وجودِ الہی میں شک کا علمی اور سنجیدہ تجزیہ ()

ماجد بن سليمان الرسي

 

یہ ایک مختصر کتاب ہے جس کے اندر اللہ تعالی کے وجود میں شک کا تجزیہ کیا گیا ہے، وجود الہی میں شک کا یہ نظریہ بہت سے معاشروں میں عام ہوتا جا رہا ہے، یہ کتاب فطری، عقلی، شرعی اور حسی دلائل کی روشنی میں مختلف ناحئے سے وجود باری تعالی کو ثابت کرتی ہے۔

|

 وجودِ الہی میں شک کا علمی اور  سنجیدہ تجزیہ

هل الله موجود ؟ مقال علمي هادئ لنقاش ظاهرة الشك في وجود الله


ربِّ يسِّر وأعِن


 اللہ تعالی کے وجود کی  چار  دلیلیں ہیں: فطرت ، عقل، شریعت اور حس

·      وجود الہی کی فطری دلیل   یہ  ہے کہ ہر مخلوق بغیر کسی سابقہ سوچ وفکر اور تعلیم وتعلم کے  اپنے خالق پر ایمان کے ساتھ پیدا ہوتی ہے،  اس کا مصداق اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: }وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا﴾

ترجمہ: جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں؟ ہم سب گواہ بنتے ہیں۔

اس فطرت  کے تقاضے سے وہی شخص منحرف ہوتا ہے جس پر کوئی خارجی مؤثر اثر  ڈالے،  جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنالیتے ہیں"([1])۔

یہ ہمارے مشاہدے میں بھی ہے کہ انسان کو جب نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ اپنی طبیعت وفطرت اور بدیہیت کے بموجب (یا اللہ ) پکار اٹھتا ہے، کسی ملحد کے بارے میں آیا ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت لاحق ہوئی تو لا شعوری طور پر اس کی زبان سے  (یا اللہ)  نکل گیا، کیوں کہ انسان کی فطرت رب تعالی کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔

یہ آیت اس بات پر  دال ہے کہ انسان کی فطرت میں وجود الہی کا اقرار  ودیعت کر دیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مشرکوں نے بھی اللہ تعالی کے وجود کا اقرار کیا ، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾

ترجمہ: اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقینا یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے ، پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں؟

***

·   وجود الہی کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اِن  تمام قدیم وجدید مخلوقات  کے لیے کسی خالق کا ہونا ضروری ہے جس نے انہیں وجود میں لایا، کیوں کہ یہ مخلوقات اپنے آپ کو بذات خود وجود میں نہیں لا سکتیں، اس لیے کہ عدم (جس کا وجود نہ ہو)  خود کی تخلیق نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ وجود سے قبل معدوم تھا، تو بھلا وہ دیگر مخلوقات کا خالق کیسے ہوسکتا ہے؟!

اسی طرح ان مخلوقات کا بغیر کسی خالق کے اتفاقاً وجود میں آجانا د و  (۲) وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے:

پہلی وجہ: ہر مخلوق کے لیے خالق کا ہونا ضروری ہے ، اس پر عقل بھی دلالت کرتی ہے اور شریعت بھی، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿أم خُلِقوا من غير شيء أم هم الخالقون﴾

ترجمہ: کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں۔

دوسری وجہ: ان مخلوقات کا اس بے مثال نظام، مرتب  نظم ونسق، اسباب و  مسببات اور مخلوقات کے   مابین  باہمی ربط وضبط   کے ساتھ وجود میں آنا ، جس میں نہ کوئی بد نظمی ہے اور نہ آپسی تصادم،  یہ اس بات کو ناممکن ثابت کرتا ہے کہ  وہ  بغیر کسی خالق کے اتفاقاً  وجود میں آ گئے ہیں ،کیوں کہ اتفاقاً وجود میں آنے والی چیز اپنے وجو د کی اصلیت  میں بھی اس قدر منظم نہیں ہوتی،  تو بھلا وہ اپنی بقا اور ارتقاء کے مرحلے میں کیوں کر منظم ہوسکتی ہے؟

اللہ تعالی کے اس فرمان کوملاحظہ کریں: }لا الشمس ينبغي لها أن تدرك القمر ولا الليل سابق النهار وكل في فلك يسبحون{

ترجمہ: نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔ ([2])

ابو حنیفہ رحمہ اللہ-جوکہ ذہانت وفطانت میں مشہور تھے-کے بارے میں آیا ہے کہ ان کے پاس دہریہ([3]) ملحدوں کی ایک جماعت آئی  جوسُمُنّیہ ([4])کے نام سے موسوم تھی اور اللہ تعالی کے وجود کا منکر تھی، ابو حنیفہ رحمہ اللہ دہریہ کے خلاف شمشیر براں کی طرح تھے، یہ دہریہ ان کو قتل کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں لگے رہتے تھے، ایک دن وہ مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک جماعت ننگی تلوار کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑی اور ان کو قتل کر نا چاہی ،  ان سے ابوحنیفہ نے کہا: میرے ایک سوال کا جواب دے دو پھر جو چاہو کرو۔

انہوں نے کہا: سوال کیا ہے۔

آپ نے فرمایا: تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو یہ کہے کہ میں نے ایک ایسی کشتی دیکھی جو ساز وسامان سے لدی  اور بوجھ سے بھری تھی، سمند کے بیچ مجدھار میں تلاطم خیز موجوں  اور سرکش ہواؤں نے اسے گھیر لیا، وہ ان موجوں اور ہواؤں سے لڑتی ہوئی سیدھی اپنی راہ پر چلتی رہی، نہ اس میں کوئی باد باں تھا جو اس کی بادبانی کرے، نہ  اس کا  کوئی نگراں تھا جو اس کی نگہداشت  کرے، کیا انسانی عقل اسے قبول کر ےگی؟

انہوں نے کہا: نہیں،عقل اسے قبول نہیں کر سکتی۔

ابو حنیفہ نے فرمایا: سبحان اللہ! جب انسانی عقل یہ قبول نہیں کرسکتی کہ کوئی کشتی سمند کے اندر بغیر کسی نگراں اور باد باں کے چل سکتی ہے، تو  بھلا یہ دنیا اپنی مختلف حالات، متنوع اعمال، کشادہ اطراف اور وسیع وعریض پہنائیوں کے ساتھ بغیر کسی خالق اور محافظ کے کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟!

یہ سن کر سارے کے سارے دہریہ رونے لگے اور بہ یک زبان بول پڑے: آپ نے سچ فرمایا، پھر انہوں نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں اور توبہ کر لیا۔

ابو حنیفہ کا مقصد یہ تھا کہ کشتی کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بغیر کسی بادبان اور نگہبان کے پہنچنا محا ل ہے، اس کو دلیل بناکر اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کیا جائے کہ  یہ عظیم کا ئنات  بغیر خالق ومدبر کے کیسے چل سکتی ہے جس میں (لاکھوں ) سیارے  بغیر کسی بد نظمی کے اپنے مدار پر چل رہے  ہیں، پھر بھی کوئی  آکر یہ کہہ دے کہ یہ کائنات بغیر کسی مدبر کی تدبیر کے یوں ہی جاری وساری ہے (تو اسے کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے) ؟!

یہ نامعقول بات ہے! بلکہ ایک خالق کا وجود نہایت ناگزیر ہے۔

 شافعی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ:  خالق کے وجود کی کیا دلیل ہے؟

آپ نے فرمایا: توت کا پتہ، اس  کا مزہ، رنگ، بو اور طبیعت  سب تم لوگوں کے نزدیک یکساں  ہیں؟

انہوں نے کہا: ہاں۔

آپ نے فرمایا: اسے ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو اس سے خوبصورت ترین ریشم نکلتا ہے، شہد کی مکھی کھاتی ہے تو اس سے شہد نکلتا ہے، بکری کھاتی ہے تو اس سے لید نکلتی ہے اور ہرن کھاتا ہے تواس سے مشک نکلتا ہے، کون ہے جو یہ مختلف چیزیں پیدا کرتا ہے جب کہ سب  (کی غذا ) یکساں طبیعت کی حامل ہے؟!

تولوگوں کو یہ دلیل معقول لگ گئی ، چنانچہ انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا، ان کی تعداد سترہ (۱۷) تھی۔شافعی کا مقصد یہ  تھا کہ تخلیق کے اس تدریج اور تنوع   کو دلیل بناکر  اللہ تعالی کے وجود کو ثابت کریں کہ توت کے پتے کو  جب ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو اس سے خوبصورت ترین ریشم نکلتا ہے، پھر اسے تین مختلف حیوانات  کھاتے  ہیں  تو ہر ایک حیوان سے مختلف قسم کی چیز نکلتی ہے، تو کیا یہ معقول بات ہے کہ بغیر کسی مدبر کی تدبیر کے  ایسا  یوں ہی  اتفاقاً واقع ہوجائے؟!

یہ نا معقول بات ہے، بلکہ خالق کا وجود نہایت ناگزیر ہے۔

 احمد بن حنبل نے ایک مثال پیش کی کہ ایک مضبوط اور چِکنا  سا قلعہ ہے ، جس میں کوئی سراخ نہیں، ا س کا بیرونی حصہ پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ا ور اندرونی حصہ  خالص سونے کی طرح ہے، پھر اس کی دیواریں پھٹ جاتیں اور اس سے ایک سننے اور دیکھنے والا حیوان برآمد ہوتا ہے۔

قلعہ سے آپ کی مراد: انڈا اور حیوان سے آپ کی مرد: چوزہ تھا۔

احمد بن حنبل کا مقصد یہ تھا کہ انڈا سے چوزے کے نکلنے کو دلیل بناکر اللہ کے وجود کو ثابت کیا جائے ، انڈا چوزے کے لیے قلعہ کی طرح ہے، جس سے وہ سماعت وبصارت کے ساتھ  وجود میں آتا ہے، کیا  عقل اسے قبول کرتی ہے کہ انڈا کا وجود اور چوزے کا اس سے نکلنا بغیر کسی مدبر کی تدبیر کے  اتفاقاً رونما  ہوجاتا ہے؟!

یہ نامعقول بات ہے ، بلکہ خالق کا  وجود نہایت ناگزیر ہے۔

ہارون رشید نے امام مالک سے خالق کے وجود سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے خالق کے وجود کی دلیل یہ پیش کی کہ مخلوقات کی  آوازیں مختلف ہیں،  ان کے لہجے اور انداز الگ الگ ہیں اور ان کی  زبانیں  متنوع ہیں۔

اس باب میں یہ ائمہ اربعہ کے اقوال تھے (جنہیں آپ کے سامنے پیش کیا گیا) ۔

ایک دیہاتی سے پوچھا گیا: تو نے اپنے رب کو کیسے جانا؟ تو اس نے جواب دیا: لید اونٹ پر دلالت کرتی ہے، گوبر گدہے  پر دلالت کرتا ہے  اور نقش پا قافلہ کی خبر دیتا ہے،  تو کیا ستاروں اور سیاروں سے معمور  یہ آسمان، گلیوں اور شاہراہوں سے  آباد یہ زمین اور ٹھاٹھیں مارتی ہوئی  موجوں  کا  یہ سمندر ، سننے اور دیکھنے والے خالق پر دلالت نہیں کرتے؟

ابن ہانئ([5]) سے خواب میں پوچھا گیا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟

انہوں نے کہا: مجھے اللہ نے ان اشعار کی بدولت معاف کردیا جو میں نے نرگس (پھول) کے تعلق سے کہا تھا، وہ اشعار یہ ہیں:

تَأَمَّل فِي نَباتِ الأَرضِ وانظُر

إِلَى آثَارِ مَا صَنعَ الَملِيكُ

عُيُونٌ مِن لُجَينٍ شَاخِصاتٌ

بِأَحداقٍ هِيَ الذَّهبُ السَّبِيكُ

عَلى قُضُب الزَّبَرجَدِ شَاهِدَاتٌ

بِأَنَّ اللهَ لَيسَ لَهُ شَرِيكُ

وأنَّ محمدًا عبدٌ رسولٌ

إلى الثقلين أرسله المليكُ

 ترجمہ: زمین  میں اگنے والے پودوں پر غور کرو اور بادشاہ کی تخلیق کے آثار میں تامل سے کام لو۔

      چاندی  (سی سفید) آنکھیں اپنی (  سیاہ)  پُتلیوں کے ساتھ ایسے ٹکٹکی لگا کر دیکھتی ہیں جیسے وہ چمکتی ٹہنی  پر  سونے کی ڈھلی ہوں ، یہ سب اس بات پر گواہ ہیں کہ اللہ کا کوئی شریک وساجھی نہیں۔اور محمد (اللہ کے ) بندے اور رسول ہیں جن کو اللہ تعالی نے انس وجن کی طرف مبعوث فرمایا۔

الله تعالی کے تعجب خیر مخلوقات میں مچھر کا بھی شمار ہوتا ہے، اللہ تعالی نے اس کے اندر بہت سی حکمتیں ودیعت فرمائی ہے، چنانچہ اللہ نے اس کے اندر قوت حافظہ اور  قوت فکر وفہم ودیعت کی، اسے چھونے، دیکھنے، سونگھنے کا ملکہ  عطا کیا، اس کے اندر غذا  داخل ہونے کی جگہ بنائی، اس کے جسم میں شکم، رگیں، دماغ اور ہڈیاں پیدا کیں، پاک ہے وہ اللہ جس نے اندازہ کیا اور راہ دکھائی او رکسی بھی چیز کو بے سود نہیں چھوڑا۔

ابو العلاء المعری نے کیا خوب اشعار کہے ہیں:

يَا مَن يَرَى مدَّ البَعُوضِ جناحها

فِي ظُلمَةِ الَّليلِ البَهِيمِ الأَلِيلِ

وَيَرَى مَناطَ عُرُوقِهَا فِي نحرها

وَالمخَّ مِن تِلكَ العِظامِ النُّحَلِ

ويرى خرير الدم في أوداجها

متنقلا من مفصل في مفصلِ

ويرى وصول غذى الجنين ببطنها

في ظلمة الأحشا بغير تمقُّلِ

ويرى مكان الوطء من أقدامها

في سيرها وحثيثها المستعجلِ

ويرى ويسمع حسَّ ما هو دونها

في قاع بحرٍ مظلمٍ متهوِّلِ

اُمنُن عَلَيَّ بِتَوبَةٍ تَمحُو بِهَا

مَا كَانَ مِنِّي فِي الزَمانِ الأوَّلِ([6])

 اے وہ (رب کہ ) جو نہایت تاریک اور اندھیری رات  میں مچھر کے پر پھیلانے کو دیکھتاہے، اس کے  گلے میں موجود   شہِ رگ اور اس کی باریک ہڈیوں کے اندر کے گودا کو بھی دیکھتا ہے۔

اس کی رگوں میں دوڑتے خون کو بھی دیکھتا ہے، جو ایک عضو سے دوسرے عضو  کی طرف منتقل  ہوتا رہتاہے۔

جنین (مچھر) کے شکم میں غذا کیسے پہنچتی ہے ،آنتوں کی تاریکی کے درمیان اسے بھی بغیر کسی پریشانی کے دیکھتا ہے۔

 وہ اپنی چال اور دوڑ بھاگ کے دوران جس جگہ  پر اپنے پاؤں رکھتا ہے، اسے بھی اللہ تعالی دیکھتا ہے۔

تاریک اور ہولناک سمندر کی گہرائی  کے اندر رہنے والی مچھر سے بھی  باریک ترین مخلوق کے احساس کو اللہ تعالی دیکھتا اور سنتا  ہے۔

اے اللہ! مجھے ایسی توبہ سے نواز جس کے ذریعہ تو میرے تمام سابقہ گناہوں کو معاف کردے۔

اس بنیاد پر آج کے زمانے میں جو شخص اللہ تعالی کے وجود کا انکار کرے اس سے یہ سوال پوچھا جائے کہ: آج جو مختلف قسم کے ہوائی جہاز، میزائل، گاڑیاں اور آلات وجود میں آئے ہیں، وہ یوں ہی خود سے اتفاقاً وجود میں آگئے ہیں؟

اگر کوئی شخص آپ سے بیان کرے کہ ایک خوش نما   محل ہے ،  جس کے چاروں طرف باغیچے لگے ہیں، ان باغیچوں کے درمیان نہریں جاری ہیں، وہ محل  خیرہ چشم قالینوں اور با رونق آرام گاہوں سے معمور ہے،  اسے مختلف قسم کے سامان آرائش سے سجایا گیا ہے، جو  اس  کے حسن  اور جمال و کمال  کو چار چاند لگاتے ہیں، پھر وہ شخص کہے کہ: اس  محل نے  خود اپنے آپ کو تمام تر جمال وکمال کے ساتھ وجود میں لایا ، یا یوں ہی بغیر کسی موجد کے ازخود اتفاقاً وجود میں آگیا،  کیا آپ اس کی تصدیق کریں گے؟ آپ کا جواب یہی ہوگا کہ: نہیں، ہرگز نہیں۔

کیا اس کے بعد بھی آپ کی عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس  وسیع وعریض کائنات نے  اپنی کشادہ زمین، بے کراں آسمان ، افلاک ، بے مثال اور حیرت ناک نظام کے ساتھ  خود اپنے آپ کو وجود میں لایا ، یا بغیر کسی موجد وخالق کے یوں ہی خود سے اتفاقاً وجود میں آگیا؟!

خلاصہ : جب یہ ممکن نہیں کہ یہ مخلوقات خود اپنی ذات کو پیدا کریں، یا یوں ہی  از خود اتفاقاً وجود میں آجائیں، تو لازم ٹھہرا کہ ان کا کوئی نہ کوئی موجد وخالق ضرور ہے ، اور وہ ہے  اللہ رب العالمین۔

اللہ تعالی نے اس عقلی اور قطعی دلیل کو سورۃ الطور کے اندر ذکر فرمایا ہے : ﴿أم خلقوا من غير شيء أم هم الخالقون﴾

ترجمہ: کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے ) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں۔

یعنی : نہ وہ بغیر خالق کے پیدا ہوئے اور نہ انہوں نے خود اپنی ذات کو پیدا کیا ، جس سے لازم آیا کہ ان کا ایک خالق ضرور ہے اور وہ ہے اللہ تبارک وتعالی ۔

جبیر بن مطعم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الطور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ، جب آپ درج ذیل آیت پر پہنچے : ﴿‏أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ * أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بَل لا يُوقِنُونَ * أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ﴾ (یعنی: کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ یقین ہی نہیں رکھتے۔کیا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ ان خزانوں پر حکم چلانے والے ہیں؟)

وہ اس وقت مشرک تھے، ان کا بیان ہے کہ:  یہ آیات سن کر  میرا دل اڑنے لگا، یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں ایمان نے قرار پکڑا([7])۔

***

·   رہی بات وجود الہی کی شرعی دلیل کی تو  تمام تر   آسمانی کتابیں  اس کی گواہ  اور دلیل ہیں، اور ان کے اندر مخلوق کے   مصالح  پر مشتمل جو احکام آئے ہیں، وہ بھی اس با ت کی دلیل ہیں کہ وہ ایسے رب کی طرف سے نازل ہوئے ہیں جو  باحکمت اور اپنی مخلوق کے مصالح سے خوب واقف ہے، اسی طرح ان کتابوں کے اندر کائنات کی جو خبریں آئی ہیں اور جن کی تصدیق حوادث زمانہ سے ہوتی ہے، وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ ایسے پروردگار کی طرف سے   نازل ہوئی  ہیں جو  ان چیزوں کو وجود میں لانے پر قاد ر ہے جن کی اس نے خبر دی ہے۔

نیز قرآن کے اندر  جو ہم آہنگی اور یکسانیت  پائی جاتی ہے، اس کے اندر تضاد نہیں، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرتا ہے، یہ بھی اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حکمت والے  او رخوب جاننے والے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، اللہ تعالی کافرمان ہے: }أفلا يتدبرون القرآن ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا‏﴾

ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت اختلاف پاتے۔

یہ اس ذات کے وجود کی بھی دلیل ہے جس نے قرآن کے ذریعہ کلام کیا اور وہ ہے اللہ تعالی ۔

***

 رہی بات وجود الہی کی حسی دلیل کی تو اس کی دو قسمیں  ہیں:

پہلی قسم: ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ پکارنے والوں  کی پکار سنی جاتی  اور بے کسوں کے لیے    مدد نازل ہوتی ہے، جو اللہ تعالی کے وجود کی قطعی دلیل ہے،  کیوں کہ دعا قبول ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک پروردگار ہے جو پکارنے والے  کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے، کیوں کہ وہ اللہ  کو ہی پکارتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿‏وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ﴾

ترجمہ: نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جب کہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی۔

نیز اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿‏إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ﴾

ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد نبوی میں اس دروازے سے داخل ہوا جو منبر کے بالکل سامنے تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوکر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ! مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ہم پر بارش برسائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی: "اے اللہ ! ہم پر بارش برسا۔اے اللہ ! ہم پر بارش نازل فرما۔اے اللہ !ہمیں باران رحمت عطا فرما"۔انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : اللہ کی قسم! ہمیں دور دور تک آسمان پر کوئی چھوٹا یا بڑا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی  گھر یا حویلی ہی حائل تھی (کہ ہم بادلوں کو نہ دیکھ سکتے ہوں)۔اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی طرح ایک بادل نمودار ہوا ۔جب وہ آسمان کے وسط میں آیا تو ادھر ادھر پھیل گیا، پھر وہ برسنے لگا ، اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔دوسرے جمعہ کو پھر اسی دروازے سے ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس نے آپ کے سامنے عرض کیا: اللہ کے رسول! مال تلف ہوگئے اور راستے بند ہوگئے ہیں، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم سے اس بارش کو روک لے ۔انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی: "اے اللہ! یہ بارش ہمارے ارد گرد تو ہو لیکن ہم پر نہ برسے۔اے اللہ! اسے ٹیلوں ، پہاڑوں، میدانوں ، وادیوں اور باغوں پر برسا"۔راوی کہتے ہیں کہ بارش فورا بند ہوگئی اور ہم دھوپ میں چلنے پھر نے لگے([8])۔

دعا کی قبولیت آج بھی ہمارے مشاہدے میں آتی  رہتی ہے ، بشرطیکہ صدق دل سے اللہ تعالی کی طرف رجوع وانابت کی جائے  اور قبولیت ِ دعا کے اسباب اختیار کئے جائیں۔

دوسری قسم: ابنیائے کرام کی وہ نشانیاں جو معجزے سے موسو م ہیں، جنہیں لوگ دیکھتے یا ان کے بارے میں سنتے ہیں، وہ بھی ان کے بھیجنے والے (پروردگار ) کے وجود کی قطعی دلیل ہیں،  جوکہ اللہ تعالی ہے، کیوں کہ یہ معجزات انسانی قوت سے پرے  ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالی اپنے رسولوں کی تائید اور نصرت کے طور پر جاری فرماتا ہے۔

مثال: موسی علیہ السلام کا معجزہ ، جب اللہ تعالی نے آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ اپنی لاٹھی سمندر پر ماریں، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور (سمندر کے بیچ میں) بارہ خشک راستے بن گئے ، اور ان کے درمیان پانی پہاڑوں کی طرح ہوگیا، فرمان باری تعالی ہے: ﴿‏فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ﴾

ترجمہ: ہم نے موسی کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار ، اسی وقت دریا پھٹ گیا او رہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔

دوسری مثال: عیسی علیہ السلام کا معجزہ کہ وہ اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتے اور انہیں قبروں سے نکال کھڑا کرتے تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿‏إذ قال الله يا عيسى ابن مريم اذكر نعمتي عليك وعلى والدتك إذ أيدتك بروح القدس تكلم الناس في المهد وكهلا وإذ علمتك الكتاب والحكمة والتوراة والإنجيل وإذ تخلق من الطين كهيئة الطير فتنفخ فيها فتكون طيرا بإذني وتبرىء الأكمه والأبرص بإذني وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي‏﴾

ترجمہ: جب کہ اللہ تعالی ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسی بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے ، جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندہ کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے ، جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھامیرے حکم سے اور تم اچھا کردیتے تھے مادرزاد اندھے کو او رکوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے ۔

تیسری مثال: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معجزہ پیش آیا کہ جب قریش نے آپ سے (نبوت کی) نشانی طلب کی تو آپ نے  چاند کی طرف اشارہ کیا اور لوگوں کی نگاہوں کے سامنے  اس کے دو ٹکڑے  ہوگئے ، اس سلسلے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿‏اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ * وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾

ترجمہ: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے  ہیں تومنہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔

یہ حسی نشانیاں اور معجزات جنہیں اللہ تعالی نے  اپنے رسولوں کی تائید اور نصرت کے طور پر  جاری فرمایا، اللہ تعالی کے وجود  کے  قطعی دلائل  ہیں۔

***

چونکہ وجود باری تعالی کا اقرار ایک فطری امر ہے جس پر فطرت اور حس دونوں دلالت کرتے ہیں، اس لیے رسولوں نے اپنی قوموں سے کہا: ]أفي الله شك فاطر السماوات والأرض[

ترجمہ:کیا حق تعالی کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اس آیت میں اللہ تعالی رسولوں اور کافروں کے درمیا ن ہونے والے بحث وجدال کی خبر دے رہا ہے، وہ یوں کہ جب ان کی قوموں نے ان کے پیش کردہ پیغام ِتوحید میں شک کا اظہار کیا تو رسولوں نے کہا: ]أفي الله شك [

 ترجمہ: کیا حق تعالی کے بارے میں تمہیں شک ہے۔

اس کے اندر دو معانی کا احتمال پایا جاتاہے:

پہلا معنی: کیا اللہ تعالی کے وجود میں  تمہیں شک ہے؟کیوں کہ فطرت اس کی گواہ ہے اور اس کے اندر وجود الہی کااقرار ودیعت کیا گیا ہے، اس لیے فطرت سلیمہ کے لیے اس کا اعتراف کرنا ضروری ہے، لیکن کسی کی فطرت میں شک اور بے قراری  داخل ہوجائے تو اسے ایسے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے جو اسے وجود الہی  (کی معرفت)  تک پہنچا سکے،  اسی لئے رسولوں نے اپنی قوموں کو معرفتِ الہی کی  راہ دکھاتے ہوئے  ان سے فرمایا: ] فاطر السماوات والأرض[ ( جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے)۔

جس نے آسمان وزمین کو بغیر کسی سابقہ مثال کے پیدا کیا ، ان دونوں پر تخلیق اور تسخیر کے اثرات نمایاں ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان کا کوئی خالق ہو، اور وہ ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہی ہر چیز کا خالق ،معبود اور مالک و بادشاہ ہے۔

دوسرا معنی: ]أفي الله شك[ (  کیا حق تعالی کے بارے میں تمہیں شک ہے)۔یعنی اس کی الوہیت میں اور اس بات میں  تمہیں شک ہےکہ تمام تر عبادتیں صرف  اسی کے لیے واجب ہیں،  اور وہ تمام تر موجودات کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں؟ اکثر وبیشتر اقوام خالق کے وجود کا اقرار کرتی تھیں ،لیکن اس کے ساتھ دوسری مخلوقات کی بھی عبادت کرتی تھیں جن کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں یا اللہ سے قریب کر سکتی ہیں۔انتہی

شیخ  عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:

یعنی کہ اسی نے تمام چیزوں کونمایاں اور ظاہر کیا ، چنانچہ جو اللہ کے وجود میں شک کرے ، جوکہ  آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ، جس کے وجود پر تمام چیزوں کا وجود منحصر ہے، اس انسان  کے اندر کسی بھی معلوم اور معروف  چیز کا  اعتماد  نہیں پایا جاتا ، یہاں تک کہ  حسی امور پر بھی  اس کا اعتماد نہیں، اسی لیے رسولوں نے اپنی قوموں سے ایسا خطاب فرمایا جس میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں([9])۔

***

 فرمان باری تعالی ہے:

)إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُون(

ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل ، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الہی کی نشانیاں ہیں۔

شیخ عبد الرحمن بن سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:

اللہ تبارک وتعالی نے خبر دی ہے کہ ا ن عظیم مخلوقات میں باری تعالی کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تما م صفات کے دلائل ہیں، لیکن یہ تمام دلائل صرف    (عقلمندوں کے لیے ہیں) جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں  جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے،  اللہ تعالی نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے و ہ اتنا ہی آیات الہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل او رتفکر وتدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ (آسمانوں کی پیدائش میں) یعنی: آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان  کے محکم او رمضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج ،چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔(اور زمین کی پیدائش میں) یعنی  مخلوق کے لیے فر ش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ   اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں۔نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالی ایک اور متفرد ہے اور اس میں اللہ تعالی کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالی نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم ، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم  کا ، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات وضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائقِ عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے ، کیوں کہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر او رتمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے،(اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور ، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں)۔

(رات دن کے ہیر پھیر میں) یعنی: رات اور دن کا دائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا، چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر وتبدل کا ہونا۔جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام تر نباتات کا انتظام ہوتاہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام ، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہورہاہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔یہ چیز  اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم وحکمت، رحمت واسعہ، لطف وکرم، اس کی اس تدبیر وتصرف، جس میں وہ اکیلا ہے،  اس کی عظمت، اقتدار او رغلبہ پر دلالت کرتی ہے  اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو الہ (معبود)  مانا جائے اور اس کی عبادت  کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے ، اسی کی تعظیم کی جائے ، اسی سے ڈر ا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جد وجہد کی جائے۔

(کشتیوں کا سمندروں میں چلنا) اس آیت کریمہ میں (فُلُک ) سے مراد جہاز او رکشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی او راللہ تعالی نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کئے اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی۔پھر اس نے ا س بحر بے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کردیا جو سمندروں میں اموالِ تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھر تی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔

وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انہیں الہام کی او ران کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کئے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے برّی اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال واسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟

کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہوگئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انہیں وجود میں لائی ہے۔جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالی نے اسے قدرت عطا کی پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا، یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جوحکمت  اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی او رکوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرا فگندہ ہیں اور نحیف ونزار بندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سر انجام پاتے ہیں، یہ چیز اللہ تعالی کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف ، امید ، ہر قسم کی اطاعت ، تذلل وانکسار اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔

(آسمان سے پانی اتار ا) اس سے مراد وہ باش ہے جو بادل سے برستی ہے۔( اور  مردہ زمین کو زندہ کردیا) زمین نے مختلف قسم کی خوراک او رنباتات ظاہر کیں جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔کیا یہ اس ذات کی قدرت واختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین میں مختلف چیزیں پیدا کیں؟کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف وکرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں ؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الہ صرف اللہ تعالی ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالی مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟

(اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دیا) یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے ، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کوانسانوں کے لیے مسخر کردیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانور ان کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔اللہ تعالی نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے ہیں۔وہی ان کے رزق کا انتظام کرتاہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔زمیں پر چلنے پھر نے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالی پر ہیں ۔ وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی۔

(ہواؤں کے رخ بدلنے میں)یعنی ٹھنڈی ، گرم، شمالی وجنوی، شرقی وغربی اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں باد ل اٹھاتی ہیں کبھی یہ بادلوں کو اکھٹا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو باردار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑ کر انہیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالی کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔

کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت  کئے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کر دیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی  اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم او رنہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف وکرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل او رعاجزی کا اظہار کیا جائے ، اسی سے محبت ، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔

آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے ہوئے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالی جہا ں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو  زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔جب بارش کی کثرت انہیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔وہ بندوں پر لطف وکرم کے طور پر بارش برساتا ہے او راپنی رحمت وشفقت سے بارش کو ان سے رو ک لیتا ہے۔اس کا غلبہ کتنا بڑا ، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور ا س کا احسان کتنا لطیف ہے!!۔کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے رزق سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالی کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالی کے حلم وصبر، عفو ودرگزراور اس کے عظیم لطف وکرم کی دلیل نہیں؟ اول وآخر اور ظاہر وباطن اللہ تعالی ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور وفکر او رانوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرےگا، اور اللہ کی  کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان او رحکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں جتنا زیادہ غور وفکر کرے گا۔تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالی کی  ذات،  وحدانیت اور یو م آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالی کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر او رتصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کر سکتی ۔تجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے۔اس کے سوا کوئی الہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔                             

شیخ سعدی رحمہ اللہ کا قول ختم ہوا۔

 صاحب عقل وخرد کے کان میں سرگوشی

اے عقل وخرد کے مالک مرد وزن! آپ کےسامنے یہ واضح ہوگیا کہ یہ وسیع وعریض کائنات بغیر کسی خالق ومدبر پروردگار کے  اتفاقاً وجود میں آکر اس بے مثال نظام کے مطابق جاری وساری نہیں ہوسکتی ،  جب یہ واضح او رعیاں ہوگیا تو ہمارے اوپر یہ واجب ہوتا ہے کہ ہم اس عظیم پروردگار پر ایمان لائیں جس نے اپنی ذات او رصفات کی بارے میں ہمیں قرآن عظیم کے اندر خبر دی ہے، نیز یہ بھی واجب ہوتاہے کہ ہم اس کی کما حقہ عبادت کریں، کیوں کہ وہی تمام تر عبادتوں کا مستحق ہے۔



 ([1])  اسے بخاری (۱۳۵۹) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 ([2])  اس سلسلے میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ الزہرانی کی کتاب: "إبداع الخالق فی نظم خلقہ دلیل على وحدانیتہ" کا مطالعہ کریں‘ ناشر: دار التوحید-ریاض

 ([3])  الدَّہری-دال کے فتحہ اور تشدید کے ساتھ-سے مراد: وہ ملحد ہے جو یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا‘ الدُّہری-دال کے ضمہ اور تشدید کے ساتھ- سے مراد : وہ شخص ہے  جو عمر دراز ہو۔ دیکھیں: لسان العرب‘ مادۃ: دھر

 ([4])  سُمَنِّیۃ: ہندوستان کی ایک ملحد اور دہریہ قوم ہے‘ جوہری کہتے ہیں: یہ بت پرستوں کا ایک فرقہ ہے‘ جو تناسخ ارواح کا قائل ہے اور خبروں کے ذریعہ حصول علم کا منکر ہے۔ دیکھیں: لسان العرب‘ مادۃ: سمن

 ([5])  ان کی کنیت ابو نواس ہے۔

 ([6])  ان اشعار کو شہاب الدین احمد الأبشیہی نے اپنی کتاب: "المستطرف فی کل فن مستظرف" (ص۳۷۴) میں ذکر کیا ہے‘ ناشر: دار الکتب العلمیۃ-بیروت‘ طباعت: اول‘ سنہ ۱۴۱۳ھ

 ([7])  اسے بخاری نے مختلف مقامات پر روایات کیا ہے‘ دیکھیں: حدیث نمبر (۴۸۵۳) اور (۴۰۲۳)

 ([8])  اسے بخاری (۱۰۱۹) اور مسلم (۸۹۷) نے روایت کیا ہے۔

 ([9])  "تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان"۔