(دین کی بنیاد دو چیزوں پر ہے) ()

ماجد بن سليمان الرسي

 

یہ ایک مختصر اور علمی مقالہ ہے، جس میں مؤلف نے یہ واضح کیا ہے کہ دین کی بنیاد محض دو اصولوں پر ہے، پھر ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو ان اصولوں کو سمجھنے اور ان کو روبہ عمل لانے میں (اسلاف کرام) کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان مخالفین کی دس قسمیں ہیں، یہ مقالہ دین کی اصل بنیاد کو سمجھنے کا صحیح طریقہ واضح کرتا ہے، جوکہ صرف ایک ہے، نیز دین کی اصل بنیاد کو سمجھنے کے فاسد اور بے بنیاد طریقوں سے بھی پردہ اٹھاتا ہے، جن کی تعداد دس ہے، اس طور پر یہ ایک نہایت علمی اور مفید مقالہ ہے، جس کے ذریعہ بندہ مسلم ہدایت کے راستے سے واقف ہوسکتا ہے تاکہ اس کی پیروی کرے، اور گمراہی کی راہ سے بھی آشنا ہو سکتا ہے تاکہ اس سے گریزاں رہے، اور وہ دین پر ثابت قدم رہے، اس کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئے۔

|

 (دین کی بنیاد دو چیزوں پر ہے)

بسم الله الرحمن الرحيم

شیخ محمد بن عبد الوہاب([1]) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے:

پہلی: اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کا حکم دینا، اس پر آمادہ کرنا، ایسا کرنے والے سے دوستی رکھنا، اور اسے ترک کرنے والے کو کافر ٹھہرانا۔

دوسری: اللہ کی عبادت میں شرک کرنے سے ڈرانا، اس باب میں سخت رویہ اختیار کرنا، اس کے مرتکبین سے دشمنی رکھنا، اور  شرک کرنے والوں کو کافر ٹھہرانا۔

اس باب میں مخالفت کرنے والوں کی مختلف قسمیں ہیں:

سب سے بڑا مخالِف وہ ہے جو مذکورہ  تمام امور میں مخالفت کرے۔

کچھ لوگ ایک اللہ کی عبادت تو کرتے ہیں ، لیکن شرک کی نکیر نہیں کرتے اور نہ مشرکوں کو دشمن گردانتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو مشرکوں کو دشمن گردانتے ہیں، لیکن انہیں کافر نہیں ٹھہراتے۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو توحید سے نہ محبت رکھتے ہیں اور نہ نفرت۔

کچھ لوگ موحدوں کو کافر ٹھہراتے اور  یہ گمان کرتے ہیں کہ توحید نیک لوگوں کی گالی ہے۔

کچھ لوگ شرک سے نہ تو بغض ونفرت رکھتے ہیں اور نہ محبت۔

کچھ لوگ نہ شرک کو جانتے ہیں او رنہ اس کی نکیر کرتے ہیں۔

کچھ لوگ نہ توحید سے واقف ہیں اور نہ اس  کا انکار کرتے ہیں۔

 اور کچھ لوگ –جو سب سے زیادہ خطرناک قسم کے لوگ ہیں-توحید پر عمل کرتے ہیں، لیکن اس کی قدر ومنزلت سے ناواقف ہیں، توحید کو ترک کرنے والوں سے نہ بغض ونفرت رکھتے ہیں او رنہ انہیں کافر ٹھہراتے ہیں۔

کچھ لوگ شرک سے باز رہتے ہیں، اسے ناپسند کرتے ہیں، لیکن اس کی سنگینی سے ناواقف ہوتے ، مشرکوں کو   نہ اپنا دشمن مانتے اور نہ انہیں کافر ٹھہراتے ہیں۔

یہ تمام مخالفین اس دین کی خلاف ورزری کرتے ہیں جس کے ساتھ انبیائے کرام مبعوث ہوئے ۔واللہ اعلم([2])۔


 شرح

شیخ عبد الرحمن بن حسن([3]) رحمہ اللہ تعالی اپنے دادا شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہا اللہ تعالی کے مذکورہ کلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ رحمہ اللہ تعالی  نے فرمایا:

 دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں پر ہے:

 پہلی: اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کا حکم دینا، اس پر آمادہ کرنا، ایسا کرنے والے سے دوستی رکھنا، اور اسے ترک کرنے والے کو کافر ٹھہرانا۔

شارح: قرآن میں اس کی بے شمار دلیلیں موجود ہیں، جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان : )قل يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ألا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله( الآية[4].

ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔

اللہ تعالی نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ اہل کتاب کو "لا الہ الا اللہ " کے اسی معنی کی دعوت دیں جس کی دعوت آپ نے اہل عرب وغیرہ کو دیا ، کلمہ "لا الہ الا اللہ " کی تفسیر اللہ نے اس فرمان سے کی:  (ألا نعبد إلا الله)"ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں" ، (ألا نعبد)  میں "لا إلہ" کا معنی پایا جاتا ہے، جو کہ اللہ کے ما سوا سے ہر قسم کی عبادت کی نفی ہے۔

اور کلمہ توحید  میں "إلا الله"  مستثنى ہے۔

 چنانچہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ آپ انہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر کسی سے عبادت کی نفی کرنے کی دعوت دیں،  اس طرح کی آیتیں بہت ہیں، جن سے یہ واضح ہوتاہے کہ الوہیت سے مراد عبادت ہے، اور عبادت کا ادنی ترین حصہ بھی غیر اللہ کے لیے زیبا نہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 )وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه([5] ،

ترجمہ: تیرا پروردگا ر صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا۔

قضی کے معنی ہیں: حکم دیا اور وصیت کی، آیت کی تفسیر میں دونوں اقوال آئے ہیں اور ان کا معنی ایک ہی ہے۔

فرمان الہی:(ألا تعبدوا) میں "لا إلہ" کا معنی پایا جاتا ہے۔

اور (إلا إياه) میں "إلا اللہ " کا معنی پایا جاتا ہے۔

یہ توحید ِ عبادت ہے اور یہی رسولوں کی دعوت ہے ، انہوں نے اپنی قوموں سے کہا :

)أن اعبدوا الله مالكم من إلـٰه غيره إياه([6].

ترجمہ: کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

چنانچہ سب سے پہلے عبادت میں شرک کی نفی کرنا ، شرک اور مشرکوں  سے براءت کا اظہار کرنا ضروری ہے،  جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے فرمایا:

﴿وإذ قال إبراهيم لأبيه وقـومه إنني براء مما تعبدون * إلا الذي فطرني﴾[7]

ترجمہ:  جبکہ ابراہیم نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔بجز اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔

اس لیے اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جاتی ہے ، اس کی عبادت سے براءت کا اظہار کرنا ضروری ہے۔

اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے مزید فرمایا: )وأعتزلكم وما تدعون من دون الله([8]

ترجمہ: میں تمہیں او ر جن جن کو تم اللہ تعالی کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔

لہذا شرک اور مشرکوں سے بے تعلقی برتناواجب ہے بایں طور کہ ان سے براءت کا اظہار کیا جائے ۔جیسا کہ اللہ تعالی اس  کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: )قد كانت لكم أسوة حسنة في إبراهيم والذين معه إذ قالوا لقومهم إنا برآء منكم ومما تعبدون من دون الله كفرنا بكم وبدا بيننا وبينـكم العداوة والبغضاء أبدا حتى تؤمنوا بالله وحده([9]

ترجمہ:( مسلمانو!) تمہارے لیے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ہم تمہارے (عقائد کے ) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئی۔

ان کے ساتھیوں سے مراد   رُسُل علیہم السلام ہیں جیسا کہ ابن جریر نے ذکر کیا ہے۔

اس آیت کے اندر وہ تمام چیزیں شامل ہیں جنہیں ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، یعنی توحید کی رغبت ، شرک کی نفی، موحدوں سے دوستی، اور اس شخص  کی تکفیر جو توحید کو چھوڑ کر اس کے منافی شرک کا ارتکاب کرے۔کیوں کہ جس نے شرک کا ارتکاب کیا اس نے توحید کو ترک کردیا ، اس لیے کہ شرک اور توحید ایک دوسرے کی ضد ہیں، دونوں یکجا نہیں ہوسکتے ، جب شرک پایا جائے گا تو توحید نہیں پائی جائے گی۔

اللہ تعالی نے مشرک کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

 )وجعل لله أندادا ليضل عن سبيله قل تمتع بكفرك قليلا إنك من أصحاب النار([10]

ترجمہ: اللہ تعالی کے شریک مقرر کرنے لگتاہے جس سے (اوروں کو بھی ) اس کی راہ سے بہکائے ، آپ کہہ دیجئے کہ اپنے کفر کا فائدہ کچھ دن او راٹھالو، (آخر) تو دوزخیوں میں ہونے والا ہے۔

چنانچہ اس نے عبادت میں شریک مقرر کرکے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا ،  اس طرح کی آیتیں بہت ہیں، کوئی بھی شخص شرک کی نفی ، اس سے براءت اور اس کے مرتکب کی تکفیر کے بغیر موحد نہیں ہوسکتا۔

 مؤلف رحمہ اللہ تعالی نے مزید فرمایا:

 دوسری: اللہ کی عبادت میں شرک کرنے سے ڈرانا، اس باب میں سخت رویہ اختیار کرنا، اس کے مرتکبین کو دشمن سمجھنا، اور  شرک کرنے والوں کو کافر ٹھہرانا۔

توحید اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، یہی رسولوں کا دین ہے ، انہوں نے اپنی قوموں کو شرک سے ڈرایا ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: )ولقد بعثنا في كل أمة رسولا أن اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت([11]

ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔

نیز فرمان باری تعالی ہے: )وما أرسلنا من قبلك من رسول إلا نوحي إليه أنه لا إلـٰه إلا أنا فاعبدون([12]

ترجمہ:تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تم سب میری ہی عبادت کرو۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

 )واذكر أخا عاد إذ أنذر قومه بالأحقاف وقد خلت النذر من بين يديه ومن خلفه أن لا تعبدوا إلا الله([13].

ترجمہ: عاد کے بھائی کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا او ریقینا اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالی کے اور کس کی عباد ت نہ کرو۔

 مؤلف کا قول: اللہ کی عبادت  میں۔

عبادت ایک جامع نام ہے جس میں تمام ایسے  ظاہری وباطنی افعال واقوال شامل ہیں جو اللہ تعالی کو محبوب اور پسندیدہ  ہیں۔

 مؤلف کا قول: اس باب میں سخت رویہ اختیار کرنا۔

یہ  قرآن وحدیث میں بھی موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: )ففروا إلى الله إني لكم منـه نذير مبين * ولا تجعلوا مع الله إلـٰها آخر إني لكم منه نذير مبين([14]

ترجمہ: تم اللہ  کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع کرو)، یقینا میں تمہیں اس کی طرف صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں۔اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ۔بے شک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں۔

اگر سخت رویہ اختیار نہ کیا جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قریش کی وہ تمام تر اذیتیں نہ سہنی پڑتیں جن کا تفصیلی ذکر سیرت کی کتابوں  میں موجود ہے، آپ نے ہی سب سے پہلے مشرکوں کے دین کو برابھلا کہا اور ان کے معبودوں کا نقص وعیب واضح فرمایا۔

 مؤلف رحمہ اللہ کا قول : اس کے مرتکبین سے دشمنی رکھنا۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: )فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم وخذوهم واحصروهم واقعدوا لهم كل مرصد([15]

ترجمہ: مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو ، انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصرہ کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو۔

اس معنی کی بہت زیادہ  آیتیں  وارد ہوئی ہیں، جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان :

 )وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله([16]

ترجمہ: تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں  فتنہ (فساد ِ عقیدہ)  نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہوجائے ۔

اس آیت میں فتنہ سے مراد شرک ہے۔

اللہ تعالی نے بے شمار آیتوں میں مشرکوں کو کفر سے متصف کیا ہے، اس لیے مشرکوں کو کافر ٹھہرانا ضروری ہے، یہی کلمہ توحید "لا الہ الا اللہ " کا تقاضہ ہے،  اس کا معنی اسی وقت مکمل ہوسکتا ہے جب اللہ کی عبادت میں شریک ٹھہرانے والے کو کافر ٹھہرایا جائے ، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: "جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جن کی بندگی کی جاتے ہے ، ان سب کا انکار کیا تو اس کا مال وجان محفو ظ ہو گیا اور اس کا حساب اللہ تعالی پر ہے"([17])۔

آپ کا فرمان : ( اللہ کے سوا جن کی بندگی کی جاتے ہے ، ان سب کا انکار کیا ) نفی کی تاکید ہے، اس کا  مال وجان  اس نفی کے بغیر محفوظ نہیں ہوسکتا ، اگر اس نے شک کیا یا  تردد سے کام لیا تو اس کا مال وجان محفو ظ نہیں ہوگا۔

یہ وہ امور ہیں جن سے توحید مکمل ہوتی ہے، کیوں کہ حدیث کے اندر  "لا الہ الا اللہ"  کا ذکر  بہت سے مشکل  قیود کے ساتھ ہوا ہے: علم ، اخلاص، صدق وراستی، یقین اور  شک سے دوری ، انسان اس وقت تک موحد نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے اندر یہ تمام اوصاف یکجا نہ ہوجائیں، وہ توحید  کا عقیدہ رکھے، اسے قبول کرے، اس سے محبت رکھے، اسی کی خاطر دوستی ودشمنی قائم کرے، معلوم ہوا کہ ہمارے شیخ نے جن امور کا ذکر کیا ہے، ان سے ہی  توحید کامل حاصل ہوتی ہے۔


نیز مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا:

 اس باب میں مخالفت کرنے والوں کی مختلف قسمیں ہیں، سب سے بڑا مخالِف وہ ہے جو مذکورہ  تمام امور میں مخالفت کرے۔

چنانچہ شرک کو قبول کرے اور اسے اپنا دین وعقیدہ بنالے، توحید کا انکار کرے اور اسے باطل گردانے، جیسا کہ اکثر لوگوں کا حال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کی معرفت اور اس کے منافی امور جیسے شرک  کرنے، شریک ٹھہرانے ، خواہشات نفس کی پیروی کرنے اور آباء واجداد کے  راستے پر گامزن رہنے کے جو دلائل قرآن وحدیث میں آئے ہیں، ان سے وہ ناواقف ہوتے ہیں،بالکل  اسی طرح جس طرح ان سے قبل رسولوں کے دشمنوں کی صورت حال تھی، اسی بنیاد پر انہوں نے موحدوں کو جھوٹ ، فریب، بہتان تراشی اور فسق وفجور سے متہم کیا، اور ان کی دلیل صرف یہ تھی: )بل وجدنا آباءنا كذلك يفعلون([18].

ترجمہ : ہم تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا۔

اس قسم کے لوگوں نے  اور ان کے بعد آنے والے ان کے  متبعین نے  کلمہ توحید کے مدلولات، اس  کے اغراض ومقاصد اور اس دین  کی  خلاف ورزی کی جس پر یہ کلمہ مبنی ہے اور  جس کے سوا اللہ تعالی کسی اور دین کو قبول نہیں کرتا،  وہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے تمام انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا، ان کی دعوت اسی    توحید پر مرکوز تھی،اللہ نے اپنی کتاب میں ان کے جو واقعات ذکر کئے ہیں، ان سے یہ بالکل  روشن ہوجا تا ہے۔

 مؤلف رحمہ اللہ نے مزید فرمایا:

 کچھ لوگ ایک اللہ کی عبادت تو کرتے ہیں ، لیکن شرک کی نکیر نہیں کرتے اور نہ مشرکوں کو دشمن گردانتے ہیں۔

شارح: یہ معلوم سی بات ہے کہ جو شخص شرک کا انکار نہیں کرتا وہ توحید سے نہ تو واقف ہوتا ہے اور نہ اس پر عمل پیرا ہوتا ہے، آپ یہ جان چکے ہیں کہ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ شرک کی نفی نہ کی جائے اور آیت میں مذکور طاغوت ( معبودان باطلہ) کا انکار نہ کیاجائے۔

 مؤلف رحمہ اللہ  نے مزید فرمایا: کچھ لوگ ایسے ہیں جو مشرکوں کو دشمن گردانتے ہیں، لیکن انہیں کافر نہیں ٹھہراتے۔

انہوں نے بھی "لا الہ الہ اللہ" کے مدلولات اور تقاضوں پر عمل نہیں کیا ، یعنی شرک کی نفی نہیں کی اور نہ  مکمل طور پر شرک (کی سنگینی ) واضح ہوجانے کے بعد بھی اس  کا ارتکاب کرنے والے کو  کافر نہیں ٹھہرایا ، سورۃ اخلاص (قل يا أيها الكافرون)  کا یہی مضمون ہے اور سور ۃ الممتحنہ میں اللہ کے فرمان:   (كفرنا بكم) (ہم تمہارے عقائد کے منکر ہیں)  کا بھی یہی معنی ومفہوم ہے۔

جس نے قرآن  کے ساتھ کفر  کرنے والے  کو کافر نہیں ٹھہرایا اس نے رسولوں کی لائی ہوئی توحید اور اس کے لوازمات  کی خلاف ورزی کی۔

 اس کے بعد مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا: کچھ لوگ ایسے ہیں جو توحید سے نہ محبت رکھتے ہیں اور نہ نفرت۔

اس کا جواب یہ ہے کہ :جو شخص   توحید سے محبت نہیں  رکھے وہ موحد نہیں ، کیوں کہ توحید اس دین کا نام ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: )ورضيت لكم الإسلام دينا([19]

ترجمہ: تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔

اگر وہ اس چیز سے راضی ہو جس سے اللہ راضی ہوا، اور اس پرعمل  پیرا ہوا تو اس نے اس سے محبت کی، یہ محبت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان مسلمان نہیں ہوتا  اور توحید کی محبت کے بغیر اسلام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

شیخ الاسلا م ([20])رحمہ اللہ فرماتےہیں:اخلاص کا مطلب اللہ سے محبت کرنا اور اس کی رضا مندی طلب کرنا ہے، جس نے اللہ سے محبت کی اس نے اس کے دین سے محبت کی ، جس نے اللہ سے محبت نہیں کی  اس نے دین سے محبت نہیں کی، کلمہ توحید  سے  جو  شروط لازم آتے ہیں، وہ تمام شروط اسی محبت پر مرتب ہوتے ہیں۔

 اس کے بعد مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا: کچھ لوگ شرک سے نہ تو بغض ونفرت رکھتے ہیں اور نہ محبت۔

شارح: جس نے ایسا کیا اس نے اس کی نفی نہیں کی جس کی نفی کلمہ  "لا الہ الا اللہ " نے کی ، یعنی شرک اور اللہ کے سوا جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے ، ان کا انکار او ران سے براءت کا اظہار، ایسا شخص در اصل اسلام سے پورے طور پر خارج ہے ، اس کا مال وجان محفوظ نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔

 مؤلف رحمہ نے فرمایا: کچھ لوگ نہ شرک کو جانتے ہیں او رنہ اس کی نکیر کرتے ہیں۔

شارح: جوشخص  شرک کو نہ جانتا ہے اور نہ اس کی نکیر کرتاہے ، وہ اس کی نفی نہیں کرتا، کوئی شخص اس وقت تک موحد نہیں ہو سکتا جب تک کہ شرک کی نفی  نہ کرے، شرک اور مشرک سے براءت کا اظہار نہ کرے اور انہیں کافر نہ گردانے،  شرک سے نا آشنا رہ کر "لا الہ الہ اللہ " کے مدلولات کو روبہ عمل نہیں لایا جاسکتا، جو شخص اس کلمہ کے معنی ومفہوم اور مدلول ومضمون پر عمل پیرا نہ ہو  ، وہ دائرہ  اسلام میں ذرا بھی داخل نہیں ہوا،  کیوں کہ  وہ  علم ویقین، صدق وراستی ، اخلاص ومحبت اور قبول وسپردگی کے ساتھ کلمہ توحید  اور اس کے مضمون  پر عمل پیر ا نہیں ہوا، اس قسم کے انسان کے اندر  ذرا بھی توحید نہیں پائی جاتی ، خواہ وہ زبانی طور پر "لا إلہ الا اللہ " کا ورد ہی کیوں نہ کرتا ہو،  اس لیے کہ وہ اس کے مدلولات اور تقاضوں سےبالکل  نا آشنا ہے۔

 نیز مؤلف رحمہ اللہ تعالی  نے فرمایا: کچھ لوگ نہ توحید سے واقف ہیں اور نہ اس  کا انکار کرتے ہیں۔

شارح: یہ اس سے قبل والے  ہی کی طر ح ہے، ایسے لوگ مقصد تخلیق سے نا آشنا ہیں، یعنی اس دین سے نا واقف ہیں جس کے ساتھ اللہ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا، یہ صورت حال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: )إن هم إلا كالأنعام بل هم أضل سبيلا([21].

ترجمہ: وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔

 نیز مؤلف رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: اور کچھ لوگ – جو سب سے زیادہ خطرناک قسم کے لوگ ہیں-توحید پر عمل کرتے ہیں، لیکن اس کی قدر ومنزلت سے ناواقف ہیں، توحید کو ترک کرنے والوں سے نہ بغض ونفرت رکھتے ہیں او رنہ انہیں کافر ٹھہراتے ہیں۔

مؤلف رحمہ اللہ نے فرمایا: (وہ  سب سے زیادہ خطرناک قسم کے لوگ ہیں) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس پر عمل کرتے ہیں اس کی قدر ومنزلت کو نہیں جانتے، چنانچہ وہ ان لازمی اور وزنی شروط وقیود پر عمل نہیں کرتے جن سے ان کی توحید درست ہو، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ توحید کا تقاضہ ہے کہ شرک کی نفی کی جائے ، اس سے براءت کا اظہار کیا جائے ، مشرکوں کو دشمن گردانا جائے، اور ان پر حجت قائم ہونے کے بعد ان کی تکفیر کی جائے، ایسے شخص کی ظاہری حالت کو دیکھ کر انسان فریب کا شکار ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ (ظاہری طور پر کلمہ توحید کا ورد تو کرتا ہے لیکن) کلمہ توحید کے اندر نفی واثبات کے جو تقاضے ہیں، ان پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔

 نیز مؤلف رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا: کچھ لوگ شرک سے باز رہتے ہیں، اسے ناپسند کرتے ہیں، لیکن اس کی سنگینی سے ناواقف ہوتے ۔

ایسا شخص اس سے  ما قبل والے سے زیادہ قریب ہے ، لیکن یہ شر ک کی سنگینی سے ناواقف ہوتا ہے، کیونکہ اگر وہ اس کی سنگینی سے واقف ہوتا تو محکم آیتوں کے مدلولات پر ضرور عمل کرتا ، جیسا کہ (ابراہیم)  خلیل نے فرمایا:

 )إنني براء مما تعبدون * إلا الذي فطرني([22]،

ترجمہ: میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔بجز   اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔

نیز فرمایا: )إنا برآء منكم ومما تعبدون من دون الله كفرنا بكم وبدا بيننا وبينكم العداوة والبغضاء أبدا حتى تؤمنوا بالله وحده([23].

ترجمہ: ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لیے بغض وعداوت ظاہر ہوگئ۔

جو شخص  شرک سے واقف ہو اور اس سے باز رہتا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ عابد ومعبود کے تئیں  اسی طرح ولاء وبراء (دوستی ودشمنی ) کا موقف اختیار کرے،  شرک اور مشرکوں سے نفرت وعداوت رکھے، اسلام کا دعوی کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد ان د و قسم کے لوگوں پر ہی مبنی ہے، وہ شرک کی حقیقت سے اس قدر نا آشنا ہوتے ہیں کہ کلمہ توحید اور اس کے تقاضوں پر اس طرح عمل نہیں کرپاتے کہ وہ توحید کے  کمالِ واجب کو حاصل کرسکیں، دین کی حقیقت سے نا آشنا اور فریب کے شکار لوگوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے!

جب آپ جان چکے کہ اللہ تعالی نے محکم آیتوں میں مشرکوں کی تکفیر کی ہے اور انہیں کفر سے متصف کیا ہے، جیسا کہ فرمایا: )ما كان للمشركين أن يعمروا مساجد الله شاهدين على أنفسهم بالكفر([24]

ترجمہ: لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالی کی مسجدوں کو آباد کریں دراں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں۔

(تو یہ بھی جان لیں کہ ) اسی طرح حدیث میں بھی انہیں کافر کہا گیا ہے([25])۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: (رسولوں نے جن باتوں کی خبر دی ، اہل توحید اور اہل سنت ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان کے اوامر کی اطاعت کرتے ہیں، ان کے فرامین کو یاد رکھتے ، انہیں سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں،غلو کرنے والوں کی تحریف ، باطل پرستوں کے بے بنیاد  دعووں اور جاہلوں کی تاویل سے  ان فرامین   کو پاک وصاف رکھتے ہیں،  ان رسولوں کی مخالفت کرنے والوں سے جہاد کرتے ہیں، یہ تمام کام اللہ کے تقرب اور صرف اللہ ہی سے ثواب کی امید میں کرتے ہیں۔

جب کہ جاہل ونادان اور غلو پسند لوگ نہ  اوامر ونواہی میں کوئی تفریق کرتے ہیں، نہ صحیح وغلط  میں تمیز کرتے ہیں،  نہ رسولوں کی مراد کو سمجھتے ہیں اور  نہ ان کی اطاعت اور پیروی کا قصد وارادہ کرتے ہیں، بلکہ وہ رسولوں کے پیغام سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں اور صرف اپنے اغراض ومقاصد کی پاسداری کرتے ہیں)([26])۔

شارح: شیخ الاسلام نے جو حالت ذکر کی ہے وہ آخر الذکر دونوں قسم کے لوگوں کی حالت کے بالمشابہ ہے۔

رہ گیا ایک جدید مسئلہ ، جس کے تعلق سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے گفتگو  کی ہے، وہ یہ کہ  متعین شخص کو ابتدائے امر میں کافر نہ ٹھہرایا جائے ، اس کی وجہ بھی آپ رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کی ہے جس کی بناپر  اقامتِ حجت سے قبل اس کو کافر ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: رسولوں کی تعلیمات سے واقف ہونے کے بعد ہم ضروری طور پر یہ جانتے ہیں کہ آپ کی  امت کے لیے یہ مشروع اور جائز نہیں کہ کسی مردہ کو پکارے، نہ نبیوں کو ، نہ نیک لوگوں کو اور نہ دیگر اموات کو، نہ لفظ استغاثہ (مدد طلبی)  کے ذریعہ اور نہ دیگر الفاظ کے ذریعہ ، نہ لفظ استعاذہ (پناہ طلبی) کے ذریعہ اور نہ دیگر الفاظ کے ذریعہ، اسی طرح آپ کی امت کے لیے یہ بھی مشروع اور جائز نہیں کہ کسی مردہ کا سجدہ کرےیا کسی مردہ کے سامنے (اللہ کا )  سجدہ کرے ، یا   اس طرح کا دیگر عمل انجام دے، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے ان تمام چیزوں سے منع فرمایا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ شرک ہے جس کو اللہ اور رسول نے حرام قرار دیا ہے۔

لیکن چونکہ جہالت کا دور دورہ ہے ، بہت سے متاخرین کے اندر رسول کی تعلیمات کے تئیں کم علمی پائی جاتی ہے، اس لیے وہ مذکورہ امور کی بنا پر مشرکوں کو کافر نہیں ٹھہراتے یہاں تک کہ ان کے سامنے یہ بیان نہ کیا جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اس عمل کی مخالفت کرتی ہے۔انتہی([27])

شارح: معلوم ہوا کہ آپ رحمہ اللہ تعالی نے وہ وجہ ذکر کی جس کی بنا پر کسی متعین شخص کو کافر ٹھہرانا درست نہیں ، یہاں تک کہ اس کے سامنے سارا معاملہ واضح نہ کردیا جائے اور بار بار اسے تنبیہ نہ  کی جائے، کیوں کہ وہ تنہا ہی امت کے درجے میں ہو جاتا ہے،   جبکہ  کچھ علما ء نے اس بنا پر اسے کافر ٹھہرایا ہے کہ لوگوں کو عبادت میں شرک کرنے سے منع کیا گیا  ہےلیکن یہ ممکن نہیں کہ  ان (کی اصلاح کے لیے ) وہی رویہ اختیا رکیا جائے جو وہ اختیار کرتاہے، جیسا کہ ہمارے شیخ محمد عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ساتھ آغاز دعوت میں ہوا کہ جب وہ لوگوں کو دیکھتے کہ وہ زید بن الخطاب کو پکارتے ہیں تو کہتے: (اللہ زید سے بدرجہا بہتر ہے) تاکہ نرم کلامی کے ذریعہ انہیں  شرک کی نفی  کا عادی  بنا سکیں،  ایسا آپ مصلحت اور عدم منافرت  کے پیش نظر کرتے ،  والله سبحانه وتعالى أعلم  وصلى الله على سيدنا محمد، وعلى آله وصحبه وسلم([28])



 ([1])  جب بارہویں صدی ہجری میں جزیرہ نمائے عرب کے اندر دین اسلام کے آثار ونقوش ناپید ہوگئے تو شیخ محمد نے تجدید کا کام کیا، ان کے ذریعہ اللہ نے دین کو زندہ کیا اور آج تک زندہ ہے، ان سے اور ان کی کتابوں سے فائدہ پہنچایا، عقیدہ سے متعلق ان کی باتیں ان کی کتابوں میں موجود ہیں، شیخ محمد کی ولادت سنہ ۱۱۱۵ھ میں ہوئی اور آپ کی وفات سنہ ۱۲۰۶ھ میں ہوئی، آپ کے بعد آنے والے جزیرہ عرب کے تمام علمائے کرام نے آپ (کے علوم اور کارناموں) سے استفادہ کیا اور آج تک کر رہے ہیں۔

آپ کی سوانح کے لیے دیکھیں:"علماء نجد خلال ثمانیۃ قرون" تالیف: شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام، نیز یہ کتاب بھی ضرور دیکھیں: "عقیدۃ الشیخ محمد بن عبد الوہاب السلفیۃ" تالیف: ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ العبود۔

آپ کی ایک جامع سوانح آپ کے پوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے قلم سے منظر پر آئی جو "مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ" (۳/۳۸۷-۴۲۹) اور " الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ" (۱/۳۷۲-۴۳۹) میں موجود ہے۔

 ([2])  مؤلف رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا، یہ قول "الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ" ۲/۲۲ میں موجود ہے۔

 ([3])  آپ شیخ عبد الرحمن بن حسن بن شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہم اللہ تعالی ہیں، آپ کی ولادت  سنہ ۱۱۹۶ھ میں درعیہ کے اندر ہوئی، اپنے دادا شیخ محمد بن عبد الوہاب کے گھر میں آپ نے نشو ونما پائی ، آپ نے اپنے دادا او رچچا کے پاس توحید، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی ،  نیز مصر کے بعض مشائخ سے بھی درس حدیث حاصل کیا، جیسے شیخ حسن القویسینی، شیخ عبد الرحمن الجبرتی اور شیخ عبد اللہ باسودان،  اسی طرح جزائر کے مفتی شیخ محمد بن محمود الجزائری الحنفی الاثری کے پاس بھی حدیث پڑھی اور ان مشائخ نے آپ کو اپنی تمام مرویات کو ان کی سند سے روایت کرنے  کی اجازت بھی   دی۔

شیخ عبد الرحمن نے مصر کے دیگر مشائخ سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا جو نحو ، قراءت او ردیگر فنون کے ماہرین تھے۔

اسی طرح شیخ عبد الرحمن سے بھی  بہت سے طلبہ نے شرف تلمذ حاصل کیا، جن میں آپ کے فرزند شیخ عبد اللطیف نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

شیخ عبد الرحمن کی بہت سی تالیفات ہیں، ان میں سب سے مشہور "فتح المجید" ہے ، جوکہ ان کے چچازاد  شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب کی کتاب "تیسیر العزیز الحمید بشرح کتاب التوحید" کا اختصار ہے، آپ نے کتاب التوحید پر ایک حاشیہ بھی تحریر فرمایا جو " قرۃ عیون الموحدین فی تحقیق دعوۃ الأنبیاء والمرسلین"  کے نام سے موجود ہے۔

شیخ عبد الرحمن نے بہت سے دیگر  رسائل اور کتابچے بھی قلم بند کئے جو " الدرر السنیۃ من الأجوبۃ النجدیۃ" اور مجموعۃ الرسائل النجدیۃ" میں موجود ہیں۔

شیخ رحمہ اللہ کی وفات سنہ ۱۲۸۵ھ کو ہوئی ، آپ نے اپنی زندگی میں  اسلام  کی نصرت ، لوگوں کو توحید خالص کی دعوت اور نجد وغیرہ سے شرک وبدعت کے خاتمے کے لیے بیش بہا کارنامے انجام دئے ۔

آپ کی سوانح کے لیے دیکھیں: "فتح المجید" کا مقدمہ، تحقیق: اشرف بن عبد المقصود، یہ سوانح  ان کے پوتے شیخ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن حسن رحمہم اللہ  نے تحریر کی ہے ۔

[4] سورة آل عمران: 64 .

[5] سورة الإسراء: 23 .

[6] سورة المؤمنون: 32 .

[7] سورة الزخرف: 26 - 27 .

[8] سورة مريم: 48 .

[9] سورة الممتحنة: 4 .

[10] سورة الزمر: 8 .

[11] سورة النحل: 36 .

[12] سورة الأنبياء: 25 .

[13] سورة الأحقاف: 21 .

[14] سورة الذاريات: 50 - 51 .

[15] سورة التوبة: 5 .

[16] سورة الأنفال: 39 .

 ([17])  اسے مسلم (۲۳) نے ابو مالک عن ابیہ کی سند سے روایت کیا ہے۔

[18] سورة الشعراء: 74 .

[19] سورة المائدة: 3 .

 ([20])  یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ

[21] سورة الفرقان: 44 .

[22] سورة الزخرف: 26 - 27 .

[23] سورة الممتحنة: 4 .

[24] سورة التوبة: 17 .

 ([25])  مطبوعہ نسخہ میں اسی طرح شرط کا جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ مؤلف کی غفلت ہے یا (اصل) نسخوں سے شرط کا جواب ساقط ہوگیا ہے، بہر حال چونکہ گفتگو کا سیاق شرک اور مشرکوں سے براءت اور ان سے عداوت کے بیان میں ہے، اس لیے ساقط کلام کو یوں مقدر مان سکتے ہیں:

...اسی طرح حدیث میں بھی اس کا ذکر آیا ہے، جس سے شرک اور مشرکوں کی عداوت لازم آتی ہے۔

 ([26])  "الاستغاثۃ فی الرد على البکرى" ۲:۴۹۹، میں نے مذکورہ نص کی توثیق اسی کتاب سے کی ہے، مذکورہ جملہ کا تتمہ یوں ہے: تاکہ ان رسولوں سے یا تو اپنی منفعت حاصل کریں، یا ان کے ذریعہ اپنی ذات سے نقصان کو دور کریں۔ (ناشر: مدار الوطن-ریاض)

 ([27])  "الاستغاثۃ فی الرد على البکری" : ۲/۶۲۹-۶۳۰، میں نے مذکورہ نص کی توثیق اسی کتاب سے کی ہے۔

 ([28])  آپ رحمہ اللہ کا کلام اختتام کو پہنچا، جوکہ "الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ" ۲/۲۰۲-۲۱۱ میں مذکور ہے۔