الحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے جنات و انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ مقصد عظیم یہ ہے کہ جن و انس صرف ایک اللہ پاک کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و ما خلقت الجن والإنس إلا لیعبدون“ (سورۃ الذاریات/56) (ترجمہ: میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔) عبادت میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی و خوش ہوتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے، چاہے وہ اقوال کی صورت میں ہو یا ظاہر و باطنی اعمال کی شکل میں ہو۔
”چنانچہ نماز، زکاۃ، روزہ، حج، صدق گوئی، امانت کی ادائیگی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، وفائے عہد و پیمان، امر بالمعروف ونہی عن المنکر (اچھی بات کا حکم دینا اور برائی کے کاموں سے روکنا) کفار و منافقین سے جہاد، پڑوسی، یتیم، مسکین، مسافر اور غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک و برتاؤ اور تعاون، جانوروں پر رحم، دعا، ذکر، تلاوت اور اس قبیل کی دیگر عبادتیں۔
اسی طرح اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت، اللہ کا خوف و خشیت اور اس سے لو لگانا، دین کو اللہ کے لئے خالص کرنا، اللہ کے حکم کی تعمیل میں صبر کا مظاہرہ، اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر، اللہ کے فیصلے سے راضی ہونا، اللہ پر بھروسہ، اس کی رحمت کی امید، اس کے عذاب کا خوف اور اس قبیل کے دیگر باطنی اعمال بھی اللہ کی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں۔“[1]؎
اللہ کی عبادت کی ضد شرک ہے جس کا ارتکاب اللہ کی عبادت میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی انسان عبادت میں کسی کو اللہ کا شریک بنا لیتا ہے اور جس طرح اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اسی طرح اس غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس سے اس طرح خوف کھاتا ہے جیسے اللہ سے خوف کھاتا ہے، کسی عبادت کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے، مثلاً اس غیر اللہ کے لئے نماز پڑھنا، جانور ذبح کرنا، نذر ماننا اور اس قبیل کے دیگر اعمال کو انجام دینا۔
دعا اور مدد کے لئے پکارنا بھی ایک مہتم بالشان عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی بہت سی آیات میں خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی صحیح احادیث میں اس کی اہمیت اور قدر و منزلت کو بیان کیا ہے۔ دعا ان عبادات میں سے ہے جن میں لوگوں نے بکثرت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کو شریک ٹھہرایا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آپ خود کو مسلمان کہنے والے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارنے کے گناہ عظیم میں مبتلا ہو چکے ہیں، چاہے وہ پکارے جانے والے غیراللہ انبیاء ہوں یا نیک لوگ۔ کوئی کہتا ہے: اے اللہ کے نبی! میری مدد کیجئے، اے عبدالقادر جیلانی! میں آپ سے اپنے گناہوں کی شکایت کرتا ہوں، کوئی یا بدوی! مدد مدد کی دہائی دیتے ہوئے کہتا ہے، میں قلت رزق کی آپ سے شکایت کرتا ہوں یا میں آپ سے دشمن کے غلبہ و تسلط اور قلت اولاد کی شکایت کرتا ہوں یا میں آپ سے فلاں شخص کے ظلم و زیادتی کی شکایت کرتا ہوں، کوئی کہتا ہے: اے فلاں! میں آپ کا مہمان ہوں، میں آپ کے پاس قیام پذیر ہوں، میں آپ کا پڑوسی ہوں، جو آپ کا پڑوس چاہتا ہے آپ اسے اپنا پڑوس عطا کرتے ہیں، یا جن کی پناہ حاصل کی جاتی ہے ان میں آپ سب سے بہتر پناہ گاہ ہیں، آپ مجھے اولاد عطا کر دیجئے یا کوئی شخص جب زندگی میں ناکامی کا منہ دیکھتا ہے تو کہتا ہے: اے محمد کے جاہ! اے ست نفیسہ! اے میرے سردار شیخ فلاں! یا اسی قبیل کی کوئی اور بات اس کی زبان سے نکلتی ہے جس سے غیراللہ کے ساتھ اس کے تعلق اور اس کی طرف اس کی توجہ و التفات کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ باقاعدہ طور پر غیراللہ کو مدد کے لئے پکارنے والا بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ اوراق پر کچھ لکھ کر اسے قبروں کے پاس لٹکا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ باقاعدہ ایک محضر نامہ تیار کرتے ہیں کہ انہوں نے فلاں سے پناہ طلب کی ہے، پھر وہ اس محضر نامہ کے ساتھ مدفون لوگوں میں سے کسی کے پاس پہنچتے ہیں تاکہ وہ مردہ اس کی مدد کرے۔ اس مسکین کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ اس نے اس فعل شنیع کے ذریعہ مردہ کو مدد کے لئے پکارنے کی وجہ سے اسلام کا پٹا اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے، اگرچہ وہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور خود کو مسلمان ہی کیوں نہ سمجھے۔
جو لوگ قبروں کے پاس ان برے کاموں کو انجام دیتے ہیں، ان کے پاس کچھ دلیلیں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے ان افعال بد کو جواز فراہم کرتے ہیں، وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس جو دلائل ہیں وہ شرعی دلائل ہیں، لیکن علم و تحقیق کی کسوٹی پر ان دلائل کو جانچنے اور پرکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شکوک و شبہات سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے دلائل یا تو ضعیف اور موضوع احادیث پر مشتمل ہیں یا حکایات و منامات (خوابوں) سے تعلق رکھتے ہیں یا فاسد عقلی قیاس آرائیاں ہیں یا شرعی نصوص کا ناقص فہم ہے جو سلف صالحین کے فہم نصوص شرعیہ سے میل نہیں کھاتا ہے۔
اگر قبر والوں کو پکارنے والے یہ لوگ عقل و فراست کے مالک ہوتے تو یہ قرآن و سنت کو حَکَم بناتے اور ان دونوں کے برخلاف دلائل کے نام پر جو کچھ بھی ہے اسے ترک کر دیتے، اس لئے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز کتاب و سنت کے احکام کو باطل قرار نہیں دے سکتی ہے اور ان دونوں کی تعلیمات کو کوئی چیز رد نہیں کر سکتی ہے، اس لئے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان کے برخلاف جو کچھ بھی عقلی اٹکل بازیاں ہیں وہ ہر حال میں باطل قرار دیئے جانے کی مستحق ہیں۔
ان چند اوراق میں میں نے ان چند شبہات کا تذکرہ کیا ہے جن کی دہائی قبروں سے وابستگی رکھنے والے دیا کرتے ہیں۔ یہ کل آٹھ شبہات ہیں۔ میں اس سے پہلے ان میں سے دو شبہات کا تذکرہ دو مستقل کتابوں[2]؎ میں کر چکا ہوں، کیونکہ ان دو شبہات کی وجہ سے لوگوں کو ایمان و عقیدہ کی بہت بڑی آزمائش کا سامنا تھا اور ان دونوں شبہات کے رد کے لئے طویل خامہ فرسائی کی ضرورت بھی تھی۔ اس کتاب میں میں نے ان دونوں شبہات اور ان کے جوابات کو اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے تاکہ اس نوع کے تمام شبہات پر کلام کو ایک کتاب میں جمع کیا جا سکے۔
پھر میں نے اس بحث کو دو ضمیمے کے ساتھ ختم کیا ہے۔ پہلے ضمیمہ میں میں نے ان علمی اصول و ضوابط کو بیان کیا ہے جن کی ایک مسلمان کو شبہات کو جاننے کے لئے ضرورت ہوتی ہے اور جن کی مدد سے وہ ان شبہات کا شکار ہونے سے بچ سکتا ہے۔
دوسری ضمیمہ کے تحت میں نے ان اہم و مشہور کتابوں کی فہرست پیش کی ہے جنہیں علماء نے توحید عبادت پر منڈلانے والے شکوک و شبہات کے بادل کو چھانٹنے کے لئے تالیف کی ہیں۔ اس موضوع کی بیشتر کتابیں بارہویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے ادوار میں تالیف کی گئی ہیں۔
میں اللہ پاک سے دست بدعا ہوں کہ وہ تمام مسلمانوں کو ایک اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کو خالص کرنے کی توفیق عنایت کرے اور شرک و گمراہی کی راہ پر چلنے سے ہماری اور ان کی حفاظت فرمائے۔ واللہ أعلم و صلی اللہ علی نبینا محمد و آلہ و صحبہ وسلم تسلیماً کثیرا
تمام عبادات کے درمیان دعا کی اہمیت
دعا ایک مہتم بالشان عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اس کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی صحیح احادیث میں اس کی قدر و منزلت اور شان و عظمت کو بیان فرمایا ہے، ان میں سے ایک سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ با حیا و کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ کوئی شخص اس کے سامنے اپنی ضرورت کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اسے خالی ہاتھ اور نامراد لوٹا دے۔“[3]؎
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: قضاء و قدر کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے۔[4]؎
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں ہے۔[5]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی شان و عظمت کی صراحت ان الفاظ میں بھی کی ہے: دعا ہی عبادت ہے۔ اور آپ نے یہ آیت بھی تلاوت کی ”وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتي سیدخلون جھنم داخرین“[6]؎ (ترجمہ: اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔)
دعا کے ساتھ عبادت کا حصر، حصر کلی نہیں ہے، یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دعا عبادات کی تمام اقسام کو شامل ہے، ہرگز نہیں، بلکہ اس جملہ کے ذریعہ دعا کی عظمت اور اس کی بلند حیثیت سے آگاہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز، اس کا لب لباب، خلاصہ اور اس کا عظیم ترین رکن ہے۔ ”الدعاء ھو العبادۃ“ ایسے ہی ہے جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: (الحج عرفۃ) [7]؎ یعنی حج عرفہ کا نام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: (الدین النصیحۃ) [8]؎ یعنی دین خیرخواہی کا نام ہے۔
کچھ لوگوں نے دعا کے عبادت ہونے میں شک کیا ہے تاکہ اسے غیراللہ کے لئے انجام دینے کو جائز قرار دے سکیں۔ ان کا یہ زعم باطل ان ہی کی طرف لوٹا دیا جانے کا مستحق ہے، اس لئے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دعا کو عبادت قرار دیا ہے: ”قل إني نھیت أن أعبد الذین تدعون من دون اللہ لما جاءني البینات من ربي“ (آپ کہہ دیجئے کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو، اس بنا پر کہ میرے پاس میرے رب کی دلیلیں پہنچ چکی ہیں۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتي سیدخلون جھنم داخرین“ (اور تمہارے رب کا یہ فرمان آ چکا ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں دعا کو عبادت سے تعبیر کیا ہے، اس سے دعا کی عظمت شان کا پتہ چلتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں دعا کو دین سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فإذا رکبوا في الفلک دعووا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجاھم إلی البر إذاھم یشرکون“[9]؎ (پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کو دعا کا بدل بنایا ہے اور اسے الف و لام کے ساتھ بطور معرفہ استعمال کیا ہے جو عہد کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ دعا دین ہے اور جو چیز دین ہو وہ عبادت کے زمرہ میں آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اسے پکارنے اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ہر حکم واجب یا مستحب عبادت کے زمرہ میں آتا ہے، جیسا کہ اس نے اوپر نقل کی گئی آیت کریمہ میں پکارنے اور دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ”وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتي سیدخلون جھنم داخرین“ (اور تمہارے رب کا فرمان آچکا ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ادعوا ربکم تضرعاً و خفیۃً“ (تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: ”تم لوگ رکوع میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدہ کی حالت میں بکثرت دعا کرو سجدہ میں کی گئی دعا قبولیت کی مستحق ہوتی ہے۔[10]؎
شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابا بطین رحمہ اللہ[11]؎ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا ہر حکم یا تو امر واجب ہے یا امر استحباب۔ اس اعتبار سے تمام علماء کے نزدیک دعا عبادت ہے۔ جس نے یہ کہا ہے کہ رب تعالیٰ سے دعا مانگنا عبادت نہیں ہے وہ گمراہ ہے، بلکہ کافر ہے۔[12]؎
قرآن و سنت دونوں میں صرف اللہ سے دعا مانگنے کا حکم ہے اور غیراللہ سے دعا مانگنے کی ممانعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ادعوا ربکم تضرعاً و خفیۃً“[13]؎ (تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”واسألوا اللہ من فضلہ“[14]؎ (اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو۔)
شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم[15]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: صرف اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا تذکرہ تقریباً تین سو متفرق مقامات پر آیا ہے۔ کبھی حکم کی شکل میں، مثلاً ”أدعوني أستجب لکم“[16]؎ (تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا) ”وادعوہ مخلصین لہ الدین“[17]؎ (اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طور پر کرو کہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔)
کبھی ممانعت کے الفاظ کے ساتھ، مثلاً ”فلا تدعوا مع اللہ أحدا“[18]؎ (پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔)
کبھی وعید سے وابستہ کرکے، مثلاً ”فلا تدع مع اللہ إلھا آخر فتکون من المعذبین“[19]؎ (پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔)
کبھی اس حقیقت کے اثبات کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہی عبادت اور الوہیت کا مستحق ہے، مثلاً ”ولا تدع مع اللہ إلھا آخر لا إلہ إلا ھو“[20]؎ (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں۔)
کہیں پر دعا کرنے والے سے خطاب انکاری کے طور پر اس کا ذکر آیا ہے، مثلاً ”ولا تدع من دون اللہ ما لا ینفعک و لا یضرک“[21]؎ (اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے۔)
کہیں پر خبر دینے اور خبر حاصل کرنے کے طور پر اس کا ذکر آیا ہے، مثلاً ”قل أرأیتم ما تدعون من دون اللہ أروني ماذا خلقوا من الأرض أم لھم شرک فی السماوات“[22]؎ (آپ کہہ دیجئے، بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کونسا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں ان کا کونسا حصہ ہے؟)
کہیں پر نہی و انکار کے صیغہ کے ساتھ بطور امر (حکم) اس کا ذکر آیا ہے، مثلاً ”قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ لا یملکون مثقال ذرۃ فی السماوات و لا في الأرض“[23]؎ (کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار نہیں ہے۔)
کہیں پر یہ بتایا گیا ہے کہ دعا ہی عبادت ہے اور اسے غیراللہ کے لئے انجام دینا شرک ہے، مثلاً ”ومن أضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ إلی یوم القیامۃ و ھم عن دعائھم غافلون و إذا حشر الناس کانوا لھم أعداء و کانوا بعبادتھم کافرین“[24]؎ (اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں۔ اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ”و أعتزلکم و ما تدعون من دون اللہ و أدعو ربي عسی ألا أکون بدعا ربي شقیا فلما اعتزلھم وما یعبدون من دون اللہ“[25]؎ (میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں، صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) ان سب کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ چکے)
حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ”الدعاء ھو العبادۃ“[26]؎ (یعنی دعا ہی عبادت ہے) امام ترمذی وغیرہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں ھو ضمیر فصل کا استعمال ہوا ہے اور خبر کو معرف باللام (معرفہ) کی شکل میں لایا گیا ہے تاکہ حصر پر دلالت کرے۔ یعنی اس حدیث نبوی میں یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت دعا کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے، نیز یہ کہ ہر عبادت کا ایک بڑا حصہ دعاپر مشتمل ہے۔[27]؎ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے میں کسی کو شریک کرنے کی ممانعت بھی ہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی گئی ہے کہ ”قل إنما أدعوا ربي ولا أشرک بربي أحداً“[28]؎ (آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔) نیز اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دے دی ہے کہ وہ شرک کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔[29]؎ یہاں شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی۔
میں کہتا ہوں: صرف اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا واجب ہے، اس کی ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کچھ مانگو تو اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جب تم مدد طلب کرو تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔[30]؎
اگر غیراللہ سے مانگنا جائز ہوتا تو یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر رہنمائی کی ہوتی کہ مانگنا ہو تو مجھ سے مانگو، مدد کی ضرورت ہو تو مجھ سے بھی مدد طلب کرو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جبکہ آپ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو تعلیم دے رہے تھے تو اس سے یہی معلوم ہوا کہ غیراللہ سے ایسی ضرورت کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ ہی پوری کر سکتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: کوئی ہے مجھ سے دعا مانگنے والا، میں اس کی دعا کو قبول کروں گا؟ کوئی ہے مجھ سے سوال کرنے والا میں اسے عطا کروں گا؟ کوئی ہے مجھ سے گناہوں کی مغفرت کا طالب میں اس کے گناہ معاف کر دوں گا؟[31]؎
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ غیراللہ سے دعا مانگنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ اللہ کو چھوڑ کسی غیراللہ کو اس کا ہمسر بناکر اس سے دعا مانگتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔[32]؎
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن باہر نکلے گی، اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھ رہی ہوں گی، اس کے دو کان ہوں گے جو سن رہے ہوں گے، اس کی ایک زبان ہوگی جو بول رہی ہوگی۔ وہ کہے گی: مجھے تین قسم کے لوگوں پر تعینات کیا گیا ہے، یعنی ہر سرکش و زورآور پر، ہر اس شخص پر جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی معبود بنا کر مدد کے لئے پکارا اور اس سے دعا کی اور تصویریں بنانے والوں پر۔[33]؎
شیخ عبدالرحمٰن سعدی[34]؎ رحمہ اللہ آیت مبارکہ ”یسألہ من فی السماوات والأرض“[35]؎ (سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں) کی تفسیر میں کہتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ کی ذات غنی اور اپنی تمام مخلوقات سے بےنیاز ہے، اس کا جود و کرم وسیع و عریض ہے، ساری مخلوق اس کی محتاج ہے، سب زبان حال و قال سے اپنی ضرورتوں کے لئے اسی کے سامنے ہاتھ اور دامن کو پھیلاتے ہیں، لوگ پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم مدت کے لئے اس سے بےنیاز نہیں رہ سکتے جبکہ رب تعالیٰ کی شان و عظمت کا بیان اس آیت میں ہے ”کل یوم ھو فی شأن“ (ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔) وہ محتاج کو غنی کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، کسی کو نوازتا ہے، کسی سے اپنی نعمتوں کو روک لیتا ہے، کسی کو موت سے ہمکنار کرتا ہے، کسی کو زندگی عطا کرتا ہے، کسی کو پستی میں دھکیل دیتا ہے کسی کو سربلندی عطا کرتا ہے، کوئی ایک حالت دوسری حالت کی طرف توجہ دینے سے اسے مشغول نہیں کرتی ہے، مسائل کے انبار میں بھی اس سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا، نہ الحاح و اصرار کرنے والے اور دیر تک اس کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے اسے اکتاہٹ میں مبتلا کرتے ہیں، اللہ پاک کی ذات شریف و سخی و فیاض اور بےحد و حساب عطا کرنے والی ہے، اس کی نوازشات آسمانوں اور زمین کے مکینوں کے لئے عام ہیں، ہر آن اور لحظہ تمام مخلوقات کے لئے اس کا لطف و کرم عام ہے۔ اس کی ذات بلند و بالا ہے، عاصیوں کی معصیت بھی اسے داد و دہش سے نہیں روکتی ہے اور نہ اس کی ذات اور اس کے لطف و کرم سے ناآشنا محتاجوں کی ادائے بےنیازی اسے اپنی نوازشات کا سلسلہ جاری رکھنے سے باز رکھتی ہے“۔[36]؎
شفاعت قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اجماع سے ایک ثابت شدہ حق ہے۔ الشفاعۃ اصلاً لغوی اعتبار سے ”الشفع“ سے ہے جس کے معنی ”الزوج“ یعنی جفت یا جوڑے کے ہیں جو ”الوتر“ (بمعنی طاق) کی ضد ہے۔ ایک فرد کا دوسرے فرد سے مل جانا تاکہ جوڑا بن جائے ”شفع“ کہلاتا ہے۔ ”الشفع“ سے متعدد الفاظ فروعی طور پر نکلے ہیں، مثلاً کوئی شخص اپنے بھائی کے لئے کسی تیسرے شخص کے پاس واسطہ بنے تاکہ وہ اس کی غلطی کو معاف کر دے، یہ بھی شفاعت کہلاتی ہے۔ اس کو شفاعت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص واسطہ بنا ہے وہ واسطہ طلب کرنے والے کے ساتھ مل گیا ہے جس کے بعد وہ ایک سے دو ہو گیا ہے۔ شفاعت کی اس قسم کو ہمارے زمانہ میں وساطت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[37]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”الشافع“ کا نام دیا گیا ہے، اس لئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور لوگوں کی کئی بار شفاعت کریں گے، اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کے پاس شفاعت کرنے والے بھی متعدد ہیں، مثلاً تمام انبیائے کرام شفاعت کریں گے، مومنین شفاعت کریں گے، فرشتے شفاعت کریں گے، چھوٹے بچے شفاعت کریں گے، قرآن مجید اپنے قاریوں کے حق میں شفاعت کرے گا، روزہ شفاعت کرے گا۔ اے اللہ! تو مجھے بھی قیامت کے دن ان شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نصیب فرما۔
شفاعت کا راز یہ ہے کہ اس کے ذریعہ قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں کی فضیلت کا اظہار ہوگا۔ قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں میں سب سے عظیم الشان ہستی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ شفاعتیں حاصل ہوں گی، ان میں سے چار شفاعتیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہیں اور ایک شفاعت میں آپ دیگر شفاعت کرنے والوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔
پہلی شفاعت: قیامت کے دن بندوں کا حساب و کتاب شروع کرنے کے لئے ہوگی۔ اسی کو شفاعت عظمی کہا جاتا ہے۔ لوگ قیامت کے دن ایک طویل مدت تک حساب و کتاب کے انتظار میں کھڑے رہیں گے۔ مومن و کافر ایک سخت مصیبت و آزمائش کی کیفیت میں ہوں گے، سورج قریب ہو کر ایک میل کے فاصلہ پر آ جائے گا۔ اس کسمپرسی اور بے پناہی کے عالم میں لوگ انبیائے کرام کے پاس پہنچیں گے تاکہ وہ حساب و کتاب شروع کرنے کے لئے رب کے پاس ان کی سفارش کر دیں اور ہر شخص جنت یا جہنم میں اپنے آخری ٹھکانے و انجام سے واقف ہو جائے، پانچ جلیل القدر انبیائے کرام آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام آگے بڑھنے سے معذرت کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لئے کہیں گے تو لوگ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے، آپ کہیں گے: ہاں میں اس شفاعت کا حقدار ہوں، آج رب نے مجھے اس شفاعت کا اعزاز عطا کیا ہے۔ آپ عرش کے نیچے رب تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا آپ سجدہ میں پڑے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی حمد و ثناء کے ایسے دروازے کھول دے گا جو اس نے اس سے پہلے کسی کے لئے نہیں کھولا ہوگا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! سجدہ سے سر اٹھائیے، آپ کو جو کہنا ہے کہئے، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ مانگئے، آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ اللہ تعالیٰ کے حضور میدان حشر میں کھڑے لوگوں کے حق میں شفاعت کریں گے تاکہ ان کا حساب و کتاب شروع کیا جائے۔ اللہ پاک آپ کی شفاعت قبول کرے گا، اس طرح مومن و کافر تمام بندوں کے حساب و کتاب اور ان کے تمام باہمی معاملات کے فیصلے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اس فیصلے میں آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسان شامل ہوں گے۔[38]؎
یہ شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور کو عطا نہیں کی گئیں، ایک ماہ کی مسافت تک میرا رعب و دبدبہ قائم کرکے میری مدد کی گئی، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور پاکی کا ذریعہ بنایا گیا، میری امت کے کسی بھی شخص کے لئے اگر نماز کا وقت ہو جائے تو روئے زمین پر جہاں چاہے نماز ادا کر لے، میرے لئے مال غنیمت کو حلال کیا گیا، اسے مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی حلال نہیں کیا گیا تھا، مجھے قیامت کے دن خصوصی شفاعت عطا کی گئی اور مجھ سے پہلے انبیاء اپنی خاص قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے جبکہ مجھے عام لوگوں کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔[39]؎
اسی شفاعت کا نام مقام محمود ہے جس کا تذکرہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں ان الفاظ میں فرمایا ہے: ”عسیٰ أن یبعثک ربک مقاما محمودا“[40]؎ (عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔) یہ وہ بلند مقام ہے جس پر فائز ہونے کی وجہ سے اگلے اور پچھلے سب قیامت کے دن آپ کی تعریف کریں گے اور اس کی وجہ سے سب آپ پر رشک کریں گے، اس لئے کہ اس دن نہایت مشکل گھڑی میں اپنی خصوصی شفاعت کے ذریعہ مومن و کافر اور جن و انس سب کا حساب و کتاب شروع کروانے کی وجہ سے تمام مخلوق کی گردنوں پر آپ کا احسان ہوگا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام محمود کے حصول کے لئے آپ کے حق میں دعا کرنے پر اپنی امت کو ابھارا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھی: ”اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلاۃ القائمۃ آت محمد الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمود الذی وعدتہ“ (اے اللہ! اس مکمل دعوت و پکار اور قائم ہونے والی نماز کے رب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر فائز کر دے جس کا تونے وعدہ کیا ہے۔) قیامت کے دن وہ میری شفاعت کا حقدار ہوگا۔[41]؎ اس شفاعت کی عظمت شان ہی کی وجہ سے اہل علم نے اسے شفاعت عظمی کا نام دیا ہے۔ یہ قیامت کے دن کی جانے والی سب سے پہلی شفاعت ہوگی۔
دوسری شفاعت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شفاعت مومنوں کے حق میں جنت میں داخل ہونے کے لئے ہوگی۔ مومن جب حساب و کتاب کے بعد جنت کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازہ کو مقفل پائیں گے، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازہ پر دستک دیں گے تو جنت کا خازن[42]؎ پوچھے گا: آپ کون ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے: میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں
داروغۂ جنت کہے گا: مجھے یہ حکم ہے کہ آپ سے پہلے کسی کے لئے جنت کے دروازہ کو نہ کھولوں[43]؎
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پہلا شخص ہوں جو جنت میں شفاعت کرے گا اور میری اتباع کرنے والوں کی تعداد تمام انبیائے کرام سے زیادہ ہوگی۔[44]؎
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آپ سے پہلے کوئی بھی جنت کے اندر قدم نہیں رکھ سکے گا۔ اس اعزاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شرف و فضیلت کا اظہار ہے، کیونکہ آپ ہی شفاعت عظمی کے مالک ہیں اور اس شفاعت کے ذریعہ لوگوں کو محشر کی حشر سامانیوں سے آرام و راحت پہنچائیں گے۔ اور دوسری خصوصی و اہم شفاعت کے مالک بھی آپ ہی ہیں، اس شفاعت کے ذریعہ آپ لوگوں کو دخول جنت کا موقع فراہم کرکے ان کے لئے مسرت و شادمانی کا پیغام لے کر آئیں گے۔
تیسری شفاعت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت قیامت کے دن ان لوگوں کو جنت میں داخل کئے جانے کے لئے ہوگی جن کے ذمہ کوئی حساب و کتاب نہیں ہوگا۔ اس کی دلیل شفاعت کے سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی وہ طویل حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ رب تعالیٰ کہے گا: اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کے ذمہ کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، جنت کے دائیں طرف کے دروازہ سے جنت میں داخل کر دیجئے۔[45]؎[46]؎
چوتھی شفاعت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی شفاعت آپ کے چچا ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے لئے ہوگی، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے تھے اور مشرکین کی ایذاء رسانی سے آپ کو بچاتے تھے۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ نے اپنے چچا ابوطالب کو کیا فائدہ پہنچایا؟ اللہ کی قسم وہ آپ کو مشرکین سے بچاتے تھے اور آپ کے لئے غصہ ہوتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں جہنم میں سب سے ہلکے درجہ کا عذاب دیا جائے گا، اگر ان کے حق میں میری شفاعت نہ ہوتی تو وہ جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوتے۔[47]؎
پانچویں شفاعت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے گنہگار مومنوں کے لئے ہوگی جو جہنم میں داخل ہو چکے ہوں گے اور وہاں اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکالے جائیں گے۔ اس کی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی وہ طویل حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اپنے رب سے ان مومنوں کے حق میں شفاعت کے لئے اجازت طلب کریں گے جو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے جہنم کے اندر داخل ہو چکے ہوں گے تاکہ آپ کی شفاعت پر انہیں جہنم سے نکال کر داخل جنت کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان گنہگار اہل توحید کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو قبول فرمائے گا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ ایک حد مقرر کر دے گا یعنی ان گنہگاروں کی ایک تعداد متعین کر دے گا جنہیں آپ جہنم سے نکال کر داخل جنت کریں گے۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس واپس آئیں گے اور رب کے سامنے سجدہ میں گر جائیں گے، اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا آپ کو سجدہ کی ہی حالت میں رہنے دے گا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (اے محمد! اٹھئے[48]؎، آپ کو جو کہنا ہے کہئے، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ مانگئے، آپ کو عطا کیا جائے گا۔) آپ نے فرمایا: پھر میں سجدہ سے سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد و ثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ اس وقت مجھے سکھائے گا، فرمایا: (پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس متعین تعداد میں گنہگاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرا دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری اور چوتھی مرتبہ بھی شفاعت کی اجازت طلب کرنے کے لئے رب تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور جس طرح آپ نے دوسری شفاعت میں کچھ لوگوں کو جہنم سے نکلوایا ہوگا اسی طرح تیسری اور چوتھی شفاعت کے ذریعہ بھی گنہگاروں کی ایک متعین تعداد کو جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کرائیں گے۔ یہ گنہگار اہل ایمان کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل چار شفاعتیں ہیں جن کے ذریعہ آپ انہیں جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کرائیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: (یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی شخص باقی رہ جائے گا جسے قرآن نے روک دیا ہوگا۔)[49]؎ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی موت حالت کفر میں ہوئی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم ان کا ٹھکانہ بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن الذین کفروا من أھل الکتاب والمشرکین فی نار جھنم خالدین فیھا أولئک ھم شر البریۃ“[50]؎ (بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں (جائیں گے) جہاں وہ ہمیشہ (ہمیشہ) رہیں گے، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں۔)
پہلی تنبیہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت کبیرہ گناہوں کے مرتکب ان گنہگار مومنوں کو حاصل ہوگی جو جہنم میں داخل ہو چکے ہوں گے تاکہ انہیں جہنم سے نکالا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل شفاعت عظمی کے بعد یہ سب سے بڑی شفاعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد: ”شفاعتي لأھل الکبائر من أمتي“[51]؎ (میری امت میں جو لوگ کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے انہیں میری شفاعت حاصل ہوگی) میں یہی شفاعت مراد لی ہے۔
اس کی ایک دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے اللہ تعالیٰ قبول کرے گا جب وہ دعا کرے گا، میں اس مقبول دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے بچا کر رکھنا چاہتا ہوں۔[52]؎
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہے، ہر نبی نے اپنی اس مقبول دعا کو رب کے حضور پیش کرنے میں جلدی کی، میں نے اپنی اس مقبول دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ رکھا ہے۔ میری یہ شفاعت إن شاء اللہ میری امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جس کی موت شرک پر نہ ہوئی ہو۔[53]؎
دوسری تنبیہ: ابن قیم[54]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اکثر احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب اہل توحید کے حق میں شفاعت ان کے داخل جہنم ہونے کے بعد ہوگی۔ مجھے ایسا کوئی نص نہیں ملا جس سے پتہ چلتا ہو کہ ان اہل کبائر موحدین کے جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی۔[55]؎
تیسری تنبیہ: یہ پانچویں شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے علاوہ دیگر شفاعت کرنے والوں کے درمیان مشترک ہے۔ نصوص سے یہ ثابت ہے کہ انبیائے کرام، مومنین اور فرشتے ان مومنین کے حق میں شفاعت کریں گے جو مستحق جہنم ہونے کے بعد داخل جہنم ہو چکے ہوں گے اور وہاں اپنے گناہوں کی سزا پا لینے کے بعد اس شفاعت کی بنیاد پر جہنم سے نکالے جائیں گے۔ ان گنہگار مومنوں کے حق میں ان شفاعت کرنے والوں کی شفاعت قبول ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ ان میں سے جسے چاہے گا ان کی شفاعت کی وجہ سے انہیں جہنم سے باہر نکال دے گا، تاہم اس شفاعت کے معاملہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیاز اور خصوصیت حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے ان اہل کبائر کو جہنم سے نکالے جانے کے لئے چار مرتبہ شفاعت کریں گے۔[56]؎
شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے بعد اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو کسی کی شفاعت کے بغیر جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔ پھر جہنم کو جہنمیوں کے اوپر بند کر دیا جائے گا اور اس کی آگ کو کفار کے اوپر روک کر مسلط کر دیا جائے گا۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم ہی میں رہیں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے۔ کفار کے حق میں اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم کی آگ میں جلتے رہیں گے، ان میں سے کسی ایک کافر کو بھی کسی حال میں جہنم سے نکالا نہیں جائے گا، چاہے ان کے حق میں کوئی شفاعت کرے یا نہ کرے، انہیں اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن اللہ لعن الکافرین و أعد لھم سعیرا خالدین فیھا أبدا لا یجدون ولیا و لا نصیراً“[57]؎ (اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، وہ کوئی حامی و مددگار نہ پائیں گے۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”والذین کفروا لھم نار جھنم لا یقضی علیہم فیموتوا و لا یخفف عنہم من عذابھا کذلک نجزي کل کفور“[58]؎ (اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔)
اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کو آپ کی شفاعت کیسے حاصل ہوگی، کیونکہ ان کا انتقال تو حالت کفر میں ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ ”فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین“ (شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کافروں کے حق میں کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہوگی۔)؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ابوطالب کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت انہیں جہنم سے نکالنے کے لئے نہیں ہوگی جیسا کہ گنہگار مومنوں کے لئے آپ کی شفاعت انہیں جہنم سے باہر نکالنے کے لئے ہوگی۔ چچا کے لئے آپ کی شفاعت صرف عذاب میں تخفیف کے لئے ہوگی، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا بدلہ ہے، اس لئے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت کرتے تھے اور آپ کے لئے آڑ بن جاتے تھے۔
شیخ حافظ بن احمد حکمی[59]؎ نے اپنے منظوم کلام میں شفاعت کی قسموں کا تذکرہ کیا ہے جس کا عنوان ہے ”سلم الوصول إلی علم الأصول“۔ یہاں ان اشعار کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
کذا لہ الشفاعۃ العظمی کما قد خَصّہ اللہ بھا تکرما
من بعد إذن اللہ لا کما یری کل قبوری علی اللہ افتری
یشفع أولا إلی الرحمٰن فی فصل القضاء بین أھل الموقف
من بعد أن یطلبھا الناس إلی کل أولی العزم الھداۃ الفضلا
و ثانیا یشفع فی استفتاح دار النعیم لأولی الفلاح
ھذا و ھاتان الشفاعتان قد خصتا بہ بلا نکران
و ثالثا یشفع فی أقوام ما توا علی دین الھدی الإسلام
و أوبقہتم کثرۃ الآثام فأدخلوا النار بذا الإجرام
أن یخرجوا منھا إلی الجنان بفضل رب العرش ذی الإحسان
و بعدہ یشفع کل مرسل و کل عبد ذی صلاح و ولی
و یخرج اللہ من النیران جمیع من مات علی الإیمان
فی نھر الحیاۃ یطرحونا فحما فیحیون و ینبتونا[60]؎
ترجمہ اشعار: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت عظمی کا اعزاز حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے بطور عزت افزائی اس اعزاز کے لئے آپ کو خاص کیا ہے۔
یہ شفاعت عظمی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ کو حاصل ہوگی، نہ کہ اس طور پر جیسا کہ ہر قبر پرست کا عقیدہ ہے، یہ اللہ پر ان قبوریوں کی افترا پردازی ہے۔
سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمٰن کے حضور میدان حشر میں جمع لوگوں کا حساب و کتاب شروع کرانے کے لئے شفاعت کریں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ شفاعت اس وقت ہوگی جب لوگ اس کے لئے تمام اصحاب فضل، اولوالعزم اور رہنمائی کرنے والے رسولوں اور نبیوں سے اس کے لئے درخواست کر چکے ہوں گے۔
دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قیامت کے دن حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والے جنتیوں کے لئے دارالنعیم (جنت) کو کھلوانے کے لئے ہوگی۔
یہ دونوں شفاعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہیں، اس حقیقت کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری شفاعت ان لوگوں کے حق میں ہوگی جنہوں نے دین ہدایت یعنی اسلام پر وفات پائی، لیکن گناہوں کی کثرت نے انہیں ہلاکت کے گڈھے میں گرا دیا اور اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل جہنم ہو گئے۔ رب العرش کے فضل و احسان کی بدولت ان گنہگاروں کو جہنم سے نکال کر داخل جنت کئے جانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہوگی۔
اس کے بعد ہر رسول اور ہر بندہ جو صاحب صلاح و تقوی اور رب کی قربت و ولایت سے سرفراز ہوگا، گنہگاروں کے لئے شفاعت کرے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنے ان تمام بندوں کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے باہر نکالے گا جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہوگا۔
جہنم سے نکال کر نہر حیات میں انہیں ڈالا جائے گا جبکہ وہ جہنم کی آگ میں جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے، وہاں وہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے اور ان کے جسم پہلے کی طرح اُگ آئیں گے۔
ایک قیمتی فائدہ
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: شفاعت کی دو قسمیں باقی رہ جاتی ہیں جن کا تذکرہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک ان لوگوں کے حق میں شفاعت کی بات کہی جاتی ہے جو دخول جہنم کے مستحق بن چکے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں شفاعت کریں گے کہ انہیں جہنم میں نہ ڈالا جائے۔ کسی حدیث میں اب تک اس نوع کی شفاعت سے میں واقف نہیں ہو سکا۔ اکثر احادیث میں صراحت آئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبیرہ گناہوں کے مرتکب اہل توحید کے لئے ہوگی اور وہ بھی ان کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد۔ رہی یہ بات کہ ان کے جہنم میں داخل کئے جانے سے پہلے ہی ان کے حق میں آپ کی شفاعت ہوگی جس کی وجہ سے وہ جہنم میں جانے سے بچ جائیں گے تو اس سلسلہ میں کسی نص تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔
شفاعت کی دوسری قسم جس کا تذکرہ کیا جاتا ہے، یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مومنوں کے اجر و ثواب میں اضافہ اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے شفاعت کریں گے، اس کے لئے ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو دلیل بنایا ہے جو آپ نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں دی تھی: ”اللھم اغفر لأبی سلمۃ و ارفع درجتہ فی المھدیین“[61]؎ (اے اللہ! تو ابوسلمہ کی مغفرت فرما دے اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کے درجات بلند کر دے)
نیز ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل کی گئی ہے: ”اللھم اغفر لعبید أبي عامر اللھم اجعلہ یوم القیامۃ فوق کثیر من خلقک“[62]؎ (اے اللہ! عُبید ابوعامر کی مغفرت فرما، اے اللہ! قیامت کے دن انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فوقیت عطا فرما۔) ابن قیم رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی۔[63]؎
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم گنہگار و خطا کار ہیں، اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہیں، اس لئے ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو بلا واسطہ پکاریں اور بغیر کسی واسطہ کے اللہ سے دعا کریں، کیونکہ اس حالت میں جب ہم اللہ کو بلا واسطہ پکاریں گے اور اس کے سامنے اپنی ضرورتیں بیان کریں گے تو ہمیں صرف مایوسی ہی ہاتھ آئے گی اور دعا کی قبولیت کے معاملہ میں ہم ناکام و نامراد ہوں گے۔ اسی لئے ہم نیک لوگوں سے دعا کرتے ہیں جو ہماری بہ نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہیں اور وہ اپنے حق کے اعتبار سے ہم سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں، پھر وہ نیک لوگ ہماری حاجتوں کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو شرف قبولیت عطا کرتا ہے جب بھی وہ دعا کرتے ہیں اور جب وہ اللہ سے ہماری سفارش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اکرام و عزت افزائی کی خاطر اور ان کی دلجوئی کے لئے ان کی سفارش کو قبول کرتا ہے۔ جب ہمیں اولاد یا کشادہ رزق یا کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم دعا کے ذریعہ ان ہی نیک لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، وہ ہماری دعا کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہیں، لہذا آپ ہمیں اس طرح کی دعا کرنے سے کیوں روکتے ہیں جبکہ دنیا میں انسان اس طرح کے واسطہ اور وسیلہ کو آپس میں استعمال کرتے ہیں، مثلاً لوگ دنیا کے بادشاہوں سے اپنی ضرورتوں کو ان کے وزیروں، مقرب لوگوں اور دربانوں کے واسطہ سے پوری کرواتے ہیں، لہذا ہم اس طرح کے واسطہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں نہ استعمال کریں؟
اس شبہ کے سولہ جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا جواب: اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اسے بغیر کسی واسطہ کے پکاریں اور اس کے اور اپنے درمیان کسی کو واسطہ نہ بنائیں۔[64]؎ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و أن المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ أحدا“ (مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں لہذا تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔) اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ حاجت طلبی کے لئے غیراللہ کی طرف متوجہ ہونا مشرکین کا عمل ہے جن کی اصلاح و رہنمائی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و الذین اتخذوا من دونہ أولیاء ما نعبدھم إلّا لیقربونا إلی اللہ زلفی“[65]؎ (اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و یعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم و لا ینفعھم و یقولون ھؤلاء شفعاؤنا عنداللہ قل أتنبئون اللہ بما لا یعلم فی السماوات و لا فی الارض سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون“[66]؎ (اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے) گزشتہ فصل میں اس وساطت کا بیان قدرے تفصیل کے ساتھ آ چکا ہے۔
دوسرا جواب: یہ ہے کہ غیراللہ کو پکارنا شرک اکبر ہے، چاہے کسی بھی ذریعہ سے اسے پکارا جائے، چاہے واسطہ بنا کر پکارا جائے یا کسی اور طریقہ سے۔ دین اسلام اور دیگر تمام آسمانی مذاہب میں شرک کی حرمت یقینی طور پر معلوم ہے۔ شرک کلی طور پر دین اسلام کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”و لقد أوحي إلیک و إلی الذین من قبلک لئن أشرکت لیحبطن عملک و لتکونن من الخاسرین بل اللہ فاعبد و کن من الشاکرین“ (یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تونے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا، بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا)۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ[67]؎ رحمہ اللہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واسطہ بنانے والوں کی تردید کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہونے والوں کے دین و منہج سے لا علمی و بے خبری کا نتیجہ ہے۔ ہر طرف سے رخ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو عبادت، دعا اور مدد طلبی کے معاملہ میں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہیں بناتے ہیں، بلکہ وہ کسی واسطہ کے بغیر اپنے رب سے دعا و مناجات کرتے ہیں، صرف اسی کو پکارتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ ہر نمازی اپنے رب کی عبادت اس طرح کرتا ہے کہ وہ نماز اس کی طرف سے اس کے رب کے لئے بلا واسطہ ہوتی ہے۔[68]؎
یہ مسئلہ تمام علمائے اسلام کے نزدیک متفق علیہ ہے، اس اجماع میں چاروں مسالک کے علماء شامل ہیں۔ ان سب کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ غیراللہ کو پکارنا اور اس سے دعا کرنا شرک اکبر ہے، اس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور کسی مسئلہ میں مسلمانوں کا اجماع شرعی دلیل ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔[69]؎
علماء کی ایک جماعت نے اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارنا اور اس سے دعا کرنا شرک اکبر ہے، اس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ ان علماء میں شیخ الاسلام ابوالعباس احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”مردہ اور غیر موجود سے کچھ مانگنا، چاہے وہ نبی ہو یا غیر نبی، بدترین محرمات میں سے ہے، اس مسئلہ پر علمائے اسلام کا اتفاق ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا ہے، نہ صحابہ و تابعین میں سے کسی نے اس کام کو انجام دیا ہے اور نہ ائمہ اسلام میں سے کسی نے اسے مستحسن سمجھا ہے، مسلمانوں کے دین میں یہ بات بہت واضح ہے اور ضروری طور پر معلوم و متحقق ہے“۔[70]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: ”علمائے اسلام میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ جن کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے ان کے لئے مخلوقات میں سے بھی کسی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے، چاہے وہ کوئی نبی ہو یا کوئی فرشتہ ہو یا نیک انسان ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ بلکہ اس کے تعلق سے دین اسلام میں ضروری طور پر معلوم ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے“۔[71]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: ”جو شخص بھی فرشتوں اور انبیاء کو واسطہ بنا کر انہیں مدد کے لئے پکارتا ہو یا ان سے دعا کرتا ہو، ان پر توکل و بھروسہ کرتا ہو، حصول منفعت اور دفع مضرت کے لئے ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہو، مثلاً ان سے گناہوں کو معاف کرنے، دلوں کو ہدایت یاب کرنے، مصائب کو دور کرنے اور فاقہ کشی کا سدباب کرنے کے لئے درخواست کرتا ہو تو اس کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے“۔[72]؎
علمائے حنابلہ میں سے شیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب[73]؎ نے اپنی کتاب ”تیسیر العزیز الحمید“ میں شیخ الاسلام کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ ”متعدد علماء نے شیخ الاسلام کے اس موقف کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے حوالہ سے اس قول[74]؎ کو نقل کیا ہے، ان میں ابن مفلح ”الفروع[75]؎“ میں، صاحب ”الإنصاف[76]؎ “، صاحب ”الغایۃ[77]؎ “، صاحب ”الإقناع[78]؎ “ اور اس کے شارح[79]؎ وغیرہ شامل ہیں۔ شیخ الاسلام کے اس قول کو صاحب ”القواطع[80]؎ “ نے اپنی کتاب میں صاحب ”الفروع“ کے حوالہ سے نقل کیا ہے“۔
میں کہتا ہوں[81]؎: ”یہ صحیح اجماع ہے اور دین میں ضروری طور پر معلوم ہے۔ چاروں مسالک کے علماء اور دیگر اہل علم نے مرتد کے حکم کے ضمن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا وہ کافر ہے، یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو کسی بھی طرح کی عبادت میں شریک کیا تو وہ کافر ہے۔ یہ بات قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ اللہ سے دعا کرنا اس کی عبادت ہے، لہذا غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ہوگا“۔ شیخ سلیمان رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی۔[82]؎
غیراللہ سے دعا کرنا شرک اکبر ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس مسئلہ میں علمائے اسلام کا اجماع نقل کرنے والوں میں سے ایک شیخ عبد اللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن[83]؎ بھی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ شرک اکبر کے مرتکب کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ایسا شخص جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسول کا انکار کیا یا اس میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ کفر کیا تو اس پر قابل اعتبار حد تک حجت قائم ہو جانے کے بعد اس کا کافر ہونا ثابت ہو جائے گا، مثلاً جس نے نیک لوگوں کی عبادت کی اور اللہ کے ساتھ ساتھ ان سے بھی دعا کی اور انہیں عبادات اور الوہیت کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا ہمسر و مد مقابل بنایا جبکہ اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف سے اس کا تنے تنہا مستحق ہے تو وہ بالاتفاق کافر ہوگا۔ انہوں نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ مومنوں اور اہل علم کا اس مسئلہ میں اجماع ہے۔ تمام مسالک جن کی تقلید کی جاتی ہے، کے علماء اس مسئلہ کو بیان کرنے کے لئے علاحدہ طور پر ایک نمایاں باب قائم کرتے ہیں جس میں وہ اس مسئلہ کے حکم، ارتداد کے موجبات اور اس کے تقاضے کو بیان کرتے ہیں اور اس کے شرک ہونے کی منصوص طور پر صراحت کرتے ہیں۔ ابن حجر ہیتمی[84]؎ نے اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے ”الإعلام بقواطع الإسلام“ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے۔[85]؎[86]؎
شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”ہمارے علم میں کفر و ارتداد کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جس کے بارے میں اس قدر نصوص وارد ہوں جتنے غیراللہ سے دعا کے سلسلہ میں وارد ہیں۔ ان نصوص سے اس شرکیہ عمل کی ممانعت، اس سے بچنے کی تاکید، اس کے مرتکب کے کافر ہونے کی وضاحت اور اس کے لئے ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنے کی وعید بصراحت موجود ہے۔ پھر اس کے بعد قرآن و سنت کو حَکم و فیصل ماننے اور اجماع امت کی اتباع کرنے کی راہ میں کیا رکاوٹ باقی رہ جاتی ہے؟ متعدد علمائے اسلام نے اپنی مستقل تصانیف میں اس مسئلہ کی وضاحت کی ہے، اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے اور یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ معاملہ اسلام کی نہایت اہم اور ضروری باتوں میں سے ہے۔“[87]؎
علمائے احناف کا کلام
شیخ محمد عابد سندی حنفی[88]؎ اپنی کتاب ”طوالع الأنوار شرح تنویر الأبصار مع الدر المختار“ میں رقمطراز ہیں: ”کوئی شخص یہ نہیں کہے گا: اے قبر والے! اے فلاں! میری حاجت روائی کیجئے یا میری اس حاجت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کیجئے یا اللہ تعالیٰ سے میری سفارش کیجئے، بلکہ وہ ان الفاظ میں دعا کرے گا: اے وہ ذات جس کے حکم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے! میری اس ضرورت کی تکمیل کر دیجئے۔“
شیخ صنع اللہ بن صنع اللہ حلبی حنفی[89]؎ لکھتے ہیں: ”آج کل مسلمانوں کے درمیان کچھ ایسی جماعتیں نمودار ہوئی ہیں جو یہ دعوی کرتی ہیں کہ اولیاء اپنی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی تصرف کرتے ہیں، مصائب اور سختیوں میں ان سے مدد کی گہار لگائی جاتی ہے، ان کے ذریعہ پریشانیوں کے دور ہونے کی بات کہی جاتی ہے۔ لوگ ان اولیاء کی قبروں کے پاس پہنچ کر حاجتوں کو پوری کرنے کے لئے انہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں اور اسے ان کی کرامات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں!
اس طرح کی باتیں افراط و تفریط سے خالی نہیں ہیں، بلکہ اس میں ابدی ہلاکت اور ہمیشہ کا عذاب صاف طور پر نظر آتا ہے۔ کیونکہ ان باتوں میں یقینی شرک کا شائبہ موجود ہے، اس کی وجہ سے تصدیق شدہ آخری نازل کردہ کتاب قرآن مجید کی تعلیمات کی ان دیکھی اور ائمہ اسلام کے عقائد اور اجماع امت کی مخالفت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا“[90]؎[91]؎ (جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔)
متاخرین ائمہ احناف میں سے ایک جماعت کا یہی موقف ہے، مثلاً امام احمد سرہندی[92]؎، امام احمد رومی[93]؎، شیخ سبحان بخش ہندی، محمد بن علی تھانوی[94]؎، محمد اسماعیل دہلوی[95]؎، شیخ محمود بن عبداللہ آلوسی[96]؎ وغیرہ۔[97]؎
شیخ ڈاکٹر شمس الدین افغانی رحمہ اللہ نے ایک عظیم کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے قبر پرستوں کے عقائد کے رد و ابطال میں علمائے احناف کے اقوال جمع کئے ہیں۔ یہ بات بہت معلوم و متحقق ہے کہ قبر پرست ان قبروں کے پاس بکثرت دعا کرتے ہیں جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان قبروں کے تعلق سے مخصوص عقیدہ رکھتے ہیں جو اہل سنت کے عقائد کے برخلاف ہے۔ شیخ شمس الدین افغانی کی اس عظیم کتاب کا نام ”جھود علماء الحنفیۃ فی إبطال عقائد القبوریۃ“ ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں میں ہے۔ یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ اس کتاب میں انہوں نے قبر پرستی کے مصدر و سرچشمہ، اس کی ابتداء و نشو و نما اور اس کے انتشار و پھیلاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے سدباب کے لئے علمائے احناف کی کوششوں اور خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنی یہ تحقیق بھی پیش کی ہے کہ قبر پرستوں کا تعلق اہل شرک اور اصنام پرستوں کے زمرہ سے ہے۔ انہوں نے قبر پرستوں کے عقائد کے رد و ابطال میں علمائے احناف کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔[98]؎
اس کے بعد شیخ شمس الدین رحمہ اللہ نے شرک سے اجتناب کرنے اور قبر پرستوں کے اختیار کردہ تیس ذرائع کے رد و ابطال سے متعلق علمائے احناف کے اقوال نقل کئے ہیں۔[99]؎
اس کے بعد شیخ شمس الدین رحمہ اللہ نے نیک لوگوں کے معاملہ میں قبر پرستوں کے غلو کی مثالیں ذکر کی ہیں اور اس کے رد و ابطال علمائے احناف کی خدمات و کوششوں کو بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق ان قبوریوں کے غلو کو بیان کیا ہے، ان کا یہ دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہیں، آپ کو کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، آپ فریاد کرنے والوں کی فریاد کو سنتے ہیں۔ شیخ شمس الدین نے قبریوں کے ان تمام شرکیہ و گمراہ کن عقائد کو باطل قرار دیا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر مردوں مثلاً عبد القادر جیلانی، رفاعی اور بدوی جس کے لئے ولایت کو دعوی کیا جاتا ہے، کے معاملہ میں ان کے غلو کی مثالیں بیان کی ہیں۔[100]؎
غیر اللہ سے دعا مانگنے کی حرمت کے تعلق سے شافعی علماء کے کلام کی جہاں تک بات ہے تو اس سلسلہ میں ابن حجر شافعی نے[101]؎ ”شرح الأربعین النوویۃ“ میں جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب و مفہوم یہی ہے کہ غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنے والا اور اس سے دعا مانگنے والا کافر ہے۔[102]؎
شیخ احمد بن علی مقریزی مصری شافعی[103]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”قومیں جس شرک میں مبتلا ہیں اس کی دو قسمیں ہیں: الوہیت میں شرک اور ربوبیت میں شرک۔ عام طور پر مشرکین الوہیت اور عبادت کے شرک ہی میں مبتلا ہیں، یعنی بتوں، فرشتوں، جنوں اور زندہ و مردہ مشایخ و نیک لوگوں کی پرستش۔ وہ اس شرکیہ عمل کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں ”إنما نعبدھم لیقربونا إلی اللہ زلفی“ (ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب کر دیں۔) اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے سفارشی بن جائیں۔ اللہ کے نزدیک ان کو قربت و تکریم حاصل ہے اس کے سبب وہ ہمیں بھی اللہ کی قربت و تکریم حاصل کرا دیں گے، جیسا کہ دنیا میں بھی ہوتا ہے کہ بادشاہ کے اعوان و انصار اور اقارب و خواص کو بادشاہ کے دربار میں قربت و عزت حاصل ہو جاتی ہے۔ کتاب الہی (قرآن مجید) پوری کی پوری از اول و تا آخر اس مسلک کو باطل قرار دیتی ہے، اس کی تردید کرتی ہے اور اس مسلک پر چلنے والوں کی قباحت و شناعت کو بیان کرتی ہے۔ کتاب الہی صاف الفاظ میں اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں۔ اول تا آخر تمام رسولوں صلوات اللہ علیہم کا اس مسلک و عقیدہ کے باطل ہونے پر اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو قومیں اس سے پہلے ہلاک ہو چکی ہیں، وہ صرف اسی شرک الوہیت و عبودیت کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔[104]؎
رہی بات غیر اللہ سے دعا کرنے کے معاملہ میں حنبلی علماء کے کلام کی تو اس سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام گزر چکا ہے کہ انہوں نے غیر اللہ سے دعا مانگنے کے شرک اکبر ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی کچھ باتیں یہاں نقل کی جا رہی ہیں: ”جس نے بھی کسی زندہ یا نیک انسان کے بارے میں غلو کرتے ہوئے اسے کسی بھی اعتبار سے معبود و اِلہ بنایا، مثلاً کوئی یہ کہے کہ ہر وہ رزق جو شیخ فلاں کی طرف سے عطا نہ ہو، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، بکری ذبح کرتے وقت یہ کہے: میرے سردار و آقا کے نام سے، یا اسے یا کسی اور کو سجدہ کرکے اس کی عبادت کرے یا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اسے پکارے، مثلاً کہے: اے میرے فلاں آقا! میرے گناہوں کو بخش دیجئے، مجھ پر رحم کیجئے، میری مدد کیجئے، مجھے رزق عطا کیجئے، میری فریاد رسی کیجئے، مجھے نجات اور پناہ عطا کیجئے، یا میں نے آپ پر توکل و بھروسہ کیا، آپ میرے لئے کافی ہیں یا میں آپ کی کفایت میں ہوں، یا کوئی شخص اسی طرح کی باتیں کہتا ہے یا اسی طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے جو ربوبیت کے ساتھ خاص ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے درست نہیں ہے تو یہ سب شرک اور گمراہی کے زمرہ میں آئے گا، ایسا کہنے یا کرنے والے کو توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا، اگر وہ توبہ کرتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں جو تنہا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہیں مانتے ہیں۔“[105]؎
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ قول بھی ہے: ”جس نے یہ کہا کہ کوئی مردہ یا نفیسہ یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا خوفزدہ کو پناہ دیتا ہے، قیدی کو رہائی عطا کرتا ہے جبکہ یہ ضروریات کی تکمیل کی قبیل سے ہے، تو ایسا شخص گمراہ اور مشرک ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کسی کو پناہ دیتا ہے اور جسے وہ اپنی پناہ میں نہ لے اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اللہ کے سامنے اپنی حاجت بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے صدق دلی اور خلوص قلب کے ساتھ مدد کے لئے پکارا جائے اور اس سے دعا کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وإذا سألک عبادي عنی فإني قریب أجیب دعوۃ الداع إذا دعان“ (جب میرا بندہ میرے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس سے کہئے کہ میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی وہ پکارتا ہے۔)[106]؎
ابن قیم[107]؎ رحمہ اللہ اپنی کتاب ”مدارج السالکین“ میں شرک کی قسموں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”مردے سے حاجت طلبی، ان سے فریاد اور ان کی طرف مدد کے لئے متوجہ ہونا شرک کی قسموں میں سے ہے۔ دنیا میں ہو رہے شرک کی اصل بنیاد یہی ہے۔ مردے کے عمل کا رشتہ دنیا سے ختم ہو جاتا ہے، انسان مرنے کے بعد خود کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں رہ جاتا ہے چہ جائیکہ وہ اسے کوئی فائدہ پہنچا سکے جس نے اس سے فریاد کی یا حاجت براری کے لئے اس سے درخواست کی یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی سفارش کرنے کے لئے اس سے سوال کیا۔ یہ سفارش کرنے والے کی حیثیت اور اللہ کے نزدیک جس کی سفارش کی جانی ہے اس کی حالت سے بے خبری و عدم واقفیت کی دلیل ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے، اس لئے کہ کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے نزدیک کسی کی سفارش نہیں کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے فریاد کرنے یا مدد کے لئے سوال کرنے کو اپنی اجازت کے لئے سبب نہیں بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کا سبب کمال توحید کا پایا جانا ہے۔ اب یہ مشرک جو غیر اللہ کو سفارشی بنا رہا ہے یا غیر اللہ سے مدد کے لئے سوال کر رہا ہے، یہ اللہ کی اجازت کے دروازہ ہی کو بند کر رہا ہے۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنی حاجت کے لئے اس سے مدد طلب کی جو اس حاجت کے حصول میں مانع ہے۔ تمام مشرکین کی یہی صورتحال ہے۔ مردہ کو خود اس کی حاجت ہوتی ہے کہ کوئی اس کے لئے دعا کرے، اس پر ترس کھائے اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لئے رب تعالیٰ سے درخواست کرے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وصیت کی ہے کہ مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کے وقت ہم قبر میں مدفون مردوں پر ترس کھائیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے عافیت و مغفرت کی دعا کریں۔ مشرکین نے اس کا الٹا کیا ہے۔ ان لوگوں نے مردوں کی قبروں کی زیارت ان کی عبادت کرنے، ان سے اپنی حاجت پوری کروانے اور ان سے فریاد کرنے کے لئے کی ہے۔ ان مشرکین نے ان مردوں کی قبروں کو بت بنا لیا جس کی عبادت کی جاتی ہے، ان کی قبروں کا قصد کرنے کو حج کا نام دے دیا، ان کی قبروں کے پاس وقوف کیا اور اپنے سروں کو منڈوایا۔ اس طرح ان لوگوں نے جہاں ایک طرف معبود برحق کے ساتھ دوسرے کو شریک کرنے اور اس کے نازل کردہ دین کو تبدیل کرنے کا جرم کیا تو دوسری طرف اہل توحید کے ساتھ دشمنی کی اور اہل توحید کو مردوں کی تنقیص کرنے والا قرار دیا، حالانکہ ان مشرکین نے شرک کرکے خالق کی تنقیص کی۔ نیز ان لوگوں نے اللہ کے اولیاء موحدین کی مذمت و عیب جوئی کرکے اور ان سے دشمنی کرکے ان کی بھی تنقیص کی، علاوہ ازیں ان مشرکین نے ان کی بھی آخری حد تک تنقیص کی جن کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا، اس لئے کہ ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ قبر والے ان کے اس عمل سے راضی و خوش ہیں، انہیں اس کا حکم دیا ہے اور اس کی وجہ سے انہیں ان قبر والوں کی قربت و ولایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مشرکین ہر دور اور ہر زمانہ میں رسولوں اور اہل توحید کے دشمن رہے ہیں۔ ان مشرکین کی باطل پرستی پر لبیک کہنے والوں کی آج کتنی کثرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے کتنی اچھی بات کہلوائی ہے: ”واجنبني وبني أن نعبد الأصنام رب إنھنَّ أضللن کثیرا من الناس“ (اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔)
شرک کے اس جال سے صرف وہی شخص بچ سکا ہے جس نے اللہ کی توحید کو شرک کے شائبہ سے پاک رکھا، اللہ کے لئے مشرکین سے دشمنی کی، ان مشرکین کے افعال بد کو برا جان کر اللہ کا تقرب حاصل کیا، صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا سرپرست، الہ اور معبود بنایا، محبت، خوف، امید، اظہار ذلت و پستی، توکل و بھروسہ، استعانت و مدد طلبی، التجاء، استغاثہ اور قصد و ارادہ کو صرف اللہ کے ساتھ خالص کیا، اس کے حکم کی اتباع کرتے ہوئے اور اس کے رضا و خوشنودی کی تلاش و جستجو میں۔ جب بھی مانگنے کی ضرورت پیش آئی تو اللہ تعالیٰ سے مانگا، جب بھی مدد طلب کرنے کی نوبت آئی تو اللہ سے مدد طلب کی، کوئی بھی عمل کیا تو اللہ کی رضا کے لئے کیا، اس طرح وہ اللہ کے لئے، اللہ کے ساتھ اور اللہ کی معیت میں ہو گیا۔[108]؎
قبر میں مدفون مردوں کی تعظیم سے بچنے کے سلسلہ میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی شاندار کتاب ”إغاثۃ اللھفان من مصائد الشیطان“ میں تفصیلی کلام کیا ہے۔ اس میں انہوں نے قبر والوں کی تعظیم اور ان کی ذات میں غلو کی تاریخی جڑوں کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح قبر پرستی کے مظاہر و نمونوں اور اس کے علاج کی بھی نشاندہی کی ہے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ[109]؎
امام ابو الوفاء علی بن عقیل حنبلی[110]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”جو شخص ضرورت پوری کرنے کے لئے مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے: اے میرے آقا، اے میرے سردار عبد القادر! میرا یہ کام کر دیجئے یا میری یہ حاجت پوری کر دیجئے۔ وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے کافر ہے۔ جس شخص نے کسی مردہ سے دعا کی اور اس سے حاجت پوری کرنے کی درخواست کی تو وہ کافر ہے۔“[111]؎
ان کا یہ بھی قول ہے: ”جب جاہلوں اور احمقوں کے لئے شرعی تعلیمات پر عمل کرنا دشوار ہو گیا تو ان لوگوں نے شرعی تعلیمات سے انحراف کرکے ایسی تعلیمات کی تعظیم شروع کر دی جسے انہوں نے خود گڑھا تھا۔ یہ معاملہ ان کے لئے آسان ہو گیا کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے کے حکم کے تابع نہیں ہونا پڑا۔ یہ لوگ ان خود ساختہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے میرے نزدیک کافر ہیں، مثلاً قبروں کی تعظیم، مردوں کے سامنے اپنی حاجت بیان کرنا، مردوں کے لئے کاغذ پر یہ لکھنا: اے میرے آقا، میری اس ضرورت کو پوری کر دیجئے، لات و عزی کے پرستاروں کی اقتداء کرتے ہوئے درختوں پر چیتھڑا لٹکانا۔“[112]؎
شیخ عبد اللہ ابابطین[113]؎ رحمہ اللہ کا قول ہے: ”میں نے قاضی ابو یعلی[114]؎ کے فتاوی میں یہ دیکھا ہے کہ ان سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو یا محمد، یا علی کہتا ہے۔ انہوں نے کہا: ایسا کہنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ دونوں اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔“[115]؎
رہا غیراللہ سے دعا کی حرمت کے سلسلہ میں مالکیہ کا کلام تو امام محمد بن احمد قرطبی مالکی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ”الجامع لأحکام القرآن“ میں آیت کریمہ ”إن تدعوھم لا یسمعوا دعاکم ولو سمعوا ما استجابوا لکم ویوم القیامۃ یکفرون بشرککم ولا ینبئک مثل خبیر“[116]؎ (اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے، آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا) کی تفسیر میں کہتے ہیں: إن تدعوھم لا تسمعوا دعاکم کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مصیبت میں ان سے فریاد کروگے تو وہ تمہاری فریاد کو نہیں سنیں گے، اس لئے کہ وہ جمادات ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ہر وہ چیز جو سن سکتی ہے نطق و گویائی نہیں رکھتی ہے۔
قتادہ کا قول ہے: اگر وہ تمہاری پکار کو سن بھی لیں تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اگر ہم ان مردوں کو زندگی دے کر انہیں عقلیں عطا کر دیں، پھر وہ تمہاری پکار سن لیں تو وہ تم سے زیادہ اللہ کی اطاعت کریں گے اور وہ تمہارے کفر کی وجہ سے تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے ہیں۔ ویوم القیامۃ یکفرون بشرککم کا مطلب یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اس بات کا انکار کر دیں گے کہ تم ان کی عبادت کرتے تھے، اس دن وہ تم سے اظہار براءت کریں گے۔
آیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ جن چیزوں کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرانے کا تذکرہ ہے ان میں کئی چیزوں کو شامل کیا جا سکتا ہے جن کی عام طور پر پرستش کی جاتی ہے، مثلاً فرشتے، جن، انبیاء اور شیاطین۔ یہ سب اس بات کا انکار کر دیں گے کہ ان کی جو پرستش کی گئی ہے وہ حق ہے؛ یہ اس کا بھی انکار کریں گے کہ انہوں نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے: ”ما یکون لي أن أقول ما لیس لی بحق“[117]؎ (مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں۔) اس فہرست میں بتوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انہیں زندہ کرے گا تاکہ وہ یہ بتائیں کہ وہ عبادت کئے جانے کے اہل نہیں تھے۔ ”ولا ینبئک مثل خبیر“ یعنی اللہ عزوجل سے زیادہ مخلوقات کی خبر رکھنے والا کوئی بھی نہیں ہے، لہذا مخلوق کے عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرح کوئی بھی خبر نہیں دے سکتا ہے۔
علامہ عبدالحمید بن بادیس جزائری[118]؎ رحمہ اللہ جو متاخرین مالکیہ میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ”والذین لا یدعون مع اللہ إلھا آخر“[119]؎ (اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے) کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
قرآن مجید میں بار بار عبادت کو دعا کا نام دیا گیا ہے اور عبادت کو دعا سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ یہ عبادت ہی ہے، لہذا عبادت کے بعض اجزاء کو عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شریعت میں عبادت کے ایک جزء یعنی دعا کو عبادت سے تعبیر کرنے کے لئے اس لئے چنا گیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز اور اس کا خلاصہ ہے۔ اس لئے کہ عبادت کرنے والا معبود کی عزت کے سامنے اپنی ذلت کا، اس کی غنی کے سامنے اپنی فقر و محتاجی کا اور اس کی قدرت کے سامنے اپنی عاجزی و درماندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح وہ معبود کی مکمل تعظیم اور اس کے سامنے مکمل سپردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور ان تمام چیزوں کا مظاہرہ اس کی زبان سے دعا کی شکل میں ہوتا ہے جب وہ اسے مدد کے لئے پکارتا ہے اور اس سے اپنی حاجت روائی کے لئے سوال کرتا ہے۔ چنانچہ دعا سے عبادت کے ان تمام مظاہر کی نمائندگی ہوتی ہے؛ اسی لئے اسے عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ اس کی آگاہی سنت مطہرہ میں بھی دی گئی ہے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی ”وقال ربکم ادعوني أستجب لکم“ (تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا) اس روایت کو امام احمد، امام ترمذی، امام ابوداود، امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے نقل کیا ہے۔ نیز انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے۔[120]؎ امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہے۔
اس طرح عقل ونقل دونوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دعا عبادت ہے۔ جس نے غیراللہ سے دعا کی اس نے اس کی عبادت کی۔ اگرچہ وہ غیراللہ سے دعا کرنے کو عبادت کا نام نہ دیتا ہو تب بھی اس سے دعا کی حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی ہے۔ وہ دعا کو عبادت کا نام دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اعتبار تو شریعت کے دیئے ہوئے نام کا ہے جیسا کہ ہم نے نقل کی گئی دونوں احادیث نبویہ سے جان لیا، پھر دعا کرنے والے کے دیئے ہوئے نام اور اس کے موقف کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا...
ایک ضروری تنبیہ
آپ اکثر و بیشتر لوگوں کو دعا میں یہ کہتے ہوئے سنتے ہوں گے: اے رب اور شیخ، اے رب اور لوگ جو میرے رب ہیں.... یہ غیراللہ کو پکارنا اور اس سے دعا مانگنا ہے۔ مسلمانو! ان شرکیہ کلمات سے بچو، صرف اللہ رب العزت کو پکارو اور صرف اسی سے دعا مانگو جو تمہارا رب اور خالق ہے۔ شرک کی ناک خاک آلود ہے۔ عبدالحمید رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی۔[121]؎
علامہ مبارک میلی مالکی جزائری[122]؎ رحمہ اللہ تعالیٰ جو متاخرین مالکیہ میں سے ہیں، اپنی کتاب ”رسالۃ الشرک و مظاھرہ“ میں رقمطراز ہیں:
غیراللہ سے دعا مانگنا صریح شرک اور بدترین کفر ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: اللہ کے ساتھ غیراللہ سے دعا مانگنا، مثلاً کوئی کہتا ہے: اے میرے رب اور میرے شیخ، اے میرے رب اور میرے دادا، اے اللہ اور اس کے لوگ، اے اللہ اے میرے آقا عبدالقادر۔ میں نے لوگوں کو بار بار یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اکثر و بیشتر فلاں شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا: اے میرے رب اے میرے آقا یوسف میری مغفرت فرما دیجئے....
اس قبیل کی دعا اور پکار پر شرک کا اطلاق بالکل واضح ہے، اس لئے کہ دعا کرنے والے نے واو ثابت یا محذوف کے ذریعہ اللہ پر غیراللہ کو عطف کیا۔ اور اس سے یہ معنی نکلتا ہے کہ جس کا ذکر بعد میں ہوا ہے وہ حکم میں اس کے ساتھ شریک ہے جس کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ اور یہاں حکم مشترک دعائے عبادت ہے۔
دوسری قسم: وہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیراللہ کو پکارے اور کہے: اے صالحین کے دیوان! علامہ مبارک میلی رحمہ اللہ کی بات ختم ہوئی۔[123]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: غیراللہ کو مدد کے لئے پکارنا اور ان سے دعا مانگنا مسلمانوں میں عام ہو گیا ہے، باوجود یکہ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں اس پر شدت سے نکیر کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے، یہاں تک جاہلوں اور ان سے قربت رکھنے والوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ اللہ واحد سے دعا مانگنے پر غیراللہ سے دعا مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے ان غیراللہ کی طرف منسوب حکایتوں سے دلیل دیتے ہیں۔ ان سب کا تذکرہ اکتا دینے والا اور مشکل ہے۔[124]؎
علامہ تقی الدین ہلالی مالکی[125]؎ رحمہ اللہ جو متاخرین مالکیہ میں سے ہیں اپنی کتاب ”الھدیۃ الھادیۃ إلی الطائفۃ التجانیۃ“ میں رقمطراز ہیں: اے با توفیق قاری! آپ کے لئے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ کسی کے سامنے فریاد کرنا دعا ہے اور دعا عبادت کا مغز ہے۔ جس نے غیراللہ سے فریاد کی اس نے شرک کا ارتکاب کیا اور اللہ کے ساتھ غیراللہ کی عبادت کی۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ غیراللہ یا اس کے علاوہ کوئی مخلوق فریاد کرنے والے کی فریاد رسی کرنے پر قادر ہے، وہ پریشان حال کی پکار کو سنتا ہے، اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے اور روئے زمین پر لوگوں کو حکومت و سلطنت عطا کرکے اپنا جانشین بناتا ہے تو اس نے قرآن و سنت کے نصوص کی رو سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیراللہ کو معبود بنا لیا۔ سورہ النمل کی ان آیات پر غور کیجئے: ”وأمطرنا علیھم مطرا فساء مطر المنذرین قل الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی آللہ خیر أما یشرکون أمن خلق السماوات والأرض وأنزل لکم من السماء ماء فأنبتنا بہ حدائق ذات بھجۃ ما کان لکم أن تنبتوا شجرھا أإلہ مع اللہ بل ھم قوم یعدلون أمّن جعل الأرض قرارا وجعل خلالھا أنھارا وجعل لھا رواسي وجعل بین البحرین حاجزا أإلہ مع اللہ بل أکثرھم لا یعلمون أمن یجیب المضطر إذا دعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الأرض أإلہ مع اللہ قلیلا ما تذکرون أمن یھدیکم فی ظلمات البر والبحر ومن یرسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ أإلہ مع اللہ تعالیٰ عما یشرکون أمن یبدؤا الخلق ثم یعیدہ ومن یرزقکم من السماء والأرض ءالہ مع اللہ قل ھاتوا برھانکم إن کنتم صادقین“[126]؎ (اور ان پر ایک (خاص قسم) کی بارش برسا دی پس ان دھمکائے ہوئے لوگوں پر بری بارش ہوئی۔ تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں۔ بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمانوں سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بارونق باغات اگا دیئے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہر گز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں (سیدھی راہ سے)
کیا وہ جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں۔ بے کس کی پکار کو جبکہ وہ پکارے کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت اور عبرت حاصل کرتے ہو۔
کیا وہ جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند و بالاتر ہے۔
کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنا دلیل لاؤ۔)
اللہ تعالیٰ نے سورہ النمل کی ان آیات میں چند ایسے امور کا تذکرہ کیا ہے جو اسی کے ساتھ خاص ہیں، اللہ کے علاوہ کوئی بھی ان امور کو انجام دینے پر قادر نہیں ہے۔ ان میں پریشان حال کی پکار کو سننا، مصیبت کو دور کرنا، اقتدار اور مناصب سے نوازنا، خشکی و سمندر کی تاریکی میں رہنمائی کرنا اور ہواؤں کو چلانا شامل ہے۔ جس نے ان کاموں میں سے ایک بھی کام کو کسی مخلوق کی طرف منسوب کیا کہ وہ مخلوق اسے بغیر اسباب کے انجام دیتی ہے، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اللہ کے ساتھ غیراللہ کی عبادت کی۔
آپ یہ بات جان لیں کہ ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، عبادت، اور اس کے اسماء و صفات میں وحدانیت کو تسلیم کرے۔ یہ توحید کی تین قسمیں ہیں، جس نے بھی ان میں کمی کی یا ان میں سے کسی ایک میں کمی کی تو وہ کافر ہے۔[127]؎
علامہ، شیخ، مفسر محمد امین بن محمد مختار شنقیطی[128]؎ رحمہ اللہ جو متاخرین مالکیہ میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: ”ومن یدع مع اللہ إلھا آخر لا برھان لہ بہ فإنّما حسابہ عند ربہ إنّہ لا یفلح الکافرون“[129]؎ (جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے، بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔) کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ”سب سے بڑا کافر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارتا ہے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ ایسے کافر کو فلاح سے محروم بتایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہلاک ہونے والوں اور جہنم کا ایندھن بننے والوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آیات میں اپنے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارنے سے متنبہ کیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ”ولا تجعلوا مع اللہ الھا آخر إني لکم منہ نذیر مبین“ (اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہراؤ، بیشک میں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”ولا تدع مع اللہ إلھا آخر لا إلہ إلّا ھو کل شیء ھالک إلّا وجھہ لہ الحکم و إلیہ ترجعون“ (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اسی کا منہ (اور ذات) اسی کے لئے فرمانروائی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے) ایک جگہ ارشاد ہے: ”ولا تجعل مع اللہ إلھا آخر فتقعد مذموما مخذولا“ (اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بے کس ہو کر بیٹھ رہے گا)۔ اس معنی و مفہوم کی آیات بکثرت قرآن مجید میں موجود ہیں۔“
شیخ امین شنقیطی رحمہ اللہ سورۃ الحجرات کی دوسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”آپ یہ بات جان لیں کہ اللہ کے ساتھ خاص حقوق جو اس کی ربوبیت کی خصوصیات میں سے ہیں، میں سے ایک ان مصیبتوں اور پریشانیوں کے وقت جنہیں دور کرنے پر صرف اللہ تعالیٰ قادر ہے؛ صرف اسی کی طرف رخ کرنا ہے۔ چنانچہ وہ پریشان حال جسے مصائب نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہو، اس کے لئے صرف اللہ تعالیٰ ہی سے التجاء کرنا روا ہے، اس لئے کہ التجاء و فریاد اللہ کی ربوبیت کی خصوصیات میں سے ہے۔ چنانچہ اس حق کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو دینا اور اس معاملہ میں اخلاص کا مظاہرہ کرنا عین اطاعت الہی، اس کی رضا و خوشنودی کا سبب، عین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی رضا و خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر بھی ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی تعظیم و توقیر یہ ہے کہ صرف اللہ عزوجل کی عبادت اور توحید کو اس کے لئے خالص کرنے کے معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اقتداء کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ آخری کتاب کی بہت سی آیات میں اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ اس کے پریشان حال بندوں کا سختی و پریشانی کے عالم میں صرف اسی کی طرف توجہ کرنا اس کی ربوبیت کی خصوصیات میں سے ہے۔“[130]؎
یہاں چاروں مسالک کے علماء کے اقوال کو نقل کرنے کا سلسلہ مکمل ہوا
کسی متعین مسلک سے تعلق نہ رکھنے والے متعدد علمائے محققین نے بھی اپنی تحریروں اور بیانات میں غیراللہ سے دعا مانگنے کو واضح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام محمد بن علی شوکانی[131]؎ اپنی کتاب ”الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید“ میں رقمطراز ہیں: ”آپ یہ بات جان لیں کہ سب سے بڑی آفت و مصیبت اس کے علاوہ ہے جس کا میں نے پیچھے وسیلہ و شفاعت کے ضمن میں تذکرہ کیا ہے۔ اور وہ مصیبت جو سب سے زیادہ سنگین ہے، یہ ہے کہ بہت سارے عوام الناس اور کچھ خواص قبر میں مدفون مردوں اور صلاح و تقوی میں معروف نیک لوگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اس چیز کی قدرت رکھتے ہیں جس پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے، یہ مُردے و نیک لوگ وہ کام کرتے ہیں جن کو کرنے پر صرف اللہ عزوجل ہی قادر ہے، یہاں تک کہ جو ان کے دل میں تھا وہ ان کی زبان پر آگیا۔ چنانچہ یہ لوگ ان مردوں وغیرہ کو کبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مدد کے لئے پکارتے ہیں اور کبھی مستقل طور پر صرف مردوں ہی سے مدد کی گہار لگاتے ہیں، ان کے ناموں کو بآواز بلند پکارتے ہیں، ان کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں جیسے کہ یہ نفع و ضرر کے مالک ہوں، ان کے سامنے اس طرح خوف و خشیت کے ساتھ جھکتے ہیں کہ اس طرح رب کے سامنے نماز و دعا کے وقت بھی نہیں جھکتے ہیں۔ اگر یہ سب شرک نہیں ہے تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ شرک کیا ہے۔ اگر یہ سب کفر نہیں ہے تو پھر دنیا میں کفر کا وجود محال ہے۔“[132]؎
میں اس باب کو امام شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز[133]؎ رحمہ اللہ کے ایک جامع و نفیس کلام پر ختم کر رہا ہوں: ”اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دعا عبادت کی اہم قسموں میں سے ہے، دعا میں عبادت کا مفہوم بہت جامعیت کے ساتھ موجود ہے، لہذا دعا کو ایک اللہ عزوجل کے لئے خاص کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں جابجا اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ”فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون“[134]؎ (تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کرکے گو کافر برا مانیں) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وأن المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ أحدا“[135]؎ (اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو)۔ یہاں لفظ ”أحد“ میں انبیاء وغیرہ تمام مخلوق شامل ہے، اس لئے کہ ”أحد“ نہی کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوا ہے، لہذا یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا سب کو عام ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولا تدع من دون اللہ ما لا ینفعک ولا یضرک“[136]؎ (اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے) یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کے ارتکاب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ہے، لہذا یہاں پر دوسروں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”فإن فعلت فإنک إذا من الظالمین“[137]؎ (پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤگے) جب اولاد آدم کے سردار علیہ الصلاۃ والسلام اگر غیراللہ سے دعا مانگیں گے تو وہ ظالم قرار پائیں گے تو پھر دوسروں کا کیا حال ہوگا؟ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب مطلق طور پر لفظ ظلم کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے شرک اکبر مراد ہوتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”والکافرون ھم الظالمون“[138]؎ (اور کافر ہی ظالم ہیں) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ”إن الشرک لظلم عظیم“[139]؎ (بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے)
ان آیات کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ مردوں، درختوں، پتھروں اور بتوں وغیرہ کو مدد کے لئے پکارنا اور ان سے دعا مانگنا اللہ عزوجل کے ساتھ شرک ہے۔ یہ اس عبادت کے منافی ہے جس کے لئے اللہ نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کی ہے، جس کی دعوت دینے کے لئے رسولوں کو مبعوث کیا ہے اور جس کی تشریح و وضاحت کے لئے کتابیں نازل کی ہیں۔ کلمۂ توحید لا إلہ إلا اللہ کا یہی معنی و مفہوم ہے۔ اس کلمہ توحید کا مطلب ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ یہ کلمہ غیراللہ کی عبادت کی نفی کرتا ہے اور ایک اللہ کی عبادت کو ثابت کرتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ذلک بأن اللہ ھو الحق و أن ما یدعون من دونہ ھو الباطل“[140]؎ (یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے) یہی اصل دین اور ملت کی بنیاد ہے۔ عبادات اسی صورت میں صحیح ہوں گی جب کہ یہ اصل صحیح ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولقد أوحي إلیك و إلی الذین من قبلك لئن أشرکت لیحبطنّ عملك ولتکونن من الخاسرین“[141]؎ (یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تونے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”ولو أشرکوا لحبط عنہم ما کانوا یعملون“[142]؎ (اگر یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہو جاتے)
دین اسلام کی بنیاد دو عظیم اصولوں پر قائم ہے؛ ایک یہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے گی اور دوسرے یہ کہ یہ عبادت اللہ کے نبی و رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ شریعت کے مطابق کی جائے گی۔ کلمۂ شہادت ”لا إلہ إلّا اللہ وأن محمداً رسول اللہ“ (سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں) کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ جس نے مردوں میں سے انبیاء وغیرہ کو پکارا یا ان سے دعا مانگی یا مخلوقات میں سے بتوں، درختوں اور پتھروں وغیرہ کو پکارا یا ان سے دعا کی، ان سے فریاد کی، جانور ذبح کرکے اور منتیں مان کر ان کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی یا ان کے لئے نماز پڑھی یا سجدے کئے تو گویا اللہ کو چھوڑ انہیں رب بنا لیا اور انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہمسر و مد مقابل بنا لیا۔ یہ دین اسلام کی پہلی اصل و بنیاد کے برخلاف ہے اور کلمۂ توحید لا إلہ إلّا اللہ کے منافی ہے۔ اسی طرح جس نے دین میں بدعت ایجاد کی، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ہے تو اس نے کلمۂ شہادت کے دوسرے جزء محمد رسول اللہ کے معنی و مفہوم کو پورا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وقدمنا إلی ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا“[143]؎ (اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا) یہاں ان لوگوں کے اعمال کی بات کی گئی ہے جن کا اللہ کے ساتھ شرک کے ارتکاب پر خاتمہ ہوا۔ یہی انجام اہل بدعت کے اعمال کا بھی ہونا ہے، کیونکہ اللہ نے دین میں بدعت ایجاد کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، ان کے اعمال بھی قیامت کے دن ریت کے ذرات کی طرح بکھر کے کالعدم ہو جائیں گے، کیونکہ ان کے بدعت پر مبنی اعمال شریعت مطہرہ کے مطابق نہیں تھے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد“[144]؎ (متفق علیہ) (جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے)۔
اس کے بعد شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسے مدد کے لئے پکاریں، اس سے دعا مانگیں۔ اللہ پاک نے بندوں سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ جو دعا کے لئے اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا، وہ اس کی دعا کو قبول کرے گا اور جو تکبر اختیار کرتے ہوئے اس سے دعا نہیں مانگے گا اس کے لئے دخول جہنم کی وعید ہے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ”وقال ربکم ادعوني أستجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتي سیدخلون جھنم داخرین“[145]؎ (اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے)۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا عبادت ہے اور جس نے از راہ تکبر اس عبادت سے منہ موڑا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے میں تکبر کرنے والوں کا یہ انجام ہے تو پھر اس کا کیا انجام ہوگا جس نے غیراللہ سے دعا مانگی اور اللہ پاک سے اعراض کیا؟
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت قریب ہے، ان کی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے، ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و إذا سألک عبادي عنّی فإني قریب أجیب دعوۃ الداع إذا دعان فلیستجیبوا لي ولیؤمنوا بي لعلھم یرشدون“[146]؎ (جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں، اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔)
علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں خبر دی ہے کہ دعا ہی عبادت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ”تم اللہ کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا، تم اللہ کی حفاظت کرو، تم اسے اپنے سامنے پاؤگے، جب بھی مانگو تو اللہ سے مانگو، جب بھی مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔“ امام ترمذی وغیرہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[147]؎
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے: جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اس کا ہمسر مان کر اسے مدد کے لئے پکارتا تھا تو جہنم میں داخل ہوگا۔[148]؎
صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ سے دریافت کیا گیا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا ہمسر و مد مقابل سمجھ لو جبکہ اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے۔[149]؎ حدیث نبوی میں ”الند“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی نظیر و ہم مثل کے ہیں۔
چنانچہ جس نے بھی غیراللہ سے دعا مانگی، اس سے فریاد کی، اس کے لئے نذر مانی، اس کے لئے جانور ذبح کیا یا کسی اور عبادت کو اس کے لئے انجام دیا تو اس نے اللہ کا ایک ہمسر و مد مقابل بنا لیا، چاہے وہ جسے ہمسر بنایا گیا ہے، کوئی نبی ہو یا ولی ہو یا فرشتہ ہو، یا جنات ہو، یا بت ہو یا ان کے علاوہ کوئی مخلوق ہو۔
رہا زندہ اور حاضر انسان سے ایسے کام کے لئے درخواست کرنا جسے انجام دینے پر وہ قادر ہو اور ظاہری و حسی کاموں میں اس سے مدد طلب کرنا جس کی اسے قدرت حاصل ہو تو یہ شرک نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق روز مرہ کے کاموں سے ہے جن میں ایک دوسرے کی مدد لینا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا جائز ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے: ”فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوّہ“[150]؎ (اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھا اس سے فریاد کی) موسیٰ علیہ السلام ہی کے واقعہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ”فخرج منھا خائفا یترقب“[151]؎ (پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے) نیز یہ ویسے ہی ہے جیسے انسان جنگ وغیرہ میں اپنے ساتھیوں سے مدد طلب کرتا ہے۔ یہ وہ دنیاوی امور ہیں جو زندگی میں پیش آتے ہیں، ان میں لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور لوگ باہم ایک دوسرے سے مدد بھی طلب کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ آپ کسی کے لئے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ سورۃ الجن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قل إنما أدعوا ربي ولا أشرک بہ أحدا قل إني لا أملک لکم ضرا ولا رشدا“[152]؎ (آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں) یہی مضمون سورۃ الاعراف میں بھی منقول ہے۔ ارشاد ہے: ”قل لا أملک لنفسي نفعا ولا ضرا إلّا ما شاءاللہ ولو کنت أعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسني السوء إن أنا إلّا نذیر و بشیر لقوم یؤمنون“[153]؎ (آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا، میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں)
اس معنی و مفہوم کی آیات بکثرت قرآن مجید میں وارد ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے رب سے دعا و فریاد کرتے تھے۔ آپ بدر کے دن اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہے تھے، اپنے دشمن کے خلاف اس سے مدد مانگ رہے تھے اور اس دعا میں الحاح و اصرار کے ساتھ یہ الفاظ آپ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے: ”یا رب أنجزلی ما وعدتنی“ (اے میرے رب! تونے مجھ سے کلمۂ اسلام کو غالب کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے) یہاں تک کہ صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو تسلی و اطمینان دلانے کے لئے کہا: اے اللہ کے رسول! اب بس کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ سے کئے گئے وعدہ کو پورا کرے گا۔[154]؎ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: ”إذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم أني ممدکم بألف من الملائکۃ مردفین وما جعلہ اللہ إلّا بشری ولتطمئن بہ قلوبکم وما النصر إلّا من عنداللہ إن اللہ عزیز حکیم“[155]؎ (اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہو جائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمانوں کو یہ یادہانی کرائی ہے کہ غزوۂ بدر کے سنگین مرحلہ میں مسلمانوں نے صرف اللہ تعالیٰ سے فریاد کی، نیز اللہ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نازک موقع پر مسلمانوں کی دعائیں قبول کیں اور فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی، پھر اللہ پاک نے یہ واضح کر دیا کہ وہ مدد فرشتوں کی طرف سے نہیں تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مدد کرنے کے لئے ذریعہ بنایا تھا تاکہ مسلمانوں کو اس غیبی مدد کی بشارت اور اطمینان قلب حاصل ہو۔ ایک دوسرے مقام پر بھی اللہ پاک نے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، ارشاد ہے: ”وما النصر إلّا من عنداللہ“[156]؎ (ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے) سورۃ آل عمران میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ”ولقد نصرکم اللہ ببدر وأنتم أذلۃ فاتقوا اللہ لعلکم تشکرون“[157]؎ (جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جبکہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکرگزاری کی توفیق ہو) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ جنگ بدر میں اللہ ہی نے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ نے جنگ بدر کے موقع سے مسلمانوں کو جو ہتھیار اور طاقت عطا کی اور فرشتوں کے ذریعہ ان کی جو مدد کروائی یہ سب مدد کے اسباب تھے، بطور بشارت تھے اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو سخت گھبراہٹ کے عالم میں اطمینان قلب عطا کیا گیا۔ یہ چیزیں بذات خود مدد نہیں تھیں، مدد صرف ایک اللہ پاک کی تھی۔[158]؎ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
ان باتوں کو نقل کرنے والے (اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرے) کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ ان اصحاب اخلاص علمائے کرام کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، کیونکہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اصل دین کو واضح کر دیا ہے اور وہ توحید عبادت یعنی صرف اکیلے اللہ پاک کی عبادت کرنا ہے۔ ان علمائے کرام نے دین کی بہت اہم خدمت انجام دی ہے۔ شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم کے الفاظ میں جیسا کہ انہوں نے اپنی جمع کردہ کتاب ”الدرر السنیۃ من الفتاوی النجدیۃ“ کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے: علماء نے ہر زمانہ اور ہر علاقہ میں دین کے اصول و فروع میں لا تعداد کتابیں تحریر کی ہیں۔ یہ ساری خدمت دین و شریعت کی حفاظت کے لئے انجام دی گئی ہے۔ میں نے اہل علم اس لئے کہا ہے تاکہ اس امت کے آخری دور کے افراد بھی علم و عمل، احکام شریعت کی پابندی کرنے اور لوگوں کو اس کا پابند بنانے میں امت کے اولین دور کے اہل علم و فضل ہی کی طرح ہوں۔ اس لئے کہ آج بھی لوگوں کی اس سے بڑھ کر کوئی ضرورت نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر علماء دین کی یہ خدمت انجام نہ دیں تو ہمارے دین کی شکل و صورت بھی اسی طرح مسخ ہو کر رہ جائے جیسے کہ اس سے پہلے کے ادیان کی ہوئی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی دور ایسا نہیں ہے جو بلا عمل و فہم اور بغیر ٹھوس دلیل و اصابت رائے کے بات کرنے والوں سے خالی رہا ہو۔[159]؎
تیسرا جواب[160]؎ : یہ ہے کہ بندہ کا اپنے اور رب کے درمیان کسی کو واسطہ بنانا بالکل مشرکین مکہ کا عمل ہے جن کے ساتھ ساتھ سارے عالم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین مکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: ”والذین اتخذوا من دونہ أولیاء ما نعبدھم إلّا لیقربونا إلی اللہ زلفی“ (اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اولیاء بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرادیں۔) یعنی ان مشرکین نے جن کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا اولیاء بنا لیا ہے اسے یہ لوگ پکارتے ہیں اور ان سے دعا مانگتے ہیں اور اس کے لئے ان کی دلیل ان کا صرف یہ دعوی ہے کہ یہ اولیاء انہیں اللہ کے قریب کرتے ہیں۔ قتادہ نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے جیسا کہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم رحمھما اللہ نے ان کے حوالہ سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں نقل کیا ہے۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعھم ویقولون ھؤلاء شفعاؤنا عنداللہ“[161]؎ (اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں) ابن کثیر[162]؎ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان مشرکین پر نکیر کر رہا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیراللہ کی عبادت یہ سوچ کر کی کہ اللہ کے نزدیک ان کے حق میں ان معبودوں کی سفارش ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں پڑے ہوئے ان مشرکین کو یہ خبر دی ہے کہ یہ باطل معبود نفع و ضرر کے مالک نہیں ہیں، انہیں کسی دوسری چیز کا بھی اختیار نہیں ہے۔ ان باطل معبودوں کے تعلق سے مشرکین جو گمان رکھتے ہیں وہ کبھی بھی حقیقت کے روپ میں سامنے آنے والا نہیں ہے، ایسا کبھی ہوگا ہی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آگے ارشاد فرمایا: ”قل أتنبؤن اللہ بما لا یعلم فی السماوات ولا فی الأرض“ (آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں)
چوتھی وجہ: دعا میں بندہ اور رب کے درمیان واسطہ کے باطل ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو اپنے اور بندے کے درمیان واسطہ بنانا پسند ہوتا تو قرآن و سنت میں اس کا تفصیلی حکم وضاحت کے ساتھ موجود ہوتا، اس لئے کہ تمام عبادات میں دعا کی حیثیت بہت نمایاں اور مہتم بالشان ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت دعا کے شرعی وسائل کی وضاحت کر دی ہے، چاہے ان کا تعلق فضیلت یافتہ زمانے سے ہو یا فضیلت یافتہ مقامات سے ہو یا فضیلت یافتہ حالتوں سے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و رہنمائیوں میں کہیں بھی نیک لوگوں کو واسطہ بنانے کی بات نہیں آئی ہے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ کتاب اللہ میں ہر اہم چیز کو کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کو ہر چیز کی تعلیم دی ہے، یہاں تک کہ آپ نے قضائے حاجت کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ پھر صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پورے شوق اور جستجو کے ساتھ اللہ کے دین کو سیکھا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے اس حال میں جدا ہوئے کہ آسمان میں کوئی پرندہ بھی اپنے بازؤں کو حرکت دیتا تھا تو اس سے ہمیں ایک علم حاصل ہوتا۔[163]؎ پھر عبادت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے طریقے کو مسلمانوں نے احادیث و آثار کی شکل میں محفوظ کیا، جن کا طریقہ ہمارے لئے بہترین طریقہ ہے۔ ان احادیث و آثار میں کہیں پر بھی دعا میں نیک لوگوں کو واسطہ بنانے کی ترغیب نہیں دی گئی ہے، بلکہ اس تعلق سے جو کچھ بھی احادیث و آثار میں وارد ہے وہ اس طریقہ و منہج کے برخلاف ہی ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں غیراللہ سے دعا مانگنے کی تاکیدی ممانعت وارد ہے، چاہے اس کے لئے کوئی بھی ذریعہ و وسیلہ اختیار کیا جائے۔ قرآن و سنت میں غیراللہ سے دعا مانگنے والے کے اس فعل کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، ہم اس فعل بد سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اس باب سے متعلق کچھ دلائل کتاب کے شروع میں ذکر کئے جا چکے ہیں۔[164]؎
پانچویں وجہ: اگر اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنانا جائز ہوتا تو صحابہ کرام نے ایسا کیا ہوتا، اس لئے کہ وہ خیر و بھلائی کے سب سے زیادہ چاہنے والے تھے، نیز تابعین اور تبع تابعین نے بھی ایسا کیا ہوتا، جو ابتدائی تین فضیلت یافتہ صدیوں سے تعلق رکھنے والے تھے، جن کے خیر و بھلائی پر ہونے کی شہادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے“۔[165]؎ ہمیں ان کے تعامل اور طریقے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ واسطہ بنانے کے برخلاف ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کی زندگی میں مصائب آئے، پریشانیوں نے ان کی زندگی کے دروازے پر دستک دی، وہ کئی مرتبہ قحط سالی کا شکار ہوئے، لیکن ان کے بارے میں کہیں یہ سراغ نہیں ملتا کہ انہوں نے واسطہ بناکر ان کا تقرب حاصل کیا ہو تاکہ وہ واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی کچھ مصیبت دور کر دینے کی سفارش کر دیں، نہ تو ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے لئے واسطہ بنایا اور نہ آپ کے علاوہ کبار صحابہ میں سے کسی کو واسطہ بنایا۔ اور یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ شروع کی تین فضیلت یافتہ صدیوں میں جو چیز دین نہیں تھی وہ اس کے بعد بھی دین نہیں ہو سکتی ہے۔
چھٹی وجہ: بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جسے واسطہ بناتے ہیں اس سے صرف خوشحالی کی حالت میں دعا کرتے ہیں اور پکارتے ہیں اور جب سخت مصیبت کے گرد اب بھی پھنستے ہیں تو ان واسطوں کو بھول بیٹھتے ہیں، یہ اس بات کی واضح و فطری دلیل ہے کہ ان واسطوں کی کوئی حیثیت و حقیقت نہیں ہے، اس سے ان واسطوں کا باطل ہونا واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر یہ واسطے حقیقت میں نفع بخش ہوتے تو یہ لوگ خوشحالی اور مصیبت دونوں حالتوں میں ان کو دعا میں واسطہ بناتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فإذا رکبوا فی الفلک دعووا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجاھم إلی البر إذا ھم یشرکون“ (پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”قل أرأیتم إن أتاکم عذاب اللہ أوأتتکم الساعۃ أغیراللہ تدعون إن کنتم صادقین بل إیاہ تدعون فیکشف ما تدعون إلیہ إن شاء و تنسون ما تشرکون“ (آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے، اگر تم سچے ہو، بلکہ خاص اسی کو پکاروگے، پھر جس کے لئے تم پکاروگے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤگے)
اس حقیقت کا ادراک عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ نے بھی کر لیا تھا جو ان کے اسلام لانے کا سبب بنا۔ ابن سعد نے ”الطبقات الکبری“ میں عکرمہ رضی اللہ عنہ کی سوانح میں ابن ابی ملیکہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے موقع سے عکرمہ بن ابی جہل راہ فرار اختیار کرتے ہوئے سمندری سفر پر روانہ ہو گئے، دوران سفر سمندر میں طغیانی آگئی تو کشتی چلانے والے ملاح اللہ سے دعا مانگنے لگے اور اس کی وحدانیت کی دہائی دینے لگے۔ عکرمہ نے پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ کشتی کے ناخداؤں نے کہا: یہ ایسا موقع اور ایسی جگہ ہے جہاں صرف اللہ ہی سے نفع کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ سن کر عکرمہ نے کہا: یہ تو وہی محمد کا معبود ہے جس کی طرف وہ ہمیں دعوت دیتے ہیں، تم لوگ ہمیں واپس لے چلو۔ چنانچہ وہ واپس آئے اور اسلام کے دامن میں پناہ لی۔
میں کہتا ہوں: زمانۂ جاہلیت میں مشرکین ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ سختی اور مصیبت کے وقت صرف اللہ کو پکارتے تھے اور آسانی و خوشحالی کے لمحات میں اللہ کے ساتھ غیراللہ سے بھی دعا مانگتے تھے۔ ہمارے اس دور کے مشرکین جو اسلام کی طرف اپنا جھوٹا انتساب کرتے ہیں آسانی اور پریشانی دونوں حالتوں میں غیراللہ سے مدد کے لئے فریاد کرتے ہیں، بلکہ سختی و پریشانی کے عالم میں ان کا شرک کریلا اور نیم چڑھا کے مصداق ہو جاتا ہے۔ کوئی شخص اگر ان قبروں کے پاس جائے جن کی تعظیم کی جاتی ہے اور قبروں پر جانے والوں کی دعاؤں کو غور سے سنے اور یہ لوگ ان قبر والوں سے جن الفاظ و انداز میں اپنی مصیبت و پریشانیوں کو بیان کرتے ہیں اسے سن لے تو اس کے لئے ان مشرکین کے تعلق سے میری باتوں کی تصدیق کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت سے نوازنے والا ہے۔
ساتویں وجہ: بندہ و رب کے درمیان کسی کو واسطہ بنانے کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لغوی اور شرعی اعتبار سے طلب شفاعت اور واسطہ بنانا اسے کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص کسی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اس کی ضرورت کو پوری کرانے کے لئے کسی تیسرے کے پاس واسطہ بن جائے، لیکن آج کے قبر پرست جو کر رہے ہیں وہ اس کے برخلاف ہے۔ یہ لوگ تو جسے واسطہ بنایا ہے اسی سے اپنی حاجت پوری کرنے کی درخواست کرتے ہیں، کوئی اولاد مانگتا ہے، کوئی مدد مانگتا ہے، کوئی شفایابی طلب کرتا ہے، کوئی دشمنوں کے خلاف مدد کے لئے درخواست کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے واسطہ ہی کو ضرورت و حاجت پوری کرنے والے کا مقام و اختیار دے دیا ہے۔ یہ شرعی و عقلی ہر ناحیہ سے نہایت باطل رویہ ہے۔ اگر انہیں شفاعت کا صحیح مفہوم پتہ ہوتا تو ایک شخص دوسرے شخص کے پاس جاتا اور اس سے درخواست کرتا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے میری اس حاجت کی تکمیل کے لئے دعا کر دیجئے، نہ یہ کہ خود اسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر یہ کہتا کہ آپ ہی میری حاجت پوری کر دیجئے، یہ بات تب ہے جبکہ شفاعت کرنے والا، زندہ، قادر اور حاضر ہو، نہ یہ کہ وہ مردہ، بے بس اور غائب ہو۔
آٹھویں وجہ: دعا میں بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ کسی مردہ کے صاحب صلاح و تقوی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے واسطہ بنا لیا جائے۔ کسی انسان کی صالحیت، دین پر اس کی استقامت اور اللہ سے اس کی قربت کا فائدہ خود اس بندۂ صالح کی ذات کو ہوتا ہے، نہ کہ اسے جس نے اسے واسطہ بنانے کی کوشش کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”من عمل صالحا فلنفسہ“ (جس نے کوئی نیک کام کیا تو اس کا فائدہ اس کی اپنی ذات کے لئے ہے) اگر وہ نیک انسان آپ سے زیادہ اللہ سے قریب ہے اور رب کے نزدیک اس کا مقام آپ سے زیادہ بلند ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے آپ سے زیادہ اجر و ثواب اور انعام و اکرام سے نوازے گا، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جب آپ اس نیک انسان سے دعا مانگیں گے تو دعا میں اس کو واسطہ بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو بلا واسطہ دعا کرنے کے مقابلہ زیادہ نوازے گا اور آپ کی زیادہ ضرورتیں پوری کر دے گا۔[166]؎
نیز زندگی میں یا مرنے کے بعد کسی کے صاحب صلاح و تقوی ہونے کا اگر یہ مطلب ہوتا کہ اسے واسطہ بنانے کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس کا فائدہ پہنچتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان کر دیا ہوتا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت تک مکمل دین پہنچایا اور امت کی خیرخواہی کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
نویں وجہ: اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرنا (جیسا کہ شبہ کو بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر ہوا ہے) چھ وجوہات کی بنا پر باطل ہے، وہ چھ وجوہات ہیں: علم، تدبیر، غنی، ملکیت، رحمت اور قدرت۔ یہاں پر ان مذکورہ چھ وجوہات کی مزید وضاحت کی جا رہی ہے:
علم کے ناحیہ سے موازنہ: اس وجہ سے غلط ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کو عوام الناس کی ضروریات سے واقف ہونے کے لئے واسطہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ شاہان عالم اپنے خاص لوگوں کے ذریعہ ہی لوگوں کی ضروریات سے واقف ہوتے ہیں، اسی لئے ان لوگوں نے واسطے بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بغیر واسطہ کے ہر چیز کو جانتا ہے، اسے کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے جو اسے لوگوں کے احوال اور ضرورتوں سے واقف کرائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر پوشیدہ اور مخفی چیزوں کو بھی جانتا ہے، زمین و آسمان میں کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔ وہ مختلف زبانوں میں اور مختلف حاجتوں کے لئے اپنی آوازیں بلند کرنے والوں کی پکار کو سنتا اور سمجھتا ہے۔ وہ بیک وقت سب کی فریادوں کو سنتا اور سمجھتا ہے۔ لوگوں کے مسائل کی کثرت کے باوجود اس سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا ہے، وہ دعا مانگنے والوں کے الحاح و اصرار سے اکتاتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا إلّا ھو ویعلم ما فی البر والبحر وما تسقط من ورقۃ إلا یعلمھا ولا حبۃ فی ظلمات الأرض ولا رطب ولا یابس إلا فی کتاب مبین“ (اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔)
تدبیر کے ناحیہ سے موازنہ: اس وجہ سے غلط ہے کہ شاہان دنیا اپنی رعایا کے امور و معاملات کی تدبیر اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل اپنے اپنے اعوان و انصار ہی کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ یہ اعوان و انصار امور مملکت کو انجام دینے میں شاہان کی مدد کرتے ہیں، اسی لئے شاہوں نے انہیں واسطہ بنایا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا معاملہ اس کے برخلاف ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، سارے امور و معاملات اُس کے پاس ہیں، ہر چیز کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ قوت والا، مضبوط اور زبردست ہے؛ اسے کسی مددگار و معاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و قل الحمد للہ الذي لم یتخذ ولدا و لم یکن لہ شریک فی الملك و لم یکن لہ ولي من الذل و کبرہ تکبیرا“ (اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے، نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک و ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔)
غنی کے ناحیہ سے موازنہ: اس وجہ سے غلط ہے کہ دنیا کا کوئی بادشاہ کبھی مجبوری میں کسی وزیر یا درباری کی سفارش کو قبول کرتا ہے، وہ بسا اوقات بادل ناخواستہ کسی کے کہنے پر کسی کا کام کر دیتا ہے جبکہ اس کے ذہن پر اس ناگواری کا بوجھ بھی رہتا ہے۔ بادشاہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا اس لئے کرتا ہے کہ اسے ان خواص اور درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے یا ان کی خوش دلی کے لئے ان کی سفارش قبول کر لیتا ہے یا کبھی اس خوف سے ان کی بات مان لیتا ہے کہ ان کی سفارش قبول نہ کرنے کی صورت میں ان کی وفاداری کم ہو جائے گی یا اس کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ دھوکہ و خیانت کر بیٹھے گا یا پھر ان سفارشیوں کی کسی اچھی خدمت کے بدلہ کے طور پر ان کی سفارش قبول کرتا ہے، اسی لئے لوگوں نے یہ واسطے بنائے ہیں، بادشاہ ان کی سفارش کو بسا اوقات ناپسند کرتا ہے یا ان کی سفارش قبول کرنے کی وجہ سے اس کے ذہنی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے یا اسے اپنے درباری کو واپس کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑی مشقت و تگ و دو کے بعد ان کی سفارش قبول کرتا ہے، اس لئے یہ شاہان عالم کہنے کو تو بادشاہ ہیں لیکن ہیں تو انسان ہی اور انسان کی فطرت میں بخالت، لالچ کسی کی مدد کرنے سے رکنا اور ناگواری شامل ہے۔ اگر دیتا بھی ہے تو ایک اندازہ اور حساب سے دیتا ہے یا دینے میں تنگی کرتا ہے، کیونکہ اسے اپنے مال کے ختم ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس کے برخلاف ہے، وہ غنی اور کریم ہے، اس کے پاس آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں، وہ بےپرواہ ہو کر بندوں کو عطا کرتا ہے، وہ عوض اور بدلہ کے بغیر بندوں کی منفعت کو عزیز رکھتا ہے، وہ بلا جبر و اکراہ اپنے بندوں پر رحمتیں نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قالوا اتخذ اللہ ولدا سبحانہ ھو الغني لہ ما فی السماوات و ما فی الأرض“ (وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں، اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔)
ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے اور انس و جن ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے اپنی ضرورت کے لئے سوال کریں اور میں ہر شخص کو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دوں تو اس سے میری ملکیت میں بس اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کو سمندر میں داخل کرنے سے سمندر کے پانی میں کمی ہوتی ہے۔[167]؎
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یہ نہ کہے: اے اللہ! تو میری مغفرت فرما اگر تو چاہے، بلکہ وہ پورے عزم و یقین کے ساتھ اللہ سے بخشش طلب کرے اور اس کے لئے شدید رغبت و چاہت کا مظاہرہ کرے، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کوئی بھی چیز اس کی نگاہ میں بہت بڑی نہیں ہوتی ہے۔[168]؎
ملکیت کے ناحیہ سے موازنہ: اس وجہ سے غلط ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کے وزراء اور حواشی وغیرہ اس کی ملکیت اور ملک گیری میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ بادشاہ ان کی مرضی کے بغیر امور مملکت کو انجام نہیں دے سکتا ہے، اسی لئے اس نے ان وزراء وغیرہ کو اپنے اور رعایا کے درمیان واسطہ بنا لیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، بلکہ شفاعت کرنے والا اور دوسری ساری چیزیں اس کی ملکیت کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و لم یکن لہ شریك فی الملك“ (ملکیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے) چنانچہ جو شخص اللہ اور خود کے درمیان واسطہ بناتا ہے تو وہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ کر دیتا ہے۔ اب اس سے زیادہ باطل نظریہ کیا ہو سکتا ہے؟
رحمت کے ناحیہ سے موازنہ: اس وجہ سے غلط ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے مقربین میں سے کوئی واسطہ بن کر انہیں رعایا پر نرمی و مہربانی کرنے کی تلقین کرے، اسی لئے لوگ بادشاہ کے پاس اپنے معاملات کو حل کرانے کے لئے ان مقربین کو واسطہ بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس واسطہ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ وہ رحمٰن و رحیم ہے۔ اپنے بچہ کے لئے ماں کی شفقت و رحمدلی سے زیادہ وہ اپنے بندوں کے لئے مہربان ہے، اسی نے رحمت کو پیدا کیا ہے، اسے بندوں کے دلوں میں ڈالا ہے، اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کرتے ہیں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، اسی رحمت کا ایک معمولی حصہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی کرتے ہیں، اللہ کی رحمت کا ننانوے حصہ قیامت کے دن کے لئے ہے۔[169]؎
شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ نے غیراللہ سے دعا مانگنے والے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے: ”جب تم نبی یا غیر نبی سے دعا مانگتے ہو اور اگر یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہاری حالت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے یا تمہاری مانگ پوری کرنے پر قادر ہے اور وہ تمہارے رب سے بھی زیادہ تم پر مہربان ہے تو یہ جہالت، کفر اور گمراہی ہے، اس کے لئے تمہارے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے؛ کوئی شخص ایسی دلیل نہیں دیتا جو اس کے خلاف دلیل بن جائے الا یہ کہ وہ غلط فہمی اور فکر و نظر کے فساد میں مبتلا ہو۔
اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال کو سب سے زیادہ جاننے والا، ان کی ضرورتیں پوری کرنے پر سب سے زیادہ قادر اور ان پر سب سے زیادہ مہربان ہے تو پھر تم نے اللہ سے مانگنے کے بجائے غیراللہ سے کیوں مانگا جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ ”أدعوني استجب لکم“ (تم لوگ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا) دوسری جگہ کہتا ہے: ”وإذا اسألک عبادي عني فإني قریب أجیب دعوۃ الداع إذا دعان“ (اور جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں بہت قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ دعا کرتے ہوں) [170]؎
اوپر گزری ہوئی باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیراللہ سے دعا مانگنے سے اللہ تعالیٰ سے بدظنی لازم آتی ہے کہ وہ اپنی صفات علم و رحمت، تدبیر و غنی اور ملکیت میں ناقص ہے۔ اور اللہ پاک سے بدگمانی رکھنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس پر اللہ نے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”الظانین باللہ ظن السوء علیھم دائرۃ السوء و غضب اللہ علیھم و لعنھم و أعدّلھم جھنم و ساءت مصیراً“ (جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، (دراصل) ان ہی پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے)
ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی اس سے بدگمانی رکھے، اس لئے کہ اللہ سے بدظنی رکھنے والا اس کے صفت کمال کے برخلاف گمان رکھتا ہے، وہ اس کی وجہ سے ایک ایسے خیال کو دل میں جگہ دیتا ہے جو اللہ کے اسماء و صفات کے برخلاف ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ بدگمانی رکھنے والوں کو ایسے عذاب کی وعید سنائی ہے جو کسی دوسرے گنہگار کو نہیں سنائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”الظانین باللہ ظن السوء علیھم دائرۃ السوء و غضب اللہ علیھم و لعنھم و أعدلھم جھنم و ساءت مصیراً“ (جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، (دراصل) ان ہی پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے)۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی صفت کا انکار کرنے والے کے لئے فرمایا: ”وذلکم ظنکم الذی ظننتم بربکم أرداکم فأصبحتم من الخاسرین“[171]؎ (تمہاری اسی بدگمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے)
اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ”ماذا تعبدون ءإفکا آلھۃ دون اللہ تریدون فما ظنکم برب العالمین“ (تم کیا پوج رہے ہو؟ کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟ تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟) یعنی تمہارا کیا خیال ہے کہ جب تم غیر اللہ کی پرستش کرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کروگے تو وہ تمہیں اس کا کیا بدلہ دے گا، تم نے اللہ کے بارے میں کیا سوچ کر اس کے ساتھ غیر اللہ کی پرستش کی؟ تم نے اللہ کے اسماء و صفات اور اس کی ربوبیت میں کیا نقص پایا جو تمہیں غیر اللہ کی پرستش کی ضرورت پڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں تو تمہارا گمان وہ ہونا چاہیے تھا جو اس کے شایان شان ہے، یعنی ہر چیز اس کے علم کے دائرہ میں ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے ماسوا ہر چیز ہر مخلوق سے بےنیاز ہے، اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اس کا محتاج ہے، وہ اپنی مخلوق کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے، وہ تنے تنہا اپنی مخلوق کے امور و معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے، کوئی غیر اللہ تدبیر امور میں اس کا شریک نہیں ہے، وہ تمام امور و معاملات کی تفصیلات سے آگاہ ہے، مخلوق کی کوئی بھی پوشیدہ چیز اس سے مخفی نہیں ہے، وہ اپنی مخلوق کے لئے تنہا کافی ہے، وہ کسی معاون و مددگار کا محتاج نہیں ہے، وہ بذات خود رحمٰن ہے، اسے اپنی رحمت نچھاور کرنے کے لئے اس کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی اس سے مہربانی کا طالب ہو، دنیا کے بادشاہوں اور سرداروں وغیرہ کا حال اس کے برخلاف ہے، انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی انہیں رعایا کے احوال و ضروریات سے واقف کرائے اور ان ضروریات کو پورا کرنے میں ان رؤساء کی مدد کرے۔ ان شاہان عالم کو اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی کسی پر رحم و مہربانی کے لئے ان سے سفارش کرے، یہ لوگ ضرورت کے تحت واسطے کے محتاج ہوتے ہیں، اس سے ان کی محتاجی، کمزوری، بےبسی اور علم کی کمی آشکارا ہوتی ہے۔
اللہ پاک کی وہ ذات جو ہر چیز پر قادر ہے، جس کی ذات عالی ہر چیز سے بےنیاز ہے، جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے، جو رحمٰن ہے جو رحیم ہے، جس کی رحمت ہر چیز پر محیط ہے۔ ایسی بلند و بالا ذات اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطے بنانا، اس کے حق ربوبیت، حق الوہیت اور حق وحدانیت میں کمی کرنا ہے۔ یہ واسطے بنانا دراصل اللہ پاک کی قدرت، حکمت اور اس کے اختیار کے تعلق سے بدگمانی کا شکار ہونا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ واسطہ بنانے کو مشروع کرے گا، اس کے جائز ہونے کو عقل و فطرت قبول ہی نہیں کرتی۔ عقل سلیم میں اس کی قباحت تمام قباحتوں سے بڑھ کر ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عبادت کرنے والا اپنے معبود کی تعظیم کرتا ہے، اسے اپنا إلہ بناتا ہے، اس کے سامنے پستی و ذلت اختیار کرتا ہے۔ رب تعالیٰ تنے تنہا اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے لئے کمال تعظیم کا مظاہرہ کیا جائے، اس کی کمال عظمت کا اظہار کیا جائے، اسے مکمل طور پر إلہ و معبود تسلیم کیا جائے، اس کے سامنے مکمل طور پر ذلت و پستی کا مظاہرہ کیا جائے، یہ خالصتاً اللہ پاک کا حق ہے۔
اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدر دانی کا حق نہیں ادا کیا جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے غیر اللہ کی عبادت کی جو ایک کمزور اور معمولی حیوان کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اگر مکھی اس کے پاس رکھی کوئی چیز اٹھا لے تو وہ اس سے اُسے بچا اور چھین بھی نہیں سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و ما قدروا اللہ حق قدرہ و الأرض جمیعا قبضتہ یوم القیامۃ و السماوات مطویات بیمینہ سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون“ (اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں) ایک مشرک اس عظیم الشان رب کی قدر دانی کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا ہے جس کے ساتھ عبادت میں وہ کسی ایسی مخلوق کو شریک ٹھہرالے جس کی شان و حیثیت رب کی شان و عظمت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ وہ جسے شریک کیا جاتا ہے سب سے زیادہ بےبس اور سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اللہ قوی و عزیز کی قدردانی کا حق وہ مشرک ادا کر ہی نہیں سکتا ہے جس نے اس کے ساتھ ایک ضعیف و ذلیل مخلوق کو شریک ٹھہرا لیا۔[172]؎
قدرت کے اعتبار سے موازنہ: اس وجہ سے باطل ہے کہ بندہ کی قدرت محدود ہے، چاہے وہ بادشاہ ہو یا غلام، یہ ان ہی چیزوں سے مدد کرنے کی قدرت رکھتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہو اور مادی امور میں سے جن پر انہیں قدرت حاصل ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس کے برخلاف ہے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے، اس کے لئے کوئی بات مشکل نہیں ہے، وہ محتاجوں کو مالدار بنا دیتا ہے، بھوکوں کا پیٹ بھر دیتا ہے، مریضوں کو شفایاب کر دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے، وہ گنہگاروں کے گناہ کو معاف کرتا ہے، وہ بلا حساب عطا کرتا ہے، وہ کسی کو نفع پہنچاتا ہے تو کوئی اس نفع کو روک نہیں سکتا، وہ کسی کی مصیبت دور کرنے کا ارادہ کرلے تو کوئی اس مصیبت میں مبتلا کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ما یفتح اللہ للناس من رحمۃ فلا ممسك لھا و ما یمسك فلا مرسل لہ من بعدہ و ھو العزیز الحکیم“[173]؎ (اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے سو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے) داد و دہش سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی، جو اس سے مانگتا ہے وہ اس کے نزدیک محبوب ہے، لیکن دنیا کے بادشاہوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے کھلانے کی بھی ایک حد ہے، ان کی نفع رسانی کی قدرت کی بھی ایک حد ہے، کبھی یہ قدرت کے باوجود نفع رسانی کو روک دیتے ہیں، اس سلسلہ میں طویل گفتگو کی جا سکتی ہے، یہ معاملہ الحمدللہ واضح ہے۔ یہاں پر بس یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ دنیا کے بادشاہوں سے اللہ تعالیٰ کو تشبیہ دینا باطل ہے۔ اللہ پاک کی ذات اس طرح کے موازنہ سے بہت بلند و بالا ہے۔
دسویں وجہ: جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس کے گناہ اس کی دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس سے کہا جائے گا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ بندے کی دعا قبول کرتا ہے، اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو، بلکہ وہ تو کافر کی دعا بھی قبول کرتا ہے، اس لئے کہ یہ اس کی عمومی رحمت کا تقاضہ ہے کہ اطاعت گزار اور گنہگار[174]؎ سب کو حاصل ہو۔ پھر بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کی ضرورت کیا ہے؟
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”تم لوگ مظلوم کی بددعا سے بچو، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ اس بددعا کی قبولیت کے سامنے کوئی پردہ نہیں ہوتا ہے۔“[175]؎
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”مظلوم کی بددعا قبول کی جاتی ہے، اگرچہ وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو، اس کے فجور کا گناہ اس کی ذات پر ہے۔“[176]؎
دعا کی قبولیت صرف نیک آدمی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اگرچہ گنہگار کے مقابلہ نیک شخص کی دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان ہوتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ صرف نیک آدمی ہی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کی دعا قبول نہیں کرتا، اس لئے کہ ہر بنی آدم خطا کار ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے کہ ”ہر بنی آدم خطا کار ہے، ان میں سب سے اچھے توبہ کرنے والے ہیں۔“[177]؎
گیارہویں وجہ: بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کی وجہ سے بندہ اور رب کا بلا واسطہ تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے عبد و معبود کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے رب کے درمیان واسطہ بنانے والا دوسرے کو یہ ذمہ داری سونپ دیتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے دعا کی عبادت کو انجام دے، اس طرح وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رکاوٹ حائل کر لیتا ہے، یہ بذات خود ایک بڑا خسارہ ہے اور یہ اسلامی شریعت کے اس مقصد کے برخلاف ہے کہ بندہ اور رب کے درمیان مضبوط رشتہ و تعلق برقرار رہنا چاہیے۔
بارہویں وجہ: بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے والا خیر کثیر سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے۔ وہ خیر کثیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کو اپنی طرف متوجہ پا کر خوش ہوتا ہے، بندہ کو اپنے سامنے گرا ہوا دیکھ کر وہ خوش ہوتا ہے، کیونکہ اس نے کسی مردہ کے سامنے جسے کسی چیز کا اختیار نہیں ہے اور جو کسی کو رب کی قربت عطا کرنے پر قادر نہیں ہے، اپنے آپ کو ڈال دینے کے بجائے رب کے سامنے ڈال دینے کو پسند کیا۔ اور یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے اگرچہ اس کے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچے ہوئے ہوں جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ عز و جل کہتا ہے: میرا بندہ مجھ سے جو گمان قائم کرتا ہے میں اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ لوگوں کے بیچ مجھے یاد کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔[178]؎
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کسی کے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس بندہ سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی صحراء و بیابان میں اپنی سواری پر ہو اور وہ سواری راہ بھٹک کر کہیں گم ہو جائے، اسی سواری پر اس کا کھانا اور پانی ہو، وہ اپنی سواری سے مایوس ہو جائے، وہ کسی درخت کے پاس آکر اس کے سائے میں لیٹ جائے جبکہ وہ اپنی سواری کو دوبارہ پانے سے بالکل مایوس ہو چکا ہو، اسی حالت میں اس کی سواری اچانک اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جائے، وہ سواری کی لگام پکڑ کے حد درجہ کی خوشی کی کیفیت میں ڈوب کر یہ کہے: اے اللہ! تو میرہ بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ وہ حد درجہ خوشی کی وجہ سے یہ غلطی کر بیٹھا۔[179]؎
تیرہویں وجہ: غیر اللہ کو پکارنا اور اس سے دعا مانگنا شرک تو ہے ہی، اس کے علاوہ اس کی یہ قباحت بھی ہے کہ جنہیں یہ لوگ واسطہ بناتے ہیں وہ اللہ سے دعا کرنے کی حالت ہی میں نہیں ہیں، اس لئے کہ وہ یا تو جمادات ہیں یا مردے ہیں، اور یہ دونوں ہی زندوں کے بارے میں کچھ علم و جانکاری نہیں رکھتے ہیں، ان کی دعاؤں کو سن کر قبول کرتے ہیں، نہ انہیں کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں، نہ تو دعا کے ذریعہ اور نہ کسی اور طریقہ سے۔ اس کی صراحت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے: ”و ما أنت بمسمع من فی القبور“ (آپ انہیں اپنی بات نہیں سنا سکتے ہیں جو قبروں کے اندر ہیں) سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و الذین تدعون من دونہ ما یملکون من قطمیر إن تدعوھم لا یسمعوا دعاکم و لو سمعوا ما استجابوا لکم و یوم القیامۃ یکفرون بشرککم و لا ینبئك مثل خبیر“ (جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کو پکارنے اور ان سے دعا مانگنے کو شرک قرار دیا ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و الذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئاً و ھم یخلقون أموات غیر أحیاء و ما یشعرون أیان یبعثون“ (اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں، مردے ہیں زندہ نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے) بلکہ لوگوں کے درمیان نہ سننے کے معاملہ میں مردہ ضرب المثل ہے۔ کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ ایک زندہ انسان جو سننے اور دیکھنے پر قادر ہے وہ مردہ سے اپنی حاجت کے لئے سوال کرتا ہے! اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے:
لقد أسمعت لو نادیت حیا و لکن لا حیاۃ لمن تنادی
(اگر آپ کسی زندہ کو آواز دیں تو اسے اپنی بات سنا سکتے ہیں، لیکن جس مردہ کو آپ آواز لگا رہے ہیں اس میں تو زندگی ہی نہیں ہے)
چودہویں وجہ: اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کسی کو سفارشی اور واسطے بنانے کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود قرآن مجید میں یہ صراحت کر دی گئی ہے کہ لوگوں نے دنیا میں جنہیں سفارشی بنا لیا وہ قیامت کے دن ہرگز ان کی سفارش نہیں کریں گے، بلکہ اس دن سفارشی بنانے والوں اور جنہیں سفارشی بنایا گیا ہے دونوں کے درمیان سارے رشتے و تعلق منقطع ہو جائیں گے، یہ سفارشی اس دن ان لوگوں سے اظہار براءت کریں گے جنہوں نے اپنے لئے سفارشی بنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و لقد جئتمونا فرادی کل خلقناکم أول مرۃ و ترکتم ما خولناکم و راء ظھورکم و ما نری معکم شفعاءکم الذین زعمتم أنھم فیکم شرکاء لقد تقطع بینکم و ضلّ عنکم ما کنتم تزعمون“[180]؎ (اور تم ہمارے پاس تنے تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراہ تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعوی رکھتے تھے کہ وہ تمہارے معاملہ میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ہو گیا اور وہ تمہارا دعوی سب تم سے گیا گزرا ہوا۔) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و یوم تقوم الساعۃ یبلس المجرمون و لم یکن لھم من شرکائھم شفعاء و کانوا بشرکائھم کافرین“[181]؎ (اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو گنہگار حیرت زدہ رہ جائیں گے اور ان کے تمام تر شریکوں میں سے ایک بھی ان کا سفارشی نہ ہوگا۔ اور (خود یہ بھی) اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے) ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: جن معبودوں کی یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے تھے انہوں نے ان کی سفارش نہیں کی، ان کے منکر ہوگئے اور انہیں اس وقت دھوکہ دیا جب انہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
پندرہویں وجہ: بندہ اور رب کے درمیان دعا میں واسطہ کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن انبیاء و صالحین کو واسطہ بنا کر پکارا جاتا ہے وہ خود زندہ لوگوں کی دعا اور ان کی دعائے مغفرت کے محتاج ہیں، اس لئے کہ مردہ کا دنیا سے رشتہ ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، البتہ تین چیزوں کا فائدہ اُسے مرنے کے بعد بھی حاصل ہوتا ہے؛ ایک صدقہ جاریہ، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔[182]؎
چنانچہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو افضل البشر ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب ہیں انہوں نے ہم لوگوں سے درود بھیجنے کو کہا ہے، آپ کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھیجی جانے والی درود آپ کے لئے رحمت کی دعا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اس کے مثل کلمات اذان کو دہراؤ، پھر میرے اوپر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اس پر اللہ تعالیٰ اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر تم میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو، یہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے کسی بندہ کو حاصل ہوگا، مجھے امید ہے کہ میں ہی وہ بندہ ہوں گا۔ جس نے میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کیا اسے میری شفاعت حاصل ہوگی۔[183]؎
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ ہم آپ پر اور زمین و آسمان کے تمام نیک بندوں پر سلام بھیجیں۔ سلام بھیجنا سلامتی کی دعا کرنا ہے۔ تشہد میں التحیات کی دعا ان الفاظ میں کرنے کی تعلیم دی گئی ہے: السلام علیك أیھا النبي و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔۔۔“[184]؎ الحدیث (اے نبی! آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت و برکتیں ہوں، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم بھی دی ہے کہ عام حالتوں میں، نماز جنازہ میں اور خاص طور پر تدفین کے بعد مردہ کے لئے رحمت و مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کی جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی جنازہ کی نماز پڑھتے تو اس طرح دعا کرتے: اللھم اغفر لحینا و میتنا و شاھدنا و غائبنا و صغیرنا و کبیرنا و ذکرنا و أنثانا، اللھم من أحییتہ منا فأحیہ علی الإسلام و من توفیتہ منا فتوفہ علی الإیمان، اللھم لا تحرمنا أجرہ و لا تضلنا بعدہ“[185]؎ (اے اللہ! تو ہمارے زندہ، مردہ، موجود غیر موجود، چھوٹے بڑے، مرد و عورت سب کی مغفرت فرما، اے اللہ! تو ہم میں سے جسے زندہ رکھ تو اسلام پر زندہ رکھ اور جسے تو وفات دے تو اسے ایمان پر خاتمہ نصیب فرما۔ اے اللہ! تو اس مردہ کے اجر و ثواب سے ہمیں محروم نہ کر اور تو اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ ہونے دے)
عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو تھوڑی دیر کے لئے وہاں رکتے اور فرماتے: تم لوگ اپنے بھائی کے لئے دعائے مغفرت کرو، اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا مانگو، اب اس سے سوال ہوگا۔[186]؎
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ مردہ زندہ کی دعا کا محتاج ہوتا ہے، اگرچہ وہ میت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی مقام ہی کیوں نہ ہو، تو پھر مردوں سے دینی و دنیاوی فائدے کی کوئی چیز طلب کرنا درست نہیں ہوگا۔
سولہویں وجہ: بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کے لئے قیاس کے اصول پر اعتماد کرنا دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ: علمائے کرام ہمیشہ اور ہر مسئلہ میں قیاس کے اصول کو اختیار نہیں کرتے ہیں، بلکہ وہ ضرورت کے وقت ہی اسے اختیار کرتے ہیں جبکہ کسی مسئلہ کا حکم واضح کرنے کے لئے شرعی نص موجود نہ ہو، اس وقت علماء قیاس کے اصول کو اختیار کرتے ہیں، لیکن نص کی موجودگی میں قیاس نہیں کرتے، ورنہ پھر شرعی نصوص کا فائدہ کیا ہے جبکہ عقلی قیاس کو ان نصوص پر مقدم کر دیا جائے؟ اور یہ بات پیچھے گزر چکی ہے کہ بندہ اور رب کے درمیان واسطہ بنانے کی ممانعت کے تعلق سے شرعی نصوص بکثرت موجود ہیں، بلکہ ایک اللہ پاک کی عبادت ہی دین کی اصل اور ملت کی اساس ہے۔
دوسری وجہ: عقلی دلائل اور ذہنی قیاس آرائیوں کے ذریعہ قرآن و سنت کے نصوص کی مخالفت اس اعتبار سے باطل ہے کہ ہر وہ قیاس جو کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نص یا ظاہری مفہوم کے برخلاف ہو یا وہ قیاس جو سلف امت اور ائمہ مسلمین کے اجماع کے برخلاف ہو وہ قیاس فاسد الاعتبار ہے۔ تمام مسلمانوں اور تمام فقہی مسالک کے نزدیک کتاب و سنت سے متصادم ایسے قیاس پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرنا قطعی طور پر فاسد قیاس آرائیوں کا نمونہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بصراحت اسے باطل قرار دیا ہے، ارشاد ہے: ”فلا تضربوا للہ الأمثال“ (پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بناؤ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”لیس کمثلہ شیء“ (کوئی چیز اس کے جیسی نہیں ہے)
کچھ اہل علم نے شرعی حکم پر عقلی اعتبار سے اعتراض کرنے والوں کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہے: وحی جو آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو حاصل ہوئی اور سنت جس کی طرف آپ ہماری رہنمائی کرتے ہیں، ان میں سے کچھ ہماری عقل کے موافق ہوتے ہیں اور کچھ موافق نہیں ہوتے ہیں، ہم آپ سے وہی باتیں قبول کریں گے جو ہماری عقلوں کے موافق ہوں اور باقی کو ہم قبول نہیں کریں گے۔ اگر کوئی شخص شرعی نصوص کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنائے تو کیا وہ مومن کہلائے گا؟ قطعی طور پر وہ مومن نہیں ہوگا۔
یہ ابلیس (اللہ اس کے شر سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے) اس نے اپنی فاسد رائے کی اتباع کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ٹھکرا دیا اور شرعی حکم پر اپنی عقل کو مقدم رکھتے ہوئے کہا: ”أنا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین“ (میں آدم سے بہتر ہوں، آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے) ابلیس اپنی عقل پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا اور دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب بنا، العیاذ باللہ
ابن قیم رحمہ اللہ نے بالکل سچی بات کہی ہے کہ ہر فتنہ کی جڑ رائے کو شریعت پر مقدم کرنا ہے اور خواہش کو عقل پر ترجیح دینا ہے۔[187]؎
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: بندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت محمدی کو تسلیم کرے جو کامل اور روشن و واضح ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرے کہ اس شریعت کا نزول بندوں کو ہر قسم کے فوائد و مصالح سے ہمکنار کرنے کے لئے ہوا ہے اور ہر قسم کے شر و فساد کو ختم کرنے اور اسے کم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ جب ایسی غیر مشروع عبادات اور مجاہدے سے اس کا واسطہ پڑتا ہے جو اسے اچھی اور نفع بخش معلوم ہوتی ہے تو اسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس میں فائدہ سے زیادہ نقصان کا پہلو نمایاں ہے اور اس کا فساد و بگاڑ اس کے مصالح و منافع پر غالب ہے، اس لئے کہ شارع حکمت والا ہے، وہ بندوں کے مصالح و منافع کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔[188]؎
میں کہتا ہوں: یہ ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مکمل طور پر خود سپردگی کر دیں، اس کے احکام کی پیروی کریں اور عقلی قیاس آرائیوں اور نفسانی خواہشات کے ذریعہ اللہ کے نازل کردہ احکام اور اس کی شریعت پر معترض نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فلا و ربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجا مما قضیت و یسلّموا تسلیما“ (سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و ما کان لمؤمن و لا مؤمنۃ إذا قضی اللہ و رسولہ أمرا أن یکون لھم الخیرۃ من أمرھم و من یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلا مبینا“ (اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: و ربک یخلق ما یشاء و یختار ما کان لھم الخیرۃ سبحان اللہ و تعالیٰ عما یشرکون“ (اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں، اللہ ہی کے لئے پاکی ہے، وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنے آپ کو اس چیز سے پاک و صاف قرار دیا ہے جسے انسانی عقلوں نے اللہ کے لئے اختیار کیا اور اُسے اللہ نے شرک کا نام دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی عقل کو قابل اعتماد ذریعہ علم و فکر بنا لیتا ہے اور اسی عقل کی رہنمائی میں کسی چیز کو اختیار کرتا ہے اور کسی چیز کو مسترد کرتا ہے تو وہ اس طرح ایک نیا غیرشرعی مرجع بنا لیتا ہے جس پر وہ اعتماد کرتا ہے اور وہ اس کی عقل ہے۔ اس طرز فکر سے بچنا ضروری ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ”اللہ تعالیٰ یہ خبر دے رہا ہے کہ وہ تخلیق و اختیار میں منفرد ہے، ان دونوں امور میں کوئی اس سے اختلاف و نزاع کرنے والا اور کوئی اس کی تعقیب و گرفت کرنے والا نہیں ہے ”و ربك یخلق ما یشاء و یختار“ (اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جو چاہتا ہے پسند کرتا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ہے۔ سارے معاملات، خیر ہوں یا شر اُسی کے ہاتھ میں ہیں اور تمام معاملات کا مرجع صرف اللہ کی ذات ہے۔“
خلاصۂ کلام یہ کہ بندہ کا اپنے اور رب کے درمیان واسطہ بنانا اور یہ سمجھنا کہ یہ واسطہ انہیں رب سے قریب کرتا ہے اور رب کے سامنے اس کی سفارش کرتا ہے، ایک بےبنیاد اور باطل بات ہے۔ یہ اللہ عظیم کی ذات کے ساتھ شرک کی ایک قسم ہے، اس کی وجہ سے اللہ سے بدگمانی و بدظنی لازم آتی ہے۔ بندہ کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو بغیر کسی واسطہ سے پکارے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و قال ربکم ادعوني استجب لکم“ (تمہارے رب کا یہ فرمان ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا) دیگر عبادات کے معاملہ میں بھی یہی حکم ہے کہ بندہ کسی واسطہ کے بغیر ان عبادات کو انجام دے کر رب کی قربت کا مستحق بنتا ہے۔
قرآن مجید میں اس بات کی صراحت آچکی ہے کہ غیراللہ کو پکارنا اور اس سے دعا مانگنا ایک باطل عمل ہے، چاہے اس کے لئے جو بھی عقلی دلیل پیش کی جائے۔ یہ وضاحت اس شخص کے لئے کافی و شافی ہے جو حق کا متلاشی ہو اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو۔ قرآن مجید میں یہ صراحت سورۃ الحج میں کی گئی ہے۔ ارشاد ہے: ”ذلك بأن اللہ ھو الحق و أن ما یدعون من دونہ ھو الباطل“[189]؎ (یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے) سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ذلك بأن اللہ ھو الحق و أن ما یدعون من دونہ الباطل“[190]؎ (یہ سب (انتظامات) اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور اس کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں)
قرآن مجید میں یہ صراحت بھی آئی ہے کہ بس اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس سے دعا مانگنا ہی حق ہے۔ ارشاد ہے: ”لہ دعوۃ الحق و الذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لھم بشیء إلا کباسط کفیہ إلی الماء لیبلغ فاہ و ما ھو ببالغہ و ما دعا الکافرین إلّا فی ضلال“ (اُسی کو پکارنا حق ہے۔ جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ہے، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے)
دوسرا شبہ: آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لئے شفاعت کے تعلق سے ایک شبہ اور اس کا جواب
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص دعا کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اس لئے متوجہ ہوتا ہے تاکہ آخرت میں اُسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت حاصل ہو جائے۔ دس وجوہات کی بنا پر یہ شبہ باطل ہے:
پہلی وجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لوگوں کی شفاعت کریں گے، یہ اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ اُس شفاعت کا حقدار بننے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا مانگی جائے، اس لئے کہ دعا عبادت ہے اور تمام قسم کی عبادات کو صرف اللہ کے لئے انجام دینا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قل إنما أدعو ربی و لا أشرك بہ أحداً“ (آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف اپنے رب سے دعا مانگتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوں) جس نے ان میں سے کسی بھی عبادت کو غیراللہ کے لئے انجام دیا تو اس نے شرک کیا اور مشرک کے لئے آخرت میں کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
دوسری وجہ: یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اصلاً شفاعت کے مالک نہیں ہیں کہ آپ سے اسے طلب کرنا درست ہوگا۔ شفاعت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا اُسے آپ اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کریں اور اُسے غیراللہ سے طلب نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و لا یملك الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ“ (یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جسے پکارتے ہیں وہ شفاعت کے مالک نہیں ہیں) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”أم اتخذوا من دون اللہ شفعاء قل أولو کانوا لا یملکون شیئا و لا یعقلون قل للہ الشفاعۃ جمیعاً“ (کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا (اوروں کو) سفارشی مقرر کر رکھا ہے؟ آپ کہہ دیجئے! کہ گو وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں، کہہ دیجئے کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے شفیع ہونے کی نفی کی ہے جن سے شفاعت کے لئے دعا کی جاتی ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔ دوسری آیت میں رب سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے لئے شفاعت کے اختیار کو تین تاکیدی کلمات کے ذریعہ بیان کیا ہے؛ پہلا کلمہ بل، دوسرا کلمہ للہ میں لام استحقاق اور تیسرا کلمہ جمیعا ہے۔
سنت نبوی سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے دن از خود کسی چیز کے مالک نہیں ہوں گے، نہ شفاعت کے اور نہ کسی دوسری چیز کے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: ”و أنذر عشیرتك الأقربین“ (اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کو بلایا، آپ کی آواز پر قریش کے لوگ جمع ہوئے، آپ نے عمومی طور پر بھی دعوت دی اور خصوصی طور پر بھی دعوت دی۔ آپ نے فرمایا: اے بنی کعب بن لوئی! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے بنی مرہ بن کعب! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے بنی عبدشمس! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے بنی عبدمناف! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے بنی ہاشم! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے بنی عبدالمطلب! اپنے کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
اے فاطمہ! خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، میں اللہ کے سامنے تم لوگوں کے لئے کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوں۔[191]؎
ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔
اے صفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔
اے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! تم میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔[192]؎
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: کوئی مخلوق کسی بھی حال میں شفاعت کی مالک نہیں ہے، نہ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی نبی یا اس سے کمتر کوئی بھی شفاعت کا اختیار رکھتا ہے، بلکہ یہ اسی طرح ناممکنات میں سے ہے جیسے اللہ کے سوا کسی اور کا خالق اور رب ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ اسی حقیقت کو اس آیت میں اجاگر کیا گیا ہے: ”قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ لا یملکون مثقال ذرۃ فی السماوات و لا فی الأرض و ما لھم فیہما من شرک و ما لہ منھم من ظھیر“ (کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمان اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے، نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔) اللہ تعالیٰ نے یہاں اس آیت میں غیر اللہ کے لئے مطلق طور پر ملکیت کی نفی کر دی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”و لا تنفع الشفاعۃ عندہ إلا لمن أذن لہ“ (شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے) یہاں اللہ تعالیٰ نے شفاعت کو اپنی اجازت کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، یعنی صرف ان ہی کو شفاعت کرنے کا حق ہوگا جنہیں اللہ اجازت دے گا، یہاں پر اللہ نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ کوئی مخلوق شفاعت کی مالک و مختار ہے، بلکہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اس کی ملکیت حاصل ہے اور اسی کے لئے حمد و ثنا ہے، ملکیت میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”تبارک الذي نزّل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا الذي لہ ملک السماوات و الأرض و لم یتخذ ولدا و لم یکن لہ شریک فی الملک و خلق کل شیء فقدرہ تقدیراً“[193]؎ (بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے، اسی اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا ساجھی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازہ ٹھہرا دیا ہے)
تیسری وجہ[194]؎: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے علاوہ دیگر شفاعت کرنے والے قیامت کے دن اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے شفاعت نہیں کریں گے، بلکہ یہ صرف ان کی شفاعت کریں گے جن میں شفاعت کی شروط پائی جاتی ہوں گی۔ شروط پائے جانے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ ان کے حق میں شفاعت قبول کرے گا۔ اسی کو ثابت شدہ شفاعت کہا جاتا ہے، یعنی وہ شفاعت قیامت کے دن جس کے حصول کو اللہ نے ثابت کیا ہے۔ جن پر شفاعت کی شرطیں منطبق نہیں ہوں گی اسے شفاعت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ وہ شفاعت ہے جس کی نفی کی گئی ہے، یعنی قیامت کے دن جس کے حصول کی نفی کر دی گئی ہے۔[195]؎
ثابت شدہ شفاعت کی دو شرطیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کرنے والے کو شفاعت کرنے کی اجازت۔ اس شرط کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”من ذا الذی یشفع عندہ إلّا بإذنہ“[196]؎ (کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”ما من شفیع إلا من بعد إذنہ“[197]؎ (اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں) نیز ارشاد ہے: ”یومئذ لا تنفع الشفاعۃ إلا من أذن لہ الرحمٰن و رضي لہ قولاً“[198]؎ (اس دن سفارش کچھ کام نہ آئے گی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے) نیز ارشاد ہے: ”ولا تنفع الشفاعۃ عندہ إلا لمن أذن لہ“[199]؎ (شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہو جائے) نیز ارشاد ہے: ”وكم من ملک فی السماوات و الأرض لا تغني شفاعتہم شیئا إلا من بعد أن یأذن اللہ لمن یشاء و یرضی“[200]؎ (اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے)
یہ اس بات کے پانچ صریح دلائل ہیں کہ شفاعت کرنے والے کے لئے شفاعت کا معاملہ رحمٰن کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے۔
قرآن مجید میں اکیس مقامات پر یہ صراحت آئی ہے کہ قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ کی اجازت ہی سے شفاعت کا حصول ممکن ہوگا۔[201]؎ ان نصوص میں شفاعت کے لئے اللہ کی طرف سے اجازت کی شرط موجود ہے، نیز یہ صراحت بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از خود شفاعت کے مالک نہیں ہیں، اس لئے کہ آپ شفاعت کے مالک ہوتے تو اللہ تعالیٰ جسے چاہتا عذاب میں باقی نہیں رکھتا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مومنوں کو رحمٰن کی اجازت کے بغیر جہنم سے نکال لیتے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور کبریائی کا مظہر ہے کہ کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کے لئے شفاعت کرنے کی جسارت نہیں کرے گا۔[202]؎
احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک شفاعت نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کی اجازت نہ مل جائے۔ ان میں سے ایک انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جو اوپر گزر چکی ہے، اس میں یہ آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں جا چکے کبیرہ گناہوں کے مرتکب مومنوں کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کریں گے تاکہ انہیں جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کر سکیں، اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول کرے گا اور اس کے لئے لوگوں کی ایک تعداد متعین کر دے گا، آپ لوگوں کی اس متعین تعداد کو جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کریں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے لئے رب کے پاس واپس جائیں گے، یکے بعد دیگرے آپ چار مرتبہ رب کے پاس شفاعت کے لئے جائیں گے۔[203]؎
اس حدیث نبوی سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے لئے رب تعالیٰ سے اجازت طلب کریں گے، اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء ہی سے شفاعت کے مالک نہیں ہوں گے، اس لئے کہ آپ شروع ہی سے شفاعت کے مالک ہوتے جس طرح دیگر عطائے ربانی کے آپ شروع سے مالک ہیں تو آپ اللہ کی اجازت کے بغیر بلا واسطہ اور بغیر تحدید کے شفاعت کرتے اور آپ ان گنہگار مومنوں کو بلا واسطہ بلا اجازت جہنم سے نکلوا لیتے، لیکن یہ اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں ہے۔[204]؎
2۔ شفاعت کی قبولیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ جس کے لئے شفاعت کی جا رہی ہے اس کے حق میں شفاعت سے اللہ تعالیٰ راضی بھی ہو۔ اس شرط کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و لا یشفعون إلّا لمن ارتضی“[205]؎ (وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو) نیز یہ ارشاد: ”یومئذ لا تنفع الشفاعۃ إلّا من أذن لہ الرحمٰن و رضي لہ قولاً“[206]؎ (اس دن سفارش کچھ کام نہ آئے گی مگر جسے رحمٰن حکم دے اور اس کی بات کو پسند فرمائے)
ابن کثیر رحمہ اللہ سورہ المدثر کی اس آیت ”فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین“ (شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی انہیں کوئی نفع نہیں دے سکے گی) کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ”شفاعت اسی وقت نفع بخش ہوگی جبکہ شفاعت کی جگہ اس کے لئے لائق و مناسب ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جسے قیامت کے دن کفر کی حالت میں پا لے گا وہ لا محالہ جہنم کا مستحق ٹھہرے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔“
اللہ تعالیٰ نے اوپر بیان کردہ دونوں شرطوں کو اس آیت میں جمع کر دیا ہے: ”و کم من ملک فی السماوات لا تغني شفاعتھم شیئا إلا من بعد أن یأذن اللہ لمن یشاء و یرضی“ (اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے)
آپ یہ جان لیں، اللہ آپ پر رحم کرے، بندہ سے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی بس ایک ہی صورت ہے کہ وہ عقیدۂ توحید کا حامل ہو اور توحید تمام عبادات مثلاً نماز، دعا، ذبح اور نذر وغیرہ کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے انجام دینے کے نام ہے۔ جس نے عقیدۂ توحید کو اپنا کر اس کے تقاضہ کو پورا کر دیا قیامت کے دن وہ ان لوگوں کی صف میں شامل ہوگا جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل ہوگی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا جب انھوں نے یہ سوال کیا کہ قیامت کے دن کون آپ کی شفاعت سے سرفراز ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری شفاعت سے وہ شخص سرفراز ہوگا جس نے قلب سے یا نفس سے ”لا إلہ إلّا اللہ“ کہا۔“[207]؎
نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آیا ہے کہ میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے بچا کر رکھا ہے۔ میری یہ شفاعت إن شاء اللہ اس شخص کو حاصل ہوگی جس کی موت اس حال میں ہوئی کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا تھا۔[208]؎
ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے، یہ میری امت میں سے اس شخص کو حاصل ہوگی جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا۔“[209]؎
یہ تمام احادیث اور اس باب کی دیگر احادیث یہ بتاتی ہیں کہ جو شخص قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے سرفراز ہونے کا خواہشمند ہو اس کے لئے شرط یہی ہے کہ وہ دعا وغیرہ تمام عبادات کو اللہ کے لئے خاص کر لے، اس کے بعد ہی کوئی شخص موحد کہلائے گا۔ لیکن جو شخص شرک میں مبتلا ہو گیا، مثلاً اس نے مخلوق سے دعا مانگی، ان سے شفاعت طلب کی یا ان کے لئے جانور ذبح کیا یا ان سے نذر مانی یا اس قبیل کی کوئی اور عبادت غیر اللہ کے لئے انجام دی تو اس مشرک کے لئے قیامت کے دن کوئی شفاعت نہیں کرے گا، چاہے وہ جو بھی جتن کر لے، یہاں تک کہ اگر اس کے لئے کوئی شفاعت بھی کرے گا تو اس کی شفاعت ہر گز قبول نہیں ہوگی، چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ اس کے لئے شفاعت کریں، اس لئے کہ شرک شفاعت کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے والد آزر کے لئے شفاعت کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول نہیں کرے گا، اس لئے کہ وہ مشرکین میں سے تھے باوجود یکہ ابراہیم علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں سے ہیں اور خلیل الرحمٰن بھی ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کی ان کے والد آزر سے ملاقات ہوگی، آزر کا چہرہ مصیبت کی سختی کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہوگا۔ ابراہیم علیہ السلام ان سے کہیں گے: کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میری بات مان لیں؟ ان کے والد کہیں گے: آج میں تمہاری بات مانوں گا، تو ابراہیم علیہ السلام رب سے کہیں گے: اے رب تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوا نہ کرے گا، آج کے دن میرے لئے اس سے بڑی رسوائی اور کیا ہوگی کہ میرے والد رحمت الہی سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: میں نے کافروں کے لئے جنت حرام کر دی ہے۔ پھر کہا جائے گا: اے ابراہیم! اپنے پاؤں کے نیچے دیکھئے؟ وہ پاؤں کے نیچے دیکھیں گے تو وہاں ایک بجو ہوگا جو گندگی میں لت پت ہوگا، اس بجو کا پاؤں پکڑ کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔[210]؎
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع کر دیا، اس لئے کہ حالت شرک میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کے لئے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی تو میرے رب نے اس کی اجازت نہیں دی، پھر میں نے والدہ کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے اجازت مانگی تو اس کے لئے اجازت دیدی۔[211]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کرنا جو کہ مغفرت کا بہت بڑا سبب ہے، کیونکہ یہ ایک نبی کا استغفار ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہیں کیا، اس لئے کہ اس دعائے مغفرت کی قبولیت کی راہ میں جو رکاوٹ تھی وہ زیادہ طاقتور تھی اور وہ رکاوٹ شرک ہے، لہذا اس سے بچنا واجب ہے۔ اسی کو نفی کی گئی شفاعت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں یہ شفاعت مراد ہے جس کی نفی کی گئی ہے: ”فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین“ (شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی ان کے کام نہ آئے گی)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”مشرکین اور ان کے پیشرؤں کے دل میں یہ بات ہے کہ ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کے سفارشی ہیں، یہ عین شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس باطل خیال کا انکار کیا ہے اور اسے باطل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ کس کو شفاعت حاصل ہوگی کس کو نہیں ہوگی اس کا مکمل اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی بھی کسی کی سفارش تبھی کرے گا جب اللہ اسے اس کے لئے شفاعت کی اجازت دے گا اور جس کے لئے شفاعت کی جانی ہے اس کے قول و عمل سے راضی و خوش ہوگا اور وہ موحدین کی جماعت ہے جس نے اللہ کے علاوہ کسی کو سفارشی نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا ان لوگوں کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر کسی کو سفارشی نہیں بنایا۔ چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے سرفراز وہ ہوں گے جو عقیدۂ توحید کے حامل ہیں، جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر جو ان کا رب اور مولی ہے، کسی کو اپنا شفیع نہیں بنایا۔
وہ شفاعت جسے اللہ اور اس کے رسول نے ثابت کیا ہے اللہ کی اجازت سے کی جانے والی شفاعت ہے اور شفاعت موحد کے حق میں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے جس شفاعت کی نفی کی ہے، وہ شرک پر مبنی شفاعت ہے، یہی شرکیہ شفاعت مشرکین کے عقیدہ اور تصورات میں موجود ہے جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سفارشی بنا لیا، ان مشرکین نے اپنے سفارشیوں سے جو امید باندھی ہوگی اس کے برخلاف ان کے ساتھ سلوک کیا جائے گا اور صرف موحدین شفاعت پانے میں کامیاب ہوں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر غور کیجئے جو آپ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہی تھی جب انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا مستحق بننے والا سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ تم سے پہلے کوئی بھی مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا، اس کا سبب تمہارے اندر حدیث کا علم حاصل کرنے کی شدید چاہت ہے۔ قیامت کے دن میری شفاعت کو پانے والا سب سے خوش نصیب وہ ہے جس نے دل یا نفس کے اخلاص کے ساتھ ”لا إلہ إلا اللہ“ کہا۔[212]؎
اللہ تعالیٰ نے کس طرح خالص توحید کو شفاعت کو حاصل کرنے کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے، لیکن مشرکین کے یہاں اس کا الٹا ہے، ان کے یہاں اولیاء کو سفارشی بنا لینے سے شفاعت حاصل ہوتی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر ان اولیاء کی عبادت کرنے اور ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار کرنے سے شفاعت حاصل ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس زعم باطل کی تردید کر دی اور یہ بتا دیا کہ شفاعت کا سبب توحید کو خالص کرنا ہے۔ جب بندہ کے عقیدۂ توحید میں کھوٹ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو اس کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا۔
مشرکین کا یہ اعتقاد جہالت پر مبنی ہے کہ جس نے کسی کو ولی یا شفیع بنا لیا تو وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا اور اللہ کے نزدیک اسے فائدہ پہنچائے گا جیسا کہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے خواص ہوا کرتے ہیں، ان کی سفارشیں ان کے اہل تعلق کو فائدہ پہنچاتی ہیں، انہیں یہی نہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی شفاعت نہیں کر پائے گا اور اللہ صرف اس شخص کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا جس کے قول و عمل سے وہ راضی ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی بات کے اثبات میں فرمایا ”من ذا الذی یشفع عنده إلا بإذنہ“ (کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے گا مگر اس کی اجازت سے) دوسری بات کے اثبات میں فرمایا: ”و لا یشفعون إلا لمن ارتضی“ (شفاعت کرنے والے صرف ان ہی کے حق میں شفاعت کریں گے جن سے اللہ راضی ہوگا) اس کے بعد صرف تیسری چیز باقی بچتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے قول و عمل میں سے صرف توحید اور اتباع رسول سے راضی ہوتا ہے۔“[213]؎
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اللہ کی وحدانیت اور دین و عبادت کی ساری قسموں کو اللہ کے لئے خالص کرنا شفاعت کا سبب ہے۔ اس اعتبار سے جو بندہ اپنے عقیدہ و عمل میں جتنا بڑا مخلص ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ شفاعت کا حقدار ہوگا، اسی طرح وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے اللہ کی دیگر رحمتوں کا بھی سب سے زیادہ مستحق ہوگا۔ شفاعت کا معاملہ اول و آخر مکمل طور پر اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی اس کی اجازت ہی سے شفاعت کرے گا، وہی شفاعت کرنے والے کو شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور وہی شفاعت کرنے والے کی شفاعت کو اس کے حق میں قبول کرے گا جس کے لئے شفاعت کی گئی ہے۔
شفاعت بندوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اسباب میں سے ہے اور اس کی رحمت کے سب سے زیادہ مستحق اہل توحید اور اہل اخلاص ہیں۔ چنانچہ جو بندہ کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کے تقاضہ کو علم و عمل، عقیدہ و منہج، براءت و موالات اور معادات کے اعتبار سے پورا کرنے والا ہوگا وہ اللہ کی رحمت کا سب سے زیادہ مستحق ہوگا۔
گنہگار جن کے گناہ نیکیوں سے زیادہ ہوں گے اور اس کی وجہ سے ان کے گناہ کا پلڑا جھک جائے گا جس کی وجہ سے وہ جہنم کے مستحق قرار پائیں گے، ان میں جو کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کا قائل ہوگا اسے اس کے گناہوں کے بقدر جہنم کی آگ جلائے گی، اللہ تعالیٰ جہنم میں اسے موت سے ہمکنار بھی کرے گا، سجدہ کی جگہ کو چھوڑ جسم کا بقیہ حصہ جل کر کوئلہ ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس اہل توحید کو شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکالے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔ صحیح احادیث میں اس کی صراحت و تفصیلات موجود ہیں۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ ان تمام معاملات کا دارومدار کلمۂ اخلاص ”لا إلہ إلا اللہ“ پر ایمان لانے اور اس کے تقاضہ کو پورا کرنے پر ہے، اس کا دارومدار اس شرک پر نہیں ہے جس کا ارتکاب مردے سے تعلق استوار کرکے اور ان کی عبادت کرکے کیا جاتا ہے جیسا کہ اہل جاہلیت نے غلط طور پر سمجھ لیا تھا۔“[214]؎
ان باتوں کو نقل کرنے والے (اللہ اسے معاف کرے) کا کہنا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ شفاعت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کی اجازت ہی سے ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور شفاعت کرنے والے دوسرے نیک بندے تبھی شفاعت کریں گے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے گی اور اللہ تعالیٰ صرف ان ہی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے گا جن سے وہ راضی ہوگا اور وہ توحید خالص کے حاملین ہیں تو پھر صرف اللہ تعالیٰ ہی سے شفاعت طلب کی جائے جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے، لہذا آپ ان الفاظ میں دعا کریں: اے اللہ! مجھے قیامت کے دن اپنے نبی کی شفاعت سے محروم نہ کرنا، اے اللہ! میرے لئے اپنے نبی کو سفارشی بنا دے، اے اللہ! میرے حق میں اپنے نیک بندوں کو سفارشی بنا دے۔ یہ اور اس طرح کی نیک دعائیں ہی کی جائیں جن میں مخلوق سے تعلق کا اظہار نہ ہو۔
رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے شفاعت طلب کرنے کی تو یہ دعا کے زمرے میں آتا ہے اور دعا عبادت ہے جسے غیر اللہ کے لئے انجام دینا جائز نہیں ہے۔ جس نے غیر اللہ کو پکارا یا اس سے دعا مانگی اس نے شرک کا ارتکاب کیا، مشرک کے حق میں کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا اور کوئی اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا، اگرچہ مشرک اس کے لئے کچھ بھی کر لے، اس لئے کہ شرک شفاعت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یہ دخول جنت کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔[215]؎
فصل
آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدار بننے کے متعدد شرعی طریقے اور اسباب ہیں، مثلاً نیک اعمال کو بکثرت انجام دینا، خاص طور پر وہ نیک اعمال جن کی فضیلت میں یہ وارد ہے کہ اس کی وجہ سے آخرت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حاصل ہوگی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اذان سننے کے بعد اللہ تعالیٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وسیلہ طلب کیا جائے، وسیلہ جنت میں ایک بلند مقام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس مقام بلند تک آپ کو پہنچا دے۔ اس کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: جب تم موذن کی اذان سنو تو موذن کے مثل کلمات اذان کو دہراؤ، پھر مجھ پر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل کرے گا، پھر تم میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو، یہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے کسی خاص بندہ کو حاصل ہوگا، میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ میں ہی وہ بندہ ہو جاؤں۔ جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا اسے میری شفاعت حاصل ہوگی۔[216]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدار بنانے والے نیک اعمال میں سے ایک مدینہ میں زندگی کی آخری سانس تک سکونت اختیار کرنا ہے۔ مہری کے مولیٰ ابوسعید کا بیان ہے کہ وہ حرہ[217]؎ کے فتنہ والی راتوں میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور مدینہ چھوڑ دینے کے تعلق سے ان سے مشورہ کیا، ان سے مہنگائی اور کثیر العیال ہونے کا شکوہ کیا اور کہا کہ مدینہ کی پر مشقت زندگی اور معیشت کی تنگی پر صبر کرنا مشکل ہو گیا ہے تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ تمہارا بھلا ہو، میں تم کو مدینہ چھوڑنے کے لئے نہیں کہوں گا، میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص بھی مدینہ میں رہ کر معیشت کی تنگی پر صبر کرتے ہوئے یہیں پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں شہادت دوں گا جبکہ وہ مسلمان ہو۔[218]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدار بننے کے بہت سے شرعی وسائل ہیں اور ان سب کا دارومدار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، دین پر استقامت، دین کے احکام پر عمل کرنے اور منہیات سے بچنے پر ہے۔ حصول شفاعت کے لئے غیر شرعی وسائل پر بھروسہ کرنا حصول شفاعت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
چوتھی وجہ: غیر اللہ سے دعا مانگنا شرک اکبر ہے، چاہے جس ذریعہ و وسیلہ سے دعا کی جائے، اس دعا کا مقصد چاہے شفاعت طلب کرنا ہو یا کچھ اور ہو۔ دین اسلام اور تمام آسمانی ادیان میں شرک کی حرمت ضروری طور پر معلوم ہے، شرک دین اسلام سے مکمل طور پر متصادم اور اس کے برخلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”ولقد أوحي إلیک و إلی الذین من قبلک لئن أشرکت لیحبطنَّ عملک و لتکوننَّ من الخاسرین بل اللہ فاعبد و کن من الشاکرین“ (یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تونے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا، بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا۔)
چونکہ غیر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور اس سے دعا مانگنے کا معاملہ اتنا سنگین ہے اسی لئے غیر اللہ سے دعا مانگنے کی حرمت پر تمام علمائے اسلام کا اجماع ہے، ان میں سرفہرست چاروں مسالک کے علماء اور ان کے علاوہ دیگر علماء ہیں۔[219]؎ اور مسلمانوں کا اجماع شرعی حجت و دلیل ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔[220]؎
پچھلے شبہ کے جواب میں غیر اللہ سے دعا مانگنے کی حرمت کے تعلق سے چاروں مسالک کے علماء کے اقوال نقل کئے جا چکے ہیں، لہذا اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
پانچویں وجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دوسرے سے شفاعت طلب کرنے والے سے کہا جائے گا کہ کتاب اللہ، صحیح احادیث اور اجماع امت سے اس کی ایک بھی دلیل موجود نہیں ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ مخلوق سے شفاعت طلب کرنا جائز ہے۔ کسی ایک بھی صحابی رسول سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے قیامت کے دن کے لئے شفاعت طلب کی ہو، اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر ہم لوگوں تک پہنچتا، اس لئے کہ یہ ایسے دینی امور ہیں جن کے نقل و بیان کے لئے عزائم اور ارادے کی کوئی کمی نہیں ہوتی، بلکہ نصوص و آثار سے ہمیں اس سلسلہ میں جو کچھ معلوم ہوا وہ اس کے برخلاف ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب کرے، ان میں سے کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حق میں یہ دعا کرنے کی درخواست کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بنا دے۔ صحابہ کرام سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ کسی اخروی فائدہ کے لئے درخواست کی ہو، چاہے وہ شفاعت ہو یا کوئی اور اخروی فائدہ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن از خود کسی چیز کے مالک نہیں ہوں گے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ جب آیت کریمہ ”وأنذر عشیرتک الأقربین“ (اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں اپنے تمام اہل خانہ و خویش و اقارب کو بتا دیا کہ میں قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔ نیز صحابہ کرام ”مالک یوم الدین“ (اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے) کے معنی و مفہوم کو مکمل اور صحیح طور پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام بس یہ کرتے تھے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے یہ درخواست کرتے تھے کہ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے کہ قیامت کے دن مجھے بھی آپ کی شفاعت نصیب ہو جائے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے رب عزوجل کا ایک فرشتہ میرے پاس آیا، اس نے مجھے دو باتوں امت کے ایک جزء کے داخل جنت ہونے یا آخرت میں شفاعت کی اجازت ملنے میں سے کسی ایک کو چن لینے کا اختیار دیا، میں نے اپنی امت کے لئے شفاعت کرنے کو چنا، مجھے علم ہو گیا کہ شفاعت میری امت کے لئے زیادہ وسیع فائدہ کی چیز ہے، پھر اس نے ایک تہائی امت کے داخل جنت ہونے یا ان کے لئے شفاعت کرنے میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا تو میں نے امت کے لئے شفاعت کرنے کو چنا، مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ میری امت کے لئے زیادہ وسیع فائدہ کی چیز ہے۔ یہ سن کر ان دونوں صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی آپ کی شفاعت پانے والوں میں شامل کر دے، راوی کہتے ہیں: آپ نے ان دونوں کے لئے دعا کی۔ پھر جب دیگر صحابہ کرام کو معاذ و ابو موسیٰ رضی اللہ عنہما کے حق میں دعائے رسول کی خبر ہوئی تو وہ یکے بعد دیگرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے اور یہ درخواست کرنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بھی آپ کی شفاعت کو پانے والے خوش نصیبوں میں شامل کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا فرماتے۔ جب بار بار صحابہ کرام نے آپ سے یہ درخواست کی اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری شفاعت ان سب کو حاصل ہوگی جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔[221]؎
چھٹی وجہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے والے سے کہا جائے گا کہ قیامت کے دن مومنوں کو جنت میں داخل کرنے اور جہنم سے نجات دینے کے لئے بہت سے لوگ سفارش کریں گے۔ صرف اکیلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت نہیں کریں گے، مثلاً فرشتے شفاعت کریں گے، انبیائے سابقین شفاعت کریں گے، شہداء شفاعت کریں گے، جنت میں داخل ہونے والے مومنین شفاعت کریں گے، بچے[222]؎ شفاعت کریں گے، قرآن مجید[223]؎ شفاعت کرے گا، روزہ[224]؎ شفاعت کرے گا، لہذا تم لوگ ان سب سے دعا کیوں نہیں مانگتے ہو اور ان سب سے شفاعت کیوں نہیں طلب کرتے ہو؟!
اگر وہ جواب میں یہ کہے کہ میں ان سب سے شفاعت طلب کرتا ہوں تو اس نے نیک لوگوں کی عبادت کرنے کی صراحت کر دی جبکہ وہ نیک لوگوں کی عبادت سے انکاری ہے، اس کا اقرار نہیں کرتا ہے۔ اور اگر وہ جواب میں کہے کہ یہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ان سے شفاعت طلب کی جائے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا شفاعت طلب کرنا باطل قرار پائے گا، اس لئے کہ ان لوگوں نے بغیر کسی ضابطہ کے ایک جیسی چیزوں کے درمیان فرق کیا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے اور صالحین وغیرہ سے شفاعت طلب کرنے کے درمیان تفریق کی جبکہ اس نے یہ اقرار کیا کہ یہ سب قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
ساتویں وجہ: مردوں سے شفاعت طلب کرنے والوں سے کہا جائے گا، چاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے والے ہوں یا کسی اور سے، کہ جو لوگ دنیا سے جا چکے ہیں دنیا کی زندگی سے ان کا تعلق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، ان پر دنیاوی زندگی کے قوانین، مثلاً سننا، دیکھنا، بات کرنا، حرکت کرنا اور تصرف کرنا کسی بھی طرح منطبق نہیں ہوتے ہیں، انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کے آس پاس کون لوگ ہیں، کوئی آواز دے تو ان کی آواز کو وہ نہیں سنتے ہیں، پھر ان سے دعا مانگنا اور شفاعت طلب کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن تدعوھم لا یسمعوا دعاءکم ولو سمعوا ما استجابوا لکم و یوم القیامۃ یکفرون بشرككم ولا ینبئک مثل خبیر“ (اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے، آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مردوں سے دعا مانگنے اور ان سے حاجتیں طلب کرنے کو شرک کا نام دیا ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وما أنت بمسمع من فی القبور“ (آپ ان لوگوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے جو قبروں کے اندر ہیں)۔ تو کیا قرآن کی اس وضاحت کے بعد بھی کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ ”فبأي حدیث بعدہ یؤمنون“ (اب وہ اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟)
آٹھویں وجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگنے کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہم آپ پر درود بھیجیں اور آپ کے لئے دعا کریں، آپ کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی، جن کی یہ صورت حال ہو ان سے حاجتیں طلب کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر کے اندر ہیں، چاہے وہ طلب کی گئی حاجت شفاعت ہو یا کچھ اور ہو؟
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کی اذان سنو تو تم اس کے مثل کلمات اذان کو دہراؤ، پھر مجھ پر درود بھیجو، جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اس کے بدلہ اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے، پھر تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ طلب کرو، یہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے کسی بندہ ہی کو حاصل ہوگا، میں امید کرتا ہوں وہ مقام مجھے حاصل ہو، جو شخص میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرے گا اسے میری شفاعت حاصل ہوگی۔[225]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم بھی دی ہے کہ ہم آپ کے لئے اور آسمان و زمین کے ہر نیک بندہ کے لئے دعا کریں جیسا کہ تشہد کی دعا میں التحیات کے کلمات وارد ہیں: السلام علیک أیھا النبي ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین.... الحدیث (اے نبی! آپ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت و برکتیں ہوں، ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو۔)
نویں وجہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگنے کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ سب جن کی اللہ کو چھوڑ کر پرستش کی جاتی تھی قیامت کے دن اپنے پرستاروں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے اور ان سے اظہار براءت کریں گے، ان میں انبیاء بھی ہوں گے اور غیر انبیاء بھی ہوں گے۔ عیسی علیہ السلام نصاری سے اظہار براءت کریں گے جو دنیا میں ان کی پرستش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وإذ قال اللہ یا عیسیٰ ابن مریم أأنت قلت للناس اتخذونی وأمي إلٰھین من دون اللہ قال سبحانک ما یکون لي أن أقول ما لیس بحق إن کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسي ولا أعلم ما فی نفسک إنک أنت علّام الغیوب ما قلت لھم إلا ما أمرتني بہ أن اعبدوا اللہ ربي و ربکم“ (اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسی عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے۔ میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تونے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”واتخذوا من دون اللہ آلھۃ لیکونوا لھم عزا کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا“[226]؎ (انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں لیکن ایسا ہر گز ہونا نہیں، وہ تو ان کی پوجا سے منکر ہو جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔)
ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ومن أضل ممن یدعو من دون اللہ من لا یستجیب لہ إلی یوم القیامۃ وھم عن دعائھم غافلون و إذا حشر الناس کانوا لھم أعداء و کانوا بعبادتھم کافرین“ (اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں۔ اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔)
ایک جگہ ارشاد ہے: ”إنما اتخذتم من دون اللہ أوثانا مودۃ بینکم فی الحیاۃ الدنیا ثم یوم القیامۃ یکفر بعضکم ببعض و یلعن بعضکم بعضا ومأواکم النار ومالکم من ناصرین“ (ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیوی دوستی کی بنا ٹھہرالی، تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگوگے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگوگے اور تمہارا سب کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔)
ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ویوم یحشرھم وما یعبدون من دون اللہ فیقول أأنتم أضللتم عبادي ھؤلاء أم ھم ضلوا السبیل قالوا سبحانک ما کان ینبغي لنا أن نتخذ من دونک من أولیاء ولکن متعتھم و آباءھم حتی نسوا الذکر وکانوا قوما بورا فقد کذبوکم بما تقولون فما تستطیعون صرفا ولا نصرا ومن یظلم منکم نذقہ عذابا کبیرا“[227]؎ (اور جس دن اللہ تعالیٰ انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گمراہ ہو گئے، وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں بھی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے، بات یہ ہے کہ تونے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وہ نصیحت بھلا بیٹھے یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے، تو انہوں نے تو تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم میں عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے نہ مدد کرنے کی، تم میں سے جس جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔)
علامہ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: اللہ جل وعلا نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے دن کفار کو اور ان کے معبودوں کو جمع کرے گا اور ان کے معبودوں سے پوچھے گا: کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا تھا اور ان کے لئے اس کفر و شرک کو مزین کرکے پیش کیا تھا کہ یہ مجھے درکنار کرکے تمہاری عبادت کریں یا یہ خود ہی راہ ہدایت سے بھٹک گئے؟
یعنی ان لوگوں نے مجھے فراموش کرکے جو تمہاری عبادت کی تو ایسا انہوں نے خود سے کیا یا تم لوگوں نے ایسا کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کفر و شرک کو ان کے لئے خوشنما بنا دیا تھا۔ وہ سارے معبود عرض کریں گے: سبحانك یعنی اے رب تیری ذات اس سے پاک ہے کہ شرکاء کو تیری عبادت میں شریک کیا جائے اور تیری ذات اُن تمام چیزوں سے بھی پاک ہے جو تیری عظمت و جلالت شان کے منافی ہے۔
”وما کان ینبغي لنا أن نتخذ من دونك أولیاء“ یعنی مخلوقات میں سے کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تیرے سوا کسی کی عبادت کرے، نہ ہمیں نہ اُن کو، ہم نے اُن کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت نہیں دی تھی، ان لوگوں نے میرے حکم کے بغیر ازخود یہ کام کیا تھا، ہم ان سے اور ان کی عبادت سے بری الذمہ ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و لکن متعتھم و آباءھم“ یعنی ان کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ بیت گیا، یہاں تک کہ وہ لوگ تذکیر کو بھلا بیٹھے، یعنی تو نے اپنے رسول کے واسطہ سے ان کے لئے جو احکام نازل کئے تھے، اُسے یہ لوگ فراموش کر بیٹھے اور وہ پیغام و احکام یہی تھا کہ لوگ صرف تیری ذات واحد کی عبادت کریں اور کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
”و کانوا قوما بورا“ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”قوما بورا“ سے مراد وہ قوم ہے جو ہلاکت سے ہمکنار ہوئی یا ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔
حسن بصری اور مالک نے زہری کے حوالہ سے ”قوما بورا“ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن میں کوئی خیر نہ ہو۔ علامہ محمد امین شنقیطی کی بات ختم ہوئی۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”بندہ کا مخلوق پر اعتماد و بھروسہ کرنا اس کے لئے خود اپنے ہاتھوں مضرت پہنچنے کا سبب ہے اور یہ ضرر ہر حال میں پہنچے گا۔ یہ ضرر اس امید کے برعکس ہوگا جو غیراللہ کی عبادت کرنے والوں نے اپنے معبودوں سے وابستہ کی تھی۔ یقینی طور پر غیراللہ کے ان پرستاروں کو جس سے مدد کی امید تھی اس سے عدم حمایت و تائید اور رسوائی ہی ہاتھ لگے گی، جن سے انہیں تعریف کی امید تھی ان سے مذمت کے الفاظ ہی سننے کو ملیں گے۔ یہ بات جہاں قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے وہیں جائزے اور تجربات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و اتخذوا من دون اللہ آلھۃ لیکونوا لھم عزا کلا سیکفرون بعبادتھم و یکونون علیھم ضدا“ (انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں کہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں، لیکن ایسا ہرگز ہونا نہیں، وہ تو ان کی پوجا سے منکر ہو جائیں گے اور الٹے اُن کے دشمن بن جائیں گے) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و اتخذوا من دون اللہ آلھۃ لعلھم ینصرون لا یستطیعون نصرھم و ھم لھم جند محضرون“[228]؎ (اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں (حالانکہ) ان میں ان کی مدد کی طاقت ہی نہیں (لیکن) پھر بھی (مشرکین) ان کے لئے حاضر باش لشکری ہیں) یعنی یہ مشرکین اپنے معبودوں کے لئے غصہ ہوتے ہیں اور ان کے دفاع کے لئے برسرپیکار ہوتے ہیں جس طرح فوجی مخالف فوج پر غصہ ہو کر اپنے ساتھیوں کی طرف سے لڑتا ہے۔[229]؎ یہ معبود تو اپنی مدد کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ یہ اپنے پرستاروں پر ایک بوجھ ہیں۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و ما ظلمناھم و لکن ظلموا أنفسھم فما أغنت عنھم آلھتھم التي یدعون من دون اللہ من شیء لما جاء أمر ربك و ما زادوھم غیر تتبیب“[230]؎ (ہم نے اِن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا، اور انہیں ان کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے جبکہ تیرے پروردگار کا حکم آ پہنچا بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑھا دیا) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فلا تدع مع اللہ إلھا آخر فتکون من المعذّبین“[231]؎ (پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و لا تجعل مع اللہ إلھا آخر فتقعد مذموما مخذولا“[232]؎ (اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا کہ آخرش تو برے حالوں بےکس ہو کر بیٹھ رہے گا) مشرک شرک کرنے کے بعد اپنے معبود سے کبھی مدد کی امید باندھتا ہے، کبھی تعریف و ستائش کا خواہشمند ہوتا ہے، اِسی لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مشرک کے شرک کا نتیجہ اس کی توقع کے برخلاف برعکس صورت میں اس کے سامنے آئے گا، اُسے اپنے معبودوں سے عدم تائید و حمایت اور مذمت ہاتھ لگے گی۔ قلب کی پاکیزگی و درستگی اور اس کی فلاح و سعادت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس سے مدد طلب کرنے میں ہے اور دل کی ہلاکت و بدبختی اور اس کا فوری یا دیر سے حاصل ہونے والا ضرر و نقصان مخلوق کی عبادت کرنے اور اس سے مدد مانگنے میں ہے۔“[233]؎
میں کہتا ہوں: اللہ پاک کا یہ ارشاد انسان کی آنکھیں کھول دینے والا ہے: ”و من یشرك باللہ فکأنّما خَرّ من السماء فتخطفہ الطیر أو تھوی بہ الریح فی مکان سحیق“ (سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اُسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی)
دسویں وجہ: ”اہل سنت کا اِس پر اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کئی طرح کی شفاعتوں کا حق حاصل ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اُن شفاعتوں کو اپنی امت کے گنہگاروں کو بخشوانے کے لئے استعمال کریں گے، لیکن علماء نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے قبر کے اندر آپ سے شفاعت طلب کرنے کی بات نہیں کہی ہے، بلکہ یہ ساری شفاعتیں قیامت کے دن کے لئے ہیں۔
اِس نکتہ پر غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اہل سنت کے اجماع کا مخالف ہو اس کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“[234]؎
پہلی بات: شفاعت کی مالک تنہا اللہ کی ذات ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، لہٰذا شفاعت صرف اللہ ہی سے طلب کرنا واجب ہے، مثلاً کوئی اس طرح دعا کرے: اے اللہ! تو مجھے ان لوگوں میں شامل کردے جنہیں قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نصیب ہوگی، چاہے وہ شفاعت کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہوں یا آپ کے علاوہ ہوں۔
دوسری بات: یہ دعوی باطل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم شفاعت کے مالک ہیں، اِس لئے کہ یہ ایک ایسے معاملہ میں اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان شراکت داری ہے جو صرف تنہا اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہے۔
تیسری بات: غیراللہ سے شفاعت طلب کرنا، چاہے وہ نبی ہوں یا ولی ہوں یا نیک انسان ہوں یا اِن کے علاوہ ہوں، شرک اکبر ہے، اِس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی غیراللہ سے رزق، عافیت اور مدد طلب کرے۔ قرآن مجید میں یہ صراحت آچکی ہے کہ غیراللہ سے دعا مانگنا یا اس کو مدد کے لئے پکارنا باطل عمل ہے۔ حق کے متلاشی کے لئے قرآن کی یہ آیت کافی و شافی ہے: ”ذلك بأن اللہ ھو الحق و أنّ ما یدعون من دونہ ھو الباطل“[235]؎ (یہ سب اِس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے یہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے) اور سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ذلك بأن اللہ ھو الحق و أن ما یدعون من دونہ الباطل“[236]؎ (یہ سب (انتظامات) اِس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور ان کے سوا جن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں)
تنہا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کو اللہ نے حق قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے: ”لہ دعوۃ الحق والذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لھم بشیء إلا کباسط کفیہ إلی الماء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ وما دعاء الکافرین إلّا فی ضلال“ (اسی کو پکارنا حق ہے، جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے۔)
چوتھی بات: شفاعت کی دو قسمیں ہیں؛ ایک ثابت شدہ شفاعت اور دوسری وہ شفاعت جس کی نفی کی گئی ہے۔ ثابت شدہ شفاعت وہ ہے جس کے حاصل ہونے کو اللہ تعالیٰ نے ثابت کیا ہے۔ یہ شفاعت اہل ایمان کو دو شرطوں کے ساتھ حاصل ہوگی، ایک رحمٰن کی اجازت دوسرے مشفوع کے لئے اس کی رضا مندی۔ وہ شفاعت جس کی نفی کی گئی ہے وہ ہے جس کے حاصل ہونے کی اللہ تعالیٰ نے نفی کر دی ہے، یہ مشرکین کے لئے شفاعت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شفاعت کے حاصل ہونے کی نفی کر دی ہے۔
پانچویں بات: اس شفاعت کی حکمت لوگوں کے دلوں کو شافع اور مشفوع لہ کی طرف سے ایک اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنا ہے، یہاں پر شفاعت کرنے والوں کو دیکھئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدۂ توحید کے سبب ان کی شفاعت قبول کی، دوسری طرف مشفوع لہ کو دیکھئے جب اس نے ساری عبادات کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت قبول کی۔
چھٹی بات: قیامت کے دن شفاعت کی حکمت مشفوع لہ پر اللہ کے فضل و کرم کا اظہار ہے، اسی طرح اس میں شفاعت کرنے والے کی فضیلت کا بھی اظہار ہے کہ جب اس نے تنہا اللہ تعالیٰ کو عبادت کے لئے خاص کیا تو اللہ نے اسے یہ فضیلت عطا کی، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو جہنم میں داخل کر دے، پھر ان میں سے جسے چاہے بغیر شفاعت کے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے۔
ساتویں بات: جو شخص شفاعت کو پانے کی تمنا رکھتا ہو یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور شفاعت کرنے والے کی شفاعت کا حقدار بننے کا متمنی ہو تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ شفاعت کو اس کے اصل مالک سے طلب کرے اور وہ تنہا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے، پھر اُسے چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کی طرف متوجہ ہو، بکثرت نیک اعمال کو انجام دے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے منع کردہ کاموں سے بچے، شفاعت کے معاملہ میں صرف امیدوں اور آرزؤں پر بھروسہ نہ کرے، کیونکہ شفاعت اور دوسرے اخروی فوائد کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ مسلسل نیک عمل کرنے کو زندگی کا معمول بنا لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”لیس بأمانیکم و لا أماني أھل الکتاب من یعمل سوء یجز بہ و لا یجد لہ من دون اللہ ولیا و لا نصیرا“[237]؎ (حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے، جو برا کرے گا اُس کی سزا پائے گا اور کسی کو نہ پائے گا جو اس کی حمایت و مدد اللہ کے پاس کر سکے۔)
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قیام کرتا تھا، میں آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی دوسری چیزیں مہیا کرتا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کچھ مانگو۔ میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: یا اِس کے علاوہ کوئی اور چیز؟ میں نے عرض کیا: مجھے تو بس یہی چاہیے۔ آپ نے فرمایا: تم بکثرت سجدے کے ذریعہ اِس کی حصولیابی میں میری مدد کرو۔[238]؎
اِسے نقل کرنے والے (اللہ اُسے معاف کرے) کا کہنا ہے کہ غیراللہ سے دعا مانگنے کے باطل ہونے کے عقلی و نقلی دلائل بکثرت موجود ہیں، چاہے یہ دعا شفاعت طلب کرنے کے لئے ہو یا دیگر بہت سے مقاصد کے حصول کے لئے ہو۔ یہاں پر میں نے ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت طلب کرنے سے متعلق تھے۔ شفاعت کے موضوع پر جسے مزید معلومات درکار ہوں وہ قرآن کی اُن آیات کے تعلق سے مفسرین کے کلام کی طرف رجوع کرے جن میں قیامت کے دن غیرمستحق کے لئے شفاعت کے حصول کی نفی کی گئی ہے۔[239]؎
ایک شاعر جس کا نام محمد بن سعد بوصیری مصری ہے، ان لوگوں میں سے ایک ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کی قبر میں اخروی شفاعت طلب کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ اِس شاعر کا زمانہ 608 سے 696ھ کے درمیان کا ہے۔ اُس نے ”البردۃ“ کے نام سے ایک قصیدہ لکھا ہے، اِس میں اُس نے پناہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف رجوع کیا ہے اور قیامت کے دن کی مصیبتوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پناہ چاہی ہے، آپ سے آخرت میں شفاعت طلب کی ہے، اس نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ دنیا و آخرت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکیت ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم غیب کی باتوں کو جانتے ہیں۔ اُس قصیدہ میں اِس قبیل کی متعدد گمراہیوں اور خرافات کا بیان ہے۔ اُس قصیدہ میں درج کفریہ باتوں کو پڑھ اور سن کر موحدین کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میلاد النبی کے نام سے محفل منعقد کرنے والے اِس قصیدہ کو پڑھتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت زندہ ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اِس کی وجہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مزید دور ہی ہوتے ہیں، بلکہ اِس قصیدہ میں درج باتیں اور دعوے سراسر کفر ہیں، اِس لئے کہ اُس قصیدہ کی باتیں اُس دین اسلام کے برخلاف ہیں جس کے ساتھ نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی۔
اُس قصیدہ کے کچھ اشعار یہ ہیں:
یا أکرم الخلق ما لي من ألوذبہ سواك عند حلول الحادث العمم
إن لم تکن یوم المعاد آخذا بیدہ فضلا و إلا فقل یا زلۃ القدم
و إن من جودك الدنیا و ضرّتھا و من علومك علم اللوح و القلم
اس کے بعد اس نے یہ کہا ہے:
فإن لي ذمۃً منہ بتسمیتی محمدا و ھو أوفی الخلق بالذمم
و انسب إلی ذاتہ ما شئت من شرف و انسب إلی قدرہ ما شئت من عظم
فإن فضل رسول اللہ لیس لہ حدّ فیعرب عنہ ناطق بغم
لو ناسبت قدرہ آیاتہ عظما أحیا اسمہ حین یدعی دارس الرمم
(اے وہ جو تمام مخلوقات میں سب سے مکرم ہیں! عمومی حادثہ (قیامت) کے وقت میں آپ کے سوا کسی کی پناہ میں جاؤں۔ اگر آپ نے آخرت میں اپنے فضل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا ہاتھ نہیں تھاما تو پھر میرے قدموں کا پھسلنا یقینی ہے۔ دنیا اور آخرت آپ کی سخاوت کا مظہر ہے اور لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا پرتو ہے۔
میرا نام محمد ہونے کی وجہ سے میرا معاملہ اُن کے ذمہ ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کو ساری مخلوقات سے زیادہ پورا کرنے والے ہیں۔ جس قدر چاہو ان کی ذات سے شرف و عزت کو منسوب کرو اور ان کی قدر و منزلت میں جتنی چاہو عظمت و بزرگی کو منسوب کرو۔ اللہ کے رسول کے فضل کی کوئی حد نہیں ہے کہ کوئی انسان اپنی زبان سے اُس کا اظہار کر سکے، اگر اللہ کی آیات ان کی عظیم قدر و منزلت کے حسب حال ہوتیں تو اُن کا نام سن کر مردے جو قبروں میں بوسیدہ ہو چکے ہیں، زندہ ہو جاتے۔
قصیدہ کے مذکورہ بالا اشعار میں چند قابل غور باتیں یہ ہیں:
پہلی بات: اِس کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم شفاعت کے مالک ہیں، یہ ایک باطل دعوی ہے، اس لئے کہ شفاعت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، شفاعت کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نہیں ہیں۔
دوسری بات: شاعر شفاعت کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دعا مانگ رہا ہے کہ آپ اُسے شفاعت عطا کر دیں، یہ دعا بھی باطل ہے، اس لئے کہ غیراللہ سے دعا مانگنا شرک ہے۔ اِس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، کیونکہ تمام عبادات کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے انجام دینا جائز ہے۔
تیسری بات: اِس کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی دعا کو سنتے ہیں، یہ بےوقوفی کی بات ہے، ایک مردہ انسان زندہ انسان کی بات کو کیسے سن سکتا ہے؟! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا: ”و ما أنت بمسمع من فی القبور“ (جو قبروں میں ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے ہیں) اگر ایک زندہ آدمی ایک زندہ انسان سے ہم کلام ہو اور دونوں کے درمیان قبر کی دبیز مٹی حائل ہو تب بھی وہ اس کی بات نہیں سن پائے گا، پھر جو مردہ ہو وہ قبر کے اندر باہر والوں کی باتیں کیسے سن سکے گا؟!
چوتھی بات: بوصیری نے اپنے اشعار میں قیامت کے دن صرف اور صرف غیراللہ سے پناہ اور سہارا طلب کرنے کی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے: میرا آپ کے سوا کون ہے جس کی میں عمومی حادثہ پیش آنے کے وقت پناہ لوں گا۔ اِس سے اس کی مراد قیامت کا وقوع اور اس کی دہشت و خوفناکی ہے۔
شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن[240]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: بوصیری کی بات بُری اور مکروہ و ناپسندیدہ ہے، کیونکہ اس نے حصر کے ساتھ کہا ہے کہ آپ کے سوا کوئی نہیں جس کی پناہ میں میں جاؤں، اِس میں بڑی مصیبت کے وقت غیراللہ کی پناہ میں جانے کی بات کہی گئی ہے، عمومی حادثہ سے قیامت مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”قل أرأیتم إن أتاکم عذاب اللہ أو أتتکم الساعۃ أ غیراللہ تدعون إن کنتم صادقین“ (آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم سچے ہو) چنانچہ عمومی مصیبت کے وقت غیراللہ کو پکارنا جزئی و انفرادی مصیبت کے وقت غیراللہ کو پکارنے سے زیادہ بدتر ہے، اسی لئے اللہ نے خبر دی ہے کہ اِن بت پرستوں پر جب کوئی بڑی مصیبت آتی[241]؎ یا انہیں اگر عمومی حادثہ یعنی قیامت کا سامنا ہو تو اُس وقت یہ غیراللہ کو نہیں پکارتے ہیں، لیکن بوصیری کا معاملہ اِن بت پرستوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے، کیونکہ یہ قیامت کی سختی میں بھی صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پناہ میں جانے کی بات کرتا ہے۔[242]؎
میں کہتا ہوں: حق بات یہ ہے کہ دنیا کی کسی بڑی مصیبت اور قیامت کے دن کی سختی سے نجات دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی قیامت کے دن بندوں کے لئے پناہ گاہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے مضبوط دلائل سے آراستہ اپنی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”و ما أدراك ما یوم الدین ثم ما أدراك ما یوم الدین یوم لا تملك نفس لنفس شیئاً و الأمر یومئذ للہ“ (تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے، میں پھر کہتا ہوں کہ تجھے کیا معلوم کہ جزا (اور سزا) کا دن کیا ہے، (وہ ہے) جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے۔) بلکہ اِس جاہل کو اللہ کی کتاب میں اس کا یہ ارشاد نظر نہیں آیا جو اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”قل إني لا أملك لکم ضرا و لا رشدا قل إني لن یجیرني من اللہ أحد و لن أجد من دونہ ملتحدا إلا بلاغا من اللہ و رسالاتہ“ (کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں ہے۔ کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا ہے اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی پا نہیں سکتا۔ البتہ (میرا کام) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے) یعنی میرے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی پناہ گاہ اور سہارا نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم وتر کے آخر میں یہ دعا کرتے تھے: ”اللھم إني أعوذ برضاك من سخطك و أعوذ بمعافاتك من عقوبتك و أعوذ بك منك لا أحصي ثناء علیك أنت کما اُثنیت علی نفسك“[243]؎ (اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں، تیری سزا سے تیری معافی اور عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں، میں تجھ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، میں تیری حمد و ثنا کو شمار نہیں کر سکتا ہوں، تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی تعریف کی ہے)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب سوتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار پر رکھ لیتے، پھر یہ دعا کرتے: ”اللھم قني عذابك یوم تبعث عبادك“[244]؎ (اے اللہ! تو اُس دن مجھے اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کرے گا)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ سے دعا کر رہے ہیں کہ وہ انہیں عذاب سے بچا لے جبکہ بوصیری اور اس جیسے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عذاب سے بچانے کی درخواست کر رہے ہیں۔
علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”آپ غور کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، کہ اِس امت کے بہت سے افراد کیسے دین و عقیدہ کے معاملہ میں ایسے غلو میں مبتلا ہوئے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے برخلاف ہے جیسا کہ قصیدہ بردہ نامی قصیدہ کہنے والے نے غلو کی حد پار کرتے ہوئے کہا ہے:
یا أکرم الخلق من ألوذبہ سواك عند حلول الحادث العمم
(اے وہ ذات جو مخلوقات میں سب سے معزز و مکرم ہے، میرا آپ کے سوا کون ہے جس کی میں پناہ لوں گا ایک ایسے دن جس دن عمومی حادثہ واقع ہوگا یعنی قیامت کے دن)
آپ غور کیجئے اِس شخص نے اپنے اِس شعر میں کس طرح غلو کی حد پار کرتے ہوئے پناہ کی تمام جگہوں کی نفی کر دی سوائے اُس ذات کی پناہ کے جو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) ہے؛ کس طرح اس شخص نے اپنے رب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رب کو فراموش کر دیا۔ إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔
اس غلو پسندی کا دروازہ بہت وسیع ہے۔ شیطان نے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور ان کے عقیدہ کو بگاڑ دیا یہاں تک ان لوگوں نے غیر انبیاء تک سے اس طرح کی پناہ طلب کرنے کی بات کہی، اس طرح یہ لوگ بہت سے اسباب کے ذریعہ شرک کے متعدد دروازوں کے اندر داخل ہو گئے۔“
قصیدہ بردہ اور قصیدہ ھمزیہ[245]؎ میں اس قبیل کی بہت سی خرافات اور غلو پسندی کے نمونے موجود ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صالحین اور ائمہ ہدایت کی مدح و توصیف میں مشغول ہونے والے اکثر و بیشتر لوگ اس غلو پسندی کا شکار ہوئے ہیں، اس تعلق سے کوئی حصر و تعیین مشکل ہے۔ کثیر تعداد میں اس قبیل کی گمراہیوں کے نمونے کو پیش کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اصل مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا اور اس غلو سے بچنے کی تاکید کرنا ہے جن کے پاس دل ہے اور وہ ہدایت کی باتوں کو سننے کو تیار ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وذکّر فإن الذکری تنفع المومنین“ (آپ یاد دہانی کیجئے، یاد دہانی مومنوں کو فائدہ دیتی ہے) ”ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ھدیتنا وھب لنا من لدنك رحمۃ إنك أنت الوهاب“ (اے ہمارے رب ہدایت مل جانے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر تو اپنی طرف سے ہمیں رحمت عطا کر تو بہت زیادہ عطا اور بخشش کرنے والا ہے) [246]؎
پانچویں بات: اس شاعر بوصیری نے اسی پر بس نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ ہر چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہے اور تمام علوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے ماخوذ ہیں یا اس کا پرتو ہیں۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے لئے نہ کوئی ملکیت باقی رکھی اور نہ کوئی علم چھوڑا۔ وہ کہتا ہے:
فإن من جودك الدنیا و ضرتھا ومن علومك علم اللوح و القلم
(دنیا و آخرت آپ کے جود و سخا کا مظہر ہے اور لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا پرتو ہے)
اس شعر میں ”ضرتھا“ سے مراد آخرت ہے، کیونکہ وہ دنیا کے بالمقابل چیز ہے، ”ضرۃ“ کے لغوی معنی سوکن کے ہیں۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ[247]؎ کہتے ہیں: اس شعر میں جو بات کہی گئی ہے وہ سب سے بڑا شرک ہے، اس لئے کہ اس نے دنیا و آخرت کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا مظہر کہہ دیا ہے، اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز نہیں ہے۔
شیخ عثیمین مزید کہتے ہیں: شاعر کے قول ”لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا حصہ ہے، کا مطلب یہ ہے کہ لوح و قلم کا جو علم ہے، آپ کا علم و معرفت اس سے کہیں زیادہ ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی علم و تدبیر باقی ہی نہیں بچی۔ العیاذ باللہ۔[248]؎
شیخ صالح بن فوزان الفوزان[249]؎ حفظہ اللہ کہتے ہیں: ”شاعر نے جو کچھ کہا وہ بہت بڑا غلو ہے، العیاذ باللہ، یہ غلو کفر و شرک تک پہنچانے والا ہے، اس نے تو اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں، ہر چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت کر دیا، دنیا و آخرت رسول کی ملکیت، لوح و قلم کا علم رسول کی ملکیت، قیامت کے دن عذاب سے بچانے والے صرف رسول، پھر اس کے بعد اللہ عزوجل کے لئے کیا باقی بچا؟[250]؎
میں کہتا ہوں: یہ جہلاء اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں کیا کہیں گے: ”وإن لنا للآخرۃ و الأولی“ (اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے) ”قل لا أقول لکم عندي خزائن اللہ و لا أعلم الغیب“ (آپ کہہ دیجئے کہ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اللہ کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں) بوصیری نے تو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مشارکت کی بات بھی نہیں کی بلکہ دونوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت بتا دیا۔
اللہ کی قسم، یہ تو کلام اللہ کی تردید و تکذیب ہے۔ میں اس گمراہی سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ[251]؎ کہتے ہیں: اسی کے ساتھ ہم کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں:
فإن من جودك الدنیا و ضرتھا و من علومك علم اللوح و القلم
(دنیا و آخرت آپ کے جود و سخا کا مظہر ہے اور لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا پرتو ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات میں شرک کا ارتکاب ہے۔ اللہ عزوجل جس طرح اپنی ربوبیت و الوہیت میں یکتا و تنہا ہے اسی طرح وہ اپنی صفات میں یکتا و تنہا ہے، کوئی مخلوق اللہ کی صفات میں اس کے ساتھ شریک نہیں ہے، چاہے وہ مخلوق قدر و منزلت میں جتنی بھی بلند ہو اور اس کا رتبہ و مقام جتنا بھی اونچا ہو۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی جائے تو آپ سید البشر ہیں، اس کے باوجود آپ ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ”ہمارے درمیان ایسے نبی ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کل کیا ہوگا“ تو فوراً اسے ٹوکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”تم یہ بات نہ کہو اور اس جملہ سے پہلے جو گا رہی تھی بس اسے ہی دہراؤ“۔ امام بخاری وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
اس لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیب دانی کی جو بات کہی تھی اس سے کئی گنا زیادہ غلو اس مصرعہ میں ہے جسے مسلمان سیکڑوں سالوں سے دہرا رہے ہیں، یعنی ”ومن علومك علم اللوح و القلم“ (لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا پرتو ہے) جن لوگوں کی زبان پر یہ غلو آمیز مصرعہ رواں دواں ہے ان کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آئندہ کل کی بات ہی نہیں جانتے ہیں بلکہ ماضی میں جو کچھ ہو چکا اور آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے قلم نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب جانتے ہیں، بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا ایک معمولی حصہ ہے!! اللہ کی ذات اس قسم کے شرک سے پاک ہے، یہ عظیم بہتان اور کھلی ہوئی سیاہ کاری ہے۔
جو شخص اہل تصوف کی کتابوں سے واقف ہے جسے یہ لوگ ”الحقائق“ کا نام دیتے ہیں اور جشن میلاد سے متعلق کتابوں کا اگر کوئی جائزہ لے تو اسے اس قبیل کے عجیب و غریب خرافات دیکھنے کو ملیں گے۔[252]؎
چھٹی بات: اس کے بعد بوصیری کہتا ہے:
فإن لي ذمۃ منہ بتسمیتی محمداً و ھو أوفی الخلق بالذمم
(میرا نام محمد ہونے کی وجہ سے میرے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و ذمہ ہے اور آپ ساری مخلوق سے زیادہ عہد و ذمہ کو پورا کرنے والے ہیں)
محمد بوصیری اس شعر میں یہ کہہ رہا ہے کہ صرف نام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت ہونے کی وجہ سے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و ذمہ حاصل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شخص کا بھی نام محمد ہے اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و ذمہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے من گھڑت جھوٹ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی امتی کے لئے چاہے اس کا نام محمد ہو یا نہ ہو، عہد و ذمہ صرف اسی صورت میں ہے جبکہ وہ اللہ کا مطیع و فرمانبردار بندہ ہو اور نیکی کے راستہ پر گامزن ہو۔ صرف ایک نام یا کئی ناموں میں اشتراک کی وجہ سے یا قبائل میں اشتراک کی وجہ سے یا شرف نسب کی وجہ سے یا صرف خانوادۂ نبوی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عہد و ذمہ کسی کے لئے نہیں ہے۔ یہ ساری خصوصیات صرف اس صورت میں نفع بخش ہوگی جبکہ بندہ کی جھولی میں نیک اعمال کی سوغات بھی ہو اور اللہ عزوجل کے دین پر اسے استقامت کی سعادت حاصل رہی ہو۔
ساتویں بات: بوصیری کا یہ بھی کہنا ہے:
لو ناسبت قدرہ آیاتہ عظما أحیا اسمہ حین یدعی دارس الرمم
(اگر اللہ کی آیات عظمت میں ان کی قدر و منزلت کے حسب حال ہوتیں تو ان کا نام سن کر مردے جو قبروں میں بوسیدہ ہو چکے ہیں، زندہ ہو جاتے۔)
اس شعر میں بوصیری نے اللہ عزوجل کا استدراک و مواخذہ کیا ہے۔ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ جن نشانیوں کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ہے وہ ان کی قدر و منزلت سے فروتر ہیں اگر وہ آیات و نشانیاں ان کی قدر و منزلت کے حسب حال ہوتیں تو صرف ان کا نام (محمد) لینے سے مردے قبروں میں اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہ حد درجہ مبالغہ آرائی ہے، اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تنے تنہا اس کی مستحق ہے کہ اس کی پناہ حاصل کی جائے اور اس کے جوار کو اختیار کیا جائے، اسی نے دنیا و آخرت کو وجود بخشا ہے، دنیا و آخرت صرف اسی کے جود و سخا کا مظہر ہے، اس کے سوا کسی کے جود و سخا کا اس میں دخل نہیں ہے، وہ تنہا غیب کا علم رکھنے والا ہے، اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کوئی مخلوق چاہے اس کا درجہ و مقام بلند ہی کیوں نہ ہو مثلاً انبیاء و فرشتے، اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت میں اس کے مساوی و مماثل نہیں ہے، نہ اس کے کسی فعل میں اس کے ہم پلہ و ہم رکاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس قسم کے شرک سے بلند و بالا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو ان باتوں پر غور کرے اور غلو آمیز خوشنما باتوں سے دھوکہ نہ کھائے ورنہ وہ ہلاکت کے گڈھے میں گر جائے گا۔
بوصیری کے قصیدہ میں جو شرکیہ باتیں ہیں ان پر علماء کی ایک جماعت نے نکیر و تردید کی ہے، ان نکیر کرنے والوں میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ[253]؎ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے ”تفسیر سورۃ الفاتحۃ“ میں، شیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب[254]؎ نے اپنی کتاب ”تیسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید“[255]؎ میں، علامہ مجدد عبدالرحمٰن بن حسن[256]؎ نے اپنی کتاب ”فتح المجید لشرح کتاب التوحید“[257]؎ میں، علامہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابابطین[258]؎ نے اپنی کتاب ”الردۃ علی البردۃ“[259]؎ میں، علامہ محمود شاکری آلوسی[260]؎ نے اپنی کتاب ”غایۃ الأماني فی الرد علی النبھاني“[261]؎ میں، شیخ عبد الرحمٰن بن محمد بن قاسم[262]؎ نے اپنی کتاب ”السیف المسلول علی عابد الرسول“ میں اور شیخ ڈاکٹر عبدالعزیز بن محمد آل عبداللطیف حفظہ اللہ نے اپنے متعدد مقالات[263]؎ میں بوصیری کی غلو آمیز شرکیہ باتوں کا رد کیا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر علماء[264]؎ نے بھی بوصیری کی گمراہیوں کو بےنقاب کیا ہے۔ ان میں سے جو وفات پا چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور جو باحیات ہیں ان کی حفاظت فرمائے۔
یہاں پر یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اس قصیدہ کو کہنے والا صرف ایک شاعر ہے، وہ نہ تو کوئی فقیہ ہے اور نہ عالم۔ وہ بادشاہوں اور رؤسائے وقت کی مدح سرائی کرتا تھا۔ اس نے عہد ممالیک کے حکمرانوں کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے اور جب عربوں کی ہجو کرنے پر آیا تو بدترین ہجو گوئی کا نمونہ پیش کیا۔ دیکھئے: ”دیوان البوصیری“ کا مقدمہ (صفحہ 5-11) جو محمد سید کیلانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے۔[265]؎
ان باتوں کو نقل کرنے والے کا کہنا ہے (اللہ اسے معاف فرمائے) اللہ تعالیٰ نے ایک چشم کشا سچائی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”والشعراء یتبعھم الغاوون ألم تر أنھم فی کل واد یھیمون وأنھم یقولون ما لا یفعلون“ (شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں اور وہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قصیدہ بردہ موٹے حروف میں نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب طباعت کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے، لوگوں کے درمیان اسے تقسیم کیا جاتا ہے، اسے خوب پڑھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید سے زیادہ اس پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، لا حول و لا قوۃ إلا باللہ العظیم۔[266]؎
یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ شیطان بوصیری اور ان جیسے غلو پسند شعراء کو تین طرح کے غلو میں مبتلا کرکے گمراہی کے اندھیرے میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے:
پہلا غلو: ان کا یہ خیال کہ قیامت کے دن شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہے، آپ اپنی امت میں سے جسے چاہیں گے مشفوع لہ کی فہرست میں شامل کر دیں گے۔ ایسا اعتقاد رکھنا غلط ہے۔ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اندر حصول شفاعت کی شرطیں پائی جائیں گی۔
دوسرا غلو: شیطان نے ان گمراہ شعراء کے لئے اس شرک عظیم کو حب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تعظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا ہے۔
تیسرا غلو: شیطان نے ان لوگوں کو انبیاء و صالحین کی شان میں غلو کرنے میں مبتلا کر دیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر اس سے منع فرمایا ہے: ”تم میری ذات میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے عیسی ابن مریم کی ذات میں غلو کیا، میں ایک بندہ ہوں، لہذا تم لوگ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔[267]؎
یہ بات بھی جاننے کی ہے کہ ان صفات کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و توصیف کرنا جو آپ کے اندر پائی جاتی ہیں، ایک پاکیزہ اور نیک کام ہے، اس پر انسان اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں یہ کہا جائے کہ آپ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں، آپ رسولوں کے سردار ہیں، آپ تمام لوگوں کے سردار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اوصاف کا تذکرہ ان صحابہ کرام کے اشعار میں بھی آیا ہے جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ آپ کی مدح کی تھی مثلاً حسان بن ثابت، کعب بن زھیر، کعب بن مالک اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کے مدحیہ قصائد میں آپ کے ان اوصاف کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ پاکیزہ اور صاف ستھرے اشعار ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشعار کو سنا تھا اور انھیں قبول کیا تھا، ان میں ذرا بھی غلو کی آمیزش نہیں ہے، ان میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی اوصاف کا بیان ہے۔[268]؎
شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں: عرب کے فصیح اللسان شعراء نے اپنے اشعار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی، ان میں سے کوئی بھی اس ممنوع حد کے قریب نہیں گیا جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ ان شعرائے عرب نے نبوت کے ذریعہ آپ کی مدح و توصیف کی، اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فضائل اور اخلاق حمیدہ کا تذکرہ کیا جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کی مدح و توصیف کرنے والے ان شعرائے عرب میں حسان اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہما خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس بوصیری نے اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ثابت شدہ خصوصیات اور فضائل و مناقب کا تذکرہ نہیں کیا، بلکہ اس نے الحاد پسند مولدین[269]؎ شعراء کے طرز سخن کو اختیار کرکے آپ کی شان میں غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتیں کہہ دیں جو رب العالمین کے ساتھ شرک پر مبنی ہیں اور ان تعلیمات کے برخلاف ہیں جن کے ساتھ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے۔[270]؎
برعی[271]؎ کا قصیدہ بھی ان غلو آمیز قصائد کے زمرہ میں آتا ہے جن میں مخلوق سے دعا مانگنے اور شفاعت طلب کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قصیدہ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
یا سیدي یا رسول اللہ یا أملی یا موئلی یا ملاذي یوم یلقاني
ھبنی بجاھك ما قدمت من زلل جودا و رجّح بفضل منك میزاني
واسمع دعائی واکشف ما یساورنی من الخطوب و نفّس کل أحزاني
فأنت أقرب من تُرجی عواطفہ عندي و إن بعُدت داري و أوطاني
إنی دعوتك من نیابتی ”برع“ وأنت أسمع من یدعوہ ذوشان
فامنع جنابی و أکرمني وصل نسبي برحمۃ و کرامات و غفران
(اے میرے آقا، اے اللہ کے رسول، اے میری امید، اے میری امیدوں کے مرکز، اے میری پناہ گاہ، اس دن جس دن میری لغزشوں سے میرا سامنا ہوگا، آپ مجھ پر اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جاہ کا کچھ حصہ عنایت کیجئے اور اپنے فضل سے میرے میزان عمل کو جھکا دیجئے۔ آپ میری دعا کو سن لیجئے، جن مصائب نے ہمیں گھیر لیا ہے انہیں دور کر دیجئے اور میرے تمام غموں کا مداوی کر دیجئے، جن کی مہربانیوں کی امید کی جاتی ہے آپ ان میں میرے نزدیک سب سے قریب ہیں، اگرچہ میرا گھر اور وطن بہت دور ہے۔ میں نے اپنے شہر ”برع“ سے آپ کو پکارا ہے، جنہیں لوگ پکارتے ہیں ان میں آپ سب سے زیادہ سننے والے اور شان والے ہیں۔ مجھے اپنا تحفظ عطا کیجئے، مجھے اپنے فضل و کرم سے نواز دیجئے، اور اپنی رحمت، کرم اور مغفرت سے میرا رشتہ جوڑ دیجئے۔)
یہ کلام بھی پچھلے کلام کی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک ٹھہرانے، آپ کو مدد کے لئے پکارنے اور آپ سے التجاء و فریاد جیسی گمراہیوں سے آلودہ ہے، ہم اللہ دیان سے منہ موڑ کر شرک اور خسارہ میں مبتلا ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے طالب ہیں۔
ایک ضروری تنبیہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جشن منانے کے لئے جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں ان میں شرک پر مبنی مدحیہ قصیدہ ”البردۃ“ وغیرہ کو خوب پڑھا جاتا ہے۔ ان مجالس میں ان شرکیہ قصائد کو پڑھنے کے علاوہ دوسرے منکرات بھی ہوتے ہیں، ان منکرات میں سے ایک لوگوں کا یہ اعتقاد بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان جشن ولادت کی مجلسوں میں جسمانی یا روحانی طور پر حاضر ہوتے ہیں۔ اس معاملہ میں لوگوں کے الگ الگ طرح کے دعوے ہیں جن کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔
ان مجالس میلاد میں صوفیوں کا رقص، دُف بجانا، سرود و موسیقی کا استعمال، مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور بدعت پر مبنی اذکار جیسے منکرات بھی انجام پاتے ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی تعجب بھی نہیں ہوتا، کیونکہ انسان جب راہ حق سے منحرف ہو جاتا ہے تو انحرافات کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
اہل بدعات نے اللہ کے دین کو الٹ دیا، انہوں نے منکر کو معروف اور معروف کو منکر بنا دیا، بعد میں جہلاء اور کم عقل لوگ ان ہی کے نقش قدم پر چل پڑے۔
کسی باحث نے جشن ولادت نبوی کے حکم سے متعلق علماء کے کچھ فتاوے کو جمع کر دیا ہے، یہ کتاب دو جلدوں میں دستیاب ہے، جنہیں استفادہ کی خواہش ہو وہ اس مجموعۂ فتاوی کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔[272]؎
قبروں میں مدفون نیک لوگوں کو پکارنے اور ان سے دعا کرنے والے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی اس دعا کے ذریعہ قبر والوں کو قبولیت دعا کے لئے وسیلہ بناتے ہیں، کیونکہ وہ نیک ہیں جبکہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اصل کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، وہی کائنات میں تصرف کرنے والا ہے اور وہی بندوں کے امور و معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے۔
یہ لوگ قبر والوں کو وسیلہ بنانے کے جواز پر اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں: ”یا أیھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وابتغوا إلیہ الوسیلۃ“[273]؎ (مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو)
یہ استدلال تین وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ: نیک لوگوں کو پکارنا یا ان سے دعا مانگنا مقصود کے حصول کے لئے اصلاً شرعی وسیلہ نہیں ہے، بلکہ یہ واضح شرک ہے۔ قبر والوں سے دعا مانگنے سے دعا کرنے والے کو کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دعا کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اسی لئے شریعت میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ دعا عبادت ہے اور شریعت میں جن اعمال پر عبادت کا اطلاق ہوتا ہے انہیں غیر اللہ کے لئے انجام دینا شرک ہے اور شرک دین اسلام کے منافی ہے۔
دوسری وجہ: اس آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں سے دعا مانگنا قبولیت دعا کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اس آیت میں صرف اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لئے وسائل اختیار کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے اور جب مطلق طور پر وسائل کی بات آئی ہو تو اس سے وہ وسائل مراد ہوتے ہیں جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے۔ اس آیت میں صراحتاً یا اشارتاً یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ دعا یا کسی اور طریقہ سے مخلوق کے تقرب کے لئے سوال کیا جائے۔ وسیلہ کی تفسیر میں یہ رہے مفسرین کے اقوال:
امام ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اللہ جل ثناءہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ اے لوگو! جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی خبروں، اس کے اجر و ثواب کے وعدوں اور اس کی سزا کی وعیدوں کے سلسلہ میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کی ہے، تم اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے حکموں پر چلو اور اس کے منع کردہ کاموں سے رک جاؤ، تم نیک اعمال کو انجام دے کر اپنے مومن ہونے اور اپنے رب اور اپنے رسول کی تصدیق کا ثبوت دو۔ ”وابتغوا إلیہ الوسیلۃ“ یعنی رب کو خوش کرنے والے عمل کے ذریعہ اس کی قربت تلاش کرو۔“ اس کے بعد ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عطاء، سدی، مجاہد، قتادہ، حسن، عبداللہ بن کثیر اور ابن زید سے وسیلہ کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ اس سے مراد نیک عمل کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن بندوں کو تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جب تقوی اور اطاعت کا ذکر ایک ساتھ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے محارم سے باز رہنا اور منہیات کو ترک کر دینا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: ”وابتغوا إلیہ الوسیلۃ“ سفیان ثوری نے عن طلحہ عن عطاء عن ابن عباس کی سند سے نقل کیا ہے کہ اس سے تقرب مراد ہے۔ مجاہد، ابووائل، حسن، قتادہ، عبداللہ بن کثیر، سدی اور ابن زید وغیرہ نے بھی وسیلہ کی یہی تفسیر کی ہے۔ قتادہ کا قول ہے: ”وابتغوا إلیہ الوسیلۃ“ کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی اطاعت اور اسے خوش کرنے والے عمل کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرو۔ مفسرین نے وسیلہ کی تفسیر میں یہی باتیں کہی ہیں، اس معاملہ میں مفسرین کے یہاں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[274]؎
علامہ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”آپ یہ جان لیں کہ جمہور علماء کے نزدیک آیت میں ”الوسیلۃ“ سے مراد نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ تقرب اس کے احکام کی تعمیل کرنے، اس کے منع کردہ کاموں سے بچنے، شریعت محمدی کی پیروی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کا مظاہرہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کو پانے اور دنیا و آخرت کی بھلائی کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
اصلاً وسیلہ اس راستہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے قریب کرتا ہے اور اس چیز تک پہنچا دیتا ہے۔ علماء کے اجماع کے مطابق وسیلہ سے مراد نیک عمل ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا واحد ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ وسیلہ کا یہی مفہوم درست ہے اور اس کی مزید وضاحت قرآن مجید کی دیگر بہت سی آیات سے بھی ہوتی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ”وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا“ (رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رُک جاؤ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”قل أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول“ (آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ اللہ کی اور رسول کی اطاعت کرو) ان کے علاوہ بھی قرآن میں اس معنی کی بہت سی آیات موجود ہیں۔“
اس کے بعد شیخ محمد امین شنقیطی کہتے ہیں: ”وسیلہ کے معنی و مفہوم کے سلسلہ میں محقق بات وہی ہے جو عام علماء کا موقف ہے، یعنی یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق عبادت کو خالصتاً اللہ کے لئے انجام دے کر اس کا تقرب حاصل کرنا وسیلہ کہلاتا ہے۔
اس تحقیق کو سامنے رکھنے کے بعد آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ جہلاء کی اتباع کرنے والے بہت سے ملحدین و مدعیان تصوف کا یہ سمجھنا کہ آیت میں وسیلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی شیخ وغیرہ کو اپنے اور رب کے درمیان واسطہ بنا لے، اُن کا جہالت، اندھےپن اور کھلی گمراہی میں بھٹکنا اور کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو واسطہ بنانا کفار کے کفر کی بنیاد رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اِس کی صراحت کی ہے مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: ”ما نعبدھم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی“ (ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”و یقولون ھؤلاء شفعاؤنا عند اللہ قل أتنبئون اللہ بما لا یعلم فی السماوات و لا فی الأرض سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون“ (اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے)
ہر مکلف کے لئے اللہ کی رضا و خوشنودی، اس کی جنت اور اس کی رحمت تک پہنچنے کے راستہ کو جان لینا ضروری ہے اور وہ راستہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہے۔ جو شخص اِس راستہ سے منحرف ہو گیا وہ سیدھے راستہ سے بھٹک گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”لیس بأمانیکم و لا أمانی أھل الکتاب من یعمل سوء یجز بہ“ (حقیقت حال نہ تو تمہاری آرزو کے مطابق ہے اور نہ اہل کتاب کی امیدوں پر موقوف ہے، جو بُرا کرے گا اس کی سزا پائے گا) وسیلہ کی جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے وہی معنی و مفہوم اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد میں بھی ہے: ”أولئك الذین یدعون یبتغون إلی ربھم الوسیلۃ أیھم أقرب“[275]؎ (جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ اُن میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے)
وسیلہ کے تعلق سے اوپر جو باتیں بیان کی گئی ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ غیراللہ کو پکارنے اور غیراللہ سے دعا مانگنے کو وسیلہ، واسطہ اور شفاعت وغیرہ کا نام دینا غلط ہے، اِس لئے کہ قرآن مجید میں وسیلہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ تقرب اطاعت اور تقرب کے مشروع اعمال کو انجام دے کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تیسری وجہ: اللہ تعالیٰ کو حقیقی کارساز، موثر اور مدبر کائنات ماننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جبکہ بندہ دعا وغیرہ کے ذریعہ غیراللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہو۔ مشرکین پہلے بھی اور اب بھی اِس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز اور مدبر کائنات ہے، یہ معروف طور پر توحید ربوبیت ہے، اِسی کے ساتھ وہ مشرکین غیراللہ کو پکارتے تھے اور اس سے دعائیں مانگتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے کافر ہونے کی صراحت کر دی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ تمام عبادات کو صرف اللہ کے لئے خاص نہ کیا جائے، اس اعتبار سے غیراللہ سے دعا مانگنے والا مشرک کہلائے گا، یہاں تک کہ وہ صرف اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کرکے دعا وغیرہ عبادات کو صرف اللہ کے لئے انجام دینے لگے۔
اوپر کی باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیر اللہ سے دعا مانگنے کو وسیلہ کہنا غلط ہے، غیراللہ سے دعا مانگنا ہر حال میں شرک کہلائے گا، اِس شرک کو وسیلہ کا نام دینے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہوگی، اس لئے کہ اعتبار حقیقت کا ہے، نام کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ سے دعا مانگنے والوں کو مشرک قرار دیا ہے جبکہ وہ لوگ مختلف قسم کے اعمال کے ذریعہ اپنے معبودان باطلہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور اپنے اِس عمل کو شفاعت و وسیلہ کا نام دیتے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مشرکین سے جنگیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن ناموں کی پرواہ نہیں کی جن ناموں سے یہ اپنے معبودوں کو پکارتے تھے اور یہ لوگ اپنے عمل کو وسیلہ و شفاعت قرار دیتے تھے، آپ نے اِس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اِن کے دئیے ہوئے ناموں کا وہی حال ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی زبان سے کہلایا ہے: ”ما تعبدون من دونہ إلا أسماء سمیتموھا أنتم و آباؤکم ما أنزل اللہ بھا من سلطان“ (اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اِن کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی) اور ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا: ”قد وقع علیکم من ربکم رجس و غضب أتجادلونني فی أسماء سمیتموھا أنتم و آباؤکم ما أنزل اللہ بھا من سلطان“ (بس اب تم پر اللہ کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے، کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ٹھہرا لیا ہے؟ اِن کے معبود ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں بھیجی)
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں: پہلے دور کے مشرکین لفظ ”الالھیۃ“ سے وہی مراد لیتے تھے جو آج ہمارے زمانہ کے لوگ لفظ ”السید“ سے مراد لیتے ہیں۔ آج کے دور میں ”السید“ سے اکثر مشرکین کے یہاں وہی مراد ہوتا ہے جسے مصیبت کے وقت پکارا جاتا ہے اور اس سے فریاد کی جاتی ہے، پریشانی کے وقت اُس سے امید وابستہ کی جاتی ہے، اس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، تعظیم و تقرب کی غرض سے اس کے لئے جانور قربان کئے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اُسے ”ولی“ کا نام دیتے ہیں جیسا کہ یہ اصطلاح مصر میں رائج ہے، کچھ لوگ اِسی کو ”السر“ (پوشیدہ و غیر مرئی طاقت) کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں کے اندر غیرمرئی و پوشیدہ طاقت ہے یا وہ پوشیدہ طاقت و اثرات رکھنے والوں میں سے ہے۔ یہ بات بہت مشہور و معروف ہے، نئی نئی اصطلاحات وجود میں آتی رہتی ہیں اور زبانیں بدلتی رہتی ہیں۔ فقہاء نے معانی و مقاصد کا لحاظ کرکے احکام مرتب کئے ہیں، اگرچہ ناموں میں فرق ہو اور زبانیں بدل گئی ہوں۔[276]؎
امام محمد بن اسماعیل صنعانی[277]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: میت کے سامنے مال خرچ کرنے کی نذر ماننا، قبر کے پاس جانور ذبح کرنا، قبر والے کو وسیلہ بنانا، اس سے حاجتیں طلب کرنا بعینہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کا عمل ہے۔ یہی کام وہ لوگ ان کے سامنے کرتے تھے جنہیں وہ بت اور مورتی کا نام دیتے تھے۔ قبر پرست یہی کام اُس کے لئے کرتے ہیں جنہیں یہ ولی، قبر اور مزار کا نام دیتے ہیں، لہٰذا ناموں کا کوئی اثر و اعتبار نہیں ہے، صرف معانی و مفاہیم کا اعتبار ہے، لغوی، عقلی اور شرعی ہر اعتبار سے یہی ضروری ہے۔ کسی نے پانی کہہ کر شراب پی لی تو وہ شراب نوشی کرنے والا ہی کہلائے گا، وہ شراب نوشی کرنے والے کی سزا کا ہی مستحق ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُس کی سزا میں کچھ اضافہ ہی ہو جائے کیونکہ اس نے شراب کو پانی کہہ کر تدلیس اور کذب بیانی کی۔
احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ بعد کے ادوار میں ایسے لوگ آئیں گے جو شراب نوشی کریں گے اور شراب کو کسی اور نام سے پکاریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا تھا، آج فاسقوں کی ایک جماعت ظاہر ہو چکی ہے جو شراب پیتے ہیں اور اُسے نبیذ کا نام دیتے ہیں۔
سب سے پہلے جس نے کسی چیز کو حقیقت سے ہٹ کر سننے والے کے لئے ایک خوشنما نام دے کر اللہ کے غصہ کو بھڑکایا اور اس کی نافرمانی کی وہ ابلیس لعین ہے۔ اس نے ابوالبشر آدم علیہ السلام سے کہا تھا: ”یا آدم أدلك علی شجرۃ الخلد و ملك لا یبلی“ (اے آدم! کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو) چنانچہ ابلیس نے اُس درخت کو دائمی زندگی کے درخت کا نام دیا جس کے قریب جانے سے اللہ نے آدم علیہ السلام کو منع کیا تھا، یہ خوشنما نام دینے کا مقصد آدم علیہ السلام کی طبیعت کو اس کی طرف مائل کرنا، اس درخت کے قریب جانے کے لئے ان کے اندر شوق و نشاط پیدا کرنا اور ایک نیا نام ایجاد کرکے ان کو دھوکہ دینا تھا۔[278]؎
امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: دور حاضر کا ایک فساد و بگاڑ جو انسان کو اسلام کی چہار دیواری سے باہر کر دیتا ہے اور دینی اعتبار سے اُسے بلندی سے سر کے بل نیچے پٹخ دیتا ہے، یہ ہے کہ بہت سے لوگ عمدہ قسم کے چوپائے اور جانور لے کر آتے ہیں اور قبر کے پاس قبر والے سے تقرب کے حصول کی نیت سے اُسے ذبح کرتے ہیں، قبر والے سے اُن مُرادوں کو پانے کی امید رکھتے ہیں جنہیں وہ دل میں چھپائے ہوتے ہیں، ان جانوروں کو غیراللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ بتوں اور استھانوں کو پوجتے ہیں، کوئی فرق نہیں کہ یہ نصب کردہ پتھروں کے سامنے جنہیں یہ بت کہتے ہیں، جانور قربان کریں یا کسی مردہ کی قبر کے پاس جانور ذبح کریں جسے یہ قبر کہتے ہیں۔ ناموں کے اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، حلت و حرمت میں ناموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، صرف حقیقت و ماہیت کا اعتبار ہے۔ اگر کسی نے شراب کو کوئی اور نام دے کر اُسے نوش کر لیا تب بھی وہ شراب نوشی ہی کہلائے گا اور شراب نوشی کرنے والے ہی کے حکم میں ہوگا، اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[279]؎
وہ مزید کہتے ہیں: شرک یہ ہے کہ بندہ غیراللہ کے لئے وہ کام کرے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، چاہے اُس غیراللہ کو وہ نام دیا جائے جو اہل جاہلیت دیا کرتے تھے یا اُسے کسی دوسرے نام سے موسوم کیا جائے۔ صرف نام کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جو یہ نہیں جانتا یا ماننے کو تیار نہیں ہے وہ جاہل ہے، وہ اِس کا مستحق نہیں ہے کہ اہل علم کی طرح اُس سے بات کی جائے۔[280]؎
شیخ عبداللہ ابابطین رحمہ اللہ اِس شبہ کے جواب میں کہتے ہیں: کسی چیز کا نیا نام رکھ دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اِس سے حکم نہیں بدلتا ہے، نام بدل جانے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے وارد ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب کو کسی اور نام سے موسوم کریں گے، یہی حکم اُس صورت میں بھی ہے جبکہ کوئی زنا کو نکاح کا نام دے دے، نیا نام پرانے نام کو نہ تو زائل کرتا ہے اور نہ اِس کی وجہ سے حکم بدلتا ہے۔ اگر کسی نے سودی لین دین کیا تو وہ سودخور ہی کہلائے گا، اگرچہ وہ اسے سود کے علاوہ کوئی اور نام دیتا ہو، اِسی طرح کسی بھی شرکیہ کام کو کرنے والا مشرک ہی کہلائے گا، اگرچہ وہ اُسے وسیلہ و شفاعت وغیرہ کا نام دیتا ہو۔ شیطان کو جب یہ احساس ہوا کہ انسانی نفوس مشرکین کے عمل کو شرک فی الالوہیت قرار دینے سے متنفر ہوتے ہیں تو اُس نے اُسی شرکیہ کام کو ایک دوسرے قالب میں پیش کر دیا جو لوگوں کے دلوں کو بھاتا ہے۔[281]؎
شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی رحمہ اللہ اِس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”و من الناس من یتخذ من دون اللہ أندادا یحبونھم کحب اللہ و الذین آمنوا أشد حبا للہ“[282]؎ (بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوروں کو اللہ کا شریک ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں) اِس آیت میں ”یتخذ“ (بنا لیتے ہیں) سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاً اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر و مدمقابل نہیں، لوگوں نے غلط طریقہ سے کج فہمی کی بنیاد پر اللہ کا ہمسر بنا لیا ہے۔ مشرکین نے کچھ مخلوقات کو جو اللہ کا ہمسر بنایا ہے تو یہ صرف الفاظ کی حد تک ہی ہے، یہ معنی سے خالی کھوکھلا لفظ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و جعلوا للہ شرکاء قل سموھم أم تنبئونہ بما لا یعلم فی الأرض أم بظاھر من القول“ (ان لوگوں نے اللہ کے شریک ٹھہرائے ہیں، کہہ دیجئے ذرا ان کے نام تولو، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں یا صرف اوپری اوپری باتیں بتا رہے ہو) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”إن ھي إلّا أسماء سمیتموھا أنتم و آباؤکم ما أنزل اللہ بھا من سلطان إن یتبعون إلّا الظن“ (دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لئے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری، یہ لوگ تو صرف اٹکل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں) کوئی مخلوق اللہ کی ہمسر نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے کہ اللہ خالق ہے اور اس کے علاوہ سب مخلوق ہے، رب رزاق ہے اور اس کے علاوہ سب مرزوق (جسے رزق عطا کیا گیا ہے) ہے، اللہ غنی ہے اور باقی سب اس کے محتاج ہیں، اللہ ہر اعتبار سے کامل ہے اور اس کے بندے ہر اعتبار سے ناقص ہیں، اللہ نفع و نقصان کا مالک ہے، مخلوق کو نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ اِس سے ان کا باطل ہونا معلوم ہو گیا جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود اور اللہ کا ہمسر بنا لیا ہے، چاہے وہ کوئی فرشتہ ہو یا نبی ہو یا نیک انسان ہو یا بت ہو یا اِن کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کامل محبت اور مکمل عاجزی کا مستحق ہے، اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ کہہ کر تعریف کی ہے: ”و الذین آمنوا أشد حبا للہ“ (مومنین اللہ کی محبت میں بہت سخت ہیں) یعنی یہ اللہ کا ہمسر بنانے والے لوگ جتنی محبت اپنے باطل معبودوں سے کرتے ہیں مومنین اِس سے کہیں زیادہ محبت اللہ سے کرتے ہیں، اس لئے کہ مومنین نے اپنی محبت کو اللہ کے لئے خالص کیا ہے جبکہ اِن لوگوں نے اُس محبت میں دوسرے کو شریک کیا ہے، مومنین نے اس ذات سے محبت کی ہے جو حقیقی محبت کی مستحق ہے جس کی محبت بندہ کے لئے صلاح و فلاح اور سعادت و کامرانی کی ضامن ہے، دوسری طرف مشرکین نے اس سے محبت کی ہے جو محبت کی مستحق ہی نہیں ہے، کیونکہ غیراللہ سے اللہ والی محبت بندہ کی بدبختی، فساد و بگاڑ اور زندگی میں انتشار کا پیش خیمہ ہے۔“[283]؎
خلاصۂ کلام یہ کہ جس نے اوپر بیان کردہ عبارت کی اقسام یعنی محبت، تعظیم، خوف، امید، دعا، توکل، ذبح، نذر وغیرہ کو غیراللہ کے لئے انجام دیا تو گویا اس نے اُس غیراللہ کی عبادت کی، اسے معبود بنا لیا اور اُسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کے خالص حق میں شریک کر دیا، اگرچہ وہ اپنے اِس فعل کو معبود بنانے، عبادت کرنے اور شریک ٹھہرانے کا نام نہ دیتا ہو۔ ہر صاحب عقل کو یہ معلوم ہے کہ نام کی تبدیلی سے اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی ہیں۔
اگر زنا، سود اور شراب کو کوئی دوسرا نام دے دیا جائے تو نام بدل جانے سے زنا، سود اور شراب کی حقیقت نہیں بدل جائے گی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شرک کی حرمت کی وجہ بذات خود اس کا قبیح ہونا ہے، نیز اِس میں رب پر تہمت، اس کی تنقیص اور مخلوقات سے اس کی تشبیہ پائی جاتی ہے، لہٰذا شرکیہ عمل کا صرف نام بدل جانے سے اس کے مفاسد ختم نہیں ہو جائیں گے، چاہے اس شرکیہ عمل کو وسیلہ، شفاعت، نیک لوگوں کی تعظیم و توقیر وغیرہ جو بھی نام دے دیا جائے۔ مشرک مشرک ہی کہلائے گا، چاہے مانے یا نہ مانے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خبر دی ہے کہ آپ کے امتیوں کی ایک جماعت سود کو بیع (خرید و فروخت) کا نام دے کر اُسے حلال کر لے گی، کچھ لوگ شراب کو کوئی دوسرا نام دے کر اُسے حلال کر لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والوں کی مذمت بھی کی ہے۔ اگر حکم کا تعلق نام سے ہوتا اور علت سے نہ ہوتا تو یہ لوگ مذمت کے مستحق نہ ہوتے، قدیم و جدید ہر دور میں شیطان نے بنی آدم کو اِسی طرح سے مکر و فریب کا شکار بنایا ہے۔ شیطان نے نیک لوگوں کی تعظیم و توقیر کے خوبصورت قالب میں ان کے سامنے شرک کو پیش کیا ہے۔ اور اُس شرک کو وسیلہ و شفاعت وغیرہ کا نام دے کر اُس نے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ غیراللہ سے دعا مانگنا اور اُسے پکارنا شرک اکبر ہے، چاہے اِس کے لئے جو بھی ذریعہ اختیار کیا جائے۔ جو شخص دعا کی قبولیت کے لئے شرعی وسیلہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اُسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں وارد قبولیت دعا کے اسباب کو اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔[284]؎ یہاں غیراللہ سے دعا مانگنے کو وسیلہ کا نام دینے سے متعلق شبہ کا جواب مکمل ہو گیا اور یہ واضح ہو گیا کہ وسیلہ کی یہ صورت باطل ہے۔ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔
انبیاء اور نیک لوگوں سے دعا مانگنے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مشرکین جن کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی وہ کلمۂ توحید ”لا إلہ إلّا اللہ“ کی گواہی نہیں دیتے تھے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب بھی کرتے تھے، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے منکر تھے، قرآن کی تکذیب کرتے تھے، وہ قرآن کو جادو و کہانت کہتے تھے، اس کی وجہ سے انہیں کافر قرار دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی، لیکن یہ لوگ جو قبر والوں سے دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یہ تو کلمہ لا إلہ إلا اللہ و محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں، نماز، روزہ اور زکاۃ و حج جیسے فرائض کو بھی ادا کرتے ہیں، تب آپ لوگ ان کی تکفیر کیوں کرتے ہیں؟
جواب: یہ بات تین وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ: کلمۂ لا إلہ إلا اللہ کو صرف زبان سے ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کی شرطوں کو پورا نہ کیا جائے۔ اور اس کلمہ کی شرط یہ ہے کہ انسان اللہ کے علاوہ ہر کسی کی ہر قسم کی عبادت و بندگی سے دست کش ہو جائے، مثلاً دعا، ذبح اور نذر وغیرہ۔
جن مشرکین کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی انہیں معلوم تھا کہ کلمۂ لا إلہ إلا اللہ کا تقاضہ یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اللہ کے علاوہ ہر کسی کی عبادت کو ترک کر دیا جائے، اسی لئے وہ لوگ اس کلمہ کو زبان پر لانے سے شدت کے ساتھ انکاری تھے۔ جو شخص بھی انصاف اور غیر جانبداری کے ساتھ ان دونوں فریق کے درمیان موازنہ کرے گا وہ جان لے گا کہ اولین دور کے مشرکین کفر کے ارتکاب میں موجودہ دور کے قبر پرستوں کے مساوی تھے، دونوں غیر اللہ کو پکارتے اور ان سے دعا مانگتے تھے، دونوں کے درمیان صرف کلمہ توحید کو زبانی طور پر ادا کرنے یا نہ کرنے کا فرق تھا۔ اولین دور کے مشرکین کلمۂ شہادت کو اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے تھے اور غیر اللہ کو پکارتے تھے اور آج کے قبر پرست کلمۂ شہادت کو زبان سے ادا کرتے ہیں اور غیر اللہ کو پکارتے ہیں، اس طرح ان کا عمل ان کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ یہ لوگ کلمہ لا إلہ إلا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) پڑھتے تو ہیں لیکن انہوں نے اللہ کے ساتھ معبود بھی بنا رکھا ہے جسے وہ پکارتے ہیں اور ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ یہی ان کی تکفیر کی بنیاد ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بارہا کلمۂ ”لا إلہ إلا اللہ“ کے تقاضوں پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے[285]؎ اور اسے مومنوں کے لئے واجب قرار دیا ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہو سکتا ہے۔ اور اس کلمۂ توحید کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی بھی عبادت کی جاتی ہے انسان اس سے دست کش ہو جائے، چاہے غیر اللہ کی وہ عبادت قبر والوں سے دعا مانگنے کی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں ہو۔ ابو مالک اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے کلمۂ لا إلہ إلا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جن چیزوں کی پرستش کی جاتی ہے، ان کا انکار کیا تو اس کی جان و مال حرام ہو گیا اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔[286]؎
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں: کلمۂ لا إلہ إلا اللہ کے مفہوم کو بیان کرنے والی یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے۔ اس حدیث میں کلمۂ توحید کو صرف زبان سے ادا کرنے، اس کے معنی و مفہوم کو جاننے، اس کا اقرار کر لینے، صرف ایک اللہ سے دعا مانگنے کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت قرار نہیں دیا گیا ہے جب تک ان سب کے ساتھ غیر اللہ کی عبادت کا انکار نہ کیا جائے۔ اگر اس معاملہ میں ادنی درجہ کا شک یا توقف ہوگا تو اس کی جان و مال کی حرمت باقی نہیں رہے گی۔ یہ مسئلہ جتنا زیادہ نازک اور اہم تھا اسی حساب سے دلنشیں انداز میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے اور اس مسئلہ میں اختلاف کرنے والے کے لئے زبردست طریقہ سے حجت تمام کر دی گئی ہے۔[287]؎
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان موجود تھے، اس اثنا میں جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس سے ملاقات، اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان لائیں۔
جبریل علیہ السلام نے دریافت کیا اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں، نماز قائم کریں، فرض کردہ زکاۃ ادا کریں اور رمضان کے روزے رکھیں۔[288]؎
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت میں جانے کا مستحق بنا دے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔[289]؎
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں آیا کہ وہ اللہ کی عبادت کرتا تھا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا، نماز قائم کرتا تھا، رمضان کے روزے رکھتا تھا[290]؎، زکاۃ ادا کرتا تھا اور کبیرہ گناہوں سے بچتا تھا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔۔۔۔ الحدیث[291]؎
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، ایک دن میں دوران سفر آپ کے بہت قریب ہو گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو مجھے جنت کا مستحق بنا دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات کے لئے سوال کیا ہے، اللہ تعالیٰ جس کے لئے آسان کر دے اس کے لئے آسان بھی ہے، تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔[292]؎
شیخ سُلیمان بن سحمان[293]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: عرب کے کفار اِس بات سے واقف تھے کہ جب وہ کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کو اپنی زبان سے ادا کریں گے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ سارے معبودوں کی نفی کر دی اور عبادت کو ایک اللہ کے لئے ثابت کر دیا جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اِسی وجہ سے اُن کفار نے کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کو اپنی زبان سے ادا کرنے سے انکار کیا اور اِس معاملہ میں زبردست سرکشی کا مظاہرہ کیا، وہ ظالم اِس کلمۂ توحید کا اخیر تک انکار ہی کرتے رہے، ان لوگوں نے کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کا لفظاً و معناً ہر اعتبار سے انکار کیا۔ اِسی وجہ سے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن سے کہا: ”قولوا لا إلہ إلا اللہ“ (تم لوگ زبان سے کلمہ لا إلہ إلا اللہ کہو) تو اِس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا: ”أجعل الآلھۃ إلھا واحدا إن ھذا الشیء عجاب“ (کیا اس نے سارے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا یہ تو عجیب و غریب بات ہے) اللہ تعالیٰ نے اُن کفار کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: ”إنھم کانوا إذا قیل لھم لا إلہ إلا اللہ یستکبرون و یقولون أإنا لتارکوا آلھتنا لشاعر مجنون“ (یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں)
آج کے مشرکین کا معاملہ اِس کے برخلاف ہے۔ یہ لوگ کلمہ لا إلہ إلا اللہ کو اپنی زبان سے دہراتے ہیں، اِسی کے ساتھ وہ غیراللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں، اِن غیراللہ کو اللہ کی عبادت میں شریک کرتے ہیں، یہ لوگ عبادت کی مختلف شکلوں دعا، خوف، محبت، امید، توکل، فریاد، استعانت، ذبح، نذر، التجاء و پناہ اور طلب شفاعت وغیرہ کو غیراللہ کے لئے انجام دیتے ہیں۔ جس نے کسی عبادت کو غیراللہ کے لئے انجام دیا اُس نے گویا اس غیراللہ کی عبادت کی، اُسے اپنا معبود بنا لیا اور اللہ کے لئے خاص حق میں اُسے شریک ٹھہرا لیا، چاہے وہ اپنے معبود کے تعلق سے تاثیر، تدبیر، وجود بخشنے، معدوم کرنے اور نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت رکھنے کا اعتقاد رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، اگرچہ وہ اپنی اِس عبادت کو معبود بنانے، پوجنے اور شرک کرنے کا نام دینے سے راہ فرار ہی کیوں نہ اختیار کرتا ہو۔[294]؎
شیخ اسحاق[295]؎ اپنے دادا شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: کفر کی دو قسمیں ہیں؛ ایک مطلق اور دوسری مقید۔ مطلق کفر یہ ہے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی پوری شریعت کا انکار کر دیا جائے اور مقید کفر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کے کچھ حصہ کا انکار کر دیا جائے، یہاں تک کہ کچھ علماء نے کسی متفق علیہ فروعی مسئلہ کا انکار کرنے والے کو کافر قرار دیا ہے، مثلاً اس شخص کو جو دادا اور بہن کے وارث ہونے کا انکار کرے، اگرچہ وہ نماز و روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو۔ تو پھر جو شخص نیک لوگوں کو پکارتا ہے اور ان سے دعا مانگتا ہے اور ان کے لئے اِس خالص اور اصل عبادت کو انجام دیتا ہے، اُس کا کیا حکم ہوگا؟ یہ بالکل واضح ہے۔ یہ باتیں مسالک اربعہ کی کتابوں میں مذکور ہیں، بلکہ کچھ علماء نے کچھ جاہلوں کی زبان سے نکلنے والے کچھ الفاظ کی وجہ سے ان کو کافر قرار دیا ہے، اگرچہ خلاف شریعت بات کو زبان سے ادا کرنے والا نماز و روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو۔[296]؎
خلاصۂ کلام یہ کہ کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کا تقاضہ تبھی پورا ہوتا ہے جبکہ نفی و اثبات دونوں چیزیں پائی جائیں یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کی عبادت کی نفی کی جائے اور ایک اللہ کی عبادت کا اثبات کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب لوگوں کے سامنے اسلام کے معنی و مفہوم کو بیان فرماتے تو آپ دونوں باتوں کو ذکر کرتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور شرک سے اجتناب، و اللہ اعلم۔
دوسری وجہ: قبر پرستوں کے خود کو مسلمان کہنے اور زبان سے کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“ کہنے کے باوجود ان کے کافر ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جن لوگوں نے زکاۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا، وہ لوگ بھی زبانی طور پر اِس کلمۂ توحید کو پڑھتے تھے، اس کے باوجود اِن مانعین زکاۃ سے جنگ کرنے پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا، اس لئے کہ اسلام کے تیسرے رکن زکاۃ کے وجوب کا انکار انسان کو کافروں کے زمرہ میں شامل کر دیتا ہے، اگرچہ یہ منکر زکاۃ کلمہ ”لا إلہ إلا اللہ“ پڑھتا ہو۔ مانعین زکاۃ سے قتال کرنے کے معاملہ میں دلیل یہ ہے کہ اگر صحابہ کے دور میں کوئی شخص اسلام کے اولین اور بنیادی رکن کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کے تقاضہ کا منکر ہو جاتا، یعنی وہ دعا وغیرہ تمام عبادات کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کا انکار کرکے اِن عبادات کو غیراللہ کے لئے انجام دیتا تو کیا صحابہ کرام بدرجۂ اولی اِس منکر کلمۂ توحید سے جنگ نہیں کرتے؟
علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ظاہر ہونے والے سبئیہ[297]؎ کا بھی یہی معاملہ ہے، علی رضی اللہ عنہ نے اِن لوگوں کو آگ میں جلوا دیا تھا۔ یہ لوگ اسلام کے دعویدار تھے، کلمۂ ”لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑھتے تھے، لیکن اِس کے ساتھ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی اعتقاد رکھتے تھے جو اِس دور کے کچھ لوگ بدوی، شمسان اور تاج وغیرہ کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عبداللہ بن سبا کے اُن پیروکاروں کا خیال تھا کہ علی رضی اللہ عنہ عبادت کے لائق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اِن کو بھی مدد کے لئے پکارا جائے گا اور اِن سے بھی دعا مانگی جائے گی۔ جب اِن لوگوں کے مرتد اور کافر ہونے پر صحابہ کا اجماع ہو گیا تو علی رضی اللہ عنہ نے انہیں نذر آتش کروا دیا۔ اِن لوگوں کا کلمہ ”لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑھنا اور دیگر شرعی احکام کی بجا آوری اِن کے قتل کی راہ میں مانع نہیں ہوئی، اِس لئے کہ اِن لوگوں نے کلمہ ”لا إلہ إلا اللہ“ کے تقاضہ کا انکار کر دیا تھا اور اِس کلمہ کا تقاضہ یہی ہے کہ دعا وغیرہ ہر قسم کی عبادات کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کیا جائے۔
تیسری وجہ: مشرکین مکہ پر کفر کا حکم لگنے کا سبب صرف یہی نہیں تھا کہ وہ بعث بعد الموت اور نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نیز دیگر مسائل اسلام کے منکر تھے جیسا کہ شبہ ظاہر کرنے والے نے سمجھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقائدی انحرافات ان کی تکفیر کے دیگر اسباب میں شامل تھے، لیکن سب سے بڑی بات جس کا اِن مشرکین مکہ نے انکار کیا تھا، جس کے خلاف وہ کھڑے ہو گئے تھے، جس کے لئے ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کی تھی اور جس کی وجہ سے آپ کی نبوت کو جھٹلا دیا تھا وہ یہ مسئلہ تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ہی عبادت کی مستحق ہے، اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ یہ کفر کا سب سے مشہور سبب ہے جس میں وہ مشرکین مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں مبتلا ہو چکی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حالت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”أجعل الآلھۃ إلھا واحدا“ (کیا اس نے سارے معبودوں کے بدلہ ایک معبود بنا دیا)
یہ وہی بات ہے جس کا انکار مشرکین مکہ نے بھی کیا تھا اور آج کے زمانہ میں اِس کا انکار قبروں کی پرستش کرنے والے بھی کرتے ہیں اور یہ لوگ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کی عبادتوں دعا، ذبح اور نذر وغیرہ کے ذریعہ قبر والوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جو لوگ اِن باتوں کی وجہ سے ان پر نکیر کرتے ہیں اور انہیں سب کو چھوڑ کر صرف اللہ واحد کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیتے ہیں، اُن سے یہ لوگ ناراض ہوتے اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔
خلاصہ
1۔ صرف زبان سے کلمہ ”لا إلہ إلا اللہ“ کہنے کا نام اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام یہ ہے کہ زبان سے اس کلمۂ توحید کو ادا کیا جائے، اس کے تقاضہ کے مطابق عمل کیا جائے، اسی کلمہ پر باقی رہا جائے اس کے منافی کسی کام کو انجام نہ دیا جائے۔ اگر کسی نے جان بوجھ کر ہوش و حواس میں اور بالقصد اس کلمہ کے منافی کسی عمل کو انجام دیا تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا، العیاذ باللہ۔ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے وضو کرنے کے بعد حدث (پیشاب پاخانہ کی حاجت) لاحق ہوا اور اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ کلمۂ توحید کی ایک شرط بھی ٹوٹنے کے بعد اسلام باقی نہیں رہتا ہے۔ شرط کے ٹوٹنے سے مشروط کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔
2۔ مومن نے اگر کسی عبادت کو غیر اللہ کے لئے انجام دیا تو پھر اس کا دین باقی نہیں رہا، اب اس کے بعد وہ نماز، روزہ اور حج وغیرہ کی جتنی بھی پابندی کرے اسے اپنی عبادات کے تعلق سے دھوکہ میں نہیں رہنا چاہئے، اس لئے کہ شرک کے ارتکاب کے ساتھ کوئی بھی عبادت قابل قبول نہیں ہے۔ ایک مرتبہ شرک کا ارتکاب سارے نیک اعمال کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔
3۔ مومن کو شرک میں ملوث ہونے سے ڈرتے رہنا چاہئے، اسے توحید پر ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہئے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”واجنبني وبنيّ أن نعبد الأصنام“ (اے میرے رب! مجھے اور میرے بیٹے کو اصنام پرستی سے بچا) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا کرتے تھے: ”یا مقلب القلوب ثبّت قلبی علی دینك“[298]؎ (اے دلوں کو پلٹنے والے تو میرے دل کو اپنے دین کی طرف پلٹ دے)
4۔ شرک کے حرام ہونے کا علم ہر مومن کو ہونا چاہئے، یہ ہر دینی حکم پر مقدم ہے۔ زنا، چوری، شراب نوشی اور سود کی حرمت کا علم ہونے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ انسان کو شرک کی حرمت کا علم ہو۔
5۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ کلمۂ توحید ”لا إلہ إلا اللہ“ کو زبان سے ادا کر لینے کے بعد عبادت میں شرک نقصاندہ نہیں ہے، مثلاً غیر اللہ کو پکارنے یا اس سے دعا مانگنے سے دیگر عبادات کی قبولیت پر حرف نہیں آئے گا، وہ ”لا إلہ إلا اللہ“ کے معنی و مفہوم سے حد درجہ نابلد انسان ہے۔ اس کلمہ کو عبد اللہ بن ابی بن سلول نے بھی اپنی زبان سے پڑھا تھا اس کے باوجود جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں اس کا ٹھکانہ ہے، اس لئے کہ اس نے صرف زبان سے اس کلمۂ توحید کو پڑھا تھا، دل میں اس کلمہ پر اس کا ایمان و یقین نہیں تھا، اگرچہ ظاہری طور پر اس نے اس کلمہ کے تقاضے کے تحت عمل بھی کیا تھا۔ صرف زبان سے اس کلمہ کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے کہ زبان سے توحید کا اقرار کرنے، دل سے اس عقیدۂ توحید کو ماننے اور اعضاء و جوارح سے اس عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کا نام ایمان ہے۔
جو شخص بدوی یا حسین یا ابن علوان یا عیدروسی یا عبدالقادر جیلانی یا علی بن ابی طالب یا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کو پکارتا ہے یا ان سے دعا مانگتا ہے یا ان سے مدد طلب کرتا ہے یا ان سے فریاد کرتا ہے اور ان کے لئے منّت مانتا ہے تو ایسا شخص اگر ہزار مرتبہ بھی زبان سے ”لا إلہ إلا اللہ“ کہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، الا یہ کہ وہ پہلے شرک سے توبہ کرے اور پھر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اس سے دعا مانگے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا، اس لئے کہ توحید کا اقرار ما قبل کے گناہ کو مٹا دیتا ہے۔
ان سطور کے ساتھ اس شبہ کا جواب مکمل ہوا کہ ”جو لوگ قبر والوں کو پکارتے اور ان سے دعا مانگتے ہیں وہ کلمۂ ”لا إلہ إلا اللہ“ بھی پڑھتے ہیں تب آپ ان کی تکفیر کیوں کرتے ہیں؟“
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ شرک صرف بت پرستی تک محدود ہے، انبیاء اور نیک لوگوں کو پکارنا اور ان سے دعا مانگنا شرک نہیں ہے!
جواب: یہ قول پانچ وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ: لغوی اعتبار سے شرک یہ ہے کہ کسی چیز میں دو کو شریک کر دیا جائے۔ اس اعتبار سے جس نے کبھی اللہ کو پکارا اور کبھی غیر اللہ کو پکارا تو اس نے اس غیر اللہ کو اللہ کا شریک و ساجھی بنا دیا، وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے اس سے فرق نہیں پڑتا۔
امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: شرک یہ ہے کہ غیر اللہ کے لئے کوئی ایسا عمل کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اس طرح کا عمل کرنے والا اس غیر اللہ کو وہی نام دے جو اہل جاہلیت دیا کرتے تھے یا اسے کسی دوسرے نام سے یاد کرے، دونوں حالتیں یکساں ہیں، اس لئے کہ صرف نام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، جو اس بات کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے، وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس سے اہل علم کی طرح بات نہ کی جائے۔[299]؎
دوسری وجہ: یہ شبہ کہ صرف بت پرستی ہی پر شرک کا اطلاق ہوتا ہے، اِس کے باطل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ صراحت کر دی ہے کہ غیراللہ کو پکارنا اور اس سے دعا مانگنا شرک، کفر اور گمراہی ہے، اللہ کو چھوڑ کر جسے پکارا جا رہا ہے وہ چاہے کوئی بھی ہو۔ قرآن مجید میں اللہ کے اس حکم کو پڑھنے کے بعد اس پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا واجب ہے، ورنہ وہ قرآن کا منکر کہلائے گا، العیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن تدعوھم لا یسمعوا دعائکم و لو سمعوا ما استجابوا لکم و یوم القیامۃ یکفرون بشرککم و لا ینبئك مثل خبیر“ (اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اِس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے، آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و من أضل ممن یدعو من دون اللہ من لا یستجیب لہ إلی یوم القیامۃ“ (اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و إذا رکبوا فی الفلك دعوا اللہ مخلصین لہ الدین فلما نجاھم إلی البر إذا ھم یشرکون“ (پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے، پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اُسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں)
اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں غیر اللہ کو پکارنے والے کو کافر کہا ہے: ”و من یدع مع اللہ إلھا آخر لا برھان لہ بہ فإنما حسابہ عند ربہ إنہ لا یفلح الکافرون“ (جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے، بیشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”حتی إذا جاءتھم رسلنا یتوفونھم قالوا أین ما کنتم تدعون من دون اللہ قالوا ضلوا عنا و شھدوا علی أنفسھم أنھم کانوا کافرین“ (یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی جان قبض کرنے آئیں گے تو کہیں گے کہ وہ کہاں گئے جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے کہ ہم سے سب غائب ہو گئے اور اپنے کافر ہونے کا اقرار کریں گے)
اِن آیات کریمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ غیراللہ کو پکارنا شرک ہے، اللہ کو چھوڑ کر جسے پکارا جا رہا ہے وہ چاہے کوئی بت ہو یا مردہ ہو یا اِن کے علاوہ ہو سب کا ایک ہی حکم ہے۔
تیسری وجہ: شرک کو بت پرستی کے ساتھ خاص کرنے والے سے کہا جائے گا: اگر کوئی صرف اللہ تعالیٰ کو پکارے، اسی کے سامنے اپنی حاجت پیش کرے اور اس سے گڑگڑا کر عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے دعا مانگے تو ایسا شخص موحد کہلائے گا یا مشرک؟
وہ جواب میں یقینی طور پر کہے گا کہ ایسا کرنے والا موحد ہے۔
پھر اس سے یہ کہا جائے گا کہ اگر کسی شخص نے کسی نبی یا کسی نیک آدمی کو پکارا اور اس کے سامنے اپنی حاجت پیش کی تو وہ موحد ہوا یا مشرک؟ یقینی طور پر وہ یہی جواب دے گا کہ وہ مشرک ہے۔ تب اس سے کہئے کہ یہی تو سمجھانا مقصود ہے۔
چوتھی وجہ: جس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شرک بت پرستی کے ساتھ خاص ہے اور نیک لوگوں سے التجاء و فریاد کرنا شرک نہیں ہے، اس سے کہا جائے گا کہ زمانۂ جاہلیت میں بتوں کی پرستش کس طرح ہوتی تھی؟ وہ جواب میں کہے گا: اِس کے لئے بتوں کو پکارا جاتا تھا، ان سے دعا مانگی جاتی تھی اور ان کے لئے جانور ذبح کئے جاتے تھے۔ تب اُس سے کہیے یہی سارے کام تم لوگ انبیاء اور نیک لوگوں کے ساتھ کرتے ہو تو کیا بتوں کو پکارنا اور ان کے لئے جانور قربان کرنا شرک ہے اور انبیاء و نیک لوگوں کو پکارنا اور ان کے لئے جانور ذبح کرنا شرک نہیں ہے؟!
پانچویں وجہ: شرک کو بت پرستی کے ساتھ خاص کرنے والے سے کہا جائے گا: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جن مشرکین کے درمیان بعثت ہوئی تھی وہ سب کے سب بت پرست نہیں تھے، بلکہ ان میں سے کچھ لوگ انبیاء کی پرستش کرتے تھے، کچھ لوگ نیک لوگوں کی عبادت کرتے تھے، کچھ لوگ فرشتوں کو پوجتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ جن، سورج، چاند، ستاروں، درختوں اور پتھروں کے پجاری تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کو کافروں کے زمرے میں رکھا تھا اور ان سب کو اسلام کی دعوت دی تھی۔ اِس سے معلوم ہوا شرک کا اطلاق صرف بت پرستی پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ شرک کسی بھی غیراللہ کی عبادت کا نام ہے، چاہے وہ باطل معبود کوئی بھی ہو اور کسی بھی شکل میں ہو۔
اس بات کی دلیل کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ فرشتوں کی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”ویوم یحشرھم جمیعا ثم یقول للملائکۃ أھؤلاء إیاکم کانوا یعبدون قالوا سبحانك أنت ولینا من دونھم بل کانوا یعبدون الجن أکثرھم بھم مؤمنون“ (اور ان سب کو اللہ اُس دن جمع کرکے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے۔ وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں کے اکثر کا ان ہی پر ایمان تھا۔)
اِس بات کی دلیل کے کفار میں سے کچھ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و أنہ کان رجال من الإنس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقا“ (بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے)
اِس بات کی دلیل کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ سورج اور چاند کی پرستش کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و من آیاتہ اللیل و النھار و الشمس و القمر لا تسجدوا للشمس و لا للقمر و اسجدوا للہ الذی خلقھن إن کنتم إیاہ تعبدون“ (اور دن رات اور سورج چاند بھی (اُسی کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لئے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو)
اِس بات کی دلیل کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ ستاروں کے پرستار تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”و أنّہ ھو رب الشعری“ (اور یہ کہ وہی شعری (ستارے) کا رب ہے)
شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی رحمہ اللہ اِس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: ”یہ ایک ستارہ ہے جو ”الشعری العبور“ سے معروف ہے، اِسے مرزم کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، رب تعالیٰ تو ہر چیز کا رب ہے لیکن یہاں خصوصیت کے ساتھ شعری کا رب اس لئے کہا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اِس ستارے کی پرستش کی جاتی تھی، اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین جس کی عبادت کرتے ہیں اس کی پوری جنس اللہ کی تخلیق کردہ اور اُسی کے سایۂ ربوبیت و تدبیر کے تحت ہے۔ پھر کیسے یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو معبود بنا لیتے ہیں؟“[300]؎
اِس بات کی دلیل کہ مشرکین میں سے کچھ لوگ پتھروں، درختوں اور نیک لوگوں کی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”أفرأیتم اللات و العزّی و مناۃ الثالثۃ الأخری“ (کیا تم نے لات و عزی کو دیکھا اور منات تیسرے پچھلے کو) اِس آیت میں مذکور لفظ اللات کو تاء مشدد کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اِس نام کا ایک شخص تھا جو حجاج کی خدمت کے لئے ستو گھولتا تھا، جب وہ مر گیا تو لوگ اس کی قبر کے پاس تعظیما کھڑے ہونے لگے اور اس کے معاملہ میں غلو کرتے ہوئے بعد میں اس کی عبادت کرنے لگے، اِس بت کو ان لوگوں نے اللات کا نام دیا۔ ابن جریر نے یہ بات اِس آیت کی تفسیر میں کہی ہے۔
اللات کو تاء کے پیش کے ساتھ بغیر تشدید بھی پڑھا گیا ہے، یہ مقام نخلہ[301]؎ میں ایک گھر تھا قریش جس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اِسے بھی ابن جریر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور اِسی کو راجح قرار دیا ہے۔[302]؎
”العُزّی“ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے درخت تھے، ایک قول یہ ہے کہ یہ سنگ ابیض تھا، ایک قول کے مطابق یہ ایک گھر تھا۔ یہ قریش، مضر اور کنانہ کا خاص بت تھا، یہ مقام نخلہ کے نشیبی علاقہ میں نصب تھا جو قبیلۂ بنو ثقیف کا مسکن تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اُسے منہدم کرایا تھا۔[303]؎
”مناۃ“ قدید کے بالمقابل مقام ”مشلل“ میں نصب شدہ ایک بت تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں قبائل اوس و خزرج اِس کی تعظیم کرتے تھے۔[304]؎
بیضاوی[305]؎ شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مناۃ کی ایک چٹان تھی جسے ہذیل و خزاعہ یا بنو ثقیف کے لوگ پوجتے تھے۔ ”مناۃ“ مَنی یَمْنی بمعنی قَطَعَ (کاٹنا) سے فِعْلَۃٌ یعنی کاٹنے کے عمل کے معنی میں ہے۔ مشرکین اِس بت کے پاس جانور قربان کیا کرتے تھے۔ اِسی سے ”مِنیٰ“ بھی ہے۔[306]؎
خلاصۂ کلام یہ کہ قرآن مجید کی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین درختوں، پتھروں اور نیک لوگوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔
اِس بات کی دلیل کہ کفار میں سے کچھ لوگ انبیاء کی عبادت کرتے تھے، نصاری کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”لقد کفر الذین قالوا إنَّ اللہ ھو المسیح ابن مریم“ (یقینا وہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے)
اِس بات کی دلیل کہ کفار میں سے کچھ لوگ نیک لوگوں کی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ”قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ لا یملکون کشف الضر عنکم و لا تحویلا أولئك الذین یدعون یبتغون إلی ربھم الوسیلۃ أیھم أقرب و یرجون رحمتہ و یخافون عذابہ إن عذاب ربك کان محذورا“[307]؎ (کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ اُن میں سے کون زیادہ قریب ہو جائے وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔)
آیت کریمہ ”قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ“ میں اللہ کو چھوڑ کر کن معبودان کو پکارنے کی بات کہی گئی ہے؟ اِس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اِس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ کچھ مفسرین مثلاً عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اِس سے فرشتے، عزیر اور مسیح مراد لیا ہے۔ ابن جریر کی نقل کردہ ایک روایت میں اِس فہرست میں سورج اور چاند کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
کچھ مفسرین مثلاً عبداللہ بن مسعود اور قتادہ وغیرہ نے اس سے جن مراد لیا ہے کچھ دوسرے مفسرین مثلاً ابن زید وغیرہ نے اِسے صرف فرشتوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔
اب اِن خود ساختہ معبودوں سے چاہے جو بھی مراد ہو، لیکن تفسیر کا ایک قاعدہ ہے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے، خاص سبب کا اعتبار نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی پرستش کی گئی ہے سب اِس میں شامل ہیں، چاہے وہ کوئی جامد چیز ہو یا فرشتہ ہو یا انسان ہو، چاہے وہ کوئی نبی ہو یا غیر نبی ہو۔
سورۃ الإسراء کی اِن دونوں آیات ”قل ادعوا الذین زعمتم من دونہ۔۔۔الخ“ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، کسی نے فرشتے، کسی نے انسان اور کسی نے جنات مراد لیا ہے۔ اِس تعلق سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اِس آیت میں عموم مراد لیا گیا ہے اور اِس میں ہر وہ چیز شامل ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ جس نے کسی مردہ کو پکارا ہو، اِس آیت کے تحت سب اس میں شامل ہوں گے، اِسی طرح اِس میں فرشتے اور جنات بھی شامل ہوں گے جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام [308]؎ اِن فرشتوں کے سپرد کر رکھا ہے اُس کے اعتبار سے یہ واسطے ہی ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اِن فرشتوں کو پکارنے سے منع فرمایا ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ اِن فرشتوں کو پکارتے ہیں اُن کی مصیبت دور کر دینے کا اختیار انہیں نہیں ہے اور نہ اُس مصیبت کی صورتحال میں کچھ تبدیلی کرنا ان کے بس کی بات ہے، نہ یہ کسی کی مصیبت کو بالکلیہ دور کر سکتے ہیں اور نہ اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کر سکتے ہیں جیسے کہ یہ اپنی صفت اور قدرت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے ہیں، اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے ”و لا تحویلا“ میں تحویلا کو نکرہ استعمال کیا ہے، اِس میں ہر قسم کی تبدیلی شامل ہے۔[309]؎
شیخ عبد اللہ ابابطین[310]؎ رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس کلام کے تعلق سے کہتے ہیں: ”یہ بہت واضح بات ہے، اس لئے کہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہے، نہ کہ خاص سبب کا۔ جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یعنی فرشتے اور جن وہ غائب یعنی نگاہوں سے اوجھل ہیں، لیکن یہ غائب اور غیر موجود ہونے کے باوجود عزیر اور مریم جیسے غائب انسانوں سے زیادہ قریب ہیں۔“[311]؎
شیخ عبدالرحمٰن بن حسن[312]؎ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ”والذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئاً وھم یُخلقون أموات غیر أحیاء وما یشعرون أیان یبعثون“ (اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں، مردے ہیں زندہ نہیں، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔) کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت بتوں کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ تدبر سے عاری لوگ سمجھتے ہیں، اس لئے کہ عربی زبان میں ”الذین“ کے ذریعہ صرف ذوی العقول کے بارے میں خبر دی جاتی ہے جبکہ بت لکڑی اور پتھر کے ہوتے ہیں جن پر موت اثر انداز نہیں ہوتی، لکڑی اور پتھر کے ان بتوں میں تو زندگی ہی نہیں ہے تو پھر انہیں موت کیسے آئے گی۔ ان بے جان بتوں کو قیامت کے دن انسانوں کی طرح زندہ نہیں کیا جائے گا تاکہ ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دیا جائے، ان بے جان بتوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے کا احساس و شعور بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے احساس و شعور کی نفی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں یہ بات کہی ہے کہ انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ یہ آیت اس کے بارے میں ہے جسے موت آئے گی اور پھر اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا، غور و فکر کرنے والے کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”وما یشعرون أیان یبعثون“ (انہیں تو یہ احساس نہیں کہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں) اس طرح کی بات صرف ذوی العقول کے لئے کہی جاتی ہے، جو لوگ عربی زبان سے واقف ہیں ان کے لئے یہ بات بالکل واضح ہے۔ دلیل کے واضح ہو جانے اور راہ حق کے کھل کر سامنے آ جانے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہے۔[313]؎
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ صالحین سے دعا مانگنا قبولیت دعا کا سبب ہے، اس لئے کہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کچھ لوگوں نے صالحین سے دعا مانگی تو ان کی دعا قبول ہوئی!۔
چھ وجوہات کی بنا پر یہ شبہ بھی باطل ہے:
پہلی وجہ: قرآن و احادیث نبویہ علی صاحبہا أفضل الصلاۃ والسلام میں ہر خیر کی طرف رہنمائی کر دی گئی ہے اور ہر برے کام سے منع بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اچھے اسباب پیدا کرکے بندوں کو انہیں اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور نقصان دہ اسباب بھی اللہ نے پیدا کئے ہیں اور بندوں کو ان سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے دواؤں کو امراض سے شفایابی کا ذریعہ بنایا ہے جیسا کہ شہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”یخرج من بطونھا شراب مختلف ألوانہ فیہ شفاء للناس“ (ان کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور علم کو ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ذلك الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین“ (اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں، پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے) قرآن و سنت میں اس قبیل کے دوسرے بہت سے اسباب کا بھی ذکر آیا ہے جنہیں اختیار کرنے سے بندوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، لیکن صالحین سے دعا مانگنے کی بات قرآن و سنت میں کہیں نہیں آئی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا سبب ہے۔ اگر یہ دعا کے قبول ہونے کا سبب ہوتا تو لازمی طور پر قرآن و سنت میں اس تعلق سے حکم دیا گیا ہوتا، اس لئے کہ بندوں کو قبولیت دعا کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ اس طرح کا کوئی حکم قرآن و سنت میں موجود ہونے کی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ شرعی نص سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے دعا مانگنا ایک باطل عمل ہے، بلکہ یہ شرک میں مبتلا ہونے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کا مستحق بن جانے کا ذریعہ ہے، العیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ذلك بأن اللہ ھوالحق وأن ما یدعون من دونہ ھوالباطل“[314]؎ (ایسا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور اسے چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ باطل ہے) نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر اس کے بالمقابل کسی دوسرے کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں جائے گا“[315]؎
دوسری وجہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ صراحت کر دی ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات دعاؤں کو سنتی ہے اور اسے قبول کرتی ہے۔ اس کے بعد کسی کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ غیر اللہ سے دعا مانگنے کا تجربہ کرے اور کہے کہ اس نے جس غیر اللہ سے دعا مانگی تھی اس نے اس کی پکار سنی اور اس کی دعا کو قبول کیا، اس سے قرآن مجید کی تکذیب لازم آتی ہے۔ قرآن کے نص سے یہ بالکل واضح ہے کہ مردے زندوں کی باتیں بالکل نہیں سنتے اور نہ ان کی باتوں کا جواب دیتے ہیں، جو قرآن کی دی ہوئی اس خبر کو نہیں مانے گا وہ کافر ہے۔ کونسا ایسا تجربہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعہ قرآن کی ثابت کردہ بات کو جھٹلایا جا سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”والذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لھم بشیء إلّا کباسط کفیہ إلی الماء لیبلغ فاہ وما ھو ببالغہ وما دعاء الکافرین إلا فی ضلال“ (جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وما یستوي الأحیاء ولا الأموات إن اللہ یسمع من یشاء وما أنت بمسمع من فی القبور“ (اور زندے و مردے برابر نہیں ہو سکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن تدعوھم لا یسمعوا دعائکم ولو سمعوا ما استجابوا لکم“ (اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے) اللہ تعالیٰ نے ان باطل پرستوں کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا ہے: ”إن الذین تدعون من دون اللہ عباد أمثالکم فادعوھم فلیستجیبوا لکم إن کنتم صادقین“ (واقعی تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دے، اگر تم سچے ہو)
اگر یہ کہا جائے کہ اِس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مشرک کی دعا قبول کر لیتا ہے جبکہ اُس نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہی نہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ کے ذریعہ غیراللہ سے دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرنے کے پیچھے ایک زبردست حکمت ہے۔ یہ دراصل غیراللہ سے دعا کرنے والے کے لئے استدراج (ڈھیل) ہے تاکہ وہ اپنی گمراہی میں مزید آگے بڑھ جائے، یہ اللہ سے دعا مانگنے سے اس کے اعراض کرنے کی سزا ہے۔ اِن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ڈھیل ہے وہ ایک مشاہدہ کی چیز ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ لوگ قبر کے مردہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انہیں اولاد عطا کر دے، اللہ تعالیٰ اُسے اولاد عطا کر دیتا ہے، مشرک یہ سمجھتا ہے کہ قبر والے نے اُسے یہ اولاد عطا کی ہے، یا قبر والا اِس کے لئے ذریعہ و وسیلہ بنا ہے، اِس کی وجہ سے قبر والے سے اس کا تعلق اور اس پر اس کا ایمان اور مضبوط ہو جاتا ہے، اُس مشرک کو یہ علم بھی نہیں ہو پاتا کہ رب حقیقی سے دعا مانگنے سے اعراض کرنے کی وجہ سے بطور سزا اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کا یہ حربہ ہے۔ بندوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت بھی ہے، ارشاد ہے: ”فلما زاغوا أزاغ اللہ قلوبھم“ (پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا)
تیسری وجہ: دعا ایک عبادت ہے اور عبادات اصلاً تجربہ سے ثابت نہیں ہوتیں، کسی کام کے عبادت ہونے کے لئے اللہ کی کتاب یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے دلیل ہونی چاہیے۔ جس نے تجربہ سے دعا کی کسی صورت کو ثابت کیا جس کی دلیل شریعت میں موجود نہیں ہے تو اس کی دعا بدعت پر مبنی ہوگی، شریعت پر مبنی نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا یہ عمل مردود و ناقابل قبول ہوگا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ”جس نے ہمارے اِس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کر دی جو اِس میں سے نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔[316]؎ “ ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کی بنیاد ہمارے دین پر نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔[317]؎ “
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”کوئی سنت صرف تجربہ سے ثابت نہیں ہوتی ہے، کسی غیر مسنون کام کو سنت سمجھ کر کرنے والا اہل بدعت کی فہرست میں شامل ہونے سے بچ نہیں سکتا ہے۔ دعا کی قبولیت اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سبب قبولیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ نیکی و پرہیزگاری کی راہ پر چلے بغیر بھی کسی کی دعا کو قبول کر لیتا ہے، کیونکہ اس کی ذات ارحم الراحمین (سب سے زیادہ رحم کرنے والی) ہے، کبھی وہ بطور استدراج (ڈھیل دینے کے لئے) بھی لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔[318]؎“
شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”تجربات سے کسی عمل کو عبادات کے زمرہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر تب جب کہ اُس کا تعلق غیبی امور سے ہو، لہٰذا تجربہ کی بنیاد پر حدیث کو صحیح[319]؎ قرار دینے کا موقف اختیار نہیں کیا جا سکتا ہے، اِس صورت میں اور بھی نہیں ایسا کیا جا سکتا ہے جبکہ کچھ لوگ سختی و مصیبت کے وقت مردوں سے فریاد کرنے کے جواز پر اِس حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور اِس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ مردوں سے فریاد کرنا خالص شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد کی درخواست ہے۔[320]؎“
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: عبادات کا انتخاب ذاتی پسند کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا ہے، یعنی ذاتی پسند اور اطمینان قلب کی وجہ سے کوئی عبادت شرعی عبادت نہیں کہلائے گی۔ انسان کو کبھی بدعت اور شرک پر مبنی اعمال بھی اچھے لگتے ہیں جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں حالانکہ وہ شرکیہ عمل اُسے ذاتی طور پر پسند ہوتا ہے اور اس پر اُسے اطمینان قلب بھی حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”أ فمن زُیّن لہ سوء عملہ فرآہ حسنا فإن اللہ یضلّ من یشاء و یھدي من یشاء“ (کیا پس وہ شخص جس کے لئے اُس کے بُرے اعمال مزین کر دئیے گئے ہیں پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے) (یقین مانو) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے) انسان کے لئے ضروری یہ ہے کہ جب اُسے کوئی عمل اچھا لگے اور دل کو اس پر اطمینان ہو جائے تو وہ اُس عمل کو اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے سامنے پیش کرے، اگر وہ عمل کتاب و سنت کے موافق ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اگر کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کے موافق نہ ہو تو پھر وہ اپنے قلب کا علاج کرے، اس لئے کہ بہت سے انسانی قلوب میں یہ مرض پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان اُس عمل کو کرنے میں خوشی و راحت محسوس کرتا ہے جو مشروع نہیں ہوتا ہے۔“ شیخ ابن عثیمین کی بات ختم ہوئی، یہ باتیں ”فتاوی نور علی الدرب“ سے اختصار کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ دعا اور دوسری عبادات تجربے، قیاس اور عقل و ذوق کی بنیاد پر ثابت نہیں ہوتی ہیں بلکہ کتاب اللہ اور ثابت شدہ سنت رسول اللہ علیہ و سلم کے صریح نص سے ثابت ہوتی ہیں۔ جو عبادت کتاب و سنت کے موافق ہو اُسے انجام دینا واجب ہے اور جو کتاب و سنت کے برخلاف ہو اُسے چھوڑ دینا اور اس سے اظہار براءت کرنا ضروری ہے۔
چوتھی وجہ: کچھ لوگ ایسی دعائیں مانگتے ہیں جو متفقہ طور پر مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں، لیکن انہیں مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ کیا یہ اِس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ غیراللہ سے دعا مانگنے کے جواز پر تجربہ سے استدلال کرنا باطل ہے۔ اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ستاروں سے دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول کر لیتا ہے، کچھ لوگ بتوں، گرجاؤں اور ان میں رکھے ہوئے مجسموں سے دعا مانگتے ہیں اور انہیں ان کی مراد حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج (مہلت و ڈھیل) ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے رہیں، یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے، کیونکہ انہوں نے شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ اس سے منہ موڑ لیا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اِسی قبیل سے وہ شخص بھی ہے جو اپنی دعا میں حد سے تجاوز کرتا ہے، یا تو ایسی چیز طلب کرتا ہے جو اس کے لئے درست نہیں ہے یا پھر وہ اپنی دعا میں معصیت کا ارتکاب کرتا ہے، چاہے وہ معصیت شرک ہو یا کچھ اور ہو۔ اُسے جب مانگی ہوئی دعا میں سے کچھ حاصل ہو جاتا ہے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اُس کا یہ عمل نیک تھا، یہ بندہ اُس شخص کی طرح ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل دی گئی اور مال و اولاد سے اُس کی مدد کی گئی، وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اُسے جلدی جلدی اللہ کی طرف سے خیر و بھلائی حاصل ہو رہی ہے اور یہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی بارش ہے جو اُس پر برس رہی ہے۔ ایسے ہی فریب خوردہ لوگوں کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیات میں آگاہ کیا ہے۔ ارشاد ہے: ”أ یحسبون أنما نمدھم بہ من مال و بنین نُسارع لھم فی الخیرات بل لا یشعرون“ (کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں وہ ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”فلما نسوا ما ذُکّروا بہ فتحنا علیھم أبواب کل شئیء حتی إذا فرحوا بما أوتوا أخذناھم بغتۃ فإذاھم مبلسون“ (پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کر دئیے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہو گئے) ایک اور جگہ ارشاد ہے: ”و لا یحسبنّ الذین کفروا أن ما نملي لھم خیر لأنفسھم إنما نملی لھم لیزدادوا إثما و لھم عذاب مھین“ (کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اِس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے) مہلت اور ڈھیل دینے کا مطلب درازئ عمر کے ساتھ رزق اور مدد کا حاصل ہونا ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فذرني و من یکذب بھذ الحدیث سنستدرجھم من حیث لا یعلمون و أملي لھم إن کیدي متین“[321]؎ (پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دے، ہم انہیں اِس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے) ابن تیمیہ رحمہ کا کلام مکمل ہوا۔
میں کہتا ہوں: یہی حال تمام محرمات کا ہے مثلاً شراب نوشی، حرام کاری اور ظلم، اِن محرمات کے استعمال سے وقتی طور پر کچھ منافع حاصل تو ہوتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے یہ سب جائز نہیں ہیں، اِسی طرح غیراللہ سے دعا مانگنا بھی ہے کہ یہ دعا کبھی قبول بھی ہو جاتی ہے باوجودیکہ یہ شرک اکبر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اِس سے راضی و خوش نہیں ہوتا ہے۔ اِسی اصل کا اعتبار کرنا ضروری ہے، یعنی وقتی طور پر کچھ فوائد کا حاصل ہو جانا شرعی طور پر اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں: ہر وہ سبب جس سے انسان کی ضرورت پوری ہو جائے ضروری نہیں کہ وہ جائز بھی ہو، مثلاً کسی مسافر کو قتل کر دینا اس کے مال کو حاصل کر لینے کا سبب ہے، لیکن یہ دونوں ہی حرام ہیں، نصاری کے دین کو قبول کرنا ان سے ملنے والے فوائد کو حاصل کرنے کا سبب ہے، لیکن ایسا کرنا حرام ہے، جھوٹی گواہی مشہود لہ (جس کے لئے گواہی دی گئی) سے کچھ مال حاصل ہونے کا سبب ہے، لیکن جھوٹی گواہی دینا حرام ہے۔ بہت سے بُرے کام اور ظلم کچھ دنیاوی مفاد کو حاصل کرنے کا سبب ہے، لیکن ظلم اور ہر برا کام حرام ہے، جادو کہانت کو کچھ دنیاوی اغراض کے حصول کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، لیکن یہ دونوں کام حرام ہیں۔ یہی حال شرک کا ہے، مثلاً ستارے اور شیاطین سے دعا مانگنا اور انسان کی عبادت کرنا کچھ مفادات کے حصول کا ذریعہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن تمام اسباب کو حرام قرار دیا ہے جس کے فوائد کم اور مفاسد زیادہ ہیں، اگرچہ ان کے ذریعہ وقتی طور پر کچھ اغراض و مقاصد حاصل ہو جائیں۔ اِس مقام پر آکر مشرکین کی گمراہی ان کی مقصد تخلیق سے غفلت اور احکام الہی کی خلاف ورزی ہر اعتبار سے ظاہر و عیاں ہو جاتی ہے۔ ان سے یہ مطالبہ ہے کہ یہ اِس بات کو کوئی شرعی دلیل پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے مردہ یا غیر موجود سے کچھ مانگنے یا اُن سے فریاد کرنے کو مشروع کیا ہے، چاہے یہ کام ان کی قبر کے پاس کیا جائے یا کہیں دور کیا جائے، یہ مشرکین اِس کی کوئی شرعی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔
بلکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ مردہ اور غیرموجود سے سوال کرنا، چاہے وہ نبی ہو یا کوئی اور، حرام کردہ منکر عمل ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اِس کا حکم نہیں دیا، کسی صحابی یا تابعی نے اِس عمل کو انجام نہیں دیا، ائمہ اسلام میں سے کسی نے بھی اِس کی تحسین و تائید نہیں کی ہے۔ دین اسلام میں یہ بات بہت بدیہی ہے اور ہر خاص و عام کو معلوم ہے۔ اسلاف میں سے کوئی کسی نقص و کمی یا کسی حاجت کے موقع پر مردہ سے مخاطب ہو کر یہ نہیں کہتے تھے: اے میرے فلاں آقا! میں آپ کی کفایت میں ہوں یا میری اِس حاجت کو پوری کر دیجئے جیسا کہ آج کے مشرکین مردہ اور غیرموجود لوگوں سے اِس طرح دعا کرتے ہیں۔ کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ سے فریاد نہیں کی اور نہ کسی دوسرے نبی سے فریاد کی، نہ ان کی قبروں کے پاس جا کر فریاد کی اور نہ دور سے مدد مانگی حالانکہ مشرکین سے جنگ کرتے ہوئے انہیں نہایت جاں گسل اور سخت ترین مراحل سے گزرنا پڑا جبکہ میدان جنگ میں انہیں ہر طرف قتل و خونریزی کے ہوشربا منظر کا سامنا ہوتا تھا اور اِس نازک موقع پر طرح طرح کے خیالات دل میں پیدا ہونے لگتے ہیں، اِس کے باوجود صحابہ و اسلاف میں سے کسی نے کسی نبی یا کسی دوسرے سے فریاد نہیں کی، بلکہ اِن لوگوں نے سرے سے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی مخلوق کی قسم بھی نہیں کھائی، نہ یہ لوگ انبیاء کی قبروں کے پاس دعا کا قصد کرتے تھے اور نہ وہاں پر نماز پڑھتے تھے۔[322]؎
پانچویں وجہ: غیراللہ سے دعا کرنے کے جواز پر تجربہ کو دلیل بنانے والے سے کہا جائے گا کہ بسا اوقات نفسیاتی وہم کی وجہ سے انسان کو اس طرح کے حالات پیش آتے ہیں، مثلاً کوئی انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اُس کی بیماری کا علاج فلاں دوا میں ہے، پھر جب وہ اُس دوا کو استعمال کرتا ہے تو اس کے نفسیاتی وسوسے کی کیفیت دور ہو جاتی ہے اور اُسے اندرونی طور اطمینان و سکون محسوس ہوتا ہے، حالانکہ اُس نے جو چیز دوا سمجھ کر استعمال کی ہے وہ اصلاً دوا ہے ہی نہیں بلکہ وہ کوئی عام سی چیز ہے جس کے دوا ہونے کا اُسے وہم ہو گیا تھا۔
غیراللہ سے دعا مانگنے کا بھی یہی معاملہ ہے، کچھ لوگ شیطانی اثر سے لاحق ہونے والے مرض سے شفایابی کے لئے اس حربے کو آزماتے ہیں، جب وہ اِس کیفیت میں کسی میت کو پکارتے ہیں تو وہ شیطانی اثر ختم ہو جاتا ہے اور انسان راحت محسوس کرنے لگتا ہے، تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ مردہ نے اس کی دعا قبول کر لی، حالانکہ وہ اصلاً مریض تھا ہی نہیں، شیطان نے اُسے مریض ہونے کے وہم میں مبتلا کیا تھا۔
طبرانی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک بیوی کی گردن میں ایک تانت یا دھاگہ دیکھا جس میں تعویذ لٹک رہی تھی، انہوں نے اُس دھاگہ کو زور سے کھینچ کر توڑ دیا اور کہا کہ عبداللہ کے اہل و عیال کو شرک میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تولہ[323]؎، تمائم[324]؎، رقیہ[325]؎ شرک ہیں۔ ایک خاتون نے کہا کہ ہم میں سے کسی کے سر میں درد ہوتا ہے تو وہ جھاڑ پھونک کراتی ہے اور جھاڑ پھونک سے اُسے فائدہ محسوس ہوتا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: شیطان آتا ہے اور تم میں سے کسی کے سر میں کچوکے لگاتا ہے، جب وہ جھاڑ پھونک کراتی ہے تو اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور اگر وہ جھاڑ پھونک نہیں کراتی تو اُسے چبھن محسوس ہوتی ہے، ایسی حالت میں اگر وہ پانی لے کر سر اور چہرہ پر ڈال لے، پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر قل ھو اللہ أحد، قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھ لے تو إن شاء اللہ اُسے فائدہ ہوگا۔[326]؎
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسان کے جسم کو درد و تکلیف سے دوچار کرتا ہے تاکہ اسے گمراہ کر سکے کہ اس نے اس تکلیف سے نجات پانے کے لئے جس شرکیہ دوا و علاج کا سہارا لیا اس سے شفا حاصل ہوئی ہے۔
شیخ محمد عارف خوقیر مکی[327]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہاں ایک عمدہ نکتہ کی بات یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں وہم کا بہت بڑا رول ہے، انسان اپنے تعلق سے جیسا سوچتا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جب مریض یہ سمجھ لیتا ہے کہ فلاں چیز سے اسے شفا حاصل ہوگی تو اس کا دل اس چیز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اس کے مسام اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے کھل جاتے ہیں، اس کے لئے اس کے جسم میں خون کی گردش میں اضافہ ہو جاتا ہے، کبھی کبھی یہ وہم صحیح فکر و نظر کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ وباء کے زمانہ میں خاص طور پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔[328]؎
محترم قارئین! اب آپ وہ واقعہ پڑھئے جسے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ”شہر میں لوگوں کی ایک جماعت تھی، وہ لوگ عبیدیوں کو صلحاء اور اولیاء اللہ میں شمار کرتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ لوگ منافق اور بے دین لوگ تھے، ان زندیقوں میں بہتر وہ ہیں جنہیں روافض کہا جاتا ہے۔ میری بات سے انہیں بہت حیرانی ہوئی، وہ کہنے لگے: ہمارے گھوڑوں کو جب مغل[329]؎ کی شکایت ہوتی ہے تو ہم انہیں لے کر ان عبیدیوں کی قبروں کے پاس جاتے ہیں، وہاں جا کر ان گھوڑوں کو شفا حاصل ہو جاتی ہے۔
میں نے ان سے کہا: یہ تو ان کے کفر کی سب سے بڑی دلیل ہے، میں نے گھوڑے کی تربیت کرنے والے چند سائسوں کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ شام اور مصر میں جب گھوڑے کو مغل کی شکایت ہوتی ہے تو تم لوگ اسے کہاں لے کر جاتے ہو؟
ان لوگوں نے بتایا: شام میں ان گھوڑوں کو یہود و نصاری کی قبروں کے پاس لے جایا جاتا ہے، شمالی علاقہ میں ان گھوڑوں کو اسماعیلیوں[330]؎ کی قبروں کے پاس لے جایا جاتا ہے، مصر میں ان گھوڑوں کو نصاری کے دیر[331]؎ کی طرف لے جاتے ہیں، ان گھوڑوں کو ان شرفاء کی قبروں کے پاس لے جاتے ہیں، یہ لوگ عبیدیوں کو شرفاء کے زمرہ میں شمار کرتے تھے کیونکہ ان عبیدیوں نے اہل بیت سے اپنا تعلق ظاہر کیا تھا۔
میں نے کہا: کیا یہ لوگ اپنے مغل زدہ گھوڑے کو نیک مسلمانوں مثلاً لیث بن سعد، شافعی، ابن القاسم وغیرہ کی قبروں کے پاس بھی لے جاتے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں، میں نے ان لوگوں سے کہا: میری بات غور سے سنو، یہ لوگ اپنے بیمار گھوڑوں کو کفار و منافقین کی قبروں کے پاس لے جاتے ہیں، میں نے اس کا سبب یہ بتایا کہ ان کفار و منافقین کو ان کی قبروں کے اندر عذاب ہو رہا ہوتا ہے، چوپائے اس عذاب قبر کی آواز کو سنتے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے، چوپائے اس آواز کو سن کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں، اس ڈر اور خوف کی وجہ سے ان کے قبض کی کیفیت دور ہو جاتی ہے اور وہ لید خارج کرنے لگتے ہیں، گھبراہٹ کی وجہ سے اسہال کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ وہ لوگ میری بات کو سن کر حیرت میں پڑ گئے۔ یہ باتیں میں لوگوں سے بیان کیا کرتا تھا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ پہلے بھی کسی نے یہ بات کہی ہے یا نہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ کچھ علماء نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔“[332]؎
چھٹی وجہ: غیر اللہ سے دعا مانگنے کے جواز پر تجربہ سے استدلال کرنے والے سے کہا جائے گا: قبر والے سے دعا مانگنے والے کو شیطان اپنے سب سے بڑے مکر جال میں پھنساتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس دعا کرنے والے کو اس کی گمشدہ چیز کی اصل جگہ کے بارے میں بتا دیتا ہے۔ قبر والے سے دعا مانگنے والا جب دعا مانگتا ہے تو مردہ کی جگہ شیطان اس سے ہم کلام اور مخاطب ہوتا ہے، دعا کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ قبر والے نے اس کی رہنمائی کی ہے، اس لئے اسے قبر والے سے دعا مانگنے کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ اس مسکین کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور زمین کو چھان مارنے کی حیرت انگیز طاقت و صلاحیت عطا کی ہے۔ قبر والے سے دعا کرنے والا جب اس سے مثلاً کسی گمشدہ چیز کی جگہ بتانے کی درخواست کرتا ہے تو شیطان روئے زمین کا تیزی کے ساتھ چکر لگاتا ہے اور گمشدہ چیز کا پتہ لگا کر دعا کرنے والے کو اس کی خبر دے دیتا ہے۔ دعا کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ قبر والے نے یہ رہنمائی کی ہے، بلکہ اسے اپنی دعا کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا ہے، پھر وہ گمراہی کے اسی راستہ پر سفر جاری رکھتا ہے اور قبر والے سے اس کا تعلق مزید مضبوط ہو جاتا ہے، پھر اسے کسی چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے تو قبر والے کے پاس پہنچتا ہے، اس لئے کہ ضرورت مند اندھا ہوتا ہے، بس اسے یہی فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کی ضرورت پوری ہو جائے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”میں اس شخص سے واقف ہوں جو زندوں سے فریاد کرتا ہے، وہ زندے فریاد کرنے والے کے حالات کا تصور کرتے ہیں اور اس سے ان چیزوں کو دور کر دیتے ہیں جن سے وہ بچنا چاہتا ہے، اسے وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے جس کی اسے ضرورت تھی، لیکن فریاد کرنے والے زندہ انسانوں کو اس کا کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ سب کہاں سے اور کیسے ہو رہا ہے۔ یہ دراصل شیطان ہے جو زندوں کی مشکل میں ان کے سامنے نمودار ہوا ہے تاکہ غیر اللہ سے دعا مانگنے والے اس مشرک کو گمراہ کرے۔ پہلے بھی انسان جنات کی پناہ طلب کرتے تھے تو جنوں کے سردار اسے بیوقوف اور اجڈ قسم کے لوگوں سے پناہ دیا کرتے تھے، یہ جنات انسانوں کے ذریعہ ان سے پناہ طلب کرنے پر خوش ہو کر ایسا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وأنہ کان رجال من الإنس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقا“ (بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے) جو لوگ سورج چاند اور ستاروں کو سجدہ کیا کرتے تھے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے، ان پر جنوں کی روحیں اترتی تھیں اور دعا کرنے والوں کی بہت سی حاجتیں پوری کر دیا کرتی تھیں، دعا کرنے والے یہ لوگ اسے ستاروں کی روحانیت کا نام دیا کرتے تھے، حالانکہ سب شیطان کی کارستانی ہوتی تھی۔
کچھ شیاطین اپنے ساتھی انسان کو ہوا کے دوش پر اڑاتے ہیں، اسے بیت المقدس لے جاتے ہیں، وہاں جبل الصالحین سے دور دراز کے علاقہ تک پہنچا دیتے ہیں، کبھی اسے ہوا میں اوپر لے جاتے ہیں، کبھی اسے تلوار کی دھار پر رکھ دیتے ہیں، کبھی اسے لے کر جلتی ہوئی آگ میں گھس جاتے ہیں اور اسے جلنے بھی نہیں دیتے۔ یہ ساری کرتب بازی شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لئے کرتا ہے۔ مومن کی سعادت و کامرانی اور فلاح و نجات کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینے میں ہے اور جو چیز مشروع ہے اور جس طرح مشروع کی گئی ہے اسی کی اتباع کرنے میں ہے۔ دعا اہم ترین عبادتوں میں سے ایک ہے، لہذا انسان کے لئے ضروری یہ ہے کہ وہ صرف مشروع دعاؤں کا التزام کرے، یہی سیدھا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مومن بھائیوں کو اسی سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔“[333]؎
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں: ”اِس قبیل کے بہت سے واقعات سے میں واقف ہوں جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آئے جنہوں نے مجھ سے اور میرے علاوہ دوسروں سے ہماری غیر موجودگی میں استغاثہ کیا یعنی مدد کے لئے فریاد کی، تو ان فریاد کرنے والوں نے مجھے اور اُس دوسرے آدمی کو جس سے انہوں نے فریاد کی تھی، دیکھا کہ ہم ہوا میں آئے ہوئے ہیں اور ہمیں اُن کے اوپر بلند کر دیا گیا ہے۔ جب ان فریاد کرنے والوں نے اِس کے بارے میں مجھے بتایا تو میں نے اُن سے کہا کہ وہ شیطان تھا، اس نے میری اور میرے علاوہ اُس دوسرے شخص کی صورت بنالی جن سے اِن لوگوں نے فریاد کی تھی تاکہ انہیں ایسا لگے کہ یہ شیخ کی کرامات ہے اور اِس طرح غیرموجود اور مرے ہوئے شیوخ سے فریاد کرنے کے ان کے عزائم اور مضبوط ہو جائیں۔ مشرکین اور بت پرستوں کے شرک میں مبتلا ہونے کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔[334]؎“
بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لئے شیاطین کے تلبیسات اور ان کے مکر و فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”شیاطین لوگوں کو مخاطب کرتے ہیں اور کچھ چیزوں میں ان کی مدد کرتے ہیں، جن کی مدد کی جاتی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فرشتے کی عبادت کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ جنات کی عبادت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ جن ہی ہیں جو کچھ چیزوں میں ان کی مدد کر دیتے ہیں اور ان کے شرکیہ عمل سے راضی و خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و یوم یحشرھم جمیعا ثم یقول للملائکۃ أھؤلاء کانوا یعبدون قالوا سبحانك أنت ولینا من دونھم بل کانوا یعبدون الجن أکثرھم بھم مومنون“ (اور ان سب کو اللہ اس دن جمع کرکے فرشتوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے اور ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ یہ بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں کے اکثر کا ان ہی پر ایمان تھا) فرشتے شرک کرنے کے لئے لوگوں کی مدد نہیں کرتے، نہ زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد، نہ وہ شرکیہ کاموں سے راضی و خوش ہوتے ہیں، لیکن شیاطین اِن کاموں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور انسانی شکل بنا کر ان کے سامنے آتے ہیں، لوگ انہیں انسانی شکل میں اپنے آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ان شیاطین میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں ابراہیم ہوں، میں مسیح ہوں، میں محمد ہوں، میں خضر ہوں، میں ابوبکر ہوں، میں عمر ہوں، میں عثمان ہوں، میں علی ہوں، میں فلاں شیخ ہوں۔
یہ شیاطین ایک دوسرے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ فلاں نبی ہے یا یہ خضر ہے جبکہ وہ سب کے سب جنات ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گواہ بن جاتے ہیں۔ جن بھی انسان ہی کی طرح کافر، فاسق، گنہگار اور جاہل عابد وغیرہ مختلف نوع کے ہوتے ہیں، اُن شیاطین میں کوئی کسی شیخ سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کی صورت بنا کر انسان کو دھوکہ دیتا ہے کہ میں فلاں ہوں ایسا غیرآباد اور سنسان جگہوں میں ہوتا ہے۔ وہ شیطان اُس شخص کو کبھی کچھ کھلا دیتا ہے، کبھی پینے کی کوئی چیز دے دیتا ہے یا راستہ بتا دیتا ہے یا نگاہوں سے اوجھل چیزوں میں سے کسی چیز کی خبر دے دیتا ہے۔ انسان یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ خود میت یا زندہ شیخ نے یہ کام کر دیا، پھر وہ انسان کہنے لگتا ہے کہ یہ شیخ کا پوشیدہ معاملہ ہے، یہ ان کی رحمدلی ہے، یہ ان کی حقیقت ہے۔ یا یہ کہتا ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو شیخ کی صورت میں آیا تھا حالانکہ وہ جن ہوتا ہے، اس لئے کہ فرشتے شرکیہ کام میں کسی کی مدد نہیں کرتے ہیں، وہ جھوٹ، گناہ اور سرکشی کے کام میں کسی کی مدد کرنے سے دور رہتے ہیں۔[335]؎“
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں: ”اِس میں شک نہیں شرک کی جگہوں پر شیاطین کی موجودگی، ان کی بات چیت اور ان کے ایسے تصرفات سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے بنی آدم کے لئے گمراہی کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔ قبروں کو بت اور دعا و مناجات کی جگہ بنا لینا اولین شرک ہے، اِسی لئے قبروں کے پاس کچھ لوگوں کو بات چیت سننے کا تجربہ ہوتا ہے، کسی کو کوئی انسان نظر آجاتا ہے، کسی کو عجیب و غریب تصرف دیکھنے کو ملتا ہے، اِن چیزوں کا مشاہدہ کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب مردہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ جن اور شیاطین کے تصرفات ہوتے ہیں، مثلاً کوئی دیکھتا ہے کہ قبر پھٹ گئی ہے، اُس سے مردہ نکل کر کلام اور معانقہ کر رہا ہے، اِس طرح کا تجربہ انبیاء اور غیر انبیاء کی قبروں کے پاس ہوتا ہے، وہ مردہ نہیں بلکہ شیطان ہوتا ہے، شیطان انسانی شکل و صورت اختیار کر لیتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ میں فلاں نبی ہوں، میں فلاں شیخ ہوں، اس کی ہر بات جھوٹی ہوتی ہے۔[336]؎“
میں کہتا ہوں: یہ بات ثابت شدہ ہے کہ شیاطین اُن بتوں کے پاس ڈیرہ ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ جن کی پرستش کی جاتی ہے اور ان بتوں کی پرستش کرنے والے انسانوں سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں تاکہ انہیں راہ حق سے منحرف کر سکیں۔ ابو یعلی نے اپنی سند سے ابو الطفیل کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقام نخلہ روانہ کیا، وہاں ”عُزّی“[337]؎ نام کا بت نصب تھا، چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے، وہ بت اس ٹیلہ پر نصب تھا جہاں ببول کے درخت تھے، انہوں نے ببول کے درختوں کو کاٹ دیا اور اس گھر کو منہدم کر دیا جس پر وہ نصب تھا۔ اس کے بعد وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور جو کچھ کیا تھا اس کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم دوبارہ واپس جاؤ، اس لئے کہ ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا ہے[338]؎۔ خالد رضی اللہ عنہ دوبارہ واپس آئے، جب عزّی کے مجاوروں اور خدام نے ان کو دیکھا تو وہ یہ کہتے ہوئے پہاڑ میں روپوش ہوگئے؛ اے عزی! تو اِس سے نمٹ لے، اے عزی تو اسے واپس کر دے، ورنہ اِسے ذلت کی موت مار دے۔ راوی کہتے ہیں: خالد رضی اللہ عنہ اُس بت کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک ننگی عورت اپنے بالوں کو بکھیرے ہوئی اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے، خالد رضی اللہ عنہ نے تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس واپس آئے اور اپنی کارکردگی سے مطلع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”وہی عزی تھی۔“[339]؎
اس روایت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنیہ عزی نام کے بت کے پاس بسیرا کئے ہوئی تھی۔
اِسے سمجھنے کے لئے عبداللہ بن امام احمد کی نقل کردہ وہ روایت بھی کافی ہے جسے انہوں نے مسند احمد[340]؎ کے زوائد کے تحت نقل کی ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ”إن یدعون من دونہ إلّا إناثا“ (یہ تو اللہ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں) کی تفسیر میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہر بت کے ساتھ ایک جنیہ ہوتی ہے۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں: حسن سے بھی اِسی طرح کا قول منقول ہے۔[341]؎
ایک اہم فصل
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان شیاطین کو پرکھنے کا ایک صحیح شرعی طریقہ بھی بتایا ہے جو قبرستانوں وغیرہ کے آس پاس لوگوں سے ہم کلام ہوتے ہیں، اس کے ذریعہ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا یہ شیاطین ہیں یا کچھ اور۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اونچے مقام و مرتبہ کا مومن یہ جان لیتا ہے کہ یہ شیطان ہے جو اس سے مخاطب ہو رہا ہے۔ اس کو پرکھنے کے کئی طریقے ہیں:
ایک طریقہ یہ ہے کہ جہاں پر اس طرح کی کوئی چیز نظر آئے تو وہ صدق دل سے ایمان و یقین کے ساتھ آیت الکرسی پڑھے۔ جب وہ اسے پڑھے گا تو وہ شیطان جو انسانی شکل بنا کر اس سے ہم کلام ہو رہا تھا یا کوئی تصرف کر رہا تھا وہ غائب ہو جائے گا، یا زمین کے اندر دھنس جائے گا یا نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا، اگر وہ کوئی نیک انسان یا فرشتہ یا مومن جن ہوگا تو اسے آیت الکرسی سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، صرف شیاطین کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے جیسا کہ صحیح میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث آئی ہے کہ ان سے ایک جن نے کہا تھا کہ بستر پر جانے کے بعد تم آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محافظ تمہاری حفاظت کے لئے مامور ہو جائے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا ہے حالانکہ وہ بہت جھوٹا ہے۔[342]؎
ایک طریقہ یہ ہے کہ مومن کو جب کوئی انہونی چیز نظر آئے تو وہ شیاطین سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور شرعی معوذات کے ذریعہ اپنی حفاظت کا انتظام کرے۔ انبیاء کی زندگی میں بھی شیاطین ان کے پاس پہنچ جاتے تھے اور انہیں تکلیف پہنچانے اور ان کی عبادتوں میں خلل اندازی کی کوشش کرتے تھے۔ صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گزشتہ رات ایک جن نے مجھ پر اچانک اور بےخبری کی حالت میں حملہ آور ہونے کی کوشش کی تاکہ میری نماز میں خلل اندازی کرے، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت عطا کی تو میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا، میں نے اسے مسجد کے ستون سے باندھنے کا ارادہ کیا تاکہ صبح کو تم سب لوگ اسے دیکھ سکو، پھر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا مجھے یاد دلائی گئی ”رب اغفرلي وھب لي ملکا لا ینبغي لأحد من بعدي“ (اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی (شخص) کے لائق نہ ہو) پھر اللہ تعالیٰ نے نامراد کرکے اسے واپس کر دیا۔[343]؎
جب یہ شیاطین انبیاء علیہم السلام کے پاس ان کو نقصان پہنچانے اور ان کی عبادت میں خلل ڈالنے کے لئے پہنچا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ انبیاء کی دعاؤں، اذکار، عبادت اور ان کے جہاد بالید کے ذریعہ شیاطین کے شر سے ان کی حفاظت کرتا تھا تو پھر اس معاملہ میں انبیاء سے کمتر درجہ کے لوگوں کا کیا حال ہوگا اس کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علوم اور اعمال سکھائے تھے ان کے ذریعہ آپ نے شیطان کا خاتمہ کر دیا، ان اعمال میں عظیم ترین چیز نماز اور جہاد ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر احادیث نماز اور جہاد کے بارے میں ہیں۔ جو انبیائے کرام کے نقش قدم کی پیروی کرے گا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان ہی اعمال کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا جن کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی تھی۔
اس کے برخلاف جس نے کوئی نیا دین یا طریقہ ایجاد کر لیا جسے کسی نبی نے مشروع نہیں کیا تھا، پھر اس نے ایک اللہ پاک کی عبادت کو ترک کر دیا جس کا نبیوں نے حکم دیا تھا اور اس کے نبی نے اپنی امت کے لئے جو مشروع کیا تھا اس کی اتباع سے منہ موڑ لیا، بلکہ اس نے انبیاء و صالحین کے معاملہ میں غلو اور شرک کو اختیار کر لیا، تو یہ وہ شخص ہے جسے شیاطین نے اپنا کھلونا بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إنہ لیس لہ سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربھم یتوکلون إنما سلطانہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون“ (ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا زور مطلقا نہیں چلتا، ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إن عبادي لیس لك علیہم سلطان إلّا من اتبعك من الغاوین“ (میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں، لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں)
شیطان سے حفاظت اور اس کی حقیقت کو جاننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شیطان کو دیکھنے والا اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ حقیقت حال کو اس کے لئے منکشف کر دے۔
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شیطان کو دیکھنے والا اس سے سوال کرے کہ کیا تم فلاں ہو؟ اسے سچ بتانے کے لئے سخت قسم کی قسمیں کھلائیں اور اس پر قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت کرے جو شیاطین کو چوٹ پہنچاتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی شیاطین کو ضرر پہنچانے والے اسباب کو اختیار کر سکتا ہے۔“[344]؎ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔
شیطان کو دیکھنے والے کا حال حدیث میں بیان کئے گئے اس مومن کا ہے جو دجال کا سامنا کرنے کے لئے باہر نکلا ہو تاکہ اس کے عجیب و غریب کرتوت کا راز جان سکے اور اس کے معاملہ کی حقیقت تک پہنچ سکے۔ اسے اپنے رب کے وعدے اور دجال کے تعلق سے دی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پر ایمان و یقین ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعلق سے جو کچھ بتا دیا ہے اس میں اسے ذرہ برابر شک و شبہ نہ ہو، پھر دجال اس کے سامنے ظاہر ہو جائے تو وہ لوگوں کو مخاطب کرکے کہے: لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کا تذکرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیثوں میں کیا ہے، یہ سن کر دجال اپنے کارندوں کو حکم دے گا کہ اسے تپتے ہوئے سورج کے قریب لے جا کر جلاؤ اور سزا دو، پھر وہ کہے گا: اس کے پیٹ اور پیٹھ پر بےرحمی سے ضرب لگاؤ یہاں تک کہ اس کی کھال ادھڑ جائے۔ پھر دجال اس بندۂ مومن سے پوچھے گا: کیا تم اب بھی مجھ پر ایمان نہیں لاتے ہو؟ وہ بندہ کہے گا: تم جھوٹے مسیح ہو، پھر دجال کے حکم سے اسے آڑی سے سر سے پاؤں تک چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جائے گا، اس کے جسم کے ان دو حصوں کے درمیان دجال چہل قدمی کرتے ہوئے کہے گا: اٹھو کھڑے ہو جاؤ، وہ بندہ اٹھ کر صحیح سالم کھڑا ہو جائے گا، پھر دجال اس سے پوچھے گا: کیا اب تم مجھ پر ایمان لاتے ہو؟ وہ بندہ کہے گا: تمہارے تعلق سے میری بصیرت میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ پھر وہ بندہ کہے گا: اے لوگو! میرے بعد اب یہ کسی کے ساتھ یہ سلوک نہیں کر پائے گا، یہ سن کر دجال اس بندۂ مومن کو ذبح کرنے کے لئے چلے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی پوری گردن کو نیچے سے اوپر پیتل کا بنا دیا جائے گا جس کی وجہ سے دجال اس بندۂ مومن کو لوگوں کے سامنے ذبح کرنے سے قاصر و عاجز ہو جائے گا، تب وہ اس بندۂ مومن کے دونوں ہاتھوں اور پاؤں کو پکڑ کے دور پھینک دے گا، لوگ سمجھیں گے کہ دجال نے اسے جہنم میں پھینک دیا ہے، حالانکہ اسے جنت میں ڈالا گیا ہوگا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب العالمین کے نزدیک کسی بندہ کی طرف سے یہ سب سے عظیم شہادت ہوگی۔[345]؎
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ علماء غیر اللہ سے دعا مانگنے والے پر نکیر نہیں کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اس کے لئے ترغیب دیتے ہیں اور اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، کیا یہ غیر اللہ سے دعا مانگنے کے جواز کو ثابت نہیں کرتا ہے؟
جواب: کچھ لوگوں کا عمل غیر اللہ سے دعا مانگنے کو مطلق طور پر صحیح ثابت نہیں کرتا ہے، اس کی پانچ وجوہات ہیں[346]؎:
پہلی وجہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے اوپر فرض کی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ کسی کی بھی مستقل طور پر اطاعت کا حکم نہیں ہے، بلکہ ان ہی امور میں دوسروں کی اطاعت ہوگی جو شریعت کے موافق ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء قلیلا ما تذکرون“ (تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ و الرسول إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر ذلك خیر و أحسن تأویلا“ (پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے) یہ آیتیں اس بات کی قطعی دلیلیں ہیں کہ اصول و فروع کسی بھی طرح کے دینی امور میں اگر لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا واجب ہے، اسے غیر اللہ یا غیر رسول کی طرف نہیں لوٹایا جائے گا، اگر کسی نے اسے غیر اللہ کی طرف لوٹا دیا تو اس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔
آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور کریں: ”إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر“ (اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو) یہ شرط ہے، اگر یہ شرط مفقود ہو جائے تو پھر مشروط کا بھی وجود باقی نہیں رہے گا، یعنی جس نے اختلافی امور میں غیر اللہ اور غیر رسول کو حکم بنا لیا تو وہ اللہ اور آخرت پر ایمان کے تقاضے سے باہر نکل گیا۔
سلف و خلف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کی طرف اختلافی معاملہ کو لوٹانے سے مراد اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا ہے اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹانے سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی سنت کی طرف اسے لوٹانا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”ذلك خیر و أحسن تأویلا“ (یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے) یعنی اختلافی امور و معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کو حکم بنانا تمہاری دنیا و آخرت اور دونوں جگہ کی سعادتوں کے لئے بہتر ہے، ایسا کرنے والے کے اچھے انجام کی گواہی دی جا سکتی ہے اور یہاں وہاں ہر جگہ یہ سعادت و کامرانی کا سبب ہے۔
یہ ایک نہایت اہم اور عظیم الشان ضابطہ بھی ہے جسے ہر شخص کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے، دینی علوم کے طلباء کو اس قاعدہ کلیہ کی اور زیادہ ضرورت ہے۔ عام طور پر طلبائے علوم دین کے مشاہدہ میں یہ بات آتی ہے کہ ان کے شہر کے کچھ علماء لوگوں کو ایسا فتوی دیتے ہیں جو شریعت کے برخلاف ہوتا ہے، وہ علماء یا تو شرعی دلائل سے ناواقف ہوتے ہیں یا اپنے پیشر و علماء کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں یا پھر اپنے اہل مسلک کے نصوص پر ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بسا اوقات دوسرے مسلک والوں کے نصوص کے برخلاف ہوتے ہیں، لہذا اپنے اہل مسلک کے نصوص کی تائید میں خلاف شرع فتوی دیتے ہیں؟ یا اس کے علاوہ کوئی اور سبب ہوتا ہے، ایسے موقع پر ضروری یہ ہے کہ وہ اپنے اہل مسلک کے نصوص اور دوسرے مسالک والوں کے نصوص کو کتاب اللہ اور سنت رسول کے سامنے پیش کرے، اُن میں سے جو قرآن و سنت کے موافق ہو اُسے قبول کرلے اور جو اُس کے برخلاف ہو اُسے غیرشرعی فتوی دینے والے کی طرف لوٹا دے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اُسے اللہ اور اس کے رسول سے جو کچھ ثابت ہو اُسے ہی معیار بنانا چاہیے اور ان ہی دونوں سرچشمۂ شریعت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے۔ بہت سے لوگوں نے یا یہ کہیے کہ اکثر لوگوں نے اِس حکم شریعت کو بالکل الٹا کر دیا ہے اور بعد کے لوگوں کی تصنیف کردہ کتابوں کو حکم بنا لیا ہے ”فتقطعوا أمرھم بینھم زبرا کل حزب بما لدیھم فرحون“ (پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکرے ٹکرے کر لئے، ہرگر وہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا)
اِس سلسلہ میں چاروں مسالک کے ائمہ وغیرہم کے حوالہ سے جو کچھ منقول ہے اُس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اختلافی امور میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور علماء کے اقوال کو قرآن و سنت پر مقدم کرنا حرام ہے، چاہے وہ جو بھی ہوں۔ چاروں مسالک کے ائمہ کے کچھ اقوال یہاں نقل کئے جا رہے ہیں۔ میں نے اِن تمام اقوال کو مع تخریج و حوالہ جات شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب ”صفۃ صلاۃ النبي صلی اللہ علیہ و سلم“[347]؎ کے مقدمہ سے نقل کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ النعمان رحمہ اللہ کے اقوال
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے: جب حدیث صحیح و ثابت ہے تو وہی میرا مسلک ہے۔[348]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: کسی کے لئے میرے قول کو اس وقت تک اختیار کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اِس قول کو کہاں سے اخذ کیا ہے۔[349]؎ ایک روایت میں یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص میری دلیل سے واقف نہ ہو اُس کے لئے میرے قول سے فتوی دینا حرام ہے۔
ایک روایت میں اضافہ ہے کہ ہم انسان ہیں، ایک دن کوئی بات کہتے ہیں اور اگلے دن اُس سے رجوع کر لیتے ہیں۔
ایک اور روایت میں یہ قول نقل کیا گیا ہے: اے یعقوب! [350]؎ تمہارا بھلا ہو جو کچھ میری زبان سے سنتے ہو اُسے ضبط تحریر میں نہ لایا کرو، اس لئے کہ آج میری ایک رائے ہوتی ہے اور اگلے دن میں اس رائے کو ترک کر دیتا ہوں، اگلے دن میری ایک رائے ہوتی ہے اور اس کے اگلے دن میں اُس رائے کو بھی ترک کر دیتا ہوں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اِن مذکورہ بالا اقوال کے تعلق سے یہ بات کہی ہے کہ ایسا اِس وجہ سے تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال اکثر و بیشتر قیاس پر مبنی ہوا کرتے تھے، بعد میں اس سے زیادہ قوت کے حامل قیاس تک ان کی رسائی ہو جاتی تھی یا اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث ان تک پہنچ جاتی تھی تو وہ اُسے اختیار کر لیتے تھے اور اپنے قول سابق کو ترک کر دیتے تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ہے: اگر میں کوئی ایسی بات کہوں جو کتاب اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے برخلاف ہو تو میرے قول کو ترک کر دو۔[351]؎
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے اقوال
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں انسان ہوں، مجھ سے خطا و صواب دونوں کا صدور ہوتا ہے، لہٰذا تم لوگ میری کہی ہوئی باتوں پر غور کیا کرو، میری جو رائے قرآن و سنت کے موافق ہو اُسے قبول کرو اور جو قرآن و سنت کے موافق نہ ہو اُسے چھوڑ دو۔[352]؎
امام مالک کا یہ قول بھی ہے: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ جو بھی ہے اس کے اقوال میں سے کچھ کو قبول کیا جائے گا اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے گا، صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم اِس سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ آپ کے تمام ارشادات اگر وہ ثابت ہوں تو حجت ہوں گے۔[353]؎
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کے اقوال
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہر اہل علم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچھ حدیثیں پہنچتی ہیں اور کچھ نہیں پہنچ پاتی ہیں، میں جب بھی شریعت کے معاملہ میں کوئی بات کہوں یا شریعت کی کسی اصل کو واضح کروں اور اس مسئلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث میرے موقف کے برخلاف ہو تو اِس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کو مقدم رکھا جائے گا اور وہی میرا بھی قول ہوگا۔[354]؎
ان کا یہ بھی قول ہے: مسلمانوں کا اِس پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث واضح شکل میں آگئی اُس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی کے قول پر عمل کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کو ترک کر دے۔[355]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: اگر تمہیں میری کتاب میں سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے برخلاف کوئی بات ملے تو تم سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار کرو اور میرے قول کو چھوڑ دو۔[356]؎
ان سے منقول ایک روایت میں آیا ہے: تم اُس سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرو اور کسی دوسرے کے قول کی طرف توجہ نہ دو۔[357]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: جب حدیث صحیح اور ثابت ہو تو وہی میرا مسلک ہے۔[358]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: اگر کسی مسئلہ میں میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو محدثین کے ذریعہ نقل کی گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی صحیح و ثابت حدیث کے برخلاف ہے تو میں اپنی اُس بات سے اپنی زندگی میں بھی رجوع کر رہا ہوں اور مرنے کے بعد بھی۔[359]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: میرے اِس موقف پر گواہ رہو کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث میرے نزدیک ثابت ہو جائے اور میں اُسے اختیار نہ کروں تو سمجھ لو کہ میری عقل رخصت ہو چکی ہے۔[360]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: میں کوئی بھی بات کہوں اور میرے قول کے برخلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ارشاد ثابت ہو جائے تو اِس صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مقدم ہو گی، پھر تم لوگ اس معاملہ میں میری تقلید نہ کرنا۔[361]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہر ثابت شدہ حدیث ہی میرا قول ہے، اگرچہ تم نے اُسے میری زبان سے نہ سنا ہو۔[362]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث ثابت ہو جائے اور میں نے اس کے برخلاف کوئی دوسری بات کہی ہو تو میں اپنی اس بات سے رجوع کروں گا اور اُس ثابت شدہ حدیث نبوی کو اختیار کروں گا۔[363]؎
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اقوال
امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے: تم لوگ میری تقلید نہ کرو، نہ مالک، شافعی، اوزاعی اور ثوری کی تقلید کرو، تم وہاں سے دین کا علم حاصل کرو جہاں سے ان لوگوں نے حاصل کیا۔[364]؎
ایک روایت میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: تم دین کے معاملہ میں اِن میں سے کسی کی تقلید نہ کرو۔ جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہو اس کو اختیار کرو، اگر کوئی حکم قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اس کے بارے میں صحابہ کرام کا کوئی قول بھی موجود نہ ہو تو اِس صورت میں تابعین کے فتاوے کی طرف بندہ کا رجوع کرنا صحیح ہے۔
انہوں نے ایک مرتبہ کہا: اتباع یہ ہے کہ انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے جو کچھ منقول ہے اس کی اتباع کرے، پھر اِس کے بعد تابعین کے فتاوے کی طرف رجوع کرنے کا اُسے اختیار ہے۔[365]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: اوزاعی، مالک اور سفیان سب کی اپنی رائے اور اجتہاد ہے، اِن سب کی میرے نزدیک یکساں حیثیت ہے، اصل حجت و دلیل آثار میں ہے۔[366]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کو ٹھکرا دیا وہ ہلاکت کے کنارے پہنچ گیا۔[367]؎
دوسری وجہ: ”ہمارے علاقے میں غیراللہ سے دعا مانگنے کا رواج ہے اور علماء اِس پر نکیر نہیں کرتے ہیں“ اِس طرح کی بات کے مردود ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالم خطا و نسیان سے معصوم نہیں ہوتا، بسا اوقات اس سے لغزش بھی ہوتی ہے تو وہ شبہ یا عادت و رواج کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے اِس قبیل کی منکر چیز کے جواز کا فتوی دے دیتا ہے: بیہقی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے بارے میں تین چیزوں کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے؛ ایک عالم کی لغزش، دوسرے منافق کا قرآن کے ذریعہ جدال و مناقشہ اور تیسرے دنیا کا جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دے گی، لوگ اپنی ذات کے برخلاف دنیا ہی کو متہم کریں گے۔“[368]؎
یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ عالم کی لغزش کا جو پہلو اندیشہ میں مبتلا کرنے والا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس کی لغزش کی تقلید کریں گے، اگر دوسرے کو متاثر کرنے والی یہ بات نہ ہوتی تو پھر عالم کی لغزش سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ اس کے تعلق سے اندیشہ کا اظہار کیا جاتا۔ جب یہ معلوم ہو جائے کہ عالم سے اس لغزش کا صدور ہوا ہے تو پھر اِس پر علماء کا اتفاق ہے کہ اس معاملہ میں اس کی پیروی نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ یہ عمداً غلطی کی اتباع کرنا کہلائے گا۔
عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: تین قسم کے لوگ زمانہ میں بگاڑ کا سبب بنیں گے، ایک گمراہ کرنے والے ائمہ، دوسرے قرآن کے ذریعہ منافق کا جدال و مناقشہ جبکہ قرآن حق ہے اور تیسرے عالم کی لغزش۔[369]؎
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم سے لغزش اور خطا کا صدور ہوتا ہے تو پھر کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسا فتوی دے یا اپنی کسی ایسی بات کو اللہ کا دین بنا کر پیش کرے جس کی توجیہ و دلیل سے وہ واقف نہ ہو۔ پھر جب اس عالم کا کوئی قول یا فعل قول رسول یا فعل رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ٹکرا جائے تو اُس وقت کیا حکم ہوگا اِس کا ادراک ہمارے لئے مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
تیسری وجہ: یہ بات معلوم اور ثابت شدہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جن باتوں کا حکم دیا اور جن چیزوں سے منع فرمایا اِس کے سب سے زیادہ جاننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور طریقہ کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے اور آپ کے حکموں پر سب سے زیادہ چلنے والے تھے۔ یہ وہی برگزیدہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کی سند عطا کی اور اِن صحابہ کرام کی صدق دلی کے ساتھ اتباع کرنے والوں کو بھی اللہ نے اپنی رضامندی کی بشارت دی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اُن صحابہ کرام کے دور میں وفات پانے والے صحابہ کرام کی بےشمار قبریں موجود تھیں، اِن میں سے کچھ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ میں سفر آخرت پر روانہ ہوئے تھے اور کچھ کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ہوا، لیکن ان صحابہ کرام نے قبروں میں مدفون صحابہ کرام میں سے کسی کی قبر کی طرف متوجہ ہو کر دعا نہیں کی۔ قبروں کے معاملہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی یہی سنت ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا اثر پیش نہیں کیا جا سکتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ صحابہ کرام قبر میں مدفون مردہ سے دعا مانگتے ہوں۔ جب اِس طرح کا کوئی ثبوت و اثر موجود نہیں ہے تو پھر امت کے لئے اُسی راستہ پر چلنا ضروری ہے جو صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اختیار کیا ہوا راستہ ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی ہے: اگر کوئی کسی کو اسوہ و نمونہ بنانا چاہتا ہے تو وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اسوہ و نمونہ بنائے، اس لئے کہ وہ لوگ اِس امت کے سب سے نیک دل، سب سے زیادہ گہرا علم رکھنے والے، سب سے کم تکلف کرنے والے، سب سے زیادہ سیدھے راستہ پر چلنے والے اور سب سے اچھی ایمانی حالت میں زندگی گزارنے والے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کے لئے چنا تھا، لہٰذا تم لوگ ان کی فضیلت کو پہچانو، ان کے نقوش قدم کی پیروی کرو، اس لئے کہ وہ لوگ سیدھے راستہ پر گامزن تھے۔[370]؎
چوتھی وجہ: چاروں مسالک کے بڑے علماء سے بھی قبر والے سے دعا کرنے کے جائز ہونے کی بات منقول نہیں ہے، وہ لوگ تیسری صدی ہجری میں علم دین کے ائمہ تھے، ان کے درمیان بےشمار فقہی مسائل میں اختلاف ہوا ہے، لیکن جہاں تک قبر والوں سے دعا مانگنے کی بات ہے تو اُن ائمہ میں سے کسی نے بھی اِسے جائز نہیں کہا ہے اور نہ اِس مسئلہ میں ان کا کوئی اختلاف ہے، اگر اس طرح کی کوئی بات ہوتی تو ضرور ان کے حوالہ سے نقل کی گئی ہوتی۔ اِس کے برعکس ان ائمہ کی کتابیں اور ان کے مسالک سے تعلق رکھنے والے ان کے متبعین کی کتابیں اِس حقیقت کے بیان سے بھری ہوئی ہیں کہ دعا صرف اللہ تعالیٰ سے کی جائے گی، جس نے غیراللہ کی عبادت کی اُس نے کفر کا ارتکاب کیا، اُسے اللہ کے دین سے مرتد و خارج کہا گیا ہے[371]؎۔ اِس بنا پر بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ صرف وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے کہ غیراللہ سے دعا مانگنے پر علماء نے نکیر نہیں کی ہے جس کے پاس دین کا ضروری علم نہیں ہے اور دین کے تعلق سے اس کی معلومات بہت معمولی ہے۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ کچھ علماء نے غیراللہ سے دعا مانگنے کو تسلیم کیا ہے اور اس پر نکیر نہیں کی ہے تب بھی یہ بات کہی جائے گی کہ ان علماء کا قول و فعل شریعت میں حجت نہیں ہے جیسا کہ اس کی وضاحت اوپر کی جا چکی ہے، بلکہ اللہ کی کتاب میں اس کے برخلاف جو دلائل ہیں وہی سب پر مقدم اور لائق اتباع ہیں۔ ہر شخص کی کچھ باتیں قبول کی جاتی ہیں اور کچھ ترک کی جاتی ہیں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ آپ کی سنت شریعت کی دوسری بنیاد ہے۔ جو بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ کے موافق ہوگی وہ قابل قبول ہوگی اور جو آپ کے طریقہ کے برخلاف ہوگی وہ مردود ہوگی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ”جس نے ہمارے اِس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس کا حصہ نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“[372]؎
پانچویں وجہ: کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا شمار علماء میں ہوتا ہے لیکن وہ علمائے سوء ہیں، یہ لوگ شرک باللہ کو جائز ٹھہراتے ہیں، اِس کا سبب یا تو اِن کے عقیدہ کا فساد و بگاڑ ہے یا پھر ان کے علاقہ و شہر میں موجود اہل توحید کے تئیں ان کا تعصب و حسد اِس کی وجہ ہے۔ ایسے لوگ علماء کہلانے کے مستحق نہیں ہیں، اگرچہ وہ عوام الناس میں علماء کی شناخت رکھتے ہوں، اس لئے کہ عوام الناس کے پاس وہ میزان نہیں ہے جس کے ذریعہ وہ حق و باطل کے درمیان تمیز کر سکیں۔ اِس قبیل کے کچھ علمائے سوء عوام الناس کو دھوکہ دے کر خود کو اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں، عالم کی طرح عمامہ پہن کر کچھ دینی امور میں اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں جس سے عوام الناس میں سے کچھ لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور وہ اُن علمائے سوء کی ہر معاملہ میں تقلید کرنے لگتے ہیں، ان کی باتوں کو قرآن و سنت کے سامنے پیش نہیں کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات قرآن و سنت کے واضح احکام کو توڑ مروڑ کر اُن علماء سوء کی باتوں کے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں، العیاذ باللہ۔ ایسے علمائے سوء سے بچنا ضروری ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے تعلق سے یہ اندیشہ ہے کہ ان کے درمیان گمراہ کرنے والے ائمہ پیدا ہوں گے۔“[373]؎
ایسے لوگوں سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جب ملکوں اور شہروں میں علمائے ربانیین کی قلت ہوگی تو لوگ جہلاء کو اپنا پیشوا بنا لیں گے، یہ جہلاء علم کے بغیر فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان سے علم کو اچانک نہیں اٹھائے گا، لیکن علماء کو ایک ایک کرکے اٹھائے گا اِس طرح علم اٹھتا جائے گا، یہاں تک کہ جب کسی عالم کو بھی دنیا میں باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے، ان جاہلوں سے دینی مسائل دریافت کئے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتوی دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“[374]؎
علمائے سوء قبر پرستی کو معاشرہ میں پھیلانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ یہ علمائے سوء ہر دور اور ہر زمانے میں اسلام کو منہدم کرنے میں اپنا رول ادا کرتے رہے ہیں، ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ آخری دین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ شرکیات، بدعات اور گناہوں کو حلال قرار دیا، علاوہ ازیں یہ اُن علمائے حق کے خلاف زبان طعن بھی دراز کرتے ہیں جو ان کی باطل پرستی کی قلعی کھولتے ہیں اور ان کے مکر و فریب اور گمراہیوں کو آشکارا کرتے ہیں۔
عصر حاضر کے علمائے سوء کی فہرست میں سے چند نام یہ ہیں: علی جفری یمنی، ڈاکٹر احمد کبیسی اور محمد علوی مالکی۔ یہ لوگ شرک کی کئی قسموں کو جائز قرار دیتے ہیں جن میں ایک غیراللہ سے دعا مانگنا بھی ہے، العیاذ باللہ۔[375]؎
عقیدہ کے انحرافات کے معاملہ میں اگر شیعہ علماء کی بات کی جائے تو ان کے یہاں تو عقائدی انحرافات اور باطل پرستی کی کوئی حد نہیں ہے۔ دین کی شاید ہی کوئی اصل ہو جس میں اِن لوگوں نے اہل سنت کی مخالفت نہ کی ہو۔ یہ سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل ایک نیا دین گڑھنے والے ہیں۔ یہ لوگ اصحاب قبور وغیرہ غیراللہ کو کھلم کھلا معبود قرار دیتے ہیں، خاص طور پر ان کو جن کا تعلق علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہو۔ جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے، مثلاً دعا، ذبح اور نذر وغیرہ، اُسے یہ لوگ قبر والوں کے لئے انجام دیتے ہیں جو یقینی طور پر اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے والے کام ہیں، ان کاموں کی وجہ سے انسان شرک کی سرحد میں داخل ہو کر ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کا مستحق بن جاتا ہے، العیاذ باللہ تعالیٰ۔
کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول چند احادیث کا سہارا لیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے دعا مانگنا جائز ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور سات حدیثیں ہیں، ان سب کو یہاں درج کیا جاتا ہے ساتھ ہی ان کے ضعیف یا موضوع ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے ان سے استدلال کے باطل ہونے کو ثابت کیا جا رہا ہے۔
1۔ حدیث: اگر کسی نے پتھر سے حسن ظن رکھا تو اللہ تعالیٰ اسے اس پتھر کے ذریعہ فائدہ پہنچائے گا۔
اس حدیث کے دو جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا جواب: اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی یہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں نقل کی گئی ہے۔ یہ حدیث صرف قبرپرستوں کی زبانی نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے ذریعہ جھوٹ باندھا گیا ہے۔
دوسرا جواب: یہ حدیث اور اس معنی کی دیگر احادیث دین کے اصول کے برخلاف ہیں۔ دین میں یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مصیبت کے وقت صرف اللہ کے سامنے رونے گڑگڑانے کا حکم دیا ہے نہ کہ پتھر کے سامنے سر جھکانے اور اس سے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”أمن یجیب المضطر إذا دعاہ ویکشف السوء ویجعلکم خلفاء الأرض أإلہ مع اللہ قلیلا ما تذکرون“[376]؎ (بے کسی کی پکار کو جبکہ وہ پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو) پتھر سے حسن ظن رکھنے سے متعلق جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے وہ بتوں اور پتھروں کو پوجنے کی کھلی ہوئی دعوت ہے، عرب زمانۂ جاہلیت میں جس شرک میں مبتلا تھے اس کی طرف دوبارہ لوٹنے کی دعوت ہے، ان قدیم بت پرستوں کا جو عقیدہ ہے یہ حدیث اس کے مطابق ہے، یہ بت پرست ہر دور میں پتھروں کے تعلق سے خوش عقیدگی میں مبتلا رہے ہیں جبکہ مومن اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہے جیسا کہ صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے: اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندہ کے ساتھ اس کے گمان و خیال کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ لوگوں کے مجمع میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں۔[377]؎
چونکہ مشرکین پتھروں سے حسن ظن رکھتے تھے، لہذا قیامت کے دن وہ اور ان کے پتھر کے معبود دونوں جہنم کی آگ کا ایندھن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فاتقوا النار التي وقودھا الناس والحجارۃ أعدت للکافرین“ (تم لوگ اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں یہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان کافروں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے: ”إنکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم أنتم لھا واردون“ (تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنوگے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو) جس نے پتھر کے ساتھ حسن ظن رکھا ہوگا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اسی کے حوالہ کر دے گا، اس لئے کہ اس دن لوگ اپنے معبودوں ہی کے پیچھے پیچھے ہوں گے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: وہ حدیث جس کی روایت کچھ جھوٹے لوگ کرتے ہیں کہ اگر کسی نے پتھر سے حسن ظن رکھا تو اللہ تعالیٰ اسی کے ذریعہ اسے فائدہ پہنچائے گا، گڑھا ہوا جھوٹ ہے، اِس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ یہ دراصل بت پرستوں کا قول ہے جو پتھروں سے حسن ظن رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إنکم و ما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم أنتم لھا واردون“ (تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنوگے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فاتقوا النار التي وقودھا الناس و الحجارۃ أعدت للکافرین“ (تم اُس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے) خلیل علیہ السلام نے کہا تھا: ”یا أبت لم تعبد ما لا یسمع و لا یبصر و لا یغني عنك شیئاً“ (اے میرے والد! آپ اس چیز کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں) بچھڑا کی پرستش کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”ألم یروا أنہ لا یکلمھم و لا یھدیھم سبیلا“ (کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ یہ بچھڑا اِن سے ہم کلام نہیں ہوتا ہے اور نہ کسی راستہ کی طرف اِن کی رہنمائی کرتا ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا: ”ما ھذہ التماثیل التي أنتم لھا عاکفون“ (یہ مجسمے اور مورتیاں کیا ہیں جن کے سامنے تم تعظیماً کھڑے رہتے ہو)
اِن مشرکین نے پتھروں کے ساتھ حسن ظن قائم کیا تھا تو ان کا انجام یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے مستحق بن گئے۔ صحیح راہ پر چلنے والا بندہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہے۔ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اِس بات کو یقینی بناؤ کہ جب تم میں سے کسی کی موت ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھتا ہو۔[378]؎ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات مکمل ہوئی۔[379]؎
ابن قیم رحمہ اللہ نے موضوع احادیث کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے: یہ حدیث کہ اگر کسی نے پتھر کے ساتھ حسن ظن رکھا تو وہ اُسے فائدہ پہنچائے گا، مشرکین کی گڑھی ہوئی بات ہے؛ جو بتوں اور پتھروں کے پرستار تھے۔[380]؎
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اِس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔[381]؎
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔[382]؎
شیخ مرعی کرمی نے اِسے اپنی کتاب ”الفوائد الموضوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ“ میں ذکر کیا ہے[383]؎۔ اِسے الفتنی نے اپنی کتاب ”تذکرۃ الموضوعات“ میں نقل کیا ہے[384]؎۔ نیز الأزھری نے اِسے اپنی کتاب ”تحذیر المسلمین من الأحادیث الموضوعۃ علی سید المرسلین“[385]؎ میں، سخاوی نے ”المقاصد الحسنۃ“[386]؎ میں، ملا علی قاری نے اپنی ”الموضوعات“[387]؎ میں اور عجلونی نے ”کشف الخفاء“[388]؎ میں اِسے نقل کیا ہے۔
2۔ اِس باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی جانے والی جھوٹی احادیث میں سے ایک یہ روایت ہے: ”جب تمہیں کسی معاملہ میں پریشانی کا سامنا ہو تو قبر والوں سے مدد طلب کرو“ اِن الفاظ کے ساتھ بھی اِسے نقل کیا گیا ہے ”جب کوئی معاملہ تم کو عاجز کر دے تو تم قبر والوں کی طرف متوجہ ہو جاؤ“ اِن الفاظ کے ساتھ بھی اِس کی روایت کی گئی ہے: ”تب تم اہل قبور سے مدد طلب کرو۔“ ابن کمال پاشا نے اپنی کتاب ”الأربعین“ میں تیسرے الفاظ کے ساتھ اِسے نقل کیا ہے۔
یہ حدیث بھی پچھلی روایت کی طرح اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے والی ہے، کیونکہ اسلام کی دعوت یہ ہے کہ خوشحالی اور پریشانی ہر حالت میں ایک اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے اور اس سے دعا کی جائے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والے تمام محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ گڑھی گئی ہے، کسی عالم حدیث نے اِس کی روایت نہیں کی ہے اور نہ حدیث کی کسی قابل اعتماد کتاب میں یہ روایت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”و توکل علی الحي الذی لا یموت و سبّح بحمدہ و کفی بہ بذنوب عبادہ خبیراً“ (اس ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کر جسے کبھی موت نہیں اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں، وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے) دین اسلام میں یہ ضروری طور پر معلوم ہے کہ قبر والوں سے مدد مانگنا غیرمشروع کام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اِس سے کمتر چیز یعنی قبروں کو سجدہ گاہیں وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے اور قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے والوں پر یہود و نصاری سے مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے لعنت کی ہے، اس لئے کہ بتوں، پتھروں اور استھانوں وغیرہ کی عبادت کی جڑ یہی ہے۔[389]؎
ابن قیم رحمہ اللہ قبر کے فتنے کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”لوگوں کے قبر کے فتنے میں مبتلا ہونے کا ایک سبب جھوٹی گڑھی ہوئی احادیث ہیں، بت پرستوں کی مشابہت اختیار کرنے والے قبرپرستوں نے اِن روایتوں کے ذریعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ گڑھا ہے، اس طرح کی روایتیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین و شریعت کے برخلاف ہیں مثلاً یہ حدیث: ”جب مسائل تمہیں عاجز کر دیں تو تم قبر والوں سے مدد مانگو“ اور یہ حدیث: ”اگر کوئی پتھر سے حسن ظن رکھے گا تو وہ اُسے فائدہ پہنچائے گا“ نیز اِس قبیل کی دیگر جھوٹی احادیث دین اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے والی ہیں، مشرکین نے اِن جھوٹی روایتوں کو گڑھا اور ان ہی کے جیسے گمراہ جاہلوں نے اِسے پھیلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو پتھروں کے پجاریوں اور ان سے حسن ظن رکھنے والوں کو قتل کرنے کے لئے مبعوث کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو قبروں سے ہر طرح سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔“[390]؎
میں کہتا ہوں: شیخ مرعی کرمی نے اپنی کتاب ”الفوائد الموضوعۃ من الأحادیث الموضوعۃ“[391]؎ میں اور الأزھری نے اپنی کتاب ”تحذیر المسلمین من الأحادیث الموضوعۃ علی سید المرسلین“[392]؎ میں اِس روایت کو نقل کیا ہے۔
3۔ اس باب سے تعلق رکھنے والے ضعیف آثار میں سے ایک وہ ہے جسے ابن السنی نے اپنی کتاب ”أذکار الیوم و اللیلۃ“ میں نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن خالد بن محمد البردعی نے بیان کیا، ان سے حاجب بن سلیمان نے، ان سے محمد بن مصعب نے، ان سے اسرائیل نے، وہ ابواسحاق سے اور وہ ہیثم بن حنش سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عبداللہ بن عمر کے پاس تھے تو خون کی گردش رک جانے کی وجہ سے ان کا پاؤں سن ہو گیا تو ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ اپنے سب سے محبوب ترین شخص کا نام لیجئے تو انہوں نے کہا: یا محمد (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) راوی کہتے ہیں: اس کے بعد وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے جیسے ان کے پاؤں کی گانٹھ کھل گئی ہو۔[393]؎
اِس روایت میں جو بات منقول ہے اُس کا جواب شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ وہ اِس کے ضعف کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ روایت ضعیف ہے، اِسے ابن السنی (166) نے ضعیف سند سے نقل کیا ہے، اِس میں دو علتیں ہیں:
پہلی علت: اِس کے راوی الھیثم مجہول ہیں، خطیب بغدادی نے الکفایۃ (ص 88) میں یہ بات کہی ہے۔
دوسری علت: اِسے ابواسحاق نے الھیثم سے روایت کیا ہے، یہ ابواسحاق سبیعی ہیں جو مدلس راوی کے طور پر معروف ہیں اور انہوں نے (عن) سے روایت نقل کی ہے، اِس راوی کے اندر ایک دوسری علت یہ ہے کہ اِن کا حافظہ گڈمڈ ہو گیا تھا اور یہ روایت ان کے گڈمڈ حافظہ کا ایک نمونہ ہے، یہ اس روایت کی سند میں اضطراب کا شکار ہوئے ہیں، کبھی یہ اِسے الھیثم سے اور کبھی ابوشعبہ سے روایت کرتے ہیں، ایک نسخہ میں (ابوسعید) بھی آیا ہے، اِسے ابن السنی نے رقم (164) کے تحت درج کیا ہے۔
کبھی یہ اِسے عبدالرحمٰن بن سعد کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔۔۔آگے پوری روایت نقل کی ہے۔ اِس روایت کو امام بخاری نے الأدب المفرد (964) میں اور ابن السنی نے رقم (168) کے تحت نقل کیا ہے۔
عبدالرحمٰن بن سعد کو نسائی نے ثقہ کہا ہے، لیکن اِس روایت میں علت ابواسحاق کے گڈمڈ حافظہ اور ان کی تدلیس کی وجہ سے ہے، انہوں نے تمام روایتوں کو (عن) سے ہی نقل کیا ہے۔ اِس سے پہلے ابواسحاق کی تدلیس کی ایک حیرت انگیز مثال گزر چکی ہے جس میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ انہوں نے سند سے دو واسطوں کو ساقط کر دیا ہے، اِس کے لئے دیکھئے: رقم (126) کے تحت درج تعلیق[394]؎۔ شیخ البانی کی بات مکمل ہوئی۔
اسے نقل کرنے والے کا کہنا ہے اللہ اسے معاف کرے: اس روایت کی سند میں ایک تیسری علت بھی ہے اور وہ علت راوی محمد بن مصعب کا ضعیف ہونا ہے۔ امام بخاری کے بقول: محمد بن مصعب کے بارے میں یحی بن معین کی رائے اچھی نہیں تھی۔[395]؎ ابن حبان کے بقول: یہ ان رواۃ میں سے ہیں جن کی یادداشت خراب تھی، وہ سندوں کو الٹ پلٹ کر دیتے تھے اور مرسل روایتوں کو مرفوع کر دیتے تھے، اگر وہ کسی روایت کو تنہا نقل کرنے والے ہوں تو اس سے استدلال جائز نہیں ہے۔[396]؎
اس ضعیف روایت کے تعلق سے مزید معلومات فراہم کرنے کی غرض سے میں یہاں پر اسے اس کی دیگر سندوں سے بھی نقل کر رہا ہوں۔ ان تمام سندوں سے یہ روایت ابن السنی کی عمل الیوم واللیلۃ میں منقول ہے، نیز ان تمام سندوں سے یہ روایت ضعیف ہے اور ہر سند کی علت ایک ہی ہے یعنی ابو اسحاق سبیعی کا اسے (عن) کے ذریعہ روایت کرنا۔
اس کی ایک سند یہ ہے: مجھ سے محمد بن ابراہیم انماطی اور عمر بن جنید بن عیسیٰ نے بیان کیا، ان دونوں سے محمود بن خداش نے، ان سے ابوبکر بن عیاش نے اور ان سے ابو اسحاق سبیعی نے بیان کیا، وہ ابوسعید سے روایت کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہا تھا تو اچانک ان کا پاؤں بے حس و حرکت ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بیٹھ گئے۔ ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنی محبوب ترین شخصیت کو یاد کیجئے تو انہوں نے کہا: یا محمد! (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بعد وہ کھڑے ہو کر چلنے لگے۔[397]؎
اس روایت کی ایک دوسری سند یہ ہے: مجھے احمد بن حسن صوفی نے خبر دی، ان سے علی بن جعد نے، ان سے زھیر نے بیان کیا، وہ ابو اسحاق سے اور وہ عبد اللہ بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا تو ان کا پاؤں سن ہو گیا تو میں نے دریافت کیا: اے ابوعبدالرحمٰن! آپ کے پاؤں کو کیا ہو گیا؟ انہوں نے کہا: اس کے عضلات یہاں جمع ہو گئے ہیں، میں نے کہا: آپ اپنی محبوب ترین شخصیت کو پکارئیے، انہوں نے کہا: یا محمد (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تو ان کے پاؤں کے عضلات اپنی جگہ واپس چلے گئے۔[398]؎
4۔ اس قبیل کے ضعیف آثار میں سے ایک ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول اثر ہے جسے ابن السنی نے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے جعفر بن عیسی ابو احمد نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن روح نے، ان سے سلام بن سلیمان نے اور ان سے غیاث بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ عبد اللہ بن عثمان بن خثیم سے، وہ مجاہد سے اور وہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس میں ایک شخص کا پاؤں سن ہو گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: اپنی محبوب ترین شخصیت کو یاد کرو، اس نے کہا: (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بعد اس کے پاؤں کے سن ہونے کی کیفیت ختم ہو گئی۔[399]؎
یہ روایت موضوع (گڑھی ہوئی) ہے۔ اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم متروک الحدیث راوی ہے۔ احمد بن حنبل نے اسے متروک الحدیث کہا ہے۔ جوزجانی کے بقول: میں نے کئی لوگوں سے سنا کہ وہ حدیث گڑھتا تھا۔[400]؎ ابن عدی کے بقول: غیاث کا ضعف بالکل واضح ہے، اس کی تقریباً تمام روایتیں موضوع ہیں۔[401]؎ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔[402]؎
غیر اللہ سے دعا مانگنے کو جائز کہنے والے کچھ لوگ عبد اللہ بن مسعود کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے ابو یعلی نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حسن بن عمر بن شقیق نے بیان کیا، ان سے معروف بن حسان نے بیان کیا، وہ سعید سے، وہ قتادہ سے، وہ ابن بریدہ سے اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بیابان میں کسی کی سواری ہاتھ سے نکل جائے تو وہ یہ آواز لگائے: اے اللہ کے بندے! اسے روک لو، اے اللہ کے بندے! اسے روک لو، روئے زمین میں اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے موجود ہوتے ہیں، وہ سواری کو روک لیں گے۔[403]؎
اس حدیث کو ابن السنی نے ابو یعلی کی سند سے روایت کیا ہے۔[404]؎
طبرانی نے اسے المعجم الکبیر میں ایک دوسری سند سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابراہیم بن نائلہ اصبہانی نے بیان کیا، وہ سعید سے روایت کرتے ہیں، باقی رواۃ وہی ہیں جو ابو یعلی کی سند میں ہیں۔[405]؎
یہ حدیث کئی وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
پہلی وجہ: اس کی سند کے ایک راوی معروف بن حسان ضعیف ہیں۔ ابو حاتم نے انہیں مجہول کہا ہے۔[406]؎ ابن عدی نے انہیں منکر الحدیث کہا ہے۔[407]؎ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں انہیں ضعیف کہا ہے۔[408]؎
دوسری وجہ: راوی ابن بریدہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے۔ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو معلول قرار دیا ہے۔ ابن علان نے شرح الأذکار (5/150) میں ان کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے۔[409]؎
تنبیہ: ابن السنی کے ایک نسخہ میں اس کی سند (ابن بریدہ عن أبیہ) آئی ہے، لیکن مسند ابو یعلی کے مطبوعہ نسخہ اور معجم الطبرانی میں یہ سند مذکور نہیں ہے۔ شاید یہ کاتب کی غلطی ہے۔[410]؎
تیسری وجہ: اس حدیث کے ایک راوی سعید بن ابی عروبہ بہت زیادہ تدلیس کرنے والے ہیں، نیز ان کی یادداشت بھی گڈمڈ ہو گئی تھی۔ ابن حجر نے یہ بات ”التقریب“ میں کہی ہے۔ اور سعید نے (عن) سے روایت نقل کی ہے جیسا کہ آپ سند میں دیکھ رہے ہیں۔
اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے بھی ”المصنف“ میں نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہیں محمد بن اسحاق نے خبر دی، وہ ابان بن صالح سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر آگے پوری حدیث ذکر کی ہے۔
یہ سند معضل ہے۔[411]؎ اور اس میں محمد بن اسحاق مشہور مدلس راوی بھی ہیں۔[412]؎
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ[413]؎ حفظہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والے یا حدیث کی خدمت کے میدان میں شہرت رکھنے والے کسی بھی محدث نے اس روایت کو صحیح یا حسن نہیں کہا ہے، بلکہ یا تو خود ضعیف کہا ہے یا دوسرے کے حوالہ سے اس کے ضعیف ہونے کا حکم نقل کیا ہے۔[414]؎
6۔ اس قبیل کی احادیث میں سے ایک عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے حسین بن اسحاق تشتری نے بیان کیا، ان سے احمد بن یحیٰ صوفی نے، ان سے عبد الرحمٰن بن شریک[415]؎ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، وہ عبد اللہ بن عیسیٰ سے، وہ زید بن علی سے اور وہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے، یا کسی کو مدد درکار ہو اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں کوئی آدم زاد موجود نہ ہو تو اسے یہ کہنا چاہئے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں پاتے۔[416]؎
یہ بہت زیادہ ضعیف حدیث ہے۔ اس کی سند میں عبد الرحمٰن بن شریک اور ان کے والد ہیں، دونوں ضعیف راوی ہیں۔ ابو حاتم نے عبد الرحمٰن کو واھی الحدیث کہا ہے۔[417]؎ دار قطنی نے شریک کے بارے میں کہا ہے کہ جب یہ تنہا کسی حدیث کی روایت کریں تو واھی الحدیث ہیں۔[418]؎
ابن مبارک نے کہا ہے کہ ان کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔[419]؎
حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ صدوق ہیں لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں، کوفہ میں منصب قضا پر فائز ہونے کے بعد ان کی یادداشت تبدیل ہوگئی۔[420]؎
اس کی سند میں زید بن علی اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع بھی ہے، سب سے وسیع تر قول کے مطابق عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی وفات سن 20 ہجری میں ہوئی تھی اور زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی تھی۔[421]؎
فائدہ: کچھ علماء نے کہا ہے کہ مؤخر الذکر دونوں حدیثوں کو اگر صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی ان سے غیر اللہ سے دعا مانگنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے، بلکہ ان سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کوئی زندہ حاضر انسان کسی حاضر کو مدد کے لئے آواز دے سکتا ہے، چاہے وہ فرشتے ہوں جنہیں لوگوں کی مدد کے لئے مامور کیا گیا ہے یا کوئی مسلمان جن ہو یا ان کے علاوہ کوئی اور ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے مسخر کیا ہو۔ یہ پکار ایک ایسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے ہے جسے انجام دینے پر وہ قادر ہیں، نہ کہ ایسی چیز کے حصول کے لئے جن پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو قدرت حاصل ہے۔ ان علمائے کرام رحمہم اللہ نے اس طرح کی توجیہ کی ہے۔
اسے نقل کرنے والے کا کہنا ہے اللہ اسے معاف کرے: اس طرح کی پکار کو سن کر فرشتوں یا مسلمان جنوں کا کسی کی مدد کرنا محل نظر ہے، اس لئے کہ فرشتے لوگوں کے حکم سے کسی کام کو انجام نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرنے کے پابند ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”لا یعصون اللہ ما أمرھم و یفعلون ما یؤمرون“ (یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی نہیں کرتے، انہیں جو حکم ملتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں) اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ فرشتوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کام کو کرنے کا آرڈر ملتا ہے۔ قرآن و سنت میں ان کاموں کا تذکرہ ملتا ہے جنہیں انجام دینے پر فرشتے مامور ہیں۔ قرآن و سنت سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے انسانوں کی مدد بھی کرتے ہیں جب ان سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ قرآن و سنت میں فرشتوں کے جن کاموں کا تذکرہ آیا ہے ان میں انسانوں کی روحیں قبض کرنا، بندہ کے رزق، مدت حیات اور اعمال وغیرہ کو درج کرنا کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، فرشتہ کے ذریعہ کسی بندہ کے عمل کا اندراج اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی مدت مکمل کر لیتا ہے۔ فرشتوں کے ذمہ اس کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔
اسی طرح جنوں سے مدد طلب کرنے کی کوئی دلیل شریعت میں موجود نہیں ہے۔ چاہے وہ جن اس کام کو کرنے پر قادر ہوں یا وہ ایسا کام ہو جس پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو قدرت حاصل ہے۔
اگر کسی ایسے کام کے لئے جن کی مدد طلب کی جائے جس پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے یا ان سے مدد طلب کی جائے جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ موجود نہیں ہے تو اس کا شرک ہونا ظاہر ہے۔ اور اگر ایسے کام کے لئے ان سے مدد طلب کی جائے جسے انجام دینے پر وہ قادر ہوں مثلاً صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرنا وغیرہ تو اس طرح کا مطالبہ کرنا ممنوع ہے، اس لئے کہ یہ اگرچہ شرک نہیں ہے، لیکن شرک کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔
اس کے ممنوع ہونے کے تین اسباب ہیں:
پہلا سبب: مدد کے لئے پکارنے والے کے آس پاس جن کا موجود ہونا کوئی حتمی بات نہیں ہے، یہ ظنیات کی قبیل سے ہے اور ظنی چیز سے تعلق وسوسہ اور شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
دوسرا سبب: جنوں میں کون نیک ہے، کون بد ہے، اسے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ کتنے ایسے نیک لوگ ہیں جنہیں غیر صالح جنوں نے بگاڑ دیا۔ شروع میں وہ جن نیکی و صلاح کا لبادہ اوڑھ کر ظاہر ہوا، پھر آخر میں جادو وغیرہ میں ملوث کرکے اسے ہلاکت کے گڈھے میں گرا دیا۔
تیسرا سبب: اگر جن اور فرشتے انسانوں کے مطالبے پر ان کی مدد کرنے والے ہوتے تو اس کی صراحت قرآن و سنت میں ضرور آئی ہوتی، خاص طور پر تب جبکہ اس کی ضرورت درپیش تھی۔ سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غزوات میں ان سے مدد طلب کیوں نہیں کی؟[422]؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحراء میں سراغ رسانی کے لئے صحابہ کرام کو کیوں روانہ کرتے تھے؟ آپ نے اس کام کے لئے جنوں سے کیوں مدد نہیں لی؟
اگر جنوں سے مدد طلب کرنا جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مدد ضرور لی ہوتی، کیونکہ وہ کسی کی نگاہ میں آئے بغیر تیزی کے ساتھ زمین کا چکر لگانے اور طویل مسافتوں کو مختصر مدت میں طے کرنے پر انسان سے زیادہ قادر ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جنوں سے مدد کیوں نہیں لی جب عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا تھا اور سارے مسلمان مخمصہ کا شکار ہو گئے تھے؟
اس طرح کے بہت سے حادثات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کی زندگی میں پیش آئے لیکن کہیں پر یہ تذکرہ نہیں آیا ہے کہ انہوں نے جنوں سے مدد لی تھی، ایک بار بھی جنوں سے مدد لینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ بعض مواقع پر انہیں اس کی سخت ضرورت در پیش ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے حد درجہ شفیق و مہربان بھی تھے، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو آپ نے ضرور اس غیر مرئی مخلوق سے نازک مواقع پر مدد لی ہوتی، اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ جنوں سے مدد لینا مشروع عمل نہیں ہے بلکہ شرعی اعتبار سے یہ ممنوع ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بطور کرامت فرشتوں اور جنوں نے کچھ نیک لوگوں کی مدد کی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، ایسا ہے، لیکن ان کے مدد طلب کرنے پر فرشتوں اور جنوں نے ان کی مدد نہیں کی تھی، بلکہ ان کی طلب استعانت کے بغیر بطور کرامت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں یا جنوں سے ان کی مدد کرا دی۔ یہاں پر انسانوں کے ذریعہ بلا واسطہ فرشتوں یا جنوں سے مدد طلب کرنے کی بات ہو رہی ہے، لہذا اس فرق سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔[423]؎
خلاصۂ کلام یہ کہ جسے کوئی ایسی مدد درکار ہو جو انسانی قدرت کے دائرہ کے اندر ہو تو اسے اپنے آس پاس کے زندہ و حاضر اور اس کام میں مدد کرنے کی قدرت رکھنے والے انسانوں سے مدد طلب کرنی چاہئے، ساتھ ہی مدد کا طالب وہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل و بھروسہ بھی کرے اور اپنے رب سے اس معاملہ میں آسانی فراہم کرنے کی دعا بھی کرے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی دوسری رہنمائی موجود نہیں ہے۔ واللہ اعلم
7۔ مردوں سے حاجت روائی کے لئے جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے ان میں سے ایک عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جسے بزار نے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم سے موسی بن اسحاق نے بیان کیا، ان سے منجاب بن حارث نے، ان سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، وہ اسامہ بن زید سے، وہ ابان بن صالح سے، وہ مجاہد سے اور وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محافظ فرشتوں کے علاوہ بھی روئے زمین میں اللہ تعالیٰ کے دیگر فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھنے پر مامور ہیں، تم میں سے کوئی جب بیابان میں راستہ بھٹک جائے تو وہ یہ آواز لگائے: اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔“[424]؎ بزار نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اسے معلول قرار دیا ہے: ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بات ان الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سند کے علاوہ کسی دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
اسے بیہقی نے شعب الإیمان میں دو سندوں سے عن روح و جعفر بن عون أخبرنا أسامۃ بن زید عن ابن عباس کی سند سے موقوفاً نقل کیا ہے، ان دونوں سندوں سے اوپر کی روایت کے مثل روایت نقل کی گئی ہے۔[425]؎
اسے ابن ابی شیبہ نے ”المصنف“ میں حدثنا أبو خالد الأحمر عن أسامۃ کی سند سے اوپر کی روایت کے مثل نقل کیا ہے۔[426]؎
اس حدیث کے تعلق سے جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں اسامہ بن زید لیثی ہیں، عبداللہ بن امام احمد نے جب اس راوی کی احادیث کے بارے میں اپنے والد امام احمد سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا: جب تم اس راوی کی مرویات پر غور کروگے تو تمہیں صاف طور پر ان کے اندر نکارت محسوس ہوگی۔[427]؎
امام احمد کا اسامہ بن زید لیثی کے بارے میں یہ قول بھی ہے: یحی بن سعید نے اپنی عمر کے آخری دور میں اس کی حدیث کو ترک کر دیا تھا۔[428]؎
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بیہقی کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوف روایت کو قوی قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”جعفر بن عون حاتم بن اسماعیل سے زیادہ ثقہ راوی ہیں، یہ دونوں ہی اگرچہ بخاری و مسلم کے رواۃ میں سے ہیں، لیکن ان میں اول الذکر جعفر بن عون کسی بھی اعتبار سے مجروح نہیں ہیں جبکہ حاتم بن اسماعیل کے بارے میں نسائی نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ہیں۔ دوسرے محدث نے کہا ہے کہ ان میں غفلت تھی، اسی لئے حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ ان کی کتاب صحیح تھی یعنی ان کے مسودۂ احادیث میں کوئی گڑبڑی نہیں تھی، وہ صدوق بھی ہیں لیکن وہم کا شکار ہوتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے جعفر کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صدوق ہیں۔
اسی لئے میرے نزدیک یہ روایت دوسری روایت کی مخالفت کی وجہ سے معلول ہے۔[429]؎ راجح یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے، یہ ان احادیث میں سے نہیں ہے جس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ کہا جائے کہ یہ مرفوع کے حکم میں ہے، کیونکہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے ان اہل کتاب سے سنا ہو جو بعد میں اسلام میں داخل ہوئے۔ واللہ اعلم“[430]؎
میں کہتا ہوں: بنی اسرائیل سے صحیح سند سے حاصل ہونے والی خبر کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اسلامی شریعت سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔ اور ایسا کیونکر ممکن ہے جبکہ مرفوع و موقوف دونوں روایتوں کا دارومدار اسامہ بن زید لیثی پر ہے اور ہمیں ائمہ حدیث کے اقوال سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی روایتوں میں نکارت ہوتی ہے؟!
وہ تمام احادیث جو غیراللہ سے دعا مانگنے کو ثابت کرتی ہیں بلا استثناء سب کی سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا پردازی اور جھوٹ ہیں۔ سیوطی نے ”تدریب الراوی“ میں ابن الجوزی کا یہ قول نقل کیا ہے: ”کسی نے کتنی اچھی بات کہی ہے: جب تم کوئی ایسی حدیث دیکھو جو عقل سے مغایر ہو یا نقل کے برخلاف ہو یا اصول کے مناقض ہو تو سمجھ لو کہ وہ گڑھی ہوئی حدیث ہے۔ سیوطی کہتے ہیں: اصول کے مناقض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث اسلامی احکام کے دواوین یعنی مسانید اور احادیث کی مشہور کتابوں میں شامل نہ ہو۔“[431]؎
شیخ حمد بن ناصر بن معمر[432]؎ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”قرآن مجید کے دلائل جن سے غیر اللہ سے دعا مانگنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، بہت واضح اور ظاہر ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ”وأن المساجدللہ فلا تدعو مع اللہ أحدا“ (اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”لہ دعوۃ الحق والذین یدعون من دونہ لا یستجیبون لھم بشیء“ (اسی کو پکارنا حق ہے، جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے) ایک اور جگہ ارشاد ہے: ”ولا تدع من دون اللہ ما لا ینفعك ولا یضرك فإن فعلت فإنك إذا من الظالمین“ (اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤگے) ان کے علاوہ بھی بہت سی واضح آیات موجود ہیں جو غیر اللہ سے دعا مانگنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔ جس نے ان تمام واضح آیات سے اعراض کیا اور ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، توحید کو ثابت کرنے والی، شرک کو باطل قرار دینے والی اور شرک کے تمام چور دروازوں کو بند کرنے والی صحیح احادیث سے منہ موڑ کر ضعیف حدیث سے تعلق جوڑا اور اس پر عامل ہوا تو اس کا سبب اس کے دل کے اندر پائی جانے والی کجی ہے جسے قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ”فأما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ“ (پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنہ کی طلب کے لئے) اور صحیح میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ چیزوں کے پیچھے لگ جاتے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں ان ہی لوگوں کو مراد لیا ہے، تم ان سے بچنا“[433]؎[434]؎
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کی رات دن کی طرح روشن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ان کے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”الیوم أکملتُ لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا“ (آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔)
ابوذر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اس حال میں چھوڑا کہ کوئی پرندہ بھی فضا میں اپنے پروں کو حرکت دیتا تھا تو آپ نے ہمیں اس کے بارے میں علم سکھایا۔[435]؎
طبرانی کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز بھی جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی ہو سکتی ہے سب تمہارے لئے بیان کر دی گئی ہے۔[436]؎ لیکن کچھ لوگوں کے دل اس دین مبین کو صاف و شفاف صورت میں قبول کرنے سے تنگ پڑ گئے۔ جب انہیں یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ اس دین کو لوگوں کے دلوں سے مٹانے پر قادر نہیں ہیں تو وہ اس دین کو مشکوک بنانے میں لگ گئے اور اس دین کے حقائق اور مسلمات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے لگے تاکہ مسلمان اپنے دین کے بارے میں شک اور بےیقینی کا شکار ہو جائیں اور صرف شکلی طور پر دین ان کی زندگی میں باقی رہ جائے جو ظاہری عبادات سے متجاوز نہ ہو۔ رہا عقیدہ جس کا تعلق دل سے ہے، تو اس معاملہ میں یہ معاندین دین مسلمانوں کو اولین جاہلی دور کے عقائد کی طرف واپس لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً غیر اللہ کی عبادت، فلاسفہ اور صائبہ (بے دین لوگ) کے عقائد جس میں رب عزوجل کی صفات کمال کی نفی کی جاتی ہے یا نصاری کا عقیدہ جو عیسی علیہ السلام کی ذات میں اللہ تعالیٰ کے حلول کے قائل ہیں۔ مسلمانوں کو ان خرافات اور باطل پرستی کی طرف لے جانے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ان خرافات سے بہت بلند ہے۔ اسلام کی بنیاد کو منہدم کرنے والے دیگر عقائد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
دشمنان اسلام جاہل مسلمانوں کے درمیان ان باطل عقائد کو پھیلانے میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ دین سے نا واقف مسلمانوں نے اچھی یا بری نیت سے اسے قبول کر لیا اور اسے اسلام کے عقائد کا جزء سمجھ لیا، پھر اسے عام لوگوں کے درمیان پھیلانا شروع کر دیا۔ جو دینی، علمی اور عقلی اعتبار سے کمزور تھا اس نے اسے قبول کر لیا اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت و نجات مقدر کر دی تھی اس نے اسے ٹھکرا دیا۔
چونکہ یہ بحث غیر اللہ سے دعا کرنے سے متعلق اہم شبہات کا جواب دینے کے لئے خاص ہے، لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اسی کے ساتھ ان ضوابط کو بھی بیان کر دیا جائے جس کے ذریعہ ان شبہات کی حقیقت کو سمجھنا اور ان سے بچنا آسان ہو جائے تاکہ یہ عقلمند کے لئے راہ حق پر چلنے میں معاون اور جاہل کے لئے تذکیر کا کام کرے۔ اور وہ یہ کہ عقائد اسلام کے تعلق سے پیدا کئے جانے والے شکوک و شبہات کی کوئی حد نہیں ہے، ہر دور میں مسلمانوں کے درمیان ان شکوک و شبہات کو پھیلانے والے لوگ موجود رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے لئے ان کے دین کا حلیہ بگاڑ دیں جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے جس طرح حق کے لئے اس کے علمبردار پیدا کئے اسی طرح اس نےباطل اور خرافات کے حاملین بھی پیدا کئے ہیں۔“[437]؎ لیکن ایک مسلمان جب ان علمی اصول و ضوابط سے واقف ہو جاتا ہے جو شبہات کی حقیقت کو سمجھنے میں معاون ہیں اور ان شبہات سے حفاظت کا ذریعہ ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و توفیق سے ان شبہات میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ذیل میں ان اصول و ضوابط کو بیان کیا جا رہا ہے۔
· شبہ کی تعریف
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: شبہ دل میں کھٹکنے والی ایسی بات ہے جو حق کے منکشف ہونے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ جس دل میں پہلے سے علم کی روشنی اور حقیقت موجود ہو اس پر یہ شبہ اثر انداز نہیں ہوتا ہے، بلکہ علم کے حامل دل میں اس طرح کے شبہات کی وجہ سے علم اور زیادہ مضبوط اور یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے شبہات کو ٹھکرانا اور اسے باطل سمجھنا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔ اگر حق کا علم و معرفت پہلے سے دل میں موجود نہ ہو تو اول وہلہ ہی میں شک دل پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ اگر شروع ہی میں تدارک ہو گیا تو ٹھیک ورنہ دل پر حملہ آور ہونے والے اس قبیل کے شکوک و شبہات کا تانتا لگ جاتا ہے یہاں تک کہ انسان مکمل طور پر شکوک و شبہات میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔
دل کے اوپر باطل کی یلغار جاری رہتی ہے جس میں کجی اختیار کرنے کی خواہش اور باطل پرستی پر مبنی شبہات شامل ہوتے ہیں، جو دل ان باتوں پر کان دھرتا ہے اور اس کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے اس میں یہ چیزیں بھر جاتی ہیں اور وہ ان کا عادی ہو جاتا ہے پھر اس کی زبان و اعضاء ان ہی کے مطابق استعمال ہونے لگتے ہیں۔ اگر باطل پرستی پر مبنی شبہات دل میں سرایت کر گیا ہے تو زبان سے بھی شکوک و شبہات کا اظہار ہونے لگتا ہے، جاہل یہ سمجھتا ہے کہ یہ علم کی وسعت و گہرائی کی وجہ سے ہے جبکہ علم و یقین سے محرومی اس کا سبب ہوتا ہے۔[438]؎
· ہر شبہ کا جواب ہے
آپ یہ جان لیں (اللہ آپ پر رحم کرے) کہ مشرکین اور اہل بدعات کے شبہات اور دلائل بہت ہیں، ان کا سہارا لے کر وہ باطل کو حق اور حق کو باطل قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وجادلوا بالباطل لید حضوا بہ الحق“ (اور باطل کے ذریعہ کج بحثیاں کیں تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں) یعنی حق کو باطل قرار دے دیں، لیکن یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہر شبہ باطل ہے اور ہر شبہ کا ایک جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولا یأتونك بمثل إلا جئناك بالحق وأحسن تفسیرا“ (یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے) [439]؎
قرآن مجید میں اس قبیل کے شکوک و شبہات کی تردید کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک یہودیوں کا پیدا کردہ شبہ ہے جسے انہوں نے قبلہ کی تبدیلی کے موقع پر پھیلایا تھا جب مسلمانوں کو بیت المقدس کے بجائے کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تھا تو اس موقع پر یہودیوں نے کہا تھا ”ما ولّا ھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا“ (جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟) اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دیا اور واضح کیا کہ قبلہ کی اس تبدیلی کے پیچھے حکمت یہ بتانا ہے کہ مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ اپنے بندوں کو اپنی مرضی کے مطابق جس سمت چاہتا ہے اس سمت رخ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہودیوں کے اس اعتراض پر اللہ نے انہیں ”سفھاء“ (بیوقوف) کا نام دیا۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ”سیقول السفھاء من الناس ما ولّا ھم عن قبلتھم التی کانوا علیہا قل للہ المشرق والمغرب یھدي من یشاء إلی صراط مستقیم“ (عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے)
اس قرآنی جواب کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جب شریعت پر یہودیوں اور ان کے جیسے لوگوں کے اعتراض کرنے پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ”سفھاء“ (بیوقوف) کا نام دیا ہے تو جو لوگ دعا اور عبادت کے تنہا اللہ تعالیٰ کا حق ہونے پر معترض ہیں ان کی کیا صفت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ شبہات کی کوئی حد نہیں ہے، لہذا تمام شکوک و شبہات کو قابل اعتناء سمجھ کر ان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، اس لئے کہ جب حق بات یقینی دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر اس پر ہونے والے اعتراض و شبہ کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے شبہات کو سننے اور قبول کرنے سے اعراض ہی کرنا چاہئے اس لئے کہ ان شبہات کا باطل ہونا دین میں یقینی طور پر معلوم ہے، کیونکہ واضح حق کے منافی جو کچھ بھی ہو وہ باطل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فماذا بعد الحق إلّا الضلال“ (حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی بچتا ہے) اس اعتبار ہر شبہ کو قابل اعتناء سمجھ کر اس کا جواب دینا اس کو پھیلانے میں معاون بننا ہے۔[440]؎
اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ شبہات کو پھیلاتے ہیں، جب بھی کسی باطل شبہ کا نام و نشان مٹنے لگتا ہے وہ لوگ پھر سے اسے ہوا دینے لگتے ہیں، جب بھی اس پر بحث و مباحثہ سرد پڑتا ہے کچھ لوگ اسے زندہ کر دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کر سکیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی شایان شان تعظیم سے موڑ کر باطل پرستی کی راہ پر ڈال دیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے کوئی نئی بات بھی نہیں ہے، اس لئے کہ ایک قدیم مقولہ ہے: ہر قوم کا کوئی وارث ہوتا ہے۔ رسولوں کی دعوت کے مخالفین کا ظہور اور ان کی طرف سے شکوک و شبہات اور کینہ توزی اسلامی تاریخ میں بہت معروف و مشہور معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وکذلك جعلنا لکل نبي عدوا شیاطین الجن والإنس یوحي بعضہم إلی بعض زخرف القول غرورا“ (اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے، کچھ آدمی اور کچھ جن، جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں)
رسولوں اور ان کے متبعین کی دعوت کے مخالفین پیدا ہونے اور ان کے ذریعہ شکوک و شبہات پھیلانے کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مومنین کی ایمانی طاقت کو کھنگالا جاتا ہے اور ان کے صبر و ثبات کا امتحان ہوتا ہے، اس کے ذریعہ کافروں پر حجت تمام ہوتی ہے اور ان کے مکر و فریب کا رد وابطال ہوتا ہے، پھر مومنین سے کیا گیا اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آتا ہے کہ وہ ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین إنھم لھم المنصورون وإن جندنالھم الغالبون“ (اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے کہ یقیناً وہ ہی مدد کئے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا)
رسولوں کی دعوت حق کے مخالفین کا ظہور ایمان اور دین کے غلبہ کی نوید ہوا کرتا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: دین و ایمان کے ظہور و غلبہ اور رسولوں کی دی ہوئی خبروں کی حقیقت کو جاننے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ان کے مخالفین پیدا ہوتے ہیں جو ان کے خلاف کھل کر افتراء پردازی کرتے ہیں۔ جب حق کا انکار کیا جاتا ہے اور شبہات کے ذریعہ اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی ایسی چیز پیدا کر دیتا ہے جس کے ذریعہ حق کی حقانیت ثابت ہوتی ہے اور باطل کا رد و ابطال ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ حق کے واضح دلائل و براہین کو غلبہ عطا کرتا ہے اور جن بودی دلیلوں کے سہارے حق کی مخالفت کی جاتی ہے اس کا تضاد و فساد بھی واضح ہو کر لوگوں کے سامنے آ جاتا ہے۔[441]؎
ان کا یہ بھی کہنا ہے: ”یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے دین کو غلبہ عطا کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے مخالفین کھڑا کر دیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کی حقانیت ثابت کر دیتا ہے اور حق کے ذریعہ باطل پر ضرب لگا کر اس کا سر توڑ دیتا ہے، پھر وہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔[442]؎
یہ معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
والضد یُظھر حسنہ الضد وبضدہ تتمیز الأشیاء
(کسی چیز کی ضد ہی اس کے حسن کو نمایاں کرتی ہے، چیزیں اپنی اضداد کی وجہ سے ممتاز ہوا کرتی ہیں)
مسلمانوں کے درمیان شبہات کو پھیلانے والے عام طور پر تین قسم کے ہوتے ہیں:
پہلی قسم: ان لوگوں کی ہے جو شرعی نصوص کے مفاہیم کو شارع حکیم کے مراد کے مطابق نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کے ذاتی محدود فہم نے انہیں جو سمجھا دیا اسی کے مطابق سمجھتے ہیں، اس طرح وہ شرعی نصوص کو اصل مراد کے برخلاف سمجھتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:
وکم من عائب قولا صحیحا وآفتہ من الفھم السقیم
(کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ایک صحیح قول کو بھی عیب لگا دیتے ہیں، ان کی مصیبت یہ ہے کہ وہ بیمار فہم کے مالک ہوتے ہیں)
ابن قیم رحمہ اللہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مراد کے تعلق سے غلط فہمی کے نقصانات کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”اس پہلو کو نظر انداز کرنے اور اس سے انحراف کرکے گمراہی میں مبتلا ہونے اور صحیح مراد سے انحراف کرنے کے جو نقصانات ہیں ان کا صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، بلکہ اللہ اور رسول کے مراد کے تعلق سے غلط فہمی اسلام میں پنپنے والی ہر بدعت و گمراہی کی جڑ ہے، بلکہ یہ اصول و فروع کے تعلق سے ہونے والی ہر غلطی کی بھی جڑ ہے؛ خاص طور پر تب جبکہ اس غلط فہمی میں بدنیتی بھی شامل ہو جائے۔ متبوع کی طرف سے بعض چیزوں میں یہ غلط فہمی اچھی نیت سے ہوتی ہے لیکن تابع کی طرف سے اس میں بدنیتی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ دین اور اہل دین کے لئے یہ بہت بڑی آزمائش ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔“[443]؎
دوسری قسم: ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے شبہات کے لئے ضعیف یا باطل احادیث، یا منامات (خوابوں) یا حکایات وغیرہ سے استدلال کیا ہے جن سے فروعی شرعی احکام بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں چہ جائیکہ ان سے دین کے عظیم الشان اصول و مبادی کو ثابت کیا جائے۔ جو لوگ حکایات، منامات، قیاسات اور عقل[444]؎ و ذوق کے ذریعہ عبادات کو ثابت کرتے ہیں وہ یہود و نصاری کی جماعت ہے۔ ان کے یہاں اس قبیل کی بہت سی چیزیں مل جائیں گی۔
جو لوگ شبہات کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ عموماً اپنی کتابوں کو اشعار، حکایات اور منامات سے بھرے رہتے ہیں، اس لئے کہ شرعی دلائل ان کی باطل پرستی میں ان کا ساتھ نہیں دیتے، بلکہ ان کی باطل پرستی کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، اسی لئے وہ حکایات، منامات اور اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ ان چیزوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، یہ اللہ کے کامل دین کے سامنے ٹک پانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یہ مانند سراب ہوتے ہیں جسے پیاسا پانی سمجھ لیتا ہے، لیکن جب اس کے قریب پہنچتا ہے تو اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”رہے وہ گمراہ لوگ جو شرک کا ارتکاب کرنے والے نصاری کے مثل ہیں، ان کا اعتماد و بھروسہ یا تو ضعیف و موضوع احادیث پر یا ان لوگوں کے اقوال پر ہوتا ہے جن کی باتیں قابل حجت نہیں ہیں، یہ اقوال بھی یا تو ان کی طرف بطور کذب منسوب ہوتے ہیں یا ان کے ذریعہ غلط طور پر سامنے آئے ہوتے ہیں، اس لئے کہ یہ وہ منقول بات ہے جس کی تصدیق قائل غیر معصوم نے نہیں کی ہوتی ہے۔ اور اگر یہ لوگ رسول سے ثابت شدہ کسی قول کو اختیار کرتے بھی ہیں تو اس کے اصل مفہوم میں تحریف کر دیتے ہیں اور متشابہ مفہوم کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس کے مفہوم محکم کو ترک کر دیتے ہیں، اس معاملہ میں یہ نصاری کی راہ پر ہیں۔“[445]؎
ان کا یہ قول بھی ہے: ”بسا اوقات یہ باطل پرست مخصوص جزئی مثالوں کو دلیل بنا کر عمومی کلی مسائل کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ مطلق طور پر غیر اللہ سے فریاد کرنے کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے جس کی تکمیل پر کوئی قادر ہو یا نہ ہو، اس سے استدلال کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کی درخواست کی تھی۔ اور یہ بات معلوم و متحقق ہے کہ یہ حدیث نبوی سے ثابت ہے اور اس کے سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اس سے ان کے تمام عمومی دعووں کا ثبوت اور اس کے برخلاف جو حق ہے اس کا ابطال لازم نہیں آتا ہے، اس لئے کہ ایک جزئی مثال سے کلی دعوی ثابت نہیں ہوتا ہے، خاص طور پر تب جبکہ دونوں میں مغایرت اور اختلاف ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی ہر ایک کے لئے تمام قسم کے لہو لعب کے جائز ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اور اسے تقرب الہی کا ذریعہ قرار دینے کے لئے اس سے استدلال کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عید کے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو لڑکیوں نے کچھ گا کر سنایا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ دیوار کی طرف تھا، ان لڑکیوں کی طرف نہیں تھا، یا کوئی ہر طرح کے قول کو سننے کے لئے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کرے: ”فبشر عباد الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ“ (میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں، پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں) اسے یہ معلوم نہیں کہ اس آیت میں قول سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”أفلم یدبروا القول أم جاء ھم ما لم یأت آباءھم الأولین“ (کیا انہوں نے اس بات میں غور و فکر ہی نہیں کیا؟ بلکہ ان کے پاس وہ آیا جو ان کے اگلے باپ دادوں کے پاس نہیں آیا تھا) اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر قول کے سماع کو صحیح ٹھہرانے کے لئے قرآن کی اس آیت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ہے۔[446]؎
تیسری قسم: ان لوگوں کی ہے جس نے محکم کو چھوڑ کر متشابہ کی پیروی کی۔ یہ باطل پرستوں کا طریقہ ہے جو آیات محکمات کو آیات متشابہات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آیات متشابہات سے وہ آیات مراد ہیں جن کا ظاہری مفہوم عام لوگوں کے لئے مشتبہ ہوتا ہے، صرف راسخ فی العلم علماء ہی ان کے حقیقی مفہوم سے واقف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ متشابہ آیات کو محکم آیات کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے، نہ کہ اس کے برعکس۔ الحمد اللہ شرعی نصوص تناقض و تضاد سے پاک ہیں، سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں، ایک سے دوسرے کی وضاحت ہوتی ہے۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے محکم کو چھوڑ متشابہ کے پیچھے بھاگنے سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی: ”ھو الذي أنزل علیك الکتاب منہ آیات محکمات ھن أم الکتاب وأخر متشابھات فأما الذین في قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ وما یعلم تأویلہ إلّا اللہ والراسخون فی العلم یقولون آمنا بہ کل من عند ربنا وما یذّکر إلّا أولوا الألباب“ (وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے فرمایا: جب تم دیکھو کہ کچھ لوگ متشابہ آیتوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے آیت میں نام لیا ہے، لہذا ان سے بچو۔“[447]؎
ویسے تو دین کے معاملہ میں سارے ہی شبہات خطرناک ہیں لیکن ان میں بھی زیادہ خطرناک وہ شبہات ہیں جن کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، مثلاً غیر اللہ سے دعا مانگنے کو ثابت کرنے والا شبہ، اسی طرح وہ شبہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو اس کی ان صفات سے معطل کرنا لازم آتا ہے جو اس نے اپنے لئے بیان کی ہیں یا وہ شبہ جس کے ذریعہ مصادر شریعت قرآن و سنت پر طعن و اعتراض کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے یا وہ شبہ جس کے ذریعہ اللہ کے حرام کردہ کام کو حلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مثلاً سود کو حلال کرنے کی کوشش اور اسی قبیل کے دیگر امور۔
وہ مسلمان جو اپنے دین کی حفاظت و سلامتی کا متمنی ہو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شبہات میں پڑنے سے بچے اور اس کی تلاش و جستجو میں نہ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کے سامنے دجال کے فتنہ کا تذکرہ فرمایا تو آپ نے انہیں دجال سے دور رہنے اور اس کا سامنا نہ کرنے کا حکم بھی دیا۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم کسی مقام پر دجال کی موجودگی کے بارے میں سنو تو اس سے دور ہی رہو“۔ یعنی اس سے دوری اختیار کرو اور بالقصد اس کا سامنا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ دینداری اور علم کے میدان میں صحابہ کرام کا جو بلند مقام و مرتبہ تھا اس کے باوجود آپ نے انہیں ہدایت کی تھی تو جو ان سے کمتر ہیں ان کے لئے کیا رہنما اصول ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”بسا اوقات انسان اس شبہ کی وجہ سے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے جو اس کے اور اللہ کی خالص توحید اور شرک و بت پرستی سے اس کی بیزاری و براءت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔“[448]؎
شبہات پھیلانے والوں کو اس منکر سے روکنا حکام کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس کام میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کی تعزیر ضروری ہے، چاہے وہ قید و بند کی صورت میں ہو یا جسمانی سزا کی شکل میں ہو یا جلا وطنی کی صورت میں ہو۔ ایسے مفسدین کو شبہات کے ذریعہ مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑنے کی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے۔ اس قبیل کے منکرات کو کبھی آزادئ رائے کے نام پر، کبھی ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ کے نام پر، کبھی جمہوریت کے پردہ میں اور کبھی اسی طرح کے دوسرے پرکشش عنوانات کا سہارا لے کر انجام دیا جاتا ہے، جو خالصتاً کافر مغربی ممالک کا طریقہ ہے۔
علماء اور علوم شرعیہ کے ماہرین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ دین پر ہونے والے اعتراضات و شبہات کا ٹھوس علمی جواب دیں تاکہ ان منکرات کو مسلمانوں کے بیچ قدم جمانے کا موقع نہ ملے، اس لئے کہ شکوک و شبہات انسانی عضو کو متاثر کرنے والے اس مرض کی طرح ہیں جسے چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ پھیلتا ہے اور ایک عضو سے دوسرے عضو کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان لوگوں کے تذکرہ کے ضمن میں جن کی صورت حال بیان کرنا اور ان کا علمی رد کرنا ضروری ہے، کہتے ہیں: ”مثلاً بدعات کے سرخیل جو قرآن و سنت کے برخلاف باتیں کرتے ہیں یا قرآن و سنت کے برخلاف عبادات کو رواج دیتے ہیں، ایسے مفسدین کے احوال کو بیان کرنے اور ان کے فتنے سے مسلمانوں کو بچانے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کہا گیا: ایک شخص نماز، روزہ اور اعتکاف وغیرہ عبادات میں مشغول رہتا ہے آپ کو یہ شخص زیادہ پسند ہے یا وہ جو اہل بدعات کے بارے میں کلام کرتا ہے؟
انہوں نے کہا: ”کسی کا نماز پڑھنا اور معکتف ہونا اس کی اپنی ذات کے لئے ہے اور جب اہل بدعات کے بارے میں کلام کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے حق میں خیرخواہی ہے، یہ افضل عمل ہے“۔ انہوں نے یہاں یہ واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے دین کی حفاظت کے لئے اس کا نفع عام ہے، لہذا یہ اللہ کی راہ میں جہاد کی قبیل سے ہے، کیونکہ اللہ کے دین، اس کے طریقہ اور اس کی شریعت کی تطہیر اور ان مفسدین کے شر و فساد اور عدوان و سرکشی کو روکنا واجب کفایہ ہے، اس معاملہ میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر مفسدین کے اس شر و فساد کو روکنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام نہ ہو تو دین کا حلیہ بگڑ جائے گا اور یہ فساد و بگاڑ کسی حربی کافر کا مسلمانوں کی ریاست پر قابض ہو جانے کے فساد و بگاڑ سے زیادہ نقصاندہ ہوگا، اس لئے کہ یہ کفار اگر مسلمانوں کے علاقہ پر قابض ہوں گے تو یہ ان کے دین و ایمان پر بلا واسطہ حملہ نہیں ہوگا، لیکن شکوک و شبہات کے ذریعہ بدعقیدگی پھیلانے والے مسلمانوں کے دلوں میں موجود ایمان و عقیدہ پر حملہ کرتے ہیں اور اسے بگاڑ دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور اموال کو نہیں دیکھتا ہے، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے“۔[449]؎ نیز قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”لقد أرسلنا رسلنا بالبینات وأنزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وأنزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ بالغیب“ (یقیناً ہم نے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت و قوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی (بہت سے) فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھی کون کرتا ہے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ اس نے کتاب یعنی قرآن اور میزان اس لئے اتارا ہے تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اس نے بتایا ہے کہ اس نے لوہا بھی اتارا ہے، چنانچہ دین کا خلاصہ و نچوڑ اور اس کے قائم ہونے کا ذریعہ کتاب ہدایت اور مادی طور پر مدد کرنے والی تلوار ہے۔ ”وکفی بربك ھادیا ونصیرا“ (بطور ہادی و مدد گار آپ کا رب آپ کے لئے کافی ہے۔)
اگر کچھ منافقین کی ایک جماعت ہو جو قرآن کے حکم کے خلاف بدعات گڑھتی ہو، اور عوام الناس کو اصل دین کے تعلق سے التباس اور اشتباہ میں مبتلا کرتی ہو، ان کی حقیقت کو اگر لوگوں کے سامنے نہ بیان کیا جائے تو قرآن کا اصل حکم ہی بگڑ جائے گا اور پس پشت چلا جائے گا اور دین میں تبدیلی واقع ہو جائے گی جیسا کہ ہم سے قبل اہل کتاب کا دین محرف ہونے کی وجہ سے اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہا۔ کیونکہ اس میں تحریف و تبدیلی کی گئی اور ایسا کرنے والوں پر نکیر نہیں کی گئی۔
اور اگر لوگوں کے اندر نفاق نہ ہو لیکن وہ منافقین کی باتوں کو سننے کے دلدادہ ہوں اور ان کے سامنے حق واضح نہ ہو یہاں تک کہ وہ منافقین کے پیدا کردہ شبہات کو حق سمجھنے لگیں جبکہ وہ صریح قرآنی حکم کے برخلاف ہو، پھر یہ لوگ ان منافقین کی بدعات کی طرف لوگوں کو دعوت دینے بھی لگیں تو اس قبیل کے لوگوں کی صورت حال کو بھی عوام الناس کے سامنے واضح کرنا ضروری ہے، بلکہ ان لوگوں کا برپا کیا ہوا فتنہ تو اور زیادہ بڑا ہے، اس لئے کہ ان کے اندر ایمان پایا جاتا ہے جو ان سے محبت و خیرخواہی کا تقاضہ کرتی ہے، لیکن منافقین کی رائج کردہ بدعات میں پھنس گئے ہیں جو دین کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے۔ اس صورت میں ان بدعات سے لوگوں کو بچانا ضروری ہے، اگر اس کے لئے ناموں کے ساتھ ان کی تعیین و تذکرہ کی ضرورت ہو تو اسے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ اگر اہل ایمان نے اس بدعت کو کسی منافق سے حاصل نہیں کیا ہے، لیکن وہ اس کے قائل ہیں اور اسے راہ ہدایت سمجھ بیٹھے ہیں اور اسی کو خیر اور دین سمجھتے ہیں حالانکہ وہ دین نہیں ہے، تو اس صورت میں بھی حقیقت حال کی وضاحت واجب ہوگی۔
اسی وجہ سے اس راوی کی حالت کو بیان کرنا بھی واجب ہے جو حدیث و روایت حدیث میں غلطی کرتا ہے، اس عالم کی حالت کو بیان کرنا بھی واجب ہے جو شریعت کے معاملہ میں اپنی رائے اور فتوی دینے میں غلطی کرتا ہے اور اس نیک انسان کی حالت کو بیان کرنا بھی واجب ہے جو زہد و عبادت کے معاملہ میں غلطی کر رہا ہے، اگرچہ غلطی کرنے والے مجتہد کی خطا معاف ہے اور اپنے غلط اجتہاد پر بھی وہ ایک اجر کا مستحق ہے۔ چنانچہ قرآن و سنت سے ثابت قول و عمل کو بیان کرنا واجب ہے، اگرچہ اس سے کسی کے قول و عمل کی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔[450]؎ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔
اس کے ناقل عفا اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان شبہات پھیلانے والوں کو دجال کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانے میں دجال اور کذاب پیدا ہوں گے، وہ تمہارے پاس ایسی حدیثیں لے کر آئیں گے جو تم نے اور تمہارے اَباؤ اجداد نے نہیں سنی ہوگی، وہ تم سے دور رہیں اور تم ان سے دور رہنا، وہ تمہیں گمراہ نہ کریں اور تمہیں فتوے نہ دیں۔[451]؎
نیز جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے قریب جھوٹے لوگ پیدا ہوں گے، تم لوگ ان سے بچنا۔“[452]؎
اوپر علماء کے کلام سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی ہدایت و روشنی کا سرچشمہ ہے۔ اس میں دینی امور سے متعلق تمام اشکالات کا جواب موجود ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک صاف ستھری شاہراہ پر چھوڑا ہے، اس میں التباس و اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی کے سامنے دینی معاملات سے متعلق کوئی اشکال یا استفسار آئے تو اسے اس کا جواب قرآن و سنت کے اندر تلاش کرنا چاہئے، اس کے لئے ان علماء کے کلام سے بھی رہنمائی حاصل کی جائے گی جو علم، امانت داری اور دین داری کے اعتبار سے قابل اعتماد ہیں، چاہے یہ رہنمائی ان علماء کی کتابوں سے حاصل ہو یا کیسٹوں سے یا ان سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”فاسألوا أھل الذکر إن کنتم لا تعلمون“ (پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”وإذا جاءھم أمر من الأمن أ والخوف أذاعوا بہ ولو رَدُّوہ إلی الرسول وإلی أولي الأمر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم“ (جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں) اور استنباط کرکے نتیجہ اخذ کرنے والے علماء ہی ہیں۔
میں کہتا ہوں: کوئی بھی دور ایسے علمائے ربانیین سے خالی نہیں رہتا ہے جو باطل پرستوں کے شبہات کا وجود مٹا دیتے ہیں اور ان کا ٹھوس علمی جواب دیتے ہیں جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”الحمداللہ اس امت میں ہمیشہ ایسے افراد رہے ہیں جو باطل پرستوں کے کلام میں باطل کو بھانپ لیتے ہیں اور اس کا رد کرتے ہیں۔ اس طرح کے حق پرست علماء ہر دور میں اللہ کی عطا کردہ ہدایت و روشنی کی وجہ سے قبول حق اور تردید باطل کے معاملہ میں رائے و روایت دونوں اعتبار سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، ایسا لا شعوری طور پر اور پیشگی اتفاق و اتحاد کے بغیر ہوتا ہے۔“[453]؎
شیخ ادیب سلیمان بن سحمان[454]؎ رحمہ اللہ نے دو اشعار کے ذریعہ اپنی بات کہہ دی ہے:
من الدین کشف العیب عن کل کاذب وعن کل بدعتي أتی بالمصائب
ولو لا رجال مومنون لھدُّمت معاقل دین اللہ من کل جانب
(ہر جھوٹے اور دین میں مصیبت کا سبب بننے والے ہر بدعتی کے عیب کو کھولنا دینی فریضہ ہے۔ اگر مسلمانوں میں ایمانی بصیرت کے حامل افراد نہ ہوں تو اللہ کے دین کے قلعے ہر چہار جانب سے منہدم کر دیئے جائیں۔)
امام ابن قیم رحمہ اللہ اللہ کے دین کے معاملہ میں معمولی بصیرت کے حامل مقلد کی حالت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس کے دل پر معمولی شبہ کا بھی گزر ہوتا ہے تو وہ اس کے دل میں شک کے بیج بو دیتا ہے؛ لیکن علم راسخ کے حاملین کا معاملہ اس کے برخلاف ہے، اگر اس کے پاس سمندر کی موجوں کی تعداد کے برابر بھی شبہات کا گزر ہوتا ہے تو وہ اس کے یقین کو متزلزل نہیں کر پاتے اور نہ اس کے دل میں شک کی تخم ریزی کر پاتے ہیں، اس لئے کہ اسے علم دین کے میدان میں رسوخ و پختگی حاصل ہے، لہذا شبہات اس کا کچھ بگاڑ نہیں پاتے، بلکہ جب شبہات اس کے آس پاس پھٹکتے ہیں تو اس کے علم کا پہریدار اور اس کے علم کا لشکر انہیں شکست خوردہ اور دست بستہ واپس لوٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔[455]؎
· باطل پرست اپنے شبہات میں حق کی آمیزش کرتے ہیں تاکہ لوگ اسے قبول کریں
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”یوحي بعضھم إلی بعض زخرف القول غرورا“ (بعض بعض کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں) زخرف اصل میں سونے کو کہتے ہیں اور زخرف القول کا مطلب ہے ایسی بات جو اپنی اصل پر باقی نہ ہو بلکہ اس میں جھوٹ کی آمیزش کر دی گئی ہو تاکہ لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکے۔ یہاں القول المزخرف سے وہ باطل مراد ہے جس پر معمولی حق کا خول چڑھا دیا گیا ہو۔ یہ بڑے فتنوں میں سے ایک ہے، اس لئے کہ باطل اگر ملمع سازی کے بغیر لوگوں کے سامنے آئے گا تو کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوگا، لیکن جب اس میں تھوڑے سے حق کی آمیزش کر دی جائے گی تو بہت سے لوگ اسے قبول کر لیں گے اور باطل کے اوپر معمولی حق کی ملمع سازی سے دھوکہ کھا جائیں گے، لیکن وہ حق کی صورت میں باطل ہی کہلائے گا۔[456]؎
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: باطل محض لوگوں پر مشتبہ نہیں ہوتا ہے، لیکن جب اس میں معمولی طور پر حق کی آمیزش ہو جاتی ہے تب لوگ اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔[457]؎
ان کا یہ بھی کہنا ہے: دنیا میں باطل کو پاؤں پسارنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جبکہ اس میں تھوڑے سے حق کی آمیزش بھی ہو جیسا کہ اہل کتاب نے حق کو باطل سے ملا دیا کیونکہ ان کے پاس حق بہت تھوڑا تھا۔[458]؎
ان کا یہ بھی کہنا ہے: باطل پرستی پر مبنی بات کہنے والے کی بات میں حق کا شائبہ ضرور ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یہ قول باطل لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ کر سکے اور لوگوں پر معاملہ مشتبہ نہ ہو۔[459]؎
ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے: ہر باطل پرست اپنے قول باطل کو لوگوں کے درمیان پھیلانے میں تبھی کامیاب ہوتا ہے جب وہ اسے حق کے قالب میں پیش کرتا ہے۔[460]؎
ہر زمانے میں علمائے اسلام نے باطل پرستوں کے شبہات کا رد کیا ہے، چاہے وہ شبہ توحید عبادت سے متعلق ہو یا توحید اسماء و صفات سے متعلق ہو یا عقیدہ کے دیگر مسائل سے اس کا تعلق ہو، اس لئے کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے اور دین کی طرف سے دفاع ہے۔ اگر باطل کی سرکوبی کے لئے علماء کی یہ تردیدی کاوشیں نہ ہوتیں تو باطل کو اور زیادہ سر اٹھانے کا موقع ملتا اور وہ مزید مضبوطی اور طاقت کے ساتھ سامنے آتا اور حق مضمحل و کمزور ہو جاتا۔
ذیل میں ان کتابوں کی فہرست پیش کی جا رہی ہے جو توحید عبادت کے دفاع اور اس کے تعلق سے پیدا کئے جانے والے شبہات کو بےنقاب کرنے کے لئے علمائے اسلام نے تحریر کی ہیں۔[461]؎
ان اہم کتابوں کی فہرست جو توحید عبادت سے متعلق شبہات کے رد میں لکھی گئی ہیں:
کتاب کا نام | مؤلف کا نام | ناشر |
کشف الشبھات | محمد بن عبدالوہاب | |
شرح کتاب کشف الشبھات | محمد بن صالح بن عثیمین | دار الثریا، ریاض |
شرح کتاب کشف الشبھات | صالح بن فوزان الفوزان | دار النجاح، ریاض |
کتاب کا نام | مؤلف کا نام | ناشر |
کشف مأ القاہ إبلیس من البھرج والتلبیس علی قلب داود بن جرجیس | عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ | دار العاصمۃ، ریاض |
تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس | عبداللہ بن عبدالرحمٰن أبابطین | مؤسۃ الرسالۃ، بیروت |
منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داود بن جرجیس | عبداللطیف بن عبدالرحمٰن آل شیخ | دار الھدایۃ، ریاض |
تحفۃ الطالب فی کشف شبہ داود بن جرجیس | سلیمان بن سحمان | دار العاصمۃ، ریاض |
الضیاء الشارق فی الرد علی المارق الماذق | سلیمان بن سحمان | دار العاصمۃ، ریاض |
الصواعق المرسلۃ الشھابیۃ علی الشبۃ الداحضۃ الشامیۃ | سلیمان بن سحمان | دار العاصمۃ، ریاض |
صیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان | محمد بشیر السھسوانی الھندی | مکتبۃ العلم، جدۃ |
تأیید الملك المنان فی نقض ضلالات دحلان | صالح بن محمد الشثری | دار الحبیب، ریاض |
فتح المنان فی نقض شبہ الحاج دحلان | زید بن محمد آل سلیمان | دار التوحید للنشر، ریاض |
الرد علی شبھات المستعینین بغیر اللہ | احمد بن ابراھیم بن عیسی | دار العاصمۃ، ریاض |
مصباح الظلام فی الرد علی من کذب علی الشیخ الإمام | عبداللطیف بن عبدالرحمٰن آل شیخ | دار الھدایۃ، ریاض |
المورد العذب الزلال فی نقض شبہ أھل الضلال | عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ | دار الھدایۃ، ریاض |
البیان والإشھار لکشف زیغ الملحد الحاج مختار | فوزان السابق | |
غایۃ الأماني فی الرد علی النبھاني | محمود شکری الألوسی | مکتبۃ الرشد، ریاض |
کشف الشبھتین | سلیمان بن سحمان | دار العاصمۃ، ریاض |
ھذہ مفاھیمنا- رد علی کتاب مفاھیم یجب أن تصحح لمحمد بن علوي المالکي | صالح بن عبدالعزیز آل شیخ | |
کتاب کا نام | مؤلف کا نام | ناشر |
دحض شبھات علی التوحید من سوء الفھم لثلاثۃ أحادیث | عبداللہ بن عبدالرحمٰن أبابطین | دار العاصمۃ، ریاض |
کشف غیاھب الظلام عن أوھام جلاء الأفھام | سلیمان بن سحمان | مکتبۃ أضواء السلف، ریاض |
الأسنۃ الحداد فی رد شبھات علوي الحداد | سلیمان بن سحمان | مکتبۃ أضواء السلف، ریاض |
فتح الملك الوھاب فی رد شبہ المرتاب (رد علی شبھات فی إعراب کلمۃ التوحید) | عبداللطیف بن عبدالرحمٰن آل شیخ | |
الإبطال والرفض لعدوان من تجرأ علی کشف الشبھات بالنقض ویلیہ: ملامح جھمیۃ (وھو رد علی حسن بن فرحان المالکی) | عبدالکریم بن صالح الحمید | دار الصفوۃ، مصر |
الأحادیث الموضوعۃ التی تنا فی توحید العبادۃ | أسامۃ بن عطایا العتیبی | مکتبۃ الرشد، ریاض |
الإخنائیۃ أو الرد علی الإخنائی | شیخ الاسلام ابن تیمیہ | دار الخراز، جدۃ |
اللمعۃ فی الأجوبۃ السبعۃ | شیخ الاسلام ابن تیمیہ | دار الصمیعی، ریاض |
شفاء الصدور فی الرد علی الجواب المشکور | محمد بن إبراھیم آل شیخ | مدار الوطن، ریاض |
حکم اللہ الواحد الصمد فی حکم الطالب من المیت المدد | محمد بن سلطان الحنفی | دار الصمیعی، ریاض |
المشاھدات المعصومیۃ عند قبر خیر البریۃ | محمد بن سلطان الحنفی | دار العاصمۃ، ریاض |
الفرقان بین توحید أھل السنۃ و توحید القبوریین | مجدی بن حمدی بن أحمد | |
زیارۃ القبور الشرعیۃ والبدعیۃ | محی الدین البرکوی الحنفی | دار العاصمۃ، ریاض |
المجالس الأربعۃ فی مجالس الأبرار | أحمد الرومی الحنفی | دار العاصمۃ، ریاض |
جھود علماء الحنفیۃ فی إبطال عقائد القبوریۃ | شمس الدین السلفی الأفغانی | دار الصمیعی، ریاض |
الآیات البینات فی عدم سماع الأموات عند الحنفیۃ السادات | نعمان بن محمود الألوسی | المکتب الإسلامی، بیروت |
کتاب کا نام | مؤلف کا نام | ناشر |
تطھیر الاعتقاد عن أدران الإلحاد للصنعانی ویلیہ شرح الصدور فی تحریم رفع القبور للشوکانی | محمد بن اسماعیل الصنعانی/محمد بن علی الشوکانی | دار المغنی، ریاض |
مسألۃ فی الذبائح علی القبور وغیرھا | محمد بن اسماعیل الصنعانی | دار ابن حزم، بیروت |
شفاء الصدور فی زیارۃ المشاھد والقبور | زین الدین مرعی بن یوسف الکرمی | مکتبۃ نزار الباز، مکۃ |
المجموع المفید فی نقض القبوریۃ و نصرۃ التوحید | محمد بن عبدالرحمٰن الخمیس | دار أطلس الخضراء، ریاض |
النبذۃ الشریفۃ النفیسہ فی الرد علی القبوریین | محمد بن ناصر آل معمر | دار العاصمۃ، ریاض |
معارج الألباب فی مناھج الحق والصواب | حسین بن مھدی النعمی | دار المغنی، ریاض |
من بدع القبور | حمد بن عبداللہ الحمیدی | دار المتعلم، الزلفی |
تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد | محمد ناصر الدین الألبانی | المکتب الإسلامی، بیروت |
الصارم المنکی فی الرد علی السبکی | محمد بن أحمد بن عبد الھادی | مؤسۃ الریان، بیروت |
الکشف المبدی لتمویہ أبي الحسن السبکی (تکملۃ الصارم المنکي) | محمد بن حسین الفقیہ | دار الفضیلۃ، ریاض |
ھدم المنارۃ لمن صحح أحادیث التوسل والزیارۃ | عمرو عبدالمنعم سلیم | دار الضیاء، طنطا |
رسالۃ فی التبرك والتوسل والقبور | عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز | مدار الوطن، ریاض |
الرد علی فیصل مراد علی رضا فیما کتبہ عن شأن الأموات و أحوالھم | صالح بن فوزان الفوزان | دار العاصمۃ، ریاض |
الإجابۃ الجلیۃ علی الأسئلۃ الکویتیۃ | حمود بن عبداللہ التویجری | مکتبۃ المعارف، ریاض |
أوضح الإشارۃ فی الرد علی من أجاز الممنوع من الزیارۃ | أحمد بن یحی النجمی | مکتبۃ الغرباء الأثریۃ، مدینہ |
الاستغاثۃ فی الرد علی البکری | شیخ الاسلام ابن تیمیہ | مکتبۃ دار المنہاج، ریاض |
کتاب کا نام | مؤلف کا نام | ناشر |
تنبیہ زائر المدینۃ علی الممنوع والمشروع من الزیارۃ | صالح بن غانم السدلان | دار بلنسیۃ، ریاض |
الانتصار لحزب اللہ الموحدین والرد علی المجادلین المشرکین | عبداللہ بن عبدالرحمٰن أبابطین | دار ابن الجوزی، دمام |
شبھات المبتدعۃ فی توحید العبادۃ | دکتور عبداللہ بن عبدالرحمٰن الھذیل | مکتبۃ الرشد، ریاض |
مجانبۃ أھل الثبور المصلین فی المشاھد و عند القبور (رد علی من أجاز الصلاۃ فی المقابر و عند القبور | عبدالعزیز بن فیصل الراجحی | مکتبۃ الرشد، ریاض |
زیارۃ القبور عند المسلمین | سالم بن قطوان العیدان | دار غراس، کویت |
بدع القبور، أنواعھا و أحکامھا | صالح بن مقبل العصیمی | دار الفضیلۃ، ریاض |
التحذیر من تعظیم الآثار غیر المشروعۃ | عبد المحسن بن حمد العباد | دار المغنی، ریاض |
البیان المبدی لشناعۃ القول المجدی ویلیہ رجم أھل التحقیق والإیمان | سلیمان بن سمحان | دار أضواء السلف، ریاض |
القبوریۃ، نشأتھا و آثارھا | أحمد بن حسن المعلم | دار ابن الجوزی، دمام |
البناء علی القبور | عبدالرحمٰن بن یحی المعلمی | دار أطلس الخضراء، ریاض |
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اللہ واحد کا ثابت شدہ حق ہے۔ یہ حکم قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اجماع سے ماخوذ ہے، کسی عقلی شبہ یا ضعیف حدیث یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایت کے ذریعہ اس پر اشکال یا اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دعا کے علاوہ دیگر عبادات مثلاً نماز، زکاۃ، طواف، ذبح اور نذر وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ یہ ساری عبادات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں کسی غیر اللہ کے لئے اسے انجام دینا مطلق طور پر جائز نہیں ہے۔ جس نے ان میں سے کسی عبادت کو غیر اللہ کے لئے انجام دیا اس نے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا اور وہ ملت اسلام سے خارج ہو گیا، العیاذ باللہ۔
ان سطور کے ساتھ یہ کتاب مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس کے مؤلف، قاری اور ناشر کے لئے اسے نفع بخش بنائے۔ واللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا إلی یوم الدین
ازقلم:
ماجد بن سلیمان الرسی
سنیچر، 24/جمادی الآخر 1434ھ
اہم مصادر و مراجع
1۔ الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، عبداللہ بن أبی شیبۃ، تحقیق: محمد بن عبدالسلام شاھین، ناشر: مکتبۃ دار الباز، مکہ
2۔ المنتخب من مسند عبد بن حمید، تحقیق: مصطفی العدوی، ناشر: دار بلنسیہ، ریاض
3۔ شعب الإیمان، ابوبکر البیھقی، تحقیق: محمد السعید بن بسیونی زغلول، طباعت اول، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، لبنان
4۔ المدخل إلی السنن الکبری، ابوبکر البیھقی، تحقیق: ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی، ناشر: مکتبۃ أضواء السلف، ریاض
5۔ جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبدالبر، تحقیق: ابو الأشبال الزھیری، ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
6۔ أخبار مکۃ، محمد بن عبداللہ الأزرقی، تحقیق: ڈاکٹر عبدالملک بن عبداللہ بن دھیش
7۔ الأصنام، ھشام بن محمد الکلبی، ناشر: المجمع الثقافی، امارات
8۔ العلو، شمس الدین الذھبی، تحقیق: أشرف عبد المقصود، ناشر: مکتبۃ أضواء السلف، ریاض
9۔ اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم، ابن تیمیۃ، تحقیق: ڈاکٹر ناصر بن عبدالکریم العقل، طباعت پنجم، ناشر: مکتبۃ الرشد، ریاض
10۔ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ، ابن تیمیۃ، تحقیق: ڈاکٹر ربیع بن ہادی، طباعت اول، ناشر: مکتبۃ لینۃ، مصر
11۔ الاستغاثۃ فی الرد علی البکری، ابن تیمیۃ، تحقیق: عبداللہ السھلی، طباعت اول، ناشر: مدار الوطن، ریاض
12۔ الداء والدواء، ابن قیم، تحقیق: علی حسن عبدالحمید، ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
13۔ إغاثۃ اللھفان، ابن قیم، تحقیق: علی حسن عبدالحمید، ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
14۔ مدارج السالکین، ابن قیم، تحقیق: عبدالعزیز بن ناصر الجلیل، ناشر: دار طیبۃ، ریاض
15۔ مفتاح دار السعادۃ ومنشور ولایۃ أھل العلم والریادۃ، ابن قیم، تحقیق: علی حسن عبدالحمید، ناشر: دار ابن عفان، الجز
16۔ تحقیق کلمۃ الإخلاص، ابن رجب الحنبلی، تحقیق: ابراہیم بن عبداللہ الحازمی، ناشر: دار الشریف، ریاض
17۔ تجرید التوحید المفید، احمد بن علی المقریزی المصری الشافعی، تحقیق: علی بن محمد العمران، ناشر: دار عالم الفوائد، مکۃ
18۔ تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس، عبداللہ أبابطین، ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت
19۔ منھاج التأسیس والتقدیس فی کشف شبھات داود بن جرجیس، عبد اللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن آل شیخ، ناشر: مکتبۃ الھدایۃ، ریاض
20۔ النبذۃ الشریفۃ النفیسۃ فی الرد علی القبوریین، حمد بن ناصر آل معمر، تحقیق: عبدالسلام بن برجس، ناشر: دار العاصمۃ، ریاض
21۔ المجموع المفید فی نقض القبوریۃ ونصرۃ التوحید، ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمٰن الخمیس، ناشر: دار أطلس، ریاض
22۔ شفاء الصدور فی زیارۃ المشاھد والقبور، مرعی بن یوسف الکرمی، ناشر: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ
23۔ الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید، محمد بن علی الشوکانی، تحقیق: ابو عبداللہ الحلبی، ناشر: دار ابن خزیمۃ، ریاض
24۔ فصل المقال فی توسل الجھال، محمد عارف خوقیر الکتبی المکی، ناشر: دار المسلم، ریاض
25۔ الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ، جمع کردہ: عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم، ناشر: دار القاسم، ریاض
26۔ دمعۃ علی التوحید (حقیقۃ القبوریۃ وأثرھا فی واقع الأمۃ) ناشر: المنتدی الاسلامی، لندن
27۔ تحفۃ الذاکرین، محمد بن علی الشوکانی، ناشر: مکتبۃ دار التراث، القاھرۃ
28۔ عجالۃ الراغب المتمنی فی تخریج کتاب ”عمل الیوم واللیلۃ“ لابن السنی، تحقیق: سلیم الھلالی، ناشر: دار ابن حزم، بیروت
29۔ صحیح الکلم الطیب، ابن تیمیۃ، تحقیق: محمد ناصرالدین البانی، طباعت سوم، ناشر: المکتب الإسلامی، بیروت
30۔ الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ المعروف بالموضوعات الکبری، الملا علی القاری، تحقیق: ڈاکٹر محمد بن لطفی الصباغ، ناشر: المکتب الإسلامی، بیروت
31۔ نقد المنقول والمحك الممیز بین المردود والمقبول، ابن قیم، تحقیق: عبدالرحمٰن بن یحی المعلمی الیمانی، ناشر: دار العاصمۃ، ریاض
32۔ کتاب المجروحین من المحدثین، ابن حبان، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: دار الصمیعی، ریاض
33۔ الکامل فی ضعفاء الرجال، ابن عدی، تحقیق: عادل عبدالموجود وعلی معوض، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، لبنان
34۔ موسوعۃ أقوال أبی الحسن الدار قطنی فی رجال الحدیث وعللہ، تیار کردہ: جماعت محققین، ناشر: عالم الکتب، لبنان
35۔ العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ، ابوالفرج ابن الجوزی، باہتمام: خلیل المیس، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، لبنان
36۔ کتاب العلل ومعرفۃ الرجال، أحمد بن حنبل، تحقیق: وصی اللہ عباس، ناشر: دار الخانی، بیروت
37۔ کتاب الجرح والتعدیل، عبدالرحمٰن بن أبی حاتم الرازی، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، لبنان
38۔ کشف الخفاء ومزیل الإلباس عما جری عما اشتھر من الأحادیث علی ألسنۃ الناس، إسماعیل بن محمد العجلونی، باہتمام: أحمد القلاش، ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت
[1]؎ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مجموع الفتاوی (10/149-150) سے معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ منقول
[2]؎ ان دونوں کتابوں کے نام ہیں: ”کشف الغطاء عن عیني من جعل بینہ و بین اللہ واسطۃ فی الدعا“ اور ”البضاعۃ لمبتغی الشفاعۃ“۔ پہلی کتاب دارالفرقان، الجزائر سے شائع ہوئی ہے۔ دونوں کتابیں انٹرنیٹ پر اس لنک کے تحت دستیاب ہیں: www.saaid.net/kutob
[3]؎ سنن ترمذی (3556) شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[4]؎ سنن ترمذی (2139) روایت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ہے۔ شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے، دیکھئے: الصحیحۃ (154)
[5]؎ سنن ترمذی (3370) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
[6]؎ سنن ابوداؤد (1479) سنن ترمذی (2969) روایت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[7]؎ سنن نسائی (3016) روایت عبدالرحمٰن بن یعمر رضی اللہ عنہ کی ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[8]؎ صحیح مسلم (55) روایت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[9]؎ سورۃ العنکبوت/65
[10]؎ صحیح مسلم (479)
[11]؎ شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابابطین کی ولادت 1194ھ میں روضہ سدیر میں ہوئی، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے چند شاگردوں سے علم حاصل کیا، حصول علم کے بعد قضاء و افتاء کے مناصب پر فائز ہوئے، اکابر علمائے نجد میں ان کا شمار ہوا، مفتی الدیار النجدیۃ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ فقہ میں مہارت حاصل کی اور بہت سے شہروں میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ ان کے بہت سے نامور شاگرد بھی ہوئے، ان میں سے ایک احمد بن ابراہیم عیسی (1329ھ) جو ابن قیم کے قصیدہ نوینہ کے شارح ہیں اور معروف مورخ عثمان بن عبداللہ بن بشر (1290ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسلامی عقیدہ کے دفاع میں ان کی متعدد تالیفات ہیں، مثلاً ”الانتصار لحزب الموحدین والرد علی المجادل عن المشرکین“، ”الرد علی البردۃ“، ”تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس“ ان کے کچھ رسائل اور باطل عقائد و افکار کی تردید میں لکھی گئی تحریریں ”الدرر السنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ“ میں شامل ہیں اور ان میں سے کچھ ”مجموعۃ الرسائل و المسائل النجدیۃ“ میں شامل ہیں۔ انہوں نے 1282ھ میں شقراء میں وفات پائی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ یہ مختصر تعارف ان کی کتاب ”تأسيس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس“ میں درج ان کی سوانح سے ماخوذ ہے۔ مذکورہ کتاب ڈاکٹر عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ کی تیار کردہ ہے۔ ان کے احوال زندگی کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر علی بن محمد عجلان کی کتاب ”الشیخ العلامة عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابابطین مفتی الدیار النجدیۃ“ ناشر: دارالصمیعی، ریاض
[12]؎ تأسيس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس، ص 127
[13]؎ سورۃ الأعراف/55
[14]؎ سورۃ النساء/32
[15]؎ شیخ عبدالرحمٰن خطۂ نجد کے معروف علمائے کرام میں سے ایک ہیں، ان کی ولادت 1319ھ میں ہوئی، نجد کے متعدد علمائے کرام سے علم حاصل کیا۔ شیخ عبدالرحمٰن نے دینی و علمی کتابوں کی خدمت اور ان کی نشر و اشاعت کے میدان میں امتیاز حاصل کیا، ان علمی کتابوں کے مصادر کی جمع و تدوین، تحقیق اور طباعت میں بھرپور حصہ لیا۔ ان میں سب سے نمایاں فتاوی ابن تیمیہ ہے، شیخ نے 35 جلدوں میں اس کتاب کو جمع کیا جس میں فہرست پر مشتمل جلدیں شامل نہیں ہیں، یہ کتاب شاہ سعود بن عبدالعزیز کے ذاتی خرچ سے 1381ھ میں طبع ہوئی۔ انہوں نے علمائے نجد کے فتاوی کی جمع و ترتیب کا کام بھی کیا۔ اس میں بارہویں صدی ہجری کے شیخ محمد بن عبدالوہاب سے لے کر ان کے زمانے تک کے معاصر علمائے کرام کے فتاوے شامل ہیں۔ یہ کتاب ”الدرر السنیۃ فی الفتاوی النجدیۃ“ کے نام سے معروف ہے جو 16 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1356ھ میں شاہ عبدالعزیز آل سعود کے ذاتی خرچ سے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی۔ سعودی عرب کے سابق مفتی عام شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کے فتاوے کی جمع و ترتیب کا کام بھی ان کے ہاتھوں انجام پایا، یہ کتاب 13 جلدوں پر مشتمل ہے جو شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے حکم سے 1390ھ میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔ متعدد علوم و فنون مثلاً عقیدہ، اصول تفسیر، فقہ، حدیث اور نحو میں شیخ عبدالرحمٰن کی دیگر تالیفات و شروحات بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ امت کو بہت فائدہ پہنچایا اور مسلمانوں نے ان سے خوب خوب استفادہ کیا، رحمہ اللہ و أجزل ثوابہ
[16]؎ سورۃ غافر/60
[17]؎ سورۃ الأعراف/29
[18]؎ سورۃ الجن/18
[19]؎ سورۃ الشعراء/213
[20]؎ سورۃ القصص/88
[21]؎ سورۃ یونس/106
[22]؎ سورۃ الأحقاف/4
[23]؎ سورۃ سبا/22
[24]؎ سورۃ الأحقاف/5-6
[25]؎ سورۃ مریم/48-49
[26]؎ اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔
[27]؎ شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے سچ کہا کیونکہ کوئی عبادت بمشکل ہی دعا سے خالی ہوگی، نماز، حج، اذکار اور جہاد ان ساری عبادات میں اللہ عزوجل سے دعا مانگنا مشروع ہے، علاوہ ازیں دعا بذات خود ایک مستقل عبادت ہے۔
[28]؎ سورۃ الجن/20
[29]؎ السیف المسلول علی عابد الرسول، ص 131-132 (معمولی اختصار و تصرف کے ساتھ)
[30]؎ سنن ترمذی (2516) مسند احمد (1/303) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[31]؎ صحیح بخاری (1145) صحیح مسلم (1772) وغیرہ۔
[32]؎ صحیح بخاری (4497) روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[33]؎ سنن ترمذی (2574) شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
[34]؎ شیخ، علامہ، مفسر، فقیہ عبدالرحمٰن بن ناصر سعدی ممتاز علمائے نجد میں سے ہیں، انہوں نے قصیم کے شہر عنیزہ میں سکونت اختیار کی تھی، ان کی ولادت 1307ھ اور وفات 1376ھ میں ہوئی، دینی علوم کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے ان سے علم حاصل کیا جن کا آگے چل کر مسلمانوں کے نامور علمائے کرام میں شمار ہوا، مثلاً عبداللہ بن عبدالعزیز بن عقیل، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بسام، شیخ محمد بن صالح بن عثیمین وغیرھم۔ ان میں سے جو وفات پا چکے ہیں، اللہ ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرے اور جو باحیات ہیں، اللہ ان کی شرور و فتن سے حفاظت فرمائے۔ ان کی مفصل سوانح حیات کے لئے دیکھئے: شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بسام کی کتاب ”علماء نجد خلال ثمانیۃ قرون“۔
[35]؎ سورۃ الرحمٰن/29
[36]؎ تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان
[37]؎ شفاعت کے وسیع مفہوم کے لئے دیکھئے ”لسان العرب“ مادۃ ”شفع“
[38]؎ شفاعت سے متعلق احادیث متواتر ہیں، صحیحین وغیرہ میں صحابہ کرام کی ایک جماعت سے یہ احادیث مروی ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (4476، 4712، 6565، 7410، 7439، 7440، 7510) صحیح مسلم (193-195) یہ احادیث انس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری اور حذیفہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔
[39]؎ صحیح بخاری (335) صحیح مسلم (521) حدیث کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔
[40]؎ سورۃ الإسراء/79
[41]؎ صحیح بخاری (614)
[42]؎ خازن کسی چیز کے محافظ کو کہتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان جنت کے خازن کا نام ”رضوان“ مشہور ہے، لیکن اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ انہیں خازن جنت ہی کا نام دیا جائے جیسا کہ حدیث نبوی میں آیا ہے۔ مجھے یہ بات شیخ محمد بن علی آدم اثیوبی حفظہ اللہ نے بتائی ہے۔
[43]؎ صحیح مسلم (197) روایت انس رضی اللہ عنہ کی ہے
[44]؎ صحیح مسلم (196) الفاظ حدیث صحیح مسلم کے ہیں، مسند احمد (3/140) مسند دارمی، مقدمہ، باب ما أعطی النبی من الفضل
[45]؎ اس سے ان اہل جنت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، اس لئے کہ جنت کے سات دروازے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت آئی ہے ”لھا سبعۃ أبواب“ (جنت کے سات دروازے ہیں) ان اہل جنت کو دائیں طرف کے دروازے سے دخول جنت کا شرف حاصل ہوگا، اس سے ان کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، کیونکہ دائیں طرف سے کوئی کام کرنے کی فضیلت اسلام میں معلوم و متحقق ہے۔
[46]؎ صحیح بخاری (4712)
[47]؎ صحیح بخاری (3883) صحیح مسلم (209) مسند احمد (1/206)
[48]؎ صحیح بخاری (7510) کی ایک روایت میں ”یا محمد! ارفع رأسک“ کے الفاظ آئے ہیں یعنی اے محمد! سر کو اٹھائیے....
[49]؎ صحیح بخاری (6565) صحیح مسلم (193) نیز دیکھئے صحیح بخاری کی احادیث (4476) (7410) (7440) (7510)
[50]؎ سورۃ البینۃ/6
[51]؎ سنن ترمذی (2435) سنن ابوداؤد (4739) مسند احمد (3/213) شیخ البانی نے المشکاۃ (5598-5599) میں اسے صحیح قرار دیا ہے، روایت انس رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[52]؎ صحیح بخاری (6304) صحیح مسلم (198) سنن ابن ماجہ (4307) مسند احمد (2/275) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، روایت کے الفاظ صحیح بخاری کے ہیں۔
[53]؎ صحیح مسلم
[54]؎ محمد بن ابی بکر بن سعد زرعی دمشقی جو ابن قیم الجوزیہ کے نام سے معروف ہیں، آٹھویں صدی کے بلند پایہ عالم تھے۔ مسلسل اپنے استاذ ابن تیمیہ کی صحبت میں رہے، یہاں تک کہ 728ھ میں ان کی وفات ہو گئی۔ ابن قیم اپنے استاذ کے بڑے اور نامور شاگردوں میں سے تھے۔ استاذ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے دعوت اور علمی جہاد کا محاذ سنبھالا، یہاں تک کہ 751ھ میں وفات پا گئے۔ ان کا علم وسیع، دلیل طاقتور اور استنباط باریک بینی پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں، ان کی مولفات تمام حلقوں میں مقبول ہیں۔ بعد کے لوگوں نے ان کے علم سے خوب استفادہ کیا اور ان پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ ہمیشہ صحیح اسلامی عقیدے کی نصرت و حمایت کے لئے سینہ سپر رہے۔ اپنے نثری اور منظوم کلام کے ذریعہ اہل بدعات کا رد کیا، خاص طور پر اہل فلسفہ، قبوریوں، اللہ کے اسماء و صفات کے باب میں تاویل کرنے والوں اور اہل تصوف کے رد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت کی بارش برسائے۔ انہوں نے اور ان کے استاذ ابن تیمیہ نے اللہ کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دیا۔ دونوں امت اسلامیہ کی زندگی میں تاریخی موڑ ثابت ہوئے۔ ان کے مفصل حالات زندگی کے لئے دیکھئے ابن العماد کی ”شذرات الذھب“ اور ابن رجب کی ”طبقات الحنابلۃ“ ۔ شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ نے ان کے سوانح نگاروں کی علمی کاوشوں کو اپنی کتاب ”ابن قیم الجوزیۃ حیاتہ و آثارہ“ میں جمع کر دیا ہے۔
[55]؎ تھذیب السنن، کتاب السنۃ، باب فی الشفاعۃ (5/2269-2270) ناشر: مکتبۃ المعارف، ریاض
[56]؎ ان پانچوں شفاعتوں پر مفصل کلام کے لئے دیکھئے ”تھذیب السنن“
[57]؎ سورۃ الأحزاب/64-65
[58]؎ سورۃ فاطر/36
[59]؎ شیخ علامہ حافظ بن احمد بن علی حکمی سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین اور مملکت کے جنوبی خطہ کی ایک عظیم شخصیت تھے۔ شیخ عبداللہ بن محمد قرعاوی رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ عقیدہ، فقہ، مصطلح، سیرت، فرائض اور آداب وغیرہ میں منظوم کلام کے ذریعہ اپنے علوم و افکار کو پیش کیا۔ آنجہانی شاہ سعود بن عبدالعزیز آل سعود رحمہ اللہ نے ان کی تمام کتابوں کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کا انتظام کیا۔ ”معارج القبول بشرح سلم الوصول إلی علم الأصول فی التوحید“ ان کی مشہور کتاب ہے۔ وہ دعوت و تبلیغ کے لئے اپنے خطہ کی مختلف بستیوں اور قصبات میں گئے۔ بڑی تعداد میں طلبائے علوم دینیہ نے ان سے استفادہ کیا جو آگے چل کر بڑے علماء، دعاۃ اور قضاۃ میں شمار ہوئے۔ شیخ حافظ بن احمد حکمی رحمہ اللہ نے 35 سال کی عمر میں 1377ھ میں وفات پائی۔ ان کی وفات مکہ میں مناسک حج ادا کرنے کے بعد اس وقت ہوئی جب وہ حج کی ادائیگی کے دوران لو کی زد میں آ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت کا سایہ دراز کرے اور اپنی وسیع و عریض جنتوں کو ان کی جائے قیام بنا دے۔ یہ سوانحی سطریں شیخ رحمہ اللہ کے صاحبزادہ ڈاکٹر احمد بن حافظ حکمی کی تحریر کردہ شیخ کی سوانح سے ماخوذ ہیں۔ ڈاکٹر احمد نے یہ سوانح شیخ کی کتاب ”معارج القبول بشرح سلم الوصول إلی علم الأصول فی التوحید“ کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے، اس کتاب کو دار ابن الجوزی، دمام نے شائع کیا ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ زید بن محمد مدخلی نے اپنی کتاب ”الأفنان الندیۃ شرح السبل السویۃ“ کے مقدمہ میں بھی ان کی سوانح تحریر کی ہے۔
[60]؎ مذکورہ اشعار اور ان کی شرح کے لئے دیکھئے شیخ حافظ بن احمد حکمی رحمہ اللہ کی کتاب ”معارج القبول بشرح سلم الوصول إلی علم الأصول“ (1/70-69) اور اس کے بعد کے صفحات، تحقیق: محمد صبحی حلاق، ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
[61]؎ صحیح مسلم (918)
[62]؎ صحیح بخاری (4323) صحیح مسلم (2489)
[63]؎ ”تھذیب السنن“ کتاب السنۃ، باب فی الشفاعۃ (5/2669-2271) ناشر: مکتبۃ المعارف، ریاض
[64]؎ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مستقل کتاب میں ”التبصرۃ فی بیان أن تحری إجابۃ دعا اللہ تعالیٰ عند القبور بدعۃ منکرۃ“ کے عنوان سے دعا کے آداب اور اس کی قبولیت کے اسباب پر کلام کرنے کی توفیق و آسانی عطا فرمائی، یہ کتاب شبکۃ المعلومات کے تحت انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طباعت کے مرحلہ کو آسان فرمائے۔
[65]؎ سورۃ الزمر/3
[66]؎ سورۃ یونس/18
[67]؎ امام، علامہ، بحر علم، فقیہ، بجا طور پر شیخ الاسلام کہے جانے کے مستحق ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام حرانی دمشقی ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے دین اسلام کی اس وقت تجدید کی جب اس کی اجنبیت مستحکم ہو چکی تھی، دنیا کلامی بدعات، صوفیوں کی خرافات، قبر پرستوں کی شرکیات اور اہل فلسفہ و روافض کے الحاد کی وجہ سے تاریک ہو چکی تھی۔ ایسے تاریک اور پر آشوب حالات میں انہوں نے کتاب و سنت کے منہج کے مطابق صاف ستھرے اسلام کی دعوت کی تجدید کی، حق کا اعلان کیا، اہل= =باطل سے مناظرہ کیا، اس راہ میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے علم کو قبولیت عطا فرمائی، ان کی تصنیفات کے انبار لگ گئے۔ ان کے بعد آنے والے علمائے سنت نے ان کی خوشہ چینی کی۔ ان کے بعض شاگرد ائمہ اسلام قرار پائے مثلاً ابن قیم، ابن کثیر، ذھبی اور ابن عبدالہادی وغیرھم۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے 728ھ میں وفات پائی۔ کچھ محققین نے ان کے سوانح نگاروں کے اقوال کو ایک نفیس و عمدہ کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے اور اس کا نام ”الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیہ خلال سبعۃ قرون“ رکھا ہے۔ یہ کتاب شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کے زیر نگرانی ترتیب دی گئی ہے اور اس کی طباعت و نشر کا کام دار عالم الفوائد، مکہ کے ذریعہ انجام پایا ہے۔ جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بارے میں مزید معلومات درکار ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے۔
[68]؎ الاستغاثۃ فی الرد علی البکری (2/477-478) اختصار کے ساتھ
[69]؎ سنن ترمذی (2167) روایت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہے۔ شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اسے حاکم نے بھی اپنی مستدرک (1/115، 116) میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قاعدہ کلیہ پر اہل سنت کا اجماع ہے، یہ اسلام کے قواعد و ضوابط میں سے ہے۔
[70]؎ الاستغاثۃ فی الرد علی البکری، ص (331)
[71]؎ مجموع الفتاوی (1/103) شیخ الاسلام کے اس قول کے لئے دیکھئے: الفتاوی الکبری (4/506) (اختیارات شیخ الاسلام) باب حکم المرتد، ناشر: دار القلم، بیروت
[72]؎ مجموع الفتاوی (1/124)
[73]؎ وہ علامہ، فقیہ، محدث، اصولی، امام دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پوتے ہیں، ان کی ولادت 1200ھ میں ہوئی۔ ان کی نشر و نما درعیہ میں ہوئی جو بلند پایہ علمائے کرام کا مرکز تھا، ان کی متعدد تالیفات ہیں جن میں ”تیسیر العزیز الحمید“ ان کی مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب ان کے دادا شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مشہور زمانہ کتاب ”التوحید“ کی شرح ہے۔ علماء اور طلبائے علوم دینیہ گزشتہ تین صدیوں سے اس کتاب کے علمی سمندر سے سیراب ہو رہے ہیں، یہ کتاب توحید عبادت کے موضوع پر اولین مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، بعد کے لوگ توحید عبادت کو جاننے کے لئے اس کتاب پر انحصار کرتے ہیں۔ فقہ کی معروف کتاب ”المقنع“ پر ان کے حواشی تین ضخیم جلدوں میں معروف و متداول ہیں، ان کے علاوہ بھی ان کی دیگر تالیفات ہیں۔ شیخ سلیمان رحمہ اللہ نے 1234ھ میں وفات پائی، اس وقت ان کی عمر 33 سال تھی۔ ان کی مفصل سوانح کے لئے دیکھئے شیخ عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن عبداللہ آل شیخ کی کتاب ”مشاھیر علماء نجد“۔= =ان کی زندگی کے احوال ان کی کتاب ”تیسیر العزیز الحمید“ کے مقدمہ میں بھی درج ہیں جو کتاب کے محقق اسامہ بن عطایا عیتبی کے قلم سے ہے۔
[74]؎ یعنی غیراللہ سے دعا کرنے والے کے کفر پر علمائے اسلام کا اجماع
[75]؎ (6/185) ناشر: دار الکتب العلمیہ، بیروت، مطبوعہ 1418ھ
[76]؎ یعنی المرداوی، (10/327) تحقیق: محمد حامد الفقی، ناشر: دار إحیاء التراث العربی، بیروت
[77]؎ یعنی ”غایۃ المنتھی فی الجمع بین الإقناع و المنتھی“ (2/498) تالیف: مرعی الکرمی، تحقیق: یاسر ابراہیم المزروعی، رائد یوسف الرومی، ناشر: دار غراس، کویت
[78]؎ (4/285) تالیف: شرف الدین، موسیٰ بن احمد الحجاوی المقدسی، تحقیق: ڈاکٹر عبداللہ الترکی، ناشر: دار ھجر، مصر
[79]؎ یعنی شیخ منصور بن یونس البھوتی نے اپنی کتاب ”کشاف القناع فی شرح الإقناع“ (6/168) میں نقل کیا ہے۔ ناشر: دار الفکر، بیروت، مطبوعہ 1402ھ
[80]؎ اس سے مراد احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی شافعی ہیں، ان کی کتاب کا نام ”الإعلام بقواطع الإسلام“ ہے، اِس کتاب کا تعارف آگے آئے گا۔
[81]؎ سلسلۂ کلام شیخ سلیمان ہی کا ہے۔
[82]؎ ”تیسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید“ باب من الشرک أن یستغیث بغیراللہ أویدعو غیرہ، ص (427)
[83]؎ شیخ عبداللطیف بن شیخ عبدالرحمٰن بن حسن بن شیخ محمد بن عبدالوہاب (رحمہم اللہ تعالیٰ) کی ولادت علم و علماء کے شہر درعیہ میں 1225ھ میں ہوئی۔ انہوں نے متعدد مشائخ سے علم حاصل کیا جن میں ان کے والد شیخ عبدالرحمٰن بن حسن، ان کے چچا زاد بھائی شیخ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب اور مفتئ الجزئر شیخ محمد بن محمود جزائری کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جب وہ حصول علم سے فارغ ہوئے تو ان کے متعدد شاگردوں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھائی۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ، ادیب اور اپنے اشعار و منظوم کلام سے اللہ تعالیٰ کے دین کا دفاع کرنے والے سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ ہیں۔
ان کی متعدد کتابیں اور رسائل بھی ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں ”مصباح الظلام فی الرد علی من کذب علی الشیخ الإمام“ اور ”منھاج التأسیس فی کشف شبھات داود بن جرجیس“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان کے شاگرد شیخ سلیمان نے ان کے رسائل کو ”مجموعۃ الرسائل و المسائل النجدیہ“ کی تیسری جلد میں جمع کر دیا ہے۔ بعض رسائل متفرق طور پر ہیں اور کچھ رسائل ”الدرر السنیۃ من الأجوبۃ النجدیۃ“ میں شامل ہیں۔ شیخ عبداللطیف رحمہ اللہ نے 1293ھ میں وفات پائی۔ یہ سوانحی سطور شیخ کی کتاب ”مصباح الظلام“ کی مقدمہ سے ماخوذ ہیں جسے شیخ دکتور عبدالعزیز بن عبداللہ الزیر حفظہ اللہ نے تحریر کیا ہے۔
[84]؎ اس سے مراد احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی شافعی ہیں۔
[85]؎ یہ کتاب مستقل طور پر بھی مطبوعہ شکل میں موجود ہے اور دکتور محمد الخمیس کی تحقیق کے ساتھ ”الجامع فی ألفاظ الکفر“ کے نام سے شائع شدہ مجموعۂ کتب میں بھی شامل ہے۔ ناشر: دار إیلاف، کویت
[86]؎ الدرر السنیۃ (1/467-468)
[87]؎ السیف المسلول علی عابد الرسول، ص (24)
[88]؎ شیخ، محدث محمد عابد بن علی سندھی انصاری کی ولادت سندھ میں ہوئی، وہاں سے انہوں نے اپنے دادا کے ساتھ یمن ہجرت کی، پھر مدینہ آئے اور وہیں رہنے لگے یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ شوکانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے: ”انہیں علم طب میں یدطولی حاصل تھا، انہیں نحو، صرف، فقہ حنفی اور اصول فقہ میں مہارت حاصل تھی، تقریباً تمام علوم میں ان کی مشارکت تھی، وہ سریع الفہم تھے، باتوں کو جلدی صحیح طور پر سمجھ لینے کی ان میں صلاحیت تھی۔“
ان کے بارے میں زرکلی نے لکھا ہے: ”وہ حنفی فقیہ اور حدیث کے عالم تھے۔“ فقہ اور حدیث میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ انہوں نے 1257ھ میں وفات پائی۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے شوکانی کی ”البدر الطالع“ اور اسماعیل بن محمد امین بابانی بغدادی کی ”ھدیۃ العارفین أسماء المؤلفین و آثار المصنفین“ (2/370)
[89]؎ صنع اللہ بن صنع اللہ حلبی مکی حنفی واعظ، فقیہ، محدث اور ادیب تھے۔ حدیث میں بحر رجز پر مشتمل ان کا قصیدہ ہے۔ ”سیف اللہ علی من کذب علی أولیاء اللہ“ صالحین کے معاملہ میں غلو کے رد میں ان کی مشہور کتاب ہے۔ 1120ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ دیکھئے: معجم المؤلفین (1/483) اور ھدیۃ العارفین (1/428)
[90]؎ سورۃ النساء/115
[91]؎ سیف اللہ علی من کذب علی أولیاء اللہ، ص (15-16) اختصار کے ساتھ
[92]؎ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: نزھۃ الخواطر و بھجۃ المسامع و النواظر (5/43-55) تالیف کردہ: عبدالحی بن فخرالدین الحسنی، ناشر: دارالمعارف العثمانیۃ، حیدرآباد الھند
[93]؎ ان کا نام احمد بن محمد اقحصاری حنفی ہے، وہ رومی سے معروف ہیں، سلطنت عثمانیہ کے علماء میں سے ہیں۔ شرعی علوم سے ان کا اشتغال رہا ہے، ان کی متعدد تصانیف بھی ہیں۔ 1043ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ ”حاشیۃ علی تفسیر أبی السعود“ اور ”مجالس الأبرار و مسالك الأخیار فی شرح مائۃ حدیث من المصابیح“ وغیرہ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ ان کی تفصیلی سوانح کے لئے دیکھئے: ھدیۃ العارفین (1/157) مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ 1413ھ اور ”معجم المؤلفین“ (2/252) غیراللہ سے دعا کی ممانعت سے متعلق ان کا کلام ان کی کتاب ”مجالس الأبرار و مسالك الأخیار“ میں سترہویں اور ستانویں مجلس کے تحت درج ہے۔
[94]؎ یہ ہندوستانی محقق ہیں، ان کی مشہور کتاب ”کشاف اصطلاحات الفنون“ ہے۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: نزھۃ الخواطر (6/278) اور ھدیۃ العارفین (2/326) اور زرکلی کی الأعلام (6/295) غیراللہ سے دعا کرنے کی مذمت میں ان کا کلام ان کی کتاب ”کشاف اصطلاحات الفنون“ (4/146-153) میں درج ہے۔
[95]؎ ان کا نام محمد بن اسماعیل بن عبدالغنی دہلوی ہے، وہ ایک محدث گزرے ہیں، ان کے علمی آثار میں ”إنجاح الحاجۃ فی شرح سنن ابن ماجہ“ مشہور ہے۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: ”نزھۃ الخواطر“ اور ”معجم المؤلفین“ (3/133) غیراللہ سے دعا کی مذمت میں ان کا کلام ان کی کتاب ”تقویۃ الإیمان“ میں درج ہے۔
[96]؎ ان کا نام محمود شکری بن عبداللہ بن شہاب الدین آلوسی حسینی ہے، ان کا لقب ابو المعالی ہے، مورخ، دین و ادب کے بڑے عالم اور عراق میں اصلاح و دعوت کی خدمت انجام دینے والے تھے۔ اپنی کتابوں اور رسائل کے ذریعہ اہل بدعات کو نشانہ بنایا، اس کی وجہ سے بہت سے اہل بدعات ان کے دشمن ہو گئے۔ ان کی 52 تصانیف ہیں۔ آلوسی رحمہ اللہ نے بغداد میں 1342ھ میں وفات پائی۔ غیراللہ سے دعا کی مذمت میں ان کا کلام ان کی تفسیر ”روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی“ میں سورہ الحج کی آیت 73 کے ضمن میں درج ہے۔
[97]؎ غیراللہ سے دعا کے انکار میں ان علمائے احناف کے مفصل اقوال کے لئے دیکھئے: ”المجموع المفید فی نقض القبوریۃ و نصرۃ التوحید“ ص (418-412) جمع کردہ: ڈاکٹر محمد الخمیس، ناشر: دار أطلس، ریاض۔ میں نے اختصار کی وجہ سے ان کے مفصل اقوال کو یہاں نقل کرنے کے بجائے صرف ان کا حوالہ دے دیا ہے۔
[98]؎ دیکھئے کتاب کے صفحات 353-561
[99]؎ دیکھئے کتاب کے صفحات 563-682
[100]؎ دیکھئے صفحات 683-897
[101]؎ ان کا نام احمد بن محمد بن علی بن حجر شافعی ہے، وہ مصری فقیہ اور دسویں صدی ہجری کے بڑے علماء میں سے تھے۔ ان کی بہت سی علمی کتابیں ہیں۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: زرکلی کی الأعلام (1/234)
[102]؎ ابن حجر ہیتمی شافعی کے اس قول کو شوکانی نے اپنی کتاب ”الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید“ ص 121 (ناشر: دار ابن خزیمہ، ریاض) اور شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب ”مفید المستفید فی کفر تارک التوحید“ ص 305 (ناشر: جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، ریاض) میں نقل کیا ہے۔
[103]؎ شیخ احمد مصری عالم ہیں، انہوں نے حدیث و فقہ کا علم حاصل کیا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دی، پھر تاریخ کی تدوین کے لئے خود کو وقف کر دیا، زرکلی نے ان کو مؤرخ الدیار المصریۃ (مورخ مصر) کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی دو سو سے زیادہ تالیفات ہیں۔ انہیں دمشق کے قاضی کے منصب کی پیش کش کی گئی، لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا، 845ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ ان کی سوانح شوکانی کی ”إنباء الغمر“ اور ”البدر الطالع“ سخاوی کی ”الضوء اللامع“ زرکلی کی الأعلام (1/177) اور معجم المؤلفین (1/204) میں درج ہے۔
[104]؎ تجرید التوحید المفید، ص 52-53، تحقیق: علی بن محمد العمران، ناشر: دار عالم الفوائد، مکہ
[105]؎ الرسالۃ السنیۃ جس کا دوسرا نام الوصیتہ الکبری بھی ہے، ص 395۔ یہ مکمل کتاب مجموع الفتاوی (3/363-430) میں شامل ہے۔
[106]؎ مجموع الفتاوی (27/490)
[107]؎ محمد بن ابی بکر بن سعد زرعی دمشقی جو ابن قیم الجوزیہ کے نام سے معروف ہیں، آٹھویں صدی کے بلند پایہ عالم تھے۔ مسلسل اپنے استاذ ابن تیمیہ کی صحبت میں رہے، یہاں تک کہ 728ھ میں ان کی وفات ہو گئی۔ ابن قیم اپنے استاذ کے بڑے اور نامور شاگردوں میں سے تھے۔ استاذ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے دعوت اور علمی جہاد کا محاذ سنبھالا، یہاں تک کہ 751ھ میں وفات پا گئے۔ ان کا علم وسیع، دلیل طاقتور اور استنباط باریک بینی پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں، ان کی مولفات تمام حلقوں میں مقبول ہیں۔ بعد کے لوگوں نے ان کے علم سے خوب استفادہ کیا اور ان پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ ہمیشہ صحیح اسلامی عقیدے کی نصرت و حمایت کے لئے سینہ سپر رہے۔ اپنے نثری اور منظوم کلام کے ذریعہ اہل بدعات کا رد کیا، خاص طور پر اہل فلسفہ، قبوریوں، اللہ کے اسماء و صفات کے باب میں تاویل کرنے والوں اور اہل تصوف کے رد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت کی بارش برسائے۔ انہوں نے اور ان کے استاذ ابن تیمیہ نے اللہ کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دیا۔ دونوں امت اسلامیہ کی زندگی میں تاریخی موڑ ثابت ہوئے۔ ان کے مفصل حالات زندگی کے لئے دیکھئے ابن العماد کی ”شذرات الذھب“ اور ابن رجب کی ”طبقات الحنابلۃ“ ۔ شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ نے ان کے سوانح نگاروں کی علمی کاوشوں کو اپنی کتاب ”ابن قیم الجوزیۃ حیاتہ و آثارہ“ میں جمع کر دیا ہے۔
[108]؎ مدارج السالکین، منزلۃ التوبۃ، ص (605) ناشر: دار طیبہ، ریاض
[109]؎ ”تلاعب الشیطان بعقول القبورین“ کے عنوان سے کاتب سطور کا ایک مقالہ ہے جس میں ابن قیم رحمہ اللہ کی مذکورہ کتاب سے اس موضوع پر ان کے کلام کو جمع کیا گیا ہے۔ اس مواد کو مرتب کرکے اس کی فہرست سازی کی گئی ہے۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر اس لنک کے تحت دستیاب ہے (www.saaid.net/kutob) اللہ تعالیٰ اسے باعث نفع بنائے۔
[110]؎ وہ امام، علامہ، بحر علم، حنابلہ کے شیخ اور صاحب تصانیف عالم گزرے ہیں، ان کی ولادت 431ھ میں ہوئی تھی۔ ان کی ایک کتاب ”الفنون“ کے نام سے چار جلدوں میں ہے۔ وہ علم کلام میں مشغول ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کی تاویل میں مبتلا ہو گئے، پھر انہوں نے اپنے توبہ کا اعلان کیا، اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کرنے والوں کے رد میں کتاب تصنیف کی۔ ان کی کتاب ”الفنون“ میں شریعت سے خروج کرنے والے اہل کلام اور اہل تصوف کی مذمت میں ان کا کلام ہے جسے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”درء تعارض العقل والنقل“ (8/61-68) میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے 513ھ میں وفات پائی۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے ”سیر أعلام النبلاء“ (19/443)
[111]؎ شیخ علی بن عقیل کے اس کلام کو شیخ محمد بن سلطان معصومی حنفی نے اپنی کتاب ”حکم اللہ الواحد الصمد“ ص (44) میں نقل کیا ہے۔ ناشر: دار العاصمہ، ریاض
[112]؎ علی بن عقیل حنبلی رحمہ اللہ کے اس قول کو ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”إغاثۃ اللھفان من مصائد الشیطان“ ص 364-365 میں نقل کیا ہے۔ ناشر: دار ابن الجوزی، دمام۔ نیز اسے شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب ”مفید المستفید فی حکم تارک التوحید“ ص 302-301 میں نقل کیا ہے۔ ناشر: جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض۔
[113]؎ ان کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[114]؎ یہ شیخ حنابلہ، مفتی و قاضی محمد بن حسین بن محمد بغدادی حنبلی ابن الفراء ہیں۔ اپنے دور میں عراق کے بڑے عالم گزرے ہیں۔ ”إبطال التاویلات فی أخبار الصفات“ اور ”الرد علی الجھمیۃ“ ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ انہوں نے 458ھ میں وفات پائی، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ یہ سوانحی سطریں ”سیر أعلام النبلاء“ (18/89) سے اختصار کے ساتھ ماخوذ ہیں۔ ان کی سوانح ”تاریخ الاسلام“ اور ان کے صاحبزادہ محمد بن ابی یعلی فراء رحمہ اللہ کی تالیف کردہ کتاب ”طبقات الحنابلۃ“ میں بھی درج ہے۔
[115]؎ تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس، ص (147)
[116]؎ سورۃ فاطر/14
[117]؎ سورۃ المائدہ/116
[118]؎ شیخ داعی إلی اللہ عبدالحمید بن مصطفی بن مکی بن بادیس الجزائر کے چودہویں صدی ہجری کے نصف اول کے مشہور دعاۃ میں سے ہیں۔ الجزائر و تونس کے متعدد علماء و مشایخ سے علم حاصل کیا، پھر تعلیم اور دعوت کے میدان میں سرگرم عمل ہو گئے، خاص طور پر بدعات کو مٹانے اور اہل تصوف کے طرق و سلاسل کی تردید و ابطال کے لئے خود کو وقف کر دیا، یہاں تک اہل تصوف نے ان کے قتل کی سازش رچی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مکر و فریب سے شیخ رحمہ اللہ کی حفاظت فرمائی۔ الشھاب کے نام سے دینی پرچہ جاری کیا، کچھ دینی مجلات میں ان کی نمایاں تحریری سرگرمی تھی۔ انہوں نے متعدد دعاۃ إلی اللہ کی تربیت کی جن میں مبارک میلی، فضیل ورتیلانی، محمد سعید زاھری، احمد حمانی، محمد الصالح بن عتیق اور محمد الصالح رمضان کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے مقالات کو بعد میں کتابی شکل دی گئی۔ جن میں ”مباديئ الأصول“ ”العقائد الإسلامیۃ“ ”التفسیر أومجالس التذکیر“ ”رجال السلف و نساءہ“ اور ”جواب سؤال عن سوء مقال“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخری کتاب ابن علیوۃ طرقی کے رد میں لکھی گئی ہے۔ اخیر کی تین کتابیں شیخ رحمہ اللہ کے مقالات کا مجموعہ ہیں جو چھ جلدوں پر مشتمل ہیں اور انہیں الجزائر کی دینی امور کی وزارت نے شائع کیا ہے۔
ابن بادیس رحمہ اللہ نے اپنی جان، اپنے وقت اور اپنی جدوجہد کا ایک بڑا حصہ الجزائر کو فرانسیسیوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے صرف کیا اور اپنی ساری عمر تعلیم و دعوت کے میدان میں گزار دی یہاں تک کہ مغرب عربی میں ائمہ دعوت میں ان کا شمار ہوا۔ انہوں نے 11/ربیع الثانی 1358ھ کو اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کی۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ یہ سوانحی سطریں شیخ محمد حاج عیسی جزائری کی کتاب ”أصول الدعوۃ السلفیۃ عند العلامۃ عبدالحمید بن بادیس“ سے ماخوذ ہیں۔
[119]؎ سورۃ الفرقان/68
[120]؎ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ دیکھئے مشکاۃ المصابیح (2231) اور ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ (3003) لیکن اس کا معنی و مفہوم بلا شک و شبہ صحیح ہے۔ حدیث نبوی ”الدعاء ھو العبادۃ“ اس سے بے نیاز کرتی ہے، اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔
[121]؎ ”مجالس التذکیر من کلام الحکیم الخبیر“ ص 299-300، اختصار کے ساتھ، اسے الجزائر کی دینی امور کی وزارت نے شائع کیا ہے۔
[122]؎ شیخ مبارک بن محمد ابراہیمی میلی نے عہد طفولت ہی سے بہت سے مشایخ سے علم حاصل کیا جن میں سے ایک شیخ عبدالحمید بن بادیس بھی ہیں۔ اس کے بعد وہ 1931ھ میں الجزائر کی جمعیت علمائے مسلمین کے سرگرم رکن بن گئے۔ میدان صحافت میں ان کا نمایاں دعوتی رول رہا ہے۔ الجزائر پر فرانسیسی استعمار کے قبضہ کے دوران بہت ساری آزمائش اور پریشانیوں سے دوچار ہونے کے باوجود ان کی زندگی میدانِ دعوت میں جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ ان کی متعدد تالیفات ہیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور ”الشرک و مظاھرہ“ ہے۔ شیخ مبارک رحمہ اللہ نے 1945ء میں وفات پائی۔ یہ سوانحی سطریں شیخ مبارک رحمہ اللہ کی کتاب ”الشرک و مظاھرہ“ کے محقق نسخہ کے مقدمہ سے ماخوذ ہیں۔ تحقیق: شیخ ابو عبدالرحمٰن محمود الجزائری، ناشر: دار الرایۃ، ریاض
[123]؎ رسالۃ الشرک و مظاھرہ، ص 281-282 اختصار کے ساتھ۔ تحقیق: شیخ ابو عبدالرحمٰن محمود الجزائری۔ مراجعہ: شیخ بکر ابوزید رحمہ اللہ، ناشر: دار الرایۃ، ریاض۔
[124]؎ رسالۃ الشرک و مظاھرہ، ص 286
[125]؎ علامہ، محدث، مشہور لغوی، بلند پایہ شاعر المغرب کے سیاح، شیخ، سلفی ڈاکٹر محمد التقی، محمد تقی الدین ہلالی کے نام سے معروف ہیں۔ انہوں نے کئی مشایخ سے علم حاصل کیا جن میں شیخ عبدالظاہر ابوالسمح اور مصر کے شیخ رشید رضا شامل ہیں۔ انہوں نے مصر میں ایک سال تک قیام کیا، اس دوران لوگوں کو عقیدۂ سلف کی دعوت دیتے تھے اور شرک و الحاد کے ساتھ پنجہ آزمائی میں مشغول رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا اور شیخ محدث عبدالرحمٰن بن عبدالرحیم صاحب تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ پھر انہوں نے عراق جا کر بھی حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا، اس کے بعد دعوتی و علمی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ یہاں تک کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ مقرر ہوئے۔ جامعہ میں تدریس کا یہ سلسلہ 1974ء تک جاری رہا، پھر اپنے ملک المغرب واپس چلے گئے اور توحید و سنت کی دعوت کے کاموں میں مصروف ہو گئے، یہاں تک کہ بروز سموار 25، شوال 1407ھ رب کا بلاوا آ گیا۔ عقیدہ و فقہ میں ان کی بیس سے زائد تالیفات ہیں، ان میں ”القاضي العدل فی حکم البناء علی القبور“ اور ”العلم المأثور والعلم المشھور واللواء المنشور فی بدع القبور“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
[126]؎ سورۃ النمل/58-64
[127]؎ الھدیۃ الھادیۃ إلی الطائفۃ التجانیۃ، ص 61
[128]؎ شیخ، علامہ، اصولی، مفسر محمد امین بن محمد مختار شنقیطی چودہویں صدی ہجری کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں۔ وہ گہرے علم و غیر معمولی علم کے حامل، نہایت ذہین اور نایاب قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کی تقریبا بیس اہم علمی و دینی کتابیں ہیں، ان میں سے بیشتر تفسیر، فقہ اور عقیدہ کے موضوع پر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور دو کتابیں ”أضواء البیان فی اِیضاح القرآن بالقرآن“ اور ”مذکرۃ أصول الفقہ علی روضۃ الناظر“ ہیں۔ ان کی تمام مولفات کو ایک علمی انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں ”آثار الشیخ محمد الأمین الشنقیطي“ کے نام سے جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ سوانحی سطریں شیخ محمد امین کی کتاب ”الأضواء“ کے مقدمہ سے اختصار کے ساتھ موخوذ ہیں۔ ناشر: دار عالم الفوائد، مکہ
[129]؎ سورۃ المومنون/117
[130]؎ دیکھئے شیخ محمد امین رحمہ اللہ کی تفسیر ”أضواء البیان“
[131]؎ شیخ، فقیہ، اصولی محمد بن علی بن محمد شوکانی یمنی نے بہت سے شیوخ سے متعدد فنون کا علم حاصل کیا۔ ان کی متعدد تالیفات ہیں جن میں سے ایک ”إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول“ ہے۔ ”الفتح الرباني فی فتاوی الشوکاني“ کے نام سے ان کے فتاوی کا مجموعہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ فن تفسیر میں ان کی کتاب ”فتح القدیر“ ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”الصوارم الحداد القاطعۃ لعلائق مقالات أرباب الاتحاد“ میں خالق و مخلوق کے اتحاد (یعنی عقیدۂ وحدۃ الوجود) کے قائلین کا رد کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ان کی بہت سی کتابیں اور رسائل ہیں جن کی تعداد 114 تک پہنچتی ہے۔ شوکانی رحمہ اللہ نے 1250ھ میں وفات پائی۔ ان کی خود نوشت سوانح کے لئے دیکھئے: ”البدر الطالع“ نیز ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: زرکلی کی الأعلام (6/298)
[132]؎ الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید، ص 22-23، تحقیق: محمد علی حلبی، دار الفتح، الشارقہ
[133]؎ شیخ امام عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اپنے وقت کے شیخ الاسلام تھے۔ انہوں نے اہل دنیا کو اپنے علم و تفقہ سے بہت زیادہ مستفید کیا، ان کے ذریعہ دنیا بھر میں ہزاروں مساجد کی تعمیر ہوئی اور سیکڑوں علمی پراجیکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ طلباء کے ایک جم غفیر نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے علمی پختگی حاصل کی۔ ان کی رحلت کے بعد سعودی عرب میں جو علماء، قضاۃ اور طلباء باقی رہ گئے ان میں سے بیشتر ان کے فیض یافتہ اور ان پر منحصر تھے۔ مدینہ نبویہ میں جب جامعہ اسلامیہ کا آغاز ہوا تو اس کے پہلے نائب رئیس مقرر ہوئے، پھر ایک سال کے بعد اس کے رئیس کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ عظیم الشان اسلامی یونیورسیٹی اپنے آغاز سے لے کر اب تک علم دین کی نشر و اشاعت کا ایک پرکشش چمن ثابت ہوا ہے جہاں دنیا بھر سے ہزاروں طلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے پہنچتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنے ممالک میں نامور علماء کی صف میں شامل ہیں۔ شیخ ابن باز کے فتاوی کا مجموعہ تیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں اور رسائل بھی ہیں۔ وہ ضرورت مندوں کی بہت زیادہ سفارش کرنے، لوگوں کی ضرورت پوری کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لئے بہت مشہور تھے۔ وہ ہر مسلمان کو نصیحت کرنے کے لئے بھی جانے جاتے ہیں، چاہے اس کا جو بھی مقام و مرتبہ ہو، حتی کہ بعض غیر مسلم ممالک کے سربراہان تک بھی انہوں نے اپنے ناصحانہ کلمات پہنچائے۔ ان کی علمی، دعوتی اور تربیتی خدمات کو چند سطروں میں بیان کر پانا مشکل ہے۔ ان کی سوانح پر متعدد کتابیں تالیف کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ان کے مشیر ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر کی ”عبدالعزیز بن باز، عالم فقدتہ الأمۃ“ اور ان کے مکتبہ کے مدیر شیخ محمد بن موسیٰ الموسی کی ”جوانب من سیرۃ الإمام عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے 1420ھ کے آغاز میں وفات پائی، اس وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ ان کی موت سے دنیا میں کہرام برپا ہو گیا، عام طور پر مسلم گھرانوں میں ان کی رحلت کی خبر سن کر غم و اندوہ کے بادل چھا گئے۔ بڑی تعداد میں امراء، وزراء، علماء، قضاۃ، طلباء، دانشور اور عوام الناس ان کے جنازہ کی نماز ادا کرنے کے لئے جمع ہوئے، مسجد حرام میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، دس لاکھ سے زائد افراد ان کے جنازہ میں شریک ہوئے، ایک طویل عرصہ تک اخبارات میں آپ کی وفات سے متعلق خبریں چھائی رہیں، آپ کی وفات پر بڑی تعداد میں شعر و نثری مرثیے بھی کہے گئے۔
[134]؎ سورۃ غافر/14
[135]؎ سورۃ الجن/18
[136]؎ سورۃ یونس/106
[137]؎ سورۃ یونس/106
[138]؎ سورۃ البقرۃ/254
[139]؎ سورۃ لقمان/13
[140]؎ سورۃ الحج/62
[141]؎ سورۃ الزمر/65
[142]؎ سورۃ الأنعام/88
[143]؎ سورۃ الفرقان/23
[144]؎ صحیح بخاری (2697) صحیح مسلم (1718) روایت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔
[145]؎ سورۃ غافر/60
[146]؎ سورۃ البقرۃ/186
[147]؎ اس حدیث کی تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔
[148]؎ صحیح بخاری (4497) روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[149]؎ صحیح بخاری (4761) صحیح مسلم (86) حدیث کے الفاظ صحیح مسلم کے ہیں، روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[150]؎ سورۃ القصص/15
[151]؎ سورۃ القصص/21
[152]؎ سورۃ الجن/20-21
[153]؎ سورۃ الأعراف/188
[154]؎ صحیح بخاری (2915) صحیح مسلم (1763) روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے۔
[155]؎ سورۃ الأنفال/9-10
[156]؎ سورۃ آل عمران/126
[157]؎ سورۃ آل عمران/123
[158]؎ مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ (2/108) ناشر: دار القاسم، ریاض
[159]؎ الدرر السنیۃ (1/21)
[160]؎ اس سے پہلے جو تفصیل گزری ہے وہ بندہ اور رب کے درمیان واسطہ کے باطل ہونے کی دوسری وجہ سے متعلق تھی۔ اس دوسری وجہ کو بیان کرتے ہوئے بات طویل ہوگئی۔ یہاں سے بندہ اور رب کے درمیان دعا میں واسطہ بنانے کے باطل ہونے کی تیسری وجہ پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
[161]؎ سورۃ یونس/18
[162]؎ ان کا نام عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر، بُصروی الأصل، دمشقی شافعی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں ان کی ولادت ہوئی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے علم حاصل کرنے کی سعادت پائی، فقہ، تفسیر، نحو اور تاریخ میں مہارت حاصل کی۔ ان کی متعدد مفید کتابیں ہیں، ان میں ”تفسیر القرآن العظیم“ اور تاریخ میں ”البدایۃ والنھایۃ“ بہت مشہور ومعروف ہیں۔ 774ھ میں انہوں نے وفات پائی۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: ابن حجر کی ”الدرر الکامنۃ“ ابن العماد کی ”شذرات الذھب“ اور شوکانی کی ”البدر الطالع“ رحمہم اللہ۔
[163]؎ مسند احمد (5/153، 162) مسند الطیالسی (481) مسند احمد کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
[164]؎ دیکھئے اس کتاب کے شروع میں فصل: صرف اللہ سے دعا مانگنے کا حکم اور غیراللہ سے دعا کرنے کی ممانعت
[165]؎ صحیح بخاری (2652) صحیح مسلم (2533) روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[166]؎ مزید وضاحت کے لئے دیکھئے: شیخ مرعی بن یوسف کرمی رحمہ اللہ کی کتاب ”شفاء الصدور فی زیارۃ المشاھد و القبور“ (ص 117-118) ناشر: مکتبہ نزار مصطفی الباز، مکہ۔ نیز دیکھئے: شیخ عبدالرحمٰن بن قاسم رحمہ اللہ کی کتاب ”السیف المسلول علی عابد الرسول“ ص (32)
[167]؎ صحیح مسلم (2577)
[168]؎ صحیح بخاری (6339) صحیح مسلم (2679) الفاظ صحیح مسلم کے ہیں
[169]؎ صحیح مسلم (2753) الفاظ صحیح مسلم کے ہیں، مسند احمد (5/439) امام بخاری (6469) نے اس کے مثل روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
[170]؎ السیف المسلول علی عابد الرسول، ص 31-32 معمولی تصرف کے ساتھ۔
[171]؎ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے اللہ تعالیٰ کی سننے کی صفت میں شک کا اظہار کیا تھا جیسا کہ صحیح بخاری (4539) میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ بیت اللہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی جمع تھے یا دو ثقفی اور ایک قریشی جمع تھے، ان کے پیٹوں پر بہت زیادہ چربی چڑھی ہوئی تھی لیکن دل کے اندر تفقہ بہت کم تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: جب ہم بلند آواز سے بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سنتا ہے لیکن جب ہم آہستہ بولتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نہیں سنتا ہے۔ تیسرے نے کہا: اگر اللہ ہماری بلند آواز کی گفتگو کو سنتا ہے تو وہ ہماری پست آواز کی بات کو بھی سنتا ہے۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ”و ما کنتم تستترون أن یشھد علیکم سمعکم و لا أبصارکم و لا جلودکم“ (اور تم (اپنی بداعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہیں تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور= =تمہاری کھالیں گواہی دیں گی) میں کہتا ہوں: ابن قیم رحمہ اللہ نے جس آیت سے اوپر استشہاد کیا ہے اس کا بقیہ حصہ یہ ہے: ”و لکن ظننتم أن اللہ لا یعلم کثیراً مما تعلمون و ذٰلکم ظنکم الذي ظننتم بربکم أرداکم فأصبحتم من الخاسرین“ (ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بےخبر ہے، تمہاری اس بدگمانی نے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی تمہیں ہلاک کر دیا، اور بالآخر تم زیاں کاروں میں ہوگئے)
[172]؎ الداء و الدواء، ص 211-217، اختصار کے ساتھ
[173]؎ سورۃ فاطر:2
[174]؎ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دوسری قسم خصوصی رحمت مومنوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس خصوصی رحمت کا سب سے عظیم الشان مظاہرہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں مومنوں کو جنت میں داخل کرے گا۔ دنیا میں اس خصوصی رحمت کی وجہ سے اس نے مومنوں کو ایمان پر شرح صدر عطا کیا ہے، انہیں ہدایت سے نوازا ہے اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد و حمایت کی ہے وغیرہ۔
[175]؎ مسند احمد (3/153) شیخ البانی نے اسے صحیح الجامع (119) اور الصحیحۃ (767) میں حسن قرار دیا ہے۔
[176]؎ مسند احمد (2/367) شیخ البانی نے اسے الصحیحۃ (767) میں حسن قرار دیا ہے۔
[177]؎ سنن ترمذی (2499)، سنن ابن ماجہ (4251) وغیرہ؛ شیخ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
[178]؎ صحیح بخاری (7405)، صحیح مسلم (2675)
[179]؎ صحیح مسلم (2746)
[180]؎ سورۃ الأنعام:94
[181]؎ سورۃ الروم:13
[182]؎ صحیح مسلم (1631) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[183]؎ صحیح مسلم (384) روایت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی ہے۔
[184]؎ صحیح بخاری (831)، صحیح مسلم (402) روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[185]؎ سنن ابی داود (3201) سنن ابن ماجہ (1498) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے: نیز مسند احمد (2/368) اور سنن ترمذی (1024) کی روایتوں میں ”اللھم لا تحرمنا أجرہ“ کے الفاظ کے بغیر یہ دعا منقول ہے۔
[186]؎ سنن ابی داود (3221) روایت عثمان رضی اللہ عنہ کی ہے، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[187]؎ إغاثۃ اللھفان (2/167) تحقیق: شیخ محمد حامد فقی
[188]؎ ابن كثير رحمہ اللہ کی کتاب: تلخیص کتاب الاستغاثۃ فی الرد علی البكري (1/167)
[189]؎ سورۃ الحج:62
[190]؎ سورۃ لقمان:30
[191]؎ صحیح بخاری (2753) صحیح مسلم (204) الفاظ صحیح مسلم کے ہیں
[192]؎ الفاظ صحیح مسلم (206) کے ہیں
[193]؎ مجموع الفتاوی (14/406)
[194]؎ یہ تیسری وجہ بہت اہم اور زیر بحث مسئلہ کی بنیاد کو واضح کرنے والی ہے۔
[195]؎ یہ شفاعت جس کی نفی کر دی گئی ہے، کے تعلق سے مزید وضاحت آگے آ رہی ہے
[196]؎ سورۃ البقرہ/255
[197]؎ سورۃ یونس/3
[198]؎ سورۃ طہ/109
[199]؎ سورۃ سبا/23
[200]؎ سورۃ النجم/26
[201]؎ دیکھئے: المعجم المفھرس لألفاظ القرآن الکریم، مادۃ شفع
[202]؎ سورۃ البقرۃ کی آیت الکرسی کی تفسیر
[203]؎ شفاعت کے لئے اللہ کی اجازت کی شرط کی دلیل ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے، خاص طور پر اس حدیث کا یہ حصہ: پھر اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا، چنانچہ ایک کے بعد ایک جماعت جہنم سے نکالی جائے گی۔ یہ روایت مسند احمد (3/25) کی ہے۔ مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (17/296)
[204]؎ دیکھئے: الاستغاثۃ فی الرد علی البکري، ص 354-355
[205]؎ سورۃ الأنبیاء/28
[206]؎ سورۃ طہ/109
[207]؎ صحیح بخاری (99) مسند احمد (2/373) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[208]؎ اس کی تخریج گزر چکی ہے
[209]؎ مسند احمد (5/162) مسند الطیالسی (474) مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے
[210]؎ صحیح بخاری (3350)
[211]؎ صحیح مسلم (976) سنن ابی داؤد (3234) سنن نسائی (2033) سنن ابن ماجہ (1572) مسند احمد (2/441)
[212]؎ اس کی تخریج گزر چکی ہے۔
[213]؎ مدارج السالکین (1/596-598) اختصار کے ساتھ
[214]؎ مجموع الفتاوی (14/414-415)
[215]؎ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لئے دیکھئے علامہ شنقیطی رحمہ اللہ کی کتاب أضواء البیان تفسیر سورۃ البقرۃ، آیت 48، سورۃ مریم، آیت 87 میں ان کا کلام۔ نیز مزید فائدہ کے لئے دیکھئے ان کی کتاب دفع إیھام الاضطراب عن آیات الکتاب، سورۃ یونس/18
[216]؎ صحیح مسلم (384) روایت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی ہے۔
[217]؎ اس سے حرہ کے حادثہ کے ایام مراد ہیں، یہ حادثہ یزید بن معاویہ کے عہد حکومت میں پیش آیا تھا۔
[218]؎ صحیح مسلم (1374) مسند احمد (3/58) روایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[219]؎ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے اپنی کتاب ”کشف العظاء عن عینی من جعل بینہ و بین اللہ واسطۃ فی الدعاء“ کے اسی باب میں چاروں مسالک کے علماء کے کلام کو جمع کر دیا ہے۔ یہ کتاب المعلومات ویب سائٹ پر اسی نام سے موجود ہے نیز دار الفرقان الجزائر سے شائع ہو کر منظر عام پر بھی آ چکی ہے۔
[220]؎ اس کی تخریج گزر چکی ہے
[221]؎ مسند احمد (4/415) مسند احمد (32/394) کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے
[222]؎ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم (2635) نے ابو حسان سے روایت کی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے دو بیٹے فوت ہو چکے ہیں، آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی حدیث مجھ سے بیان کرنے والے ہیں جسے سن کر ہمارے دل ہمارے مردے کے تعلق سے خوشی محسوس کریں؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، مومنوں کے چھوٹے بچے جنت میں ہر جگہ گھومنے پھرنے والے ہوں گے، ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی، ان بچوں میں سے کسی کی جب اس کے باپ سے ملاقات ہوگی یا کہا کہ ان کے ماں باپ سے ملاقات ہوگی تو وہ بچے اپنے والدین کا کپڑا پکڑ لیں گے یا کہا کہ ان کا ہاتھ تھام لیں گے جیسے کہ میں نے تمہارے کپڑے کا کنارا پکڑ لیا، وہ کہیں رکیں گے نہیں بلکہ سیدھے اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جائیں گے یہاں تک اللہ اس بچہ اور اس کے والد کو جنت میں داخل کر دے گا۔
[223]؎ اس کی دلیل امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ قرآن پڑھو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، تم لوگ الزھراوین یعنی سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران کی تلاوت کرو، یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے جیسے دونوں بادل کے ٹکڑے ہو یا دو سایے ہوں یا پروں کو پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو جھنڈ ہوں، یہ دونوں اپنے قاری کے حق میں حجت پیش کریں گے۔۔۔۔ آگے حدیث کا بقیہ حصہ ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (804) قیامت کے دن قرآن مجید کے شفاعت کرنے کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اگلے حاشیہ میں آ رہی ہے۔
[224]؎ اس کی دلیل عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندہ کے حق میں سفارش کریں گے۔۔۔ الحدیث اس روایت کو امام احمد نے المسند (2/174) میں نقل کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح الجامع (3882) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[225]؎ اس کی تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔
[226]؎ سورۃ مریم:81-82
[227]؎ سورۃ الفرقان:17-19
[228]؎ سورۃ یٰس:74-75
[229]؎ یعنی دنیا میں، یہ غیراللہ کی پرستش کرنے والے اپنے معبودوں کی دنیا میں مدافعت کرتے ہیں اور ان کی خاطر غصہ ہوتے ہیں، چاہے وہ بتوں کے لئے ایسا کریں یا قبروں کے لئے یا اِن کے علاوہ کے لئے۔
[230]؎ سورۃ ھود:101
[231]؎ سورۃ الشعراء:213
[232]؎ سورۃ الإسراء:22
[233]؎ إغاثۃ اللھفان، ص 93 معمولی اختصار کے ساتھ
[234]؎ ”ھذہ مفاھیمنا“ ص 149
[235]؎ سورۃ الحج:62
[236]؎ سورۃ لقمان:30
[237]؎ سورۃ النساء:123
[238]؎ صحیح مسلم (489)
[239]؎ اللہ تعالیٰ نے مجھے ”خمسون دلیلا علی بطلان دعاء غیر اللہ“ کے نام سے غیراللہ سے دعا مانگنے کے باطل ہونے کی پچاس وجوہات کو ایک مستقل کتاب کی شکل میں جمع کرنے کی توفیق عنایت کی، یہ کتاب المعلومات نامی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، اللہ تعالیٰ اِس کی طباعت کے مرحلہ کو آسان فرمائے۔
[240]؎ ان کی مختصر سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[241]؎ اس عذاب کی ایک قسم طوفان ہے جب مشرکین کا سمندر میں طوفان سے سامنا ہوتا تھا تو وہ اللہ سے فریاد کیا کرتے تھے۔
[242]؎ یہ بات شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن نے اپنی کتاب ”منھاج التأسیس و التقدیس فی کشف شبھات داود بن جرجیس“ ص 212 میں کہی ہے۔ معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ
[243]؎ مسند احمد (1/96) روایت علی رضی اللہ عنہ کی ہے۔ شیخ البانی نے الإرواء (2/175) میں اِسے صحیح قرار دیا ہے۔ مسند امام احمد کے محققین نے بھی اِسے صحیح کہا ہے۔
[244]؎ مسند امام احمد (4/290) شیخ البانی نے اِسے الصحیحۃ (6/584) میں صحیح قرار دیا ہے۔ المسند کے محققین نے بھی اِسے صحیح کہا ہے۔
[245]؎ ”الھمزیۃ“ بوصیری کا ایک دوسرا قصیدہ ہے۔ اس قصیدہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حد درجہ غلو کیا گیا ہے اور آپ کو مقام الوہیت تک پہنچا دیا گیا ہے۔
[246]؎ الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید، ص 90-92 معمولی اختصار کے ساتھ، تحقیق: ابو عبداللہ حلبی، ناشر: دار ابن خزیمہ، ریاض
[247]؎ شیخ، اصولی، فقیہ، مفسر محمد بن صالح عثیمین پندرہویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں، عقیدہ، فقہ اور تفسیر میں نمایاں مقام حاصل کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے زمانہ میں لوگوں کو ان کی ذات سے بہت فائدہ پہنچایا، ان کا علم و فضل دور دراز کے علاقے تک پہنچا، ان کے ریکارڈ شدہ کیسٹوں اور ان کی علمی کتابوں سے لوگ خوب مستفید ہوئے، بہت سے طلبہ نے ان سے دینی علوم کی تحصیل کی، ان کے رسائل و فتاوی کی اب تک 29 جلدیں جمع کی جا چکی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے علم کی اشاعت کے لئے ایک نشریاتی چینل کو اجرت پر حاصل کیا گیا، اس کے ذریعہ ان کی زندگی سے بھی کئی گنا زیادہ ان کے علم کی اشاعت ہوئی، یہ سب ان کے اخلاص و للہیت کی دلیل ہے، ہم تو انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں، لیکن اصل حساب و کتاب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے فضل خاص سے نوازتا ہے۔ شیخ ابن عثیمین کی مفصل سوانح کے لئے دیکھئے: ڈاکٹر ناصر بن مسفر زھرانی کی کتاب ”ابن عثیمین الإمام الزاھد“ ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
[248]؎ القول المفید علی کتاب التوحید (1/218) ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
[249]؎ وہ شیخ، فقیہ، اللہ کے دین کی طرف سے دفاع کرنے والے، عقیدہ و فقہ کے بڑے عالم اور علوم شریعت میں بلند مقام کے حامل ہیں۔ انہوں نے بارہا اسلامی عقیدہ کا دفاع کرتے ہوئے اہل بدعات کا رد کیا ہے۔ اہل بدعات کے رد میں لکھی گئی ان کی تحریروں کو تین جلدوں میں جمع کیا گیا ہے۔ مختلف فنون میں ان کی متعدد تالیفات ہیں۔ اپنے وقت کے جلیل القدر علمائے اسلام عبد العزیز بن باز اور محمد بن عثیمین نے اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کو شیخ صالح فوزان کی طرف رجوع کرنے کی وصیت کی تھی، اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کے نفع کی خاطر ان کی حفاظت فرمائے۔
[250]؎ إعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید (2/312) ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت
[251]؎ شیخ علامہ محدث محمد ناصرالدین بن نوح نجاتی، اصل کے اعتبار سے البانی، نشو و نما کے اعتبار سے شامی ان مجددین میں سے تھے جنہوں نے چودہویں صدی ہجری کے اواخر اور پندرہویں صدی ہجری کے اوائل میں اللہ کے دین کی تجدید کی۔ انہوں نے حدیث، عقیدہ اور فقہ میں مسلمانوں کے علمی سرمائے کی گرانقدر خدمت انجام دی۔ مخطوطات کی تحقیق، احادیث کی تخریج اور صحیح و ضعیف احادیث کو الگ الگ کرنے کے میدان میں ان کی خدمات بے مثال اور عظیم الشان ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعد آنے والے بہت سے اہل علم ان کی تحقیق و تخریج پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ پوری زندگی یکسو ہو کر احادیث نبویہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے انہوں نے سنت نبویہ کی خدمت کے معاملہ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوا لیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اپنے پیچھے گرانقدر علمی سرمائے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے، کسی باحث نے ان کی کتابوں کی تعداد 231 تک پہنچائی ہے جو تالیف، تحقیق، تخریج اور تعلیق کی شکل میں موجود ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے اہل بدعات، متصوفین، قبوریوں، نئے ایجاد کردہ دعوتی مناہج کے متبعین اور کتاب و سنت سے منحرف رجحانات رکھنے والوں کی تردید کی بھی مبارک خدمت انجام دی اور شام وغیرہ میں ان کے شکوک و شبہات کا پردہ چاک کرکے انہیں مسکت جواب دیا۔ شیخ رحمہ اللہ نے رجب 1420ھ میں 87 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی وفات ان کے ہم عصر اور سعودی عرب کے سابق مفتی عام سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی وفات کے چند ہی مہینے بعد ہوئی۔ ان دونوں علمائے اسلام کی وفات سے اسلام اور مسلمانوں کا بھاری خسارہ ہوا۔ اس سانحہ کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید رنج و غم لاحق ہوا۔ شیخ البانی کے حالات زندگی اور علمی شخصیت کے بارے میں مزید معلومات کے لئے دیکھئے:
(1) ”الامام الألباني رحمہ اللہ، دروس و مواقف و عبر“ تالیف: ڈاکٹر عبدالعزیز بن محمد سدحان، ناشر: دارالتوحید، ریاض۔
(2) ”حیاۃ الألباني و آثارہ و ثناء العلماء علیہ“ تالیف: محمد بن ابراہیم شیبانی، ناشر: مکتبہ السداوی، مصر۔
[252]؎ شیخ البانی کی ”جلباب المرأۃ المسلمۃ“ ص 201، طباعت اول، ناشر: المکتبہ الإسلامیہ، عمان۔ مزید فائدہ کے لئے دیکھئے شیخ البانی کی کتاب ”صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ (اصل) (3/882)
[253]؎ شیخ محمد بن عبدالوہاب مجددین امت میں سے ہیں، بارہویں صدی ہجری میں جزیرہ نمائے عرب کے علاقہ میں دین اسلام کے نقوش مٹ چکے تھے، شیخ نے ان نقوش دین کو از سرنو زندہ و تابندہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ دین کو دوبارہ زندہ کر دیا، آج تک اللہ کا دین اسی شکل میں ہمارے پاس باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ اور ان کی تالیفات کے ذریعہ امت کو بہت فائدہ پہنچایا۔ صحیح عقیدہ کے تعلق سے ان کا کلام ان کی کتابوں میں جا بجا بکھرا ہوا ہے۔ عقیدہ کے باب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے کلام کو ڈاکٹر صالح العبود نے ”عقیدۃ محمد بن عبدالوہاب السلفیۃ“ کے نام سے ایک علمی کتاب کی شکل دی ہے۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی ولادت 1115 ھ میں ہوئی تھی، انہوں نے 1206 ھ میں وفات پائی۔ جزیرۃ العرب سے تعلق رکھنے والے ان کے بعد کے علماء آج تک علم و عقیدہ کے میدان میں ان کی خوشہ چینی کر رہے ہیں۔
[254]؎ شیخ سلیمان کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[255]؎ دیکھئے: باب: من الشرک أن یستغیث بغیر اللہ أویدعو غیرھم
[256]؎ شیخ عبدالرحمٰن بن حسن بن شیخ محمد بن عبدالوہاب (رحمہم اللہ تعالیٰ) کی ولادت درعیہ میں 1196 ھ میں ہوئی، اپنے دادا شیخ محمد بن عبدالوہاب کے گھر میں پرورش پائی، ان سے اور اپنے چچاؤں سے عقیدہ، حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا، حدیث کا علم مصر جا کر وہاں کے کچھ مشائخ سے بھی حاصل کیا مثلاً شیخ حسن قویسینی، شیخ عبدالرحمٰن جبرتی، شیخ عبداللہ باسودان وغیرہ سے انہوں نے مصر میں حدیث کا علم حاصل کیا۔ انہوں نے الجزائر کے مفتی شیخ محمد بن محمود جزائری حنفی اثری سے بھی علم حدیث کی تحصیل کی۔ ان مشائخ نے انہیں اپنی تمام مرویات کی اجازت بھی دی۔
شیخ عبدالرحمٰن نے مصر میں کچھ دوسرے مشائخ سے نحو اور قرآن مجید کی قراءتوں کا بھی علم حاصل کیا۔ شیخ عبدالرحمٰن کے سامنے طلبہ کے ایک جم غفیر نے زانوئے تلمذ تہہ کیا جن میں سب سے نمایاں نام ان کے صاحبزادہ شیخ عبداللطیف کا ہے۔ شیخ عبدالرحمٰن کی متعدد تصانیف ہیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور ان کی کتاب ”فتح المجید“ ہے، یہ کتاب ان کے چچازاد بھائی شیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب کی کتاب ”تیسیر العزیز الحمید بشرح کتاب التوحید“ کی تلخیص و تہذیب ہے۔ ان کی ایک دوسری معروف کتاب ”قرۃ عیون الموحدین فی تحقیق دعوۃ الأنبیاء والمرسلین“ ہے۔ یہ کتاب التوحید پر حاشیہ ہے۔ شیخ عبدالرحمٰن کے متعدد رسائل بھی ہیں، ان کے رسائل ”الدرر السنیۃ من الأجویۃ النجدیۃ“ اور ”مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیہ“ میں شامل ہیں۔ انہوں نے اسلام کی نصرت و حمایت، لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دینے اور نجد سے بدعات و شرکیات کا خاتمہ کرنے کے راہ میں سخت آزمائشوں کا سامنا کرنے کے بعد 1285 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی مفصل سوانح کے لئے دیکھئے: اشرف بن عبد المقصود کی تحقیق کے ساتھ شائع شدہ ”فتح المجید“ کا مقدمہ اور ان کے پوتے شیخ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن حسن کی تحریر کردہ سوانح۔
[257]؎ دیکھئے: باب ما جاء أن سبب کفر بني آدم و ترك دینہم ھو الغلو فی الصالحین
[258]؎ ان کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[259]؎ یہ کتاب علی بن محمد عجلان کے رسالہ ”الشیخ العلامہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن أبابطین، حیاتہ و آثارہ و جھودہ فی نشر عقیدہ السلف، مع تحقیق رسالتہ: الرد علی البردۃ“ میں شامل ہے۔ ناشر: دار الصمیعی، ریاض
[260]؎ ابوالمعالی محمود شکری بن سید عبداللہ الوسی بغدادی کی صاف و شفاف عقیدۂ توحید کے موضوع پر متعدد تالیفات ہیں۔ ان میں سے ”غایۃ الأمانی فی الرد علی النبھانی“، ”فصل الخطاب فی شرح مسائل الجاھلیۃ وللإمام محمد بن عبدالوہاب“، ”صب العذاب علی من سب الأصحاب“ اور ”کنز السعادۃ فی شرح کلمتي الشھادۃ“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ معروف تفسیر ”روح المعاني فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثاني“ کے مؤلف ابو الثناء محمود الوسی (وفات 1270 ھ) کے پوتے ہیں۔ ابو المعالی رحمہ اللہ نے 1342 ھ میں وفات پائی۔
[261]؎ (2/423) یہ کتاب مکتبۃ الرشد، ریاض سے شائع ہوئی ہے، تحقیق: الدانی بن منیز آل زھوی
[262]؎ شیخ عبدالرحمٰن بن محمد بن قاسم کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[263]؎ شیخ عبدالعزیز کے مقالات ”حقوق النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین الإجلال و الإخلال“ کے آخری حصہ میں شامل کئے ہیں۔
[264]؎ اس موضوع پر مزید معلومات کے لئے شیخ سلیمان بن عبدالعزیز کے تحقیقی مقالہ ”مظاھر الغلو فی قصائد المدیح النبوي“ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مقالہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہے گئے مدحیہ قصائد کے انحرافات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ بھی ”حقوق النبي صلی اللہ علیہ وسلم بین الإجلال و الإخلال“ کے آخر میں شامل کیا گیا ہے۔
[265]؎ ابن تیمیہ کی ”الرد علی البکری“ (1/309) پر استاذ عبداللہ سہلی کے حاشیہ سے منقول۔ ناشر: مدار الوطن، ریاض
[266]؎ یہ بات شیخ صالح الفوزان نے ”إعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید“ (1/202) میں کہی ہے۔
[267]؎ صحیح بخاری (3445) الفاظ صحیح بخاری کے ہیں، مسند احمد (1/23) دارمی (2787)
[268]؎ اعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید (2/312) حذف و اضافہ کے ساتھ
[269]؎ مولدون، مولد کی جمع ہے، ہر نئی چیز کو مولد کہا جاتا ہے۔ دو طرح کے لوگوں پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے، ایک غیر خالص عرب دوسرا وہ شخص جس کی پیدائش عربوں کے بیچ ہوئی ہو اور ان کے بچوں کے ساتھ پرورش پایا ہو۔ دیکھئے: المعجم الوسیط۔ اُن غیر عرب شعراء کو ”المولدون“ کہا جاتا ہے جن میں سے بعض کے اشعار میں ان کے مخصوص ماحول کی وجہ سے عقیدہ کا انحراف پایا جاتا ہے۔
[270]؎ السیف المسلول علی عابد الرسول، ص 166-167
[271]؎ عبدالرحیم بن احمد برعی یمنی ایک صوفی شاعر تھا، اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دینے والوں میں اس کا بھی شمار ہوتا ہے، اس نے 803 ھ میں وفات پائی۔ دیکھئے: زرکلی کی الأعلام (3/343)
[272]؎ علماء کے فتاوی پر مشتمل اس کتاب کا نام ”رسائل فی حکم الاحتفال بالمولد النبوی“ ہے۔ دار العاصمہ، ریاض سے شائع ہوئی ہے۔
[273]؎ سورۃ المائدۃ:35
[274]؎ تفسیر ابن کثیر، معمولی اختصار کے ساتھ
[275]؎ أضواء البیان، تفسیر سورۃ المائدۃ، آیت:35، اختصار کے ساتھ
[276]؎ الدرر السنیۃ (1/70، 2/41)
[277]؎ ان کا پورا نام و نسب محمد بن اسماعیل کحلانی صنعانی ہے جو امیر سے معروف ہیں۔ ان کا نسب امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ وہ اپنے دور کے امام کبیر، مجتہد مطلق اور صاحب تصانیف عالم دین تھے، ان کی پیدائش 1099ھ میں ہوئی۔ انہوں نے تمام علوم میں مہارت حاصل کی اور اپنے ہم عصروں سے فائق ہو گئے۔ صنعاء میں علم کے میدان میں تنہا سیادت و قیادت کی۔ ان کی کئی قابل قدر تصنیفات ہیں مثلاً ”تطھیر الاعتقاد من أدران الشرک و الالحاد“، ”الإنصاف فی حقیقۃ الأولیاء و ما لھم من الکرامات و الألطاف“، ”مسألۃ فی الذبائح علی القبور وغیرھا“ اور ”سبل السلام“ جسے انہوں نے مغربی کی ”البدر التمام“ سے اختصار کیا ہے اور ”العدۃ“ جو ابن دقیق العید کی ”شرح العمدۃ“ کا حاشیہ ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ وہ دین کے آثار و نقوش کی تجدید کرنے والے ائمہ کرام میں سے تھے۔ ان کی= =وفات 1182ھ میں ہوئی۔ امام صنعانی کا یہ سوانحی تعارف امام محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب ”البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع“ سے کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ منقول ہے۔
[278]؎ تطھیر الاعتقاد من أدران الإلحاد، ص 24-25، تعلیق: شیخ اسماعیل انصاری، مکتبۃ الفیحاء، دمشق
[279]؎ شرح الصدور فی تحریم رفع القبور، ص 34، تحقیق: محمد صبحی بن حلاق، ناشر: دار الھجرۃ، یمن
[280]؎ الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید، ص 70، ناشر: دار ابن خزیمہ، ریاض
[281]؎ تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس، ص 94
[282]؎ سورۃ البقرۃ/165
[283]؎ اس مسئلہ کی وضاحت میں اہل سنت سے اسی نوع کی باتیں منقول ہیں۔ دیکھئے: شیخ محمد امین بن محمد مختار شنقیطی رحمہ اللہ کی کتاب ”أضواء البیان“ میں سورۃ النساء کی اس آیت کی تفسیر ”وإن یدعون إلا شیطانا مریدا“
[284]؎ مجھے اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کے کچھ شرعی اسباب کو جمع کرنے کی توفیق دی۔ میں نے انہیں اپنی کتاب ”التبصرۃ فی بیان أن تحری إجابۃ دعاء اللہ تعالیٰ عند القبور بدعۃ منکرۃ“ میں جمع کر دیا ہے۔ یہ کتاب میرے ذاتی صفحہ www.saaid.net/kutob پر موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طباعت کے مرحلہ کو آسان فرمائے۔
[285]؎ اللہ تعالیٰ نے مجھے کلمۂ توحید کی شرطوں کی تشریح کرنے کی توفیق دی، یہ کتاب دار الفرقان، الجزائر سے شائع ہو چکی ہے، یہ انٹرنیٹ پر میرے ذاتی پیج www.saaid.net/kutob پر موجود ہے۔
[286]؎ صحیح مسلم (23) روایت ابومالک کی ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ابومالک کا نام سعد بن طارق اشجعی ہے اور ان کے والد کا نام طارق بن اشیم اشجعی ہے، یہ صحابی رسول ہیں۔
[287]؎ کتاب التوحید، باب تفسیر التوحید و شھادۃ أن ”لا إلہ إلّا اللہ“
[288]؎ صحیح بخاری (50) صحیح مسلم (9) سنن نسائی (5007) سنن ابن ماجہ (64)
[289]؎ صحیح بخاری (1396) سنن نسائی (467) الفاظ سنن نسائی کے ہیں۔
[290]؎ روزہ رکھنے کے الفاظ سنن نسائی میں موجود نہیں ہیں، لیکن اس حدیث کے دوسرے رواۃ نے اسے نقل کیا ہے۔ دیکھئے: صحیح الجامع (6185)
[291]؎ سنن نسائی (4020) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[292]؎ سنن ترمذی (2616) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
[293]؎ شیخ سلیمان بن سحمان بن مصلح کا تعلق قبیلۂ خثعم کے آل عامر سے تھا۔ ان کی ولادت ابہا کی بستی السُقا میں ہوئی۔ شیخ عبدالرحمٰن بن حسن بن محمد بن عبدالوہاب سے علم حاصل کیا، نیز ان کے بیٹے عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔ دس سال تک اِن دونوں کی صحبت میں رہے۔ انہوں نے شیخ حمد بن عتیق سے سترہ سال تک کسب فیض کیا، اِسی طرح شیخ حمد بن فارس کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ انہوں نے بہت ساری کتابیں تالیف کیں جس کی تعداد تقریبا چالیس تک پہنچتی ہیں، ان کے بہت سے اشعار بھی ہیں، وہ ایک کہنہ مشق ادیب اور باکمال شاعر تھے۔ اہل سنت کے عقائد کے دفاع کے لئے اپنی صلاحیت کو وقف کر دیا تھا۔ اسلام کے دفاع میں کہے گئے اشعار پر مشتمل ان کے دو دواوین ہیں۔ انہوں نے پچاس گمراہ لوگوں کا اپنے اشعار میں رد کیا ہے۔ وہ واقعتاً اپنے دور کے ”حسّان السنۃ“ تھے۔ شیخ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ نے 1349ھ میں وفات پائی، وفات کے وقت ان کی عمر 80 سال تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جب ان کی روح پرواز ہوئی تو لوگوں نے ان کے جسم سے مشک کی نفیس خوشبو پھوٹتی ہوئی محسوس کی۔ یہ ایک انوکھی بات تھی جس سے لوگوں کو کبھی سابقہ پیش نہیں آیا تھا۔ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: شیخ ابراہیم بن عبید آل عبدالمحسن رحمہ اللہ کی کتاب ”تذکرة أولي النھی و العرفان بأیام اللہ الواحد الدیان“ (1349ھ کے حالات کے تحت) نیز محمد بن حمد بن عقیل کی کتاب ”ابن سحمان، تاریخ حیاتہ و علمہ و تحقیق شعرہ“، ناشر: مکتبۃ الرشد، ریاض
[294]؎ الصواعق المرسلۃ الشھابیۃ علی الشبہ الداحضۃ الشامیۃ، ص 313-314، معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ، ناشر: دار العاصمۃ، ریاض
[295]؎ شیخ اسحاق بن عبدالرحمٰن بن حسن بن محمد بن عبدالوہاب سرزمین نجد سے اٹھنے والی توحید خالص کی دعوت کے سرخیل میں سے ہیں۔ انہوں نے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر اور چودہویں صدی ہجری کے اوائل کا زمانہ پایا۔ ان کی ایک کتاب کا نام ”الجوابات السمعیۃ علی الأسئلۃ الروافیۃ“ ہے۔ ان کی سوانح سے متعلق کچھ ضروری باتیں شیخ عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن عبداللہ آل شیخ کی کتاب ”مشاھیر علماء نجد و غیرھم“ میں درج ہیں۔ شیخ اسحاق کی وفات 1319ھ میں ہوئی، رحمہ اللہ تعالیٰ
[296]؎ الدرر السنیۃ من الأجوبۃ النجدیۃ (1/523-524)
[297]؎ عبداللہ بن سبا یہودی کا ہم خیال ہونے کی وجہ سے اِن لوگوں کی اُس کی طرف نسبت کی گئی اور یہ نام دیا گیا۔
[298]؎ سنن ترمذی (2140) مسند احمد (3/112) صحیح الجامع (7864)
[299]؎ الدر النضید فی إخلاص کلمۃ التوحید، ص 70
[300]؎ تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان، سورۃ النجم کی تفسیر
[301]؎ ”نخلۃ“ مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
[302]؎ دیکھئے: تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ النجم، آیت:19
[303]؎ دیکھئے: سیرت ابن ہشام (عزی کے انہدام کے لئے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی روانگی) اور الطبقات الکبری (خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت عزی کے انہدام کے لئے سریہ)
[304]؎ الطبقات الکبری، (مناۃ کے انہدام کے لئے سعد بن زید اشہلی رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت سریہ)
[305]؎ عبداللہ بن عمر بن علی کی کنیت ابوالخیر، لقب ناصرالدین اور عرفیت بیضاوی ہے۔ وہ امام، علامہ، فقہ و تفسیر، قرآن و حدیث اور عربی زبان کے بڑے عالم تھے، وہ بہت گہری فکر و نظر کے حامل، نیک، عبادت گزار، صاحب زہد و تقوی اور مسلکاً شافعی تھے۔ دیکھئے: داوودی کی طبقات المفسرین، ص 173، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔
[306]؎ دیکھئے: تفسیر البیضاوی، تفسیر سورۃ النجم، آیت:19
[307]؎ سورۃ الإسراء:56-57
[308]؎ یعنی فرشتوں کی کچھ ڈیوٹیاں مقرر ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، قرآن مجید میں یہ صراحت موجود ہے کہ فرشتے وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے انہیں واسطے قرار دیا گیا ہے۔
[309]؎ مجموع الفتاوی (15/226)
[310]؎ شیخ عبداللہ ابابطین کی سوانح آغاز کتاب میں گزر چکی ہے۔
[311]؎ تأسیس التقدیس فی کشف تلبیس داود بن جرجیس، ص 127-128
[312]؎ شیخ عبدالرحمٰن کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے۔
[313]؎ کشف ما ألقاہ إبلیس من البھرج والتلبیس علی قلب داود بن جرجیس، ص 24، بحوالہ ”ھذہ مفاھیمنا“ ص 47، مؤلفہ: شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ
[314]؎ سورۃ الحج/62
[315]؎ صحیح بخاری (4497)
[316]؎ صحیح بخاری (2697) صحیح مسلم (1718) روایت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔
[317]؎ صحیح مسلم (1718)
[318]؎ تحفۃ الذاکرین، ص 140
[319]؎ اِس سے مراد اِس حدیث کی تصحیح ہے: ”جب تم سے کسی کی سواری کا جانور بیابان و غیرآباد جگہ میں ہاتھ سے نکل جائے تو اُسے اِس طرح آواز لگانی چاہیے؛ اے اللہ کے بندو! میرے لئے اِس سواری کو روک لو، اے اللہ کے بندو! میرے لئے اِس سواری کو روک لو، روئے زمین اللہ کا کوئی بندہ موجود رہتا ہے، وہ تمہارے لئے سواری کو روک لے گا۔“ اِس حدیث پر کلام اِسی کتاب میں آٹھویں شبہ کے جواب کے تحت آئے گا، إن شاء اللہ۔
[320]؎ السلسلۃ الضعیفۃ (2/109)
[321]؎ اقتضاء الصراط المستقیم (2/790-791)
[322]؎ الاستغاثۃ فی الرد علی البکری، ص 330-332
[323]؎ تولہ: جادو کے ذریعہ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت بٹھانے کا عمل۔ دیکھئے النھایۃ
[324]؎ التمائم: تمیمہ کی جمع ہے۔ وہ جنہیں عرب اپنے بچوں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کے گلے میں ڈالتے تھے۔ اسلام نے اِس کی ممانعت کی، اس لئے کہ اِس میں غیراللہ سے تعلق پایا جاتا ہے اور اس میں یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بذات خود مؤثر ہے۔ دیکھئے النھایۃ
[325]؎ رقیہ(جھاڑ پھونک): ایک رقیہ شرعی ہے جس میں قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ دعاؤں کو پڑھ کر پھونکا جاتا ہے اور دوسرا شرکیہ رقیہ ہے جو طلسماتی اور نامانوس کلمات پر مشتمل ہوتا ہے، رقیہ کرنے والا بھی اس کے معنی و مفہوم سے آگاہ نہیں ہوتا ہے۔
[326]؎ المعجم الکبیر (9/174) نیز دیکھئے: الصحیحۃ (2972)
[327]؎ شیخ محمد عارف علمائے حجاز میں سے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں حجاز میں عقیدۂ توحید کا دفاع کیا اور توسل و استغاثہ کے تعلق سے شبہات کو ہوا دینے والوں کا رد کیا، ان لوگوں نے موضوع احادیث اور حکایات و منامات کا سہارا لے کر غیر اللہ سے توسل و استغاثہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے 1349 ھ میں وفات پائی، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
[328]؎ فصل المقال فی توسل الجھال، ص 119
[329]؎ مغل چوپائے میں قبض کی صورت حال کو کہتے ہیں، سبزی اور گھاس کے ساتھ مٹی کھا لینے سے چوپائے کو یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے، اس کی وجہ سے جانور پیٹ میں درد محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے۔ دیکھئے المعجم الوسیط
[330]؎ اسماعیلیہ شیعوں سے نکلا ہوا ایک گمراہ باطنی فرقہ ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: ڈاکٹر عبدالقادر بن محمد عطا صوفی کی کتاب ”دراسات منھجیۃ لبعض فرق الرافضۃ والباطنیۃ“ ناشر: دار أضواء السلف، ریاض
[331]؎ دیر: راہبوں کے رہنے کی جگہ، اسے خان النصاری بھی کہا جاتا ہے، اس میں رہائشی ہوٹلس، شاپنگ کمپلکس اور دکانیں بھی آج کل ہوتی ہیں۔ دیکھئے: المعجم الوسیط اور ”لسان العرب“
[332]؎ الاستغانۃ فی الرد علی البکري (2/500-503) اختصار کے ساتھ
[333]؎ تلخیص کتاب الاستعانۃ فی الرد علی البکري (1/169-170)
[334]؎ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ، ص 301
[335]؎ مجموع الفتاوی (1/157-158)
[336]؎ مجموع الفتاوی (1/168)
[337]؎ عزّی: مشرکین مکہ کا معروف بت تھا، یہ ایک درخت تھا جس پر عمارت تھی، قریش اس کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے۔ ابوسفیان نے جنگ احد کے اختتام پر نعرہ لگایا تھا: ”لنا العزی و لا عزی لکم“ (ہمارے پاس عزی ہے، تمہارے پاس عزی نہیں ہے) سورۃ النجم میں بھی اِس بت کا تذکرہ آیا ہے: ”أفرأیتم اللات و العزی“ (کیا تم نے لات اور عزی کو نہیں دیکھا)
[338]؎ نسائی کی روایت میں (شیئًا) کا لفظ آیا ہے
[339]؎ مسند ابویعلی (902) نسائی کی السنن الکبری (11483) روایت کے الفاظ مسند ابویعلی کے ہیں، اِس کے محقق حسین سلیم اسد نے اِس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
[340]؎ مسند احمد (5/135) المسند کے محققین نے اِس کی سند کو حسن کہا ہے۔
[341]؎ دیکھئے تفسیر ابن ابی حاتم (4/1067) سورۃ النساء، آیت:117
[342]؎ صحیح بخاری (2311)
[343]؎ صحیح بخاری (461) (1210) صحیح مسلم (541) الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
[344]؎ مجموع الفتاوی (1/168-171)
[345]؎ صحیح بخاری (1882) صحیح مسلم (2938) الفاظ صحیح مسلم کے ہیں، میں نے یہ علمی فائدہ شیخ عبدالعزیز بن فیصل راجحی کی کتاب ”مجانبۃ أھل الثبور المصلین فی المشاھد و عند القبور“ سے نقل کیا ہے۔
[346]؎ علمی امانت اور علم کو صاحب علم کی طرف منسوب کرنے کے اصول کے تحت میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے اِس شبہ کے جواب میں جو کچھ بھی لکھا ہے اُس میں شیخ حمد بن ناصر آل معمر رحمہ اللہ کی کتاب ”النبذۃ الشریفۃ النفیسۃ فی الرد علی القبوریین“ سے استفادہ کیا ہے، اللہ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق میں نے اس میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اس کتاب کی تحقیق شیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ نے کی ہے اور اِس کی طباعت و اشاعت کا کام دارالعاصمۃ، ریاض کے ذریعہ انجام پایا ہے۔ شیخ حمد بن ناصر سرزمین نجد سے شروع ہونے والی دعوت کے امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔ آٹھویں شبہ کے جواب کے تحت اِن کی مزید سوانح درج کی جائے گی۔
[347]؎ طباعت:1424ھ، ناشر: مکتبۃ المعارف، ریاض
[348]؎ حاشیہ ابن عابدین (1/63) جیسا کہ صفۃ صلاۃ النبی میں مذکور ہے۔
[349]؎ حاشیہ ابن عابدین علی البحر الرائق (6/293) جیسا کہ صفۃ الصلاۃ النبی میں منقول ہے۔
[350]؎ اِس سے مراد امام ابویوسف ہیں جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جلیل القدر شاگردوں میں سے تھے۔
[351]؎ اِسے الفلانی نے الإیقاظ (ص 50) میں نقل کیا ہے، یہ کتاب المطبعۃ المنیریۃ سے شائع شدہ ہے جیسا کہ صفۃ صلاۃ النبی میں مذکور ہے۔
[352]؎ اسے ابن عبدالبر نے الجامع (1/622) میں امام شافعی رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا ہے۔
[353]؎ شیخ البانی نے اپنی کتاب ”صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم“ کے مقدمہ میں امام مالک کے اِس قول کے بارے میں حاشیہ میں یہ بات کہی ہے کہ امام مالک کی طرف اِس قول کی نسبت متاخرین کے نزدیک مشہور ہے۔ ابن عبدالہادی نے ”إرشاد السالك“ (1/227) میں امام مالک سے منقول اِس قول کو صحیح و ثابت قرار دیا ہے۔
میں کہتا ہوں: ذہبی نے السیر میں امام مالک کے حوالہ سے اِس قول کو نقل کیا ہے، ان کے حوالہ سے یہ قول بہت مشہور بھی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ہر شخص کی کچھ بات قبول کی جائے گی اور کچھ ترک بھی کی جائے گی سوائے اِس قبر والے صلی اللہ علیہ و سلم کے۔ اِس قول کو ابن عبدالبر نے بھی اپنی الجامع (2/118-119) میں متعدد سندوں سے مجاہد سے نقل کیا ہے۔ ابن عبدالبر (2/118) نے حکم بن عتیبہ سے بھی امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے۔
[354]؎ اِس قول کو بیہقی نے ربیع بن سلیمان تک اپنی سند سے نقل کیا ہے، ربیع کہتے ہیں: میں نے شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا: پھر ان کا قول نقل کیا ہے۔ دیکھئے: مناقب الشافعی (1/474-475) ناشر:مکتبۃ التراث، قاہرہ
[355]؎ اِسے الفلانی نے الإیقاظ (ص 68) میں نقل کیا ہے جیسا کہ صفۃ الصلاۃ میں مذکور ہے۔
[356]؎ بیہقی نے المدخل إلی السنن الکبریٰ (1/224) اور خطیب بغدادی نے الفقیہ و المتفقہ (1/389) میں اِسے روایت کیا ہے۔
[357]؎ ابونعیم نے الحلیۃ (9/114) میں اِسے روایت کیا ہے۔
[358]؎ اِسے الفلانی نے الإیقاظ (ص 107) میں نقل کیا ہے جیسا کہ صفۃ الصلاۃ میں مذکور ہے۔
[359]؎ الھروی نے ذم الکلام و أھلہ (389) میں اِسے روایت کیا ہے، ناشر:مکتبۃ العلوم و الحکم، مدینۃ
[360]؎ اِسے ابونعیم نے الحلیۃ (9/113) میں روایت کیا ہے اور اِسی کے مثل بیہقی نے المدخل (1/225) اور خطیب بغدادی نے الفقیہ و المتفقہ (1/388-389) میں روایت کیا ہے۔
[361]؎ اِسے ابونعیم نے الحلیۃ (9/113) میں روایت کیا ہے۔
[362]؎ اسے ابن ابی حاتم نے آداب الشافعی، ص 93-94 میں روایت کیا ہے جیسا کہ صفۃ الصلاۃ میں مذکور ہے۔
[363]؎ اِسے الھروی نے ذم الکلام و أھلہ غبر (391) میں نقل کیا ہے، ناشر:مکتبۃ العلوم و الحکم، مدینہ
[364]؎ اِسے الفلانی نے اپنی کتاب الإیقاظ (ص 113) میں نقل کیا ہے جیسا کہ صفۃ الصلاۃ میں مذکور ہے۔
[365]؎ اِن دونوں اقوال کو ابوداؤد نے مسائل الإمام أحمد باب فی الرأی میں نقل کیا ہے، ناشر: مکتبۃ ابن تیمیہ، قاہرہ
[366]؎ اِسے ابن عبدالبر نے الجامع (2/242) میں روایت کیا ہے۔
[367]؎ اِسے ابن الجوزی نے مناقب أحمد، الباب الثانی و العشرون فی ذکر تعظیمہ لأھل السنۃ و النقل، ص 249 میں امام احمد کے حوالہ سے روایت کیا ہے، تحقیق: ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، ناشر:دار ھجر للنشر و التوزیع
ابن الجوزی نے اپنی اِسی کتاب میں ایک باب قائم کیا ہے جس میں سنت و آثار پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کی ترغیب سے متعلق امام احمد کے اقوال نقل کئے ہیں، جنہیں اِس باب میں امام احمد کے اقوال سے واقف ہونے کی خواہش ہو وہ اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
[368]؎ اِسے بیہقی نے شعب الإیمان (10311) (10313) میں نقل کیا ہے، دارقطنی نے اِسے مرفوعاً معلول قرار دیا ہے اور اِسے موقوفاً راجح قرار دیا ہے، جیسا کہ ابن الجوزی کی العلل المتناھیۃ ص 139 میں منقول ہے۔
[369]؎ اِسے بیہقی نے المدخل إلی السنن الکبری (833) میں روایت کیا ہے۔
[370]؎ اِسے ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم و فضلہ (1810) میں روایت کیا ہے۔
[371]؎ اِس کے اثبات میں کتاب کے شروع میں چاروں مسالک کے علماء کے اقوال نقل کئے جا چکے ہیں، اِس باب میں علماء کی بہت سی کتابیں بھی ہیں، مزید معلومات کے لئے اِس کتاب کے آخر میں درج مراجع کی کتابوں کی فہرست ملاحظہ کیجئے۔ نیز دیکھئے میری کتاب ”خمسون دلیلا علی بطلان دعاء غیراللہ“ یہ کتاب المعلومات نیٹ پر موجود ہے، اللہ تعالیٰ اِس کتاب کی طباعت کی راہ آسان فرمائے۔
[372]؎ اِس کی تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔
[373]؎ سنن ابی داؤد (4252) سنن ترمذی (2229) مسند احمد (278/5) روایت ثوبان رضی اللہ عنہ کی ہے، اِسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
[374]؎ صحیح بخاری (100) صحیح مسلم (2673) روایت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی ہے۔
[375]؎ اِن سب کا کلام مدون اور محفوظ ہے، اول الذکر کا کلام خصوصی محاضرات کی شکل میں محفوظ ہے جسے عام نہیں کیا گیا ہے، لیکن کچھ لوگوں نے کیسٹ کے ذریعہ اس کے محاضرات کو عام کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی رسوائی کا سامان کر دیا، ثانی الذکر نے سورۃ یوسف کی تفسیر سے متعلق ایک پروگرام میں اِن گمراہ کن باتوں کو ایک نشریاتی چینل پر کھلم کھلا بیان کیا۔ ہلاکت سے ہمکنار ہوئے مالکی نے اپنے شرکیہ عقائد کو اپنی کتاب ”مفاھیم یجب أن تصحح“ میں بیان کیا ہے۔ شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ”ھذہ مفاھیمنا“ میں اس کے شرکیہ عقائد کا رد کیا ہے، فجزاہ اللہ خیراً۔
[376]؎ سورۃ النمل:62
[377]؎ صحیح بخاری (7405) صحیح مسلم (2675) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے۔
[378]؎ صحیح مسلم (2877)
[379]؎ جامع المسائل لشیخ الإسلام ابن تیمیۃ، پانچواں مجموعہ، ص 104-106، اختصار کے ساتھ، تحقیق: محمد عزیر شمس، ناشر: دار عالم الفوائد مکہ، نیز دیکھئے: مجموع الفتاوی (24/335)
[380]؎ نقد المنقول و المحك الممیز بین المردود و المقبول، ص 132
[381]؎ ملا علی قاری نے اِسے الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ میں ذکر کیا ہے جو الموضوعات الکبری کے نام سے معروف ہے، رقم (376)
[382]؎ السلسلۃ الضعیفۃ (450)
[383]؎ رقم (187)
[384]؎ ص 28
[385]؎ ص 128، تحقیق: محی الدین مستو، ناشر: دار ابن کثیر، دمشق
[386]؎ رقم (883) تحقیق: محمد عثمان الخشت، ناشر: دار الکتاب العربی، لبنان
[387]؎ رقم (376)
[388]؎ رقم (2087) تحقیق: احمد القلاش، ناشر: مؤسسۃ الرسالہ، بیروت
[389]؎ التوسل و الوسیلۃ، ص 297-298، عجلونی نے کشف الخفاء (1/88) میں اِسے ابن کمال پاشا کی الأربعین کی طرف منسوب کیا ہے۔ میں کہتا ہوں: ابن کمال پاشا کا زمانہ تیرہویں صدی ہجری کا ہے، وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی سلفی دعوت سے بہت بغض رکھتا تھا، شیخ کی خالص توحید کی دعوت کو نشانہ بنانے کے لئے اُس نے اس دعوت کے تعلق سے شکوک و شبہات پھیلائے۔ وہ لوگوں کے سامنے مُردوں سے دعا مانگنے کو خوشنما بنا کر پیش کرتا تھا جیسا کہ احمد بن محمد کتلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الصیب الھطال فی کشف شبہ ابن کمال“ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اِس کتاب کو دعوت توحید کے علمبردار اور اس کا دفاع کرنے والے شیخ سلیمان بن صالح خراشی حفظہ اللہ نے دار العاصمہ ریاض سے شائع کیا ہے۔ میں کہتا ہوں: جب ابن کمال پاشا کو شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت توحید سے اس قدر بغض و عناد تھا تو پھر اس کی کتاب الأربعین میں اِس جھوٹی حدیث کے موجود ہونے پر کوئی تعجب و حیرت نہیں ہے، اس لئے کہ ہر قوم کا کوئی وارث ہوتا ہے۔
[390]؎ إغاثۃ اللھفان (1/394-395)
[391]؎ رقم (188)
[392]؎ ص (128)
[393]؎ عجالۃ الراغب المتمني فی تخریج کتاب عمل الیوم و اللیلۃ لابن السني، رقم (171)
[394]؎ صحیح الکلم الطیب لابن تیمیۃ، ص (135)
[395]؎ التاریخ الکبیر (1/239) ناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت
[396]؎ کتاب المجروحین من المحدثین (2/310)
[397]؎ عجالۃ الراغب المتمنی رقم (169)
[398]؎ عجالۃ الراغب المتمنی رقم (173)
[399]؎ عمل الیوم واللیلۃ رقم (170)
[400]؎ غیاث کی سوانح کے لئے دیکھئے: میزان الاعتدال (5/407) ناشر: دار الکتب العلمیۃ
[401]؎ الکامل فی ضعفاء الرجال (7/113)
[402]؎ صحیح الکلم الطیب لابن تیمیۃ، تحقیق: شیخ البانی، ص (136)
[403]؎ مسند ابو یعلی (5269) (9/177)
[404]؎ عجالۃ المتمني فی تخریج کتاب عمل الیوم واللیلۃ۔ لابن السنی، رقم (509) مولف: سلیم الھلالی
[405]؎ (10/217)
[406]؎ الجرح والتعدیل (8/323)
[407]؎ ان کی سوانح کے لئے دیکھئے: میزان الاعتدال فی نقد الرجال
[408]؎ (10/135) باب ما یقول إذا انفلتت دابتہ
[409]؎ بحوالہ السلسلۃ الضعیفہ (655)
[410]؎ شیخ سلیم نے یہ بات ابن السنی کی عمل الیوم واللیلۃ کے حاشیہ میں کہی ہے۔
[411]؎ یہ بات شیخ صالح آل شیخ نے ھذہ مفاھیمنا، ص (58) میں کہی ہے۔
[412]؎ دیکھئے: التقریب
[413]؎ شیخ صالح امام دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، وہ توحید اور عقیدہ کے بہت بڑے عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہ 1920ھ میں وزارت برائے اسلامی امور و اوقاف کے سربراہ بنائے گئے، عقیدہ و توحید کے موضوع پر ان کی متعدد تالیفات ہیں جن سے ان دو موضوعات پر ان کے گہرے علم و بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
[414]؎ ھذہ مفاھیمنا، ص (58)
[415]؎ مطبوعہ نسخہ میں راوی کا نام عبدالرحمٰن بن سہیل ہے، اس کی تصحیح مخطوطہ نسخہ سے کی گئی ہے، یہ بات شیخ صالح آل شیخ نے اپنی کتاب ”ھذہ مفاھیمنا“ ص (54) تحریر کی ہے۔
[416]؎ المعجم الکبیر (17/117)
[417]؎ کتاب الجرح والتعدیل (5/244)
[418]؎ دیکھئے: موسوعۃ أقوال الإمام دار قطنی، سوانح نمبر (1621)
[419]؎ الکامل فی ضعفاء الرجال (5/11)
[420]؎ تقریب التھذیب
[421]؎ بحوالہ السلسلۃ الضعیفہ (2/110)
[422]؎ غزوۂ بدر میں فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر کفار مکہ سے جو قتال کیا تھا تو اس کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا واسطہ فرشتوں سے مدد نہیں مانگی تھی، بلکہ یہ بلا طلب مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرامت کا ظہور تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”إذ یوحي ربك إلی الملائکۃ أني معکم فثبتوا الذین آمنوا“ (اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ) اس آیت میں فرشتوں کو وحی یا حکم کرنے کی بات رب نے کہی ہے، اس سے یہ آگاہ کرنا مقصود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طلب کرنے پر فرشتوں نے جنگ میں مسلمانوں کی ہمت نہیں بڑھائی تھی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے شریک جنگ ہوئے تھے۔
[423]؎ دیکھئے یہی حاشیہ جو اوپر نقل کیا گیا
[424]؎ کشف الأستار، رقم (3128)
[425]؎ شعب الایمان (6/128)
[426]؎ (6/92)
[427]؎ کتاب العلل و معرفۃ الرجال (1428)
[428]؎ کتاب العلل و معرفۃ الرجال (874)
[429]؎ یعنی مرفوع حدیث کی مخالفت کی وجہ سے
[430]؎ السلسلۃ الضعیفۃ (2/112)
[431]؎ تدریب الراوی، اکیسواں باب (موضوع احادیث کا بیان) (1/277) تحقیق: عبدالوہاب عبداللطیف، ناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، طباعت دوم
[432]؎ شیخ، علامہ حمد بن ناصر آل معمر کی ولادت 1160ھ میں عینیہ میں ہوئی۔ ایک ایسے خانوادہ میں ان کی نشو و نما ہوئی تھی جن کے ہاتھ میں حکومت و امارت تھی، ان کے آباؤ و اجداد گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری میں نجد کے امیر تھے۔ انہوں نے علماء کی ایک جماعت سے علم حاصل کیا جن میں اصلاح و دعوت کے امام شیخ محمد بن عبدالوہاب بھی شامل ہیں۔ علم کے وافر حصہ کی تحصیل کے بعد عینیہ= =میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ علم و عمل کے ائمہ نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا مثلاً شیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب، شیخ عبدالرحمٰن بن حسن اور شیخ عبداللہ ابابطین رحمہم اللہ۔
1222ھ میں مکہ مکرمہ میں منصب قضا پر فائز ہوئے۔ مکہ ہی میں 1225ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ رحمہ اللہ۔ یہ سوانحی سطریں شیخ دکتور عبدالسلام بن برجیس آل عبدالکریم رحمہ اللہ کی کتاب ”النبذۃ الشریفۃ النفیسۃ فی الرد علی القبورین“ سے اختصار اور حذف و اضافہ کے ساتھ ماخوذ ہیں۔
[433]؎ صحیح بخاری (4547) صحیح مسلم (2665)
[434]؎ یہ بات شیخ حمد بن ناصر آل معمر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”النبذۃ الشریفۃ النفیسۃ فی الرد علی القبورین“ ص 75-76 میں کہی ہے، اختصار اور معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ۔
[435]؎ مسند احمد (5/153) صحیح ابن حبان (65) شیخ البانی نے اسے التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان (192) میں صحیح کہا ہے، ناشر: دار باوزیر، جدہ
[436]؎ دیکھئے: المعجم الکبیر (1647) شیخ البانی نے اس اضافہ کو الصحیحۃ (1803) میں صحیح کہا ہے۔
[437]؎ دیکھئے: إغاثۃ اللھفان، ص 1128، مطبوعہ: دار عالم الفوائد، مکہ
[438]؎ مفتاح دار السعادۃ (1/442)
[439]؎ دیکھئے: امام فیصل بن ترکی رحمہ اللہ کا قول جیسا کہ الدرر السنیۃ (2/288) میں ہے۔
[440]؎ یہ بات ابن سعدی رحمہ اللہ نے سورۃ البقرۃ کی آیت 145 کی تفسیر میں کہی ہے۔
[441]؎ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح (1/85-86) معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ
[442]؎ مجموع الفتاوی (28/57)
[443]؎ الروح، ص 179، ناشر: دار ابن کثیر، دمشق
[444]؎ عقل صریح نقل صحیح کے برخلاف نہیں ہوتا ہے، دیکھئے: درء تعارض العقل والنقل، مؤلفہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
[445]؎ الاستعانۃ فی الرد علی البکری (2/582-587) معمولی اختصار کے ساتھ
[446]؎ الاستعانۃ فی الرد علی البکری (2/588-589)
[447]؎ اس کی تخریج پیچھے گزر چکی ہے۔
[448]؎ منھاج التأسیس والتقدیس فی شکف شبھات داود بن جرجیس، ص (13)
[449]؎ صحیح مسلم (2564)
[450]؎ مجموع الفتاوی (28/231-234)
[451]؎ صحیح مسلم (7) روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے
[452]؎ صحیح مسلم (1822)
[453]؎ مجموع الفتاوی (9/233)
[454]؎ ان کی سوانح پیچھے گزر چکی ہے
[455]؎ مفتاح دار السعادۃ (1/442) تحقیق: علی حسن عبدالحمید، ناشر: دار ابن عفان، الجنر
[456]؎ دیکھئے: شرح کتاب کشف الشبھات، مؤلفہ: شیخ صالح فوزان الفوزان، ص 56 ناشر: مؤسۃ الرسالۃ، بیروت
[457]؎ دیکھئے: مجموع فتاوی ابن تیمیۃ (8/37)
[458]؎ دیکھئے: مجموع فتاوی ابن تیمیۃ (35/190)
[459]؎ دیکھئے: قاعدۃ فی المحبۃ، ص (289) تحقیق: محمد رشاد سالم، ناشر: مکتبۃ التراث الاسلامی، قاھرہ
[460]؎ دیکھئے: إغاثۃ اللھفان فی مصائد الشیطان (2/767) تحقیق: علی بن حسن، ناشر: دار ابن الجوزی، دمام
[461]؎ قارئین کی جانکاری کے لئے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علمی کتابوں کی ایک تفصیلی فہرست تیار کرنے کی توفیق دی، یہ کتابیں عقیدہ، شریعت اور سلوک کے موضوع پر اہل سنت کے مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں ان بہت سے کتابوں کے نام شامل ہیں جو عقیدہ کے بہت سے مسائل میں اہل سنت و الجماعت کے منہج سے اختلاف رکھنے والے فرقوں کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ میں نے اسے ”الدلیل لمراجع أھل السنۃ فی العقیدۃ والشریعۃ والسلوك“ کا نام دیا ہے۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر اس ویب سائیٹ کے تحت دستیاب ہے: www.saaid.net/kutob