بسم الله الرحمن الرحيم
بے شک ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں، اُسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کے تمام شرور اور اپنے اعمال کی تمام برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ تعالی ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔آپ پررب کی بہت زیادہ رحمت اورسلامت نازل ہو۔
حمد وصلاۃ کے بعد: اللہ تعالی نے دنیا والوں کے پاس اپنے رسولوں کو بھیجا، تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالی پر نہ رہ جائے۔ نیز ہدایت وراستی، رحمت، نور اور شفا کے طور پر کتابیں نازل فرمائی۔ گزشتہ امتوں میں تمام نبیوں کو بطور خاص ان کی قوموں کی جانب مبعوث کیا جاتا تھا اور ان کی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ان کو ہی دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں نیست ونابود ہوگئیں اور ان کی شریعتوں میں تحریف وتبدیلی در آئی، کیوں کہ وہ ایک خاص قوم اور متعین مدت کے لئے نازل ہوئی تھیں۔
لیکن اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی کہ انہیں خاتم الانبیاء والرسل بنایا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "(اے لوگو( محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ تو اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں"([1])۔
اللہ نے آپ کو سب سے افضل آسمانی کتاب سے سرفراز فرمایا، جوکہ قرآن مجید ہے۔ اللہ پاک نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اپنے اوپر لی اور اس کی حفاظت کا کام مخلوق پر نہیں چھوڑا۔ فرمایا: "ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں "([2])۔
اللہ تعالی نے آپ کی شریعت کو قیامت تک کے لئے باقی رکھا۔ اللہ پاک نے بیان فرمایا کہ آپ کی شریعت کی بقا کے لئے یہ لازم ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی طرف دعوت دی جائے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کیا جائے۔ چنانچہ محمد ﷺ اور آپ کے بعد آپ کے متبعین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ یقین اور اعتماد کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دی جائے۔ اللہ تعالی نے اس منہج اور طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "آپ کہہ دیجیے کہ میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ، پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں([3])۔"
نیز اللہ تعالی نے آپ کو راہ الہی میں پیش آنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرنے کا بھی حکم دیا۔ فرمان باری تعالی ہے: "(اے پیغمبر!) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا([4])"۔
اور دوسری جگہ اللہ جلّ ذكره نے فرمایا: "اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم مراد کو پہنچو"([5])۔
اللہ کے اسی عمدہ طریقہ کار کی اتباع کرتے ہوئے میں نے یہ کتاب تالیف کی، تاکہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی روشنی میں راہ الہی کی طرف دعوت دینے کا فریضہ ادا ہوسکے۔ اس کتاب كے اندر میں نے مختصر انداز میں کائنات کی تخلیق، انسان کی پیدائش اور اس کی عزت وتکریم، رسولوں کی بعثت اور سابقہ ادیان کے حالات قلم بند کئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اسلام کا معنی ومفہوم بیان کیا ہے اور اس کے ارکان کی وضاحت کی ہے۔ چنانچہ جو شخص ہدایت کا خواستگار ہو، اس کے سامنے ہدایت کی دلیلیں اور رہنمائیاں موجود ہیں اور جو شخص نجات کا طلبگار ہو اس کے لئے میں نے راستہ واضح کردیا ہے۔ لہذا جو شخص انبیا ورسل کے نقش قدم پر چلنا چاہے، )وہ جان لے کہ( یہی ان کا راستہ ہے۔ اور جو شخص انبیا ورسل کے راستے سے روگردانی کرے وہ اپنے نفس کے ساتھ مذاق کرتا اور گمراہی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
ہر ملت کے پیروکار لوگوں کو اس ملت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام ملتوں کی بجائے حق اسی ملت میں منحصر ہے اور ہر عقیدے کے ماننے والے لوگوں کو اپنے قائد ورہبر کے عقیدے کی اتباع کرنے اور ان کی تعظیم کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
لیکن مسلمان اپنے راستے کی پیروی کرنے کی دعوت نہیں دیتا، کیوں کہ اس کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہوتا۔ اس کا دین اللہ کا دین ہے، جسے اللہ نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "بےشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے" ([6]) ۔
وہ کسی انسان کی تعظیم کرنے کی بھی دعوت نہیں دیتا، کیوں کہ دین الہی میں تمام انسان برابر ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اگر ہے تو تقوی کی بنیاد پر ہے۔ مسلمان لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے رب کے راستے پر چلیں، اس کے رسوں پر ایمان لائیں، اس کی شریعت کی پیروی کریں جسے اللہ نے خاتم الرسل محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے اور تمام انسانوں تک اسے پہنچانے کا حکم دیا ہے۔
اسی مقصد کے پیش نظر میں نے یہ کتاب تحریر کی ہے، تاکہ اللہ کے اس دین کی طرف دعوت دی جاسکے، جسے اللہ نے اپنے لئے پسند کیا اور خاتم الرسل کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ نیز اس مقصد کے لئے کہ ہدایت کے خواستگواروں اور سعادت کے طلبگاروں کی رہنمائی ہوسکے۔ اللہ کی قسم! کوئی بھی مخلوق اس دین کے سوا کہیں بھی سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتی اور نہ اللہ کو رب، محمد ﷺ کو نبی اور اسلام کو دین تسلیم کرنے والوں کے سوا کسی اور کو حقیقی اطمینان وسکون نصیب ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ -عہد رفتہ اور دور جدید میں- اسلام کی ہدایت پانے والے ہزاروں خوش نصیبوں نےاس بات کی شہادت دی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی وہ حقیقی زندگی سے آشنا ہوسکے اور اسلام کے سایے میں ہی انہیں سعادت وخوش بختی کی حلاوت محسوس ہوئی۔ چونکہ ہر انسان سعادت کا جویا، اطمینان وسکون کا متلاشی اور حقیقت کا خواستگار ہوتا ہے، اسی لئے میں نے یہ کتاب ترتیب دی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کاوش کو اپنی رضا کے لئے خالص کرے، اسے اپنی راہ کا داعی بنائے، اسے شرف قبولیت سے نوازے اور اسے نیک عمل میں شمار فرمائے، جس سے اس کے کرنے والے کو دنیا وآخرت میں فائدہ پہنچتا رہے۔
میری طرف سے اس کتاب کو ہر زبان میں شائع کرنے اور ترجمہ کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ ترجمہ نگاری میں امانت داری کا پاس ولحاظ رکھا جائے۔
نیز میں یہ امید کرتا ہوں کہ جس شخص کے پاس بھی اس کتاب کے عربی نسخہ یا اس کے کسی ترجمہ کے تعلق سے کوئی تبصرہ یا اضافہ ہو، تو درج ذیل پتے پر مجھے ضرور ارسال کریں گے۔
ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے آغاز وانتہا میں، ظاہر وباطن میں، پوشیدہ اور علانیہ طور پر، دنیا اور آخرت میں۔ اسی کے لئے تعریف ہے آسمان بھر اور زمین بھر اور ہمارا پالنہار جو بھی چاہے، اس کے برابر۔ اللہ تعالی، ہمارے نبی محمد، آپ کے صحابہ اور قیامت تک آپ کے راستے پر جلنے والوں پر بہت زیادہ رحمت اور سلامتی نازل فرمائے۔
مؤلف
ڈاکٹر محمد بن عبد اللہ بن صالح السحیم
ریاض 13/10/1420ھ
ص.ب 1032 رياض 1342
نیز ص.ب 6249 رياض 11442
جب انسان کی عمر اور عقل بڑھتی ہے تو اس کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔ جیسے کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ میں کیوں آیا ہوں؟ اور میری آخری منزل کہاں ہے؟ مجھے اور میرے اردگرد کی اس کائنات کو کس نے پیدا کیا؟ اس کائنات کا مالک اور مدبر کون ہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات۔
انسان بذات خود ان سوالوں کے جواب سے واقف نہیں ہو سکتا اور نہ جدید سائنس کو ان کے جوابات تک رسائی حاصل ہے، کیوں کہ یہ مسائل دین کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کے تعلق سے مختلف قسم کی ایسی حکایتیں، خرافات اور قصے کہانیاں روایت کی جاتی ہیں کہ جن سے انسان کی حیرت اور بے قراری مزید بڑھ جاتی ہے۔ ان سوالوں کے شافی وکافی جواب سے واقف ہونا انسان کے لئے ناممکن ہے، الا یہ کہ اللہ تعالی اسے اس دین حق کی ہدایت عطا کرے، جو ان تمام سوالات اور )ان جیسے( دیگر تمام سوالوں کے تعلق سے فیصلہ کن جواب دیتا ہے۔ کیوں کہ ان مسائل کا تعلق غیبی امور سے ہے اور دین حق ہی وہ دین ہے جو حق اور راست گوئی کا حامل ہے، اس لئے کہ وہی اللہ کا واحد دین ہے، جسے اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی طرف اتارا ہے۔ لہذا انسان پر یہ لازم ہے کہ دین حق کی جستجو کرے، اسے سیکھے اور اس پر ایمان لائے، تاکہ اس کی حیرانگی دور ہوسکے، شکوک وشبہات کے بادل چھٹ جائیں اور وہ راہ مستقیم کی ہدایت سے سرفراز ہوسکے۔
درج ذیل صفحات کے ذریعہ میں آپ کو اللہ کی راہِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہوں اور آپ کے سامنے راہِ مستقیم کے بعض دلائل وبراہین پیش کر رہا ہوں، تاکہ آپ غیر جانبدارانہ طور پر ان میں غور وفکر کریں۔
کفار ایسے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں جو مخلوق ہیں اور (خود انسانوں کے ہاتھوں سے( تراشے ہوئے ہیں۔ جیسے درخت، پتھر اور انسان۔ اس لئے یہود ومشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کی صفت کیا ہے اور وہ کس چیز سے مرکب ہے، تو اللہ تعالی نہ یہ آیتیں نازل فرمائیں: "آپ کہہ دیجیے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک )ہی( ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے"([7])۔
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے سامنے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا: "بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا۔ وه رات سے دن کو ایسے چھپا دیتا ہے کہ رات دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو، اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ، جو تمام عالم کا پروردگار ہے"([8])۔
نیز عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا: "اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر مستوى ہوا۔ اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے۔ وہی کام کی تدبیر کرتا ہے۔ وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو۔ ترجمہ: اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دیا ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں۔ اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیے ہیں۔ وه رات کو دن سے چھپا دیتا ہے"۔آگے اس آیت تک ملاحظہ فرمائیں: "ماده اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے، اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے۔ ظاہر وپوشیده کا وه عالم ہے۔ )سب سے( بڑا اور )سب سے) بلند وبالا ([9])"۔ دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "آپ پوچھیے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجیے کہ اللہ۔ کہہ دیجیے کہ کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو، جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہہ دیجیے کہ کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتا ہے؟ یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہو سکتی ہے؟ کیا جنہیں یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے بھی اللہ کی طرح مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی نظر میں پیدائش مشتبہ ہوگئی ہو؟ کہہ دیجیے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے، وه اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے"۔ ([10])
اللہ پاک نے اپنی نشانیوں کو بندوں کے لئے گواہ اور دلیل بنایا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "دن رات اور سورج چاند بھی )اسی کی( نشانیوں میں سے ہیں۔ تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو، جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے۔ ... اس اللہ کی نشانیوں میں سے )یہ بھی( ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں، تو وه تر وتازه ہوکر ابھرنے لگتی ہے. جس نے اسے زنده کیا, وہی یقینی طور پر مُردوں کو بھی زنده کرنے واﻻ ہے. بے شک وه ہر چیز پر قادر ہے"۔ ([11])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "اس )کی قدرت( کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف )بھی( ہے۔ دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔ اور اس کی )قدرت کی( نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں ہے اور اس کے فضل )یعنی روزی( کو تمہارا تلاش کرنا بھی ہے"۔ ([12])
اللہ تعالی نے اپنی ذات کو حسن وجمال اور عظمت وکمال کے اوصاف سے متصف فرمایاہے۔ فرمان الہی ہے: "اللہ )وہ معبود برحق ہے کہ( اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ زندہ ہے )اور( ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام جیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جتنا وہ چاہے"۔([13]) نیز ارشاد ہے: "گناه کا بخشنے واﻻ اور توبہ کا قبول فرمانے واﻻ، سخت عذاب واﻻ، انعام و قدرت واﻻ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے"۔ ([14]) دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "وہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاه، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے واﻻ، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی واﻻ۔ پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں"۔ ([15])
یہ حکمت وقدرت والا معبود وپالنہار، جس نے اپنے بندوں کے سامنے اپنا تعارف پیش کیا، ان کے لئے اپنی نشانیوں کو گواہ اور دلیل بنا دیا، اپنی ذات کو عظمت وکمال کے اوصاف سے متصف فرمایا، اس کے وجود، اس کی ربوبیت اور الوہیت پر نبوی شریعت، عقل انسانی، بشری فطرت اور اسی طرح اجماعِ امم دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ دلائل ذیل میں ذکر کئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی کے وجود اور اس کی ربوبیت کے دلائل حسب ذیل ہیں:
اے انسان! تجھے اس عظیم کائنات نے اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے، جو آسمانوں، ستاروں، اجرام فلکیہ اور پھیلی ہوئی )کشادہ( زمین سے عبارت ہے، جس کے مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے لگتے لگاتے ہیں۔ اس زمین میں ہر قسم کے پھل اور تمام مخلوقات کے جوڑے دوہرے دوہرے ہیں۔ یہ کائنات بذات خود وجود میں نہیں آئی، بلکہ ضروری ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی خالق ہو۔ کیوں کہ وہ اپنی تخلیق خود نہیں کرسکتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس نے اس کائنات کو اس بے مثال نظام کے ساتھ پیدا کیا، اس خوبصورتی کے ساتھ اسے مکمل کیا اور دیدہ وروں کے لئے آیت ونشانی بنادیا؟ یقینا وہ اللہ واحد وقہار کی ذات ہے، جس کے سوا کوئی پالنہار نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "کیا یہ بغیر کسی )پیدا کرنے والے( کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں"([16])۔
یہ دو آیتیں تین سوالات پر مشتمل ہیں:
۱- کیا لوگ بغیر کسی خالق کے خود بخود وجود میں آگئے ہیں؟
۲- کیا انہوں نے خود اپنی تخلیق کی ہے؟
۳- کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟
جب وہ بغیر کسی خالق کے از خود وجود میں نہیں آئے، نہ انہوں نے خود کو پیدا کیا اور نہ ہی وہ آسمان وزمین کے خالق ہیں، تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک خالق کے وجود کا اقرار کرنا ضروری ہے، جس نے انہیں اور آسمان وزمین کو پیدا کیا۔ وہ (خالق) اللہ واحد وقہار کی ذات ہے۔
مخلوق کی فطرت میں خالق کے وجود کا اقرار ودیعت ہے اور یہ کہ وہ خالق ہر ایک چیز سے بڑا، عظیم اور کامل ہے۔ یہ شعور انسانی فطرت میں علم ریاضیات کے اصول ومبادی سے بھی زیادہ پختہ انداز میں راسخ ہے، جو کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ الا یہ کہ اس کی فطرت میں تبدیلی در آئی ہو اور وہ ایسے حالات سے دوچار ہو جنہوں نے اسے فطری حقائق کو تسلیم کرنے سے روک دیا ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "یہ اللہ تعالی کی وہ فطرت ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔ اللہ تعالی کی تخلیق میں رد وبدل نہیں ہوتا۔ یہی سیدھا دین ہے۔"([17])
اور آپ ﷺ نے فرمایا: "ہر بچہ فطرت )اسلام( پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ جیسا کہ جانور صحیح سالم عضو والا بچہ جنتا ہے۔ کیا تم ان میں کوئی کان کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "یہی اللہ تعالی کی وہ فطرت ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔ اللہ کی تخلیق میں رد وبدل نہیں ہوتا([18])"۔
نبی ﷺ کا مزید ارشادِ گرامی ہے: "سنو! میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان باتوں کی تعلیم دوں جو تمہیں معلوم نہیں اور اللہ تعالی نے آج مجھے ان کا علم عطا کیا ہے۔ )اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ( ہر مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا، حلال ہے۔ میں نے اپنے تمام بندوں کو )حق کے لیے( یکسو پیدا کیا ہے۔ پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انہیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا، اسے ان کے لیے حرام کردیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں، جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی([19])([20])"۔
تمام قدیم وجدید امتوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک وساجھی نہیں ہے، جیسا کہ پاک وبرتر پروردگار کی بادشاہت میں کوئی شریک وساجھی نہیں ہے۔
کسی بھی سابقہ امت کے بارے میں یہ منقول نہیں کہ وہ اس بات کا عقیدہ رکھتی تھی کہ اس کے معبود آسمان وزمین کی تخلیق میں اللہ کے شریک ہیں، بلکہ سابقہ امتوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں اور ان کے معبودوں کو پیدا کیا ہے۔ چنانچہ اللہ کے سوا نہ کوئی خالق ہے اور نہ کوئی رازق۔ ہر قسم کا نفع ونقصان اللہ پاک کے ہی ہاتھ میں ہے۔ مشرکین اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرتے تھے، اس بات کی اطلاع دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین وآسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے واﻻ کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ۔ پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے۔ اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالیٰ نے۔ آپ کہہ دیں کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، بلکہ ان میں سے اکثر بے عقل ہیں([21])"۔ دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا، تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا )اللہ( نے ہی پیدا کیا ہے"([22])([23])۔
انسانی عقول کے لئے اس بات کے اقرار سے کوئی مفر نہیں کہ اس کائنات کا ایک عظیم خالق ہے، کیوں کہ عقل کائنات کو ایک وقوع پزیر مخلوق کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور یہ تسلیم کرتی ہے کہ اس نے خود اپنی تخلیق نہیں کی اور ہر مخلوق کے لئے ایک خالق کا پایا جانا ضروری ہے۔
انسان یہ جانتا ہے کہ اسے مختلف قسم کے بحران اور پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور جب انسان ان مصائب کو دور کرنے سے عاجز ہوتا ہے، تو اس کا دل آسمان کی طرف متوجہ ہوجاتا اور اپنے پرودگار سے مدد کی فریاد کرتا ہے، تاکہ پالنہار اس کا حزن وملال دور کردے اور اس کے سر سے غم کے بادل چھٹ جائیں۔ اگرچہ وہ عام حالات میں اپنے پروردگار کے وجود کا انکار ہی کیوں نہ کرتا ہو، پھر بھی )جب ایسی صورت حال درپیش ہوتی ہے تو( یہ فطری ضرورت ظاہر ہوکر رہتی ہے۔ اسے ٹالا نہیں جا سکتا، بلکہ اس کا اقرار امر لازمی ہے۔ حتی کہ جانور کو بھی جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے، تو وہ بھی اپنا سر اور اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی اس فطری خصلت کی خبر دی ہے کہ جب بھی اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو وہ فورا ہی اپنے رب کی طرف رجوع کرتا اور دعا کرتا ہے کہ اس تکلیف کو دور کر دے۔ فرمان باری تعالی ہے: "انسان کو جب کبھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو وه خوب رجوع ہو کر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرمادیتا ہے، تو وه اس سے پہلے جو دعا کرتا تھا، اسے )بالکل( بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شریک مقرر کرنے لگتا ہے"([24])۔
اللہ نے مشرکوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "وه اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وه کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وه لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں، تو ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وه سمجھتے ہیں کہ )برے( آ گھرے، )اس وقت( سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچالے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو بچالیتا ہے، تو فوراً ہی وه زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو! یہ تمہاری سرکشی تمہارے لیے وبال ہونے والی ہے۔ دنیاوی زندگی کے (چند) فائدے ہیں، پھر ہمارے پاس تم کو آنا ہے۔ پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو بتلادیں گے"([25])۔
نیز عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا: "جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں، تو وه )نہایت( خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وه )باری تعالیٰ( انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے، تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں"([26])۔
یہ معبود جس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا، انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، اس کی فطرت میں اپنی بندگی کا اقرار اور اس کے سامنے خود سپردگی کو ودیعت کردیا، انسانی عقول نے اس کی ربوبیت والوہیت کا اعتراف کیا، جس کی ربوبیت کے اقرار و اعتراف پر تمام اقوام وملل کا اجماع رہا ہے... ضروری ہے کہ وہ معبود اپنی ربوبیت اور الوہیت میں یکتا اور منفرد ہو۔ چنانچہ جس طرح اس کی تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں، اسی طرح اس کی الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک وساجھی نہیں۔ اس کے دلائل بہت سے ہیں، جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
۱- اس کانئات میں صرف ایک ہی معبود برحق ہے، جو خالق اور رازق ہے اور وہی ہر قسم کے نفع ونقصان کا مالک ہے۔ اگر اس کائنات میں کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اس کا بھی اپنا عمل، تخلیق اور فیصلہ ہوتا اور دونوں میں کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرا اس کا شریک وساجھی ہو۔ ([27]) نیز ان میں سے کوئی ایک ضرور دوسرے کو مغلوب اور زیر کردیتا۔ ایسے میں مغلوب کے لیے معبود بننا ناممکن ہے۔ جو غالب ہے وہی معبود برحق ہے۔ اس کی الوہیت میں کوئی شریک وساجھی نہیں، جیسا کہ اس کی ربوبیت میں کوئی شریک وساجھی نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ اور کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔ جو اوصاف یہ لوگ بتلاتے ہیں ان سے اللہ پاک )اور بےنیاز( ہے"([28])۔
۲- تمام تر عبادتوں کا مستحق صرف وہ اللہ ہے، جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ کیوں کہ انسان اسی معبود کا تقرب حاصل کرتا ہے، جو اس کو فائدہ پہنچاتا ہے، اسے نقصان سے دور رکھتا ہے اور ہر قسم کے شرور وفتن سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان تمام امور کو وہی ذات انجام دے سکتی ہے، جو آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کی مالک ہے۔ اگر اس کے ساتھ دوسرے بھی معبود ہوتے جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں، تب بھی بندے اسی اللہ کی عبادت کے راستے پر چلتے جو بادشاہِ حقیقی ہے۔ کیوں کہ یہ تمام معبودان باطلہ بھی اللہ کی ہی عبادت کرتے اور اسی کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ اس لیے جو شخص اس ذات کا تقرب حاصل کرنا چاہے، جس کے ہاتھ میں نفع ونقصان کی ملکیت ہے، اسے چاہیے کہ اس معبود حقیقی کی عبادت کرے جس کی عبادت آسمان وزمین کی تمام مخلوقات کرتی ہیں، بشمول ان معبودان باطلہ کے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کہہ دیجیے کہ اگر اللہ کے ساتھ اور معبود بھی ہوتے، جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو ضرور وه اب تک مالکِ عرش کی جانب راه ڈھونڈ نکالتے"([29]) ۔
جو شخص حق و راستی کا جویا ہو، اسے چاہئے کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھے: "کہہ دیجیے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو۔ نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذره کا اختیار ہے، نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت (سفارش( بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لئے اجازت ہوجائے"([30])۔
یہ آیتیں چار امور کے ذریعہ غیر اللہ سے دل کی وابستگی کو توڑتی ہیں، جو کہ یہ ہیں:
پہلا: یہ شرکا اللہ کے ساتھ ایک ذرہ کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور جو شخص ایک ذرہ کا بھی مالک نہ ہو، وہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے، نہ نقصان اور نہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ معبود بنے یا اللہ کا شریک ہو۔ اللہ ہی ان تمام لوگوں کا مالک ہے اور وہی تن تنہا ان پر تصرف رکھتا ہے۔
دوسرا: وہ آسمان و زمین میں سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی آسمان وزمین میں ایک ذرہ کے برابر بھی ان کو شرکت حاصل ہے۔
تیسرا: مخلوقات میں سے کوئی بھی اللہ کا معاون ومددگار نہیں ہے، بلکہ اللہ ہی خیر وبھلائی کے کاموں میں ان کی مدد کرتا اور نقصان کو ان سے دور کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ ان سے حد درجہ بے نیاز ہے اور وہ سب کے سب اپنے پروردگار کے ضرورت مند اور محتاج ہیں۔
چوتھا: ان شرکا کو اللہ تعالی کے نزدیک اپنے متبعین کے حق میں سفارش کا اختیار نہ ہوگا، نہ ہی انہیں سفارش کی اجازت دی جائے گی۔ اللہ پاک صرف اپنے اولیا کو سفارش کی اجازت مرحمت فرمائے گا اور اولیا بھی صرف ان لوگوں کے حق میں سفارش کریں گے، جن کے قول وعمل اور عقیدے سے اللہ راضی ہوگا۔ ([31])
۳- امورِ کائنات کا محکم اور منظم ہونا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس کا مدبر ایک اللہ، ایک مالک، ایک پروردگار ہے، جس کے سوا مخلوق کا نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی پروردگار۔ چنانچہ جس طرح اس کائنات کا دو خالق ہونا ناممکن ہے، اسی طرح دو معبود ہونا بھی محال ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اگر آسمان وزمین میں سوائے اللہ تعالی کے اور بھی معبود ہوتے، تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے"([32])۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے، تو یہ دونوں درہم برہم ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہوتا، تو اس سے یہ لازم آتا کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنی رائے، حکم اور تصرف کو نافذ کرنے کی قدرت حاصل ہوتی، جس کے نتیجے میں اختلاف اور نزاع پیدا ہوتا اور انجام کار )نظام کائنات میں( بگاڑ پیدا ہوجاتی([33])۔
جب جسم کے لیے یہ محال ہے کہ دو مساوی روحوں سے اس کی تدبیر ہو اور اگر ایسا ہوا تو جسم ہلاک وبرباد ہوجائے گا، اس لئے یہ ناممکن ہے، تو بھلا کائنات کے تعلق سے اس کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے، جوکہ )جسم سے( کہیں زیادہ بڑا ہے([34])؟
۴- اس پر انبیا و رسل کا اجماع:
تمام اقوام وملل کا اس پر اجماع ہے کہ انبیا ورسل لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند، سب سے زیادہ پاک طینت، افضل ترین اخلاق کے حامل، رعایا کے تئیں سب سے زیادہ خیر خواہ، مراد الہی کے سب سے زیادہ جانکار، راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر سب سے زیادہ گامزن ہوتے ہیں، کیوں کہ انہیں اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے، جسے وہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام سے لے کر سب سے آخری نبی محمد ﷺ تک تمام انبیا و رسل اس بات پر متفق تھے کہ اپنی قوموں کو اللہ پر ایمان لانے، اس کے سوا ہر ایک کی عبادت کو ترک کرنے اور اللہ کو معبود برحق تسلیم کرنے کی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا، اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔ ([35])
اللہ جل ثناؤہ نے نوح علیہ السلام کے تعلق سے یہ بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا: "کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے"۔([36])
نیز اللہ پاک نے اپنے آخری نبی محمد ﷺ کے تعلق سے بھی بیان فرمایا کہ آپ نے اپنی قوم سے کہا : "کہہ دیجیے، میرے پاس تو بس وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے۔ تو کیا تم بھی اس کی فرماں برداری کرنے والے ہو"؟([37])
وہ معبود، جس نے عدم سے اس کائنات کو بے مثال انداز میں وجود بخشا، انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا اور اس کی عزت وتکریم کی، اس کی فطرت میں اللہ کی ربوبیت والوہیت کا اقرار ودیعت کردیا، اس کے دل کی حالت ایسی کردی کہ جب تک وہ اپنے خالق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن نہ ہو تب تک اسے سکون وقرار نہ ملے، اس کی روح پر یہ واجب کردیا کہ جب تک وہ اپنے خالق کی طرف رجوع نہ کرے اور اس سے اپنا رشتہ استوار نہ کرے تب تک اسے اطمینان نہ ملے، جب کہ خالق سے رشتہ استوار کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اس راہ مستقیم پر چلا جائے جس کی رہنمائی اللہ کے معزز رسولوں نے کی، نیز اللہ نے اسے ایسی عقل سے نوازا جو اس وقت تک حیران وسرگرداں اور پوری طرح اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے عاجز ولاچار رہے گی۔ جب تک کہ وہ اپنے پروردگار پر ایمان نہ لے آئے۔
جب فطرت راہ مستقیم پر قائم ہو، روح میں اطمینان وسکون ہو، دل میں راحت وقرار ہو اور عقل اللہ پر ایمان رکھتی ہو، تب انسان دنیا وآخرت کی سعادت، سکون وقرار اور امن واطمینان سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اگر انسان راہ مستقیم کا انکار کرے، تو وہ دنیا کی وادیوں میں حیرانی وسراسیمگی کی زندگی گزارتا ہے، دنیا کے معبودان باطلہ کے درمیان چکریں کاٹتا رہتا ہے، اسے پتہ نہیں ہوتا کہ کون اسے نفع پہنچا سکتا اور کون اس سے نقصان دور کر سکتا ہے۔ دل میں ایمان کو جاگزیں کرنے اور کفر کی شناعت کو واضح کرنے کے لئے اللہ تعالی نے ایک مثال پیش کی ہے۔ کیوں کہ مثال سے معنی ومفہوم ذہن میں اتر جاتا ہے۔ اس مثال میں اللہ نے اس شخص کا موازنہ جو مختلف معبودوں کے درمیان سرگرداں رہتا ہے، اس شخص سے کیا ہے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: "اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے۔ ایک وه شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں اور دوسرا وه شخص جو صرف ایک ہی کا )غلام( ہے۔ کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ سمجھتے نہیں"۔ ([38]) اللہ تعالی، موحد اور مشرک بندہ کے لیے ایسے غلام کی مثال پیش کرتا ہے، جس کے مالک بہت سے باہم ضد رکھنے والے شرکا ہیں، جو اس کے تعلق سے باہم دست وگریباں ہیں اور وہ غلام ان کے درمیان قسطوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اسے کسی چیز کی رہنمائی کرتا اور کسی بات کا حکم دیتا ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ وہ ان کے درمیان سرگرداں ہے۔ کسی ایک راستے پر قائم نہیں رہ پاتا اور نہ اس کے بس میں ہے کہ ان تمام ساجھی داروں کی باہم ضد رکھنے والی مختلف النوع خواہشات کو پوری کرسکے، جو اس کے رجحانات اور قوتوں کو پسپا کردیتی ہیں! اس کے برخلاف ایک ایسا غلام ہے، جو صرف ایک آقا کی ملکیت میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا آقا اس سے کن چیزوں کا مطالبہ کرتا اور اسے کن باتوں کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک واضح راستے پر راحت وسکون کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ یہ دونوں غلام برابر نہیں ہوسکتے، کیوں کہ یہ صرف ایک آقا کا تابع فرمان ہوتا اوراستقامت، معرفت اور یقین کی راحت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ جب کہ وہ غلام باہم ضد رکھنے والے مختلف آقاؤں کا تابع فرمان ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ عذاب اور بے قراری میں مبتلا ہوتا ہے۔ کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی خوش نہیں کرپاتا، چہ جائیکہ ہر ایک کو خوش کرسکے۔
جب میں نے اللہ تعالی کے وجود، اس کی ربوبیت اور الوہیت کے دلائل واضح کردیے، تو بہتر ہوگا کہ کائنات اور انسان کی تخلیق سے بھی ہم واقف ہوں اور اس میں مضمر اللہ کی حکمت تلاش کریں۔
اللہ پاک و برتر نے اس کائنات کو بشمول آسمان و زمین، ستارے، اجرام فلکیہ، سمندر، درخت اور تمام حیوانات کے، عدم سے وجود میں لایا۔ فرمان باری تعالی ہے: "آپ کہہ دیجیے کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو، جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی؟ سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اوراس میں برکت رکھ دی اوراس میں )رہنے والوں کی( غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی )صرف( چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں )سا( تھا۔ پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے۔ دونوں نے عرض کیا کہ ہم بخوشی حاضر ہیں۔ پس دو دن میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی۔ یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے"۔ ([39])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا؟ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیے، تاکہ وه مخلوق کو ہلا نہ سکے اور ہم نے اس میں کشاده راہیں بنا دیں، تاکہ لوک راستہ حاصل کریں۔ آسمان کو محفوظ چھت بھی ہم نے ہی بنایا ہے۔ لیکن لوگ اس کی قدرت کے نمونوں پر دھیان نہیں دھرتے"۔ ([40])
اس کائنات کو اللہ تعالی نے ایسی عظیم حکمتوں کے پیش نظر پیدا کیا کہ انہیں شمار میں لانا ممکن نہیں۔ اس کے ہر ایک حصہ میں بڑی بڑی حکمتیں اور خیرہ چشم نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ اگر آپ کائنات کی صرف ایک نشانی پر غور کریں گے تو آپ پر حیرت انگیز نتائج کا انکشاف ہوگا۔ پیڑ پودے میں اللہ تعالی کی عجیب وغریب کاریگری پر غور کریں کہ جس کا ہر پتہ، ہر شریان اور ہر پھل ایسے فوائد پر مشتمل ہوتا ہے کہ انسانی عقلیں ان کی تفصیلات کا احاطہ کرنے سے عاجز ہیں۔ نیز آپ غور کریں کہ ان نہایت باریک اور کمزور وناتواں شریانوں میں کس طرح پانی سرایت کر جاتا ہے، جن کو بمشقت تمام ہی ہماری آنکھیں دیکھ پاتی ہیں؟ کس طرح یہ نیچے سے پانی کو اوپر کھینچ لیتی ہیں؟ پھر ان شریانوں کی وسعت اور گنجائش کے بقدر پانی منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پھر یہ شریانیں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتیں، مختلف شاخوں میں تبدیل ہوجاتیں اور اتنی باریک ہوجاتی ہیں کہ ہماری آنکھیں دیکھ بھی نہیں پاتی ہیں۔ اسی طرح آپ غور کریں کہ کس طرح درخت کا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے؟ بالکل اسی طرح جیسے جنین ہماری نگاہوں کے اوٹ میں ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ جب کہ آپ کی نظر میں وہ صرف ایک لکڑی ہوتی ہے، جس کے اوپر کوئی کپڑا اور خول نہیں ہوتا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس کا پالنہار اور خالق اسے پتیوں کا بہترین لباس پہنا دیتا ہے۔ پھر اس میں اس کے کمزور وناتواں اپج کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ اس کی حفاظت کے لئے اور اس کمزور پھل کے لئے لباس اور خول کے طور پر اس کی پتی کو نکال چکا ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعہ گرمی، سردی اور آفتوں سے بچاؤ حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالی ان پھلوں تک ان کی روزی اور غذا ان کے تنوں اور شریانوں کے ذریعہ پہنچاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے اپنی غذا لیتے ہیں، جس طرح بچہ ماں کے دودھ سے اپنی غذا لیتا ہے۔ پھر وہ اس کی نشو ونما کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مکمل تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر وہ اس بے سوراخ لکڑی سے لذیذ اور نرم پھل نکالتا ہے۔
آپ اگر زمین اور اس کی خلقت پر غور کریں گے، تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کی عظیم نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اللہ پاک نے زمین کو بچھونا اور فرش بنایا اور اسے بندوں کے لئے پست اور مطیع کردیا۔ اس میں ان کی روزیاں، غذائیں اور سامانِ زیست پیدا کردیا۔ اس میں راستے بنائے تاکہ وہ اپنی ضرورتوں کے لئے اس میں منتقل ہوتے رہیں۔ اس میں پہاڑوں کو مضبوطی سے گاڑ دیا اور زمین کی حفاظت کے لئے انہیں میخیں بنادیا، تاکہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔ اس کے کناروں کو کشادہ کرکے اسے ہموار بنادیا، اسے پھیلایا اور بچھایا۔ نیز اس نے زمین کو زندوں کو اٹھانے والی بنایا، جنہیں وہ اپنی پشت پر اٹھائے رکھتی ہے اور اسے مردوں کو بھی سمیٹنے والی بنایا جنہیں وہ ان کے مرنے کے بعد اپنے شکم میں سمیٹ لیتی ہے۔ اس طرح اس کی پشت زندوں کا مسکن اور اس کا شکم مردوں کا ٹھکانا ہے۔ پھر آپ اس آسمان پر غور کریں جو سورج، چاند، ستاروں اور بُرجوں کے ساتھ چکر لگا رہا ہے۔ وہ کس طرح مسلسل آخری وقت تک اس ترتیب اور تنظیم کے ساتھ اس کائنات کا چکر لگأ تا رہا ہے؟ نیز دن و رات کے پھرنے، مختلف موسموں اور گرمی وسردی کے آنے جانے )پر بھی غور کریں( اور اس کے اندر روئے زمین کے مختلف جانوروں اور پیڑ پودوں کے لئے جو مصلحت اور فائدے مضمر ہیں )ان پر بھی غور کریں(۔
پھر آپ آسمان کی تخلیق پر غور کریں۔ بار بار اس پر اپنی نگاہ دوڑائیں۔ آپ پائیں گے کہ وہ اپنی رفعت وبلندی، وسعت وکشادگی اور اپنے ٹھہراؤ میں ایک عظیم ترین نشانی ہے۔ چنانچہ نہ اس کے نیچے کوئی ستون ہے اور نہ اس کے اوپر کوئی تاننے والی چیز ہے (جس نے اسے تان رکھا ہو)۔ بلکہ وہ اس اللہ کی قدرت کے ذریعہ اپنی جگہ پر تھمی ہوئی ہے، جو آسمان وزمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں۔
اگر آپ اس کائنات، اس کے اجزا کی ترتیب اور اس کے بہترین نظم ونسق پر غور کریں گے، تو پائیں گے کہ یہ نظام خالق کائنات کے کمالِ قدرت، کمالِ معرفت، کمالِ حکمت، کمالِ لطف وکرم پر دلالت کرتا ہے۔ آپ پائیں گے کہ یہ آسمان اس گھر کی طرح ہے جسے تمام آلات، سہولیات اور ضروی ساز وسامان کی فراہمی کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہو۔ چنانچہ آسمان (اس گھر کے( کے اوپر بلند چھت کی طرح ہے۔ زمین ہموار، بچھونا اور فرش کی طرح ہے، جو اپنے مکینوں کی جاے قرار ہے۔ سورج اور چاند اس گھر کو روشن کرنے والی قندیلیں ہیں۔ ستارے اس کی زیب وزینت کو چار چاند لگانے والے چراغ ہیں، جو اس گھر کے راستوں میں چلنے پھرنے والوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کے دامن میں پوشیدہ جواہرات اور )سونے چاندی جیسے قیمی دھاتوں کی( کان تیار شدہ ذخیروں کی طرح ہیں۔ زمین کی ہر ایک چیز اس گھر کی مصلحت اور فائدے کے لئے ہے۔ مختلف قسم کے پیڑ پودے اس کی ضروریات کے لئے رونما کئے گئے ہیں۔ نوع بنوع کے جانور اس کی مفادات کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ جانور سواری کے کام آتے ہیں، کچھ دودھ دیتے ہیں، کچھ غذا بنتے ہیں، کچھ لباس کا ذریعہ ہوتے ہیں اور کچھ نگرانی ونگہبانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اس زمین پر مجاز بادشاہ بنایا ہے، جو اپنے افعال وکردار اور احکام واوامر کے ذریعہ اس میں تصرف کرتا ہے۔
اگر آپ اس پوری کائنات یا اس کے کسی ایک حصہ پر غور کریں گے، تو آپ کو اس میں عجیب وغریب (کاریگری( نظر آئے گی۔ اگر آپ کائنات میں کما حقہ غور وفکر کریں گے، اپنی ذات کے ساتھ انصاف کریں گے، خواہشات نفس اور تقلید کا قلادہ اتار کر دیکھیں گے، تو آپ کو یقین کامل ہوجائے گا کہ یہ کائنات ایک مخلوق ہے، جسے حکمت وقدرت اور علم ومعرفت والے پالنہار نے پیدا کیا ہے۔ اس نے اس کا خوب بہتر اندازہ لگایا اور اسے بہترین نظم ونسق سے سجایا۔ یہ ناممکن ہے کہ خالق دو ہوں، بلکہ معبود حقیقی تو صرف ایک ہے، جس کے سوا کوئی بھی معبود نہیں۔ اگر آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا، تو اس کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور اس کی ساری مصلحتیں معطل ہوجاتیں۔
اگر آپ اب بھی اس تخلیق کو اس کے خالق کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کرنے پر مصر ہیں، تو آپ اس چرخی کے بارے میں کیا کہیں گے، جو نہر کے اوپر گھومتی ہے۔ اس کے آلات مضبوطی سے بنائے گئے ہیں، اسے نہایت پختگی کے ساتھ جوڑا گیا ہے، اس کے آلات کا نہایت خوبصورتی سے اندازہ لگایا گیا ہے، بایں طور کہ کسی کو اس کے اجزائے ترکیبی اور شکل وصورت میں کوئی خلل اور کمی نہیں نظر آتی۔ پھر اسے ایک بڑے باغیچے میں رکھ دیا گیا، جس میں ہر قسم کے پھل ہیں، جنہیں وہ بقدر ضرورت سینچتا رہتا ہے۔ اس باغیچے کا ایک مالی ہے، جو اسے کاٹتا چھانٹتا ہے، اس کی بہتر انداز میں دیکھ ریکھ کرتا ہے، اس کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے، اس باغیچے کی کوئی چیز نہ خراب ہوتی ہے اور نہ اس کے پھل برباد ہوتے ہیں۔ پھر جب پھل ٹوٹتا ہے، تو سبھوں کے درمیان ان کی ضرورتوں کے بقدر تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر صنف کو اس کے شایان نوازا جاتا ہے۔ یہ تقسیم ہمیشہ جاری وساری رہتی ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا اتفاقا ہو گیا؟ بغیر کسی خالق، مختار اور مدبر کے؟ کیا وہ چرخی اور باغیچہ دونوں اتفاقا وجود میں آگئے؟ یہ سب بغیر کسی فاعل ومدبر کے از خود وقوع پزیر ہوگیا؟ اگر ایسا از خود ہوگیا ہوتا، تو آپ کی عقل کیا کہتی؟ آپ کو کیا سجھاؤ دیتی؟ اور کس راہ کی طرف آپ کی راہنمائی کرتی؟ ([41])
اس کائنات کی تخلیق میں غور وفکر کرنے اور )اس کے کشادہ گوشوں میں( گردش کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض ایسی حکمتوں کا ذکر کریں, جن کے پیش نظر اللہ تعالی نے یہ عظیم کائنات اور خیرہ چشم نشانیاں وجود میں لائیں:
۱- کائنات کو انسان کے تابع کرنا : جب اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس روئے زمین پر جانشیں بنائے گا، جو زمین پر اس کی عبادت کرے گا اور اسے آباد رکھے گا، تو اس کی خاطر پوری کائنات کی تخلیق فرمائی، تاکہ اس کی زندگی کی بہتری کے ساز وسامان فراہم ہو سکیں اور اس کی دنیا وآخرت سنور سکے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کردیا ہے"۔ ([42])
دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اللہ وہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برساکر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کر دی ہیں۔ اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے۔ اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے"۔ ([43])
۲- آسمان وزمین اور کائنات کی ہر ایک مخلوق کا اللہ کی ربوبیت کی گواہ اور اس کی وحدانیت کے نشانی بننا: اس لیے کہ اس دنیا میں سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا جائے اور اس کی وحدانیت پر ایمان لایا جائے۔ چونکہ یہ سب سے بڑی چیز ہے، اس لئے اس پر عظیم ترین گواہ اور بڑی سے بڑی نشانیاں قائم کیں اور بلیغ ترین دلائل پیش کئے۔ چنانچہ اللہ پاک نے آسمان وزمین اور دیگر تمام مخلوقات کو پیدا کیا، تاکہ یہ سب اس پر گواہ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ یہ الفاظ آئے ہیں: "اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے"۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے: "اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش بھی ہے"۔ "اس کی )قدرت کی( نشانی تمہاری راتوں اور دن کی نیند میں بھی ہے"۔ "اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ )بھی( ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امیدوار بنانے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے"۔ "اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں"۔ ([44])
۳- بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے( پر گواہ بنانا: چوں کہ زندگی در اصل دو ہے۔ ایک دنیا کی زندگی اور دوسری آخرت کی زندگی۔ اور آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے۔ البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ کاش! یہ جانتے ہوتے"۔ ([45])
اس لیے کہ وہ جزا وسزا اور حساب وکتاب کی زندگی ہے، جس میں جنتیوں کو ہمیشگی کی نعمت ملے گی اور جہنمیوں کو ہمیشگی کا عذاب ملے گا۔
چوں کہ اس زندگی تک انسان اسی وقت پہنچے گا، جب وہ لقمۂ اجل بن جائے گا اور پھر موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے ہر وہ شخص اس زندگی کا انکار کرتا ہے، جو اپنے پالنہار سے بے تعلق ہوچکا ہے، اس کی فطرت تبدیل ہوچکی ہے اور عقل بگڑ چکی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے دلائل وبراہین قائم کئے، تاکہ انسانی نفوس دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائیں اور دل میں اس کا یقین پیدا ہوجائے۔ چوں کہ مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنا اسے پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے، بلکہ آسمان وزمین کی تخلیق انسان کو دوبارہ پیدا کرنے سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "وہی ہے، جو مخلوق کو اول بار پیدا کرتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے"۔ ([46])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "آسمان وزمین کی پیدائش یقینا انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے"۔ ([47])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اللہ وه ہے، جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر مستوى هوا۔ اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے۔ وہی کام کی تدبیر کرتا ہے۔ وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو"۔ ([48])
جب یہ کائنات آپ کی خاطر مسخر کی گئی ہے، اس کی نشانیاں گواہ کے طور پر قائم ودائم ہیں اور آپ کی نگاہوں کے سامنے یہ شہادت دے رہی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں۔ جب آپ جان چکے ہیں کہ مرنے کے بعد آپ کو دوبارہ زندہ کرنا آسمان وزمین کی تخلیق سے بھی زیادہ آسان ہے اور آپ اپنے پالنہار سے ملنے والے ہیں، جو آپ کے تمام اعمال کا حساب لینے والا ہے۔ جب آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ یہ پوری کائنات اپنے پالنہار کی عبادت میں محو ہے، اس کی تمام تر مخلوقات اپنے پروردگار کی حمد وثنا بیان کر رہی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وه غالب باحکمت ہے"۔ ([49])
اور یہ تمام مخلوقات اللہ کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ جیسا کہ پاک پروردگار کا ارشاد ہے: "کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجده میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی۔ ہاں بہت سے وه بھی ہیں جن پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی ہے"۔ ([50])
بلکہ یہ کائنات اپنے پالنہار کے لیے اس کی شایان شان انداز میں نماز بھی پڑھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ عزیز وبرتر کا فرمان ہے: "کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرندے اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں؟ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے"۔ ([51])
جب آپ کا جسمانی نظام اللہ کی تقدیر اور تدبیر کے مطابق چلتا ہے، جس کے نتیجے میں آپ کا دل، آپ کے پھیپڑے، جگر اور سارے اعضا اپنے پروردگار کے تابع ہیں اور زمامِ کار اپنے رب کے سپرد کئے ہوئے ہیں، تو بھلا )یہ سب جاننے کے باوجود بھی( آپ کا وہ اختیاری فیصلہ، جس میں آپ کو اپنے رب پر ایمان لانے اور اس کے ساتھ کفر کرنے کا اختیار ہے، وہ فیصلہ آپ کے ارد گرد کی کائنات بلکہ آپ کے جسم کی اس مبارک روش سے روگردانی اور انحراف پر مبنی ہوگا؟
یقینا پختہ عقل وخرد کا حامل انسان اپنے لئے یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس عظیم اور وسیع وعریض کائنات کی روش سے انحراف اور روگردانی کی راہ اختیار کرے۔
اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کائنات کی آبادکاری کے لئے اس کے شایان شان مخلوق پیدا کرے۔ چنانچہ انسان ہی یہ مخلوق قرار پایا۔ اللہ پاک کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ مادہ جس سے انسان کو پیدا کیا جائے وہ مٹی ہو۔ چنانچہ اس کی تخلیق کا آغاز مٹی سے کیا۔ پھر اسے اس خوبصورت شکل وصورت سے آراستہ کیا، جس میں انسان نظر آتا ہے۔ جب وہ اپنی شکل وصورت میں مکمل ہوگیا، تو اللہ تعالی نے اس میں اپنی روح پھونکی، جس سے انسان بہترین صورت میں کان اور آنکھ سمیت، حرکت کرتا اور بولتا ہوا نمودار ہوا۔ پھر اس کے رب نے اسے اپنی جنت میں بسایا۔ اسے ہر ضروری چیز کا علم عطا کیا، جنت کی ہر نعمت کو اس کے لئے مباح قرار دیا۔ البتہ آزمائش اور امتحان کے طور پر صرف ایک درخت سے منع فرمایا۔ اللہ تعالی نے اس کے مقام ومرتبہ کو نمایاں کرنا چاہا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کا سجدہ کریں۔ چنانچہ تمام فرشتے سجدہ ریز ہوگئے، سوائے ابلیس کے۔ وہ تکبر اور سرکشی کے سبب سجدہ کرنے سے باز رہا۔ حکم الہی کی نافرمانی کی وجہ سے رب تعالی اس پر غضبناک ہوا اور اسے اپنی رحمت سے دور کردیا، کیوں کہ اس نے رب کے سامنے تکبر وبڑائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ابلیس نے اپنے رب سے یہ مطالبہ کیا کہ اس کی عمر دراز کرے اور قیامت تک اسے مہلت دے۔ چنانچہ اس کے رب نے اس کی عمر دراز کردی اور قیامت تک اسے مہلت عطا کی۔ جب اللہ تعالی نے آدم اور اس کی نسل کو شیطان پر فوقیت وبرتری عطا کی، تو شیطان آدم سے حسد کرنے لگا۔ اس نے اپنے رب کی قسم کھا کر کہا کہ وہ تمام بنی نوع آدم کو گمراہ کرے گا اور ان پر حملہ کرے گا۔ ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی )تاکہ انہیں گمراہی کا شکار بنا سکے(۔ البتہ اللہ کے مخلص، سچے اور متقی بندے اس سے مستثنی رہی گے، جنہیں اللہ شیطان کی سازش اور مکاری سے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالی نے آدم کو شیطان کی سازش سے متنبہ فرمایا۔ شیطان نے آدم اور ان کی بیوی حوا کے دلوں میں وسوسہ ڈالا، تاکہ انہیں جنت سے باہر نکال دے اور ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں، دونوں کے روبرو کھول دے۔ وہ ان کے سامنے قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ نے تمہیں اس درخت سے محض اس لئے منع کیا ہے، تاکہ تم دونوں کہیں فرشتے نہ ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔
چنانچہ )شیطان کے فریب میں آکر( انہوں نے اس درخت (کا پھل( کھا لیا، جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا۔ حکم الہی کی مخالفت کی سب سے پہلی سزا انہیں یہ ملی کہ دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو کھل گئیں۔ اللہ نے انہیں یاد دلایا کہ اس نے انہیں شیطان کی سازش سے متنبہ کیا تھا۔ چنانچہ آدم اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے۔ اللہ نے ان کو معاف کردیا، ان کی توبہ قبول فرمائی، انہیں پھر سے نوازا، ہدایت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ جنت، جہاں وہ سکونت پزیر تھے، سے نکل کر زمین پر جا بسیں کہ وہی ان کی جائے قرار ہے اور اسی میں ایک متعین مدت تک ان کا سامانِ زیست ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بتایا کہ اسی زمین سے ان کو پیدا کیا گیا ہے، اسی پر ان کو زندگی گزرانا ہے، اسی میں ان کی موت ہوگی اور اسی سے انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
چنانچہ آدم اپنی بیوی حوا کے ساتھ زمین پر آبسے، ان دونوں سے نسلیں چل پڑیں، جو آدم کی رہنمائی کے مطابق اللہ کی عبادت کرتی تھیں، کیوں کہ آدم ایک نبی تھے۔
اللہ تعالی نے ہمیں اس واقعہ کی مفصل خبر دی ہے۔ چنانچہ پاک پروردگار کا فرمان ہے: "اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو۔ سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالی نے کہا کہ جب میں نے تجھے حکم دیا، تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ کہنے لگا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے خاک سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمان سے اتر، تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں ره کر تکبر کرے، سو نکل، بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ اس نے کہا کہ مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھ کو مہلت دے دی گئی۔ اس نے کہا کہ چوں کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے، اس لیے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا۔ جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا، میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا۔ اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ، ورنہ تم دونوں ﻇالموں میں سے ہوجاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈاﻻ تاکہ ان کی شرمگاہیں، جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں، دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے محض اس وجہ سے منع کیا ہے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانو، میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں۔ سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا۔ پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا، تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کہ کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ دونوں نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا، تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور ایک وقت تک نفع حاصل کرنے کی مہلت ہے۔ فرمایا کہ تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے"۔ ([52])
آپ غور کریں کہ اس انسان کے اندر اللہ کی کتنی بڑی کاریگری پنہاں ہے؟ اس نے اسے بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا اور عزت وکرامت کی تمام خصلتوں سے اسے آراستہ کیا۔ چنانچہ عقل وخرد، علم ومعرفت، زبان وبیان، قوت گویائی، بہترین شکل وصورت، شریفانہ ہیئت اور معتدل جسم سے نوزا، استدلال اور غور وفکر کے ذریعہ اکتساب علم کا جوہر اس میں پیدا کیا، خیر وبھلائی اور اطاعت وتابع داری جیسے فاضلانہ اور شریفانہ اخلاق سے خود کو مزین کرنے کا ہنر عطا کیا۔ آپ سوچیں کہ اس کی وہ حالت جب کہ وہ مادر رحم کے اندر نطفہ کی شکل میں تھا اور اس حالت میں کتنا فرق ہے، جب جناتِ عدن میں فرشتے )استقبال اور ضیافت کے لئے( اس کے پاس داخل ہوں گے۔ "برکتوں واﻻ ہے وه اللہ، جو سب سے بہترین صورت گرى اور اندازہ کرنے واﻻ ہے"۔ ([53])
دنیا ایک گاؤں ہے، انسان اس کا باشندہ ہے، تمام مخلوقات اس کی خاطر داری میں مصروف اور اس کی مصلحت برآری میں کوشاں ہیں اور پوری کائنات اس کی خدمت اور اس کی ضروریات کی تکمیل پر مامور ہے۔ چنانچہ جو فرشتے )اس کی حفاظت پر( مامور ہیں، وہ رات ودن اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں، جو فرشتے بارش برسانے اور پودوں کی نگہبانی کرنے پر مامور ہیں، وہ اس کی روزی کے لئے سرگرداں رہتے ہیں، عالم افلاک مسخر اور تابع ہے اور اس کی مصلحتوں کو بروئے عمل لانے کے لئے ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ سورج، چاند اور ستارے بھی مسخر ہیں اور انسان کے اوقات کی ترتیب اور اس کی غذا کی فراہمی کے اعتبار سے )اپنے اپنے مدار پر( سرگرداں ہیں۔ فضائی دنیا کو بھی انسان کے تابع کردیا گیا ہے، بشمول اس کی ہواؤں، بادلوں، پرندوں اور اس میں ودیعت کردہ تمام تر مخلوقات کے۔ اسی طرح عالم سفلی بھی انسان ہی کے لئے مسخر ہے۔ اسی کے مفادات کی خاطر اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی زمین، اس کے پہاڑ، سمند اور نہریں، درخت اور پھل، پیڑ پودے، حیوانات اور اس میں موجود دیگر مخلوقات انسان ہی کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اللہ وه ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی ہیں۔ اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے۔ اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے"۔ ([54])
انسان کی عزت وتکریم کا درجۂ کمال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے لئے وہ تمام آسائشیں پیدا کیں، جن کی اسے دنیوی زندگی میں ضرورت ہوسکتی ہے اور اخروی زندگی میں بلند وبالا مقام سے سرفراز ہونے کے لئے جن وسائل کی ضرورت پڑ سکتی ہے، وہ تمام وسائل بھی پیدا کئے۔ چنانچہ اس کے لیے کتابیں نازل کیں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا، جو اس کے سامنے اللہ کی شریعت کو کھول کھول کر بیان کرتے اور اسے اللہ کی دعوت دیتے تھے۔
پھر اس کی فطری یعنی نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کیے پیش نظر خود اس کی )یعنی آدم کی( جنس سے بیوی پیدا کی، تاکہ وہ اس سے آرام پائے۔ چنانچہ وہ اس سے راحت وسکون، اطمینان و قرار پاتا ہے اور میاں بیوی ازدواجی زندگی کی اجتماعیت میں سکون و قرار، یکسوئی، مودت اور رحمت محسوس کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان دونوں کے جسم، نفسیات اور اعصاب کی ترکیب میں یہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہشات کی تکمیل دوسرے میں ہو اور دونوں کے باہمی ملاپ سے نئی نسل وجود میں آئے۔ یہ جذبات واحساسات ان دونوں کے دلوں میں ودیعت کر دیے گئے ہیں۔ نیز اس رشتہ میں دل اور اعصاب کے لئے سکون، جسم اور جگر کے لئے راحت، زندگی اور حیات کے لئے قرار، روح اور ضمیر کے لئے انسیت اور مرد وعورت کے لیے یکساں طور پر امن واطمینان مضمر رکھا گیا ہے۔
تمام بنی نوع انسانی میں سے اللہ نے مؤمنوں کو خاص طور پر منتخب فرمایا اور انہیں اپنی ولایت سے سرفراز کیا، انہیں اپنی اطاعت وفرماں برداری کے لئے استعمال کیا، جو اس کی شریعت کے مطابق سرگرم عمل رہتے ہیں، تاکہ جنت میں اپنے پروردگار کی ہمسائیگی کے اہل ہوسکیں۔ مؤمنوں میں سے بھی ولیوں، شہیدوں، انبیا اور رسل کو منتخب فرمایا اور انہیں اس دنیا کی عظیم ترین نعمت سے بہہرہ ور فرمایا، جوکہ اللہ کی عبادت واطاعت اور اس کی سرگوشی ومناجات ہے۔ نیز انہیں ایسی بیش بہا نعمتوں سے نوازا جو ان کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتیں۔ ان نعمتوں میں امن وامان، سکون واطمینان اور سعادت وخوش بختی سر فہرست ہیں۔ ان تمام نعمتوں سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس حق سے روشناس ہوتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں، جس کے ساتھ رسولوں کو مبعوث کیا گیا۔ ساتھ ہی اللہ پاک نے اپنے جود وکرم کے شایان شان اخروی زندگی میں ان کے لئے ہمیشگی کی نعمت اور بڑی کامیابی تیار کر رکھی ہے، جس کے ذریعہ انہیں ان کے ایمان اور اخلاص کا بدلہ عطا فرمائے گا۔
اسلام میں عورت کو وہ بلند وبالا مقام ومرتبہ دیا گیا ہے، جو سابقہ کسی ملت میں نہیں دیا گیا اور نہ بعد میں آنے والی کوئی قوم عورت کو وہ مقام دے سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو جس عزت وکرامت سے سرفراز کیا ہے، اس میں مرد و زن برابر کے شریک ہیں۔ چنانچہ تمام حضرات وخواتین اس دنیا کے اندر احکام الہی کے یکساں مخاطب ہیں اور اخروی زندگی میں جزا وسزا کے اعتبار سے بھی برابر ہوں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "یقیناً ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی ہے"۔ ([55])
نیز عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا: "ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی"۔ ([56])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں، جیسے ان پر مردوں کے ہیں، اچھائی کے ساتھ"۔ ([57])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "مؤمن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے )مددگار ومعاون اور( دوست ہیں"۔ ([58])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر اسی طرح رحم کر، جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"۔ ([59])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، میں ہر گز ضائع نہیں کرتا"۔ ([60])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "جو شخص کوئی نیک کام کرے، خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن )بھی( ہو، تو ہم اس کو )دنیا میں( پاک )اور آرام کی( زندگی بخشیں گے اور (آخرت میں( اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے"۔ ([61])
نیز عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا: "جو ایمان واﻻ ہو مرد ہو یا عورت اور وه نیک اعمال کرے، یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا"۔ ([62])
یہ عزت وتکریم جو اسلام میں عورت کو حاصل ہے، اس کی مثال کسی دوسرے دین و ملت یا قانون وآئین میں نہیں ملتی۔ رومی تہذیب نے یہ اقرار کیا ہے کہ عورت مرد کی باندی بن کر رہے گی، اسے مطلق طور پر کسی بھی طرح کے حقوق نہیں دیے جائیں گے۔ روم کے اندر خواتین کے مسائل پر بحث وتحقیق کے لئے ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس نے یہ قرار داد پاس کیا کہ عورت ایک بے روح مخلوق ہے۔ اسی لئے وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گی۔ ساتھ ہی اس کا وجود بھی ناپاک ہے۔
(یونانی دار الحکومت( اتھینس میں عورت کو معمولی ساز وسامان کی حیثیت دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے اس کی خرید وفروخت ہوتی اور اسے نجاست اور شیطانی کام )کا نتیجہ( شمار کیا جاتا تھا۔
ہندوستان کے قدیم ادیان میں یہ تصور قائم تھا کہ وبا، موت، جہنم، سانپ کا زہر اور آگ، یہ سب عورت سے بہتر ہیں۔ اسے زندہ رہنے کا حق اسی وقت تک ہے، جب تک کہ اس کا شوہر با حیات ہے۔ اس کا شوہر جو در اصل اس کا آقا ہوتا ہے، اس کے مرتے ہی اس کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب عورت اپنے شوہر کی لاش کو نذرِ آتش ہوتے ہوئی دیکھتی، تو خود بھی اس آگ میں کود جاتی، ورنہ اس پر لعنت وملامت کی بوچھار ہونے لگتی۔
جہاں تک یہودی مذہب میں عورت کے مقام ومرتبہ کی بات ہے، تو عہد نامہ قدیم میں اس کے تعلق سے درج ذیل حکم آیا ہے: " میں اپنے دل سمیت سرگرداں اور کوشاں رہا کہ حکمت ودانائی اور عقل وخرد کی معرفت حاصل ہو اور اس کی تلاش وجستجو کرسکوں، شر اور برائی کو جان سکوں کہ وہ جہالت ونادانی ہے، حماقت کو پہچان سکوں کہ وہ جنون اور دیوانگی ہے، تو میں نے پایا کہ موت سے بھی زیادہ تلخ عورت ہے، اس کا دل جال اور پھندا ہے اور اس کے ہاتھ بیڑیاں ہیں"۔ ([63])
گزشتہ زمانے میں عورت کی یہ حیثیت تھی۔ عہد وسطی اور دور جدید میں اسے جو حیثیت حاصل تھی اور ہے، اس کی وضاحت درج ذیل واقعات سے ہوتی ہے:
ڈنمار کے مؤلف نے عورت کے تئیں کیتھولک چرچ کے نظریے اور رویے سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا ہے: "عہد وسطی کے دوران یورپی خواتین پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے پس پردہ کیتھولک مذہب کا رویہ کار فرما تھا، جو عورت کو دوسرے درجہ کی مخلوق شمار کرتا تھا"۔ سنہ 586ء میں فرانس کے اندر ایک میٹینگ منقعد ہوئی، جس میں عورت کے تعلق سے اس موضوع پر بحث ہوئی کہ آیا اسے انسان شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بحث ومباحثہ کے بعد شرکاے میٹینگ نے یہ طے کیا کہ عورت انسان تو ہے، لیکن مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ فرانسیسی آئین کے آرٹیکل ۲۱۷ میں درج ذیل عبارت ثبت ہے: "شادی شدہ عورت، خواہ اس کی شادی اس بنیاد پر ہی کیوں نہ ہوئی ہو کہ اس کی ملکیت اس کے شوہر کی ملکیت سے الگ ہوگی، کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنی ملکیت (میں سے ہدیہ اور تحفہ کے طور پر کچھ( کسی کو کچھ دے، اپنی ملکیت کو )کسی دوسرے کی طرف( منتقل کرے اور اسے گروی رکھے، اپنے شوہر کی شرکت یا تحریری اجازت کے بغیر کسی چیز کی مالک بنے، خواہ وہ ملکیت کسی عوض کے ذریعہ ہو یا بغیر عوض کے"۔
انگلینڈ میں ہینری ہشتم (Henry VIII) نے انگلینڈ کی عورت پر کتاب مقدس کو پڑھنا حرام کر دیا تھا۔ سنہ 1850ء تک خواتین کو (اس ملک کا( باشندہ شمار نہیں کیا جاتا تھا اور ۱۸۸۲ء تک اسے کوئی بھی شخصی حق حاصل نہ تھا۔([64])
یورپ اور امریکہ جیسے صنعتی ملکوں میں دور حاضر کی خواتین کی صورت حال یہ ہے کہ اسے ایک ذلیل اور ہیچ مخلوق شمار کیا جاتا ہے، جسے تجارتی اغراض ومقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اشتہاری مہمات کا ایک حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ بلکہ اس کی حالت اس قدر خستہ ہوچکی ہے کہ تجارتی مہمات کے دوران اس کے جسم کو پورے طور پر ننگا کرکے اس پر سامان تجارت کی نمائش کی جاتی ہے، اس کے جسم اور عزت کی نیلامی کو مردوں کے وضع کردہ نظام اور قانون نے جائز قرار دیا ہے، تاکہ وہ ہر جگہ مردوں کے لئے محض سامان راحت وتفریح بن کر رہ جائے۔
وہ اسی وقت تک توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے، جب تک کہ وہ اپنے اعضا وجوارح، سوچ وفکر یا جسم کے ذریعہ فائدہ پہنچانے اور (کما کر( نوازنے پر قادر ہوتی ہے۔ لیکن جب اس کی عمر ڈھل جاتی اور کمانے اور نوازنے کی صلاحیت کافور ہوجاتی ہے، تو سماج کے سارے افراد اور ادارے اس سے دامن کش ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے گھر میں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی یا نفسیاتی شفا خانوں میں زیر علاج رہتی ہے۔
آپ اس کا موازنہ قرآن کریم کی ان تعلیمات سے کیجیے، جب کہ ان دونوں میں یکسانیت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "مؤمن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور( دوست ہیں"۔ ([65])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں، جیسے ان پر مردوں کے ہیں، اچھائی کے ساتھ"۔ ([66])
نیز اللہ عزیز وبرتر نے فرمایا: "تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا، بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ اور رحمت ومہربانی کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر اسی طرح رحم کر جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے"۔ ([67])
جب اللہ نے عورت کو عزت وتکریم کے اس مقام پر فائز کیا، تم تمام بنی نوع انسانی کے سامنے یہ وضاحت بھی کی کہ اللہ نے اسے اس لئے پیدا کیا ہے، تاکہ وہ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کا کردار ادا کرے اور اس کی خاطر ایسے احکام وقوانین مشروع کئے، جو مرد کی بجائے صرف عورت کے ساتھ خاص ہیں۔
اس کے پس پردہ اللہ کی اتنی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ ہماری عقلیں انہیں جاننے اور ہماری زبانیں ان کی تفصیل بیان کرنے سے عاجز ہیں۔ درج ذیل نکات کی روشنی میں ہم ایسی ہی بعض حکمتوں کو معرض تحریر میں لانے جا رہے ہیں:
۱- اللہ پاک کے بہت سے خوبصورت نام ہیں اس کے اسماے گرامی میں الغفور )بہت بخشنے والا(، الرحیم )نہایت مہربان(، العفوّ (بہت معاف کرنے والا( اور حلیم )نہایت بردبار( سرفہرست ہیں۔ ان اسماے گرامی کے اثرات کا ظاہر ہونا بھی ضروری تھا۔ اس لئے اللہ پاک کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ آدم اور ان کی نسل ایک ایسی دنیا میں جا بسیں، جہاں اس کے خوب صورت ناموں کے اثرات نمایاں ہوں۔ چنانچہ وہ جسے چاہے معاف کرے، جس پر چاہے رحم فرمائے، جسے چاہے درگزر کردے اور جس پر چاہے اپنی بردباری کا مظاہرہ کرے۔ ان اثرات کے علاوہ اس کے اسما وصفات کے دیگر اثرات بھی ظاہر وباہر ہوسکیں۔
۲- اللہ پاک بادشاہِ حقیقی ہے اور )حقائق کو( ظاہر کرنے والا ہے۔ بادشاہ وہ ہوتا ہے، جو حکم دیتا، منع کرتا، جزا وسزا دیتا اور ذلت وعزت کا اختیار رکھتا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کی بادشاہت کا تقاضہ ہوا کہ آدم کو ان کی نسل سمیت ایسی دنیا میں بسائے، جہاں بادشاہ کے احکام نافذ ہوسکیں۔ پھر ان کو ایسی دنیا میں واپس منتقل کردے، جہاں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔
۳- اللہ پاک نے ان میں سے اپنے انبیا ورسل، اولیا اور شہدا کو منتخب فرمایا، تاکہ وہ ان سے محبت کرے اور وہ اس سے محبت کریں۔ چنانچہ ان کے درمیان اور اپنے دشمنوں کے درمیان راہ ہموار کردی اور ان کے ذریعہ انہیں آزمائش میں مبتلا کیا۔ جب انہوں نے اللہ کو ترجیح دی اور اس کی خوش نودی اور محبت کی خاطر جان ومال کو قربان کردیا، تو انہیں اللہ کی وہ محبت، خوش نودی اور قربت حاصل ہوئی کہ جسے اس جاں نثاری وفداکاری کے بغیر حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ معلوم ہوا کہ رسالت ونبوت اور شہادت اللہ کے نزدیک افضل ترین مقامات میں سے ہیں۔ انسان اس مقام ومرتبہ کو اللہ کے مقدر کردہ اس طریقے کے بغیر حاصل نہیں کرسکتا تھا کہ آدم اور ان کی نسل کو زمین پر اتارا جائے۔
۴- اللہ پاک نے آدم اور ان کی نسل کو ایسی چیز سے پیدا کیا، جو خیر اور شر دونوں کے قابل ہے اورجو خواہش اور فتنہ، عقل اور علم کا تقاضہ کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے اس میں عقل اور خواہش کو پیدا کیا اور ان دونوں کو اپنے تقاضوں کی طلب کرنے والا ذریعہ بنا دیا، تاکہ اس کی مراد پوری ہوسکے اور وہ اپنے بندوں کے سامنے اپنی حکمت میں اپنی عزت وشوکت اور عظمت وطاقت کا اور اپنی حکومت اور بادشاہت میں اپنے لطف وکرم، جود وسخا اور رحمت ومودت کا اظہار کر سکے۔ چنانچہ اللہ کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ آدم اور ان کی نسل کو زمین پر اتارے، تاکہ امتحان وآزمائش کا مرحلہ طے ہوسکے اور ان اسباب و وجوہات کے تئیں انسان کی تیاری اور انہیں قبول کرنے کے اثرات نمایاں ہوسکیں اور پھر اس کے مطابق اسے جو عزت وتکریم ملتی یا ذلت وتوہین کا سامنا ہوتا ہے، )اس کے اثرات بھی دیکھے جاسکیں(۔
۵- اللہ پاک نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا، ان کی تخلیق کا یہی مقصد ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور میں نے جن وانس کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں"۔ ([68]) یہ معلوم سی بات ہے کہ مخلوق سے جس کامل عبادت کا مطالبہ کیا گیا ہے، وہ نعمت اور دائمی بقا والے گھر میں نہیں، بلکہ ابتلا و آزمائش والی اس فانی دنیا میں ہی پوری ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ باقی رہنے والا گھر تو لذت اور نعمت سے لیس ہوگا۔ اس میں امتحان وآزمائش اور تکلیف ومشقت کا کوئی سامان نہ ہوگا۔
۶- ایمان بالغیب )غیبی امور پر ایمان لانا( ہی وہ ایمان ہے، جو انسان کو نفع پہنچاتا ہے۔ رہی بات نظر سے دیکھ کر ایمان لانے کی، تو قیامت کے دن ہر شخص ایمان لے آئے گا۔ اگر انسانوں کو نعمتوں والے گھر (جنت) میں پیدا کیا جاتا، تو وہ ایمان بالغیب کےاس مقام پر فائز نہیں ہوسکتے تھے، جس کے بعد ایسی لذت وکرامت حاصل ہوگی، جو ایمان بالغیب کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انہیں اس دنیا میں اتارا، جہاں انہیں غیبی امور پر ایمان لانے کا موقع دستیاب ہے۔
۷- اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پوری زمین کی ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا۔ زمین میں اچھی مٹی بھی ہے اور بری بھی، سخت مٹی بھی ہے اور نرم بھی۔ اللہ پاک جانتا تھا کہ آدم کی نسل میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے، جو اس کے پڑوس میں اس کے گھر (جنت ) میں رہنے کے قابل ہی نہیں ہوں گے۔ چنانچہ انہیں ایسے گھر میں اتارا، جہاں سے اچھے اور برے کو نکالا تھا۔ پھر اللہ پاک نے دو گھروں (جنت اور جہنم( کے ذریعہ ان دونوں کو الگ کردیا: اچھے لوگوں کو اپنا پڑوسی بنایا اور اپنے پڑوس میں بسایا اور برے لوگوں کو بد طینت لوگوں کے ساتھ شقاوت کے گھر میں ٹھہرایا۔
۸- اس کے پیچھے اللہ کا یہ مقصد نہاں تھا کہ اس کے وہ بندے، جن پر اللہ نے انعامات کیے، وہ اللہ کے کمالِ نعمت اور اس کی قدر ومنزلت کو جان لیں، تاکہ اللہ سے محبت رکھنے اور اس کا شکر ادا کرنے میں سب سے اعلى درجہ پر فائز رہیں اور اللہ نے انہیں جن نعمتوں سے سرفراز کیا ہے، ان سے خوب خوب لطف اٹھائیں۔ نیز اللہ پاک نے انہیں یہ بھی دکھایا کہ اس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور ان کے لئے کیسا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ انہیں یہ بھی دکھایا کہ ان کے لئے بطور خاص اللہ نے کس قسم کی اعلی ترین نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، تاکہ ان کا مشاہدہ کرکے ان کی فرحت ومسرت فزوں تر ہوجائے، ان کا رشک مکمل ہوجائے اور ان کی خوشی دوبالا ہوجائے۔ یہ ان پر اللہ کی کامل نعمت اور اس کی محبت کا تقاضہ تھا۔ اس کے لئے ضروی تھا کہ انہیں زمین پر اتارا جائے، ان کو امتحان وآزمائش کے مرحلے سے گزارا جائے، ان میں سے اللہ جسے چاہے اپنی رحمت اور فضل وکرم کی بنا پر توفیق سے سرفراز کرے اور جسے چاہے اپنی حکمت اور عدل وانصاف کی بنا پر رسوائی سے دوچار کرے۔ یقینا اللہ علم اور حکمت والا ہے۔
۹- اللہ تعالی نے چاہا کہ آدم اور اس کی نسل اس گھر (جنت( کی طرف اپنی سب سے اچھی حالت میں لوٹیں، اس لئے انہیں پہلے دنیا کے دکھ درد، حزن وملال اور تکلیف ومشقت کا مزہ چکھایا، جس سے ان کے نزدیک آخرت کی زندگی میں دخولِ جنت کی اہمیت بڑھ جائے، کیوں کہ کسی چیز کی خوب صورتی اس کی ضد سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔([69])
انسانی تخلیق کے آغاز کو واضح کرنے کے بعد بہتر ہوگا کہ دینِ حق کے تئیں انسان کی ضرورت کو بھی بیان کیا جائے:
انسان کو اپنی زندگی میں جو بھی ضروریات در پیش ہوتی ہیں، ان سب سے بڑھ کر اس کے لئے دینِ اسلام ضروری ہے، کیوں کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ اللہ پاک کی رضا وخوش نودی اور غضب وناراضگی کے مواقع سے آگاہ رہے۔ ساتھی ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ایسا عمل کرے، جس سے اسے فائدہ پہنچے اور وہ نقصان سے دور رہے۔ شریعت ہی فائدہ بخش اور نقصان دہ اعمال کے درمیان فرق کرتی ہے۔ یہ شریعت مخلوق کے لئے اللہ کی جانب سے عدل وانصاف کا مظہر اور اس کے بندوں کے لئے نور کا پیکر ہے۔ چنانچہ انسانوں کے لئے اس شریعت کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں، جس کے ذریعہ وہ ان اعمال کے درمیان تمیز کرسکیں، جو انہیں کرنا چاہئے اور جو نہیں کرنا چاہئے۔
چوں کہ انسان کو مشیئت اور ارادہ دیا گیا ہے، لہذا اس کے لئے یہ جاننا بھی ضروی ہے کہ وہ کس چیز کا ارادہ کرے، کیا اس کا ارادہ اس کے لئے نفع بخش ہے یا نقصان دہ؟ اور کیا یہ ارادہ اس کے لئے صلاح وفلاح کا ضامن ہے یا فساد وبگاڑ کا ذریعہ؟ یہ ایسی چیز ہے، جسے کچھ لوگ اپنی فطرت کے ذریعہ جانتے ہیں، تو کچھ لوگ اپنی عقلوں کو استعمال میں لاکر اس کا ادارک کرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ صرف رسولوں کے واسطے سے جانتے ہیں، جو ان کے سامنے اس کی وضاحت کرتے اور انہیں راہ حق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ([70])
مادیت اور الحاد پر مبنی مذاہب، چاہے جس قدر اپنی تشہیر کر لیں اور اپنے کو چمک دمک والے روپ میں پیش کرلیں، اور افکار ونظریات کی چاہے جس قدر بہتا ت ہوجائے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے تمام افراد اور معاشرے )انسانیت کو( نہ دین حق سے بے نیاز کرسکتے ہیں اور نہ روح اور جسم کے تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں، بلکہ یہ افکار ونظریات جس قدر چاہے انسان کو اپنے دامن کا اسیر بنالیں، آپ مکمل یقین رکھیں کہ نہ اسے امن وسکون دے سکتے ہیں اور نہ اس کی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ ساتھی ہی یہ کہ ان نظریات سے نجات کے لئے دین حق کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ارنسٹ رینان کہتا ہے: "یہ ممکن ہے کہ ہماری تمام محبوب چیزیں مرجھا جائیں، ذہن ودماغ کے استعمال کی حریت، تعلیم وتعلم اور صنعت وتجارت کی آزادی چھن جائے، لیکن یہ ناممکن ہے کہ دین داری ختم ہو، بلکہ یہ دین ہمیشہ اس مادہ پرست مذہب کے بطلان کو ثابت کرنے کے لئے دلیلِ ناطق بن کر قائم ودائم رہے گا، جو انسان کو دنیوی زندگی کے ناپاک تنگ نایے میں محصور کرکے رکھنا چاہتا ہے"۔ ([71])
محمد فرید وجدی رقم طراز ہیں: "یہ ناممکن ہے کہ دین داری کا نظریہ کافور ہوجائے، کیوں کہ یہ نفسِ انسانی کا بلند ترین رجحان اور اس کا معزز ترین جذبہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایسا رجحان ہے، جس سے انسان کا سربلند ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ رجحان وقت کے ساتھ بڑھتا جائے گا، کیوں کہ دین داری کی فطرت اس وقت تک انسان کا پیچھا کرتی رہے گی، جب تک کہ اس کے پاس اتنی عقل رہے گی، جس سے وہ اچھے اور برے میں تمیز کرتا رہے۔ اس کے اندر علوم ومعارف اور احساس وشعور کا جوہر جس قدر پروان چڑھے گا، اسی قدر اس کی یہ فطرت بھی پروان چڑھتی رہے گی"۔ ([72])
جب انسان اپنے پالنہار سے دورہوتا ہے، تو جس قدر اس کے احساس وشعور کا دائرہ بڑھتا جاتا اور علم وآگہی کا افق کشادہ ہوتا جاتا ہے، اسی قدر وہ یہ بھی محسوس کرتا جاتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار سے کتنا نا واقف، اپنے واجبات سے کتنا نابلد، اپنی ذات اور اس کی صلاح وفلاح، فساد وبگاڑ، خوش بختی اور بد بختی کے اسباب وعوامل سے کس قدر نا آشنا ہے، نیز سائنسی علوم کی جزئیات اور لغویات جیسے علمِ فلکیات، علمِ اجرام سماویہ، کمپیوٹر سائنس اور نیوکلیئس وغیرہ سے وہ کتنا نابلد ہے۔ جب سائنس داں کبر وغرور کے مرحلے سے نکل کر تواضع وانکساری اور خود سپردگی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور یہ عقیدہ و یقین رکھتا ہے کہ ان تمام علوم ومعارف کے پیچھے علم وحکمت والے پرودگار )کا لا متناہی علم( کارفرما ہے، فطری نظام کے پیچھے قدرت والے خالق (کی کاریگری( کارفرما ہے، )جب اس حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے تو( یہ حقیقت انصاف پسند سائنس داں کو غیب پر ایمان لانے، دین حنیف کو قبول کرنے اور فطرت وسرشت کی آواز پر لبیک کہنے پر مجبور کرتی ہے... اور جب انسان اس سے اعراض برتتا ہے، تو اس کی فطرت تبدیل ہوجاتی اور وہ بے زبان جنگلی جانور کی پستی میں جاگرتا ہے۔
ان تفصیلات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ دینِ حق، جو اللہ کے لئے توحید کو قائم کرنے اور شریعت الہی کے مطابق تمام تر عبادتوں کو اسی کے لئے خالص کرنے پر مبنی ہے، انسانی زندگی کے لئے لازمی عنصر ہے، تاکہ اس کی روشنی میں انسان اللہ رب العالمین کی عبادت بجا لائے، اسے سعادت وخوش بختی حاصل ہو اور وہ دنیا وآخرت میں بد بختی، تکلیف ومشقت اور کمر توڑ تھکان سے دور رہے۔ وہ دین اس لئے بھی ضروری ہے، تاکہ انسان کی نظریاتی طاقت درجہ کمال کو پہنچ سکے، اس کے بغیر انسان کے بلند وبالا مقاصد شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے۔
یہ دین روح کا تزکیہ کرنے اور شعور و وجدان کی قوت کو جلا دینے کے لئے ایک ضروری عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ نیک جذبات کو دین کے اندر پنپنے کا بھرپور موقع اور ایسا سرچشمہ دستیاب ہوتا ہے، جس کے سونتے کبھی خشک نہیں ہوتے اور اس میں ان جذبات کو اپنا مقصد بھی مل جاتا ہے۔
دین اس لئے بھی ایک ضروری عنصر ہے، تاکہ اس کی قوتِ ارادہ ان عظیم ترین اسباب ومحرکات کے ذریعہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے، جو دین اسے فراہم کرتا ہے اور یاس و قنوت کے اسباب کو دور کرنے والے بڑے سے بڑے وسائل سے اس قوت کو آراستہ کرتا ہے۔
بنا بریں اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انسان اپنی طبیعت کے بہ موجب ایک مہذب مخلوق ہے، تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ انسان اپنی فطرت کے بہ موجب ایک دین دار مخلوق ہے۔ ([73]) کیوں کہ انسان کے اندر دو طرح کی قوتیں پائی جاتی ہیں؛ ایک قوت وہ ہے، جس کا تعلق علم اور نظریے سے ہے اور دوسری قوت وہ ہے، جس کا تعلق علم اور ارادے سے ہے۔ انسان کی سعادت وخوش بختی کا کمال اس کی دونوں قوتوں کے کامل ہونے پر موقوف ہے اور علمی قوت اسی وقت مکمل ہوسکتی ہے، جب درج ذیل امور کی معرفت حاصل ہو:
۱- اس معبود حقیقی کی معرفت، جو خالق و رازق ہے اور جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اور اس پر نعمتوں کی برکھا برسائی۔
۲- اللہ کے اسما وصفات کی معرفت، اللہ کی معرفت کے ساتھ اس کے تئیں عائد ہونے والے واجبات اور بندوں پر ان اسماے گرامی کے اثرات کی واقفیت۔
۳- اللہ پاک تک پہنچانے والے راستے کی معرفت۔
۴- ان رکاوٹوں اور آفتوں کی معرفت، جو انسان کے درمیان اور اس راہ کی معرفت کے درمیان حائل ہو جایا کرتی ہیں اور اس عظیم نعمت کے درمیان جس تک یہ راہ پہنچاتی ہے۔
۵- اپنی ذات کی حقیقی معرفت، اس کی ضرویات سے آگاہی، اس کی صلاح وفلاح اور فساد وبگاڑ کے عوامل کی معرفت اور وہ جن خصوصیات اور عیوب پر مشتمل ہے، ان کی معرفت۔
ان پانچ قِسم کی معرفت کے ذریعے انسان اپنی علمی قوت کو مکمل کرسکتا ہے۔ علم وارادے کی قوت اسی وقت مکمل ہوتی ہے، جب بندے پر عائد ہونے والے حقوق اللہ کا وہ پاس ولحاظ رکھتا ہے، اخلاص، صدقِ نیت، نصح وخیر خواہی، رسول کی تابع داری اور اپنے اوپر ہونے والی نعمتِ الہی کے احساس ومشاہدے کے ساتھ انہیں بروئے عمل لاتاہے۔ یہ دونوں قوتیں اسی وقت درجۂ کمال کو پہنچ سکتی ہیں، جب اللہ کی مدد شامل حال ہو۔ معلوم ہوا کہ انسان کو بہر صورت یہ ضرورت ہے کہ اللہ اسے راہ مستقیم کی ہدایت دے، جس کی ہدایت اس نے اپنے اولیا کو دی ہے۔([74])
جب ہم یہ جان چکے کہ دین حق ہی انسانی نفس کی مختلف قوتوں کو جلا دینے والی ربانی مدد ہے، تو (یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ( دین ہی سماج ومعاشرہ کو تحفظ فراہم کرنے والی ڈھال بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اپنے مختلف اراکین کے باہمی تعاون سے قائم رہتی ہے اور یہ باہمی تعاون اسی وقت بروئے عمل آتا ہے، جب ایسا نظام موجود ہو، جو ان کے تعلقات کو منظم کرے، ان کی ذمہ داریاں متعین کرے اور ان کے حقوق کی ضمانت لے۔ یہ نظام اس قوت و غلبہ والے بادشاہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، جو انسانی نفس کو اس نظام کی پامالی سے روکتا، اس کی پاس داری اور نگہبانی پر آمادہ کرتا، انسانی نفوس کے اندر اپنی ہیبت پیدا کرتا اور اپنی محرمات کی پامالی سے انہیں روکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ یہ بادشاہ ہے کون؟ میرا جواب یہ ہے کہ روئے زمین پر کوئی ایسی قوت نہیں، جو نظام کے احترام کو یقینی بنانے، سماجی ہم آہنگی اور سماجی نظام کے استحکام کو بروئے عمل لانے اور معاشرے میں اطمینان و سکون کی فضا قائم کرنے میں دینی قوت کے ہم پلہ اور برابر ہو۔
اس کے پیچھے جو راز پنہاں ہے، وہ یہ کہ انسان تمام مخلوقات سے بایں معنی ممتاز ونمایاں ہے کہ اس کے تمام تر اختیاری حرکات وسکنات کی زمامِ قیادت اس چیز کے کنٹرول میں ہے، جس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ وہ اس کا ایمانی عقیدہ ہے، جو اس کی روح اور اعضا وجوارح کو جلا بخشتا ہے۔ چنانچہ انسان ہمیشہ اپنے عقیدے کے ماتحت چلتا ہے۔ خواہ وہ عقیدہ درست ہو یا غلط۔ اگر اس کا عقیدہ درست رہا، تو اس کی ساری چیزیں درست رہتی ہیں اور اگر اس کے عقیدے میں بگاڑ آئی، تو اس کی ہر چیز بگڑ جاتی ہے۔
عقیدہ اور ایمان انسان کا ذاتی نگہبان ہے۔ عام انسانوں کے رویے میں جو مشاہدہ کیا جاتا ہے، اس کے مطابق ایمان وعقیدہ کی دوقسمیں ہیں:
- اعلى اخلاق کی اہمیت اور انسانیت کی عزت ووقار، جیسے ان خالص اقدار و روایات پر ایمان، جن کی خلاف ورزی سے عالى نفس شخصیات شرم محسوس کرتى ہیں، خواہ وہ بیرونی اثرات اور مادی نتائج سے عاری ہی کیوں نہ ہوں۔
- اللہ پاک وبرتر پر ایمان اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ تمام تر راز ہائے سربستہ سے باخبر ہے، وہ ہر قسم کے راز اور پوشیدہ سے پوشیدہ چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے، شریعت اپنے غلبہ وسطوت کو اسی اللہ کے حکم اور ممانعت سے حاصل کرتی ہے، اس کے شرم سے شعور ووجدان کو جلا ملتی ہے۔ ایسا یا تو اس کی محبت کی وجہ سے یا اس کے خوف سے یا ان دونوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کی اس قسم کو انسانی نفس پر زیادہ غلبہ وسطوت حاصل ہے۔ خواہشات کی آندھیوں اور جذبات کی موجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ زیادہ مضبوط اور توانا ہے اور عوام وخواص کے دلوں میں یہ ایمان بہت جلد سرایت کرجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عدل وانصاف کے اصولوں پر لوگوں کے مابین باہمی تعاون کی فضا قائم کرنے کے لئے دین سب سے بہترین ضامن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لئےدین ایک سماجی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم وملت کے لئے دین کا وہی مقام ہے، جو جسم میں دل کا ہے۔([75])
چوں کہ دین اپنے عمومی معنی میں اس مقام و مرتبہ کا حامل ہے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آج اس دنیا میں مختلف ادیان وملل پائے جاتے ہیں اور ہر قوم اپنے دین سے خوش اور اس پر کاربند نظر آتی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ (ان تمام ادیان میں( آخر دینِ حق کون ہے، جو نفس انسانی کے مقصد ومراد کو شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے اور اس دینِ حق کے اصول وضوابط کیا ہیں؟
ہر دین و ملت کا پیروکار یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اسی کی ملت برحق ہے اور کسی بھی دین کے تمام پیروکاروں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ ان کا دین ہی سب سے اچھا اور اس کا راستہ ہی سب سے سیدھا راستہ ہے۔ جب آپ ان تحریف شدہ ادیان کے پیروکاروں اور انسان کی خود ساختہ ملتوں کے متبعین سے ان کے عقیدے کی دلیل مانگیں گے، تو ان کا جواب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کو اس راستے پرگامزن دیکھا، تو وہ بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔ پھر وہ ایسی حکایتیں اور واقعات ذکر کریں گے، جن کی کوئی سند نہیں ہوتی، بلکہ ان کی عبارتیں بھی علل اور شائبے سے محفوظ نہیں ہوتیں۔ وہ ایسی موروثی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں، جن کے نہ قائل کا انہیں علم ہوتا ہے اور نہ مؤلف کا اور نہ انہیں یہ خبر ہوتی ہے کہ پہلی دفعہ اسے کس زبان میں اور کس ملک میں لکھا گیا!! بلا شبہ یہ کتابیں مخلوط معلومات سے عبارت ہیں، جنہیں یک جا کر دیا گیا اور نسل در نسل ان کی تعظیم کی جانے لگی۔ سند کی چھان بین اور عبارتوں کی تدقیق کے لئے کوئی علمی تحقیق نہیں کی گئی۔
یہ نا معلوم کتابیں، بے بنیاد حکایتیں اور اندھی تقلید ادیان و عقائد کے باب میں دلیل کے طور پر تسلیم نہیں کی جا سکتیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ یہ تمام تحریف شدہ ادیان اور انسان کی وضع کردیں ملتیں حق ہیں یا باطل؟
یہ ناممکن ہے کہ سب کے سب حق پر ہوں۔ کیوں کہ حق ایک ہے، متعدد نہیں۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ یہ تمام تحریف شدہ ادیان اور انسانی ملتیں اللہ کی طرف سے نازل کردہ اور حق پر مبنی ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب یہ ادیان کئی ایک ہیں اور حق صرف ایک ہے، تو ان میں سے کون سا دین برحق ہے؟ ایسی صورت میں ان اصول و ضوابط کا جاننا ضروری ہے، جن سے دینِ حق اور دینِ باطل کے درمیان تمیز ہوتی ہے۔ اگر یہ اصول وضوابط کسی دین پر منطبق ہوتے ہوں، تو ہم جان سکتے ہیں کہ وہی دین حق ہے اور اگر یہ تمام اصول و ضوابط یا ان میں سے کوئی ایک ضابطہ بھی کسی دین میں مفقود ہو، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ دین باطل ہے۔
وہ اصول وضوابط جن سے دین حق اور دین باطل میں تمیز ہوتی ہے، حسب ذیل ہیں:
پہلا اصول: وہ دین اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہو، جسے اللہ نے کسی فرشتے کے واسطہ سے کسی رسول پر اتارا ہو، تاکہ وہ اللہ کے بندوں تک اس دین کو پہنچائیں، کیوں کہ دینِ حق اللہ کا ہی دین ہے۔ اللہ پاک ہی )بندوں پر( دین نازل کرتا ہے اور قیامت کے دن اپنے نازل کردہ دین کی بنیاد پر ہی تمام مخلوقات کا حساب لے گا۔ فرمان باری تعالی ہے: "یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے، جیسے کہ نوح )علیہ السلام( اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی۔ اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اوﻻد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد )علیہ السلام( کو زبور عطا فرمائی"۔ ([76])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔([77]) اس بنا پر یہ بات صاف ہوگئی کو جو شخص بھی کوئی دین لے کر آئے اور اسے اللہ کی بجائے اپنی طرف منسوب کرے، تو وہ یقینی طور پر باطل و بے بنیاد دین ہے۔
دوسرا اصول: وہ دین تمام تر عبادتوں کو صرف اللہ پاک کے لئے خالص کرنے کی دعوت دے، شرک اور اس کے تمام وسائل وذرائع کو حرام ٹھہرائے۔ کیوں کہ توحید کی دعوت ہی تمام انبیا و رسل کی دعوت کی بنیاد ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم سے یہی کہا : "الله کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں"۔ ([78])
بنابریں ہر وہ دین جو شرک پر مشتمل ہو، اللہ کے ساتھ کسی اور نبی، فرشتہ یا ولی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ دینِ باطل ہے، خواہ اس کے پیروکار اپنی نسبت کسی نبی کی طرف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔
تیسرا اصول: وہ دین ان بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہو، جن کی طرف رسولوں نے دعوت دی۔ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اسی کے راستے کی طرف دعوت دی جائے۔ وہ شرک، والدین کی نافرمانی، ناحق خوں ریزی اور تمام تر ظاہری وباطنی بدکاریوں کو حرام ٹھہراتا ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "تجھ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا، اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔ ([79]) اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وه چیزیں پڑھ کر سناؤں، جن)کی مخالفت( کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے۔ وه یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اوﻻد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں، ان کے پاس بھی مت جاؤ۔ خواه علانیہ ہوں، خواه پوشیده۔ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے، اس کو قتل مت کرو۔ ہاں مگر حق کے ساتھ۔ ان باتوں کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ تم سمجھو"۔ ([80]) نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "ہمارے ان نبیوں سے پوچھو، جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے سوائے رحمٰن کے اور معبود مقرر کیے تھے، جن کی عبادت کی جائے"؟([81])
چوتھا اصول: اس کے بعض حصے دیگر بعض حصوں کے منافی اور مخالف نہ ہوں۔ چنانچہ ایسا نہ ہو کہ کسی چیز کا حکم دے، پھر کسی دوسرے حکم سے اس کی نفی کردے۔ کسی چیز کو حرام قرار دے، پھر بغیر کسی وجہ کے اس کے ہم مثل عمل کو مباح ٹھہرائے۔ کسی چیز کو ایک فرقہ پر حرام ٹھہرائے اور دوسرے پر حلال۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا، تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے"۔ ([82])
پانچواں اصول: وہ دین ایسے احکام، اوامر و نواہی، زجر وتوبیخ اور اخلاق کی مشروعیت پر مشتمل ہو، جن سے لوگوں کے دین، عزت و ناموس، مال ودولت، جان اور نسل کو تحفظ ملے۔
چھٹا اصول: وہ دین لوگوں کو اس بات پر نہ ابھارتا ہو کہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کریں یا ایک دوسرے پر ظلم کریں۔ خواہ یہ ظلم حقوق کی پامالی کے ذریعہ ہو، خیر و بھلائی کے وسائل پر قابض ہوکر ہو یا بڑوں کا اپنے چھوٹوں کو گمراہ کرکے۔ اللہ تعالی نے اس رحمت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا، جس پر تورات مشتمل تھی، جسے اللہ نے موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا: "جب موسیٰ (علیہ السلام( کا غصہ فرو ہوا، تو ان تختیوں کو اٹھا لیا اور ان کے مضامین میں ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے تھے، ہدایت اور رحمت تھی"۔ ([83]) اللہ پاک نے عیسی علیہ السلام کی بعثت کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: "ہم تو اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں گے اور اپنی خاص رحمت"۔ ([84])
اللہ جل ذکرہ نے صالح علیہ السلام کے تعلق سے فرمایا: "اس نے جواب دیا کہ میری قوم کے لوگو! ذرا بتاؤ، اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی مضبوط دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو"۔ ([85])
اللہ عزیز وبرتر نے قرآن کے تعلق سے فرمایا: "اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں، جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں"۔ ([86])
ساتواں اصول: وہ دین، شریعتِ الہی کی ہدایت اور اس شریعت سے اللہ کا جو مقصود و مراد ہے، اس کی رہنمائی پر مشتمل ہو۔ نیز یہ بھی بتاتا ہو کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور اس کی آخری منزل کہاں ہے؟ اللہ تعالی نے تورات کے بارے میں ارشاد فرمایا: "ہم نے تورات نازل فرمائی ہے، جس میں ہدایت و نور ہے"۔ ([87])
نیز اللہ جلّ شأنہ نے انجیل کے تعلق سے فرمایا: "ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی، جس میں نور اور ہدایت تھی"۔ ([88])
مزید اللہ جل ذکرہ نے قرآن مجید کے تعلق سے ارشاد فرمایا: "اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے"۔ ([89]) دینِ حق وہ ہے، جو شریعتِ الہی کی جانب رہنمائی پر مشتمل ہو، انسانی نفس کو امن و امان اور سکون و اطمینان فراہم کرتا ہو، بایں طور کہ اس سے ہر قسم کے وساوس کو دور کرتا ہو، ہر طرح کے سوالات کا جواب دیتا ہو اور ہر پیچیدگی سے پردہ اٹھاتا ہو۔
آٹھواں اصول: وہ دین مکارمِ اخلاق اور حسنِ اعمال، جیسے صدق و راستی، عدل وانصاف، امانت داری، شرم وحیا، عفت وپاک دامنی اور سخات وفیاضی کی دعوت دیتا ہو اور برے اعمال، جیسے والدین کی نافرمانی، خوں ریزی، بدکاری، دروغ گوئی، ظلم و زیادتی، زناکاری، بخیلی اور فسق وفجور سے روکتا اور انہیں حرام گردانتا ہو۔
نواں اصول: اس دین پر جو شخص ایمان لائے، اسے وہ سعادت وخوش بختی کی ضمانت دیتا ہو۔ فرمان باری تعالی ہے: " ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑجائے"۔ ([90])
نیز وہ دین فطرت سلیمہ سے ہم آہنگ ہو۔ "اللہ تعالیٰ کی وه فطرت، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے"۔ ([91])
اور عقلِ سلیم سے بھی ہم آہنگ ہو۔ کیوں کہ دینِ حق اللہ کی شریعت ہے اور عقلِ سلیم بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اللہ کی شریعت اللہ کی تخلیق کے منافی ہو۔
دسواں اصول: وہ دین، حق کی رہنمائی کرتا ہو اور باطل سے ہوشیار و متنبہ کرتا ہو، ہدایت کی راہ دکھاتا ہو اور گمراہی سے متنفر کرتا ہو، لوگوں کو راہِ مستقیم کی دعوت دیتا ہو، جس میں کوئی پیچیدگی اور کجی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جنوں کے تعلق سے بتایا کہ جب انہوں نے قرآن کی تلاوت سنی، تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: "کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وه کتاب سنی ہے، جو موسیٰ (علیہ السلام)کے بعد نازل کی گئی ہے، جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، جو سچے دین کی اور راه راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے"۔ ([92])
چنانچہ لوگوں کو ایسی چیز کی دعوت نہ دیتا ہو، جس میں ان کی بدبختی اور شقاوت مضمر ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے"۔([93])
اور نہ انہیں ایسی چیز کا حکم دیتا ہو، جس میں ان کی ہلاکت وبربادی نہاں ہو۔ فرمانِ باری تعالی ہے: "اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقیناً اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے"۔ ([94])
وہ اپنے پیروکاروں کے درمیان نسل، رنگ اور خاندان و قبیلہ کی بنیاد پر تفریق نہ کرتا ہو۔ اللہ کا ارشاد گرامی ہے: "اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک )ہی( مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے، جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے"۔ ([95]) معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان آپسی فوقیت و برتری کا معتبر معیار اللہ کا ڈر اور تقوی ہی ہے۔
جب میں نے وہ اصول وضوابط پیش کر دیے، جن سے دینِ حق اور دینِ باطل کے درمیان تمیز ہوتی ہے اور اس کے لئے قرآنی نصوص بھی پیش کردیے، جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اصول و ضوابط اللہ کی جانب سے مبعوث کردہ تمام سچے رسولوں کے دعوت پر فٹ بیٹھتے ہیں، تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قسم کے ادیان کا بھی جائزہ لیا جائے۔
بنی نوع انسان اپنے ادیان کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹے ہوئے ہیں:
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جن کے پاس اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے۔ جیسے یہود ونصاری اور مسلمان۔ یہود و نصاری اپنی کتابوں میں وارد احکام و اوامر پر عمل نہ کرنے، اللہ کو چھوڑ کر انسانوں کو اپنا رب بنانے اور وعدہ خلافی کرنے کی وجہ سے، ان کتابوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو اللہ نے ان کے نبیوں پر نازل فرمائی تھیں، جس کے نتیجے میں ان کے علما نے ایسی کتابیں تحریر کر ڈالیں، جن کے تعلق سے ان کا دعوی تھا کہ وہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ کتابیں ہیں، جب کہ وہ اللہ کی جانب سے نہیں ہیں، بلکہ وہ محض باطل پرستوں کی طبع آزمائی اور غلو پسندوں کی تحریف سے عبارت ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید کی بات ہے، تو زمانی ترتیب کے اعتبار سے وہ اللہ کی آخری کتاب ہے اور ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ یہ ذمہ داری انسانوں کو نہیں دی۔ فرمان باری تعالی ہے: "ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔ ([96])
چنانچہ یہ کتاب سینوں میں بھی محفوظ ہے اور تحریری شکل میں بھی۔ کیوں کہ یہ آخری کتاب ہے، جس میں اللہ نے انسانوں کے لئے ہدایت مضمر رکھی ہے اور اسے قیامت تک کے لئے ان پر حجت بنادیا ہے۔ اس کے لئے بقا و دوام لکھ دیا ہے اور ہر زمانے میں ایسے لوگ برپا کرتا رہا ہے، جو اس کے احکام واوامر اور حروف و معانی کو قائم کرتے اور بروئے عمل لاتے ہیں، اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس عظیم کتاب کے بارے میں مزید تفصیلات اگلے باب میں آنے والی ہیں۔([97])
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں، جن کے پاس اللہ کی نازل کردہ کتاب نہیں ہے۔ خواہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب ہی کیوں نہ ہو، جسے وہ اپنے مذہبی قائد کی طرف نسل در نسل منسوب کرتے آرہے ہوں۔ جیسے ہندو، آتش پرست مجوسی، بدھسٹ، کنفوشیسین )قدیم چینی اعتقادی نظام کے پیروکار( اور بعثت نبوی ﷺ سے ماقبل کے اہل عرب۔
ہر امت اپنی دنیوی مصالح اور مفادات کو بروئے کار لانے کے لئے علم اور عمل سے وابستہ رہتی ہے۔ یہ اس عمومی ہدایت کا نتیجہ ہے، جس سے اللہ نے تمام انسانوں کو بہرہ ور کیا ہے۔ بلکہ جانوروں کو بھی یہ ہدایت عطا کی گئی ہے۔ چنانچہ جانور کو یہ ہدایت حاصل ہوتی ہے کہ اپنا کھانا پانی حاصل کرنے اور نقصان دہ چیزوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئےحرکت کرتا رہے۔ اللہ نے ان کے اندر نفع بخش چیزوں کی محبت اور نقصان دہ امور کی نفرت ودیعت کردی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر، جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا، اور جس نے ٹھیک ٹھاک اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی"۔ ([98])
موسی علیہ السلام نے فرعون سے کہا: "ہمارا رب وه ہے، جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی، پھر راه سجھا دی"۔ ([99])
ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا: "جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے"۔ ([100])
ہر صاحب عقل، جو فکر و نظر کی معمولی قوت بھی رکھتا ہو، وہ جانتا ہے کہ ادیان و ملل کے ماننے والے ان لوگوں کے مقابلے میں، جو کسی ملت ودین کے تابع نہیں ہوتے، نفع بخش علوم اور نیک و صالح اعمال میں زیادہ کامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر وہ خیر و بھلائی جو مسلمانوں کے علاوہ دیگر دین و ملت کے پیروکاروں میں پائی جاتی ہے، وہ مسلمانوں کے اندر زیادہ کامل صورت میں موجود ہے۔ ادیان و ملل کے پیروکاروں کے اندر جو خیر و بھلائی پائی جاتی ہے، وہ دوسروں میں نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علوم و معارف اور اعمال وافعال کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: وہ علوم جو عقل و دماغ کے استعمال سے حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے کمپیوٹر سائنس، علمِ طب، صنعت و حرفت۔ یہ علوم ادیان وملل کے ماننے والوں کے پاس اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ کامل صورت میں موجود ہیں، جس صورت میں دوسرے لوگوں کے پاس ہیں۔ البتہ وہ علوم جو محض عقل سے حاصل نہیں ہوتے، جیسے الہی اور دینی علوم تو یہ علوم، ادیان وملل کے پیروکاروں کے ساتھ خاص ہیں۔ ان میں بھی بعض علوم ایسے ہیں، جن پر عقلی دلائل قائم کی جاتی ہیں۔ رسولوں نے ہی مخلوق کو یہ رہنمائی کی کہ ان پر عقل بھی دلالت کرتی ہے۔ اس طرح یہ دلائل عقلی ہونے کے ساتھ شرعی بھی ہیں۔
دوسری قسم: وہ علوم، جو صرف رسولوں کے واسطے سے حاصل ہوتے ہیں اور ان کی تحصیل میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ کے اسما وصفات کی خبر، آخرت کی زندگی میں اطاعت گزار بندوں کو جو نعمت ملے گی اور نافرمانوں کو جس سزا سے دوچار ہونا پڑے گا، اس کا علم، شریعت الہی کی وضاحت، سابق انبیاے کرام کے وہ واقعات جو ان کی قوموں کے ساتھ پیش آئے، ان کی خبر اور اس طرح کے دیگر علوم([101])۔
بڑے بڑے ادیان، ان کے پرانے صحیفے اور شریعتیں، ان کے ساتھ چھیڑ خانی اور ہیرا پھیری کرنے والوں کے شکار ہوگئے، تحریف کرنے والوں اور منافقوں کا کھلونا بن گئے، خوں ریز حادثات اور بڑے بڑے واقعات کی نذر ہوگئے، یہاں تک کہ ان کی روح اور حقیقی شکل وصورت مفقود ہوگئی۔ اگر ان کے اولین پیروکار اور مبعوث کردہ انبیاے کرام پھر سے لوٹ آئیں، تو انہیں پہنچاننے سے انکار کر جائیں([102])۔
چنانچہ یہودیت روح اور زندگی سے عاری چند رسوم و رواج کا مجموعہ بن کر رہ گئی۔ اس سے قطع نظر وہ ایک نسلی مذہب ہے، جو ایک خاص قوم اور جنس کے لئے مختص ہے۔ اس کے اندر نہ پوری دنیا کے لئے کوئی پیغام ہے، نہ تمام اقوام وملل کے لئے کوئی دعوت ہے اور نہ انسانیت کے لئے رحمت۔
اس مذہب کا اصل عقیدہ ہی (تحریف کا( شکار ہوگیا، جو تمام ادیان وملل کے درمیان اس کا نشان امتیاز تھا۔ اسی عقیدے میں اس کی عظمت کا راز نہاں تھا۔ یعنی وہ عقیدۂ توحید، جس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ یہودیوں نے اپنے بہت سے فاسد عقائد اور زمانہ جاہلیت کے مشرکانہ رسوم ورواج ان قوموں سے اخذ کئے، جو ان کے آس پاس سکونت پذیر تھے یا جن کی زیر حکومت انہوں نے زندگی گزاری۔ یہود کے انصاف پرور مؤرخین نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (یہودی انسائکلو پیڈیا( میں یہ اعتراف مذکور ہے، جس کے معنی یہ ہیں:
"انبیاے کرام بتوں کی پرستش پر غصہ اور نالاں ہوا کرتے تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بتوں اور باطل معبودوں کی عبادت یہودیوں کے دلوں میں سرایت کرگئی تھی۔ انہوں نے شرکیہ عقائد اور بے بنیاد خرافات کو گلے لگالیا تھی۔ تلمود بھی اس بات پر گواہ ہے کہ بت پرستی کے اندر یہودیوں کے لئے خاص قسم کی کشش تھی"۔ ([103])
تلمودِ بابل([104]) ، جس کے تقدس واحترام میں یہودی اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ بسا اوقات اسے تورات پر بھی فوقیت دینے لگتے ہیں، یہ کتاب چھٹی صدی عیسوی میں یہودیوں کے درمیان متداول تھی۔ اس کے اندر کم عقلی و بے وقوفی، بیہودہ و ناسائشتہ بات، اللہ پر جرأت کا مظاہرہ، حقائق سے کھلواڑ، دین اور عقل سے مزاق کے عجیب وغریب نمونے بھرے پڑے ہیں۔ یہ دراصل اس ذہنی پستی اور دینی بگاڑ پر دلالت کرتا ہے، جس کا شکار اس صدی کا یہودی معاشرہ ہوچکا تھا۔([105])
جہاں تک نصرانیت([106]) کی بات ہے، تو وہ اپنے دور اول سے ہی غلو پسندوں کی تحریف، جاہلوں کی تاویل اور رومی نصرانی بت پرستی کی زد میں رہی ہے۔ یہ سب مل کر تہہ بتہہ ڈھیر بن گئے، جس کے ملبہ تلے عیسی مسیح کی عظیم تعلیمات مدفون ہوگئیں اور ان گھنے بادلوں کے پیچھے توحید کا نور اور اللہ کے لئے تمام تر عبادتوں کو خالص کرنے کی تعلیم روپوش ہوگئی۔([107])
چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں عیسائی سماج کے اندر تثلیث کا عقیدہ جس قدر سرایت کر گیا تھا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک عیسائی مؤلف رقم طراز ہے:
"چوتھی صدی کی چوتھی دہائی میں عیسائی دنیا کی زندگی کے رگ وپے اور فکر ونظر میں یہ عقیدہ سرایت کرچکا تھا کہ ایک معبود (اللہ( تین معبودوں سے مرکب ہے۔ عالم عیسائیت کے تمام گوشے میں یہ عقیدہ ایک رسمی اور معتَمد عقیدہ کی حیثیت سے موجود رہا۔ انیسویں صدی عیسوی کے نصف اخیر میں آکر عقیدہ تثلیث کی ترقی اور راز سے پردہ اٹھا"۔ ([108])
ایک معاصر عیسائی مؤرخ نے اپنی کتاب: "تاريخ المسيحية في ضوء العلم المعاصر" میں عیسائی معاشرہ کے اندر مختلف مناظر اور نت نئے رنگوں میں بت پرستی کے ظہور پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے تقلید، ذاتی پسند یا جہالت کی بنیاد پر شرک وبت پرستی کی پرانی تاریخ رکھنے والے ادیان وملل سے مشرکانہ شعائر، بت پرستانہ رسوم و رواج اور شرک پر مبنی عیدیں اخذ کرنے کے مختلف عیسائی طریقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "بت پرستی تو ختم ہوگئی، لیکن وہ پورے طور پر ختم نہ ہوسکی، بلکہ وہ دلوں میں سرایت کر گئی۔ اس کا ہر ایک حصہ عیسائیت کے نام پر اور اسی کے پس پردہ جاری وساری رہا۔ چنانچہ جو لوگ اپنے معبودوں اور اصنام سے دامن کش ہوگئے، انہوں نے اپنے ایک شہید کو منتخب کیا، اسے معبودوں کی صفات سے متصف کیا، پھر اس کا ایک مجسمہ بنایا۔ اس طرح شرک اور بتوں کی پرستش ان علاقائی شہیدوں کی پرستش میں تبدیل ہوگئی۔ اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے شہیدوں اور ولیوں کی عبادت ان کے درمیان رائج ہوگئی اور ایک نیا عقیدہ منظر عام پر آگیا۔ وہ یہ تھا کہ اولیا کے اندر معبودوں کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ان اولیا اور مقدس شخصیات کو انسان اور اللہ کے درمیان واسطہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ بت پرستانہ عیدوں کے نام بدل کر ان کے نئے نام رکھ دیے گئے۔ یہاں تک کہ سنہ 400ء میں عید الشمس کا نام بدل کر عید میلاد المسیح رکھ دیا گیا"([109]) ۔
جہاں تک مجوسیوں )آتش پرستوں( کی بات ہے، تو وہ پرانے زمانے سے ہی فطری عناصر کی پرستش میں مشہور ہیں، جن میں سب سے بڑا فطری عنصر آگ ہے۔ وہ عہد ماضی میں پورے انہماک کے ساتھ آتش پرستی کرتے تھے، اس کے لئے ہیاکل اور عبادت خانے (آتش کدے( تعمیر کرتے تھے۔ ملک کے طول وعرض میں آتش کدوں کی بہتات ہوگئی۔ سورج اور آگ کی پرستش کے سوا سارا عقیدہ اور مذہب کافور ہوگیا۔ ان کے نزدیک دین کا مطلب یہی رہ گیا کہ وہ خاص مقامات پر اپنے رسم ورواج ادا کریں([110])۔
"إيران في عهد الساسانيين" کے ڈنمارکی مؤلف آرتهر كرستن سين نے دینی سربراہی کرنے والے طبقہ اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں لکھا ہے:
"ان سربراہوں پر یہ واجب تھا کہ دن میں چار دفعہ سورج کی پوجا کریں۔ اس کے علاوہ چاند، آگ اور پانی کی پرستش بھی کی جاتی تھی۔ نیز انہیں اس بات پر بھی مامور کیا گیا تھا کہ وہ آگ کو بجھنے نہ دیں اور نہ آگ اور پانی کو ایک دوسرے سے ملنے دیں۔ اسی طرح )کوئلے اور دیگر دھات کی( کانوں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں، کیوں کہ کان ان کے نزدیک مقدس تھی"۔ ([111])
ہر زمانے میں انہوں نے بت پرستی کو اپنا دین ومذہب بنائے رکھا اور یہی ان کا شعار اور نشانِ امتیاز بنی رہی۔ انہوں نے دو معبودوں پر ایمان لایا، ایک نور یا خیر و بھلائی کا معبود، جسے وہ "اھور مزدا" یا "یزداں" سے موسوم کرتے ہیں اور دوسرا تاریکی یا شر کا معبود، جسے وہ "اھرمن" سے موسوم کرتے ہیں۔ ان دونوں معبودوں کے درمیان ہمیشہ سے تنازع اور جنگ کی فضا قائم و دائم ہے"۔ ([112])
رہی بات بدھ مت کی، جو ہندوستان اور ایشیائے وسطى میں رائج ہے، تو وہ ایک بت پرستانہ مذہب ہے، جو ہر جگہ بتوں کو اپنے ساتھ لئے پھرتا، مندریں بناتا اور جہاں کہیں بھی جائے وہاں "بدھ" کے مجسمے نصب کرتا ہے([113])۔
رہی بات ہندو مت کی، جو ایک ہندوستانی مذہب ہے، تو وہ کثرتِ معبود کی وجہ سے مشہور ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں بت پرستی کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ اس صدی میں معبودوں کی تعداد 330 ملین تک پہنچ گئی([114])۔
چنانچہ ہر خوب صورت چیز، ہر بلند قامت چیز اور ہر نفع بخش چیز کو معبود بناکر اس کی پرستش شروع کردی گئی۔ اس عہد میں صنم تراشی کی صنعت کو خوب عروج ملا اور بہت سے صنم تراشوں کو اس فن میں بڑی مہارت حاصل ہوگئی اور انہوں نے خوب نام کمایا۔
ہندو مؤلف سی، وی، وید اپنی کتاب "تاریخ الھند الوسطى" میں بادشاہ ھرش)606-648ء( کے عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے، لکھتا ہے:
"جب جزیرۂ عرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوچکا تھا، ہندومت اور بدھ مت بت پرستی میں شانہ بشانہ تھیں۔ بلکہ بسا اوقات بت پرستی کے معاملہ میں بدھ مت کا پلڑا بھاری ہو جاتا تھا۔ اپنے آغاز میں بدھ مت معبود کا انکار کرتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے "بدھ" کو ہی سب سے بڑا معبود بنا لیا۔ پھر "بدھ" کے ساتھ دوسرے معبودوں کی پرستش بھی شروع کردی، جیسے (Bodhistavas) کی پوجا۔
ہندوستان میں بت پرستی کی بہت سی شکلیں رائج ہوئیں۔ یہاں تک کہ بعض مشرقی زبانوں میں لفظِ "بدھ" (Buddha) کو "بت" يا "صنم" کا مترادف سمجھا جانے لگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں پوری دنیا کے اندر بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ بحر اوقیانوس سے لے کر بحر الکاہل تک پوری دنیا بت پرستی میں غرق تھی۔ گویا عیسائیت، سامی مذاہب اور بدھ مت بتوں کے تقدس اور احترام میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی ریس لگا رہے تھے، جیسے کہ وہ ایک ہی میدان میں دوڑنے والے ریس کے گھوڑے ہوں"۔ ([115])
ایک دوسرا ہندو مؤلف اپنی کتاب میں لکھتا ہے، جسے اس نے "الھندکیۃ السائدۃ" سے موسوم کیا ہے: "بت تراشی کا عمل اسی پر نہیں رکا، بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں "معبودوں کی اس جماعت" میں چھوٹے چھوٹے معبودوں کی شمولیت بڑی تعداد میں جاری رہی، یہاں تک کہ ان کی تعداد شمار سے باہر ہوگئی"۔ ([116])
یہ تو ادیان کی صورت حال تھی، رہی بات ان تہذیب یافتہ ممالک کی، جہاں بڑی بڑی حکومتیں قائم تھیں، بہت سے علوم و معارف کا رواج تھا اور جو تہذیب و ثقافت، صنعت وحرفت اور ادب وکلچر کا گہوارہ شمار کئے جاتے تھے، تو ان ممالک میں ادیان کی شکل وصورت مسخ اور اس کی اصلیت اور قوت ناپید ہوچکی تھی، اصلاح پسندوں کا فقدان تھا، معلموں کی جماعت منصہ شہود سے غائب ہوچکی تھی، الحاد کا دور دورہ تھا، فساد وبگاڑ ہر طرف اپنا ڈیرہ ڈال چکی تھی، ہر چیز کا معیار تبدیل ہوچکا تھا، انسان اپنی اہمیت تک کھو چکا تھا، اس لئے خود کشی کثرت سے ہونے لگی تھی، خاندانی تعلقات کی رسی ٹوٹ چکی تھی اور سماجی رابطے میں دراڑ آچکی تھی، نفسیاتی شفا خانے مریضوں سے بھرے ہوتے تھے، فریب کاری اور شعبدہ بازی کا بازار گرم تھا، انسان اپنی روح کی سیرابی، نفس کی تسکین وسعادت اور دل کے اطمینان وسکون کے لئے ہر طرح کا سامان تفریح اور ہر نیا طریقہ آزما چکا تھا اور آخر کار یہ تمام تر سامانِ راحت، ساری ملتیں اور نظریات اس مقصد کو بروئے عمل لانے میں ناکام ثابت ہو چکے تھے۔ دراصل انسان اس وقت تک اس نفسیاتی بدبختی اور روحانی عذاب میں مبتلا رہے گا، جب تک کہ اپنے خالق سے رشتہ نہ استوار کرلے، اس کی عبادت اسی طریقہ پر نہ کرنے لگے جسے ا س نے اپنے لئے پسند کیا ہے اور اس کے رسولوں نے اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے پروردگار سے منہ موڑکر غیر اللہ سے ہدایت طلب کرنے والوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : "جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے"۔ ([117])
مؤمنوں کو اس دنیوی زندگی میں ملنے والے امن و سکون اور سعادت وخوش بختی کی خبر دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے: "جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں"۔ ([118])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "لیکن جو نیک بخت کئے گئے، وه جنت میں ہوں گے، جہاں ہمیشہ رہیں گے، جب تک آسمان وزمین باقی رہے، مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ یہ بے انتہا بخشش ہے([119])"۔
اسلام کے علاوہ ان تمام ادیان پر اگر ہم دین کے سابقہ تمام معیاروں کو منطبق کریں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر دین کے اکثر عناصر مفقود ہیں۔ جیسا کہ اس مختصر تجزیہ سے آشکار ہوگیا ہے۔
ان تمام ادیان میں جو سب سے بڑا نقص اور خلل پایا جاتا ہے، وہ ہے توحید باری تعالی کی کمی اور ان کے متبعین کا اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرنا۔ مزید یہ کہ یہ تحریف شدہ ادیان لوگوں کے لئے ایسی شریعت نہیں پیش کرتے، جو ہر زمانے اور ہر وقت کے لئے قابل عمل ہو، ان کے دین، عزت و ناموس، اولاد، مال و دولت اور جان کو تحفظ فراہم کرتے ہوں، اللہ کی اس شریعت کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہوں، جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو اطمینان اور سعادت سے نوازتے ہوں، کیوں کہ ان کی )تعلیمات اور احکام( میں تضاد اور تصادم پایا جاتا ہے۔
رہی بات اسلام کی، تو آنے والے ابواب میں وہ دلائل پیش کئے جائیں گے، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہی دین حقیقی ہے، جو ہمیشہ باقی رہے گا اور جسے اللہ نے اپنے لئے اور تمام انسانوں کے لئے پسند فرمایا ہے۔
اس باب کے اخیر میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم نبوت کی حقیقت، اس کی نشانیوں اور اس کے تئیں بنی نوع انسانی کی ضرورت پر روشنی ڈالیں اور رسولوں کی دعوت کے اصول اور آخری اور جاوداں رسالت کی حقیقت کو واضح کریں۔
سب سے بڑی چیز، جس کو جاننا انسان کے لئے اس زندگی میں ضروری ہے، یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے، جس نے اسے عدم سے وجود بخشا اور اس پر بیش بہا انعامات کئے ہیں۔ مخلوق کو اللہ تعالی نے جس عظیم مقصد کے پیش نظر پیدا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ صرف ایک اللہ پاک کی عبادت کی جائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ انسان اپنے پالنہار کی کما حقہ معرفت کیسے حاصل کرے؟ اللہ کے اس پر جو حقوق و واجبات عائد ہوتے ہیں، ان کو کیسے جانے اور اپنے پالنہار کی عبادت کس طریقے سے ادا کرے؟ ویسے تو انسان کو ایسے لوگ مل جاتے ہیں، جو مصائب زمانہ سے نمٹنے میں اس کی مدد کرں اور اس کے مفادات وضروریات کی تکمیل کریں، جیسے بیماری کا علاج کرادیں، دوا کا انتظام کردیں اور گھر بنانے میں ہاتھ بٹائیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اسے کوئی ایسا شخص نہیں ملتا، جو اسے اس کے پالنہار سے روشناس کراسکے اور اسے بتا سکے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت کیسے کرے؟ کیوں کہ انسانی عقل کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ بذات خود مراد الہی کو جان سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی عقل تو اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کی مراد کو بغیر بتائے جاننے سے عاجز ہوتی ہے، ایسے میں بھلا وہ مراد الہی کو کیسے جان سکتی ہے؟ دراصل یہ کام انبیا و رسل کے ذریعہ ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے، جن کو اللہ تعالی اپنے پیغام کی تبلیغ کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ ان کے بعد یہ ذمہ داری ہدایت کے علم برداروں اور انبیا کے وارثوں پر عائد ہوتی ہے، جو ان کے منہج وطریقہ کے حامل ہوتے، ان کے نقش قدم کی پیروی کرتے اور ان کی دعوت لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے کہ انسان اللہ تعالی کا پیغام بغیر واسطے کے حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کو یہ صلاحیت نہیں دی گئی ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے، مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وه اللہ کے حکم سے جو وه چاہے وحی کرے۔ بے شک وه برتر ہے حکمت واﻻ ہے"۔ ([120])
معلوم ہوا کہ ایک سفیر کا ہونا ضروری ہے، جو اللہ تعالی کی شریعت اس کے بندوں تک پہنچا سکے۔ یہ سفیر انبیا و رسل ہیں۔ فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر نبی کے پاس آتا ہے اور رسول اس پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ فرشتہ خود لوگوں تک پیغام نہیں پہنچاتا ۔ کیوں کہ فرشتوں کی دنیا اپنی فطرت وطبیعت میں انسانوں کی دنیا سے مختلف ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے"۔ ([121])
اللہ پاک کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ رسول اور پیغمبر اسی جنس سے ہوں، جس جنس کی طرف ان کو مبعوث کیا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کی بات سمجھ سکیں، کیوں کہ وہ ان سے مخاطب ہوسکتے اور ہم کلامی کر سکتے ہیں۔ اگر فرشتوں کو رسول بناکر بھیجا جاتا، تو لوگ نہ ان کا سامنا کرسکتے تھے اور نہ ان سے اخذ واستفادہ([122])۔ فرمان باری تعالی ہے: "یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم کوئی فرشتہ بھیج دیتے، تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی۔ اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے، تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا، جو اب اشکال کر رہے ہیں"۔ ([123])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے"۔ آگے فرمایا: "جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے؟ ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے"۔ ([124])
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا: "آپ سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے ہیں، سب مرد ہی تھے، جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے"۔ ([125])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "ہم نے ہر نبی کو اس کی قوم کی زبان میں ہی بھیجا ہے، تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے"۔ ([126])
انبیا و رسل عقل و دماغ کی پختگی، فطرت کی سلامتی، قول و عمل میں سچائی، تبلیغ دین و رسالت میں امانت داری سے متصف ہوتے ہیں۔ وہ ایسے تمام شائبے سے محفوظ ہوتے ہیں، جو ان کے اخلاق و اطوار کو مجروح کرسکتے ہیں اور ان کے جسم ایسے تمام عیوب سے خالی ہوتے ہیں، جن سے انسانی نگاہیں متنفر ہوتیں اور ذوق سلیم ابا کرتا ہے"۔ ([127])
اللہ تعالی نے ان کے نفوس اور اخلاق کا تزکیہ فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ لوگوں میں سب سے اعلی اخلاق اور سب سے زیادہ پاک و صاف نفوس کےحامل اور سب سے زیادہ سخی و فیاض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں تمام تر مکارم اخلاق اور خوب صورت اوصاف سے آراستہ فرماتا ہے۔ نیز انہیں حلم و بردباری، علم و آگہی، سخات و فیاضی، شجاعت و بہادری اور عدل و انصاف کے ایسے مراتب پر فائز کرتا ہے کہ وہ اپنی قوموں کے درمیان ان اخلاق کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چنانچہ قوم صالح کو دیکھ لیجیے کہ وہ اپنے نبی سے کیا کہہ رہے یں؟ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں بتایا ہے: "انہوں نے کہا: اے صالح! اس سے پہلے تو ہم تجھ سے بہت کچھ امیدیں لگائے ہوئے تھے۔ کیا تو ہمیں ان کی عبادتوں سے روک رہا ہے، جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے"؟([128])
شعیب علیہ السلام کی قوم نے شعیب سے کہا: "اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو چاہیں وہ کرنا بھی چھوڑ دیں؟ تو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے"۔ ([129])
محمد ﷺ اپنی قوم میں "امین" کے لقب سے مشہور تھے۔ جب کہ آپ پر ابھی رسالتِ الہی کا نزول بھی نہیں تھا۔ آپ کے پروردگار نے آپ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے: "بے شک تو بہت بڑے )عمدہ( اخلاق کا حامل ہے"۔ ([130])
وہ تمام مخلوق میں اللہ کے سب سے بہتر بندے ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالی رسالت وپیغمبری کی ذمہ داری اٹھانے اور امانت کی تبلیغ و ترسیل کرنے کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ فرمان الہی ہے: "اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ پیغمبری رکھے"؟([131])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم (علیہ السلام)کو اور نوح (علیہ السلام) کو، ابراہیم (علیہ السلام)کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرما لیا"۔ ([132])
ہر چند کہ یہ انبیا ورسل ان بلند وبالا اوصاف سے آراستہ ہوتے ہیں، جن سے اللہ نے انہیں متصف فرمایا ہے اور اعلى اخلاق و اطوار میں شہرت کے بلند مقام پر فائز ہوتے ہیں، تاہم وہ بھی انسان ہوتے ہیں، جنہیں وہ تمام ضروریات اور عارضے لاحق ہوتے ہیں، جو تمام انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہیں بھی بھوک لگتی ہے، وہ بھی بیمار ہوتے ہیں، وہ بھی سوتے، کھاتے پیتے، شادی بیاہ کرتے اور موت سے دوچار ہوتے ہیں۔ فرمان باری تعالی ہے: "یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں"۔ ([133])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا"۔ ([134]) بلکہ بسا اوقات ان پر ظلم وزیادتی بھی ہوئی، انہیں قتل کردیا گیا یا بے گھر اور جلا وطن کردیا گیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "اس واقعہ کا بھی ذکر کیجیے جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر لیں، آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے"۔ ([135])
لیکن آخر کار دنیا و آخرت میں بہتر انجام، فتح ونصرت اور غلبہ وتسلط انہیں ہی حاصل ہوتا ہے: "جو اللہ کی مدد کرے گا، اللہ بھی اس کی مدد ضرور کرے گا"۔ ([136])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بے شک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے"۔ ([137])
چوں کہ نبوت سب سے اشرف اور اعلى علم کی آگہی حاصل کرنے اور سب سے عظیم اور معزز عمل کو انجام دینے کا ذریعہ ہے، اس لئے اللہ پاک نے اپنی رحمت سے ان انبیاے کرام کے لئے ایسی نشانیاں پیدا کیں، جو ان کی )صداقت پر( دلالت کرتیں۔ لوگ ان کے ذریعہ ان کی حقانیت سے واقف ہوتے اور ان کو جانتے اور پہچانتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر وہ شخص جو نبوت کا دعوی کرتا، اس پر ایسے قرینے اور حالات رونما ہوتے جو اس کی صداقت کو ثابت کردیتے اگر وہ سچا ہوتا اور اس کی کذب بیانی کو فاش کردیتے اگر وہ جھوٹأ ہوتا یہ نشانیاں بہت زیادہ ہیں، جن میں چند اہم نشانیاں درج ذیل ہیں:
۱- ہر ایک کی عبادت سے دامن کش رہنے کی دعوت دیتا ہو، کیوں کہ یہی وہ مقصد ہے، جس کی خاطر اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔
۲- وہ لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے، اپنی تصدیق کرنے اور اپنے لائے ہوئے پیغام پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہو۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا: "آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا )رسول( ہوں"۔ ([138])
۳- اللہ تعالی نبوت کے مختلف النوع دلائل کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ہو۔ ان دلائل میں وہ نشانیاں بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ نبی مبعوث ہوتے ہیں اور ان کی قوم ان نشانیوں کی نہ تردید کرپاتی ہے اور نہ ان کی طرح دوسری نشانیاں پیش کرپاتی ہے۔ اس کی مثال موسی علیہ السلام کی یہ نشانی ہے کہ ان کی لاٹھی سانپ میں تبدیل ہوگئی۔ عیسی علیہ السلام کی یہ نشانی ہے کہ اللہ کی اجازت سے وہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتے تھے اور محمد ﷺ کی یہ نشانی ہے کہ باوجودے کہ آپ امی تھے اور پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے، اللہ نے آپ کو قرآن مجید سے نوازا۔ یہ اور ان جیسی دیگر وہ نشانیاں جو انبیاے کرام کو دی گئیں۔
ان دلائل کے اندر وہ واضح اور کھلا حق بھی شامل ہے، جس کے ساتھ انبیا و رسل بھیجے جاتے تھے اور ان کے دشمن نہ اس کا جواب دے پاتے تھے اور نہ انکار کر پاتے تھے، بلکہ یہ دشمن جانتے تھے کہ انبیاے کرام جس بات کو پیش کر رہے ہیں، وہ ناقابلِ تردید حق ہے۔
ان دلائل کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاے کرام کو خصوصی طور پر کامل ترین حالات، خوب صورت اوصاف اور عمدہ اخلاق واطوار سے آراستہ کیا ہے۔
اس کے اندر یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں ان کے دشمنوں پر فتح و نصرت عطا کی اور ان کی دعوت کو نمایاں کیا۔
۴- اس نبی کی دعوت کے اصول و مبادی ان اصول و مبادی سے ہم آہنگ ہوں، جن کی طرف دیگر انبیا و رسل نے دعوت دی ہے۔([139])
۵- وہ اپنی عبادت کرنے یا ادنی سے ادنی عبادت بھی اپنے لئے انجام دینے کی دعوت نہ دیتا ہو۔ اسی طرح وہ اپنے قبیلے اور اپنی جماعت کی تعظیم کرنے کی دعوت بھی نہ دیتا ہو۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں: "آپ کہہ دیجیے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے، اس کی اتباع کرتا ہوں"۔ ([140])
۶- وہ اپنی دعوت کے عوض میں لوگوں سے کوئی دنیوی ساز وسامان نہ طلب کرتا ہو۔ اللہ تعالی نے اپنے انبیاے کرام، نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام کے تعلق سے یہ خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں سے کہا تھا: "میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا۔ میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے"۔ ([141])
محمد ﷺ نے اپنی قوم سے کہا تھا: "کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں"۔ ([142])
یہ انبیا و رسل، جن کی بعض صفات اور ان کی نبوت کے بعض دلائل میں نے آپ کے سامنے ذکر کئے، تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو"۔ ([143])
ان کے ذریعہ انسانیت سعادت و خوش بختی سے بہرہ ور ہوئی، تاریخ ان کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ان کے لائے ہوئے دین کے احکام و قوانین تواتر کے ساتھ منقول ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حق اور انصاف پر مبنی ہیں۔ نیز یہ بھی تواتر کے ساتھ منقو ل ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں فتح و نصرت سے سرفراز کیا اور ان کے دشمنوں کو نیست ونابود کردیا۔ مثلاً قوم نوح پر آنے والا طوفان، فرعون کی غرق آبی، قوم لوط کا عذاب، محمد ﷺ کی ان کے دشمنوں پر فتح و نصرت اور آپ کے دین کی ترویج واشاعت وغیرہ۔ جو شخص ان تمام تفصيلات سے واقف ہوگا، اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ تمام انبیائے کرام خیر و بھلائی اور ہدایت و راستی کے ساتھ مبعوث ہوئے اور انہوں نے مخلوقِ الہی کو فائدہ مند امور کی رہنمائی کی اور نقصان دہ کاموں سے روکا۔ ان میں سب سے پہلے نبی نوح علیہ السلام اور سب سے آخری نبی محمد ﷺ ہیں۔
انبیاے کرام بندگانِ الہی کی طرف اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر اور رسول ہیں، جو اللہ کے احکام واوامر ان تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ نے اپنے تابعِ فرمان بندوں کے لئے جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، انہیں ان کی بشارت دیتے ہیں اور احکامِ الہی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے اللہ نے جو عذابِ جاوداں تیار کر رکھا ہے، اس سے ڈراتے ہیں، ان کے سامنے گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کرتے اور انہیں بتاتے ہیں کہ حکمِ الہی کی خلاف ورزی کے سبب انہیں اس دنیا میں کس عذاب اور سزا سے دوچار کیا گیا۔
اللہ کے ان اوامر و نواہی کو انسانی عقل بذات خود نہیں جان سکتی۔ اسی لئے اللہ نے بنی نوع انسانی کی عزت و تکریم اور ان کے مصالح و مفادات کے تحفظ کی خاطر شرعی احکام اور اوامر و نواہی جاری کیے۔ کیوں کہ لوگ بسا اوقات اپنی خواہشات کی رو میں بہہ کر محرمات کو پامال کر دیتے اور لوگوں پر زیادتی کرتے ہوئے ان کے حقوق سلب کر لیتے ہیں۔ اس لئے اللہ کی حکمتِ بالغہ کا تقاضہ ہوا کہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالی ان کے درمیان اپنے رسول بھیجتا رہے، جو انہیں احکام الہی کی یاد دلاتے رہیں، اس کی نافرمانی سے انہیں روکتے رہیں، ان کے سامنے نصیحت پر مبنی آیتوں کی تلاوت کریں اور انہیں گزشتہ قوموں کے واقعات یاد دلائیں۔ کیوں کہ نا مانوس واقعات جب کانوں پر دستک دیتے اور عجیب وغریب معانی ومفاہیم جب ذہنوں کو بیدار کرتے ہیں، تو انسانی عقل ان سے مستفید ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کا علم بڑھتا اور فکر و فہم درست ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ سنتا ہے اس کے ذہن و دل میں سب سے زیادہ خیال آتا ہے، جس کے دل میں سب سے زیادہ خیال آتا ہے، وہی سب سے زیادہ سوچتا بھی ہے، جو سب سے زیادہ سوچ وفکر کرتا ہے، وہی سب سے زیادہ علم سے بہہرہ ور ہوتا ہے اور جس کے اندر سب سے زیادہ علم ہوتا ہے، وہی سب سے زیادہ عمل بھی کرتا ہے۔ اسی لئے رسولوں کی بعثت سے کوئی مفر نہیں اور نہ حق و راستی کے قیام کے لئے ان کا کوئی بدل ہے۔([144])
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ([145]) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بندے کی دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے رسالت وپیغمبری ضروری ہے۔ چنانچہ جس طرح رسالت کی اتباع کئے بغیر اس کی آخرت نہیں سنور سکتی، اسی طرح رسالت کی اتباع کے بغیر اس کی دنیا بھی نہیں سدھر سکتی۔ معلوم ہوا کہ انسان ہر حال میں شریعت کا محتاج ہے، کیوں کہ اس کے نشاط وعمل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جس سے وہ اپنی منفعت حاصل کرتا اور دوسری جس سے اپنی مضرت دور کرتا ہے، جب کہ شریعت وہ نور ہے جو اس کے سامنے نفع ونقصان کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ روئے زمین پر اللہ کا نور ہے، بندوں کے درمیان اس کا عدل وانصاف ہے اور اس کا وہ مضبوط قلعہ ہے کہ اس میں داخل ہونے والا مامون ومحفوظ ہوجاتا ہے۔
شریعت سے مراد یہ نہیں کہ حسی قوت کے ذریعہ نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں کے درمیان تمیز کی جائے، کیوں کہ یہ صلاحیت تو جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ گدھے اور اونٹ بھی جَو اور مٹی کے درمیان فرق کر لیتے ہیں۔ بلکہ شریعت سے مراد یہ ہے کہ ان افعال کے درمیان تمیز کی جائے، جو ان کے مرتکبین کو دنیا و آخرت میں نقصان پہنچاتے ہیں اور ان افعال کی نشان دہی کی جائے، جو بندے کو دنیا وآخرت میں فائدہ پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایمان، توحید، عدل وانصاف، خیر و بھلائی، حسن سلوک، امانت داری، عفت و پاک دامنی، شجاعت وبہادری، علم و معرفت، صبر و تحمل۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، صلہ رحمی، والدین کی فرماں برداری، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، حقوق کی ادائیگی، تمام تر اعمال کو اللہ کے لئے خالص کرنا، اسی پر توکل کرنا، اسی سے مدد مانگنا، اس کی تقدیر سے خوش رہنا، اس کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اس کی تصدیق کرنا اور اس کے رسول نے جو بھی خبر دی ہے، اس کو سچ جاننا اور ان جیسے دیگر اعمال انجام دینا، جو بندے کے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش ہیں اور اس کے برعکس )ان اعمال کی خلاف ورزی کرنے میں( بندے کے لئے دنیا و آخرت کی شقاوت و بدبختی اور نقصان مضمر ہیں۔
اگر رسالت وپیغمبری نہ ہوتی، تو عقل کو زندگی کے فوائد ونقصانات کی تفصیلات کی رہنمائی نہ مل پاتی۔ معلوم ہوا کہ بندوں پر اللہ کا سب سے عظیم اور اشرف ترین انعام یہ ہے کہ ان کے پاس رسولوں کو مبعوث فرمایا، ان پر کتابیں نازل کیں، ان کے سامنے صراط مستقیم کو روشن کردیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو وہ چوپائے کی مانند بلکہ اس سے بھی بدتر ہوتے۔ لہذا جو شخص اللہ کے پیغام و رسالت کو قبول کرے اور اس پر قائم ودائم رہے، وہ بہترین خلائق میں سے ہے اور جو اسے ٹھکرا دے اور اس سے دامن کش رہے، وہ بدترین خلائق میں سے ہے۔ بلکہ کتا، سور اور ہر حقیر شے سے زیادہ حقیر ہے۔ روئے زمین پر بسنے والے باشندوں کی بقا اسی وقت تک ہے، جب تک کہ ان کے اندر رسالت وپیغمبری کے آثار موجود ہیں۔ جب روئے زمین سے رسولوں کے اثرات ناپید ہوجائیں گے، ان کی لائی ہوئی ہدایت کے نقوش مٹ جائیں گے، تو اللہ تعالی عالمِ علوی اور سفلی دونوں کو نیست ونابود کرکے قیامت برپا کردے گا۔
روئے زمین کے باشندوں کے لئے رسول کی ضرورت اس طرح نہیں ہے، جس طرح انہیں سورج، چاند، ہوا اور بارش کی ضرورت ہے، جس طرح انسان کو زندگی کی ضروت ہے، آنکھ کو روشنی کی ضرورت ہے، جسم کو کھانا پانی کی ضرورت ہے، بلکہ یہ ضرورت ان تمام ضرورتوں سے بڑی اور اہم ہے، جو انسان کے ذہن میں آسکتی ہیں۔ کیوں کہ رسول علیہم الصلاۃ والسلام اللہ تعالی کے اوامر و نواہی کی تبلیغ و ترسیل کے لئے اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان سفیر ہیں۔ ان تمام رسولوں کی آخری کڑی، ان سب کے سردار، ان میں سب سے زیادہ رب کے عزیز محمدصلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو تمام دنیا جہان والوں کے لئے رحمت، راہِ حق کے مسافروں کے لئے روشن دلیل اور تمام مخلوقات پر حجت (قائم کرنے والا( بنا کر مبعوث فرمایا۔ تمام انبیا و رسل سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی کرنے کا عہد و پیمان لیا۔ نیز انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے پیروکاروں سے بھی یہ عہد وپیمان لیں۔ اللہ نے آپ کو قیامت سے پہلے خوش خبریاں سنانے والا اور آگاہ کرنے والا اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔ آپ کے ذریعہ رسالت وپیغمبری کا سلسلہ ختم کیا، )لوگوں کو( گمراہی سے نکال کر ہدایت سے سرفراز کیا، جہالت سے نکال کر علم سے روشناس کیا، آپ کی رسالت کے ذریعہ اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دیا۔ چنانچہ گھٹا ٹوپ تاریکویں میں غرق یہ دنیا آپ کی رسالت سے روشن ومنور ہوگئی، بچھڑے ہوئے دل آپس میں جڑ گئے، آپ کے ذریعہ اللہ نے ملت کی کجی کو دور کیا اور روشن شاہراہ کو تاباں ونمایاں کیا۔ آپ کا سینہ کھول دیا، آپ کے دل سے سارا بوجھ اتار دیا، آپ کا ذکر بلند فرمایا اور آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ذلت ومسکنت مقدر کردی۔ اللہ تعالى نے آپ ﷺ کو رسولوں کی بعثت کے ایک وقفے کے بعد مبعوث فرمایا، جب آسمانی کتابیں ناپید ہوچکی تھیں، کلامِ الہی میں تحریف در آ چکی تھی، شریعتیں تبدیل کردی گئی تھیں، ہر قوم اپنے ظالمانہ آرا و افکار کو دلیل بنارہی تھی، اپنی بے بنیاد وبیہودہ باتوں اور خواہشاتِ نفس کے مطابق اللہ کے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتی تھی۔ )ایسے حالات میں( اللہ نے آپ کے ذریعہ اپنے خلائق کو ہدایت دی اور ان کے سامنے راستے واضح کردیے، آپ کے ذریعہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لایا اور آپ کے ذریعہ کامیابی سے ہمکنار ہونے والوں اور فسق و فجور میں غرق رہنے والوں کے درمیان تمیز کی۔ چنانچہ جس نے آپ کی ہدایت قبول کی وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو آپ کی راہ سے منحرف ہوگیا وہ گمراہ اور ظالم ہے۔ اللہ تعالی آپ پر اور تمام انبیا و رسل پر درود وسلام نازل فرمائے۔([146])
انسان کے لئے رسالت وپیغمبری کی ضرورت کا خلاصہ ہم درجِ ذیل نکات کی روشنی میں پیش کرسکتے ہیں:
۱- انسان اپنے رب کی ماتحتی میں رہنے والی مخلوق ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے خالق سے آشنا ہو۔ یہ جانے کہ اس کا رب اس سے کیا چاہتا ہے اور اسے کیوں پیدا کیا ہے؟ انسان اپنی عقل کی بنیاد پر یہ تمام چیزیں نہیں جان سکتا ہے اور انبیا و رسل کی معرفت اور ان کی لائی ہوئی ہدایت اور نور کی آشنائی کے علاوہ ان تمام معارف کوحاصل کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ بھی نہیں ہے۔
۲- انسان جسم اور روح سے عبارت ہے۔ جسم کی غذا کھانا پانی سے حاصل ہوتی ہے، جب کہ روح کی غذا اس کے خالق نے دینِ حق اور عمل صالح کو بنایا ہے۔ انبیا و رسل دینِ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے اور انہوں نے عملِ صالح کی رہنمائی فرمائی۔
۳- انسان فطری طور پر دین کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اسے ایک دین کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وہ تابع داری کرے۔ یہ ضروری ہے کہ وہ دین برحق ہو اور دینِ حق کی ہدایت کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انبیا و رسل اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لایا جائے۔
۴- انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس راہ کی معرفت حاصل کرے، جو اسے دنیا میں رضاے الہی تک اور آخرت میں جنت اور رب کی نعمت تک پہنچا سکے اور اس راہ کی رہنمائی سواے انبیا و رسل کے کوئی اور نہیں کرسکتا۔
۵- انسان اپنے آپ میں ایک کمزور مخلوق ہے۔ بہت سے دشمن اس کی گھات میں لگے ہوئے ہیں، جیسے شیطان جو اسے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے، برے ساتھی جو اس کے سامنے برائی کو خوب صورت بناکر پیش کرتے ہیں اور برائی کا حکم دینا والا نفس۔ اس لئے اسے ضرورت ہوتی ہے ایسے محافظ کی، جو اسے دشمنوں کی سازش سے محفوظ رکھ سکے۔ انبیا و رسل نے اس )محافظ کی طرف( بھی رہنمائی کی ہے اور اسے حد درجہ وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
۶- انسان اپنی طبیعت میں تمدن پسند مخلوق ہے۔ اس کا مخلوقِ الہی کے ساتھ رہنا سہنا اور زندگی بسر کرنا ایک شریعت کا متقاضی ہے، تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں، ورنہ ان کی زندگی جنگلی زندگی بن کر رہ جائے گی۔ یہ شریعت ایسی ہونی چاہئے، جو ہر حق دار کے حقوق کو بغیر کسی افراط و تفریط کے تحفظ فراہم کرے اور ایسی کامل شریعت انبیا ورسل کے سوا کوئی نہیں پیش کرسکتا۔
۷- انسان اس چیز کی معرفت کا محتاج ہے جو اسے اطمینان اور نفسیاتی سکون فراہم کرسکے، حقیقی سعادت وخوش بختی کے اسباب کی طرف اس کی رہنمائی کرسکے اور (سچائی یہ ہے کہ) اس کی رہنمائی بھی انبیا و رسل ہی کرتے ہیں۔
انسان کے لئے انبیا و رسل کی ضرورت کو واضح کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کا ذکر کیا جائے اور اس کے دلائل و براہین بیان کئے جائیں:
ہر انسان یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ اسے ہر حال میں مرنا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت کے بعد اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ خوش بخت ہوگا یا بدبخت؟
بہت سی قومیں اور ملتیں یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ موت کے بعد انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور ان کے اعمال کا حساب وکتاب لیا جائے گا۔ اگر اچھا عمل کیا تو بہتر بدلہ دیا جائے گا اور برا عمل کیا تو اس کا بدلہ بھی برا ہوگا۔([147]) بعث بعد الموت اور حساب وکتاب ایک ایسا امر ہے، جس کو عقلِ سلیم تسلیم کرتی اور الہی شریعتیں اس کی تائید کرتی ہیں۔ اس کی بنیاد تین اصولوں پر ہے:
۱- اللہ پاک کے لئے کمالِ علم کو ثابت کرنا۔
۲- اللہ پاک کے لئے کمالِ قدرت کو ثابت کرنا۔
۳- اللہ پاک کے لئے کمالِ حکمت کو ثابت کرنا۔
بعث بعد الموت کو ثابت کرنے والی عقلی اور نقلی دلیلیں بہت زیادہ ہیں، جن میں سے بعض دلیلیں یہ ہیں:
۱- آسمان و زمین کو پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "کیا وه نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وه نہ تھکا، وه یقیناً مُردوں کو زنده کرنے پر قادر ہے؟ کیوں نہ ہو؟ وه یقیناً ہر چیز پر قادر ہے"۔ ([148])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، کیا وه ان جیسوں کے پیدا کرنے پرقادر نہیں؟ بے شک قادر ہے۔ اور وہی تو پیدا کرنے واﻻ دانا )بینا (ہے"۔ ([149])
۲- بغیر کسی سابقہ مثال کے اللہ تعالی کا مخلوقات کی تخلیق پر قدرت رکھنا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوسری مرتبہ بھی ان کو پیدا کرنے پر قادر ہے۔ کیوں کہ (عدم سے( وجود میں لانے والا اس بات پر بدرجۂ اولی قادر ہوتا ہے کہ دوبارہ اپنی مخلوق کو پیدا کرے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "وہی اللہ جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے، پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اسے بہت آسان ہے۔ اس کی بہترین اور اعلى صفت ہے"۔ ([150])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی )اصل( پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا: ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟ آپ جواب دیجیے کہ انہیں وه زنده کرے گا، جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واﻻ ہے"۔ ([151])
۳- انسان کو بہترین شکل وصورت میں اس کامل ہیئت کے ساتھ پیدا کیا کہ اس میں اعضا و جوراح ہیں، مختلف قسم کی طاقت و قوت اور اوصاف و خصوصیات ہیں، گوشت، ہڈی، رگیں، پٹھے، سانس لینے اور کھانے پینے کی جگہیں، آلات، علوم ومعارف، ارادے اور صنعت و حرفت کے گوہر موجود ہیں، جو اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ پاک مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔
۴- اللہ نے دنیوی زندگی میں بھی مردوں کو زندہ کیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ پاک آخرت کی زندگی میں بھی ان کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اس کی خبر ان آسمانی کتابوں میں بھی آئی ہے، جو اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمائی۔ ان خبروں میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے حکم سے ابراہیم اور عیسی مسیح علیہم السلام نے مردوں کو زندہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں۔
۵- اللہ تعالی ایسے امور پر قدرت رکھتا ہے، جو حشر و نشر (دوبارہ اٹھائے جانے( کے مشابہ ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی اللہ قادر ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ا- اللہ نے انسان کو منی کے ایک قطرہ سے پیدا کیا، جو بدن کے مختلف حصوں میں منتشر تھا۔ (یہی وجہ ہے کہ جسم کے تمام حصوں کو جماع کی لذت محسوس ہوتی ہے(۔ لیکن اللہ جسم کے مختلف حصوں سے اس قطرے کو جمع کرتا ہے، پھر وہ مادرِ رحم میں قرار پاتا ہے، جس سے اللہ تعالی انسان کی تخلیق کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مَنِی کے یہ حصے منتشر تھے، جنہیں اللہ نے جمع کیا اور ان سے اس انسان کو پیدا کیا۔ پھر جب موت کی وجہ سے وہ حصے بکھر جائیں گے، تو اس کے لئے ان کو دوبارہ یک جا کرنا کیوں کر مشکل ہوسکتا ہے؟ اللہ عزیز وبرتر کا فرمان ہے: "اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو۔ کیا اس کا )انسان( تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں"؟([152])
ب- مختلف قسم کے بیج جب تَر زمین میں ڈالے جاتے ہیں اور ان پر مٹی اور پانی کا ڈھیر جمع ہوجاتا ہے، تو عقل یہ کہتی ہے کہ انھیں سڑ گل جانا چاہیے، کیوں کہ پانی اور مٹی میں سے کوئی ایک بھی اس کو سڑانے گلانے کے لئے کافی ہے، تو بھلا جب دونوں ایک ساتھ جمع ہوجائیں، تو بدرجۂ اولی وہ سڑ گل جائے گا۔ لیکن )حقیقت یہ ہے کہ( وہ سڑتا گلتا نہیں، بلکہ محفوظ رہتا ہے۔ پھر جب نمی بڑھتی ہے تو بیج پھٹ جاتا اور اس سے پودہ نکل آتا ہے۔ کیا یہ اللہ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر دلالت نہیں کرتا؟ اتنی حکمت اور اس قدر قدرت والا یہ معبود ان اجزا اور اعضا کو یک جا کرنے سے کیوں کر عاجز ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو، اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں"؟([153])
اسی کی نظیر اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے: "تو دیکھتا ہے کہ زمین )بنجر اور( خشک ہے۔ پھر اس پر ہم بارش برساتے ہیں، تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے"۔ ([154])
۶- قدرت، علم و معرفت اور حکمت والا خالق اس بات سے منزّہ اور مبرّا ہے کہ مخلوق کو بے کار پیدا کرے اور انہیں یوں ہی بے مقصد چھوڑ دے۔ اللہ جلّ ذکرہ کا ارشاد ہے: "ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا۔ یہ گمان تو کافروں کا ہے۔ سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی"۔ ([155])
بلکہ اللہ نے مخلوق کو عظیم حکمت اور بڑی ذی شان غرض وغایت کے پیش نظر پیدا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "میں نے جن و انس کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں"۔ ([156])
اس لئے اس حکمت والے معبود کو یہ زیبا نہیں کہ اس کے نزدیک اس کی اطاعت اور معصیت کرنے والے برابر ہوں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان ﻻئے اور نیک عمل کیے، ان کے برابر کر دیں گے، جو )ہمیشہ( زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟ لہذا اس کی کمالِ حکمت اور عظیم قہر و سلطانی کا تقاضہ ہے کہ قیامت کے دن مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے، تاکہ ہر انسان کو اس کے عمل کا بدلہ دے سکے۔ چنانچہ نیکو کار کو بہتر بدلہ سے نوازے اور گناہ گار کو عذاب سے دوچار کرے۔ فرمان الہی ہے: "تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ اللہ نے سچا وعده کر رکھا ہے۔ بے شک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے۔ پھر وہی دوباره بھی پیدا کرے گا، تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کیے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے"۔ ([157])([158])
یوم آخرت (دوبارہ اٹھائے جانے اور محشر میں جمع ہونے( پر ایمان لانے کے فرد اور معاشرہ پر بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے چند اثرات یہ ہیں:
۱- اس دن کے اجر و ثواب کی رغبت اور طلب میں انسان اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کا اہتمام کرے اور اس دن کے عذاب و عقاب سے بچنے کے لئے اس کی نافرمانی سے دور رہے۔
۲- دنیا کے مال و متاع سے محرومی کی صورت میں بندۂ مؤمن آخرت کی جن نعمتوں اوراجر و ثواب کی امید رکھتا ہے، وہ اس کے لئے باعثِ تسلی ہیں۔
۳- آخرت پر ایمان لانے سے انسان یہ جان جاتا ہے کہ موت کے بعد اس کا انجام کیا ہوگا اور اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اگر اچھا عمل رہا تو بدلہ بھی بہتر ملے گا اور برا عمل رہا تو بدلہ بھی برا ملے گا۔ نیز یہ کہ اس سے حساب و کتاب لیا جائے گا، جس نے اس پر ظلم کیا ہوگا، اس سے اس کا قصاص لیا جائے گا اور جن بندوں پر اس نے ظلم وستم کیا ہوگا، ان کے حقوق اس سے لئے جائیں گے۔
۴- یوم آخرت پر ایمان انسان کو دوسروں پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق پامال کرنے سے روکتا ہے۔ اگر لوگ روزِ آخرت پر ایمان لے آئیں، تو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے باز آجائیں گے اور ان کے حقوق محفوظ ہوجائیں گے۔
۵- یومِ آخرت پر ایمان انسان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ دنیا کو زندگی کا صرف ایک مرحلہ تصور کرے، پوری زندگی نہیں۔
اس باب کے اخیر میں امریکی نصرانی "وین بٹ" کا قول ذکر کرنا برمحل اور موزوں معلوم ہوتا ہے، جو پہلے ایک گرجا گھر میں کام کرتا تھا اور بعد میں اسلام قبول کرلیا۔ وہ آخرت پر ایمان لانے کا فائدہ محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے: "اب میں ان چاروں سوالوں کے جواب سے واقف ہوں، جو میری زندگی پر بہت زیادہ حاوی تھے۔ وہ یہ کہ میں کون ہوں؟ میں کیا چاہتا ہوں؟ میں کیوں آیا ہوں اور میرا ٹھکانہ کہاں ہے"؟([159])
تمام انبیا و رسل جامع و مانع اصول و مبادی([160]) کی دعوت دینے میں باہم متفق تھے۔ جیسے اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یومِ آخرت اور تقدیر کے خیر وشر پر ایمان لانا، صرف ایک اللہ کی دعوت دینا جس کا کوئی شریک نہیں، اس کی راہ کی پیروی کی کرنا، اس کے علاوہ تمام مخالِف راہوں سے اجتناب کرنا، چار قسم کے اعمال کو حرام قرار دینا جو کہ یہ ہیں، بے حیائی کے سارے طریقے، خواہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ، ہر گناہ کی بات، ناحق کسی پر ظلم، اللہ کے ساتھ شرک، بتوں اور مجسموں کی عبادت، اللہ کو بیوی، اولاد، ساجھی، ہمسر اور ہم مثل سے پاک و صاف قرار دینا، اللہ کی طرف ناحق کوئی بات منسوب کرنے کی حرمت، اولاد کو قتل کرنے کی حرمت، ناحق کسی انسان کا خون بہانے کی حرمت، سود اور یتیم کا مال کھانے کی ممانعت، وعدہ پورا کرنے اور ٹھیک ٹھیک ناپ تول کرنے کا حکم، والدین کی فرماں برداری، لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف، قول و عمل میں سچائی کا حکم اور فضول خرچی، کبر و غرور اور ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کی ممانعت۔
ابن القیم([161]) رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: "تمام شریعتیں -اگرچہ (اپنے احکام میں( مختلف ہیں- البتہ اپنے اصول و مبادی میں باہم متفق ہیں، جن کا حسن و جمال ذہن و دماغ میں پیوست ہے۔ اگر وہ اپنی موجودہ صورت کے بجائے کسی اور شکل میں ہوتیں، تو حکمت و مصلحت اور رحمت کے دائرے سے نکل جاتیں، بلکہ یہ ناممکن ہے کہ شریعتیں اپنی موجودہ تعلیمات کی بجائے دیگر تعلیمات کے ساتھ وارد ہوتیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: "اگر حق ان کی خواہشوں کا پیرو ہوجائے، تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہوجائے"۔ ([162])
عاقل وخردمند انسان کیسے اس کا جواز فراہم کر سکتا ہے کہ احکم الحاکمین کی نازل کردہ شریعت اپنی لائی ہوئی تعلیمات کی بجائے دیگر تعلیمات کے ساتھ وارد ہوتی"۔ ([163])
یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاے کرام کا دین ایک تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں۔ پس تم مجھ سے ڈرتے رہو"۔ ([164])
نیز عزیز وبرتر پروردگار نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے، جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام)کو حکم دیا تھا اور جو )بذریعۂ وحی( ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ )علیہم السلام( کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا"۔ ([165])
بلکہ دین سے مراد یہ ہے کہ بندے اس مقصد سے آشنا ہوجائیں جس کی خاطر انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی صرف اپنے پروردگار کی عبادت کریں، جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں۔([166])
چنانچہ وہ دین ان کے لئے ایسے حقوق مشروع کرتا ہے جن کو ادا کرنا ان پر واجب ہے، انہیں ایسے واجبات کی ضمانت دیتا اور ایسے وسائل سے بہرہ ور کرتا ہے جو انہیں اس مقصد سے ہمکنار کرا سکیں، تاکہ انہیں رضاے الہی نصیب ہو اور دنیا و آخرت میں وہ اللہ کے بتائے ہوئے اس طریقے کے مطابق سعادت سے سرفراز ہوسکیں، جو نہ بندہ کو شکست سے دوچار کرتا ہے اور نہ اس کی شخصیت کو جاں توڑ نفسیاتی بیماری کا شکار بناتا ہے، جو اسے فطرت، روح اور ارد گرد کی کائنات کے مابین تصادم اور ٹکڑاؤ تک لے جائے۔
معلوم ہوا کہ تمام رسولوں نے اسی دینِ الہی کی طرف دعوت دی، جو انسانوں کے سامنے وہ بنیادی عقیدہ پیش کرتا ہے، جس پر وہ ایمان لائیں، انہیں ایسی شریعت سے نوازتا ہے جسے وہ اپنی زندگی کا طرز عمل بنائیں، اسی لئے تورات عقیدہ اور شریعت سے عبارت تھی، جس کے حاملین کو حکم دیا گیا کہ وہ )اپنے تمام تر مسائل میں( اسے اپنا حاکم وفیصل بنائیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: "بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی ہے، جس میں ہدایت ونور ہے۔ یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالی کے ماننے والے انبیا )علیہم السلام( اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے"۔([167])
اس کے بعد عیسی مسیح علیہ السلام انجیل کے ساتھ مبعوث ہوئے، جس میں نور اور ہدایت تھی۔ وہ )عیسی علیہ السلام( اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے۔ اللہ جلّ ذکرہ نے فرمایا: "اور ہم نے ان کے پیچھے عیسی بن مریم کو بھیجا، جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی، جس میں نور اور ہدایت تھی"۔ ([168])
پھر محمد ﷺ آخری شریعت اور دینِ کامل کے ساتھ مبعوث ہوئے، جو اپنے سے ماقبل کی تمام شریعتوں کی محافظ ہے اور (آپ ﷺ) اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے، جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ اس لئے آپ ان کے آپس کے معامالات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجیے۔ اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے"۔ ([169])
اللہ سبحانہ وتعالی نے بیان فرمایا کہ محمد ﷺ اور آپ کے ساتھ ایمان والے بھی اس پر ایمان لائے، جس طرح ان سے ماقبل کے انبیا و رسل اس پر ایمان لائے تھے۔ اللہ جلّ ذکرہ نے فرمایا: "رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان ﻻئے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے۔ اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے"۔ ([170])
پیغامِ جاوداں([171])
یہودی، نصرانی، مجوسی، زرتشتیت اور مختلف قسم کے مشرکانہ ادیان و مذاہب کے جو حالات مذکورہ بالا سطور میں ذکر کئے گئے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں انسانیت کی حالت کیا تھی([172])۔ چوں کہ دین میں بگاڑ آچکی تھی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات بگڑ چکے تھے، جس کے نتیجے میں خوں ریز جنگیں عام ہوگئی تھیں، ظلم وستم کا بازار گرم ہوگیا تھا، انسانیت گھٹا ٹوپ اندھیرے میں زندگی بسر کر رہی تھی، کفر اور جہالت کی تاریکیوں کی وجہ سے دل بھی تاریک ہوگئےتھے، اخلاق میں خرابی اور بگاڑ آگئی تھی، عزت و ناموس پامال ہو رہی تھی، حقوق سلب ہورہے تھے، خشکی و تری میں فساد وبگاڑ کا دور دورہ تھا، حالت اس قدر دگر گوں تھی کہ اگر عقل مند انسان اس پر غور کرے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت انسانیت جاں کنی کے عالم میں تھی، اس کے خاتمے کا وقت آگیا تھا، لیکن اللہ تعالی نے ایک عظیم مصلح کے ذریعہ ان کی نیا پار کرادی، جو مشعلِ نبوت اور چراغِ ہدایت لے کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئے، تاکہ انسانیت کے لئے اس کا راستہ روشن کریں اور اسے راہ مستقیم کی رہنمائی فرمائیں۔
اسی زمانے میں اللہ کی مشیئت ہوئی کہ مکہ مکرمہ جہاں بیتِ عظیم (کعبہ( ہے، وہاں سے نبوتِ جاوداں کا نور تاباں طلوع ہو۔ مکہ کا ماحول بھی شرک وجہالت اور ظلم وستم کے اعتبار سے دیگر انسانی ماحولوں ہی کی طرح تھا، لیکن دیگر مقامات پر اسے یک گونہ خصوصیات حاصل تھیں، جن میں سے چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱- وہ ایک پاک صاف ماحول تھا، بایں معنی کہ وہاں کا ماحول یونانی، رومانی اور ہندوستانی فلسفوں سے متاثر نہیں ہوا تھا۔ وہاں کے باشندے سنجیدہ گفتگو، روشن دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔
۲- وہ شہر پوری دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ چنانچہ وہ یورپ، ایشیا اور افریقہ کے بالکل وسط میں ہے، جو کہ ان تمام مالک کے اندر نہایت کم مدت میں اس پیغامِ جاوداں کے پہنچنے اور پھیلنے کا ایک اہم سبب ہے۔
۳- وہ ایک پرامن شہر ہے، بایں طور کہ جب ابرہہ نے اس پر حملہ کرنا چاہا، تو اللہ نے اس کی حفاظت کی اور آس پڑوس کی سلطنتوں کو اس پر تسلط حاصل نہ ہوسکا، جیسے فارس اور روم۔ بلکہ شمال اور جنوب میں اس کی تجارت تک مامون تھی، جس سے نبی کریم ﷺ کی بعثت کے لئے راہ ہموار ہو رہی تھی۔ اللہ تعالی نے اہلِ مکہ کو اس نعمت کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا: "کیا ہم نے انہیں امن وامان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی، جہاں تمام چیزوں کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں"۔ ([173])
۴- وہاں کا ماحول ریگستانی تھا، جہاں بہت سی قابل ستائش خوبیاں محفوظ تھیں۔ جیسے سخاوت و فیاضی، پڑوس کی حفاظت، عزت و ناموس کی غیرت اور ان جیسی دیگر ایسی تمام خوبیاں، جن کے سبب مکہ کو یہ اہلیت ملی کہ وہ پیغامِ جاوداں کے لئے مناسب مقام ہو سکے۔
اسی عظیم الشان جگہ سے اور قریش کے قبیلہ سے جو فصاحت و بلاغت اور حسنِ اخلاق میں شہرت رکھتی تھی اور جسے عزت وشرافت اور حکومت وسرداری حاصل تھی, اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ کو منتخب فرمایا، تاکہ آپ آخری نبی اور رسول کی شکل میں جلوہ گر ہوں۔
آپ کی ولادت چھٹی صدی عیسوی میں تقریبا سنہ 570ء کو ہوئی۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں نشو ونما پائی، کیوں کہ آپ ابھی مادر رحم ہی میں تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ جب آپ چھے سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ اور دادا بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس کے بعد آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کو اپنی کفالت میں لیا۔ آپ کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا۔ آپ کے اوپر ذہانت اور قابلیت کی نشانیاں ظاہر و عیاں تھیں۔ چنانچہ آپ کے اخلاق و اطوار اور عادات و اوصاف آپ کی قوم کی عادات و اطوار سے مختلف تھے۔ آپ جھوٹ نہیں بولتے تھے، کسی کو تکلیف نہ دیتے، صدق گوئی، عفت وپاک دامنی اور امانت داری میں شہرہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی قوم کے بہت سے لوگ آپ کے پاس اپنے قیمتی مال و متاع بطور امانت رکھا کرتے تھے اور آپ ایسے ہی ان کی حفاظت کرتے جیسے اپنی جان و مال کی کرتے، جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو امین کے لقب سے پکارنا شروع کردیا۔ آپ نہایت باحیا اور شرمیلے تھے۔ بلوغت کے بعد سے آپ نے کسی کے سامنے اپنا بدن نہیں کھولا۔ آپ حد درجہ پاک طینت اور تقوی شعار انسان تھے۔ اپنی قوم میں بت پرستی، شراب نوشی اور خوں ریزی کے مناظر دیکھتے تو آپ کو دکھ ہوتا۔ آپ اپنی قوم کا ساتھ انہیں کاموں میں دیتے، جن سے آپ خوش ہوتے۔ بے حیائی، عریانیت اور فسق وفجور کی محفلوں سے دور رہتے۔ آپ یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے... یہاں تک کہ جب آپ کی عمر چالیس کے قریب ہوئی، تو بگڑے ہوئے ماحول سے آپ کو گھٹن ہونے لگی۔ چنانچہ اپنے رب کی عبادت کے لئے آپ گوشہ نشینی اختیار کرنے لگے اور اپنے رب سے یہ دعا کرنے لگے کہ آپ کو راہِ مستقیم کی ہدایت عطا کرے۔ آپ اسی حالت سے گزر رہے تھے کہ آپ کے رب کی جانب سے وحی لے کر ایک فرشتہ آپ پر نازل ہوا اورآپ کو حکم دیا کہ اس دین کو لوگوں تک پہنچا دیں۔ انہیں اپنے پروردگار کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے باز رہنے کی دعوت دیں۔ دن گزرتے رہے اور سال کے بعد سال آتے رہے اور احکام واوامر کے ساتھ وحی کا نزول جاری وساری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے اس دین کو مکمل کردیا اور ان پر اپنی نعمت تمام کردی۔ جب آپ کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا، تو اللہ تعالی نے آپ کو وفات دے دی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 63 سال تھی، جن میں سے چالیس سال آپ نے نبوت سے پہلے گزارے اور تئیس سال نبوت ورسالت کے ساتھ گزارے۔
جو شخص بھی انبیا کے حالات پر غور کرے گا اور ان کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا وہ یقینی طور پر جان جائے گا کہ ہر وہ طریقہ جس کے ذریعہ کسی بھی نبی کی نبوت ثابت ہوتی ہے، اس سے محمد ﷺ کی نبوت بدرجہ اولی ثابت ہوتی ہے۔
چنانچہ اگر آپ غور کریں گے کہ موسی اور عیسی علیہما السلام کی نبوت کیسے منتقل ہوئی، تو معلوم ہوگا کہ تواتر کے ذریعہ منتقل ہوئی۔ ایسے میں جس تواتر کے ساتھ محمد ﷺ کی نبوت منتقل ہوئی وہ زیادہ عظیم اور معتمد تواتر ہے اور زمانے کے اعتبار سے زیادہ قریب بھی ہے۔
اسی طرح وہ تواتر جس کے ذریعہ آپ کے معجزے اور نشانیاں منتقل ہوئیں، وہ بھی اسی تواتر کی طرح ہے، بلکہ وہ محمد ﷺ کے حق میں زیادہ عظیم مرتبت کا حامل ہے، کیوں کہ آپ کی نشانیاں بہت زیادہ ہیں، بلکہ آپ کی سب سے بڑی نشانی قرآن مجید آج تک تواتر کے ساتھ تحریری اور تقریری دونوں شکل میں منقول ہوتا چلا آرہا ہے۔([174])
موسی وعیسی علیہما السلام اور محمد ﷺ جو صحیح عقیدہ، محکم اور پختہ احکام و قوانین اور نفع بخش علوم لے کر آئے، ان کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام تعلیمات کے سونتے ایک ہی سرچشمہ سے پھوٹتے ہیں اور وہ ہے سرچشمۂ نبوت۔
جو شخص دیگر انبیا کے متبعین اور محمد ﷺ کے متبعین کے احوال کا تقابلی جائزہ لے گا، وہ جان جائے گا کہ آپ کے پیروکار لوگوں کے لئے سب سے زیادہ سود مند تھے، بلکہ اپنے بعد والوں پر اثر ڈالنے کے اعتبار سے تمام انبیائے کرام کے متبعین میں ان کو سب سے عظیم مقام حاصل تھا۔ انہوں نے توحید کی نشر واشاعت کی، عدل وانصاف کو رواج بخشا اور کمزوروں اور مسکینوں کے لئے وہ سراپا رحمت بن کر رہے۔([175])
اگر آپ نبی ﷺ کی نبوت کے دلائل کی مزید وضاحت چاہتے ہیں، تو میں آپ کے سامنے وہ دلائل اور نشانیاں ذکر کئے دیتا ہوں جن تک علی بن ربّن الطبری کو تب رسائی ملی جب وہ عیسائی تھے اور انہی دلائل کے سبب انہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ دلائل حسب ذیل ہیں:
۱- آپ نے ایک اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا تمام معبودان باطلہ کی عبادت کو ترک کرنے کی دعوت دی۔ آپ کی یہ دعوت تمام انبیائے کرام کی دعوت سے ہم آہنگ ہے۔
۲- آپ نے ایسی واضح نشانیاں ظاہر کیں، جو صرف اللہ کے انبیا ہی پیش کرسکتے ہیں۔
۳- آپ نے مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیشین گوئی کی اور وہ واقعات ویسے ہی رونما ہوئے جیسے آپ نے خبر دی تھی۔
۴- آپ نے دنیا اور اس کے مختلف ممالک میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کی پیشین گوئی کی اور وہ واقعات ویسے ہی واقع ہوئے جیسے آپ نے خبر دی تھی۔
۵- جس کتاب کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے وہ بھی نبوت کی ایک نشانی ہے۔ کیوں کہ وہ بلیغ ترین کتاب ہے، جسے اللہ نے ایک امی شخص پر نازل فرمایا، جو پڑھنے لکھنے سے نابلد تھا، جس نے تمام فصحاے عرب کو یہ چیلنج دیا کہ اس جیسی کوئی کتاب یا کوئی ایک سورہ ہی پیش کردیں۔ ساتھ ہی یہ کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے سر لی ہے، اس کے ذریعہ صحیح عقیدہ کی حفاظت کی، اس میں اپنی کامل ترین شریعت شامل کی اور اس کے ذریعہ سب سے افضل امت کو قائم اور برپا کیا۔
۶- آپ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اگر آپ کی بعثت نہ ہوتی تو ان تمام انبیاے کرام کی نبوت باطل قرار پاتی، جنہوں نے آپ کی بعثت کی خوش خبری دی تھی۔
۷- آپ کی آمد کی پیشین گوئی کی، آپ کی بعثت اور آپ کے شہر کے حالات بیان کئے اور یہ ذکر کیا کہ آپ کے اور آپ کی امت کے سامنے ساری قومیں اور بادشاہانِ وقت گھٹنے ٹیک دیں گے اور آپ کا دین افق زمانہ پر پھیل جائے گا۔
۸- جن قوموں نے آپ سے جنگ لڑیں اور آپ ان پر فتح یاب ہوئے، ان پر آپ کی یہ فتح ونصرت بھی آپ کی نبوت کی ایک نشانی ہے۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسول ہونے کا جھوٹا دعوی کرے اس کے باوجود اللہ تعالی اسے فتح ونصرت سے سرفراز کرے، دشمنوں پر غالب کردے، اس کی دعوت کو رواج ملے، اس کے پیروکاروں کی تعداد بڑھتی جائے، بلکہ ایسا صرف اس کے ساتھ ہوتا ہے جو سچا نبی ہوتا ہے۔
۹- آپ جس زہد و عبادت، عفت و پاک دامنی، صدق و راست گوئی، عمدہ سیرت و کردار، قابل ستائش اخلاق و اطوار اور بیش قیمت احکام و شرائع سے آراستہ وپیراستہ تھے، وہ صرف نبی برحق کے اندر ہی یک جا ہوسکتے ہیں۔
اس ہدایت یافتہ شخص نے ان دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: "ان روشن وتاباں خصلتوں اور کافی و شافی دلائل سے جو شخص مزین ہو اس کے لئے نبوت واجب ہوجاتی ہے، اس کی قسمت چمک اٹھتی ہے، وہ کامیاب وکامران ہوتا ہے، اس کی تصدیق کرنا واجب ہوتا ہے اور جو شخص اس کا انکار کرے وہ ناکام و نامراد اور دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار ہوتا ہے"۔ ([176])
اس باب کے اخیر میں آپ کے سامنے دو گواہیاں پیش کر رہا ہوں: ماضی میں شاہِ روم کی گواہی جو محمد ﷺ کا ہم عصر تھا اور دور حاضر میں انگلینڈ کے عیسائی مبلغ )جون سنٹ( کی گواہی۔
ہرقل )شاہِ روم( کی گواہی: بخاری رحمہ اللہ نے ابو سفیان کا واقعہ پیش کیا ہے، جب ان کو بادشاہِ روم نے اپنے دربار میں بلایا تھا۔ بخاری فرماتے ہیں: "ہم کو ابوالیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی۔ انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی۔ انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس سے ابوسفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل )شاہِ روم( نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ ﷺ نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی عہد([177]) کیا ہوا تھا۔
ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا([178]) پہنچے، جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علما، وزرا اور امرا( بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا۔ پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔ )یہ سن کر( ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو )ابوسفیان کو( میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے )یعنی محمد ﷺ کے( حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (ابوسفیان کا قول ہے کہ( اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے، تو میں آپ ﷺ کی نسبت ضرور غلط بیانی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔ کہنے لگا کہ اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ کہنے لگا کہ اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس نے کہا: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا: نہیں کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا: اس کے تابع دار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعواے (نبوت( سے پہلے کبھی )کسی بھی موقع پر( اس نے جھوٹ بولا ہے؟ میں نے کہا : نہیں۔ اور اب ہماری اس سے )صلح کی( ایک مقررہ مدت ٹھہری ہوئی ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ )ابوسفیان کہتے ہیں( میں اس بات کے سوا اور کوئی )جھوٹ( اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل نے کہا: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟ میں نے کہا: لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے )میدان جنگ( جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں۔ ہرقل نے پوچھا: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی( باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، عفت وپاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ )یہ سب سن کر( پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا، تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے۔ دراصل پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ( نبوتکے دعوے کی( یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تب میں نے (اپنے دل میں( کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی، تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے )دل میں( کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا، تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص )اس بہانہ( اپنے آبا و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک )دوبارہ( حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے )یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے( سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟ تم نے کہا کہ نہیں۔ اس سے میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچتا ہو، وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے؟ میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے۔ )دراصل( یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے، حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے؟ تم نے کہا : نہیں۔ ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے کہ جن کے دلوں میں اس کی لطافت وأںسیت رچ بس جائے، وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں؟ تم نے کہا : نہیں۔ پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں؟ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ نماز پڑھنے‘ سچ بولنے اور عفت وپاک دامنی کا حکم دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں، تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ )پیغمبر( آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا، تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا، تو اس کے پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ ﷺ کا وہ خط منگایا، جو آپ نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پھر اس کو پڑھا تو (اس میں) لکھا تھا: "اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد ﷺ کی طرف سے یہ خط ہے شاہِ روم کے لیے۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ )میری دعوت سے( روگردانی کریں گے، تو آپ کی رعایا([179]) كاگناہ بھی آپ ہی پر ہو گا۔ اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے( منہ پھیر لیں، تو )مسلمانو!(تم ان سے کہہ دو کہ )تم مانو یا نہ مانو( ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں"۔ ([180])
دور حاضر میں انگلینڈ کے رہنے والے عیسائی مبلغ جون سنٹ کی گواہی۔ وہ کہتے ہیں: "افراد ومعاشرہ کی خدمت، مساوات اور یکسانیت کی بنیادوں پر معاشرے کے قیام سے متعلق اسلام کے اصول ومبادی اور اس کی تفصیلی تعلیمات کا مسلسل جائزہ لینے کے بعد میں نے خود کو اپنی عقل اور روح کے ساتھ پورے طور پر اسلام کی طرف راغب پایا اور اسی دن سے اللہ پاک سے یہ عہد وپیمان لیا کہ میں پوری دنیا میں اسلام کی دعوت اور اس کی ہدایت کی خوش خبری پہنچاؤں گا"۔
انہیں یہ یقینِ کامل اس لئے حاصل ہوا کہ انہوں نے عیسائیت کا مطالعہ بڑی عرق ریزی اور گہرائی سے کیا، لیکن دیکھا کہ وہ انسانی زندگی میں گردش کرنے والے بہت سارے سوالوں کا جواب نہیں دیتی۔ اس لئے ان کے اندر شک راہ پانے لگا۔ پھر انہوں نے اشتراکیت اور بدھ مت کا مطالعہ کیا۔ ان مذاہب کے اندر بھی ان کو اپنی گمشدہ چیز نہیں ملی۔ پھر انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اس کے اندر غوطہ زنی کی اور بالآخر اس پر ایمان لے آئے اور اس کے داعی بن گئے۔([181])
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں نبوت کی حقیقت، اس کی علامتیں اور نشانیاں اور ہمارے نبی محمد ﷺ کی نبوت کی دلیلیں آپ کے سامنے واضح ہوگئیں۔ ختم نبوت سے متعلق گفتگو کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی جب بھی کسی رسول کو مبعوث کرتا ہے، تو اس کے درج ذیل اسباب ہوتے ہیں:
۱- اس نبی کی رسالت وپیغمبری ایک قوم کے ساتھ خاص ہو اور ان کو یہ حکم نہیں دیا گیا ہو کہ اللہ کا پیغام پڑوس کی قوموں تک پہنچائیں۔ لہذا اللہ تعالی دوسری قوم کے پاس خصوصی رسالت کے ساتھ دوسرے رسول کو مبعوث کرتا ہے۔
۲- سابق نبی کی رسالت وپیغمبری کے اثرات مٹ چکے ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالی دوسرے نبی کو مبعوث فرماتا، جو لوگوں کے لئے ان کے دین کی تجدید کرتا۔
۳- سابق نبی کی لائی ہوئی شریعت خاص اسی زمانہ کے لئے مناسب ہوتی اور بعد کے ادوار کے لئے موزوں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالی ایسی رسالت و شریعت کے ساتھ ایک رسول مبعوث کرتا، جو موجودہ وقت اور جگہ کے لئے موزوں اور مناسب ہوتی۔ لیکن اللہ پاک کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ محمد ﷺ کو ایسی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمائے، جو روئے زمین کے تمام باشندوں کے لئے عام ہو اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے مناسب ہو۔ اس رسالت کو اللہ نے ہر طرح کی تحریف وتبدیلی سے محفوظ رکھا، تاکہ آپ کی رسالت زندہ پیغام بن کر قائم ودائم رہے، جو لوگوں کے اندر زندگی کی روح پھونکتی رہے اور تحریف وتبدیلی کے تمام شائبوں سے محفوظ رہے۔ اسی لئے اللہ نے آپ کی رسالت کو سب سے آخری رسالت قرار دیا۔([182])
اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو جن خصوصیات سے نوازا، ان میں یہ بھی ہے کہ آپ خاتم الأنبیا ہیں۔ چنانچہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا، کیوں کہ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ سلسلۂ رسالت کو مکمل کردیا، شریعتوں کا سلسلہ ختم کردیا اور عمارت کی تکمیل کردی ہے۔ آپ کی نبوت کے ذریعہ عیسی مسیح کی یہ بشارت شرمندۂ تعبیر ہوگئی ہے: "کیا تم نے کتابوں میں کبھی یہ نہیں پڑھا کہ وہ پتھر جسے معماروں نے عمارت کا حصہ بنانے سے انکار کردیا، وہ اس گھر (زاویہ( کا اہم ترین حصہ بن چکا ہے"؟([183])
ابراہیم خلیل نامی پادری، جس نے بعد میں اسلام قبول کرلیا، نے مذکورہ عبارت کو نبی ﷺ کی اس حدیث سے ہم آہنگ قرار دیا ہے، جو آپ نے اپنے تعلق سے فرمایا: "میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیا کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں، لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں"۔ ([184])
یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے محمد ﷺ کی لائی ہوئی کتاب کو تمام سابقہ کتابوں کی محافظ اور ان سب کو منسوخ کرنے والا بنایا۔ اسی طرح آپ کی شریعت کو تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والا قرار دیا۔ اللہ نے آپ کی رسالت کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لی ہے۔ چنانچہ یہ شریعت تواتر کے ساتھ (ہم تک( منتقل ہوئی، بایں معنی کہ قرآن مجید تقریری اور تحریری شکل میں تواتر کے ساتھ منتقل ہوا، آپ کی قولی وفعلی سنتیں بھی تواتر کے ساتھ منتقل ہوئیں اور اس دین کے احکام وقوانین کی عملی تطبیق، آپ کی عبادتیں، سنتیں اور احکام بھی تواتر کے ساتھ منتقل ہوئے۔
جو شخص سیرت اور احادیث کی کتابوں سے واقف ہے، وہ جانتا ہے کہ آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بنی نوع انسانی کے لئے آپ کے تمام احوال اور قولی وفعلی احادیث کی حفاظت کی۔ چنانچہ آپ کی عبادت و ریاضت، جہاد، ذکر و اذکار، توبہ و استغفار، سخاوت و فیاضی، شجاعت و بہادری، اپنے اصحاب اور باہر سے آنے والے وفود کے ساتھ آپ کا طرز تعامل، اسی طرح آپ کی فرحت ومسرت، حزن وملال، سفر و حضر، خورد و نوش کا طریقہ اور لباس و پوشاک کا انداز، سونے اور جانگنے کی کیفیت...غرضیکہ سارے احوال انہوں نے نقل کیے۔ اگر آپ اس پر غور کریں گے، تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ یہ دین اللہ کی حفاظت سے محفوظ ہے اور آپ اس وقت یہ بھی جان جائیں گے کہ آپ تمام انبیا و رسل کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ کیوں کہ اللہ پاک نے خود ہمیں یہ خبر دی ہے کہ رسول ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ("اے لوگو! ) محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ تو اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں"۔ ([185]) اور آپ ﷺ نے خود اپنے تعلق سے ارشاد فرمایا: "میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرے ذریعہ انبیا و رسل کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے"۔ ([186])
اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کا تعارف پیش کیا جائے، اس کی حقیقت، مصادر و مآخذ اور ارکان و مراتب ذکر کئے جائیں۔
لفظِ اسلام کا معنی و مفہوم:
اگر آپ لغت کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ لفظِ اسلام کے معنی یہ ہیں: تابع داری، انکساری، فرماں برداری اور بغیر کسی چوں چرا کے حاکم کے اوامر ونواہی کی بجا آوری اور اس کے سامنے خود سپردگی۔ اللہ تعالی نے دینِ حق کو اسلام سے موسوم کیا ہے، کیوں کہ وہ اللہ کی اطاعت کرنے اور بغیر کسی اعتراض کے اس کے حکم کی تابع داری کرنے، تمام تر عبادتوں کو اسی کے لئے خالص رکھنے، اس کی خبر کی تصدیق کرنے اور اس پر ایمان لانے سے عبارت ہے۔ اسلام اس دین کا نام بن چکا ہے، جس کے ساتھ محمد ﷺ مبعوث ہوئے۔
اسلام کا تعارف([187]):
دينِ حق كو اسلام سے كيوں موسوم کیا گیا؟ تمام روئے زمین پر مختلف قسم کے جتنے بھی ادیان ومذاہب ہیں، وہ یا تو کسی خاص شخص کے نام سے موسوم ہیں یا کسی خاص قوم کے نام سے۔ چنانچہ نصرانیت کا نام "نصاری" سے ماخوذ ہے، بدھ مت کا نام اس کے بانی "بدھ" کے نام پر رکھا گیا ہے، زرتشت اپنے اس نام سے اس لئے مشہور ہے کہ اس کے مؤسس اور علم بردار کا نام "زرتشت" تھا، اسی طرح یہودیت کا ظہور ایسے قبیلے کے درمیان ہوا جو "یہوذا" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ان مذاہب کے علاوہ دیگر ادیان کی صورت حال بھی یہی ہے۔ لیکن اسلام کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ اسلام کسی خاص شخص کی طرف منسوب نہیں اور نہ اس کی نسبت کسی متعین قوم کی طرف ہے، بلکہ اس کا نام ایک خاص صفت پر دلالت کرتا ہے، جو لفظِ اسلام کے معنی میں داخل ہے۔ اس نام سے ہی یہ ظاہر ہوتاہے کہ کسی انسان نے اسے وجود میں لانے اور اس کی تاسیس کرنے کی سعی نہیں کی اور نہ وہ کسی مخصوص قوم کے لئے مختص ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ روئے زمین کے تمام باشندوں کو صفتِ اسلام سے آراستہ کرے۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اس صفت سے متصف ہو، خواہ وہ عہد رفتہ سے تعلق رکھتا ہو یا دور حاضر سے ،وہ مسلمان ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو مستقبل میں اس صفت سے متصف ہوگا، وہ مسلمان ہوگا۔
یہ معلوم سی بات ہے کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز ایک خاص اصول اور مقررہ طریقہ کی تابع ہے۔ چنانچہ سورج، چاند، ستارے اور زمین ایک خاص اصول کے تابع ہیں، جس کے دائرے سے ایک بال برابر بھی روگرادنی کرنے اور نکلنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ خود انسان کے اوپر آپ غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ قوانین الہیہ کا مکمل طور پر تابع ہے۔ وہ سانس لیتا اور اسے پانی، غذا، روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب اللہ کی اس الہی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے، جو اس کی زندگی کا نظم ونسق بحال کرنے والا ہے۔ اس کے تمام اعضا و جوارح اسی تقدیر کے تابع ہیں۔ چنانچہ یہ اعضا جو کارنامے اور ذمہ داریان سر انجام دیتے ہیں، وہ سب اللہ کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق ہوتے ہیں۔
یہ عمومی اور جامع تقدیر کہ کائنات کی ہر ایک چیز جس کی تابع ہے اور اس کی اطاعت سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوتی، خواہ آسمان کا سب سے بڑا سیارہ ہو یا زمین کا ادنی ترین ذرہ، وہ سب اس معبود کی تقدیر کا نتیجہ ہے، جو بادشاہ، جلیل الشان اور قادرِ مطلق ہے۔ اگر آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر ایک چیز اس تقدیر کی تابع ہے، تو پوری کائنات اس قادر مطلق بادشاہ کی تابع و فرماں بردار ہے، جس نے اسے بنایا۔ اس مفہوم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام پوری کائنات کا دین ہے، کیوں کہ اسلام کے معنی ہوتے ہیں تابع داری کرنے اور بغیر کسی چوں چرا کے حاکم کے حکم اور ممانعت کے بجاآوری کرنے کے۔ جیسا کہ آپ نے مذکورہ بالا سطور سے جانا اور سمجھا۔ چنانچہ سورج، چاند اور زمین تابع ہیں، ہوا، پانی، روشنی، تاریکی اور اندھیرا تابع ہیں، درخت، پتھر اور چوپایے تابع ہیں، بلکہ وہ انسان جو اپنے رب سے ناآشنا ہو، اس کے وجود اور نشانیوں کا منکر ہو، اس کے علاوہ کسی اور کی پرستش کرتا ہو، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ بھی اپنی اس فطرت کے بہ موجب تابع ہوتا ہے، جس پر اس کی تخلیق ہوئی ہے۔
جب آپ یہ جان چکے، تو آئیے ہم انسان پر غور کریں۔ انسان کو دو طرح کی قوتِ کشش اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں:
پہلی: وہ فطرت، جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یعنی اللہ کے سامنے خود سپردگی، اس کی عبادت اور قربت کی محبت، اللہ تعالی کو جو حق، خیر و بھلائی اور صدق و راستی محبوب ہیں، ان سے محبت اور اللہ تعالی کو جو باطل و بے بنیاد عمل، شر اور برائی اور ظلم وستم ناپسند ہیں، ان سے بغض و نفرت، نیز مال اور اہل وعیال کی محبت، خورد و نوش اور شادی بیاہ جیسے فطری تقاضوں کی رغبت اور اس محبت و رغبت کے نتیجے میں جسم کے اعضا و جوارح کا ان امور سے متعلق لازمی ذمہ داریوں کو ادا کرنا۔
دوسری: انسان کا ارادہ اور اختیار۔ اللہ تعالی نے اس کے پاس رسول بھیجے اور اپنی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ وہ حق و باطل، ہدایت و گمراہی اور خیر و شر کے درمیان تمیز کرسکے اور اسے عقل و فہم سے نوازا، تاکہ وہ بصیرت و آگہی کے ساتھ اپنے اختیارات کا استعمال کرے۔ چنانچہ اگر وہ خیر و بھلائی کے راستے پر چلے تو یہ راستہ اسے حق اور ہدایت کی رہنمائی کرے گا اور اگر برائی کے راستوں پر چلے تو یہ راستے اسے برائی اور ہلاکت تک لے جائیں گے۔
اگر آپ پہلی قوت کے اعتبار سے انسان کا جائزہ لیں گے، تو معلوم ہوگا کہ اس کی سرشت میں خود سپردگی اور اس کی فطرت میں اتباع و پیروی ودیعت ہے اور دیگر مخلوقات کی طرح اس کے سامنے بھی فطری دائرے سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اور اگر دوسری قوت کے اعتبار سے اس پر غور کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک خود مختار مخلوق ہے۔ وہ جو چاہتا ہے اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ یا تو اسلام پر باقی رہتا ہے یا کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ "خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا"۔ ([188])
یہی وجہ ہے کہ آپ دو قسم کے لوگ دیکھتے ہیں:
ایک وہ انسان، جو اپنے خالق سے آشنا ہوتا، اسے اپنا پالنہار، بادشاہ اور معبود تسلیم کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے، صرف اس کی ہی عبادت کرتا ہے، اپنی بااختیار زندگی میں اسی کی شریعت پر چلتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اس کی فطرت میں اپنے پروردگار کے سامنے خود سپردگی ودیعت کی گئی ہے اور اس کے لئے اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں، بلکہ وہ تقدیرِ الہی کا تابع رہتا ہے اور یہی وہ کامل مسلمان ہے، جس کا اسلام مکمل اور علم درست ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے اس خالق سے واقف ہوتا ہے، جس نے اس کے پاس رسول بھیجے اور اسے تعلیم وتعلم کی قوت بخشی، جس کے نتیجے میں اس کی عقل و فکر کو درست سمت ملی۔ اس لئے کہ اس نے اپنی عقل و فکر کو استعمال میں لاکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کرے گا، جس نے اسے تمام معاملات میں غور و فکر کی صلاحیت سے نوازا۔ انجام کار اس کی زبان صحیح سمت اختیار کرتی اور حق بات بولتی ہے، کیوں کہ اب وہ صرف ایک پالنہار کا اقرار کرتا ہے، جو کہ اللہ تعالی ہے، جس نے اسے قوتِ گویائی سے سرفراز کیا ہے۔ گویا اب اس کی زندگی میں صدق و سچائی کے سوا کچھ نہیں بچا ہو۔ اس لئے کہ وہ اپنے اختیار سے شریعت الہی کی پیروی کرتا ہے۔ اس طرح اس کے اور کائنات کی تمام مخلوقات کے درمیان تعارف اور انسیت کے رابطے دارز ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ صرف حکمت و بصیرت اور علم وآگہی والے اللہ کی عبادت کرتا ہے، جس کی عبادت، جس کے حکم کی فرماں برداری اور جس کی تقدیر کی تابع دای وہ تمام مخلوقات کرتی ہیں، جنہیں اے انسان! اللہ نے تمہارے تابع کر رکھا ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک دوسرا انسان ہے، جو خود سپردگی کے ساتھ پیدا ہوا اور پوری زندگی خود سپردگی کے ساتھ گزاری، لیکن اسے اپنی خود سپردگی کا احساس تک نہ ہوا۔ نہ وہ اپنے رب کو جان سکا، نہ اس کی شریعت پر ایمان لایا، نہ ہی اس کے رسولوں کی پیروی کی اور نہ اللہ کی عطا کردہ معرفت و آگہی اور عقل و بصیرت کو استعمال کیا کہ اس ذات کو جان سکے، جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کے اندر کان اور آنکھ پیدا فرمایا۔ چنانچہ وہ اس کے وجود کا منکر ہوگیا، اس کی عبادت سے سرکشی اختیار کرلی اور زندگی کے جن معاملات میں اسے تصرف کا حق اور اختیار حاصل تھا، ان میں شریعتِ الہی پر چلنے سے انکار کردیا یا اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنالیا اور اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیوں پر ایمان لانے سے اِبا کرنے لگا۔ ایسا شخص کافر ہے۔ یہ اس لئے کہ کفر کے معنی ہوتے ہیں چھپانے اور ڈھانکنے کے۔ عربی میں کہا جاتا ہے: "کفرَ دِرعَہ بِثوبہ" یعنی اس نے اپنے کپڑے سے زرہ ڈھانپ لی اور اس کے اوپر سے کپڑا پہنا۔ ایسے شخص کو کافر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنی فطرت کو چھپا لیا اور اس پر جہالت و نادانی کا پردہ ڈال دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کی پیدائش فطرت اسلام پر ہی ہوئی ہے۔ اس کے اعضا و جوارح اسلامی فطرت کے مطابق ہی حرکت وعمل کرتے ہیں، اس کے اردگرد کی پوری دنیا خود سپردی کے اصول پر ہی چل رہی ہے، لیکن اس نے اپنی اور دنیا کی فطرت پر جہالت و نادانی کا پردہ ڈال دیا۔ چنانچہ وہ اس کی نگاہِ بصیرت سے اوجھل ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ اپنی فکری اور علمی طاقتوں کو صرف فطرت مخالف امور میں ہی استعمال کرتا ہے۔ ایسے ہی امور اسے نظر بھی آتے ہیں اور اس کی ساری کوششیں بھی ایسے ہی امور کے ارد گرد گردش کرتی ہیں۔
اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کافر انسان ضلالت وگمراہی کے کس قعر عمیق میں جاگرتا ہے!!([189])
یہ اسلام جو آپ سے اپنی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ کوئی دشوار امر نہیں، بلکہ جس کے لئے اللہ آسان کردے، اس پر وہ آسان ہے۔ کیوں کہ اسلام ہی وہ محور ہے، جس پر پوری کائنات گردش کر رہی ہے: "تمام آسمان والے اور سب زمین والے اللہ تعالی ہی کے فرماں بردار ہیں، خوشی سے ہوں نا خوشی سے۔ وہی اللہ کا دین ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے"۔ ([190])
اسلام اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ اللہ جلّ ذکرہ نے فرمایا: "پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں، توآپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابع داروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کر دیا ہے"۔ ([191])۔ نبی اکرم ﷺ نے اسلام کا معنی ومفہوم اپنے ارشاد میں یوں بیان فرمایا ہے : "اپنا دل اللہ کے سپرد کردو، اس کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کردو اور فریضہ زکاۃ ادا کرو"۔ ([192])
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: "اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تمہارا دل اللہ کا تابع فرمان ہوجائے اور تمہارے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اس شخص نے پوچھا: کون سا اسلام سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان لانا۔ اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا"۔ ([193])
نیز نبی ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: "اسلام یہ ہے کہ آپ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں، نماز قائم کریں، زکوۃ دیں، رمضان کے روزے رکھیں اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کریں"۔ ([194]) اور آپ ﷺ کی حدیث ہے: "مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"([195])۔([196])
یہ دین ہی وہ دینِ اسلام ہے، جس کے سوا اللہ تعالی کے نزدیک کوئی بھی دین قابل قبول نہیں۔ نہ ہی عہد رفتہ کے لوگوں سے اور نہ دور حاضر کے لوگوں سے۔ کیوں کہ تمام ابنیاے کرام دین اسلام پر ہی قائم تھے۔ اللہ تعالی نوح علیہ السلام کے تعلق سے فرماتا ہے: "آپ ان کو نوح کا قصہ پڑھ کر سنائیے، جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکامِ الہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے، تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے" ۔ آگے یہاں تک پڑھیں: "مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں"۔ ([197])
نیز اللہ جل ذکرہ نے ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے ارشاد فرمایا: "جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا کہ فرماں بردار ہوجا، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رب العالمین کی فرماں برداری کی"۔ ([198])
اور اللہ جلّ شأنہ نے موسی علیہ السلام کے تعلق سے فرمایا: "موسیٰ (علیہ السلام)نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم مسلمان ہو"۔([199])
جب کہ اللہ نے عیسی مسیح کے واقعہ میں ذکر فرمایا: "جب کہ میں نے حواریین (عیسی کے پیروکاروں) کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان ﻻؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان ﻻئے اور آپ شاہد رہیے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں"۔ ([200])
یہ دینِ اسلام اپنے قوانین، عقائد اور احکام اللہ کی وحی قرآن و سنت سے اخذ کرتا ہے۔ اس لئے میں آپ کے سامنے قرآن و حدیث کا مختصر تعارف پیش کرنے جا رہا ہوں:
باطل ادیان و مذاہب کے پیروکار اور خود ساختہ ملتوں کے متبعین عام طور پر اپنی موروثی کتابوں کا احترام کیا کرتے ہیں، جو پرانے زمانے میں لکھی گئیں ہیں۔ بلکہ بسا اوقات وہ اس سے بھی نا بلد ہوتے ہیں کہ ان کے اصل مؤلف و مترجِم کون ہیں اور کس زمانے میں انھیں لکھا گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگوں نے لکھا ہے، جنہیں ہر وہ کمزوری و ناتوانی، نقص و کمی، خواہش اور بھول چوک لاحق ہوتی ہے، جو سارے انسانوں کو لاحق ہوا کرتی ہے۔
جہاں تک اسلام کی بات ہے، تو وہ دیگر مذاہب سے بایں طور ممتاز و نمایاں مقام رکھتا ہے کہ اس کا اعتماد ایسے مصدر و ماخذ پر ہے، جو مبنی برحق ہے۔ یعنی وحیِ الہی۔ وحی الہی کے دو مجموعے قرآن و سنت پر ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم ان دونوں مصادر کا مختصر تعارف پش کر رہے ہیں:
درج بالا سطور میں آپ یہ جان چکے ہیں کہ اسلام ہی اللہ کا دین ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالی نے محمد ﷺ پر قرآن نازل کیا، جو متقیوں کے لئے ہدایت، مسلمانوں کے لئے دستورِ زندگی، جنہیں اللہ شفا دینا چاہے ان کے دلوں کے لئے شفا ہے اور جنہیں فلاح وکامرانی اور نور و روشنی سے نوازنا چاہے ان کے لئے مشعل تاباں ہے۔ قرآن کریم ان اصول و مبادی پر مشتمل ہے، جن کی خاطر رسولوں کو مبعوث کیا گیا([201]) ہے۔
جس طرح محمد ﷺ کوئی انوکھا پیغمبر نہیں تھے، اسی طرح قرآن بھی کوئی انوکھی کتاب نہیں تھی۔ کیوں کہ )اس سے قبل بھی( اللہ نے ابراہیم پر صحیفے نازل فرمائے، موسی کو تورات سے، داؤد کو زبور سے اور عیسی مسیح کو انجیل سے نوازا۔ یہ تمام کتابیں اللہ کی وحی تھیں، جنہیں اللہ نے اپنے انبیا و رسل پر نازل فرمایا۔ لیکن ان سابقہ کتابوں کے اکثر حصے مفقود وناپید ہوگئے اور ان میں تحریف وتبدیلی در آئی۔
لیکن قرآنِ عظیم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود اپنے سر لی اور اسے تمام سابقہ کتابوں کی محافظ اور ناسخ قرار دیا۔ فرمان باری تعالی ہے: "ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے، جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان کی محافظ ہے"۔ ([202])
اللہ نے قرآن کی یہ صفت بتائی ہے کہ اس میں ہر چیز کا شافی بیان موجود ہے۔ اللہ جلّ ذکرہ کا ارشاد ہے: "ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے، جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے"۔ ([203])
اسی طرح وہ ہدایت اور رحمت ہے۔ اللہ عزیز وبرتر کا فرمان ہے: "اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے"۔ ([204])
وہ نہایت سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے: "یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے، جو بہت ہی سیدھا ہے"۔ ([205])
معلوم ہوا کہ وہ انسانوں کو زندگی کے تمام تر معاملات میں سب سے سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن کریم محمد ﷺ کا وہ معجزہ ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والے دیگر معجزات کے ساتھ باقی رہے گا۔ جب کہ گزشتہ انبیاے کرام کے معجزے ان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے تھے۔ لیکن اس قرآن کو اللہ تعالی نے ہمیشہ باقی رہنے والی دلیل اور حجت بنایا ہے۔
وہ نہایت بلیغ وکامل دلیل اور روشن وتاباں نشانی ہے، جس کے تعلق سے اللہ نے تمام انسانوں کو یہ چیلنج دیا کہ اس جیسی کوئی کتاب، دس سورتیں یا صرف ایک سورت ہی بنا لائیں۔ لیکن وہ سب کے سب اس سے عاجز وقاصر رہے۔ حالانکہ قرآن حروف اور کلمات سے عبارت ہے اور جس قوم کے درمیان یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ فصاحت و بلاغت میں اپنا شہرہ رکھتی تھی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیراللہ کو بلا سکو، بلالو اگر تم سچے ہو"۔ ([206])
اس قرآن کے وحی الہی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں گزشتہ اقوام کی بہت سی خبروں کا ذکر ہے، مستقبل کے بہت سے واقعات کی پیشین گوئی ہے، جو کہ بالکل اسی طرح رونما ہوئے، جس طرح قرآن نے خبر دی اور بہت سی ایسی سائنسی دلیلیں موجود ہیں کہ اِس دور میں آکر اس کے بعض حصوں تک سائنس دانوں کو رسائی مل سکی ہے۔ اس قرآن کے وحی الہی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس نبی پر یہ قرآن نازل ہوا ان کی زبان سے نزولِ قرآن سے قبل اس جیسی کوئی بات نہ سنی گئی اور نہ ان کے حوالے سے نقل کی گئی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "آپ یوں کہہ دیجیے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا، تو نہ تو میں تم کو وه پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا، کیوں کہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصۂ عمر تک تم میں ره چکا ہوں۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے"۔ ([207]) بلکہ آپ امی تھے، پڑھنے لکھنے سے نابلد تھے، آپ نے کسی استاد کی شاگردی اختیار نہیں کی تھی اور نہ کسی معلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے فصیح و بلیغ لوگوں کو یہ چیلنج دیا کہ قرآن جیسا کوئی کلام پیش کریں: "اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے"۔ ([208])
یہ امی شخص جن کی صفت تورات اور انجیل میں یہ بتائی گئی کہ وہ امی ہوں گے اور پڑھنے لکھنے سے نابلد ہوں گے، ان کے پاس یہودیوں اور عیسائیوں کے وہ علما -جن کے پاس تورات وانجیل کے باقی ماندہ حصے ہوتے، آتے اور اپنے اختلافی مسائل میں آپ سے سوالات کرتے اور اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے آپ کو فیصل بنایا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے یہ واضح فرمایا کہ تورات و انجیل میں آپ کے تعلق سے کیا خبر دی گئی ہے: "جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں، جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں"۔ ([209])
نیز اللہ تعالی نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ یہود و نصاری محمد ﷺ سے سوال کیا کرتے تھے، فرمایا ہے: "آپ سے یہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں کہ آپ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب لائیں"۔ ([210])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں"۔ ([211])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "آپ سے ذو القرنین کا واقعہ یہ لوگ دریافت کرتے ہیں"۔ ([212])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "یقیناً یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے ان اکثر چیزوں کا بیان کر رہا ہے، جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں"۔ ([213])
پادری ابراہیم فیلپس نے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں قرآن کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس سے قاصر رہا۔ قرآن کے دلائل و براہین کے سامنے وہ ڈھیر ہوگیا اور ہار مان کر اس نے اپنی عاجزی کا اعلان کردیا۔ اپنے خالق کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔([214])
جب ایک مسلمان نے امریکی ڈاکٹر جفری لانگ کو قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ ہدیہ کیا، تو اس نے پایا کہ یہ قرآن اس کی ذات کو مخاطب کر رہا ہے، اس کے سوالوں کا جواب دے رہا ہے اور اس کے اور اس کے نفس کے درمیان جو رکاوٹیں ہیں، انہیں دور کر رہا ہے۔ اس نے یہاں تک کہ دیا: "یقیناً جس ذات نے قرآن کو نازل کیا ہے، وہ مجھ سے زیادہ میری ذات سے واقف ہے"۔ ([215])
ایسا کیوں نہ ہو؟ جب کہ قرآن کو نازل کرنے والا وہ ہے، جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ اللہ پاک کی ذات ہے۔ "کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو"؟۔([216])
قرآن کریم کے معانی کا ترجمہ پڑھنا اس کے قبولِ اسلام اور اس کتاب کی تالیف کا سبب بنا، جس سے میں نے مذکورہ قول نقل کیا ہے۔
قرآن مجید ان تمام تعلیمات کو شامل ہے، جن کی ضرورت انسان کو پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ وہ قواعد وضوابط، عقائد و احکام، معاملات اور آداب کے اصول و مبادی پر مشتمل ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی"۔ ([217])
اس کے اندر توحیدِ باری تعالی کے دعوت ہے اور اللہ کے اسما و صفات اور افعال کا ذکر ہے۔ وہ انبیا و رسل کی پیش کردہ تعلیمات کو درست ماننے کی دعوت دیتا ہے، آخرت، جزا و سزا اور حساب و کتاب کو ثابت کرتا اور اس کے دلائل و براہین پیش کرتا ہے۔، سابقہ قوموں کے واقعات اور اس دنیا میں انہیں جن مصائب ومشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور آخرت میں انہیں جو عذاب اور سزا ملنے والی ہے، ان سب کا تذکرہ کرتا ہے۔
اس کے اندر بہت سی ایسی نشانیاں، دلائل اور براہین ہیں، جو سائنس دانوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں، جو ہر زمانے کے لئے موزوں اور مناسب ہیں۔ اس میں سائنس دانوں اور ریسرچ اسکالروں کے لئے سامانِ گمشدہ موجود ہے۔ میں آپ کے سامنے صرف تین مثالیں پیش کر رہا ہوں، جن سے یہ حقیقت آشکارہ ہوجائے گی:
۱- فرمان الٰہی ہے : "وہی ہے، جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں۔ یہ ہے میٹھا اور مزے دار اور یہ ہے کھاری کڑوا اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کردی"۔ ([218])
نیز اللہ جلّ شانہ نے فرمایا: "یا مثل ان اندھیروں کے ہے، جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں، جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو۔ پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے، تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے اور )بات یہ ہے کہ( جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے، اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی"۔ ([219])
یہ معلوم سی بات ہے کہ محمد ﷺ نے سمندری سفر نہیں کیا اور نہ آپ کے زمانے میں ایسے مادی وسائل تھے، جو سمندر کی گہرائیوں کا انکشاف کرنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ تو بھلا اللہ کے سوا کون ہے، جس نے محمد ﷺ کو ان معلومات کی خبردی؟
۲- فرمان الٰہی ہے: "یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا۔ پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا۔ پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے"۔ ([220])
سائنس دانوں کو جنین کے تخلیقی مراحل کی ان باریک و دقیق تفصیلات کا انکشاف اس عہد میں آکر ہوا ہے۔
۳- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے( ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں"۔ ([221])
انسان اتنی گہری اور وسیع سوچ کا نہ عادی رہا ہے اور نہ ہے، چہ جاے کہ وہ اس سوچ کو بروے عمل لانے پر قادر ہو۔ بلکہ سائنس دانوں کی ٹیم جب کسی پودا یا بیکٹیریا کا انکشاف کرتی اور اس سے متعلق اپنی معلومات کو ریکارڈ کرتی ہے، تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ اس کے جو حالات ان سے ہنوز پوشیدہ ہیں، وہ ان کے انکشاف سے کہیں زیادہ ہیں۔
فرانس کے سائنس داں موریس بوکائی نے تورات، انجیل اور قرآن کے درمیان تقابلی مطالعہ کیا اور ان کو آسمان و زمین اور انسان کی تخلیق سے متعلق جن جدید انکشافات تک رسائی ملی، انہیں بیان بھی کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جدید انکشافات قرآنی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں۔ جب کہ انہوں نے تورات اور انجیل کے متدوال نسخوں کو آسمان و زمین، انسان اور حیوان کی تخلیق سے متعلق بہت سی غلط معلومات پر مشتمل پایا۔([222])
اللہ تعالی نے رسول ﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا اور اس جیسی ایک اور وحی آپ پر نازل فرمائی۔ وہ ہے سنت نبویہ، جو قرآن کی تشریح و توضیح کرتی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "سنو، مجھے کتاب )قرآن( دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز یعنی سنت بھی"۔ ([223])
آپ کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ قرآن میں جو عموم، تخصیص یا اجمال آیا ہے، اسے کھول کھول کر بیان کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "یہ ذکر )کتاب( ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے۔ آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں"۔ ([224])
سنت نبویہ کو اسلامی مصادر میں دوسرے مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے مراد ہر وہ قول و فعل، تقریر اور صفت ہے، جو رسول ﷺ سے متصل اور صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔
سنت اللہ کی طرف سے محمد ﷺ کی طرف نازل کردہ وحی ہے، کیوں کہ نبی ﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے۔ فرمان باری تعالی ہے: "وه تو صرف وحی ہے، جو اتاری جاتی ہے"۔ اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے"۔ ([225])
بلکہ آپ لوگوں تک وہی پہنچاتے، جس کا آپ کو حکم دیا جاتا۔ فرمان باری تعالی ہے: "میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں، جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علی الاعلان آگاہ کردینے والا ہوں"۔ ([226])
سنتِ مطہرہ اسلام کے احکام و عقائد، عبادت و معاملات اور آداب و اخلاق کی عملی تطبیق کا نام ہے، کیوں کہ نبی ﷺ حکم الہی کی تابع داری کرتے، اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ اسی طرح عمل کریں جس طرح آپ کرتے ہیں۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "تم اسی طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے"۔ ([227])
اللہ تعالی نے مؤمنوں کو یہ حکم دیا کہ تمام تر اقوال و افعال میں نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلیں، تاکہ ان کا ایمان درجہ کمال تک پہنچ سکے۔ فرمان الہی ہے: "یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ )موجود( ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے"۔ ([228])
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ کے اقوال و افعال کو اپنے بعد والوں )تابعین( تک پہنچایا اور ان (تابعین( نے اپنے بعد آنے والوں تک پہنچایا۔ پھر ان اقوال وافعال کو حدیث کی کتابوں میں جمع کیا گیا۔ حدیث نقل کرنے والوں کا یہ طریقہ تھا کہ جن سے حدیث نقل کرتے، ان کے تعلق سے سخت اصول و ضوابط کی پابندی کرتے، جس سے حدیث لیتے اس کے لئے یہ لازم قرار دیتے کہ جس سے وہ روایت کرے وہ اس کا ہم عصر ہو۔ تاکہ راویِ حدیث سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک پوری سند متصل رہے([229]) اور سند کے سارے رواۃ ثقہ، عادل، صادق اور امین ہوں۔
سنت جہاں اسلام کی عملی تطبیق ہے، وہیں وہ قرآن کریم کی وضاحت، اس کی آیتوں کی تشریح اور اس کے مجمل احکام کی تفصیل بھی بیان کرتی ہے۔ کیوں کہ نبی ﷺ وحی الہی کی وضاحت کبھی اپنے قول سے کرتے، کبھی اپنے عمل سے کرتے اور کبھی قول و فعل دونوں طریقے سے کرتے تھے۔ بسا اوقات قرآن کی بجائے سنت نبویہ بذات خود بعض احکام اور شرائع کو بیان کرتی ہے۔
قرآن وسنت دونوں پر اس معنی میں ایمان لانا واجب ہے کہ دونوں دین اسلام کے بنیادی مصارد و مآخذ ہیں، جن کی اتباع کرنا، جن کی طرف رجوع کرنا، جن کے احکام و فرامین کی پیروی کرنا، جن کی منع کردہ محرمات سے اجتناب کرنا، جن کی خبروں کو سچ جاننا، جن میں وارد اللہ کے اسما و صفات اور افعال پر ایمان لانا، اللہ نے اپنے مؤمن اولیا کے لئے جو نعمتیں تیار کر رکھی ہیں اور اپنے کافر دشمنوں کو جس عذاب کی وعید سنائی ہے، ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے، جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان میں آپس میں ہو، آپ کو حکَم نہ بنالیں اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں"۔ ([230]) اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "تمہیں جو کچھ رسول دیں، لے لو اور جس سے روکیں، رک جاؤ"۔ ([231])
اس دین کے مصادر و مآخذ کا تعارف پیش کرنے کے بعد بہتر ہوگا کہ ہم اس کے مراتب کا ذکر کریں۔ دین کے مراتب یہ ہیں: اسلام، ایمان اور احسان۔ ہم ان تمام مراتب کے ارکان پر بھی مختصر انداز میں گفتگو کریں گے۔
اسلام: اس کے پانچ ارکان ہیں: شہادتین، نماز، زکوۃ، روزہ اور حج۔
پہلا رکن: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
کلمہ ’’لاالٰہ الّا اللہ‘‘ کے معنی یہ ہیں: زمین وآسمان میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اسی کی ذاتِ پاک تن تنہا معبودِ برحق ہے اور اس کے علاوہ سارے معبودان باطل ہیں۔([232])
’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی شہادت کا تقاضا ہے کہ تمام تر عبادتیں صرف ایک اللہ کے لئے خالص کی جائیں اور اس کے سوا ہر ایک سے عبادت کی نفی کی جائے۔ جب تک اس کی گواہی دینے والے کے اندر آنے والے دو امور نہ پائے جائیں، تب تک اس کی گواہی اسے نفع نہیں پہنچا سکتی:
پہلا: اعتقاد، علم، یقین، تصدیق اور محبت کے ساتھ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنا۔
دوسرا: اللہ کے سوا ہر ایک معبود کا انکار کرنا۔ چنانچہ جو شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دے اور اللہ کے علاوہ جن معبودوں کی عبادت کی جاتی ہے، ان کا انکار نہ کرے، تو یہ گواہی اسے ذرا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی۔
محمد رسول اللہ کی گواہی کا مطلب ہے: آپ کے حکم کی اطاعت کرنا، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرنا، آپ جن چیزوں سے روکیں ان سے باز رہنا اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی عبادت کرنا۔ آپ یہ علم اور عقیدہ رکھیں کہ محمد تمام لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ہیں۔ وہ ایک بندہ ہیں، جن کی عبادت نہیں کی جا ئے، آپ ایک رسول ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جائے، بلکہ ان کی اطاعت وپیروی کی جائے۔ جو شخص آپ کی فرماں برداری کرے گا، وہ جنت میں جائے گا اور جو آپ کی نافرمانی کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ آپ یہ علم و عقیدہ بھی رکھیں کہ شریعت کا تعلق خواہ عقیدے سے ہو یا ان عبادتوں سے جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، نظامِ حکومت اور آئین سازی سے ہو یا اخلاقی میدان سے، خاندان کی تشکیل سے ہو یا حلال وحرام سے...اسے حاصل کرنے کا وسیلہ و طریقہ صرف رسول کریم محمد ﷺ ہیں۔ کیوں کہ آپ ہی اللہ کے وہ رسول ہیں، جنہوں نے شریعتِ الہی دنیا والوں تک پہنچائی([233])۔
دوسرا رکن: نماز: ([234])
نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے، بلکہ وہ اسلام کا ستون ہے۔ کیوں کہ یہ بندہ اور اس کے رب کے درمیان ایسا تعلق اور رشتہ ہے، جس کی تجدید وہ دن بھر میں پانچ مرتبہ کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ بندہ اپنے ایمان کو تازہ کرتا اور گناہوں کی غلاظتوں سے اپنے نفس کو پاک وصاف کرتا ہے۔ یہ نماز بندہ او برائیوں اور گناہوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ بندہ جب صبح دم نیند سے بیدار ہوتا ہے، تو دنیائے فانی کے مال و متاع میں مصروف ہونے سے پہلے طہارت و پاکیزگی کے ساتھ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ پھر اپنے رب کی بڑائی بیان کرتا، اپنی بندگی کا اقرار کرتا، اللہ سے مدد اور ہدایت کی دعا کرتا، سجدہ، قیام اور رکوع کے ذریعہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان اطاعت و بندگی کے عہد وپیمان کی تجدید کرتا ہے۔ ہر دن وہ پانچہ دفعہ اس عمل کو دہراتا ہے۔ اس نماز کی ادائیگی کے لئے لازم ہے کہ انسان کا دل، اس کا جسم، کپڑا اور جاے نماز سب پاک وصاف ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس عبادت کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جماعت میں ادا کرے۔ سب لوگ اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہوں اور ان کا رخ اللہ کے گھر کعبہ مشرفہ کی طرف ہو۔ نماز اس کامل ترین اور عمدہ ترین طریقے پر مشروع کی گئی ہے، جس کے ذریعہ بندے برکت و بلندی والے خالق کی عبادت کرسکتے ہیں، بایں طور کہ وہ سارے اعضا و جوارح کے ذریعہ اللہ کی تعظیم بجا لانے پر مشتمل ہے۔ زبان سے بول کر، ہاتھ، پاؤں، سر، حواس اور جسم کے سارے اعضا کے ذریعہ۔ سب کے سب اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
چنانچہ حواس اور اعضا و جوارح سب کے سب نماز سے فیض یاب ہوتے ہیں اور دل بھی اس سے فیض اٹھاتا ہے، کیوں کہ نماز حمد و ثنا، بڑائی و کبریائی، تسبیح و تکبیر، حق کی گواہی، قرآن مجید کی تلاوت اور رب تعالی کے سامنے اس طرح کھڑا ہونے پر مشتمل ہے، جس طرح مطیع وفرماں بردار غلام اپنے مدبر و کارساز پالنہار کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ پھر اس مقام پر اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرتا، اس سے لو لگاتا اور اس کی قربت حاصل کرتا ہے، اس کی عظمت وعزت کے سامنے تواضع وانکساری اختیار کرتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع و سجدہ اور جلسہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے دل میں انکساری ہوتی، اس کا جسم اللہ کے سامنے جھکا ہوتا اور اس کے اعضا وجوارح پست ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنی نماز کے اخیر میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا اور محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجتا ہے نیز اپنے رب سے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا کرتا ہے([235])۔
تیسرا رکن: زکوۃ([236]) :
یہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ ہر مال دار مسلمان پر اپنے مال کی زکاۃ نکالنا واجب ہے۔ یہ مال کا نہایت ہی معمولی حصہ ہوتا ہے۔ وہ اسے ان فقیروں اور مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کرتا ہے، جن کو زکاۃ دینا جائز ہے۔
مسلمان پر واجب ہے کہ خوشی خوشی زکاۃ ادا کرے۔ جن کو زکاۃ دے ان پر احسان نہ جتائے اور نہ انہیں تکلیف پہنچائے۔ یہ بھی واجب ہے کہ مسلمان محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے زکاۃ دے۔ اس کے بدلے مخلوق سے کسی بدلے اور شکریے کی خواہش نہ رکھے، بلکہ خالص رضاے الہی کی خاطر زکاۃ ادا کرے، جس میں ریا ونمود کی آمیزش نہ ہو۔
زکاۃ نکالنے سبے برکت حاصل ہوتی ہے۔ فقیروں، مسکینوں اور محتاجوں کی دل جوئی ہوتی ہے، انہیں مانگنے کی ذلت سے بے نیازی ملتی ہے، ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ مال دار حضرات اگر ان سے دامن کش ہوجائیں تو وہ ضائع وبرباد ہوجائیں گے۔ زکاۃ نکالنے سے انسان جود و کرم، سخاوت و فیاضی، ایثار و قربانی، عطا و نوازش اور رحمت و مہربانی جیسی صفات سے متصف ہوتا اور بخیلوں اور بد اخلاقوں کے اوصاف سے بری ہوجاتا ہے۔ زکاۃ ، مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون اور آپسی ہمدردی کا مظہر ہے۔ ان کے مال دار اپنے فقیروں پر رحم کھاتے ہیں۔ چنانچہ جب اس فریضہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، تو معاشرہ میں کوئی فقیر و محتاج نہیں رہتا، کوئی قرض میں ڈوبا ہوا قرض دار نہیں بچتا اور نہ کوئی ایسا مسافر ہوتا ہے، جس کے ہاتھ توشۂ سفر سے خالی ہوں۔
چوتھا رکن: رمضان کے مہینہ میں طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزہ رکھنا:
روزہ کی حالت میں روزہ دار اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کرتے ہوئے کھانے پینے اور ہم بستری کرنے سے باز رہتا ہے اور اپنے نفس کو اس کی شہوتوں سے دور رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے مریض، مسافر، حاملہ، دودھ پلانے والی عورت، حائضہ اور حالت نفاس میں جو عورت ہو، ان سب کے ساتھ روزہ کے معاملہ میں آسانی کی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے لئے مناسبِ حال حکم دیا ہے۔
اس مہینہ میں مسلمان اپنے نفس کو اس کی شہوتوں سے باز رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کا نفس اس عبادت کے ذریعہ چوپایوں کی مشابہت سے نکل کر اللہ کے مقرّب فرشتوں کی مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ روزہ دار کو ایسا شخص تصور کیا جاتا ہے، جسے اس دنیا میں رضاے الہی کے سوا کسی اور چیز کی حاجت و طلب نہ ہو۔
روزہ دل کو زندہ کرتا، دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا، نعمت الہی کی رغبت دلاتا اور مال داروں کو مسکین و محتاج اور ان کے احوال کی یاد دلاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں مسکینوں کے تئیں شفقت و نرمی پیدا ہوتی ہے اور انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اللہ کی کن بیش بہا نعمتوں سے فیض یاب رہے ہیں۔ چنانچہ وہ )اپنے رب کا( مزید شکر ادا کرنے لگتے ہیں۔
روزہ نفس کو پاک وصاف کرتا، اسے اللہ کے تقوی و خشیت پر آمادہ کرتا اور فرد اور معاشرے کے اندر یہ احساس و شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ خوش حالی و تنگ حالی اور خلوت و جلوت ہر حال میں اللہ کی نگرانی کو یاد رکھیں، کیوں کہ پورا معاشرہ مکمل ایک مہینہ اس عبادت کی پابندی کرتے ہوئے اور اپنے رب کی نگرانی کو محسوس کرتے ہوئے گزارتا ہے، جس سے ان کے اندر اللہ تعالی کی خشیت، اس پر اور یوم آخرت پر ایمان اور یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ نیز یہ یقین بھی پیدا ہوتا ہے کہ بندے کو اس دن سے ضرور گزرنا ہے، جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اور وہ اس کے تمام چھوٹے بڑے عمل کا حساب لے گا([237])۔
پانچواں رکن: حج([238]) :
مکہ مکرمہ میں واقع بیتِ حرام کا حج کرنا ہر اس بالغ و عاقل مسلمان پر واجب ہے، جس کے پاس بیتِ حرام تک پہنچنے کا ذریعہ اور جانے اور آنے کا توشہ موجود ہو، بشرطے کہ یہ توشہ اس کے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے علاوہ ہو، راستے میں اس کی جان محفوظ رہے اور اس کے غائبانے میں اس کے اہل و عیال مامون رہیں۔ حج زندگی میں ایک دفعہ اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس اس کی استطاعت ہو۔
حج کرنے والے کو چاہیے کہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرے، تاکہ اس کا نفس گناہوں کی غلاظت سے پاک و صاف ہوسکے۔ جب مکہ مکرمہ اور مشاعرِ مقدسہ پر پہنچ جائے، تو اللہ کی تعظیم اور عبودیت کے جذبے سے سرشار ہوکر حج کے ارکان و واجبات ادا کرے۔ نیز یہ جان رکھے کہ اللہ کے سوا کعبہ اور دیگر مشاعر (مقدَّس مقامات( کی عبادت نہیں کی جاسکتی۔ ان کے اندر نفع و نقصان کی صلاحیت نہیں پائی جاتی اور اگر اللہ نے وہاں جاکر حج کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا، تو مسلمان کے لئے وہاں جاکر حج کرنا درست نہ ہوتا۔
حج کے دوران حاجی سفید رنگ کا تہ بند اور چادر زیب تن کرتا ہے۔ روئے زمین کے تمام گوشوں سے مسلمان آکر ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہوتے، ایک ہی لباس میں ملبوس ہوتے اور ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں۔ حاکم و محکوم، مال دار و فقیر اور سفید و سیاہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سب کے سب اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہوتے ہیں۔ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان پر کوئی فوقیت و برتری نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی بھی ہے تو تقوی اور عمل صالح کی بنیاد پر۔
اس طرح مسلمانوں کے اندر آپسی تعاون و ہم دردی اور باہمی تعارف ویک جہتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس دن کو یاد کرتے ہیں، جب اللہ تعالی ان تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے حساب و کتاب کے لئے ایک ہی میدان میں جمع کردے گا۔ انجام کار وہ اطاعتِ الہی کے ذریعہ آخرت کی تیاری میں لگ جاتے ہیں([239])۔
عبادت اپنے معنی اور حقیقت میں اللہ تعالی کی بندگی کا نام ہے، کیوں کہ اللہ خالق ہے اور آپ مخلوق ہیں۔ آپ بندہ وغلام ہیں اور اللہ آپ کا معبود وآقا ہے۔ جب حقیقت یہی ہے، تو انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس زندگی میں شریعتِ الہی کی پیروی کرتے ہوئے اور رسولوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن رہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندو ں کے لئے بڑی عظیم عبادتیں اور احکام مقرر کئے ہیں۔ جیسے اللہ رب العالمین کی توحید کو بروئے عمل لانا، نماز ادا کرنا، زکاۃ دینا، روزہ رکھنا اور حج کرنا۔
لیکن اسلام کی ساری عبادتیں صرف انہی اعمال میں محصور نہیں ہیں، بلکہ اسلام میں عبادت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع اور جامع ہے۔ چنانچہ عبادت میں ہر وہ ظاہری و باطنی اعمال و اقوال شامل ہیں، جو اللہ کو محبوب اور پسند ہیں۔ بنابریں ہر وہ عمل یا قول جو آپ کرتے یا بولتے ہیں اور وہ اللہ کو محبوب وپسند ہے، تو وہ عبادت ہے، بلکہ وہ ساری نیک عادتیں جنہیں آپ تقربِ الہی کی نیت سے انجام دیتے ہیں، وہ بھی عبادت ہیں۔ لہذا رضاے الہی کی نیت سے اگر آپ والدین، اہل و عیال، بیوی، بچوں اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، تو یہ بھی عبادت ہے۔ اسی طرح گھر، بازار اور آفس میں رضاے الہی کی غرض سے اگر آپ اچھا برتاؤ روا رکھتے ہیں، تو یہ بھی عبادت ہے۔ امانت کی ادائیگی، صدق گوئی کی پاس داری، عدل و انصاف، تکلیف دور کرنا، کمزور کی مدد کرنا، حلال کمائی کرنا، اہل و عیال اور آل و اولاد پر خرچ کرنا، مسکین کی فریاد رسی، بیماری کی تیماری داری، بھوکے کو کھانا کھلانا اور مظلوم کی مدد کرنا، یہ سب عبادت ہے، بشرطے کہ اس کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ عمل جسے آپ اپنے لئے، اہل و عیال کے لئے، سماج و معاشرہ کے لئے یا ملک و وطن کے لئے انجام دیتے ہیں، اگر اس کے ذریعہ اللہ کی خوش نودی حاصل کرنا مقصود ہو، تو وہ عبادت ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اللہ کے مباح کردہ حدود کے دائرے میں اپنی خواہشاتِ نفس بھی پوری کرتے ہیں اور اس میں نیک نیتی شامل ہے، تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ ﷺ کی حدیث ہے: "بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابۂ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے، تو کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ اگر وہ یہ خواہش حرام جگہ پوری کرتا، تو کیا اسے اس کا گناہ ہوتا؟ لہذا جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے، تو اس کے لئے اجر ہے"۔ ([240])
آپ ﷺ کا مزید فرمان ہے: "ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ کہا گیا: آپ کا کیا خیال ہے، اگر اسے )صدقہ کرنے کے لئے کوئی چیز( نہ ملے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کر کے اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ پوچھا گیا: آپ کیا فرماتے ہیں، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھے؟ فرمایا: بے بس ضرورت مند کی مدد کرے۔ آپ سے کہا گیا: دیکھیے، اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھے؟ فرمایا: نیکی یا بھلائی کا حکم دے۔ پوچھا گیا: دیکھیے، اگر وہ ایسا بھی نہ کرسکے؟ فرمایا: وہ اپنے آپ کو شر سے روک لے۔ یہ بھی صدقہ ہے"۔ ([241])
ایمان کے چھ ارکان ہیں: اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یومِ آخرت اور تقدیر پر ایمان لانا۔
پہلا رکن: اللہ پر ایمان لانا: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی کی ربوبیت پر ایمان لائیں، بایں معنی کہ وہ خالق و مالک اور تمام امور کا مدبر و کارساز ہے، نیز اللہ کی الوہیت پر ایمان لائیں، بایں معنی کہ وہی معبودِ برحق ہے، اس کے سوا ہر معبود باطل ہے اور اس کے اسما و صفات پر ایمان لائیں، باین معنی کہ اس کے خوب صورت نام اور بلند وکامل اوصاف ہیں۔
پھر ان تمام امور میں اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائیں، بایں معنی کہ اس کی ربوبیت، الوہیت اور اسما و صفات میں کوئی اس کا شریک وساجھی نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے۔ تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے"؟([242])
اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ اللہ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا۔ زمین وآسمان کی بادشاہت اسی کے لئے ہے۔ "اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں )خزانے(۔ ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں"۔ ([243])
نیز اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی اور اپنی مخلوقات پر بلند ہے۔ وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ بھی ہے، ان کے حالات کو جانتا ہے، ان کی باتوں کو سنتا ہے، ان کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، فقیر و محتاج کو روزی دیتا، شکستہ دل کی فریاد رسی کرتا، جسے چاہتا ہے بادشاہی دیتا اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے۔ وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے۔([244])
اللہ پر ایمان لانے کے فوائد و ثمرات حسب ذیل ہیں:
۱- یہ ایمان بندہ کو اللہ کی محبت اور تعظیم سے بہہرہ ور کرتا ہے۔ جو محبت اور تعظیم اس کے لئے لازم کردیتی ہے کہ وہ احکامِ الہی کو بجالائے اور اس کے نواہی سے باز رہے۔ جب بندہ یہ دو کام کرلے تو اسے دنیا و آخرت میں کامل درجہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
۲- اللہ پر ایمان لانے سے انسان کے دل میں خود داری اور عزتِ نفس پیدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کائنات کی ہر چیز کا مالکِ حقیقی ہے اور اس کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ یہ علم اسے غیر اللہ سے بے نیاز کردیتا اور اس کے دل سے اللہ کے سوا ہر ایک کا خوف ختم کردیتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کے سوا نہ کسی سے امید لگاتا ہے اور نہ خوف کھاتا ہے۔
۳- اللہ پر ایمان لانے سے انسان کے دل میں تواضع پیدا ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتاہے کہ اس کے پاس جو بھی نعمت ہے، وہ اللہ کی جانب سے ہے۔ چنانچہ وہ نہ شیطانی فریب کا شکار ہوتا ہے، نہ کبر و غرور میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ اپنی قوت و دولت پر فخر کرتا ہے۔
۴- مؤمن یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ کامیابی اور نجات کا واحد راستہ وہ عمل صالح ہے، جو اللہ کو پسند ہے۔ جب کہ دوسرے لوگ باطل و بے بنیاد عقائد میں مبتلا رہتے ہیں۔ مثلا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ابن اللہ (عیسی( کی پھانسی ان کے گناہوں کا کفارہ ہے یا دوسرے معبودوں پر ایمان لاتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی آرزو اور خواہش کو پورا کردیں گے۔ جب کہ حقیقت میں وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ یا کوئی ملحد ہوتا ہے جو خالق کے وجود پر ہی ایمان نہیں رکھتا۔ یہ سب محض تمنائیں ہیں۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے اور اپنی آنکھوں سے حقائق کا مشاہدہ کریں گے، تو جان جائیں گے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
۵- اللہ پر ایمان لانے سے انسان کے اندر بڑی قوت پیدا ہوتی ہے، بایں معنی کہ جب دنیا میں رضاے الہی کی خاطر بڑے مقاصد کی انجام دہی کے لئے کمر بستہ ہوتاہے تو عزم و حوصلہ، پیش قدمی، صبر و شکیبائی، ثابت قدمی اور توکل سے کام لیتا ہے اور اسے مکمل یقین ہوتا ہے کہ اس کا توکل آسمان و زمین کے بادشاہ پر ہے۔ وہی اس کی تائید اور رہنمائی کرے گا۔ اس طرح وہ صبر و شکیبائی، ثابت قدمی اور توکل کا پہاڑ بن کر (اپنے مقصد میں( ڈٹا رہتا ہے([245])۔
دوسرا رکن: فرشتوں پر ایمان لانا: اللہ تعالی نے فرشتوں کو اپنی اطاعت کے لئے پیدا کیا ہے اور ان کی صفت یہ بتائی ہے: "وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔ کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے، بلکہ اس کے فرمان پر کاربند ہیں۔ وہ ان کے آگے پیچھے تمام امور سے واقف ہے۔ وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔ وہ تو خود ہیبت الہی سے لرزاں وترساں ہیں"۔ ([246])
اسی طرح ان کے بارے میں فرمایا: "وه اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وه دن رات تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے"۔ ([247])
اللہ تعالی نے ان کو ہم سے پوشیدہ رکھا ہے۔ اس لئے ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے۔ بسا اوقات اللہ تعالی ان میں سے بعض کو اپنے بعض انبیا و رسل کے رو برو کر دیتا ہے۔
فرشتوں کو مختلف کاموں پر لگایا گیا ہے۔ چنانچہ جبریل وحی پہنچانے پر مکلف ہیں۔ وہ اللہ کی جانب سے ان رسولوں پر وحی لے کر اترتے ہیں، جن پر اللہ وحی نازل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ فرشتے روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ کچھ فرشتے مادر رحم میں پلنے والے جنین مامور پر ہیں۔ کچھ فرشتے بنی نوع انسانی کی حفاظت کے ذمے داری سنبھال رہے ہیں اور کچھ فرشتوں کو انسانوں کے اعمال لکھنے پر مکلف کیا گیا ہے۔ ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: "ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ )انسان( منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا، مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے"۔ ([248])
فرشتوں پر ایمان لانے کے فوائد و ثمرات:
۱- مسلمان کا عقیدہ شرک کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ مسلمان جب ان فرشتوں پر ایمان لاتا ہے، جنہیں ان عظیم اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے، تو وہ ان وہمی مخلوقات کے عقیدے سے بری ہوجاتا ہے، (جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ( کائنات کو چلانے میں ان کی بھی ساجھے داری ہے۔
۲- مسلمان یہ جانتا ہے کہ فرشتے نفع و نقصان کی ملکیت نہیں رکھتے، بلکہ وہ معزز بندے ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے، اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو دیا جائے، اسے بجا لاتے ہیں۔ چنانچہ وہ نہ ان کی عبادت کرتا ہے، نہ ان کا قصد وارادہ کرتا ہے اور نہ ان سے تعلق اور وابستگی رکھتا ہے۔
تیسرا رکن: کتابوں پر ایمان لانا: یعنی یہ ایمان رکھنا کہ اللہ نے اپنے انبیا و رسل پر کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ وہ اس کا حق واضح کریں اور اس کی طرف دعوت دیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "یقینًا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو( نازل فرمایا، تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں"۔ ([249])
ایسی کتابیں بہت ساری ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: ابراہیم کے صحیفے، تورات جسے اللہ نے موسی کو عطا کیا، زبور جس کے ساتھ داؤد کو مبعوث فرمایا اور انجیل جس کے ساتھ عیسی مسیح تشریف لائے۔ علیہم الصلاۃ والسلام۔
یہ تمام کتابیں جن کے بارے میں اللہ نے ہمیں بتایا، سب ناپید ہوگئیں ہیں۔ چنانچہ دنیا میں ابراہیمی صحیفوں کا وجود باقی نہیں رہا۔ رہی بات تورات، انجیل اور زبور کی، تو یہ کتابیں اگرچہ یہود و نصاری کے پاس ان ناموں کے ساتھ موجود ہیں، تاہم ان میں تحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے، ان کے بہت سے حصے مفقود ہو چکے ہیں، ان میں ایسی چیزیں داخل ہوچکی ہیں جو ان کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ ان کی نسبت بھی ديگر لوگوں کی جانب کی جاتی ہے۔ چنانچہ عہد نامہ قدیم میں چالیس سے زائد سِفر (ابواب) ہیں، جن میں سے صرف پانچ کی نسبت موسی کی طرف کی جاتی ہے اور موجودہ انجیل کا کوئی بھی حصہ عیسی مسیح کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔
ان سابقہ کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ ایمان رکھیں کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں پر یہ کتابیں نازل فرمائیں اور یہ کتابیں اس شریعت پر مشتمل تھیں جسے اللہ نے اس زمانے میں لوگوں تک پہنچانا چاہا۔
جہاں تک اس آخری کتاب کی بات ہے، جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی، تو وہ قرآنِ عظیم ہے، جسے اللہ نے محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔ وہ اللہ کی حفاظت کے سبب آج تک محفوظ ہے۔ اس کے حروف، کلمات، حرکات اور معانی میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
قرآنِ عظیم اور دیگر کتابوں کے درمیان بہت ناحیے سے فرق ہے۔ ان میں چند ناحیے اس طرح ہیں:
۱- یہ سابقہ کتابیں ضائع ہوگئیں۔ ان میں تحریف و تبدیلی در آئی۔ ان کی نسبت ایسے لوگوں کی طرف ہونے لگی، جو ان کتابوں کے ساتھ مبعوث نہیں ہوئے۔ ان کے اندر مختلف شروحات، حواشی اور تفسیروں کا اضافہ کردیا گیا اور ایسے بہت سے امور شامل کردیے گئے، جو وحیِ الہی، عقل انسانی اور فطرت سلیمہ کے منافی ہیں۔
لیکن قرآن کریم اللہ کی حفاظت کے سبب اب تک اپنے ان حروف و کلمات کے ساتھ محفوظ ہے، جنہیں اللہ نے محمد ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ اس میں نہ کوئی تحریف ہوئی ہے اور نہ کوئی اضافہ۔ کیوں کہ مسلمانوں نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ قرآنِ کریم ہر طرح کے شائبے سے محفوظ رہے۔ چنانچہ انہوں نے اس میں سیرتِ رسول ﷺ ، سیرتِ صحابہ، تفسیرِ قرآن یا عبادات و معاملات کے (غیر قرآنی( احکام داخل نہیں کئے۔
۲- سابقہ کتابوں کی آج کوئی تاریخی اسناد نہیں ہے۔ بلکہ بعض کتابوں کے بارے میں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس پر نازل ہوئیں اور کس زبان میں نازل ہوئیں۔ حتی کہ ان کتابوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے، جو اس کے ساتھ مبعوث ہونے والے (انبیا و رسل کی بجائے( دیگر لوگوں کی طرف منسوب ہے۔
رہی بات قرآن کی، تو مسلمان تحریری اور تقریری ہر دو شکل میں اسے محمد ﷺ سے تواتر کے ساتھ نقل کرتے آرہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہر دور اور ہر ملک میں اس کتاب کے ہزاروں حفاظِ کرام اور اس کے ہزاروں تحریری نسخے رہے ہیں۔ قرآن کے زبانی نسخے جب تک اس کے تحریری نسخوں سے ہم آہنگ نہ ہوں، تب تک مخالف نسخوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس لئے زبانی حفظ کا تحریری نسخہ سے متفق ہونا ضروری ہے۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن زبانی طور پر اس طرح (تسلسل کے ساتھ( نقل ہوتا آرہا ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس طرح منقول نہیں ہوئی ہے، بلکہ نقل کی یہ شکل امت محمدیہ ﷺ کے سوا کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی۔ اس نقل کا طریقہ یہ ہے کہ طالبِ علم اپنے استاد سے زبانی قرآن حفظ کرتا ہے، اس کے استاد بھی اپنے استاد سے حفظ کئے ہوتے ہیں، پھر استاد اپنے شاگرد کو سند دیتا ہے جو "اجازۃ" کے نام سے موسوم ہوتی ہے، جس میں استاد یہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے شاگرد کو وہ پڑھایا جو اس نے اپنے اساتذہ سے پڑھا۔ ان میں سے ہر استاد نے اپنے استاد سے پڑھا اور ہر شخص اپنے استاد کا نام لیتا ہے یہاں تک کہ یہ سند رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچتی ہے۔ اس طرح زبانی اسناد کا سلسلہ طالبِ علم سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک پہنچ جاتا ہے۔
مضبوط ومعتبر دلائل اور تاریخی شواہد، جو سند کے ساتھ ذکر کئے جاتے رہے ہیں، قرآن کریم کی ہر سورہ اور ہر ایک آیت کی معرفت و واقفیت پر گواہ اور اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ کہاں اور کب محمد ﷺ پر نازل ہوئی۔
۳- جن زبانوں میں سابقہ کتابیں نازل ہوئیں، وہ بہت زمانہ قبل ہی ناپید ہوگئیں۔ دور حاضر میں کوئی ان زبانوں کا بولنے والا موجود نہیں ہے اور ان کو سمجھنے والے بھی نا کے برابر ہیں۔ لیکن وہ زبان جس میں قرآن نازل ہوا وہ ایک زندہ زبان ہے، جسے آج بھی کروڑوں لوگ بولتے ہیں۔ اسے روئے زمین کے ہر گوشے میں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے اور جو شخص اس سے نا آشنا ہو اسے ہر جگہ کوئی نہ کوئی ایسا شخص مل جائے گا، جو اسے قرآن کریم کے معانی ومفاہیم سے آگاہ کرسکے۔
۴- سابقہ کتابیں ایک متعین وقت اور ایک خاص قوم کے لئے نازل کی گئیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے احکام پر مشتمل تھیں، جو اسی قوم اور اسی زمانہ کے ساتھ خاص تھیں اور جو کتاب ایسی ہو وہ تمام لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہوسکتی۔
لیکن قرآنِ عظیم ایک جامع کتاب ہے، جو ہر زمانے کے لئے موزوں اور ہر جگہ کے لئے مناسب ہے۔ وہ ایسے احکام و معاملات اور اخلاق و اقدار پر مشتمل ہے، جو ہر قوم و ملت کے لئے لائق اور ہر عہد کے لئے مناسب ہیں۔ کیوں کہ اس میں تمام انسانوں کو عمومی طور پر خطاب کیا گیا ہے۔
اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انسانوں پر اللہ کی حجت ایسی کتابوں کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکتی، جن کے اصل نسخے ناپید ہوگئے ہوں اور روئے زمین پر کوئی ان زبانوں کا بولنے والا موجود نہ ہو، جن میں یہ کتابیں تحریف کرکے لکھی گئیں تھیں۔ بلکہ مخلوق پر اللہ کی حجت ایسی کتاب کے ذریعہ قائم ہوتی ہے, جو ہر قسم کے اضافے، نقص و عیب اور تحریف وتبدیلی سے محفوظ ہو۔ اس کے نسخے ہر جگہ پھیلے ہوئے ہوں۔ وہ ایسی زندہ زبان میں لکھی گئی ہو، جس کے پڑھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو اور جو اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہوں۔ ایسی کتاب ’قرآنِ عظیم‘ہے، جسے اللہ نے محمدﷺ پر نازل فرمایا۔ وہ تمام سابقہ کتابوں کی محافظ، ان کی تصدیق کرنے والی اور ان پر گواہ ہے۔ یہی وہ کتاب ہے، جس کی پیروی کرنا تمام انسانوں پر واجب ہے، تاکہ وہ ان کے لئے نور، شفا، ہدایت اور رحمت ثابت ہو۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور یہ ایک کتاب ہے، جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر وبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو"۔ ([250])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں"۔([251])
چوتھا رکن: رسولوں پ ایمان لانا:
اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی طرف بہت سے رسول بھیجے، جنہوں نے اللہ پر ایمان لانے والوں اور رسولوں کی تصدیق کرنے والوں کو نعمت کی بشارت دی اور نافرمانی کرنے والوں کو عذاب سے ڈرایا۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو"۔ ([252])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "ہم نے انہیں رسول بنایا ہے، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے؛ تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے"۔ ([253])
ان رسولوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سب سے پہلے رسول نوح اور آخری رسول محمد ﷺ ہیں۔ ان میں سے کچھ رسولوں کی خبر اللہ نے ہمیں دی ہے۔ جیسے ابراہیم، موسی، عیسی، داؤد، یحیى، زکریا اور صالح... اور کچھ ایسے رسول بھی ہیں، جن کے بارے میں اللہ نے خبر نہیں دی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں اور بہت سے رسولوں کے نہیں بھی کئے"۔ ([254])
یہ تمام کے تمام رسول، انسان اور اللہ کی مخلوق تھے اور انہیں ربوبیت اور الوہیت کی کوئی خصوصیت حاصل نہ تھی۔ اس لئے عبادت کا کوئی بھی حصہ ان کے لئے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ وہ خود اپنے لئے بھی کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے۔ اللہ تعالی نے نوح -جو سب سے پہلے نبی تھے- کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا: "نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں"۔ ([255])
اور اللہ تعالیٰ نے آخری رسول کو حکم فرمایا کہ آپ یہ اعلان کردیں: "نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں"۔ ([256])
اور یہ بھی اعلان کردیں کہ: "میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو"۔ ([257])
انبیاے کرام اللہ کے معزز بندے ہیں۔ اللہ نے انہیں منتخب فرمایا اور انہیں رسالت وپیغمبری سے سرفراز کیا۔ انہیں عبودیت وبندگی سے متصف فرمایا۔ ان سب کا دین اسلام ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک اس کے سوا کوئی دین قابلِ قبول نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے"۔ ([258])
ان کی پیغمبری کی بنیادیں باہم متفق تھیں، البتہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی ہے"۔ ([259])
ان تمام شریعتوں کا خاتمہ شریعتِ محمدیہ ﷺ کے ذریعہ ہوا، جو کہ تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ آپ کی رسالت وپیغمبری تمام رسالتوں کو ختم کرنے والی ہے اور آپ خاتم الرسل ہیں۔
جو کسی ایک نبی پر ایمان لایا اس پر واجب ہے کہ تمام نبیوں پر ایمان لائے اور جس نے کسی ایک نبی کو جھٹلایا اس نے تمام نبیوں کو جھٹلایا، کیوں کہ تمام انبیا و رسل نے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اس لئے بھی کہ ان سب کا دین ایک تھا۔ چنانچہ جو شخص ان کے درمیان تفریق کرے یا ان میں سے بعض پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے تو اس نے ان تمام انبیا و رسل کا انکار کیا۔ کیوں کہ ان میں سے ہر ایک نے تمام انبیا و رسل پر ایمان لانے کی دعوت دی([260])۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مؤمن بھی ایمان ﻻئے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے۔ اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے"۔ ([261])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کو نہیں مانتے اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں جدائی ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پیغمبروں کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے اور کفر و ایمان کے درمیان میں ایک راستہ بنانا چاہتے ہیں"۔ ([262])
پانچواں رکن: آخرت کے دن پر ایمان لانا: اس لئے کہ اس دنیا میں ہر مخلوق کا آخری انجام موت ہے! اب سوال یہ ہے کہ موت کے بعد انسان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟ ان ظالموں کا انجام کیا ہوگا، جو دنیا میں عذاب سے بچ گئے؟ کیا وہ اپنے ظلم کی سزا سے بچ جائیں گے؟ وہ نیکو کار حضرات، جنہیں اس دنیا میں ان کی نیکی کا بدلہ نہ مل سکا، کیا ان کا اجر و ثواب ضائع ہوجائے گا؟
انسان ایک کے بعد ایک لقمۂ اجل بنتا جا رہا ہے۔ نسلیں موت کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالی دنیا کے خاتمے کی اجازت دے گا، روئے زمین پر رہنے والی ہر مخلوق ہلاک و برباد ہوجائے گی۔ پھر اللہ تعالی تمام مخلوقات کو اس دن جمع کرے گا، جس میں سب حاضر کئے جائیں گے۔ اس دن اللہ تعالی پہلے اور بعد میں آنے والی تمام قوموں کو یک جا کرے گا۔ پھر بندوں نے دنیا میں جو اچھے اور برے کام کیے، ان کا حساب و کتاب لے گا۔ چنانچہ مؤمنوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور کفار جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔
جنت سے مراد: نعمتوں )کا وہ گھر( ہے، جو اللہ نے اپنے مؤمن اولیا کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ اس میں اتنی اقسام کی نعمتیں ہوں گی کہ کوئی شخص ان کو بیان نہیں کرسکتا۔ اس میں سو درجات ہوں گے۔ ایمان اور اطاعت کے حساب سے لوگوں کی سکونت و رہائش کا درجہ طے ہوگا۔ جنت میں سب سے ادنی مقام پر جو شخص ہوگا، اس کی نعمت دنیا کے کسی بادشاہ کی ملکیت جیسی اور اس سے دس گنا زائد ہوگی۔
جب کہ جہنم وہ عذاب ہے، جسے اللہ نے کافروں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ اس میں اس قدر الگ الگ طرح کے عذاب ہیں کہ ان کا ذکر بھی ہول ناک ہے۔ اگر آخرت میں اللہ تعالی کسی کے لئے موت مقرر کرتا، تو جہنمیوں کو جہنم کا منظر دیکھ کر ہی موت آجاتی۔
اللہ تعالی -اپنے علمِ سابق- کے ذریعہ یہ جانتا تھا کہ ہر انسان کون سی بھلی یا بری بات بولے گا اور کون سا اچھا یا برا کام کرے گا۔ خواہ مخفی طور پر ہو یا علانیہ طور پر۔ پھر اللہ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے متعین کر دیے۔ ان میں سے ایک نیکیاں لکھتا اور دوسرا برائیاں لکھتا ہے۔ ان سے کوئی چیز بھی نہیں فوت ہوتی۔ فرمان باری تعالی ہے: (انسان") منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا، مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے"۔ ([263])
یہ تمام اعمال ایک کتاب میں درج کئے جاتے ہیں، جو قیامت کے دن انسان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہاے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا شمار کیے بغیر باقی ہی نہیں چھوڑا اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم وستم نہ کرے گا"۔ ([264])
چنانچہ وہ اپنا نامہ اعمال پڑھے گا اور اس میں درج کسی بھی عمل کا انکار نہیں کرسکے گا۔ جو اپنے کسی عمل کا انکار کرے گا، اللہ تعالی اس کے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں اور کھال کو قوت گویائی عطا کردے گا اور سب اس کے عمل کی گواہی دینے لگیں گے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف ﻻئے جائیں گے اور ان )سب( کو جمع کر دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کےپاس آجائیں گے اور ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وه جواب دیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی، جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے۔ اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔ اور تم (اپنی بداعمالیاں( اس وجہ سے پوشیده رکھتے ہی نہ تھے کہ تمھارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی۔ ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سےاعمال سے اللہ بےخبر ہے"۔ ([265])
آخرت کے دن پر ایمان لانا، جوکہ دوبارہ اٹھائے جانے اور حشر میں جمع ہونے کادن ہے، تمام انبیا و رسل کی بعثت کا حصہ ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اس اللہ کی نشانیوں میں سے (یہ بھی( ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں، تو وه تر وتازه ہوکر ابھرنے لگتی ہے۔ جس نے اسے زنده کیا، وہی یقینی طور پر مُردوں کو بھی زنده کرنے واﻻ ہے۔ بے شک وه ہر چیز پر قادر ہے۔([266]) ایک اور جگہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا: " کیا وه نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وه نہ تھکا، وه یقیناً مُردوں کو زنده کرنے پر قادر ہے"؟([267]) یہ حکمتِ الہی کا تقاضہ بھی ہے۔ کیوں کہ اللہ نے مخلوق کو بے کار پیدا نہیں کیا اور نہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا، کیوں کہ کمزور ترین عقل کے انسان کے لئے بھی بغیر کسی متعین مقصد اور بلا ارادے کے کوئی اہم کام کرنا ممکن نہیں۔ جب انسان کے لئے یہ ناقابلِ تصور ہے، تو بھلا انسان اپنے رب کے بارے میں وہ ایسا کیوں کر گمان کرسکتا ہے کہ اس نے اسے بے کار پیدا کیا اور یوں ہی چھوڑ دے گا؟ اللہ تعالی ان کے قول سے بہت زیادہ بلند و برتر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے"؟([268])
نیز اللہ جلّ شانہ نے فرمایا: "ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا۔ یہ گمان تو کافروں کا ہے۔ سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی"۔ ([269])
اللہ پر ایمان لانے کی شہادت تمام عقل مندوں نے دی ہے۔ یہی عقل کا تقاضہ بھی ہے اور فطرت سلیمہ بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ کیوں کہ انسان جب قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جس عمل کو ترک کرتا ہے، وہ کیوں ترک کرتا ہے اور جو عمل کرتا ہے، وہ اللہ کے ثواب کی امید میں کرتا ہے۔ نیز یہ بھی جان رہا ہوتا ہے کہ جو شخص لوگوں پر ظلم کرتا ہے، اسے اس کا بدلہ ضرور مل کر رہے گا۔ قیامت کے دن لوگ اس سے قصاص )اپنا بدلہ( لیں گے اور یہ کہ انسان کو لامحالہ اپنے عمل کا بدلہ پانا ہے۔ عمل اچھا رہا تو بدلہ بھی اچھا ملے گا اور عمل برا رہا تو بدلہ بھی برا ملے گا، تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے، جو اس نے کوشش کی ہو اور اللہ تعالی کا عدل و انصاف روبہ عمل آئے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "سو جو کوئی ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا، اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی، وه اسے دیکھ لے گا"۔ ([270])
کوئی مخلوق یہ نہیں جانتی کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ یہ علم تو کسی مبعوث کردہ نبی اور مقرب فرشتہ کو بھی نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ اللہ نے اس علم کو اپنے لیے خاص کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ آپ فرمادیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے۔ اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا"۔ ([271])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "بے شک اللہ تعالی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے"۔ ([272])
قضا و قدر پر ایمان:
یعنی آپ یہ ایمان رکھیں کہ اللہ تعالی ماضی اور مستقبل کے تمام امور سے باخبر ہے، وہ بندوں کے احوال، ان کے اعمال، ان کی موت اور رزق سے بھی واقف ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے"۔ ([273])
اور دوسری جگہ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں )خزانے( ہیں۔ ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ وه خشکی اور دریاؤں کی تمام چیزوں کو جانتا ہے۔ کوئی پتا بھی گرتا ہے، تو اسے اس کی خبر ہوتی ہے۔ کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور کوئی تر اور کوئی خشک چیز گرتی ہے، تو اس کا ذکر بھی کتاب مبین میں ہے"۔ ([274])
اللہ تعالی نے یہ تمام امور اپنے پاس ایک کتاب میں لکھ رکھا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے"۔ ([275])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے"۔ ([276])
جب اللہ تعالی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "وه جب کبھی کسی چیز کا اراده کرتا ہے، اسے اتنا فرما دینا )کافی ہے( کہ ہو جا، وه اسی وقت ہو جاتی ہے"۔ ([277])
اللہ پاک نے جس طرح ہر چیز کو مقدر کیا، اسی طرح وہ ہر چیز کا خالق بھی ہے۔ اللہ جلّ ذکرہ کا ارشاد ہے: "بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک )مقرره( اندازے پر پیدا کیا ہے"۔ ([278])
نیز عزیز و برتر پروردگار نے فرمایا ہے: " اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے"۔ ([279])
اللہ تعالی نے بندوں کو اپنی اطاعت کے لئے پیدا کیا، ان کے سامنے اطاعت کو واضح کردیا، انہیں اس کا حکم دیا، اپنی نافرمانی سے منع فرمایا، ان کے سامنے نافرمانی بھی واضح کردی، انہیں قدرت اور مشیئت سے بھی نوازا، جس کے ذریعہ وہ احکام الہی کی بجا آوری کرکے اجر و ثواب سے دامن مراد کو بھر سکتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کرکے عذاب کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔
جب انسان قضا و قدر پر ایمان لاتا ہے، تو اسے درج ذیل امور حاصل ہوتے ہیں:
۱- اسباب کو اختیار کرتے وقت اللہ تعالیٰ پراعتماد اوریقین، کیوں کہ وہ جان رہا ہوتا ہے کہ سبب اورمسبب دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر پر موقوف ہوتے ہیں۔
۲- راحتِ جاں اوراطمینان قلب کا احساس وشعور۔ اس لیے کہ جب بندے کو اس بات کا علم و یقین ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی قضا و قدر سے ہے اور تقدیر کی ناپسندیدہ چیز لامحالہ واقع ہونے والی ہے، تو اس کے دل کو راحت و سکون حاصل ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی و مطمئن ہوجاتا ہے۔ اس شخص سے بڑھ کر آرام دہ زندگی، راحتِ جاں اور دلی سکون کس کوحاصل ہوسکتا ہے، جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہو؟
۳- حصول مقصد کے بعد خود پسندی کا ازالہ۔ کیوں کہ اس نعمت اور مقصد کا حصول اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور تقدیر میں خیر و بھلائی اور کامیابی و کامرانی کے اسباب فراہم ہونے کے نتیجہ میں ہے۔ چنانچہ بندہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے (اورخود پسندی سے بازرہتا ہے(۔
۴- مقصد سے محرومی یا نا پسندیدہ چیز کے حصول کے بعد بے چینی و بے قراری کا ازالہ۔ کیوں کہ یہ سب اللہ کی قضا و قدر سے ہے، جس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور نہ اس کے فیصلے کو کوئی پیچھے ڈالنے والا ہے۔ وہ لامحالہ واقع ہوکر رہتا ہے۔ چنانچہ وہ صبر و تحمل کا دامن تھامے رہتا اور اللہ تعالی سے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہے۔ "نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ )خاص( تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ )کام( اللہ تعالیٰ پر )بالکل( آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے سے فوت شده کسی چیز پر رنجیده نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کرده چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا"۔ ([280])
۵- اللہ پاک پر کامل توکل وبھروسہ۔ کیوں کہ مسلمان جانتا ہے کہ صرف اللہ پاک کے ہاتھ میں ہی نفع و نقصان کی ملکیت ہے۔ چنانچہ نہ وہ کسی مضبوط و تونگر کی تونگری سے خوف کھاتا ہے اور نہ کسی انسان کے خوف سے کسی کار خیر سے پیچھے رہتا ہے۔ نبی ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: "یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے، تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے، تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی، جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے"۔ ([281])
احسان: اور اسں کا ایک ہی رکن ہے اور وہ یہ ہے کہ، تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو )یہ تصور رکھو کہ( وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ اسی طریقے سے اپنے رب کی عبادت کرے۔ یعنی رب تعالی کی قربت کا احساس وشعور رکھے اور یہ تصور کرے کہ وہ رب کے سامنے کھڑا ہے۔ اس سے خشیت، خوف، ہیبت اور تعظیم پیدا ہوتی ہے۔ عبادت کی ادائیگی میں اخلاص پیدا ہوتا ہے اور اسے خوب سے خوب تر کرنے اور بدرجۂ اتم ادا کرنے میں انسان محنت ولگن سے کام لیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ بندے کو عبادت کی ادائیگی کے دوران اپنے رب کی نگرانی کا احساس کرنا چاہیے، اس سے اپنی قربت کو اس طرح محسوس کرنا چاہیے، گویا وہ اسے دیکھ رہا ہو۔ اگر یہ تصور اس کے لئے مشکل ہو، تو اس بات پر ایمان رکھ کر اسے بروئے عمل لانے کی مدد طلب کرنی چاہیے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، اس کے راز و نیاز سے باخبر اور ظاہر و عیاں سے واقف ہے۔ اس سے اس کا کوئی بھی معاملہ مخفی نہیں۔([282])
جب بندہ اس مقام پر فائز ہوتا ہے، تو اخلاص کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہے۔ کسی اور کی پرواہ نہیں کرتا۔ نہ اسے لوگوں کی ستائش کا انتظار ہوتا ہے اور نہ ان کی مذمت و ملامت کا کوئی خوف۔ بلکہ اس کے لئے رب کی رضا و خوشنودی اور اپنے مولا کی حمد و ثنا ہی کافی ہوتی ہے۔
ایسے انسان کی خلوت و جلوت یکساں ہوتی ہے۔ وہ خلوت اور جلوت ہر جگہ اپنے رب کی عبادت میں منہمک رہتا ہے۔ اسے یقینِ کامل رہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے دل کے رازہائے سربستہ اور نفس کے وسوسوں سے باخبر ہے۔ اس کے دل پر ایمان کا راج چلتا ہے۔ وہ اپنے اوپر رب کی نگرانی کے احساس و شعور میں غرق رہتا ہے۔ اس کے اعضا و جوراح اپنے خالق کے سامنے خم رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ان اعضا و جوارح سے وہی عمل کرتا ہے، جو اللہ کو محبوب اور پسندیدہ ہو۔ وہ اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوتا ہے۔
چوں کہ اس کا دل اپنے پروردگار سے وابستہ ہوتا ہے، اس لئے کسی مخلوق سے مدد و اعانت نہیں طلب کرتا، بلکہ اللہ ہی اس کی بے نیازی کے لئے کافی ہوتا ہے۔ وہ کسی انسان کے سامنے شکوہ نہیں کرتا، کیوں کہ وہ اپنی ضرورت اللہ پاک کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ اس کی مدد کے لئے کافی ہے۔ وہ کسی جگہ خوف نہیں کھاتا اور کسی انسان سے خائف نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ جان رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہر حال میں اس کے ساتھ ہے، وہ اس کے لئے کافی ہے اور بہت بہتر مدد گار ہے۔ وہ اللہ کے کسی حکم سے روگردانی نہیں کرتا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کرتا ہے، کیوں کہ وہ اللہ سے شرم محسوس کرتا ہے اور یہ نا پسند کرتا ہے کہ جہاں اللہ نے اسے جانے کا حکم دیا ہے وہاں اسے غائب پائے اور جہاں جانے سے منع فرمایا ہے وہاں حاضر پائے۔ نہ کسی مخلوق پر ظلم وستم کرتا ہے اور نہ اس کا حق سلب کرتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ پاک پروردگار اس کے اعمال کا حساب و کتاب لے گا۔ وہ زمین میں فساد و بگاڑ نہیں مچاتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ روئے زمین کی تمام تر بھلائیاں اور برکتیں اللہ تعالی کی ملکیت میں ہیں، جنہیں اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے مسخر فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ ان بھلائیوں اور برکتوں میں سے اپنی ضرورت کے بقدر ہی لیتا اور رب کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے اس کے لئے یہ نعمت میسر فرمائی۔
میں نے اس مختصر کتاب کے اندر صرف اہم امور اور اسلام کے عظیم ارکان پر ہی اکتفا کیا ہے۔ یہ وہ ارکان ہیں کہ جب بندہ ان پر ایمان لاتا اور ان کے مطابق عمل کرتا ہے، تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسلام، جیسا کہ میں نے ذکر کیا، دین و دنیا سے عبارت ہے۔ وہ عبادت بھی ہے اور نظامِ حیات بھی۔ وہ ایسا جامع الہی نظام ہے، جو اپنے احکام و قوانین میں فرد اور امت کے لئے یکساں طور پر زندگی کے تمام اعتقادی، سیاسی، معاشی، سماجی اور امن وامان سے متعلق امور کو شامل ہے... اس کے اندر ایسے اصول و قواعد اور احکام موجود ہیں، جو صلح و جنگ کے معاملات اور واجبی حقوق کو منظم کرتے ہیں۔ انسان کی عزت و کرامت، چرند و پرند، حیوان اور اردگرد کے ماحول کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ انسانی وجود، حیات و موت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ اسلام میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے کا بہترین طرز اور آئیڈیل طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ جیسے اللہ تعالی کا یہ فرمان: "لوگوں سے اچھی بات کہو"۔ ([283])
نیز اللہ تعالی کا یہ ارشاد: (متقی وہ ہیں جو") لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں"۔ ([284])
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان: "کسی قوم کی عداوت تمہیں خلافِ عدل پر آمادہ نہ کردے۔ عدل کیا کرو، جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے"۔ ([285])
دینِ اسلام کے مراتب اور ہر مرتبہ کے ارکان کو بیان کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے محاسن کا مختصر خلاصہ پیش کردیا جائے۔
اسلام کے محاسن کا احاطہ کرنے سے قلم عاجز ہے۔ اس دین کے فضائل کا کما حقہ ذکر کرنے کے لئے الفاظ و جمل ناکافی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے یہ دین اللہ سبحانہ وتعالی کا دین ہے۔ چنانچہ جس طرح نگاہ اللہ تعالی کا ادراک نہیں کرسکتی اور انسان اپنے علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، اسی طرح اللہ پاک کی شریعت کے اوصاف (و محاسن( کا احاطہ کرنا بھی قلم کے لئے ممکن نہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر آپ اس دینِ حق، ملتِ حنیفیہ اور شریعتِ محمدیہ کی روشن حکمت پر غور کریں گے )تو آپ پائیں گے کہ( الفاظ میں اس کا کمال وجمال نہیں بیان کیا جاسکتا اور دانش وروں کی عقلیں -اگرچہ سارے کامل ترین دانش ور یک جا ہوجائیں- اس سے بڑھ کر دین نہیں پیش کرسکتیں۔ کامل وفاضل عقلوں کے لئے یہی کافی ہے کہ انہیں اس کے حسن و جمال کا ادراک ہو جائے اور انہوں نے اس کی فضیلت کی گواہی دے دی۔ دنیا اس سے زیادہ کامل، عظیم الشان اور بلند و بالا شریعت نہیں پیش کر سکی... اگر رسول اس شریعت کی دلیل نہیں بھی لاتے، تو وہ خود اس بات کی دلیل، نشانی اور گواہی کے لئے کافی ہوتی کہ وہ اللہ کی جانب سے ہے۔ یہ شریعت سر تا پا کمالِ علم، کمالِ حکمت، رحمت و رافت، احسان و بھلائی، غائب و حاضر کے احاطہ، آغاز وانجام کے علم کا گواہ ہے۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی کہ وہ اللہ کی عظیم ترین نعمت ہے، جس سے اللہ نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا۔ چنانچہ اللہ نے ان پر اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں اتاری کہ انہیں شریعت محمدیہ کی ہدایت عطا کی، انہیں اس کا پیروکار بنایا اور انہیں اس دین )کی پیروی اور نشر و اشاعت( کے لئے منتخب فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان پر یہ احسان جتایا کہ اس نے انہیں دینِ حنیف کی ہدایت بخشی۔ فرمان باری تعالی ہے: "بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے"۔ ([286])
اللہ نے اپنے بندوں کے سامنے اس عظیم نعمت کا تعارف پیش کیا۔ انہیں اس کی یاد دہانی کرائی اور اس بات کا شکر ادا کرنے کی دعوت دی کہ اللہ نے انہیں اس دین کا پیروکار بنایا۔ چنانچہ فرمایا: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا"۔ ([287])
اس دین کے تئیں اللہ کا شکر بجالانے کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ہم اس دین کے بعض محاسن اور خوبیوں کو ذکر کریں۔ چنانچہ ذیل میں ایسے ہی چند محاسن پیش کئے جار ہے ہیں:
یہی وہ دین ہے، جس کو اللہ نے اپنے لئے پسند فرمایا، اس کے ساتھ رسولوں کو مبعوث فرمایا اور مخلوق کو یہ حکم دیا کہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت کریں۔ چنانچہ جس طرح خالق مخلوق کا ہم مثل نہیں، اسی طرح اس کا دین بھی مخلوق کے خودساختہ ادیان و مذاہب کا ہم مثل نہیں۔ جس طرح اللہ پاک کمالِ مطلق سے متصف ہے، اسی طرح اس کا دین بھی کمالِ مطلق سے متصف ہے، بایں معنی کہ وہ ایسے احکام و شرائع پیش کرتا ہے، جو لوگوں کی دنیا و آخرت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ )یہ دین( خالق کے حقوق اور اس کے تئیں بندوں کے واجبات کا احاطہ کرتا ہے، لوگوں کے آپسی حقوق پر روشنی ڈالتا اور ایک دوسرے کے تئیں ان پر عائد ہونے والے واجبات کو بیان کرتا ہے۔
اس دین کا ایک نمایاں ترین حسن و جمال یہ ہے کہ اس کے اندر سارے پہلو آ جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی"۔ چنانچہ یہ دین خالق سے متعلق تمام امور کو شامل ہے۔ جیسے اللہ کے اسما و صفات اور اس کے حقوق۔ اسی طرح مخلوق سے متعلق بھی تمام امور کو شامل ہے۔ جیسے قوانین، احکام، اخلاق اور معاملات۔ اس دین نے پہلے اور بعد میں آنے والی تمام قوموں کے واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ فرشتوں، نبیوں اور رسولوں کے احوال بیان کیا ہے۔ آسمان و زمین، افلاک، ستارے، سمندر، درخت اور پوری کائنات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ تخلیق کا سبب، اس کا مقصد اور انجام بھی بیان کیا ہے۔ جنت کا ذکر کیا اور مؤمنوں کا انجام بتایا۔ جہنم کیا ذکر کیا اور کافروں کا انجام بھی بتادیا۔
تمام تر باطل ادیان وملل کا یہ خاصہ ہے کہ وہ انسان کو اسی کے مثل انسان سے جوڑتے ہیں، جوکہ موت، کمزوری و لاغری، عاجزی اور بیماری سے دوچار ہتا ہے، بلکہ بسا اوقات یہ ادیان اسے ایسے انسان سے جوڑتے ہیں، جو سینکڑوں سال پہلے وفات پاکر ہڈی اور مٹی بن چکا ہوتا ہے... لیکن اس دینِ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنے خالق سے بلا واسطہ طور پر جوڑتا ہے۔ چنانچہ نہ کوئی (درمیانی( پادری کا تصور ہے، نہ کسی مقدس ثالثی کا اور نہ کسی مقدس راز کا۔ وہ خالق و مخلوق کے درمیان ڈائرکٹ رابطہ سے عبارت ہے۔ ایسا رابطہ جو عقل کو اپنے پروردگار سے جوڑتا ہے۔ چنانچہ وہ نور وہدایت حاصل کرتی، رفعت و بلندی پر فائز ہوتی، کمال و جمال کا مطالبہ کرتی اور چھوٹے چھوٹے حقیر و کمتر امور سے دامن کش رہتی ہے، کیوں کہ ہر وہ دل جو اپنے خالق سے وابستہ نہ ہو، وہ چویایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔
وہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایسا رشتہ ہے، جس کے ذریعہ بندہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے کیا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ بصیرت و آگہی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کی خوش نودی کے مقامات سے واقفیت کے لئے ان کی جستجو کرتا ہے اور اس کی ناراضگی کے مقامات سے واقفیت حاصل کرتا ہے تاکہ ان سے اجتناب کرتا رہے۔
وہ عظیم و برتر خالق اور ضعیف و کمتر مخلوق کے درمیان ایسا ربط وتعلق ہے، جس کی بنیاد پر بندہ اپنے پروردگار سے مدد و اعانت اور توفیق طلب کرتا ہے، اس سے دعا کرتا ہے کہ اسے مکاروں کی مکاری اور شیطانوں کی چال بازی سے محفوظ رکھے۔
شریعت اسلامیہ کی بنیاد دنیا و آخرت کے مفادات کی رعایت اور مکارمِ اخلاق کی تکمیل پر رکھی گئی ہے۔
رہی بات اخروی مفادات کی، تو شریعت نے اس کی تمام شکلیں واضح کردیں اور کسی حصہ سے غفلت نہیں برتی۔ بلکہ اس کے تمام گوشے کھول کھول کر واضح اور بیان کردیے، تاکہ اس کا کوئی بھی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے۔ چنانچہ آخرت کی نعمت کا وعدہ کیا اور اس کے عذاب کی وعید سنائی۔
جہاں تک دنیوی مفادات کی بات ہے، تو اللہ نے اس دین میں ایسے احکام مقرر فرمائے ہیں، جن سے انسان کے دین، اس کی جان و مال، حسب و نسب، عزت و ناموس اور عقل و دانش کو تحفظ فراہم ہوتا ہے۔
رہ گئی بات مکارمِ اخلاق کی، تو اللہ نے ظاہری و باطنی ہر قسم کے بلند اخلاق کا حکم دیا ہے اور تمام طرح کے رذیل اور حقیر اخلاق و اطوار سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ظاہری مکارمِ اخلاق کی مثال یہ ہے کہ نظافت و پاکیزگی کا حکم دیا، ہر قسم کی غلاظت وگندگی سے دور رہنے کی تلقین کی، اور خوشبو لگانے اور بہترین شکل وہیئت اختیار کرنے کو مستحب قرار دیا، زناکاری، شراب نوشی، مردار خوری، خون خوری اور سور خوری جیسے خبیث اور قبیح اعمال کو حرام ٹھہرایا، پاکیزہ رزق کھانے کا حکم دیا اور فضول خرچی کی ممانت فرمائی۔
جہاں تک باطنی نظافت کی بات ہے، تو اس کا تعلق مذموم اخلاق سے دوری اختیار کرنے اور قابلِ ستائش اور مستحسَن اخلاق سے آراستہ ہونے سے ہے۔ مذموم اخلاق کی مثال دروغ گوئی، فسق وفجور، غصہ، حسد، بخیلی، بے غیرتی، جاہ و منصب کی لالچ، دنیا کی محبت، کبر وغرور، خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ ہیں۔ قابلِ ستائش اخلاق کی مثال حسن اخلاق، مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، عدل و انصاف، تواضع و انکساری، صدق گوئی، عزتِ نفس، سخاوت و فیاضی، اللہ پر توکل، اخلاصِ نیت، اللہ کا خوف، صبر و تحمل اور شکر و شکیبائی وغیرہ۔([288])
یہ ان صفات میں سے ایک ہے، جو دین کو نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔ چنانچہ اسلام کے تمام شعائر و احکام اور اس کی ہر عبادت میں سہولت اور آسانی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی"۔ ([289])
سب سے پہلی آسانی یہ ہے کہ جو شخص بھی اس دین میں داخل ہونا چاہے، اسے کوئی انسانی واسطہ یا سابقہ گناہوں کے اعتراف کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ طہارت و پاکیزگی اختیار کرے، لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دے اور ان دونوں کلمات کے معانی کا عقیدہ رکھے اور ان کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو۔
نیز یہ کہ انسان جب سفر پر نکلتا یا بیمار ہوجاتا ہے، تو ہر عبادت میں اس کے لئے آسانی اور تخفیف کردی جاتی ہے۔ البتہ اس عمل کا ثواب اس کو اتنا ہی ملتا ہے، جتنا اسے حالتِ اقامت یا حالتِ تندرستی میں پورا عمل کرنے پر ملا کرتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کی زندگی آسان اور پرسکون ہوجاتی ہے، بر خلاف کافر کی زندگی کے کہ اس میں تنگی اور مشقت ہوتی ہے۔ اسی طرح مؤمن کی موت بھی آسان ہوجاتی ہے، بایں معنی کہ اس کی روح اسی طرح اس کے جسم سے جدا ہوتی ہے، جس طرح پانی کا قطرہ برتن سے ٹپکتا ہے )اور پتہ بھی نہیں چلتا(۔ فرمان باری تعالی ہے: "وه جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وه پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے"۔ ([290])
لیکن کافر کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کی موت کے وقت سخت دل مضبوط فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے کوڑوں سے مارتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے: "اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی، اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے"۔ ([291])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منہ پر اور سرینوں پر مارتے ہیں )اور کہتے ہیں( تم جلنے کا عذاب چکھو"۔ ([292])
جس نے اسلامی احکام و شرائع کو مقرر فرمایا، وہ صرف ایک اللہ ہے۔ وہی تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے، بشمول گورے کالے اور مرد وعورت کے۔ یہ ساری مخلوقات اللہ کے فیصلہ، عدل و انصاف اور رحمت کے سامنے برابر ہیں۔ اور تمام مرد و عورت کے لئے وہی احکام مقرر کئے، جو اس کے لئے مناسب ہیں۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ شریعت مرد کی محبت میں عورت کو داؤ پر لگادے، عورت کو برتری عطا کرے اور مرد پر ظلم کرے یا گورے انسان کو ایسی خصوصیات سے نوازے جن سے کالے انسان کو محروم کردے۔ کیوں کہ شریعتِ الہی کی سامنے سب کے سب برابر ہیں۔ تقوی کے سوا ان کے درمیان تفریق کا کوئی معیار نہیں ہے۔
یہ شریعت ایک معزز خوبی اور بلند و بالا خصوصیت پر مشتمل ہے۔ جان رکھیں کہ وہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ چنانچہ ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اور امر ونہی کے مراتب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ مراتب سے مراد یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کو استعمال میں لاکر بھلائی کا حکم دے اور برائی کو ختم کرے۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے یہ کام کرے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل سے برا جانے۔ اس طرح پوری امت مسلمہ، اس امت کی نگراں و نگہبان ہے۔ ہر فرد پر یہ واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اور شرعی اصول و ضوابط کی روشنی میں ہر اس شخص کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے، جو بھلائی کی بجا آوری میں کوتاہی کرے یا برائی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم۔
یہ کام -جیسا کہ آپ نے دیکھا- ہر شخص پر اس کی استطاعت کے مطابق واجب ہے۔ جب کہ عہد حاضر کے بہت سے سیاسی نظام کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ حزب مخالف کو یہ آزادی دیتا ہے کہ حکومتی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور سرکاری محکموں کی کارگزاری کی نگرانی کرتا رہے۔
اسلام کے یہ چند محاسن ہیں۔ اگر اس موضوع پر تفصیل سے بات کی جائے، تو اس کے ہر امتیازی وصف، ہر فرض، ہر امر اور ہر نہی کے بارے میں بات کرنی ہوگی، تاکہ اس کے اندر جو بے پناہ حکمت، محکم ومضبوط شریعت سازی، انتہائی حسن و جمال اور بے نظیر کمال پایا جاتا ہے، اسے اجاگر کیا جاسکے۔ جو شخص اس دین کے احکام و شرائع پر غور کرے گا، وہ یقینی طور پر یہ جان جائے گا کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ وہ ایسا حق ہے، جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ایسی ہدایت ہے، جس میں کوئی گمراہی نہیں۔
آپ اگر اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہتے ہیں، اس کی شریعت کی اتباع اور اس کے انبیا و رسل کے نقشِ پا کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کے سامنے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آپ کا پروردگار خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ وہ آپ کو پکارتا ہے، تاکہ اپنی بخشش سے نواز سکے۔
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں"۔ ([293])
انسان اپنی ذات، اپنی ہمت اور عزم و حوصلے میں کمزور واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لئے اللہ نے رحم وکرم کرتے ہوئے انسان کے لئے آسانی پیدا کی۔ چنانچہ اس کے لئے توبہ کو مشروع قرار دیا۔ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ گناہ کو اس کی قباحت کے سبب -اللہ کے خوف اور اس کے اجر و ثواب کی امید میں- چھوڑ دینا، جو کوتاہیاں سرزد ہو چکی ہوں، ان پر ندامت کا اظہار کرنا، دوبارہ ان گناہوں کو نہ کرنے کا عزم کرنا اور باقی ماندہ اوقات کو اعمال صالحہ سے آباد کرنا([294])۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ دل کا عمل ہے، جو صرف بندہ اور اس کے رب کے درمیان رہتا ہے۔ اس میں نہ کوئی مشقت ہے، نہ تھکاوٹ اور نہ مشقت آمیز عمل کرنے کی تکلیف، بلکہ وہ دل کا عمل اور مستقبل میں گناہوں سے باز رہنے (کا عزم وارادہ( ہے۔ یہ اجتناب آپ کے لئے ترکِ گناہ اور راحت و سکون )کا باعث( ہے۔([295])
معلوم ہوا کہ توبہ کرنے کے لئے آپ کو کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں، جو آپ کو ذلیل و رسوا کرے، آپ کا راز فاش کرے اور آپ کی کمزوری کا غلط فائدہ اٹھائے، بلکہ وہ آپ کے اور آپ کے رب کے درمیان سرگوشی سے عبارت ہے۔ آپ اس سے مغفرت اور ہدایت کی دعا کرتے ہیں اور وہ آپ کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
چنانچہ اسلام میں نہ کوئی موروثی گناہ ہے اور نہ کسی ایسے انسان کے انتظار کا تصور ہے، جو (گناہوں سے( نجات عطا کر ے گا، بلکہ آسٹریا کا رہنے والا یہودی محمد اسد، جسے اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی، نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں کہا: "مجھے قرآن میں کسی جگہ (انسان کے ہاتھوں گناہوں سے( 'نجات' (حاصل کرنے( کی ضرورت کا کوئی بھی ذکر نہیں مل سکا اور نہ اسلام میں پہلی موروثی غلطی )کا کوئی تصور( ہے، جو انسان اور اس کے انجام کے درمیان حائل ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ: "ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے، جس کی کوشش خود اس نے کی"۔ ([296])
اسلام انسان سے یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ وہ کوئی جان قربان کرے یا خود کو قتل کرڈالے، تاکہ اس کے لئے توبہ کے دروازے کھل سکیں اور وہ گناہ سے نجات پا سکے([297]) ۔
بلکہ اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق: "کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا"([298])۔
توبہ کے بڑے عظیم فوائد و اثرات ہیں۔ اس کے کچھ فوائد درج ذیل ہیں:
۱- بندہ یہ جان سکے کہ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال کر اس کے ساتھ اپنی وسعتِ بردباری اور سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اگر چاہتا تو اسے گناہ کا فوری سزا بھی دے سکتا تھا اور لوگوں کے درمیان اسے بے عزت کر سکتا تھا، جس کے بعد ان کے ساتھ اس کا جینا دوبھر ہوجاتا۔ لیکن اللہ نے اس پر اپنا پردہ ڈال کر اسے عزت بخشی، اسے اپنے حلم وبردباری سے ڈھانپ لیا اور اسے طاقت و قوت، رزق اور غذا سے نوازا۔
۲- انسان اپنے نفس کی حقیقت سے واقف ہوسکے اور جان لے کہ وہ برائی کا حکم دینا والا نفس ہے۔ اس سے جو غلطی، گناہ اور کوتاہی سرزد ہوئی، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا نفس کمزور اور حرام شہوتوں سے باز رہنے سے عاجز ہے۔ نیز وہ ایک پل کے لئے بھی اس بات سے بے نیاز نہیں ہے کہ اللہ اس کا تزکیہ فرمائے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کرے۔
۳- اللہ پاک نے توبہ کو اس لئے مشروع قرار دیا، تاکہ اس کے ذریعہ بندے کو سعادت و خوش بختی کا سب سے عظیم سبب حاصل ہوسکے۔ وہ ہے، اللہ سے لو لگانا اور اس سے مدد طلب کرنا۔ اسی طرح توبہ سے دعا، گریہ وزاری، التجا، اظہارِ محتاجگی، محبت، خوف اور امید جیسی (عبادت کی بہت سی( اقسام حاصل ہوتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نفس کو اپنے خالق کی خاص قربت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب وہ اللہ سے لولگائے اور اس کے حضور توبہ و انابت کرے۔
۴- اللہ تعالی اس کے سابقہ گناہوں کو در گزر کردے۔ فرمان باری تعالی ہے: "آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں، سب معاف کردیئے جائیں گے"۔ ([299])
۵- انسان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے"۔ ([300])
۶- انسان اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ ان کی بدسلوکی اور اس کے ساتھ پیش آنے والی ان کی لغزشوں کے تئیں وہی رویہ اختیار کرے جو وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کی بد عملی، لغزشوں اور خطاؤں کے تئیں اپنائے، کیوں کہ جیسا عمل ہو ویسا ہی بدلہ بھی ملتا ہے۔ چنانچہ جب انسان لوگوں کے ساتھ ایسا عمدہ اور نرم رویہ اختیار کرتاہے، تو بدلے میں اسے بھی اپنے بلند پروردگار سے اسی طرح کا رویہ ملتا ہے۔ اللہ پاک اس کی بدعملیوں اور گناہوں کے تئیں فضل واحسان کا رویہ اختیار کرتا ہے، جیسا کہ وہ مخلوق کی بدسلوکیوں کے تئیں نرم رویہ اختیار کیا کرتا تھا۔
۷- وہ جان جائے کہ اس کا نفس لغزشوں اور عیوب سے بھرا ہوا ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ مخلوق کے عیوب سے دور رہے اور دوسروں کے عیوب پر تبصرہ کرنے کی بجائے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے کوشاں رہے۔([301])
میں اس باب کا خاتمہ اس حدیث سے کر رہا ہوں کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے تمام گناہوں کا ارتکاب کیا اور اپنی ہر چھوٹی بڑی (بُری) حاجت اور خواہش پوری کر لی۔ آپ ﷺ نے تین دفعہ فرمایا: کیا تو گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: یہ (گواہی( اس کو مٹا دیتی ہے۔ دوسری روایت میں ہے: یہ )گواہی( ان تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔([302])
ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: ایسے آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جس نے کسی کو اللہ کا ساجھی بنانے کے علاوہ تمام گناہوں کا ارتکاب کیا ہو۔ اس سلسلے میں اس نے اپنی ہر چھوٹی بڑی )بُری( حاجت اور خواہش پوری کر لی ہو۔ کیا ایسے شخص کے لیے بھی کوئی توبہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا تو مسلمان ہو گیا ہے؟" اس نے کہا: بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں (تیری توبہ قبول ہو سکتی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ( تو اعمال صالح کرتا رہ اور برائیاں ترک کر دے۔ اللہ تعالیٰ تیرے تمام گناہوں کو نیکی میں تبدیل کر دے گا۔ اس نے کہا: میرے تمام فریبوں اور ساری بدکاریوں )کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا(؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں"۔ اس نے کہا: اللہ اکبر، پھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہونے تک اللہ اکبر کہتا چلا گیا۔ ([303])
معلوم ہوا کہ اسلام اپنے ما قبل کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اسی طرح توبہ بھی اپنے ماقبل کی ساری خطاؤں کو مٹا دیتی ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ کی صحیح حدیث میں ثابت ہے۔
جیسا کہ اس کتاب کے ذریعہ آپ کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسلام ہی اللہ کا دین ہے، وہی دینِ برحق ہے، وہی وہ دین ہے جس کے ساتھ تمام انبیا و رسل مبعوث کئے گئے۔ اللہ نے اس پر ایمان لانے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں بڑا اجر و ثواب مرتب کیا ہے اور جو اس کا انکار کرے، اس کے لئے سخت سزا کی وعید سنائی ہے۔
چوں کہ اللہ تعالی ہی خالق و مالک ہے، وہی اس کائنات میں تصرف کرتا ہے اور تو اے انسان! اس کی ایک مخلوق ہے۔ اس نے تجھے پیدا کیا اور اس کائنات کی تمام مخلوقات کو تیرے تابع کردیا۔ تجھے اپنی شریعت عطا کی اور تجھے اس کی اتباع کا حکم دیا۔ اگر تم اس پر ایمان لاتے، اس کے حکم کی فرماں برداری کرتے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہو، تو تم آخرت کی اس نعمت ِ جاوداں سے سرفراز ہو گے، جس کا وعدہ اللہ نے تم سے کیا ہے۔ ساتھ ہی دنیا میں بھی اللہ کی عطا کردہ مختلف قسم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوگے اور ان لوگوں کے ہم مثل قرار پاؤگے جو عقل کے اعتبار سے سب سے کامل اور نفس کے اعتبار سے سب سے پاکیزہ ہیں۔ یعنی انبیا و رسل، نیکو کار حضرات اور اللہ کے مقرب فرشتے کے مثل۔
لیکن اگر تم نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور اپنے پروردگار کی نافرمانی پر اڑے رہے، تو دنیا و آخرت میں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، دونوں جہان میں اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اور تم اس مخلوق کے ہم مثل قرار پاؤ گے، جو تمام مخلوقات میں سب سے خبیث و بدطینت، سب سے کم عقل اور نفس کے اعتبار سے سب سے زیادہ کمتر اور حقیر ہے۔ یعنی شیاطین، اور ظلم و تعدی، فساد انگیزی اور سرکشی کرنے والے لوگوں کے ہم مثل۔ یہ اجمالی بات ہے۔
اب آئیے، ہم تفصیل کے ساتھ کفر کی سزا اور انجام پر روشنی ڈالتے ہیں:
جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے اور اس کے رسولوں کی پیروی کرتے ہیں، ان سے اللہ نے دنیا و آخرت میں مکمل امن و سکون کا وعدہ کیا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں"۔ ([304])
اللہ تعالی ہی امن و امان دینے والا، نگہبان و نگراں اور اس کائنات کی تمام مخلوقات کا مالک ہے۔ جب وہ کسی بندے کو اس کے ایمان کی وجہ سے پسند کرتا ہے، تو اسے امن و سکون اور راحت واطمینان سے نوازتا ہے۔ لیکن جب انسان اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کا اطمینان و سکون اور امن و امان سلب کرلیتا ہے۔ چنانچہ آپ اسے دیکھیں گے کہ اپنے اخروی انجام سے خائف رہتا، اپنی ذات کے سلسلے میں آفات و مصائب اور بیماریوں سے ہراساں رہتا ہے اور اس دنیا کی زندگی میں اپنے مستقبل سےخوف کھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی زندگی اور جائداد کا انشورنس کرواتا ہے، کیوں کہ اس کے اندر بے چینی وبے قراری ہوتی اور اللہ پر توکل کا فقدان ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا، کائنات کی تمام مخلوقات کو اس کے لئے مسخر کردیا اور ہر مخلوق کے لئے رزق اور عمر کی ایک خاص مقدار مقرر کردی۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ پرندہ رزق کی تلاش میں اپںے گھونسلے سے صبح دم نکلتا اور جگہ جگہ دانے چگتا ہے، ایک ڈال سے دوسری ڈال پر پھدَکتا اور نہایت شیریں آواز میں گنگناتا رہتا ہے۔ انسان بھی انہی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، جن کے لئے اللہ نے رزق اور زندگی مقرر فرمائی ہے۔ چنانچہ اگر وہ اپنے رب پر ایمان لائے، اس کی شریعت پر قائم و دائم رہے، تو اللہ اسے سعادت و خوش بختی اور امن و سکون سے نوازتا اور اس کے معاملات آسان کردیتا ہے، اگرچہ اسے زندگی کی ادنی ترین ضروریات ہی کیوں نہ فراہم ہوں۔
لیکن اگر اپنے پروردگار کے ساتھ کفر اور اس کی عبادت سے روگردانی کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی زندگی کو تنگ اور مشکل بنادیتا ہے، اسے مختلف قسم کی سوچ و فکر اور غم و اندوہ میں مبتلا کر دیتا ہے، اگرچہ اسے راحت و سکون کے تمام تر وسائل اور مختلف قسم کے ساز و سامان ہی کیوں نہ میسر ہوں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ ممالک جو اپنے شہریوں کے لئے عیش وآرام کے تمام اسباب فراہم کرتے ہیں، وہاں خود کشی کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ زندگی سے لطف اٹھانے کے لئے وہ مختلف مقامات کا سفر کرتے اور قسم قسم کے سامانِ عیش و طرب میں فضول خرچی کرتے ہیں؟ ان چیزوں میں اسراف اور فضول خرچی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دل ایمان سے خالی اور تنگی وبے قراری کے احساس و شعور سے معمور ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس بے چینی کو دور کرنے کی کوشش میں مختلف قسم کے نت نئے اسباب و وسائل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے: "جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے"۔ ([305])
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفس اور دل توحید ودیعت ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے"۔ ([306]) اس کا جسم اپنے خالق کے سامنے سر نگوں اور اسی کے نظام پر جاری وساری رہتا ہے۔ لیکن کافر نے (اپنی فطرت کی ایک نہ سنی اور( اس کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوگیا۔ چنانچہ اپنے اختیاری معاملات میں اپنے پررودگار کے حکم کی نافرمانی کرنے لگا۔ اس کا جسم )حکمِ الہی( کا تابع رہا اور اس کا اختیار )اس کا( منافی و مخالف ٹھہرا۔
اس طرح وہ اپنے ارد گرد کی کائنات کے ساتھ کشمکش کی زندگی گزارنے لگا، کیوں کہ پوری کائنات، عظیم ترین کہکشاں سے لے کر ادنی ترین بیکٹیریا تک، اسی تقدیر اور اندازے کے مطابق چل رہی ہے، جو اس کے لئے اس کے پروردگار نے مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وه دھواں )سا( تھا۔ پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے، دونوں نے عرض کیا: ہم بخوشی حاضر ہیں"۔ ([307])
پوری کائنات اس شخص سے محبت کرتی ہے جو اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور اس شخص سے نفرت کرتی ہے جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ کافر اس مخلوق )کائنات( سے تضاد و تصادم کا مظہر پیش کرتا ہے، بایں معنی کہ خود کو اپنے پروردگار کے سامنے مخالف کے طور پر نمایاں کرتا اور اس کی خلاف ورزی کا اعلان کرتا ہے۔ اس لئے آسمان و زمین اور تمام مخلوقات کو یہ حق بنتا ہے کہ اس سے اور اس کے کفر و الحاد سے نفرت کرے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔ یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز ﻻئے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزے ہو جائیں۔ کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے۔ شان رحمٰن کے ﻻئق نہیں کہ وه اوﻻد رکھے۔ آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں"۔ ([308])
نیز اللہ پاک نے فرعون اور اس کی لشکر کے بارے میں فرمای: "سو ان پر نہ تو آسمان و زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی"۔ ([309])
کیوں کہ کفر جہالت سے عبارت ہے، بلکہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ کیوں کہ کافر اپنے پروردگار سے نا آشنا ہوتا ہے۔ وہ اس کائنات کو دیکھتا ہے، جسے اس کے رب نے انوکھا اور بے مثال انداز میں پیدا کیا۔ اپنی ذات میں کاریگری کا عظیم شاہکار اور تخلیق کا بلند وبالا مظہر دیکھتا ہے۔ پھر بھی اس سے ناواقف رہتا ہے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے؟ اس کی ذات کو کس نے وجود میں لایا؟ کیا یہ سب سے بڑی جہالت نہیں؟؟
کیوں کہ وہ اپنے آپ کو ایسے کاموں میں لگا دیتا ہے، جن کے لئے اسے پیدا نہیں کیا گیا ہے۔ وہ اپنے رب کی عبادت نہیں کرتا اور ظلم یہ ہے کہ چیز کو اس کی اپنی جگہ کی بجائے کسی اور جگہ رکھ دیا جائے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ عبادتیں نا اہل اور غیر مستحق لوگوں کے لئے انجام دی جائیں؟ لقمان حکیم نے شرک کی شناعت و قباحت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا: "میرے پیارے بچے! بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے"۔ ([310])
وہ اپنے ارد گرد کے انسانوں اور دیگر مخلوقات پر بھی ظلم کرتا ہے، کیوں کہ حق دار کے حق سے وہ ناواقف رہتا ہے۔ چنانچہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس کے سامنے ہر وہ انسان اور حیوان کھڑا ہوگا، جس پر اس نے ظلم کیا ہوگا اور اپنے رب سے گزارش کرے گا کہ اس سے اس کا بدلہ لیا جائے۔
وہ اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ اس پر فوری سزا کے بطور مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹے اور حادثات کا طوفان برپا ہو۔ اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "بدترین داؤ پیچ کرنے والے کیا اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان کے پاس ایسی جگہ سے عذاب آجائے، جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ ہو۔ یا انہیں چلتے پھرتے پکڑ لے۔ یہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے۔ یا انہیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے۔ پس یقیناً تمہارا پروردگار اعلیٰ شفقت اور انتہائی رحم واﻻ ہے"۔([311])
اللہ پاک ایک اور جگہ فرماتا ہے: "کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی، تا وقتے کہ وعدہ الہی آپہنچے۔ یقینا اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں کرتا"۔ ([312])
نیز عزیز و برتر پروردگار نے فرمایا: "اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے، جس وقت کہ وه اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں"۔ ([313])
اللہ کے ذکر سے روگردانی کرنے والے تمام لوگوں کی یہی حالت رہتی ہے۔ اللہ تعالی نے کفر کرنے والی سابقہ قوموں کے تعلق سے فرمایا ہے: "پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا۔ ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا۔ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظالم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے"۔ ([314])
جیسا کہ آپ اپنے ارد گرد کے )کافروں کو( مصائب ومشکلات میں دیکھتے ہیں، جن پر اللہ تعالی کی سزا نازل ہوئی۔
وہ اپنے ظلم کی وجہ سے اس عظیم ترین نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جس سے دل اور روح لطف اندوز اور بہرہ ور ہوتی ہے۔ وہ ہے اللہ کی معرفت، اس کی مناجات و سرگوشی کی انسیت اور اس سے سکون و قرار حاصل کرنا۔ نیز وہ دنیوی نقصان و خسارے سے بھی دوچار ہوتا ہے، کیوں کہ وہ دنیا میں اداسی، نا امیدی اور حیرانگی کی زندگی گزارتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنی ذات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جس کی خاطر وہ مال ومتاع بٹور رہا تھا۔ کیوں کہ اس نے اپنے نفس کو اپنے مقصدِ تخلیق کے لئے مسخر نہیں کیا۔ اس طرح دنیا میں وہ اپنی ذات سے بھی فیض یاب نہیں ہوپاتا، کیوں کہ وہ بد بختی کے ساتھ زندگی گزارتا، بد بختی کی حالت میں اسے موت آتی اور بد بختوں کے ساتھ ہی اسے اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اور جن کے ترازو کا پلہ ہلکا ہوگیا، یہ ہیں وه، جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا، جو ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوئے"۔ ([315])
نیز وہ اپنے اہل و عیال کو بھی نقصان میں ڈال دیتا ہے، کیوں کہ وہ ان کے ساتھ کفر کی حالت میں زندگی گزارتا ہے۔ چنانچہ وہ بھی اسی کی طرح شقاوت و بدبخی اور تنگی و پریشانی میں برابر ہیں اور ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "حقیقی زیاں کار وہ ہیں، جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے"۔ ([316])
قیامت کے دن ان سب کو جہنم کی طرف ہانک کر لے جایا جائے گا اور وہ نہایت برا ٹھکانہ ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "ظالموں کو اور ان کے ہمراہیوں کو اور (جن( جن کی وه اللہ کے علاوه پرستش کرتے تھے، (ان سب کو( جمع کرکے انہیں دوزخ کی راه دکھا دو"۔ ([317])
اللہ نے اسے عدم سے وجود میں لایا، اسے تمام طرح کی نعمتوں سے نوازا، اس کے باوجود بھی وہ دوسرے کی عبادت کرتا، غیر اللہ سے دوستی رچاتا اور اس کے سوا کسی اور کا شکر ادا کرتا ہے...اس سے بڑا انکار کیا ہوسکتا ہے اور اس سے بری روگردانی کیا ہوسکتی ہے؟
کیوں کہ زندگی کا مستحق وہ شخص ہے، جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے، اپنے مقصد سے باخبر، اپنے انجام سے واقف ہو اور دوبارہ اٹھائے جانے پر اسے یقین ہو۔ چنانچہ وہ ہر حق دار کا حق جانتا ہو، نہ کسی کا حق مارتا ہو اور نہ کسی مخلوق کو تکلیف پہنچاتا ہو۔ ایسا شخص خوش بختوں کی زندگی گزارتا اور دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی سے سرفراز ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا، مرد ہو یا عورت بشرط یہ کہ صاحب ایمان ہو، تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے([318])۔ اور آخرت کے تعلق سے فرمایا: "صاف ستھرے گھروں میں (پہنچائے گا( جو جنتِ عدن میں ہوں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے"۔ ([319])
لیکن جو شخص اس دنیا میں چوپایوں کی طرح زندگی گزارے، اپنے رب سے نا آشنا رہے، اپنے مقصد سے نابلد اور اپنے انجام سے بے خبر ہو، بلکہ اس کا مقصدِ حیات صرف کھانا پینا اور سونا رہ گیا ہو...تو بھلا ایسے شخص میں اور دیگر جانوروں میں کیا فرق ہے! بلکہ وہ جانور سے بھی زیادہ گمراہ ہے! اللہ جل ذکرہ نے فرمایا: "اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں، جن کے دل ایسے ہیں، جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں، جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں، جن سے نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ یہ ان سے بھی زیاده گمراه ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں"۔ ([320])
نیز عزیز و برتر پروردگار نے فرمایا: "کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وه تو نرے چوپایوں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیاده بھٹکے ہوئے"۔ ([321])
ایسا اس لئے کہ کافر ایک عذاب سے دوسرے عذاب کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ وہ دنیا کے -رنج وغم اور مصائب و مشکلات کا مزہ چکھ کر- آخرت کی طرف کوچ کرتا ہے۔ آخرت کی پہلی منزل میں اس کے پاس موت کے فرشتے آتے ہیں اور ان سے پہلے عذاب کے فرشتے پہنچ جاتے ہیں، تاکہ اسے اس عذاب کا مزہ چکھا سکیں، جس کا وہ مستحق ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: " کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں )اور کہتے ہیں( تم جلنے کا عذاب چکھو"۔ ([322])
پھر جب اس کی روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ اپنی قبر میں اترتا ہے، تو وہاں اسے شدید ترین عذاب کا سامنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرعونیوں کے بارے میں فرمایا ہے: "آگ ہے، جس پر ہر صبح شام ان کو پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ( فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو"([323]) ۔
پھر جب قیامت قائم ہوگی، تمام مخلوقات کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اعمال پیش کئے جائیں گے، تو کافر دیکھے گا کہ اللہ تعالی نے اس نامۂ اعمال میں اس کے سارے اعمال شمار کر رکھے ہیں۔ اس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: "اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزده ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہاے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا شمار کیے بغیر باقی ہی نہیں چھوڑا اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم وستم نہ کرے گا"۔ ([324])
اس وقت کافر یہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ مٹی ہوتا! ارشاد باری تعالی ہے: "جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا"۔ ([325])
وہ وقت اتنا ہول ناک ہوگا کہ انسان کے پاس اگر وہ سب کچھ ہو، جو روئے زمین پر ہے، تو بھی اس دن کے عذاب کے بدلے میں وہ سب کچھ دینے کے لئے تیار ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو، جو روئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو، تو بھی بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں"۔ ([326])
نيز ارشادِ باری تعالی ہے: "گناہگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو، اور اپنے کنبے کو جو اسے پناه دیتا تھا، اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا، تاکہ یہ اسے نجات دﻻ دے۔([327])
چونکہ وہ دنیا جزا کی دنیا ہے، آرزؤوں کی نہیں، اس لئے انسان کو اپنے کئے کا بدلہ ضرور مل کر رہے گا۔ اگر عمل اچھا رہا، تو بدلہ بھی اچھے ملے گا اور عمل برا رہا تو بدلہ بھی برا ملے گا۔ آخرت میں کافر کو جو سب سے بری چیز ملے گی، وہ ہے جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالی نے جہنمیوں کے لئے مختلف قسم کے عذاب تیار کر رکھے ہیں، تاکہ وہ اپنے کئے کا وبال چکھ لیں۔ فرمان باری تعالی ہے: "یہ ہے وه جہنم، جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے۔ اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے"۔ ([328])
نیز باری تعالی نے ان کے پانی اور لباس کے بارے میں فرمایا: "کافروں کے لئے تو آگ کے کپڑے بیونت کر کاٹے جائیں گے اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا۔ جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی۔ اور ان کی سزا کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہیں"۔ ([329])
اے انسان!
تمہارا سرے سے کوئی وجود نہ تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا۔ حاﻻں کہ وه کچھ بھی نہ تھا"۔ ([330])
پھر اللہ تعالی نے تمہیں ایک نطفہ سے پیدا کیا اور تجھے سننے اور دیکھنے والا )انسان( بنایا۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "یقیناً انسان پر ایک وقت زمانے میں گزرا ہے، جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا۔ پھر تم مرحلے وار کمزوری سے توانائی کی طرف بڑھتے رہے اور اخیر میں تم پھر کمزوری کی طرف لوٹ جاؤگے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اللہ تعالیٰ وه ہے، جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا، پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی، پھر اس توانائی کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وه سب سے پورا واقف اور سب پر پورا قادر ہے۔ پھر تمہارا آخری انجام موت ہے، جس میں کوئی شک نہیں۔ تم )زندگی کے ان( مراحل میں ایک کمزوری سے دوسری کمزوری کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہو۔ اپنی ذات سے نقصان کو ٹال نہیں سکتے اور نہ اپنے لئے نفع حاصل کرسکتے ہو۔ اگر کچھ کر سکتے ہو، تو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں، جیسے طاقت و قوت اور غذا وغیرہ سے مدد حاصل کرکے۔ دراصل تم فطری طور پر محتاج اور فقیر ہو۔ کتنی ایسی چیزیں ہیں، جو تمہاری زندگی کی بقا کے لئے ضروی ہیں۔ لیکن وہ تمہاری دسترس سے باہر ہیں۔ کبھی تمہیں وہ ملتی ہیں اور کبھی تم سے چھن جاتی ہیں۔ کتنی ایسی چیزیں ہیں، جو تمہارے لئے مفید وسود مند ہیں اور تم انہیں حاصل بھی کرنا چاہتے ہو، لیکن کبھی تم ان سے بہرہ ور ہوتے ہو اور کبھی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتنی ایسی چیزیں ہیں، جو تمہارے لئے نقصان دہ ہیں، تمہاری امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہیں، تمہاری جد و جہد کو رائیگاں کردیتی ہیں، تمہیں مختلف قسم کی آزمائشوں اور آفتوں میں مبتلا کردیتی ہیں اور تم انہیں اپنی ذات سے دور رکھنا چاہتے ہو، لیکن کبھی دور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہو اور کبھی اس سے عاجز وقاصر رہتے ہو... کیا تمہیں اللہ کے تئیں اپنی حاجت و فقیری کا احساس نہیں ہوتا؟ جب کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بےنیاز خوبیوں واﻻ ہے"۔ ([331])([332])
تم ایک کمزور وائرس کا شکار ہوتے ہو، جسے اپنی قدرتی آنکھ سے )بغیر کسی آلہ کے( دیکھ بھی نہیں سکتے، وہ معمولی وائرس تمہیں بیماری میں مبتلا کردیتا ہے، تم اسے ٹال نہیں پاتے اور اپنے ہی جیسے کمزور و ناتواں انسان کے پاس علاج و معالجہ کے لئے جاتے ہو۔ کبھی اس کی تجویز کردہ دوا کام آجاتی ہے )اور تم شفایاب ہو جاتے ہو( اور کبھی ڈاکٹر )تمہارا علاج کرنے سے( عاجز و قاصر رہتا ہے۔ چنانچہ مریض اور ڈاکٹر دونوں حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔
اے آدم کے بیٹے! تم کتنے کمزور وناتواں ہو! اگر مکھی بھی تم سے کوئی چیز لے بھاگے تو تم اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے۔ اللہ تعالی نے سچ فرمایا: "لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو، وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے، تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے۔ بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے"۔ ([333]) جب تم اتنی بھی استطاعت نہیں رکھتے کہ مکھی جو چیز تم سے لے بھاگے، اسے اس سے چھین سکو، تو بھلا تم اپنی کس چیز پر ملکیت رکھتے ہو؟ "تمہاری پیشانی اللہ کے ہاتھ میں ہے، تمہاری جان اسی کے ہاتھ میں ہے، تمہارا دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، جیسے چاہتا ہے اسے پھیرتا رہتا ہے، تمہاری زندگی و موت اسی کے ہاتھ میں ہے، تمہاری خوش بختی و بدبختی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے، تمہارے تمام تر حرکات و سکنات اور تمہاری ساری باتیں اللہ کی اجازت اور مشیئت سے واقع ہوتی ہیں، تم اس کی اجازت کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے اور نہ اس کی مشیئت کے بغیر کچھ کر سکتے ہو۔ اگر اس نے تمہیں تمہاری ذات کے حوالے کردیا تو گویا اس نے تمہیں عاجزی و کمزوری، کوتاہی، گناہ اور خطا کے حوالے کردیا اور اگر اس نے تمہیں تیرے علاوہ کسی اور )مخلوق( کے حوالے کردیا، تو گویا تجھے ایسے شخص کے حوالے کردیا، جو نہ نفع و نقصان کا مالک ہے، نہ موت و حیات کا اور نہ دوبارہ اٹھائے جانے پر قادر ہے۔ چنانچہ اس پروردگار سے ایک لمحہ کے لئے بھی تم بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ بلکہ جب تک سانس چل رہی ہے، تب تک تم ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے اس کے محتاج ہو۔ وہ تم پر اپنی نعمتیں برساتا ہے اور تم نافرمانیوں اور کفر کے ذریعہ اس سے بغض و عداوت کا مظاہرہ کرتے ہو۔ جب کہ ہر اعتبار سے تم اس کے شدید محتاج ہو۔ تم نے اسے فراموش کردیا ہے، جب کہ تمہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اسی کے سامنے )حساب و کتاب کے لئے( کھڑا ہونا ہے"۔ ([334])
اے انسان! چوں کہ تم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے سے کمزور اور عاجز ہو (اس لئے: ") اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے، کیوں کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے"۔ ([335])
اللہ نے رسول بھیجے، کتابیں نازل کیں، احکامات جاری کیے، تمہارے سامنے راہِ مستقیم واضح کردیا، نشانیاں، دلیلیں، شواہد اور براہین قائم کردیے، يہاں تک کہ ہر چیز میں اپنی وحدانیت، ربوبیت اور الوہیت کی دلیل رکھ دی اور تم ہو کہ حق کا مقابلہ باطل سے کرتے ہو، اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا ولی بنائے ہوئے ہو اور باطل کے سہارے جھگڑتے ہو۔ "انسان سب سے زیادہ جھگڑا لو ہے"۔ ([336])
کیا تم نے اللہ کی ان نعمتوں کو فراموش کر دیا، جن سے تم آغاز سے انتہا تک لطف اندوز ہوتے ہو! کیا تمہیں یاد نہیں کہ تمہاری پیدائش ایک نطفے سے ہوئی ہے! تمہارا ٹھکانہ )قبر کی( ایک کھائی ہے اور تم کو )قبر سے( اٹھ کر جنت یا جہنم میں جانا ہے؟ فرمان باری تعالی ہے: "کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکا یک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔ اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی )اصل( پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زنده کر سکتا ہے؟ آپ جواب دیجیے کہ انہیں وه زنده کرے گا، جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے، جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے واﻻ ہے"۔ ([337])
اللہ تعالی نے فرمایا: "اے انسان! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟ جس )رب نے( تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر )درست اور( برابر بنایا۔ جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا"۔ ([338])
اے انسان! اپنے آپ کو اس لذت سے کیوں محروم کرتے ہو کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر سرگوشی ومناجات کرو، تاکہ وہ تجھے فقر و محتاجگی سے بے نیاز کردے، بیماری سے شفا عطا کرے، تمہاری تکلیف دور کردے، تمہارے گناہ معاف فرمادے، تمہاری مصیبت دور کر دے، اگر تم پر ظلم ہو تو تیری مدد کرے‘ اگر تم حیرانی وسراسیمگی اور ضلالت و گمراہی کے شکار ہو جاؤ تو تیری رہنمائی کرے، جس سے نا واقف ہو اس کا علم عطا کرے، جب خائف ہو تو تجھے امن و امان بخشے، کمزوری و لاغری کی حالت میں تجھ پر رحم و کرم کرے، تجھ سے تیرے دشمنوں کو دور کردے اور تیرے لئے رزق کے دروازے کھول دے؟([339])
اے انسان! انسان پر -دین کی نعمت کے بعد- اللہ کی سب سے بڑی نعمت عقل کی نعمت ہے، تاکہ اس کے ذریعہ وہ نفع ونقصان میں فرق کرسکے، اللہ کے اوامر و نواہی کو سمجھ سکے، اپنی تخلیق کے عظیم ترین مقصد کو جان سکے، جو کہ صرف ایک اللہ کی بندگی اور عبادت ہے۔ اللہ تعالی فرماتاہے: "تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں، سب اسی کی دی ہوئی ہیں۔ پھر اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے، تو اسی کی طرف نالہ وفریاد کرتے ہو۔ اور جہاں اس نے وه مصیبت تم سے دفع کر دی، تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے ہیں"۔ ([340])
اے انسان! عقل مند انسان بلند مقاصد کو پسند کرتا اور حقیر و کمتر چیزوں کو ناپسند کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام نیک و صالح اور شریف و معزز انبیا و صالحین کے نقش پا کی پیروی کرے، اس کا دل ان کی فضاؤں میں پر مارنے کا خواہش مند ہوتا ہے، گرچہ وہ ان تک رسائی حاصل نہیں کرپاتا۔ دراصل اس کا واحد راستہ وہ ہے، جس کی رہنمائی اللہ پاک نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ کی ہے : "اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع داری کرو۔ خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا"۔ ([341])
جب بندہ اس حکم کو بجا لاتا ہے، تو اللہ اسے انبیا و رسل اور شہدا و صالحین کی صف میں شامل کردیتا ہے۔ فرمان باری تعالی ہے: "اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (ﷺ) کی فرماں برداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ۔ یہ بہترین رفیق ہیں"۔ ([342])
اے انسان! میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تنہائی میں جاؤ اور اس حق پر غور و فکر کرو، جو تمہارے پاس پہنچا ہے۔ اس کے دلائل پر نظر دوڑاؤ، اس کے براہین میں تدبر و تفکر سے کام لو۔ اگر تم کو وہ حق معلوم ہو، تو اس کی پیروی کے لئے آگے آؤ اور رسم ورواج کے قیدی بن کر مت رہو۔ جان رکھو کہ تمہاری جان تمہارے لئے تمہارے دوستوں، تمہارے ہم جولیوں اور تمہارے آبا واجداد کی میراث سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ اللہ تعالی نے کافروں کو اس کی نصیحت کرتے اور انہیں اس کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ہے: "کہہ دیجیے کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے )ضد چھوڑ کر( دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارى جماعت کے اس شخص کو کوئی جنون نہیں، وه تو تمہیں ایک بڑے )سخت( عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے واﻻ ہے"۔([343])
اے انسان! جب تو اسلام قبول کرے گا تو تجھے ذرہ برابر بھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے۔اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے واﻻ ہے"۔ ([344])
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر وہ اللہ پر ایمان لائیں اور سیدھے راستے پر چلیں تو کون سی چیز انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے؟ اللہ پر ایمان لائیں اخروی زندگی کے اس وعدے کی امید میں جو اللہ نے نیک عمل کرنے والوں سے کیا ہے، اللہ نے انہیں جو کچھ نوازا ہے، اس میں سے ان راہوں میں جو اللہ کو محبوب اور پسند ہیں خرچ کریں، اللہ ان کی نیک نیتی اور بد نیتی سے خوف واقف ہے۔ ان میں سے جو توفیق الہی کے مستحق ہیں، ان کو اللہ تعالی جانتا ہے۔ چنانچہ انہیں رشد و ہدایت کی توفیق عطا کرتا اور ایسے نیک عمل کی راہ دکھاتا ہے جو اللہ کو پسند ہے۔ نیز اللہ تعالی اس سے بھی با خبر ہے جو رسوائی اور اللہ کے اس عظیم دربار سے دھتکارے جانے کا مستحق ہے کہ جو اس در سے دھتکارا گیا وہ دنیا وآخرت میں خائب وخاسر ہوا"([345]) یقین جان لے کہ تیرا اسلام تیرے درمیان اور تیرے من چاہے اعمال کو انجام دینے اور اللہ کی حلال کردہ نعمتوں کو حاصل کرنے کے درمیان ہر گز حائل نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ تعالی تجھے ہر اس عمل پر اجر و ثواب سے نوازے گا، جو تو اس کی رضا کے لئے انجام دے گا، خواہ اس کا تعلق تیری دنیا کو سنوارنے، تیری دولت، جاہ و حشمت اور عزت و منصب کو بڑھانے اور نکھارنے سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ مباح اعمال بھی اگر تو اس نیت سے انجام دیتا ہے کہ تو حلال کے ذریعہ حرام سے بے نیاز ہوجائے، تو اس پر بھی تو اجر و ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ کی حدیث ہے: "تمھارا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابۂ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ اگر وہ یہ (خواہش( حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس کا گناہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اجر ہے"۔ ([346])
اے انسان! اللہ کے رسول حق کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ انہوں نے مرادِ الہی کو دنیا والوں تک پہنچا دیا۔ انسان اللہ کی شریعت کو جاننے کا محتاج ہے، تاکہ اس دنیا میں بصیرت و آگہی کے ساتھ زندگی گزارے اور آخرت میں کامیاب وکامران لوگوں میں شامل ہوسکے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر رسول آگیا ہے۔ پس تم ایمان ﻻؤ، تاکہ تمہارے لئے بہتری ہو اور اگر تم کافر ہوگئے، تو اللہ ہی کی ہے ہر وه چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ دانا ہے حکمت واﻻ ہے"۔ ([347])
نیز اللہ جلّ شانہ نے فرمایا: "آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے۔ اس لیے جو شخص راهِ راست پر آجائے سو وه اپنے واسطے راه راست پر آئے گا اور جو شخص بے راه رہے گا، تو اس کا بے راه ہونا اسی پر پڑے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا"۔ ([348])
اے انسان! اگر تو اسلام قبول کرتا ہے، تو اس سے صرف تیرا اپنا ہی فائدہ ہے اور اگر کفر پر قائم رہتا ہے تو اس سے صرف تیرا اپنا ہی نقصان ہے۔ یقینا اللہ تعالی اپنے بندوں سے بے نیاز ہے، نافرمانوں کی نافرمانی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ فرماں برداروں کی فرماں برداری اسے فائدہ پہنچاتی ہے، کیوں کہ ہر نافرمانی اس کے علم میں ہے اور ہر اطاعت اس کی اجازت سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا، جیسا کہ اس کے نبی نے اس کے حوالے سے یہ خبر دیا ہے: "میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہذا مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتا ہوں، سو مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ میرے بندو! تم کبھی مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھو گے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو، نہ کبھی مجھے فائدہ پہنچانے کے قابل ہو گے کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کر دوں، تو اس سے جو میرے پاس ہے، اس میں اتنا بھی کم نہیں ہو گا جو اس سوئی سے (کم ہو گا( جو سمندر میں ڈالی )اور نکال لی( جائے۔ میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لیے شمار کرتارہتا ہو ں۔ پھر تم کو ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہیے کہ اللہ کا شکر کرے کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی اور جو برا بدلہ پائے تو اپنے ہی تئیں برا سمجھے"۔ ([349])
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين۔
([1]) سورہ الأحزاب، آیت : 40۔ یہ نص اللہ کی عظیم کتاب 'قرآن مجید' کا ہے، جسے اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔ میری اس کتاب میں 'قرآن مجید' کے بہت سے نصوص مذکور ہیں، جن کے ذکر سے پہلے اس طرح کے جملے لائے گئے ہیں : اللہ تعالی نے فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے یا اللہ جل ثناؤہ نے فرمایا۔ اس کتاب کے صفحات 95-100 اور 114-117 میں قرآن عظیم کا مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔
([2]) سورہ الحجر، آیت : 9۔
([3]) سورہ يوسف، آیت : 108۔
([4]) سورہ الأحقاف، آیت : 35۔
([5])سورہ آل عمران، آیت : 200۔
([6]) سورہ آل عمران آیت: 19۔
([7]) سورہ الإخلاص۔
([8]) سورہ الأعراف، آیت: 54۔
([9]) سورہ الرعد، آیت: 2 ،3، 7، 8۔
([10]) سورہ الرعد، آیت: 16۔
([11]) سورہ فصلت، آیت: 37، 39۔
([12]) سورہ الروم، آیت: 22، 23۔
([13]) سورہ البقرۃ، آیت: 255۔
([14]) سورہ غافر، آیت: 3۔
([15]) سورہ الحشر، آیت: 23۔
([16]) سورہ الطور، آیت 35، 36۔
([17]) دیکھیں: مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية جـ1، ص 47-49، 73۔
([18]) سورہ الروم، آیت : 30۔
([19]) اسے بخاری نے كتاب القدر، باب 3 میں اور مسلم نے كتاب القدر، حديث نمبر 2658 کے تحت روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([20]) اسے امام احمد نے اپنی مسند: جـ4، ص162 میں اور مسلم نے كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، حديث نمبر 2865 کے تحت روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([21]) دیکھیں: مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، جـ 14 ص380-383-، اور جـ7 ص75۔
([22]) سورہ العنكبوت، آیت : 61-63۔
([23]) سورہ الزخرف، آیت : 79۔
([24]) * مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: کتاب التوحید از امام و مجدد محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ۔ [25] سورہ الزمر، آیت : 8۔
([25]) سورہ یونس، آیت : 22، 23۔
([26]) سورہ لقمان، آیت: 32۔
([27]) دیکھیں: ”شرح العقیدہ الطحاویۃ“ ص39۔
([28]) سورہ المؤمنون، آیت : 92۔
([29]) سورہ الإسراء، آیت : 42۔
([30]) سورہ سبأ، آیت : 23، 24۔
([31]) دیکھیں: قرۃ عیون الموحدین از شیخ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ، ص: ۱۰۰۔
([32]) سورہ الأنبياء، آیت: 22۔
([33]) دیکھیں: فتح القدير، ج3، ص: 403۔
([34]) دیکھیں: مفتاح دار السعادة، ج 1 ص 260۔
([35]) سورہ الأنبياء، آیت: 25۔
([36]) سورہ ھود، آیت: 2۔
([37]) سورہ الأنبياء، آیت : 108۔
([38]) سورہ الزمر، آیت : 29۔
([39]) سورہ فصلت، آیت: 9-12۔
([40]) سورة الأنبياء ، آیت: 30، 32۔ مزید دیکھیں: سورۃ الرعد کی ابتدائی آیات۔
([41]) یہ اقتباس مفتاح دار السعادۃ جـ 1‘ ص: 251-269 کے مختلف مقامات سے اختصار کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
([42]) سورہ الجاثیۃ، آیت : 13۔
([43]) سورہ إبراهيم، آیت: 32-34۔
([44]) سورہ الروم، آیت: 22-25۔
([45]) سورہ العنکبوت آیت: 64۔
([46]) سورہ الروم، آیت: 27۔
([47]) سورہ غافر، آیت: 57۔
([48]) سورہ الرعد، آیت: 2۔
([49]) سورہ الجمعۃ، آیت : 1۔
([50]) سورہ الحج، آیت : 18۔
([51]) سورہ النور، آیت: 41۔
([52]) سورہ الأعراف، آیت: 11، 25۔
([53]) سورہ المؤمنون، آیت : 14۔
([54]) مفتاح دار السعادة، جـ1 ص 327،328، سورہ ابراھیم، آیت: 32، 34۔
([55]) سورہ الإسراء، آیت: 70۔
([56]) سورہ النساء، آیت: 7۔
([57]) سورہ البقرہ، آیت: 228۔
([58]) سورہ التوبہ:71۔
([59]) سورہ الإسراء، آیت : 23، 24۔
([60]) سورہ آل عمران آیت: 195۔
([61]) سورہ النحل آیت : 97۔
([62]) سورہ النساء، آیت : 124۔
([63]) سفر الجامعة ، اصحاح 7: 25-26 ۔ یہ ایک معلوم سی بات ہے کہ یہود ونصاری عہد نامہ قدیم کو مقدس کتاب مانتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
([64]) سلسلة مقارنة الأديان، تاليف: ڈاکٹر احمد شلبي جـ3 ص210، 213۔
([65]) سورہ التوبہ، آیت : 71۔
([66]) سورہ البقرہ، آیت : 228۔
([67]) سورہ الإسراء، آیت : 23، 24۔
([68]) سورہ الذاریات، آیت : 56۔
([69]) دیکھیں: مفتاح دار السعادة، جـ1، ص6-11۔
([70]) دیکھیں: التدمرية، تالیف: شيخ الإسلام ابن تيمية ص213، 214، اور مفتاح دار السعادة، جـ2، ص383۔
([71]) دیکھیں: الدين از: محمد عبدالله دراز، ص87۔
([72]) سابق مرجع: ص 88۔
([73]) دیکھیں: سابق مرجع، ص 84، 98۔
([74]) دیکھیں: الفوائد، ص18، 19۔
([75]) دیکھیں: الدين ص 98، 102۔
([76]) سورہ النساء، آیت : 163۔
([77]) سورہ الأنبياء، آیت : 25۔
([78]) سورہ الأعراف، آیت: 73۔
([79]) سورہ الأنبياء، آیت: 25۔
([80]) سورہ الأنعام، آیت :151۔
([81]) سورہ الزخرف، آیت: 45۔
([82]) سورہ النساء، آیت: 82۔
([83]) سورہ الأعراف، آیت : 154۔
([84]) سورہ مريم، آیت: 21۔
([85]) سورہ ھود، آیت: 63۔
([86]) سورہ الإسراء، آیت : 82۔
([87]) سورہ المائدہ، آیت : 44۔
([88]) سورہ المائدة، آیت : 46۔
([89]) سورہ التوبہ، آیت : 33۔
([90]) سورہ طه، آیت : 1، 2۔
([91]) سورہ الروم، آیت : 30۔
([92]) سورہ القصص، آیت : 30۔
([93]) سورة طه، آیت : 1، 2۔
([94]) سورہ النساء، آیت: 29۔
([95]) سورہ الحجرات، آیت : 13۔
([96]) سورہ الحج، آیت: 9۔
([97]) دیکھیں: اس کتاب میں ص: 95-100اور 114-117۔
([98]) سورہ الأعلى، آیات 1-3۔
([99]) سورہ طہ، آيت : 50۔
([100]) سورہ الشعراء، آیت: 78۔ نیز دیکھیں: الجواب الصحيح فيمن بدل دين المسيح، جـ4، ص97۔
([101]) دیکھیں: مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية جـ4، ص210-211۔
([102]) مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: "إفحام اليهود" تالیف: سموأل بن يحيى مغربي۔ یہ یہودی تھے، لیکن بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
([103]) Xll. p. 568-69 (ص 7 اور )Jewish Encyclpaedia Vol . Xll
([104]) تلمود کے معنی اس کتاب کے ہیں، جو یہودیوں کے مذہب اور ان کے آداب کی تعلیم پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ان حواشی اور شروحات کا مجموعہ ہے، جو مختلف ادوار میں یہودی علما نے کتاب"مِشنا (شریعت") پر لکھی تھیں۔
([105]) مزید تفصیل کے لئے پڑھیں: "اليهودي على حسب التلمود" تالیف: ڈاکٹر روهلنج۔ فرنچ سے اس کا عربی ترجمہ ڈاکٹر یوسف حنا نصر اللہ نے کیا ہے اور ترجمہ شدہ کتاب کو "الكنز المرصود في قواعد التلمود" کے نام سے موسوم کیا ہے۔
([106]) مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: "الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح" تالیف: شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله، "إظهار الحق" تالیف: رحمت الله بن خليل ہندی اور "تحفة الأريب في الرد على عباد الصليب" تالیف: عبدالله الترجمان، جو پہلے نصرانی تھے، لیکن بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
([107]) دیکھیں: کتاب "الصراع بين الدين والعلم"، جو مشہور یورپی مؤلف ڈریپر کی تالیف ہے۔ ص: 40-41۔
([108]) کیتھولک انسائکلوپیڈیا کے جدید ایڈیشن میں موجود مقالہ بعنوان التثليث المقدس کا خلاصہ۔ ج 14، ص295۔
([109]) Rev. Jamecs Houstoin Baxter in the History of Christionity in the Light of Modern Knowledge. Glasgow , 1929 p 407
([110]) پڑھیں: كتاب "إيران في عهد الساسانيين" تالیف: پروفیسر آرتهر كرستن سين۔ آپ ڈنمارک کی یونیورسٹی کوپن ہیگن میں مشرقی زبانوں کے پروفیسر ہیں۔ تاریخ ایران پر آپ کو تخصص حاصل ہے۔ مزید دیکھیں: "تاريخ إيران" تالیف: شاهين مكاريوس مجوسی۔
([111]) إيران في عهد الساسانيين ص 155۔
([112]) سابق مرجع: باب الدين الزرتشتي ديانة الحكومة، ص 183-233
([113]) دیکھیں: كتاب "الهند القديمة" تالیف: پروفیسر ايشورا توبا، جو ہندوستان کی حيدرآباد یونیورسیٹی میں ہندوستانی تہذیب و کلچر کے استاد ہیں۔ نیز دیکھیں: "اكتشاف الهند" (The Discovery of india) تالیف: جواهر لال نهرو، سابق وزیر اعظم ہند۔ ص201-202۔
([114]) دیکھیں: "الهند القديمة" تالیف: آر، دت، ج3، ص276۔ مزید دیکھیں: "الهندكية السائدة" تالیف: (LS.S. O.Malley) ، ص6-7۔
([115]) C.V. Vidya: History of Mediavel Hindu India Vol I (poone 1921)
([116]) دیکھیں: السيرة النبوية - تالیف: ابوالحسن الندوي ، ص 19-28۔
([117]) سورہ طہ، آيت : 124۔
([118]) سورہ الأنعام، آیت 821۔
([119]) سورہ ھود، آیت: 108
([120]) سورہ الشوریٰ، آیت: 51
([121]) سورہ الحج، آیت: 759۔
([122]) تفسير القرآن العظيم، تالیف: ابو الفداء اسماعيل بن كثير القرشي جـ3، ص 64۔
([123]) سورہ الأنعام، آیت: 8، 9۔
([124]) سورہ الفرقان، آیت: 20، 21۔
([125]) سورہ النحل آیت: 43۔
([126]) سورہ المدثر، آیت: 4۔
([127]) دیکھیں: لوامع الأنوار البهية، ج 2، ص 265-305۔ مزید دیکھیں: الإسلام، تالیف: احمد شلبي، ص 114۔
([128]) سورہ ھود، آیت: 62۔
([129]) سورہ ھود، آیت: 87۔
([130]) سورة المدثر، آیت: 4۔
([131]) سورہ الأنعام، آیت : 124۔
([132]) سورہ آل عمران، آیت : 33۔
([133]) سورہ الزمر، آیت : 30۔
([134]) سورہ الرعد، آیت : 38۔
([135]) سورہ الانفال آیت : 30۔
([136]) سورہ الحج، آیت : 40۔
([137]) سورہ المجادلۃ، آیت : 21۔
([138]) سورہ الأعراف، آیت: 158۔
([139]) دیکھیں: مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية جـ4، ص212-213۔
([140]) سورہ الأنعام، آیت: 50۔
([141]) سورہ الشعراء ، آیت: 109، 127،145 ، 164 ، 180۔
([142]) سورہ ص۔ آیت: 86۔
([143]) سورہ النحل، آیت: 36۔
([144]) أعلام النبوة تالیف: علي بن محمد الماوردي، ص 33۔
([145]) احمد بن عبدالحليم بن عبدالسلام، جو ابن تيمية کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی ولادت سنہ 661ھ میں اور وفات سنہ 728ھ میں ہوئی۔ آپ کا شمار کبار علماے اسلام میں ہوتا ہے اور آپ نے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔
([146]) قاعدة في وجوب الاعتصام بالرسالة تالیف: شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله، جـ19، ص99-102۔ ماخوذ از: مجموع الفتاوى، نیز دیکھیں: لوامع الأنوار البهية تالیف: السفاريني، جـ2، ص 261-263۔
([147]) دیکھیں: الجواب الصحيح، ج4 ص 96۔
([148]) سورة القصص، آیت: 33۔
([149]) سورۃ يس، آیت: 81۔
([150]) سورۃ الروم، آیت: 27۔
([151]) سورة يس، آیت: 78،79۔
([152]) سورہ الواقعۃ، آیت: 58۔
([153]) سورہ الواقعة، آیت: 63، 64۔
([154]) سورہ الحج، آیت: 5۔
([155]) سورہ ص، آیت: 27۔
([156]) سورہ الذاریات، آیت: 56۔
([157]) سورہ ص، آیت: 28۔
([158]) سورة يونس، آیت: 4۔ مذکورہ بالا نکات کے لئے رجوع کریں: الفوائد، تالیف: ابن القيم، ص6-9 اور التفسير الكبير تالیف: الرازی، جـ2، ص 113-116۔
([159]) مجلة الدعوة السعودية، شمارہ: 1722 تاریخ: 19/9/1420هـ ص 37۔
([160]) ان اصول ومبادی کی طرف سورۃ البقرۃ کی آیت: 285، 286، سورۃ الأنعام کی آیت: 151، 153، سورۃ الأعراف کی آیت: 33 اور سورۃ الإسراء کی آیت: 23، 37 میں اشارہ کیا گیا ہے۔
([161]) محمد بن ابو بکر بن ایوب زرعی۔ آپ کی ولادت سنہ 691ھ میں اور وفات سنہ 751ھ میں ہوئی۔ آپ کا شمار کبار علماے اسلام میں ہوتا ہے۔ آپ نے بڑی عظیم کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔
([162]) سورہ المؤمنون، آیت: 71۔
([163]) مفتاح دار السعادة، جـ2، ص 383۔ نیز دیکھیں: الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح، جـ4، ص 322، اور لوامع الأنوار للسفاريني، جـ2، ص263۔
([164]) سورہ المؤمنون ، آیت: 51، 52۔
([165]) سورہ الشوریٰ، آیت: 13۔
([166]) مجموع فتاوى ابن تيمية، جـ2، ص6۔
([167]) سورہ المائدہ، آیت: 44۔
([168]) سورہ المائدہ، آیت: 46۔
([169]) سورہ المائدہ، آیت: 48۔
([170]) سورہ البقرۃ، آیت : 285۔
([171]) مزید تفصیلات کے لئے رجوع کریں: الرحیق المختوم، تالیف: صفی الرحمن مبارکپوری۔
([172]) ديكھیں: اس کتاب میں باب: موجودہ مذاہب، صفحہ: 52۔
([173]) سورة القصص، آیت : 57۔
([174]) دیکھیں: اس کتاب میں قرآن کے تعلق سے خصوصی باب، ص: 95-100 اور 114-117۔
([175]) دیکھیں: مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية جـ4، ص 201، 211، اور إفحام اليهود، تالیف عزت السموال المغربي جو پہلے یہودی تھے اور بعد میں اسلام قبول کرلیا۔ ص 58، 59۔
([176]) الدين والدولة في إثبات نبوة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم، تاليف: علي بن ربن الطبري ص47۔ نیز دیکھیں: الإعلام از قرطبی، ص 263 اور اس کے بعد۔
([177]) یعنی صلح حدیبیہ کی مدت۔ اس کی مدت دس سالوں پر محیط تھی۔ یہ واقعہ سنہ 6 ہجری میں پیش آیا۔ دیکھیں: فتح الباری، ج1، ص 34۔
([178]) یعنی ملکِ شام۔
([179]) صحیح بخاری میں کتاب الجہاد کے اندر (الأریسیین) کا لفظ آیا ہے۔
([180]) اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب بدء الوحی باب 1 میں روایت کیا ہے۔
([181]) الدين الفطري الأبدي ، تاليف: مبشر الطرازي الحسيني، جـ2، ص319۔
([182]) مذکورہ بالا تفصیلات کے لئے رجوع کیجیے: العقيدة الطحاوية، ص 156 اور لوامع الأنوار البهية، جـ2، ص 269، 277، اورمبادئ الإسلام، ص 64۔
([183]) انجيل متى 21: 42۔
([184]) دیکھیں: محمد صلى الله عليه وسلم في التوراة والإنجيل والقرآن، تاليف: اسلام کی ہدایت پانے والا پادری ابراهيم خليل احمد ، ص 73۔ مذکورہ حدیث کو امام بخاری نے کتاب المناقب، باب 18 میں روایت کیا ہے اور درج بالا الفاظ ان کے ہی روایت کردہ ہیں۔ اس حدیث کو مسلم نے كتاب الفضائل میں حديث نمبر 2286 کے تحت ابو ہریرۃ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ نیز یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے۔ دیکھیں: ج2، ص 256، 312۔
([185]) سورہ الأحزاب، آیت: 40۔
([186]) اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکیھیں: ج 2 ، ص 411، 412۔ نیز اسے مسلم نے بھی كتاب المساجد حديث نمبر 523 کے تحت روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں۔
([187]) مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: كتاب "مبادئ الإسلام" تاليف: شيخ حمود بن محمد اللاحم۔ نیز دیکھیں: کتاب"دليل مختصر لفهم الإسلام" تاليف: ابراهيم حرب۔
([188]) سورة الإنسان، آیت: 3۔
([189]) مبادئ الإسلام ص 3، 4۔
([190]) سورہ آل عمران آیت: 83۔
([191]) سورہ آل عمران، آیت: 19۔
([192]) سورۃ آل عمران آیت: 20۔
([193]) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: جـ5، ص3۔ نیز اسے ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔ دیکھیں: جـ1، ص377۔
([194]) اس حديث كو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکھیں: جـ4، ص114۔ ہیثمی، مجمع الزوائد: جـ1، ص59 میں فرماتے ہیں: اسے امام احمد )نے اپنی مسند میں( اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں تقریبا مذکورہ الفاظ کے ساتھ ہی روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ ثقہ ہیں۔ مزید دیکھیں: رسالہ فضل الإسلام از امام محمد بن عبدالوهاب رحمہ اللہ، ص 8۔
([195]) اسے مسلم نے كتاب الإيمان میں، حديث نمبر 8 کے تحت روایت کیا ہے۔
([196]) اسے بخاری نے كتاب الإيمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده میں روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں اور مسلم نے اپنی صحیح میں كتاب الإيمان میں، حديث نمبر 39 کے تحت روایت کیا ہے۔
([197]) سورہ يونس، آیت: 71، 72۔
([198]) سورہ البقرۃ، آیت:131۔
([199]) سورة يونس، آیت: 84۔
([200]) التدمرية، ص 109-110 اور سورہ المائدۃ کی آیت: 111۔
([201]) السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي، تاليف مصطفى السباعي، ص 376۔
([202]) سورہ المائدۃ، آیت: 48۔
([203]) سورہ النحل، آیت: 89۔
([204]) سورہ الأنعام، آیت: 157۔
([205]) سورہ الإسراء، آیت: 9۔
([206]) سورہ یونس، آیت: 38۔
([207]) سورہ یونس، آیت : 16۔
([208]) سورہ العنکبوت، آیت : 48۔
([209]) سورہ الأعراف، آیت: 157۔
([210]) سورہ النساء، آیت: 153۔
([211]) سورہ الإسراء، آیت: 85۔
([212]) سورہ الکھف، آيت: 83۔
([213]) سورۃ النمل، آیت: 76
([214]) دیکھیں: المستشرقون والمبشرون في العالم العربي والإسلامي، تاليف: ابراهيم خليل احمد ۔
([215]) الصراع من أجل الإيمان، تاليف: ڈاکٹرجفري لانگ، ترجمہ: ڈاکٹر منذر عبسی۔ ناشر: دار الفكر، ص 34۔
([216]) سورہ تبارک، آیت: 14۔
([217]) سورہ الأنعام، آیت: 38۔
([218]) سورہ الفرقان، آیت: 53۔
([219]) سورہ النور، آیت: 40۔
([220]) سورہ المؤمنون، آیت: 12-12۔
([221]) سورہ الأنعام، آیت: 59۔
([222]) دیکھیں: كتاب التوراة والإنجيل والقرآن في ضوء المعارف الحديثة. ص ۱۳۳-۲۸۳، تاليف موريس بوكائی۔ موریس بوکائی فرانس کے ایک عیسائی ڈاکٹر تھے۔ بعد میں حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
([223]) اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند جـ 4، ص131 میں اور ابوداود نے السنن میں كتاب السنة، باب لزوم السنة، حديث نمبر 4604، جـ4، ص 200 میں روایت کیا ہے۔
([224]) سورہ النحل، آیت: 44۔
([225]) سورہ النجم، آیت: 4، 5۔
([226]) سورہ الأحقاف، آیت: 9۔
([227]) اس حدیث کو امام بخاری نے كتاب الأذان باب 18، جـ1 ص 155 میں روایت کیا ہے۔
([228]) سورہ الأحزاب، آیت: 21۔
([229]) سنت نبویہ کے نقل میں اس بے مثال اور انوکھے طرز عمل کو اختیار کرنے اور اس قدر اصول پسندی کو بروئے عمل لانے کے نتیجے میں مسلمانوں کے یہاں "جرح وتعدیل" اور "مصطلح الحدیث" کا علم وجود میں آیا اور یہ دونوں علوم امت اسلامیہ کی ان خصوصیات میں سے ہیں، جو ان سے پہلے کسی قوم میں نہی پائی گئیں۔
([230]) سورہ النساء، آیت: 65۔
([231]) سورہ الحشر، آیت: 7۔
([232]) دين الحق، ص38۔
([233]) دين الحق، ص51-52۔
([234]) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: كتاب "كيفية صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" تاليف: شیخ عبدالعزيز بن باز، رحمہ الله۔
([235]) مفتاح دار السعادة ، ج2 ص 384۔
([236]) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: كتاب "كيفية صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" تاليف: شیخ عبدالعزيز بن باز، رحمہ الله۔
([237]) دیکھیں: مفتاح دار السعادة، ج21 ص384۔
([238]) مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: كتاب "دليل الحاج والمعتمر" تاليف: علما کی ایک ٹیم۔ مزید دیکھیں: "التحقيق والإيضاح لكثير من مسائل الحج والعمرة" تاليف: شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ الله۔
([239]) ادیکھیں: سابق مرجع: جـ 2، ص 385 اور: دين الحق، ص 67۔
([240]) اسے مسلم نے اپنی صحیح میں كتاب الزكاة کے اندر، حديث نمبر 1006 کے تحت روایت کیا ہے۔
([241]) اسے بخاری نے كتاب الزکاۃ، باب 29 میں اور مسلم نے كتاب الزکاۃ میں، حديث نمبر 1008 کے تحت روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([242]) سورہ مريم، آیت: 65۔
([243]) سورہ الأنعام، آیت: 59۔
([244]) دیکھیں: عقيدة أهل السنة والجماعة، ص7 ،11۔
([245]) دیکھیں: عقيدة أهل السنة والجماعة، ص 44 اور مبادئ الإسلام ص 80، 84۔
([246]) سورہ الأنبياء، آیت: 26، 28۔
([247]) سورہ الأنبياء، آیت: 19، 20۔
([248]) سورہ ق، آیت: 17، 18۔ دیکھیں: عقيدة أهل السنة والجماعة، ص 19۔
([249]) سورہ الحدید، آیت: 25۔
([250]) سورہ الأنعام، آیت: 155۔
([251]) سورہ الأعراف، آیت: 158۔ مذکورہ بالا مباحث کے لئے دیکھیں: العقيدة الصحيحة وما يضادها، ص 17، عقيدة أهل السنة والجماعة ص 22، اور مبادئ الإسلام، ص89۔
([252]) سورہ النحل، آیت: 36۔
([253]) سورہ النساء، آیت: 165۔
([254]) سورہ النساء، آیت: 164۔
([255]) سورہ ھود، آیت: 31۔
([256]) سورہ الأنعام، آیت: 50۔
([257]) سورہ الأعراف، آیت: 188۔
([258]) سورہ آل عمران، آیت: 19۔
([259]) سورہ المائدۃ: 48۔
([260]) دیکھیں: العقيدة الصحيحة وما يضادها، ص 17 اور عقيدة أهل السنة والجماعة، ص:25 ۔
([261]) سورہ البقرۃ، آیت : 285۔
([262]) سورہ النساء، آیت: 150۔
([263]) سورہ الجن، آیت: 18۔
([264]) سورہ الکھف، آيت: 49۔
([265]) سورہ فصلت، آیت: 20، 22۔
([266]) سورہ فصلت، آیت: 39۔
([267]) سورہ الأحقاف، آیت: 33۔
([268]) سورہ المؤمنون، آیت: 115۔
([269]) سورہ ص، آیت: 27۔
([270]) سورة الزلزلة، آیت: 7، 8۔ نیز دیکھیں: دين الحق، ص 19۔
([271]) سورہ الأعراف، آیت: 187۔
([272]) سورہ لقمان، آیت: 34۔
([273]) سورہ العنکبوت، آیت: 62۔
([274]) سورة الأنعام، آیت: 59۔ اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک آیت ہوتی، تو بھی اس بات کی واضح دلیل اور بے توڑ حجت ہوتی کہ وہ اللہ کی جانب سے ہے۔ کیوں کہ انسان تمام تر ادوار میں، بشمول اس دور کے جس میں علم کا دور دورہ ہے اور انسان کبر و غرور کا مظاہرہ کرنے لگا ہے، اس وسیع و عریض احاطہ و ادارک کے بارے میں سوچنے کا عادی نہیں رہا ہے، چہ جاے کہ اس پر قادر ہو۔ اس کی تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ کسی خاص ماحول میں کسی درخت یا بیکٹیریا کی کھوج کرے، جس کے اسرار و رموز کا انکشاف کرسکے۔ جب کہ جو اسرار و رموز اس سے مخفی رہ جاتے ہیں، وہ اس کے انکشاف سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جہاں تک وسیع و عریض پیمانے پر سوچنے اور تمام گوشوں کا احاطہ کرنے کی بات ہے، تو انسان اس سے نامانوس رہا ہے اور اسے اس پر قدرت بھی نہیں ہے۔
([275]) سورہ يس، آیت: 12۔
([276]) سورہ الحج، آیت: 70۔
([277]) سورہ يس، آیت: 82۔
([278]) سورہ القمر، آیت: 49۔
([279]) سورہ الزمر، آیت: 62۔
([280]) سورہ الحديد، آیت: 22، 23۔ دیکھیں: العقيدة الصحيحة وما يضادها، ص 19، عقيدة أهل السنة والجماعة، ص 39 اور دين الحق، ص 18۔
([281]) اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکھیں: جـ 1، ص: 293۔ نیز ترمذی نے بھی سنن میں اسے روایت کیا ہے۔ دیکھیں: أبواب القيامة، جـ 4، ص 76۔
([282]) دیکھیں: جامع العلوم والحكم، ص 128۔
([283]) سورہ البقرۃ، آیت: 83۔
([284]) سورہ آل عمران، آیت: 134۔
([285]) سورہ المائدۃ، آیت: 8۔
([286]) سورہ آل عمران، آیت: 164۔
([287]) مفتاح دار السعادة ، جـ 1، ص 374-375۔ سورہ المائدة، آیت: 3۔
([288]) دیکھیں: الإعلام بما في دين النصارى من الفساد والأوهام، از قرطبي ص 442 -445 ۔
([289]) سورۃ الحج، آیت: 78۔
([290]) سورہ النحل، آیت: 32۔
([291]) سورہ الأنعام، آیت: 93۔
([292]) سورہ الأنفال، آیت: 50۔
([293]) اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکھیں: جـ3، ص 198 ۔نیز ترمذی نے اپنی سنن، أبواب صفة القيامة جـ4، ص49 میں اور ابن ماجہ نے كتاب الزهد، جـ4، ص 491 میں روایت کیا ہے۔
([294]) المفردات في غريب القران، ص 76۔ معمولی تصرف کے ساتھ۔
([295]) الفوائد ، از ابن قيم ، ص 116۔
([296]) سورہ النجم، آیت: 39۔
([297]) الطريق إلى الإسلام، محمد اسد، ص 140۔ معمولی تصرف کے ساتھ۔
([298]) سورہ النجم، آیت: 38۔
([299]) سورہ الانفال، آیت: 38۔
([300]) سورہ الفرقان، آیت: 70۔
([301]) دیکھیں: مفتاح دار السعادة، جـ 1 ص 358، 370۔
([302]) اس حدیث کو ابو يعلى نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ دیکھیے: جـ 6، ص 155 ۔ طبرانی نے المعجم الأوسط جـ 7، ص132، المعجم الصغير، جـ 2، ص 201 میں اور ضیا مقدسی نے المختارة ج5، ص151، 152میں روایت کیا ہے اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد: جـ 10، ص 83 میں کہا کہ اسے ابو یعلی اور بزار نے تقریبا اسی طرح روایت کیا ہے اور طبرانی نے الصغير اور الأوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ ثقہ ہیں۔
([303]) اس حدیث کو ابن ابو عاصم نے الآحاد والمثاني، جـ 5، ص 188 میں اور طبرانی نے المعجم الكبير جـ7، ص53، اور ص314 میں روایت کیا ہے، ہیثمی نے مجمع الزوائد جـ 1، ص 32 میں کہا کہ اسے طبرانی اور بزار نے تقریبا اسی طرح روایت کیا ہے۔ بزار کے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں، سوائے محمد بن ہارون ابو نشیط کے اور وہ بھی ثقہ ہیں۔
([304]) سورہ الأنعام، آیت: 82۔
([305]) سورہ طہ، آيت: 124۔
([306]) سورہ الروم، آیت: 30۔
([307]) سورہ فصلت، آیت: 11۔
([308]) سورہ مريم، آیت: 88، 93۔
([309]) سورہ الدخان، آیت: 29۔
([310]) سورۃ لقمان، آیت: 13۔
([311]) سورہ النحل، آیت: 45-47۔
([312]) سورہ الرعد، آیت: 312۔
([313]) سورہ الأعراف، آیت: 98۔
([314]) سورہ العنکبوت، آیت: 40۔
([315]) سورہ الأعراف، آیت: 9۔
([316]) سورہ الزمر، آیت: 15 اور سورہ الشورى، آیت: 45۔
([317]) سورہ الصافات، آیت: 22، 23۔
([318]) سورہ النحل، آیت: 97۔
([319]) سورہ الصف، آیت: 12۔
([320]) سورہ الأعراف، آیت: 179۔
([321]) سورہ الفرقان، آیت: 44۔
([322]) سورہ الانفال، آیت: 50۔
([323]) سورہ غافر، آیت: 460۔
([324]) سورہ الکھف، آيت: 49۔
([325]) سورہ النبأ، آیت: 40۔
([326]) سورہ الزمر، آیت: 47۔
([327]) سورہ المعارج، آیت: 11-14۔
([328]) سورہ الرحمن، آیت: 43-44۔
([329]) سورہ الحج، آيت: 19 - 21۔
([330]) سورہ مريم، آیت: 67۔
([331]) سورہ الإنسان، آیت: 1، 2۔
([332]) سورہ الروم، آیت: 54۔
([333]) سورہ الحج، آیت: 73۔
([334]) الفوائد، از ابن القيم، ص 56۔ معمولی تصرف کے ساتھ۔
([335]) سورہ النساء، آیت: 28۔
([336]) سورہ الکھف، آيت: 54۔
([337]) سورہ يس، الآيات 77-79۔
([338]) سورہ الإنفطار، الآيات 6، 8۔
([339]) دیکھیں: مفتاح دار السعادة، جـ1 ص 251۔
([340]) سورہ النحل، آیت: 53-54۔
([341]) سورہ آل عمران، آیت: 31۔
([342]) سورہ النساء، آیت: 69۔
([343]) سورہ فاطر، آیت: 46۔
([344]) سورہ النساء، آیت: 39۔
([345]) تفسير القرآن العظيم سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ۔ ج1، ص 497۔
([346]) اس حدیث کا حوالہ گزر چکا ہے۔
([347]) سورہ النساء، آیت: 170۔
([348]) سورہ ھود، آیت: 108۔
([349]) اس حدیث کو امام مسلم نے كتاب البر والصلة، باب تحريم الظلم میں، حدیث نمبر 2577 کے تحت روایت کیا ہے۔