1004]) بخاري(6018)، مسلم(47)، احمد(7571)، ابو داود(5154).
([1005]) عربی زبان کا لفظ "بوائق" کے تعلق سے امام کسائی فرماتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ: اس کی اذیت، شر اور اس کے ظلم وستم سے. ( لسان العرب: 10/30) مادة: بوق .
([1006]) بخاری(6016).
([1007]) مسلم(46)، مسند احمد میں ایک روایت صحیح مسلم کی روایت کے مثل ہے(8638) نیز ایک دوسری روایت صحیح بخاری کی روایت کی مانند بھی ہے جسے ابو شریح نے بیان کیا ہے: (7818) اور اس میں نبی اکرم ﷺ کے اس قول (بوائقه) کی تفسیر بھی ہے: ( صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ: (بوائق) کیا ہے؟ نبی اکرم نے فرمایا: پڑوسی کا شر).
([1008]) بخاری: (4477)، مسلم: (86)، احمد: (4091)، ترمذی: (3182)، نسائی: (4013)، ابو داود: (2310).
([1009]) ابو داود(5153) علامہ البانی نے اسے "حسن صحيح" کہا ہے.
([1010]) بخاری: (6226).
([1011]) تشميت العاطس: یعنی اس کے لیے دعا کرنا۔ ابن سیدہ فرماتے ہیں: "شمت العاطس وسمت عليه": یعنی اس کے لیے یہ دعا کرنا کہ وہ برابر چھینکنے کی حالت میں نہ رہے۔ "سين" یعقوب کی لغت ہے، کسی کے لیے خیر کی دعا کرنے کو عربی زبان میں: "تشميت اور تسميت" سین اور شین دونوں کے ساتھ کہتے ہیں۔ اہل عرب کے نزدیک شین کے ساتھ بولنا زیادہ بہتر اور زیادہ معروف ہے۔ (لسان العرب: 2/52) مادة: شمت۔
([1012]) ابن القیم فرماتے ہیں: چونکہ چھینکنے والے کو چھینک کے ذریعہ، دماغ میں جمے ہوئے بھاپ کے باہر نلکنے سے ایک نعمت اور منفعت کا حصول ہوتا ہے، جس کا باقی رہنا سنگین بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے لہذا ایسے شخص کے لیے اس نعمت پر الحمد للہ کہنا مشروع کیا گیا کیوں کہ زلزلہ کی طرح سے جسم کو اتنے شدید جھٹکے لگنے کے بعد بھی تمام اعضاء وجوارح کا اپنی جگہ صحیح سالم رہنا (ایک عظیم نعمت ہے)۔ (زاد المعاد 2/438).
([1013]) بخاری(2445)، مسلم(2066)، احمد(18034)، ترمذی(2890)، نسائی(1939).
([1014]) دیکھیں: الآداب الشرعية (2/317)، وشرح صحيح مسلم . ساتویں جلد: (14/26).
([1015]) بخاری(6225)، مسلم(2991)، احمد(11551)، ترمذی(2742)، ابو داود(5039)، وابن ماجه(3731)، دارمی(2660).
([1016]) مسلم(2992)، احمد(19197)۔
([1017]) زاد المعاد (2/442).
([1018]) زاد المعاد(2/442).
([1019]) بخاری(6224)، احمد(8417)، ابو داود(5033) . ابن القیم ابو داود والی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔ ( زاد المعاد 2/436). علامہ البانی صحیح ابو داود میں لکھتے ہیں: یہ روایت صحیح ہے۔
([1020]) یعنی تمہاری حالت۔
([1021]) مالك (1800). زاد المعاد کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے. (2/437) (حاشية 2)۔
([1022]) ترمذی(2745) اور اسے حسن صحیح کہا ہےنیز اسے ابو داود(5029) نے بھی روایت کیا اور علامہ البانی نے حسن صحیح کہا ہے۔
([1023]) مسلم: (2993)، احمد(16066)، ترمذی(2743)، ابو داود(5037)، دارمی(2661).
([1024]) ابو داود: (5034). علامہ البانی نے اس حدیث کو موقوفاً اور مرفوعاً دونوں اعتبار سے حسن قرار دیا ہے۔
([1025]) الأذكار (393)۔
([1026]) زاد المعاد (2/441)۔
([1027]) ابو داود(5038) علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے. نیز اسے امام احمد(19089)، اور امام ترمذي(2739) نے بھی روایت کیا ہے۔
([1028]) دیکھیں: فتاوى اللجنة الدائمة برقم (2677) (7/30)۔
([1029]) بخاری(6226)، مسلم(2994)، احمد(27504)، ترمذي(370)، ابو داود(5028)۔
([1030]) شرح صحيح مسلم .نویں جلد: (18/97).
([1031]) بخاری(6226)، مسلم(2994)، احمد(27504)، ترمذي(370)، ابو داود(5028)
([1032]) مسلم(2995)، احمد(10930)، ابو داود(5026)، دارمی(1382)۔
([1033]) [الزخرف:67].
([1034]) احمد(8212)، ترمذي(2387) امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ اسے امام ابو داود(4833) نے بھی روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
([1035]) شرح سنن أبي داود. ساتویں جلد: (13/123)۔
([1036]) احمد(10944)، ترمذي(2395)، ابو داود(4832) علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
([1037]) عون المعبود بشرح سنن أبي داود . ساتویں جلد: ((13123)۔
([1038]) بخاری(5534)، مسلم(2628)، احمد(19163).
([1039]) مسلم(2566)، احمد(7190)، مالك(1776)۔
([1040]) احمد: (21525) مذکورہ بالا الفاظ اسی کے ہیں، مالك: (1779). ابن عبد البر فرماتے ہیں: اس حدیث میں ابو ادریس الخولانی کی معاذ بن جبل سے لقاء کا ثبوت ہے۔ اور اس کی سند صحیح ہے۔ (التمهيد 21/125).
([1041]) مسلم(2567)، احمد(9036)۔
([1042]) احمد(13123)، ابو داود(5125)، علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
([1043]) احمد(13123)، ابو داود(5125) علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔.
([1044]) مسلم(2626)، ترمذی(1833)۔
([1045]) احمد(14299)، ترمذی(1970) اور اسے حسن صحیح کہا ہے۔
([1046]) بخاري، یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ من حديث عائشة-رضي الله عنها- (6024)، مسلم(2165)، احمد(23570)، ترمذی(2701)، دارمی(2794)۔
([1047]) مسلم (2593)۔
([1048]) احمد(3928) واللفظ له، ترمذی(2488) امام ترمذی نے اسے حسن غریب قرار دیا ہے۔ مسند احمد کے محقق نے اسے شواہد کی بنا پر حسن کہا ہے۔ (3938) (7/53)
([1049]) الموطأ(1685)، ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث کئی ایک طرق سے موصولاً وارد ہوئی ہے اور وہ تمام کی تمام حسن ہیں۔ (التمهيد: 21/12)۔ پھر اپنی سند سے حدیث بیان کتنے کے فرماتے ہیں: یہ روایت ابو ہریرہ سے موصول سند کے ساتھ منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیا کرو اس سے محبت مین اضافہ ہوات ہے"۔ (التمهيد: 1/17).
([1050]) التميهد: (21/19)۔
([1051]) بخاری(57)،مسلم(56)،احمد(18760)،ترمذی(1925)، نسائی(4175)، دارمی(2540)۔
([1052]) كشف المشكل من حديث الصحيحين. لابن الجوزي (4/219)۔
([1053]) كشف المشكل من حديث الصحيحين. لابن الجوزي (4/219)۔
([1054]) بخاری(428)،مسلم(524)، نسائی(702)۔
([1055]) بخاری(4101)، احمد(13799)،دارمی(42)۔
([1056]) بخاری(481) اور الفاظ اسی کے ہیں،مسلم(2585)، احمد(19127)، ترمذی(1928)، نسائی(2560)۔
([1057]) مسلم من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- ( 2699)، و احمد(7379)، و ترمذی(1425)، ابو داود(4946)، وابن ماجه(225)۔
([1058]) مسلم(2865) كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، واللفظ له. ابو داود(4895)، وابن ماجه(4179)۔
([1059]) مسلم(2588)، احمد(8782)، ترمذی(2029)، ومالك(1885)، دارمی(1676)۔
([1060]) بخاری(6035)، احمد(6468)، ترمذی(1975)۔
([1061]) الآداب الشرعية (2/191)۔
([1062]) حسن اخلاق کے تعلق سے باتیں بڑی طویل ہیں جنہیں ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں۔
([1063]) السخيمة: کینہ کپٹ اور غصہ کو کہتے ہیں۔ ( لسان العرب: 12/282) مادة: سخم۔
([1064]) ابو داود، ابن عباس-رضي الله عنهما- سے مروی ہے۔ (1510) علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے. و احمد(1998)، ترمذی(3551) ، وابن ماجه(3830)۔
([1065]) ترمذی(1964)، ابو داود(4790)۔
([1066]) تجسس: باطنی معاملات کی ٹوہ میں لگے رہنا، اس کا ستعمال عموماً برائیوں سے متعلق امور میں ہوتا ہے، بعض علما کے نزدیک لوگوں کے عیوب کے پیچھے پڑے رہنا۔ (لسان العرب: 6/38) مادة : جسس.
تحسس: کسی خبر کی تلاش وجستجو کرنا۔ ابو معاذ فرماتے ہیں: "تحسس" سننے اور دیکھنے کی کوشش کرنے کے مثل ایک عمل ہے۔ (لسان العرب: 6/50) مادة : حسس
([1067]) بخاری(5144)، مسلم(2563)، احمد(27334)، ترمذی(1988)، ابو داود(4917)،ومالك(1684)۔
([1068]) شرح صحيح مسلم. آٹھویں جلد: (16/101)۔
([1069]) فتح الباري: (10/496)۔
([1070]) الشورى: (37).
([1071]) آل عمران: (134).
([1072]) ترمذی(2021) اور اسے حسن غریف کہا ہے، و احمد(15210)، ابو داود(4777) اور علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے، وابن ماجه(4186)۔
([1073]) مسلم(2588)، احمد(7165)، ترمذی(2029)، ومالك(1885)، دارمی(1676)۔
([1074]) الآداب الشرعية (1/319)۔
([1075]) ابو عبید فرماتے ہیں: "تدابر" کہتے ہیں: قطع تعلق اور علیحیدگی اختیار کرنے کو، اور یہ اس سے ماخوذ ہے کہ کوئی اپنے ساتھی سے پیٹھ پھیر لے اور اس سے منہ موڑ لے اور قطع تلقی کر لے۔ .(لسان العرب:(4/272) مادة: دبر۔
([1076]) بخاری(6065)، مسلم(2559)، احمد(11663)، ترمذی(1935)، ابو داود(4910) ومالك(1683)۔
([1077]) بخاری(5025)، مسلم(815)، احمد(4905)، ترمذی(1936)، وابن ماجه(4209)۔
([1078]) شرح صحيح مسلم، آٹھویں جلد.(16/98-99)۔
([1079]) الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية (28/203-209)۔
([1080]) الفتاوى(28/206)۔
([1081]) کتاب "اللسان" میں ہے: " وتنابزوا بالالقاب" کا مطلب ہے کہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارنا، "التنابز": برے القاب سے بلانا، اس کا استعمال عموماً قابل مذمت امور میں ہوتا ہے۔ (5/413) مادة: نبز۔
([1082]) الحجرات (11)۔
([1083]) ترمذی(3268) وقال: حديث حسن صحيح . و ابو داود(4962) وقال الألباني صحيح .و احمد(17824)، وابن ماجه(3741)۔
([1084]) " ذات البين": سے مراد لوگوں کے آپسی معاملات ہیں۔
([1085]) ترمذی(2509)، وقال: حديث صحيح . و ابو داود: (4919) وقال الألباني: صحيح، احمد: (26962).
([1086]) بخاری(2692)، مسلم(2605)، احمد(26727)، ترمذی(1938)، ابو داود(4920)۔
([1087]) بخاری(2989)، (2707)، و مسلم(1009)، احمد(27400)۔
([1088]) البقرة(262)۔
([1089]) مسلم(106)، احمد(20811)، ترمذی(1211)، نسائی(2563)، ابو داود(4087)، وابن ماجه(2208)، دارمی(2605)۔
([1090]) احمد(6501)، نسائی(5672) وقال الألباني: صحيح . برقم(2541). و دارمی(2093)۔
([1091]) بخاری(33)، مسلم(59)، احمد(8470)، ترمذی(2631)، نسائی(5021)۔
([1092]) مسلم(2482)، وبخاری(6289)، احمد(11649)۔
([1093]) فتح الباري (10/490)۔
([1094]) البقرة (228).
([1095]) احمد(19511)، ابو داود(2142)، ابن ماجه(1850)۔ علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
([1096]) بخاری من حديث ابن مسعود: (5065)، مسلم(1400)، احمد(3581)، ترمذی(1081)، نسائی(2239)، ابو داود(2046)، وابن ماجه(1845)، دارمی(2165)۔
([1097]) بخاری(5063)،مسلم(1401)، احمد(13122)، نسائی(3217)۔
([1098]) احمد(11884)، نسائی(3939) علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے: (3680)َ
([1099]) حاشية الروض المربع(6/226) حاشية نمبر:(3).
([1100]) تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان.(البقرة . آية 228).
([1101]) تفسير ابن كثير (1/266) ط. دار الكتب العلمية .
([1102]) احمد(19511)، ابو داود(2142) علامہ البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ . وراه ابن ماجه(1850)
([1103]) الفتاوى(34/90-91)۔
([1104]) بخاری(3331)،مسلم(1468)، احمد(9240)، ترمذی(1188)، دارمی(2222).
([1105]) التحريم: 6.
([1106]) بخاری(631)، مسلم(674)،احمد(15171)، نسائی(635)، دارمی(1253)۔
([1107]) النساء (34)۔
([1108]) الفتاوى (32/276-277)
([1109]) احمد(23598)، ابو داود(2578)، یہ ابو داود کے الفاظ ہیں، اور علامہ البانی V نے اسے صحیح کہا ہے۔ ابن ماجه(1979)۔
([1110]) بخاری(5228)، مسلم(2439)، احمد(23492)۔
([1111]) بخاری(3331)،مسلم(1468)، احمد(9240)، ترمذی(1188)، دارمی(2222)
([1112]) مسلم (1468)
([1113]) بخاری(5225)، احمد(11616)، ترمذی(1359)، نسائی(3955)، ابو داود(3567)، وابن ماجه(2334)، دارمی(2598).
([1114]) الفتاوى(32/271)۔
([1115]) بخاری(6388)، مسلم(1434)، احمد(1870)، ترمذی(1092)، ابو داود(2161)، وابن ماجه(1919)، دارمی(2212)
([1116]) (11/195)
([1117]) احمد(19530)، ترمذی(2794)امام ترمذی V نے اس حدیث کو حسن کہا ہے. و ابو داود(4017) نیز علامہ البانی V نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے. و ابن ماجه(1920)
([1118]) مسلم(308)، احمد(10777)، ترمذی(141)، نسائی(262)، ابو داود(220)، وابن ماجه(587)
([1119]) مسلم(1437) الفاظ بھی صحیح مسلم کے ہیں، و احمد(11258)، ابو داود(4870)
([1120]) شرح صحيح مسلم. پانچویں جلد: (10/8-9)
([1121]) ابو داود(2133) یہ الفاظ ابو داود کے ہیں اور علامہ البانی V نے اسے صحیح کہا ہے. و احمد(8363)، ترمذی(1141)، نسائی(3942)، وابن ماجه(1969)، دارمی(2206)
([1122]) النساء(129)۔
([1123]) ترمذی في كتاب القدر عن رسول الله ، باب لا يرد القدر إلا الدعاء ، برقم ( 2139 ) امام ترمذی V نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔
([1124]) ترمذی (2669) امام ترمذی V نے اسے حسن صحیح کہا ہے. ابن ماجه (3828).
([1125]) تهذيب مدارج السالكين . تهذيب عبد المنعم العربي . المكتبة العلمية . ص382.
([1126]) ترمذی في كتاب القدر عن رسول الله ، باب لا يرد القدر إلا الدعاء ، برقم (2139) امام ترمذی V نے اسے حسن غریب کہا ہے. نیز علامہ البانی V نے اسے "سلسلته الصحيحة" حدیث نمبر: (154) میں ذکر کیا ہے.
([1127]) فتاوى الشيخ محمد بن الصالح العثيمين . جمع أشرف بن عبد المقصود (1/56) .
([1128]) بخاری (5974) یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ، مسلم (2743) ، احمد (5937) ، ابو داود (3387) .
([1129]) بخاری (6502) .
([1130]) بخاری (3960) اور الفاظ اسی کے ہیں، مسلم (1794) ، نسائی (307) ، احمد ( 3714) .
([1131]) مسلم (1763) ، احمد (208) ، ترمذی (3081) .
([1132]) بخاری(1751) یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ، احمد (6368) ، نسائی (3083) ، دارمی (1903) .
([1133]) الفتاوى (15/15) .
([1134]) الفتاوى ( 15/15-18)۔ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ منقول ہے۔
([1135]) ترمذی : (3479) علامہ البانی V نے اسے "السلسلة الصحيحة" حدیث نمبر: (594) میں ذکر کیا ہے.
([1136]) مسلم (1763) ، احمد (208) ، ترمذی (3081) .
([1137]) بخاری (2937) ، مسلم (2524) ، احمد (7273)، مذکورہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔
([1138]) جس طرح سے یقین جازم کے ساتھ دعا کرنا قبولیت کے اسباب میں سے ایک ہے اسی طرح بسا اوقات بے یقینی کے ساتھ دعا کرنا قبولیت کی راہ میں رکاوٹ اور حصول مطلوب میں مانع ہوتا ہے۔
([1139]) بخاری (7464) ، مسلم (2678) ، والرواية الأخرى (2679) ، و احمد (11569) .
([1140]) فتح الباري (13/459) .
([1141]) الأذكار . ص176 .
([1142]) ترمذی (3476) امام ترمذی V نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ . و ابو داود (1481) ، نسائی (1284) مذکورہ الفاظ اسی کے ہیں۔ نیز علامہ البانی V نے اسے (1217) میں صحیح کہا ہے.
([1143]) ترمذی (593) مذکورہ الفاظ اسی کے ہیں اور انہوں نے اسے حسن صحیح کہا ہے . امام احمد V نے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے: (3654) .
([1144]) بخاری (5974) ، مسلم (2743) ، احمد (5937) ، ابو داود (3387) .
([1145]) احمد (24083) .
([1146]) بخاری (834) ، مسلم (2705) ، احمد (8) ، ترمذی (3531) ، نسائی (1302) ، ابن ماجہ(3835) .
([1147]) بخاری (835) ، مسلم (402) ، احمد (3615) ، نسائی (1163) ، ابو داود (968) ، دارمی(1341) .
([1148]) الأذكار ص105.
([1149]) بخاری (3303) ، مسلم (2729) ، احمد (8003) ، ترمذی(3459) ، ابو داود (5102) .
([1150]) شرح مسلم . نویں جلد: (17/41) .
([1151]) احمد (16359) ، ابو داود (96)، علامہ البانی V نے اسے صحیح کہا ہے۔
([1152]) الفتاوي (15/22 ) .
([1153]) سجع: قافیہ بند کلام کو کہتے ہیں، یا ایسا کلام جو آزاد شاعری سے مماثلت رکھتا ہو۔ ( لسان العرب (8/150) مادة : سجع .
([1154]) فتح الباري (11/143) .
([1155]) بخاری (6337) .
([1156]) بخاری () ، مسلم (2735) اور الفاظ اسی کے ہیں، احمد (9939) ، ترمذی (3387) ، ابو داود(1484) ، ابن ماجہ(3853) ، ومالك (495) .
([1157]) احمد (10794) .
([1158]) مسلم (1015) ، احمد (8148) ، ترمذی (2989) ، دارمی (2717) .
([1159]) شرح مسلم للنووي . چوتھی جلد: (7/85) .
([1160]) بخاری (1145) واللفظ به ، مسلم (758) ، احمد (7576) ، ترمذی (446) ، ابو داود (1315) ، ابن ماجہ(1366) ، دارمی (1478) ، ومالك (496) .
([1161]) مسلم (482) ، احمد (9165) ، نسائی (1137) ، وأبوداود (875) .
([1162]) ترمذی (212) امام ترمذی V نے اسے حسن صحیح کہا ہے . احمد ( 11790) ، ابو داود (521)، نیز علامہ البانی V نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔
([1163]) بخاری (935) مسلم (852) ، احمد (7111) ، نسائی (1431) ، ابو داود (1046) ، ترمذی (491) امام ترمذٰی V نے اسے حسن صحیح کہا ہے. ابن ماجه (1137) ، ومالك ( 242 ) .
([1164]) مسلم (853) ، ابو داود ( 1049) .
([1165]) ابن حجر V فرماتے ہیں کہ: اس حدیث کو ابو داود (1048) نسائی (1389) نے اور حاکم نے حسن سند کے ساتھ ابو سلمہ عن جابر مرفوعا روایت کیا ہے۔ (انتھی)۔ اور اسس حدیث کو علامہ البانی V نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
([1166]) زاد المعاد ( 1/394) .
([1167]) فتح الباري (2/489) .
([1168]) ترمذی (3589) امام ترمذی V نے اسے حسن کہا ہے ، ابن ماجه (1752) اور علامہ البانی V نے اسے صحیح کہا ہے: (1432-1779) .
([1169]) بخاری (1496) ، مسلم (19) ، احمد (2072) ، ترمذی (625) ، نسائی (2435) ، ابو داود (1584) ، ابن ماجہ(1783) ، دارمی (1614) .
([1170]) احمد (7458) ، ابو داود (1536) علامہ البانی V نے اسے حسن قرار دیا ہے ، و ترمذی (1905) ، ابن ماجہ(3862) .
([1171]) ابو داود (2540) اس میں: " ووقت المطر " کا اضافہ ہے، جس کے تعلق سے علامہ البانی V فرماتے ہیں: " ووقت المطر " کے علاوہ باقی حدیث صحیح ہے. اسی طرح اسے امام دارمی V نے بھی روایت کیا ہے: (1200 ) .
([1172]) ترمذی (3505) ، احمد (1465) مسند احمد کے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ (مسند احمد 3/66) ط . مؤسسة الرسالة.
([1173]) اسے امام شافعی V نے الأم (1/223-224) میں نقل کیا ہے۔ علامہ البانی V فرامتے ہیں کہ: اس کی سند ضعیف ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے شواہد ہیں۔۔۔۔ گرچہ تمام اسانید ضعیف ہیں مگر جب ان کے ساتھ آپ مرسل روایت کو ملائیں گے تو یہ حدیث قوی ہو جاتی ہے اور حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ ان شاء اللہ۔ (سلسلہ صحیحہ: 1469).
([1174]) صحيح مسلم (1218) .
([1175]) مسلم (1348) ، نسائی (3003) ، ابن ماجہ(3014) .
([1176]) مسلم من حديث جابر (1218) .
([1177]) بخاری (1753) اور الفاظ اسی کے ہیں، احمد (6368) ، نسائی (3083) ، ابن ماجہ(30332) ، دارمی (1903) .