اسلام اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہے،یہ اپنے کمالات ومحاسن کے اعتبار سے تمام ادیان سے ممتازہے، ضرورت ہے کہ اس دین کی اچھائیوں اور خصوصیات کو غیروں تک عام کیا جائے تاکہ اسلام کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کاازالہ ہوسکے۔ زیرمطالعہ کتاب علامہ عبد الرحمن بن ناصرسعدیؒ کی نہایت عمدہ شاہکار ہے جس میں اسلام کی محاسن اور خوبیوں کو نہایت ہی جامع ومانع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
زیرنظرکتابچہ میں اہل جاہلیت کی بعض شرکیہ امور کا تذکرہ کرکے ان سے خبردار کیا گیا ہے،جیسے مُردوں سے شفاعت طلب کرنا،ان کا وسیلہ پکڑنا،ان کے لئے عبادت کرنا وغیرہ۔اسی طرح وسیلہ کی جائز(شرعی) وناجائز(غیرشرعی) صورتوں کو بیان کرکے اس سلسلہ میں بعض باطل پرستوں کے شبہات کا بھی ازالہ کیا گیا ہے۔نہایت ہی مفید کتابچہ ہے ضرور مستفید ہوں۔
سوال:حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو فرمایا تھا کہ: ( أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ)’’کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا‘‘ لیکن کچھ جماعتیں اولیائے کرام کے بارے میں غلو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ : جن قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کچھ یہودیوں اور عیسائیوں کی قبریں تھیں، اور انہی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ قبر ہی کے اوپر اونچی تعمیرات کرتے ہیں ، جبکہ ہم قبر کے اوپر نہیں بناتے ، بلکہ ہم تو قبر کو چھوتے تک نہیں ہیں، ہم تو صرف قبر کے ارد گرد تعمیر کرتے ہیں، چنانچہ قبر کے اوپر صرف چھت ہی ہوتی ہے، اور یہ حرام نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بھی اسی انداز سے بنی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اس حدیث کو بھی دلیل بناتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کیلئے تو دعا فرمائی، لیکن [نجد] کیلئے دعا نہیں فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی گئی: ’’ہمارے نجد کے لئے بھی [دعا فرمائیں]" ۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہاں شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا)، اور انکا کہنا ہے کہ اس سینگ سے مراد محمد بن عبد الوہاب نجدی ہیں، جو یہ تمام باتیں لیکر آئے، اور انہیں شرک کہہ دیا، یہ لوگ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیرو کاروں کو رافضی کہتے ہیں، اور یہ بھی تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے امت کو گمراہ کر کے رکھ دیا، انہی لوگوں نے شرک کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ بہت سی عبادات کو بھی شرک کہہ دیا، اور ان کے مطابق یہ عادت رافضی لوگوں کی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
سوال: کیا فوت شدہ صالحین اور نيك لوگوں كےمقام ومرتبہ کی بنا پر زندہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ كرم كرتا ہے ، جب ہم اللہ تعالیٰ سے کسی صالح اور نيك شخص کی نيکی اور اصلاح اور اس کی عبادت كےواسطےسے کسی مصيبت سے چھٹكارا طلب كريں، حالانكہ ہميں علم ہے كہ فائدہ صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہی ہوتاہے ؟
سوال:کیا جس دن یوم عاشوراء کا ہم روزہ رکھتے ہیں یہ عاشوراء کا صحیح دن نہیں ہے؟ کیونکہ میں نے آج پڑھا ہے کہ صحیح دن عبرانی کیلنڈر کے مطابق ماہِ تشری(Tishrei) کی دس تاریخ کو بنتا ہے، اور بنو امیہ کے خلفاء نے اس دن کو تبدیل کر کے ماہِ محرم میں کردیا تھا، ماہِ تشری(Tishrei) یہودیوں کے عبرانی کیلنڈر کے مطابق پہلا مہینہ ہے۔
زیر نظر کتاب میں شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ نےکلمہ شہادت(لاالہ الا اللہ) کا حقیقی معنیٰ ومفہوم،اس کی اہمیت وفضیلت،اس کےتقاضے وشروط اورفرد ومعاشرے پرمرتّب ہونے والے اس کے بہترین اثرات کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلف صالحین کی فہم کے مطابق ذکرفرمایاہے،نیزکلمہ لاالہ الا اللہ کی غلط تفسیر کرنے والوں کا علمی محاکمہ کرکے اس سے متعلّقہ شبہات کا ازالہ فرمایا ہے
زیرمطالعہ کتابچہ میں انسان پر یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن سکھلانے سے پہلے توحید کی تعلیم دیں ،تاکہ اسلامی فطرت کے مطابق وہ کامل انسان بن سکیں،اور ایمانی راستہ کو اختیار کرکے بہترین موحد بن سکیں۔
اس کتاب میں اختصار کے ساتھ اہل تشیع کے عظیم فرقہ’’ شیعہ اثناعشریہ‘‘ کے اعتقاد ونظریات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے،اوراس مذہب کی حقیقت کوخود انہی کےمستند مصادر ومآخذ سے بے نقاب کیا گیا ہے، اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان کے عقائد ونظریات اسلام کے اصول ونظریات سے پورے طورپرمتصادم ہیں،بلکہ سراسرخرافات کا ملغوبہ ہیں۔
مختصر بیان: صحابہ کرام اور اُمّہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مُحبّت اوراُن کا دِفاع ضروری کیوں؟: زیرنظر کتابچہ میں قرآن وسنت اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں ان اسباب ووجوہات کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی وجہ سے صحابہ کرام اور امہات المومنین رضوا ن اللہ علیہم اجمعین سے محبت اوران کا دفاع ضروری ہے،حُبّ صحابہ اور ان کی دفاع کے موضوع پر نہایت ہی مفید کتابچہ ہے ضرور مستفید ہوں۔
سوال: حيض كے پہلے دن بيوى اپنے خاوند كو بتانا بھول گئى كہ اسے حيض شروع ہو چكا ہے، اور خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، خاوند نے تيسرى طلاق بھى دے دى، پھر بيوى كو ياد آيا كہ اسے تو حيض آيا ہوا ہے لہذا اس نے خاوند كو بتايا، برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى موقف كيا ہے ؟
سوال: الحمد للہ ميں مسلمان ہوں، اورميرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے، چاہے ہميں اس کی حكمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، اللہ عزوجل كو یہ علم ہے كہ كس چيز ميں ہمارا فائدہ ہے. میں جانتا ہوں كہ عقد ِنكاح ميں جو سختى ہے اس ميں حكمت يہ ہے كہ خرابى اور فساد سے اجتناب اور بُعد پيدا ہو جائے ، تا كہ كوئى عورت زنا كر كے يہ نہ كہے كہ ميں تو شادى شدہ ہوں ليكن طلاق كے معاملہ ميں اتنى آسانى كيوں. صرف ايك كلمہ كے ساتھ ہى شادى ختم ہو جاتى ہے اور پھر بغير گواہوں كے ہى اور لوگوں كو بتائے بغير ہى، اور پھر طلاق تين طلاقوں ميں محدود ہے، كيا خاندان كى تباہى ميں يہ آسانى نہیں ہے ؟ اور اسى طرح طلاق ميں گواہوں كا نہ ہونے ميں بھى خرابى نہیں ہے كیونکہ اگر طلاق دينے والا خاوند طلاق پر گواہ نہیں بناتا تو بيوى وراثت كا مطالبہ كر سكتى ہے، اور پھر زنا سے حاملہ ہونے كے بعد وہ طلاق دينے والے شخص كى طرف اسے منسوب بھى كر سكتى ہے ؟
سوال:ايك حائضہ عورت مسجد كى علمى مجلس يا حفظ قرآن كى كلاس ميں شامل ہونا چاہتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ كلاس سے غائب نہیں ہوتى اور اگر غائب ہو تو بہت سے مسائل كا حصول ناممكن ہو جائے گا جو بعد ميں حاصل نہیں ہو سكتے، تو كيا اس كے ليے كسى معين شروط كے ساتھ مسجد ميں داخل ہونا جائز ہے، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كى راجح رائے كيا ہے ؟
سوال:ميں نے ايك حديث پڑھى ہے كہ: ’’نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر كھجور كى ٹہنى ركھى تھى‘‘ تو كيا قبر كى زيارت كرنے والے شخص كے ليے ايسا كرنا سنت ہے ؟
سوال:میں ایسے تخصص کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں جسکی وجہ سے میں بچوں کودینی تعلیم دے سکتی ہوں، اور چونکہ میں ایک یورپی عیسائی ملک میں رہتی ہوں، تو تدریسی نصاب مجھ سے اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، اور بدھ مت دنیا کے پانچ بڑے بڑے مذاہب پڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے، مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ بچوں کو یہ ادیان پڑھانا حرام ہوگا، لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ اسلام ہی صحیح دین ہے، اور میں اپنی اس بات سے کبھی بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گی، اب مسئلہ یہ ہے کہ متعدد افراد نے مجھ سے کہا ہے کہ بچوں کو ان ادیان کی تعلیم دینا جائز نہیں ہے، اور خاص طور پر اگر بچے مسلمان ہوں تو اور زیادہ حرام ہوگا، میں نے اپنے اس سوال کا جواب خوب تلاش کیا لیکن مجھے کوئی تشفی نہیں ہوئی، اب آپ سے اس بارے میں حکم کی وضاحت چاہتی ہوں۔