مَزاروں اور اُن مساجد میں جانا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے
وصف
شیخ محمد صالح -حفظه الله- سے پوچھا گیا : میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مدینہ کی زيارت کے لیے آتے ہیں تو وہ سبع مساجد اورمسجد نبوی اورمسجد قباء آتے ہیں اور طائف میں مسجدعداس آنے کی حرص رکھتے ہيں اور اسی طرح مکہ کی دوسری مساجد میں بھی نماز ادا کرنے جاتے ہيں ، تواس کا کیا حکم ہے ؟
- 1
مَزاروں اور اُن مساجد میں جانا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے
PDF 439.3 KB 2019-05-02
- 2
مَزاروں اور اُن مساجد میں جانا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے
DOC 19.2 MB 2019-05-02
کامل بیان
مَزاروں اور اُن مساجد میں جانا جہاں نبیﷺ نے نماز ادا کی ہے
الذّهاب للمزارات والمساجد التي صلى بها الرسول ﷺ
[ أردو - اردو - urdu ]
محمد صالح المنجد
ترجمہ:اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق: اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب
تنسيق: موقع islamhouse
2013 - 1434
مَزاروں اور اُن مساجد میں جانا جہاں نبیﷺ نے نماز ادا کی ہے
سوال: میں نے بعض لوگوں کودیکھا ہے کہ وہ مدینہ کی زيارت کے لیے آتے ہیں تووہ سبع مساجد اورمسجدنبوی ، اورمسجد قباء آتے ہیں اورطائف میں مسجدعداس آنے کی حرص رکھتے ہيں اوراسی طرح مکہ کی دوسری مساجد میں بھی نماز ادا کرنے جاتے ہيں ، تواس کا کیا حکم ہے ؟
الحمد للہ :
مسجد نبوی شریف کی جانب سفرکا قصد کرنا ایک مشروع اورجائز عمل ہے جس پرنبی صلی- اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان دلالت کرتا ہے :
‘‘ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کا (اس سے برکت حاصل کرنے اور اس میں نماز اداکرنے کیلئے) رخت سفر نہ باندھا جائے: مسجد حرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصی’’۔ اسےصحیح بخاری اورمسلم نے روایت کیا ہے اوریہ مسلم کے الفاظ ہیں ۔
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :
‘‘میری اس مسجد میں ایک نماز اس کے ماسوا دیگر مسجدوں میں ایک ہزار نماز سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے’’۔ بخاری ومسلم
اوراس کے ساتھ ان جگہوں کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے جن کی زيارت کرنا مشروع ہے لیکن ان کی زيارت کے مقصد سے سفر کرنا جائزنہيں ، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ابوبکر اورعمرفاروق کی قبروں کی زيارت کرنا ، قبرستان بقیع اورشھداء احد اورمسجد قبا ءجانا ہے ۔
ان قبروں کی زيارت کرنے کی مشروعیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے عموم میں شامل ہے:
‘‘یقینا میں نے تمہیں قبروں کی زيارت کرنے سے منع کیا تھا لہذا اب اسکی زیارت کیا کرو ) صحیح مسلم ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
‘‘شہدائے اُحد اوراہل بقیع کی قبروں کی زيارت ،ان کے لیے دعاو استغفار کرنے کی نیت سے مستحب ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جایا کرتے تھے جبکہ یہ (زیارت) تمام مسلمانوں کی مُردوں کیلئے مشروع ہے ’’۔ دیکھیں : (مجموع الفتاوی : 17 / 470 ) ۔
اورمسجدقباء کی زيارت کرنے کی دلیل صحیحن کی مندرجہ ذيل حدیث ہے :
‘‘ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء پیدل یا سوار ہوکرجایاکرتے تھے’’ ۔
اورایک روایت میں ہے کہ : ‘‘اس میں دورکعت نماز ادا کیاکرتے تھے’’ ۔ صحیح بخاری ومسلم ۔
اوراس لیے بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
‘‘ جس نے اپنے گھر میں وضوء کیا اورمسجد قباء جاکرنمازادا کی اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا ’’۔ اسےاحمد ، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے روایت کرکے صحیح قراردیا ہے اور ذہبی نے اس پر موافقت کی ہے، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع(۶۱۶۵) میں اسے صحیح کہا ہے۔
اورباقی مساجد اورتاریخی مقام کی زيارت کرنا اوریہ دعوی کرنا کہ ان جگہوں کی زيارت کرنا ضروری ہے ، اس کی کوئی دلیل اوراصل نہیں ملتی ، اورمندرجہ ذيل وجوہات کی بنا پران کی زيارت کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے :
پہلی وجہ :
ان مساجد کی زیارت کی تخصیص میں کسی دلیل کا نہ ہونا ، جس طرح کہ مسجد قباء کی زيارت کے بارہ میں دلیل ملتی ہے ، اورپھرجیسا کہ معلوم ہے کہ عبادات کی بنیاد اوراساس اتباع وپیروی پرہے نہ کہ بدعات کی ایجاد پر ۔
دوسری وجہ : '
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے زيادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واتباع کرنے کی حرص رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ان سے یہ معروف نہيں کہ انہوں نے ان مساجد اورجگہوں کی زيارت کی ہو ، اوراگریہ بھلائی اورخیر کا کام ہوتا تووہ ہم سے سبقت لےجانے والے ہوتے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
‘‘ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی اورباقی سارے سابقین اولین مہاجراورانصارصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم مدینہ نبویہ سے حج اورعمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جایا کرتے تھے اورسفرکیا کرتےتھے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوالی جگہ کوتلاش کرکے نماز ادا کی ہو ، اوریہ معلوم ہے کہ اگرایسا کرنا ان کے ہاں مستحب ہوتا تووہ ہم سے زيادہ سبقت لے جاتے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورطریقہ کوزيادہ جانتے تھے اوردوسروں سے زيادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کرنے والے تھے ’’۔ دیکھیں : (اقتضاء الصراط المستقیم: 2 / 748 )
تیسری وجہ :
اس کی زيارت سے منع کرنا سدذریعہ کے طور پرہے ، اوریہ منع کرنا بھی سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے ان میں سب کے سرخیل خلیفہ راشدعمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ شامل ہيں،چنانچہ معرور بن سوید رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
‘‘ ہم عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکلے توہمارے راستے میں ایک مسجدآئی تولوگوں نے اس کی جانب جلدی بڑھ کرنماز پڑھنا شروع کردی توعمررضی اللہ تعالی عنہ فرمایا:
انہيں کیا ہوا ؟ تولوگوں نے جواب دیا :اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی تھی توعمررضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
اے لوگو! یقینا تم سے پہلے لوگ بھی اس طرح کی اتباع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے حتی کہ انہوں نے اسے عبادت گاہ بنالیا، لہذا جسے اس میں نماز پیش آجائے ( یعنی فرض نماز کا وقت ہوجائے )وہ ادا کرے اورجس کے لیے نماز نہ آئے وہ چلتا جائے’’ ۔
اسے ابن وضاح نے اپنی کتاب (البدع والنھی عنھا )میں روایت کیا ہے اورابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے (المجموع : 1 / 281 ) میں صحیح کہا ہے ۔
شیخ الاسلام- رحمہ اللہ- اس واقعہ پرتعلیق چڑھاتے ہوئےکہتے ہیں :
‘‘چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کرنے کی تخصیص نہيں فرمائی تھی بلکہ یہاں پرآپ نےاس لیے نماز ادا کی کہ یہاں پڑاؤ کیا تھا ، اس لئے عمررضی اللہ تعالی عنہ نے یہ خیا ل کیا کہ ارادہ کی موافقت کے بغیر فعل کی صورت میں آپ ﷺکی مشارکت کرنا اتباع میں سے نہیں ہے، بلکہ اس جگہ کونماز کے لیے مخصوص کرنا اہل کتاب کی ان بدعات میں سے ہے جس کی بنا پروہ ہلاک ہوئے تھے ، اورمسلمانوں کواس چیز میں ان کی مشابہت سے منع کیا گیاہے ، توایسا کرنے والا صورت میں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اورقصدمیں-جوکہ دل کا عمل ہے - یہودیوں اورعیسائيوں کے مشابہ ہے ، اوریہی (دل کا عمل )اصل ہے کیونکہ نیت میں متابعت عمل کی صورت میں متابعت سے زيادہ بلیغ ہے ) مجموع الفتاوی ( 1 / 281 ) ۔
ایک دوسرے واقعہ میں ہے کہ :
‘‘جب عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کومعلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس جاتے ہیں جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی گئی تھی توعمررضی اللہ تعالی عنہ نے اسے کاٹنے کا حکم دے دیا’’ ۔ اسے ابن وضاح نے اپنی کتاب (البدع والنھی عنھا) میں اورابن ابی شیبہ نے (مصنف: 2 / 375 ) میں ذکرکیا ہے اورابن حجررحمہ اللہ تعالی نے (فتح الباری : 7 / 448 ) میں اس کی سند کو صحیح قراردیا ہے ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کے رجال کوثقات کہا ہے۔
ابن وضاح القرطبی رحمہ اللہ کہتے ہيں :
‘‘مالک بن انس وغیرہ علمائے مدینہ قباء اوراحد کے علاوہ باقی مساجداورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی طرف جانا ناپسند کرتے تھے’’۔ (البدع والنھی عنھا: ص43 )
انکے قول (احد)سے شہدائے احد کی قبروں کی زیارت مراد ہيں ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہيں :
‘‘اسی لیے اہل مدینہ اوردوسرے علمائےسلف نے مسجد نبوی کے بعد مسجد قباء کے علاوہ مدینہ اوراس کے اردگرد میں پائے جانے والے مزارات جانا مستحب نہیں سمجھاکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد قباءکے سوا کسی اورمعین مسجد کا قصد نہيں فرمایا ’’۔ (مجموع الفتاوی : 17 / 469 ) ۔
اورفضیلۃ الشيخ عبدالعزيزبن بازرحمہ اللہ مدینہ میں مشروع جگہ کی زيارت کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
‘‘سبع مساجد ،مسجد قبلتین اوربعض وہ جگہیں جن کی زیارت کا ذکرحج کی کتابوں میں ملتا ہے اس کی کوئی دلیل اوراصل نہیں ، اورمومن کے لیے ہروقت مشروع یہی ہے کہ وہ اتباع وپیروی کرے نہ کہ بدعات کی ایجاد ’’۔ (فتاوی اسلامیۃ: 2 / 313 )
اورفضیلۃ الشیخ علامہ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہيں :
‘‘مدینہ شریف میں مسجدنبوی ﷺ، قبرنبویﷺ، قبرستان بقیع ، مقبرہ شہدائے اُحد اور مسجد قباء کی زیارت کے علاوہ جگہوں کی زيارت کرنے کی کوئی اصل اوردلیل نہيں ملتی ’’۔ (فقہ العبادات : 405 ) ۔
اوربعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان جگہوں کی عدم فضیلت کے اعتقاد کی شرط ہی وہاں یااس کےعلاوہ دوسرے آثار میں جانے کے جواز کےلیے کافی ہے ، تویہ بھی درج ذیل اسباب کی بنا پرمردود ہے :
اول :
سلف صالحین رحمہم اللہ نے اس کی طرف جانے سے کسی تفصیل کے بغیر مطلقا منع کیا ہے ۔
دوم :
ان جگہوں کی طرف جانا اور زیارت کیلئے اسلئے خاص کرنا کہ یہ مدینہ کی سرزمین پر ہیں جہاں سے دعوت شروع ہوئی اورکئی ایک معرکے بھی یہاں پیش آئے یہی ان کی فضلیت کے اعتقاد کی دلیل ہے ، کیونکہ اگر دل میں ایسا اعتقاد نہ پایا جاتا تو دل انکی زیارت کیلئے مستعد نہ ہوتا۔
سوم :
اگرہم بالفرض ایک منٹ کے لیے یہ تسلیم کرلیں کہ ان جگہوں کی زيارت کےوقت ان کی فضیلت کا اعتقاد نہيں ہوتا ، توپھریہ ہےکہ ان کی زيارت اس کا ذریعہ بنتی ہے اورایسی چيز کے پیدا ہونے کا سبب ہوتی ہے جومشروع نہيں ، اورسدالذرائع بھی شریعت میں معتبر ہے جیسا کہ یہ کسی پر مخفی نہيں ، بلکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس قاعدہ پردلالت کرنے کی نناوے وجہیں ذکرکی ہیں اوراس آخری وجہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
اورسدالذرائع کا باب تکلیف ( یعنی جن کا مکلف ٹہرایا گيا ہے ) کا ایک چوتھائی حصہ ہے کیونکہ تکلیف امراورنہی ہوتا ہے اورامرکی دوقسمیں ہیں: ایک تو:مقصود لنفسہ ہے اوردوسرا : مقصود کی جانب پہنچانے والاوسیلہ ہے ، اورنہی کی بھی دوقسمیں ہیں : ایک تواس چيز سے منع کرنا ہے جوفی نفسہ فساد ہے ، اوردوسرا : جوفساد کا وسیلہ ہے ، تواس طرح سد الذریعہ جوحرام تک لےجانے والا ہوتا ہے دین کا چوتھا حصہ بن جاتا ہے ۔ دیکھیں : (اعلام الموقعین: 3 / 143 ) ۔
چہارم :
جاہل لوگوں کا دھوکہ میں آنا ، جب یہ جاہل لوگ دیکھتے ہیں کہ ان مساجداورآثاروالی جگہوں کی زيارت کرنے والے بہت زيادہ ہیں تووہ بھی یہ اعتقاد کرنے لگتےہیں کہ یہ عمل مشروع ہے ۔
پنجم :
اس میں وسعت اوران آثاروالی جگہوں(جبل اُحد ،جبل نور) کی سیروسیاحت کے مقصد سے زيارت کی دعوت دینا شرک کے ذرائع میں سے ہے ، اورسعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی کے فتوی (رقم:۵۳۰۳)میں آیاہے کہ :
اس امرکی بناپرغارحرا پرچڑھنے سے منع کرنا چاہیے ، واللہ المستعان .
دیکھيں مجلۃ الدعوۃ ( عربی ) عدد نمبر ( 1754 ) صفحہ نمبر ( 55).
علمی زمرے: