- عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل (کام) اللہ تعالی کو تمام دنوں کے نیک اعمال (کام) سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے ۔ - عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے نیک اعمال میں سے چند یہ ہیں: عمرہ، حج، روزہ، تہلیل اور تکبیر۔
اللہ تعالی کسی چیز کے لئے اس طرح کان نہیں لگاتا جس طرح وہ اس خوش آواز پیغمبر کے لئے کان لگاتا ہے جو قرآن کو غنی کے ساتھ اونچی آواز سے پڑھتا ہے۔ (کان لگاتا ہے) کے معنی ہیں سنتا ہے، اور یہ اشارہ ہے کہ ایسے پڑھنے والے سے اللہ خوش ہوتا اور اس کے عمل کو قبول کرتا ہے۔ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسی اشعری یضی اللہ سے فرمایا: تمہیں داود علیہ السلام کے سروں میں سے ایک سر (خوش آوازی) دی گئی ہے۔
حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، اگر وہ اس اونٹ کا خیال رکھتا ہے تو وہ اپنے کھونٹے سے بندھا رہتا ہے اور اگر اسے کھول دے گا تو چلا جائے گا۔
- قرآن اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لئے سفارش اور جھگڑا کرے گا۔ - لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اوراسے سکھلائے۔ - بے شک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ نہ ہو ویران گھر کی طرح ہے۔
- زکاۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، اوریہ مالی عبادات میں سب سے اہم ہے۔ - قرآن کریم میں صلاۃ کے ساتھ زکاۃ کا ذکر 82 جگہوں میں ہوا ہے۔ -اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زکاۃ ادا کرنے والوں کے حق میں سکینت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے، بلا شبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ہے، اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اورجاننے والا ہے‘‘۔ - اورحدیث میں آیا ہے: ”صدقہ کرنے سے مال نہیں گھٹتا ہے‘‘ اور ”زکاۃ کے ذریعہ مال سے آفت دور ہو جاتی ہے‘‘ نیز ”زکاۃ بروز قیامت سایہ ہوگی‘‘۔ -چار قسم کے مالوں میں زکاۃواجب ہے: 1۔ سونا،چاندی اور کرنسی 2۔ پھل اور غلہ جات 3۔ چوپائے( اونٹ، گائے اور بکری) 4۔ سامان تجارت۔ -زکاۃ کے حقدار آٹھ ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”صدقات (زکاۃ وخیرات) صرف فقیروں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کی دل جوئی مقصود ہوتی ہےاور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہ رو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ خوب علم وحکمت والا ہے‘‘۔ (ش۔ر)
- قرآن وسنت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ عشق وارد نہیں ہوا ہے۔ - ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح حدیث میں قطعا عشق کا لفظ محفوظ نہیں ہے۔ -اور ابن الجوزی نے تلبیس ابلیس میں فرمایا: اہل لغت کے نزدیک عشق کا لفظ صرف نکاح والے امور میں بولا جاتا ہے۔ - پس یہ معقول بات نہیں ہے کہ کلمۂ عشق کا استعمال ماں، بیٹی یا بہن وغیرہ کے لئے کیا جائے، تو پھر کیوں کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال کرنا جائز ہو سکتا ہے؟ - محبت ایک جنس ہے اور عشق اسی کی بگڑی ہوئی ایک قسم ہے۔ - خطیب بغدادی نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ ”جس نے عشق کیا اور اسے چھپاتے ہوئے پاک دامن رہا، پھر اس کی موت ہو گئی تو وہ شہید ہے‘‘۔ مگر یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔