تربیتِ اولاد کے بیش بہا اصول ()

عبد الرزاق بن عبد المحسن العباد البدر

 

تربیت اولاد کے اصول ومبادی: فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق بن عبد المحسن البدر -جزاہ اللہ خیرا- کی کتاب ہے جس میں انہوں نے ایسے بنیادی اصول ومبادی بیان کئے ہیں جن کا ہر والد کو اپنی اولاد کی تربیت کے دوران پاس ولحاظ رکھنا چاہئے۔

|

 تربیتِ اولاد  کے بیش بہا اصول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على عبد الله و رسوله وخليله نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.

حمد وصلاة کے بعد!

یقینا بڑے واجبات اور عظیم امانتوں میں سے  بچوں کی تربیت کرنا، انہیں  ادب سکھانا،انہیں نصیحت اور رہنمائی کرنا بھی ہے جن کا اس زندگی میں خیال کرنا بندے پر واجب ہے۔

کیوں کہ  بچے ان عظیم امانتوں میں سے ہیں جن کی نگہبانی اور حفاظت کااللہ نے حکم دیا ہے،جیسا کہ اللہ نے مومنوں کے اوصاف کا  ذکرتے ہوئے فرمایا:

ترجمہ: جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اللہ مزید فرماتا ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو۔

جس طرح  اللہ نے والد  کو یہ عظیم نعمت عطاکی اورفرمایا:

ترجمہ: آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔

اسی طرح  اللہ نے والد کو اس کا امین بنایا ،ان کے اوپر کچھ حقوق وواجبات عائد کئے ، اولاد کو والد کے لئے آزمائش اور امتحان قرار دیا ،اگر وہ اپنی اولاد کی تئیں ان حقوق وواجبات کو اسی طرح ادا  کرتے ہیں جس طرح اللہ نے انہیں حکم دیا ہے، توعند اللہ وہ اجرِ عظیم اور ثواب جزیل کا مستحق ہوں گے،اگر انہوں نے ان حقوق وواجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو اپنی کوتاہی کے بقدر اپنے آپ کو سزا کامستحق ٹھہرائیں گے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں.

یہ آیت اولاد کی حفاظت وتربیت اور ان کے  احوال کی نگہداشت کے وجوب کو بتانے میں ایک بڑے  اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔

خلیفہ رشید حضرت علی بن ابی  طالب رضی اللہ عنہ اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے  فرماتے ہیں کہ اولاد کو علم سے آراستہ کرو اور انہیں ادب سکھاؤ([1])۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث میں اس معاملے کی تاکید اور باپ کے اوپر اس کی فرضیت کی وضاحت آئی ہے،چنانچہ آپ  ﷐نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے میں) سوال ہو گا۔ امام حاکم ہے اس سے سوال ہو گا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ ہاں تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہو گا([2])۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول"مسئول" کے اندر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ جب قیامت کے دن بندہ رب کے سامنے کھڑا ہوگا تو  اللہ بندے سے ان امانتوں کے بارے میں سوال کرے گا،بلکہ بعض اہل علم نے کہا  ہے کہ قیامت کے دن بچہ سے اس کے والد کے تعلق سے پوچھے  جانے سے قبل اللہ تعالی  والد سے ان کے بچے کے بارے میں سوال کرےگا۔کیونکہ جس طرح والد کا بیٹے پر حق ہے اسی طرح بیٹے کا بھی والد  پر حق ہے([3])۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:اپنے بچے کو باادب بناؤ،کیونکہ بچے کے تعلق سے تمہاری پوچھ گچھ ہوگی کہ تم نے اسے کیا ادب دیا اور کیا تعلیم دی،اسی طرح بچہ سے بھی تمہارے تئیں حسن سلوک اور فرمانبرداری کے تعلق سے  پوچھا جائے گا([4])۔

جس طرح اللہ نے اولاد کو یہ وصیت کی کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک  سے پیش آئے  اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ  کرے:

ترجمہ: ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے۔

اسی طرح باپ کو بھی یہ وصیت کی کہ وہ اپنے بچے کی اچھی تربیت کریں، اور انہیں مہذب بنائیں،جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں تمہاری اولاد کی وصیت کرتاہے۔

نبی کریم ﷐ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ والدین اپنے  بچوں کے اخلاق ومزاج کے ساتھ ساتھ  ان کے عقائدوادیان پر بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے"([5])۔

یہ ایک  بلیغ اور معقول مثال ہے کیونکہ چوپائے  مشاہدے کے مطابق  عام طور پر  عیوب ونقائص سے پاک جانور جنتے ہیں،اس کے اندر کسی طرح کا  جسمانی نقص  وعیب نہیں ہوتا،اور نہ ہی اس کے ہاتھ،یا کان،یا پیر کٹے ہوتے ہیں، بلکہ یہ عیوب  جانور کے مالک  یا اس کے چرواہے کی وجہ  سے  پیدا ہوتے ہیں یا تو اس کی کوتاہی کی وجہ سے  ایسا ہوتا ہے یا پھر وہ خود  عیب پیدا کردیتا ہے۔

اسی طرح بیٹا  بھی ہوتا ہے،اس کی پیدائش فطرت سلیمہ پر ہوتی ہے،لیکن اگر وہ جھوٹ،یا فریب،یا فساد یا انحراف یا دیگر  بر ائیاں سیکھتا ہے  تو اس کی  وجہ غیر فطری سبب ہوتی ہے ،یا تو یہ غلط تربیت،یا تربیت کے اندر عدم توجہی  کا نتیجہ ہوتا ہے یا اس کے پیچھے کوئی خارجی اثر انگیز  سبب  کار فرما ہوتا ہے جیسے غلط صحبت یا برے دوست۔

اس امانت کی اہمیت وعظمت کے پیش نظر میں یہاں ایسے چند  اصول ومبادی  ذکر  کر رہاہوں جن کی طرف ہر والد کو  عنایت اور توجہ  دینے کی ضرورت  ہے،تاکہ وہ  اپنے اس  عظیم ہدف اور بڑے مقصد کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔


 نیک بیوی کا انتخاب

تربیتِ(اولاد) کے تعلق سے پہلی بنیادی چیز نیک بیوی کا انتخاب ہے،یہ اولاد   کے وجو د میں آنے سے قبل  کا مرحلہ ہے،آپ کے اوپر یہ واجب ہوتاہے کہ آپ ایسی بیوی اختیار کرنے کی کوشش کریں جو راہ راست پر ہو، نیک وصالح، اور تقوی شعار ہو۔تاکہ  اولاد کی تربیت کرنے ،  انہیں با ادب بنانے اور انکی اچھی نشو ونما کرنے کی راہ میں وہ  آپ کے لئے معاون ثابت  ہوسکے، تربیت اولاد  کے سلسلے میں اگراس نے آپ کا تعاون نہیں بھی کیا تو  کم از کم وہ  آپ کی اولاد کے دین و اخلاق  کے تئیں نقصاندہ ثابت نہیں ہو گی۔

اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ترغیب آئی ہے کہ دین دار عورت کا انتخاب کیا جائے،آپ ﷐ نے فرمایا: "عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)"([6])۔

 دعا کرنا

ان اہم بنیادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کے حق میں دعا کی جائے، یہ دعا اولادکی پیدائش سے پہلے اوراس کے بعد بھی کی جائے،چنانچہ والدین یہ دعا  کریں کہ اللہ انہیں نیک اولاد سے نوازے۔ اسی طرح رب کی اس نوازش کے بعدانبیائے کرام کو اسوہ ونمونہ  مانتے ہوئے ان کے حق میں ہدایت، صالحیت، دین پر استقامت اور ثابت قدمی کی بھی دعا کرے،جیسا کہ اللہ نے ہمیں اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کےبارے میں  بتایا کہ انہوں نے دعا کی :(رب هب لي من الصالحين)

ترجمہ:اے میرے رب!مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔

اسی طرح یہ دعا بھی کی: (رب اجعلني مقيم الصلاة ومن ذريتي)

ترجمہ:اے میرے پالنے والے!مجھے نماز کا پابند رکھ،اور میری اولاد سے بھی۔

اسی طرح زکریا علیہ السلام نے  دعا کی  : (هنالك دعا زكريا ربه قال رب هب لي من لدنك ذرية طيبة إنك سميع الدعاء)

ترجمہ:اسی زکریا(علیہ السلام )نے اپنے رب سے دعا کی،کہا کہ اے میرے پروردگارمجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما،بے شک  تو دعا کا سننے والا ہے۔

رحمان کے  وہ بندے جن کی تعریف رب العالمین نے کی،  ان کی دعاؤں میں  یہ  دعا بھی شامل ہے: (ربنا هب لنا من أزواجنا وذريتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين إماما)

ترجمہ:اے ہمارے پروردگار!تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔

اللہ کی یہ نعمت اور اس کی کرم فرمائی ہے کہ اولاد کے حق میں کی جانے والی والدین کی دعا اس کے نزدیک قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے  ،رد نہیں ہوتی،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ  آپ نے فرمایا:تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: باپ کی دعا، مسافر کی دعا، مظلوم کی دعا"([7])۔

اس مقام پر یہ آگاہی بھی ضروری ہے کہ والدین پریہ واجب ہے کہ اپنی اولاد کو برائی کی دعا دینے سے بچیں،خاص طور پر غصہ کی حالت میں،اپنے اولاد کے حق میں بد دعا کرنے میں عجلت سے کام نہ لیں،  کہ اگر ان کی بددعا قبول ہوگئی تو انہیں بے حد ندامت ہوگی۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے متنبہ کرتے  ہوئے فرمایا:"اپنے آپ کو بد دعا نہ دو ، نہ اپنی اولاد کو بد  دعا دو، نہ اپنے مال مویشی کو بد دعا دو ، اللہ کی طرف سے (مقرر کردہ قبولیت کی ) گھڑی کی موافقت نہ کرو، جس میں (جو) کچہ مانگا جاتا ہے وہ تمہیں عطا کردیا جاتا ہے"([8])۔

نیز  اللہ تعالی فرماتا ہے: (ويدع الإنسان بالشر دعاءه بالخير وكان الإنسان عجولا)

ترجمہ: انسان برائی کی دعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اس کی اپنی بھلائی کی دعا کی طرح،انسان ہی بڑا جلد باز ہے۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:"وہ اپنے مال کے لئے بددعا کرنے لگتا ہے، چنانچہ اپنے مال اور اپنی اولاد پر لعن طعن کرنے لگتا ہے ،اگر اللہ  اس  کی دعا قبول کرلے تو اسے ہلاکت سے دوچار کردے گا"([9])۔

علامہ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:یہ انسان کی جہالت اور اس کی عجلت پسندی ہے کہ وہ غصہ کی حالت میں اپنے لئے،اپنی اولاد،اور اپنے مال کے لئے برائی کی دعا کرنے لگے،برائی کی دعا کرنے میں اتنی ہی جلدی کرے جتنی جلدی خیر  وبھلائی کی دعاکرنے  میں کرتا ہے([10])۔


 اچھے ناموں کا انتخاب کرنا

بچوں کی اچھی اور نیک تربیت میں جو چیزیں معاون ثابت ہوتی ہیں ان میں یہ بھی ہے  کہ  والدین اپنی اولاد  کے لیے  ایسے عمدہ  ناموں  کا انتخاب کرے  جوانہیں اطاعت الہی سے وابستہ کر سکیں،جیسے انہیں عبداللہ،عبد الرحمان،محمد اور صالح  جیسے  اچھے اچھے ناموں سے موسوم کیا جائے جو انہیں صالحیت ، عبادت وبندگی اور قابل ستائش خوبیوں سے ان  کی وابستگی کی یاد دہانی کرائے،کیونکہ  نام کا اثر انسان کے اوپر اکثر  ظاہر ہوتا ہے ،  جیسا کہ کہا جاتا ہے:(ہر آدمی کے اندر اس کے نام کا ایک حصہ  نمایاں  ہوتا ہے) ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح حدیث  ہے کہ : "اللہ کے نزدیک تمہارے لئے سب سے پسندیدہ نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں"([11])۔

یہ بھی مناسب ہے   کہ والد اپنے بچے  کو  اس کے نام کے معنی ومفہوم سے آگاہ کرے،اور اللہ کے نزدیک اس نام کے محبوب ہونے کی وجہ بیان کرے،مثال کے طور پر اگر اس کا نام عبد اللہ ہے تو آپ اس سے کہیں کہ تم اللہ کا ایک بندہ ہو،جس نے تمہیں پیدا کیا اور وجود بخشا،تمہیں بہت ساری ایسی نعمتوں سے نوازا جو اس بات   کا تقاضہ کرتی  ہیں کہ تم اللہ کا شکر گذار اور اس کا فرماں بردار بندہ بنو،اسی طرح کی باتیں  اس سے  بیان کرے۔

 انصاف کرنا

تربیت اولاد کی ایک بنیاد یہ ہے کہ: اولاد کے مابین عدل وانصاف بحال  رکھا جائے  ، ظلم وجور اور ناانصافی سے دور  رہا جائے ،اگر باپ اپنے بچوں کے درمیان انصاف نہیں کرتا تو گویا وہ ان کے مابین عداوت،اور باہمی  بغض وحسد کی بیج بوتا ہے،لیکن اگر ان کے بیچ انصاف کا اہتمام کرے  تو یہ  ان کی آپسی محبت والفت اور باپ کی تئیں ان کی فرمانبرداری  کا  بڑا سبب  ثابت ہوتا ہے ۔

صحیح بخاری کے اندر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث آئی ہے کہ ان کے والد نے انہیں کوئی زمین خاص طور پر عطیہ کیا،اور ان کی والدہ نے ان کے والد سے درخواست کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تعلق سے گواہ بنائے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  وہ حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے کہ:" تو نے اپنے تمام بچوں کو اسی طرح زمین دیا ہے،انہوں نے کہا نہیں،تو آپ نے فرمایا:اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف سے کام لو"([12])۔

ایک دوسری روایت میں ہے: "میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا"([13])۔

مسلم   کی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:کیا یہ بات تمہیں اچھی نہیں لگتی کہ وہ سب تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرنے  میں یکساں اور برابر ہوں“، انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: ”تب تو یہ نہیں ہو سکتا“([14])۔

یہ حدیثیں اولاد کے مابین ظلم و ستم سے ہوشیار وخبردار کرتی اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ  اس سے والدین کی  نافرمانی،  ان کے ساتھ بدسلوکی،اور بھائیوں کے درمیان  بے تعلقی  اور دوری پیدا ہوتی ہے۔


 شفقت ومہربانی

تربیت اولاد کی ایک بنیاد یہ ہے کہ ان کے ساتھ شفقت ونرمی سے پیش آئے،لطف ومہربانی اور احسان وبھلائی  کے ساتھ برتاؤکرے،سختی،شدت اور  خشک رویے  سے بچے ، کیوں کہ : " جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے“([15])۔

ضروری ہے کہ  اولاد کے ساتھ یہ رحم وکرم اور  لطف ومہربانی بچپن اور ان کے ایام طفولت سے ہی  برتی جائے  اور ان کے ساتھ ہمیشہ جاری و ساری  رکھی جائے،کیونکہ یہ صفت بچوں  کے لیے اپنے  والدکی قربت و محبت کی وجہ ہوتی ہے،

اس قربت و محبت کی بنیاد پر  خیر وبھلائی  کی طرف بچوں کی توجہ مبذول کرنا ،انہیں وعظ ونصیحت  کرنا آسان ہوجاتا ،اور ان کے لیے بھی نصیحت قبول کرنا  آسان  ہوجاتا ہے۔

اس اصول  کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی  آحادیث  میں آئی  ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ:  میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جو اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا([16])۔

عائشہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے  کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں"([17])۔

 مخلصانہ نصح وخير خواہی اور بہتر رہنمائی

اسی طرح تربیت اولاد کی بڑی بنیادوں میں ہمیشہ مخلصانہ نصح وخیر خواہی اور بہتررہنمائی  کرتے رہنا بھی شامل ہے،خاص کر عظیم المرتبت امور کی رہنمائی اور اچھے اخلاق کی نصیحت کرنا،اس کا آغاز  دینی عقائد کی تعلیم  سے کیا جائے ، اسلام کے فرائض و  ارکان اور  دیگر شرعی اوامر سے روشناس کرایا جائے،زجرو توبیخ کے وقت بھی ابتداء میں بڑے بڑے گناہ اور معاصی کے بارے میں بتایا جائے ، اس کے بعد دیگر شرعی منہیات سے آگاہ کیا جائے،ان تمام امور کے لئے زیادہ سے زیادہ رہنمائی و رہبری اور نصح وخیر خواہی  واجب ہے۔اس کے بعد والدین دیگر چیزوں کی طرف توجہ دیں جن سے  دنیا  میں ان کے  بچوں کی حالت بہتر ہوسکے،جیسے کہ اشیائے خرد نوش اور لباس وپوشاک  وغیرہ ۔

وہ بلیغ،نفع بخش، اور عمدہ وصیتیں جن کا اللہ نے لقمان حکیم کے تعلق سے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،جب انہوں نے اپنے بیٹے کو سورہ لقمان میں نصیحت کی، ان میں یہ  بھی ہے کہ آپ نے انہیں سب سے پہلے توحید کی وصیت کی،اس کے بعد  والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، اور اس کے بعد  اس بات سے آگاہ کیا کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو محیط ہے،اس کے اندر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق  کو اپنے تمام  اعمال میں اللہ کی نگرانی  محسوس کرنی چاہئے ،پھر لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نماز قائم کرنے کی ترغیب دی، جو کہ  بدنی اعمال میں سب سے عظیم  عمل ہے،آپ نے اپنی وصیت  کے اخیر میں  انہیں بلند اخلاق  اور عظیم امور سے  متنبہ فرمایا، اللہ تعالی فرماتا ہے:

ترجمہ: جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا۔بے شک  شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہےکہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے،  تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وه (بھی) خواه کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالیٰ ضرور ﻻئے گا ۔اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل۔ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر۔ یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔

انبیائے  کرام اور صالحین عظام نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا جیسا کہ مذکورہ بالا  وصیت میں اس کا ذکر ہوا۔

اللہ نے اپنے نبی ابراہیم اور یعقوب علیہما السلام کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا

ترجمہ:اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولادکو کی کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرمالیا ہے، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا۔کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ اور اسحاق ﴿علیہ السلام﴾ کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔

رب العالمین نے اپنے نبی اسماعیل علیہ السلام کی  اس بات پر تعریف و توصیف کی ہے کہ آپ اپنے اہل خانہ کو نماز اور زکاة کا حکم دیاکرتے  تھے،اللہ فرماتا ہے:

ترجمہ: وه اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰة کاحکم دیتا تھا۔

اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا کہ آپ پابندی کے ساتھ  فرض نمازیں ادا کریں،اور اپنے اہل خانہ کو  بھی اس کا حکم دیں اور  انہیں اس کی رغبت دلائیں،جیسا کہ اللہ تعالی  کا فرمان ہے:

ترجمہ: اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما ره۔

انبیائے  کرام کی رہنمائی اور ان کی نصیحت وخیر خواہی  میں یہ بھی شامل ہے کہ والد اپنے بیٹے کو ان تمام چیزوں سے روکے جو ان کے اخلاق اور دین کو برباد کرنے والی ہوں،جیسے گانے سننا ،فحش چینلس دیکھنا،اور حرام آلاتِ موسیقی سے لطف اندوز ہونا،نیز  اپنے بچوں کو حرام لغویات کی جگہوں  پر لے جانے  سے بھی  گریز کرے۔

 نیک ہم نشیں اور صالح دوست

یقینا ہم نشیں اور دوست کے تعلق سے  بچوں کی نگرانی کرنا  تربیت کی بڑی  بنیادوں میں سے ہے جن کا  تربیتِ اولاد میں خیال رکھنا اور اہتمام کرنا ضروی ہے،کیونکہ دوست اثر انگیز ہوتا ہےجو اپنے ہم نشیں کے اوپر ضرور اثر ڈالتا ہے۔

خیر و شر کے معاملے میں دوست کا اپنے دوست کو متاثر کرنے کی وضاحت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال بیان کی اور فرمایا : "نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے (جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی صحبت میں ہو) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا (کم از کم) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا"([18])۔

آپ ﷐ نےمزید فرمایا:" آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے"([19])۔(۲)

والد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی یہ نگرانی کریں کہ مدارس وغیرہ میں کن کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اور ان  مقامات پر اپنے بچوں  کا جائز ہ لیتے رہیں۔

اس زمانے میں مختلف قسم کے نئے نئے دوست ا ور ہم نشیں ہیں جن کا گزشتہ زمانے میں وجود نہیں تھا، جو اپنے دوست کے لیے پہلے کے (انسانی) دوست سے کم اثر انگیز نہیں ہیں، یاد رہے کہ اس سے مراد وہ ٹیلی ویزن چینلز، انٹرنیٹ سائٹس اور سوشل میڈیا ہیں  جو لیپ ٹاپ اور موبائل فون کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں، یہ ایسے آلات ہیں جنہیں بچے گھر میں اور گھر سے باہر جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں، اگر ان آلات کے استعمال میں بچوں کی نگرانی   نہیں کی گئی تو یہ عقل، دین اور اخلاق واطوار کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، کتنے ہی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان کی وجہ سے بھٹک گئے اور راہ ِ مستقیم سے منحرف ہوگئے، انجام کار ایسے عظیم گناہوں اور بڑی آزمائشوں سے دوچار ہوئے جن کی انتہا  کو صرف اللہ ہی  جانتا ہے۔


 بہترین  ائیڈیل  اور عمدہ نمونہ

تربیت کے عظیم بنیادوں میں سے والد کا اپنے بچوں کے لئے آئیڈیل  ہونا بھی ہے، اگر وہ بچوں کو اچھائی کی تلقین کریں  تو سب سے پہلے خود اس کی بجاآوری میں جلدی کریں،اور اگر والد کسی برائی سے انہیں منع کریں تو وہ   سب سے زیادہ  خود اس سے دور رہیں۔ ان کے گفتار وکردار میں فرق نہیں ہونا چاہیے،فرق ہونے کی صورت میں بچوں کے اندر     تضاد

،اختلاف رائے  اور ایک بڑی بے قراری  پیدا  ہوگی ا جس کے نتیجے میں بچے  باپ کی رہنمائی ، تادیب اور تربیت سے صرف نظر  کریں گے اور بے توجہی برتیں گے ۔  ہمیں اس زجر وتوبیخ کو ذہن نشیں رکھنی چاہئے جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل  کو کی :

ترجمہ: کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔

اور ہمیں  اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام کے اس قول کو یا د رکھنا چاہئے جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:

ترجمہ: میرا یہ اراده بالکل نہیں کہ تمہارا خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں۔

اللہ  تعالی مزید فرماتا ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو! تم وه بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔

علماء کرام نے ذکر کیا ہے کہ زبان حال سے اقتداء کرنا زبان مقال سے اقتداء کرنے سے کہیں  زیادہ بلیغ اور بامعنی  ہے۔

*یہ  وہ چند بنیادیں ہیں جو اولاد کی تربیت کرنے ،ان کے اخلاق کو سنوارنے  اور ان کو مہذب  اور با ادب بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں، مسلمان کویہ جاننا چاہئے  کہ اگر وہ ان بنیادوں پر توجہ دے اور انہیں عملی جامہ پہنائے  تو سب سے پہلے اسے ہی اس تربیت کے فوائد وثمرات حاصل ہوں گے ، خواہ زندگی میں ملیں یا موت کے بعد،اس کی زندگی میں اس کا لڑکا نیک اور اس کا فرمانبردار ہوگا،اس کے حقوق کا پابند ہوگا اور اس کی نافرمانی سے گریزاں ہوگا،کیونکہ جس اسلام   پر  اس کے والد نے اس کی تر بیت کی ہے وہ اسے اس کا حکم اور  ترغیب دیتا ہے۔

اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا  اپنے والد کے لئے  خوب دعائیں کرے گا،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ابن آدم کی موت کے بعد اس کے عمل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں لیکن تین طرح کے ایسے اعمال ہیں جو موت کے بعد بھی جاری رہتے ہیں،ایک صدقہ جاریہ،دوسرا ایسا علم جو فائدہ دینے والا ہو اور تیسرا نیک اولاد جو اپنے باپ کے لئے دعا کرے([20])۔

یہاں یہ تنبیہ ضروری ہے کہ تربیت اولاد کا مسئلہ ایک بڑا اور عظیم مسئلہ ہے،ہر باپ  پر لازم ہے کہ اس پر خصوصی توجہ دے،کیونکہ عام طور  بچوں کے اندر  خرابی اور بگاڑ  ان کے والد  کی عدم توجہی اور تربیت میں لا پرواہی  کی وجہ سے پیدا ہوتی  ہے۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:جس نے اپنے بچوں کو مفید چیزوں  کی تعلیم دینے میں لاپرواہی برتی،اور انہیں یونہی  رائیگاں چھوڑ دیا تو  اس نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا،اکثر بچوں کے اندر بگاڑ پیدا ہونے  کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ  ان کے والد  ان کے تئیں لاپرواہی برتتے ہیں اور انہیں دینے کے فرائض وسنن کی تعلیم نہیں دیتے۔

یہاں ایک اور اہم مسئلہ ہے جسے ہر والد  کو  ذہن نشیں رکھنا چاہئے،وہ یہ ہے کہ جہاں والد اپنے بچوں  کی تربیت میں ان عظیم اسباب اور بیش بہا  اصول ومبادی  کا اہتمام کریں اور ان پر توجہ دیں  وہیں یہ بھی  لازم ہے کہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کریں، اسی پر بھروسہ رکھیں،ان اسباب  پر ہی دل کو معلق نہ رکھیں،  بلکہ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد رکھیں اور اپنے بچوں  کی اصلاح اور ان کی حفاظت میں صرف اللہ ہی پر بھروسہ کریں کہ  اللہ اسی طرح ان کی حفاظت کرے جس طرح اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : "میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کے تعلق سے اللہ سے ڈرے اور ان کی رہنمائی کے لیے شریعت کا راستہ اختیار کرے،اور اللہ  پاک وبرتر ان کی اولاد کو ہدایت سے سرفراز نہ کرے"([21])۔

میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اولاد کی تربیت اور سہی سمت میں ان کی رہنمائی کرنے میں اللہ تعالی  ہم سب کی مدد فرمائے،اللہ ان کی  اصلاح فرمائے،انہیں ظاہری وباطنی تمام فتنوں سے محفوظ  فرمائے،انہیں ہدایت یافتہ بنائے، نہ وہ خود گمراہ ہوں اور نہ کسی کی کمراہی کا سبب بنیں، یقینا  اللہ تعالی خوب  سننے والا اور  قبول کرنے والا ہے۔

وصلى الله على نبينا محمد،وعلی آله وصحبه وسلم



 ([1])  جامع البیان فی تأویل القرآن للطبری: ۲۳/۱۰۳

 ([2])  صحيح بخاري(حديث نمبر:۵۱۸۸)صحیح مسلم(حدیث نمبر:۱۸۲۹)

 ([3])  تحفۃ المودود بأحکام المولود لابن القیم: ۲۲۹

 ([4])  السنن الکبرى للبیہقی: (۵۳۰۱)

 ([5])   صحیح بخاری: (۵۱۸۸)‘ صحیح مسلم: (۱۸۲۹)

 ([6])  صحیح البخاری (۵۰۹۰) ‘ صحیح مسلم (۱۴۶۶)

 ([7])  اسے ابوداود نے "السنن" میں روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ اسی کے روایت کردہ ہیں‘ نیز ترمذی نے "الجامع" (۱۹۰۵) میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ" (۵۹۶) میں اسے صحیح کہا ہے۔

 ([8])  اسے مسلم نے اپنی صحیح (۳۰۰۹) میں روایت کیا ہے۔

 ([9])  جامع البیان فی تاویل القرآن:طبری،(۵۱۳/۱۴)

 ([10])  تیسیر الکریم المنان(ص:۴۵۴)

 ([11])  اسے مسلم نے اپنی صحیح (۲۱۳۲) میں روایت کیا ہے۔

 ([12])  صحیح بخاری: ۲۵۸۷

 ([13])   صحیح بخاری (۲۶۵۰) ‘ صحیح مسلم (۱۶۲۳)

 ([14])  صحیح مسلم(حدیث نمبر:۱۶۲۳)

 ([15])  اسے مسلم نے اپنی صحیح (۲۵۹۴) میں روایت کیا ہے۔

 ([16])  امام بخاری(نمبر:۵۹۹۷) اور امام مسلم (نمبر:۲۵۹۴) نے اپنی اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے۔

 ([17])  اسے بخاری (۵۹۹۸) نے اپنی صحیح مہیں روایت کیا ہے۔

 ([18])  امام بخاری نے اپنی صحیح  (۵۵۳۴)کے اندراور امام مسلم نے اپنی صحیح (۲۶۲۸) کے  اندر اسے روایت کیا ہے۔

 ([19])  امام ابو داود نے اپنے سنن (۴۸۳۳)کے اندر اسے روایت کیا ہے‘ نیز دیکھیں: سلسلہ صحیحہ (۹۲۷)۔

 ([20])  امام مسلم نے اپنی صحیح (حدیث نمبر:۱۶۳۱) کے اندر اسے روایت کیا ہے ۔

 ([21])  فتوی نور علی الدرب:۲/۲۴