پانچ عناوین پر مشتمل:
۱-رمضان کی دس حکمتیں
۲- رمضان کی تیس خصوصیات
۳-رمضان میں کثرت سے قرآن پڑھنے کی ترغیب
۴-شب قدر کی دس خصوصیات
۵-خطبہ عید الفطر- عید الفطر سے متعلق دس اہم نکات
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
رمضان سے متعلق پانچ مقالات پر مشتمل یہ ایک مختصر مجموعہ ہے ، یہ مقالات در اصل خطبات سے عبارت ہیں، جنہیں میں نے اس غرض سے کتابی شکل میں ترتیب دیا ہے کہ نماز عصر کے بعد مصلی حضرات کے سامنے ان مقالات کو پڑھنا آسان ہوسکے، اللہ تعالی اس کتاب کو اس کے مؤلف، قاری اور ناشر کے لیے نفع بخش بنائے، اور بیش بہا درود وسلام اور برکتیں نازل فرمائے ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل واولاد اور صحابہ کرام پر۔
تحریر از:
ماجد بن سلیمان الرسی
۳ صفر، سنہ ۱۴۴۴ ہجری
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
· اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے پیش نظر بندوں کے لئے ماہ رمضان کو مشروع کیا، جس میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک انسان کھانے پینے او ر جماع کرنے سے رکا رہتا ہے۔
۱-اللہ تعالی نے بڑی حکمتوں کے پیش نظر روزے کو مشروع کیا ہے([1])، ان میں سب سے بڑی حکمت تقوی کا حصول ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون﴾.
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
آیت سے معلوم ہوا کہ روزے کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ تقوی اختیار کیا جائے، تقوی یہ ہے کہ بندہ اپنے اور عذاب الہی کے درمیان بچاؤ کی دیوار قائم کرے ، بایں طور کہ اوامر کو بجالائے اور نواہی سے اجتناب کرے۔ جس کے نتیجے میں نفس ہر گھڑی اللہ تعالی کو یاد رکھنے کا عادی بن جاتا ہے، چنانچہ روزہ دار قدرت رکھنے کے باوجود نفسانی خواہشات کو ترک کر دیتاہے ، محض اس علم کی بنیاد پر کہ اللہ تعالی اسےدیکھ رہا ہے۔
۲-روز ہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہے، کیوں کہ روزہ نام ہے کھانے ، پینے اور جماع سے نفس کو باز رکھنے کا ، جو کہ بڑی بیش بہا نعمتیں ہیں، لیکن روزے کی حالت میں ان سے باز رہنے سے انسان کو ان کی قدر ومنزلت کا احساس ہوتا ہے، جب انسان ان نعمتوں سے محروم ہوتا ہے تو ان کی اہمیت اور قدر ومنزلت سمجھ میں آتی ہے ، چنانچہ حالتِ صیام میں ان سے باز رہنا ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
۳- روزے کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محرمات کو ترک کرنے کا وسیلہ ہے ، کیوں کہ روزہ نفسانی خواہشات کو زیر کرنے اورشدت وحدت اور کبروغرور سے نفس کو باز رکھنے کا سبب ہے، جس سے انسان کے اندر حق کو قبول کرنے اور لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے کی خوبی پیدا ہوتی ہے، جب کہ ہمیشہ شکم سیر اور آسودہ رہنے اور عورتوں سے مباشرت کرنے سے کبر وغرور اور کفران نعمتِ جنم لیتا ہے۔
۴-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ شہوت پر غلبہ حاصل کرنے میں نفس کی مدد کرتا ہے ، کیوں کہ نفس جب شکم سیر ہو تو اس میں شہوت کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اور جب وہ بھوکا ہو تو شہوت پسندی سے باز رہتا ہے، اسی لیے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی طاقت رکھتا ہو تو اسے شادی کر لینا چاہئے کیوں کہ یہ نگاہ نیچا کرتی ہے او ر بدکاری سے بچاتی ہے او رجو نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھ لے کیوں کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے"([2])۔
۵-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ مسکینوں کے لئے شفقت ورحمت کا ذریعہ ہے، کیوں کہ روزہ دار جب کچھ دیر کے لیے بھوک کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ان فقیروں اور مسکینوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جو ہمہ وقت بھوکے پیاسے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کے اندر فقیر ومسکین کے تئیں رحمت ونرمی پیدا ہوتی ہے، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان پر صدقہ وخیرات کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس طرح روزہ مسکینوں کے لئے شفقت ورحمت اور سماج میں باہمی الفت ومودت کو رواج دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
۶-روزے کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے شیطان مغلوب اور کمزورہوتا ہے ، انسان کے تئیں اس کا وسوسہ کمزور پڑ جاتا ہے، چنانچہ انسان معصیت کے کام کم کردیتا ہے، کیوں کہ شیطان ابن آدم کی رگوں میں خو ن کی طرح دوڑتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے([3])، روزے سے شیطان کا راستہ تنگ ہوجاتا جس سے وہ کمزو ر پڑ جاتا اور اس کا غلبہ وتسلط کم ہوجاتا ہے، لہذا دلوں میں خیر وبھلائی کے کام کرنے اور گناہوں سے باز رہنے کا داعیہ اور جذبہ امڈنے لگتا ہے۔
۷-روزہ کی ایک حکمت یہ ہے کہ وہ مومن کو کثرت سے اطاعت کے کام کرنے کا عادی بناتا ہے، اس لیے کہ اکثر روزے کی حالت میں انسان کثرت سے اطاعت کے کام کرتا ہے، مثلا ً ذکر الہی ، تلاوت قرآن اور نماز ، اس کے نتیجے میں وہ رمضان کے ساتھ دیگر ایام میں بھی ان عبادتوں کو انجام دینے کا عادی ہوجاتا ہے۔
۸-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے دنیا اور اس کی شہوتوں سے بے رغبتی پید ا ہوتی ہے اور اللہ تعالی کے پاس جو اجر وثواب ہے اس کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔
۹-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے پوری دنیا میں اللہ کی عباد ت کا مظاہرہ ہوتاہے، آپ دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے تمام مسلمان اس مہینے میں اجتماعی طور پر روزہ رکھتے ہیں، حتی کہ بے روزہ گناہ گار -اللہ کی پناہ-بھی کھلے عام کھانے پینے کی جرات نہیں کرتا، بلکہ کافر بھی مسلمانوں کے احترام میں ان کے سامنے کھانے پینے سے گریز کرتا ہے، بے شک اس سے ایک اہم ترین عبادت کاکھلے طور پر مظاہرہ ہوتا ہے۔
۱۰-روزہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے انسانی جسم کو بہت سے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ روزہ دل کی دھڑکن کو درست کرتا ہے، خون کو نقصاندہ چربی، کولسٹرول اور حمضیات سے پاک وصاف کرتا ہے، معدہ کو راحت پہنچاتا ہے، انسان کو موٹاپا سے بچاتا ہے، جسم میں جو زہریلے مواد جمع ہوجاتے ہیں ، ان کو خارج کرنے میں مدد کرتا ہے، بلڈ پریشر اور ذیابطیس(SUGAR) کا توازن بحال رکھتا ہے۔
· یہ وہ دس حکمتیں ہیں جو روزے کی مشروعیت میں پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔
· اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کے روزے اسی طرح رکھنے کی توفیق دے جس طرح اسے پسند ہے،اپنے ذکر و شکر اور حسنِ عبادت پر ہماری مدد فرمائے ۔
الله تعالى جو چاہتا ہے اپنے اختیار سے پیدا کرتا ہے، جیسا اس عزیز وبرتر کی حکمت کا تقاضہ ہوتا ہے ، چنانچہ اس نے بعض فرشتوں کو بعض پر فوقیت دی، بعض کتابوں کو بعض پر برتری عطا کی، بعض انبیاء کو بعض دیگر انبیاء پر فضیلت بخشی، بعض جگہوں او ر وقتوں کو بعض پر فوقیت دی، اسی طرح ماہ رمضان کو دیگر مہینوں پر برتری عطا فرمائی، یہ بندوں کے تئیں اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے خیر وبھلائی کے مواقع مہیا فرمائے ، جن میں نیکیوں کے اجر وثواب کئی گنا بڑھا دئیے جاتے ہیں، برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور جنت میں درجات بلند کئے جاتے ہیں۔
جان رکھیں کہ اللہ تعالی اپنی حکمت کے پیش نظر جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے، چنانچہ بعض فرشتوں کو بعض پر فضیلت بخشی، بعض کتابوں کو بعض پر برتری عطا کی، بعض نبیوں کو بعض پر فوقیت دی، بعض وقت اور بعض مقام کو بعض پر فضیلت عطا کی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ نے ماہ رمضان کو دیگر تمام مہینوں پر فوقیت عطا کی، یہ بندوں پر اللہ کی خاص رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے ان کے لیے خیر وبھلائی کے مواقع میسر فرمائے، جن میں نیکیوں کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے، گناہ مٹائےجاتے ہیں اور جنت میں مومنوں کے درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
· جب یہ ثابت ہوگیا تو یہ بھی جان لیں-اللہ آپ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے-کہ رمضان کے روزے کی تيس خصوصیات ہیں، ان میں سے چند خصوصیات حسب ذیل ہیں:
۱-روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا"([4])۔
۲-روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اسلام سے ماقبل کی تمام شریعتوں میں مشروع تھا، جو اس کی عظمت ِشان کی دلیل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون﴾.
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
۳-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے، جوکہ تمام عبادتوں میں اس کی منفرد قدر ومنزلت پر دلالت کرتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل اس کا ہے سوا ئے روزہ کے کہ یہ میرا ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا .... "۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالی کا تمام عبادتوں کی بجائے روزے کو خصوصیت کے ساتھ اپنی طرف منسوب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک یہ معزز او رمحبوب عبادت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عبادت میں اللہ تعالی کے تئیں بندے کا جذبہ اخلاص ظاہر وعیاں رہتا ہے، کیوں کہ روزہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک راز ہے ، جس سے اللہ کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا، روزے دار خلوت و تنہائی میں ان چیزوں کو استعمال کرنے پر قادر ہوتا ہے جنہیں اللہ نے روزے کی وجہ سے حرام ٹھہرایا ہے، لیکن وہ ان کے استعمال سے باز رہتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو خلوت میں بھی اسے دیکھ رہا ہےاور اس نے ان چیزوں کو اس پر حرام کیا ہے، چنانچہ وہ اللہ کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے اور اس کے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے بندے کے اس اخلاص کی داد دی ہے اور تمام عبادتوں کی بجائے اس کے روزے کو خصوصی طور پر اپنے لئے خاص کیا ہے۔
۴-رمضان کے روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس كے اجر وثواب کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا: ( میں ہی اس کا بدلہ دوں گا)، چنانچہ اجر وثواب کو اپنی ذات کریمہ کی طرف منسوب کیا اور کسی تعداد کی تحدید نہیں فرمائی جس طرح دیگر اعمال صالحہ میں اجر وثواب کی تحدید کی گئی ہے، مثلا یہ نہیں کہا کہ روزے کا ثواب دس گنا دیا جائے گا، بلکہ اجروثواب کو مطلقاً بیان کیا، جوکہ اس کی قدر ومنزلت پر دلالت کرتا ہے، وہ پاک وبرتر اللہ تمام کرم فرماؤں سے زیادہ کریم او رسارے داتاؤں سے بڑھ کر سخی وفیاض ہے، نوازش نوازنے والے کی عظمت کے بقدر ملتی ہے ۔
۵-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صبر کی تینوں قسمیں یکجا ہوجاتی ہیں، اللہ کی اطاعت پر صبر، اللہ کی محرمات (سے باز رہنے ) پر صبر، اور اللہ کی اذیت بخش تقدیروں پر صبر جیسے بھوک وپیاس کی شدت اور جسم وجاں کی کمزوری، اس طور پر روزہ دار کا شمار ان صابروں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: (إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)([5])
ترجمہ: صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بےشمار اجر دیا جاتا ہے۔
۶-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ داروں کے لئے جنت میں ایک ایسا دروازہ تیار کر رکھا ہے جس سے ان کے علاوہ کوئی نہیں داخل ہوگا، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں۔ قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہو گا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے۔ ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جا سکے گا"([6])۔
۷-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ جہنم سے بچانے والی ڈھال ہے، عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ کو وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: " روزه جہنم سے بچانے والی ڈھال ہے ، جس طرح تم میں سے کوئی جنگ کے میدان میں ڈھال سے اپنا بچاؤ کرتا ہے"([7])۔
۸-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص ایمان اور احتساب اجر کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان رکھتے ہوئے ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے تما م پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں([8])۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا: آمین، آمین، آمین۔
آپ سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ منبر پر چڑھے تو آپ نے تین دفعہ (آمین) کہا۔
آپ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا: (جس شخص کو رمضان کا مہینہ ملا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی ، وہ جہنم میں داخل ہو اور اللہ اسے (اپنی رحمت سے) دور کردے، آپ آمین کہئے، تو میں نے کہا: آمین([9])۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: پنج وقتہ نمازیں،ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرارمضان، ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے([10])۔
۹-ماہ رمضان کے روزوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ روزے آسان کردئے گئے ہیں، بایں طور کہ روزہ دار جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے آس پاس کے تمام لوگ روزے سے ہیں، تو یہ احساس اس کےلئے روزہ رکھنا آسان کردیتا ہے اور اس کے اندر اس عبادت کے تئیں نشاط پیدا کرتا ہے۔
۱۰-روزہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ کی حالت میں اللہ تعالی خصوصیت کے ساتھ روزہ دارکی دعا قبول کرتا ہے، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: "تين دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں: باپ کی دعا، روزہ دار کی دعا، مسافر کی دعا"([11])۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کرتا: انصاف کرنے والا حکمراں، روزہ دار یہاں تک کہ وہ افطار کرلے، اور مظلوم"([12])۔
۱۱-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ احتسابِ اجر (ثواب کی نیت) سے ماہِ رمضان میں قیام کرتاہے ، اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام اللیل کی، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"([13])۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا"([14])۔
۱۲-رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے ، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے"([15])۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور تین مرتبہ آمین کہا ، آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ميرے پا س جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا: (جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور وہ جہنم میں داخل ہوا۔ اللہ اسے –اپنی رحمت سے دور کردے-، آپ آمین کہیے ) تو میں نے آمین کہا ([16])۔
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "جب (انسان) کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں ، ایک جمعہ (دوسرے ) جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک ، درمیان کے عرصے میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے کا سبب ہیں"([17])۔
۱۳-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس مہینے میں صدقہ کرنا مستحب ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی"([18])۔
۱۴-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عمرہ کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت سے کہا: ”جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لو، کیونکہ (ماہ رمضان میں) ایک عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے“([19])۔
۱۵-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ رمضان کی ہر رات میں اللہ تعالی اپنے کچھ بندوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرتا ہے ، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے: خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزاد کئے ہوئے بندے ہیں (تو ہو سکتا ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے"([20])۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے“([21])۔
۱۶-۱۷:رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے او رشیطانوں کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے"([22])۔
۱۸-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس مہینہ میں شیطانوں کو زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے، اس کی دلیل مذکورہ بالا دونوں حدیثیں ہیں، شیطانوں کو جکڑنے کا مطلب ہے زنجیر میں انہیں جکڑ دینا، بایں طور کہ غیر رمضان میں جن مقامات تک انہیں رسائی تھی، وہاں تک رمضان میں نہ جاسکیں، بلکہ ان کا شر منحسر ہوجائے، ایک قول یہ بھی ہے کہ صرف سرکش شیطانوں کو ہی جکڑا جاتا ہے۔
۱۹-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب ہے، سلف صالحین رضوا ن اللہ علیہم کا طریقہ تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے رمضان میں ختمِ قرآن کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے کیوں کہ جبریل ہر سال رمضان کے مہینے میں آپ کےساتھ قرآن کا دورہ کیا کرتےتھے۔
۲۰-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزہ قیامت کے دن بندے کے حق میں یہ سفارش کرے گا کہ اس کے درجات بلند کردئے جائیں اور اس کے گناہ مٹا دئے جائیں، عبد الله بن عمرو رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزے اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: ( اے میرے پروردگار! میں نے اسے کھانے پینے اور شہوت کی چیزوں سےباز رکھا، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما)۔
قرآن کہے گا:(اے میرے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے باز رکھا، اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلے) چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی([23])۔
۲۱-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزہ دا ر کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے ، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے"([24])۔
۲۲-روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی روزہ دار کو دو خوشیوں سے نوازتا ہے، ایک خوشی جب وہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہو گا([25])۔
۲۳-ماہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، فرمان باری تعالی ہے: (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ)
ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
رمضان میں بھی شب قدر میں قرآن نازل ہوا، اللہ تعالی فرماتاہے : (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ)
ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔
یہ ایک عظیم الشان رات ہے ، اس میں قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت کی طرف اتارا گیا جو آسمان دنیا میں ہے ، ا س کے بعد حالات ووقائع کے اعتبار سے تھوڑا تھوڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہوتا رہا ۔
· اسے قدر کی رات اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی قدر ومنزلت والی رات ہے، جیسا کہا جاتا ہے : (فلاں شخص بر ا عظیم مرتبہ کا حامل ہے)، اس طرح قدر کی طرف لیلۃ کی اضافت کسی چیز کو اس کی صفت کی طرف منسوب کرنے کے قبیل سے ہے۔
ایک قول کے مطابق اسے قدر کی رات اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پورے سال کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)
ترجمہ: اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ: "یہی قول درست ہے"([26])۔([27])
· اللہ تعالی نے شب قدر کو بابرکت رات سے موصوف کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے نزول قرآن کے تعلق سے فرمایا : (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ)
ترجمہ: ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا۔
· شب قد ر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فرشتےزمین پر نازل ہوتے ہیں ، فرمان باری تعالی ہے : (تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا)
ترجمہ: س میں روح (الامین) اور فرشتے اترتے ہیں۔
اس آیت میں الروح سے مراد جبریل ہیں، ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: یعنی: اس رات چونکہ کثرت سے برکت نازل ہوتی ہے ، اس لئے فرشتے بھی کثیر تعداد میں اترتے ہیں، برکت ورحمت کے ساتھ ہی فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں،نیز یہ فرشتے تلاوت قرآن کے وقت بھی نازل ہوتے ہیں، علمی حلقات کو اپنے احاطے میں لے لیتے ہیں، صدق وسچائی کے ساتھ طالب علم کی تعظیم میں ان کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔انتہی
۲۴- رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص شب قدر میں ایمان اوراحتساب اجر کے ساتھ قیام کرے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں، یعنی: جو شخص شب قدر کو عبادت سے آباد کرے، اللہ تعالی نے اس رات قیام کرنے والوں کے لئے جو اجر وثواب تیار کر رکھا ہے ، اس پر (ایمان رکھتے ہوئے )، اور اجر وثواب ( کی امید کرتے ہوئے) ، تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں"([28])۔
۲۵-رمضان کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب قدر کو نماز سے آباد کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ، یعنی ۸۳ سال سے بھی زائد ، اللہ تعالی فرماتا ہے : (ليلة القدر خير من ألف شهر)
ترجمہ: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
· نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا"([29])۔
· ابن سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے: اس بات سے ہماری عقلیں حیران وششدر ہیں کہ اللہ تعالی نے اس امت کو ایک ایسی رات سے نوازا ہے جس میں کیا جانے والا عمل ہزار مہینوں کے عمل سے بھی بہتر ہے جو کہ ایک بڑی لمبی عمر پانے والے شخص کی زندگی کے برابر ہےیعنی اسی سال سے بھی زیادہ۔
معمولی اختصار کے ساتھ آپ کا قول ختم ہوا۔
۲۶-رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا مستحب ہے، اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کا اطاعت وعبادت کی خاطر مسجد کو لازم پکڑا جائے ، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ : " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں"([30])۔
اعتکاف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ شب قدر کی تلاش کرتے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے اس شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میرے پاس (جبریل) کی آمد ہوئی تو مجھ سے کہا گیا: وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف کرلے"([31])۔
۲۷-رمضان کے روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے اختتام میں زکاۃ الفطر کو مشروع کیا ہے، جو روزے کے درمیان سرزد ہونے والى لغو اور بیہودہ باتوں سے روزہ دار کو پاک کرتی ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر، صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے"([32])۔
۲۸-رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے بعد عید کا شعیرہ مشروع قرار دیا ہے، دو عظیم شعائر کی ادائگی کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے دو عیدیں مشروع قرار دی ہیں، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج، عید الفطر رمضان کے روزے مکمل ہونے منائی جاتی ہے، چنانچہ جب مسلمان روزے مکمل کر لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں جہنم سے رہائی عطا فرماتا ہے، اس فضل واحسان کے شکریہ کے طور پر صدقہ الفطر اور نماز عید ادا کی جاتی ہے، اس عید میں مسلمانوں کا جمعہ سے بڑا اجتماع ہوتا ہے، ان کی عظمت وشوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے، اس شعار پر ان کا افتخار ظاہر ہوتا ہے اور ان کی کثرت کا پتہ چلتا ہے، اسی لیے اس دن تمام لوگوں کے لیے عید گاہ جانا مستحب ہے، حتی کہ خواتین اور بچوں کے لیے بھی، بلکہ حائضہ عورتیں بھی مسلمانوں کو دعا میں شامل ہوں گی البتہ عید گاہ سے ہٹ کر رہیں گی، عید میں اس ماہ کے اختتام، عید کی آمد اور کمال رحمت کی مناسبت سے فرحت وسرور کا مظاہرہ ہوتا ہے([33])۔
۲۹-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اختتام پر تکبیر پکارنا مشروع ہے، جس کا آغاز عید کی رات کی آمد سے ہوتی ہے اور نماز عید کے اختتام تک برقرار رہتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون}
ترجمہ: تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔
یعنی: رمضان کے تیس دنوں کی گنتی پوری کرو، اس کے اختتام پر اللہ کی تکبیر بیان کرو، اور اللہ نے اس عبادت کی ادائگی کی جو توفیق دے، اسے آسان بنایا ، اس میں مدد کی اور اس کے اختتام تک پہنچایا اس پر اس کا شکر ادا کریں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے حج کے اختتام پر مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کو مشروع قرار دیا بایں طور کہ حجاج کرام عرفہ کے میدان میں وقوف کرتے ہیں، جوکہ جہنم سے آزادی کا دن ہے، اس دن سے زیادہ کسی بھی دن نہ جہنم سے آزادی ملتی ہے اور نہ گناہوں کی معافی ملتی ہے، اس لیے اللہ نے اس کے بعد عید مقرر فرمائی جوکہ سب سے بڑی عید ہے۔
۳۰-رمضان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو پورے سال روزے رکھتا ہے، کیوں کہ نیکی کا ثواب دس گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، جبکہ اس شخص نے صرف ۳۶ دنوں کے روزے رکھے ، ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (پورا سال) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے"([34])۔
· یہ ماہ رمضان کی تیس خصوصیات ہیں، بندہ مسلم کو چاہئے کہ ان کو جانے اور روزہ کے درمیان انہیں ذہن نشیں رکھے تاکہ ایمان اور احتساب اجر کے ساتھ روزہ مکمل کرنے میں یہ خصوصیات معاو ن ثابت ہوں۔
· رمضان ماہِ قرآن ہے، اللہ نے اس مہینے میں قرآن کو بیت العزت سے آسمان ِ دنیا کی طرف نازل فرمایا، پھر واقعات وحوادث کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دھیر ے دھیرے اتارا، بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں کو بھی رمضان ہی میں نازل فرمایا،واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان کی پہلی رات کو، تورات چھ رمضان کو، انجیل رمضان کے تیرہ دن گزرنے کے بعد ( یعنی چودھویں تاریخ) کواور قرآن مجید چوبیس دن گزرنے کے بعد ( یعنی پچیس) رمضان کو نازل ہوا"([35])۔
· اے مومنو! قرآن کی تلاوت ماہ رمضان میں کی جانی والی ایک اہم ترین عبادت ہے، کیوں کہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب عمل ہے، سلف صالحین کا طریقہ تھا کہ وہ رمضان میں کئی دفعہ ختمِ قرآن کرنے کا اہتمام کرتے تھے، کوئی تین راتوں میں قرآن ختم کرلیتا ، تو کوئی چار دنوں میں ختم کرتا اور کوئی چار سے زائد دنوں میں قرآن ختم کرتا۔
· اے اللہ کے بندو! قرآن کی تلاوت ایک افضل ترین عباد ت اور تقرب الہی حاصل کرنے کا عظیم ترین ذریعہ ہے ، خواہ تہجد وتراویح میں تلاوت کی جائے یا نماز کے باہر تلاوت کی جائے ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے“([36])۔
· ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے"([37])۔
· ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے :ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے ، اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے۔ (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا"([38])۔
· عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : "اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور لکھنے والے نیک (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا"([39])۔
· ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں“؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں (کیوں نہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں“([40])۔
· عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر تشریف لائے۔ہم صفہ (چبوترے)([41]) پر موجود تھے ، آ پ نے فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح بطحان ([42])یا عقیق([43]) (کی وادی) میں جائے اور وہاں سے بغیر کسی گنا ہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہانوں والی اونٹنیاں لائے؟ " ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم سب کو یہ بات پسند ہے ، آپ نے فرمایا: "پھر تم میں سے صبح کوئی شخص مسجد میں کیوں نہیں جاتا کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی قراءت کرے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور یہ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر اور چار آیتیں اس کے لئے چار سے بہتر ہیں اور (آیتوں کی تعداد جو بھی ہو) اونٹوں کی اتنی تعداد سے بہتر ہے"([44])۔
· ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "قرآن پڑھا کرو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحابِ قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں ) کا سفارشی بن کر آئے گا"([45])۔
بندہ مومن جب روزہ کے ساتھ تلاوت قرآن کا بھی اہتمام کرے تووہ اس کا زیادہ حقدار ہوتاہے کہ قیامت کے دن یہ اعمال اس کے حق میں سفارش کریں کہ اس کے درجات بلند کردئے جائیں اور گناہ مٹا دئے جائیں۔عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: (اے پالنہار! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشات نفس سے روکے رکھا ، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) اور قرآن کہے گا: (میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا ،اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی ([46])۔
اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے پیش نظر بعض وقتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، چنانچہ ذی الحجہ کے دس دنوں کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت دی ہے، عرفہ کے دن کو سال کے تمام دنوں پر برتری عطا کی ہے، رمضان کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت بخشی ہے اور شب قدر کو رمضان کی تمام راتوں سے افضل قرار دیا ہے ، شب قدر کی دس خصوصیات ہیں جو حسب ذیل ہیں:
· پہلی خصوصیت:یہ وہ رات ہے جس کو اللہ نے یہ خصوصیت بخشی کہ اس میں نزولِ قرآن کا آغاز کیا ، اللہ تعالی فرماتا ہے: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ)
ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔
اسی رات میں قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں نازل ہوا جو آسمان دنیا میں ہے ، پھر وہاں سے حوادث وواقعات کے مطابق بتدریج نازل ہوتا رہا۔
· شب قدر کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات کی بڑی قدر ومنزلت ہے، جیسے کہا جاتا ہے (فلاں شخص بڑی قدر ومنزلت کا حامل ہے) ، چنانچہ قدر کی طرف رات کی اضافت ، کسی چیز کو اس کی صفت کی طرف منسوب کرنے کے قبیل سے ہے۔
· ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس رات میں پورے سال کے معاملات مقدر (طے) کیے جاتے ہیں، یعنی سالانہ تقدیر طے کی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)
ترجمہ: اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ابن القیم کہتے ہیں کہ : یہی قول درست ہے([47])۔([48])
چنانچہ اس رات میں یہ فیصلہ لیا جاتا ہے کہ آنے والے سال میں کون سے امور انجام پانے ہیں، یعنی اللہ تعالی فرشتوں کوپورے سال کی روداد سے باخبر کرتا ہے، انہیں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ آئندہ سال کی شب قدر تک واقع ہونے والے تمام امور سے متعلق ذمہ درایوں کا حکم دیتاہے، چنانچہ ان کے سامنے موت، رزق ، فقیری وامیری ، ہریالی وقحط سالی ، صحت وبیماری ، جنگ وجدال اور زلزلے اور اس سال رونما ہونے والے تمام حوادث واضح کردیے جاتے ہیں([49])۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں :شب قدر میں لوح محفوظ سے، آنے والے سال کےدرمیان واقع ہونے ولی موت وحیات، رزق اور بارش نقل کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ حاجیوں کے بارے میں بھی لکھ لیا جاتاہے کہ فلاں اور فلاں حج کریں گے([50])۔
· شب قدر کی دوسری خصویت یہ ہے کہ: اس میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا)
ترجمہ: اس میں فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔
روح سے مراد جبرائیل ہیں، ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: یعنی یہ رات چونکہ بڑی برکتوں والی رات ہوتی ہے ، اس لیے کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، برکت اور رحمت کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں، جس طرح تلاوت قرآن کے وقت فرشتے نازل ہوتے ہیں، علمی مجالس کو گھیر لیتے ہیں اور صدق نیت کے ساتھ حصولِ علم میں مصروف رہنے والے طلبہ کی تعظیم میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔انتہی
· شب قد کی تیسری خصوصیت:اللہ تعالی نے اس رات کو بابرکت قرار دیا ہے، اللہ تعالی نزولِ قرآن کے تعلق سے فرماتاہے: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ)
ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔
· شب قدر کی چوتھی خصوصیت: اللہ تعالی نے اسے سلامتی کی رات کہا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے، یعنی ہر قسم کے شرور وفتن سے سلامتی (کی رات) ، کیوں کہ اس میں خیروبھلائی کی بہتات ہوتی ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔
· شب قدر کی پانچویں خصوصیت: جو شخص اس رات کو قیام کرے، یعنی اسے نماز سے آباد کرے، (ایمان کے ساتھ) یعنی اللہ تعالی اس عظیم رات میں قیام کرنے والوں کے لیے جو اجروثواب تیار کررکھا ہے ، اس پر ایمان رکھتے ہوئے، (احتساب کے ساتھ) یعنی: اجروثواب کی امید کرتے ہوئے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں"([51])۔
· شب قدر کی چھٹی خصوصیت: اس رات کو نماز سے آباد کرنا ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے ، یعنی تراسی (۸۳) سالوں سے بھی زیادہ، اللہ تعالی فرماتاہے: (لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ)
ترجمہ: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا“([52])۔
ابن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ایسا (انعام ہے) جس کے سامنے عقل حیران اور ذہن پریشان ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو ایک ایسی رات سے سرفراز کیا ہے جس رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت كى مانند ہے، جوکہ ایک لمبی عمر والے انسان کی زندگی کے برابر ہے ، اسّی (۸۰) سال سے بھی زائد ([53])۔انتہى مع اختصار وتصرف
· شب قدر کی ساتویں خصوصیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کی تلاش کے لیے جس قدر محنت کرتے تھے اتنی محنت دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے([54])۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر کس لیتے اور ہمت باندھ لیتے تھے([55])۔
(کمر کس لیتےاور ہمت باندھ لیتے ) اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لیے تیار رہتے ، اس میں محنت ولگن سے کام لیتے، اور عادت سے کہیں زیادہ عبادت کرتے ، ایک قول یہ بھی ہے کہ عورتوں سے الگ رہتے اور جماع سے باز رہتے۔
· شب قدر کی آٹھویں خصوصیت:نبی صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر اعتکاف کیا کرتے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں([56])۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میرے پاس (جبرئیل کی آمد ہوئی تو) مجھ سے کہا گیا: وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف کرلے([57])۔
· اے اللہ کے بندو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر محنت ولگن سے عبادت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ آپ فضیلت والے اوقات میں اطاعتِ الہی کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، اس لیے مسلمانو ں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے کہ آپ ہی اسوہ ونمونہ ہیں، ہم مسلمانوں کو خوب دلجمعی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنی چاہئے اور شب وروز کی گھڑیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے ، کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ کب لذتوں کو توڑنے اور لوگوں سے جدا کردینے والی موت اسے اپنے شکنجے میں لے لے ، پھر اس وقت اسے ندامت ہو جب ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا([58])۔
· شب قدر کی نویں خصوصیت: اس رات میں خصوصیت کے ساتھ اللہ سے معافی طلب کرنے کی ترغیب آئی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہانے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے نبی ! اگر میں لیلۃ القدر پا لوں تو کیا دعا مانگوں؟ آپ نے فرمایا: "یوں کہنا : (اللهم إنک عفو تحب العفو فاعف عني) یعنی: اے اللہ ! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے ، تو معاف کرنا پسند کرتا ہے ، لہذا مجھے معاف فرمادے۔
· شب قدر کی دسویں خصوصیت: اللہ تعالی نے اس کی فضیلت میں ایک سورہ نازل فرمائی جو قیامت تک تلاوت کی جاتی رہے گی، اس کے ذریعہ اس کی عظمت شان کو واضح کیا، اس کی عظمت کی وجہ یہ بیان کیا کہ اس رات قرآن نازل کیا گیا، نیز یہ بھی ذکر کیا کہ اس رات فرشتے زمین پر اترتے ہیں، نیز جو اس رات کو نماز او رعباد ت میں گزارتا ہے اس کا کیا اجروثواب ہے، اس رات کے آغاز اور انتہا کی وضاحت فرمائی ، تمام تعریفات اس اللہ کے لیے ہے جس نے بندوں پر لطف ومہربانی کرتے ہوئے انہیں نیکیوں کے موسم بہار سے سرفراز فرمایا۔
· ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اسی طرح رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دے جس طرح اسے پسند ہے ، اور اپنے ذکروشکر اور حسنِ عبادت پر ہماری مدد فرمائے۔
· اللہ عزیز وبرتر نے شب قدر کو اپنی حکمت کے پیش نظر مخفی رکھا ہے، وہ حکمت یہ ہے کہ بندہ مومن اس کی تلاش میں مکمل دس راتیں عبادت کرے، تاکہ بڑے اجروثواب سے ہمکنار ہو، اس کے برخلاف اگر معلوم ہوتا کہ شب قدر کونسی تاریخ کو ہوتی ہے تو وہ صرف اسی رات میں عبادت کرتا۔
· اگر شب قدر کے بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ کونسی رات ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں پوری دس راتیں اعتکاف نہ کرتے اور نہ اپنی امت کو یہ رہنمائی کرتے کہ اس کی جستجو میں دس رات اعتکاف کیا کریں، بلکہ صرف شب قدر میں ہی آپ اعتکاف کرتے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے مکمل دس راتوں میں اس کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے، کیوں کہ اس کا وقت نا معلوم ہے، آپ نے اپنی امت کو یہ ترغیب دی کہ بطور خاص طاق راتوں میں اسے تلاشیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ طاق رات میں شب قدر ہونے کا زیادہ امکان ہوتاہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "شب قدر کو رمضان کے آخرے عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو"([59])۔
معلوم ہوا کہ نصوص اس بات پر دال ہیں کہ شب قدر ہر سال الگ الگ راتوں میں واقع ہوا کرتی ہے، لیکن ان دس راتوں کے اندر ہی محصور رہتی ہے۔
اس لیے مومن کو چاہئے کہ آخری عشرے کی تمام راتوں کے اندر عبادت میں مصروف رہے ، لوگ سوشل نیٹورک پر جو نشر کرتے پھر تے ہیں کہ شب قدر فلاں رات کو ہی ہوتی ہے ، اس سے محتاط رہے ، یہ ایسی بات ہے جو وقت کی بربادی اور عمل سے دوری کی طرف لے جاتی ہے۔
· اے اللہ کے بندو! مومن کو چاہئے کہ آخری عشرے میں دیگر ایام کے بالمقابل زیادہ محنت ولگن سے عبادت کرے ، اس کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ: شب قدر کی تلاش وجستجو ، دوسری یہ کہ : یہ مہینہ اس سے رخصت ہورہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ آئندہ سال اسے یہ مہینہ نصیب ہوگا یا نہیں([60])۔
إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
۱-اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی سے کما حقہ ڈرو اور اس کا تقوی اختیار کرو، اسلام کو مضبوطی سے تھام لو، اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرو کہ اس نے ماہ رمضان کے اختتام تک پہنچایا، اللہ کی قسم یہ ایک نعمت ہے ، تمہارے رب کا فرمان ہے: (وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)
ترجمہ: وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔
۲-اے مسلمانو! یقینا اللہ تعالی نے سچ فرمایا کہ رمضان صرف : (گنتی کے چند دن ہیں)، یہ ایام کتنی سرعت سے گزر جاتے ہیں، یہ شب وروز گزر گئے اور ہم سے رخصت ہوگئے، آپ کو محسوس ہوا کہ کیسے یہ دن گزر گئے ؟ کیا آپ کو احساس ہوا کہ کتنی جلدی یہ شب وروز بیت گئے؟
۳-اے مومنو! آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اس مہینے کے روزے رکھے، آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اس ماہ کی راتوں میں قیام کیا، آپ کو مبارک ہو کہ آپ اس ماہ کے اختتام کو پہنچ گئے، جبکہ بہت سے لوگ وفات پاگئے اور انہیں رمضان کا یہ آخری حصہ نصیب نہ ہوسکا، اللہ کے بیش بہا انعام واحسان پر ہم اس کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں۔
۴- اے مسلمانو! آپ سب کو وہ خوشی مبارک ہو جو ہمیں اسلام کے اس عظیم رکن یعنی رمضان کے روزوں کو ادا کرنے کے بعدماہِ رمضان کے اخیر میں حاصل ہوتی ہے، آپ اللہ کی بڑائی بیان کرتے، اس کی وحدانیت اور عظمت کے گیت گاتے ہیں، آپ اللہ سے امیدکرتے ہیں کہ آپ کی نیکیوں میں اضافہ ہوا ہوگا، آپ کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوئے ہوں گے۔
۵-اے اللہ کے بندو! اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے دو عظیم مناسبتوں کے بعد ہمارے لیے دو عیدیں مشروع فرمائیں، روزے مکمل کرنے کے بعد ہم عید الفطر مناتے ہیں اور حج مکمل کرنے کے بعد عید الاضحى مناتے ہیں، ہماری عیدیں دین وعبادت، نماز وتکبیر،زکاۃِ نفس (جان کی قربانی) اور زکاۃِ فطر سے عبارت ہیں،یہ خوشی بھی ہے اور صلہ رحمی بھی، آپسی ملاقات، باہمی الفت ومحبت، ماضی کی لغزشوں سے درگزر اور از سر نو تعلقات استوار کرنے، کینہ کپٹ اور حقد وحسد کو فراموش کرنے کا عمدہ موقع ہے، جس شخص کو کسی رشتہ دار یا دوست واحباب سے بغض ونفرت ہو یا بے تعلقی ہوگئی ہو تو اس دن کو غنیمت جان کر رشتہ جوڑےاور از سر نو تعلق قائم کرے او ردلوں میں خوشیوں کے رنگ بھرے۔
۶-اے مومنو! آپ کو ہماری عید کی یہ (پاکیزہ) خوشی مبارک ہو اور جو مشرک اورگمراہ اقوام کی عیدوں میں نہیں پائی جاتی، بلکہ ان کی عیدیں ان کے گناہ او راللہ سے دوری میں مزید اضافہ کردیتی ہیں۔
اللہ کے بندو! ان رحمتوں سے خوش ہوجائیں، اللہ تعالی فرماتاہے: (قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا)
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔
اللہ سے مزید (رحمت وبرکت کی ) دعا کریں ۔
۷-اے مسلمانو! (عید کے دن) زیب وزینت اختیار کریں او رخوشبو سےخود کو معطر کریں، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (میں نے اہل علم سے سنا کہ وہ عطر اور زیب وزینت کو ہر عید میں مستحب سمجھتے تھے)([61])۔
۸-اے مومنو! اپنے گھروں کو اور اپنے دلوں کو کھول کر رکھیں، ایک دوسرے کے لیے دعا کریں کہ اللہ سب کے عمل کو شرف قبولیت سے نوازے، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، صحابہ کرام ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکرتے تھے: تقبل اللہ منا ومنکم (اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال قبول فرمائے )۔
۹-اے مسلمانو! ماضی کی لغزشوں کو درگزر کرنا ایک عظیم ترین عبادت واطاعت ہے، اللہ تعالی نے اس پر بے شمار اجرووثواب مرتب فرمائے ہیں، اللہ فرماتا ہے: (فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ)
ترجمہ: جو معاف کردے اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
چنانچہ اللہ نے (اس عمل پر) بے حساب اجروثواب کا وعدہ فرمایا ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل بڑا عظیم ہے۔
اے مومنو! نفوس (دلوں) کی اصلاح اور ان کا تزکیہ ایک افضل ترین عبادت ہے، اس پر اللہ نے فلاح وکامرانی مرتب کیا ہے، فرمان باری تعالی ہے: (قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا)
ترجمہ: جس نے اسے پاک کیا وه کامیاب ہوااور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وه ناکام ہوا۔
اللہ کے بندو! جن اعمال سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے ، ان میں یہ بھی ہے کہ سماجی تعلقات بہتر بنائے جائیں، ان کی تجدید کی جائے ، ان میں مضبوطی لائی جائے، پورے سال کے درمیان دلوں میں نفرت وکینہ کے جو غبار جم گئے ہیں، ان سے دلوں کو پاک وصاف کیا جائے، مبارکباد ہے اس شخص کے لیے جو عید کو غنیمت جان کر بکھرے ہوئے شوہر بیوی کے تعلقات درست کردے، آپس میں دوری کے شکار دو د لوں کو باہم جوڑ دے، جس کی وجہ سے ان کے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ جائے، یا کوئی خون معاف کردے، یا قرض چکا دے، یا رشتہ داروں کی آپسی ناچاقی کو دور کردے۔
اے اللہ! تمام تعریفات تجھے ہی زیبا ہیں کہ تو نے ہمارے اوپر ماہ ِ رمضان کے اختتام اور عید کو پہنچنے کا انعام کیا ، اسے اپنی اطاعت کی راہ میں ہمارے لیے معاون کردے ، اے اللہ ! ہمیں اپنی محبت او رہر اس عمل کی محبت عطا کر جو تجھ سے قریب کردے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں ، یقینا وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد:
۱۰-اے اللہ کے بندو! آپ جان رکھئے –اللہ آپ پر رحم فرمائے-کہ سب سے بڑی خوشی اس وقت حاصل ہوگی جب آپ اللہ تعالی سے نیک اعمال کے ساتھ ملاقات کریں گے، اللہ تعالی جنتیوں سے فرمائے گا: اے جنت والو! جنتی جواب دیں گے: ہم حاضر ہیں اے ہمارے پروردگار! تیری سعادت حاصل کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا :کیا اب تم لوگ خوش ہوئے؟ وہ کہیں گے: اب بھی بھلا ہم راضی نہ ہوں گے کیونکہ اب تو، تو نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ: میں تمہیں اس سے بھی بہتر چیز دوں گا۔ جنتی کہیں گے: اے رب! اس سے بہتر اور کیا چیز ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ :اب میں تمہارے لیے اپنی رضا مندی کو ہمیشہ کے لیے دائمی کر دوں گا یعنی اس کے بعد کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا([62])۔
۱۱-اے مومنو! رمضان اصلاح کا اور ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی سے رشتہ استوار کرنے کا بہترین موقع ہے ، اس لیے آپ عبادت میں لگے رہیں، رمضان کے ساتھ عبادت نہیں ختم ہوتی ، بلکہ موت کے بعد عمل کا سلسلہ ختم ہوتا ہے: (وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ)
ترجمہ: اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو)([63])۔
اے مسلمانو! رمضان کے بعد بھی عمل صالح پر قائم ودائم رہنا اللہ کی توفیق اور قبولیتِ عمل کی علامت ہے، اس کے برعکس صرف موسم ہی موسم عمل کا بازار گرم کرنا کم علمی اور توفیق الہی سے دوری کی دلیل ہے، کیوں کہ جو رمضان کا رب ہے وہی تمام مہینوں کا بھی رب ہے، کسی سلف سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو شخص رمضان میں خوب عبادت کرتا ہے اور غیر رمضان میں عبادت ترک کردیتا ہے، تو انہوں نے جواب دیا: یہ بہت ہی بری قوم ہے جو صرف رمضان میں اللہ کو جانتی ہے۔
اے مومنو! مسلمانوں کی ایک افضل صفت یہ ہے کہ وہ فرمانبرداری کرتے ہیں، فرمانبرداری یہ ہے کہ عبادت پر ثابت قدم رہا جائے اور اس پرہمیشگی برتی جائے ، اللہ نے فرمانبرداری کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : (إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)
ترجمہ: (جو لوگ خدا کے آگے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کے لئے خدا نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
۱۲-اے اللہ کے بندو! رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا سنت اور مستحب ہے اور اللہ تعالی نے اس پر اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ، جیسا کہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ (پورا سال) مسلسل روزے رکھنے کی طرح ہے([64])۔
شوال کے چھ روزے کی ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ رمضان کے فرض روزوں میں جو کمی رہ جاتی ہے ، ان نفلی روزوں سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے، کیوں کہ روزہ دار سے کوئی نہ کوئی کوتاہی یا گناہ سرزد ہوہی جاتا ہے جو فرض روزے کو متاثر کردیتا ہے، چنانچہ نفلی روزے سے فرض روزے کی یہ کمی دور ہوجاتی ہے۔
عید سے متعلق یہ دس (سے زائد) نکات ہیں ، بندہ مسلم کو چاہئے کہ عید الفطر کے موقع پر انہیں ذہن نشیں رکھے، تاکہ عید عبادت میں بدل جائے ، صرف رسم و رواج نہ رہے۔
اے اللہ ! ہمارے گناہوں کو او رہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے ، اسے بھی معاف فرما، اے اللہ! ہمیں جہنم سے نجات کا پروانہ عطا کر، اے اللہ! جنت کو ہمارا ٹھکانہ بنادے، ہمیں فردوس بریں کا وارث ومکیں بنا، ہمیں بغیر حساب وکتاب اور بغیر کسی عذاب کے جنت میں داخل فرما، اے کریم وفیاض پروردگار! اے اللہ! ہمیں جہنم سے آزاد کردے، ہمیں ہمارے گناہوں سے اسی طرح پاک وصاف کردے جس طرح ہماری ماؤں نے ہمیں جنا تھا، اے اللہ! ہمارے اس اجتماع کو گناہوں کی مغفرت، عمل کی قبولیت اور محنت کی اجابت وشکر گزاری کے ساتھ ختم فرما، اے اللہ! ہمارے ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن وامان ، سکون و اطمنان اور خوشحالی و شادابی کا گہوارہ بنادے، اے اللہ! رمضان کے بعد بھی ہمیں اعمالِ صالحہ پر ثابت قدم رکھ اور ہمیں اپنا تابعِ فرمان بنا۔ ہماری عید کو خوشی کا سرچشمہ بنا، ہماری زندگی کو خوشحال کردے، ہمیں صحت وعافیت اور امن وسکون کے ساتھ بار بار اطاعت وبرکت کا موسم عطا کر۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، سبحان ربنا رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، الحمد لله رب العالمين.
([1]) یہ باب "الإسلام‘ سوال وجواب" ویب سائٹ (http://islamqa.info/ar/26862) اور شیخ محمد بن صالح بن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب "مجالس شہر رمضان" کے باب المجلس التاسع سے اختصار وتصرف کے ساتھ منقول ہے ۔
([2]) اسے بخاری (۵۰۶۵) نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([3]) اسے بخاری(۲۰۳۹) اور مسلم(۲۱۷۵) نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([4]) اسے بخاری (۸) اور مسلم (۱۶) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([5]) مجالس شہر رمضان، از: ابن عثیمین رحمہ اللہ، معمولی تصرف کے ساتھ
([6]) اسے بخاری (۱۸۹۶) اور مسلم(۱۱۵۲) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
([7]) اسے امام احمد (۴/۲۲) نے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے کہا: اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
([8])اسے بخاری (۳۸) اور مسلم(۷۶۰) نے روایت کیا ہے۔
([9]) اس حدیث کو احمد (۲/۲۴۶-۲۵۴) ، ابن خزیمہ (۳/۱۹۲) نے روایت کیا ہے، اس کی اصل صحیح مسلم میں (۲۵۵۱) میں موجود ہے، البانی نے صحیح الترغیب والترہیب (۹۹۷) میں کہا کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
([10]) صحیح مسلم (۲۳۳)
([11]) اسے بیہقی (۳/۳۴۵) نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ: ۱۷۹۷) میں اس کی تخریج کی ہے۔
([12]) اسے احمد (۹۷۴۳) وغیرہ نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور "المسند" کے محققین نے کہا: یہ حدیث کثرت طرق اور شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔
([13]) اسے بخاری (۳۷) اور مسلم (۷۶۰) نے روایت کیا ہے۔
([14]) اسے ابوداود (۱۳۷۵) وغیرہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور شیخ شعیب رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([15]) اسے بخاری (۳۸) اور مسلم (۷۶۰) نے روایت کیا ہے۔
([16]) اسے احمد (۲/۲۴۶-۲۵۴) اور ابن خزیمہ (۳/۱۲۹) نے روایت کیا ہے، اس کی اصل صحیح مسلم میں حدیث نمبر (۲۵۵۱) کے تحت آئی ہے، البانی نے "صحیح الترغیب والترہیب" (۹۷۷) میں کہا کہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
([17]) اسے مسلم (۲۳۳) نے روایت کیا ہے۔
([18]) اسے بخاری (۶) اور مسلم (۲۳۰۸) نے روایت کیا ہے۔
([19]) اسے بخاری (۱۷۸۲) اور مسلم (۱۲۵۶) نے روایت کیا ہے۔
([20]) اسے ترمذی (۶۸۲) اور ابن ماجہ(۱۶۴۲) نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے "صحیح الجامع" (۷۵۹) میں اسے حسن کہا ہے۔
([21]) اسے احمد (۲۲۲۰۲) اور ابن ماجہ (۱۶۴۳) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں، نیز شیخ البانی نے "صحیح ابن ماجہ" (۱۳۴۰) میں اسے صحیح کہا ہے۔
([22]) اسے بخاری(۱۸۹۹) اور مسلم (۱۰۷۹) نے روایت کیا ہے۔
([23]) اسے احمد: (۲/۱۷۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح الترغیب (۹۸۴) اور صحیح الجامع (۷۳۲۹) میں روایت کیا ہے۔
([24]) بخاری (۱۹۰۴)، مسلم (۱۱۵۱)
([25]) بخاری (۱۹۰۴)، مسلم (۱۱۵۱)
([26]) شفاء العلیل:۱/۱۱۰، طباعت: مکتبۃ العبیکان-ریاض
([27]) ان اقوال کے لئے ملاحظہ کریں: "أحادیث الصیام" :۱۴۰، تالیف: شیخ عبد اللہ الفوزان
([28]) اسے بخاری (۱۹۰۱) اورمسلم (۷۵۹) نے روایت کیا ہے۔
([29]) اسے نسائی (۱۹۰۱) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([30]) بخاری (۲۰۲۶) ، مسلم (۱۱۷۲)
([31]) مسلم (۱۱۶۷)
([32]) اسے ابوداود ( ۱۶۰۹) نے روایت کیا ہے اور "السنن" کی تحقیق میں ارناؤوط نے اسے حسن کہا ہے۔
([33]) دیکھیں: "فتح الباری" لابن رجب، شرح حدیث: (۴۵)
([34]) صحیح مسلم (۱۱۶۴)
([35]) اسے احمد (۴/۱۰۷) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "الصحیحۃ" (۱۵۷۵) میں اسے حسن کہا ہے۔
([36]) اسے ترمذی (۲۹۱۰) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
([37]) اسے بخاری (۵۴۲۷) اور مسلم (۷۹۷) نے روایت کیا ہے۔
([38]) اسے بخاری (۵۰۲۶) نے روایت کیا ہے۔
([39]) اسے بخاری(۴۹۳۷) اور مسلم (۷۹۸) نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بخاری کے روایت کردہ ہیں۔
([40]) مسلم (۸۰۲)
([41]) یہ مسجد نبوی کی وہ سایہ دار جگہ ہے جس میں غریب ومسکین صحابہ کرام پناہ لیتے تھے۔ دیکھیں: "النہایۃ"
([42]) مدینہ کی وادی ہے۔
([43]) مدینہ کی ایک وادی ہے۔
([44]) مسلم (۸۰۳)
([45]) مسلم (۸۰۴)
([46]) اسے احمد (۲/۱۷۴) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحیح الترغیب" (۹۸۴) اور "صحیح الجامع" (۷۳۲۹) میں اسے صحیح کہا ہے۔
([47]) شفاء العلیل: ۱/۱۱۰، ط:مکتبۃ العبیکان-ریاض
([48]) ان دونوں اقوال کے لیے ملاحظہ کریں: "أحادیث الصیام" :۱۴۰، از: شیخ عبد اللہ الفوزان‘ یہ دونوں اقوال مفسرین کے نزدیک مشہور ہیں۔
([49]) اللہ تعالی کے فرمان: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کی تفسیر ملاحظہ کریں: شنقیطی رحمہ اللہ کی تفسیر "أضواء البیان" میں سورۃ الدخان میں۔
([50]) اس قول کو ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ آیت کی تفسیر میں نقل کی ہے، مذکورہ الفاظ ابن جریر سے منقول ہیں۔
([51]) اسے بخاری (۱۹۰۱) اور مسلم (۷۵۹) نے روایت کیا ہے۔
([52]) اسے نسائی (۲۱۰۶) نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
([53]) تقریبا تراسی (۸۳) سال۔
([54]) مسلم (۱۱۷۵)
([55]) بخاری (۲۰۳۴) ، مسلم (۱۱۷۴) اور مذکورہ الفاظ مسلم کے روایت کردہ ہیں۔
([56]) اسے بخاری (۲۰۲۶) اور مسلم (۱۱۷۲) نے روایت کیا ہے۔
([57]) مسلم (۱۱۶۷)
([58]) شیخ محمد بن صالح المنجد کی تحریر سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ، میں نے یہ قول ان کے ویب سائٹ سے نقل کیا ہے۔
([59]) بخاری (۲۰۱۷)
([60]) یہ قول ابن الجوزی كى ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "التبصرۃ" میں ذکر کیا ہے ، تصرف کے ساتھ منقول۔
([61]) ابن رجب کی کتاب شرخ البخاری (۶/۶۸)‘ ط: ابن الجوزی-الدمام
([62]) بخاری (۶۵۴۹) اور مسلم (۲۸۲۹) نے اسے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
([63]) بخاری (۵۸۶۱) نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
([64]) مسلم(۱۱۶۴)